نماز میں ہاتھ کھولیں یاباندھیں؟

نماز میں ہاتھ کھولیں یاباندھیں؟66%

نماز میں ہاتھ کھولیں یاباندھیں؟ مؤلف:
زمرہ جات: متفرق کتب
صفحے: 51

  • ابتداء
  • پچھلا
  • 51 /
  • اگلا
  • آخر
  •  
  • ڈاؤنلوڈ HTML
  • ڈاؤنلوڈ Word
  • ڈاؤنلوڈ PDF
  • مشاہدے: 26482 / ڈاؤنلوڈ: 4321
سائز سائز سائز
نماز میں ہاتھ کھولیں یاباندھیں؟

نماز میں ہاتھ کھولیں یاباندھیں؟

مؤلف:
اردو

1

2

3

4

5

6

7

8

9

10

11

12

13

14

15

16

17

18

19

20

نماز میں ہاتھ باندھنے کا آغاز

کہا گیا ہے کہ نماز میں ہاتھ باندھنا بھی خلیفہ دوم کی بدعات میں سے ہے جو اس نے عجمی قیدیوں سے لی۔

محقّق نجفی لکھتے ہیں :

((حکی عن عمر لمّا جیء بأسارٰی العجم کفّرومامه ،فسأل عن ذلک ،فأجابوه : بأنّا نستعمله خضوعا وتواضعا لملوکنا ،فاستحسن هو فعله مع الله تعالی فی الصلاة ،و غفل عن قبح التشبّه بالمجوس فی الشرع ))(١)

بیان کیا گیا ہے کہ جب خلیفہ دوم کے پاس عجمی قیدیوں کو لایا گیا تو انہوں نے اس کے سامنے اپنے ہاتھوں کوہاتھوں پر رکھا ۔

خلیفہ نے ان سے اس کا سبب پوچھا تو بتایا گیا کہ ہم اپنے بادشاہوں کے سامنے خضوع وخشوع کا اظہار کرنے کے لئے اس کرتے ہیں خلیفہ کو ان کا یہ عمل پسند آیا اور اس نے نماز میں خدا کے سامنے ایسا ہی کیا جبکہ وہ اس بات سے غافل رہا کہ شریعت میں مجوسیوں سے مشابہت جائز نہیں ہے!البتہ ہمیں کتب تاریخ میں اس سلسلے میں کوئی دلیل نہیں ملی۔

____________________

١۔جواہر الکلام ١١:١٩؛مصباح الفقیہ ،کتاب الصلاة :٤٠٢.

۲۱

فقہا ئے اہل سنّت کے اقوال

١۔مدونة الکبرٰی (ابن قاسم کے بقول امام مالک کا نظریہ ):

امام مالک نماز میں دائیں ہاتھ کے بائیں پر رکھنے کے بارے میں کہتے ہیںمیرے نزدیک واجب جائز نہیںہے۔

مالک اسے مکروہ سمجھتے لیکن مستحب نمازوں میں رکوع کے طولانی ہوجانے کی بنا پر اسے جائز قرار دیتے تھے ۔( ١)

٢۔ قرطبی : وہ کہتے ہیں کہ نماز میں ایک ہاتھ کے دوسرے پر رکھنے میں علماء کے درمیان اختلاف پایا جاتا ہے. مالک اسے واجب نماز میں مکروہ سمجھتے ہیں لیکن مستحب نماز میں جائز قرار دیتے ہیں ہیں.بعض کا خیال ہے کہ یہ نماز کے مستحبات میں سے ہے اور وہ جمہور اہل سنّت ہیں ۔ان کے اس اختلاف کی وجہ وہ پیغمبرصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی نماز کے متعلق وہ ثابت شدہ آثار ہیں جن میں سے کسی ایک میں بھی اس (آنحضرتصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے نماز میں ہاتھ باندھنے کے) بارے میں اشارہ نہیں ہوا .دوسری جانب لوگوں کو اس کا حکم دیا گیا ہے روایت ابو حمید میں بیان ہوا ہے کہ پیغمبرصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم یہ عمل بجا لایا کرتے تھے

اس بنا پر بعض لوگوں کا نظریہ یہ ہے کہ جن روایا ت وآثار میں نماز میں ہاتھ باندھنا ثابت ہے ان میں ان روایات کی نسبت ایک زائد چیز کاتقاضا کیا گیا ہے جن میں ہاتھ باندھنا ثابت نہیں ہے پس واجب ہے کہ اس اضافہ کو بھی انجام دیا جائے ۔

اسی طرح بعض کا کہنا ہے کہ ان آثار پر عمل کیا جائے جن اضافہ نہیں ہے چونکہ ان روایات کی

____________________

١۔مدونة الکبرٰی ١:٧٦.

۲۲

تعداد زیادہ ہے اس بنا پر نماز میں ہاتھ باندھنا جائز نہیں ہے اور یہ خدا وند متعال سے مدد طلب کرنے کے باب سے ہے اسور مالک بھی اسی وجہ سے اسے مستحب نماز میں جائز قرار دیتے جبکہ واجب میں اس کی اجازت نہ دیتے(١)

٣۔ کتاب بیان وتفصیل :اس کتاب میں لکھا ہے کہ میں نے نماز میں ہاتھ باندھنے کے سلسلے میں اپنے استاد سے پوچھا :کیاواجب یا مستحب نماز کے قیام میں دائیں ہاتھ کو بائیں ہاتھ کی کلائی پر رکھناصحیح ہے؟

محمد بن رشد کہتے ہیں: مالک کا یہ قول ((میں اس میں اشکال نہیں دیکھتا ))بغیر تفصیل کے واجب ومستحب نمازوں میں ہاتھ باندھنے کے جواز کو بیان کر رہا ہے ۔اور مدوّنة الکبرٰی میں ابن قاسم والی روایت میں یوں بیہان ہوا ہے کہ نماز میں اس کا ترک کرنا بہتر ہے چونکہ اس روایت میں یہ کہا گیا ہے کہ میں اسے واجب نماز میں جائز نہیں سمجھتا اورمالک اسے مکروہ سمجھتے مگر یہ کہ مستحب نماز میں قیام کے طولانی ہونے کی وجہ سے تھکاوٹ محسوس ہو تو اس کا انجام دینا جائز ہے اور بعض روایات میں یہ جملہ (اسے مکروہ سمجھتے) موجود نہیں ہے ا س جملے کو محذوف سمجھیں تو یہ معلوم ہوتا ہے کہ مالک کے مذہب کے مطابق ہاتھ باندھنے کو ترک کرنا افضل ہے چونکہ ان کے اس قول((لعرف ذلک فی الفریضة ))کا معنٰی یہ ہے کہ میںاسے واجب نماز کے مستحبات یا سنّت ہونے میںسے جائز نہیں سمجھتا

اور جہاں پہ یہ کہا ہے کہ اگر مستحب نماز میں قیام کے طولانی ہونے کی وجہ سے تھکاوٹ محسوس ہو تو ایسی صورت میں تھکاوٹ دور کرنے کی خاطر ہاتھ باندھنے میں کوئی عیب نہیں ہے لیکن اگر واجب نماز میں قیام طولانی ہوجائے پھر بھی جائز نہیں ہے ،اس سے یہ سمجھا جاتا ہے کہ اگر مستحب نماز میں قیام طولانی

____________________

١۔بدایة المجتھد ١:١٣٦،ابن رشد قرطبی متوفٰی ٥٩٥ ہجری

۲۳

نہ ہوتو ایسی صورت میں ہاتھ باندھنا جائز نہیں ہے ۔اور اگر یہ جملہ ((کان یکرہ))موجود ہو تو اس کی دلالت تو بالکل واضح ہے ؛اس لئے کہ مکروہ کا معنٰی یہ ہے کہ اس کا ترک کرنا ثواب رکھتا ہے اور اس کے انجام دینے میں کوئی گناہ نہیں ہے ۔(١)

٤۔ نووی :ہم نے بیان کردیاہے کہ نماز میں ہاتھ باندھنا ہمارے مذہب میں سنّت ہے ابن منذر نے عبد اللہ بن زبیر ،حسن بصری اور نخعی سے نقل کیا ہے کہ آنحضرتصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نماز میں ہاتھ کھلے رکھتے اور ایک کو دوسرے پر نہ رکھتے ۔قاضی ابو طیّب نے بھی ابن سیرین سے حکایت کی ہے اور لیث بن سعد نے بھی کہا ہے: کہ وہ نماز میں ہاتھ کھلے رکھتے لیکن اگر قیام طولانی ہوجاتا تو آرام حاصل کرنے خاطر دائیں ہاتھ کو بائیں پر رکھ لیا کرتے۔جبکہ ابن قاسم نے مالک سے (ہاتھ کھولنے کو)نقل کیا ہے اور مشہور بھی یہی ہے اور تمام اہل مغرب اصحاب ہوں یا جمہور عوام سب کا یہی نظریہ ہے اور وہ نمازمسیئ(بھول جانے والے شخص کی نماز ) سے استناد کرتے ہیں .جس میں پیغمبرصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے اسے نماز سکھائی لیکن اس میں ہاتھ باندھنے کے متعلق کچھ بیان نہیں کیا ...۔(٢)

اس بنا پر اس مسئلے میں تین اقوال موجود ہیں:

اوّل۔واجب اور مستحب نماز میں جائز ہے یعنی نہ تو ا سکا انجام دینا مکروہ ہے اور نہ ہی ترک کرنا مستحب ہے.یہ نظریہ اس روایت(نماز مسیئ)سے استفادہ ہوتا ہے۔

دوم۔ مکروہ ہے .اس کا واجب اور مستحب نماز میں ترک کرنا مستحب ہے مگر یہ کہ مستحب نماز میں قیام طولانی ہوجائے تو ایسی صورت میں ہاتھ باندھنا جائز ہے نہ مکروہ ہے اور نہ ہی مستحب اور یہ قول مالک کا

____________________

١۔البیان والتحصیل ١:٣٩٤؛مرقاة المفاتیح قاری ٢:٥٠٨.

