نماز میں ہاتھ کھولیں یاباندھیں؟

نماز میں ہاتھ کھولیں یاباندھیں؟ مؤلف:
زمرہ جات: متفرق کتب
صفحے: 51

  • ابتداء
  • پچھلا
  • 51 /
  • اگلا
  • آخر
  •  
  • ڈاؤنلوڈ HTML
  • ڈاؤنلوڈ Word
  • ڈاؤنلوڈ PDF
  • مشاہدے: 27736 / ڈاؤنلوڈ: 4666
سائز سائز سائز
نماز میں ہاتھ کھولیں یاباندھیں؟

نماز میں ہاتھ کھولیں یاباندھیں؟

مؤلف:
اردو

۱

مؤلف:شیخ نجم الدین طبسی

مترجم: ناظم حسین اکبر

جملہ حقوق بحق ناشر محفوظ ہیں

۲

مشخصات کتاب

نام کتاب...............................................................نماز میں ہاتھ کھولیں یا باندھیں ؟

نام مؤلف...............................................................نجم الدین طبسی

نام مترجم ................................................................ناظم حسین اکبر

صفحات .................................................................٥٠

اشاعت اوّل ، ستمبر ٢٠٠٩ئ

تعداد................................................................... ٣٠٠٠

کمپوزنگ محمد اسماعیل

ناشر....................................................................ابوطالب اسلامک انسٹیٹیوٹ لاہور

قیمت.................................................................. ٥٠ روپے

۳

ملنے کا پتہ

١۔ المصطفٰی پبلیکیشنز اُردو بازار لاہور

٢۔ جامعہ زینب بنت علی علیہ السلام شعیب گارڈن لاہور

٣۔ابوطالب بک سنٹر محب پور خوشاب ٧٠٦١٩٩٨ ٠٣٠٢

٤۔ انتشارات جامعة المصطفٰی قم المقدسہ ایران

٥۔ علامہ اقبال اُردو لائبریری قم المقدسہ ایران

۴

انتساب

عالم جوانی میں داعی اجل کو لبیک کہنے والے سپاہی امام زمانہ عجّل اللہ فرجہ الشریف،

مہر شکیل حید ر آف لک موڑ ضلع سرگودھا کے نام، اس امید سے کہ خدا وند متعال

روز ظہوراسے لشکر امام زمانہ میںسے قراردے

۵

بسم الله الرّحمٰن الرّحیم

مقدّمہ مترجم

اسلام نے آراء ونظریات میں اختلاف کی نہی نہیں فرمائی ہے بلکہ صرف ایسے اختلافات مذموم ہیں جن سے تنازعے کھڑے ہوتے ہیں ،اُمّت گروہوں میں بٹ جاتی ہے اور اختلاف وتفرقہ پیدا ہوتا ہے اسلام کا یہ حکم اس کی عقلیت پسندی اور منطقی روش کی دلیل ہے ۔

تقاضائے انصاف تو یہ ہے کہ کسی بھی مذہب کے کسی نظریہ کی حقیقت تک پہنچنے کے لئے اس نظریہ کوباریک بینی سے علمی معیارات کی کسوٹی پر پرکھا جائے تاکہ درست نتیجہ حاصل کیا جا سکے ۔

انہیں نظریات میں سے ایک نظریہ( نماز میں ہاتھ باندھنا) ہے جس کاشریعت مقدّسہ پر گہرا اثر مترتب ہوتا ہے اس بارے میں شیعوں کا نظریہ یہ ہے کہ پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ، اہل بیت علیہم السلام اور صحابہ کرام میں سے کسی نے نماز میں ہاتھ باندھنے کا حکم نہیں دیا سوا حضرت عمر کے ۔ اور اسی طرح اہل سنت علماء میں سے بھی کوئی اس کے وجوب کا قائل نہیں ہے بلکہ بعض نے تو اسے مکروہ قرار دیا ہے جیسا کہ محقّق بزرگوار شیخ نجم الدین طبسی حفظہ اللہ نے ا س کتاب میں اس موضوع کو بہت احسن انداز میں بیان کیا ہے جو ہر اہل انصاف اور تحقیق کرنے والے کے لئے کافی ہے کہ وہ اس نظریہ کی حقیقت سے آشنائی حاصل کرتے ہوئے حق کی پیروی کرنے کی کوشش کرے ۔

خدا وند متعال اس کتاب کی اشاعت میں کسی بھی طرح کی مدد کرنے والے دوستوں کی اس سعی کو درجہ قبولیت تک پہنچائے اور قارئین محترم کو اس کتاب کے مطالعہ سے زیادہ سے زیادہ علمی فائدہ حاصل کرنے کی توفیق عطا فرمائے۔

والسّلام علی من اتّبع الهدٰی

ناظم حسین اکبر ( ریسرچ اسکالر)

ابوطالب اسلامک انسٹیٹیوٹ لا ہور پاکستان (٣ذی الحجہ ١٤٣٠ھ بمطابق٢١ نومبر ٢٠٠٩ئ)

۶

مقدّمہ مؤلف

حوزہ علمیہ کے علماء وفضلاء میں سے ایک بزرگ آفریقی عالم نے فون پر بات کرتے ہوئے اس خواہش کا اظہار کیا کہ نما زمیں ہاتھ باندھنے کے متعلق روایات ،فتاوٰی اور تاریخی مطالب کو اکٹھا کرنے کے بعد تحقیق کرکے انہیں مرتب کردوں

کثرت مصروفیات اور قلّت وقت کے باعث انتہائی مختصر مگر جلد ان مطالب کو جمع اور ان کے بارے میں تحقیق کرکے مجموعہ حاضر کو زیر قلم لانے میں کامیاب ہوا۔

۷

ہاتھ کھولنا یا باندھنا ؟

ایساسوال جو ہمیشہ بہت سے لوگوں کے ذہن میں آتا ہے وہ یہ ہے کہ کیا نماز میں ہاتھ باندھنا جائز ہے یا نہیں ؟

شیعوں کے نزدیک یہ عمل جائز نہیں ہے ؟(١) جیسا کہ خلاف(٢) ، غنیة(٣) اور دروس(٤) جیسی کتب میں ذکر ہوا ہے ۔

سید مرتضٰی نے اپنی کتاب الانتصار(٥) میں اس کے جائز نہ ہونے پر اجماع ہونے کا دعوٰی کیا ہے.اسی طرح اہل بیت علیہم السلام سے بھی اس بارے میں بہت سی روایات نقل ہوئی ہیں ۔

نیز اہل سنّت میں بھی امام مالک اور بعض فقھائے سلف اسے مکروہ سمجھتے ہیں اسی تابعین بلکہ بعض صحابہ کرام سے نقل ہوا ہے کہ وہ نماز میں ہاتھ کھولنے کا عقیدہ رکھتے تھے ۔(٦)

اہل سنّت کے درمیان اس مسئلے میں اختلاف کا باعث پیغمبرصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی نماز کے متعلق وہ صحیح جن

____________________

١۔ خلاف١: ١٠٩.

٢۔ خلاف ١: ١٠٩.

٣۔ غنیة النزوع : ٨١.

٤۔الدروس الشرعیة : ١٨٥.

٥۔الانتصار : ٤١.

٦۔ بدایة المجتھد ١:١٣٦؛ذہبی اس کتاب کے مؤلف قرطبی کے بارے میں کہتے ہیں : وہ فقہ میں علّامہ تھے...فقہ میں برتری پائی ...وہ اندلس میں علم وفضل اور کمال میںبے نظیر تھے ...جیسا کہ فقہ میں لوگوں کی پناہ گاہ تھے اسی طرح حکمت میںبھی لوگ انہیں کی طرف رجو ع کیا کرتے ...سیر اعلام النبلاء ٢١: ٣٠٨.

۸

میں یہ ذکر ہوا ہے کہ آنحضرتصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم حالت نماز میں ہاتھ نہیں باندھتے تھے .جیسا کہ ابن رشد نے بھی اس حقیقت کی طرف اشارہ کیا ہے ۔

ابراہیم نخعی(١) جنہوں نے اہل سنّت کے آئمہ اربعہ میں سے بعض سے پہلے وفات پائی و ہ بھی ہاتھ کھول کر نماز پڑھنے کے قائل تھے ۔

اسی طرح حسن بصری(٢) تابعی جسے اہل سنّت علم وعمل میں اہل زمانہ کا سردار مانتے ہیں وہ بھی نماز میں ہاتھ کھول کر پڑھا کرتے تھے ۔

____________________

١۔وہ پہلی صدی کے بزرگوں میں سے ہیںجنہوں نے بعض صحابہ کرام کو بھی درک کیا اور ٩٦ھ میں وفات پائی

ذہبی کہتے ہیں: وہ امام ، حافظ ، فقیہ عراق اور بزرگ شخصیت تھے اور ایک جماعت نے ان سے روایات نقل کی ہیں اسی طرح انہوں نے حکم بن عتیبہ ، سلیمان بن مہران اور ان کے علاوہ کئی ایک افراد سے روایات نقل کی ہیں. وہ معتقد تھے کہ ابوہریرہ کی بہت سی روایات منسوخ ہیں ۔

عجلی کہتے ہیں : وہ مفتی کوفہ ...فقیہ اور پرہیز گار انسان تھے ...احمد بن حنبل سے بھی نقل ہوا ہے کہ وہ کہتے ہیں: ابراہیم ذہین ، حافظ اور صاحب سنّت تھے ۔سیر اعلام النبلاء ٤: ٥٢٠.

