وہابیت عقل و شریعت کی نگاہ میں

وہابیت عقل و شریعت کی نگاہ میں14%

وہابیت عقل و شریعت کی نگاہ میں مؤلف:
زمرہ جات: ادیان اور مذاھب
صفحے: 274

وہابیت عقل و شریعت کی نگاہ میں
  • ابتداء
  • پچھلا
  • 274 /
  • اگلا
  • آخر
  •  
  • ڈاؤنلوڈ HTML
  • ڈاؤنلوڈ Word
  • ڈاؤنلوڈ PDF
  • مشاہدے: 163844 / ڈاؤنلوڈ: 5545
سائز سائز سائز
وہابیت عقل و شریعت کی نگاہ میں

وہابیت عقل و شریعت کی نگاہ میں

مؤلف:
اردو

1

2

3

4

5

6

7

8

9

10

11

12

13

14

15

16

17

18

19

20

21

22

23

24

25

26

27

28

29

30

31

32

33

34

35

36

37

38

39

40

41

42

43

44

45

46

47

48

49

50

51

52

53

54

55

56

57

58

59

60

61

62

63

64

65

66

67

68

69

70

71

72

73

74

75

76

77

78

79

80

81

82

83

84

85

86

87

88

89

90

91

92

93

94

95

96

97

98

99

100

101

102

103

104

105

106

107

108

109

110

111

112

113

114

115

116

117

118

119

120

121

122

123

124

125

126

127

128

129

130

131

132

133

134

135

136

137

138

139

140

141

142

143

144

145

146

147

148

149

150

151

152

153

154

155

156

157

158

159

160

۱۰۔ زرقاوی کا شیعوں کے خلاف جہاد کا فتویٰ :

عراق میں وہابیوں کے لیڈر نے انٹر نیٹ پر ایک اشتہار دیا :

ہمارے مخالف ( شیعہ ) آستین کا سانپ اور حیلہ گر بچھو ہیں اب ہم اپنے کافر و حیلہ گر دشمن سے جہاد کریں گے جو دوستی کا لبادہ اوڑھ کر اتحاد کی دعوت دیتے ہیں جب کہ اختلاف اور شر انھیں میراث میں ملا ہے ۔

ایک تحقیق کرنے والا شخص بآسانی در ک کرسکتا ہے کہ شیعہ ایک خطرہ ہیں اور تاریخ اس بات کی تائید کررہی ہے کہ شیعہ اسلام کے علاوہ دوسرادین ہے ۔ یہ لوگ اہل کتاب کا شعار بلند کر کے یہود ونصاریٰ سے ملاقات کرتے ہیں ۔ شیعوں کا شرک اس قدر واضح ہے کہ قبروں کی پرستش اور اپنے آئمہ کی قبور کا طواف کرتے ہیں اور اس قدر تجاوز کا شکار ہو چکے ہیں کہ یاران پیغمبر (صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم )کو کافر ، امہات المومنین کو گالیاں اور قرآن کریم کو جعل کرتے ہیں ۔

شیعہ کتب میں جو ابھی چھپ رہی ہیں اس گروہ نے اپنے لئے نزول وحی کا دعویٰ کیا ہے یہ بھی ان کے کفر کی ایک علامت ہے ۔

جو لوگ یہ گمان کرتے ہیں کہ شیعہ اپنا موروثی کینہ فراموش کردیں گے تو یہ لوگ وہم و خیال کی زندگی بسر کررہے ہیں اس لئے کہ یہ ایسا ہی ہے جیسے عیسائیوں سے کہا جائے کہ وہ حضرت عیسیٰ کے صلیب پر لٹکائے جانے کو بھول جائیں ۔ کون عاقل ہے جو ایسا کام کرے گا ؟

۱۶۱

یہ قوم اپنے کفر کے علاوہ حکومتی بحران اور حکومت میں اپنی تعداد بڑھا کر سیاسی مکر وحیلہ کے ذریعے اپنے ہم پیمانوں کو فائدہ پہنچانا چاہتے ہیں ۔

اس خیانت کا رقوم نے طول تاریخ میں اہل سنت سے جنگ کی اور صدام کے زوال کے بعد ''انتقام ، تکریت سے انبار تک انتقام '' کا نعرہ بلند کیا جو اہل سنت سے ان کے کینہ پر دلالت کر رہا ہے ۔( ۱ )

۱۱۔ وہابی مفتیوں کا حزب اللہ کے لئے دعانہ کرنے کا فتویٰ دینا :

اسرائیل کے لبنان پر وحشیانہ حملے اور حزب اللہ کے شجاعانہ دفاع کے دوران متعصب وہابی مفتی شیخ عبد اللہ بن جبرین نے اسلام کے دشمنوں امریکہ اور اسرائیل کے ساتھ حمایت کا اظہار کرنے کی خاطر یہ فتویٰ دیا :

حز ب اللہ کی کسی قسم کی حمایت جائز نہیں ہے اور ان کی فتح کی دعا کرنا حرام ہے ۔ نیز تمام اہل سنت پر واجب ہے کہ وہ اس گروہ سے بیرازی کا اعلان کریں اور جو لوگ ان کے ساتھ ملنے کی فکر میں ہیں ان کی مذمت کریں اور لوگوں کو بتائیں کہ شیعہ اسلام کے پرانے دشمن ہیں اور انہوں نے ہمیشہ اہل سنت کو نقصان پہنچانے کی کوشش کی ہے ۔( ۲ )

____________________

(۱)ویب سائٹ BAZTAB. COM تاریخ ۴۸ ۱۳۸۴ بمطابق ۲۰۰۴ ئ۔

(۲) سوال : ''ھل یجوز نصرة ( ما یسمّی ) حزب اللہ الرافضی ؟ وھل یجوز ۔

۱۶۲

انٹر نیشنل سروس ''بازتاب'' کی آسوشیٹد پریس سے نقل کی گئی رپورٹ کے مطابق وہابی مفتی شیخ صفر الحوالی نے اپنی ویب سائٹ پر اعلان کیا :

'' حز ب اللہ جس کا معنی خداکاشکر ہے درحقیقت حزب الشیطان ہے '' اسی طرح یہ بھی کہا ہے : حزب اللہ کے لئے ہر گز دعا نہ کریں ۔

یہ فتویٰ وہابیوں نے اس نظریہ کی بناء پر دیا ہے کہ شیعہ رافضیہ ہیں اور یہ فتویٰ اس فتویٰ کی پیروی میں صادر کیا گیا ہے جو تین ہفتے پہلے ایک مشہور سعودی مفتی شیخ عبد اللہ بن جبرین نے دیا تھا ۔

آسو شٹڈ پریس نے اس بات کا اضابھی فہ کیا ہے :

یہ فتویٰ اس وقت صادر کیا گیا ہے جب عرب ممالک کے روڈ اور سڑکیں حزب اللہ کی حمایت اور اسرائیل کی مذمت کے بارے میں نکالے جانے والے جلوسوں

____________________

الا نضوا ء تحت امرتهم وهل یجوز الدعاء لهم بالنصر والتمکین ؟ وما نصیحتکم للمخدعین بهم من اهل السنة؟''

جواب : ''لایجوز نصرةهذا الحزب الرافضی ، ولایجوز الانضواء تحت امرتهم ، ولا یجوز الدعاء لهم بالنصر والتمکین ، نصیحتنا لاهل السنة ان یتبروا منهم، وان یخذلوا من ینضموا الیهم ، وان یبینوا عداوتهم للاسلام والمسلمین وضرر هم قدیما وحدیثا علی اهل السنة ، فان الرافصة دائما یضمرون العداء لاهل السنة ، ویحاولون بقدر الاستطاعة اظهار عیوب اهل السنة والطعن فیهم و المکرهم ، واذاکان کذلک فان کل من والاهم دخل فی حکمهم لقول الله تعالیٰ (ومن یتولهم منکم فانه منهم )'' ودعوا الی نصرة الحزب بالدعاء والنصرة المادیة ، کما تسببت فتویٰ بن جبرین فی تصادم مواقف رجال الد ین السلفین والوهابیین ''سائٹ ( www. watan. com ) الریاض، الاسلام الیوم، ۱۲ ۲۷۷ ۱۴ ، م ۸۶ ۲۰۰۶

شیخ عبد الله بن جبرین ، شماره فتوی، ۱۵۹۰۳ تاریخ فتوی ۱۴۲۷۶۲۱ ه (۵۲۶ ۸۵) بمطابق۱۷۷۲۰۰۶ شبکه نور الاسلام ( www.islamlight. net )

۱۶۳

سے بھری ہوئی ہیں یہاں تک کہ اردن جیسے ملک میں بھی لوگوں نے ان جلوسوں میں شرکت کی ہے جہاں کی اکثر آبادی یورپ سے متاثر اہل سنت پر مشتمل ہے ۔

کہا گیا ہے کہ اب جب جنگ اپنے انتہائی مراحل کو پہنچ چکی ہے تو ایسی حالت میں اس طرح کافتویٰ دینے کا مقصد فقط وہابی لیڈروں کا عالم اسلام کے اتحاد اور حزب اللہ کے نقش قدم پر چل کر کسی بھی غیر مسلم آزاد ی خواہ شہری سے اپنی ناراضگی کا اظہار کرنا ہے ۔( ۱ )

____________________

(۱) اس مطلب کو الوطن سائٹ پر یوں بیان کیا گیا ہے :''قالالحوالی عصر یوم الخمیس امام تجمع استقبله فی مدینة النماص الجنوبیة القریبة من قریة الحولة مسقط راسه علی حدود منطقة عسیر والباحة: انه لایجوز الدعاء لحزب الله بالنصر علی اسرائیل ؛ کما هاجم الحوالی الشیعة فی السعودیة ووصمهم بالشرک

ورغم معاناة الحوالی من جلطة دماغیة اصابته العام الماضی وسببت له اعاقة دائمة وشلل جزئی الا انه مستمر فی اصدار الفتاوی

واکد موقع ( امة الاسلام ) الذی یشرف علیه الشیخ علی بن مشعوف احد منظمی زیارة الحوالی ، ان الفتوی صدرت بحضور قاضی محافظة النماص الشیخ محمد المهنا، وعدد کبیر من مشائخ المحافطة وطلاب العلم فیها ولا قت تاییدهم

