نماز میں ہاتھ کھولیں یاباندھیں؟

نماز میں ہاتھ کھولیں یاباندھیں؟0%

نماز میں ہاتھ کھولیں یاباندھیں؟ مؤلف:
زمرہ جات: متفرق کتب
صفحے: 51

  • ابتداء
  • پچھلا
  • 51 /
  • اگلا
  • آخر
  •  
  • ڈاؤنلوڈ HTML
  • ڈاؤنلوڈ Word
  • ڈاؤنلوڈ PDF
  • مشاہدے: 25172 / ڈاؤنلوڈ: 3803
سائز سائز سائز
نماز میں ہاتھ کھولیں یاباندھیں؟

نماز میں ہاتھ کھولیں یاباندھیں؟

مؤلف:
اردو

۱

مؤلف:شیخ نجم الدین طبسی

مترجم: ناظم حسین اکبر

جملہ حقوق بحق ناشر محفوظ ہیں

۲

مشخصات کتاب

نام کتاب...............................................................نماز میں ہاتھ کھولیں یا باندھیں ؟

نام مؤلف...............................................................نجم الدین طبسی

نام مترجم ................................................................ناظم حسین اکبر

صفحات .................................................................٥٠

اشاعت اوّل ، ستمبر ٢٠٠٩ئ

تعداد................................................................... ٣٠٠٠

کمپوزنگ محمد اسماعیل

ناشر....................................................................ابوطالب اسلامک انسٹیٹیوٹ لاہور

قیمت.................................................................. ٥٠ روپے

۳

ملنے کا پتہ

١۔ المصطفٰی پبلیکیشنز اُردو بازار لاہور

٢۔ جامعہ زینب بنت علی علیہ السلام شعیب گارڈن لاہور

٣۔ابوطالب بک سنٹر محب پور خوشاب ٧٠٦١٩٩٨ ٠٣٠٢

٤۔ انتشارات جامعة المصطفٰی قم المقدسہ ایران

٥۔ علامہ اقبال اُردو لائبریری قم المقدسہ ایران

۴

انتساب

عالم جوانی میں داعی اجل کو لبیک کہنے والے سپاہی امام زمانہ عجّل اللہ فرجہ الشریف،

مہر شکیل حید ر آف لک موڑ ضلع سرگودھا کے نام، اس امید سے کہ خدا وند متعال

روز ظہوراسے لشکر امام زمانہ میںسے قراردے

۵

بسم الله الرّحمٰن الرّحیم

مقدّمہ مترجم

اسلام نے آراء ونظریات میں اختلاف کی نہی نہیں فرمائی ہے بلکہ صرف ایسے اختلافات مذموم ہیں جن سے تنازعے کھڑے ہوتے ہیں ،اُمّت گروہوں میں بٹ جاتی ہے اور اختلاف وتفرقہ پیدا ہوتا ہے اسلام کا یہ حکم اس کی عقلیت پسندی اور منطقی روش کی دلیل ہے ۔

تقاضائے انصاف تو یہ ہے کہ کسی بھی مذہب کے کسی نظریہ کی حقیقت تک پہنچنے کے لئے اس نظریہ کوباریک بینی سے علمی معیارات کی کسوٹی پر پرکھا جائے تاکہ درست نتیجہ حاصل کیا جا سکے ۔

انہیں نظریات میں سے ایک نظریہ( نماز میں ہاتھ باندھنا) ہے جس کاشریعت مقدّسہ پر گہرا اثر مترتب ہوتا ہے اس بارے میں شیعوں کا نظریہ یہ ہے کہ پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ، اہل بیت علیہم السلام اور صحابہ کرام میں سے کسی نے نماز میں ہاتھ باندھنے کا حکم نہیں دیا سوا حضرت عمر کے ۔ اور اسی طرح اہل سنت علماء میں سے بھی کوئی اس کے وجوب کا قائل نہیں ہے بلکہ بعض نے تو اسے مکروہ قرار دیا ہے جیسا کہ محقّق بزرگوار شیخ نجم الدین طبسی حفظہ اللہ نے ا س کتاب میں اس موضوع کو بہت احسن انداز میں بیان کیا ہے جو ہر اہل انصاف اور تحقیق کرنے والے کے لئے کافی ہے کہ وہ اس نظریہ کی حقیقت سے آشنائی حاصل کرتے ہوئے حق کی پیروی کرنے کی کوشش کرے ۔

