وہابیت عقل و شریعت کی نگاہ میں

وہابیت عقل و شریعت کی نگاہ میں0%

وہابیت عقل و شریعت کی نگاہ میں مؤلف:
زمرہ جات: ادیان اور مذاھب
صفحے: 274

وہابیت عقل و شریعت کی نگاہ میں

مؤلف: ڈاکٹر سید محمد حسینی قزوینی
زمرہ جات:

صفحے: 274
مشاہدے: 137413
ڈاؤنلوڈ: 3383

تبصرے:

وہابیت عقل و شریعت کی نگاہ میں
کتاب کے اندر تلاش کریں
  • ابتداء
  • پچھلا
  • 274 /
  • اگلا
  • آخر
  •  
  • ڈاؤنلوڈ HTML
  • ڈاؤنلوڈ Word
  • ڈاؤنلوڈ PDF
  • مشاہدے: 137413 / ڈاؤنلوڈ: 3383
سائز سائز سائز
وہابیت عقل و شریعت کی نگاہ میں

وہابیت عقل و شریعت کی نگاہ میں

مؤلف:
اردو

''والمشبهة ان قال: ان للّه یدااو رجلا کما للعباد فهو کافر،وان قال:انه جسم ،لاکاالاجسام فهو مبتدع'' .( ۱ )

مشبہ ( جو خدا کو بندوں سے تشبیہ دیتے ہیں ) اگر کہیں کہ خدا بھی بندوں کے مانند ہاتھ پاؤں رکھتا ہے تو وہ کافر ہیں اور اگر کہیں کہ خد اجسم رکھتا ہے لیکن باقی اجسام کے مانند نہیں تووہ بدعت گذارہیں ۔

اسی طرح عالم اہل سنت غزالی متوفیٰ ۵۰۵ ہجری لکھتے ہیں :

''فان خطر بباله ان الله جسم مرکب من اعضاء فهو عابد صنم ؛ فان کل جسم فهو مخلوق ، وعبادة المخلوق کفر، وعبادة الصنم کفر؛ لانه مخلوق وکان مخلوقا ؛ لانه جسم، فمن عبد جسما فهو کافر باجماع الائمةالسلف منهم والخلف '' .( ۲ )

اگر کوئی شخص یہ گمان کرے کہ خدا وند متعال جسم رکھتا ہے جو متعدد اعضاء پر مشتمل ہے تو وہ بت پرست ہے اس لئے کہ ہر جسم مخلوق ہے اور آئمہ سلف و خلف کا اس پر اجماع ہے کہ مخلوق کی پرستش کفرو بت پرستی ہے ۔

۴۔ یہودیوں کے ذریعہ تجسیم کا داخل ہونا :

شہر ستانی کہتے ہیں :''وضع کثیر من الیهود الذین اعتنقوا الاسلام

____________________

(۱)البحر الرائق ۱: ۶۱۱.

(۲)الجام العوام عن علم الکلام :۲۰۹و دراسات فی منھاج السنة : ۱۴۵ ۔ الرسالة التدمریہّ : ۹۲.

۱۴۱

احادیث متعددة فی مسائل التجسیم والتشبیه وکلها مستمدة من التوراة'' .( ۱ )

اسلام میں داخل ہونے والے یہودیوں نے تجسیم و تشبیہ کے بارے میں بہت سی احادیث جعل کیں جو سب تورات سے لی گئی ہیں ۔

۵۔ کتب اہل سنت میں اسرائیلیات کا داخل ہونا :

ماضی کے حالات اور تاریخ کا مطالعہ کرنے سے معلوم ہوتا ہے کہ اہل سنت کی حدیثی ، تاریخی اور تفسیری کتب میں اسرائیلیات کے وارد ہونے سے تاریخی واقعات کاحقیقی چہرہ مسخ ہو گیا اس حقیقت کو تشخیص دینا انتہائی مشکل و دشوار کام ہے اس لئے کہ یہ چیز محققین کے لئے ایک تاریخی واقعہ کی حقیقت تک پہنچنے کے لئے مشکل سے دچاری بلکہ بسا اوقات تو ناکامی کا باعث بنتی ہے ۔

ابن خلدون لکھتا ہے :

صدر اسلام کے عرب علم و کتابت سے بے بہرہ تھے لہٰذا کائنات کی خلقت اور اس کے اسرار کے بارے میں یہودی علماء اور اہل تورات یا نصاریٰ مانند کعب الاحبار ، وہب بن منبہ اور عبد اللہ بن سلام سے پوچھا کرتے :

یہاں تک کہ لکھتا ہے :

''فامتلات التفاسیر من المنقولات عندهم وتساهل

____________________

(۱) ملل ونحل ۱: ۱۱۷.