٢۔حسن بصری حضرت عمر کی خلافت کے پورے ہونے سے دو سال پہلے پیدا ہوئے اور حضرت عثمان کی اقتداء میں نماز جمعہ میں شریک ہوا کرتے... کہاجاتا ہے کہ علم وعمل میں وہ اپنے زمانے کے سردار تھے

۹

ابن سعد لکھتے ہیں: وہ جامع ، عالم ، رفیع، فقیہ ، ثقہ، حجّت ، قابل اعتماد ، عابد ، ناسک اور کثیر العلم تھے ۔سیراعلام النبلاء ٤: ٥٧١.

جبکہ ہمارے(شیعوں)ہاں اس کی مذمّت میں روایات ذکر ہوئی ہیں۔

ابن سیرین(١) اور لیث بن سعد( ٢) اور عبداللہ بن زبیر جو صحابی ہے اور مالک کے مذہب میں بھی مشہور نظریہ یہی ہے، اسی طرح اہل مغرب بھی اسی نظریے (نماز میں ہاتھ کھولنے )پر عقیدہ رکھتے اور اسی پر عمل کیا کرتے تھے ۔

____________________

١۔ محمد بن سیرین خلیفہ دوم کی خلافت کے اواخر میں پیدا ہوئے اور ١١٠ ھ میں وفات پائی .اس نے تیس صحابہ کرام کودرک کیا ۔ عجلی کہتے ہیں: پرہیزگاروں میں اس سے بڑھکر فقیہ اور فقہاء میں اس سے بڑھکر کسی کو پرہیز گار نہیں دیکھا ۔ طبری کہتے ہیں: ابن سیرین فقیہ ، عالم، متّقی ، کثیر الحدیث اور سچے انسان تھے ، اہل علم وفضل نے بھی اسکی گواہی دی ہے جو حجّت ہے سیر اعلام النبلاء ٤: ٦٠٦.وہ بھی نماز میں ہاتھ کھولنے کا عقیدہ رکھتے تھے ۔

اگرچہ ہمارے سابقہ علماء نے اس کے متعلق کوئی اشارہ نہیں کیا لیکن حجاج بن یوسف کی مدح میں اس کچھ مطالب نقل ہوئے ہیں۔

تستری کہتے ہیں: اگر اس کے متعلق بیان کئے جانے والے مطالب صحیح ہوں تو یہی اس کی نادانی اور جہالت کے لئے کافی ہیں۔ قاموس الرّجال ٩: ٣٢٢؛ تنقیح المقال ٣: ١٣٠.

٢۔لیث بن سعد کے بارے میں کہا گیا ہے : وہ امام ،حافظ ، شیخ الاسلام اور عالم دیارمصر تھے جو ٩٤ھ میںپیدا ہوئے اور ١٧٥ھ میں وفات پائی ۔احمد بن حنبل کہتے ہیں : لیث کثیر العلم ، صحیح الحدیث ،...ثقہ اور قابل اعتماد تھے ...مصریوں میں ان سے بڑھکر کوئی صحیح الحدیث نہیں ہے۔

۱۰

ابن سعد کہتے ہیں: لیث فتوٰی میں مستقل اور ثقہ تھے اس نے بہت سی احادیث نقل کی ہیں ۔عجلی اور نسائی اسکے بارے میں کہتے ہیں : لیث ثقہ ہے.ابن خراش کہتے ہیں: وہ سچا انسان ہے اور اسکی احادیث بھی صحیح ہیں ۔ شافعی کہتے ہیں: لیث ،مالک سے بھی بڑھکر فقیہ تھا لیکن اصحاب نے اسے ترجیح نہ دی ؟ سیر اعلام النبلاء ٨: ١٣٦۔وہ بھی ہاتھ کھول کر نماز پڑھنے کے قائل تھے ۔

ہم شیعوں کے مطابق اس نے امام صادق علیہ السلام کو درک کیا ان عظمت و منقبت بھی بیان کی لیکن یہ اس کی ہدایت کا باعث نہ بن سکی ۔

خطیب (بغدادی )سے نقل ہوا ہے : اہل مصرعثمان کو برا بھلا کہتے تھے یہاں تک کہ لیث ان میں ظاہر ہوا اور عثمان

کے فضائل بیان کئے جس سے ان لوگوں نے چھوڑ دیا ۔تستری اس کے بعد لکھتے ہیں: ( خدا جانتا ہے ) اس شخص کے بارے میں برائیوں کے سوا کچھ نہیں ملتا اور وہ لوگوں کو ان احادیث پر عمل کا کہتا جو معاویہ نے گھڑوا رکھی تھیں اور اہل مصر بھی کتنے نادان تھے کہ عثمان کے متعلق جو کچھ آنکھوں سے دیکھ چکے تھے اس سے چشم پوشی کر بیٹھے اور جو جھوٹ بیان کیا گیا اس سے فریب کھا بیٹھے ۔قاموس الرّجال ٨: ٦٣٢؛ تنقیح المقال ٢:٦٤.

۱۱

اہل سنّت کے تین نظریات

اہل سنّت میں نماز میں ہاتھ باندھنے کے بارے میں تین طرح کے مختلف نظریا ت پائے جاتے ہیں:

١۔مکروہ ہے.

٢۔ اس کا انجام دینا کراہت نہیں رکھتا اور ترک کرنا مستحب نہیں ہے

٣۔ مستحب ہے.( ١)

ہمیں (اہل سنّت کی) کوئی ایسی کتاب نہیں ملی جس میں ( نماز میں ہاتھ باندھنے کو) واجب قرار دیا گیا ہو اور وجوب کی نسبت صرف اہل سنّت عوام کی طرف دی جاتی ہے(٢)

کتب اہل سنّت میں اس سلسلے میں بیان کی جانے والی روایات وآثار کی تعداد (قطع نظر اس سے کہ ان کی سند ضعیف ہے)بیس تک جا پہنچتی ہے ان میں سے ایک روایت ابو حازم سے صحیح بخاری میں نقل ہوئی ہے ۔(٣) لیکن جیسا کہ عینی نے(٤) شوکانی نے(٥) اوردیگر فقھاء نے اسکی تصریح کر دی ہے کہ اس حدیث میں مرسل و منقطع ہونے کا شبھہ پایا جاتا ہے۔

____________________

١۔البیان والتحصیل ١:٣٩٤.

٢۔الفقہ الاسلامی وأدلّتہ ٤: ٨٧٤؛المجموع ٣:٣١٣؛المغنی ١: ٥٤٩؛المبسوط سرخسی ١:٢٣.

٣۔صحیح بخاری ١: ١٣٥.

٤۔عمدة القاری فی شرح صحیح بخاری ٥:٢٨٠.

٥۔نیل الأوطار ٢:١٨٧.

۱۲

اسی طرح دوسری حدیث صحیح مسلم کے اندر ابووائل سے نقل ہوئی ہے اور یہ حدیث بھی مرسل ومنقطع ہونے کی آفت میں مبتلا ہے.اس لئے کہ علقمہ کی اپنے والد سے نقل کی جانے والی ر ویات مرسل ہیں ابن حجر نے اسے واضح طور پر بیان کردیا ہے ۔(١)

اور باقی روایات کے بارے میں یہ کہا جا سکتا ہے کہ خود اہل سنّت کے ہاں انہیں ضعیف شمار کیا گیا ہے اوراصحاب سنن وجوامع اور علمائے رجال کے اقرار کے مطابق ان پر اعتماد نہیں کیا جا سکتا .اس بناپر نماز میں ہاتھ باندھنے پر کوئی جواز باقی نہیں رہتا ۔

اسکے علاوہ یہ خود ایک عمل اور فعل ہے جس کے نماز میں جائز ہونے پر کوئی دلیل نہیں ہے لہذا اسے جائز یا سنّت یا آداب نماز میں سے ہونے کے قصد سے انجام دینا بے شک حرام ہے ۔ اس لئے کہ اسکی حرمت کے لئے یہی کہنا کافی ہے کہ شریعت میں اس کے جوازپر کوئی دلیل نہیں پائی جاتی ہے بلکہ اس کے بر عکس اس کے انجام دینے کے متعلق نہی ثابت ہے۔( ٢)

اہل بیت علیہم السلام نے بھی اس کے انجام دینے سے منع فرمایا ہے اور پھر نماز میں ہاتھ پر ہاتھ رکھنا ایک عمل ہے جس کا نماز میں انجام دینا جائز نہیں ہے .جیسا کہ ابن رشد نے بھی اس بات(یا اسی سے ملتی جلتی بات)کی طرف اشارہ کیا ہے

اور آئمہ علیہم السلام کا اسے (تکفیر ) سے تعبیر کرنا جسے مجوسی انجام دیا کرتے(٣) یہ اس عمل کے سنّت پیغمبرصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم میں سے نہ کی تائید بلکہ اس پر تاکید ہے ۔

____________________

١۔ تہذیب التہذیب ٨: ٣١٤.

٢۔مصباح الفقیہ ١:٤٠١.

