وہابیت عقل و شریعت کی نگاہ میں

وہابیت عقل و شریعت کی نگاہ میں21%

وہابیت عقل و شریعت کی نگاہ میں مؤلف:
زمرہ جات: ادیان اور مذاھب
صفحے: 274

وہابیت عقل و شریعت کی نگاہ میں
  • ابتداء
  • پچھلا
  • 274 /
  • اگلا
  • آخر
  •  
  • ڈاؤنلوڈ HTML
  • ڈاؤنلوڈ Word
  • ڈاؤنلوڈ PDF
  • مشاہدے: 163871 / ڈاؤنلوڈ: 5549
سائز سائز سائز
وہابیت عقل و شریعت کی نگاہ میں

وہابیت عقل و شریعت کی نگاہ میں

مؤلف:
اردو

1

2

3

4

5

6

7

8

9

10

11

12

13

14

15

16

17

18

19

20

21

22

23

24

25

26

27

28

29

30

31

32

33

34

35

36

37

38

39

40

41

42

43

44

45

46

47

48

49

50

51

52

53

54

55

56

57

58

59

60

61

62

63

64

65

66

67

68

69

70

71

72

73

74

75

76

77

78

79

80

81

82

83

84

85

86

87

88

89

90

91

92

93

94

95

96

97

98

99

100

ففراهل الریاض فی ساقته الرجال والنساء والاطفال لایلوی احد علی احد ، هربوا علی وجوههم الی البریة فی السهباء قاصدین الخروج وذلک فی فصل الصیف ، فهلک منهم خلق کثیرجوعا وعطشا.

اہل ریاض نے جیسے ہی لشکر وھابیت کے حملے کی خبر سنی تو مرد، عورتیں اوربچے سب صحرا کی طرف بھاگ نکلے لیکن چونکہ گرمی کاموسم تھا لہٰذا بہت زیادہ لوگ بھوک اورپیاس کی وجہ سے ہی جان دے بیٹھے ۔( ۱ )

ھ۔بھاگ نکلنے والوں کوقتل کرنا :

ابن بشرمزید لکھتاہے :

فلمادخل عبدالعزیزالریاض وجدها خالیة من اهلها الاقلیلافساروافی اثرهم یقتلون ویغنمون ، ثم ان عبدالعزیز جعل فی البیوت ضبّاطاً یحفظون ما فیها و حاز جمیع ما فی البلد من الاموال والسلاح والطعام والامتاع وغیرذلک وملک بیوتها ونخیلها الاقلیلا .( ۲ )

جب عبدالعزیز ریاض میں داخل ہواتو دیکھا کہ بہت کم لوگ شہرمیں باقی بچے ہیں تو اس وقت اس نے بھاگ جانے والوں کاپیچھا کرکے کچھ لوگوں کو قتل

____________________

(۱)عنوان المجد:۶۰ (۲)حوالہ

۱۰۱

کردیا اوران کے پاس جو مال تھا اسے غنیمت بنالیا ۔

اورسپاہیوں کو حکم دیا کہ خالی گھروں کاخیال رکھیں اورتمام اموال اسلحہ ، کھانے پینے کی اشیاء اورگھر یلو استعمال کی چیز وں کو غنیمت کے طور پرجمع کیا اوراکثر گھروں اورکھجورکے باغات پرقبضہ جمالیا۔( ۱ )

و۔ موذن کو پیغمبرصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم پردرودبھیجنے کے جرم میں قتل کردینا:

زینی دحلان مفتی مکہ مکرمہ لکھتے ہیں :

ویمنعون من الصلاة علیه صلی الله علیه وسلم علی المنابر ، بعد الاذان ، حتی ان رجلاصالحا کان اعمی ، وکان موذنا وصلی علی النبی صلی الله علیه وسلم بعد الاذان ، بعد ان کان المنع منهم ، فاتو ابه الی ابن عبدالوهاب فامربه ان یقتل فقتل ، ولو تتبعت لک ماکانوایفعلونه من امثال ذلک،لملات الدفاتر والاوراق ، وفی هذا القدرکفایة والله سبحانه وتعالی اعلم ،

وہابی منبروں پراور اذان کے بعد پیغمبرصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم پردرود بھیجنے سے منع کیاکرتے ایک دن نابینا موذن نے اذان کے بعد رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم پرصلوات پڑھی تو اسے محمد بن عبدالوھاب کے پاس پیش کیاگیا ، اس نے اس نابینا شخص کو پیغمبرصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم پرصلوات بھیجنے کے جرم میں قتل کا حکم سنادیا۔

____________________

(۱)عنوان المجد :۶۰

۱۰۲

زینی دحلان مزید لکھتے ہیں :

اگر وہابیوں کے ایسے قبیح اعمال کو لکھنا چاہیں تو کتابیں بھرجائیںگی ۔( ۱ )

جب کہ پیغمبرصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی ذات گرامی پردرود بھیجنے پرنص قرآن اوردستورالہی موجود ہے خدا وندمتعال فرماتاہے :

( ان الله وملائکته یصلون علی النبی یاایهاالذین آمنواصلواعلیه وسلموا تسلیما ) ( ۲ )

ترجمہ: بیشک اللہ اور اس کے ملائکہ رسولصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم پر صلوات بھیجتے ہیں تو اے صاحبان ایمان تم بھی ان پر صلوات بھیجتے رہو اور سلام کرتے رہو ۔

اس آیت شریفہ میں آنحضرت پردرود بھیجنے کے لئے کسی قسم کے زمان یامکان کی کوئی قید نہیں لگائی گئی یعنی کسی بھی وقت اورکہیں بھی پیغمبر پردرود بھیجا جاسکتاہے ۔

۲۔کربلاکے شیعوں کا مظلومانہ قتل :

۱۳۱۶ھ میں کربلائے معلی میں وہابیوں کے قتل عام نے تاریخ کے اوراق کوسیاہ کردیا جس سے ہرمطالعہ کرنے والے کا دل کانپ اٹھتا ہے ۔

ڈاکٹر منیر عجلانی لکھتے ہیں :

دخل اثنی عشرالف جندی ولم یکن فی البلد ة الاعدة قلیل من الرجال المستضعفین لان رجال کربلاء کانوا قد خرجوا یوم

____________________

(۱)فتنة الوھابیة :۲۰

(۲) سورہ احزاب :۵۶

۱۰۳

ذلک الی النجف الاشرف لزیارت قبرالامام امیرالمومنین یوم الغدیر ،فقتل الوهابیون کل من وجدوهم ، فقدرعددالضحایافی یوم واحدبثلاثة آلاف ، واماالسلب فکان فوق الوصف ویقال ان مائتی بعیرحملت فوق طاقتها بالمنهوبات الثمینة ۔( ۱ )

بارہ ہزار وھابی فوجی سعودبن عبدالعزیز کی سپہ سالاری میں کربلامیں وارد ہوئے جب کہ کربلاکے اکثر لوگ اس دن عید غدیر کی مناسبت سے امیرالمومنین علیہ السلام کی زیارت کے لئے نجف اشرف گئے ہوئے تھے اوربہت ہی کم بوڑھے اورناتوان لوگ باقی رہ گئے تھے انہوں نے جس کسی کو وہاں پایا قتل کیا یہاں تک کہ اس دن مارے جانے والوں کی تعدادتین ہزار پانچ ہزار پہنچ گئی اور دوسو اونٹ ایسے قیمتی مال سے لادکر لے گئے جسے بیان نہیں کیا جاسکتا۔

محمد قاری غروی تاریخ نجف میں مجموعہ شیخ خضر سے نقل کرتے ہیں :

وہابیوں نے حبیب ابن مظاہر کی قبر کے لکڑی سے بنے ہوئے صندوق کو توڑا اورروضہ کے قبلہ کی جانب والے صحن میں اسی سے قہوہ بنایا ، انہوں نے حسین کی قبرشریف کے صندوق کو بھی توڑنا چاہالیکن چونکہ اس کے اردگرد لوہے کی سلاخیں لگی ہوئی تھیں لہٰذا اسے توڑنے میں کامیاب نہ ہوسکے ۔( ۲ )

____________________

(۱)تاریخ العربیہ السعودیہ :۱۲۶.

(۲)نزھة الغری فی تاریخ النجف الغری السری:۵۲.

