وہابیت عقل و شریعت کی نگاہ میں

وہابیت عقل و شریعت کی نگاہ میں0%

وہابیت عقل و شریعت کی نگاہ میں مؤلف:
زمرہ جات: ادیان اور مذاھب
صفحے: 274

وہابیت عقل و شریعت کی نگاہ میں

مؤلف: ڈاکٹر سید محمد حسینی قزوینی
زمرہ جات:

صفحے: 274
مشاہدے: 137187
ڈاؤنلوڈ: 3375

تبصرے:

وہابیت عقل و شریعت کی نگاہ میں
کتاب کے اندر تلاش کریں
  • ابتداء
  • پچھلا
  • 274 /
  • اگلا
  • آخر
  •  
  • ڈاؤنلوڈ HTML
  • ڈاؤنلوڈ Word
  • ڈاؤنلوڈ PDF
  • مشاہدے: 137187 / ڈاؤنلوڈ: 3375
سائز سائز سائز
وہابیت عقل و شریعت کی نگاہ میں

وہابیت عقل و شریعت کی نگاہ میں

مؤلف:
اردو

۶۔ابن حجر مکی کا ابن تیمیہ کو گمراہ اورگمراہ کن قراردینا :

اہل سنت کے بہت بڑے عالم ابن حجر مکی متوفی ۹۷۴ھ ابن تیمیہ کے بارے میں لکھتے ہیں : (ابن تیمیة عبد خذله الله ، واصله واعماه ، واصمه واذله ، وبذلک صرح الائمة الذین بینوا فساد احواله وکذب اقواله ...واهل عصرهم وغیرهم من الشافعیة والمالکیة والحنفیة ...والحاصل انه مبتدع ،ضال، مضل ، غال ، عاملها الله بعد له واجارنا من مثل طریقته )

علماء اہل سنت کے نزدیک ابن تیمیہ ایسا شخص ہے جسے خدا وندمتعال نے ذلیل ، گمرا ہ ، اندھا اورپست قراردیاہے ، اس کے معاصر اورغیر معاصر شافعی ، مالکی اورحنفی پیشوائوں نے اس کے فاسد احوال اورجھوٹے اقوال کو بیان کیا ہے ...نتیجہ یہ کہ اس کے اقوال کی کوئی اہمیت نہیں اوروہ ایک بدعت گزار ، گمراہ کن اور غیر معتدل انسان تھا خدا اس سے عادلانہ سلوک کرے اور ہمیں اس کے عقیدہ اوراس کے راہ ورسم کے شرسے محفوظ رکھے۔(۱)

____________________

(۱)الفتاوی الحدیثہ ص:۸۶

۸۱

۷۔ابن تیمیہ کو شیخ الاسلام کہنا کفر ہے :

اہل سنت کے بزرگ عالم شوکانی کہتے ہیں : (صرح محمد بن محمد البخاری الحنفی المتوفی سنة ۸۴۱بتبدیعه ثم تکفیر ه ، ثم صار یصرح فی مجلسه :ان من اطلق القول علی ابن تیمیة انه شیخ الاسلام فهو بهذاالاطلاق کافر )( ۱ )

محمد بن محمد بخاری حنفی متوفی ۸۴۱ھنے ابن تیمیہ کے بدعت گزار اورکافر ہونے کی وضاحت کی ہے یہاں تک کہ ایک مجلس میں آشکارا طور پر کہا :جو شخص ابن تیمیہ کو شیخ الاسلام کہے وہ کافر ہے ۔

۸۔ابن بطوطہ کا ابن تیمیہ کو مجنون قرار دینا :

مراکش کا مشہور سیاح ابن بطوطہ اپنے سفر نامہ میں لکھتا ہے : (وکان بدمشق من کبار الفقها ء الحنابلة تقی الدین بن تیمیة کبیر الشام یتکلم فی الفنون الا ان فی عقله شیء )

دمشق میں حنبلیوں کے ایک بڑے عالم کو دیکھا جو مختلف فنون کے بارے میں گفتگو کرتا مگر یہ کہ اس کی عقل سالم نہیں ہے۔( ۲ )

____________________

(۱)البدر الطالع ۲:۸۶۔

(۲)رحلة ابن بطوطہ ۱:۵۷

۸۲

ابن تیمیہ کی گوشہ نشینی کے عوامل اوراس کے افکار کے دوبارہ رشد کے اسباب

منطقہ شامات جو ابن تیمیہ کے علم کا گہوارہ تھا وہاں پر مختلف مذاہب کے علماء ودانشوروں کی ابن تیمیہ کے باطل افکار کی مخالفت اوراعتراضات اس کے گوشہ نشین ہونے کا باعث بنے اوراسی کے باعث اس کے عقائدو نظریات خاموشی کی بھینٹ چڑھ گئے ۔

لیکن بارہویں صدی ہجری میں منطقہ نجد میں محمد بن عبدالوھاب کے توسط سے مختلف اسباب کے تحت اس کے عقائد نے دوبارہ رشد پائی :