٣۔ کتاب آئینہ آئین مزدیسنی ٫٫اشاعت دوّم،، تالیف کیخسرو صفحہ ٢٠پر لکھا ہے : ان کے ہاں نماز اور عبادت کا طریقہ کا ر اپنے خداکے سامنے کھڑے ہو کر دست عبودیت کو سینے پر رکھنا ہے اور وہ یوں عبادت و پرستش کرتے ہیں.

۱۳

نماز میں ہاتھ باندھنے کے متعلق اہل سنّت فقھاء میں اختلاف پایا جاتا ہے کہ کیا ہاتھوں کو ناف کے اوپر رکھا جائے یا اس سے نیچے ؟ دایاں ہاتھ بائیں پر رکھا جائے یا بالعکس ؟

اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ ایسا عمل جس کی کیفیت تک مشخص نہیں ہے وہ کس طرح سنّت مؤکدہ ہو سکتا ہے؟اور پھر کیسے ممکن ہے کہ وہ صحابہ کرام جو مستحبی نمازوںکے علاوہ نماز میّت ،نماز عیداورروزانہ کی نمازیں پیغمبرصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی اقتداء میں نماز ادا کرنے کے پابند تھے ان پر اس (نماز میں ہاتھ باندھنے ) کی کیفیت مخفی رہی ہو!

یہ تمام شواہد اور تاکیدات اس بات کی علامت ہیں کہ پیغمبرصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے زمانے میں ایسے عمل کا کوئی وجود نہیں تھا.اس بناپر یہ کہا جا سکتا ہے کہ نماز میں ہاتھ باندھنا بھی نماز تراویح باجماعت اداکرنے،اذان میں الصلاة خیر من النوم کے اضافہ کرنے،اذان سے حی علی خیر العمل کے نکالنے ،متعہ کی دونوںقسموں( متعہ الحجّ اور متعة النکاح) کوحرام قرار دینے اور تدوین احدیث سے منع کرنے جیسے امور میں سے ہے جوپیغمبرصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے بعد وجود میں آئے۔

۱۴

روایات اہل بیت علیہم السّلام

اہل بیت علیہم السّلام سے بہت زیادہ روایات وارد ہوئی ہیں جن میں نماز میں ہاتھ باندھنے سے منع کیا گیا ہے اور اسے مجوسیوں کاعمل قرار دیا گیا ہے:

١۔((عنحدهما علیهما السّلام قلت: الرّجل یضع یده فی الصلاة ،وحکی الیمنٰی علی الیسرٰی ؟فقال : ذلک التکفیر ، لا تفعل .))(١)

راوی کہتا ہے : میں نے دونوں( امام باقر یا امام صادق علیہما السلام) میں سے کسی ایک سے سوال کیا کہ ایک شخص نماز میں ہاتھ باندھتا ہے اور کہا گیا ہے کہ دایاں ہاتھ بائیں پہ رکھتا ہے اس بارے میں کیا حکم ہے؟آپ نے فرمایا: یہ عمل تکفیر ہے اسے مت بجا لاؤ.

علاّمہ مجلسی اس حدیث کو نقل کرنے کے کہتے ہیں :یہ حدیث حسن اور صحیح کے مانند ہے اور تکفیر سے مراد ہاتھ پر ہاتھ رکھنا ہے جسے اہل سنّت بجا لاتے ہیں اور اس سے نھی کی وجہ اس کا حرام ہونا ہے جیسا کہ ہمارے اکثر علماء کا عقیدہ یہی ہے۔

٢۔عنبی جعفر علیه السّلام : وعلیک بالاقبال علی صلاتک ...ولاتکفّر فانّما یفعل ذلک المجوس )).(٢)

امام باقر علیہ السّلام فرماتے ہیں : نماز کی حالت میں قبلہ کی طرف منہ کرو ...اور تکفیر مت بجالاؤاس لئے کہ یہ مجوسیوں کا عمل ہے ۔

____________________

١۔وسائل الشیعة ٧:٢٦٦،باب ١٥،مؤسسہ آل البیت ؛ مرآة العقول ١٥: ٧٤.

٢ ۔وسائل الشیعة ٥:٥١١،باب١٧،ح٢و ص٤٦٣؛مرآة العقول ١٥:٧٤.

۱۵

((علی بن جعفر قال: قالخی: قال علی بن الحسین علیه السّلام:وضع الرّجل احدٰی یدیه علی الأخرٰی فی الصّلاة عمل ،ولیس فی الصّلاة عمل )).(١)

علی بن جعفر کہتے ہیں میرے بھائی (امام موسٰی کاظم علیہ السّلام )نے بتایا کہ امام زین العابدیں علیہ السّلام نے فرمایا:نماز میں ایک ہاتھ کا دوسرے ہاتھ پر رکھنا ایک طرح کا عمل اور نماز میں کسی قسم کاکوئی عمل جائز نہیں ہے ۔

٤۔علی بن جعفر (عنخیه موسٰی بن جعفر)وسألته عن الرّجل یکون فی صلاتهیضع احدٰی یدیه علی الأخرٰی بکفّهو ذراعه ؟قال:لایصلح ذلک ،فان فعل فلایعود له )).( ٢)

علی بن جعفر اپنے بھائی امام موسٰی کاظم علیہ السّلام کے متعلق نقل کرتے ہیں کہ میں نے ان سے ایسے شخص کے بارے میں سوال کیا جو نماز کی حالت میں ہو .کیا وہ ہاتھ کو کلائی یا بازو پررکھ سکتا ہے ؟ تو انہوں نے فرمایا: یہ عمل درست نہیں ہے اگر انجام دے بیٹھا تو دوبارہ اس کا تکرار نہ کرے۔

٥۔عن علی علیه السّلام فی حدیثربعمأة:قال:لایجمع المسلم یدیه فی صلاته وهوقائم بین یدی الله عزّوجلّ ،یتشبّه بأهل الکفر یعنی المجوس )).(٣)

امام علی علیہ السّلام حدیث اربعماة میں فرماتے ہیں: مسلمان کے لئے جائز نہیں کہ جب نماز کے لئے خدا کی بارگاہ میں کھڑاہو تو اپنے ہاتھوں کواکٹھا کرے چونکہ وہ اپنے اس عمل سے اہل کفر یعنی مجوسیوں کے

____________________

١۔حوالہ سابق.

٢۔حوالہ سابق.

٣۔حوالہ سابق.

۱۶

مشابہ بن جائے گا۔

٦۔ ((عنبی عبد الله علیه السّلام فی حدیث:أنّه لمّا صلّی قام مستقبل القبلة ،منتصبا ،فأرسل یدیه جمیعا علی فخذیه قد ضمّصابعه )).(١)

امام صادق علیہ السّلام کے بارے میں نقل ہوا ہے کہ جب نماز کے لئے کھرے ہوتے تو قبلہ کی طر ف رخ کر کے اپنے ہاتھوں کو رانوں پر رکھتے اور انگلیوں کو ملا لیتے.

٧۔ ((عنبی جعفر علیه السّلام : قال: اذا قمت الی الصلاة فلاتلصق قدمک بالأخرٰی ...وأسد منکبیک وأرسل یدیک ولاتشبّکصابعک ولیکونا علی فخذیک قبالة رکبتیک ...ولا تکفّر فانّما یفعل ذلک المجوس )).(٢)

امام باقر علیہ السّلام فرماتے ہیں: جب نماز کے لئے کھڑے ہو تو پاؤں کونہ ملاؤ ،شانہ کوجھکا لو،ہاتھ کھلے رکھو ،انگلیوں کو ایک دوسرے میں ڈالو اور اپنے ہاتھوں کو رانوں پر رکھو ...اور تکفیر مت بجالاؤ چونکہ یہ مجوسیوں کا شیوہ ہے۔

٨۔ ((المجلسی عن الجامع البزنطی عنبی عبدالله علیه السّلام:فاذاقمت فی صلاتک فاخشع فیها ...ولاتکفّر )).(٣)

علامہ مجلسی جامع بزنطی سے امام صادق علیہ السّلام کے بارے میں نقل کرتے ہیں کہ آپ نے فرمایا:جب نماز کا ارادہ کرو تو خشوع وخضوع کے ساتھ ہو اور تکفیر مت بجا لاؤ۔

____________________

١۔حوالہ سابق.

٢۔وسائل الشیعة ٧: ٢٦٧،باب ١٥،ح٧.

٣۔بحارالأنوار ٨٤:١٨٦،ذیل حدیث ١؛مستدرک الوسائل ٥: ٤٢٠.

۱۷

٩۔ ((القاضی نعمان المصری عن جعفر بن محمد علیه السّلام انّه قال:اذاکنت قائما فی الصّلاة فلا تضع یدک الیمنٰی ،فانّ ذلک تکفیرهل الکتاب ،ولکن ارسلهما ارسالا ،فانّهحرین لا یشغل نفسک عن الصّلاة) )(١)

قاضی نعمان مصری امام صادق علیہ السّلام سے نقل کرتے ہیںکہ آپ نے فرمایا:جب نماز کے لئے کھڑے ہو تو اپنے دائیں ہاتھ کو بائیں پر یا بائیں کو دائیں پر مت رکھو ، چونکہ یہ اہل کتاب کا عمل ہے بلکہ ہاتھوں کو کھلا رکھو .پس مناسب یہی ہے کہ تم اپنے کو نمازکے علاوہ کسی عمل میں مشغول نہ کرو.