خدا وند متعال اس کتاب کی اشاعت میں کسی بھی طرح کی مدد کرنے والے دوستوں کی اس سعی کو درجہ قبولیت تک پہنچائے اور قارئین محترم کو اس کتاب کے مطالعہ سے زیادہ سے زیادہ علمی فائدہ حاصل کرنے کی توفیق عطا فرمائے۔

والسّلام علی من اتّبع الهدٰی

ناظم حسین اکبر ( ریسرچ اسکالر)

ابوطالب اسلامک انسٹیٹیوٹ لا ہور پاکستان (٣ذی الحجہ ١٤٣٠ھ بمطابق٢١ نومبر ٢٠٠٩ئ)

۶

مقدّمہ مؤلف

حوزہ علمیہ کے علماء وفضلاء میں سے ایک بزرگ آفریقی عالم نے فون پر بات کرتے ہوئے اس خواہش کا اظہار کیا کہ نما زمیں ہاتھ باندھنے کے متعلق روایات ،فتاوٰی اور تاریخی مطالب کو اکٹھا کرنے کے بعد تحقیق کرکے انہیں مرتب کردوں

کثرت مصروفیات اور قلّت وقت کے باعث انتہائی مختصر مگر جلد ان مطالب کو جمع اور ان کے بارے میں تحقیق کرکے مجموعہ حاضر کو زیر قلم لانے میں کامیاب ہوا۔

۷

ہاتھ کھولنا یا باندھنا ؟

ایساسوال جو ہمیشہ بہت سے لوگوں کے ذہن میں آتا ہے وہ یہ ہے کہ کیا نماز میں ہاتھ باندھنا جائز ہے یا نہیں ؟

شیعوں کے نزدیک یہ عمل جائز نہیں ہے ؟(١) جیسا کہ خلاف(٢) ، غنیة(٣) اور دروس(٤) جیسی کتب میں ذکر ہوا ہے ۔

سید مرتضٰی نے اپنی کتاب الانتصار(٥) میں اس کے جائز نہ ہونے پر اجماع ہونے کا دعوٰی کیا ہے.اسی طرح اہل بیت علیہم السلام سے بھی اس بارے میں بہت سی روایات نقل ہوئی ہیں ۔

نیز اہل سنّت میں بھی امام مالک اور بعض فقھائے سلف اسے مکروہ سمجھتے ہیں اسی تابعین بلکہ بعض صحابہ کرام سے نقل ہوا ہے کہ وہ نماز میں ہاتھ کھولنے کا عقیدہ رکھتے تھے ۔(٦)

اہل سنّت کے درمیان اس مسئلے میں اختلاف کا باعث پیغمبرصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی نماز کے متعلق وہ صحیح جن

____________________

١۔ خلاف١: ١٠٩.

٢۔ خلاف ١: ١٠٩.

٣۔ غنیة النزوع : ٨١.

٤۔الدروس الشرعیة : ١٨٥.

٥۔الانتصار : ٤١.

٦۔ بدایة المجتھد ١:١٣٦؛ذہبی اس کتاب کے مؤلف قرطبی کے بارے میں کہتے ہیں : وہ فقہ میں علّامہ تھے...فقہ میں برتری پائی ...وہ اندلس میں علم وفضل اور کمال میںبے نظیر تھے ...جیسا کہ فقہ میں لوگوں کی پناہ گاہ تھے اسی طرح حکمت میںبھی لوگ انہیں کی طرف رجو ع کیا کرتے ...سیر اعلام النبلاء ٢١: ٣٠٨.

