وہابیت عقل و شریعت کی نگاہ میں

وہابیت عقل و شریعت کی نگاہ میں14%

وہابیت عقل و شریعت کی نگاہ میں مؤلف:
زمرہ جات: ادیان اور مذاھب
صفحے: 274

وہابیت عقل و شریعت کی نگاہ میں
  • ابتداء
  • پچھلا
  • 274 /
  • اگلا
  • آخر
  •  
  • ڈاؤنلوڈ HTML
  • ڈاؤنلوڈ Word
  • ڈاؤنلوڈ PDF
  • مشاہدے: 163778 / ڈاؤنلوڈ: 5538
سائز سائز سائز
وہابیت عقل و شریعت کی نگاہ میں

وہابیت عقل و شریعت کی نگاہ میں

مؤلف:
اردو

1

2

3

4

5

6

7

8

9

10

11

12

13

14

15

16

17

18

19

20

سعودی مفتیوں کاتفرقہ بازی کی راہ ہموار کرنا:

آج جبکہ اسلام کے بدترین دشمن یہودی، عیسائی، امریکہ اور صہیونزم اسلام اور مسلمانوں کی نابودی کی خاطر کمر بستہ ہو چکے ہیں اور ڈاکٹر مائیکل برانٹ امریکن سی آئی اے کی مفکر کے مطابق وائٹ ہاؤس کی مہم ترین سازش مسلمانوں کے درمیان تفرقہ ایجاد کرناہے اس کے باوجود ہم اس بات پر شاہد ہیں کہ سعودی مفتی عملی طور پر غیروں کی خدمت کر رہے اور وہم و خیال پر مشتمل غلط فتوے صادر کر کے امت اسلام کے درمیان وحدت و اتحاد کی راہیں مسدود کر کے مسلمانوں کے درمیان اختلاف کی راہیں زیادہ سے زیادہ ہموار کر رہے ہیں ۔

بن باز اور تقریب مسلمین کا ناممکن ہونا:

سعودی عرب کے مفتی اعظم شیخ عبد العزیز بن باز سے فتویٰ طلب کیا گیا:

'' شیعوں کے ماضی کے بارے میں جنابعالی کی آگاہی کو مد نظر رکھتے ہوئے شیعہ اور اہل سنت کے درمیان تقریب کے بارے میں آپ کی کیا رائے ہے؟''(۱)

تواس نے جواب میں کہا:

التقریب بین الرافضةوبین اهل السنة غیرممکن،لان العقیدةمختلفة...فلایمکن الجمع بینهما، کماانه لایمکن الجمع بین الیهود والنصاری والوثنیین واهل السنة،فکذلک لایمکن التقریب بین الرافضةوبین اهل السنة ، لاختلاف العقیدة التی

____________________

(۱)من خلال معرفة سماحتکم بتاریخ الرافضة، ما هو موقفکم من مبدأ التقریب بین اهل السنة و بینهم ۔

۲۱

اوضحناها ۔( ۱ )

شیعہ اور اہل سنت کے درمیان تقریب و ہم بستگی ممکن نہیں ہے اس لئے کہ دونوں کے عقائد ایک دوسرے سے سازگار نہیں ہیں اور جس طرح یہود و نصاریٰ اور بت پرستوں کو اہل سنت کے ساتھ ایک جگہ جمع نہیں کیا جا سکتا اسی طرح شیعہ اور اہل سنت کے درمیان ان عقائد کے اختلاف کی وجہ سے جن کی ہم نے وضاحت کر دی ہے ان کو بھی ایک جگہ جمع نہیں کیا جا سکتا۔

اسی طرح کتاب'' مسئلة التقریب''( ۲ ) جو مکہ مکرمہ اور مدینہ منورہ کے حکام کی حمایت سے چھپی ہے اس میں بھی شیعوں کے ساتھ تقریب کی پہلی شرط ان کا مسلمان ثابت ہونا بیان کی گئی ہے۔

امریکا ، یہود اور شیعہ اہل سنت کے مشترک دشمن

عبد العزیز قاری وعالم بزرگ مدینہ منورہ اپنے ایک انٹریو میں کہتا ہے :

نحن الآن فی زمن عصیب طوقنا العدو المشترک وهو ذوثلاث شعب : الیهود ، وامریکا، والروافض، وهذا العدونبت من احداث العراق الجسام وما وقع فی لبنان انه یستهدف اهل السنة جمیعا ً علی اختلاف مذاهبهم فهل یصح ان نتشاجر نحن

____________________

(۱) مجموعہ فتاویٰ و مقالات بن باز ۵:۱۵۶۔

(۲)مسئلة التقریب بین اہل السنّة و الشیعة ۲:۲۵۳ اشاعت پنجم۔

۲۲

اهل الدائرة الواحدة المستهدفة دائرة اهل السنة والجماعة ، الا یجب ان ننتکاتف ضد الاخطار التی تتهددنا جمعیاً

...ان من یقول ان اهل السنة والجماعة مذهب واحد یلزمه ان یخرج هذه المذاهب الاربعة من دائرة اهل السنة والجماعة ، وهم فعلاً یعتقدون ذلک ویعتبرون تعدد هذه المذاهب الفقهیة مظهر انحراف ''( ۱ )

ہم لوگ اس وقت تین طرح کے دشمن کے مقابل میں ہیں : امریکا ، یہودی اور رافضی( شیعہ ) عراق اور لبنان کے واقعہ نے یہ ثابت کردیا ہے کہ ان دشمنوں کا اصلی مقصد ، اہل سنت والجماعت ہیں لہٰذا ہم کو چاہئے کہ ہم ان دشمنوں کے برابر متحد ہو جائیں ۔

جیسا کہ وہ کہتا ہے :جن کا نظریہ یہ ہے کہ اہل سنت ایک مذہب ہے تو ان کو چاہئے کہ وہ کوشش کریں کہ جن یہ عقیدہ ہے کہ مذاہب چہار گانہ کو اہل سنت کے احاطہ سے خارج کریں ورنہ یہ مذاہب چہار گانہ فقہی ، معاشرہ کے انحراف کا وسیلہ ہو جائیں گے

مراجع تقلید اور وہابیت کا انحرافی تفکر

ایسی چیزجو ہر مسلمان کیلئے تکلیف کا باعث بنتی ہے وہ عقل و شریعت کے

مخالف فتوے ہیں جبکہ ایسے فتوے دینے والے حضرات کو یہ علم نہیں ہے کہ وہ چاہتے یا نہ چاہتے ہوئے ان لوگوں کی خدمت کر رہے ہیں جن کا مقصد مسلمانوں کے درمیان تفرقہ پھیلا کر اسلام کو صفحۂ ہستی سے مٹانے کے علاوہ کچھ اور نہیں ہے۔