۱۔منطقہ نجد تمدن وثقافت سے بے بہرہ اورایسی علمی شخصیات سے خالی تھا جو محمد بن عبدالوھاب کے منحرف عقائد کا مقابلہ کرسکتیں ۔

۲۔منطقہ نجد میں حکومت کے مسئلہ پر قبیلوں میں شدید اختلاف پایاجاتا تھا ، محمد بن عبدالوھاب نے اس موقع سے فائدہ اٹھاتے ہوئے محمد بن سعود شاہ فھد کے جد اعلی سے فوجی اورثقافتی عہدوپیمان باندھا کہ محمد بن سعود اس کے افکار کی حمایت کرے گا اوروہ اپنے فتووں کے ذریعے اس کی حکومت کے وسیع ہونے کے لئے راہ ہموار کرے گا ۔

۳۔استعمار ی طاقت اورخصوصا برطانوی فوجی مشیروں کی حمایت نے وھابی ثقافت کے پھیلانے میں بہت زیادہ کردار ادا کیا ۔

محمد بن عبدالوھاب کی زندگی پر ایک مختصر نظر

۱۔ابن تیمیہ کے افکا رکاباقاعدہ پر چار :

محمد بن عبدالوھاب ۱۱۵۵ھمیں نجد کے ایک شہر عیینہ میں پیدا ہوا وہیں پہ فقہ حنبلی کی تعلیم حاصل کی اور پھر مزید علوم کی تحصیل کے لئے مدینہ منورہ کا رخ کیا ۔

وہ طالب علمی کے دور میں ہی ایسے ایسے مطالب زبان پر لاتا جو اس کے فکری انحراف کی نشاندہی کرتے تھے یہاں تک کہ اس کے بعض اساتذہ اس کے مستقبل کے بارے میں پر یشانی کا اظہار کرتے ۔

۸۳

کہا جاتا ہے کہ وہ فرقہ وھابیت کا بانی ومئوسس نہیں ہے بلکہ ایسے عقائد صدیوں پہلے حنبلی علماء مانند ابن تیمیہ اوراس کے شاگردوں کی جانب سے بیان ہوچکے تھے لیکن علماء اہل سنت اورشیعہ کی مخالفت کی وجہ سے خاموشی کا شکار ہوگئے ، اہم ترین کام جو محمد بن عبد الوھاب نے کیا وہ یہ تھا کہ اس نے ابن تیمیہ کے عقائد کو ایک جدید فرقہ یا مذہب کی صورت میں پیش کیا جو اہل سنت کے چاروں مذاہب اور مذہب شیعہ سے بالکل الگ تھا ۔

۲۔محمد بن عبدالوھاب کا نبوت کے جھوٹے دعویداروں سے لگائو :

وہ شروع میں نبو ت کے جھوٹے دعویداروںمانند مسیلمہ کذاب ، سجاج ، اسود عنسی اورطلیحہ اسدی کے زندگی ناموں کامطالعہ کرنے سے بہت لگائو رکھتا تھا ۔( ۱ )

۳۔آغاز ترویج وہابیت اور لوگوں کی مخالفت :

محمد بن عبدالوھاب اپنی تبلیغ کے آغاز میں بصرہ گیا اوروہاں پہ اپنے عقائد کا اظہار کیا تو بصرہ کے سرداروںنے سخت مخالفت کی ۔

ڈاکٹر منیر عجلانی لکھتا ہے :

(وتجمع علیه اناس فی البصرة من رئوساء ها وغیرهم بآذوه اشدالاذی واخرجو ه منها )بصرہ کے سرداروں اورعوام نے اس کے خلاف وقیام کیا اوراسے شہر سے نکال ڈالا۔( ۲ )

وہاں سے بغداد ، کردستان ، ہمدان اوراصفہان روانہ ہوا ۔( ۳ )

اوربالآخر اپنی پیدایش گاہ کی طرف واپس پلٹ گیا ، وہ اپنے باپ کی زندگی میں اپنے عقائد کے اظہار کی جرئت نہیں رکھتا تھا

____________________

(۱)کشف الارتیاب :۱۲، نقل از خلاصة الکلام

(۲)تاریخ العربیة السعودیة :۸۸.

(۳)وہ چار سال بصرہ ، پانچ سال بغداد ، ایک سال کردستان ، دوسال ہمدان میں رہا اورکچھ عرصہ اصفہان اورقم میں گذارا اس کے بعد اپنے والد کی رہائش گاہ حریملہ جاپہنچا ، (وھابیت مبانی فکری وکارنامہ عملی :۳۶)

۸۴

لیکن ۱۱۵۳ھ میں باپ کی وفات کے بعد اس نے اپنے عقائد کے اظہار کے لئے راہ ہموار دیکھی اورلوگوں کو جدید آئین کی دعوت دی۔( ۱ )