وتاتی فتوٰی الحوالی بعد ثلاثة اسابیع من فتویٰ مشابهة اصدرها الشیخ عبد الله بن جبرین ، الرجل الثانی فی الهرم الدینی للحرکة الوهابیة، یحرم فیها الدعا ، لحزب الله اللبنانی، ویطلب فیه ممن یعتبرهم من المسلمین السنة بختذیل من ینضم الیهم

وسبب فتویٰ ابن جبرین رد ة فعل عنیفة من علماء المسلمین السنة فی العالم حیث فرضها غالبیة علماء مصر و فلسطین والجزائز و سوریا والاخوان المسلمین،

۱۶۴

سعودی عرب کے ایک اور وہابی مفتی شیخ ناصر عمر نے بھی کہا ہے :

حزب اللہ سے دشمنی سب پر واجب ہے اس لئے کہ وہ ہمیشہ اہل سنت کے دشمن رہے ہیں :( ۱ )

۱۲۔ سعودی مفتی اور ابن تیمیہ کی مخالفت:

متعصب وہابیوں کا یہ فتویٰ ان کے مذہب کے مفکرابن تیمیہ کے فتویٰ کے خلاف ہے بلکہ کاسۂ داغ تراز آش ہے۔

اس لئے کہ ابن تیمیہ نے شیعوں سے اپنی تمام تر دشمنی اور مخالفت کے باوجود ایک شخص جو یہود ونصاری کو شیعوں پر ترجیح دیتا ہے اس کے سوال کے جواب میں واضح طورپر کہا:

''جو لوگ پیغمبر (صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم )کی شریعت پر ایمان رکھتے ہیں اگرچہ بدعت گذار ہی کیوں نہ ہوں مانند خوارج ، شیعہ ، مرجئہ ، اور قدریہ یہودیوں سے بہترہیں جو پیغمبرصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی رسالت کے منکر ہیں ''

اور مزید کہا: ''یہودو نصاری کا کفر روشن ہے لیکن اہل بدعت اگر پیغمبرصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم

____________________

(۱) ( www. watan. com )

۱۶۵

کی پیروی کریں تو یقینا کافر نہیں ہیں اور اگر اہل بدعت کو کافر سمجھ بھی لیا جائے پھر بھی ان کا کفر پیغمبر (صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم )کی تکذیب کرنے والوں کے کفر کے مانند نہیں ہے ۔( ۱ )

____________________

(۱)جواب ابن تیمیه : ''الحمد لله کل من کان مومنا بما جاء محمد فهو خیر من کل من کفر به وان کان فی المومن بذلک نوع من البدعةسواء کانت بدعة الخوارج والشیعة و المرجئه والقدریةاو غیرهم ؛ فان الیهود والنصاریٰ کفار کفرا معلوما بالاضطرار من دین الاسلام ، المبتدع اذاکان یحسب انه موافق للرسول لا مخالف له لم یکن کافر ابه ولقد قدر انه یکفر فلیس کفره مثل کفر من کذب الرسول ]صلی الله علیه و آله وسلم [''. مجموع الفتاوی ،۳۵:۲۰۱.

۱۶۶

مسلمانوں کی تکفیر کے بارے میں وہابیوں کے نظریہ پر اعتراض

۱۔ مسلمانوں کی تکفیر قرآنی آیات کی مخالفت کرنا ہے

ماضی اور حال میں ایک گروہ باکمال ِ جرأت: بغیر کسی شرعی دلیل کے کچھ فرقوں کے کفر کا فتویٰ دے رہا ہے ۔ نہ جانے کس عقلی اور شرعی معیار کی بناء پر یوں لوگوں کی عزت وآبرو سے کھیلا جا رہاہے ؟

اس موضوع کے روشن ہونے کے لئے ایک نکتہ کا بیان کرنا ضروری ہے اور وہ یہ ہے کہ ''مسلمان کسے کہتے ہیں ؟'' یا دوسرے لفظوں میں ''دین اسلام میں داخل اور اس سے خارج ہونے کی کیا حد ہے ؟''۔

بے شک مسلمان ہونے کا کمترین درجہ خد اکی وحدانیت اور حضرت محمد صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی رسالت و نبوت کی گواہی دینا ہے اگر چہ یہ شہادت وگواہی زبانی ہی کیوں نہ ہو ۔

قرآن کریم ، تمام مفسرین اور علماء و فقہاء کی آراء کے مطابق ایسے شخص کا جان ومال محفوظ ہے اور کوئی مسلمان اسے نقصان نہیں پہنچا سکتا ۔

مفسرین کے نزدیک اسلام اور مسلمان کی تعریف کو واضح کرنے کے لئے ہم یہاں پہ دو قرآنی آیات کی طرف اشارہ کررہے ہیں ۔

۱۶۷

پہلی آیت :

خداوند معال بادیہ نشین عربوں کے اسلام کے بارے میں فرماتا ہے :

( قَالَتْ الْأَعْرَابُ آمَنَّا قُلْ لَمْ تُؤْمِنُوا وَلَکِنْ قُولُوا أَسْلَمْنَا وَلَمَّا یَدْخُلِ الْإِیمَانُ فِی قُلُوبِکُمْ وَإِنْ تُطِیعُوا ﷲ وَرَسُولَهُ لاَیَلِتْکُمْ مِنْ أَعْمَالِکُمْ شَیْئًا إِنَّ ﷲ غَفُور رَحِیم ) ( ۱ )

ترجمہ:یہ بدو عرب کہتے ہیں کہ ہم ایمان لے آئے ہیں تو آپ کہہ دیجئے کہ تم ایمان نہیں لائے بلکہ یہ کہو کہ اسلام لائے ہیں کیونکہ ابھی ایمان تمہارے دلوں میں داخل نہیں ہوا ہے اور اگر تم اللہ اور رسولصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی اطاعت کرو گے تو وہ تمہارے اعمال میں سے کچھ بھی کم نہیں کرے گا کہ وہ بڑا غفور و رحیم ہے ۔

____________________

(۱)سورۂ حجرات :۱۴.

۱۶۸

ایمان اور اسلام میں فرق

اس آیت شریفہ میں ایمان کو اسلام کے بعد کا مرحلہ شمار کیا گیا ہے یعنی ایمان خاص ہے اور اسلام عام ہے ۔

راغب اصفہانی مفردات میں لکھتے ہیں :

''الاسلام : الدخول فی السلم ، وهو ان یسلم کل واحد منهما ان یناله من الم صاحبه '' .( ۱ )

اسلام ، سلامتی میں داخل ہونا ہے یعنی تو حید و رسالت کے اقرار سے انسان ایک دوسرے کے ضرر سے محفوظ ہوجاتا ہے ۔

ابن جریر اس آیت شریفہ کی تفسیر میں زہری سے نقل کرتا ہے :

اسلام خدا کی وحدانیت کی شہادت و گواہی دینا ہے اور ایمان قول کے ساتھ عمل کا نام ہے ۔( ۲ )

اسلام سلامتی میں داخل ہونا اور شہادتین کے اظہار سے مسلمانوں کے ساتھ جنگ سے بچنا ہے خدا وند متعال کا یہ قول جو نئے مسلمانوں کے ایک گروہ سے فرمایا:( وَلَمَّا یَدْخُلِ الْإِیمَانُ فِی قُلُوبِکُمْ ) ( ۳ ) ابھی ایمان تمہارے دلوں میں

داخل نہیں ہوا ہے ۔

____________________

(۱) مفردات راغب ، مادہ سلم

(۲) زہری سے نقل ہوا ہے :''الاعراب آمنا قل لم تومنوا ولکن قولوا اسلمنا قال : ان الاسلام الکلمة والایمان العمل، ''جامع البیان ۲۶: ۱۸۲ شماره ۲۴۶۰۷. (۳) سورهٔ حجرات : ۱۴.

۱۶۹

درحقیقت زبانی اقرار اگر دل کو مسخر نہ کرے تو وہ اسلام ہے اور اگر زبان و دل دونوں اسے قبول کر لیں تو ایمان ہے اس لئے کہ ایمان اطمینان قلب کے ساتھ محکم عقیدے کا نام ہے ۔( ۱ )

بنابر ایں مسلمان مفسرین کے نزدیک خدا کی توحید اور محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم )کی رسالت و نبوت کے اقرار سے اسلام کا پہلا مرحلہ محقق ہوجاتا ہے کہ جس کے نتیجہ میں انسان کا مال وجان اور عزت وناموس محفوظ ہو جاتی ہے اور کسی کو اسے چھیڑنے کا حق نہیں ہوتا ۔

قرطبی کہتا ہے :

حقیقت ایمان وہی تصدیق قلب ہے جب کہ اسلام پیغمبر ( صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ) کے لائے ہوئے احکامات کو ظاہری طور پر قبول کرنا ہے اور یہی مقدار انسان کی جان کے محفوظ ہونے کے لئے کافی ہے ۔( ۲ )

ابن کثیر کہتا ہے :

____________________

(۱)الدخول فی السلم و الخروج من ان یکون حربا للمومنین باظهار الشهادتین ، الا تری الی قوله تعالیٰ (وَلَمَّا یَدْخُلْ الْإِیمَانُ فِی قُلُوبِکُم ) الکشاف عن حقائق التنزیل وعیون الاقاویل۳: ۵۶۹.

(۲)وحقیقة الایمان التصدیق بالقلب ، واما الاسلام فقبول ما اتی به النبی]صلی الله علیه وآله وسلم [فی الظاهر، وذلک یحقن الدم ، تفسیر قرطبی۱۶:۲۹۹.