٢۔المجموع ٣:٣١٣.

۲۴

ہے جسے مدوّنة الکبرٰی میںذکر کیا گیا ہے۔

سوم۔واجب اور نافلہ نماز میں اس کا انجام دینا مستحب ہے اور ترک کرنا مکروہ ہے ۔اور یہ قول مالک کا ہے جسے مطرف بن ماجشون(١) کی روایت میں نقل کیا گیا ہے۔(٢)

٥۔عینی: ابن منذر نے عبد اللہ بن زبیر ، حسن بصری اور ابن سیرین سے نقل کیا ہے کہ وہ (نماز میں)ہاتھ کھلے رکھتے.اور اسی طرح مالک کے بارے میں بھی یہی معروف ہے اور اگر قیام طولانی ہو جاتا تو دائیں ہاتھ کو بائیں پر رکھ لیا کرتے۔

نیزلیث بن سعد کہتے ہیں : اوزاعی ہاتھ کھولنے اور باندھنے میں اختیا ر کے قائل تھے۔(٣)

٦۔شوکانی: وہ دار قطنی سے نقل کرتے ہیں کہ ابن منذر نے عبد اللہ بن زبیر ، حسن بصری اور نخعی کے بارے میںنقل کیا ہے کہ وہ نماز میں ہاتھ کھلے رکھتے اور دائیں ہاتھ کوبائیں پر نہ رکھتے۔نووی نے لیث بن سعد ، مھدی نے کتاب البحر میں قاسمیہ وناصریہ اور باقر سے اور ابن قاسم نے مالک سے اسی طرح نقل کیا ہے ۔( ٤)

____________________

١۔وہ مفتی مدینہ اور مالک بن انس کے شاگرد تھے .غنا کو بہت پسند کرتے اور علم حدیث سے بے بہرہ تھے ۔سیرعلام النبلائ١٠: ٣٦٠.

٢۔البیان والتحصیل ١:٣٩٤؛ مرقاة الأصول قاری ٢:٥٠٨.

٣۔عمدة القاری فی شرح صحیح بخاری ٥: ٢٧٨؛المغنی ١: ٤٧٢.

٤۔نیل الأوطار ٢:١٨٦؛المجموع ٣:٣١١؛المغنی ١:٥٤٩؛ شرح کبیر ١: ٥٤٩؛ المبسوط سرخسی ١:٢٣؛الفقہ علی المذاہب االأربعة١:١٥١.

۲۵

٧۔ زحیلی : وہ کہتے ہیں:مالکی مذہب کے علاوہ جمہور علماء کہتے ہیں: نماز پڑھنے والے کے لئے مستحب یہ ہے کہ وہ تکبیر کے بعد اپنے دائیں ہاتھ کو بائیں ہاتھ کے جوڑ پر رکھے...۔

٨۔ مالک : مالکی مذہب کا یہ کہنا ہے کہ مستحب یہ ہے کہ نماز میںوقار کی خاطر ہاتھ کھلے رکھے جائیں .اور مستحب نماز میں بغیر ضرورت آرام کی خاطر ہاتھ باندھنا مکروہ ہے

اور مذہب مالک کی حقیقت کو بیان کرتے ہوئے کہا ہے: مالکی مذہب میں نماز میں ہاتھ باندھنے کے مکروہ ہونے فتوٰی دینے کی وجہ اس فاسد عقیدے اوراس عمل سے جو (پیغمبرصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم )کی طرف منسوب نہیں ہے یا اس عوام کے نماز میں ہاتھ باندھنے کے واجب سمجھنے والے عقیدے سے جنگ کرنا ہے ...۔(١)

____________________

١۔الفقہ الاسلامی وأدلّتہ ٢:٨٧٤.

۲۶

روایات اہل سنّت

پہلی روایت :

البخاری :((...عنبی حازم،عن سهل:قال:کان النّاس یؤمرونن یضع الرّجل الید الیُمنٰی علی ذراعه الیسرٰی فی الصّلاة .قالبوحازم: لاأعلمه الاّأن یُنمٰی ذلک النبّی قال اسماعیل: یُنمٰی ذلک ،ولم یقل ینمٰی)).(١)

صحیح بخاری:...ابو حازم نے سھل بن سعد سے نقل کیا ہے :لوگوں کو یہ حکم دیا گیا ہے کہ نماز میں اپنے دائیں ہاتھ کو بائیں پر رکھیں .ابوحازم کہتا ہے:میرا گمان نہیں ہے کہ یہ فعل پیغمبرصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے علاوہ کسی اور کی طرف منسوب ہو۔

اسماعیل کہتے ہیں:نسبت تودی گئی ہے لیکن یہ نہیں کہا کہ کس نے یہ نسبت دی ہے۔

روایت کے معنٰی میں غور

یہ معلوم نہیں ہے کہ کس نے لوگوں کو نماز میں ہاتھ باندھنے کا حکم دیا ہے جیسا کہ اس حدیث کے راوی (ابو حازم)کو بھی یقین نہیں ہے کہ پیغمبرصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے اس کا حکم دیا ہو اسی تو اس نے یہ کہا : مجھے نہیں معلوم مگر یہ کہ پیغمبرصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے اس کا حکم دیا ہو ۔

پس یہ حدیث مرسل ہے اور اس کی دلالت بھی تنہا واضح ہی نہیں بلکہ اس میں ابہام بھی پایا جارہا ہے جیسا کہ عینی ،شوکانی اور اس حدیث کی شرح بیان کرنے والے دوسرے شارحین کے بیانات سے

____________________

١۔صحیح بخاری ١:١٣٥؛موطّ امام مالک ١:١٥٨.

۲۷

یہی سمجھا جا رہا ہے۔

الف )عینی : اس حدیث میں لفظ ((یُنمٰی )) یا ء کے ضمہ اور میم کے فتح کے ساتھ مجہول کا صیغہ ہے جبکہ اسے یاء کے فتحہ کے ساتھ معلوم کا صیغہ نہیں پڑھا گیا ۔اس بنا پر یہ حدیث مرسل ہے چونکہ ابوحازم نے معیّن نہیں کیا کہ کس نے نسبت دی ہے اور اگر معلوم کاصیغہ ہو تو حدیث متصل ہے۔(١)

لہذاایسی حدیث جس کے اندر متعدد احتمالات پائے جارہے ہوں اس سے کسی عمل کے سنّت ہونے کو ثابت نہیں کیا جا سکتا اور نہ ہی اس عمل کو یقین واطمینان کے ساتھ پیغمبرصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی طرف نسبت دی جاسکتی ہے ۔

ب)سیوطی:اسماعیل کہتے ہیں : یُنمٰی (شروع میں ضمہ اور میم پر فتح کے ساتھ) مجہول کا صیغہ ہے اوریہ نہیں کہا :لفظ ینمٰی معلوم کا صیغہ ہے اور اسماعیل وہی ابن ابی انس ہیں(٢)

ج)شوکانی:بعض نے اس حدیث کو معیوب قراردیا ہے چونکہ خود ابو حازم کو بھی اس میں گمان تھا ...اور اگر یہ حدیث مرفوع یعنی صحیح ہوتی اور پیغمبرصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم سے صادر ہوئی ہوتی تو پھر ابو حازم کو یہ کہنے کی ضرورت نہیں تھی کہ (لاأعلمہ) میں نہیں جانتا!

دوسری روایت:

روایت صحیح مسلم : ((زهیر بن حرب ،حدّثنا عفان ،حدّثنا همام ،حدّثنا محمد بن جحادة ،حدّثنی عبدالجبار بن وائل ومولٰی لهم ،انّهما حدثا ه عنبیه وائل بن حجر ،أنّه رأی النبّی صلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم رفع یدیه حین دخل فی الصلاة ،کبّر وصفّ

____________________

١۔عمدة القاری ٥:٢٧٨.

٢۔التوشیح علی الجامع الصحیح البخاری ١:٤٦٣.

۲۸

همام حیالذنیه ،ثمّ التحف بثوبه ،ثمّ وضع یده الیمنٰی علی الیسرٰی .))