لیکن لوگوں کے اعتراضات بلکہ اس کے قتل کا پروگرام باعث بنا کہ وہ مجبوراً اس جگہ کو ترک کرے اوراپنی پیدائش گاہ عیینہ جائے ، وہاں کے امیر عثمان بن معمر سے پیمان باندھا کہ دونوں ایک دوسرے کا زور بازوبنیں گے لہٰذا اس کی حمایت سے اپنے عقائد کی برملا تبلیغ کرنے لگا لیکن زیادہ عرصہ نہ گزراکہ حاکم عیینہ نے احساء کے فرمانرواکے دستور پر اسے شہر سے نکال دیا ۔

محمد بن عبدالوھاب نے مجبور ہوکر درعیہ میں رہائش رکھی اورمحمد بن سعود حاکم درعیہ کے ساتھ جدید پیمان باندھا کہ حکومت محمد بن سعود کی ملکیت ہوگی اورتبلیغ کی ذمہ داری محمد بن عبدالوھاب کے ہاتھ ہوگی۔

۴۔زیارت گاہ صحابہ اورخلیفہ دوم کے بھائی کی قبر کا خراب کرنا :

سب سے پہلا کام جو محمد بن عبدالوھاب نے انجام دیا وہ عیینہ کے اطراف میں صحابہ واولیاء کرام کی قبروں کو ویران کرنا تھا جن میں سے ایک قبر خلیفہ دوم کے بھائی زید بن خطاب کی تھی ۔( ۲ )

____________________

(۱)زعماء الاصلاح فی عصرالحدیث :۱۰تاریخ العربیة السعودیة :۹، تاریخ نجد آلوسی : ۱ ۱ ۱

(۲)عنوان المجد فی تاریخ نجد :۹، براھین الجلیة فی رفع تشکیکات الوھابیة :۴،ھذہ ھی الوھابیة :۱۲۵،السلفیة بین اھل السنة والامامیة :۳۰۷

۸۵

علماء ورئو سا کی شدید مخالفت کی نباء پر حاکم عیینہ نے ناچار ہو کر اسے شہر سے نکال دیا جیسا کہ پہلے اشارہ کرچکے ہیں کہ بارہویں صدی ہجری میں مسلمان انتہا ئی نامناسب اورسخت حالات سے گزررہے تھے اسلامی ممالک چاروں طرف سے استعمار ی طاقتوں کے حملوں کا شکار بنے ہوئے تھے اور مرکز اسلام کو برطانیہ ، فرانس ، روس اورامریکہ کی طرف سے خطرات لاحق تھے ۔

ایسے زمانہ میں کہ جب مسلمانوں کو مشترک دشمن کے مقابلہ میں بے حداور وحدت اتحاد کی ضرورت تھی لیکن افسوس کہ محمد بن عبدالوھاب نے مسلمانوں کو انبیاء واولیائے الھی سے توسل کے جرم میں مشرک اور بت پرست قراردے کرا ن کے کفر کا فتوی دیا ، ان کا خون حلال ، قتل جائز اوران کے مال کو جنگی غنیمت شمار کیا ، اس کے پیروکاروں نے اس فتوی کی پیروی کرتے ہوئے ہزاروں بے گناہ مسلمانوں کو خون میں لت پت کیاکہ جس کا تذکرہ بعد والی فصل میں کیاجائے گا ۔

۸۶

محمد بن عبدالوھاب اورعلماء اہل سنت

۱۔اس کے اساتذہ کی طرف سے اس کی گمراہی کی پیش بینی :

مفتی اعظم مکہ مکرمہ احمد زینی دحلان متوفی ۱۳۰۴ھج لکھتے ہیں :

فاخذ عن کثیر من علماء المدینه منهم الشیخ محمد بن سلیمان الکردی الشافعی والشیخ محمد حیاة السندی الحنفی وکان الشیخان المذکوران وغیر هما من اشیاخه یتفرسون فیه الالحادوالضلال، ویقولون :سیضل هذا ، ویضل الله به من ابعد ه واشقاه ، وکان الامر کذلک ، وما اخطات فراسهم فیه )( ۱ )

محمد بن عبدالوھاب نے بہت سے علمائے مدینہ مانند شیخ محمد سلیمان کردی شافعی اور شیخ محمد حیات سندی حنفی سے علمی استفادہ کیا ، یہ دونوں استاد ابتدا ء ہی سے اس کے اندر بے دینی اورگمراہی کے آثار محسوس کررہے تھے اورکہا کر تے تھے کہ وہ گمراہ ہوجائے گا اورا س کے ہا تھوں رحمت خدا سے دور اورشقی لوگ بھی گمراہ ہوں گے ان کی یہ پیش گوئی بالکل درست ثابت ہوئی ۔

۲۔محمد بن عبدالوھاب کا باپ بھی اس کی گمراہی کاگمان کرتا :

احمد زینی دحلان لکھتے ہیں :

(وکان والده عبدالوهاب من العلماء الصالحین فکان ایضا یتفرس فی ولده المذکور الالحادویذمه کثیراویحذرالناس منه ).( ۲ )

محمد بن عبدالوھاب کا باپ نیک علماء میں سے تھا اور وہ بھی دوسرے علماء کے مانند اپنے بیٹے میں الحادوبے دینی کے آثار کو محسوس کرتا اوراس کی شدید مذمت اورلوگوں کو اس سے بچنے کا حکم دیتا تھا۔

