وہابیت عقل و شریعت کی نگاہ میں

وہابیت عقل و شریعت کی نگاہ میں14%

وہابیت عقل و شریعت کی نگاہ میں مؤلف:
زمرہ جات: ادیان اور مذاھب
صفحے: 274

وہابیت عقل و شریعت کی نگاہ میں
  • ابتداء
  • پچھلا
  • 274 /
  • اگلا
  • آخر
  •  
  • ڈاؤنلوڈ HTML
  • ڈاؤنلوڈ Word
  • ڈاؤنلوڈ PDF
  • مشاہدے: 163842 / ڈاؤنلوڈ: 5545
سائز سائز سائز
وہابیت عقل و شریعت کی نگاہ میں

وہابیت عقل و شریعت کی نگاہ میں

مؤلف:
اردو

1

2

3

4

5

6

7

8

9

10

11

12

13

14

15

16

17

18

19

20

21

22

23

24

25

26

27

28

29

30

31

32

33

34

35

36

37

38

39

40

41

42

43

44

45

46

47

48

49

50

51

52

53

54

55

56

57

58

59

60

61

62

63

64

65

66

67

68

69

70

71

72

73

74

75

76

77

78

79

80

81

82

83

84

85

86

87

88

89

90

91

92

93

94

95

96

97

98

99

100

101

102

103

104

105

106

107

108

109

110

111

112

113

114

115

116

117

118

119

120

121

122

123

124

125

126

127

128

129

130

131

132

133

134

135

136

137

138

139

140

141

142

143

144

145

146

147

148

149

150

151

152

153

154

155

156

157

158

159

160

161

162

163

164

165

166

167

168

169

170

171

172

173

174

175

176

177

178

179

180

181

182

183

184

185

186

187

188

189

190

191

192

193

194

195

196

197

198

199

200

201

202

203

204

205

206

207

208

209

210

211

212

213

214

215

216

217

218

219

220

کیا ہے کہ آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے فرمایا :

''واذا رائیتم اهل الریب والبدع من بعدی فاظهروا البراء ة منهم واکثروا من سبهم والقول فیهم والوقیعة..'' ( ۱)

اگر میرے بعد اہل شک اور بدعت گزاروں کو دیکھو تو ان سے بیزاری و نفرت کا اظہار کرو ان پر سب وشتم کرو اور ان کی برائی کو بیان کرو ( تاکہ معاشرے میں ان کا مقام گر جائے اور ان کی بات کی اہمیت نہ رہے )

۵۔بدعت گذار کا احترام ، دین کی نابودی:

امام جعفر صادق علیہ السلام فرماتے ہیں :

''من تبسم فی وجه مبتدع فقد اعان علی هدم دینه '' ( ۲ )

جو شخص بدعت گذار کے سامنے اظہار تبسم کرے اس نے دین کی نابودی میں اس کی مدد کی ہے ۔

نیز فرمایا:''من مشیٰ الی صاحب بدعة فوقره فقد مشی فی هدم الاسلام '' .( ۳ )

جو شخص بدعت گذار کی ہمراہی اور ا س کا احترام کرے درحققیت اس نے دین اسلام کی نابودی کی طرف ایک قدم بڑھایا ۔

____________________

(۱)اصول کافی ۲: ۴۳۷۵، باب مجالسة اہل المعاصی

(۲) بحار الانوار۴۷: ۲۱۷،مناقب ابن شہر آشوب ۳: ۳۷۵ ؛ مستدرک الوسائل ۱۲: ۳۲۲.

(۳)محاسن برقی ۱: ۲۰۸ ؛ ثواب الاعمال شیخ صدوق : ۲۵۸؛ من لا یحضرہ الفقیہ ۳: ۵۷۲؛ بحار الانوار۲:۳۰۴.

۲۲۱

۶۔ بدعت کا مقابلہ کرنے کاحکم :

مرحوم کلینی (رحمة اللہ علیہ )نے محمد بن جمہور کے واسطے سے پیغمبر (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم )سے نقل کیا ہے کہ آنحضرتصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے فرمایا :

''اذا ظهرت البدع فی امتی فلیظهر العالم علمه ، فمن لم یفعل فعلیه لعنة الله '' ۔( ۱ )

ترجمہ: جب میری امت میں بدعات ظاہر ہونے لگیں تو علماء پر واجب ہے کہ وہ اپنے علم کا اظہار کریں ( اور اس بدعت کا راستہ روکیں ) پس جو ایسا نہ کرے اس پر خدا کی لعنت ہے ۔

کیا بزرگان دین کی یاد منانا بدعت ہے ؟

اس فصل کے شروع میں بیان کر چکے کہ وہابی پیغمبر (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ) کے میلاد اور انکی وفات کے سوگ منانے کو بدعت قرار دیتے ہیں ۔

سابق سعودی مفتی اعظم بن باز کا فتویٰ بھی نقل کرچکے کہ وہ کہتا ہے :

میلاد النبیصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم جائز نہیں ہے چونکہ دین میں بدعت شمار ہوتا ہے اس لئے کہ رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم ، خلفائے راشدین اور دیگر صحابہ و تابعین نے یہ کام انجام نہیں دیا :( ۲ )

اسی طرح سعودی عرب کی مجلس دائمی فتویٰ نے مراسم سوگواری کے بارے میں سوال کے جواب میں لکھا ہے :

انبیاء و اولیاء کی وفات کی یاد مانا جائز نہیں ہے چونکہ یہ دین میں بدعت اور شرک کا وسیلہ ہے ۔(۳)

____________________

(۱)اصول کافی ۱: ۲۵۴،باب البدع.

( ۲)لایجوز الاحتفال بمولد الرسول الله صلی الله علیه وسلم ولا غیره ؛ لان ذلک من البدع المحدثة فی الدین ، لان الرسول (ص)لم یفعله ولاخلفاؤه الراشدون ولا غیرهم من الصحابة رضی الله عنهم والتابعون لهم باحسان فی القرون المفضلة ''مجموع فتاوی ومقالات متنوعة ۱:۱۸۳ وفتاوی اللجنة الدایمة للبحوث العلمیة والافتاء ۳: ۱۸.

(۳)لا یجوز احتفال بمن مات من الانبیاء والصالحین والاحیاء ذکراهم بالموالد و...لان جمیع ماذکر من البدع المحدثة فی الدین ومن وسایل الشرک ''.فتاوی اللجنة الدائمة للبحوث العلمیة والافتاء ۳:۵۴ ، فتوای شماره ۱۷۷۴

۲۲۲

انبیاء کے میلاد کا قرآن سے اثبات

گذشتہ مطالب سے یہ واضح ہو جاتا ہے کہ پیغمبر (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ) اور اہل بیت عصمت وطہارت علیہم السلام کی یاد منانے پر قرآن و سنت میں ایسے اطلاقات و عمومات موجود ہیں جو اس کی مشروعیت کو ثابت کرتے ہیں ۔

۱۔یہ درحقیقت تعظیم رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم )ہے :

خداوند متعال فرماتا ہے :

( فَالَّذِینَ آمَنُوا بِهِ وَعَزَّرُوهُ وَنَصَرُوهُ وَاتَّبَعُوا النُّورَ الَّذِی أُنزِلَ مَعَهُ أوْلَئِکَ هُمْ الْمُفْلِحُونَ ) ( ۲ )

ترجمہ : ...پس جو لوگ اس پر ایمان لائے اس کا حترام کیا اس کی مدد کی اور

____________________

(۲) سورۂ اعراف: ۱۵۷.

۲۲۳

اس نور کا اتباع کیا جو اس کے ساتھ نازل ہوا ہے وہی درحقیت فلاح یافتہ اورکامیاب ہیں ۔

جب جملہ (وَعَزَّرُوہُ )سے بطور کلی تعظیم رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ) ثابت ہوتی ہے تومیلاد النبیصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کا جشن اور اس کی خوشی بھی تعظیم و تکریم نبیصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کا ایک مصداق ہے ۔

۲۔ یہ اجر رسالت ہے :

( قُلْ لاَأَسْأَلُکُمْ عَلَیْها َجْرًا ِالاَّ الْمَوَدَّةَ فِی الْقُرْبَی ) ( ۱ )

ترجمہ : رسولصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم ! ان سے کہہ دو کہ میں تم سے اجر رسالت نہیں چاہتا مگر یہ کہ میرے اہل بیت سے محبت کرو ۔

خداوند متعال نے اس آیت شریفہ میں اہل بیت پیغمبر (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم )سے محبت ودوستی کو اجر رسالت قرار دیا ہے تو اہل بیت علیہم السلام کی ہر طرح کی تعظیم و تکریم چاہے وہ ان کی ولادت کے دن خوشی مناکر ہویا ان کی شہادت کے ایام میں عزاداری کی مجالس برپا کرکے یہ سب حکم خدا پر لبیک کہتے ہوئے ان سے محبت و مودت کا اظہار کرنا ہے ۔

۳۔ میلاالنبی بھی جشن نزول مائدہ کے مانند:

قابل غور نکتہ آسمانی دسترخوان کے نزول کی مناسبت سے بنی اسرائیل کی

____________________

(۱) سورۂ شوریٰ:۲۳.