۱۴۲

المفسرون فی مثل ذلک وملاوا کتب التفسیر بهذه المنقولات، واصلهاکلها کما قلنا من التوراة او مما کانوا یفترون'' .( ۱ )

تفاسیر اہل سنت یہود و نصاریٰ کے اقوال سے بھر گئیں ، مفسرین نے بھی اس مسئلہ میں سستی سے کام لیا اور ان جیسی روایات سے تفاسیر کو بھر کر دیا جب کہ ان تمام روایات کا سرچشمہ جیسا کہ ہم نے بیان کیا تورات اور یہودیوں کے خود ساختہ جھوٹ ہیں ۔

افسوس کہ اہل سنت کی دو معتبر کتب صحیح بخاری اور صحیح مسلم بھی اس مصیبت سے محفوظ نہ رہ سکیں ۔ ان کے اندر بھی ایسی روایات کثرت سے دکھائی دیتی ہیں جن میں سے ایک خود ساختہ حدیث مندرجہ ذیل ہے جو یہودیوں کے افکار سے مسلمانوں کے درمیان رواج پاگئی :

ابو ہریرہ نقل کرتے ہیں کہ رسول خدا (صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم )نے فرمایا :

''ینزل الله الی السماء الدنیا کل لیلة حین یمضی ثلث اللیل الاول فیقول انا الملک انا الملک من ذاالذی یدعونی فاستجیب له من ذاالذی یسالنی فاعطیه من ذا الذی یستغفرنی فاغفرله فلایزال کذلک حتی یضی ء الفجر '' .( ۲ )

____________________

(۱)تاریخ ابن خلدون ( مقدمہ ) ۱: ۴۳۹.

(۲)صحیح مسلم ۲: ۱۷۵ ۱۶۵۷ و صحیح بخاری ۲: ۱۱۴۵۴۷ و ۷: ۱۴۹ ۶۳۲۱.

۱۴۳

بعض روایات میں ہے :''فا ذا طلع الفجر صعد الی عرشه'' .( ۱ ) جب طلوع فجر ہوتی ہے تو عرش کی طرف واپس پلٹ جاتا ہے ۔

شاید ایک زمانہ میں سادہ لوح لوگوں کو ان جیسی بے بنیادباتوں سے بہلانا آسان تھا لیکن آج جب کہ علم اتنی ترقی کر چکا ہے اور انسان کی عقل کمال کی بلندیوں کو چھو رہی ہے تو ایسی باتیں تمسخر کا باعث بنتی ہیں اس لئے کہ کرہ ٔ زمین کا کوئی ایسا حصہ نہیں کہ جہاں ہر وقت دن یا رات نہ ہو یعنی کہیں دن ہے تو کہیں رات۔ جب تک زمین باقی ہے تب تک دن اور رات گردش میں ہیں لہٰذا اگر خدا زمین پرآئے گا تو پھر کبھی عرش پر پلٹ کے نہ جا سکے گا اسی لئے تو بعض علمائے اہل سنت اس روایت کی توجیہ کرنے میں حیرت و سرگردانی کا شکار ہو گئے ہیں ۔( ۲ )

____________________

(۱) فتح الباری ۱۳:۳۹۰ و عمدة القاری ۲۵ :۱۵۹.

(۲) تفسیر قرطبی ۴: ۳۹؛ فتح الباری ۱۳: ۳۹۰.

۱۴۴

ابن تیمیہ کے دیگر اقوال پر ایک نظر

قرآن و احادیث اور علمائے اہل سنت کے بیان کردہ اقوال کی روشنی میں ابن تیمیہ کی عبارت پر ایک بار پھر نگا ہ ڈالتے ہیں :

''لیس فی کتاب الله ولا سنة رسوله ولا قول احد من سلف الامة وائمتها انه لیس بجسم '' (۱)

____________________

(۱) التاسیس فی رد اساس التقدیس ۱: ۱۰۱.

۱۴۵

کتاب خدا، سنت رسول اللہصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم ، صحابہ اور دینی پیشواؤں میں سے کسی نے یہ نہیں کہا کہ خد اجسم نہیں رکھتا

کیا( لَیْسَ کَمِثْلِهِ شَیْئ ) ( ۱ ) اور( وَلَمْ یَکُنْ لَهُ کُفُوًا أَحَد ) ( ۲ ) قرآن کی آیات نہیں ہیں ؟

یا ابی بن کعب کی نقل کی ہوئی حدیث جس کے صحیح ہونے کی گواہی حاکم نیشاپوری اور ذہبی نے دی ہے کیا وہ سنت رسولصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم سے خارج ہے ؟!یا یہ کہ احمدبن حنبل ، بیہقی، قرطبی ، عبد القاہر بغدادی اور شہرستانی و...اہل سنت کے علماء نہیں ہیں ؟!