____________________

(۱)الدررالسنیة فی الرد علی الوھابیة :۴۲

(۲) حوالہ سابق

۸۷

۳۔محمد بن عبدالوھاب کے بھائی کا اس سے سخت رویہ :

مفتی مکہ مکرمہ زینی دحلان لکھتے ہیں :(وکذا اخوه سلیمان بن عبد الوهاب فکان ینکر مااحد ثه من البدع والضلال والعقائد الذائغة ، وتقدم انه الف کتابا فی الردعلیه ).( ۱ )

محمد بن عبدالوھاب کا بڑا بھائی سلیمان بھی اس کی بدعات ، گمراہی اورمنحرف عقائد کا انکار کرتا اوراس نے اس کے عقائد کی رد میں ایک کتاب بھی لکھی ۔( ۲ )

دوسرے مقام پر لکھا ہے :(کان محمد بن عبد الوهاب الذی ابتدع هذه البد عة یخطب للجمعة فی مسجد الدرعیة ویقول فی کل خطبة :ومن توسل بالنبی فقد کفر ، وکان اخوه الشیخ سلیمان بن عبد الوهاب من اهل العلم فکان ینکر علیه انکارا شدید ا فی کل مایفعله ، او یامربه ولم یتبعه فی شئی مما ابتدا عه،وقال له اخوه سلیمان یوما : کم ارکان الاسلام یامحمد بن عبدا لوهاب ؟!فقال :

____________________

(۱)ایضا

(۲)]اس کتاب کا نام (الصواعق الالھیة فی الرد علی الوھابیة )ہے جو ابوطالب علیہ السلام اسلامک انسٹیٹیوٹ لاہور کی کاوشو ں سے اردو زبان میں ترجمہ وتحقیق کے ساتھ شائع ہوچکی ہے ، یہ وھابیت کے خلاف لکھی جانے والی سب سے پہلی کتا ب ہے (مترجم)[

۸۸

خمسة ، فقال :انت جعلتها ستة ، السادس من لم یتبعک فلیس بمسلم ، هذا عندک رکن سادس للاسلام ۔( ۱ )

محمد بن عبدالوھاب درعیہ میں جمعہ کا خطبہ دیا کرتااورہر مرتبہ خطبے میں کہاکرتا :پیغمبرصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم سے توسل کفر ہے ، اس کا بھائی شیخ سلیمان بھی اہل علم تھا اس کی ہر ہر بات اورہرہر عمل کی سخت مخالفت کرتا اوراس کی بدعات میں سے کسی ایک میں بھی اس کی پیروی نہ کرتا ۔

ایک دن سلیمان نے اپنے بھائی محمد سے سوال کیا اسلام کے ارکان کتنے ہیں ؟محمد نے جواب دیا پانچ ،اس وقت سلیمان نے کہا:تونے تو چھ بنارکھے ہیں اور چھٹا یہ کہ جو تیری پیروی نہ کرے وہ مسلمان ہی نہیں ۔

۴۔محمد بن عبدالوھاب کے بھائی کا قتل سے خوفزدہ ہونا :

احمد زینی دحلان کہتے ہیں :

ولما طال النزاع بینه وبین اخیه خاف اخوه ان یامر بقتله فارتحل الی المدینه المنورة والّف رسالة فی الرد علیه وارسلها له فلم ینته والّف کثیر من علماء الحنابلة وغیر هم رسائل فی الرد علیه وارسلوها له فلم ینته ( ۲ )

____________________

(۱)الدررالسنیة فی الردعلی الوھابیة :۳۹

(۲)ایضا

۸۹

جب سلیمان اوراس کے بھائی محمد کے درمیان اختلاف حد سے تجاوز کرگیا تو سلیمان اس خوف سے مدینہ منورہ ہجرت کرگیا کہ کہیں اس کا بھائی اس کے قتل کا حکم نہ دے دے وہاں پہ اس نے اس کی رد میں ایک رسالہ لکھا اوراسے بھیج دیا ، اسی طرح بہت سے حنبلی اورغیر حنبلی علماء نے بھی اس کی رد میں رسالے لکھے اوراسے بھجوائے لیکن کسی ایک نے بھی اسے فائدہ نہ دیا ۔

رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی ظہور وہابیت کی پیشگوئی

اہل سنت کی معتبر کتب کے اندر پیغمبرصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم سے ایسی روایات نقل کی گئی ہیں جن میں آنحضرتصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے وھابی فرقہ کے ظاہر ہونے کی طرف اشارہ فرمایا:جیسا کہ صحیح بخاری میں عبداللہ بن عمر سے نقل کیاگیا ہے کہ وہ کہتے ہیں :

ذکر النبی صلی الله علیه وسلم ، اللهم بارک لنا فی شامنا ، اللهم بارک لنا فی یمننا قالوا:وفی نجدنا،قال اللهم بارک لنا فی شامنا، اللهم بارک لنا فی یمننا،قالوا :وفی نجدنا ، قال اللهم بارک لنا فی شامنااللهم بارک لنا فی یمننا ، قالوا یارسول الله وفی نجدنا ؟فاظنه قال فی الثالثة :هناک الزلازل والفتن وبها یطلع قرن الشیطان .( ۱ )