۱۰۴

نجد کاوھابی مورخ شیخ عثمان بن بشرلکھتاہے :

(سید الشہداء امام حسین علیہ السلام کی قبرکے )گنبد کوویران کیااورقبرکا صندوق جس میں یاقوت ،زمرد اورجواہرات جڑے ہوئے تھے اٹھاکرلے گئے اورشہر میں جتنا مال ، اسلحہ ، لباس ، فرش ، سونا ، چاندی اورقرآن کے عمدہ نسخے ملے لوٹ لئے اورظہر سے پہلے شہر کوترک کرگئے ۔( ۱ )

صلاح الدین وھابی لکھتاہے :

۱۲۱۶ھج میں امیرسعود نجد ، جنوبی قبائل ، حجاز اوردوسرے علاقوں کے افراد پرمشتمل ایک بہت بڑا لشکر لیکر عراق کے قصد سے چلا ،ذیعقدہ کے مہینہ میں کربلا پہنچا اس نے شہر کے تمام برج خراب کردیئے ، گلیوں اوربازاروں میں جتنے لوگ موجود تھے سب کو قتل کردیا اورظہر سے پہلے بہت زیادہ مال غنیمت جمع کرکے شہر سے خارج ہوگیا۔

مال غنیمت کا پانچواں حصہ خود امیرسعودنے لیا اورباقی مال میں سے ہرپیادہ کو ایک حصہ اورسوارکودوحصے تقسیم کئے ۔( ۲ )

شیخ عثمان نجدی لکھتاہے :

وہابی ایسی حالت میں کربلامیں وارد ہوئے کہ وہاں کے لوگ غافل تھے بہت

____________________

(۱)عنوان المجد فی تاریخ نجد ۱:۱۲۱

(۲)تاریخ مملکة السعودیة ۳:۷۳

۱۰۵

سے لوگوں کو گلی کوچوں ، بازاروں اورگھروں میں قتل کیا، قبرحسین علیہ السلام کوویران کردیا اورقبہ میں جوکچھ تھا اسے غارت کیا اورشہر کے اندر جتنا مال ، اسلحہ ، لباس ، فرش ، سونا، چاندی اورقرآن کے نفیس نسخے ملے اٹھاکر لے گئے ، ظہر کے نزدیک جب اہل کربلا میں سے دوہزار کے قریب لوگ مارے جاچکے تھے شہر کوترک کرگئے ۔( ۱ )

بعض نے لکھا ہے کہ وہابیوں نے ایک ہی رات میں بیس ۲۰ہزار افراد کو قتل کیا۔( ۲ )

مرزاابوطالب اصفہانی اپنے سفرنامہ میں لکھتے ہیں :

لندن سے واپسی پر کربلاونجف سے گزرتے وقت میں نے دیکھا کہ پچیس ۲۵ ہزا ر و ہابی کربلامیں وارد ہوئے اور(اقتلوا المشرکین واذ بحوا الکافرین )مشرکوں کوقتل کر ڈالو اور کافر و ں کوذبح کردو۔

کی فریاد بلند کررہے تھے ، انہوں نے پانچ ہزارلوگوں کوقتل کیا اورزخمی ہونے والوں کی کوئی تعداد نہ تھی ، حرم امام حسین علیہ السلام کا صحن مبارک لاشوں سے بھرگیااورسربریدہ لاشوں سے خون جاری تھا ۔

گیارہ ماہ بعد دوبارہ کربلاگیاتودیکھا کہ لوگ اس دل خراش حادثہ کونقل کرکے گریہ کررہے ہیں جس کے سننے سے بدن کانپ اٹھتاتھا ۔( ۳ )

____________________

(۱)عنوان المجد فی تاریخ نجد ۱:۱۲۱، حوادث سال ، ۱۲۱۶ ھ

(۲)تاریخچہ نقد وبررسی وھابی ھا:۱۶۲

(۳)مسیرطالبی:۴۰۸

۱۰۶

۳۔نجف اشرف پرحملہ :

عراق پروہابیوں کے حملے ۱۲۱۴ھج ہی سے شروع ہوچکے تھے چونکہ اسی سال انہوں نے نجف اشرف پرحملہ کیالیکن خزاعل کے عربوںنے انکاراستہ روکا اوران میں سے تین ۳سوافراد کوقتل کرڈالا،۔۱۳۱۵ھ میں پھر ایک گروہ حضرت علی کے روضہ کو گرانے کی خاطر نجف اشرف روانہ ہوا لیکن راستے میں موجود دیہاتیوں سے ٹکراؤ میں شکست کھا گیا۔( ۲ )

تقریبا دس سال تک کربلا اورنجف اشرف پرکئی بارشدیدحملے کئے ۔( ۳ )

۱۲۱۶ھ میں وہابی لشکر اہل کربلا کے مظلومانہ قتل عام اورروضہ امام حسین علیہ السلام کی بے حرمتی کے بعد سیدھا نجف اشرف کی طرف بڑھا لیکن نجف کے لوگ کربلا میں ہونے والے قتل وغارت سے باخبر ہوچکے تھے لہٰذا دفاع کے لئے تیار ہوگئے یہاں تک کہ عورتیں گھروں سے باہرنکل آئیں اوراپنے مردوں کو دفاع کرنے پرتشویق دلانے لگیں تاکہ وہابیوں کے قتل وکشتار کانشانہ نہ بنیں ،جس کے نتیجہ میں وہابی لشکر نجف اشرف میں داخل نہ ہوسکا ۔( ۴ )

۱۲۲۰ ھ یا ۱۲۲۱ ھ وہابیوں نے سعودکی قیادت میں دوبارہ نجف اشرف

____________________

(۱)وہابیان :۳۳۷

(۲)ماضی النجف و الحاضرھا۱:۳۲۵.

(۳)تاریخ المملکة السعودیة ا:۹۲(۴)ماضی النجف وحاضرھا ۱:۳۲۵

۱۰۷

پرحملہ کیالیکن چونکہ شہر برجوں پرمشتمل تھا اورباہر سے دفاع کے لئے خندق کھودی ہوئی تھی علاوہ ازیں دوسوکے قریب طالب علم اورعام افراد شیخ جعفر نجفی (کاشف الغطائ)کی قیادت میں دن رات شہر کے دفاع میں مشغول رہے ، شیخ کاشف الغطا ء خود مرجع اعلم اورانتہائی بہادر انسان تھے جس کی وجہ سے وہابی کچھ حاصل نہ کرپائے

شیخ جعفر کاشف الغطا ء کاگھر اسلحہ کاانبار بناہواتھا اورانہوں نے شہر کے ہردروازہ اورہربرج پرکچھ طالبعلموں اوردوسرے افراد کو دفاع کے لئے تیار کررکھاتھا ۔

شیخ حسین نجف ،شیخ خضر شلال ،سیدجواد عاملی صاحب مفتاح الکرامة،اور شیخ مھدی جیسی عظیم شخصیا ت شہر کا دفاع کرنے والے علماء میں موجود تھی ۔

اس حملہ میں وہابی لشکر کی تعداد پندرہ ہزار تھی لیکن نجف اشرف کے لوگوں نے ا نہیں سر سخت کوشش کے باوجود شہر میں داخل نہ ہونے دیا ۔

ایک دن بعض وہابی سپاہی شہر کی دیوار پر چڑھے اور نزدیک تھاکہ شہر کو کنٹرو ل میں لے لیں لیکن دفاع کرنے والے مسلح افراد سے آمنا سامنا ہوا اور مجبور ہوکر واپس پلٹ گئے ، محاصرہ نجف کے دوران چونکہ دفاع کرنے والے لوگ برجوں اور شہر کی دیوار کے اوپر سے وہابی لشکر کونشانہ بنارہے تھے لہٰذا ان کے سات سوافراد کوقتل کردینے میں کامیاب ہوئے ، سرانجام سعود اپنی بچ جانے والی فوج کو لیکر نجف اشرف سے ناامید واپس پلٹ گیا ۔

اہل نجف نے لشکر سعود کے پہنچنے سے پہلے ہی خزانہ امیرالمومنین علیہ السلام کو بغداد اوروہاں سے کاظمین منتقل کرکے وہاں پہ امانت کے طور پر رکھ دیا یوںخزانہ اس وحشی غارتگر قوم کے ہاتھ لگنے سے محفوظ رہ گیا ۔

۱۰۸

نجدی مورخ ابن بشرتاریخ نجد میں سعود کے نجف اشرف پرحملہ کے بارے میں لکھتا ہے :

۱۲۲۰ھ میں سعودنجد اوراس کے نواح سے ایک بہت بڑالشکر لے کر عراق کے مشہور شہر (نجف اشرف)پہنچا ، سپاہ اسلام (وہابیوں )کوشہر کے اطراف میں پھیلادیا اورشہر کے برج ودیوار کو خراب کرنے کا حکم دیا ۔

جیسے ہی اس کے ساتھی شہر کے نزدیک پہنچے تو بہت گہری اورچوڑی خندق کوپایا جس سے عبور نہ کرسکے ، فریقین کے درمیان ہونے والی اس جنگ میں شہر کے بر جوں اور دیوار سے ہونے والی گولہ باری کے اثر میں مسلمانوں (وہابیوں) کے کچھ لوگ مارے گئے جس کی وجہ سے انہوں نے شہر سے عقب نشینی کی اورگرد ونواح کولوٹ مار کاشکاربنایا۔( ۱ )

اگلے سال ۱۲۲۲ ھ میں پھر سعودنے بیس ۲۰ہزارکا لشکر لیکر نجف اشرف پرحملہ کردیا لیکن جب دیکھاکہ لوگ کاشف الغطاء کی قیادت میں تو پوں اوربندوقوں سے دفاع کے لئے آمادہ ہیں تونجف کوچھوڑکرحلہ کارخ کرلیا ۔( ۲ )

____________________

(۱)عنوان المجد فی تاریخ نجد ۱:۱۳۷.