١٠۔((عنبی جعفر علیه السّلام قال:قلت له:(( فصلّ لربّک وانحر ))؟قال:النحرالاعتدال فی القیامن یقیم صلبه ونحره .وقال:ولاتکفّر ،فانّما یصنع ذلک المجوس )).(٢)

امام باقر علیہ السّلام سے نقل ہوا ہے کہ آنحضرت سے پوچھا گیا کہ ((فصلّ لربّک وانحر ))سے کیا مراد ہے ؟تو آپ نے فرمایا:نحر کا معنٰی قیام میں اعتدال ہے اس طرح کہ پشت اور گردن کو سیدھا رکھا جائے اور فرمایا: تکفیر مت بجالاؤاس لئے کہ یہ مجوسیوں کا شیوہ ہے۔

____________________

١۔ دعائم الاسلام ١:١٥٩؛مستدرک الوسائل ٥: ٤٢٠.

٢۔اصول کافی ٣:٣٣٧.

۱۸

شیعہ فقہاء کا نظریہ

١۔ شیخ مفید : (نماز میں ) ہاتھ کھلے رکھنے کے بارے میں شیعوں میں اتفاق نظر پایا جاتا ہے.اور اہل کتاب کے مانند تکفیر یعنی ایک ہاتھ کو دوسرے ہاتھ پر رکھنے کو جائز نہیں سمجھتے. اور یہ کہ جو بھی ایسا عمل انجام دے اس نے بدعت کا ارتکاب کیا اور سنّت رسولصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم اورآئمہ طاہرین علیہم السّلام کی مخالفت کی ہے ۔(١)

٢۔سید مرتضٰی:وہ امور جن کے بارے میں یہ گمان کیا جاتا ہے کہ یہ شیعوں کے ساتھ مختص ہیں ان میں سے ایک نماز میں ہاتھ باندھنے کا ممنوع ہونا ہے چونکہ امامیہ کے علاوہ باقی فرقوں کاعقیدہ یہ ہے کہ یہ مکروہ ہے .طحاوی نے فقہاء کے اختلاف کو نقل کرتے ہوئے بیان کیا ہے مالک کے نزدیک اگر مستحب نماز میں رکوع طولانی ہو جائے تو ایسی صورت میں ہاتھ باندھنا جائز ہے اور میرے نزدیک اسے ترک کرنا بہتر ہے۔(٢)

٣۔شیخ طوسی: نماز میںدائیں ہاتھ کابائیں پر یا بائیں کادائیں پر رکھنا جائز نہیں ہے اور مالک سے دو روایات نقل ہوئی ہیں جن میں سے ایک شافعی کے قول کے مطابق ہے جس مٰن نماز میں دائیں ہاتھ کو بائیں پر رکھناجائز قرار دیا گیا ہے اور ابن القاسم والی روایت میں ہاتھ کھولنے کو مناسب تر بیان کیا گیاہے۔

____________________

١۔الاعلام :٢٢،تالیفات شیخ مفید کے ضمن میں یہ کتاب چھپ چکی ہے،ج٩؛کتاب التذکرة ٣:٢٥٣.

٢۔الانتصار :٢٢.

۱۹

اور اس (مالک )سے نقل ہوا ہے کہ اس نے کہا :مستحب نمازوں میں جب قیام طولانی ہو جائے تو ہاتھ باندھنا جائز ہے اوراگر طولانی نہ ہو تو جائز نہیں ہے جبکہ واجب نمازوں میں یہ جائز نہیں ہے ۔نیز لیث بن سعد کا بھی کہنا ہے :اگر تھکاوٹ محسوس ہو تو ہاتھ باندھ سکتے ہیں لیکن اگر تھکاوٹ نہ ہو اسے انجام نہ دیا جائے اور مالک کا بھی یہی قول ہے ۔

ہماری دلیل فرقہ امامیہ کا اجماع ہے اور نمازمیں ہاتھ باندھنے کے مبطل نمازہونے میں ان کے درمیان کسی قسم کا اختلاف نہیں پایا جاتا ۔نیز نماز میں کسی جزو کے ثابت ہونے کے لئے دلیل شرعی کی ضرورت ہوتی ہے جو شریعت مقدّسہ میں موجود نہیں ہے اور احتیاط کا تقاضابھی یہی ہے کہ نماز میں ہاتھ باندھنے سے پرہیز کیا جائے چونکہ اس میں شک نہیں ہے کہ ایسی نماز جس میں ہاتھ نہ باندھے گئے ہوں وہ یقینا صحیح ہے اور دوسری جانب نماز کے صحیح ہونے کا یقین حاصل کرنا واجب ہے۔(١)

٤۔ شیخ بہائی: تکفیر یعنی دائیں ہاتھ کا بائیںپر قرار دینا جسے اہل سنّت بجالاتے ہیں اور اکثر فقہاء نے اس کے بارے میں کے پائے جانے کی وجہ سے اسے حرام قراردیا ہے، کیا یہ مبطل نماز ہے؟اکثر علماء اسے( مبطل نماز)سمجھتے ہیں بلکہ شیخ طوسیاور سید مرتضٰی نے تو اس اجماع ہونے کا دعوٰی کیا ہے۔(٢)

____________________

١۔الخلاف ١:١٠٩.

٢۔الحبل المتین :٤ ١ ٢؛ملاذالأخیار ٣:٥٥٣.

۲۰

۳۔لفظ شیعہ

علم ابجد کے مطابق فرقہ کے معنی میں آیا ہے وہ روایت کہ جس کو شیعہ سنی دونوں نے ذکر کیا ہے اس روایت میں جو نکتہ مضمر ہے وہ بہت ہی اہمیت کا حامل ہے پیغمبراکرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے ارشاد فرمایا: میری امت میرے بعد ۷۳ فرقوں میں تقسیم ہوجائے گی جن میں سے صرف ایک فرقہ ناجی ہے چونکہ تہتر (۷۳) فرقوں میں سے صرف ایک ہی فرقہ حقیقت دین پر گامزن ہوگا باقی بہتر فرقے من مانی کو دین سمجھیں گے جس کی وجہ سے ہلاک ہونگے۔وَ النَّاجِیْ مِنْهَا فِرْقَه وَّاحِدَة (۱)

____________________

۱:بحار الانوار ج۲۸، المناقبص ۳۳۱

۲۱

لفظ شیعہ قرآن مجید میں:

۴۔ شیعہ یعنی تابع قرآن شدن

بندہ مولای انس و جان شدن

قرآن مجید میں شیعہ و مشتقات شیعہ گیارہ مقام پر ذکر ہوئے ہیں:

لفظ ------------ تعداد ----------- سورہ --------- آیت

شیعة ---------- ۱ ------------ مریم ----------- ۶۹

شیعتہ ---------- ۳ ---------- قصص صافات ---------- صافات ۵۳

شیع --------- ۱ ----------- حجر ----------- ۱۰

شیعاً --------- ۴ ------------- انعام قصص روم۔ -------- ۔قصص ۴ روم ۳۲

اشیاعکم ------ ۱ ------------ قمر -------------

باشیاعھم ---------- ۱ ----------- سبا

۲۲

۳۔ شیعہ اصطلاحاً:

شیعہ یعنی دست بیعت با علی

بعد از او با ےازدہ نور جلی

بعض الفاظ ِعرب وضع کے خلاف استعمال ہوتے ہیں اور عرف میں دوسرے معنی میں مشہور ہوجاتے ہیں جیسے لفظ صلاة کو واضع نے دعا کے معنی کے لیے وضع کیا لیکن بعد میں خاص افعال صلاة کہلائے اسی طرح لغت میںکسی لفظ کے معنی کچھ اور ہیں جبکہ عرف میں کسی دوسرے معنی میں مشہور ہوجاتا ہے۔ لفظ شیعہ کا بھی یہی حال ہے۔ لغت میں شیعہ کسی خاص شخص کی پیروی واطاعت کرنے والے گروہ کو کہتے ہیں لیکن اصطلاح میںحضرت علی ابن ابی طالب اورگیارہ اماموں کی پیروی و اطاعت کرنے والوں کو شیعہ کہتے ہیں۔

اگر اصطلاحات شیعہ پر غور و فکر سے کام لیا جائے توچند اختلافات نظر آئیںگے۔ جس کا اختصار کے ساتھ بیان کردینا مناسب ہے۔

الف۔ شہید ثانی رضوان اللہ علیہ فرماتے ہیں کہ: شیعہ وہ ہے کہ جو حضرت علی کا مطیع و فرمانبردار ہو اور حضرت علی کو دیگر تمام اصحاب پیغمبرصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم پر فوقیت دیتا ہو ۔ چاہے باقی گیارہ اماموں کی امامت کا قائل نہ بھی ہو۔

شہید ثانی کی اس تعریف کے مطابق لفظ شیعہ امامیہ، اسماعلیہ، زیدیہ، جارودیہ، واقفیہ، ذوادویہ اور فطحیہ وغیرہ پربھی برابر سے منطبق آئے گا۔چونکہ یہ تمام فرقے حضرت علی کی امامت کے قائل ہیں اور حضرت علی کو اصحاب پر مقدم جانتے ہیں اور باقی ائمہ علیہم السلام کی امامت کے قائل نہیں ہیں.