۲۲۴

سالانہ عید کے جشن کی داستان ہے جس کے بارے میں خداوند متعال فرماتا ہے :

( اللّٰهُمَّ رَبَّنَا اَنزِلْ عَلَیْنَا مَائِدَةً مِنْ السَّمَائِ تَکُونُ لَنَا عِیدًا لِأَوَّلِنَا وَآخِرِنَا وَآیَةً مِنْکَ وَارْزُقْنَا وَأَنْتَ خَیرُ الرَّازِقِینَ ) ( ۱ )

ترجمہ: پروردگار ! ہمارے اوپر آسمان سے دستر خوان نازل کردے کہ ہمارے اول وآخر کے لئے عید ہو جائے اور تیری قدرت کی نشانی بن جائے اور ہمیں رزق دے کہ تو بہترین رزق دینے والا ہے ۔

جب نزول مائدہ جیسی عارضی نعمت سالانہ عیدبن سکتی ہے تو پھر ولادت وبعثت نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم )جو بشریت کے لئے نعمت جاودانہ ہے وہ کیسے عید اور خوشی کا باعث نہیں بن سکتی ۔

سعودی عرب کی قومی عیدیں

تعجب آور بات تو یہ ہے کہ اسی مجلس نے سعودی عرب کی سرکاری عیدوں کے بارے میں لکھا ہے :

''وماکان المقصود منه ( العید ) تنظیم الاعمال مثلا لمصلحة الامة وضبط امورها ؛ کاسبوع المرور ، وتنظیم مواعید الدراسیة والاجتماع الموظفین للعمل ونحوذلک ، مما یفضی به الی

____________________

(۱)سورۂ مائدہ: ۱۱۴.

۲۲۵

التقرب والعبادة والتعظیم بالاصالة ، فهو من البدع العادیة التی لا یشملها قوله صلی الله علیه وسلم احدث فی امرنا ما لیس منه فهو رد ، فلا حرج فیه ؛ بل یکون مشروعاً '' ( ۱ )

اگر ان عیدوں کے منانے کا مقصد قوم کی مصلحت اور ان کے امور کی تنظیم ہو جیسے ہفتہ پولیس ، تعلیمی سال کا آغاز ، سر کاری ملازموں کا اجتماع وغیرہ جن میں عبادت اور تقرب خدا کا قصد نہیں کیا جاتا تو اس میں کوئی مانع نہیں ہے اور یہ نہی پیغمبر میں شامل نہیں ہوں گی ۔

واضح ہے کہ ایسا تفکر ، فکری جمود کی انتہاء ہے اس لئے کہ اگر چہ جشن ولادت کی مخالفت ایک فطری امر کی مخالفت کرنا ہے بلکہ جشن ولادت اور سرکاری جشن میں کوئی فرق نہیں ہے چونکہ اپنی اولاد کی ولادت کی خوشی منانے والا شخص ہر گز عبادت یا تقرب خداکا ارادہ نہیں کرتا ( تاکہ اس کا یہ جشن منانا بدعت قرار پائے )۔

____________________

(۱) فتاویٰ اللجنة الدائمة للبحوث العلمیة والافتاء ۳: ۸۸، فتویٰ ۹۴۰۳.

۲۲۶

فصل ہفتم

انبیاء واولیاء سے توسل کا حرام قراردینا

پیغمبرصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم سے توسل کے بارے میں وہابیوں کے نظریات

۱۔ ابن تیمیہ کانظریہ

مسلمانوں پر وہابیوں کے اعتراضات میں سے بنیادی ترین اعتراض ان کے پیغمبر (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم )اور اولیائے خدا سے توسل کرنے کے بارے میں ہے جسے بہانہ بناکر وہ مسلمانوں پر شرک کی تہمت لگاتے ہیں ۔

مفکر وہابیت ابن تیمیہ کہتا ہے :

''من یاتی الی قبر نبی او صالح، ویساله حاجته ،ویستنجده ، مثل ان یساله ان یزیل مرضه ، او یقضی دینه ، او نحو ذلک مما لا یقدر علیه الا الله فهذا شرک صریح ، یجب ان یستتاب صاحبه، فان تاب والاقتل .وقال: قول کثیر من الضلال: هذااقرب الی الله منی :. وانا بعید من الله لایمکننی ان ادعوه الا بهذه الواسطة ونحو ذلک من اقوال المشرکین ''.( ۱ )

اگر کوئی شخص قبر نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم )یا کسی ولی کی قبر کے پاس اس سے حاجت طلب کرے مثلاً اپنی بیماری کی شفا یا قرض کی ادائیگی کی درخواست کرے جس پر خدا کے سوا کوئی قادر نہیں تو یہ واضح شرک ہے لہٰذا ایسے شخص کو توبہ پرآمادہ کیا جائے اگر توبہ کرلے تو صحیح ورنہ اسے قتل کر دیا جائے ۔نیز کہا ہے :جو لوگ کہتے ہیں کہ ہم فلاں کو اس لئے واسطہ بناتے ہیں کہ وہ ہم سے زیادہ خدا کے قریب ہے تو یہ بات شرک اور اس کا کہنے والا مشرک ہے ۔

۲۔ نظریہ محمد بن عبد الوہاب:

مجدد افکار ابن تیمیہ محمد بن عبد الوہاب کہتا ہے :

''وان قصدهم الملائکة والانبیاء ، والاولیاء یریدون شفاعتهم والتقرب الی الله بذلک ، هو الذی احل دماء هم واموالهم '' .( ۲ )

____________________

(۱) زیارة القبور والاستنجادبالمقبور :۱۵۶؛ الھدیة السنیة : ۴۰؛کشف الارتیاب :۲۱۴.

(۲)کشف الشبہات ، ص ۵۸، ط، دار العلم بیروت و مجموع مؤلفات الشیخ محمد بن الوہاب ۶: ۱۱۵، رسالة کشف الشبہات

۲۲۷

یہ لوگ ملائکہ ، انبیاء اورا ولیاء سے شفاعت طلب کرتے ہیں اور انھیں تقرب خدا کا وسیلہ قرار دیتے ہیں یہی چیز ان کے مال کے حلال اور قتل کے جائز ہونے کا باعث بنی ہے ۔

محمد بن عبد الوہاب نے شاہ فہد کے دادا محمد بن سعود سے کئے ہوئے معاہدہ کو پورا کرنے کی خاطریہ اعلان کیا :

جو شخص انبیاء و اولیاء کو واسطہ قرار دے اور ان سے شفاعت طلب کرے اس کا مال و جان مباح ہے ۔(..)

دوسری جگہ لکھا ہے :

''من ظن ان بین الله وبین خلقه وسائط ترفع الیهم الحوائج فقد ظن بالله سوء الظن '' .( ۱ )

جو شخص یہ گمان کرے کہ خدا اور مخلوق کے درمیان واسطے موجود ہیں جو ان کی حاجات کو خدا تک پہنچاتے ہیں تو اس نے خد اکے بارے میں سوء ظن کیا ۔

''ان محمداصلی الله علیه وسلم ، لم یفرّق بین من اعتقد فی الاصنام ومن اعتقد فی الصالحین ؛ بل قاتلهم کلهم وحکم بکفرهم '' ( ۲ )

____________________

(۱) مجموعہ مولفات شیخ محمدبن عبد الوہاب ۵: ۲۴۱.

(۲)حوالہ سابق ۶: ۱۴۶.

۲۲۸

محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم )بت پرستوں اور اولیاء کو وسیلہ قرار دینے والوں میں فرق نہ کرتے بلکہ ان سب کوکافر قرار دے کرا ن سے جنگ کا حکم صادر فرمایا:

''لا یصح دین الاسلام الا بالبرأة ممن یتقرب الی الله بالصلحاء و تکفیر هم '' ( ۱ )

کسی شخص سے اس وقت تک اسلام قبول نہ ہو گا جب تک وہ صالحین کو تقرب خدا کا واسطہ بنانے والوں سے بیزاری کا اعلان اور انھیں کافر نہ سمجھ لے ۔

''من عبد الله لیلا ونهارا ثم دعا نبیاً او ولیاً عند قبره ، فقد اتخذ الهین اثنین ، ولم یشهد ان لا اله الا الله ؛ لان الا له هو الموعد '' .( ۲ )

اگر کوئی شخص دن رات عبادت کرے اور پھر قبر نبیصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم یا ولی کے پاس آکر اسے پکارے تو اس نے دو معبودوں کی پرستش کی اور اس نے توحید کی گواہی نہیں دی اس لئے کہ معبود وہی ہوتا ہے جسے انسان پکار تا ہے ۔

مرتد کے حکم کے بارے میں کہتا ہے :

''اجماع المذاهب کلهم علی ان من جعل بینه وبین الله وسائط یدعوهم انه کافر مرتد حلال المال والدم '' ( ۳ )

____________________

(۱)حوالہ سابق.

(۲)حوالہ سابق

(۳) حوالہ سابق

۲۲۹

تمام مذاہب اسلامی کا اجماع ہے کہ اگر کوئی شخص اپنے اور خدا کے درمیان واسطہ قرار دے تو وہ کافرو مرتد ہے اور ا س کامال وجان مباح ہے ۔

ارے، محمدبن عبد الوہاب نے اپنے جھوٹے خیالات کے ذریعہ مسلمانوں کے کفر کو ثابت کر کے جہاد کا اعلان کر تے ہوئے بدو عربوں کے احساسات کو ابھارا اور پھر محمدبن سعود کی مدد سے لشکر آمادہ کر کے مسلمانوں کے شہروں اور دیہاتوں پر حملہ کر کے خون کی ندیاں بہائیں اور ان کے اموال کو مال غنیمت سمجھ کر لوٹ لیا ۔( ۱)

۳۔ سعودی مجلس فتویٰ کا نظریہ :

سعودی عرب کی مجلس دائمی فتویٰ نے شیعہ کے ساتھ شادی کے بارے میں سوال کا جوا ب دیتے ہوئے اس کے حرام ہونے کی علت یوں بیان کی ہے :

''لایجوز تزویج بنات اهل السنة من ابناء الشیعة ولا من الشیوعیین ، واذا وقع النکاح فهو باطل، لا ن المعروف عن الشیعة دعاء اهل البیت،والا ستغاثة بهم ، وذلک شرک اکبر '' .( ۲ )

اہل سنت کے لئے جائز نہیں ہے کہ وہ اپنی بیٹیوں کی شادی شیعہ یا کیمونسٹ بچوں سے کریں اگر ایسا نکاح واقع ہو جائے تو باطل ہے اس لئے کہ مشہور یہ ہے کہ شیعہ اہل بیت سے تو سل کرتے ہیں اور یہ شرک اکبر ہے ۔

____________________

(۱) تاریخ نجد :۹۵ ، فصل الثالث ، الغزوات ؛ تاریخ آل سعود۱:۳۱؛تاریخچۂ نقد وبررسی وہابی ہا :۱۳۔ ۷۶.