صحیح مسلم ...زہیر بن حرب نے عفّان سے ، اس نے ہمام سے ، اس نے محمد بن جحادہ سے ، اس نے عبدالجبار بن وائل سے ، اس نے علقمہ بن وائل سے ، اور ان کے غلام نے وائل بن حجر سے روایت کی ہے کہ میں نے رسو ل خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کو دیکھا جب نماز پڑھنے لگے تو اپنے ہاتھوں کوکانوں کے برابر بلند کیا ،تکبیر کہی اسکے بعد ہاتھوں کو چھپا لیا اور پھر دائیں ہاتھ کو بائیں پر رکھا ...۔(١)

دلالت کے متعلق بحث :

یہ کہنا ضروری ہوگا کہ اس حدیث کی دلالت روشن نہیں ہے اس لئے کہ اس میں پیغمبرصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی موجودہ سنّت کے بارے میں بیان کیا گیا ہے جس سے یہ تشخیص نہیں دیا جا سکتا کہ یہ عمل واجب یا مستحب یا مباح ہونے ،یا اختیار یا مجبوری کی حالت میں بجا لایا گیا ہے .اور یہ کہ اس کا سبب کیا ہے ؟ کیا اسے ایک شرعی عمل سمجھ کر بجا لایا گیا یا یہ کہ عبا کو شانوں سے گرنے سے بچانے کی خاطر ایسا کیا گیا ؟یا اس کا سبب سردی اور تھکاوٹ تھا ؟

سند کے متعلق بحث :

یہ روایت سند کے اعتبار سے مرسل ہے چونکہ اس کا راوی علقمہ بن وائل ہے جس نے اپنے باپ سے یہ روایت نقل کی ہے جبکہ اس کا باپ اس کی پیدائش سے پہلے ہی وفات پا چکا تھا ۔لہذاممکن نہیں ہے کہ اس نے اپنے باپ سے روایت سنی ہو ۔

ابن حجر کہتے ہیں : عسکری نے ابن معین سے حکایت کی ہے کہ اس نے کہا : علقمہ کی اپنے باپ سے

____________________

١۔ صحیح مسلم ١:١٥٠؛دارقطنی ١: ٢٨٦،ح٨اور١١.

۲۹

روایات مرسل ہیں(١) .

نیز بعض کا کہنا ہے کہ وہ بہت چھوٹا تھا لہذا ممکن نہیں ہے کہ اپنے باپ کی نماز کو درک کیا ہو ۔(٢)

بہر حال دونوں صورتوں میں نتیجہ ایک ہی نکلتا ہے اس لئے کہ جو اپنے باپ کی نماز کو درک نہیں کر سکتا وہ اس سے حدیث کو کیسے درک کر پائے گا ! اس کے علاوہ لفظ ((مولٰی لھم یعنی ان کا غلام )سندروایت میں موجود ہے جس کے بارے میں یہ معلوم نہیں ہے کہ وہ غلام کون ہے؟(٣)

٣۔تیسری روایت :

الموطّأ :((حدّثنی یحیٰی بن مالک ،عن عبدالکریم بنبی المخارق البصریّنّه قال: من کلام النبوّة (( اذا لم تستحیی فافعل ماشئت ووضع الید ین احداهما علی الأخرٰی فی الصّلاة (یضع الیمنٰی علی الیسرٰی )وتعجیل الفطر...)).

موطّأ امام مالک میں مالک بن انس نے عبدالکریم بنبی المخارق بصری سے نقل کیا ہے کہ وہ کہتے ہیں :نبوّت کے حکمت آمیز کلمات میں سے ایک یہ ہے کہ اگر شرم وحیا نہیں ہے تو جو چاہو کرو اور نماز میں ہاتھ باندھنا ہے ...۔

ابن عبداللہ کہتا ہے :((یضع الیُمنٰی علی الیُسرٰی ،دائیں ہاتھ کا بائیں پر رکھنا ))یہ مالک

بن انس کا کلام ہے نہ کہ حدیث کا حصّہ ہے۔(٤)

____________________

١۔تہذیب التہذیب ٧:٢٤٧؛ تہذیب الکمال ١٣: ١٩٣(حاشیہ پر).

٢۔تہذیب التہذیب ٨:٣١٤.

٣۔شاید یہاں پہ مولٰی سے مراد ولاء ضمان جریرہ ہو یا کوئی دوسرا معنی مراد ہو.

٤۔موطّأ امام مالک ١: ١٥٨؛ صحیح بخاری ٢:٢٦٣،کتاب الأنبیائ.

۳۰

اس روایت کی سند کے متعلق :

١۔ اس روایت کی سند میں عبدالکریم بن ابی المخارق ہے جس کے بارے میں معمر نے ایوب سے نقل کیا ہے کہ وہ ثقہ نہیں ہے اور عبدالرحمٰن بن مہدی نے اسے پر ہیز گار نہ ہونے سے متّہم کیا ہے .نیز احمد بن احمد اور ابن معین نے اسے ضعیف قرار دیا ہے ۔ابن حبان نے اسے کثر الوہم ،کثیر الخطا اور ناقابل احتجاج شمار کیا ہے ...اور ابن عبد البرّ کا کہنا ہے کہ اس کے ضعیف ہونے پر اجماع موجود ہے یہی وجہ ہے کہ مالک نے احکام پر مشتمل روایات کو اس سے نہیں لیا اور جو کچھ اس سے نقل کیا ہے وہ فقط مستحبّات میں ہے۔(١)

چوتھی روایت :

نصر بن علی نے ابواحمد سے ،اس نے علاء بن زرعہ بن عبدالرّحمٰن سے نقل کیا ہے کہ وہ کہتے ہیں: میں نے عبد اللہ بن زبیر سے سنا ہے کہ وہ کہا کرتا :((صفّ القدمیں ووضع الیدعلی الید من السّنة ))نماز میں پاؤں کو برابررکھنا اور ایک ہاتھ کا دوسرے ہاتھ پر سنّت ہے۔(٢)

چند نکات

اوّل : یہ روایت ابن زبیر کی نماز والی اس روایت سے متعارض ہے جس میں یہ بیان کیا گیا ہے کہ وہ نماز میں اپنے ہاتھ کھلے رکھتا ۔

دوم:اس روایت کی نسبت پیغمبرصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی طرف نہیں دی گئی ۔

سوم: اس روایت کی سند میں علاء بن صالح تمیمی اسدی کوفی ہے جس کے بارے میں بخاری کہتے ہیں: لایتابع ،اس کی روایت قابل قبول نہیں ہے۔

____________________

١۔تہذیب الکمال ١٢:١١؛ التہذیب التہذیب ١٦: ٣٢٦.

٢۔سننبی داؤد ١:٢٠١.

۳۱

ابن المدینی کہتے ہیں:وہ منکر روایات کو نقل کرتا ہے...۔(١)

پانچویں روایت :

محمد بن بکار بن ریّان نے ہشیم بن بشیر اس نے حجّاج بن ابی زینب ،اس نے ابو عثمان نہدی اورا س نے ابن مسعود سے نقل کیا ہے :

((أنّه کان یصلّی فوضع یده الیسرٰی علی الیُمنٰی ،فرآه النبّی صلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم فوضع یده الیمنٰی علی الیسرٰی . ))(٢)

وہ نما ز پڑھتے وقت اپنا بایاں ہاتھ دائیں پر رکھا کرتا ،پیغمبرصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے دیکھا تو اس کا دایاں ہاتھ پکڑ کر اس کے بائیں ہاتھ پر رکھ دیا۔

اس حدیث کی سند میں ہشیم بن قاسم ہے جو احادیث میں ملاوٹ اور ان میں کمی بیشی کرنے میں بدنام ہے اوراپنی عمر کے آخری ایام ہوش وحواس بھی کھو بیٹھا تھا ۔

یحییٰ بن معین نے اس کے بارے میں کہا ہے : علم تو اس کے پاس تھا نہیں .سر سے کیا نکلتا تھا یعنی زبان پرکیا جاری کرتاہے ۔(٣)

اس بنا پر اس کے بارے میں بہت کچھ کہا گیا ہے اور اس کی روایت بھی قابل قبول نہیں ہے ۔

اسی طرح اس روایت کی سند میں حجاج بن ابی زینب سلمی (ابو یوسف صیقل واسطی ) ہے جسے اہل سنّت کے ہاں ضعیف قرار دیا گیا ہے ۔

نیز احمد بن حنبل کا کہنا ہے : مجھے اس کی روایات کے ضعیف ہونے کا خوف ہے۔

____________________

١۔تہذیب التہذیب ٨:١٦٤؛سننبی داؤد ١:٢٠١.

٢۔ سنن ابو داؤد ١:٢٠٠؛سنن ابن ماجہ ١:٢٦٦.

٣۔تہذیب التہذیب ١١:٥٦.

