نماز میں ہاتھ کھولیں یاباندھیں؟

نماز میں ہاتھ کھولیں یاباندھیں؟0%

نماز میں ہاتھ کھولیں یاباندھیں؟ مؤلف:
زمرہ جات: متفرق کتب
صفحے: 51

  • ابتداء
  • پچھلا
  • 51 /
  • اگلا
  • آخر
  •  
  • ڈاؤنلوڈ HTML
  • ڈاؤنلوڈ Word
  • ڈاؤنلوڈ PDF
  • مشاہدے: 25183 / ڈاؤنلوڈ: 3803
سائز سائز سائز
نماز میں ہاتھ کھولیں یاباندھیں؟

نماز میں ہاتھ کھولیں یاباندھیں؟

مؤلف:
اردو

نماز میں ہاتھ باندھنے کا آغاز

کہا گیا ہے کہ نماز میں ہاتھ باندھنا بھی خلیفہ دوم کی بدعات میں سے ہے جو اس نے عجمی قیدیوں سے لی۔

محقّق نجفی لکھتے ہیں :

((حکی عن عمر لمّا جیء بأسارٰی العجم کفّرومامه ،فسأل عن ذلک ،فأجابوه : بأنّا نستعمله خضوعا وتواضعا لملوکنا ،فاستحسن هو فعله مع الله تعالی فی الصلاة ،و غفل عن قبح التشبّه بالمجوس فی الشرع ))(١)

بیان کیا گیا ہے کہ جب خلیفہ دوم کے پاس عجمی قیدیوں کو لایا گیا تو انہوں نے اس کے سامنے اپنے ہاتھوں کوہاتھوں پر رکھا ۔

خلیفہ نے ان سے اس کا سبب پوچھا تو بتایا گیا کہ ہم اپنے بادشاہوں کے سامنے خضوع وخشوع کا اظہار کرنے کے لئے اس کرتے ہیں خلیفہ کو ان کا یہ عمل پسند آیا اور اس نے نماز میں خدا کے سامنے ایسا ہی کیا جبکہ وہ اس بات سے غافل رہا کہ شریعت میں مجوسیوں سے مشابہت جائز نہیں ہے!البتہ ہمیں کتب تاریخ میں اس سلسلے میں کوئی دلیل نہیں ملی۔

____________________

١۔جواہر الکلام ١١:١٩؛مصباح الفقیہ ،کتاب الصلاة :٤٠٢.

۲۱

فقہا ئے اہل سنّت کے اقوال

١۔مدونة الکبرٰی (ابن قاسم کے بقول امام مالک کا نظریہ ):

امام مالک نماز میں دائیں ہاتھ کے بائیں پر رکھنے کے بارے میں کہتے ہیںمیرے نزدیک واجب جائز نہیںہے۔

مالک اسے مکروہ سمجھتے لیکن مستحب نمازوں میں رکوع کے طولانی ہوجانے کی بنا پر اسے جائز قرار دیتے تھے ۔( ١)

٢۔ قرطبی : وہ کہتے ہیں کہ نماز میں ایک ہاتھ کے دوسرے پر رکھنے میں علماء کے درمیان اختلاف پایا جاتا ہے. مالک اسے واجب نماز میں مکروہ سمجھتے ہیں لیکن مستحب نماز میں جائز قرار دیتے ہیں ہیں.بعض کا خیال ہے کہ یہ نماز کے مستحبات میں سے ہے اور وہ جمہور اہل سنّت ہیں ۔ان کے اس اختلاف کی وجہ وہ پیغمبرصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی نماز کے متعلق وہ ثابت شدہ آثار ہیں جن میں سے کسی ایک میں بھی اس (آنحضرتصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے نماز میں ہاتھ باندھنے کے) بارے میں اشارہ نہیں ہوا .دوسری جانب لوگوں کو اس کا حکم دیا گیا ہے روایت ابو حمید میں بیان ہوا ہے کہ پیغمبرصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم یہ عمل بجا لایا کرتے تھے

اس بنا پر بعض لوگوں کا نظریہ یہ ہے کہ جن روایا ت وآثار میں نماز میں ہاتھ باندھنا ثابت ہے ان میں ان روایات کی نسبت ایک زائد چیز کاتقاضا کیا گیا ہے جن میں ہاتھ باندھنا ثابت نہیں ہے پس واجب ہے کہ اس اضافہ کو بھی انجام دیا جائے ۔

اسی طرح بعض کا کہنا ہے کہ ان آثار پر عمل کیا جائے جن اضافہ نہیں ہے چونکہ ان روایات کی

____________________

١۔مدونة الکبرٰی ١:٧٦.

۲۲

تعداد زیادہ ہے اس بنا پر نماز میں ہاتھ باندھنا جائز نہیں ہے اور یہ خدا وند متعال سے مدد طلب کرنے کے باب سے ہے اسور مالک بھی اسی وجہ سے اسے مستحب نماز میں جائز قرار دیتے جبکہ واجب میں اس کی اجازت نہ دیتے(١)

٣۔ کتاب بیان وتفصیل :اس کتاب میں لکھا ہے کہ میں نے نماز میں ہاتھ باندھنے کے سلسلے میں اپنے استاد سے پوچھا :کیاواجب یا مستحب نماز کے قیام میں دائیں ہاتھ کو بائیں ہاتھ کی کلائی پر رکھناصحیح ہے؟