(۲)فتاویٰ اللجنة الدائمة للبحوث العلمیة والافتاء ۱۸: ۲۹۸.

۲۳۰

ایک اور سوال کے جواب میں یوں فتویٰ دیا:

''اذاکان الواقع کما ذکرت من دعائهم علیا والحسن والحسین ونحوهم فهم مشرکین شرکا اکبر یخرج من ملة الاسلام فلا یحل ان نزوجهم المسلمات ، ولا یحل لنا ان نتزوج من نسائهم ، ولا یحل لنا ان ناکل من ذبائحهم '' .( ۱ )

اگر یہ حقیقت ہے جیسا کہ سوال میں بیان ہو اہے کہ وہ لوگ (یاعلی ) (یاحسن) (یا حسین )کہتے ہیں تو وہ مشرک اور دین اسلام سے خارج ہیں ان سے اپنی بیٹیوں کی شادی کرنا جائز نہیں ہے اور نہ ہی ان کے ذبح کئے ہوئے حیوان کا گوشت کھانا جائز ہے جب کہ اسی مجلس نے یہودی اور مسیحی کے ساتھ شادی کرنے کے بارے میں سوال کے جواب میں لکھا ہے :

یجوز للمسلم ان یتزوج کتابیة یهودیة او نصرانیة اذا کانت محصنة وهی الحرة العفیفة '' ( ۲ )

مسلمان کا اہل کتاب یہودی یا مسیحی لڑکی سے شادی کرنا جائز ہے مگر یہ کہ وہ بدکار نہ ہو ۔

افسوس اور تعجب کا مقام تو یہ ہے کہ یہی مجلس اسلام کے نام پر یہود ونصاریٰ

____________________

(۱)حوالہ سابق۳: ۳۷۳فتویٰ نمبر ۳۰۸.

(۲) حوالہ سابق ۱۸:۳۱۵.

۲۳۱

کے ساتھ تو نکاح کو جائز قرار دے رہی جن کے شرک آلود چہرے کو قرآن نے آشکار کرتے ہوئے فرمایا:

( وَقَالَتْ الْیَهُودُ عُزَیْر ابْنُ ﷲ وَقَالَتْ النَّصَارَی الْمَسِیحُ ابْنُ ﷲ ذَلِکَ قَوْلُهُمْ بِأَفْوَاهِهِمْ یُضَاهِئُونَ قَوْلَ الَّذِینَ کَفَرُوا مِنْ قَبْلُ قَاتَلَهُمُ ﷲ أَنَّی یُؤْفَکُونَ ) ( ۱ )

ترجمہ: اور یہودیوں کا کہنا ہے کہ عزیر اللہ کے بیٹے ہیں اور نصاریٰ کہتے ہیں کہ مسیح اللہ کے بیٹے ہیں یہ سب ان کی زبانی باتیں ہیں ان باتوں میں یہ بالکل ان کے مثل ہیں جو ان کے پہلے کفار کہا کرتے تھے ۔

لیکن شیعوں کے ساتھ نکاح کو باطل وحرام قرار دے رہی جب کہ شیعہ شہادتین کاا قرار کرتے ہیں قبلہ کی طرف منہ کرکے نماز پڑھتے ہیں تمام احکام خد اکو بجا لاتے ہیں اور اپنے مذہب کو اہل بیت علیہم السلام سے لیا ہے ۔

۴۔ سعودی مفتی اعظم کا نظریہ :

طائف میں سعودی عرب کے مفتی اعظم جنا ب شیخ عبد العزیز بن عبد اللہ آل الشیخ کے ساتھ ہونے والی ملاقات میں اس نے توسل اور وسیلہ کے حرام ہونے کے بارے میں جو دلیل بیان کی وہ یہ تھی کہ وفات کے بعد پیغمبر کا رابطہ اس عالم سے منقطع ہو چکا ہے اور وہ کسی چیز پر قادر نہیں یہاں تک کہ وہ کسی کے حق میں دعا بھی

نہیں کر سکتے ۔ بنا بر ایں عاجز سے توسل کرنا اور اسے وسیلہ بنا نا عقلی طور پر باطل اور موجب شرک ہوگا ۔(۲)

____________________

(۱) سورۂ توبہ: ۳۰.

(۲)۲۴ جمادی الثانی ۱۴۲۴ ہجری بمطابق ۲۰۰۳ ء کوطے شدہ پروگرام کے مطابق حجة الاسلام والمسلمین جناب نواب صاحب ( مکہ مکرمہ میں رہبر معظم کے نمائندے ) کے ہمراہ طائف کا سفر کیا جہاں مفتی اعظم سعودی عرب جناب شیخ عبد العزیز عبد اللہ آل الشیخ سے ملاقات کی اور تقریبا ایک گھنٹہ نکاح متعہ ، سجدہ اور توسل و وسیلہ کے موضوع پر بحث کی ۔ یہ ساری بحث ریکارڈ شدہ ( valiasr - aj. com )پر موجود ہے ۔

۲۳۲

توسل کے بارے میں وہابیوں کے نظریات کی رد

الف:انبیاء سے توسل قرآن میں ثابت ہے

۱۔ رسول اکرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم سے توسل پر حکم قرآن :

انبیاء علیہم السلام سے ان کی زندگی میں شفاعت طلب کرنا ایک ایسا مسئلہ ہے جس کا شیعہ عقائد سے کسی قسم کاکوئی تضاد نہیں پایاجاتا ۔ جیساکہ خداوند متعال کا فرمان ہے :

( وَلَوْأ َنَّهُمْ إِذْ ظَلَمُوا أَنفُسَهُمْ جَائُوکَ فَاسْتَغْفَرُوا ﷲ وَاسْتَغْفَرَ لَهُمْ الرَّسُولُ لَوَجَدُوا ﷲ تَوَّابًا رَحِیمًا ) (۱)

ترجمہ : اور کاش جب ان لوگوں نے اپنے نفس پر ظلم کیا تھا آپ کے پاس آتے اور خود بھی اپنے گناہوں کے لئے استغفار کرتے اور رسولصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم بھی ان کے حق

____________________

(۱) سورۂ نساء : ۶۴.

۲۳۳

میں استغفار کرتا تو یہ خدا کو بڑا ہی توبہ قبول کرنے والا اور مہربان پاتے ۔

۲۔ پیغمبرصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم سے ان کی زندگی اور اس کے بعد توسل کا ثابت ہونا :

اردن کے اہل سنت عالم دین محمود سعید ممدوح توسل کے جوازکے بارے میں علمائے اہل سنت کے اقوال نقل کرنے کے بعد لکھتے ہیں :

اس آیت شریفہ( إِذْ ظَلَمُوا أَنفُسَهُمْ... )

میں گناہگاروں کو یہ حکم دیا گیا ہے کہ وہ اپنی بخشش کے لئے رسول خدا (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم )کو واسطہ اور شفیع قرار دیں ۔ یہ حکم پیغمبر (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ) کی حیات اور اس کے بعد دونوں حالتوں کو شامل ہے اور اگر کوئی اسے فقط آنحضرتصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی حیات تک محدود کرنا چاہے تو وہ غلطی کا شکار ہوا اور راستہ سے اتر گیا اس لئے کہ جب بھی کوئی فعل حرف شرط کے بعد آتا ہے تو وہ عموم کا فائدہ دیتا ہے اور کسی عبارت کے مفہوم کے عام اور کلی ہونے کی سب سے واضح ترین صورت یہی ہے جیساکہ کتاب ( ارشاد الفحول ) کے صفحہ نمبر ۲۲ پر اس مطلب کی طرف اشارہ کیا گیا ہے ۔

استاد محترم علامہ محقق سید عبد اللہ صدیق غماری لکھتے ہیں : یہ آیت شریفہ عموم رکھتی ہے اور حیات وممات دونوں کو شامل ہوگی اور ان دونوں حالتوں میں سے کسی ایک کے ساتھ معین کرنا دلیل کا محتاج ہے جوموجود نہیں ہے ۔

۲۳۴

قرآنی آیات کی شرح اور اس مقدس کتاب کی تفسیر کرنے والے حضرات نے بھی اس آیت شریفہ سے عموم ہی سمجھا ہے اس لئے کہ تمام مفسرین نے اس آیت کے ذیل میں عتبیٰ سے ایک اعرابی شخص کے قبر پیغمبرصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے پاس آنے کی داستان نقل کی ہے ۔

ابن کثیر دمشقی نے اپنی تفسیر میں لکھا ہے : بعض بزرگان مانند شیخ ابو نصر صباغ نے اس مشہور داستان کو عتبی سے اپنی کتاب میں نقل کیا ہے کہ وہ کہتا ہے : میں قبر پیغمبر (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم )کے پاس بیٹھا تھا کہ ایک اعرابی داخل ہوا اور کہا: ''السلام علیک یا رسول اللہ... ''.( ۱ )

۳۔ مالک کا توسل کے جواز پر قرآن سے استدلال

ایک مرتبہ جب عباسی خلیفہ منصور دوانقی مسجد پیغمبر (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) میں زیارت میں مشغول تھا اور بلند آواز سے سلام اور دعا پڑھ رہا تھا تو اہل سنت کے امام مالک سے پوچھا :

''استقبل القبلة وادعوا ام استقبل رسول الله (صلی الله علیه وسلم ) و ادعو'' .