____________________

(۱)جریدة الرسالة الجمعة ، ۷ رجب ، ۱۳۴۶ ھ الموافق ۱۲ اگست ، ۲۰۰۵ ئ

۲۳

امام خمینی کا نظریہ:

کیا مسلمان یہ نہیں دیکھ رہے کہ آج وہابیوں کے مراکز دنیا میں فتنوں اور جاسوسی کے اڈوں میں تبدیل ہو چکے ہیں ایک طرف سے اسلام اشراف، اسلام ابوسفیان،... اور اسلام امریکائی کی ترویج کر رہے ہیں تودوسری طرف اپنے پیر و مرشد امریکہ کی دہلیز پر سر جھکائے نظرآتے ہیں ۔( ۱ )

اپنے سیاسی الٰہی وصیت نامے میں لکھتے ہیں :

ہم دیکھ رہے ہیں کہ شاہ فہد ہر سال لوگوں کی بے تحاشا ثروت میں سے بہت زیادہ مقدار قرآن کریم چھپوانے اور مخالف قرآن تبلیغات کرنے پر خرچ کررہا ہے اوربے اساس و خرافات پر مشتمل وہابی مذہب کی ترویج میں مصروف عمل ہے. اور غافل عوام و اقوام کو دنیا کی بڑی طاقتوں کے حوالے اور اسلام و قرآن کے نام پر اسلام و قرآن کی نابودی کیلئے سامان مہیا کر رہا ہے۔( ۲ )

____________________

(۱) صحیفۂ امام ۲۱:۸۰، شہدائے مکہ کی بر سی کی مناسبت پر امام خمینی کا پیغام۔

(۲) وصیت نامہ سیاسی و الہی امام خمینی، ۲۶ بہمن۳۶۱ا بمطابق یکم جمادی الاول ۱۴۰۳ ہجری ۔

۲۴

آیت اللہ العظمیٰ فاضل لنکرانی قدّس سرّہ کا نظریہ:

تمام اہل علم پر واضح ہے کہ مسلمانوں کے تمام فرقوں کا اس پر اتفاق ہے کہ وہابی اسلام سے خارج اور مولود کفر و یہود ہیں ان کے وجود کا فلسفہ اسلام و قرآن کی مخالفت اور مسلمانوں کے درمیان اختلاف ایجاد کرنے کے سواکچھ اور نہیں ہے۔

یہ فرقہ نہ صرف شیعوں کے مقدسات کو نابود کرنا چاہتا ہے بلکہ تمام مقدسات اسلامی منجملہ روضۂ مبارک نبی اکرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کو بھی خراب کرنے کی کوشش کررہا ہے اور ایک دن آئے گا کہ قرآن و خانہ خدا کو بھی نشانہ بنائے گا۔( ۱ )

رہبر معظم کا نظریہ:

رہبر معظم فرماتے ہیں :

ابتداء ہی سے وحدت اسلام پر ضرب لگانے اور اسلامی معاشرے میں اسرائیل کے مانند ایک مرکز قائم کرنے کے لئے وہابیوں کو وجود میں لایا گیا،جس طرح اسرائیل کو اسلام کے خلاف مرکز کے طور پر وجود میں لایا گیا اسی طرح اس وہابی اور نجدی حکومت کو وجود میں لایا گیا تاکہ عالم اسلام کے اندر اپنے امن کا ٹھکانہ بنا سکیں جو انھیں سے وابستہ ہو اور آج ہم ان کی اس وابستگی کو دیکھ رہے ہیں ۔

آج مرکز اسلام کے وہابی حکمران ،دشمن اسلام امریکہ کی سیاست سے اپنی حمایت، رفاقت اور وابستگی کا اظہار بڑے کھلے لفظوں میں کرتے ہیں اور اسے مخفی نہیں رکھتے۔(۲)

____________________

(۱) امام عسکری علیہ السلام کے روضۂ مبارک کی دوبارہ تخریب کے موقع پر پیغام ۳۲۳ ۱۳۸۶(۲۰۰۷ئ)۔

(۲) دفتر حفظ و نشر آثار رہبر معظم Farsi.khamenei.ir ۔

۲۵

آیت اللہ العظمیٰ مکارم شیرازی کا نظریہ:

آیت اللہ العظمیٰ مکارم شیرازی فرماتے ہیں :

دشمنان اسلام نے علاقے میں مسلمانوں سے سوء استفادہ اور ان کے درمیان تفرقہ پھیلانے کے لئے وہابیوں کو آمادہ کر رکھا ہے۔(۱)

طول تاریخ میں دین مبین اسلام جن مشکلات اور عظیم سازشوں سے دچار رہا ہے ان میں سے ایک فرقۂ وہابیت کی پیدائش ہے جس کی وجہ سے اسلام ترقی نہیں کر سکا۔(۲)

آیت اللہ العظمیٰ صافی کا نظریہ:

جب میں نے کتاب العواصم من القواصم کا مطالعہ کیا تو اس کے مؤلف کی مسلمانوں کے درمیان تفرقہ بازی کی کوشش کو دیکھ کر حیران رہ گیا. خدا کی قسم! میں

____________________

(۱) Salaf.blogfa.compost_۴۰۶.aspx:http نقل از خبر گذاری ایرنا، سوموار پنجم آذر ۱۳۸۶۔

(۲) جنت البقیع کی تخریب کی برسی کی مناسبت سے درس خارج کے ابتداء میں آپ کا بیان، ۸ شوال ۱۴۲۷ھ۔

۲۶

نے کبھی یہ تصور نہیں کیا تھا کہ عصر حاضر میں بھی کوئی ایسا مسلمان ہو سکتا ہے جو مسلمانوں کو ایک دوسرے سے دوراور ان کے درمیان اختلاف ایجاد کرنے کی کوشش کرے اور وحدت کے منادی و مصلح افراد پر نادانی، جھوٹ اور نفاق و حیلہ گری کی تہمت لگائے. اور سب سے بڑی مصیبت تو یہ ہے کہ یہ کتاب مدینہ منورہ کی سب سے بڑی یونیورسٹی سے چھپی اور منتشر کی گئی ہے۔

ارے! جب تک الخطوط العریضہ، الشیعة و السنة اور العواصم من القواصم جیسی کتب مدینہ منورہ جیسی اسلامک یونیورسٹی سے لکھی جائیں اور اہل بیت عصمت و طہارت علیہم السلام سے دشمنی کو آشکار، تاریخی حقائق کا انکار، وحدت مسلمین کو زیر سوال لایا جائے اور وحدت کے منادی حضرات کی مخالفت کی جائے تب تک کیسے مسلمانوں کے درمیان وحدت برقرار ہو سکتی ہے؟( ۱ )