۱۷۰

اس آیت سے یہ استفادہ ہوتا ہے کہ ایمان اسلام کی نسبت خاص ہے اور اہل سنت کا عقیدہ بھی یہی ہے اور یہ آیت اس بات پر دلالت کررہی ہے کہ یہ بدو عرب منافق نہیں تھے بلکہ ایسے مسلمان تھے جن کے دلوں میں ایمان راسخ نہ ہوا تھا اور انھوں نے ایک ایسے مقام کا دعویٰ کیا جس تک پہنچے نہیں تھے لہٰذا خدا وند متعال نے انھیںخبر دار کیا۔

اور اگر وہ لوگ منافق ہوتے تو انھیں رسواکیا جاتا جس طرح سورۂ برائت میں منافقین کا تذکرہ فرمایا :( ۱ )

دوسری آیت :

خدا وند متعال میدان میں اسلام لانے والے کفار کے بارے میں فرماتا ہے :

( یَاَیُّهَا الَّذِینَ آمَنُوا ِذَا ضَرَبْتُمْ فِی سَبِیلِ ﷲ فَتَبَیَّنُوا وَلاَتَقُولُوا لِمَنْ أَلْقَی إِلَیْکُمُ السَّلاَمَ لَسْتَ مُؤْمِنًا تَبْتَغُونَ عَرَضَ الْحَیَاةِ الدُّنْیَا فَعِنْدَ ﷲ مَغَانِمُ کَثِیرَة کَذَلِکَ کُنتُمْ مِنْ قَبْلُ فَمَنَّ ﷲ عَلَیْکُمْ فَتَبَیَّنُوا إِنَّ ﷲ کَانَ بِمَا تَعْمَلُونَ خَبِیرًا ) ( ۲ )

____________________

(۱)وقد استفید من هذه الآیة الکریمة ان الایمان اخص من الاسلام ، کما هو مذهب اهل السنة والجماعة ...فدل هذا علی ان هؤلاء الاعراب المذکورین فی هذه الآیة لیسوا بمنافقین وانما هم مسلمون لم یستحکم الایمان فی قلوبهم ، فادّعوا لانفسهم مقاما اعلیٰ مما وصلو ا الیه ، فادّبوا فی ذلک ولو کانوا منافقین لعنفوا وفحهوا ، کما ذکر المنافقون فی سورة برأة تفسیر ابن کثیر۴:۲۳۴.

(۲) سورۂ نسائ: ۹۴.

۱۷۱

ترجمہ : اے ایمان والو! جب تم راہ ِ خدا میں جہاد کے لئے سفر کرو تو پہلے تحقیق کرلو اور خبردار جو اسلام کی پیش کش کرے اس سے یہ نہ کہنا کہ تو مومن نہیں ہے کہ اس طرح تم زندگانی دنیا کا چند روزہ سرمایہ چاہتے ہو اور خدا کے پاس بکثرت فوائد پائے جاتے ہیں آخر تم بھی تو پہلے ایسے ہی کافر تھے خد انے تم پر احسان کیا کہ تمہارے اسلام کو قبول کرلیا ( اور دل چیر نے کی شرط نہیں لگائی ) تو اب تم بھی اقدام سے پہلے تحقیق کرو کہ خدا تمہارے اعمال سے خوب با خبر ہے ۔

سیوطی لکھتا ہے :

بزار ، دار قطنی اور طبرانی نے عبد اللہ بن عباس سے نقل کیا ہے کہ رسول اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم )نے ایک گروہ کو جہاد کے لئے بھیجا جن میں مقداد بھی تھے جب یہ گروہ اس قبیلے کے پاس پہنچا تو دیکھا کہ سب لوگ بھاگ گئے ہیں مگر ایک شخص مال و ثروت زیادہ ہونے کی وجہ سے چھوڑ کر نہ بھاگا ۔ جب اس نے مسلمان مجاہدین کو دیکھا تو شہادتیں پڑھنا شروع کیں مقداد نے تلوار کھینچی اور اس کی گردان اڑادی ۔

۱۷۲

ان میں سے ہی ایک مسلمان نے کہا : تم نے خدا کی گواہی کے بعد اسے قتل کیا؟ میں تمہارے اس عمل کی خبر رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کو دوں گا ۔ جب پیغمبرصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی خدمت میں واپس پہنچے تو عرض کیا: یا رسول اللہصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم ایک شخص نے توحید کا اقرار کیا لیکن مقداد نے اسے قتل کر ڈالا ۔ فرمایا: مقداد کو بلایا جائے ۔ جب مقداد آئے تو فرمایا: تو نے ''لا الہ الا اللہ '' کا اقرار کرنے کے بعد اس شخص کو قتل کیا ہے ؟ روز قیامت کیا جواب دوگے ؟ اتنے میں خدا وند متعال نے یہ آیت نازل فرمائی ۔( ۱ )

قابل غور نکتہ:

اس دوسری آیت میں ایمان سے مراد اس کا لغوی معنی امن ہے ۔، یعنی اگر کوئی شخص شہادتین پڑھ لے تو اسے یہ نہ کہا جائے کہ تجھے امان نہیں ملے گی بلکہ شہادتین کے اقرار سے انسان مسلمان اور اس کا مال وجان محفوظ ہو جاتا ہے ۔

جیسا کہ ابن جوزی نے حضرت علی علیہ السلام ، ابن عباس ، عکرمہ ، ابو العالیہ ، یحییٰ بن یعمر اور ابو جعفر سے نقل کیا ہے کہ وہ ''مومناً'' میم کے فتحہ کے ساتھ قرائت کرتے کہ جس کا معنی امان ہے ۔( ۲ )

____________________

(۱)بعث رسول الله صلی الله علیه آله وسلم سریة فیها المقداد بن الاسود ، فلما اتوا القوم وجدوهم قد تفرقوا وبقی رجل له مال کثیر لم یبر ح، فقال :''اشهد ان لا اله الا الله '' فاهوی الیه المقداد فقتله فقال له رجل من اصحابه : اقتلت رجلا شهد ان لا اله الا الله؟ لا ذکرن ذلک النبی صلی الله علیه آله وسلم، فلما قدموا علی رسول الله صلی الله علیه آله وسلم قالوا: یا رسول الله ، ان رجلا شهد ان لا اله الا الله فقتله المقداد فقا ل: ادعواا لی المقداد ، فقال : یا مقداد! اقتلت رجلا یقول لا اله الا الله ؟ فکیف لک بلا اله الا الله غدا ؟ فانز ل الله یا ایها الذین آمنوا اذا ضربتم فی سبیل الله الی قوله کذلک کنتم من قبل.درالمنثور۲:۲۰۰ تفسیر ابن کثیر۱:۵۵۲ و مجمع الزوائد ۷: ۹

(۲)وقرا علی وابن عباس وعکرمه وابو العالیة ویحیی بن یعمر وابو جعفر : بفتح المیم الست مومنا من الامان زاد المسیر۲:۱۷۵.

۱۷۳

۲۔مسلمانوں کی تکفیر سنت پیغمبرصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی مخالفت کرنا ہے:

جس طرح مسلمانوں کے کفر کا فتویٰ دینا قرآن مجید کے مخالف ہے اسی طرح سنت رسول خدا (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے بھی مخالف ہے اس بارے میں ہم یہاں پہ اہل سنت کی معتبر ترین کتب کے اندر موجود احادیث میں سے فقط چند ایک کی طرف اشارہ کریں گے ۔

الف) مسلمانوں کی تکفیر سے شدید ممانعت :

حضرت علی علیہ السلام اور حضرت جابر نے رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم)سے نقل کیا ہے کہ آپ نے فرمایا:

''...اهل لا اله الا الله لاتکفروهم بذنب ولا تشهد وا علیهم بشرک ''( ۱ )

لا الہ الا اللہ پڑھنے والوں کو گناہ کی وجہ سے مت تکفیر کرو اور ان پر شرک کی تہمت نہ لگاؤ۔

حضرت عائشہ کہتی ہیں : میں نے رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم سے سنا آپ نے فرمایا:

''لا تکفروا احدا من اهل القبلة بذنب وان عملوا بالکبائر''

اہل قبلہ میں سے کسی کو گناہ کے سبب تکفیر نہ کرو اگر چہ وہ گناہ کبیرہ کا مرتکب ہی کیوں نہ ہو ۔( ۲ )

____________________

(۱)المعجم الاوسط ۵:۹۶ ؛ مجمع الزوائد ۱: ۱۰۶.

(۲)مجمع الزوائد ۱: ۱۰۶و۱۰۷.

۱۷۴

ب: دوسروں کو تکفیر کرنے والے کا کفر

بخاری نے ابو ذر سے نقل کیا ہے کہ میں نے رسول گرامی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم)سے سنا آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے فرمایا:

''لا یرمی رجل رجلا بالفسوق ولایرمیه بالکفر الا ارتدت علیه ، ان لم یکن صاحبه کذلک ''( ۱ )

اگر کوئی شخص دوسرے کو گناہ یا کفر سے متہم کرے جب کہ وہ شخص گنہگار یا کافر نہ ہو تو وہ گناہ و کفر خود تہمت لگانے والے کی طرف پلٹے گا ۔

عبد اللہ بن عمر نے رسول اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم)سے نقل کیا ہے کہ آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے فرمایا:

''ایما رجل مسلم کفر رجلا مسلما فان کان کافرا والا کان هو الکافر ''.( ۲ )

جو مسلمان کسی دوسرے مسلمان کو کافر کہے اور وہ مسلمان کافر نہ ہوتو کہنے والا خود کافر ہو جائے گا ۔

نیز عبد اللہ بن عمر نے پیغمبر (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم)سے نقل کیا ہے کہ کہ آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے فرمایا:

____________________

(۱)صحیح بخاری ۷:۶۰۴۵۸۴، کتاب الادب ، باب ماینھیٰ من السباب واللعن.