____________________

(۱)کتاب الفتن ،باب ۱۶، باب قول النبیصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم :الفتنُ من قبل المشرق

۹۰

ترجمہ: آنحضرتصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے فرمایا : اے اللہ !ہمارے ملک شام میں ہمیں برکت دے، ہمارے یمن میں ہمیں برکت دے۔ صحابہ نے عرض کی اور ہمارے نجد میں ؟ آنحضرتصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے پھر فرمایا: اے اللہ!ہمیں ہمارے شام میں برکت دے، ہمیں ہمارے یمن میں برکت دے صحابہ نے عرض کی اور ہمارے نجد میں ؟ میرا خیال ہے کہ آنحضرتصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے تیسری مرتبہ فرمایا: وہاں زلزلے اور فتنے ایجاد ہوں گے اور وہیں سے شیطان کی سینگ طلوع ہوگی۔( ۱ )

اہل سنت کے بہت بڑے عالم عینی جس نے صحیح بخاری کی شرح لکھی وہ کہتے ہیں : شیطان کی شاخ سے مراد اس کا گروہ اورٹولہ ہے ۔( ۲ )

اسی طرح بخاری نے اپنی صحیح میں ابو سعید خدری کے واسطے سے پیغمبرصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کا فرمان نقل کیا ہے کہ آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے فرمایا:

یخرج ناس من قبل المشرق ویقرء ون القرآن لا یجاوز تراقیهم یمرقون من الدین کما یمرق السهم من الرمیة ثم لا یعودون فیه حتی یعود السهم الی فوقه ، قیل ما سیما هم ، قال سیما هم التحلیق اوقال : التسبید .( ۳ )

____________________

(۱)صحیح بخاری۸:۷۰۹۴۹۵۔کتا با لفتن،باب۱۶،باب قول النبی صلی الله علیه وآله و سلم:؛الفتنة من قبل المشرق ،

(۲)عمدة القاری شرح صحیح بخاری ۷:۵۹۔وبنجد یطلع قرن الشیطان ایء :امتہ وحزبہ ،

(۳)صحیح بخاری ج۸ :۲۱۹۔۷۵۶۲۔

۹۱

ترجمہ: مشرق سے کچھ لوگ قیام کریں گے جو قرآن کی تلاوت تو کریں گے مگر قرآن ان کے حلق سے نہ اترے گا، یہ لوگ دین سے اسی طرح خارج ہوجائیں گے جس طرح تیر کمان سے خارج ہوتا ہے اور پھر دین کی طرف پلٹ کرنہ آئیں گے جس طرح تیر پلٹ کر نہیں آتا۔

عرض کیاگیا: ان کی نشانی کیا ہوگی؟ فرمایا: وہ اپنے سر کے بال صاف کرتے ہوں گے۔

زینی دحلان مفتی مکہ مکرمہ اس حدیث کی طرف اشارہ کرنے کے ضمن میں لکھتے ہیں :

(ففی قوله سیماهم التحلیق تصریح بهذه الطائفة لانهم کانوا یامرون کل من اتبعهم ان یحلق راسه ولم یکن هذا الوصف لاحد من طوائف الخوارج والمبتدعة الذین کانوا قبل زمن هئولاء )( ۱ )

پیغمبر اکرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے فرمان میں اس گروہ کی آشکار ترین نشانی (سرمنڈوانا) ہے اوریہ فرقہ وھابیت کی طرف واضح اشارہ ہے ، اس لئے کہ یہی وہ تنہا فرقہ ہے جو اپنے پیروکا روں کو سرمنڈوانے کا حکم دیتا ہے اوریہ صفت وہابیوں سے پہلے خوارج یا بدعت گزار فرقوں میں سے کسی ایک کے اندر نہیں دیکھی گئی ہے ۔

وہ آگے چل کرلکھتے ہیں :

____________________

(۱)فتنة الوھابیة ۱۹

۹۲

(وکان السیدعبدالرحمن الاهدل مفتی زبید یقول :لاحاجة الی التالیف فی الرد علی الوهابیة بل یکفی فی الرد علیهم قوله صلی الله علیه وسلم سیما هم التحلیق ، فانه لم یفعله احد من المبتدعة غیرهم )

مفتی منطقہ زبید سید عبدالرحمن اہدل کہا کرتے کہ وہابیوں کے عقائد کو رد کرنے کے لئے کتاب لکھنے کی ضرورت نہیں ہے بلکہ یہی حدیث پیغمبرصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم جس میں اس فرقہ کی پہچان (سرمنڈوانا )بیان کی گئی ہے ان کے عقید ہ کے باطل ہونے پر کافی ہے اس لئے کہ وہابیوں کے سواکسی بھی بدعت گزار فرقے میں یہ صفت نہیں پائی جاتی۔