کیا یہ صحیح نہیں ہے کہ ابن تیمیہ کے تجسیم کے بارے میں باطل عقیدہ کی بناء پر اس کے ہم عصر علماء نے اسے زندان میں ڈالنے کا فتویٰ دیا ؟

جیسا کہ ابو الفداء اپنی تاریخ میں لکھتا ہے :

''استدعی تقی الدین احمد بن تیمیه من دمشق الی مصر و عقد له مجلس وامسک واودع الاعتقال بسبب عقیدته ؛ فانه کان یقول بالتجسیم...'' ( ۳ )

ابن تیمیہ کو دمشق سے مصر طلب کیا گیا محاکمے کے بعد اس کے عقیدہ کی وجہ

____________________

(۱)سورۂ شوریٰ : ۱۱.

(۲) سورۂ اخلاص : ۴.

(۳) تاریخ ابو الفداء ۲: ۳۹۲ حوادث ۷۰۵وکشف الارتیاب : ۱۲۲.

۱۴۶

سے اسے گرفتار کرکے زندان میں ڈال دیا گیا اس لئے کہ وہ خدا کے بارے میں جسم ہونے کا عقیدہ رکھتا تھا ۔

ابن حجر عسقلانی کے مطابق مالکی قاضی نے اعلان کیا :''فقد ثبت کفره'' .( ۱ ) کہ ابن تیمیہ کا کافر ہونا ثابت ہو چکا ہے ۔

اسی طرح اہل سنت کے دو عظیم عالم دین ابن حجر عسقلانی اور شوکانی لکھتے ہیں :

شافعی قاضی نے دمشق میں یہ اعلان کرنے کا حکم دیا :

''من اعتقد عقیدة ابن تیمیه حل دمه وماله '' .( ۲ )

جو بھی ابن تیمیہ کا عقیدہ اپنائے اس کا جان و مال مباح ہے ۔

____________________

(۱)الدرر الکامنہ ۱:۱۴۵.

(۲)الدرر الکامنہ:۱۴۷ و البدر الطالع ۱: ۶۷.

۱۴۷

فصل پنجم

وہابی اور مسلمانوں کو کافر قرار دینا

۱۔ ابن تیمیہ کا مسلمانوں کو کافر اور انھیں قتل کرنے کا حکم دینا :

خطرناک ترین کا م جو بانیٔ افکار وہابیت ابن تیمیہ نے اپنی دعوت کے آغاز میں کیا اور جس سے عمومی افکار کوآلودہ اور عوام الناس کے عقائد کو مجروح کیا وہ مسلمانوں پرکفر و شرک کی تہمت لگانا تھا اس نے با قاعدہ طو ر پر اعلان کیا :

''من یاتی الی قبر نبی او صالح، ویساله حاجته ویستنجده ...فهذاشرک صریح ، یجب ان یستتاب صاحبه ، فان تاب والا قتل '' .( ۱ )

جو شخص بھی قبر پیغمبر(صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم ) یا صالح افراد میں سے کسی کی قبر کے پاس آئے اور اس سے حاجت طلب کرے وہ مشرک ہے اسے تو بہ کا حکم دیا

____________________

(۱)زیارة القبور والاستنجاد بالمقبور: ۱۵۶ و الہدیہ السنیہ :۴۰.

۱۴۸

جائے اگر توبہ کرلے تو صحیح ورنہ قتل کر دیا جائے ۔

۲۔محمد بن عبد الوہاب کا مسلمانوں کوکافر اور ان سے جہاد کا حکم دینا :

محمد بن عبد الوہاب مجدد افکار ابن تیمیہ کہتا ہے :

''وان قصد هم الملائکة والانبیاء والاولیاء ، یریدون شفاعتهم والتقرب الی الله بذلک ، هو الذی احل دماء هم واموالهم '' .( ۱ )

ان کا مقصد ملائکہ ، انبیاء اور اولیاء سے شفاعت طلب کرنا اور ا نہیں خد ا سے تقرب کا وسیلہ قرار دینا ہے ۔یہی چیز ان کے جان ومال کے حلال ہونے کا باعث بنی ہے ۔

یہاں تک کہ کہتا ہے :

''ان هذا الذی یسمیه المشرکون فی زماننا ( کبیر الاعتقاد ) هو الشرک الذی نزل فی القرآن وقاتل رسول الله ]صلی الله علیه و آله وسلم [ الناس علیه فاعلم ان الشرک الاولین اخف من شرک اهل زماننابامرین :

احدهما : ان الاولین لایشرکون ولا یدعون الملائکة والاولیاء والاوثان مع الله الا فی الرخاء ، واما فی الشدة

فیخلصون لله الدعائ...

