نماز میں ہاتھ کھولیں یاباندھیں؟

نماز میں ہاتھ کھولیں یاباندھیں؟0%

نماز میں ہاتھ کھولیں یاباندھیں؟ مؤلف:
زمرہ جات: متفرق کتب
صفحے: 51

  • ابتداء
  • پچھلا
  • 51 /
  • اگلا
  • آخر
  •  
  • ڈاؤنلوڈ HTML
  • ڈاؤنلوڈ Word
  • ڈاؤنلوڈ PDF
  • مشاہدے: 22574 / ڈاؤنلوڈ: 2503
سائز سائز سائز
نماز میں ہاتھ کھولیں یاباندھیں؟

نماز میں ہاتھ کھولیں یاباندھیں؟

مؤلف:
اردو

اس حدیث کی سند میں نضر بن اسماعیل یعنی ابو مغٰرہ ہے ،احمد ،نسائی اور ابو زرعہ نے اس کے متعلق کہا ہے: وہ قوی نہیں ہے اسی ایک قول کے مطابق ابن معین نے بھی اسے ضعیف قرار دیا ہے ۔

ابن حبّان کہتے ہیں: اس کے اشتباہات واضح اور اس کے وہم وخیالات بہت زیادہ ہیںلہذااسے ترک کرنا ہی حق ہے ۔

حاکم نیشاپوری کہتے ہیں: وہ ان (اہل سنّت)کے ہاں قوی نہیں ہے ۔ساجی کا کہنا ہے : اس کی روایات غریب ہیں ۔(١)

سولہویں روایت :

دارقطنی نے ابن سکین سے ، اس نے عبدالحمید بن محمد،اس نے مخلدبن یزید ، اس نے عطا،اس نے ابن عباس اور اس نے پیغمبرصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم سے نقل کیا ہے کہ آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے فرمایا:

((انّامعاشر الانبیا ءمرنا...أن نمسک بأیماننا علی شمائلنا فی الصلاة ))

ہم انبیاء کی جماعت کو یہ حکم دیا گیا ہے کہ ...نماز میں اپنے دائیں ہاتھ کو بائیںپر رکھیں ۔(٢)

اس حدیث کی سند میں طلحہ (بن عمر و بن عثمان حضرمی کوفی )ہے جسے تمام علمائے رجال نے ضعیف قرار دیا ہے ۔

احمد کہتے ہیں : اس کی کوئی اہمیت نہیں ہے اوراس کی روایات متروک ہیں ۔

ابن معین کا کہناہے: اس کا کوئی مقام نہیں اور وہ ضعیف ہے ۔نیز جوزجانی کہتے ہیں: اس کی روایات سے کوئی بھی راضی نہیں ہے ۔

ابوحاتم کہتے ہیں:وہ قوی نہیں ہے اور اہل سنّت کے ہاں اسے ضعیف قراردیا گیا ہے ۔ابوداؤد کہتے

____________________

١۔تہذیب التہذیب ١٠:٣٨٨.

٢۔سنن دار قطنی ١:٢٨٤،ح٣.

۴۱

ہیں: وہ ضعیف ہے ۔نسائی کا کہناہے:اس کی احادیث متروک ہیں ،بخاری کہتے ہیں: اس کی کوئی اہمیت نہیں ہے،یحیٰی بن معین بھی اس کے بارے میں منفی نگاہ رکھتا تھا ، ابن سعد کہتے ہیں : ا سکی احادیث بہت ضعیف ہیں۔

ابن مدینی کہتے ہیں وہ ضعیف ہے اور اس کا کوئی مقام نہیں ہے ،ابوزرعہ ، عجلی اور دار قطنی کہتے ہیں: وہ ضعیف ہے ،فسوی نے اسے ان افراد میں ذکر کیا ہے جن کی روایت پر توجہ نہیں دی جاتی ۔

ابن حبّان کہتے ہیں: اس نے ثقہ افراد سے کچھ نقل نہیں کیا مگر یہ کہ ایسی چیزیں جن کا لکھنا جائز نہیں تھا اور اس سے ایسی روایات کو تعجب کے طور پر نقل کیا گیا ہے ۔(١)