محمد بن رشد کہتے ہیں: مالک کا یہ قول ((میں اس میں اشکال نہیں دیکھتا ))بغیر تفصیل کے واجب ومستحب نمازوں میں ہاتھ باندھنے کے جواز کو بیان کر رہا ہے ۔اور مدوّنة الکبرٰی میں ابن قاسم والی روایت میں یوں بیہان ہوا ہے کہ نماز میں اس کا ترک کرنا بہتر ہے چونکہ اس روایت میں یہ کہا گیا ہے کہ میں اسے واجب نماز میں جائز نہیں سمجھتا اورمالک اسے مکروہ سمجھتے مگر یہ کہ مستحب نماز میں قیام کے طولانی ہونے کی وجہ سے تھکاوٹ محسوس ہو تو اس کا انجام دینا جائز ہے اور بعض روایات میں یہ جملہ (اسے مکروہ سمجھتے) موجود نہیں ہے ا س جملے کو محذوف سمجھیں تو یہ معلوم ہوتا ہے کہ مالک کے مذہب کے مطابق ہاتھ باندھنے کو ترک کرنا افضل ہے چونکہ ان کے اس قول((لعرف ذلک فی الفریضة ))کا معنٰی یہ ہے کہ میںاسے واجب نماز کے مستحبات یا سنّت ہونے میںسے جائز نہیں سمجھتا

اور جہاں پہ یہ کہا ہے کہ اگر مستحب نماز میں قیام کے طولانی ہونے کی وجہ سے تھکاوٹ محسوس ہو تو ایسی صورت میں تھکاوٹ دور کرنے کی خاطر ہاتھ باندھنے میں کوئی عیب نہیں ہے لیکن اگر واجب نماز میں قیام طولانی ہوجائے پھر بھی جائز نہیں ہے ،اس سے یہ سمجھا جاتا ہے کہ اگر مستحب نماز میں قیام طولانی

____________________

١۔بدایة المجتھد ١:١٣٦،ابن رشد قرطبی متوفٰی ٥٩٥ ہجری

۲۳

نہ ہوتو ایسی صورت میں ہاتھ باندھنا جائز نہیں ہے ۔اور اگر یہ جملہ ((کان یکرہ))موجود ہو تو اس کی دلالت تو بالکل واضح ہے ؛اس لئے کہ مکروہ کا معنٰی یہ ہے کہ اس کا ترک کرنا ثواب رکھتا ہے اور اس کے انجام دینے میں کوئی گناہ نہیں ہے ۔(١)

٤۔ نووی :ہم نے بیان کردیاہے کہ نماز میں ہاتھ باندھنا ہمارے مذہب میں سنّت ہے ابن منذر نے عبد اللہ بن زبیر ،حسن بصری اور نخعی سے نقل کیا ہے کہ آنحضرتصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نماز میں ہاتھ کھلے رکھتے اور ایک کو دوسرے پر نہ رکھتے ۔قاضی ابو طیّب نے بھی ابن سیرین سے حکایت کی ہے اور لیث بن سعد نے بھی کہا ہے: کہ وہ نماز میں ہاتھ کھلے رکھتے لیکن اگر قیام طولانی ہوجاتا تو آرام حاصل کرنے خاطر دائیں ہاتھ کو بائیں پر رکھ لیا کرتے۔جبکہ ابن قاسم نے مالک سے (ہاتھ کھولنے کو)نقل کیا ہے اور مشہور بھی یہی ہے اور تمام اہل مغرب اصحاب ہوں یا جمہور عوام سب کا یہی نظریہ ہے اور وہ نمازمسیئ(بھول جانے والے شخص کی نماز ) سے استناد کرتے ہیں .جس میں پیغمبرصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے اسے نماز سکھائی لیکن اس میں ہاتھ باندھنے کے متعلق کچھ بیان نہیں کیا ...۔(٢)

اس بنا پر اس مسئلے میں تین اقوال موجود ہیں:

اوّل۔واجب اور مستحب نماز میں جائز ہے یعنی نہ تو ا سکا انجام دینا مکروہ ہے اور نہ ہی ترک کرنا مستحب ہے.یہ نظریہ اس روایت(نماز مسیئ)سے استفادہ ہوتا ہے۔

دوم۔ مکروہ ہے .اس کا واجب اور مستحب نماز میں ترک کرنا مستحب ہے مگر یہ کہ مستحب نماز میں قیام طولانی ہوجائے تو ایسی صورت میں ہاتھ باندھنا جائز ہے نہ مکروہ ہے اور نہ ہی مستحب اور یہ قول مالک کا

____________________

١۔البیان والتحصیل ١:٣٩٤؛مرقاة المفاتیح قاری ٢:٥٠٨.

٢۔المجموع ٣:٣١٣.

۲۴

ہے جسے مدوّنة الکبرٰی میںذکر کیا گیا ہے۔

سوم۔واجب اور نافلہ نماز میں اس کا انجام دینا مستحب ہے اور ترک کرنا مکروہ ہے ۔اور یہ قول مالک کا ہے جسے مطرف بن ماجشون(١) کی روایت میں نقل کیا گیا ہے۔(٢)

٥۔عینی: ابن منذر نے عبد اللہ بن زبیر ، حسن بصری اور ابن سیرین سے نقل کیا ہے کہ وہ (نماز میں)ہاتھ کھلے رکھتے.اور اسی طرح مالک کے بارے میں بھی یہی معروف ہے اور اگر قیام طولانی ہو جاتا تو دائیں ہاتھ کو بائیں پر رکھ لیا کرتے۔

نیزلیث بن سعد کہتے ہیں : اوزاعی ہاتھ کھولنے اور باندھنے میں اختیا ر کے قائل تھے۔(٣)