اسی طرح آئمہ معصومین علیہم السلام کے روضوں کی تعمیر کروانے والے ادارے کے ارکان سے ملاقات کے دوران فرمایا:

وہابی فقط اہل بیت علیہم السلام سے ہی دشمنی نہیں رکھتے بلکہ رسولخدا صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کے بھی دشمن ہیں یہ لوگ تاریخ و نام اسلام کو مٹانے پر تلے ہوئے ہیں آئمہ علیہم السلام کا نام اور ان کی یاد کبھی مٹنے والی نہیں ہے بلکہ جو چیز جلد صفحۂ ہستی سے محو ہونے والی ہے وہ فتنۂ وہابیت ہے اورپھر تاریخ میں تنہا ان کے مظالم ہی باقی رہ جائیں گے۔(۲)

تفرقہ بازی کو رواج دینے کے بارے میں تفکر وہابیت کے قرآن و سنت کے مخالف ہونے کو واضح کرنے کیلئے ہم سب سے پہلے وحدت واتحاد کو قرآن کی رو سے بیان کر رہے ہیں اور پھر اس کے بعد تفرقہ بازی کے اسباب اور اس کے بدترین اثرات کو بیان کریں گے۔

____________________

(۱) صوت الحق: ۱۷ تألیف آیت اللہ العظمیٰ صافی گلپائگانی۔

(۲) www.farsnews.net-www.mazaheb.com ۔

۲۷

قرآن و سنّت میں وحدت و اتحاد کا مقام

۱۔ وحدت، قوموں کی کامیابی کا راز:

اس میں شک نہیں ہے کہ قوموں کی کامیابی و کامرانی کا ایک راز ان کا آپس میں اتحاد و اتفاق رہا ہے. جس طرح پانی کے قطرات کے متحد ہونے سے بڑے بڑے ڈیم تشکیل پاتے ہیں اور چھوٹے چھوٹے ندی نالوں کے ایک دوسرے سے مل جانے سے بہت بڑے دریا بنتے ہیں اسی طرح انسانوں کے اتحاد اور جمع ہونے سے ایسی صفیں تشکیل پاتی ہیں کہ جن پر نگاہ ڈالتے ہی دشمن وحشت زدہ ہو کر رہ جاتا ہے اور پھر کبھی بھی ان پر چڑھائی کرنے کا تصور تک نہیں کرتا:

( تُرْهِبُونَ بِهِ عَدُوَّ ﷲ وَعَدُوَّکُمْ ) (۱)

ترجمہ:تم صف بندی کے ذریعہ اپنے اور خدا کے دشمنوں کو خوف زدہ کرو۔

____________________

(۱) انفال: ۶۰۔

۲۸

قرآن مجید اقوام اسلام کو وحدت و اتحاد کے تنہا عامل حبل اللہ سے تمسک کی دعوت اور ہر طرح کی تفرقہ بازی سے بچنے کا حکم دیتا ہے:

( وَاعْتَصِمُوا بِحَبْلِ ﷲ جَمِیعًا وَلاَتَفَرَّقُوا ) ( ۱ )

ترجمہ:اور اللہ کی رسی کو مضبوطی سے پکڑے رہو اور آپس میں تفرقہ پیدا نہ کروتمام مسلمانوں کو امت واحد، اور ان کے لئے ہدف واحد اور معبود واحد قرار دیا ہے:

( إ ِنَّ هَذِهِ أُمَّتُکُمْ ُمَّةً وَاحِدَةً وَأَنَا رَبُّکُمْ فَاعْبُدُونِی ) ( ۲ )

ترجمہ:بے شک یہ تمہاری امت ایک ہی امت ہے اور میں تم سب کا پروردگار ہوں لہٰذا میری ہی عبادت کرو۔

قرآن نے پوری امت اسلام کو آپس میں بھائی بھائی شمار کیا ہے اور ان سے یہ تقاضا کیا ہے کہ ان کے آپس کے روابط و تعلقات دوستانہ اور بھائیوں کے مانند ہونا چاہئیں اور پھر چھوٹے سے چھوٹے اختلاف کی صورت میں بھی صلح کا دستور صادر فرمایا ہے:

( إ ِنَّمَا الْمُؤْمِنُونَ ِخْوَة فَأَصْلِحُوا بَیْنَ أَخَوَیْکُمْ وَاتَّقُوا ﷲ لَعَلَّکُمْ تُرْحَمُونَ ) ( ۳ )

____________________

(۱)آل عمران: ۱۰۳۔

(۲) انبیائ:۹۲۔

(۳) حجرات: ۱۰۔

۲۹

ترجمہ:مومنین ایک دوسرے کے دینی بھائی ہیں تم اپنے دوبھائیوںکے درمیان جنگ کے موقع پر صلح کروادیاکرواوراللہ سے ڈروتاکہ تم پر رحم کھایاجائے ۔

۲۔ تفرقہ بازی بدترین آسمانی عذاب:

دوسری جانب خداوند متعال نے اختلاف اور جنگ و جدل کو بدترین عذاب شمار کیا ہے:

( قُلْ هُوَ الْقَادِرُ عَلَی أ َنْ یَبْعَثَ عَلَیْکُمْ عَذَابًا مِنْ فَوْقِکُمْ َوْ مِنْ تَحْتِ أَرْجُلِکُمْ َوْ یَلْبِسَکُمْ شِیَعًا وَیُذِیقَ بَعْضَکُمْ بَاْسَ بَعْضٍ ) ( ۱ )

ترجمہ:اے رسول!تم کہہ دو کہ وہی اس پر قابورکھتا ہے کہ (اگرچاہے تو)تم پرعذاب تمہارے سر کے اوپر سے نازل کرے یاتمہارے پائوں کے نیچے سے (اٹھاکر کھڑا کردے )یاایک گروہ کو دوسرے سے بھڑادے اورتم میں سے کچھ لوگوں کو بعض آدمیوں کی لڑائی کامزاچکھادے ذراغورتوکروہم کس کس طرح اپنی آیتوں کوالٹ پلٹ کے بیان کرتے ہیں تاکہ یہ لوگ سمجھیں ۔

ابن اثیر کہتا ہے: ''شیعاً''سے مراد وہی امت اسلام کے درمیان تفرقہ بازی پھیلانا ہے۔( ۲ )

اور پیغمبرصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کو ایسے لوگوں سے رابطہ نہ رکھنے کا حکم فرمایا جو آپس میں

____________________

(۱) انعام: ۶۵۔

(۲) النہایة فی غریب الحدیث۲: ۵۲۰۔

۳۰

اختلاف ایجاد کرتے اور پھر اس پر اصرار کرتے ہیں :