ب: شہرستانی ملل و نحل میں کہتے ہیں کہ: اصطلاح میں شیعہ ان لوگوں کو کہاجاتا ہے کہ جو حضرت علی کی امامت کے قائل ہوں اور خلافت علی پر نص پیغمبرصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے معتقد ہوں اگرچہ نص جلی ہو یا خفی اور امامت کو علی و اولاد علی یعنی بارہ اماموں میں منحصر جانتے ہوں جن میں اول حضرت علی اور آخر امام زمانہ عجل اللہ تعالے فرجہ الشریف ہیں۔

۲۳

ج: ابن حزم کہتے ہیں کہ جو شخص بھی اس بات کا قائل ہے کہ حضرت علی بعدِ پیغمبرصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم تمام اصحاب رسولصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم اور تمام امت مسلمہ سے افضل واعظم ہونے کے باعث امامت و خلافت کے مستحق ہیںاور علی اورگیارہ امام آیت( يٰا اَيُّهَا الَّذِيْنَ آمَنُوْا اَطِيْعُوا اللّٰهَ الخ ) (۱) کے تحت اولی الامر ہیں جو شخص بارہ اماموں کی امامت و ولایت کاقائل ہے بس وہی شخص شیعہ ہے اگرچہ نظر یاتی حوالے سے اختلاف بھی رکھتا ہو۔

لغوی اصطلاحات و تعریفات پر غور و فکر کرنے کے بعد معلوم ہوتا ہے کہ ابن حزم اور شہرستانی کی تعریفیں دیگر تمام تعریفوں سے بہتر اور اچھی ہیں۔چونکہ ان دو نوںحضرات نے حضرت علی اور دیگر ائمہ اطہار علیہم السلام کے افضل الناس ہونے کا ذکر کیا ہے اور یہ بات شیعہ عقائد میں بنیا د و اساس کی حیثیت رکھتی ہے لہذا فرقہ زیدیہ کو شیعیت کا جزء قرار دینا بعیداز نظر ہے چونکہ فرقہ زیدیہ علوی نظریہ کا قائل ہے اسی لیے یہ فرقہ نص کے اعتبار سے عقیدہ نہیں رکھتے ہیں ان کاحال یہ ہے کہ علوی کی حمایت میں عقل سلیم کو بالائے طاق رکھ کرتلوار سے بات کرتے ہیں۔یہ حمایت کے معاملہ میں تلوار کا سہارا لیتے ہیں اور عقل سلیم کو بالائے طاق رکھ دیتے ہیں ۔جوبھی نسل علوی سے ہو پس اس کو امام مانتے ہیں لہذا اس فرقہ کو شیعہ نام دینا یا جزء شیعہ قرار دیناایک فاحش غلطی ہے۔ حقیقی شیعہ اور واقعی شیعہ کا ذکر بعد میں کریں گے کہ شیعہ کی کتنی اقسام ہیں اور ان کے در میان کیا کیا اختلافات ہیں۔

____________________

۱: نساء /۵۹

۲۴

شیعہ تاریخ کے اوراق میں:

انسان اس دنیا میں جسم وروح ،ظاہر و باطن اور ملک و ملکوت سے مرکب ہے۔ ظاہراً انسان کی زندگی کاآغاز پیدائش کے دن سے ہوجاتا ہے اور مرنے کے دن ختم ہوجاتی ہے۔

لیکن یہ انسان کی حقیقت نہیں ہے حقیقت یہ ہے کہ انسان کی زندگی کا آغاز نہ دنیا کی پیدائش ہے اور نہ ہی مرنے کے بعد ختم ہوجاتی ہے چونکہ دنیا کی حیات و زندگی کی حیثیت تو ایک مسافر کی سی ہے کہ جو اس دنیا کے مسافر خانہ میں مہمان ہے۔ اس دنیا میں آنے سے پہلے انسان کا وجود تھا اور اس دنیا کی حیات کے بعد بھی انسان کا وجود باقی رہے گا لیکن انسان کوکامیابی اور ناکامی اسی حیات دنیوی سے ہی حاصل کرناہے اور انسان کا وجود معنوی عالم ذر سے ہے جس کا وہاں وعدہ لیا گیا ہے۔

( اَلَسْتُ بِرَبِّکُمْ قَالُوْا بَلٰی ) (۱)

شیخ الرئیس ابو علی سینا قصیدہ ہائےة میں کہتے ہیں:

(هَبَطْتُ اِلَيْکَ مِنَ الْمَحَلِّ الْاَرْفَعِ وَرُقَائُ ذَاتِ تُعَزِّزْ وَتَمْنَعْ )(۲)

مرغ باغ ملکوتم نہ یم از عالم خاک

چند روزی قفسی ساختہ اند از بدنم (مولانا )

روح جب جسم انسان سے خارج ہو کرآزاد ہوجاتی ہے تو بدن انسان کو خاک میں دفن کردیا جاتا ہے جسم انسان خاک میں مل جاتا ہے لیکن روح با قی رہتی ہے موت تو روح کو ایک مقام سے دوسرے مقام تک پہنچنے کا ذریعہ بنتی ہیں گویا جسم انسان و حیاتِ جسم انسان ختم ہوجاتی ہے لیکن روح انسان کو زندگی اور بقاء حاصل ہے۔

____________________

۱:سورہ مبارکہ الاعراف ۱۷۲ ۲: شرح نہج البلاغہ ج۷ ص ۳۹۹

۲۵

حجاب چہرہ جان می شود غبار تنم

خوشا دمیکہ از این چہرہ پردہ برفکنم

چنین قفس نہ سراے چو من خوش الحانی است

روم بہ گلشن جنت کہ مرغ آن چمنم

لیکن یہ انسان کی ناسمجھی ہے کہ انسان اس دنیا میں حیات مادی کوہی اپنی اصل حیات سمجھ بیٹھے ہیں حالانکہ انسان کی حقیقت تو اس سے بالاتر ایک اورشے ہے۔ ایک عالَم کو حیات دنیا کے ذریعے طے کیا جاتا ہے اور ایک عالَم میںموت کے بعد جانا ہے اگر حضرت انسان اپنی زندگی میںسیر تکوینی کو جذب کر لیتا ہے تو انسان اپنے اندر خدا کی بہت سی آیات و نشانیاں پاتا ہے اس موقع پر انسان سمجھ جاتا ہے کہ خداوند عالم نے بنی نوع انسان کی پیدائش پر مبارکبادی کیوں دی تھی!

( فَتَبَارَکَ اللّٰهُ اَحْسَنُ الْخَالِقِيْن ) (۱)

مولائے موحّدین امیر المومنین فرماتے ہیں:۔

اے لوگو! تم یہ نہ سمجھناکہ تم ایک چھوٹاسا جسم مادی رکھتے ہیں بلکہ تم اپنے اندر ایک بہت بڑا جہان رکھتے ہیں اور عجائب خداوند عالم اور اسرار خداوند ی کے معدن و خزانہ ہیں او رتمہارے اندر عالم کے عجیب و غریب اسرار پوشیدہ ہیں۔

دَوَائُکَ فِيْکَ وَ مَا تَشْعُرُ

وَدَائُکَ مِنْکَ وَلَا تَنْظُرُ

أَ تَزْعَمُ اَنَّکَ جِرْم صَغِيْر

وَفِيْکَ انْطَوٰی الْعَالَمُ الْاَکْبَرُ

وَ اَنْتَ الْکِتَابُ الْمُبِيْنُ الَّذِی

بِاَسْطَارِه يَظْهَرُ الْمُضْمَرُ(۲)

____________________

۱:سورہ مومنون، ۱۴

۲: ہزار ویک داستان ص ۵۵۱

۲۶

اس تما م گفتگو پر غور و فکر کریں تو اس نتیجہ تک بآسانی پہنچ سکتے ہیں کہ تاریخ شیعہ کا تعلق فقط دنیا سے ہی نہیں ہے (جیسا کہ بعض افراد کا کہنا ہے کہ پیغمبر اسلام کی تشریف آوری پروجود میں آیا ہے) حالانکہ تاریخ شیعہ کا وجود اس عالم دنیا سے پہلے بھی تھا جس کو ہم تاریخ نوری شیعہ یا شیعہ کی نورانی تاریخ سے تعبیر کرتے ہیں. اگرچہ شیعہ اسی دنیا کے شیعہ کو کہا جاتا ہے لیکن ایسا نہیں ہے جس کی وضاحت اجمالی طور پر ہدیہ قارئیں کرتے ہیں پس تاریخ شیعہ کودو حصوں میں بیان کیا جا سکتا ہے.