(۲)مفتاح الکرامة ۵:۵۱۲محقق توانمندعلی دوانی کاکتاب فرقہ وہابی ، سیدمحمد حسن قزوین کے شروع میں مقدمہ ملاحظہ فرمائیں ۔

۱۰۹

۴۔مکہ مکرمہ میں بزرگان دین کے آثار کو ویران کرنا:

وہابیوں نے ۱۲۱۸ ھ میں مکہ مکرمہ پرمسلط ہونے کے بعد بزرگان دین کے تمام آثا رکو ویران کردیا ۔(معلی )میں محل ولادت پیغمبر اکرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے قبہ اوراسی طرح حضرت علی بن ابی طالب علیہما السلام ، حضرت خدیجہ (سلام اللہ علیہا )اوریہاں تک کہ ابوبکر کے محل ولادت کو بھی ویران کرکے سطح زمین کے برابر کردیا.

خانہ کعبہ کے اردگرداورزمزم کے اوپر جتنے آثار موجود تھے سب کو خراب کردیا اورجن جن علاقوں میں قابض ہوتے جاتے وہاں پہ صالحین کے آثار کو نابود کرتے جاتے اورپھر خراب کرتے وقت طبل ، رقص اورموسیقی کا اہتمام کرتے ۔( ۱ )

اہل سنت کویت کے بہت بڑے عالم رفاعی وہابی علماء کو خطاب کرتے ہوئے لکھتے ہیں :(رضیتم ولم تعارضواهدم بیت السید ة خدیجة الکبری ام المومنین والحبیبة الاولی لرسول رب العالمین صلی الله علیه وآله المکان الذی هومهبط الوحی الاول علیه من رب العزة والجلال وسکتم علی هذاالهدم راضین ان یکون المکان بعد هدمه دورات میاه وبیوت خلاء ومیضات ، فاین الخوف من الله ؟واین الحیاء من وسوله الکریم علیه الصلاة والسلام ۔( ۲ )

____________________

(۱)کشف الارتیاب :۲۷نقل از تاریخ جبرتی.

(۲)نصیحة لاخوانناعلماء نجد :۵۹تالیف :یوسف بن السید ھاشم الرفاعی ہمراہ مقدمہ ڈاکٹرمحمد سعید رمضان البوطی۔

۱۱۰

حبیبہ اول رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم ام المومنین حضرت خدیجہ کاگھرویران ہوتا رہا اورتم دیکھتے رہے کوئی عکس العمل انجا م نہ دیا جبکہ وہ وحی قرآنی کے نزول کا محل تھا ان مظالم کے سامنے خاموشی اختیار کرکے تم اس پرراضی رہے کہ اس مقدس مکان کوبیت الخلاء بنادیاجائے ،پس کہاں ہے تمہاراخوف خدا ؟اورکہاں ہے تمہارا پیغمبر سے حیا؟

رفاعی مزیدلکھتے ہیں :رسول گرامی اسلامصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے محل ولادت کو ویران کرکے حیوانوں کی خرید وفروش کی جگہ میں تبدیلی کردیا یہاں تک کہ نیک اورمخیر حضرات نے وہابیوں کے چنگل سے نکال کراسے کتابخانہ میں تبدیل کردیا

ان آخری سالوں میں تم وہابیوں نے تہدید وانتقام کے ذریعہ سے اپنی ناپاک نیتوں کو عملی جامہ پہنانے کاپکا ارادہ کررکھاہے اوررسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے محل ولادت کو نابود کرنے کی پوری پوری کوشش کی یہاں تک کہ سعودی عرب کے بڑے بڑے علماء سے اس مقدس مکان کوویران کرنے کی اجازت بھی لے لی لیکن شاہ فہد نے اس کے برے اثرات کو بھانپ لیا اوراس قبیح عمل سے روک دیا ۔

۱۱۱

یہ کیسی بے احترامی ہے جس کو انجام دے رہے ہو ؟ !

اور یہ کیسی بے وفائی ہے جو پیغمبرصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے حق میں روارکھے ہوئے ہو۔؟!

جب کہ خداوند متعال نے آنحضرتصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کو ہمیں آپ اورہمارے آبائو اجداد کو شرک کی تاریکیوں سے نکال کرنور اسلام کی طرف ہدایت کا وسیلہ قراردیا ۔

آگاہ ہوجائو! جب پیغمبرصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے پاس حوض کوثر پر پہنچوگے توسوابے حیائی کے تمہیں کچھ نصیب نہ ہوگا اوریہ بھی یقین کرلو کہ نبی مکرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے مقدس آثار کو نابود کرنے کی شقاوت کانتیجہ دیکھ لوگے جس کے ذریعہ آنحضرتصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی ناراضگی کا باعث بنے ہو۔( ۱ )

رفاعی ایک اورمقام پرلکھتا ہے :

صحابہ ، امہات المومنین اوراہل بیت کی قبور کے آثار کو نابود کیا ، مادرگرامی رسول اکرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم آمنہ بنت وہب کی قبر مبارک پرپٹرول چھڑک کراسے آگ لگاکراس کااثر تک باقی نہ چھوڑا۔(۲)

____________________

(۱)(حاولتم ولازلتم تحاولون وجعلتم دابکم هدم البقعة الباقیة من آثاررسول الله صلی الله تعالی علیه واله وسلم الا وهی البقعة الشریفة التی ولد فیها )،التی هدمت ، ثم جعلت سوقا للبهائم ، ثم حولها بالحیلةالصالحون الی مکتبة هی (مکتبة مکة المکرمة ) فصرتم یرمون المکان بعیون الشروالتهدید والانتقام ، وتتربصون به الدوائروطالبتم صراحة بهدمه واستعد یتم السلطة وحرضتموها علی ذلک بعد اتخاذ قراربذلک من هیئة کبار علمائکم قبل سنوات قلیلة (وعندی شریط صریح بذلک )غیران خادم الحرمین الشریفین الملک فهد العاقل الحکیم العارف بالعواقب تجاهل طلبکم وجمده

فیاسوء الادب وقلة الوفاء لهذا لنبی الکریم الذی اخرجناالله به ایاکم والاجداد من الظلمات الی النور !ویاقلة الحیاء من یوم الورود علی حوضه الشریف !ویابوس وشقاء فرقة تکره نبیها سواء بالقول اوبالعمل وتحقره وتسعی لمحواثاره!نصیحة لاخواننا علماء نجد ۶۰.

(۲)هد متم قبور الصحابة وامهات المومنین وآل بیت الکرام رضی الله عنهم وترکتموها قاعا صفصفا وشواهدا حجارة مبعثرة لایعلم ولایعرف قبر هذا من هذا،بل وسکب علی بعضها البنزین فلاحول ولاقوة الابالله ، ثم ذکر فی الهامش ، قبرالسیدة آمنه بنت وهب ام الحبیب المصطفی نبی هذه الامة صلی الله علیه وسلم ۳۸ نصیحة لاخواننا علماء نجد :

۱۱۲

۵۔بڑے بڑے کتب خانوں کوآگ لگانا:

افسوس ناک ترین کام جو وہابیوں نے انجام دیا جس کے بدترین آثار اب بھی باقی ہیں وہ ایک عظیم کتاب خانہ (المکتبة العربیة )کو آگ لگانا تھا جس میں ساٹھ۶۰ہزارسے زیادہ انتہائی قیمتی اورکم نظیر کتب موجود تھیں اس کے علاوہ چالس ۴۰ہزارخطی نسخے ایسے تھے جو کہیں اورموجود نہ تھے جن میں زمانہ جاہلیت ،یہود، کفار قریش اوراسی طرح علی علیہ السلام ، ابوبکر ، عمر ، خالد بن ولید ، طارق بن زیاداوربعض دیگر اصحاب پیغمبرصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے خطی آثار اورعبداللہ بن مسعود کے ہاتھ سے لکھا ہوا قرآن مجید تھا ۔