سترہویں روایت:

دار قطنی نے محمد بن مخلد سے ،اس نے محمد بن اسماعیل حسانی ، اس نے وکیع ،اس نے یزید بن زیاد بن ابی جحد،اس نے عاصم جحدری ،اس نے عقبہ بن ظہیر ،اس نے حضرت علی علیہ السّلام سے نقل کیا ہے آپ نے (فصلّ لربّک وانحر ) کے بارے میں فرمایا :وضع الیمین علی الشمال فی الصلاة .اس سے مراد نماز میں دائیں ہاتھ کا بائیں پررکھنا ہے(٢)

اس روایت کی سند مین وکیع ہے جس کے بارے میںیہ کہا گیا ہے کہ اس نے پانچ سو روایات میںخطا کی ہے ۔(٣)

نیز مروزی نے کہا ہے : وہ اپنی عمر کے آخری ایام میں زبانی احادیث نقل کیا کرتا اور الفاظ میں تبدیلی کربیٹھتا ،گویا وہ احادیث کے مفہوم کونقل کیا کرتا اوراسے عربی زبان پر بھی آشنائی نہیں تھی۔( ٤)

____________________

١۔تہذیب التہذیب ٥:٢١.

٢۔دار قطنی ١:٢٨٥.

٣۔تہذیب التہذیب ١١:١١٤.

٤۔تہذیب التہذیب ١١:١١٤.

۴۲

اٹھارہویں روایت :

دار قطنی نے احمد بن محمد بن جعفر جوزی سے ،اس نے مضر بن محمد سے ،اس نے یحیٰی بن معین سے ، اس نے محمد بن حسن واسطی سے ، اس نے حجاج بن ابی زینب سے،اس نے ابوسفیان ، اس نے جابر سے نقل کیا ہے کہ وہ کہتا ہے:

((مرّ رسول الله صلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم برجل وضع شماله علی یمینه ...مثله ))

رسو ل خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم ایک شخص کے پاس سے گذرے جس نے اپنا دایاں ہاتھ بائیں پر رکھا ہوا تھا ...پس آنحضرتصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے اس کا دایاں ہاتھ پکڑ کر بائیں پر رکھ دیا ۔(١)

اس حدیث کی سند میں حجاج بن ابی زینب موجود ہے جس کا ضعیف ہوناپہلے بیان کر چکے ۔

انیسویں روایت :

دار قطنی نے ایک اور مقام پر حجاج بن ابی زینب واسطہ سے ابن مسعود سے نقل کیا ہے اور یہ روایت بھی سابقہ روایت کی مانند ہے جو ابن ابی زینب کی وجہ سے ضعیف ہے ۔(٢)

بیسویں روایت :

حسن بن خضر نے محمد بن احمد ابوالعلاء سے ،اس نے محمد بن سوار ،اس نے ابوخالد احمد ،اس نے حمید ،اس نے انس سے نقل کیا ہے کہ وہ کہتے ہیں:

(کان رسول الله صلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم اذا قام فی الصلاة ،قال:هکذاوهکذا عن یمینه وعن شماله )

پیغمبرصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم جب بھی نماز کے لئے کھڑے ہوتے تو اپنے دائیں بائیں والوں سے یہ فرماتے کہ یوں اور یوں کھڑے ہوں...۔(٣)

____________________

١۔سنن دارقطنی ١:٢٨٧اور ١٣،ح١٤؛مسند احمد ٣:٣٨١.

٢۔سنن دارقطنی ١: ٢٨٧اور ١٣،ح١٤.

٣۔سنن دار قطنی ١:٢٨٧،ح١٥.