۸

میں یہ ذکر ہوا ہے کہ آنحضرتصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم حالت نماز میں ہاتھ نہیں باندھتے تھے .جیسا کہ ابن رشد نے بھی اس حقیقت کی طرف اشارہ کیا ہے ۔

ابراہیم نخعی(١) جنہوں نے اہل سنّت کے آئمہ اربعہ میں سے بعض سے پہلے وفات پائی و ہ بھی ہاتھ کھول کر نماز پڑھنے کے قائل تھے ۔

اسی طرح حسن بصری(٢) تابعی جسے اہل سنّت علم وعمل میں اہل زمانہ کا سردار مانتے ہیں وہ بھی نماز میں ہاتھ کھول کر پڑھا کرتے تھے ۔

____________________

١۔وہ پہلی صدی کے بزرگوں میں سے ہیںجنہوں نے بعض صحابہ کرام کو بھی درک کیا اور ٩٦ھ میں وفات پائی

ذہبی کہتے ہیں: وہ امام ، حافظ ، فقیہ عراق اور بزرگ شخصیت تھے اور ایک جماعت نے ان سے روایات نقل کی ہیں اسی طرح انہوں نے حکم بن عتیبہ ، سلیمان بن مہران اور ان کے علاوہ کئی ایک افراد سے روایات نقل کی ہیں. وہ معتقد تھے کہ ابوہریرہ کی بہت سی روایات منسوخ ہیں ۔

عجلی کہتے ہیں : وہ مفتی کوفہ ...فقیہ اور پرہیز گار انسان تھے ...احمد بن حنبل سے بھی نقل ہوا ہے کہ وہ کہتے ہیں: ابراہیم ذہین ، حافظ اور صاحب سنّت تھے ۔سیر اعلام النبلاء ٤: ٥٢٠.

٢۔حسن بصری حضرت عمر کی خلافت کے پورے ہونے سے دو سال پہلے پیدا ہوئے اور حضرت عثمان کی اقتداء میں نماز جمعہ میں شریک ہوا کرتے... کہاجاتا ہے کہ علم وعمل میں وہ اپنے زمانے کے سردار تھے

۹

ابن سعد لکھتے ہیں: وہ جامع ، عالم ، رفیع، فقیہ ، ثقہ، حجّت ، قابل اعتماد ، عابد ، ناسک اور کثیر العلم تھے ۔سیراعلام النبلاء ٤: ٥٧١.

جبکہ ہمارے(شیعوں)ہاں اس کی مذمّت میں روایات ذکر ہوئی ہیں۔

ابن سیرین(١) اور لیث بن سعد( ٢) اور عبداللہ بن زبیر جو صحابی ہے اور مالک کے مذہب میں بھی مشہور نظریہ یہی ہے، اسی طرح اہل مغرب بھی اسی نظریے (نماز میں ہاتھ کھولنے )پر عقیدہ رکھتے اور اسی پر عمل کیا کرتے تھے ۔

____________________

١۔ محمد بن سیرین خلیفہ دوم کی خلافت کے اواخر میں پیدا ہوئے اور ١١٠ ھ میں وفات پائی .اس نے تیس صحابہ کرام کودرک کیا ۔ عجلی کہتے ہیں: پرہیزگاروں میں اس سے بڑھکر فقیہ اور فقہاء میں اس سے بڑھکر کسی کو پرہیز گار نہیں دیکھا ۔ طبری کہتے ہیں: ابن سیرین فقیہ ، عالم، متّقی ، کثیر الحدیث اور سچے انسان تھے ، اہل علم وفضل نے بھی اسکی گواہی دی ہے جو حجّت ہے سیر اعلام النبلاء ٤: ٦٠٦.وہ بھی نماز میں ہاتھ کھولنے کا عقیدہ رکھتے تھے ۔

اگرچہ ہمارے سابقہ علماء نے اس کے متعلق کوئی اشارہ نہیں کیا لیکن حجاج بن یوسف کی مدح میں اس کچھ مطالب نقل ہوئے ہیں۔

تستری کہتے ہیں: اگر اس کے متعلق بیان کئے جانے والے مطالب صحیح ہوں تو یہی اس کی نادانی اور جہالت کے لئے کافی ہیں۔ قاموس الرّجال ٩: ٣٢٢؛ تنقیح المقال ٣: ١٣٠.