( إ ِنَّ الَّذِینَ فَرَّقُوا دِینَهُمْ وَکَانُوا شِیَعًا لَسْتَ مِنْهُمْ فِی شَیْئٍ إِنَّمَا َمْرُهُمْ إِلَی ﷲ ثُمَّ یُنَبِّئُهُمْ بِمَا کَانُوا یَفْعَلُونَ ) ( ۱ )

ترجمہ:جن لوگوں نے اپنے دین میں تفرقہ پیدا کیا اور ٹکڑے ٹکڑے ہوگئے ان سے آپ کاکوئی تعلق نہیں ہے ان کا معاملہ خدا کے حوالے ہے پھر وہ ا نہیں ان کے اعمال سے باخبر کرے گا۔

خداوند متعال نے مسلمانوں کو یہ حکم دیا ہے کہ وہ مشرکوں کے مانند آپس میں اختلاف اور اس پر فخر و مباہات مت کریں:

( ولاتَکُونُوا مِنْ الْمُشْرِکِینَ مِنْ الَّذِینَ فَرَّقُوا دِینَهُمْ وَکَانُوا شِیَعًا کُلُّ حِزْبٍ بِمَا لَدَیْهِمْ فَرِحُونَ ) ( ۲ )

ترجمہ:اور خبردار مشرکین میں سے نہ ہوجانا جنھوں نے دین میں تفرقہ پیدا کیا ہے اور گروہوں میں بٹ گئے ہیں پھر ہر گروہ جو کچھ اس کے پاس ہے اسی پر مست و مگن ہے۔

۳۔ پیغمبرصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کا اختلاف امت کی وجہ سے پریشان ہونا:

امت مسلمہ کے درمیان ہر قسم کا اختلاف پیغمبرصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے لئے پریشانی کا

____________________

(۱) انعام: ۱۵۹۔

(۲) روم:۳۱اور۳۲۔

۳۱

باعث تھا سیوطی اور دیگر نے نقل کیا ہے کہ ''شاس بن قیس'' نامی شخص جو زمانہ جاہلیت کا پرورش یافتہ اور مسلمانوں کے بارے میں اس کے دل میں حسد و کینہ ٹھاٹھیں مارتا رہتا تھا اس نے ایک یہودی جوان کوتیارکیا تاکہ اسلام کے دو بڑے قبیلوں اوس و خزرج کے درمیان اختلاف ایجاد کرے۔

اس یہودی نے دونوں قبیلوں کے افراد کو زمانہ جاہلیت میں ان کے درمیان ہونے والی جنگوں کی یاد دہانی کروا کر ان کے درمیان آتش فتنہ روشن کردی یہاں تک کہ دونوں قبیلے ننگی تلواریں لے کر ایک دوسرے کے سامنے آ کھڑے ہوئے پیغمبر اکرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کو اس واقعہ کی خبر ملی تو انصار و مہاجرین کے ایک گروہ کے ہمراہ لڑائی کے مقام پر پہنچے اور فرمایا:

یامعشرالمسلمین الله الله،ابدعوی الجاهلیة وانا بین اظهر کم ؟بعد اذهداکم الله الی الاسلام واکر مکم به ، وقطع به عنکم امر الجاهلیة،واستنقذکم به من الکفر، والف به بینکم ، ترجعون الی ما کنتم علیه کفارا،

اے مسلمانو!کیا تم نے خدا کو فراموش کر ڈالا اور جاہلیت کے شعار بلند کرنے لگے ہو جبکہ میں تمہارے درمیان موجود ہوں. خداوند متعال نے تمھیں نور اسلام کی طرف ہدایت کر کے مقام عطا کیا، جاہلیت کے فتنوں کو ختم کر کے تمھیں کفر سے نجات دی اور تمہارے درمیان الفت و برادری برقرار کی کیا تم دوبارہ کفر کی طرف پلٹنا چاہتے ہو؟

۳۲

پیغمبرصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے اس خطاب سے وہ لوگ سمجھ گئے کہ یہ ایک شیطانی سازش ہے اپنے اس عمل پر پشیمان ہوئے، اسلحہ زمین پر رکھ دیا اور آنسو بہاتے ہوئے ایک دوسرے کو گلے لگا کر اظہار محبت کرنے لگے اور پھر پیغمبر اکرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی ہمراہی میں اپنے اپنے گھروں کی طرف واپس پلٹ گئے۔( ۱ )

۴۔ جاہلیت کے بُرے آثار میں سے ایک اختلاف کی دعوت دینا ہے :

جنگ بنو مصطلق میں مسلمانوں کی فتح کے بعد ایک انصاری اور مہاجر کے درمیان اختلاف ایجاد ہو گیا، انصاری نے اپنے قبیلہ کو مدد کے لئے پکارا اور مہاجر نے اپنے قبیلہ کو. جب پیغمبرصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کو اس بات کی خبر ملی تو فرمایا:

ان بری باتوں سے کنارہ کشی اختیار کرو اس لئے کہ یہ جاہلیت کا طریقہ ہے جبکہ خداوند متعال نے مؤمنین کو ایک دوسرے کا بھائی اور ایک گروہ قرار دیا ہے. ہر زمان و مکان میں ہر طرح کی فریاد و مدد خواہی فقط اسلام اور مسلمانوں کی بھلائی کی خاطر ہونی چاہیے نہ کہ ایک گروہ کی خیر خواہی اور دوسرے کونقصان پہنچانے کی خاطر

انجام پائے .اس کے بعد جو بھی جاہلیت کے شعار بلند کرے گا اُسے سزادی جائے گی۔(۲)

____________________

۱ ((فعرف القوم انها نزعة من الشیطان وکید من عدوهم نهم فائقوا السلاح وبکواوعانق الرجال بعضهم بعضاثم انصرفوا مع رسول الله صلی الله علیه وسلم سامعین مطیعین قداطفاالله عنهم کید عدوالله شاس)) د رالمنثور۲:۵۷،جامع البیان۴:۳۲،فتح القدیر۱: ۶۸ ۳ ، تفسیر آلوسی ۴: ۱۴، واسد الغا به ۱: ۱۴۹،

(۲) دعوها فانها منتنة ...یعنی انهاکلمة خبیثة ، لانهامن دعوی الجاهلیة والله سبحانه جعل المومنین اخوة وصیرهم حزباواحدا، فینبغی ان تکون الدعوة فی کل مکان وزمان لصالح الاسلام و المسلمین عامة لالصالح قوم ضد الاخرین،فمن دعافی الاسلام بدعوی الجاهلیة یعزر، سیره نبویه ۳:۳۰۳،غزوة بنی المصطلق ومجمع البیان ۵:۲۹۳، رسائل ومقالات ۱:۴۳۱،