کیا زیارت کے بعد قبلہ کا رخ کرکے خد اکو پکاروں یا رسول خدا (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم )کی طرف منہ کر کے دعا کروں ؟

امام مالک نے کہا :

____________________

(۱)رفع المنارةفی تخریج احادیث التوسل و الزیارة : ۵۷.

۲۳۵

''ولم تصرف وجهک عنه وهو وسیلتک ووسیلة ابیک آدم الی الله تعالیٰ ؟ بل استقبل واستشفع به فیشفعه الله فیک ''

پیغمبرصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم سے اپنا چہرہ کیوں موڑنا چاہتے ہو جب کہ وہ تو آپ اور آپ کے باپ حضرت آدم علیہ السلام کا بھی وسیلہ ہیں بلکہ قبر آنحضرت کی طرف رخ کر کے کھڑے ہو اور ان سے شفاعت طلب کروخدا وند متعال ان کی شفاعت کو قبول کرتا ہے اس لئے کہ اس نے قرآن مجید میں فرمایا ہے :

( وَلَوْأ َنَّهُمْ إِذْ ظَلَمُوا أَنفُسَهُمْ جَائُوکَ فَاسْتَغْفَرُوا ﷲ وَاسْتَغْفَرَ لَهُمْ الرَّسُولُ لَوَجَدُوا ﷲ تَوَّابًا رَحِیمًا ) ( ۱ )

ترجمہ : اور کاش جب ان لوگوں نے اپنے نفس پر ظلم کیا تھا آپ کے پاس آتے اور خود بھی اپنے گناہوں کے لئے استغفار کرتے اور رسولصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم بھی ان کے حق میں استغفار کرتا تو یہ خدا کو بڑا ہی توبہ قبول کرنے والا اور مہربان پاتے ۔( ۲ )

۴۔ برادران یوسفصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کا حضرت یعقوب علیہ السلام سے توسل :

قرآن مجید نے جناب یوسف علیہ السلام کی داستان میں ان کے بھائیوں کے قول کو نقل کرتے ہوئے فرمایا:

( یَاَأبَانَا اسْتَغْفِرْ لَنَا ذُنُوبَنَا إِنَّا کُنَّا خَاطِئِینَ ) ( ۳ )

____________________

(۱) سورۂ نساء : ۶۴. (۲) الشفاء بتعریف حقوق المصطفیٰ ۱: ۲۸.

(۳) سورۂ یوسف: ۹۷.

۲۳۶

بابا جان اب آپ ہمارے گناہوں کے لئے استغفار کریں ۔

حضرت یعقوب علیہ السلام نے جواب میں فرمایا :( قَالَ سَوْفَ أَسْتَغْفِرُ لَکُمْ رَبِّی ) ( ۱ )

میں عنقریب تمہارے حق میں دعا کروں گا ۔

ب: بعثت سے پہلے آنحضرتصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم سے توسل

۱۔ آنحضرتصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی خلقت سے پہلے ان سے توسل :

رسول خدا(صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم )کی خلقت سے پہلے گذشتہ انبیاء علیہم السلام کا ان سے توسل اور انھیں وسیلہ قرار دینا ایک مسلم اور غیر قابل انکار مسئلہ ہے چونکہ کتب اہل سنت کے اندر اس موضوع پر اس قدر صحیح روایات موجو دہیں جو انبیاء وا ولیاء سے کسی بھی قسم کے توسل کے شرک ہونے کے وہابی نظریہ کی ہر طرح کی توجیہ و تاویل کا راستہ مسدود کر دیتی ہیں جن میں سے چند ایک روایات کو بطور نمونہ پیش کر رہے ہیں :

اہل سنت کے بزرگ عالم دین حاکم نیشاپوری اپنی کتاب( ۲ ) میں عمر بن خطاب سے نقل کرتے ہیں کہ رسول خدا (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ) نے فرمایا:

''لما اقترف آدم الخطیئة قال: یا رب اسئلک بحق محمد

____________________

(۱) سورۂ یوسف: ۹۸

(۲) المستدرک علی الصحیحین .۲:۶۷۲۔۴۲۲۷اور۲:۶۱۵تحقیق ڈاکٹر یوسف مرعشلی ، طبعہ دارالمعرفت بیروت

۲۳۷

لما غفرت لی فقال الله تعالیٰ : یا آدم وکیف عرفت محمد ا ً ولم اخلقه ؟ قال: یا رب لانک لما خلقتنی بیدک ، ونفخت فی من روحک ، رفعت راسی ، فرایت علی قوائم العرش مکتوبا لا اله الا الله ، محمد رسول الله ، فعرفت انک لم تضف الی اسمک الا احب الخلق الیک ؛'' .

جب حضرت آدم علیہ السلام مصیبت میں مبتلاہوئے تو خد اوند متعال کو رسول اکرم کا واسطہ دے کر بخشش طلب کی ۔

خداوند متعال نے فرمایا : اے آدم ! تو نے محمدصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کو کیسے پہچانا جب کہ ابھی تو ہم نے اسے خلق ہی نہیں کیا ؟

حضرت آدم نے عرض کیا: جب تونے مجھے خلق کیا اور مجھ میں اپنی روح پھونکی تو میں نے سر اٹھا کر دیکھا میری نظر عرش پر پڑی تو دیکھا کہ عرش کے ستونوں پر لکھا ہے :

''لا الہ الا اللہ محمد رسول اللہ '' میں سمجھ گیا کہ محمدصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم آپ کی محبوب ترین ہستی ہیں اسی لئے تو ان کا نام اپنے نام کے ساتھ لکھا ہے

''فقال الله: صدقت یا آدم انه لا حب الخلق ، اذا سئالتنی بحقه فقد غفرت لک ، ولولا محمد ما خلقتک''.

خدا وند متعال نے فرمایا: ہاں! تونے سچ کہا کہ وہ پوری مخلوق میں سب سے زیادہ مجھے محبوب ہے اور اب جب تو نے مجھے اس کا واسطہ دیا ہے تو میں نے تجھے معاف کر دیا اور اگر محمدصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کو خلق نہ کیا ہوتا تو تجھے بھی خلق نہ کرتا ۔

۲۳۸

حاکم نیشاپوری اس حدیث کو نقل کرنے کے بعد کہتا ہے :ھذا حدیث صحیح الاسناد''( ۱ ) اس حدیث کی سندصحیح ہے :

بیہقی نے اپنی کتاب دلائل النبوة میں اس حدیث کونقل کیا ہے۔( ۲ )

ذہبی اس کتاب کے بارے میں لکھتا ہے کہ یہ پوری کتاب ہدایت اور نور ہے اسی طرح طبرانی نے اپنی کتاب معجم صغیر( ۳ ) اور سبکی نے شفاء السقام( ۴ ) میں اس حدیث کے صحیح ہونے کی گواہی دی ہے ، سمہودی نے وفاء الوفاء( ۵ ) اور قسطلانی نے بھی المواہب نیة( ۶ ) میں اس حدیث کو نقل کیا ہے ۔

۲۔ آنحضر تصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی شیر خوارگی میں جناب عبد المطلب کا ان سے توسل :

اہل سنت کے معروف عالم شہرستانی اپنی کتاب ملل ونحل میں لکھتے ہیں :

جب سرزمین مکہ کو قحط نے اپنی لپیٹ میں لیا اور بادلوں نے برسنے سے انکار

____________________

(۱)مستدرک علی الصحیحین ۲: ۴۲۲۷۶۷۲و۲: ۶۱۵، تحقیق ڈاکٹر یوسف مرعشلی ، دار المعرفة بیروت

(۲) دلائل النبوة ۵: ۴۸۹.

(۳)معجم صغیر۲:۸۲.

(۴)شفاء السقام فی زیارة خیر الانام :۱۲۰

(۵) وفاء الوفاء ۴: ۳۷۱.

(۶) المواہب اللدنیة ۴: ۵۹۴.

۲۳۹

کر دیا تو اہل مکہ کے لئے زندگی کرنا ناگزیر ہوگیا ۔ جناب عبد المطلب نے رسول اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم )کو اپنے ہاتھوں پر لیا اور خانہ کعبہ کے سامنے کھڑے ہو کر کہا :

''یارب !بحق هذا الغلام ورماه ثانیا وثالثا وکان یقول : بحق هذا الغلام اسقنا غیثا ، مغیثا، دائما، هاطلا، فلم یلبث ساعة ان طبق السحاب وجه السماء ، وامطر حتی خافوا علی المسجد '' .( ۱ )

خدا یا اس بچے کا واسطہ اپنی رحمت کا نزول فرما: ابھی تھوری ہی دیر گذری تھی کہ مکہ پر بادل چھانے لگے اور اس قدر بارش ہوئی کہ لوگ ڈرگئے کہ کہیں خانہ کعبہ سیلاب میں ہی نہ بہہ جائے ۔

ابن حجرکہتا ہے :

جب عبد المطلب نے پیغمبر (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ) کا واسطہ دے کر بارش طلب کی تو سرداران مکہ عبد اللہ بن جد عان اور حرب بن امیہ حضرت عبد المطلب کے پاس آئے اور کہنے لگی :''ھنیائً لک ! ابا البطحاء ''( ۲ ) اے حجاز کے باپ تجھے یہ بچہ مبارک ہو ۔

اسی طرح ابن حجر یہ بھی لکھتا ہے :

____________________

(۱)الملل والنحل ۲: ۲۴۹.