۱۔ تاریخ نوری شیعہ

۲۔ تاریخ ظاہری شیعہ

تاریخ نوری وظاہری شیعہ

۱۔ تاریخ نوری شیعہ کا آغاز اس وقت ہے کہ جب خالق تھا لیکن مخلوق نہ تھی۔ شیعوں، پیشواؤںاور اماموں سے اس کائنات کی تخلیق کا آغاز ہوا جس کے ثبوت میں چند احادیث نمونے کے طور پر پیش کی جاتی ہیں:۔

۱۔ پیغمبر اسلامصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے فرمایا:

اَوَّلُ مٰا خَلَقَ اللّٰهُ نُوْرِی (۱) کُنْتُ نَبِیاً وَّ آدَمُ بَيْنَ الْمٰائِ وَ الطِّيْنِ (۲)

سب سے پہلی مخلوق جو وجود میں آئی وہ میرا نور ہے جبکہ ابھی آدم کی تخلیق بھی نہ ہوئی تھی میںمقام نبوت پر فائز تھا۔

۲۔رسول اکرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی طرح امیر المؤمنین علی ابن ابی طالب نے فرمایا ہے :(کُنْتُ وَلِیاًوَّ آدَمُ بَيْنَ الْمٰائِ وَ الطِّيْنِ (۳) کہ میں اس وقت مومنین کا امیر و امام تھا کہ جب آدم ابوالبشر آب و گل کے درمیان تھے.

____________________

۱:بحار الانوار جلد، ۱، ص ۹۶، ینابیع المودة ، جلد ۱، ص ۴۵

۲:بحار الانوار جلد، ۱، ص ۹۶، ینابیع المودة ، جلد ۱، ص ۴۵ ۳:جامع الاسر ا ر ۴۶۰

۲۷

پیغمبر اسلامصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے فرمایا: (اگر لوگ یہ جان لیتے کہ علی کب سے امیر المؤمنین ہیں تو فضائل علی کا انکار نہ کرتے اس لیے کہ علی اس وقت امیر المؤمنین تھے کہ جب آدم کی خلقت بھی نہیں ہوئی تھی۔

۳۔ عالم اہلسنت سلیمان بن ابراہیم قندوزی نے نقل کیا ہے کہ پیغمبر اکرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے فرمایا کہ حضرت آدم ابوالبشر کی خلقت سے چودہ ہزار سال پہلے خداوند عالم نے میرے اور علی کے نور کو خلق کیا اور ہم خداوند متعال کے ذکر میں مشغول تھے اس سلسلہ کے اوربھی بہت سی احادیث ہیں لیکن ہم انہیں پر اکتفا کرتے ہوئے انہیں احادیث پر کچھ روشنی ڈالیں گے۔

اول:

پیغمبرصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کا نوراور علی کا نور ایک ہے تو یہ نورعظمت الہی سے خلق ہوا۔ (( اَللّٰهُ نُوْرُ السَّمٰوٰاتِ وَ الْاَرْضِ ) (۱) ۔

رسولصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم اور علی کا نور میں متحد ہونا اس بات کی دلیل ہے کہ رسولصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم مقام نبوت میں اول ہیں اور علی مقام امامت میں اول ہیں اور یہ دونوں فضائل اور کمالات سے پر ہیں امیر المؤمنین نفس رسول اور عین رسول ہیں جیساکہ قرآن مجید میں خدا وند عالم سورہ آل عمران میں ارشادفرمارہا ہے :

( ''فَقُلْ تَعَالَوْا نَدْعُ اَبْنَائَنَا وَ اَبْنَائَکُمْ وَنِسَائَنَا وَ نِسَائَکُمْ وَ اَنْفُسِنَا وَ اَنْفُسَکُمْ'' ) (۲)

جب رسول گرامی اسلامصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نصارائے نجران سے مباہلہ کے لیے چلے تو رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے فرمایا کہ علی نفس رسول ہیں.

____________________

۱:سورہ نور، ۳۱

۲:سورہ مبارکہ آل عمران، ۶۱

۲۸

اس آیت کی تفسیر میں شیعہ سنی دونوں فرقوں نے متفق علیہ لکھا ہے کہ نفس سے مراد ذات علی ابن ابی طالب علیہ السلام ہے۔

روایت میں ہے کہ جب رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم سے درخواست کی گئی کہ آپ اپنے ممتاز اصحاب اور شاگردوں کا تعارف کرائیں تو رسول اکرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے اپنے چند اصحاب و شاگردوں کا نام لیا لیکن علی کا نام نہیں لیا۔ تو راوی نے سوال کیا کہ آپ نے علی کا نام نہیں لیا؟ رسولصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے فرمایا کہ تو نے اصحاب و شاگردوں کے بارے میں سوال کیا تو میں نے جواب دے دیافرما یا: علی میری جان ہے علی میرا نفس ہے علی میری آنکھ ہے، عرب کے مشہورشاعر مرحوم اذری اس مقام پر کہتے ہیں :

(هُمَا ظُهْر الشَّخْصَيْنِ وَ النورُ وَاحِد

بِنَصِّ حَدِيْثِ النَّفْسِ وَ النُّورِ فَاعْلَمَنَّ)

شیخ عطار نیشاپوری کہتے ہیں

تو نور احمد و حیدر یکی دان

کہ تا گردد بہ تو اسرار آسان

حکیم سنائی کہتے ہیں۔

ہر دو ز یک صدف بودند

ہر دو پیرایہ شرف بودند.

دوم:

سب سے پہلے پیغمبر اسلامصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کا نور خلق ہوا اور باقی تمام موجودات عالم کی خلقت اسی نورکی برکت سے ہوئی ۔ لہذا شیخ سلیمان قندوزی حنفی کہتے ہیں کہ: سب سے پہلے پیغمبر اسلامصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کا نور مقدس پیدا ہوا اس نور نے تمام عالم ملکوتی اور جبروت پر احاطہ کر لیا۔ اس لیے افضل الانبیاء ختمی المرتبت کامل ترین فرد اور دین محمد دین اسلام ہے جو قیامت تک باقی رہے گا۔

علامہ دیار بکری علماء اہلسنت میں سے ایک جید عالم ہیں کہتے ہیں: کوئی پیغمبر اسلامصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم جیسا صاحب کمال پیدا نہیں ہوا ہے اورہر نبی نے پیغمبر اسلامصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے ملکوتی نور سے کسب فیض کیا ہے۔

۲۹

سویم:

خاتم الانبیأ و خاتم الاوصیاء علی ابن ابی طالب ایک ہی نور میں متحد ہیں تو جس طرح سب سے پہلے نور رسولصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم خلق ہوا اسی طرح سب سے پہلے علی کا بھی نور خلق ہوا۔ رب العزت نے سب سے پہلے نورمحمدصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم و نور علی کو خلق کیا ہے او ر انہیں کے نور کے طفیل میں تمام کائنات کی خلقت ہوئی ہے لہذا تمام ہستی نے اسی نور کی برکت سے خلقت پائی ہے۔

(لَوْلَاکَ لَمَا خَلَقْتُ الْاَفْلَاکَ وَ لَوْلَا عَلِیّ لَمَا خَلَقْتُکَ وَ لَوْلَا فَاطِمَةُ لَمَا خَلَقْتُکُمَا )(۱)

آدم سے عیسیٰ تک تمام کے تمام انبیاء انھیںہستیوں کے نمک خوار ہیں۔ رزق مادی ہو یا معنوی انہیں کی برکت سے ملتا ہے۔

چہارم:

تمام انبیاء اور اوصیاء علیہم السلام خداوند کریم کے مقرب بندے ہیں انہیں قرب الہی کا کمال حضرت محمد مصطفے صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم اور علی مرتضی علیہ الصلوة والسلام کے برکت سے ملا ہے علامہ قندوزی اور

____________________

۱:فاطمة بھجة قلب نبی، علامہ مرندی، ملتقی البحرین ص ۱۴

۳۰

علامہ بکری اہل سنت کے دو بزرگ علماء ہیں ان کے مطابق تمام انبیاو اور اوصیاء کو کمالات رسول گرامی خدا اور علی مرتضی کی وجہ سے حاصل ہو گئے ہیں۔ پس ثابت ہوا نور محمدصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم اور نور علی دونوں ایک ہیں اورتمام انبیاء و اوصیاء و اولیاء مکتب علی بن ابی طالب کے شاگرد اور مطیع و فرمانبردار ہیں پیغمبر اسلامصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے فرمایا : شب معراج خداوند عالم کے پیغمبر وں نے مجھ سے سوال کیا۔ آپ نے کونسا عمل انجام دیا جس کی وجہ سے آپ کو معراج کے شرف سے مشرف کیا گیا اور آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کو خدا نے روئے زمین پر افضل الناس اور سید المرسلین قرار دیا؟تو رسول گرامی اسلام نے انبیاء ما سلف کے سوالوں کے جواب میں فرمایا:کہ میں نے خداوند رب العزت اور آپ سبھی انبیاء کرام اور ولایت علی ابن ابی طالب کو اپنے لئے سرلوحہ عقیدہ اور راہ عمل قرار دیا۔

مرحوم شیخ کاظم ازری نے اس روایت کو اس طرح سے تحریر کیا ہے۔

وَ اَسْأَلُ الاَنْبِيَائَ تُنْبِئُکَ عَنْهُ

اَنَّه سِرُّهَا الَّذِی نَبَّاَهٰا

وَ هُوَ عَلَامَةُ الْمَلَائِک فَاسْأَلْ

رُوحَ جَبْرَئِيْلَ عَنْهُ کَيْفَ هَدَاهٰا(۱)

فواد کرمانی کہتے ہیں۔

زنسیم فیض کریم تو

دم عیسی آمدہ جانفزا

بہ کف کلیم زقدرتت

دگر آن عصا شدہ اژدھا

بتو یونس آمدہ ملتجی

کہ خلاص گشتہ ز ابتلا

زتوجہ تو خلیل را شدہ نار برد مبردا

____________________

۱: دیوان ص ۶۱

۳۱

میرزا محمد قمی نے کتنا خوبصورت شعر کہا ہے۔

سرخوش از ساغر سرشار ولایت چو شدیم

پیر ما ختم رسل ساقی ما مولا بود.