۳۳

حضرت علی سب سے بڑے منادی و حدت

حضرت علی علیہ السلام رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی رحلت کے بعد خلافت و امامت کو اپنا مسلم حق سمجھتے تھے اور وہ معتقد تھے کہ خلافت کے غاصبوں نے ان کے حق میں جفا کی ہے:ما زلت مظلوماً منذُ قبض اللّٰه نبیّه صلی الله علیه وآله وسلم. (۱)

پیغمبر صلی اللہ علیہ وآلہ و سلم کی رحلت کے بعد ہمیشہ مجھ پر ظلم کیا گیا ۔

آپ نے اپنی حقانیت کے اثبات کے لئے کسی قسم کی کوشش سے دریغ نہ کیا اور اپنے مسلّم حق کے حصول کیلئے ہر ایک سے مدد طلب کی(۲) ، یہاں تک کہ اپنی

____________________

(۱) شرح نہج البلاغہ ابن ابی الحدید۲۰:۲۸۳؛ الشافی فی الامامة ۳:۱۱۰؛ الامامة و السیاسة، تحقیق الشیری ۱: ۶۸؛ تحقیق الزینی۱:۴۹؛ بحار الانوار۲۹:۶۲۸۔

(۲) ابن قتیبہ دینوری نقل کرتا ہے: پیغمبرصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی رحلت کے دن ہی جب ابوبکر مسند خلافت پر بیٹھا تو علی علیہ السلام نے مہاجرین کو خطاب فرمایا، اپنی حقانیت اور مسند خلافت کی صلاحیت کو بیان فرمایا:

۳۴

زوجہ محترمہ کو سوار کروا کر مہاجرین کے دروازوں پہ گئے اور ان سے مدد طلب کی۔( ۱ )

لیکن افسوس کہ کسی ایک نے مثبت جواب نہ دیا. جب آنحضرتصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے دیکھا کہ اہل بیت کے سوا نہ کوئی میرا مددگار ہے اور نہ دفاع کرنے والا تو اس وقت

>.......آنحضرت کے کلمات سے اس قدر تاثیر پذیر ہوئے کہ بشیر بن سعد کہنے لگا: یا علی ! اگر انصار نے ابوبکر کی بیعت سے پہلے آپ کی یہ گفتگو سنی ہوتی تو کبھی دو شخص بھی آپ کی خلافت کے حق میں اختلاف نہ کرتے۔

حضرت کا مشہور کلام اس طرح ہے :''الله الله یا معاشر المهاجرین ! لا تخرجوا سلطان محمد فی العرب عن داره و قعر بیته ، الی دورکم و قعور بیوتکم ولا تدفعوا اهله عن مقامه فی الناس وحقه ، فوالله یا معاشر المهاجرین ، لنحن احق الناس به. لانا اهل البیت ، ونحن احق بهذا الامر منکم ما کان فینا القاری ، لکتاب الله ،الفقیه فی دین الله ، العالم بسنن رسول الله ، المضطلع بامر الرعیة ، المدافع عنهم الامور السیئة، القاسم بینهم بالسویة، والله انه لفینا ، فلا تتبعوا الهوی فتضلوا عن سبیل الله ، فتتزدادوا من الحق بعداً''

بشیر بن سعد انصاری کہتا ہے :''لو کان هذا الکلام سمعته الانصار منک یاعلی قبل بیعتها لابی بکر، ما اختلف علیک اثنان ''.الامامة والسیاسة ، تحقیق الزینی۱:۱۹.

____________________

(۱) ابن قتیبہ کہتا ہے: و خرج علی کرم الله وجهه یحمل فاطمه بنت رسول الله صلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم علی دابةلیلاًفی مجالس الانصار تساء لهم النصرة ، فکانوں یقولون :یابنت رسول الله !قدمضت بیعتنا لهذاالرجل ولوان زوجک وابن عمک سبق الینا قبل ابی بکر ماعدلنابه ۔

فیقول علی کرم الله وجهه :افکنت ادع رسول اللهصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم فی بیته لم ادفنه ، واخرج انازع الناس سلطانه ؟فقالت فاطمه :ماصنع ابوالحسن الاماکان ینبغی له ، ولقد صنعوا مالله حسیبهم وطالبهم ، الامامة والسیاسة،تحقیق الزینی۱:۹،

۳۵

مصلحت یہی دیکھی کہ انھیں دشمن کے مقابلے میں نہ لایا جائے۔( ۱ )

حضرت علی علیہ السلام نے آنکھوں میں خس و خاشاک کے ہوتے ہوئے چشم پوشی کی اور گلے میں پھندے کے ہوتے ہوئے لعاب دہن نگل کر خانہ نشینی کا تلخ جام پی لیا۔( ۲ )

ارے! امیر المومنین علیہ السلام نے جب یہ احساس کیا کہ اپنے مسلم حق کے احقاق کے لئے راہ ہموار نہیں ہے اور قیام کرنے سے اُمت اسلام کے درمیان تفرقہ کے سوا کچھ اور حاصل نہ ہو گا۔( ۳ )

تو اس وقت آنکھ میں کانٹے کا تحمل کرنا اور گلے میں ہڈی کے اٹکنے جیسے سخت

____________________

(۱) علی علیہ السلام نہج البلاغہ کے خطبہ ۲۱۷ میں فرماتے ہیں : ''فنظرتُ فاذا لیس لی معین الا اهل بیتی فضننت بهم عن الموت . ترجمہ: میں نے دیکھا کہ میرے پاس کوئی مددگار نہیں ہے سوا میرے گھر والوں کے تو میں نے انھیں موت کے منھ میں دینے سے گریز کیا۔

(۲) حضرت علی فرماتے ہیں :و اغضیت علی القذیٰ وشربت علی الشجاوصبرت علی اخذالکظم وعلی امرّمن طعم العلقم

ترجمہ: اور باالآخر آنکھوں میں خس وخاشاک کے ہوتے ہوئے چشم پوشی اور گلے میں پھندے کے ہوتے ہوئے لعاب دہن نگل لیا اور غصہ کو پینے میں حنظل سے زیادہ ذائقہ پرصبرکیا اور چھریوں کے زخموں سے زیادہ تکلیف دہ حالات پر خاموشی اختیار کر لی۔

(۳)حضرت علی علیہ السلام فرماتے ہیں : ''و ایم اللّٰه لوکان مخافة الفرقة بین المسلمین... لکنا علی غیر ما کنّا لهم علیه'' ترجمہ: اگر مسلمانوں کے درمیان اختلاف کا ڈر نہ ہوتا تو ہم ان سے اور رویہ اپناتے،(شرح نہج البلاغة ابن ابی الحدید۱:۳۰۷؛ ارشاد ۱:۲۴۵۔