٦۔شوکانی: وہ دار قطنی سے نقل کرتے ہیں کہ ابن منذر نے عبد اللہ بن زبیر ، حسن بصری اور نخعی کے بارے میںنقل کیا ہے کہ وہ نماز میں ہاتھ کھلے رکھتے اور دائیں ہاتھ کوبائیں پر نہ رکھتے۔نووی نے لیث بن سعد ، مھدی نے کتاب البحر میں قاسمیہ وناصریہ اور باقر سے اور ابن قاسم نے مالک سے اسی طرح نقل کیا ہے ۔( ٤)

____________________

١۔وہ مفتی مدینہ اور مالک بن انس کے شاگرد تھے .غنا کو بہت پسند کرتے اور علم حدیث سے بے بہرہ تھے ۔سیرعلام النبلائ١٠: ٣٦٠.

٢۔البیان والتحصیل ١:٣٩٤؛ مرقاة الأصول قاری ٢:٥٠٨.

٣۔عمدة القاری فی شرح صحیح بخاری ٥: ٢٧٨؛المغنی ١: ٤٧٢.

٤۔نیل الأوطار ٢:١٨٦؛المجموع ٣:٣١١؛المغنی ١:٥٤٩؛ شرح کبیر ١: ٥٤٩؛ المبسوط سرخسی ١:٢٣؛الفقہ علی المذاہب االأربعة١:١٥١.

۲۵

٧۔ زحیلی : وہ کہتے ہیں:مالکی مذہب کے علاوہ جمہور علماء کہتے ہیں: نماز پڑھنے والے کے لئے مستحب یہ ہے کہ وہ تکبیر کے بعد اپنے دائیں ہاتھ کو بائیں ہاتھ کے جوڑ پر رکھے...۔

٨۔ مالک : مالکی مذہب کا یہ کہنا ہے کہ مستحب یہ ہے کہ نماز میںوقار کی خاطر ہاتھ کھلے رکھے جائیں .اور مستحب نماز میں بغیر ضرورت آرام کی خاطر ہاتھ باندھنا مکروہ ہے

اور مذہب مالک کی حقیقت کو بیان کرتے ہوئے کہا ہے: مالکی مذہب میں نماز میں ہاتھ باندھنے کے مکروہ ہونے فتوٰی دینے کی وجہ اس فاسد عقیدے اوراس عمل سے جو (پیغمبرصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم )کی طرف منسوب نہیں ہے یا اس عوام کے نماز میں ہاتھ باندھنے کے واجب سمجھنے والے عقیدے سے جنگ کرنا ہے ...۔(١)

____________________

١۔الفقہ الاسلامی وأدلّتہ ٢:٨٧٤.

۲۶

روایات اہل سنّت

پہلی روایت :

البخاری :((...عنبی حازم،عن سهل:قال:کان النّاس یؤمرونن یضع الرّجل الید الیُمنٰی علی ذراعه الیسرٰی فی الصّلاة .قالبوحازم: لاأعلمه الاّأن یُنمٰی ذلک النبّی قال اسماعیل: یُنمٰی ذلک ،ولم یقل ینمٰی)).(١)

صحیح بخاری:...ابو حازم نے سھل بن سعد سے نقل کیا ہے :لوگوں کو یہ حکم دیا گیا ہے کہ نماز میں اپنے دائیں ہاتھ کو بائیں پر رکھیں .ابوحازم کہتا ہے:میرا گمان نہیں ہے کہ یہ فعل پیغمبرصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے علاوہ کسی اور کی طرف منسوب ہو۔

اسماعیل کہتے ہیں:نسبت تودی گئی ہے لیکن یہ نہیں کہا کہ کس نے یہ نسبت دی ہے۔

روایت کے معنٰی میں غور

یہ معلوم نہیں ہے کہ کس نے لوگوں کو نماز میں ہاتھ باندھنے کا حکم دیا ہے جیسا کہ اس حدیث کے راوی (ابو حازم)کو بھی یقین نہیں ہے کہ پیغمبرصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے اس کا حکم دیا ہو اسی تو اس نے یہ کہا : مجھے نہیں معلوم مگر یہ کہ پیغمبرصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے اس کا حکم دیا ہو ۔

پس یہ حدیث مرسل ہے اور اس کی دلالت بھی تنہا واضح ہی نہیں بلکہ اس میں ابہام بھی پایا جارہا ہے جیسا کہ عینی ،شوکانی اور اس حدیث کی شرح بیان کرنے والے دوسرے شارحین کے بیانات سے

____________________

١۔صحیح بخاری ١:١٣٥؛موطّ امام مالک ١:١٥٨.

۲۷

یہی سمجھا جا رہا ہے۔

الف )عینی : اس حدیث میں لفظ ((یُنمٰی )) یا ء کے ضمہ اور میم کے فتح کے ساتھ مجہول کا صیغہ ہے جبکہ اسے یاء کے فتحہ کے ساتھ معلوم کا صیغہ نہیں پڑھا گیا ۔اس بنا پر یہ حدیث مرسل ہے چونکہ ابوحازم نے معیّن نہیں کیا کہ کس نے نسبت دی ہے اور اگر معلوم کاصیغہ ہو تو حدیث متصل ہے۔(١)

لہذاایسی حدیث جس کے اندر متعدد احتمالات پائے جارہے ہوں اس سے کسی عمل کے سنّت ہونے کو ثابت نہیں کیا جا سکتا اور نہ ہی اس عمل کو یقین واطمینان کے ساتھ پیغمبرصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی طرف نسبت دی جاسکتی ہے ۔