۴۳

اس روایت کی سند میں ابو خالد احمد (سلیمان بن حیان ازدی)موجود ہے جس کے حافظ وضابط ہونے کے بارے میں بعض نے اعتراض کیا ہے ۔

ابن معین کہتے ہیں: وہ حجت نہیں ہے ،ابوبکر بزاز نے اپنی کتاب سنن میں کہا ہے :وہ ان افراد میں سے نہیں ہے جن کی روایات حجت ہوںاس لئے کہ علماء کا اس کی روایات کے اتفاق ہے کہ وہ حافظ نہیں تھا اسی طرح اعمش اور دوسرے ایسے افراد سے روایات کو نقل کیا کرتا (جن کی روایات پر کوئی توجہ نہ دیتا )۔(١)

اس کے علاوہ یہ حدیث موضوع بحث پر دلالت بھی نہیں کررہی چونکہ اس میں یہ کہا گیا ہے کہ پیغمبرصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم اپنے دائیں بائیں افراد سے یہ فرماتے کہ یوں یوںکھڑے ہوں،جبکہ اس کا نماز میں ہاتھ باندھنے سے کوئی ربط نہیں ہے ۔

اکیسویں روایت:

احمد بن حنبل نے محمد بن حسن واسطی (مزنی)سے ،اس نے ابو یوسف حجاج ،اس نے ابن ابی زینب صیقل ،اس نے ابو سفیان ،اس نے جابر سے نقل کیا ہے:

((مرّ رسول الله صلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم برجل وهویصلی وقد وضع یده الیسرٰی علی الیمنٰی فانتزعها ووضع الیُمنٰی علی الیسرٰی ))

پیغمبرصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے ایک شخص کو دیکھا جو اپنے بائیں ہاتھ کو دائیں پررکھے ہوئے تھا ،آنحضرتصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے فورا اس کے دائیں ہاتھ کو اس کے بائیں پر رکھ دیا ۔(٢)

١۔ یہ وہی دار قطنی والی اٹھارہ نمبر حدیث ہے ۔

____________________

١۔تہذیب التہذیب ٤:١٦٠.

٢۔مسند احمد بن حنبل ٣:٣٨١.

۴۴

٢۔اس روایت کی سند میں بھی ابویوسف حجاج ہے جس کے بارے میں علمائے رجال نے غور سے کام لیا ہے ۔

احمد بن حنبل اس کے بارے میں کہتے ہیں: مجھے اس کی روایات کے ضعیف ہونے کا خوف ہے،ابن مدینی کہتے ہیں: وہ ضعیف ہے۔

نیز نسائی نے کہا ہے :وہ قوی نہیں ہے،دار قطنی کہتے ہیں:نہ تووہ روایت نقل کرنے میںقوی تھا اور نہ ہی حافظ ۔(١)

اسی طرح اس روایت کی سند میں محمد بن حسن واسطی ہے جس کے بارے میں بحث واقع ہوئی ہے اور ابن حبّان نے اسے ضعفاء کی فہرست میں ذکر کرتے ہوئے اس کے متعلق کہا ہے:

وہ احاد یث کی سند میں کمی واضافہ کرتا۔(٢)

____________________

١۔تہذیب التہذیب ٢:١٧٧؛سیرعلام النبلاء ٧:٧٥.

٢۔تہذیب التہذیب ٩:١٠٤.

۴۵

بحث کا خلاصہ

وہ تمام روایات جن سے نماز میں ہاتھ باندھنے کااستفادہ ہوتا ہے دلالت یا سند کے اعتبار سے ضعیف ہونے کے اشکال سے خالی نہیں ہیں۔

پہلی روایت : اسے بخاری نے نقل کیا ہے اور اس کی دلالت میں مشکل کے علاوہ اس کے مرسل ہونے کا شبھہ بھی موجود ہے اور پھر اس کا پیغمبرصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی طرف منسوب ہونا(جیسا کہ عینی اور شوکانی نے اس کی وضاحت کی ہے) بھی ثابت نہیں ہے ۔

دوسری روایت:اسے صحیح مسلم میں نقل کیا گیا ہے جس کی سند میں علقمہ بن وائل موجود ہے جو اپنے باپ سے نقل کررہا ہے لہذایہ روایت بھی مرسل ہے اس لئے کہ اس کا باپ اس کی پیدائش سے پہلے ہی مر چکا تھا ۔

تیسری روایت:اسے مالک بن انس نے نقل کیا ہے اس کی سند میں ابن ابی المخارق ہے جو ضعیف ہے ۔