اسی طرح اس کتاب خانہ میں رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کا مختلف قسموں کا اسلحہ اورظہور اسلام کے وقت پرستش کئے جانے والے بت مانند لات ، عزی ، مناة ، اورہبل موجود تھے ۔

(ناصر السعید)نے ایک مورخ کے قول کو نقل کیا ہے کہ جب وہابی نے جب قابض ہوئے تو انہوںنے یہ بہانہ بناکر اس کتاب خانہ کو راکھ کردیا کہ اس کے اندرکفریات موجود ہیں ۔( ۱ )

۶۔مدنیہ منورہ پرقبضہ :

سعود نے ۱۲۲۰ھ یا۱۲۲۱ھمیں مدینہ منور ہ پرحملہ کیا اورڈیڑھ سال کے محاصرہ کے بعد سرانجام اس شہر مقدس پرقبضہ کرلیا روضہ رسولصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم میں موجود تمام قیمتی اشیاء کو لوٹ لیافقط مسلمانوں کے خوف سے قبر مقدس پیغمبرصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم پرتجاوز کرنے سے پرہیزکیا۔

انہوں نے الماس ، یاقوت اورگرانبہاجواہرات سے بھرے چارصندوق غنیمت بنائے جن میں زمرد سے بنے ایسے چار شمعدان تھے جن میں شمع کے بجائے الماس کے دمکتے ہوئے ٹکڑے رکھے جاتے اورایک سوشمشیر جن کے غلاف خالص سونا اورالماس ویاقوت سے اوردستے زمرد سے مرصع تھے جن کی قیمت کااندازہ نہیں لگایاجاسکتا ۔( ۲ )

____________________

(۱)تاریخ آل سعود ،۱:۱۵۸کشف الارتیاب :۵۵،۱۸۷و۳۲۴ اعیان الشیعہ ۲:۷،

الصحیح من سیرة النبی الاعظم ۱:۸۱ آل سعود من این الی این :۴۷.

(۲)فرقہ وھابی وپاسخ بہ شبہات آنھا۔مقدمہ علی دوانی :۴۰.

۱۱۳

دولت عثمانی میں نیوی کالج کے انچارج میجر (ایوب صبری)لکھتے ہیں :سعود

بن عبدالعزیز نے مدینہ منورہ پرقبضہ کے بعد تمام اہل مدینہ کو مسجد نبوی میں جمع کیا اورمسجد کے تمام دروازے بندکرکے اپنی تقریر کا آغاز یوں کیا :

اے اہل مدنیہ !اس آیت شریفہ (الیوم اکملت لکم دینکم) آج کے دن میں نے تمہارادین کامل کردیا) کے مطابق آج تم لوگ نعمت اسلام سے مشرف ہوئے ہو، خدا تم سے راضی اورخوشنود ہوگیا ۔

اپنے بڑوں کے باطل ادیان کوترک کردواورہرگز ا نہیں نیکی سے یاد نہ کرنا ، ان کے لئے طلب رحمت کی دعا سے پرہیز کرو اس لئے کہ وہ سب شرک پرمرے ہیں ۔( ۱ )

۷۔مکہ مکرمہ اورطائف میں قبروں کاویران کرنا:

ایک بارپھر ۱۳۴۳ھجری میں وہابیوں نے عبداللہ بن عباس ،جناب عبدالمطلب،جناب ابوطالب اورزوجہ پیغمبرصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم حضرت خدیجہ کی قبوراورطائف کی دیگر قبورکے اوپربنی ہوئی عمارات ، حضرت زہراسلام اللہ علیہا کامحل ولادت اورمکہ مکرمہ کے اندر موجود تما م شعائر اسلامی کو ویران کرڈالا۔( ۲ )

۸۔جنت البقیع میں ائمہ علیہم السلام کی قبروں کو خراب کرنا:

۱۳۴۴ہجری میں وہابیوں نے مکہ مکرمہ پرقبضہ کے بعد مدینہ منورہ کارخ کیا ،

شہرکا محاصرہ کیا اورجنگ کے بعد اس پربھی قبضہ کرلیا ، جنت البقیع میں آئمہ علیہم

____________________

(۱)تاریخ وھابیان :۱۰۷، تاریخ الوھابیة :۱۲۶طبع مصر

(۲)کتاب فرقہ وہابی پرعلامہ دوانی کا مقدمہ :۵۵.

۱۱۴

السلام کی قبور اوراسی طرح باقی قبروںمانند قبرابراھیم فرزندپیغمبرصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم ، ازواج آنحضرت کی قبور ، قبرحضرت ام البنین مادرحضرت عباس ، قبہ جناب عبداللہ والد گرامی رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم ، قبہ اسماعیل بن جعفرصادق علیہ السلام اور تمام اصحاب وتابعین کی قبور پرموجود قبوں کوخراب کرڈالا۔( ۱ )

اسی طرح مدینہ منورہ میں امام حسن اورامام حسین علیہماالسلام کے محل ولادت ، شہدائے بدرکی قبور نیز بیت الاحزان جسے حضرت علی علیہ السلام نے جناب فاطمہ سلام اللہ علیہا کے لئے تعمیر کروایا تھا اسے بھی ویران کرد یا۔( ۲ )

____________________

(۱)کتاب فرقہ وہابی ، مقدمہ دوانی :۵۶

(۲)مرکز اطلاع رسانی اسناد انقلاب اسلامی www.irdc_ir

۱۱۵

۹۔اہل طائف کاقتل عام:

بعض لوگ یہ گمان کرتے ہیں کہ وہابیوں نے فقط شیعہ آبادی کے علاقوں کو تاراج کیا جب کہ حجاز اورشام میں ان کے کارناموں کامشاہدہ کرنے سے روشن ہوجاتا ہے کہ اہل سنت آبادی کے علاقے بھی ان کے حملات سے محفوظ نہ رہ سکے ۔

زینی دحلان مفتی مکہ مکرمہ لکھتے ہیں :

(ولما ملکواالطائف فی الذیقعدة سنة ۱۲۱۷، الف ومائتین وسبعة عشرقتلوا الکبیر والصغیر والمامور والامر ولم ینج الامن طال عمره ، وکانوایذبحون الصغیر علی صدرامه ونهبوا الاموال وسبواالنساء( ۱ )

۱۲۱۷ہجری میں جب وہابیوں نے طائف پرقبضہ کیاتو چھوٹے ، بڑے ، سرداروغلام سب کوقتل کرڈالا ،بوڑھے افراد کے علاوہ کوئی ان کے ہاتھوں سے نجات نہ پاسکا ، یہاں تک مائوں کی آغوش میں ان کے شیرخواربچوں کے سرتن سے جداکردیئے ، لوگوںکامال لوٹا اورعورتوں کوقیدی بنالیا۔

حنفی مورخ جبرتی لکھتے ہیں :

(وفی اواخر سنة ۲۱۷ا اغارالوهابیون علی الحجاز ، فلماقاربواالطائف خرج الیهم الشریف غالب فهذموه ، فرجع الی الطائف واحرقت داره وهرب الی مکة ، فحاربوا الطائف ثلاثة ایام حتی دخلوهاعنوة ، وقتلو االرجال واسرواالنساء والاطفال ، وهذا دابهم فی من یحاربهم ، وهدمواقبة ابن عباس فی الطائف )( ۲ )

۱۲۱۷ہجری میں وہابیوں نے حجاز پردھاوابولاجب طائف کے قریب پہنچے توحاکم طائف شری غالب ان کامقابلہ کرنے کے لئے شہر سے باہرنکل آیالیکن جب شکست ہوئی تووہ شہر واپس پلٹ گیاانہوں نے اس کے گھر کو نذر آتش کردیاجب کہ وہ خود مکہ بھاگ گیااس کے بعدتین دن تک اہل طائف سے جنگ

____________________

(۱)الدررالسنیة :۴۵.