(۲)کنز العمال ۳:۶۳۵از سنن ابی دادؤو مسند احمد ۲:۲۲.تھوڑے سے فرق کے ساتھ

۱۷۵

''کفوا عن اهل لا اله الا الله لا تکفروهم بذنب من اکفر اهل لا اله الا الله فهوا لی الکفر اقرب '' ۔( ۱ )

لا الہ الا اللہ کہنے والوں سے دست بردار ہو جاؤ اور انھیں گناہ کی وجہ سے تکفیر نہ کرو۔ جو شخص اہل توحید کی طرف کفر کی نسبت دیتا ہے وہ خود کفر سے نزدیک تر ہے ۔

ج:اہل قبلہ کے قتل کی حرمت

صحیح بخاری نے انس بن مالک کے واسطے سے رسول خدا(صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم)سے نقل کیا ہے کہ آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے فرمایا:

''من صلی صلاتنا ، واستقبل قبلتنا واکل ذبیحتنا فذلک المسلم الذی له ذمة الله وذمة رسوله فلا تخفرواالله فی ذمته ''.( ۲)

جو ہماری طرح نماز پڑھے، قبلہ کی طرف منہ کرے اور ہمارے ذبح شدہ حیوانات کا گوشت کھائے تو وہ مسلمان اور خدا و رسولصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی پناہ میں ہے پس عہد خدا کو نہ توڑو۔

د: خوف سے اسلام لانے والے کے قتل کی حرمت

صحیح مسلم نے اسامنہ بن زید سے نقل کیا ہے کہ وہ کہتے ہیں : پیغمبر اکرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم

____________________

(۱)معجم الکبیر۱۲: ۲۱۱ ؛ مجمع الزوائد ۱:۱۰۶ ؛ فیض القدیر شرح جامع الصغیر ۵: ۱۲ ؛ جامع الصغیر ۲ : ۲۷۵؛ کنز العمال ۳: ۶۳۵.

(۲) صحیح بخاری ۱:۳۹۱۱۰۲، کتاب الصلاة ، باب فضل استقبال القبلة

۱۷۶

نے ہمیں ایک قبیلہ کے ساتھ جنگ کے لئے بھیجا ، صبح کے وقت ہم اس قبیلہ کے پاس پہنچے ۔ میں نے ایک شخص کا پیچھا کیا تو اس نے کہا : ''لا اله الا الله ''مگر میں نے نیزہ مار کر اسے قتل کر ڈالا ۔ مجھے احساس ہوا کہ میں نے غلط کام کیا ہے ، پیغمبرصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی خدمت میں سارا واقعہ بیان کیا تو آپ نے فرمایا:''اقال لا اله الا الله وقتلته ''کیا تونے اسے''لا اله الا الله ''کہنے کے باوجود قتل کردیا ؟

میں نے عرض کیا : یا رسول اللہصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم !اس نے اسلحہ کے خوف سے کلمہ پڑھا۔ آنحضرت نے فرمایا: کیا تو نے اس کا دل چیر کر دیکھا تھا ؟ پیغمبرصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے اس بات کا اس قدر تکرار کیا کہ میں آرزو کرنے لگا کہ اے کاش! آج ہی کے دن پیدا ہوا ہوتا ( اوراس عظیم گناہ کا ارتکاب نہ کرتا )

سعد بن وقاص کہتاہے : میں اس وقت تک کسی مسلمان کو قتل نہیں کروں گا جب تک اسامہ اسے قتل نہ کرے ایک شخص نے کہا : کیا خداوند متعال نے یہ نہیں فرمایا:( وقاتلوهم حتی لا تکون فتنة ویکون الدین کله الله ) اور کافروں کو قتل کر و یہاں تک کہ فتنہ باقی نہ رہے اور دین فقط خد اہی کا رہ جائے ۔

سعد نے کہا: ہم اس لئے جنگ کرتے ہیں کہ فتنہ ختم ہو جب کہ تم اور تمہارے ساتھی اس لئے لڑتے ہوتاکہ فتنہ برپاکرسکو ۔( ۱ )

____________________

(۱)صحیح مسلم ۱: ۱۸۰۶۷ ،کتاب الایمان باب تحریم قتل الکافر بعد ان قال لا اله الا الله.

۱۷۷

ھ: کسی مسلمان کو قتل کرنے کے بعد اسلام لانے والے کے قتل کی حرمت :

ایک اور روایت میں نقل ہوا ہے کہ اسامہ بن زید نے ایک مشرک کو لا الہ الا اللہ پڑھنے کے بعد قتل کر دیا جب پیغمبرصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کو اس کی خبر ملی تو اسامہ کو طلب کیا اور فرمایا: اسے کیوں قتل کیا ہے ؟ میں نے کہا:''یا رسول الله اوجع فی المسلمین وقتل فلانا وفلا وسمی له نفرا وانی حملت علیه فلما رای السیف قال لا اله الا الله '' . یا رسول اللہصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم ! اس نے مسلمانوں کو اذیت پہنچائی ، فلاںو فلاں کو قتل کیا لیکن جب میں نے اس پر حملہ کیا تو تلوار کو دیکھ کر اس نے کلمہ پڑھ لیا ۔

پیغمبر (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم)نے فرمایا: اس کے باوجود تو نے اسے قتل کر دیا؟ عرض کیا : جی ہاں.( ۱ )

فرمایا: روز قیامت لا الہ الا اللہ کا کیاجواب دوگے؟اس کے بعد لکھا ہے کہ آنحضرتصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے کئی بار اس جملہ کو تکرار فرمایا : ''فکیف تصنع بلا اله الا الله اذا جاء ت یوم القیامة ''( ۲ ) روز قیامت کلمہ توحید کا کیا کروگے ؟ عرض کرنے لگے : یا رسول اللہصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم ! میرے لئے مغفرت طلب کریں۔

۳۔ مسلمانوں کی تکفیر سیرت پیغمبر کے مخالف ہے

جس طرح مسلمانوں کو کافر کہنا سنت رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے

____________________

(۱)صحیح مسلم ۱:۱۸۰۱۶۷،

(۲)صحیح مسلم ۱:۱۸۱۶۷، کتاب الایمان ، باب ۴۰،باب تحریم قتل الکافر بعد ان قال لا اله الا الله

۱۷۸

مخالف ہے اسی طرح آنحضرتصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی سیرت کے بھی مخالف ہے جیسا کہ صحیح بخاری نے انس بن مالک کے واسطے سے رسول خدا (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم)سے نقل کیا ہے کہ آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے فرمایا:

''امرت ان اقاتل الناس حتی یقولوا لا اله الا الله فاذا قالوها وصلوا صلاتنا ، واستقبلوا قبلتنا، وذبحوا ذبیحتنا، فقد حرمت علینا دماؤهم واموالهم الا بحقها ، حسابهم علی الله '' .( ۱ )

مجھے لوگوں سے جنگ کر نے کا حکم دیا گیا ہے یہاں تک کہ وہ لا الہ الا اللہ پڑھ لیں ، ہماری طرح نماز پڑھیں ، قبلہ کی طرف رخ کریں اور ہمارے ذبح شدہ حیوانات کو کھائیں تو ان کا مال وجان ہم پر حرام ہو جائے گا سوا خدا کے حق کے اور (باقی رہا ان کے دل کا حال تو ) اس کاحساب ( کتاب ) اللہ کے ذمہ ہے ۔

عبد اللہ ابن عباس کہتے ہیں : عقبہ بن ابی معیط جب بھی سفر سے واپس آتا تو مکہ کے لوگوں کو کھانے کی دعوت دیتا ۔

وہ پیغمبر کے پاس اکثر بیٹھا کرتا اور آپ کی باتوں سے خوش ہوتا ۔ ایک مرتبہ جب سفر سے واپس آیا تو کھانا بنایا اور پیغمبرصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کو بھی دعوت دی ۔

آنحضرتصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے فرمایا '':ما انا بالذی اکل من طعامک حتی تشهد ان لا اله الا الله وانی رسول الله ''جب تک تولا الہ الا اللہ محمد رسول اللہ کا

____________________

(۱)صحیح بخاری ۱:۳۹۲۱۰۲، کتاب الصلاة ،باب فضل استقبال القبلة.

۱۷۹

اقرار نہیں کرے گا تب تک تیرا کھانا نہیں کھاؤں گا ۔

عقبہ کہنے لگا : میرے بھتیجے کھالے !

آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے فرمایا:''ما انا الذی افعل حتی تقول! فشهد بذلک وطعم من طعامه '' جب تک تو اسلام نہیں لاتا تب تک میں یہ کام نہیں کر سکتا !عقبہ نے خدا اور رسول خدا (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی گواہی دی ۔ تو آنحضرتصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے اس کے ہاں کھانا کھایا( ۱ )

اسی سے ملتی جلتی حدیث ابن شہر آشوب نے مناقب میں نقل کی ہے ۔( ۲ )

۴۔ مسلمانوں کی تکفیرصحابہ کی روش کے مخالف

بخاری اپنی صحیح میں میمون بن سیاہ سے نقل کرتا ہے کہ از انس بن مالک سے سوال کیا :''مایحرم دم العبد وماله فقال من شهد ان لااله الا الله ، واستقبل قبلتنا ،و صلی صلاتنا ، واکل ذبیحنتنا ، فهو المسلم ، له ماللمسلم ، وعلیه ما علی المسلم '' ( ۳ ) کس چیز نے خون اور مال کو حرام کیا ہے ، تو اس نے کہا : خدا کی وحدانیت کی گواہی قبلہ رخ ہونا اور ہماری طرح نماز پڑھنا اور گوشت کھانا اس حیوان کا کہ جس کو ہم نے ذبح کیا ہے پس جو بھی ایسا کرے مسلمان ہے اور جو حقوق مسلمان رکھتا ہے وہ بھی رکھتا ہے.

____________________

(۱)تفسیر در المنثور ۵: ۶۸ ؛ تفسیر آلوسی ۱۹: ۱۱ (۲)مناقب آل ابی طالب ۱: ۱۱۸.

(۳)صحیح بخاری ۱ :۱۰۳۔ ۳۹۳، کتاب الصلاة ، باب فضل استقبال القبلہ

۱۸۰

۵۔ مسلمانوں کی تکفیر علمائے اہل سنت کے عقیدہ کے مخالف

امام شافعی کا نظریہ : امام شافعی متوفیٰ ۲۰۴ ہجری کہتے ہیں :

''اقبل شهادة اهل الا هواء الا الخطابیة ؛ لانهم یشهدون بالزورلموافقیهم '' ( ۳ )

میں تمام اہل بدعت کی شہادت قبول کروں گا سوا خطابیہ کے کہ وہ اپنے حامیوں کے لئے جھوٹی قسم جائز سمجھتے ہیں ۔

____________________

(۳) مجموع نووی ۴: ۲۵۴؛ شرح صحیح مسلم ۱: ۶۰؛ البحر الرائق ۱: ۶۱۳ ؛ حاشیہ رد المختار ابن عابدین ۴: ۴۲۲.