۳۶

ترین مصائب کو برداشت کیا لیکن امت اسلام کے درمیان اتحاد و وحدت کو گزند نہ پہنچنے دیا تا کہ کہیں منافقوں اور اسلام سے شکست خوردہ دشمنوں کی سازشوں سے پیغمبرصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی تئیس سالہ زحمات ضائع نہ ہو جائیں. بلکہ جہاں کہیں بھی دیکھا کہ اسلام یا اسلامی معاشرہ کو فائدہ ہو رہا ہے وہاں پہ کسی قسم کی مدد سے گریز نہ کیا۔( ۱ )

ترجمہ: یہاں تک کہ یہ دیکھا کہ لوگ دین اسلام سے واپس پلٹ رہے ہیں اورآئین پیغمبرصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کو برباد کردینا چاہتے ہیں تو مجھے یہ خوف پیدا ہوگیا کہ اگر اس رخنہ اور بربادی کو دیکھنے کے بعد بھی میں نے اسلام اور مسلمانوں کی مدد نہ کی تو اس کی مصیبت روز قیامت اس سے زیادہ عظیم ہوگی جو آج اس حکومت کے چلے جانے سے سامنے آرہی ہے جو صرف چند دن رہنے والی ہے اور ایک دن اسی طرح ختم ہوجائے گی جس طرح سراب کی چمک دمک ختم ہوجاتی ہے یا آسمان کے بادل چھٹ جاتے ہیں تو میں نے ان حالات میں قیام کیا یہاں تک کہ باطل زائل ہوگیا اور دین مطمئن ہو کر اپنی جگہ پر ثابت ہوگیا۔

اگرچہ حضرت علی علیہ السلام خلیفہ اول و دوم کو اچھی نگاہ سے نہ دیکھتے اور اہل سنت کی معتبر ترین کتاب صحیح مسلم کے مطابق حضرت علی علیہ السلام ان دونوں کو

____________________

(۱)نہج البلاغہ،نامہ:۶۲''حتی رأیت راجعة الناس قدرجعت عن الاسلام،یدعون الی محق دین محمدصلی الله علیه واله و سلم فخشیت ان لم انصرالاسلام واهله ان اری فیه ثلماً او هدما...فنهضت فی تلک الاحداث حتی زاح الباطل وزهق ، و اطمنان الدین وتنهنه ۔

۳۷

کاذب، دھوکہ باز اور خائن سمجھتے تھے ۔( ۱ )

لیکن یہ چیز باعث نہ بنی کہ آنحضرت افرادی قوت کے کم ہونے کے باوجود ان کے خلاف قیام کر کے امت اسلام کی تباہی کا سامان مہیا کریں۔

حضرت علی کی نگاہ میں اختلاف کے برے اثرات

۱۔ فکری انحراف کا باعث:

حضرت علی علیہ السلام معتقد تھے کہ''الخلاف یهدم الرا ی'' .( ۲ )

ترجمہ:اختلاف رائے کو نابود کردیتاہے۔

انسان پر سکون ماحول میں درست نظریہ بیان کر سکتا ہے جبکہ اختلافات کی فضا میں انحراف واشتباہ سے دچار ہوجاتا ہے۔

۲۔ دو گروہ میں سے ایک کے یقینا باطل ہونے کی علامت:

امیر المومنین علیہ السلام کے عقیدہ کے مطابق اختلاف سے دچار ہونا وہی باطل کی پیروی کرنا ہے لہٰذا فرمایا :مااختلف دعوتان الا کانت احداهما ضلالة،

____________________

(۱)صحیح مسلم کے مطابق خلیفہ دوم حضرت عباس بن عبد اللہ اور حضرت علی علیہ السلام سے کہنے لگے: ((فملا توفی ...)) ترجمہ: رسول خدا نے صلی اللہ علیہ وآلہ و سلم کی رحلت کے بعد جب ابوبکر نے اپنے خلیفہ رسول ہونے کا اعلان کیا تو تم دونوں اسے جھوٹا، دھوکے باز، عاصی اور خائن سمجھتے ...پھر ابوبکر کی وفات کے بعد جب میں خلیفہ رسول و خلیفہ ابوبکر بنا توتم مجھے بھی کاذب، دھوکہ باز اور خائن سمجھتے ہو...،صحیح مسلم ۵:۴۴۶۸۱۵۲، کتاب الجھاد، باب۱۵،حکم الفیئ...

(۲) نہج البلاغہ، حکمت۲۱۵۔

۳۸

جب بھی دو نظریوں میں اختلاف ہو تو ان میں سے ایک یقینی طور پر باطل ہے۔( ۱ )

یعنی ہمیشہ حق باطل کے مد مقابل ہے اور یہ دونوں کبھی جمع نہیں ہو سکتے۔

۳۔ شیطان کے غلبہ کا باعث:

علی علیہ السلام نے یہ سمجھانے کیلئے کہ تفرقہ بازی شیطان کو اپنے اوپر مسلط کرنے کے سوا کچھ اور نہیں ہے فرمایا:

والزمواالسواد الاعظم فان یدالله مع الجماعة ، وایاکم والفرقة !فان الشاذ من الناس للشیطان ، کماان الشاذ من الغنم للذئب ،( ۲ )

ترجمہ: اور سواد اعظم کے ساتھ رہو کہ خدا کا ہاتھ اسی جماعت کے ساتھ ہے اور خبردار تفرقہ کی کوشش نہ کرنا کہ جو ایمانی جماعت سے کٹ جاتا ہے وہ اسی طرح شیطان کا شکار ہوجاتا ہے جس طرح ریوڑسے الگ ہوجانے والی بھیڑ بھیڑیئے کی نذر ہوجاتی ہے تو آگاہ ہوجاؤ کہ جو بھی اس انحراف کا نعرہ لگائے اسے قتل کردو چاہے وہ میرے ہی عمامہ کے نیچے کیوں نہ ہو ۔

____________________

(۱) نہج البلاغة، حکمت:۱۸۳۔

(۲) نہج البلاغہ۱۲۷۔

۳۹

۴۔باطل کے نجس ہونے کی علامت:

حضرت علی علیہ السلام ذلت کواثبات کرتے ہوئے فرماتے ہیں :

وانما انتم اخوان علی دین الله ، مافرّق بینکم الا خبث السّرائروسوء الضمائر .( ۱ )

ترجمہ: تم لو گ آپس میں ایک دوسرے کے دینی بھائی ہو ، تم بری نیت اور برائی تم کو ایک دوسرے الگ نہیں کیا ہے ۔