(۲) الاصابة فی تمییز الصحابة۸:۱۳۶ ، ترجمہ رقیقة بنت ابی صیفی بن ہاشم

۲۴۰

ابو طالب کا یہ شعر اسی داستان سے متعلق ہے :

وابیض یستسقی الغمام بوجهه

نمال الیتامی عصمة للارامل( ۱ )

وہ سفید چہرے والے جس کے صدقے میں بادل یتیموں ، بیواؤں اور بے چاروں پرر حمت برساتے ہیں ۔

۳۔جناب ابو طالب کا آنحضرت کے بچپن میں ان سے توسل

ابن عساکر اور دیگر نے ابو عرفہ سے نقل کیا ہے کہ وہ کہتا ہے :

جب مکہ پر قحط سالی چھائی تو لوگ ابو طالب کے پاس جمع ہوئے اور ان سے کہنے لگے :اب پورے مکہ پر قحط طاری ہو چکا ہے لوگوں کے لئے زندہ رہنا مشکل ہو گیا ہے خدا سے رحمت طلب کریں !

ابو طالب نے ایک چھوٹے سے بچے کو ہمراہ لیا جو وہی پیغمبر گرامیصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم تھے آفتاب کی مانند چمکتے ہوئے بچوں کے حلقے میں باہر نکلے خانہ کعبہ کے پاس پہنچے اور رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کا واسطہ دے کر باران رحمت طلب کی ۔ یہاں تک کہ بادل اکٹھے ہوئے اور بارش برسنے لگی جس سے صحراؤں میں بھی پانی جمع ہو گیا ۔ اس وقت ابو طالب نے اپنا مشہور شعر پڑھا:

وابیض یستسقی الغمام بوجه

ثمال الیتامی عصمة للارامل( ۲ )

____________________

(۱) فتح الباری ۲: ۴۱۲ و دلائل النبوة ۲: ۱۲۶.

(۲) مختصر تاریخ دمشق ابن منظور .۱: ۱۶۲ خصائص الکبریٰ سیوطی۱: ۸۶ وسیرہ نبویہ زینی دحلان ۱: ۴۳.

۲۴۱

۴۔ یہودیوں کا بعثت سے پہلے آنحضرت سے توسل :

اہل سنت مفسرین و محدثین نے سورہ ٔ بقرہ کی آیت نمبر ۸۹( ۱ ) کے ذیل میں حضرت عبد اللہ بن عباس سے نقل کیا ہے :

خیبر کے یہودی قبیلہ غطفان کے ساتھ جنگ میں جب شکست کا احساس کرتے تو نبی مکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ) سے توسل کرتے اورکہا کرتے :''انا نسئلک بحق النبی الامی الذی وعدتنا ان تخرجه لنا فی آخر الزمان لا تنصرنا علیهم ''.( ۲ )

خدا یا! تجھے نبی امی کا واسطہ دیتے ہیں جس کی بعثت کی بشارت تونے ہمیں دی بشارت توبت ہمیں دی ہے کہ ہمیں فتح نصیب فرما۔

وہ پیغمبر (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ) کو وسیلہ قرار دیتے لیکن جب آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم )رسالت پر مبعوث ہوئے تو انھوں نے انکار کر دیا ۔

____________________

(۱) (وَلَمَّا جَائَهُمْ کِتَاب مِنْ عِنْدِ ﷲ مُصَدِّق لِمَا مَعَهُمْ وَکَانُوا مِنْ قَبْلُ یَسْتَفْتِحُونَ عَلَی الَّذِینَ کَفَرُوا فَلَمَّا جَائَهُمْ مَا عَرَفُوا کَفَرُوا بِهِ فَلَعْنَةُ ﷲ عَلَی الْکَافِرِینَ )

ترجمہ : اور جب ان کے پاس خدا کی طرف سے کتاب آئی ہے جو ان کی توریت وغیرہ کی تصدیق بھی کرنے والی ہے اور اس سے پہلے وہ دشمنوں کو مقابلہ میں اسی کے ذریعہ طلب فتح بھی کیا کرتے تھے لیکن اس کے آتے ہی منکر ہو گئے حالانکہ اسے پہچانتے بھی تھے تو اب کافروں پر خد اکی لعنت ہے ۔)

(۲) تفسیر طبری ۱:۳۲۴؛ تفسیر قرطبی ۲: ۲۷؛ العجاب بی ابیان الاسباب ابن حجر عسقلانی ۱:۲۸۲، تفسیر در المنثور ۱: ۸۸؛ البدایة والنہایة ۲: ۳۷۸؛ مستدرک الصحیحین ۲: ۲۶۳.

۲۴۲

ج: بعثت کے بعد رسول اکرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم سے توسل :

۱۔ آنحضرتصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے دستور پر ایک نابینا کا ان سے توسل کرنا :

ترمذی شریف نے عثمان بن حنیف سے نقل کیا ہے کہ ایک نابینا شخص پیغمبر (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم )کی خدمت میں حاضر ہوا اور عرض کرنے لگا :''ادع الله ان یعافینی'' خدا سے میرے لئے سلامتی طلب کریں ۔

آپ نے فرمایا:'' ان شئت دعوت ، وان شئت صبرت فهو خیر لک قال فادعه قال:فامره ان یتوضا فیحسن وضوء ه ویدعوه بهذا الدعاء ؛

اگر چاہو تو دعا کروں اور اگر صبر کرو تو تمہارے لئے بہتر ہے عرض کیا : آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم میرے لئے دعا فرمائیں ۔ آنحضرتصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے فرمایا : جاؤ اچھے طریقے سے وضوکر و اور پھر یہ دعا پڑھو :''اللهم انی اسالک واتوجه الیک بنبیک محمد نبی الرحمة یا محمد! انی توجهت بک الی ربی فی حاجتی هذه لتقضی لی ، اللهم فشفعه فی ''.( ۱ )

خدا یا تجھے تیرے نبی رحمت کا واسطہ دیتا ہوں میری حاجت پوری فرما۔ اے محمد ! تجھے وسیلہ بنا کر خدا کی بارگاہ میں پیش ہو ا ہوں تاکہ میری حاجت روا ہو خدا یا ! تو اسے میری شفاعت کرنے والا قرار دے ۔

____________________

(۱) صحیح ترمذی ۵: ۳۶۴۹۲۲۹ ، دار الفکر بیروت ، تحقیق عبد الرحمن محمد عثمان ، سنن ابن ماجہ ۱: ۴۴۸.

۲۴۳

صحاح ستہ میں سے دو کتابوں ترمذی اور ابن ماجہ کے مولفوں نے اس حدیث کو نقل کرنے کے بعد ا سکے صحیح ہونے کی شہادت دی ہے ۔

حاکم نیشاپوری نے بھی اس حدیث کو اپنی کتاب مستدرک میں متعدد مقامات پر نقل کیا اور اس کے صحیح ہونے کی گواہی دیتے ہوئے لکھا ہے :

یہ حدیث صحیح بخاری اور صحیح مسلم کی شرائط کے مطابق ہے ۔( ۱ )

اسی طرح اہل سنت کے دو بزرگ عالموں طبرانی اور ہیثمی نے اس حدیث مبارک کے صحیح ہونے کو واضح طور پر بیان کیا ہے ۔( ۲ )

ابن تیمیہ کہتا ہے :

''وفی النسائی والترمذی وغیرهما حدیث الاعمیٰ الذی صححه الترمذی '' .( ۳ )

سنن نسائی ، صحیح ترمذی اور دیگر کتب میں نابینا شخص والی حدیث موجود ہے

جسے ترمذی نے صحیح قرار دیا ہے ۔

۲۔ اہل مدینہ کا پیغمبرصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم سے توسل :

بخاری نے انس بن مالک سے نقل کیا ہے :

____________________

(۱) مستدرک الصحیحین ۱: ۳۱۳ ، ۵۱۹، ۵۲۶.

( ۲)کتاب الدعاء :۳۲۰؛ معجم الکبیر ۹:۳۱؛ امجمع الزوائد ۲: ۲۷۹.

(۳) اقتضاء الصراط المستقیم :۴۰۸.