(واتفق مرة ان امراة اقامت الحجة علی بن الوهاب لمااکر هو ها علی اتباعهم ففعلت،امرها ابن عبد الوهاب ان تحلق راسها فقالت له حیث انک تامرالمراة بحلق راسها ینبغی لک ان تامر الرجل بحلق لحیته ، لان شعر راس المراة زینتها وشعر لحیة الرجل زینته فلم یجد لها جوابا )( ۱ )

ایک دن محمد بن عبدالوھاب نے ایک عورت کو سرکے بال منڈوانے کا حکم دیا تو اس عورت نے اس سے کہا : تو جو عورتوں کو سرمنڈوانے کا حکم دیتا ہے تو مردوں کو

____________________

(۱)فتنة الوھابیة :۱۹

۹۳

ڈاڑھی منڈوانے کا حکم دے اس لئے کہ جس طرح مرد کی زینت اس کی ڈاڑھی ہے اسی طرح عورت کی زینت اس کے سرکے بال ہیں محمد بن عبدالوھاب کوئی جواب نہ دے پایا۔

ابن تیمیہ کی عقائد کے رد میں لکھی جانے والی کتب اہل سنت

ابن تیمیہ کے ہم عصر اہل سنت کے بعض بڑے بڑے علماء نے اپنی اپنی کتب میں اس کے عقائد پر اعتراض کیا ہے اور بعض نے اس کے عقائد کی رد میں مستقل کتب تالیف کی ہیں جیسے :

تقی الدین سبکی متوفی ۷۵۶ھ نے ابن تیمیہ کے عقائد کی رد میں دوکتابیں لکھیں ایک کا نام (الدرة المضیةفی الرد علی ابن تیمیہ )اوردوسری کانام (شفاء السقام فی زیارة خیرالانام )ہے ۔

اس کتاب کی شرح معروف حنفی فقیہ ملاعلی قاری متوفی ۱۰۱۴ھ مقیم مکہ نے انتہائی محققانہ انداز میں لکھی اوراس کانام (شرح شفاء السقام )رکھا۔

محمد بن ابوبکر اخنائی متوفی ۷۶۳ھ نے ایک کتاب بنام (المقالة المرضیة فی الرد علی ابن تیمیه )لکھی جس میں معتبر احادیث اورمحکم ادلہ کے ساتھ ابن تیمہ کے عقائد کو رد کیا۔

جب ابن تیمیہ نے یہ کتاب پڑھی تو اس کی رد میں ایک کتاب لکھی جس کانام (رداخنائی )ہے ۔

شیخ الاسلام مدینہ علی بن محمد سمہودی شافعی مصری متوفی ۹۱۱ ھ نے ایک گراںبہا کتاب لکھی جس کانام (وفاء الوفاء باخبار دارالمصطفی )رکھا ، اس نے اس کتاب میں زیارت پیغمبر ، شفاعت ، توسل اورآنحضرتصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم سے استغاثہ پر تفصیل کے ساتھ محققانہ بحث کی ہے ۔

۹۴

مذکورہ بالاکتب کے علاوہ بھی علمائے اہل سنت نے ابن تیمیہ کے عقائد کی رد میں کئی ایک کتب تالیف کی ہیں جن میں سے چند ایک کی طرف اشارہ کررہے ہیں : (خیرالحجة فی الرد علی ابن تیمیہ فی العقائد ۔ تالیف : احمد بن حسین بن جبرئیل شھاب الدین شافعی )(الدره المضیئة فی الرد علی ابن تیمیه )تالیف :محمد بن علی شافعی دمشقی کمال الدین معروف ابن زملکانی متوفیٰ ۷۲۷.

(دفع الشبّه من شبّه وتمرّد )تقی الدین ابوبکر حصنی دمشقی متوفی ۸۲۹ھ کی لکھی ہوئی ۔یہ کتاب مکتبة الازھر یة للتراث سے شائع ہوئی اورپھر ۱۴۱۸ھ میں تحقیق اورفہرست کے ساتھ (دفع الشبه عن الرسول صلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم )کے نام سے دوبارہ شائع ہوچکی ہے ۔

(الرد علی ابن تیمیه )تالیف :عیسی بن مسعود منکاتی۔

(الرد علی ابن تیمیه فی الاعتقادات )تالیف : محمد حمید الدین حنفی دمشق فرغانی (ردعلی الشیخ ابن تیمیہ )تالیف :شیخ نجم الدین بن ابوالدربغدادی

(الرد علی ابن تیمیه فی الاعتقادات )تالیف : محمد حمید الدین حنفی دمشقی فرغانی ۔(ردعلی الشیخ ابن تیمیہ )تالیف: شیخ نجم الدین بن ابوالدربغدادی ،

۹۵

(رسالة فی الرد علی ابن تیمیه فی التجسیم والاستواء والجهة )تالیف :شیخ شھاب الدین احمد بن یحیی کلابی حلبی متوفی ۷۳۳، معاصر ابن تیمیہ ۔