۳۲

نسائی کہتے ہیں: وہ قوی نہیں ہے اور دارقطنی کا کہنا ہے: وہ حافظ وقوی نہیں ہے ۔(١)

چھٹی روایت :

محمد بن محبوب نے حفص بن غیاث ،اس نے عبدالرّحمٰن اسحٰق سے ، اس نے زیاد بن زید ،اس نے ابی جحیفہ ،اس نے حضرت علی علیہ السّلام سے نقل کیا ہے کہ آپ نے فرمایا :((السنّة وضع الکفّ علی الکفّ فی الصلاة تحت السّرة ))

نماز میں ایک ہاتھ کی ہتھیلی کا دوسرے ہاتھ کی ہتھیلی پر رکھنا سنّت ہے(٢)

اس حدیث کی سند میں زیاد بن زید ہے جو مجہول ہے جیسا کہ عسقلانی کے بقول ابو حاتم نے اس کی وضاحت کر دی ہے .نیز تہذیب التہذیب میں بھی بیان ہوا ہے :زیاد بن زید سوائی اعسم کوفی کے بارے میں ابو حاتم نے کہا ہے: وہ مجہول شخص ہے ۔ابوداؤد نے بھی اس سے حضرت علی علیہ السّلام کی ایک ہی روایت نقل کی ہے کہ آپ نے فرمایا : نماز میں زیر ناف ہاتھ کا ہاتھ پر رکھنا سنّت ہے ۔(٣)

بخاری کہتے ہیں:اس میں غور کی ضرورت ہے ۔نیز اس روایت کی سند میں عبدالرحمن بن اسحاق ہے جس کے ضعیف ہونے کے بارے میں علماء کا اتفاق ہے ۔(٤)

ساتویں روایت:

محمد بن قدامہ (ابن اعین )نے ابی طالوت عبدالسلام سے ،اس نے ابو جریر ضبی سے ،اس نے اپنے باپ سے نقل کیا ہے :

____________________

١۔تہذیب التہذیب ٣:٣١٨.

٢۔سنن ابوداؤد ١:٢٠١؛دارقطنی ١:٢٨٦؛ سنن کبرٰی ٢:٤٣.

٣۔ تہذیب التہذیب ٣:٣١٨.

٤۔تہذیب الکمال ١١:٩٩.

۳۳

((رأیت علیا یمسک بیمینه علی الراسغ فوق السّرة ))

میں نے حضرت علی علیہ السلام کو دیکھا وہ اپنے دائیں ہاتھ کی کلائی کو بائیں ہاتھ سے زیر ناف پکڑے ہوئے تھے ۔

اس روایت کی سند میں ابوطالوت یعنی عبدالسلام نھدی ہے جس کے بارے مین ابن سعد کا کہنا ہے : وہ روایت کے نقل کرنے میں ضعیف ہے ۔(١)

نیز اس روایت کی سند میں ابن جریر ضبی ہے جس کے بارے میں ابن حجر کہتا ہے:میں نے میزان الاعتدال میں ذہبی کے ہاتھ سے لکھا دیکھا ہے کہ یہ شخص ناشناختہ یعنی مجہول ہے ۔(٢)

آٹھویں روایت :

مسدّد ...نے عبدالرحمن بن اسحاق کوفی سے ،اس نے سیار ابی حکم سے ،اس نے ابووائل سے ، اس نے ابوہریرہ سے نقل کیا ہے کہ وہ کہتے ہیں:

((أخذ الأکف علی الأکف فی الصلاة من السّنة ))

نماز میں ایک ہتھیلی کا دوسری پر رکھنا سنّت ہے ۔(٣)

اسی طرح دار قطنی نے تھوڑے سے اختلاف کے سا تھ لکھا ہے :نماز میں ہاتھ کی ہتھیلی کا دوسرے ہاتھ پر رکھنا سنّت ہے ۔(٤)

یہاں پہ یہ ذکر کردینا ضروری ہے کہ اس روایت کی سند میں عبد الرحمن بن اسحاق کوفی ہے جو علمائے

____________________

١۔سنن ابوداؤد ١:٢٠١؛ نیل الأوطار ٢:١٨٨.

٢۔تہذیب التہذیب ٢:٦٧.

٣۔سنن ابوداؤد ١:٢٠١؛نیلوطار ٢:١٨٨.

٤۔سنن دار قطنی ١:٨٤.

۳۴

رجال کے نزدیک ضعیف ہے ۔

ابن معین کہتے ہیں: وہ ضعیف ،ناچیز اور بے ارزش انسان ہے ۔ابن سعد ،یعقوب بن سفیان ، ابوداؤد ،نسائی اورابن حبان نے اسے ضعیف شمار کیا ہے اور بخاری نے کہا ہے : اس میں غور کی ضرورت ہے۔(١)

اس کے علاوہ ابوہریرہ نے اس عمل کی نسبت پیغمبرصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی طرف نہیںدی ہے ۔اس طرح کے مشابہ موارد موجود ہیں جن کے بارے میں تحقیق کے بعد معلوم ہوا کہ اس نے انہیں پیغمبرصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم سے نہیں سنا بلکہ کسی نے اس سے نقل کئے ہیںاور ابوہریرہ نے بھی اس شخص کا نام نہیں لیا .مثال کے طور پر یہ حدیث :((منصبح جنبا فلا صیام له ))جوشخص جنابت کی حالت میں اٹھے تو اس کا روزہ باطل ہے ۔فانّه لمّا حوقق علیه قال:خبرنیه مخبر ولمسمعه من رسول الله.

صلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم .جب اس سے پوچھا گیا کہ کیا تم نے خود یہ حدیث پیغمبرصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم سے سنی ہے تو کہا :نہیں ،مجھ سے کسی نے نقل کی ہے ۔( ٢)

نویں روایت :

ابو توبہ نے ہیثم (ابن حمید ) سے ،اس نے ثور سے ،اس نے سلیمان بن موسٰی اوراس نے طاؤس سے نقل کیا ہے کہ وہ کہتے ہیں:((کان رسول الله صلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم یضع یده الیُمنٰی علی یده الیسرٰی ،ثمّ یشدّ بینهما علی صدره ،وهو فی الصّلاة )).

رسول خد اصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نماز پڑھتے وقت اپنے سینے پر دائیں ہاتھ کو بائیں پر رکھا کرتے۔(٣)

____________________

١۔تہذیب التہذیب ٦:١٢٤.

٢۔تاریخ دمشق ١٩:١٢٢؛البدایة والنھایة ٨:١٠٩؛سیرأعلام النبلاء ٢:٦٠٨.

٣۔سنن ابو داؤد ١:٢٠١.

۳۵

چند اشکال

پہلا اشکال:

اس روایت کا راوی طاؤس تابعی ہے جس نے پیغمبرصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کو نہیں دیکھا اس اعتبار سے یہ روایت مرسل ہے

دوسرا اشکال :

اس روایت کی سند میں ہیثم بن حمید ہے جسے ابو داؤد اور ابو مسہّر (١ ) نے ضعیف قراردیا ہے ۔ابومسہّر کہتے ہیں: وہ (علم وحدیث ) میں ماہر اور حافظ نہیں تھا میں اس سے حدیث نقل کرنے میں اجتناب کرتا ہوں اور اسے ضعیف سمجھتا ہوں.(٢)

دسویں روایت :

ترمذی نے ابوالأحوص ،اس نے سماک بن حرب ،اس نے قبیصة بن ہلب اور اس نے اپنے باپ سے نقل کیا ہے کہ وہ کہتے ہیں:

((کا ن رسو ل الله صلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم یؤمّنا فیأخذ شماله بیمینه ))

پیغمبرصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے ہمیں با جماعت نماز پڑھائی جبکہ اپنے بائیں ہاتھ کو دائیں ہاتھ سے پکڑا ہو اتھا(٣)

اس روایت کی سند میں قبیصہ بن ہلب یعنی قبیصہ بن یزید طائی ہے اور ابن مدینی و نسائی کے بقول وہ مجہول ہے۔(٤)

گیارہویں روایت :

ابن ماجہ نے علی بن محمد سے ،اس نے عبداللہ بن ادریس ،اس نے بشر بن

____________________

١۔اس کا نام عبدالاعلی بن مسہّر غسّانیدمشقی ہے وہ ١٤٠ھ سے ٢١٨ھ میں تھا.

٢۔تہذیب التہذیب ١١:٨٢.

٣۔جامع ترمذی ٢:٣٢.

٤۔تہذیب التہذیب ٧:٢٤٧؛تہذیب الکمال ١٥:٢٢١.

۳۶

معاذ ضریر ،اس نے بشر بن مفضل ،اس نے عاصم بن کلیب ،اس نے اپنے باپ سے ،اس نے وائل بن حجر سے نقل کیا ہے کہ وہ کہتا ہے:

((میں نے پیغمبرصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کو نماز کی حالت میں دیکھا وہ اپنے دائیں ہاتھ سے بائیں ہاتھ کو تھامے ہوئے تھے ۔(١)

یہاں پہ یہ ذکر کرنا ضروری ہے کہ سنن ابن ماجہ کی بہت سی روایات ضعیف ہیں. ابن حجر کہتے ہیں: اس کی کتاب سنن میں جامع اور ابواب وغرائب میں اچھی ہے لیکن اس کی بہت زیادہ روایات ضعیف ہیں یہاں تک کہ میں نے سنا ہے سرّی نے کہا : جب بھی اس کتاب میں کوئی منفرد روایت بیان ہو تو وہ کئی ایک اعتبار سے ضعیف ہے ۔

ابو زرعہ کہتے ہیں:((لیس فیه الاّ نحو سبعةحادیث ))اس (کتاب) میں فقط سات احادیث صحیح ہیں... ۔(٢)

ذہبی کہتے ہیں: سنن ابن ماجہ کے اندر ان روایات کی تعداد بہت زیادہ ہے جو حجیت نہیں رکھتیں اور شاید ان کی تعداد ایک ہزار تک پہنچتی ہو۔(٣)

اس کے علاوہ ابو داؤد نے عاصم بن کلیب کی اپنے باپ اور دادا سے نقل کی جانے والی روایات کو بے اعتبار جانا ہے ۔(٤) .