٢۔لیث بن سعد کے بارے میں کہا گیا ہے : وہ امام ،حافظ ، شیخ الاسلام اور عالم دیارمصر تھے جو ٩٤ھ میںپیدا ہوئے اور ١٧٥ھ میں وفات پائی ۔احمد بن حنبل کہتے ہیں : لیث کثیر العلم ، صحیح الحدیث ،...ثقہ اور قابل اعتماد تھے ...مصریوں میں ان سے بڑھکر کوئی صحیح الحدیث نہیں ہے۔

۱۰

ابن سعد کہتے ہیں: لیث فتوٰی میں مستقل اور ثقہ تھے اس نے بہت سی احادیث نقل کی ہیں ۔عجلی اور نسائی اسکے بارے میں کہتے ہیں : لیث ثقہ ہے.ابن خراش کہتے ہیں: وہ سچا انسان ہے اور اسکی احادیث بھی صحیح ہیں ۔ شافعی کہتے ہیں: لیث ،مالک سے بھی بڑھکر فقیہ تھا لیکن اصحاب نے اسے ترجیح نہ دی ؟ سیر اعلام النبلاء ٨: ١٣٦۔وہ بھی ہاتھ کھول کر نماز پڑھنے کے قائل تھے ۔

ہم شیعوں کے مطابق اس نے امام صادق علیہ السلام کو درک کیا ان عظمت و منقبت بھی بیان کی لیکن یہ اس کی ہدایت کا باعث نہ بن سکی ۔

خطیب (بغدادی )سے نقل ہوا ہے : اہل مصرعثمان کو برا بھلا کہتے تھے یہاں تک کہ لیث ان میں ظاہر ہوا اور عثمان

کے فضائل بیان کئے جس سے ان لوگوں نے چھوڑ دیا ۔تستری اس کے بعد لکھتے ہیں: ( خدا جانتا ہے ) اس شخص کے بارے میں برائیوں کے سوا کچھ نہیں ملتا اور وہ لوگوں کو ان احادیث پر عمل کا کہتا جو معاویہ نے گھڑوا رکھی تھیں اور اہل مصر بھی کتنے نادان تھے کہ عثمان کے متعلق جو کچھ آنکھوں سے دیکھ چکے تھے اس سے چشم پوشی کر بیٹھے اور جو جھوٹ بیان کیا گیا اس سے فریب کھا بیٹھے ۔قاموس الرّجال ٨: ٦٣٢؛ تنقیح المقال ٢:٦٤.

۱۱

اہل سنّت کے تین نظریات

اہل سنّت میں نماز میں ہاتھ باندھنے کے بارے میں تین طرح کے مختلف نظریا ت پائے جاتے ہیں:

١۔مکروہ ہے.

٢۔ اس کا انجام دینا کراہت نہیں رکھتا اور ترک کرنا مستحب نہیں ہے

٣۔ مستحب ہے.( ١)

ہمیں (اہل سنّت کی) کوئی ایسی کتاب نہیں ملی جس میں ( نماز میں ہاتھ باندھنے کو) واجب قرار دیا گیا ہو اور وجوب کی نسبت صرف اہل سنّت عوام کی طرف دی جاتی ہے(٢)

کتب اہل سنّت میں اس سلسلے میں بیان کی جانے والی روایات وآثار کی تعداد (قطع نظر اس سے کہ ان کی سند ضعیف ہے)بیس تک جا پہنچتی ہے ان میں سے ایک روایت ابو حازم سے صحیح بخاری میں نقل ہوئی ہے ۔(٣) لیکن جیسا کہ عینی نے(٤) شوکانی نے(٥) اوردیگر فقھاء نے اسکی تصریح کر دی ہے کہ اس حدیث میں مرسل و منقطع ہونے کا شبھہ پایا جاتا ہے۔

____________________

١۔البیان والتحصیل ١:٣٩٤.

٢۔الفقہ الاسلامی وأدلّتہ ٤: ٨٧٤؛المجموع ٣:٣١٣؛المغنی ١: ٥٤٩؛المبسوط سرخسی ١:٢٣.

٣۔صحیح بخاری ١: ١٣٥.

٤۔عمدة القاری فی شرح صحیح بخاری ٥:٢٨٠.

٥۔نیل الأوطار ٢:١٨٧.