ب)سیوطی:اسماعیل کہتے ہیں : یُنمٰی (شروع میں ضمہ اور میم پر فتح کے ساتھ) مجہول کا صیغہ ہے اوریہ نہیں کہا :لفظ ینمٰی معلوم کا صیغہ ہے اور اسماعیل وہی ابن ابی انس ہیں(٢)

ج)شوکانی:بعض نے اس حدیث کو معیوب قراردیا ہے چونکہ خود ابو حازم کو بھی اس میں گمان تھا ...اور اگر یہ حدیث مرفوع یعنی صحیح ہوتی اور پیغمبرصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم سے صادر ہوئی ہوتی تو پھر ابو حازم کو یہ کہنے کی ضرورت نہیں تھی کہ (لاأعلمہ) میں نہیں جانتا!

دوسری روایت:

روایت صحیح مسلم : ((زهیر بن حرب ،حدّثنا عفان ،حدّثنا همام ،حدّثنا محمد بن جحادة ،حدّثنی عبدالجبار بن وائل ومولٰی لهم ،انّهما حدثا ه عنبیه وائل بن حجر ،أنّه رأی النبّی صلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم رفع یدیه حین دخل فی الصلاة ،کبّر وصفّ

____________________

١۔عمدة القاری ٥:٢٧٨.

٢۔التوشیح علی الجامع الصحیح البخاری ١:٤٦٣.

۲۸

همام حیالذنیه ،ثمّ التحف بثوبه ،ثمّ وضع یده الیمنٰی علی الیسرٰی .))

صحیح مسلم ...زہیر بن حرب نے عفّان سے ، اس نے ہمام سے ، اس نے محمد بن جحادہ سے ، اس نے عبدالجبار بن وائل سے ، اس نے علقمہ بن وائل سے ، اور ان کے غلام نے وائل بن حجر سے روایت کی ہے کہ میں نے رسو ل خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کو دیکھا جب نماز پڑھنے لگے تو اپنے ہاتھوں کوکانوں کے برابر بلند کیا ،تکبیر کہی اسکے بعد ہاتھوں کو چھپا لیا اور پھر دائیں ہاتھ کو بائیں پر رکھا ...۔(١)

دلالت کے متعلق بحث :

یہ کہنا ضروری ہوگا کہ اس حدیث کی دلالت روشن نہیں ہے اس لئے کہ اس میں پیغمبرصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی موجودہ سنّت کے بارے میں بیان کیا گیا ہے جس سے یہ تشخیص نہیں دیا جا سکتا کہ یہ عمل واجب یا مستحب یا مباح ہونے ،یا اختیار یا مجبوری کی حالت میں بجا لایا گیا ہے .اور یہ کہ اس کا سبب کیا ہے ؟ کیا اسے ایک شرعی عمل سمجھ کر بجا لایا گیا یا یہ کہ عبا کو شانوں سے گرنے سے بچانے کی خاطر ایسا کیا گیا ؟یا اس کا سبب سردی اور تھکاوٹ تھا ؟

سند کے متعلق بحث :

یہ روایت سند کے اعتبار سے مرسل ہے چونکہ اس کا راوی علقمہ بن وائل ہے جس نے اپنے باپ سے یہ روایت نقل کی ہے جبکہ اس کا باپ اس کی پیدائش سے پہلے ہی وفات پا چکا تھا ۔لہذاممکن نہیں ہے کہ اس نے اپنے باپ سے روایت سنی ہو ۔

ابن حجر کہتے ہیں : عسکری نے ابن معین سے حکایت کی ہے کہ اس نے کہا : علقمہ کی اپنے باپ سے

____________________

١۔ صحیح مسلم ١:١٥٠؛دارقطنی ١: ٢٨٦،ح٨اور١١.

۲۹

روایات مرسل ہیں(١) .

نیز بعض کا کہنا ہے کہ وہ بہت چھوٹا تھا لہذا ممکن نہیں ہے کہ اپنے باپ کی نماز کو درک کیا ہو ۔(٢)

بہر حال دونوں صورتوں میں نتیجہ ایک ہی نکلتا ہے اس لئے کہ جو اپنے باپ کی نماز کو درک نہیں کر سکتا وہ اس سے حدیث کو کیسے درک کر پائے گا ! اس کے علاوہ لفظ ((مولٰی لھم یعنی ان کا غلام )سندروایت میں موجود ہے جس کے بارے میں یہ معلوم نہیں ہے کہ وہ غلام کون ہے؟(٣)

٣۔تیسری روایت :

الموطّأ :((حدّثنی یحیٰی بن مالک ،عن عبدالکریم بنبی المخارق البصریّنّه قال: من کلام النبوّة (( اذا لم تستحیی فافعل ماشئت ووضع الید ین احداهما علی الأخرٰی فی الصّلاة (یضع الیمنٰی علی الیسرٰی )وتعجیل الفطر...)).

موطّأ امام مالک میں مالک بن انس نے عبدالکریم بنبی المخارق بصری سے نقل کیا ہے کہ وہ کہتے ہیں :نبوّت کے حکمت آمیز کلمات میں سے ایک یہ ہے کہ اگر شرم وحیا نہیں ہے تو جو چاہو کرو اور نماز میں ہاتھ باندھنا ہے ...۔

ابن عبداللہ کہتا ہے :((یضع الیُمنٰی علی الیُسرٰی ،دائیں ہاتھ کا بائیں پر رکھنا ))یہ مالک

بن انس کا کلام ہے نہ کہ حدیث کا حصّہ ہے۔(٤)

____________________

١۔تہذیب التہذیب ٧:٢٤٧؛ تہذیب الکمال ١٣: ١٩٣(حاشیہ پر).