شجر طور ولایت علی عمرانی

کہ تجلی رخش راہبر موسی بود

مژدہ مقدم جانپرور او داد مسیح

دم قدسیش از آنروے روان بخشا بود

نہ ہمین یار نبی بد کہ بھر دور معین

انبیاء را ہمہ از آدم تا عیسی بود

نوح را ہمت او داد نجات از طوفان

ورنہ تا روز جزا رہسپر دریا بود

پنجم:

تمام انبیاء اور اولیا ء الٰہی حضرت آدم ابو البشرسے لیکر قیامت تک جو بھی زیور وجود سے مزین ہوگا وہ نور پیغمبرصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم اور علی کی برکت سے خلق ہوگا اور جس کو جس قسم کے بھی کمالات حاصل ہونگے وہ محبت و ولایت اہلبیت محمدصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی وجہ سے حاصل ہونگے لہذا پیغمبر اسلام اور علی ابن ابی طالب دونوں شیعہ ہیں چنانچہ آیہ شریفہ( اِنَّ مِنْ شِيْعَتِه لَاِبْرَاهِيْم ) (۱) کے ضمن میں حضرت امام جعفر صادق نے فرمایا :ای مِنْ شِيْعَتِه لَاِبْرَاهِيْم (۲) یعنی حضرت ابراہیم خلیل اللہ جو اولوالعزم پیغمبرصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم تھے حضرت علی کے شیعہ و پیرو کار تھے۔ یہ حضرت ابراہیم کے لیے

____________________

۱: صافات ، ۸۳ ۲: تاویل آیات طاہرہ ص۴۸۵، البرھان ج۴، بحار ج ۳۶ حدیث ۱۳۱

۳۲

سب سے بلند مرتبہ اور افتخار و امتیاز ہے کہ ابراہیم علی کے شیعہ ہیں اس بات کے ثبوت وتصدیق میں عجیب و غریب واقعات نقل ہو ئے ہیں یہاں پر زیادہ تفصیل کی گنجایش نہیں ہے

حضرت امام صادق نے فرمایا کہ: حضرت ابراہیم خلیل اللہ کو حضرت علی کی عظمت و بلند مرتبہ کا علم ہوا اور شیعیان حیدر کرار کی فضیلت اور علامت معلوم ہوئی تو ابراہیم نے بارگاہ خداوندی میں ہاتھوں کو بلند کرکے دعا کی کہ خداوندا! مجھے بھی شیعیان حیدر کرار علی ابن ابی طالب میں سے قراردے خدا نے ابراہیم کی یہ دعا قبول کی جس کا قرآن مجید میں بھی خداوند عزوجل نے اعلان کیا ہے( اِنَّ مِنْ شِيْعَتِه لَاِبْرَاهِيْم )

ہست ابراہیم در وحی مبین

شیعہ مولا امیر المومنین

ششم:

تمام انبیاء اور اولیاء الٰہی کے ساتھ ساتھ تمام عام انسان بھی عالم ذر میں خداوند متعال کی وحدانیت پیغمبراسلامصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی نبوت و رسالت اور علی ابن ابی طالب کی ولایت و محبت و مودت کو قبول کرکے علی کے شیعہ ہو گئے تھے۔

روز نخست این گل مرا کہ سر شتند

نام نکوی تو بر دلم بنوشتند

اس لیے امام صادق نے فرما یا ہے کہ: قیامت کے دن جو نجات پائیں گے وہ ہمارے شیعہ ہیں جنھیں پیغمبر اسلام اور ہم ائمہ اطہار کی وجہ سے نجات دی جائے گی اور تما م افراد اہل عذاب اور اہل ہلاکت ہونگے کہ قیامت کے دن صرف پیغمبر اسلام، ہم آئمہ طاہرین اورہمارے شیعہ ہی نجات پائیں گے۔

۳۳

حدیث کے معنی یہ ہیں کہ تمام انبیاء اور اولیاء موحدین حضرت آدم سے لیکر حضرت عیسی تک حضرت ختمی المرتبت اور اہل بیت محمدصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے شیعہ ہیں لہذا نجات کا استحقاق رکھتے ہیں۔

اس مختصر سی کتاب میں تفصیل کی گنجائش نہیں ہے اور نہ ہی بندہ ناچیز میں اتنی جرأت ہے کہ اس علم و عرفان کے سمندر میں غوطہ زن ہو سکوں۔

اس وقت اتنے ہی بیان پر اکتفا کرتا ہوں پھر کسی موقع پر فرصت کے میسر ہونے پر مولائے کائنات علی ابن ابی طالب کی تائید و نصرت سے اس گلستان روح افزا میں سیر کریں گے اور بوستان گل آل محمدصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی نکہت و خوشبو سے اپنے دل و دماغ و عقیدہ کو معطر کریں گے فی الحال اپنے قارئیں کرام سے ان خوبصورت اشعار کے ساتھ طالب رخصت ہوں۔

شیعہ یک موسی است در دریاے نیل

شیعہ یک کعبہ است پیش قوم فیل

شیعہ در درےای آتش چو خلےل

بے نےازی می کند از جبرئیل

شیعہ ہر جا پاگذارد با علی است

اول و آخر کلامش یا علی است

۳۴

ائمہ اطہار معدن علم الہی

ہم زیارت جامعہ میں یہ جملہ پڑھتے ہیں:اَلسَّلَامُ عَلَيْکُمْ يٰاخُزّانَ الْعِلْمِ (۱) ہمارا سلام ہو آپ پر اے معدن علم الہی۔

خزان العلم کیا چیز ہے؟

ہمارے ائمہ کا ایک عظیم پہلو یہ ہے کہ وہ علم الہی کے خزینہ دار ہیں۔ یہ جملہ ہم مختلف زیارتوں میں بھی پڑھتے ہیں اور یہ جملہ معصومین علیہم السلام کے فرامین میں بھی ملتا ہے کہ خزّان علم وہ حضرات ہیں ۔خزان بر وزن رمّان خازن کی جمع ہے یعنی خزینہ دار اور علم کے عام معنی کبھی آگاہی ہے لیکن یہ چیز ضرور جاننا چاہیے کہ یہ علم کے خزانہ دار ہیں وہ کونسا علم ہے؟

مناسب سمجھتا ہوں کہ اس علم کی تفسیر اور تشریح کرنے سے پہلے چند روایات جو خود معصومین علیہم السلام کی طرف سے وارد ہوئی ہیں ذکر کروں:

۱۔ حضرت امام باقر علیہ السلام فرماتے ہیں ۔ (نَحْنُ خُزّانُ عِلْمِ اللّٰهِ وَ نَحْنُ تَرَاجِمَةُ وَحْیِ اللّٰهِ )۔ہم خزانہ دار علم الٰہی ہیں ۔ہم ترجمان وحی خدا ہیں۔(۲)

۲۔ حضرت امام جعفر صادق علیہ السلام فرماتے ہیں(نَحْنُ شَجَرَةُ الْعِلْمِ وَ نَحْنُ اَهْلُ بَيْتِ نَبِیّ اللّٰهِ وَ فی دَارِنٰا مَهْبِطُ جَبْرَئِيْلٍ وَ نَحْنُ خُزّانُ عِلْمِ الْعَامِّ وَ عَنْ مَعَادِنِ وَحْیِ اللّٰهِ... ''(۳)

ہم علم کے درخت ہیں۔ ہم اھل بیت نبوت ہیں ۔ہمارا گھر ہی جبرئیل امین کی رفت و آمد کی جگہ تھی ۔ہم

____________________

۱: زیارت جامعہ کبیرہ مفاتیح الجنان ص ۶۹۹ ۲:منہاج البلاغہ خطبہ ۲۳۹ ۳: امالی شیخ صدوق ص ۲۵۲

۳۵

خداوند عالم کے علم کے خزانہ دار ہیں۔ ہم معدن وحی الٰہی ہیں۔ جو بھی ہماری اطاعت کرے گاوہ نجات پائے گا اورجو بھی ہمارے حکم کی مخالفت کرے گا نابود ہوجائیگا، ہم ہی سنت خداوندی ہے۔

۳۔ حضرت امام زین العابدین علیہ السلام فرماتے ہیں:لوگ ہماری فضیلت کاکیوں انکار کرتے ہیں؟ خدا کی قسم ہم ہی نبوت کے درخت ہیں۔ ہمار ے گھر رحمت کے گھر ہیں ، علم کے خزانے اور ملائکہ کی رفت و آمد کی جگہ ہیں۔

یہ چند روایات ہزاروں روایات میں سے چند نمونے ہیں جو اہل بیت رسالت کی طرف سے ہم تک پہنچے ہیں لہذا ان روایتوں میں علم کسی قید اور شرط کے بغیر ذکر ہوا ہے لہٰذا اس جملہ کی مناسب انداز میں تشریح اور تفسیر کی جائے۔