۵۔فتنہ کاباعث:

حضرت علی علیہ السلام بخوبی آگاہ تھے کہ شیطان اختلاف کو ہوادے کر فتنہ ایجاد کرناچاہتا ہے لہٰذافرمایا:

ان الشیطان یسنی لکم طرقه ، ویرید ان یحل دینکم عقدة عقدةویعطیکم بالجماعة الفرقة ، وبالفرقة السفتنة ، ( ۲ )

ترجمہ :یقینا شیطان تمہارے لئے اپنی راہوں کو آسان بنا دیتا ہے اور چاہتا ہے کہ ایک ایک کر کے تمھاری ساری گرہیں کھول دے۔ وہ تمھیں اجتماع کے بجائے افتراق دے کر فتنوں میں مبتلا کرنا چاہتا ہے۔

۶۔اختلاف ایجاد کرنے والے کی نابودی واجب ہے:

حضرت علی علیہ السلام نے فرمایا:

الامن دعاالی هذاالشعار فاقتلوه، ولوکان تحت عمامتی هذه، (۳)

ترجمہ :آگاہ ہوجائوکہ جو بھی اس انحراف کا نعرہ لگائے اسے قتل کروچاہے وہ میرے ہی عمامہ کے نیچے کیوں نہ ہو۔

____________________

(۱)نہج البلاغہ ، خطبہ ۱۱۳

(۲)نہج البلاغہ ، خطبہ ۱۲۱

(۳)نہج البلاغہ ، خطبہ ۱۲۷

۴۰

عصر حاضر میں وحدت و اتحاد کی اہمیت

اس میں شک نہیں ہے کہ ہم ایک ایسے زمانہ میں زندگی بسر کر رہے ہیں جہاں دشمنان اسلام، اسلام کی نابودی کے لئے آپس میں معاہدہ کرچکے ہیں اور اپنے تمام تر سیاسی و اقتصادی امکانات اسلام کو صفحہ ہستی سے مٹانے کے لئے بروئے کار لا رہے ہیں ۔

اسی طرح امریکی سی آئی اے کے سابق معاون ڈاکٹر مائیکل برانٹ نے اپنی کتاب (مکاتب الہی کو جدا کرنے کا منصوبہ Aplan to divis and d noylt theiology میں لکھتا ہے:

جو لوگ شیعوں سے اختلاف رائے رکھتے ہیں انھیں شیعوں کے خلاف منظم و مستحکم کر کے شیعوں کے کافر ہونے کے نظریہ کو عام کر کے انھیں معاشرے سے جدا کیا جائے اور ان کے خلاف نفرت انگیز تحریریں لکھی جائیں۔(۱)

____________________

(۱) اخبار جمہوری اسلامی ۱۳۸۳۳۵ اور ہفت روزہ افق حوزہ ۱۳۸۳۲۲۸۔

۴۱

Goldstone برطانوی سیاست دان اور سابق وزیر اعظم برطانیہ کہتا ہے:(یہ برطانوی سیاست دان ۸۰۹ا۔۱۸۹۸)چار بار اس ملک کا وزیر اعظم رہ چکا ہے۔

مادام هٰذاالقرآن موجوداًفی ایدی المسلمین،فلن تستطع أروباالسیطرة علی الشرق و لا أن تکون هی نفسها فی أمان .(۱)

جب تک مسلمانوں کے پاس قرآن موجود ہے تب تک نہ تو برطانیہ مشرق پر اپنا تسلط جما سکتا ہے اور نہ ہی خود امن کی سانس لے سکتا ہے۔

سابق اسرائیلی وزیر اعظم Ben Gurio(۲)

کہتا ہے:''انّ اخشی ما نخشاه أن یظهر فی العالم العربی، محمد جدید'' .(۳)

جس چیز نے ہمیں وحشت زدہ کر رکھا ہے وہ یہ ہے کہ کہیں عالم عرب میں کوئی نیا محمد نہ ظاہر ہوجائے۔

____________________

(۱) الاسلام علی مفترق الطرق:۳۹۔

(۲)یہی وہ شخص ہے جس نے اسرائیل کا نام تجویز کیا اور نو بار اس ملک کا وزیر اعظم بنا، اس نے اپنی زندگی کو صہیونزم کیلئے وقف کیا۔ ۱۹۴۸ئ میں فلسطین پر قبضہ کے لئے جنگ کی سر براہی اسی نے کی. اس کی وزارت کے دور میں جو واقعات رونما ہوئے وہ درج ذیل ہیں : ۱۔۱۹۴۸ئ کی جنگ ،۲۔ یہودیوں کی بے سابقہ ہجرت ،۳۔ یہودی آبادیوں کی افزائش ۴۔اسرائیل، برطانیہ اور فرانس کا ۱۹۵۶ئ میں مصر پر مشترکہ حملہ۔

(۳) اخبار الکفاح الاسلامی ۱۹۵۵ئ۔

۴۲

اگرچہ عیسائیوں کے مسلمہ اصول میں سے ایک حضرت عیسی علیہ السلام کا یہودیوں کے ہاتھوں تختہ دار پر لٹکایا جانا ہے جس کے باعث بیس صدیوں تک ان کے درمیان بغض و کینہ اور دشمنی عروج پر رہی ہے لیکن مسلمانوں کے مقابلے میں عیسائی و یہودی اتحاد کی خاطر حکومت واٹیکان نے سرکاری طور پر اس اصل سے چشم پوشی کا اعلان کر کے یہودیوں کو اس گناہ سے بری الذمہ قرار دے دیا ۔

اور تعجب کی بات تو یہ ہے کہ یہ اعلان ۱۹۷۳ئ میں اسرائیل کی مسلمانوں کے ساتھ جنگ کے دوران کیا گیا تاکہ یہودیوں اور عیسائیوں کی پوری طاقت مسلمانوں کے مقابلے میں صرف کر سکیں۔( ۱ )

مذکورہ بالا نکات سے پیغمبرصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے اس فرمان کی اہمیت واضح ہوجاتی ہے:

''من اصبح و لم یهتم بأمور المسلمین فلیس بمسلم'' ( ۲ )

ترجمہ: جو شخص اپنے دینی بھائیوں کی مشکلات کی فکر نہ کرے وہ مسلمان بھی نہیں ہے۔

واضح رہے کہ موجودہ حالات میں کسی قسم کی مشکوک حرکت جو مسلمانوں کی صفوں میں تفرقہ و جدائی کا باعث بنتی ہو، اسلام کے نفع میں نہیں ہے۔