۱۸۱

ابو الحسن اشعری کا نظریہ :

مؤسس مذہب اشاعرہ ابو الحسن اشعری متوفیٰ ۳۲۴ ھ لکھتے ہیں :

''اختلف المسلمون بعد نبیهم صلی الله علیه وسلم فی اشیاء ضلّل بعضم بعضا، وبرء بعضهم من بعض فصاروا فرقا متباینین واحزابا متشتتین الا ان الاسلام یجمعهم ویشتمل علیهم '' ( ۱ )

پیغمبر (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے بعد مسلمانوں میں بہت زیادہ مسائل پر اختلاف ایجاد ہوا یہاں تک کہ ایک دوسرے کو گمراہ اور برائت کااظہار کرنے لگے۔ اگر چہ مخالف فرقوں میں تقسیم ہو گئے لیکن اسلام ان سب کو اپنے دامن میں اکٹھا کر لیتا ہے ۔

زاہربن احمد سرخسی متوفیٰ ۳۸۹ ہجری ابو الحسن اشعری کا قریبی دوست تھا وہ نقل کرتا ہے کہ ابو الحسن اشعری نے اپنی وفات کے وقت اپنے اصحاب و پیرو کاروں کو جمع کیا اور ان سے کہا :

''اشهد وا علی اننی لا اکفر احدا من اهل القبلة بذنب، لانی رایتهم کلهم یشیرون الی معبود واحد والاسلام یشملهم ویعمهم'' .( ۲ )

گواہ رہنا کہ میں نے اہل قبلہ میں سے کسی کو گناہ کی وجہ سے تکفیر نہیں کیا اس لئے کہ میں نے دیکھا یہ سب معبود واحد کی طرف دعوت دے رہے ہیں اور اسلام ان سب کو اپنے اندر شامل کر لیتا ہے ۔

تکفیر ایمان سے سازگار نہیں :

اہل سنت کے معروف عالم دین شیخ الاسلام تقی الدین سبکی متوفیٰ ۷۵۶ ہجری کہتے ہیں :

''ان الاقدام علی تکفیر المومنین عسر جدا ، وکل من کان فی قلبه ایمان یستعظم القول بتکفیر اهل الاهواء والبدع ، مع قولهم لا اله الا الله ، محمد رسول الله ، فان التکفیر امر هائل

____________________

(۱)مقالات الاسلامیین ۱:۲.

(۲)الیوقیت والجواہر : ۵۸.

۱۸۲

عظیم الخطر '' .( ۱ )

مومنین کی تکفیر کا اقدام انتہائی سخت امرہے اور ہر باایمان شخص شہادتین کا اقرار کرنے والے اہل بدعت اور خواہشات پرست افراد کی تکفیر کو بہت مشکل کام سمجھتا ہے اس لئے کہ تکفیر انتہائی خطرناک کام ہے ۔

جمہور فقہاء و متکلمین کا نظریہ :

قاضی عضد الدین ایجی متوفیٰ ۷۵۶ ہجری لکھتا ہے :

''جمهور متکلمین والفقهاء علی ان لا یکفر احد من اهل القبلة...لم یبحث النبی عن اعتقاد من حکم باسلامه فیها ولا الصحابة ولا التابعون ، فعلم ان الخطا فیها لیس قادحا فی حقیقة الاسلام '' .( ۲ )

جمہور فقہاء و متکلمین کا عقیدہ یہ ہے کہ اہل قبلہ میں سے کسی کو تکفیر نہیں کیا جا سکتا پیغمبر (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم )ہر گز مسلمان ہونے والے کے عقیدہ کے بارے میں سوال نہ فرماتے اور صحابہ و تابعین کا طریقہ بھی یہی رہا ۔ بنابرایں عقیدہ میں خطا و اشتباہ حقیقت اسلام کو ضرر نہیں پہنچا سکتا۔

پیغمبر اکرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم اور صحابہ کرام عقائد کی تحقیق کرتے : تفتازانی متوفیٰ ۷۹۱ ہجری کہتے ہیں :

____________________

(۱) الیواقیت والجواہر :۵۸ (۲) المواقف ۳:۵۶۰؛شرح المواقف ۸: ۳۳۹.

۱۸۳

''ان مخالف الحق من اهل القبلة لیس بکافر مالم یخالف ما هو من ضروریات الدین کحدوث العالم و حشر الاجساد ، واستدل بقوله ان النبی ومن بعده لم یکونوا یفتشون عن العقائد وینبهون علی ماهو الحق '' .( ۱ )

حق کے مخالف اہل قبلہ کو کافر قرار نہیں دیا جا سکتا جب تک کہ وہ ضروریات دین مانند حدوث عالم اور قیامت وغیرہ کا انکار نہ کرے اس لئے کہ پیغمبر (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم )اور صحابہ کرام لوگوں کے عقائد کے بارے میں تحقیق نہ کیا کرتے بلکہ جو بظاہر حق ہوتا اسے لوگوں سے قبول کرتے ۔

صحابہ سے بغض اور انھیں گالی دینا کفر نہیں :

حنفی عالم ابن عابدین متوفیٰ ۲۵۲ ۱ ہجری کہتے ہیں :

''اتفق الائمة علی تضلیل اهل البدع اجمع وتخطئتهم ، وسبّ احد من الصحابة وبغضه لا یکون کفرا ، لکن یضلل الخ.وذکر فی فتح القدیر : ان الخوارج الذین یستحلون دماء المسلمین واموالهم ویکفّرون الصحابة ، حکمهم عند جمهور الفقهاء واهل الحدیث ، حکم البغاة ، وذهب بعض اهل الحدیث الی انهم مرتدون قال ابن المنذر : ولا اعلم احدا وافق اهل

____________________

(۱) شرح المقاصد ۵: ۲۲۷ ؛ البحرا لحرائق ۱: ۶۱۲ تالیف ابن نجیم

۱۸۴

الحدیث علی تکفیرهم وهذا یقتضی نقل اجماع الفقهاء '' .( ۱ )

تمام آئمہ اہل بدعت کی گمراہی پر متفق ہیں لیکن کسی صحابی کو گالی دینا یا اس سے بغض رکھنا کفر نہیں ہے البتہ گمراہی کی نشانی ہے ۔

شوکانی نے( متوفیٰ ۱۲۵۰ ہجری ) فتح القدیر میں لکھا ہے : خوارج جو مسلمانوں کا مال وجان مباح اور صحابہ کو کافر قرار دیتے تھے وہ بھی اکثر فقہاء اور اہل حدیث کے نزدیک باغی ہیں اگر چہ بعض اہل حدیث نے انھیں مرتد کہا ہے ۔ ابن منذر کہتے ہیں : فقہاء میں سے کوئی بھی اس مسئلہ تکفیر میں اہل حدیث سے موافقت نہیں رکھتابنابر ایں اجماع فقہاء ثابت ہے ۔

مجتہد خطاء کی صورت میں اجر کا مستحق ہے :

اہل سنت کے معروف عالم ابن حزم متوفیٰ ۴۵۶ ہجری لکھتے ہیں :

''وذهبت طائفة الی انه لا یکفر ولا یفسق مسلم بقول فی اعتقاد، اوفتیا! ، وان کل من اجتهد فی شئی من ذلک فدان بما رای انه الحق فانه ماجور علی کل حال ، ان اصاب فأجران و اِن اخطافاجر واحد، قال: وهذا قول بن ابی لیلیٰ وابی حنیفه وشافعی وسفیان الثوری وداود بن علی وهو قول کل من عرفنا له قولا فی هذه المسالة من الصحابة ( رضی الله عنهم )لا نعلم منهم خلافا فی

____________________

(۱ )حاشیہ رد المختار ۴: ۴۲۲

۱۸۵

ذلک اصلاً ''( ۱ )

بعض علماء کا نظریہ یہ ہے کہ ایک مسلمان کو غلط عقیدہ یا غلطی سے فتویٰ دینے کی بناء پر کافر یا فاسق نہیں کہا جا سکتا اس لئے کہ اگر مجتہد اپنے اجتہاد کے نتیجہ میں ایک نظریہ پر پہنچتا ہے اور اسے حق سمجھتا ہے تو وہ اجر کا مستحق ہوگا ۔ا گر اس کا اجتہاد درست ہواتو دو اجر کا مستحق قرار پائے گا اور اگر خطا کر بیٹھا تو ایک اجر کا مستحق قرار پائے گا ۔ یہ نظریہ ابن لیلیٰ ، ابو حنیفہ ،شافعین ، سفیان ثوری اور داؤد بن علی جیسے فقہاء کا ہے اسی طرح جن صحابہ نے اس مسئلہ کو بیان کیا ہے ان میں اس بارے میں کوئی اختلاف نہیں پایا جاتا ۔

محمد رشید رضا متوفیٰ ۱۳۵۴ ہجری لکھتے ہیں :

''ان ما اعظم ما بلیت به الفرق الاسلامیة رمی بعضهم بعضابالفسق والکفر مع ان قصد کل الوصول الی الحق بما بذلوا جهدهم لتاییده واعقتاده والدعوة الیه ، فالمجتهد وان اخطا معذور '' .( ۲ )

امت مسلمہ جس عظیم ترین مصیبت میں مبتلا ہوئی وہ ایک دوسرے کو فسق و کفر سے متہم کرنا ہے جب کہ سب کے اجتہاد کا مقصد حق تک پہنچنااور اس کی دعوت دینا ہے لہٰذا مجتہد اگر خطا کا ر ہو تو اجر کا مستحق ہے ۔

____________________

(۱) الفصل ۳: ۲۴۷ ، باب من یکفرو لا یکفر

(۲) تفسیر المنار ۱۷: ۴۴.