۲۴۴

جب پیغمبر (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ) کے زمانہ میں مدینہ منورہ میں قحط پڑا تو ایک مرتبہ آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نما زجمعہ کا خطبہ دینے میں مشول تھے کہ ایک اعرابی اٹھا اورعرض کرنے لگا :

''یا رسول الله هلک المال وجاع العیال فادع الله لنا ''یا رسول اللہصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم ! مال تباہ ہو گیا ہے اور بیوی بچے بھو ک سے مررہے ہیں خداوند متعال سے ہمارے لئے دعا کریں ۔

''فرفع یدیه ومانری فی السماء قزعة فوالذی نفسی بیده ما وضعها حتی ثار السحاب امثال الجبال ثم لم ینزل عن منبره حتی رایت المطر یتحادر علی حیته صلی الله علیه وسلم فمطرنا یومنا ذلک من الغدو بعد الغد والذی یلیه حتی الجمعة الاخری'' ( ۱ )

پیغمبر (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ) نے اپنے مبارک ہاتھوں کو بلند کیا جب کہ بادلوں کے آثار تک نہ تھے اس ذات کی قسم جس کے قبضہ قدرت میں میر ی جان ہے ابھی آنحضرتصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے اپنے ہاتھ نیچے نہ کئے تھے کہ پہاڑ کی مانند بادل جمع ہوئے اور اس قدر بارش برسائی کہ منبر سے اتر نے سے پہلے آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی ریش مبارک سے پانی بہہ رہا تھا اور یہ بارش مسلسل ایک ہفتہ تک برستی رہی یہاں تک کہ آپ نے

____________________

(۱)صحیح بخاری ۱: ۲۲۴۔۹۳۳، کتاب الجمعة ، باب ۳۵، باب الاستسقاء فی الخطبة یوم الجمعة اور حدیث ۱۰۱۳ و ۱۰۱۴؛ صحیح مسلم ۳:۱۹۶۲۲۵، کتاب صلاة الاستسقاء ، باب ۲، باب الدعاء فی الاستسقاء

۲۴۵

ہے ابھی آنحضرتصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے اپنے ہاتھ نیچے نہ کئے تھے کہ پہاڑ کے مانند بادل جمع ہوئے اور اس قدر بارش برسائی کہ منبر سے اتر نے سے پہلے آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی ریش مبارک سے پانی بہہ رہا تھا اور یہ بارش مسلسل ایک ہفتہ تک برستی رہی یہاں تک کہ آپ نے دوبارہ دعا کی تب رکی ۔

۳۔عمربن خطاب کا رسول اکرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم سے توسل

صحیح بخاری میں انس سے نقل ہوا ہے :

جب کبھی قحط پڑتا تو عمر بن خطاب آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم )کے چچا حضرت عباس سے متوسل ہوتے اور کہتے :''اللهم اناکنا نتوسل الیک بنبینا فتسقینا وانا نتوسل الیک بعم نبینا فاسقنا قال فیسقون ''.(۱ )

خدایا! تیرے پیغمبر کے زمانہ میں ہم ان کو واسطہ قرا ردیتے تو تو باران رحمت نازل فرمایا کرتا اور اب ہم پیغمبرصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے چچا کو وسیلہ بنا رہے ہیں تو ہم پر اپنی رحمت کا نزول فرما۔اسی وقت بارش برسنا شروع ہو گئی۔

____________________

(۱) صحیح بخاری ۲:۱۰۱۰۱۶،کتاب الاستسقاء ، باب سواالناس الامامة استسقاء اذاقحطوا

۲۴۶

د: آنحضرتصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی رحلت کے بعد ان سے توسل

۱۔ ابوبکر کا آنحضرتصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم سے توسل :

جب مدینہ منورہ میں آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ) کی وفات کی خبر پھیلی اور ابو بکر اس سے مطلع ہوئے تو اپنی رہائش گاہ سنح سے نکلے اور پیغمبر (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم )کے گھر پہنچے ، مسجد میں داخل ہوئے اور کسی سے بات کئے بغیر سیدھے حضرت عائشہ کے پاس گیے ۔ دیکھا کہ پیغمبر (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم )کا بدن مبارک ایک چادر میں لپٹا ہوا ہے بدن مبارک کے پاس بیٹھے اور چہرۂ مبارک سے کپڑا ہٹا یا اور اپنے کو اس پر گرا کر بوسے لیتے ہوئے گریہ کرنا شروع کیا اور آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم )کو خطاب کرتے ہوئے کہا :

یانبی اللہ !خدا نے آپ کے مقدرمیں دوبارموت نہیں لکھی بلکہ ایک ہی بارلکھی تھی جو آگئی اورآپ اس دنیا سے گزرگئے۔

''با بی انت یا نبی الله، لا یجمع الله علیک موتتین ، اما الموتة التی کتبت علیک فقد متها'' .( ۱ )

مفتی مکہ مکرمہ زینی دحلان نے اس حدیث کو آگے بڑھاتے ہوئے لکھا ہے :

''قال ابو بکر: طبت حیا ومیتا، وانقطع بموتک مالم ینقطع للانبیاء قبلک ، فعظمت عن الصفه ، وجللت عن البکاء ، ولو ان موتک کان اختیاراً لجدنا لموتک بالنفوس ، اذکرنا یا محمد ! عند ربک ولنکن علی بالک'' .( ۲ )

____________________

(۱ )صحیح بخاری ۲:۷۰، کتاب الجنائز ، باب االدخول علی المیت بعد الموت ۵: ۱۴۳ ، کتاب المغازی ، باب مرضی النبیصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم

(۲) الدرر السنیة فی الرد علی الوہابیة:۳۴ ، طبع استنبول ، سیرۂ زینی دحلان ۳: ۳۹۱ ، طبع مصر

۲۴۷

ابو بکر نے کہا : یا رسول اللہصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم ! آپ کی زندگی و موت پاک و طاہر اور بابرکت تھی آپ کی موت سے وحی کا سلسلہ ہمیشہ کے لئے منقطع ہو گیا ہے ۔ آپ کا مقام و منزلت اس قدر عظیم ہے کہ ناقابل توصیف ہے اور ہمیں رونے کی اجازت نہیں دیتا اور اگر آپ کی موت ہمارے اختیار میں ہوتی تو ہم اپنی جانیں قربان کرکے آپ کو بچالیتے ۔یامحمدصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم ! اپنے رب کے پاس ہمیں یاد رکھنا اور ہمیں فراموش نہ کرنا ۔

۲۔حضرت علی علیہ السلام کا پیغمبرصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم سے توسل :

جب امیر المومنین علیہ السلام رسول خدا (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم )کے جسم اطہر کو غسل دے رہے تھے تو آنحضرتصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کو خطاب کرتے ہوئے عرض کیا :

بأبی انت وامی یا رسول الله ! لقد تقطع بموتک مالم ینقطع بموت غیرک من النبوة ، والانباء ، واخبار السماء ، الی ان قال: بابی انت وامی اذکرنا عند ربک واجعلنا من بالک ''.( ۱ )

یا رسول اللہصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم ! میرے ماں باپ آپ پر قربان ۔آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے انتقال سے نبوت الٰہی ،احکام اور آسمانی اخبار کا سلسلہ منقطع ہو گیا جوا پ کے علاوہ کسی کے مرنے سے منقطع نہیں ہوا تھا

میرے ماں باپ آپ پر قربان۔خدا کی بارگاہ میں ہمارا بھی ذکر کیجئے گا اور اپنے دل میں ہمارا بھی خیال رکھئے گا ۔

____________________

(۱)نہج البلاغہ خطبہ ۲۳۵.

۲۴۸

۳۔ بادیہ نشین عرب کا رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی قبر مبارک سے توسل :

تمام مذاہب اسلامی کے مولفین نے اعرابی کے قبر پیغمبر (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم )کی زیارت سے مشرف ہونے کی داستان کو اپنی کتب میں لکھا اور اسے عظمت و احترام سے یاد کیا ہے اور اسے زیارت کا عالی ترین نمونہ شمار کیا ہے ۔

یہ داستان ابن عساکر نے تاریخ دمشق ، ابن جوزی نے میثر الغرام الساکن میں اور دوسرے مولفین نے محمد بن حرب ہلالی سے نقل کی ہے کہ وہ کہتا ہے :

میں مدینہ منورہ گیا تو آنحضرت کی قبر مبارک پہ پہنچا زیارت کے بعد قبر آنحضرتصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے سامنے بیٹھ گیا ، اتنے میں ایک بادیہ نشین عرب وارد ہوا اور قبر رسول کی زیارت کے بعد آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کو خطاب کرکے کہنے لگا :

اے خدا کے بہترین پیغمبر ! خدا وند متعال نے وہ کتاب آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم پر نازل فرمائی جس میں حق اور سچ کے سوا کچھ اور نہیں اور اس میں فرمایا :

( وَلَوْأ َنَّهُمْ إِذْ ظَلَمُوا أَنفُسَهُمْ جَائُوکَ فَاسْتَغْفَرُوا ﷲ وَاسْتَغْفَرَ لَهُمْ الرَّسُولُ لَوَجَدُوا ﷲ تَوَّابًا رَحِیمًا ) ( ۱ )

ترجمہ : اور کاش جب ان لوگوں نے اپنے نفس پر ظلم کیا تھا آپ کے پاس آتے اور خود بھی اپنے گناہوں کے لئے استغفار کرتے اور رسولصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم بھی ان کے حق

____________________

(۱) سورۂ نساء : ۶۴.

۲۴۹

میں استغفار کرتا تو یہ خدا کو بڑا ہی توبہ قبول کرنے والا اور مہربان پاتے ۔

اورمیں اب آیا ہوں کہ تجھے واسطہ قرار دے کر خد اوند متعال سے اپنے گناہوں کی بخشش طلب کروں اور پھر گریہ کرتے ہوئے یہ شعر پڑھا :

یا خیر من دفنت بالقاع اعظمه

فطاب من طیبهن القاع والاکم

نفسی الفداء لقبر انت ساکنه

فیه العفاف وفیه الجود والکرم

اے وہ بہترین ذات جو زمین کی تہہ میں دفن ہو چکی ہے زمین اور اس کے اطراف کے پہاڑ تیرے وسیلہ سے پاک وپاکیزہ ہوگئے ہے ۔

میری جان قربان اس قبر پر جس کے ساکن آپ ہیں وہ قبر جس میں عفت و پاکیزگی اور جود وکرم مدفون ہیں ۔

اس کے بعد خدا سے مغفرت طلب کی اور مسجد سے باہر چلا گیا ۔

محمد بن حرب ہلالی کہتا ہے :

میں نے خواب میں پیغمبر (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ) کو دیکھا آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے مجھ سے فرمایا: اس اعرابی شخص کو تلاش کرکے یہ بشارت دے کہ خداوند متعال نے میری شفاعت کی وجہ سے اسے بخش دیا ہے ۔

میں نیند سے اٹھا اور اس کے پیچھے گیا لیکن اسے ڈھونڈنہ سکا ۔( ۱ )

____________________

(۱) دفع الشبة عن الرسول ، حصنی : ۱۴۳ ؛ الاحکام السلطانیة ماوردی : ۱۰۹ ؛ شفاء السقام فی زیارة خیر الانام :۱۵۱؛ الدرر السنیة ۱: ۲۱.