____________________

١۔سنن ابن ماجہ ١:٢٦٦.

٢۔تہذیب التہذیب ٩:٤٦٨.

٣۔سیرعلام النبلاء ١٣:٢٧٩.

٤۔تہذیب الکمال ١٥:٤١٢؛((عاصم بن کلیب عنبیه عن جدّه لیس بشیء )).

۳۷

بارہویں روایت :

دارمی نے ابونعیم سے،اس نے زہیر سے ،اس نے ابواسحاق سے ،اس نے عبدالجبار بن وائل سے ،اس نے اپنے باپ سے نقل کیا ہے کہ وہ کہتا ہے:

((رأیت رسول الله صلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم یضع یده الیُمنٰی علی الیسرٰی قریبا من الرّسغ ))

میں نے رسو ل خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کو دیکھا کہ وہ اپنے دائیں ہاتھ کو بائیں ہاتھ پر جوڑ کے قریب رکھے ہوئے تھے ۔(١)

یہاں پہ یہ بیان کرنا ضروری ہے کہ عبدالجبار بن وائل نے اپنے باپ سے روایت نہیں سنی ہے اس لئے کہ اس کا باپ اس کے پیدا ہونے سے پہلے ہی مر چکا تھا ۔

ابن حبان الثّقات میں لکھتے ہیں :جو شخص یہ گمان کرے کہ ابن وائل نے اپنے باپ سے روایت سنی ہے تو یہ وہم کے سوا کچھ نہیں ہے اس لئے کہ وہ اپنی ماں کے شکم میں تھا جب اس کے باپ کی وفات ہوئی۔

نیز بخاری کہتے ہیں:یہ کہنا درست نہیں ہے کہ اس نے اپنے باپ سے روایت سنی ہے اس لئے کہ اس کا باپ اس کے پیدا ہونے سے پہلے مر چکا تھا ۔

ابن سعد کہتے ہیں: ...اس کے بارے میں ایک طرف تو یہ کہتے ہیں کہ اس نے اپنے باپ سے روایت سنی اور دوسری طرف یہ کہا جاتا ہے کہ اس نے اپنے باپ کو نہیں دیکھا !

ابو حاتم ،ابن جریر طبری ، جریری ، یعقوب بن سفیان ، یعقوب بن شیبہ ،دار قطنی ، حاکم اور ان سے پہلے ابن مدینی وغیرہ نے اسی سے ملتے جلتے مطالب نقل کئے ہیں۔(٢)

____________________

١۔سیرأعلام النبلاء ١٣:٢٧٩.

٢۔ تہذیب التہذیب ٦:٩٦.

۳۸

تیرہویں روایت :

دار قطنی میں ابو محمد صاعد نے علی بن مسلم سے ،اس نے اسماعیل بن ابان ورّاق سے ، اس نے مند ل ،اس نے ابن ابی لیلٰی ،اس نے قاسم بن عبدالرحمن ،اس نے اپنے باپ اور اس نے عبداللہ بن مسعود سے نقل کیا ہے:

((انّ النّبی کان یأخذ شماله بیمینه فی الصلاة ))

پیغمبرصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نماز میں اپنے بائیں ہاتھ کو دائیں ہاتھ سے پکڑ کر رکھتے۔(١)

اس حدیث کی سند میں مندل یعنی ابن علی عنزی ہے جو اہل سنّت کے ہاں ضعیف شمار کیا گیا ہے نیز بخاری نے بھی اسے ضعفاء میں سے شمار کیا ہے .نسائی کہتے ہیں : وہ ضعیف ہے ۔ابن سعد کہتے ہیں : اس میں ضعف پایا جاتا ہے ۔جوزجانی کہتے ہیں: اس کی روایات سست ہیں اس لئے کہ وہ منکرا ور غریب روایات کو نقل کرتا ہے ۔ابن قانع اور دار قطنی کا کہناہے : وہ ضعیف ہے ۔ابن حبان کہتے ہیں: وہ حافظہ کی کمی وجہ سے مرسل کو مرفوع اورموقوف کو مسند شمار کیا کرتا ،لہذا حق یہ ہے کہ اس کی روایت کو ترک کیا جائے ۔

نیز طحاوی کہتے ہیں : وہ کسی طرح روایت کے نقل کرنے میں مضبوط نہیں ہے اور اس کی روایت سے استدلال کرنا ممکن نہیں ہے۔(٢)

چودہویں حدیث :

دارقطنی میں عبداللہ بن محمد بن عبدالعزیز نے شجاع بن مخلد ،اس نے منصور ،اس نے محمد بن ابان انصاری ،اس نے حضرت عائشہ سے نقل کیا ہے کہ وہ فرماتی ہیں:

____________________

١۔دار قطنی ١:٢٨٣،ح١.

٢۔تہذیب التہذیب ١:٢٦٦.

۳۹

((ثلاثة من النبوّة ...ووضع الید الیُمنٰی علی الیسرٰی فی الصّلاة ))

نبوّت کی خصوصیات میں سے تین چیزیں ہیں:

....حالت نماز میں دائیں ہاتھ کا بائیں پر رکھنا ۔(١)

اس حدیث کی سند میں محمد بن ابان انصاری ہے جس کا حضرت عائشہ سے نقل کرنا ممکن نہیں ہے لہذا یہ روایت مرسل ہے ۔(٢)

ذہبی نے بخاری سے نقل کرتے ہوئے لکھا ہے کہوہ کہتے ہیں:((لایعرف له سماع منها ))معلوم نہیں ہے کہ اس نے حضرت عائشہ سے روایت سنی ہو ۔(٣)

اسی طرح ہشیم (ابن منصور ) جو اس روایت کی سند میں موجود ہے اس کے ضعیف ہونے کے بارے میں پہلے بیان کر چکے ہیں۔(٤)

پندرہویں روایت:

دار قطنی نے ابن صاعد ،اس نے زیاد بن ایوب ،اس نے نصر بن اسماعیل ،اس نے ابن ابی لیلٰی ،اس نے عطا ،اس نے ابوہریرہ اور اس نے رسول اکرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم سے نقل کیا ہے کہ آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے فرمایا :

((أُمرنا معاشرالأنبیاء ...ونضرب بأیمانناعلی شمائلنا فی الصلاة ))

ہم انبیاء کو یہ حکم دیاگیا ہے کہ نماز میں اپنے دائیں ہاتھ کو بائیں پر رکھیں۔(٥)

____________________

١۔دار قطنی ١:٢٨٤،ح٢.

٢۔دار قطنی ١:٢٨٤.

٣۔میزان الاعتدال ٣:٤٥٤.

٤۔ تہذیب التہذیب ١١:٥٦.

٥۔سنن دار قطنی ١:٢٨٤،ح٣.

۴۰

3 ۔ علم و آگاہی

ظاہر ہے کہ انسان صرف اسی وقت کسی فرض کو ادا کرنے پر قادر ہو سکتا ہے جب وہ اس سے آگاہ ہو یعنی وہ فرض اس تک پہنچا دیا گیا ہو فرض کریں کہ کوئی قانون ساز قانون وضع کر دے لیکن قانون اس شخص تک نہیں پہنچا جس نے اس پر عمل کرنا ہے تو وہ شخص اس قانون کی پابندی کا ذمہ دار نہیں بلکہ وہ اس قانون پر عمل کرنے پر قادر بھی نہیں اور اگر وہ شخص اس قانون کے خلاف عمل کرے تو قانون ساز اس کو سزا نہیں دے سکتا۔

علمائے علم اصول کا نظریہ ہے کہ اس شخص کو سزا دینا قبیح ہے جو فرض سے آگاہ نہیں ہے اور جس نے فرض معلوم کرنے میں کوتاہی بھی نہیں کی اور قانون کی اس شق کو ”عقاب بلا بیان کی قباحت“ کہتے ہیں۔

قرآن حکیم نے مکرر اس حقیقت کو بیان کیا ہے کہ ”ہم کسی قوم کو کسی قانون کی خلاف ورزی کی سزا نہیں دیتے مگر یہ کہ ان لوگوں پر حجت پوری ہو گئی ہو“ یعنی ہم کسی قوم کو ”بلا بیان سزا نہیں دیتے۔

البتہ فرض کے لئے ”علم و آگاہی“ کی جو شرائط اوپر بیان کی گئی ہیں اس سے یہ لازم نہیں آتا کہ انسان عملاً اپنے آپ کو بے خبری میں رکھے اور اس بے خبری کو اپنے لئے عذر بنائے اس کی یہ ذمہ داری ہے کہ وہ علم حاصل کرے اور اس علم کی بناء پر عمل کرے۔

۴۱

حدیث میں آیا ہے کہ قیامت کے دن بعض گناہگاروں کو اللہ کی عدالت میں حاضر کیا جائے گا اور اپنی بعض ذمہ داریوں کی ادائیگی میں کوتاہی کرنے پر ان کا مواخذہ کیا جائے گا۔ گناہگار سے کہا جائے گا: ”تو نے اپنا فرض کیوں پورا نہیں کیا؟“ وہ جواب دے گا: ”مجھے معلوم نہ تھا۔“ پھر اس سے کہا جائے گا: ”تم نے معلوم کیوں نہ کیا اور علم حاصل کرنے کی کوشش کیوں نہیں کی؟“