۱۸۶

مفکر و ہابیت ابن تیمیہ متو فی ۷۲۸ ہجری لکھتا ہے :

''کان ابو حنیفه والشافعی وغیرهما یقبلون شهادة اهل الاهواء الا الخطابیة ویصححون الصلاة خلفهم ...ائمة الدین لا یکفّرون ولا یفسقون ولا یوثمون احداً من المجتهدین المخطئین ، لا فی مسائل علمیة ولا عملیة... کتنازع الصحابة : هل رآی محمد ربه واهل السنة لا یبتدعون قولا ولا یکفّرون من اجتهد فاخطا کما لم تکفر الصحابة الخوارج مع تکفیرهم لعثمان وعلی ومن والاهما '' .( ۱ )

ابو حنیفہ ، شافعی اور دیگر علماء خطابیہ کے علاوہ باقی اہل بدعت کی گواہی قبول کرتے اور ان کے پیچھے نماز پڑھنا جائز قرار دیتے ۔ آئمہ دین کسی مجتہد کو علمی مسائل میں خطاکی وجہ سے فاسق یا کافر قرار نہ دیتے اور یہ صحابہ کے اس آیت میں اختلاف کے مانند ہے کہ : کیا رسول خدا (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ) نے اپنے رب کو دیکھا ؟

اور اہل سنت، صحابہ کے مخالف کوئی بدعتی بات نہیں کرتے اور نہ ہی مجتہد ین کو خطا کی وجہ سے کافر قرار دیتے ہیں جیسا کہ صحابہ نے خوارج کو تکفیر نہ کیا جب کہ وہ عثمان،علی اور ان کے پیروکاروںکوکافرسمجھتے تھے۔

____________________

(۱) مجموع فتاویٰ ابنی تیمیہ ۴: ۲۰۹ و۱۵: ۲۰۷فتاویٰ الالبانی: ۲۹۲.

۱۸۷

خود وہابیوں کا تکفیر میں گرفتار ہونا

وہابی ۲۷۰ سال حکومت اور بے گناہ مسلمانوں کو تکفیر اور ان کے قتل عام کے بعد اب خود اسی دامن تکفیر میں گرفتار ہو چکے ہیں جسے انھوں نے مسلمانوں کے لئے پھیلا رکھا تھا ۔

مجلس کبار العلماء کا تکفیر کی مذمت کرنا

مجلس ( کبار العلمائ) نے اپنی انچاسویں کا نفرنس میں جو ۱۴۱۹۴۲ ہجری قمری بمطابق ۱۹۹۸ ء میں طائف میں تشکیل پائی ، اس میں اسلامی اور غیر اسلامی ممالک میں تکفیر اور اس سے پیدا ہونے والے مسائل مانند قتل و غارت ، بم دھماکے ، مختلف اداروں کو نیست ونابود کرنے جیسے امور کو زیر غور لایا گیا ۔ اس موضوع اور اس کے آثار ۔ چاہے وہ بے گناہ لوگوں کا قتل ہو یا ان کے اموال کو نابود کرنا یا خوف وہراس پھیلا کر معاشرے میں بدا منی ایجاد کرنا ہو ۔ کی اہمیت کو مد نظر رکھتے ہوئے مجلس نے خیرخواہی ، ادائیگی وظیفہ اور اسلامی مفاہیم میں اشتباہ کا شکار ہونے والے افراد سے در گذر کے عنوان سے ایک اعلان کیا جس میں مندرجہ ذیل نکات کی طرف توجہ دلا تے ہوئے خدا وند متعال سے توفیق کی تمنا کی ہے ۔

۱۸۸

تکفیر بھی حلال و حرام کے مانند حکم شرعی ہے :

اولا:التکفیرحکم شرعی ، مدّده الی الله ورسوله ، فکما ان التحلیل والتحریم والایجاب الی الله ورسوله ، فکذلک التکفیر، ولیس کل ما وصف بالکفر من قول او فعل ، یکون کفرا اکبر مخرجاعن الملة .ولما کان مردّ حکم التکفیر الی الله ورسوله لم یجز ان نکفّر الا من دل الکتاب والسنة علی کفره دلالة واضحة ، فلا یکفی فی ذلک مجرد الشبهة والظن ، لما یترتب علی ذلک من الاحکام الخطیرة ، واذا کانت الحدود تدرء بالشبها ت ، مع ان ما یترتب علیها اقل مما یترتب علی التکفیر ، فالتکفیر اولی ان یدرء بالشبهات ؛ ولذلک حزر النبی من الحکم بالتکفیر علی شخص لیس بکافر ، فقال: '' ایّما امریء قال لاخیه: یا کافر ، فقد باء بها احدهما ، ان کان کما قال والا رجعت علیه ''.

۱۔ تکفیر ایک حکم شرعی ہے جس کا معیار خدا و رسولصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی طرف سے بیان ہونا چاہئے جس طرح حلال و حرام اور واجب کا خد اکی طرف سے بیان ہونا ضروری ہے ۔اور ضروری نہیں کہ قول و فعل میں ہر طرح کے کفر سے مراد کفر اکبر ہو جس سے انسان دین سے خارج ہو جاتا ہے ۔

جب کفر کا حکم خدا و رسولصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی جانب سے ہونا چاہئے تو پھر قرآن وسنت سے واضح دلیل کے بغیر کسی شخص کو کافر کہنا جائز نہیں ہے اور شک وا حتمال کی بناء پر کفر ثابت نہیں ہو تا اس لئے کہ اس پر بہت سخت احکام جاری ہوتے ہیں ۔

جب شبہ کے ہوتے ہوئے حدود جاری نہیں ہو سکتیں اگر چہ وہ تکفیر سے کمتر ہی کیوں نہ ہوں تو پھر شبہ کی صورت میں بدرجہ اولیٰ تکفیر کی حد جاری نہیں ہوگی ۔ یہی وجہ ہے کہ رسول خدا (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم )نے کسی ایسے شخص کو تکفیر نہیں فرمائی ہے جو کافر نہ ہو اور فرمایا : جو کوئی اپنے مسلمان بھائی کو کہے : اے کافر ! اگر اس نے درست کہا تو دوسرا شخص عذاب الٰہی میں مبتلا ہو جائے گا اور اگر جھوٹ بولا تو وہ عذاب خود اس کی طرف پلٹے گا ۔

۱۸۹

''و قد یرد فی الکتاب والسنة مایفهم منه ان هذا القول او العمل او الاعتقاد کفر، ولا یکفر من اتصف به ، لوجود مانع یمنع من کفره ، وهذا الحکم کغیره من الاحکام التی لا تتم الا بوجود اسبابها وشروطها ، وانتفاء موانعها کمافی الارث سببه القربة قد لا یرث بها لوجود مانع کاختلاف الدین ، وهکذا الکفر یکره علیه المومن فلا یکفر به .وقد ینطق المسلم بکلمة الکفر لغلبة فرح او غضب او نحوهما فلا یکفر بها لعدم القصد ، کما فی قصة الذی قال : ''اللهم انت عبدی وانا ربک '' اخطأ من شدة الفرح.

کبھی کبھار قرآن و سنت میں ایسی تعبیر دکھائی دیتی ہے کہ فلاں بات ، فلاں عمل یا فلاں عقیدہ کفر کا موجب بنتا ہے جب کہ مانع کی وجہ سے ایسے عمل کے مرتکب شخص کو کافر نہیں کہا جاسکتا ۔ اس لئے کہ تکفیر بھی باقی احکام کے مانند ہے جس کے اثبات کے لئے اسباب و شرائط کا موجود ہونا اور موانع کا نہ ہونا ضروری ہے جیسے میراث کا سبب قرابت و رشتہ داری ہے لیکن دین میں اختلاف کی وجہ سے انسان میراث سے محروم ہو جاتا ہے ( جیسے بیٹا کافر اورباپ مسلمان ہو )

اسی طرح اگر کسی مسلمان کو کفر آمیز کلمات ادا کرنے پر مجبور کیا جائے تو وہ اس کے کفر کا موجب نہیں بنیں گے ۔ نیز اگر کوئی مسلمان حد سے زیادہ خوشی یا غصہ کی وجہ سے کفر آمیز کلمہ کہہ بیٹھتا ہے تو وہ اس کے کفر کا سبب نہیں بنے گا اس لئے کہ اس نے اس کا ارادہ نہیں کیا اور یہ ویسا ہی ہے جیسے ایک شخص نے بے حد خوشی کی حالت میں کہہ دیا :''اللھم انت عبدی وانا ربک '' اے اللہ ! تو میرا بندہ اور میں تیرا رب ہوں ۔

۱۹۰

''والتسرع فی التکفیر یترتب علیه امور خطیرة من استحلال الدم والمال ،و منع التوارث وفسخ النکاح ،و غیرها مما یترتب علی الردة ، فکیف یسوغ للمومن ان یقدم علیه لا دنی شبهة ...وجملة القول ان التسرع فی التکفیر له خطره العظیم ؛ لقول الله عزوجل :( قُلْ إِنَّمَا حَرَّمَ رَبِّی الْفَوَاحِشَ مَا ظَهَرَ مِنْهَا وَمَا بَطَنَ وَالْإِثْمَ وَالْبَغْیَ بِغَیْرِ الْحَقِّ وَأَنْ تُشْرِکُوا بِﷲ مَا لَمْ یُنَزِّلْ بِهِ سُلْطَانًا وَأَنْ تَقُولُوا عَلَی ﷲ مَا لاَتَعْلَمُونَ ) ( ۱ )

تکفیر میں جلد بازی پر بہت زیادہ نقصانات مترتب ہوتے ہیں جیسے خون و مال کامباح ہونا، میراث سے محرومی ، میاں بیوی کے درمیان جدائی وغیرہ بنا بر ایں کیسے ممکن ہے کہ کوئی مومن چھوٹے سے شبھہ کی وجہ سے کسی کی طرف ایسی نسبت دے ؟( اور اتنی بڑی ذمہ داری اٹھائے ؟)

خلاصہ یہ کہ تکفیر میں جلد بازی کے انتہائی خطرناک اثرات ہیں اسی لئے خداوند متعال فرماتا ہے :

کہہ دیجئے کہ ہمارے پروردگار نے صرف بد کاریوں کو حرام کیا ہے چاہے وہ ظاہری ہوں یا باطنی اور گناہ نا حق ظلم اور بلا دلیل کسی چیز کو خدا کا شریک بنا نے اور بلا جانے بوجھے کسی بات کو خدا کی طرف منسوب کرنے کو حرام قراردیا ہے ۔

اس آیت مجیدہ کے مطابق ہر طرح کی بدکاری ، ظلم و شرک ، نا روا نسبت اور بغیر دلیل کے کسی بات کے خدا کی طرف منسوب کرنے کو حرام شمار کیا ہے ۔

تکفیر کے سبب ہونے والے قتل عام کی حرمت :

''ثانیاً :ما نجم من هذ االاعتقاد الخاطیء من استباحة الدماء وانتهاک الاعراض ، وسلب الاموال الخاصة والعامة، وتفجیر المساکن والمرکبات ، وتخریب المنشأت ، فهذه الاعمال

____________________

(۱) سورۂ اعراف: ۳۳.