(رسالة فی الرد علی ابن تیمیه فی مسالة حودث لااول لها ) تالیف :شیخ بہاء الدین عبدالوھاب بن عبدالرحمن اخمینی شافعی معروف مصری متوفی ۷۶۳ ھ،یہ کتاب ۱۹۹۸ئ میں دارالسراج عمان اردن سے سعید عبدالطیف کی تحقیق اورعبارات کی شرح کے ساتھ چھپ ہوچکی ہے ۔

(رسالة فی مسئلة الزیارة فی الرد علی ابن تیمیه )تالیف : محمد بن علی مازنی (سیف الصیقل فی رد ابن تیمیه وابن قیم )تالیف : تقی الدین سبکی متوفی ۷۵۶ھ یہ کتاب بھی مصر میں چھپ ہوچکی ہے ۔

(شرح کلمات الصوفیه اوالردعلی ابن تیمیه )تالیف: محمود غراب۔

اس کتاب میں ابن عربی اورصوفیوں کے بارے میں ابن تیمیہ کے اقوال کو رد کیاگیاہے ۔

(فتاوی الحدیثة )تالیف : احمد شھاب الدین بن حجرھیثمی مکی متوفی ۹۷۴ھ اس کتاب کا اصلی نسخہ ۱۹۹۶ئ میں استنبول سے چھپ چکا ہے ۔

اس کتاب کی رد میں نعمان بن محمود آلوسی بغدادی متوفی ۱۳۱۷ھ نے ایک کتاب بنام (جلاء العینین فی محاکمة الاحمد ین )لکھی (المقالات السنیة فی کشف ضلالات ابن تیمیة )تالیف :شیخ عبداللہ بن محمد بن یوسف ہروی معروف حبشی مفتی ہرو(صومالیہ کا ایک منطقہ )متوفی ۱۳۲۸ھ ۔یہ کتاب دارالمشاریع بیروت سے چوتھی بار ۱۹۹۸ء میں شائع ہوئی ہے ۔

(نجم المهترین برجم المعتدین فی رد ابن تیمیة )تالیف: فخربن معلم قرشی۔

۹۶

ابن تیمیہ کے عقائد کی ردمیں لکھی جانے والی کتب شیعہ

علامہ تہرانی نے اپنی مایہ نازکتا ب(الذریعه )میں ابن تیمیہ کی کتاب منہاج السنة کے جواب میں لکھی جانے والی علماء شیعہ کی کئی ایک کتب کانام ذکر کیا ہے جیسے: (الانصاف فی الانتصاف لا هل الحق من الاسراف )یہ کتاب آٹھویں صدی ہجری کے ایک عالم بزرگوار کی لکھی ہوئی ہے جو ۷۵۷ھ میں مکمل ہوئی لیکن اس پر مولف کا نام درج نہیں کیا گیا ہے ۔( ۱ )

اس کتاب کا ایک نسخہ کتابخانہ بزرگ ایران میں موجود ہے ۔( ۲ )

(اکمال المنة فی نقض منهاج ا لسنة ) تالیف :شیخ سراج الدین حسن یمانی معروف فداحسین ۔

(منهاج الشریعة )تالیف :دانشور مجاہد سید مھدی موسوی قزوینی متوفی ۱۳۵۸م (البراهین الجلیة فی کفر ابن تیمیة )تالیف :سید حسن صدر کاظمی متوفی ۱۳۵۴۔ (الامامة الکبری والخلافة العظمی )تالیف :سید محمد حسن قزوینی متوفی ۱۳۸۰۔یہ کتاب آٹھ جلد وں پرمشتمل ہے ۔

اوران کی دوسری کتاب (البراهین الجلیة فی رفع تشکیکات الوهابیة )اس کتاب کا ترجمہ مولف توانمند جناب آقائے دوانی رضوان اللہ علیہ نے کیا اوراس کانام (فرقہ وھابی وپاسخ بہ شبہات آنھا )رکھا۔

تقریبا بیس ۲۰مستقل کتابیں علمائے شیعہ کی جانب سے ابن تیمیہ کے عقائد کی رد میں تالیف ہوچکی ہیں ۔

____________________

(۱)(آقا بزرگ تہرانی لکھتے ہیں:(لم یذکر المولف اسمه بل ذکر فی اوله ابن تیمیه تعصب فی القول والخطاب فی نقضه لمنهاج الکرامة وقال بالهوی المحض وهو داب المفلس العادم للجحة، الذاهب التایة عن المحجة ، الذریعه ۱۱:۱۲۲

(۲)کتابخانہ آستانہ قدس رضوی مشہد ،شمارہ کتاب ۵۶۴۳، کتاب کانہ ملی تہران شمارہ ۴۸۵، کتاب خانہ ادانشکدہ حقوق تہران شمارہ ۱۳۰، نقل از مجلہ تراثنا شمارہ ۱۷:۱۵۳)

۹۷

فصل سوم

وہابیوں کا عملی کارنامہ

طول تاریخ میں وھابیوں کے مظالم

۱۔نجد میں وھابیوں کا قتل وغارت کرنا:

محمد بن عبدالوھاب نے مسلمانوں پرکفر ، شرک اوربدعت کی تہمت لگاکر عرب بادیہ نشینوں کو ان کے خلاف جہاد پراکسایا اورمحمد بن سعود کی مدد سے لشکرآمادہ کیاجس نے مسلمانوں کے شہروں اوردیہاتوں پرحملے کرکے لوگوں کا قتل عام کیا اوران کے اموال کوجنگی غنیمت کے نام پرغارت کیا ۔( ۱ )

اس فصل میں نجدکے علاقہ میں اورریاض کے اطراف میں وھابیوں کے ظالمانہ قتل عام کے چندنمونوں کی طرف اشارہ کریں گے ۔

____________________

(۱)تاریخ نجد :۹۵فصل سوم غزوات ، تاریخ آل سعود۱:۳۱؛تاریخچہ نقد وبررسی وھابی ھا :۱۳۔۷۶

۹۸

الف۔مسلمانوں کا قتل عام، درختوںکاکاٹنااوردکانوں کی لوٹ مار:

مورخ آل سعود ابن بشرعثمان بن عبداللہ نے نجدکے علاقہ میں آغاز دعوت وھابیت اورشرک کے اتہام میں بے گناہ لوگوں کے قتل عام کے بارے میں لکھا ہے۔

عبدالعزیز ایک گروہ کے ہمراہ اہل ثادق سے جہاد کے قصد سے نکلا، وہاں کا محاصرہ کیا کچھ نخلستانوں کو قطع کیا اوران کے کچھ افراد کو قتل کردیا ،( ۱ )

اس کے بعد عبدالعزیز جہاد کی نیت سے(خرج)کی طرف چلااورمنطقہ دلم میں آٹھ۸مردوں کوقتل کیا، مال سے بھری دکانوں کولوٹا اورپھر سرزمین لعجان ، ثرمدا، دلم اورخرج کی طرف بڑھا ، کچھ لوگوں کو قتل کیا اوربہت زیادہ تعداد میں اونٹ غنیمت کے طور پر لے گئے۔( ۲ )

____________________

(۱)سار عبد العزیز رحمة الله غازیا بجمیع المسلمین وقصد بلد ثادق ونازلهم وحاصر هم ووقع بینهم قتال وقطع شیئا من نخیلهم فاقام علی ذلک ایاما، وقتل من اهل البلد ثمانیةرجال ،وقتل من المسلمین ثمانیة رجال عنوان المجد :۳۴

(۲)غذا عبدالعزیز الی الخرج فاوقع باهل الدلم وقتل من اهلها ثمانیة رجال ونهبوا بهادکاکین فیهااموال ، ثم اغاروا علی اهل بلد نفجان وقتلواعودة بن علی ورجع الی وطنه، ثم بعد ایام سارعبدالعزیز بجیوشه الی بلد (ثرمدا )وقتل من اهلها اربعة رجال واصیب من الغزومبارک بن مزروع ، ثم ان عبدالعزیز کرراجعا وقصد (الدولم) و (الخرج)فقاتل اهلها وقتل من فزعهم سبعة رجال وغنم علیهم ابلاکثیرا عنوان المجد :۴۳

۹۹

ب۔کھیتوں کوآگ لگانا:

ابن بشر آگے چل کرلکھتا ہے :

عبدالعزیز جہاد کے قصد سے (منفوحہ )میں داخل ہوا ، ان کے کھیتوں کو آگ لگادی اوربہت زیادہ مقدار میں جواہرات ، گوسفند اور اونٹ غنیمت بنائے اوردس افراد کو بھی قتل کردیا۔( ۱ )

ج۔حاملہ عورتوں کے بچوں کا ساقط ہونا:لشکر عبدالعزیز رات کے وقت منطقہ (حرمہ )میں داخل ہوا اورعبداللہ بن عبدالعزیز کے فرمان پرطلوع فجر کے بعد توپچیوں نے ایک ساتھ ملکر شہرکی طر ف گولہ باری شروع کی ،گولہ باری کی خوفناک آواز سے شہرپرلرزہ طاری ہوگیا یہاں تک کہ حاملہ عورتوں کے حمل ساقط اورلوگ وحشت زدہ ہوگئے ،شہر کا محاصرہ کرلیاگیالوگ نہ تو مقابلے کی توان رکھ سکتے تھے اورنہ ہی فرارکاکوئی امکان تھا ۔( ۲ )

د۔اہل ریاض کا بھوک اورپیاس سے مرجانا:

ابن بشرریاض پروہابیوں کے حملے کے بار ے میں لکھتا ہے :

____________________

(۱)غذاعبدالعزیز منفوحة واشعل فی زروعهاالنار؟!واخذکثیرا من حللهم وغنم منهم ابلاکثیراوقتل من الاعراب عشرة رجال عنوان المجد:۴۳.

(۲)اتوابلاد حرمة فی اللیل وهم هاجعون ...فلماانفجر الصبح امرعبدالله علی صاحب بندق یثورها فثورواالبنادق دفعة واحدة فارتجت البلد باهلها وسقط بعض الحوامل ، ففزعواواذاالبلاد قدضبطت علیهم ولیس لهم قدرة ولامخرج عنوان المجد:۶۷.

۱۰۰