یہ جو ہم کہتے ہیں کہ فرض سے مطلع ہونا ادا کرنے کی شرط ہے اس سے مراد یہ ہے کہ اگر فرض کا حکم کسی شخص تک نہ پہنچ سکے اور عدم حصول علم میں اس شخص کا کوئی قصور بھی نہ ہو تو وہ شخص قصوروار متصور نہ ہوگا یعنی اس نے علم حاصل کرنے کی ضروری کوشش تو کی لیکن باوجود اس کے وہ معلوم نہیں کر سکتا تو ایسا شخص خدا کے نزدیک معذور قرار پائے گا۔

4 ۔ طاقت و توانائی

اصل میں وہی کام انسان کے لئے فرض قرار پاتا ہے جس کی انجام دہی کی اس میں طاقت ہو لیکن وہ کام جس کی انجام دہی پر انسان قادر نہ ہو فرض قرار نہیں پاتا اس میں شک نہیں کہ انسان کی توانائیاں محدود ہیں چونکہ قوت محدود ہے لہٰذا چاہئے کہ اس کے فرائض اس کی قوت کی حدود کے اندر ہوں مثلاً انسان میں حصول علم و دانش کی قوت ہے لیکن وقت اور معلومات کی مقدار کے لحاظ سے مقرر حدود کے اندر ہے۔ ایک انسان نابغہ روزگار ہی کیوں نہ ہو وہ ایک مدت میں تدریجی طور پر ہی علم و دانش کے مدارج طے کر سکتا ہے۔

اب اگر کسی شخص کو مجبور کیا جائے کہ وہ چند سالوں کا علم ایک رات میں حاصل کر لے تو اصطلاحی زبان میں اسے ”تکلیف بمالایطاق“ یعنی ”اس کام کا حکم جو انسان کی طاقت سے باہر ہو“ کہتے ہیں۔ اسی طرح کسی کو حکم دیا جائے کہ وہ دنیا کے تمام علوم حاصل کرے تو یہ بھی ایسا حکم ہے جو طاقت اور توانائی سے باہر ہے۔

۴۲

قرآن حکیم میں آیا ہے:

لا یکلف الله نفسا الا وسعها

”اللہ کسی شخص کو مکلف نہیں بناتا مگر اس پر جو اس کی طاقت میں ہو۔“( سورہ بقرہ آیت 286)

اگر کوئی شخص غرق ہو رہا ہو اور ہمارے اندر اس کو بچا لینے کی طاقت ہو تو ہم پر واجب ہے کہ ہم اس کو بچائیں لیکن اگر کوئی ہوائی جہاز گر رہا ہو اور ہم کسی طرح سے بھی اس کو گرنے سے روکنے پر قادر نہ ہوں تو ہماری ذمہ داری ساقط ہو جاتی ہے اور ایسی صورت میں خداوند تعالیٰ ہم سے مواخذہ نہیں کرتا۔

یہاں ایک نکتہ قابل ذکر ہے کہ وہ یہ کہ جیسا کہ ہم نے ”علم و آگاہی“ کے بارے میں کہا کہ فرض اور ذمہ داری کا ”علم و آگاہی“ سے مشروط ہونے سے یہ لازم قرار نہیں پاتا کہ ہم ”علم و آگاہی“ کے حصول کے ذمہ دار نہ ہوں اس طرح ادائیگی فرض کا ”طاقت و توانائی“ کے ساتھ مشروط ہونے سے یہ لازم نہیں قرار پاتا کہ ہم طاقت و توانائی کے حصول کے ذمہ دار نہ ہوں البتہ بعض مواقع میں طاقت کا ضیاع کرنا حرام ہے اور طاقت کا حصول واجب مثلاً ہمیں ایک زبردست طاقت ور دشمن کا سامنا ہے جو ہمارے حقوق یا ہمارے دین اسلام پر حملہ کرنا چاہتا ہے اور ہم موجودہ صورت حال میں مقابلہ نہیں کر سکتے اور اس سے ہر طرح کا مقابلہ بھی اپنی طاقت کا ضیاع ہے جب کہ ہمیں اس وقت یا مستقبل میں اس عمل سے کوئی مثبت نتیجہ بھی حاصل نہیں ہو سکتا۔

ظاہر ہے ایسی صورت میں ہم دشمن کے مقابلے یا اس کو حملہ کرنے سے روکنے کے ذمہ دار نہیں ہیں لیکن ایک ذمہ داری ہم پر عائد ہوتی ہے کہ ہم ”طاقت اور توانائی“ حاصل کریں تاکہ ایسے حالات میں ہاتھ پر ہاتھ دھرے نہ بیٹھے رہیں۔

۴۳

قرآن کریم کا ارشاد ہے:

واعد و الهم استطعتم من قوة و من رباط الخیل ترهبون بعدو الله و عدوکم ( سورہ انفال آیت 60)

”جہاں تک ممکن ہو اپنے گھوڑے اور طاقت تیار کرو تاکہ اس طرح تمہارے دشمن اور خدا کے دشمن تم سے ڈریں اور تم پر حملہ کرنے کا خیال اپنے ذہن سے نکال دیں۔“

جیسا کہ ایک فرد یا جاہل معاشرہ جو حصول علم میں کوتاہی کرتا ہے خدا کی طرف سے قابل مواخذہ قرار پاتا ہے کہ اس نے ”علم و آگاہی“ کیوں حاصل نہیں کی اور اس کی جہالت بطور عذر قبول نہیں کی جاتی اسی طرح ایک کمزور فرد یا معاشرہ بھی جس نے طاقت کے حصول میں کوتاہی کی ہو قابل مواخذہ قرار پاتا ہے کہ اس نے کیوں طاقت اور قوت حاصل نہ کی اور اس کی کمزوری کو عذر کے طور پر قبول نہیں کیا جا سکتا۔

5 ۔ آزادی و اختیار

ادائیگی فرض کے لئے آزادی اور اختیار بھی ایک شرط ہے یعنی ایک شخص اس وقت ادائیگی فرض کا ذمہ دار ہوتا ہے جب کہ اس کے لئے جبر یا اضطرار کی صورت نہ ہو اگر وہ مجبور یا مضطر ہو تو فرض ساقط ہو جاتا ہے ”جبر“ کی مثال یہ ہے کہ ایک جابر شخص کسی کو دھمکی دے کہ وہ اپنا روزہ توڑ دے اور اگر وہ روزہ نہ توڑے تو وہ اس کو جان سے مار دے گا۔ ظاہر ہے کہ ایسی حالت میں روزہ رکھنے کا فرض ساقط ہو جاتا ہے یا مثلاً اگر ایک شخص حج کی استطاعت رکھتا ہے اور وہ حج پر جانا چاہتا ہے اب ایک جابر شخص اس کو دھمکی دے کہ اگر وہ حج پر گیا تو اسے یا اس کے متعلقین کو نقصان پہنچائے گا۔

۴۴

حضور نے فرمایا ہے:

رفع ما ستکرهوا علیه (الجامع الصغیر ج 2 ص 16)

”جہاں جبر درمیان میں آ جائے وہاں فرض ساقط ہو جاتا ہے۔“

”اضطرار“ یہ ہے کہ ایک شخص کو کسی فرض کی ادائیگی کے سلسلے میں کسی دوسرے شخص سے دھمکی نہیں ملی بلکہ اس نے خود یہ راستہ انتخاب کیا ہے لیکن اس انتخاب کی وجہ سے وہ سخت ترین حالات ہیں جو اسے پیش آئے ہیں مثلاً اگر ایک شخص کسی بے آب و گیاہ بیابان میں بھوک سے بے حال ہو چکا ہے اور وہاں سوائے مردار کے کوئی اور چیز موجود نہیں جس سے وہ اپنی بھوک مٹا سکے تو ایسی ”حالت اضطرار“ میں مردار کھانے کی حرمت ساقط ہو جاتی ہے۔

”جبر و اضطرار“ کے درمیان فرق یہ ہے کہ ”جبر“ کی صورت میں انسان کو ایک جابر شخص کی طرف سے دھمکی ملتی ہے کہ خلاف شروع کام کرو اور اگر تم نہیں کرو گے تو تمہیں فلاں نقصان پہنچاؤں گا اور وہ مجبور شخص اس بناء پر کہ وہ اس مصیبت اور نقصان سے خود کو نہیں بچا سکتا بحالت مجبوری اپنے فرض کی ادائیگی کے خلاف عمل کرتا ہے لیکن ”اضطرار“ میں دھمکی کا کوئی دخل نہیں ہوتا بلکہ کسی شخص کو ایسے سنگین حالات درپیش ہوں جن کی وجہ سے اس کی حالت خراب ہو چکی ہو تو وہ اپنی اس حالت کو دور کرنے کے لئے مجبور ہے کہ اپنے فرض کے خلاف عمل کرے لہٰذا ”جبر“ اور ”اضطرار“ میں فرق کی حسب ذیل دو صورتیں ہیں:

۴۵

1 ۔ ”جبر“ میں برخلاف ”اضطرار“ دھمکی کا دخل ہے۔

2 ۔ ”جبر“ میں انسان کسی آنے والی سخت مصیبت کو روکنے کے لئے چارہ جوئی کرتا ہے لیکن ”اضطرار“ میں وہ کسی آئی ہوئی مصیبت کو دور کرنے کے لئے ایسا کرتا ہے۔

لیکن ”جبر“ اور ”اضطرار“ کو کسی فرض کی عدم ادائیگی کی ضروری شرط قرار نہیں دیا جا سکتا یعنی یہ کوئی عمومی اور کلی قانون نہیں ہے بلکہ اولاً یہ اس نقصان کی مقدار سے متعلق ہے۔

ثانیاً اس فرض کی اہمیت سے مربوط ہے جسے انسان اضطرار اور جبر کی وجہ سے ترک کرنا چاہتا ہے۔

ظاہر ہے کہ ”جبر“ یا ”اضطرار“ کو بہانہ بنا کر کوئی ایسا اقدام نہیں کیا جا سکتا جو دوسروں کے نقصان یا معاشرے کے ضرر یا خود دین اسلام کے نقصان کا سبب بن جائے بعض فرائض ایسے ہیں جن کی ادائیگی کے لئے ہر طرح کا نقصان برداشت کرنا چاہئے۔

درست اعمال کی شرائط

اب تک جو کچھ بیان کیا گیا ہے اس کا تعلق ادائیگی فرض کی شرط سے تھا یعنی انسان ان شرائط کے تحت ہی کسی فرض کی ادائیگی کا ذمہ دار ہے یعنی ادائیگی فرض کی شرائط سے وہ شرائط مراد ہیں جو اگر موجود نہ ہوں تو انسان پر فرض کی ادائیگی لازم نہیں آتی البتہ بعض شرائط ایسی بھی ہیں جو اعمال کے صحیح ہونے کی شرائط کہلاتی ہیں۔

جیسا کہ معلوم ہے عبادات اور معاملات کے علاوہ بعض شرعی موضوعات ایسے بھی ہیں جو کچھ شرائط اور خصوصیات کے ساتھ صحیح طریقے سے انجام پا سکتے ہیں لہٰذا درستی اعمال کی شرائط سے مراد وہ شرائط ہیں جو اگر نہ ہوں تو انسان کے اعمال درست تسلیم نہیں کئے جاتے اور ایسے اعمال باطل فرض کئے جاتے ہیں۔ اعمال کے صحیح ہونے کی شرائط بھی ادائیگی فرائض کی شرائط ہی کی مانند بہت زیادہ ہیں لیکن جس طرح ادائیگی فرض کی شرائط کو دو حصوں میں تقسیم کیا گیا تھا اسی طرح سے اعمال کی درستی کی شرائط کی بھی دو قسمیں ہیں: خصوصی شرائط عمومی شرائط۔

۴۶

ہر عمل کی خصوصی شرائط اسی عمل سے مخصوص ہیں اور اسی عمل کے سیکھنے کے دوران یہ شرائط بھی پہچانی جاتی ہیں البتہ عمومی شرائط میں چند چیزیں ہیں جن کی طرف بعد میں اشارہ کیا جائے گا۔

علمائے علم منطق کی اصطلاح میں ادائیگی فرض کی عمومی شرائط اور درستی اعمال کی عمومی شرائط کے مابین ”عموم و خصوص من وجہ“ کی نسبت ہے(پیسے اور سکے کے مابین عموم و خصوص من وجہ کی نسبت ہے بعض سکے پیسہ ہیں بعض سکے پیسہ نہیں اور اسی طرح سے بعض پیسے سکہ نہیں اور بعض پیسے سکہ ہیں) یعنی بعض شرائط ”ادائیگی فرض بھی ہیں“ اور ”شرائط درستی اعمال بھی“۔ بعض شرائط ”شرائط ادائیگی فرض“ تو ہیں لیکن ”شرائط درستی اعمال“ نہیں اور بعض شرائط ”شرائط ادائیگی فرض“ تو نہیں لیکن ”شرائط درستی اعمال“ ہیں اور ”درستی اعمال کی شرائط“ کی تین صورتیں ہیں:

بعض شرائط ”درستی عبادات“ اور ”درستی معاملات“ دونوں کی شرائط ہیں۔

بعض شرائط صرف ”درستی عبادات“ کی شرائط ہیں۔

بعض شرائط صرف ”درستی معاملات“ کی شرائط ہیں۔

وہ امر جو بیک وقت شرائط ادائیگی فرض اور شرط درستی اعمال ہے۔ ”عقل“ ہے اس لئے کہ عقل سے عاری انسان جس پر فرض عائد نہیں ہوتا اس کے اعمال ”عبادات“ سے متعلق ہوں یا معاملات سے درست متصور نہیں ہوں گے مثلاً اگر کوئی پاگل شخص چاہے کسی دوسرے کی نیابت میں حج بجا لائے یا کسی دوسرے کے لئے نماز ادا کرے یا روزہ رکھے یا نماز باجماعت میں امام اور مقتدیوں کے درمیان یا صرف مقتدیوں کے درمیان رابطہ کا عمل انجام دے تو اس کا یہ عمل صحیح نہ ہو گا۔

”عقل“ کی طرح ”طاقت“ بھی شرط ادائیگی فرض ہے اور شرط درستی اعمال بھی ”عدم جبر“ بھی اسی طرح سے ہے یعنی ایک مجبور شخص جس کی ذمہ داری خاص شرائط کے پورا نہ ہونے کی بناء پر ساقط ہو جاتی ہے۔ اگر وہ کوئی معاملہ ”جبر“ کے تحت انجام دے یا مثلاً ”جبر“ کی وجہ سے شادی کرے تو درست نہیں بلکہ باطل متصور ہو گا۔

۴۷

وہ امر جو ”شرط ادائیگی فرض“ تو ہے لیکن ”شرط درستی اعمال“ نہیں ”بلوغت“ ہے نابالغ لڑکا کسی فرض کی ادائیگی کا ذمہ دار نہیں لیکن اگر وہ سن تمیز اور فہم و فراست کی حد کو پہنچ چکا ہو اور اس قابل ہو کہ ایک بالغ کی طرح کسی شرعی عمل کو درست انجام دے تو اس کا وہ عمل درست ہے اور اسی طرح سن تمیز اور فہم و فراست کی حد کو پہنچا ہوا نابالغ لڑکا بھی نماز باجماعت میں امام اور مقتدیوں کے درمیان یا صرف متقدیوں کے درمیان رابطہ کا عمل انجام دے سکتا ہے اور اسی طرح وہ عبادت میں دوسروں کی نیابت بھی کر سکتا ہے البتہ یہ امر مسلم ہے کہ بلوغت ”درست عبادت“ کی شرط نہیں ہے لیکن کیا ”بلوغت“، ”درستی معاملات“ کی بھی شرط ہے یا نہیں؟

بعض علماء کا نظریہ یہ ہے کہ بلوغت درستی معاملات کی شرط ہے اور خوب و بد کی پہچان رکھنے والا ایک نابالغ بچہ نہ کسی کی نیابت میں اور نہ ہی اپنے لئے کوئی معاملہ کر سکتا ہے مثلاً خرید و فروخت کرے یا مکان کرایہ پر دے یا خطبہ نکاح پڑھے تو درست نہیں ہو گا اور بعض دوسرے علماء کا نظریہ یہ ہے کہ خوب و بد کی پہچان رکھنے والا نابالغ بچہ اپنے لئے کوئی معاملہ نہیں کر سکتا لیکن دوسروں کی نیابت اور وکالت کر سکتا ہے۔

اسی طرح وہ امور جو ”شرط ادائیگی فرض“ تو ہیں لیکن ”شرط درستی اعمال“ نہیں۔ ”علم و آگاہی“ اور ”عدم اضطرار“ ہیں۔ بنابرایں ایک عمل چاہے عبادت ہو یا معاملہ اگر دوسری شرائط کے اعتبار سے مکمل طور پر انجام پائے لیکن عمل کرنے والے کو علم نہ ہو اور اتفاقاً اس کے عمل میں تمام شرائط مکمل ہوں تو اس کا یہ علم درست ہو گا مثلاً ایک شخص ایک ایسے مکان کا مالک ہے جو اسے بہت پسند ہے اور وہ اسے فروخت نہیں کرنا چاہتا لیکن اچانک اسے کوئی حادثہ پیش آتا ہے اور اسے رقم کی سخت ضرورت ہوتی ہے اور وہ ”اضطرار“ کی حالت میں اپنے پسندیدہ مکان کو فروخت کر دیتا ہے تو اس کا یہ معاملہ درست متصور ہو گا۔

۴۸

یا اگر کوئی شخص کسی طرح بھی شادی کرنے پر راضی نہیں ہے لیکن اس کو کوئی ایسی بیماری لاحق ہو جاتی ہے کہ طبیب اس کے لئے شادی ضروری قرار دیتا ہے اور ”اضطرار“ کی حالت میں اس کی شادی ہو جاتی ہے تو اس کی شادی درست متصور ہو گی۔