٢۔تہذیب التہذیب ٨:٣١٤.

٣۔شاید یہاں پہ مولٰی سے مراد ولاء ضمان جریرہ ہو یا کوئی دوسرا معنی مراد ہو.

٤۔موطّأ امام مالک ١: ١٥٨؛ صحیح بخاری ٢:٢٦٣،کتاب الأنبیائ.

۳۰

اس روایت کی سند کے متعلق :

١۔ اس روایت کی سند میں عبدالکریم بن ابی المخارق ہے جس کے بارے میں معمر نے ایوب سے نقل کیا ہے کہ وہ ثقہ نہیں ہے اور عبدالرحمٰن بن مہدی نے اسے پر ہیز گار نہ ہونے سے متّہم کیا ہے .نیز احمد بن احمد اور ابن معین نے اسے ضعیف قرار دیا ہے ۔ابن حبان نے اسے کثر الوہم ،کثیر الخطا اور ناقابل احتجاج شمار کیا ہے ...اور ابن عبد البرّ کا کہنا ہے کہ اس کے ضعیف ہونے پر اجماع موجود ہے یہی وجہ ہے کہ مالک نے احکام پر مشتمل روایات کو اس سے نہیں لیا اور جو کچھ اس سے نقل کیا ہے وہ فقط مستحبّات میں ہے۔(١)

چوتھی روایت :

نصر بن علی نے ابواحمد سے ،اس نے علاء بن زرعہ بن عبدالرّحمٰن سے نقل کیا ہے کہ وہ کہتے ہیں: میں نے عبد اللہ بن زبیر سے سنا ہے کہ وہ کہا کرتا :((صفّ القدمیں ووضع الیدعلی الید من السّنة ))نماز میں پاؤں کو برابررکھنا اور ایک ہاتھ کا دوسرے ہاتھ پر سنّت ہے۔(٢)

چند نکات

اوّل : یہ روایت ابن زبیر کی نماز والی اس روایت سے متعارض ہے جس میں یہ بیان کیا گیا ہے کہ وہ نماز میں اپنے ہاتھ کھلے رکھتا ۔

دوم:اس روایت کی نسبت پیغمبرصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی طرف نہیں دی گئی ۔

سوم: اس روایت کی سند میں علاء بن صالح تمیمی اسدی کوفی ہے جس کے بارے میں بخاری کہتے ہیں: لایتابع ،اس کی روایت قابل قبول نہیں ہے۔

____________________

١۔تہذیب الکمال ١٢:١١؛ التہذیب التہذیب ١٦: ٣٢٦.

٢۔سننبی داؤد ١:٢٠١.

۳۱

ابن المدینی کہتے ہیں:وہ منکر روایات کو نقل کرتا ہے...۔(١)

پانچویں روایت :

محمد بن بکار بن ریّان نے ہشیم بن بشیر اس نے حجّاج بن ابی زینب ،اس نے ابو عثمان نہدی اورا س نے ابن مسعود سے نقل کیا ہے :

((أنّه کان یصلّی فوضع یده الیسرٰی علی الیُمنٰی ،فرآه النبّی صلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم فوضع یده الیمنٰی علی الیسرٰی . ))(٢)

وہ نما ز پڑھتے وقت اپنا بایاں ہاتھ دائیں پر رکھا کرتا ،پیغمبرصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے دیکھا تو اس کا دایاں ہاتھ پکڑ کر اس کے بائیں ہاتھ پر رکھ دیا۔

اس حدیث کی سند میں ہشیم بن قاسم ہے جو احادیث میں ملاوٹ اور ان میں کمی بیشی کرنے میں بدنام ہے اوراپنی عمر کے آخری ایام ہوش وحواس بھی کھو بیٹھا تھا ۔

یحییٰ بن معین نے اس کے بارے میں کہا ہے : علم تو اس کے پاس تھا نہیں .سر سے کیا نکلتا تھا یعنی زبان پرکیا جاری کرتاہے ۔(٣)

اس بنا پر اس کے بارے میں بہت کچھ کہا گیا ہے اور اس کی روایت بھی قابل قبول نہیں ہے ۔

اسی طرح اس روایت کی سند میں حجاج بن ابی زینب سلمی (ابو یوسف صیقل واسطی ) ہے جسے اہل سنّت کے ہاں ضعیف قرار دیا گیا ہے ۔

نیز احمد بن حنبل کا کہنا ہے : مجھے اس کی روایات کے ضعیف ہونے کا خوف ہے۔

____________________

١۔تہذیب التہذیب ٨:١٦٤؛سننبی داؤد ١:٢٠١.

٢۔ سنن ابو داؤد ١:٢٠٠؛سنن ابن ماجہ ١:٢٦٦.

٣۔تہذیب التہذیب ١١:٥٦.