(۲)عجائب الآثار ، ۲:۵۵۴، اخبارالحجاز ، غالب محمدادیب ، تاریخ جبرتی :۹۳

۱۱۶

کی ان کے مردوںکوقتل کردیا عورتوں اوربچوں کوقیدی بنالیاوہابیوں کا طریقہ کارہرجگہ یہی تھا اورطائف میں عبداللہ بن عباس کی قبر کوبھی ویران کردیا ۔

عراق کے ایک سنی عالم جمیل صدقی زہاوی طائف پروہابیوں کے حملہ کے بارے میں لکھتے ہیں :وہابیوںکے بدترین کارناموں میں سے ایک ۱۲۱۷ہجری میں اہل طائف کاقتل عام کرنا ہے ،جہاں کسی چھوٹے بڑے پررحم نہ کیا ، شیر خوا ر بچوںکوان کی مائوں کی گود میں ذبح کیا، کچھ لوگ قرآن مجیدحفظ کرنے میں مشغول تھے ان کوقتل کردیایہاں تک کہ کچھ کوتوحالت نماز میں ہی مارڈالااوران کے پاس موجود قرآن مجید ، صحیح بخاری ، صحیح مسلم اوردیگر حدیثی وفقہی کتب کو اٹھاکر گلیوں اوربازاروں میں پھینک کرپائوں سے روندڈالا۔( ۱ )

____________________

(۱)(ومن اعظم قبائح الوهابیة اتباع ابن عبدالوهاب قتلهم الناس حین دخلوا الطائف قتلاعاماحتی استاصلوا الکبیروالصغیر ، واودوبالمامورالامیر، والشریف والوضیع ، وصاروایذبحون علی صدرالام طفلهاالرضیع،ووجدوا جماعة یتدارسون القرآن فقتلوهم عن آخرهم ، ولماابادوامن فی البیوت جمیعاخرجواالی الحودانیت والمساجد وقتلوا من فیها وقتلواالرجل فی المسجد وهوراکع اوساجد ، حتی افنواالمسلمین فی ذلک البلد ولم یبقی فیه الاقدرنیف وعشرین رجلاتمنعوا فی بیت الفتنی بالرصاص ان یصلوهم وجماعة فی بیت الفعر قدرالمئتانی وسبعین قاتلوهم یومهم ثم قاتلوهم فی الیوم الثانی والثالث حتی راسلوهم بالامان مکراوخدیعة فلمادخلوا علیهم واخذوامنهم السلاح قتلوهم جمیعا ، واخرجواغیرهم ایضا، بالامان والعهود الی وادی (وج)وترکوهم هناک فی البرد والثلج حفاة عراة مکشوفی السوات ، هم ونسائوهم من مخدرات المسلمین ونهبواالاموال والنقود والاثاث ، وطرحوا الکتب علی البطاح وفی الازقة والاسواق تعصف بهاالریاح ، وکان فیهاکثیر من المصاحف ومن نسخ البخاری ومسلم وبقیة کتب الحدیث والفقه وغیرذلک تبلغ الوفامولفة فمکثت هذا الکتب ایاماوهم بطئوونها بارجلهم ولایستطیع احد ان یرفع منها ورقة ، ثم اخربوالبیوت وجعلوها قاعاصفصفاوکان ذلک سنة ۱۲۱۷، (۳)

۱۱۷

وہابیوں نے اہل طائف کے قتل عام کے بعد مکہ مکرمہ کے علماء کوایک خط لکھا جس میں ا نہیں اپنے دین کی دعوت دی اہل مکہ خانہ کعبہ کے پاس جمع ہوئے تاکہ وہابیوں کے نامے کا جواب دیں لیکن اچانک دیکھا کہ اہل طائف کا ایک ستم دیدہ گروہ مسجد الحرام میں داخل ہوا اوراپنے اوپر ہونے والے مظالم کوبیان کیا، جس سے لوگ اس قدروحشت زدہ ہوگئے کہ گویا قیامت برپاہوگئی ہو۔

اس وقت مکہ مکرمہ اورحج پرگئے ہوئے چاروں مذاہب اہل سنت کے علماء وفقہاء نے وہابیوں کے کفر کا فتوی دیا اورامیرمکہ پرواجب قراردیا کہ وہ ان کے خلاف قیام کرے اورساتھ یہ بھی فتوی دیاکہ مسلمانوں پرواجب ہے کہ وہ اس جہاد میں شرکت کریں اورجو ماراجائے گاوہ شہید شمار ہوگا۔( ۱ )

۱۰۔علمائے اہل سنت کا قتل عام :

نیوی کے میجرایوب صبری لکھتے ہیں :سعود بن عبدالعزیز جو کہ محمد بن عبدالوھاب سے متاثر ہوچکا تھا اس نے قبائل کے سردار وں سے اپنے پہلے خطاب میں کہا:ہمیں چاہئے کہ تمام شہروں اورآبادیوں پرقبضہ کریں اورا نہیں اپنے عقائدکی تعلیم دیں...( ۲ )

____________________

(۱)سیف الجبرالمسلول علی الاعداء :۲

(۲)تاریخ وھابیان :۳۳،اور طبع مصر میں یوں ہے :هااناذاامرحامیة فاستطیع الان ان افصح عمااضمره فی خلدی ان هدفی من حشدهذاالجیش هوان انطلق من دارالخلافة ، وهی الدرعیة ونجد ، بجحفل اشوس لایقهر فاحتل جمیع الدیار والقفارواعلم الناس الاحکام والشرائع ، واضم بغداد وبجمیع توابعها الی فتنهم فی ظل العدل الذی نتصف به ،

تاریخ الوهابیه :۵۴. (۳) الفجر الصادق ۲۲

۱۱۸

یہاں تک کہ کہنے لگا:اپنی اس آرزوکو پروان چڑھانے کے لئے ہمیں مجبورا علمائے

اہل سنت کوروئے زمین سے نابود کرناہوگا جوسنت نبویہ اورشریعت محمدیہ کی پیروی کے مدعی ہیں ،دوسرے لفظوں میں یہ مشرک جو اپنے کو اہل سنت کے علماء کہلواتے ہیں ان کو تہہ تیغ کرناہوگا خاص طور سے بااثر اورمعروف علماء کو ، اس لئے کہ جب تک یہ لوگ زندہ ہیں تب تک ہمارے پیروکاروں کوخوشی نصیب حاصل نہیں ہوسکتی ، لہٰذا سب سے پہلے اپنے کوعالم ظاہر کرنے والوں کو ختم کرناہوگا اوراس کے بعد بغداد پرقبضہ کرناہوگا ۔( ۱ )

دوسرے مقام پرلکھتے ہیں :

۱۲۱۸ہجری میں سعودبن عبدالعزیز نے مکہ مکرمہ پرقبضہ کے دوران بہت سے اہل سنت علماء کو بغیر دلیل کے شہید کیا اوربہت سے بااثر سرداروں کو بغیر کسی جرم کے تختہ دارپرلٹکا یا ، اورجس کسی کو عقائد پرثابت قدم دیکھتے اسے طرح طرح کی اذیتیں اور شکنجے کرتے ، اورپھر گلیوں اوربازاروں میں منادی چھوڑے جو یہ ندا

____________________

(۱)تاریخ وهابیان :۳۳،طبع مصر میں یوں هے :ولاجل تحقیق هذاالامل فلابد من ان نجت دابر علماء العامة الذین یدعونهم یتبعون السنة النبویة السنیة الشریعة المحمد یة العلیة وبعبارة اخری نستاصل شافة المشرکین الذین یسمون انفسهم باسم علماء اهل السنة ولاسیما من یشارالیه بالبنان منهم

اذمادام هئولاء فی قیدالحیاة فسوف لایرون لاتباعنا بلغة من العیش ، فلذاینبغی ان نبید من یظهر بعنوان عالم اولا، ثم نحتل بغداد ثانیا تاریخ الوهابیة ، ص۵۵، ط، الهدف للاعلام والنشر ،قاهره سال ۲۰۰۳م

۱۱۹

د ے رہے تھے (ادخلو افی دین سعود ، وتظلّوابظله الممدود ) لوگو! دین سعود میں داخل ہوجائو اوراس کے وسیع سایہ میں پناہ لو ۔( ۱ )

۱۱۔غیروہابی ممالک سے تجارتی بائیکاٹ:

روسی مستشرق فاسیلیف لکھتے ہیں :

وقدبلغ تعصب الوهابیین الی حد حملهم علی قطع العلاقات التجاریة مع غیرهم ، وکانت التجارة الی عام۱۲۶۹مع الشام والعراق محرمة .( ۲ )

وہابیوں کاتعصب اس قدربڑھ گیاکہ سعودی تاجروں کوغیر وہابی ممالک سے تجارتی تعلقات ختم کرنے پرآمادہ کیا اور۱۲۶۹ہجری تک شام اورعراق کے ساتھ تجارت کرنا حرام تھا۔

وہابی مورخ ابن بشرلکھتاہے :

(وکانوا اذااوجدواتاجرافی طریق یحمل متاعا الی

____________________

(۱)تاریخ وہابیان :۷۴،طبع مصرمیں یوں لکھا ہے :قتل سعود الوخیم العاقبة کثیرامن علماء العامة بدون ذنب واعدم شنقاکثیر امن الاعیان والاشراف دون ای همة ، وهددبانواع العذاب کل من یبدی تمسکا بماعلیه من عقائد دینیة وحینئذ ارسل وجالاینادون بغایة الوقاحة فی الازقة والاسواق باعلی اصواتهم (ادخلوافی دین سعود ، وتظله الممدود ، وبهذا النداء المسعودد عوالناس عملاالی اعتناق دین محمد بن عبدالوهاب تاریخ الوهابیه:۹۵.