۲۵۰

۴۔حضرت ابو ایوب انصاری کا قبر پیغمبرصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم پر آنا:

حاکم نیشاپوری اور احمد بن حنبل نے داؤد بن ابو صالح سے حضرت ابو ایوب انصاری کے قبر رسول کی زیارت کے لئے آنے اور مروان اور ان کے درمیان ہونے والی گفتگو کی داستان کو یوں بیان کیا ہے :

اموی خلیفہ مروان بن حکم( ۱ ) متوفیٰ ۶۳ ہجری نے دیکھا کہ ایک شخص قبر رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ) پر بیٹھا اپنا چہرہ اس پر رکھے ہوئے ہے مروان نے اس کو گردن سے پکڑ اور کہا : تجھے معلوم ہے کہ کیاکر رہا ہے؟ جب غور کیا تو دیکھا بو ایوب انصاری ہیں ۔

انھوںنے جواب دیا :''نعم جئت رسول الله ]صلی الله علیه وسلم ولم آت الحجر ، سمعت رسول الله ]صلی الله علیه وسلم [ یقول: لا تبکوا علی الدین اذا ولیه اهله ، ولکن ابکوا علیه اذا ولیه غیراهله'' ( ۲ )

ہاں ! میں رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے پاس آیا ہوں کسی پتھر کے پاس نہیں آیا ۔ میں نے

____________________

(۱) مروان بن حکم بن ابو العاص بن امیہ ہجرت کے دوسال بعدپیدا ہوا عثمان کی حکومت میں دفتری امور اس کے حوالے تھے معاویہ کے دور حکومت میں مدینہ کا حاکم بنا اور معاویہ بن یزید کی وفات کے بعد خلیفہ بنا نوماہ حکومت کی اور ۶۱ یا ۶۳ ہجری میں مر ا۔ تہذیب الکمال مزی ۲۷: ۳۸۹.

(۲) مستدر ک علی الصحیحین ۴: ۵۱۵؛ مسند احمد ۵: ۴۲۲؛ تاریخ مدینہ دمشق ۵۷: ۲۴۹؛ مجمع الزوائد ۵: ۲۴۵.

۲۵۱

آنحضرتصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم سے سنا ہے کہ آپ نے فرمایا: جب اہل لوگ دین کی سر پرستی کریں تو اس وقت پر مت رونا بلکہ اس وقت رونا جب نااہل اس کی سر پرستی کرنے لگیں ۔

۵۔ حضر ت بلال بن حارث کا قبر پیغمبر سے توسل :

بیہقی اور دیگر نے نقل کیا ہے :

''اصاب الناس قحط فی زمن عمر رضی الله عنه ، فجاء رجل الی قبر النبی صلی الله علیه وسلم ، فقال: یا رسول الله ! هلک الناس ، استسق لامتک ، فاتاه رسول صلی الله الیه وآله وسلم الله علیه وسلم فی المنام ، فقال: ائت عمر فاقراه منی السلام ، واخبره انهم مسقون ، قل له : علیک الکیس .قال: فاتی الرجل فاخبر ه، فکبی عمر رضی الل هعن ه، وقال: یا رب ما آلوا الا ما عجزت عن ه'' ( ۱ )

عمر کے زمانہ میں لوگ قحط سالی میں مبتلا ہوئے تو ایک شخص قبر پیغمبر (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم )پر آیا ور عرض کرنے لگا : یا رسول اللہ ! لوگ مر رہے ہیں اپنی امت کے لئے طلب باران فرمائیں ۔ اس شخص نے خواب میں رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کو دیکھا

____________________

(۱) دلائل النبوة بیہقی ۷: ۴۷ باب ماجاء فی رویة النبیصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم فی المنام، المصنف ابن ابی شبیہ ۷: ۴۸۲ تاریخ دمشق ۴۴: ۳۴۶ و ۵۶ : ۴۸۹ ، الاستیعاب ۳: ۱۱۴۹ ، تاریخ اسلام ۳: ۲۷۳ ،ا لبدایة والنہایة ۷: ۱۰۵، وحوادث سال ۱۸ ، الاصابہ۶: ۲۱۶ ؛ فتح الباری ۲: ۴۱۲ ، باب سوال الناس الامام الاستسقاء ، اذا قحطوا کنز العمال۸: ۴۳۱.

۲۵۲

آپ نے اس سے فرمایا : عمر کے پاس جاؤ اسے جا کرمیرا سلام پہنچاؤ اور کہو کہ بہت جلد سیراب ہوگے اور اس سے یہ بھی کہہ دو کہ اپنی سخاوت کو بڑھا دو ۔

وہ شخص عمر کے پاس آیا اور سارا ماجرا بیان کیا : عمر نے سن کر رونا شروع کیا اور کہا: خدایا! میں نے کوشش کی لیکن عاجز رہا ۔

ابن حجرلکھا ہے :'' وروی ابن ابی شیبة باسناد صحیح'' ابن ابی شبیہ نے اس روایت کو صحیح سند کے ساتھ نقل کیا ہے ...اور جس شخص نے یہ خواب دیکھا تھا وہ آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ) کے صحابی بلال بن حارث تھے ۔( ۱ )

نیز ابن کثیر نے لکھا ہے : ''وھذا اسناد صحیح ''اس روایت کی سند صحیح ہے ۔( ۲ )

مفتی اعظم مکہ مکرمہ زینی دحلان لکھتے ہیں :

بیہقی اور ابن ابو شبیہ نے سند صحیح کے ساتھ نقل کیا ہے :

عمر کی خلافت کے زمانہ میں لوگ قحط سا لی میں مبتلا ہو ئے تو ایک شخص بنام بلال بن حارث صحابی پیغمبرصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم قبر آنحضرتصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے پاس گئے اور ان سے خطاب کر کے عرض کیا :

یا رسول اللہ ! آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی امت ہلاک ہو رہی ہے ان کے لئے باران رحمت کی

____________________

(۱)فتح الباری ۲: ۴۱۲، باب سوال الناس الامام الاستسقاء اذاقحطوا

(۲)البدایة والنہایة ۷: ۱۰۵ ، وقائع سال ۱۸

۲۵۳

دعا فرمائیں ۔ رسول خدا (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم )کو خواب میں دیکھا کہ فرمایا : لوگوں سے کہہ دو باران رحمت کا نزول ہوگا ۔

اس روایت میں خواب سے آنحضرت کی دنیوی زندگی کے بعد ان سے توسل کے جائز ہونے پر استدلال نہیں کیا جا سکتا اس لئے کہ حکم شرعی کے اثبات کے لئے خواب کافی نہیں چونکہ ممکن ہے خواب دیکھنے والا اس میں اشتباہ کر بیٹھے اور اسے اچھے طریقے سے یاد نہ رکھ سکے ۔

بلکہ اس روایت میں ایک صحابی کے عمل سے استدلال کیا گیا ہے کہ ان کا قبر پیغمبرصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم پر آنا اور طلب رحمت کی درخواست کرنا یہ خود آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے ان کی رحلت کے بعد توسل کے جائز ہونے کی دلیل ہے اور شرعی معیار کو بیان کر رہا ہے کہ خدا وند متعال سے تقرب کا سب سے بہترین طریقہ آنحضرتصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم سے توسل ہے جیسا کہ حضرت آدم علیہ السلام نے بھی ان کی خلقت سے پہلے انھیں وسیلہ قرار دیا ۔( ۱ )

۶۔ عثمان بن حنیف کی راہنمائی سے ایک پریشان شخص کا آنحضرتصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم سے توسل کرنا :

طبرانی اور بیہقی نے نقل کیا ہے کہ ایک شخص اپنی مشکل کو حل کرنے کی خاطر تیسرے خلیفہ عثمان کے پاس آتا جاتا رہتا لیکن اس نے اس پر توجہ نہ کی تو وہ عثمان

____________________

(۱) الدرر السنیة ۱: ۹.

۲۵۴

بن حنیف کے پاس گیا اور اس سے شکایت کی ۔ عثمان بن حنیف نے اس سے کہا :

وضو کر کے مسجد میں جاؤ اور نماز پڑھنے کے بعد رسول اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ) سے توسل کرو اور کہو :''اللھم انی اسالک واتوجہ الیک بنیبک محمد نبی الرحمة ، یا محمد انی اتوجہ بک الی ربی فیقضی لی حاجتی ، وتذکر حاجتک''.