۱۹۱

وامثالها محرمة شرعا باجماع المسلمین ؛ لما فی ذلک من هتک لحرمة الانفس المعصومة ، وهتک لحرمة الاموال ، وهتک لحرمات الامن والاستقرار ، وحیاة الناس الآمنین المطمئنین فی مساکنهم ومعایشهم ، وغدوهم و رواحهم ، وهتک للمصالح العامة التی لا غنی للناس فی حیاتهم عنها ''.

۲۔ اس باطل عقیدہ کے نتیجہ میں خون ، مال اور ناموس کا مباح ہونا ، قتل وغارت ، گھروں، گاڑیوں اور تجارتی و دفتری مراکز کودھماکوں سے اڑانا اور ان جیسے باقی امور کے حرام و گناہ ہونے پر تمام مسلمانوں کا اجماع ہے اس لئے کہ یہ امور مال وجان کی بے حرمتی اور صبح و شام دفاتر میں کام کے لئے آنے جانے والے افراد کی زندگی کے سکون کونابود کرنے کا باعث بنتے ہیں اور اسی طرح معاشرے کی عمومی مصلحت کی تباہی کا موجب ہیں جس کے بغیر زندگی ممکن نہیں ۔

''و قد حفظ الاسلام للمسلمین اموالهم واعراضهم وابدانهم، وحرّم انهتاکها ، وشدّد فی ذلک ، وکان من آخر ما بلغ به النبی امته فقال فی خطبة حجة الوداع :''ان دماء کم واموالکم واعراضکم علیکم حرام کحرمة یومکم هذا فی شهرکم هذا، فی بلدکم هذا'' ثم قال:''لأ هل بلغت ؟ اللهم فاشهد ''. متفق علیه وقال :''کل المسلم علی المسلم حرام دمه و ماله وعرضه ''.وقال علیه الصلاة والسلام : '' اتقوا الظلم فان الظلم ظلمات یوم القیامة ''.

۱۹۲

جب کہ اسلام نے مسلمانوں کے مال وجان اور ناموس کو محترم قرار دیا ہے اور کسی کو ان کی بے حرمتی کا حق نہیں دیا ۔ رسول خدا (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم )نے حجة الوداع کے موقع پر جو امور ابلاغ فرمائے ان میں سے آخری امریہ تھا کہ آپ نے فرمایا:

تمہارا مال و جان اور ناموس ایک دوسرے کے لئے اسی طرح محترم ہے جس طرح آج کا دن ( عید قربان کا دن ) یہ مہینہ اور یہ مقدس مکان ( مکہ معظمہ ) محترم ہیں اور پھر فرمایا: خدا یا ! گواہ رہنا میں نے اپنا پیغام پہنچا دیا ۔ یہ حدیث متفق علیہ ہے

اسی طرح فرمایا: ہر مسلمان کا مال وجان اور ناموس دوسرے پر حرام ہے نیز یہ بھی فرمایا: ظلم سے پرہیز کرو اس لئے کہ ظلم قیامت کی تاریکیوں میں سے ہے ۔

''وقد تو عّد الله سبحانه من قتل نفساً معصومةً باشدّ الوعید ، فقال سبحانه فی حق المومن :( وَمَنْ یَقْتُلْ مُؤْمِنًا مُتَعَمِّدًا فَجَزَاؤُهُ جَهَنَّمُ خَالِدًا فِیهَا وَغَضِبَ ﷲ عَلَیْهِ وَلَعَنَهُ وَأَعَدَّ لَهُ عَذَابًا عَظِیمًا ) ( ۱ )

اور فرمایا : ''جو بھی کسی مومن کو قصداً قتل کر دے گا تو اس کی جزا جہنم ہے اسی میں ہمیشہ رہنا ہے اور اس پر خدا کا غضب بھی ہے اور خدا لعنت بھی کرتا ہے اور اس نے اس کے لئے عذاب عظیم بھی مہیاکر رکھا ہے ۔''

____________________

(۱) سورۂ نسائ: ۹۳.

۱۹۳

وقال سبحانه فی حق الکافر الذی له ذمة ، فی حکم قتل الخطاء : ( إ لاَّ أَنْ یَصَّدَّقُوا فَإِنْ کَانَ مِنْ قَوْمٍ عَدُوٍّ لَکُمْ وَهُوَ مُؤْمِن فَتَحْرِیرُ رَقَبَةٍ مُؤْمِنَةٍ... ) ( ۱ )

اسی طرح مسلمانوں کی پناہ میں زندگی بسر کرنے والے کافر کے غلطی سے قتل ہوجانے کے بارے میں فرمایا: ''اس کی دیت اور کفارہ ادا کرو ''

''فاذا کان الکافر الذی له امان اذا قتل خطاّ ، فعلیه الدیة والکفارة، فکیف اذا قتل عمداً، فان الجریمة تکون اعظم ، والاثم یکون اکبر وقد صح عن رسول الله انه قال : '' من قتل معاهداّ لم یرح رائحة الجنة ''.

خدا وند متعال نے کسی بے گناہ کا غلطی سے خون بہانے پر بہت سخت سزا رکھی ہے ۔اگر یہی قتل قصداً ہوتو یقینا اس کا گناہ اور جرم سنگین تر ہوگا ۔

رسول خدا (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم )نے صحیح حدیث میں فرمایا : اگر کوئی ایسے غیر مسلم کو قتل کرے جو مسلمانوں سے پیمان باندھ چکا ہوتو وہ جنت کی خوشبوتک نہیں سونگھ سکے گا ۔

____________________

(۲)سورۂ نسائ: ۹۲.

۱۹۴

تکفیر کے بدترین آثار سے اسلام کی بیزاری :

ثالثاً :''ان المجلس اذ یبین حکم تکفیر الناس بغیر برهان من کتاب الله وسنة رسوله وخطورة اطلاق ذلک ، لما یترتب علیه من شرور وآثام ، فانه یعلن للعام ان الاسلام بری ء من هذا المعتقد الخاطی ء ، وان مایجری فی بعض البلدان من سفک الدماء البریئة، وتفجیر المساکن والمرکبات والمرافق العامة وخاصة، وتخریب المنشآت هو عمل اجرامی ، والاسلام بری ء منه ''.

۳۔ قرآن و سنت سے دلیل کے بغیر کی جانے والی تکفیر اور اس کے بد ترین آثار اور گناہ کے مذکورہ بالا حکم کو مد نظر رکھتے ہوئے مجلس پوری دنیا کو یہ بتانا چاہتی ہے کہ اسلام اس طرح کے ہر قسم کے عقیدہ سے بیزار ہے اور بے گناہوں کا خون بہانا ، عمارتوں، گاڑیوں اور عمومی وخصوصی مراکز کا تباہ کرنا وغیرہ یہ ایک مجرمانہ عمل ہے جس کا اسلام سے کوئی تعلق نہیں ہے ۔

''وهکذا کل مسلم یومن بالله والیوم الآخر بری ء منه ، وانما هو تصرف من صاحب فکر منحرف، وعقیدة ضالة، فهو یحمل اثمه وجرمه ، فلا یحتسب عمله علی الاسلام ، ولا علی المسلمین المهتدین بهدی الاسلام ، المعتصمین بالکتاب والسنة ، والمستمسکین بحبل الله المتین ، وانما هو محض افساد واجرام تاباه الشریعة والفطرة؛ ولهذا جاء ت نصوص الشریعة قاطعة بتحریمه، محذرة من مصاحبة اهله''.

اسی طرح ہر مسلمان جو خدا و روز قیامت پر ایمان رکھتا ہے وہ ان کاموں سے بیزار ہے اور یہ کام تنہا منحرف اور گمراہ لوگوں کا ہے جس کا گناہ بھی انھیں کی گردن پر ہے اور اسے اسلام اور قرآن و سنت کی پیروی کرنے والے ہدایت یافتہ مسلمانوں کے حساب میں شمار نہیں کرنا چاہئے اس لئے کہ یہ ایک بہت بڑا ظلم ہے جسے شریعت اسلام اور فطرت سلیم قبول کرنے کو تیار نہیں ۔

یہی وجہ ہے کہ اسلامی روایات نے ان امور کو یقینی طور پر حرام قرار دیا ہے اور ان امور کے مرتکب افراد کے پاس اٹھنے بیٹھنے سے منع فرمایا ہے

اور پھر اس اعلان میں ان آیات و روایات کو ذکر کیا گیا ہے جو اس بات کی نشاندہی کررہی ہیں کہ اسلام ، محبت و دوستی ،نیکی میں ایک دوسرے سے تعاون ، منطقی و عقلی گفتگوکا حکم دیتا ہے اور تعصب و غصہ سے ممانعت فرماتاہے ۔

۱۹۵

اور اس اعلان کے آخر میں خدا وند متعال کو اس کے اسمائے حسنیٰ اور صفات عالیہ کا واسطہ دیتے ہوئے یہ درخواست کی گئی ہے کہ وہ مسلمانوں سے اس مصیبت کو دور کرے اور اسلامی ممالک کے سر براہوں کو ملک و ملت کو فائدہ پہنچانے کی توفیق دے تاکہ اس فساد کی جڑیں کاٹ سکیں ۔ اور خدا وند متعال اپنے دین کی مدد اور کلمہ ٔ حق کی سر بلندی کے لئے ان کی نصرت اور مسلمانوںکے امور کی اصلاح اور ان کے ذریعے سے حق کی مدد فرمائے اس لئے کہ خدا اس پر ولی و قادر ہے ۔ خدا کا درود و سلام ہو محمدصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم ان کی آل اور اصحاب پر۔( ۱ )

اس اعلان پر دستخط کرنے والی شخصیات :