۱۲

اسی طرح دوسری حدیث صحیح مسلم کے اندر ابووائل سے نقل ہوئی ہے اور یہ حدیث بھی مرسل ومنقطع ہونے کی آفت میں مبتلا ہے.اس لئے کہ علقمہ کی اپنے والد سے نقل کی جانے والی ر ویات مرسل ہیں ابن حجر نے اسے واضح طور پر بیان کردیا ہے ۔(١)

اور باقی روایات کے بارے میں یہ کہا جا سکتا ہے کہ خود اہل سنّت کے ہاں انہیں ضعیف شمار کیا گیا ہے اوراصحاب سنن وجوامع اور علمائے رجال کے اقرار کے مطابق ان پر اعتماد نہیں کیا جا سکتا .اس بناپر نماز میں ہاتھ باندھنے پر کوئی جواز باقی نہیں رہتا ۔

اسکے علاوہ یہ خود ایک عمل اور فعل ہے جس کے نماز میں جائز ہونے پر کوئی دلیل نہیں ہے لہذا اسے جائز یا سنّت یا آداب نماز میں سے ہونے کے قصد سے انجام دینا بے شک حرام ہے ۔ اس لئے کہ اسکی حرمت کے لئے یہی کہنا کافی ہے کہ شریعت میں اس کے جوازپر کوئی دلیل نہیں پائی جاتی ہے بلکہ اس کے بر عکس اس کے انجام دینے کے متعلق نہی ثابت ہے۔( ٢)

اہل بیت علیہم السلام نے بھی اس کے انجام دینے سے منع فرمایا ہے اور پھر نماز میں ہاتھ پر ہاتھ رکھنا ایک عمل ہے جس کا نماز میں انجام دینا جائز نہیں ہے .جیسا کہ ابن رشد نے بھی اس بات(یا اسی سے ملتی جلتی بات)کی طرف اشارہ کیا ہے

اور آئمہ علیہم السلام کا اسے (تکفیر ) سے تعبیر کرنا جسے مجوسی انجام دیا کرتے(٣) یہ اس عمل کے سنّت پیغمبرصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم میں سے نہ کی تائید بلکہ اس پر تاکید ہے ۔

____________________

١۔ تہذیب التہذیب ٨: ٣١٤.

٢۔مصباح الفقیہ ١:٤٠١.

٣۔ کتاب آئینہ آئین مزدیسنی ٫٫اشاعت دوّم،، تالیف کیخسرو صفحہ ٢٠پر لکھا ہے : ان کے ہاں نماز اور عبادت کا طریقہ کا ر اپنے خداکے سامنے کھڑے ہو کر دست عبودیت کو سینے پر رکھنا ہے اور وہ یوں عبادت و پرستش کرتے ہیں.

۱۳

نماز میں ہاتھ باندھنے کے متعلق اہل سنّت فقھاء میں اختلاف پایا جاتا ہے کہ کیا ہاتھوں کو ناف کے اوپر رکھا جائے یا اس سے نیچے ؟ دایاں ہاتھ بائیں پر رکھا جائے یا بالعکس ؟

اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ ایسا عمل جس کی کیفیت تک مشخص نہیں ہے وہ کس طرح سنّت مؤکدہ ہو سکتا ہے؟اور پھر کیسے ممکن ہے کہ وہ صحابہ کرام جو مستحبی نمازوںکے علاوہ نماز میّت ،نماز عیداورروزانہ کی نمازیں پیغمبرصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی اقتداء میں نماز ادا کرنے کے پابند تھے ان پر اس (نماز میں ہاتھ باندھنے ) کی کیفیت مخفی رہی ہو!

یہ تمام شواہد اور تاکیدات اس بات کی علامت ہیں کہ پیغمبرصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے زمانے میں ایسے عمل کا کوئی وجود نہیں تھا.اس بناپر یہ کہا جا سکتا ہے کہ نماز میں ہاتھ باندھنا بھی نماز تراویح باجماعت اداکرنے،اذان میں الصلاة خیر من النوم کے اضافہ کرنے،اذان سے حی علی خیر العمل کے نکالنے ،متعہ کی دونوںقسموں( متعہ الحجّ اور متعة النکاح) کوحرام قرار دینے اور تدوین احدیث سے منع کرنے جیسے امور میں سے ہے جوپیغمبرصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے بعد وجود میں آئے۔

۱۴

روایات اہل بیت علیہم السّلام

اہل بیت علیہم السّلام سے بہت زیادہ روایات وارد ہوئی ہیں جن میں نماز میں ہاتھ باندھنے سے منع کیا گیا ہے اور اسے مجوسیوں کاعمل قرار دیا گیا ہے:

١۔((عنحدهما علیهما السّلام قلت: الرّجل یضع یده فی الصلاة ،وحکی الیمنٰی علی الیسرٰی ؟فقال : ذلک التکفیر ، لا تفعل .))(١)

راوی کہتا ہے : میں نے دونوں( امام باقر یا امام صادق علیہما السلام) میں سے کسی ایک سے سوال کیا کہ ایک شخص نماز میں ہاتھ باندھتا ہے اور کہا گیا ہے کہ دایاں ہاتھ بائیں پہ رکھتا ہے اس بارے میں کیا حکم ہے؟آپ نے فرمایا: یہ عمل تکفیر ہے اسے مت بجا لاؤ.

علاّمہ مجلسی اس حدیث کو نقل کرنے کے کہتے ہیں :یہ حدیث حسن اور صحیح کے مانند ہے اور تکفیر سے مراد ہاتھ پر ہاتھ رکھنا ہے جسے اہل سنّت بجا لاتے ہیں اور اس سے نھی کی وجہ اس کا حرام ہونا ہے جیسا کہ ہمارے اکثر علماء کا عقیدہ یہی ہے۔

٢۔عنبی جعفر علیه السّلام : وعلیک بالاقبال علی صلاتک ...ولاتکفّر فانّما یفعل ذلک المجوس )).(٢)

امام باقر علیہ السّلام فرماتے ہیں : نماز کی حالت میں قبلہ کی طرف منہ کرو ...اور تکفیر مت بجالاؤاس لئے کہ یہ مجوسیوں کا عمل ہے ۔

____________________

١۔وسائل الشیعة ٧:٢٦٦،باب ١٥،مؤسسہ آل البیت ؛ مرآة العقول ١٥: ٧٤.

٢ ۔وسائل الشیعة ٥:٥١١،باب١٧،ح٢و ص٤٦٣؛مرآة العقول ١٥:٧٤.

۱۵

((علی بن جعفر قال: قالخی: قال علی بن الحسین علیه السّلام:وضع الرّجل احدٰی یدیه علی الأخرٰی فی الصّلاة عمل ،ولیس فی الصّلاة عمل )).(١)

علی بن جعفر کہتے ہیں میرے بھائی (امام موسٰی کاظم علیہ السّلام )نے بتایا کہ امام زین العابدیں علیہ السّلام نے فرمایا:نماز میں ایک ہاتھ کا دوسرے ہاتھ پر رکھنا ایک طرح کا عمل اور نماز میں کسی قسم کاکوئی عمل جائز نہیں ہے ۔

٤۔علی بن جعفر (عنخیه موسٰی بن جعفر)وسألته عن الرّجل یکون فی صلاتهیضع احدٰی یدیه علی الأخرٰی بکفّهو ذراعه ؟قال:لایصلح ذلک ،فان فعل فلایعود له )).( ٢)

علی بن جعفر اپنے بھائی امام موسٰی کاظم علیہ السّلام کے متعلق نقل کرتے ہیں کہ میں نے ان سے ایسے شخص کے بارے میں سوال کیا جو نماز کی حالت میں ہو .کیا وہ ہاتھ کو کلائی یا بازو پررکھ سکتا ہے ؟ تو انہوں نے فرمایا: یہ عمل درست نہیں ہے اگر انجام دے بیٹھا تو دوبارہ اس کا تکرار نہ کرے۔

٥۔عن علی علیه السّلام فی حدیثربعمأة:قال:لایجمع المسلم یدیه فی صلاته وهوقائم بین یدی الله عزّوجلّ ،یتشبّه بأهل الکفر یعنی المجوس )).(٣)

امام علی علیہ السّلام حدیث اربعماة میں فرماتے ہیں: مسلمان کے لئے جائز نہیں کہ جب نماز کے لئے خدا کی بارگاہ میں کھڑاہو تو اپنے ہاتھوں کواکٹھا کرے چونکہ وہ اپنے اس عمل سے اہل کفر یعنی مجوسیوں کے

____________________

١۔حوالہ سابق.

٢۔حوالہ سابق.

٣۔حوالہ سابق.