۳۲

نسائی کہتے ہیں: وہ قوی نہیں ہے اور دارقطنی کا کہنا ہے: وہ حافظ وقوی نہیں ہے ۔(١)

چھٹی روایت :

محمد بن محبوب نے حفص بن غیاث ،اس نے عبدالرّحمٰن اسحٰق سے ، اس نے زیاد بن زید ،اس نے ابی جحیفہ ،اس نے حضرت علی علیہ السّلام سے نقل کیا ہے کہ آپ نے فرمایا :((السنّة وضع الکفّ علی الکفّ فی الصلاة تحت السّرة ))

نماز میں ایک ہاتھ کی ہتھیلی کا دوسرے ہاتھ کی ہتھیلی پر رکھنا سنّت ہے(٢)

اس حدیث کی سند میں زیاد بن زید ہے جو مجہول ہے جیسا کہ عسقلانی کے بقول ابو حاتم نے اس کی وضاحت کر دی ہے .نیز تہذیب التہذیب میں بھی بیان ہوا ہے :زیاد بن زید سوائی اعسم کوفی کے بارے میں ابو حاتم نے کہا ہے: وہ مجہول شخص ہے ۔ابوداؤد نے بھی اس سے حضرت علی علیہ السّلام کی ایک ہی روایت نقل کی ہے کہ آپ نے فرمایا : نماز میں زیر ناف ہاتھ کا ہاتھ پر رکھنا سنّت ہے ۔(٣)

بخاری کہتے ہیں:اس میں غور کی ضرورت ہے ۔نیز اس روایت کی سند میں عبدالرحمن بن اسحاق ہے جس کے ضعیف ہونے کے بارے میں علماء کا اتفاق ہے ۔(٤)

ساتویں روایت:

محمد بن قدامہ (ابن اعین )نے ابی طالوت عبدالسلام سے ،اس نے ابو جریر ضبی سے ،اس نے اپنے باپ سے نقل کیا ہے :

____________________

١۔تہذیب التہذیب ٣:٣١٨.

٢۔سنن ابوداؤد ١:٢٠١؛دارقطنی ١:٢٨٦؛ سنن کبرٰی ٢:٤٣.

٣۔ تہذیب التہذیب ٣:٣١٨.

٤۔تہذیب الکمال ١١:٩٩.

۳۳

((رأیت علیا یمسک بیمینه علی الراسغ فوق السّرة ))

میں نے حضرت علی علیہ السلام کو دیکھا وہ اپنے دائیں ہاتھ کی کلائی کو بائیں ہاتھ سے زیر ناف پکڑے ہوئے تھے ۔

اس روایت کی سند میں ابوطالوت یعنی عبدالسلام نھدی ہے جس کے بارے مین ابن سعد کا کہنا ہے : وہ روایت کے نقل کرنے میں ضعیف ہے ۔(١)

نیز اس روایت کی سند میں ابن جریر ضبی ہے جس کے بارے میں ابن حجر کہتا ہے:میں نے میزان الاعتدال میں ذہبی کے ہاتھ سے لکھا دیکھا ہے کہ یہ شخص ناشناختہ یعنی مجہول ہے ۔(٢)

آٹھویں روایت :

مسدّد ...نے عبدالرحمن بن اسحاق کوفی سے ،اس نے سیار ابی حکم سے ،اس نے ابووائل سے ، اس نے ابوہریرہ سے نقل کیا ہے کہ وہ کہتے ہیں:

((أخذ الأکف علی الأکف فی الصلاة من السّنة ))

نماز میں ایک ہتھیلی کا دوسری پر رکھنا سنّت ہے ۔(٣)

اسی طرح دار قطنی نے تھوڑے سے اختلاف کے سا تھ لکھا ہے :نماز میں ہاتھ کی ہتھیلی کا دوسرے ہاتھ پر رکھنا سنّت ہے ۔(٤)

یہاں پہ یہ ذکر کردینا ضروری ہے کہ اس روایت کی سند میں عبد الرحمن بن اسحاق کوفی ہے جو علمائے

____________________

١۔سنن ابوداؤد ١:٢٠١؛ نیل الأوطار ٢:١٨٨.

٢۔تہذیب التہذیب ٢:٦٧.

٣۔سنن ابوداؤد ١:٢٠١؛نیلوطار ٢:١٨٨.

٤۔سنن دار قطنی ١:٨٤.

۳۴

رجال کے نزدیک ضعیف ہے ۔

ابن معین کہتے ہیں: وہ ضعیف ،ناچیز اور بے ارزش انسان ہے ۔ابن سعد ،یعقوب بن سفیان ، ابوداؤد ،نسائی اورابن حبان نے اسے ضعیف شمار کیا ہے اور بخاری نے کہا ہے : اس میں غور کی ضرورت ہے۔(١)

اس کے علاوہ ابوہریرہ نے اس عمل کی نسبت پیغمبرصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی طرف نہیںدی ہے ۔اس طرح کے مشابہ موارد موجود ہیں جن کے بارے میں تحقیق کے بعد معلوم ہوا کہ اس نے انہیں پیغمبرصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم سے نہیں سنا بلکہ کسی نے اس سے نقل کئے ہیںاور ابوہریرہ نے بھی اس شخص کا نام نہیں لیا .مثال کے طور پر یہ حدیث :((منصبح جنبا فلا صیام له ))جوشخص جنابت کی حالت میں اٹھے تو اس کا روزہ باطل ہے ۔فانّه لمّا حوقق علیه قال:خبرنیه مخبر ولمسمعه من رسول الله.

صلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم .جب اس سے پوچھا گیا کہ کیا تم نے خود یہ حدیث پیغمبرصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم سے سنی ہے تو کہا :نہیں ،مجھ سے کسی نے نقل کی ہے ۔( ٢)

نویں روایت :

ابو توبہ نے ہیثم (ابن حمید ) سے ،اس نے ثور سے ،اس نے سلیمان بن موسٰی اوراس نے طاؤس سے نقل کیا ہے کہ وہ کہتے ہیں:((کان رسول الله صلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم یضع یده الیُمنٰی علی یده الیسرٰی ،ثمّ یشدّ بینهما علی صدره ،وهو فی الصّلاة )).