____________________

(۱) کشف الشبہات :۵۸؛ مجموع المولفات الشیخ محمد بن عبد الوہاب ، ۶ رسالة کشف الشبہات :۱۱۵.

۱۴۹

الامر الثانی : ان الاولین یدعون مع الله اناسا مقربین عند الله، اما انبیاء واما اولیاء ، واما الملائکة، او یدعون اشجارا او احجارا مطیعة لله لیست عاصیة .واهل زماننا یدعون مع الله انا سا من افسق الناس ان الذین قاتلهم رسول الله اصح عقولا واخف شرکا من هؤلاء ''.( ۱ )

محمد بن عبد الوہاب کہتا ہے : یہ ( توسل ) جس کے معتقد ہمارے زمانہ کے مشرکین ہیں یہ وہی شرک ہے جسے قرآن میں بیان کیا گیا اور پیغمبر (صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم )نے اس کی خاطر لوگوں سے جنگ کی ۔

اس سے آگاہ رہنا چاہئے کہ زمانۂ پیغمبرصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے مشرکین کا شرک ہمارے زمانے کے مسلمانوں کے شرک سے دو دلیلوں کی بناء پر کمتر ہے :

۱۔ اس زمانہ کے مشرک فقط خوشحالی کی صورت میں ملائکہ اور بتوں کو صدا کرتے لیکن جب کسی مشکل میں مبتلا ہوتے تو مخلصانہ طور پر خدا کو پکارتے ۔جب کہ ہمارے زمانہ کے مشرک مسلمان خوشی اور مصیبت دونوں صورتوں میں غیر خدا کو پکارتے ہیں ۔

____________________

(۱)مجموع مولفات محمد بن عبد الوہاب :۶:۱۲۴،'' رسالة کشف الشبہات'': ۱۲۴.

۱۵۰

۲۔ پیغمبر (صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم )کے زمانہ کے مشرک وبت پرست خدا کے

مقرب بندوں کو اس کی اطاعت کے لئے پکارتے تھے جیسے انبیاء ، اولیاء اور ملائکہ یا درخت و پتھر جب کہ ہمارے زمانہ کے مشرک ( مسلمان) ان افراد کو پکارتے ہیں جو فاسق ترین انسان ہیں ۔

پس اس سے واضح ہو گیا کہ جن لوگوں سے رسول خدا صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے جنگ کی ان کی عقل ہمارے زمانہ کے مشرکوں سے کامل اور ان کا شرک ان سے کمتر تھا ۔

۳۔ مسلمانوں کو مشرک ، کافر اور بت پرست کہنا :

محمد بن عبد الوہاب نے رسالہ ''کشف الشبہات''میں چوبیس سے بھی زیادہ بار مسلمانوں کو مشرک اور پچیس مقامات پر مسلمانوں کو کافر ، بت پرست ، مرتد ، منافق ، منکر توحید ، دشمن توحید، دشمن خدا ، مدعیان اسلام ، اہل باطل ، نادان اور شیاطین کہاہے اسی طرح کہا ہے کہ نادان کا فرو بت پرست ان مسلمانوں سے دانا تر ہیں ان کا امام اور پیشوا شیطان ہے( ۱ )

____________________

(۱) سید محسن امین فرماتے ہیں :''وقد اطلق محمد بن عبد الوهاب فی رسالة ''کشف الشبهات'' اسم الشرک والمشرکین علی عامة المسلمین عدی فیما یزید عن اربعة و عشرین موضعا واطلق علیهم اسم الکفر والکفار وعباد الاصنام والمرتدین والمنافقین وجاحدی التوحید واعدائه واعداء الله ومدعی الاسلام واهل الباطل والذین فی قلوبهم زیغ والجهال والجهلة والشیاطین وان جهال الکفار عبد الاصنام اعلم منهم ان ابلیس امامهم ومقدمهم ، الی غیر ذلک من الالفاظ الشنیعة فیما یزید عن خمسة وعشرین موضعا ''.کشف الارتیاب :۱۴۷ نقل از کشف الشبهات : ۵۷۷۲.