(۲)تاریخ العربیة السعودیة :۱۰۵.

۱۲۰

121

122

123

124

125

126

127

128

129

130

131

132

133

134

135

136

137

138

139

140

141

142

143

144

145

146

147

148

149

150

151

152

153

154

155

156

157

158

159

160

161

162

163

164

165

166

167

168

169

170

171

172

173

174

175

176

177

178

179

180

181

182

183

184

185

186

187

188

189

190

191

192

193

194

195

196

197

198

199

200

201

202

203

204

205

206

207

208

209

210

211

212

213

214

215

216

217

218

219

220

221

222

223

224

225

226

227

228

229

230

231

232

233

234

235

236

237

238

239

240

241

242

243

244

245

246

247

248

249

250

251

252

253

254

255

256

257

258

259

260

کی خوشخبری لایا ہوں_

اے میرے معزز رشتے دارو تم مجھے اچھی طرح جانتے ہو اگر میں تمھیں بتاؤں کہ دشمن اس پہاڑ کے پیچھے بیٹھا ہے اور تم پر حملہ کرناچاہتا ہے تو کیا میری اس بات کا یقین کر لو گے؟ کیا دفاع کے لئے تیار ہوجاؤ گے؟ ''

تمام حاضرین نے کہا کہ:

'' ہاں اے محمد(ص) ہم نے تمھیں سچّا اور صحیح آدمی پایا ہے''_

'' میں تمھاری بھلائی و سعادت کو چاہتا ہوں، کبھی تم سے جھوٹ نہیں بولتا اور نہ خیانت کرتا ہوں_ لوگو تم اس دنیا میں بے کار خوق نہیں کئے گئے ہو اور موت، زندگی کی انتہاء نہیں ہے تم اس جہان سے آخرت کے جہان کی طرف منتقل ہوگے تا کہ اپنے اعمال کی جزاء دیکھ سکو_

اے میرے رشتے دارو میں اللہ کا پیغمبر ہوں اور تمام انسانوں کی ہدایت و نجات کے لئے بھیجا گیا ہوں، مجھے اب حکم ملا ہے کہ میں تمھیں توحید، خداپرستی و دین اسلام کی طرف بلاؤں او رعذاب الہی سے ڈراؤں_ میں اس حکم کی بجا آؤری میں استقامت سے کام لوں گا_ تم میں سے جو بھی میری اس دعوت کو قبول کرے اور میری مدد کرے وہ میرا بھائی، میراوصّی، میرا خلیفہ اور میرا جانشین ہوگا''_

مجمع پر سنّاٹا چھایا ہواتھا چنانچہ ایک کونے سے ایک نوجوان اٹھا اور اس نے کہا:

۲۶۱

'' یا رسول اللہ (ص) میں اللہ تعالی کی وحدانيّت، روز جزاء کی حقّانیت اور آپ کی پیغمبری کی گواہی دیتا ہوں اور اس آسمانی پیغام کی کامیابی کے لئے آپ کی مدد کروں گا''_

جانتے ہو کہ یہ نوجوان کون تھا؟

پیغمبر اسلام(ص) نے ایک محبت آمیز نگاہ اس کی طرف کی اور اپنے مہمانوں کے سامنے اپنی بات کو دوبارہ بیان کیا_ اس دفعہ بھی سب خاموش بیٹھے رہے اور پھر وہی جوان اٹھا او راسی وعدہ کا تکرار کیا_ پیغمبر (ص) نے مسکراتے ہوئے اسے دیکھا اور پھر تیسری دفعہ تکرار کیا_ پھر وہی جوان اٹھا اور اپنی مدد کا ہاتھ پیغمبر اسلام(ص) کی طرف بڑھایا_ اس وقت رسول خدا (ص) نے اسے اپنے پاس بلایا اس کا ہاتھ پکڑا او رحاضرین کے سامنے فرمایا:

''انّ هذا اخی و وصیيّی و خلیفتی فیکم فاسمعوا له و اطیعوا (۱)

'' یہ نوجوان میرا بھائی، میرا وصی اور میرا خلیفہ ہے اس کی بات کو سنو اور اس کی اطاعت کرو''_

تمام مہان اٹھ گئے ان میں سے بعض ہنستے ہوئے اپنے غصّے کو چھپا رہے تھے اور سب نے جناب ابوطالب (ع) سے کہا:

'' سنا ہے کہ محمد(ص) کیا کہہ رہے ہیں؟ سنا ہے کہ انھوں نے تمھیں کیا حکم دیا ہے ؟ تمھیں حکم دیا ہے کہ آج کے بعد اپنے فرزند کی اطاعت کرو''_

____________________

۱) یہ واقعہ اہل سنّت کی بھی مستند کتابوں میں تفصیل کے ساتھ بیان کیا گیا ہے تاریخ طبری جلد ۲ صفحہ ۳۲، الکامل فی التاریخ جلد ۲ صفحہ ۶۲

۲۶۲

پیغمبر اکرم(ص) نے اس مجلس میں اپنی دعوت کو واضح طور سے بیان کر کے اپنی ذمّہ داری کو انجام دیا اور اپنے آئندہ کے پروگرام سے بھی حاضرین کو مطلع کیا اپنا وزیر و جانشین معيّن کردیا دین اسلام و مسلمانوں کے لئے رہبر چن لیا اور رہبری کی اطاعت کو واجب و لازم قرار دے دیا_

حاضرین نے پیغمبر اسلام(ص) کی گفتگوسے کیا سمجھا ____؟ کیا انھوں نے بھی یہی سمجھا تھا؟ کیا انھوں نے سمجھ لیا تھا کہ پیغمبر اسلام (ص) ، علی ابن ابیطالب علیہ السلام کو اپنا وزیر اور مسلمانوں کے لئے اپنے بعد ان کا رہبر بنادیا ہے؟

اگر وہ یہ نہ سمجھے ہوتے تو کس طر ہنستے اور مزاح کرتے اور ابوطالب (ع) سے کہتے کہ محمد(ص) نے تمھیں حکم دیا ہے کہ آج کے بعد اپنے فرزند کی اطاعت کیا کرو

قرآن مجید کی آیت:

( و انذر عشیرتک الاقربین و اخفض جناحک لمن اتّبعک من المؤمنین ) (۱)

'' اپنے رشتے داروں کو خدا کے عذاب سے ڈراو اور ان مومنین کے ساتھ جو تمھاری پیروی کرتے ہیں نرمی اورملائمت سے پیش آو''_

____________________

۱) سورہ شعراء آیت ۲۱۵

۲۶۳

سوالات

ان سوالات کے بارے میں بحث کرو

۱)___ پیغمبر اسلام (ص) کا دوسرا تبلیغی مرحلہ کس طرح شروع ہوا اور اس مرحلہ کے لئے خدا کی طرف سے کیا حکم ملا؟

۲)___ پیغمبر اسلام (ص) نے اس کو انجام دینے کے لئے کیا حکم دیا اور علی ابن ابیطالب علیہ السلام کو کیا حکم دیا؟

۳)___ کس نے پہلے نشست کو خراب کیا تھا؟ اور کیوں؟

۴)___ کیا پیغمبر (ص) نے ان کے کہنے سے اپنے ارادے کو بدل دیا تھا؟

۵)___ پیغمبر اسلام (ص) نے دوسرے دن مہمانوں سے کیا کہا تھا اور ان سے کیا مطالبہ کیا تھا؟

۶)___ مہمانوں نے ابوطالب (ع) سے کیا کہا تھا ا ور کیوں؟

۷)___ اس دعوت کا کیا مقصد تھا؟

۲۶۴

پیغمبر(ص) کی دو قیمتی امانتیں

پیغمبر اسلام (ص) اپنی عمر کے آخری سال مكّہ تشریف لے گئے اور مسلمانوں کو بھی حکم دیا کو جو بھی استطاعت رکھتا ہے وہ اس سال حج میں شریک ہو_ پیغمبر(ص) کی دعوت پر مسلمانوں کی کثیر تعداد مكّہ گئی حج کے اعمال و مناسک کو پیغمبر اسلام (ص) سے لوگوں نے یاد کئے اور وہ حج کے پر عظمت و پر شکوہ اعمال کو پیغمبر(ص) کے ساتھ بجالائے_

پیغمبر اسلام(ص) حج اور زیارت وداع کے مراسم کو ختم کرنے کے بعد دوسرے مسلمانوں کے ساتھ ایک کارواں کی شکل میں روانہ ہوئے_ حجاز کی جلا دینے والی گرمی اور بے آب و گیاہ میدان کو طے کرنے کے بعد غدیرخم پہونچے_ پیغمبر اسلام (ص) اس جگہ اپنے اونٹ سے اترے اور قافلے والوں کو بھی وہیں اترنے کا حکم دیا_ وہ لوگ جو پیغمبر (ص) سے آگے نکل چکے تھے انھیں واپس بالا یاگیا اور جو ابھی پیچھے تھے ان کا انتظار کیا گیا_