رسول خد اصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نماز پڑھتے وقت اپنے سینے پر دائیں ہاتھ کو بائیں پر رکھا کرتے۔(٣)

____________________

١۔تہذیب التہذیب ٦:١٢٤.

٢۔تاریخ دمشق ١٩:١٢٢؛البدایة والنھایة ٨:١٠٩؛سیرأعلام النبلاء ٢:٦٠٨.

٣۔سنن ابو داؤد ١:٢٠١.

۳۵

چند اشکال

پہلا اشکال:

اس روایت کا راوی طاؤس تابعی ہے جس نے پیغمبرصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کو نہیں دیکھا اس اعتبار سے یہ روایت مرسل ہے

دوسرا اشکال :

اس روایت کی سند میں ہیثم بن حمید ہے جسے ابو داؤد اور ابو مسہّر (١ ) نے ضعیف قراردیا ہے ۔ابومسہّر کہتے ہیں: وہ (علم وحدیث ) میں ماہر اور حافظ نہیں تھا میں اس سے حدیث نقل کرنے میں اجتناب کرتا ہوں اور اسے ضعیف سمجھتا ہوں.(٢)

دسویں روایت :

ترمذی نے ابوالأحوص ،اس نے سماک بن حرب ،اس نے قبیصة بن ہلب اور اس نے اپنے باپ سے نقل کیا ہے کہ وہ کہتے ہیں:

((کا ن رسو ل الله صلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم یؤمّنا فیأخذ شماله بیمینه ))

پیغمبرصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے ہمیں با جماعت نماز پڑھائی جبکہ اپنے بائیں ہاتھ کو دائیں ہاتھ سے پکڑا ہو اتھا(٣)

اس روایت کی سند میں قبیصہ بن ہلب یعنی قبیصہ بن یزید طائی ہے اور ابن مدینی و نسائی کے بقول وہ مجہول ہے۔(٤)

گیارہویں روایت :

ابن ماجہ نے علی بن محمد سے ،اس نے عبداللہ بن ادریس ،اس نے بشر بن

____________________

١۔اس کا نام عبدالاعلی بن مسہّر غسّانیدمشقی ہے وہ ١٤٠ھ سے ٢١٨ھ میں تھا.

٢۔تہذیب التہذیب ١١:٨٢.

٣۔جامع ترمذی ٢:٣٢.

٤۔تہذیب التہذیب ٧:٢٤٧؛تہذیب الکمال ١٥:٢٢١.

۳۶

معاذ ضریر ،اس نے بشر بن مفضل ،اس نے عاصم بن کلیب ،اس نے اپنے باپ سے ،اس نے وائل بن حجر سے نقل کیا ہے کہ وہ کہتا ہے:

((میں نے پیغمبرصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کو نماز کی حالت میں دیکھا وہ اپنے دائیں ہاتھ سے بائیں ہاتھ کو تھامے ہوئے تھے ۔(١)

یہاں پہ یہ ذکر کرنا ضروری ہے کہ سنن ابن ماجہ کی بہت سی روایات ضعیف ہیں. ابن حجر کہتے ہیں: اس کی کتاب سنن میں جامع اور ابواب وغرائب میں اچھی ہے لیکن اس کی بہت زیادہ روایات ضعیف ہیں یہاں تک کہ میں نے سنا ہے سرّی نے کہا : جب بھی اس کتاب میں کوئی منفرد روایت بیان ہو تو وہ کئی ایک اعتبار سے ضعیف ہے ۔

ابو زرعہ کہتے ہیں:((لیس فیه الاّ نحو سبعةحادیث ))اس (کتاب) میں فقط سات احادیث صحیح ہیں... ۔(٢)

ذہبی کہتے ہیں: سنن ابن ماجہ کے اندر ان روایات کی تعداد بہت زیادہ ہے جو حجیت نہیں رکھتیں اور شاید ان کی تعداد ایک ہزار تک پہنچتی ہو۔(٣)

اس کے علاوہ ابو داؤد نے عاصم بن کلیب کی اپنے باپ اور دادا سے نقل کی جانے والی روایات کو بے اعتبار جانا ہے ۔(٤) .

____________________

١۔سنن ابن ماجہ ١:٢٦٦.

٢۔تہذیب التہذیب ٩:٤٦٨.

٣۔سیرعلام النبلاء ١٣:٢٧٩.

٤۔تہذیب الکمال ١٥:٤١٢؛((عاصم بن کلیب عنبیه عن جدّه لیس بشیء )).

۳۷

بارہویں روایت :

دارمی نے ابونعیم سے،اس نے زہیر سے ،اس نے ابواسحاق سے ،اس نے عبدالجبار بن وائل سے ،اس نے اپنے باپ سے نقل کیا ہے کہ وہ کہتا ہے:

((رأیت رسول الله صلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم یضع یده الیُمنٰی علی الیسرٰی قریبا من الرّسغ ))

میں نے رسو ل خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کو دیکھا کہ وہ اپنے دائیں ہاتھ کو بائیں ہاتھ پر جوڑ کے قریب رکھے ہوئے تھے ۔(١)

یہاں پہ یہ بیان کرنا ضروری ہے کہ عبدالجبار بن وائل نے اپنے باپ سے روایت نہیں سنی ہے اس لئے کہ اس کا باپ اس کے پیدا ہونے سے پہلے ہی مر چکا تھا ۔