رجوع کریں : مجموع مولفات محمد بن عبد الوہاب ،۶: ۱۱۴؛ رسالة کشف الشبہات ، ۱۴۳ و رسالة القواعد الاربع

۱۵۱

۴۔ وہابی مذہب میں داخل ہونے کی شر ط مسلمانو کے کفر کی گواہی دینا ہے :

مفتی مکہ مکرمہ احمد زینی دحلان لکھتے ہیں :

کان محمد بن عبد الوهاب اذا تبعه احد وکان قد حج حجة الاسلام ، یقول له : حج ثانیا! فان حجته الاولی فعلتها وانت مشرک ، فلا تقبل ، لا تسقط عنک الفرض

واذا اراد احد الدخول فی دینه ، یقول له بعد الشهادتین : اشهد علی نفسک انک کنت کافرا ، وعلی والدیک انهما ماتا کافرین ، وعلی فلان و فلان ، ویسمی جماعة من اکابر العلماء الماضین انهم کانوا کفارا ، فان شهد قبله ، والا قتله ،وکان یصرح بتکفیر الامة منذ ستمائة سنة ، ویکفر من لایتبعه، ویسمیهم المشرکین ، ویستحل دماء هم واموالهم ''.( ۱ )

جب کوئی شخص وہابی مذہب قبول کرتا اور اس نے حج واجب بجالایا ہوتا تو محمد بن عبد الوہاب اسے کہتا دوبارہ حج بجالاؤ اس لئے کہ پہلے والا حج تونے شرک کی

____________________

(۱) الدرر السنیہ ۱: ۴۶ ؛ الفجر الصادق لجمیل صدقی زہاوی : ۱۷ وکشف الارتیاب : ۱۳۵ نقل از خلاصة الکلام دحلان : ۲۲۹۔ ۳۳۰.

۱۵۲

حالت میں انجام دیالہٰذا وہ قبول نہیں ہے اور فریضہ ساقط نہیں ہوا ۔

اور اگر کوئی شخص وہابی ہونا چاہتا تو محمد بن عبد الوہاب اسے کہتا : شہادتین کے بعد کہے کہ وہ پہلے کافر تھا اور اس کے ماں باپ بھی کفر پر مرے ہیں اور اسی طرح گواہی دے کہ سابقہ اکابر علماء کفر پر مرے ہیں اور اگر وہ یہ گواہی نہ دیتا تو اسے قتل کر دیا جاتا ۔

ہاں ! وہ معتقد تھا کہ گذشتہ بارہ صدیوں کے مسلمان کا فرتھے اور جو شخص وہابی مکتب کی پیروی نہ کرتا اسے مشرک سمجھ کر اس کا مال و جان مباح قرا ر دے دیتا.

۵۔ امت مسلمہ کے کفر وارتداد کا حکم :

محمدبن عبد الوہاب کا بھائی سلیمان لکھتا ہے :

یہ امور (آنحضرت صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی ذات گرامی سے توسل )جنھیں تو کفرو شرک کا باعث سمجھتا ہے امام احمد بن حنبل کے زمانہ سے بھی پہلے موجود تھے۔ بعض علماء نے انھیں قبیح جانا ہے لیکن یہ اعمال تمام اسلامی سر زمینوں میں موجود ہونے کے باوجود ائمہ اربعہ میں سے کسی نے ان اعمال کے بجالانے کی وجہ سے لوگوں کو کافر قرار نہیں دیا اور نہ ہی انھیں مرتد کہا ہے اور نہ ہی ان کی سرزمین کو سر زمین شرک قرار دے کر ان سے جنگ کا حکم دیا ہے ۔

یہ وہ باتیں ہیں جو تم ہی کرتے ہو ! یہاں تک کہ ان اعمال کے انجام دینے والوں کو اگر کوئی کافر نہ کہے تو تم اسے بھی کافر سمجھتے ہو ۔

۱۵۳

کیا واقعاً !تم یہ خیال کرتے ہو کہ یہ وہی واسطے ہیں جنھیں ابن تیمیہ نے اپنی عبارت میں ذکر کیا ہے ؟

ائمہ اربعہ سے لے کر آج تک آٹھ سو سال گذر چکے ہیں لیکن علمائے اسلام میں سے کسی نے ان اعمال کو کفر نہیں جانا اور کوئی عاقل ایسا گمان بھی نہیں کرسکتا ۔

''والله ! لازم قولکم : ان جمیع الامة بعد زمان الامام احمدرحمة الله علماء ها ، امراؤها ، وعامتها کلهم کفار، مرتدون ...''،

خدا کی قسم ! تمہاری اس بات کا نتیجہ تو یہ ہے کہ امام احمد بن حنبل رحمة اللہ کے بعد ساری امت چاہے علماء ہوں یا حکام و عوام سب کے سب کافر و مرتد ہیں( انا للّٰه وانا الیه راجعون ) خدا سے پناہ چاہتاہوں ، خدا سے پناہ چاہتا ہوں ۔