ظہر کے نزدیک ہوا بہت گرم تھی، گرمی کی شدّت سے انسانوں کے سر اور پاؤں جل رہے تھے بعض لوگوں نے اپنی عبائیں سر پر ڈال رکھی تھیں، بعض نے اپنے پاؤں کپڑوں سے لیپٹ دیئے تھے اور بعض لوگ اپنے اونٹوں کے سائے میں بیٹھے ہوئے تھے_ سب لوگ ایک دوسرے سے پوچھتے تھے کہ کیابات ہے؟ کیا پیغمبر اسلام(ص) کوئی اہم کام انجام دینے والے ہیں؟

جب لوگ آپ سے پوچھتے تو آپ انھیں جواب دیتے تھے کہ:

'' ظہر کی نماز کے بعد بتاؤں گا''_

۲۶۵

ظہر کی نماز کا وقت آگیا_ پیغمبر اسلام(ص) نماز کے لئے کھڑے ہوئے لوگوں نے آپ کی اقتداء کی اور آپ کے ساتھ با جماعت نماز پڑھی_ نماز کے بعد پیغمبر (ص) ایک بلند جگہ کھڑے ہوئے اس وقت ہر طرف سکوت طاری تھا اور سبھی کی توجہ پیغمبر اسلام (ص) کی طرف تھی آپ نے ذکر الہی سے اپنے خطبہ کی ابتداء کی اور اللہ تعالی کی حمد و ثنا کے بعد لوگوں کو وعظ اور نصیحت کی اس کے بعد فرمایا:

'' لوگو ہر انسان کے لئے موت حتمی ہے میں بھی دوسرے لوگوں کی طرح مرجاؤں گا، خدا کا فرشتہ بہت جلد میری روح قبض کرنے کے لئے آنے والا ہے، میں اور تم سب کے سب اللہ کے سامنے دین اسلام کے بارے میں جواب گوہوں گے اور ہم سے اس کے متعلق پوچھا جائے گا_

میں نے اپنے وظیفہ پر عمل کردیا ہے خدا کے پیغام کو تم تک پہونچا دیا ہے تمھاری راہنمائی و رہبری انجام دے دی ہے اللہ نے مجھے خبر دی ہے کہ میری موت نزدیک ہے خدا نے مجھے اپنی طرف بلالیا ہے اور مجھے اس کی طرف جانا ہے_

لوگو میں تم سے رخصت ہو رہا ہوں لیکن دو گراں بہا چیزیں تمھارے درمیان بطور امانت چھوڑے جا رہا ہوں کہ یہ دونوں ایک دوسرے سے جدا نہ ہوں گے اگر تم نے ان سے تمسّک کیا تو ہرگز گمراہ نہ ہوگے ایک قرآن اور دوسرے میرے اہلبیت (ع) ہیں_

قرآن، اللہ کی کتاب اور ایک مضبوط رسّی ہے جو آسمان

۲۶۶

سے اتری ہے اور دوسری امانت میرے اہلبیت (ع) ہیں_ اللہ تعالی نے مجھے خبر دی ہے کہ یہ دونوں امانتیں آپس میں جدا نہ ہوں گی اور قیامت تک ایک رہیں گے یہاں تک کہ میرے پاس حوض کوثر پر وارد ہوں گی_ میں دیکھنا چاہتا ہوں کہ تم ان سے کیا سلوک کروگے؟ ''

اس کے بعد آپ (ص) نے علی ابن ابیطالب علیہ السلام کو اپنے نزدیک بلایا اور آپ (ع) کا ہاتھ پکڑکر لوگوں کے سامنے بلند کیا اور فرمایا:

'' لوگو اب تک تمھاری رہبری میرے ذمّہ تھی_ کیا میں خدا کی طرف سے تمھارا رہبر اور صاحب اختیار نہ تھا؟ کیا میں تمھارا ولی اور رہبر نہ تھا؟''

سب نے جواب دیا:

'' ہاں یا رسول اللہ (ص) آپ ہمارے پیشوا اور رہبر تھے''_

اس وقت پیغمبر اسلام (ص) نے بلند آواز سے فرمایا:

'' جس کا میں مولا تھا اب علی (ع) اس کے مولا ہیں جس نے میری ولایت کو قبول کیا ہے اب علی (ع) اس کے ولی ہیں''_

اس کے بعد دعا کے لئے ہاتھ اٹھائے اور یوں فرمایا:

'' خدایا جس نے علی (ع) کی ولایت کو قبول کرلیا ہے اس کو تو اپنی سرپرستی اور ولایت میں رکھ، خدایا علی (ع) کی مدد کرنے والوں کی مدد فرما اور علی (ع) سے دشمنی کرنے والوں سے دشمنی رکھ''

۲۶۷

نتیجہ:

پیغمبر اسلام(ص) کے غدیر کے تاریخی خطبہ اور اس حدیث غدیر سے مندرجہ ذیل باتیں معلوم ہوتی ہیں:

۱)___ پیغمبر اسلام (ص) نے اس حدیث میں اپنی عمر کے ختم ہونے کا اعلان فرمایا، انقلاب اسلامی کے ہمیشہ رہنے اورترقی کرنے کے لئے دو قیمتی چیزوں کا اعلان کیا اور لوگوں کو اس سے روشناس کرایا تا کہ دینی، اجتماعی اور سیاسی مشکلات کے حل کرنے میں لوگ ان کی طرف رجوع کریں_ ان میں سے ایک '' قرآن'' ہے اور اس کے متعلق لوگوں سے فرمایا تھا:

'' اپنی مشکلات کے حل کے لئے قرآن کی طرف رجوع کرنا اس کے پڑھنے، سمجھنے ، اس سے مانوس ہونے، اس کے آئین دوسرے میرے '' اہلبیت (ع) '' ہیں_

پیغمبر اسلام(ص) لوگوں سے یہ چاہتے تھے کہ وہ اپنی دینی، سیاسی اور اجتماعی ضروریات میں آپ کے اہلبیت (ع) کی طرف کہ جو پوری طرح قرآن و معارف اسلامی کے جاننے والے ہیں رجوع کریں او رقرآن کو ان کی راہنمائی میں سمجھنے کی کوشش کریں، اسلام کے فردی و اجتماعی قوانین ان سے حاصل کریں اور ان کے قول و فعل کی پیروی کریں، ان سے محبت کریں، ان کی ولایت و رہبری کہ جو در حقیقت پیغمبر(ص) کی ولایت کا دوام ہے، کو قبول کریں اور خداوند عالم کے

۲۶۸

آئین کی روشنی میں اپنی فردی اور اجتماعی زندگی گذاریں_

۲)__ _قرآن اور عترت ایک دوسرے سے جدا ہونے والے نہیں ہیں، مسلمان اپنی دنیاوی و اخروی سعادت کے حصول کے لئے ان دو قیمتی چیزوں کے محتاج ہیں، قرآن کے محتاج اس لئے ہیں کہ زندگی کا آئین و دستور اس سے لیں اور اہلبیت (ع) کے محتاج اس لئے ہیں کہ قرآن کے معارف و احکام کو ان سے سکیھیں اہلبیت (ع) ہی ان لوگوں کی ہدایت کریں اور پیغمبر اسلام (ص) کے مقدس اہداف کو عملی جامہ پہنائیں_

۳)___جو مسلمان، قرآن کے دستور اور اہلبیت (ع) کی پیروی کرتے ہیں وہ کبھی بھی گمراہ نہ ہوں گے اور دنیا و آخرت کی سعادت کو حاصل کریں گے_

۴)___ پیغمبر اکرم (ص) نے اس حدیث میں حضرت علی علیہ السلام کو اپنے اہلبیت (ع) کی ایک فرد بتایا ہے اور لوگوں کو حکم دیا ہے کہ وہ حضرت علی (ع) کی ولایت و رہبری کو قبول کریں _ پیغمبر اسلام (ص) نے جن کی اطاعت کو واجب قرار دیا ہے ان کی تعداد کو پوری طرح واضح کردیا ہے_

یہ حدیث کہ جس میں پیغمبر اسلام (ص) نے لوگوں کو دو قیمتی چیزوں کے متعلق وصيّت کی ہے '' حدیث ثقلین'' کے نام سے مشہور ہے اور یہ ان احادیث میں سے ہے کہ جو مسلّم اور قطعی ہے اس حدیث کے راویوں نے اسے پیغمبر اکرم (ص) سے نقل کیا ہے یہ حدیث شیعہ اور سنّی کی معتبر کتابوں میں موجود ہے_(۱)