مذکورہ مباحث سے معلوم ہوتا ہے کہ ”درستی اعمال“ کی شرائط کے لحاظ سے ”جبری“ اور ”اضطراری“ حالات میں ”معاملات“ کی انجام دہی میں فرق ہے۔ ”جبری حالت“ میں کیا ہوا معاملہ درست نہیں لیکن ”اضطراری حالت“ میں کیا ہوا معاملہ درست ہے۔

البتہ یہاں یہ بتانا ضروری ہے کہ ”جبری حالت“ میں کیا ہوا معاملہ کیوں درست نہیں اور ”ایمرجنسی کی حالت“ میں کیا ہوا معاملہ کیوں درست ہے؟ ممکن ہے یہ کہا جائے کہ ”مجبور اور مضطرب“ دونوں اس لحاظ سے کہ اس عمل کے انجام پر راضی نہیں ہیں باہم برابر ہیں جیسے اگر کوئی شخص کسی دھمکی کی بناء پر اپنے پسندیدہ مکان کو فروخت کرنے پر مجبور ہو جائے اور اس مصیبت کو دور کرنے کے لئے اپنا مکان بیچ دے تو وہ اس واقعہ پر دلی طور پر راضی نہ ہو گا اسی طرح اگر کوئی دوسرا شخص اپنی زندگی کو کسی مصیبت سے بچانے کے لئے (مثلاً اپنی بیماری کے اخراجات کی ضرورت پر) اپنا پسندیدہ مکان فروخت کرنے پر مجبور ہو جاتا ہے تو وہ بھی ایسی صورت میں قلبی طور پر راضی نہ ہو گا یا اگر کسی شخص کا بیٹا بیمار ہے اور وہ اس کے علاج کے لئے اپنا پسندیدہ مکان فروخت کرتا ہے لیکن وہ حقیقت میں اس عمل پر راضی نہیں ہے بلکہ وہ اپنا پسندیدہ مکان فروخت کرنے پر بہت زیادہ غمزدہ اور رنجیدہ ہے۔

ایک مجبور انسان اپنے نقصان کو دور کرنے کے لئے مجبوراً کوئی کام کرتا ہے یا کوئی ”مضطر“ نقصان کو روکنے کے لئے کوئی کام کرتا ہے تو دونوں کے عمل کا اصل موضوع پر کوئی اثر نہیں پڑتا۔

اسی طرح ایک ظالم اور جابر شخص ”جبری معاملات“ میں براہ راست ملوث ہوتا ہے ”اضطراری معاملات“ میں کوئی دوسرا شخص ملوث نہیں ہوتا تو ان دونوں کے عمل کا اصل موضوع پر کوئی اثر نہیں پڑتا اس کے علاوہ غالباً اضطرار کی اصل وجہ دوسروں کی استعماری اور استثماری طریقوں سے مداخلت ہوتی ہے۔ جواب یہ ہے کہ ”مجبور اور مضطرب“ کے معاملات میں شارع اسلام نے مجبور کے معاملات کو باطل قرار دیا ہے اور ”مضطرب“ کے معاملات کو درست دونوں کے احکام میں فرق کی وجہ کچھ اور ہے۔

۴۹

اگرچہ ”مجبور“ کو بھی بحالت کسی عمل کی انجام دہی کی فوری ضرورت پیش آتی ہے اور ”مضطرب“ کو بھی لیکن ”مجبور“ کی فوری ضرورت کا تعلق ”جابر“ کے ”جبر“ کو دور کرنا ہوتا ہے اور مجبور کی ضرورت اس معاملے کے انجام سے پوری ہوتی ہے۔ یہاں قانون مجبور کی مدد کرتا ہے اور ”جابر“ کے ”جبر“ کے خلاف ”مجبور“ کے معاملے کو غیر قانونی قرار دیتا ہے۔

لیکن مضطر کی فوری ضرورت براہ راست اس رقم سے ہے جو وہ اضطراری معاملہ کی صورت میں حاصل کرنا چاہتا ہے اس صورت میں اگر قانون مضطر کی حمایت کرنا چاہے تو ضروری ہے کہ معاملے کے صحیح اور قانونی ہونے کا اعلان کیا جائے کیوں کہ اگر اس معاملے کو غیر قانونی قرار دیا جائے تو اس کا نتیجہ ”مضطر“ کے حق میں زیادہ نقصان کی صورت میں نکلے گا۔ مثلاً مندرجہ ذیل بالا مثال میں اگر ”مضطر“ کے مکان کی فروخت کو غیر قانونی قرار دیا گیا اور معاملے کو باطل قرار دیا گیا تو نہ مکان کی خرید کو ملکیت کا حق حاصل ہو گا اور نہ مکان فروخت کرنے والے کو مطلوبہ رقم ملے گی۔ جس کے نتیجے میں ”مضطر“ اپنے بیٹے کا علاج نہیں کرا سکے گا۔

اسی وجہ سے علمائے فقہ کا نظریہ یہ ہے کہ ”جبر معاملہ“ کو غیر قانونی قرار دینا خدا کی طرف سے احسان ہے یعنی ”مجبور“ کے فائدے میں ہے لیکن اگر ”اضطراری معاملہ“ کو غیر قانونی قرار دیا جائے تو ”مضطر“ کے حق میں یہ کام احسان ہے نہ اس کے لئے فائدہ مند۔

یہاں ایک اور سوال بھی پیش آتا ہے کیا یہ صحیح ہے کہ دوسرے لوگ ”مضطر“ کے ”اضطرار“ اور پریشانی سے فائدہ اٹھا کر اس کے مال کو مناسب قیمت سے کم قیمت پر خرید لیں اور اس مال کو جائز مال سمجھیں؟ ہرگز نہیں کیا یہ معاملہ جو غیر قانونی ہے صرف حرمت تکلیفی کا باعث ہے؟ اور اصل معاملہ جس طرح ”مضطر“ کے حق میں درست ہے اسی طرح فریق مقابل کے معاملے میں بھی درست ہے؟ یا یہ کہ اس میں کوئی مانع نہیں کہ ایک طرف سے معاملہ درست ہو اور دوسری طرف سے غلط؟ یا دونوں طرف سے معاملہ تو درست ہو لیکن کم قیمت پر مال لینے والے شخص پر لازم ہو جائے کہ وہ مال کی حقیقی قیمت ادا کرے بہرحال ان موضوعات پر بحث ابھی باقی ہے۔

۵۰

وہ امر جو ادائیگی فرض کی شرط تو نہیں لیکن درستی اعمال کی شرط ہے رشد ہے اسلامی قانون میں ہر وہ شخص جو کسی معاشرتی کام کا بیڑا اٹھانا چاہتا ہے مثلاً وہ شادی کرنا چاہتا ہے یا کوئی اور معاملہ کرنا چاہتا ہے یعنی وہ اپنے مال میں سے خرچ کرنا چاہتا ہے تو اس پر لازم ہے کہ وہ دیگر تمام حالت رشد پر بھی پہنچا ہوا ہو یعنی یہ کہ وہ اس کام کے کرنے کی اہلیت بھی رکھتا ہو جس کا بیڑا وہ اٹھانا چاہتا ہے۔

اس لئے اسلامی قانون میں صرف بالغ عاقل آگاہ طاقت ور توانا اور مختار ہونا ہی کافی نہیں جو انسان شادی کا ارادہ کر سکے یا اپنے مال میں تصرف کر سکے بلکہ اس کے لئے یہ بھی لازم ہے کہ وہ شادی کرنے کی معقول صلاحیت بھی رکھتا ہو یعنی لڑکا اور لڑکی کے لئے یہ لازم ہے کہ وہ شادی کا مفہوم سمجھتے ہوں کہ کیا ہے؟ کس لئے ہے؟ ان کی ذمہ داریاں کیا ہیں؟ اور یہ کہ شادی ایک فرد کے مستقبل پر کیسے اثرانداز ہوتی ہے؟ اور انہیں یہ ادراک ہو کہ اس اہم معاملے میں آنکھ بند کر کے ہاتھ نہیں ڈالا جا سکتا۔

اسی طرح اگر ایک نابالغ لڑکے اور لڑکی کو ورثے میں یا کسی اور ذریعے سے مال و دولت ملی ہو تو اس کا صرف بالغ ہونا ہی کافی نہیں تاکہ اس کا مال اس کو دیا جائے بلکہ ضروری ہے کہ ان دونوں کو آزما لیں اگر بلوغت کے علاوہ وہ فہم و فراست کی حد پر بھی پہنچے ہوئے ہوں یعنی وہ اپنے مال کی حفاظت کرنے اور اس سے مستفید ہونے کی اہلیت بھی رکھتے ہوں تو ان کا مال ان کو دے دیا جاتا ہے اور اگر ایسا نہ ہو تو ان کا شرعی اور قانونی ولی حسب سابق ان کی سرپرستی کو جاری رکھتا ہے۔

وابتلوا الیتامی حتی اذا بلغوا النکاح فان آنستم منهم رشدا فاا دفعوا الیهم اموالهم ( سورہ نساء آیت 6)

”تم یتیموں کو آزما لیا کرو یہاں تک کہ معلوم ہو جائے کہ وہ بالغ ہو چکے ہیں پھر اگر دیکھو کہ وہ رشد پا چکے ہیں تو ان کے اموال ان کے حوالے کر دو۔“

۵۱