یا تم یہ گمان کرتے ہو جیسا کہ تم میں سے بعض نے کہا هے''ان الحجة ما قامت الابکم ، والا قبلکم لم یعرف دین الاسلام ''. کہ تمہارے سوا حجت تمام نہیں ہوتی ؟ا ور سلف نے اسلام کو نہ پہچانا ؟( ۱ )

____________________

(۱)الصواعق الالهیة فی الرد علی الوهابیة: ۳۸. یه کتاب اردو زبان ابو طالب علیه السلام اسلامک انسٹی ٹیو ٹ لاهور کی جانب سے شائع هو چکی هے اور اس کی عربی عبارت یوں هے : ان هذه الامور حدثت من قبل زمن الامام احمد فی زمان ائمة الاسلام وانکرها من انکرها منهم ولا زالت حتی ملات بلاد الاسلام کلها وفعلت هذه الافاعیل کلها التی تکفرون بها، ولم یرو عن احد من ائمه المسلمین انهم کفروا بذلک ولا قالوا : هؤلاء مرتدون ولا امروا بجهادهم ، ولا سموا بلاد المسلمین بلاد شرک و حرب ، کما قلتم انتم ؛ بل کفرتم من لم یکفر بهذه الافاعیل ، وان لم یفعلها

.ایظنون ان هذه الامور من الوسائط التی فی العبارة الذی یکفرفاعلها اجماعا ، وتمضی قرون الائمة من ثمان مائة عام ومع هذا لم یرو عن عالم من علماء المسلمین انها کفر؛بل مایظن هذا عاقل ؛بل والله لازم قولکم : ان جمیع الامة بعد زمان الامام احمد ، علماء ها، وامراؤ ها ، وعامتها ، کلهم کفار، مرتدون ، فانا لله وانا الیه راجعون ، واغوثاه الی الله ثم واغوثا، ام تقولون کما یقول بعض عامتکم ان الحجة ما قامت الا بکم ، والا قبلکم لم یعرف دین الاسلام ''

۱۵۴

۶۔ آیت اکمال کی وہابی مذہب پر تطبیق:

دولت عثمانی میں نیوی کالج کے میجر ایوب صبری لکھتے ہیں : سعود بن عبد العزیز نے مدینہ منورہ پر قبضہ کے بعد تمام اہل مدینہ کو مسجد النبی میں جمع کیا اور مسجد کے دروازے بند کروانے کے بعد یوں اپنی گفتگو کاآغاز کیا :

''یا اهالی المدینة ! ان دینکم الیوم قد کمل وغمرتکم نعمة الاسلام ورضی الله عنکم طبق قوله تعالیٰ(الیوم اکملت لکم دینکم ) فذرو ادیان آبائکم الباطلة ولا تذکروهم باحسان ابداً، واحذرو ان تترحموا علیهم؛لانهم ماتوا علی الشرک باسرهم''.( ۱ )

اے اہل مدینہ ! اس آیت شریفہ( الیوم اکملت لکم دینکم ) ( ۲ )

____________________

(۱)تاریخ الوہابیة :۱۲۶.

(۲)مائدہ ۵: ۳.

۱۵۵

کے مطابق آج تمہارا دین کامل ہوگیا اور تم نعمت اسلام سے مشرف ہو گئے ، خدا وند متعال تم سے راضی و خوشنود ہو گیا ۔ پس اپنے آباؤ اجدا دکے باطل ادیان کو چھوڑ دو اور انھیں ہر گز نیکی سے یاد نہ کرو اور نہ ہی ان کے لئے رحمت کی دعا کرواس لئے کہ وہ سب مشرک مرے ہیں ۔( ۱ )

۷۔ ابن جبرین کا شیعوں کے کفر کا فتویٰ دینا :

سعودی عرب کے ایک مفتی سے پوچھا گیا: کیا شیعہ فقراء کو زکوٰة دی جاسکتی ہے ؟

تو اس نے یوں جواب دیا: علماء اسلام کا کہنا ہے کہ کافر کو زکوٰة نہیں دے سکتے اور شیعہ چار دلیلوں کی بناء پر کافر ہیں :

۱۔وہ قرآن پر تہمت لگاتے ہیں اور معتقد ہیں کہ قرآن میں تحریف واقع ہوئی ہے او ر کہتے ہیں کہ قرآن کا ۲۳ حصہ حذف ہو گیا ہے ۔ لہٰذا جو بھی قرآن پر تہمت لگائے وہ کافر اور اس آیت شریفہ :( وَإِنَّا لَهُ لَحَافِظُونَ ) ( ۲ ) (ہم نے قرآن کو نازل کیا اور ہم ہی اس کے محافظ ہیں )کا منکر ہے ۔

۲۔ سنت رسول اور صحیح بخاری و صحیح مسلم کی احادیث پر بھی تہمت لگاتے ہیں اور ان دونوں کتابوں کی احادیث پر عمل نہیں کرتے اس لئے کہ وہ کہتے ہیں کہ ان

____________________

(۱) تاریخ وہابیان : ۱۰۷.