۱۶

مشابہ بن جائے گا۔

٦۔ ((عنبی عبد الله علیه السّلام فی حدیث:أنّه لمّا صلّی قام مستقبل القبلة ،منتصبا ،فأرسل یدیه جمیعا علی فخذیه قد ضمّصابعه )).(١)

امام صادق علیہ السّلام کے بارے میں نقل ہوا ہے کہ جب نماز کے لئے کھرے ہوتے تو قبلہ کی طر ف رخ کر کے اپنے ہاتھوں کو رانوں پر رکھتے اور انگلیوں کو ملا لیتے.

٧۔ ((عنبی جعفر علیه السّلام : قال: اذا قمت الی الصلاة فلاتلصق قدمک بالأخرٰی ...وأسد منکبیک وأرسل یدیک ولاتشبّکصابعک ولیکونا علی فخذیک قبالة رکبتیک ...ولا تکفّر فانّما یفعل ذلک المجوس )).(٢)

امام باقر علیہ السّلام فرماتے ہیں: جب نماز کے لئے کھڑے ہو تو پاؤں کونہ ملاؤ ،شانہ کوجھکا لو،ہاتھ کھلے رکھو ،انگلیوں کو ایک دوسرے میں ڈالو اور اپنے ہاتھوں کو رانوں پر رکھو ...اور تکفیر مت بجالاؤ چونکہ یہ مجوسیوں کا شیوہ ہے۔

٨۔ ((المجلسی عن الجامع البزنطی عنبی عبدالله علیه السّلام:فاذاقمت فی صلاتک فاخشع فیها ...ولاتکفّر )).(٣)

علامہ مجلسی جامع بزنطی سے امام صادق علیہ السّلام کے بارے میں نقل کرتے ہیں کہ آپ نے فرمایا:جب نماز کا ارادہ کرو تو خشوع وخضوع کے ساتھ ہو اور تکفیر مت بجا لاؤ۔

____________________

١۔حوالہ سابق.

٢۔وسائل الشیعة ٧: ٢٦٧،باب ١٥،ح٧.

٣۔بحارالأنوار ٨٤:١٨٦،ذیل حدیث ١؛مستدرک الوسائل ٥: ٤٢٠.

۱۷

٩۔ ((القاضی نعمان المصری عن جعفر بن محمد علیه السّلام انّه قال:اذاکنت قائما فی الصّلاة فلا تضع یدک الیمنٰی ،فانّ ذلک تکفیرهل الکتاب ،ولکن ارسلهما ارسالا ،فانّهحرین لا یشغل نفسک عن الصّلاة) )(١)

قاضی نعمان مصری امام صادق علیہ السّلام سے نقل کرتے ہیںکہ آپ نے فرمایا:جب نماز کے لئے کھڑے ہو تو اپنے دائیں ہاتھ کو بائیں پر یا بائیں کو دائیں پر مت رکھو ، چونکہ یہ اہل کتاب کا عمل ہے بلکہ ہاتھوں کو کھلا رکھو .پس مناسب یہی ہے کہ تم اپنے کو نمازکے علاوہ کسی عمل میں مشغول نہ کرو.

١٠۔((عنبی جعفر علیه السّلام قال:قلت له:(( فصلّ لربّک وانحر ))؟قال:النحرالاعتدال فی القیامن یقیم صلبه ونحره .وقال:ولاتکفّر ،فانّما یصنع ذلک المجوس )).(٢)

امام باقر علیہ السّلام سے نقل ہوا ہے کہ آنحضرت سے پوچھا گیا کہ ((فصلّ لربّک وانحر ))سے کیا مراد ہے ؟تو آپ نے فرمایا:نحر کا معنٰی قیام میں اعتدال ہے اس طرح کہ پشت اور گردن کو سیدھا رکھا جائے اور فرمایا: تکفیر مت بجالاؤاس لئے کہ یہ مجوسیوں کا شیوہ ہے۔

____________________

١۔ دعائم الاسلام ١:١٥٩؛مستدرک الوسائل ٥: ٤٢٠.

٢۔اصول کافی ٣:٣٣٧.