ابن حبان الثّقات میں لکھتے ہیں :جو شخص یہ گمان کرے کہ ابن وائل نے اپنے باپ سے روایت سنی ہے تو یہ وہم کے سوا کچھ نہیں ہے اس لئے کہ وہ اپنی ماں کے شکم میں تھا جب اس کے باپ کی وفات ہوئی۔

نیز بخاری کہتے ہیں:یہ کہنا درست نہیں ہے کہ اس نے اپنے باپ سے روایت سنی ہے اس لئے کہ اس کا باپ اس کے پیدا ہونے سے پہلے مر چکا تھا ۔

ابن سعد کہتے ہیں: ...اس کے بارے میں ایک طرف تو یہ کہتے ہیں کہ اس نے اپنے باپ سے روایت سنی اور دوسری طرف یہ کہا جاتا ہے کہ اس نے اپنے باپ کو نہیں دیکھا !

ابو حاتم ،ابن جریر طبری ، جریری ، یعقوب بن سفیان ، یعقوب بن شیبہ ،دار قطنی ، حاکم اور ان سے پہلے ابن مدینی وغیرہ نے اسی سے ملتے جلتے مطالب نقل کئے ہیں۔(٢)

____________________

١۔سیرأعلام النبلاء ١٣:٢٧٩.

٢۔ تہذیب التہذیب ٦:٩٦.

۳۸

تیرہویں روایت :

دار قطنی میں ابو محمد صاعد نے علی بن مسلم سے ،اس نے اسماعیل بن ابان ورّاق سے ، اس نے مند ل ،اس نے ابن ابی لیلٰی ،اس نے قاسم بن عبدالرحمن ،اس نے اپنے باپ اور اس نے عبداللہ بن مسعود سے نقل کیا ہے:

((انّ النّبی کان یأخذ شماله بیمینه فی الصلاة ))

پیغمبرصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نماز میں اپنے بائیں ہاتھ کو دائیں ہاتھ سے پکڑ کر رکھتے۔(١)

اس حدیث کی سند میں مندل یعنی ابن علی عنزی ہے جو اہل سنّت کے ہاں ضعیف شمار کیا گیا ہے نیز بخاری نے بھی اسے ضعفاء میں سے شمار کیا ہے .نسائی کہتے ہیں : وہ ضعیف ہے ۔ابن سعد کہتے ہیں : اس میں ضعف پایا جاتا ہے ۔جوزجانی کہتے ہیں: اس کی روایات سست ہیں اس لئے کہ وہ منکرا ور غریب روایات کو نقل کرتا ہے ۔ابن قانع اور دار قطنی کا کہناہے : وہ ضعیف ہے ۔ابن حبان کہتے ہیں: وہ حافظہ کی کمی وجہ سے مرسل کو مرفوع اورموقوف کو مسند شمار کیا کرتا ،لہذا حق یہ ہے کہ اس کی روایت کو ترک کیا جائے ۔

نیز طحاوی کہتے ہیں : وہ کسی طرح روایت کے نقل کرنے میں مضبوط نہیں ہے اور اس کی روایت سے استدلال کرنا ممکن نہیں ہے۔(٢)

چودہویں حدیث :

دارقطنی میں عبداللہ بن محمد بن عبدالعزیز نے شجاع بن مخلد ،اس نے منصور ،اس نے محمد بن ابان انصاری ،اس نے حضرت عائشہ سے نقل کیا ہے کہ وہ فرماتی ہیں:

____________________

١۔دار قطنی ١:٢٨٣،ح١.

٢۔تہذیب التہذیب ١:٢٦٦.

۳۹

((ثلاثة من النبوّة ...ووضع الید الیُمنٰی علی الیسرٰی فی الصّلاة ))

نبوّت کی خصوصیات میں سے تین چیزیں ہیں:

....حالت نماز میں دائیں ہاتھ کا بائیں پر رکھنا ۔(١)

اس حدیث کی سند میں محمد بن ابان انصاری ہے جس کا حضرت عائشہ سے نقل کرنا ممکن نہیں ہے لہذا یہ روایت مرسل ہے ۔(٢)

ذہبی نے بخاری سے نقل کرتے ہوئے لکھا ہے کہوہ کہتے ہیں:((لایعرف له سماع منها ))معلوم نہیں ہے کہ اس نے حضرت عائشہ سے روایت سنی ہو ۔(٣)

اسی طرح ہشیم (ابن منصور ) جو اس روایت کی سند میں موجود ہے اس کے ضعیف ہونے کے بارے میں پہلے بیان کر چکے ہیں۔(٤)

پندرہویں روایت:

دار قطنی نے ابن صاعد ،اس نے زیاد بن ایوب ،اس نے نصر بن اسماعیل ،اس نے ابن ابی لیلٰی ،اس نے عطا ،اس نے ابوہریرہ اور اس نے رسول اکرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم سے نقل کیا ہے کہ آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے فرمایا :

((أُمرنا معاشرالأنبیاء ...ونضرب بأیمانناعلی شمائلنا فی الصلاة ))

ہم انبیاء کو یہ حکم دیاگیا ہے کہ نماز میں اپنے دائیں ہاتھ کو بائیں پر رکھیں۔(٥)

____________________

١۔دار قطنی ١:٢٨٤،ح٢.

٢۔دار قطنی ١:٢٨٤.

٣۔میزان الاعتدال ٣:٤٥٤.

٤۔ تہذیب التہذیب ١١:٥٦.

٥۔سنن دار قطنی ١:٢٨٤،ح٣.

۴۰