(۲) سورۂ حجر : ۹

۱۵۶

دونوں کتابوں کی احادیث صحابہ سے نقل ہوئی ہیں اور صحابہ کو کافر سمجھتے ہیں نیز معتقد ہیں کہ پیغمبرصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے بعدعلی ، ان کی اولاد اور چند ایک صحابہ مانند سلمان و عمار وغیرہ کے سوا سب کافرو مرتد ہو گئے تھے ۔

۳۔ شیعہ ، اہل سنت کو کافر سمجھتے ہیں اور ان کے ساتھ نماز نہیں پڑھتے اوراگر پڑھ بھی لیں تو اس کو دوبارہ پڑھتے ہیں بلکہ وہ معتقد ہیں کہ اہل سنت نجس ہیں لہٰذا اگر کسی سنی سے مصافحہ کرتے ہیں تو ہاتھوں کو پانی سے پاک کرتے ہیں ۔ جو مسلمانوں کو کافر قرار دے وہ خود کفر کا سزا وار ہے جس طرح وہ ہمیں کافر سمجھتے ہیں اسی طرح ہم بھی انھیں کافر سمجھتے ہیں ۔

۴۔ شیعہ علی اور اولاد علی کے بارے میں غلو کرتے ہیں اور انھیں خدا وند متعال کی صفات سے متصف کرتے ہیں اور انھیں خدا کے مانند پکارتے ہیں ۔

وہ اہل سنت کے اجتماعات میں شرکت نہیں کرتے اور نہ ہی سنی فقراء کو صدقہ دیتے ہیں اگر دیں بھی سہی تو ان کے دل میں ہمارے فقراء کا کینہ موجود ہے اور یہ سب کچھ تقیہ کی بناء پر انجام دیتے ہیں ۔

۱۵۷

یہاں تک کہ کہتا ہے :''من دفع الیهم الزکاة فلیخرج بدلها ؛ حیث اعطاها من یستعین بها علی الکفار، وحرب السنه '' .( ۱ )

____________________

( ۱)یہ وہابی مفتی کے تعصب اور مذہب شیعہ کے عقائد سے نا آشنائی کی واضح علامت ہے اس لئے کہ شیعہ عقائد سے آشنائی رکھنے والے افراد بخوبی آگاہ ہیں کہ ان چاروں میں سے کسی ایک عقیدہ کابھی شیعہ عقائدسے کوئی تعلق نہیں ہے ۔ مزید معلومات کے لئے شیعہ عقائد کی کتب کا مطالعہ فرمائیں (مترجم) ۱

۱۔ سوال :''ماحکم دفع زکاة اموال اهل السنة لفقراء الرافضة ''الشیعة ''و هل تبرأ ذمة المسلم الموکل بتفریق الزکاة اذا دفعها للرافضی الفقیر ام لا ؟

جواب :'' لقدذکر العلماء فی مولفاتهم فی باب اهل الزکاة انها لا تدفع لکافر ، ولا مبتدع، فالرافضة بلا شک کفارلاربعة ادلة:

الاول: طعنهم فی القرآن ، وادعاؤهم انه حذف منه اکثر من ثلثیه ، کما فی کتابهم الذی الفه النوری وسماه فصل الخطاب فی اثبات تحریف کتاب رب الارباب وکما فی کتاب الکافی ، وغیره من کتبهم ، ومن طعن فی القرآن فهو کافر مکذب لقوله تعالیٰ :(وَإِنَّا لَهُ لَحَافِظُون )حجر(۱۵) آیت ۹.