مجلس کے چئرمین مفتی اعظم سعودی عرب عبد العزیز بن عبد اللہ بن باز، صالح بن محمد بن اللحیان ، راشد بن صالح بن خنین ، محمد بن ابراہیم ابن جبیر، عبد اللہ بن سلیمان المنیع ،عبد اللہ بن عبد الرحمن الغدیان،صالح بن فوزان الفوزان، محمد بن صالح العثیمین ، عبد اللہ بن عبد الرحمن البسام ، حسن بن جعفر العتمی، عبد العزیزبن عبد اللہ بن محمد آل الشیخ،(یہ بن باز کے فوت ہونے کے بعد سعودی عرب کا مفتی ہوگا )ناصر ابن حمد الراشد، محمد بن عبد اللہ السبیل ، عبد اللہ بن محمد بن ابراہیم آل الشیخ ، محمد بن سلیمان البدر، عبد الرحمن بن حمزة المرزوقی، عبد اللہ بن عبد المحسن الترکی، محمد بن زید آل سلیمان، بکر بن عبد اللہ ابو زید، عبد الوہاب بن ابراہیم ابو سلیمان ، صالح بن عبدا لرحمان الاطرم،

سعودی بادشاہ کا تکفیر کرنے والے وہابی مفتیوں پر حملہ

سعودی عرب کے بادشاہ ملک عبد اللہ نے تکفیر کرنے والے مفتیوں کو گمراہ ،

____________________

(۱)اس اعلان کی اصلی کاپی بندہ (۲۰۰۴ ء میں سعودی عرب سے لے کر آیا تھا جسے فقیہ گرانقدر استاد محترم حضرت آیت العظمیٰ سبحانی کی خدمت میں پیش کیا اور انھوں نے اسے اپنی چار جلدوں پر مشتمل کتاب ( معجم طبقات المتکلمین ) کے صفحہ نمبر ۱۰۰ پر نقل کیا ہے اور حضرت آیت اللہ العظمیٰ مکارم شیرازی نے اسے اپنی کتاب (وہابیت بر سر دوراہی) میں ذکر کیا ہے ۔چونکہ ان کا ترجمہ انتہائی سلیس تھا لہٰذا ہم نے تھوڑی سی تبدیلی کے ساتھ اسی کو نقل کیا ہے ۔

۱۹۶

گمراہ کنندہ اور ان کے اس ارتکاب کو شرک سے بھی عظیم گناہ قرار دیا ہے ۔

ابناء سے نقل کرتے ہوئے شیعہ نیوز کی رپورٹ کے مطابق (المجمع الفقھی برابطة العالم الاسلامی)کی انیسویں کانفرنس جو بارہ سے ۱ ٹھارہ آبان ۱۳۸۶ بمطابق ۲۰۰۷ ء میں تشکیل پائی اس میں شاہ عبد اللہ نے اس کانفرنس میں شرکت کرنے والوں کو ان گمراہ اور گمراہ کنندہ مفتیوں کے خلاف قیام کرنے کی دعوت دی ہے جنھوں نے امت مسلمہ کو قتل دھماکوں اور تکفیر جیسے عظیم فتنہ میں مبتلا کر رکھا ہے ۔

شاہ عبداللہ نے تکفیر ی فتوی جاری کرنے والے وہابی شیوخ کو سیٹلائٹ اورانٹرنیٹ کے شیوخ کا لقب دیتے ہوئے کہا کہ یہ لوگ نادانی میں خدا پر بھی افتراء باندھتے ہیں اوران کا یہ کام عظیم ترین مصائب کا باعث اورکبیر ترین گناہوں بلکہ شرک باللہ سے بھی بدتر وبالاتر ہے ۔

شاہ عبد اللہ نے اپنے اس پیغام میں یہ بھی کہا ہے کہ بعض مفتی جو پلک جھپکنے کی دیر میں فتویٰ صادر کردیتے ہیں اگر چہ ان کو اپنی خطا کا علم بھی ہو جائے پھر بھی اپنا فتویٰ واپس لینے کو تیار نہیں ہوتے جب کہ یہ ان کے تکبر اور شیطان کے سامنے تسلیم ہونے کی علامت ہے ۔

کہا گیا ہے کہ اس کانفرنس کا مقصد ڈش اور انٹر نیٹ پر صادر کئے جانے والے فتوی کو باضابطہ بنایا تھا ۔( ۱ )

____________________

(۱)شیعہ نیوز ۵ آبان ۱۳۸۶ شمسی.

۱۹۷

مفتی اعظم سعودیہ کا عراق میں ہونے والے خود کش دھماکوں کی مذمت کرنا

خبر گزاری مہر سے نقل کرتے ہوئے شیعہ نیوز کی رپورٹ کے مطابق سعودی عرب کے مفتی شیخ عبد العزیز آل شیخ نے سعودی عرب میں منتشر ہونے والے ایک بیان میں عراق کے اندر ہونے والے مسلحانہ اور خود کش حملوں میں سعودی باشندوں کی شرکت کے بارے میں اظہار ناراحتی کرتے ہوئے کہا ہے کہ اگر چہ یہ حملے قابض فوجوں سے مقابلہ کے بہانہ سے انجام دیئے جاتے ہیں لیکن اس کی قربانی عراق کی اکثریتی آبادی شیعہ لوگ بنتے ہیں ۔

اور کہا ہے :''کئی سالوں سے سعودی نوجوان خدا کی راہ میں جہاد کے بہانہ سے ملک سے خارج ہو رہے ہیں یہ نوجوان دین سے عشق و محبت تو رکھتے ہیں لیکن حق و باطل میں تشخیص کی قدر ت نہیں رکھتے ''

انہوں نے مزید کہا: یہ چیز باعث بن رہی کہ غیر ملکی طاقتیں جہاد کے بہانہ سے انھیں اپنا آلہ ٔ کار بناکر اپنے نجس اہداف تک پہنچ سکیں : یہاں تک کہ ہمارے نوجوان شرق و غرب کی تجارت کا وسیلہ بنے ہوئے ہیں جس کا اسلام اور مسلمانوں کو بہت زیادہ نقصان ہو رہا ہے ۔

اسی طرح اس سعودی مفتی نے یہ بھی کہا ہے : یہ نوجوان فریب کاری اور دھوکہ بازی کے نتیجہ میں ایسے کام انجام دیتے ہیں جن کا اسلام سے کوئی تعلق نہیں ہے ۔

شیخ عبد العزیز آل الشیخ نے یہ اعتراف کرتے ہوئے کہ سعودی عرب کے سرمایہ دار لوگ عراق کے دہشت گردوں کی مالی حمایت کررہے ہیں اپنے ملک کے سرمایہ داروں سے یہ درخواست کی ہے کہ وہ ان دہشت گردگروہوں کی مدد نہ کریں ۔

نیز کہا ہے کہ میں ان سرمایہ داروں کو یہ نصیحت کرتا ہوں کہ اپنا پیسہ خرچ کرنے میں احتیاط سے کام لیں تاکہ کہیں ان کا پیسہ مسلمانوں کو نقصان پہنچانے کا باعث نہ بنے ۔( ۱ )

____________________

(۱)شیعہ نیوز ۱۰ مہر ۱۳۸۶ از خبر گزاری مہر.مطابق ۲۰۰۷ئ۔

۱۹۸

فصل ششم

وہابی اور مسلمانوں پر بدعت کی تہمت

آئین وہابیت کی بدکاریوں میں سے بد ترین برائی یہ ہے کہ جو چیز ان کے افکار سے مطابقت نہ رکھتی ہو اسے بدعت اور شرک سمجھ بیٹھے ہیں کہ جس کی طرف اس فصل میں اشارہ کر رہے ہیں ۔

۱۔ میلاد النبیصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کو بدعت قراردینا :

سابق مفتی اعظم سعودی عرب لکھتا ہے :

''لا یجوز الاحتفال بمولد الرسول صلی الله علیه وسلم ولا غیره ؛ لان ذلک من البدع المحدثة فی الدین ، لان الرسول ]صلی الله علیه وسلم [لم یفعله ولاخلفاؤ ه الراشدون ولا غیرهم من الصحابة رضی الله عنهم ولا التابعون لهم باحسان فی القرون المفضلة '' .( ۱ )

____________________

(۱) مجموع فتاویٰ ومقالات متنوعة۱: ۸۳فتاویٰ اللجنة الدائمة للبحوث العلمیة والافتاء ۳: ۱۸.

۱۹۹

پیغمبر (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ) اور کسی دوسرے شخص کا میلاد مناناجائز نہیں ہے اس لئے کہ یہ دین میں ایجاد کی جانے والی بدعات میں سے ہے چونکہ رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم خلفائے راشدین ، دوسرے صحابہ یا تابعین میں سے کسی نے اسے انجام نہیں دیا ۔

۲۔ مدئن کے شروع میں مدئیِں:

سعودی عرب میں مجلس دائمی فتویٰ نے سوگواری کے مراسم کے بارے میں ایک سوال کے جواب میں لکھا ہے :

''لایجوز الاحتفال بمن مات من الانبیاء والصالحین ولا احیاء ذکراهم بالموالدو...لان جمیع ما ذکر من البدع المحدثة فی الدین ومن وسائل الشرک '' .( ۱ )

انبیاء و صالحین کی مجالس سوگواری اور ان کے یوم ولادت کی محافل بر پا کرناجائز نہیں ہے اس لئے کہ یہ بدعت اور شرک کا وسیلہ ہیں ۔

۳۔ اذان سے پہلے یا بعد میں پیغمبرصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم پر درود بھیجنا:

سعودی عرب میں مجلس دائمی فتوی نے حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ) پر درود و سلام بھیجنے کے سوال کے جواب میں لکھا ہے :

''ذکر الصلاةوالسلام علی الرسول صلی الله علیه وسلم قبل الاذان ، وهکذا الجهر بها بعد الاذان ، مع الاذان ، من البدع

____________________

(۱) مجموع فتاویٰ ومقالات متنوعة۳: ۵۴ فتویٰ نمبر ۱۷۷۴

۲۰۰

201

202

203

204

205

206

207

208

209

210

211

212

213

214

215

216

217

218

219

220

221

222

223

224

225

226

227

228

229

230

231

232

233

234

235

236

237

238

239

240

241

242

243

244

245

246

247

248

249

250

251

252

253

254

255

256

257

258

259

260

261

262

263

264

265

266

267

268

269

270

271

272

273

274