چوتھی روایت :اسے ابوداؤد نے نقل کیا ہے جس کے راویوں میں سے ایک علاء بن صالح ہے جس کی روایت پرتوجہ نہیں دی جاتی ؛(یعنی قابل قبول نہیں ہے )جیسا کہ بخاری نے بھی اس کی تصریح کردی ہے اور پھر یہ روایت ابن زبیر والی روایت سے متعارض بھی ہے ۔

پانچویں روایت:اسے بھی ابوداؤد نے نقل کیا ہے جس کی سند میں ہشیم موجود ہے جوروایات میں ملاوٹ اور تصرّف کیا کرتا ،نیز اواخر میں ہوش وحواس کھو بیٹھا تھا ۔اسی طرح اس روایت کا ایک راوی حجاج ہے جو ضعیف ہے ۔

چھٹی روایت:اسے بھی ابوداؤد نے نقل کیا ہے جس کی سند میں زیادبن زید ہے جو مجہول ہے اور پھر اس سند میں عبدالرحمن بن اسحاق بھی ہے جس کے ضعیف ہونے پر علماء کا اتفاق ہے ۔

ساتویں روایت:اسے بھی ابوداؤد نے نقل کیا ہے جس کی سند میں طالوت ہے اس کی احادیث ضعیف ہیں ۔اسی طرح ضبّی بھی اس سند میں موجود ہے جو مجہول اور ناشناختہ راوی ہے ۔

۴۶

آٹھویں روایت :یہ روایت بھی ابوداؤد نے نقل کی ہے جس کی سند میں عبدالرحمن بن اسحاق ہے جو ضعیف ہے ۔

نویں روایت : اسے بھی ابوداؤد نے نقل کیا ہے جس کی سند میں ہشیم ہے جو ضعیف ہے اس کے علاوہ یہ روایت مرسل بھی ہے چونکہ طاؤس تابعی ہے جس نے پیغمبرصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کو نہ تو دیکھاہے اور نہ ہی ان سے روایت نقل کی ہے ۔

دسویں روایت :یہ روایت ترمذی نے نقل کی ہے جس کی سند میں قبیصہ ہے جو مجہول ہے ۔

گیارہویں روایت:اسے ابن ماجہ نے نقل کیا ہے جبکہ سنن ابن ماجہ کی روایات سات کے علاوہ سب ضعیف ہیں اس کے علاوہ اس کا راوی عاصم بن کلیب بھی ضعیف ہے ۔

بارہویںروایت: اسے دارمی نے نقل کیا ہے جس کی سند میں عبدالجبار ہے جو اپنے باپ سے نقل کر رہا ہے لہذایہ روایت مرسل ہے اس لئے کہ اس کا باپ اس کے دنیا میں آنے سے پہلے ہی مر چکا تھا پس اس نے اپنے باپ سے روایت نہیں سنی ۔

تیرہویں روایت:یہ دار قطنی کی روایت ہے جس میں مندل ہے جو ضعیف ہے ۔

چودہویں روایت :اسے بھی دار قطنی نے نقل کیا ہے اس میں محمد بن ابان انصاری ہے جس کا حضرت عائشہ سے روایت نقل کرنا درست نہیں ہے پس یہ روایت مرسل ہے نیز اس روایت کی سند میں ہشیم ہے جو ضعیف ہے۔

پندرہویں روایت:اسے بھی دار قطنی نے نقل کیا ہے جس میں نضر بن اسماعیل ہے جو ضعیف ہے ۔

سولہویں روایت:اس کی سند میں طلحہ ہے جسے سب علماء نے ضعیف قرار دیا ہے ۔

سترہویں روایت:اسے بھی دار قطنی نے نقل کیا ہے جس میں وکیع موجود ہے یہ وہ شخص ہے جس نے پاچ سو حدیث میں خطا کی ہے ۔

اٹھارہویں اور انیسویں روایت:اسے دار قطنی نے نقل کیا ہے ان دونوں روایات کی سند میں حجاج بن ابی زینب ہے جو ضعیف ہے ۔