الثانی : طعنهم فی السنة واحادیث الصحیحین ، فلا یعملون بها؛ لانها من روایة الصحابة الذین هم کفار فی اعتقادهم ، حیث یعتقدون ان الصحابة کفروا بعد موت النبی ]صلی الله علیه و آله وسلم [الا علی و ذریته ، وسلمان و عمار، ونفر قلیل ، اما الخلفاء الثلاثة، وجماهیر الصحابه الذین بایعوهم فقد ارتدوا فهم کفار، فلا یقبلون احادیثهم ، کما فی کتاب الکافی وغیره من کتبهم

الثالث : تکفیر هم لا هل السنة ، فهم لا یصلون معکم ، ومن صلی خلف السنی اعاد صلاته ؛ بل یعتقدون نجاسة الواحد منا، فمتٰی صافحنا هم غسلوا ایدیهم بعدنا ، من کفر المسلمین فهو اولی بالکفر ، فنحن نکفرهم کما کفرونا و اولیٰ

الرابع: شرکهم الصریح بالغلو فی علی و ذریته ، ودعاؤهم مع الله ، وذلک صریح فی کتبهم وهکذا غلوهم ووصفهم له بصفات لا تلیق الابرب العالمین ، وقد سمعنا

ذلک فی اشرطتهم

.ثم انهم لا یشترکون فی جمعیات اهل السنة، ولا یتصدقون علی فقراء اهل السنة ، ولو فعلوا فمع البغض الدفین ، یفعلون ذلک من باب التقیة ، فعلی هذ ا من دفع الیهم الزکاة فلیخرج بدلها ؛ حیث اعطاها من یستعین بها علی الکفر، وحرب السنة ، ومن وکل فی تفریق الزکاة حرم علیه ان یعطی منها رافضیا ، فان فعل لم تبرا ذمته، وعلیه ان یغرم بدلها ، حیث لم یؤد الامانة الی اهلها ، ومن شک فی ذلک فلیقراء کتب الرد علیهم ، ککتاب القفاری فی تفنید مذهبهم ، وکتاب الخطوط العریضة الخطیب وکتاب احسان الهی ظهیر وغیرها والله الموفق'' اللؤ لؤ المکین من فتاوی فضلیة الشیخ ابن جبرین: ۳۹.

۱۵۸

اگر کوئی شخص کسی شیعہ کو زکوٰة دے تو اسے چاہئے کہ دوبادرہ ادا کرے اس لئے کہ اس نے ایسے شخص کو زکوٰة دی ہے جو کفر کو تقویت دے رہا اور سنت رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم سے جنگ کر رہا ہے ۔

۸۔ شیعوں کے خلاف جہاد کا کھلا اعلان :

سعودی عرب کے ایک اور مفتی شیخ عبد الرحمان برّاک سے فتویٰ طلب کیا گیا: '' ھل یمکن ان یکون ھناک جھادبین فئتین من المسلمین ''السنة مقابل الشیعة ''؟کیا شیعہ اور سنی کے درمیان جہاد ممکن ہے ؟

اس نے جواب میں لکھا :''..ان کان لاهل السنة دولت وقوةواظهر الشیعة بدعهم ، وشرکهم واعتقاداتهم ،فان علی اهل السنة ان یجاهدوهم با لقتال .( ۱ )

____________________

(۱) المنجد سائٹ سوال نمبر ۲۷۲ ۱۰اور سائٹ ( edaa. net )

۱۵۹

اگر اہل سنت کے پاس طاقت حکومت ہو اور شیعہ اپنی بدعات ، شرک اور عقائد کا اظہار کریں تو اہل سنت پر واجب ہے کہ ان سے جہاد کرکے انھیں قتل کر ڈالیں ۔

بالکل اسی طرح کا فتویٰ شیخ عبد اللہ بن جبرین نے بھی صادر کیا ہے (و talal-sm.maktoobblog.com.forum. maktoob. com )

۹۔ سعودی عرب میں فتویٰ کی اعلیٰ کمیٹی کا شیعوں کے کفر کا فتویٰ :

سعودی عرب میں فتویٰ صادر کرنے والی اعلیٰ کمیٹی نے شیعوں کے بارے میں ایک سوال کے جواب میں لکھا :

''ان کان الامر کما ذکر السائل من ان الجماعة الذین لدیه من الجعفریة یدعون علیا والحسن والحسین وسادتهم فهم مشرکون مرتدون عن الاسلام '' ۔( ۱ )

جیسا کہ سوال کیا گیا کہ وہ ( یا علی ) اور ( یاحسن ) اور (یاحسین ) کہتے ہیں تو وہ مشرک اور دائرہ اسلام سے خارج ہیں ۔

اور اس فتویٰ پر اعلیٰ کمیٹی کے مندرجہ ذیل چار ارکان نے دستخط کئے ۔

چئرمین کمیٹی: عبد العزیز بن عبد اللہ بن بازارکان کمیٹی : عبد الرزاق عفیفی ،

عبد اللہ بن غدیان اور عبد اللہ بن قعود

____________________

(۱) فتاوی اللجنة الدائمة للبحوث العلمیة والافتاء ۳: ۳۷۳، فتویٰ نمبر ۳۰۰۸.

۱۶۰