علم خداوندی:

لاریب خداوند عالم پوری کائنات کا عالم الغیب و الشہادت ہے ظاہر اور باطن سب کا جاننے والا ہے خداوند عالم کا علم، علم حضوری ہے ۔ پورے عالم کا علم خدا کے سامنے ہے بنی نوع انسان کا علم تو محدود ہے لیکن پروردگار عالم کا علم پورے جہان ہستی پر سایہ فگن ہے۔

۳۶

علم غیب کی اقسام:

حضرت امام باقر علیہ السلام سے مروی ہے :خداوند عالم کا علم دو قسم کا ہے (اِنَّ لِلّٰهِ تَعٰالٰی عِلْماً خَاصّاً وَ عِلْماً عَامّاً ) خداوند عالم کا علم دو قسم پر مشتمل ہے :

۱۔علم مخصوص ۲۔علم عام

(فَاَمَّا الْعِلْمُ الْخَاصُّ فَالْعِلْمُ الَّذی لَمْ يَطَّلِعْ عَلَيْهِ مَلَائِکَةُ الْمُقَرِّبِيْنَ وَ اَنْبِيَائُ الْمُرْسَلِيْنَ

علم خاص و ہ علم ہے جو صرف پروردگار عالم تک محدود ہے یہ علم فقط ذات رب العزت سے تعلق رکھتا ہے لیکن علم عام وہ علم ہے جس سے ملائکہ مقربین اور انبیاء مرسلین آگاہی رکھتے ہیں اور یہی وہ علم ہے جو پیغمبراکرم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم سے ہم تک پہنچا ہے۔

وہ روایات جو علم غیب فقط پروردگار عالم سے تعلق رکھنے پر دلالت کرتی ہیں وہ علم خاص کے بارے ہیں نہ کہ علم عام کی بابت ۔یہاں پر بعض متکلمین اور دانشمندوں نے اشتباہ کیا ہے جس کی وجہ سے لوگوں کے در میان علم غیب سے متعلق شبھہ پیدا ہوا اور کہا کہ غیب کا علم فقط ذات پروردگار کو ہے۔

۳۷

انشاء اللہ یہاں پر دونوں علوم کے بارے میں قرآنی آیات اور احادیث کا ذکرکریں گے.

۱۔( وَ عِنْدَه مَفَاتِحُ الْغَيْبِ لَا يَعْلَمُهَا اِلَّا هُوَ ) (۱)

۲۔( قَالَ اِنَّمَا الْعِلْمُ عِنْدَ اللّٰهِ ) )(۲)

۳۔( قُلْ لَا يَعْلَمُ مَنْ فی السَّمٰوَاتِ وَ الْاَرْضِ الْغَيْبَ اِلَّا اللّٰه ) (۳)

۴۔( فَقُلْ اِنَّمَا الْغَيْبُ لِلّٰهِ ) (۴)

ترجمہ: ۱۔اس کے پاس غیب کے خزانے ہیں جنھیں اس کے علاوہ کوئی نہیں جانتا۔

۲۔کہہ دیجئے !کہ علم تو بس خدا کے پاس ہے۔

۳۔کہہ دیجئے !کہ تما م غیب کا علم پروردگار کو ہے۔

۴۔تو آپ کہہ دیجئے! کہ تمام غیب کا علم پروردگار کو ہے ۔

دوسری آیات بھی اس ضمن میں موجود ہیں۔

یہی وہ آیات ہیں جو علم حضوری اور علم خاص کے بارے میںہیں جن میں علم غیب کوخداوند کریم میں حصر کیاگیا ہے مالک حقیقی وہی ہے وہ جسے چاہے دے اورجسے چاہے نہ دے

____________________

۱:انعام، ۵۹

۲:احقاف، ۲۳

۳:نمل ، ۶۵

۴:یونس، ۲۰

۳۸

( ذٰلِکَ فَضْلُ اللّٰهِ يُؤتِيْهِ مَنْ يَّشَآئُ وَ اللّٰهُ ذُو فَضْلٍ عَظِيْم ) (۱) ۔اس علم کے زمام دار خداوند قدوس ہے اس کی ملکیت اورسلطنت سے باہر نہیں جا سکتا مگر یہ کہ وہ جس کے اوپر ظاہر کرنا چاہے مثل (کُنْتُ کَنْزاً مَخْفِیاً)کے ظاہر فرما دیتا ہے۔

دوسرا قسم: علم عام وہ علم ہے جو خداوند عالم اپنے برگزیدہ اور مصطفی بندوں کو عنایت کرتا ہے۔

(( عَالِمُ الْغَيْبِ فَلاَ يُظْهِرُ عَلٰی غَيْبِه اَحَداً اِلَّا مَنِ ارْتَضٰی مِنْ رَسُوْل ) (۲)

خداوند عالم علم غیب سے آگاہ ہے اور کسی بندے کو نہیں بتا تا مگر یہ کہ اپنے مرتضے اور مصطفے بندوں کو عنایت فرماتا ہے۔ اور دوسری آیت میں بھی ذکر ہے۔( وَ مَا کَانَ اللّٰهُ لِيُطْلِعَکُمْ عَلَی الْغَيْبِ وَ لٰکِنَّ اللّٰهَ يَجْتَبی مِنْ رُّسُلِه مَنْ يَّشَاء ) )(۳)

اور وہ تم کو غیب پر مطلع بھی نہیں کرنا چاہتا ،ہاں اپنے نمائندوں میں سے بعض لوگوں کو اس کام کیلئے منتخب کر لیتا ہے۔

پروردگاراپنے مخصوص بندوں کو غیب کے حالات سے باخبر کرتا رہتا ہے لیکن انھیں یہ ہدایت رہتی ہے کہ اس علم کو صرف مخصوص مواقع پرہی استعمال کرناہے اور باقی سارے کام ظاہری قوانین کے مطابق انجام دیناہے۔

بنیادی طور پر ہمارے آئمہ معصومین علیہم السلام خداوند رب العزت کی اجازت سے غیب پر علم رکھتے ہیں اور یہ ہمارے دین کے بنیادی عقائد میں سے ہے اس حوالے سے یہاں پر نمونے کے طور پر چند مثالیں عرض کردینا ضروری ہے:

۱۔حضرت نوح علیہ السلام کی پیشن گوئی جو اپنی قوم کے بارے میں اظہار فرمایا کہ: یہ قوم دوبارہ

____________________

۱:سورہ جمعہ آیت ۴ ۲:سورہ جن، آیت ۲۶ ۳:سورہ آل عمران آیت ۱۷۹

۳۹

ہدایت یافتہ نہیں ہوگی اگر باقی زندگی رہی بھی تو یہ لوگ کفر او ر الحاد میں زندگی بسر کریں گے.

سورہ نوح آیت نمبر ۲۷ اور ۲۸،سورہ انعام آیت نمبر ۸۵،سورہ یوسف آیت نمبر ۴ اور ۶

سور ہ یوسف آیت نمبر ۴۱ اور ۳۶،سورہ ہود آیت نمبر ۶۵،سورہ نمل آیت نمبر ۱۶، ۱۸، ۱۹

حضرت ابراہیم کی زمین اور آسمان کے متعلق آگاہی

حضرت یعقوب کا یوسف کے بارے میں آگاہی رکھنا

حضرت یوسف کا آئندہ زندان میں جانے کے حوالے سے خبردار کرنا

حضرت صالح کی پیشن گوئی کہ ناقہ صالح کے مارنے کے بعد تین دین سے زیادہ زندہ نہ رہنا،

حضرت سلیمان کا حیوانات سے گفتگو کرنا بھی علم غیب میں شامل ہے

حضرت عیسی کی معلومات جو لوگ گھروں میں کھانے یا ذخیرہ و غیرہ کرنے کے حوالے سے معروف ہیں۔

حضرت پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کا آئندہ کے بارے میں علم غیب سے آگاہی اور پیشن گوئی کرنا جن میں سے چند ایک درجہ ذیل ہیں:۔

۱۔انسان طاقت نہیں رکھتا کہ اس قرآن کا مثل لیکر آئے۔

۲۔رومیوں کا ایران پر غلبہ اور تسلط حاصل کرنا۔

۳۔خداوند عالم اپنے پیغمبرکو ہر قسم کے شر سے محفو ظ رکھے گا۔

۴۔منافقین کی حرکات اور سکنات کے بارے میں خبر دینا۔

۵۔قرآن مجید کبھی بھی محرّف نہیں ہوگا۔

۶۔اسلام پورے عالم پر حکومت کرے گا۔

یہ وہ نمونے اور مثالیں ہیں جنہیں قرآن مجید نے بیان کیا ہے اور یہ علم غیب کے بارے میں ہیں۔

البتہ غیب کے بارے میں خبر دینے کا ذکر پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم اور ائمہ معصومین علیہم السلام کی جانب سے بہت زیادہ کتابوں میں درج ہے مثلا اس حوالے سے تین جلد کتابیں بعنوان الاحادیث الغیبہ لکھی گئی ہیں۔

۴۰

۴۱

۴۲

۴۳

۴۴

۴۵

۴۶

۴۷

۴۸

۴۹

۵۰

۵۱