۱۸

شیعہ فقہاء کا نظریہ

١۔ شیخ مفید : (نماز میں ) ہاتھ کھلے رکھنے کے بارے میں شیعوں میں اتفاق نظر پایا جاتا ہے.اور اہل کتاب کے مانند تکفیر یعنی ایک ہاتھ کو دوسرے ہاتھ پر رکھنے کو جائز نہیں سمجھتے. اور یہ کہ جو بھی ایسا عمل انجام دے اس نے بدعت کا ارتکاب کیا اور سنّت رسولصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم اورآئمہ طاہرین علیہم السّلام کی مخالفت کی ہے ۔(١)

٢۔سید مرتضٰی:وہ امور جن کے بارے میں یہ گمان کیا جاتا ہے کہ یہ شیعوں کے ساتھ مختص ہیں ان میں سے ایک نماز میں ہاتھ باندھنے کا ممنوع ہونا ہے چونکہ امامیہ کے علاوہ باقی فرقوں کاعقیدہ یہ ہے کہ یہ مکروہ ہے .طحاوی نے فقہاء کے اختلاف کو نقل کرتے ہوئے بیان کیا ہے مالک کے نزدیک اگر مستحب نماز میں رکوع طولانی ہو جائے تو ایسی صورت میں ہاتھ باندھنا جائز ہے اور میرے نزدیک اسے ترک کرنا بہتر ہے۔(٢)

٣۔شیخ طوسی: نماز میںدائیں ہاتھ کابائیں پر یا بائیں کادائیں پر رکھنا جائز نہیں ہے اور مالک سے دو روایات نقل ہوئی ہیں جن میں سے ایک شافعی کے قول کے مطابق ہے جس مٰن نماز میں دائیں ہاتھ کو بائیں پر رکھناجائز قرار دیا گیا ہے اور ابن القاسم والی روایت میں ہاتھ کھولنے کو مناسب تر بیان کیا گیاہے۔

____________________

١۔الاعلام :٢٢،تالیفات شیخ مفید کے ضمن میں یہ کتاب چھپ چکی ہے،ج٩؛کتاب التذکرة ٣:٢٥٣.

٢۔الانتصار :٢٢.

۱۹

اور اس (مالک )سے نقل ہوا ہے کہ اس نے کہا :مستحب نمازوں میں جب قیام طولانی ہو جائے تو ہاتھ باندھنا جائز ہے اوراگر طولانی نہ ہو تو جائز نہیں ہے جبکہ واجب نمازوں میں یہ جائز نہیں ہے ۔نیز لیث بن سعد کا بھی کہنا ہے :اگر تھکاوٹ محسوس ہو تو ہاتھ باندھ سکتے ہیں لیکن اگر تھکاوٹ نہ ہو اسے انجام نہ دیا جائے اور مالک کا بھی یہی قول ہے ۔

ہماری دلیل فرقہ امامیہ کا اجماع ہے اور نمازمیں ہاتھ باندھنے کے مبطل نمازہونے میں ان کے درمیان کسی قسم کا اختلاف نہیں پایا جاتا ۔نیز نماز میں کسی جزو کے ثابت ہونے کے لئے دلیل شرعی کی ضرورت ہوتی ہے جو شریعت مقدّسہ میں موجود نہیں ہے اور احتیاط کا تقاضابھی یہی ہے کہ نماز میں ہاتھ باندھنے سے پرہیز کیا جائے چونکہ اس میں شک نہیں ہے کہ ایسی نماز جس میں ہاتھ نہ باندھے گئے ہوں وہ یقینا صحیح ہے اور دوسری جانب نماز کے صحیح ہونے کا یقین حاصل کرنا واجب ہے۔(١)

٤۔ شیخ بہائی: تکفیر یعنی دائیں ہاتھ کا بائیںپر قرار دینا جسے اہل سنّت بجالاتے ہیں اور اکثر فقہاء نے اس کے بارے میں کے پائے جانے کی وجہ سے اسے حرام قراردیا ہے، کیا یہ مبطل نماز ہے؟اکثر علماء اسے( مبطل نماز)سمجھتے ہیں بلکہ شیخ طوسیاور سید مرتضٰی نے تو اس اجماع ہونے کا دعوٰی کیا ہے۔(٢)

____________________

١۔الخلاف ١:١٠٩.

٢۔الحبل المتین :٤ ١ ٢؛ملاذالأخیار ٣:٥٥٣.

۲۰