۴۷

بیسویں روایت: اسے بھی دار قطنی نے نقل کیا ہے اس کی سند میں ابوخالد احمد ہے جس کے بارے بہت کچھ کہا گیا ہے اور اس کی حدیث بھی حجت نہیں ہے ۔

اور پھر دلالت کے اعتبار سے بھی یہ روایت واضح نہیں ہے کہ اس سے مراد نماز میں ہاتھ باندھنا ہو۔

اکیسویں روایت : یہ وہی اٹھارہویں روایت ہے جسے دارقطنی نے تکرار کے ساتھ نقل کیا ہے اور پھر اس کی سند مین ابو یوسف حجاج ہے جسے ضعیف قرار دیا گیا ہے ۔

اس بنا پر وہ دلائل جن پر اعتماد کرتے ہوئے نما ز میں ہاتھ باندھنے کی نسبت پیغمبرصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی طرف دی جا سکتی ہے ان کا کوئی وجود نہیں رہ جاتا۔اور پھر تعجب کی بات تو یہ ہے کہ بخاری اور مسلم نے بھی ان روایات پر توجہ نہ دیتے ہوئے انہیں اپنی اپنی کتب میں ذکر کرنے سے اجتناب کیا ہے اور یہ خود ان روایات کے غیر معتبر ہونے کی دلیل یا تائید ہے خاص طور پر ان افراد کے لئے جو کسی روایت کے بخاری یا مسلم میں ذکر نہ ہونے کو اس کے ضعیف ہونے کی دلیل سمجھتے ہیں۔

اس کے علاوہ بعض صحابہ کرام اور آئمہ مذاہب جیسے ابن زبیر ،امام مالک ،ابن سیرین ، حسن بصری اور نخعی و...اسے درست نہ سمجھتے اور نماز میں ہاتھ کھولنے کے معتقد تھے ۔اسی طرح مذہب اہل بیت علیہم السّلام میں بھی جیسا کہ روایات وفتاوٰی سے واضح ہے نماز میں ہاتھ باندھنے کو ناجائز اور شریعت کے مخالف سمجھا گیا ہے۔

پس یہ کہنا درست ہو گا کہ نماز میں ہاتھ باندھنا سنّت کی نسبت بدعت سے نزدیک تر ہے ۔

والسّلام علی من اتّبع الهدٰی

۴۸

فہرست

مشخصات کتاب ۳

انتساب ۵

مقدّمہ مترجم ۶

مقدّمہ مؤلف ۷

ہاتھ کھولنا یا باندھنا ؟ ۸

اہل سنّت کے تین نظریات ۱۲

روایات اہل بیت علیہم السّلام ۱۵

شیعہ فقہاء کا نظریہ ۱۹

نماز میں ہاتھ باندھنے کا آغاز ۲۱

فقہا ئے اہل سنّت کے اقوال ۲۲

روایات اہل سنّت ۲۷

پہلی روایت : ۲۷

روایت کے معنٰی میں غور ۲۷

دوسری روایت: ۲۸

دلالت کے متعلق بحث : ۲۹

سند کے متعلق بحث : ۲۹

٣۔تیسری روایت : ۳۰

اس روایت کی سند کے متعلق : ۳۱

چوتھی روایت : ۳۱

۴۹

چند نکات ۳۱

پانچویں روایت : ۳۲

چھٹی روایت : ۳۳

ساتویں روایت: ۳۳

آٹھویں روایت : ۳۴

نویں روایت : ۳۵

چند اشکال ۳۶

پہلا اشکال: ۳۶

دوسرا اشکال : ۳۶

دسویں روایت : ۳۶

گیارہویں روایت : ۳۶

بارہویں روایت : ۳۸

تیرہویں روایت : ۳۹

چودہویں حدیث : ۳۹

پندرہویں روایت: ۴۰

سولہویں روایت : ۴۱

سترہویں روایت: ۴۲

اٹھارہویں روایت : ۴۳

انیسویں روایت : ۴۳

بیسویں روایت : ۴۳

۵۰

اکیسویں روایت: ۴۴

بحث کا خلاصہ ۴۶

۵۱