خدایا ! میں تجھے تیرے نبی رحمت محمدصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کا واسطہ دیتا ہوں اور اے محمد ! میں آپ کے وسیلے سے اپنی حاجت خداسے طلب کر ر ہاہوں اور پھر اپنی حاجت بیان کر ۔

اس شخص نے عثمان بن حنیف کی نصیحت پر عمل کیااور پھر عثمان بن عفان خلیفہ مسلمین کے پاس گیا جیسے ہی اس کے خادم کی نظر پڑی تو ا سے انتہائی احترام سے عثمان کے پاس لایا ۔ خلیفہ نے اسے اپنے پاس بتھایا اور اس کی مشکل بر طرف کردی

وہ خلیفہ کے پا س سے سیدھا عثما ن بن حنیف کے پاس پہنچا اسے ساری داستان سنائی اور اس کا شکریہ اداکیا ۔

عثمان بن حنیف نے کہا:

خدا کی قسم ! یہ تو سل میں نے اپنے پاس سے بیان نہیں کیا بلکہ ایک مرتبہ آنحضرتصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے پاس موجود تھا تو ایک نابنیا شخص آیا اور دعا کا تقاضا کیا تو آنحضرتصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے اسے یہی توسل تعلیم فرمایا جس کی برکت سے اس نابینا کی بینائی پلٹ آئی ۔( ۱ )

____________________

(۱)معجم صغیر طبرانی ۱: ۱۸۳، طبع المکتبة السلیفة.

۲۵۵

مبارکپوری متوفیٰ ۱۳۵۳ ہجری اپنی کتاب تحفة الاحوذی جو کہ صحیح ترمذی کی شرح ہے اس میں لکھتا ہے :

شیخ عبد الغنی دہلوی متوفیٰ ۱۲۹۶ ہجری نے ''انجاح الحاجة علی سنن ابن ماجہ ''میں لکھا ہے :

ہمارے استاد شیخ محمد عابد سندھی متوفیٰ ۱۲۵۷ ہجری نے اپنا رسالہ ''طوالع الانوار علی الدر المختار ''میں کہا ہے :

نابینا شخص والی حدیث آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ) سے ان کی حیات میں توسل کے جائز ہونے کی دلیل ہے اور آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ) سے ان کی رحلت کے بعد توسل کے جائز ہونے کی دلیل اس شخص کی داستان ہے جو عثمان بن عفان کے پاس اپنی حاجت کے لئے رفت آمد کرتا اور آنحضرتصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی برکت سے اس کی حاجت پوری ہوگئی ۔( ۱ )

شوکانی متوفی ۱۲۵۵ ہجری لکھتا ہے :

یہ حدیث رسول اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ) سے توسل کے جائز ہونے پر دلالت کررہی ہے لیکن بشرطیکہ معتقد ہوں کہ تمام کام خدا وند متعال کے وسیلہ سے انجام پاتے ہیں اور وہ جسے چاہتا ہے عطا کرتا ہے اور جسے نہیں چاہتا مانع ایجاد کردیتا ہے ۔ جس چیز کا وہ ارادہ کرتا ہے وہی محقق ہو تی ہے اور جس چیز کا ارادہ نہ کرے وہ

کبھی وقوع پذیر نہ ہوگی ۔(۲)

____________________

(۱)تحفة الاحوذی ۱۰: ۳۴. (۲)تحفة الذاکرین : ۱۶۲.

۲۵۶

۷۔حضرت بلال مؤزن پیغمبرصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کا آپ کی قبر سے توسل :

حضرت بلال مؤذن رسول خدا (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ) عمر کے دور خلافت میں شام چلے گئے اور وہاں پر سکونت پذیر ہوگئے ایک رات خواب میں آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ) کو دیکھا کہ وہ فرمارہے ہیں :

''ماهذه الجفوةیا بلال ؟!اما آن لک ان تزورنی یا بلال ؟ فانتبه حزینا وجلا خائفا ، فرکب راحلته وقصدالمدینة فاتی قبر النبی صلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم ، فجعل یبکی عنده ویمرغ وجهه علیه،فاقبل الحسن والحسین ]علیهماالسلام [فجعل یضمهماویقبلهما'' .(۱)

اے بلال ! یہ کیسی جفا تو نے ہمارے حق میں روا رکھی ہے ؟ کیا وہ وقت نہیں آیا کہ تو میری زیارت کرے ؟

حضرت بلال خوف اور گھبراہٹ کی حالت میں نیند سے اٹھے جلدی سے اپنی سواری آمادہ کی اور مدینہ منورہ قبر رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ) کی طرف حرکت کی ۔

جب مدینہ منورہ میں قبر رسول کے پاس پہنچے تو گریہ کرتے ہوئے اپنی

____________________

(۱) اسد الغابة فی معرفة الصحابة ۱: ۲۸.

۲۵۷

صورت کو قبر پر ملنا شروع کیا اتنے میں حسن وحسین (علیہما السلام)کو دیکھا کہ وہ اپنے نانا کی قبر مبارک کی طرف آرہے ہیں انھیں آغوش میں لیا اور بوسے دینے لگے ۔

۸۔ حنبلیوں کے بزرگ کا امام موسیٰ کاظم علیہ السلام کی قبر سے متوسل ہونا :

اہل سنت کے بہت بڑے عالم دین خطیب بغدادی لکھتے ہیں :

ابو علی خلال متوفیٰ ۲۴۲ ہجری کہتا ہے :( ۱ )

''ماهمتنی امر فقصدت قبر موسیٰ بن جعفر فتوسلت به الا سهل الله تعالیٰ لی ما احب '' .( ۲ )

مجھے جب بھی کوئی مشکل پیش آتی تو حضرت موسیٰ بن جعفر علیہ السلام کی قبر پر جاکر متوسل ہوتااور مشکل برطرف ہو جاتی۔

۹۔ قبر امام علی رضا علیہ السلام ، بزرگان اہل سنت کی زیارت گاہ :

محمد بن مومل کہتا ہے :

اہل حدیث کے امام ابن حزیمہ اور بہت سے اساتیذ و بزرگان کے ہمراہ طوس

____________________

(۱)مزی نے یعقوب بن شیبہ کا قول نقل کیا ہے کہ''کان ثقة، ثبتا ، متقنا'' ابو علی خلال ثقہ ، محکم اور قابل اعتماد شخص تھا اسی طرح اس نے اس کی وثاقت کو نسائی اور خطیب بغدادی سے بھی نقل کیا ہے تہذیب الکمال ۶: ۲۶۳.

(۲) تاریخ بغداد ۱: ۱۳۳ ، طبع الکتب العلمیة ، بیروت ، تحقیق مصطفی عطا

۲۵۸

میں علی بن موسیٰ رضا علیہ السلام کی قبر پہ گئے'' فرایت من تعظیمہ یعنی ابن خزیمة لتلک البقعة ، تواضعہ لھا و تضرعہ عندھا ماتحیرنا '' میں نے دیکھا کہ ابن خزیمہ نے اس روضہ کی انتہائی تعظیم کی ، اس کی اس تواضع اور عاجزی کو دیکھ کر ہم حیرت زدہ رہ گئے ۔( ۱ )

طوس میں علی بن موسیٰ رضا (علیہما السلام )کی قبر مبارک ہارون الرشید کی قبر کے پاس ہے وہ ایک مشہور زیارت گاہ ہے جس کی میں نے کئی بار زیارت کی ہے ۔

''وما حلت بی شدة فی وقت مقامی بطوس فزرت قبر علی بن موسیٰ الرضا صلوات الله علی جده وعلیه ، ودعوت الله ازا لتها عنی الا استجیب لی وزالت عنی تلک الشدة، وهذا شیء جربته مرارا فوجدته کذلک '' ( ۲ )

میں جتنی مدت طوس میں رہا جب بھی کوئی مشکل پیش آتی تو علی بن موسیٰ رضا ( علیہماالسلام ) کی قبر کی زیارت کرتا اور خداوند متعال سے مشکل کے دور ہونے کی دعا کرتا ۔ بہت جلد وہ مشکل حل ہو جاتی میں نے اسے کئی بار تجربہ کیا ۔

خداوند متعال ہمیں محمد اور ان کے اہل بیت علیہم السلام کی محبت پر موت دے ۔

۱۰۔امام شافعی کا ابو حنیفہ کی قبر سے توسل :

حنفیوں کے امام ابو حنیفہ کی قبر بغداد کے علاقہ اعظمیہ میں عام و خاص کے

____________________

(۱)تہذیب التہذیب ۷: ۳۳۹. (۲)الثقات ۸: ۴۵۷.

۲۵۹

لئے زیارت گاہ بن ہوئی ہے خطیب بغدادی اور اہل سنت کے بزرگ علما علی بن میمون سے نقل کرتے ہیں کہ ہم نے امام شافعی سے سنا :

''انی لاتبرک بابی حنیفة واجیء الی قبره فی کل یوم یعنی زائرا ، فاذا عرضت لی حاجة صلیت رکعتین وجئت الی قبره وسالت الله تعالیٰ الحاجة عنده فما تبعد عنی حتی تقضی '' .( ۱ )

میں ہر روز ابو حنیفہ کی قبر پہ جاتا اور اس سے تبرک حاصل کرتا ہوں جب بھی کوئی مشکل پیش آتی ہے تو دو رکعت نماز پڑھ کر اس کی قبر پر کھڑے ہو کر دعا کرتا ہوں بلا فاصلہ حاجت پوری ہو جاتی ہے ۔

والسلام علیکم ورحمة اللہ برکاتہ

۱۱ذی الحجة ۲۰۰۸ء دن گیارہ بج کر ۲۵ منٹ پر کتاب مکمل ہوئی

____________________

(۱)تاریخ بغداد ۱: ۱۳۵ ؛ وخوارزمی ،در مناقب ابی حنیفہ ۲: ۱۹۹ و منتظم ابن جوزی۱۶: ۱۰۰.

۲۶۰

261

262

263

264

265

266

267

268

269

270

271

272

273

274