____________________

۱) البدایہ و النہایہ جلد ۵_ صحیح مسلم جلد ۴ _ مستدرک حاکم جلد ۳_ مجمع الزوائد جلد ۹_ اور ان کے علاوہ دوسری بہت زیادہ شیعہ اور سنّی کی معتبر کتابوں میں یہ حدیث موجود ہے_

۲۶۹

پیغمبر اسلام (ص) نے ارشاد فرمایا:

قال رسول اللہ صلّی اللہ علیہ و الہ: انّی تارک فیکم الثقلین کتاب اللہ و اہل بیتی لن یفترقا حتی یردا علی الحوض

'' میں تم میں دو گراں قدر چیزیں چھوڑے جاتا ہوں_ ایک اللہ کی کتاب اور دوسرے میرے اہلبیت (ع) ، یہ دونوں جدا نہ ہوں گے یہاں تک کہ میرے پاس حوض پر وارد ہوں گے''_

۲۷۰

سوالات

سوچیئے اور جواب دیجئے

۱)___ پیغمبر(ص) کی دو قیمتی چیزیں کیا تھیں؟ ان کے بارے میں آپ نے مسلمانوں کو کیا حکم دیا ہے؟

۲)___ پیغمبر (ص) نے غدیر خم میں کس کو پہنچوایا تھا اس کے بارے میں کیا فرما اور کیا دعا کی تھی؟

۳)___ پہنچوانے سے پہلے آپ نے لوگوں سے کیا پوچھا تھا اور آپ کا ان سوالوں سے کیا مقصد تھا؟

۴)___ پیغمبر (ص) نے دینی ، اجتماعی اور سیاسی مشکلات کے حل کے لے کس شخص کو معيّن فرمایا ہے؟

۵)___ مسلمانوں کا ان دو چیزوں کے متعلق کیا فریضہ ہے؟

۶)___ قرآن اور عترت ایک دوسرے سے جدا نہ ہوں گے، اس کی وضاحت کیجیئے

۷)___ مسلمان کس طرح دنیا اور آخرت کی سعادت کو حاصل کرسکتا ہے اور کس کی رہبری کو قبول کر کے؟

۲۷۱

اسلام میں امامت

اسلام ایک مقدّس اور عالمی دین ہے جو انسان کی زندگی کی ہر ضرورت کے لئے کافی ہے چنانچہ اس نے انسان کی زندگی کے ہر پہلو کو مد نظر رکھتے ہوئے آئین ودستور وضع کئے ہیں_

انسان کے انفرادی امور کے لئے الگ قانون وضع کئے ہیں اور اجتماعی امور کے لئے الگ، لہذا احکام اسلامی کو دو حیثیت سے دیکھنا ہوگا_ ایک وہ جن کا تعلق افراد سے ہے جیسے نماز، روزہ، حج اور طہارت و غیرہ اوردوسرے اجتماعی احکام ہیں جیسے جہاد، دفاع، قضا، حدود، دیات، قصاص، امر بالمعروف نہی عن المنکر اور اقتصادی و سیاسی

اگر چہ انفرادی احکام میں بھی اجتماعی و سیاسی پہلو ہے اور اسی طرح اجتماعی احکام میں انفرادی فائدہ بھی ہے یہ دونوں تقریبا ایک ہی جیسے ہیں_ اسلام کے اجتماعی اور سیاسی احکام لوگوں میں عدل و انصاف قائم کرنے، معاشرہ میں نظم ، ضبط، امنيّت اور حفاظت کے لئے ہوتے ہیں_ اسلام کے اجتماعی و سیاسی احکام، معاشرہ میں فلاح و بہبود کی بقاء کے ضامن ہوتے ہیں تا کہ لوگ اپنے عبادی فرائض کو انجام دے سکیں لیکن اسلام کے اجتماعی و سیاسی قوانین کو جاری کرنا اور ان پر عمل کرانا شخصی طور پر ممکن نہیں ہے بلکہ اس کے لئے حکومت کی ضرورت ہے لہذا مسلمان، اسلامی حکومت کے ذریعہ ہی اسلام کے اجتماعی قوانین کو جاری کرسکتا ہے اور طاقت کے زور پر اسلامی قوانین کو عملی جامہ

۲۷۲

پہنا سکتا ہے اور اسلامی سرزمین کو دشمنوں سے لے سکتا ہے_

حالانکہ اس قسم کے تشکیلات ہر ملک کے لئے ضروری ہوا کرتے ہیں لیکن فرق صرف اتنا ہے کہ اسلامی حکومت میں حکومت کے لارکان، اسلام کی بنیاد پر ہوتے ہیں اور اس کی رہبری ایک دیندار، دین شناس اور پرہیزگار شخص کے ذمّہ ہوتی ہے اور اس کے لئے یہ عہدہ خود خداوند عالم کی طرف سے ہوتا ہے_

پیغمبر اسلام (ص) کے زمانہ میں اسلامی حکومت کیسے تھی؟

رسول خدا(ص) کے زمانہ میں مسلمانوں کی رہبری خود آپ کے ذمّہ تھی آپ اسلام کے اجتماعی و سیاسی قوانین کو جاری کرتے تھے اور معاشرہ کو اسلامی طریقے سے چلاتے تھے جہاد و دفاع کا حکم خود آپ دیا کرتے تھے ، فوج کا کمانڈر خود معيّن کرتے تھے لیکن حکم آپ خود دیا کرتے تھے، آپ کے زیر فیصلے ہوتے تھے_

آپ قاضی کی تربیت کرتے انھیں دور و نزدیک کے شہروں اوردیہاتوں میں روانہ کرتے تھے تا کہ وہ لوگوں کے درمیان فیصلے کریں، اسلام کے قوانین کے مطابق لوگوں کی مشکلات کو حل کریں اور حدود الہی کو جاری کریں_ بیت المال کی تقسیم آپ کے زیر نظر ہوا کرتی تھی اور جنگ میں ہاتھ آنے والے مال کی تقسیم بھی خود آپ ہی کے ذمّہ تھی_

اس کے علاوہ پیغمبر اسلام (ص) کا خداوند عالم سے ایک خاص ربط تھا آپ قوانین الہی کو وحی کے ذریعہ حاصل کرتے تھے اور انھیں لوگوں تک پہونچاتے تھے، معاشرہ کو حکم الہی کے مطابق چلاتے تھے یہاں تک کہ آپ کی آنکھ بند ہوگئی_

۲۷۳

رسول خدا (ص) کے بعد اسلامی حکومت:

رسول خدا (ص) کے بعد دین اسلام اور احاکم و قوانین اسلامی کی حفاظت کون کرے؟ کیا اسلامی معاشرہ کو پیغمبر اسلام(ص) کے بعد کسی رہبر کی ضرورت نہیں؟ کیا پیغمبر اسلام (ص) اسلامی معاشرہ کو بغیر کسی رہبر کے چھوڑ گئے اور آپ نے اس بارے میں کوئی وصيّت نہیں کی؟

حالانکہ پیغمبر اسلام (ص) نے دین اسلام کو ہمیشہ رہنے والا اور آخری دین بنایا ہے پس کس طرح ہوسکتا ہے کہ اس آخری دین کے لئے محافظ معيّن نہ کیا ہو؟ یہ کیسے ممکن ہے کہ اسلامی معاشرہ کو کسی رہبر کے بغیر چھوڑ کر گئے ہوں؟ حالانکہ کبھی آپ نے کسی فوج کو بغیر اس کے سردار کے جنگ کے لئے نہیں بھیجا بلکہ کبھی احتیاط کے طور پر چند سرداروں کو معيّن کرتے تھے تا کہ ایک کی شہادت سے دوسرا سردار فوج کو کنٹرول کرسکے_

یہ کس طرح ممکن ہے کہ اسلام کی نوازئیدہ مملکت کو پیغمبر(ص) کوئی ولی معيّن کئے بغیر چھوڑ کر چلے جائیں حالانکہ بعض صورتوں میں آپ اگر تھوڑے دنوں کے لئے بھی سفر پر جاتے تھے تو مسلمانوں کے مسائل کے حل کے لئے کسی کو معيّن کرتے تھے یہ کیسے ہوسکتا ہے کہ پیغمبر اسلام (ص) نے نو بنیاد اسلامی معاشرہ کو بغیر سرپرست اور رہبر کے چھوڑ دیا ہو؟

حالانکہ جب بھی کسی جگہ کو فتح کرتے تو آپ فوراً کسی شخص کو اس کا سرپرست معيّن کردیتے تھے_ جو پیغمبر (ص) اتنا دور اندیش، مستقبل شناس اور امّت اسلامی کے اجتماعی و سیاسی

۲۷۴