اور ہر طرح کی گالی گلوچ اور ناروا گفتگو مسلمانوں کے درمیان وحدت و اتحاد

____________________

(۱) مع رجال الفکر فی القاہرة ۱:۱۶۲۔

(۲) اصول کافی ۲:۱۶۳۔

۴۳

اور تقریب مذاہب کونقصان پہنچانے سے بڑھ کر مکتب اسلام کے نورانی چہرے کو خدشہ دار کرنے اور اہل علم حضرات کے اسلام جیسے نورانی مکتب سے بدگمان ہونے کا باعث بنتی ہے۔

وحدت کے اہداف

وہ مسائل جن میں علمائے اسلام کے درمیان اختلاف پایاجاتاہے ان میں سے ایک وحدت کے اہداف کی جامع تعریف ہے اور یہ واضح ہونا چاہیے کہ وحدت کا مقصد تمام مذاہب کو ایک کرنا یا دوسرے مذاہب کو مٹانا نہیں ہے اور تقریب کے ادارے قائم کرنے و الو ں کی غرض بھی معتزلی کی جگہ اشعری ، سنی کو شیعہ، حنفی کو حنبلی بنانایا اس کے بر عکس نہیں تھی۔

اس لئے کہ یہ کام نہ تنہا دشوار بلکہ ناممکن ہے جب کہ ان کا مقصد تو مختلف مذاہب کے پیروکاروں کو مشترک امور کو مد نظر رکھتے ہوئے ایک دوسرے سے نزدیک کرنا اور تمام مسلمانوں کو دشمنان اسلام کے مقابلے میں ایک صف میں لا کر کھڑا کرنا تھا۔

مرحوم شیخ محمد تقی قمی بانی ''دار التقریب بین المذاھب الاسلامیة'' اور مدرسہ فیضیہ میں حضرت آیت اللہ العظمیٰ بروجردی کے نمائندے فرمایا کرتے:

اس ادارے کی تأسیس کا مقصد یہ نہیں ہے کہ شیعہ اپنے اصول و عقائد سے دوری اختیار کر لیں یا سنی اپنے عقائد کے مبانی سے دستبردار ہوجائیںمذاہب کے درمیان فاصلے کا سبب ان کا ایک دوسرے کے افکارو مبانی سے نا آشنا ہونا ہے. اس ادارے کی تأسیس کا مقصد یہ ہے کہ ہر ایک مذہب کے صاحب فکر حضرات آئیں اور اپنے اپنے عقائد کے مبانی کا تحفظ اور دوسروں کے عقائد کا احترام کرتے ہوئے پرسکون فضا میں اختلافی مسائل کو بیان کریں تاکہ ایک دوسرے کے افکار اور مذاہب کے درمیان مشترک امور سے آشنائی کے ضمن میں زیادہ سے زیادہ تفاہم پیدا ہو کہ جس کا فائدہ یقینا مذہب شیعہ کو ہے۔

۴۴

۲۴جنوری ۲۰۰۱ئ میں لندن کے اندر ایک ٹی وی چینل ANN نے وحدت مسلمین اور مذاہب اسلامی کے درمیان تقریب کے عنوان سے ایک کانفرنس کا اہتمام کیا جس میں ایرانی، لبنانی، مصری اور برطانوی مفکرین نے شرکت کی. اس کانفرنس سے ٹیلی فون پر خطاب کرتے ہوئے ''الازہر'' یونیورسٹی کے معاون اور مذاہب اسلامی کے درمیان گفتگوکا اھتمام کرنے والی کمیٹی کے چئر مین جناب شیخ محمد عاشور نے کہا:

فکرة التقریب بین المذاهب الاسلامیةلاتعنی توحید المذ اهب الاسلامیة ولاصرف ایّ مسلم مذهبه وصرف المسلم عن مذهبه تحت التقریب تضلیل فکرة التقریب...فان الاجتماع علی فکرة التقریب یجب ان یکون اساسه البحث والاقناع والاقتناع ، حتی یمکن لسلاح العلم والحجة محاربة الافکار الخرافیّة ...وان یلتقی علماء المذاهب ویتبادلون المعارف والدراسات لیعرف بعضهم بعضا فی هدوء العالم المتثبت الذی لاهم له الاان یدری یعرف ویقول فینتج .( ۱ )

مذاہب اسلامی کے درمیان تقریب کا مقصد تمام مذاہب کو ایک کرنا اور ایک مذہب کو چھوڑ کر دوسرے مذہب کو قبول کرنا نہیں ہے اس لئے کہ ایسی فکرتو تقریب کو اس کے ہدف سے ہٹانا ہے. تقریب کی بنیاد علمی گفتگو اور دوسرے کو قانع کرنے پر ہونی چاہیے تاکہ علم کے اسلحہ اور دلیل کے ذریعہ سے منحرف افکار کا مقابلہ کیا جا سکے... اور یہ کہ علمائے مذاہب مل بیٹھیں اور معارف کا تبادلہ کریں تاکہ پر امن ماحول میں ایک دوسرے کو سمجھیں اور نتیجہ حاصل کریں۔

شہید مطہری کی نگاہ میں وحدت کا غلط مفہوم لینا

شہید مطہری وحدت مسلمین سے غلط مفہوم لینے کے بارے میں لکھتے ہیں :

''.... اس میں شک نہیں ہے کہ مسلمانوں کی واضح ترین ضروریات میں سے ان کا آپس میں اتفاق و اتحاد ہے اور عالم اسلام کا اساسی ترین درد مسلمانوں کے درمیان وہی پرانے کینے ہیں دشمن بھی ہمیشہ انھیں سے فائدہ اٹھاتا ہے....

____________________

(۱)مطارحات فکریة فی القنوات الفضائیة، شمارۂ۳:۱۹سال۱۴۲۲ ھج؛ بازخوانی اندیشۂ تقریب:۳۱۔

۴۵

اس آخری صدی میں اسلامی روشن فکر علماء و فضلاء کے درمیان اسلامی اتحاد کا جو مفہوم لیا جا رہا ہے کہ اعتقادی یا غیر اعتقادی اصول سے چشم پوشی اختیار کی جائے یا یہ کہ تمام فرقوں کے مشترک امور کو لے کر ان کے مختص امور کو ترک کردیا جائے یہ کام نہ تو منطقی ہے اور نہ ہی عملی طور پر انجام پانے والا ہے۔

کیسے ممکن ہے کہ ایک مذہب کے پیروکاروں سے یہ تقاضا کیا جائے کہ وہ وحدت اسلام و مسلمین کے تحفظ کی خاطر فلاں اعتقادی یا عملی اصل کو چھوڑ دیں جبکہ وہ اصل ان کے نزدیک دین اسلام کا جزو شمار ہوتی ہو؟

یہ تو بالکل ویسے ہی ہے جیسے اُسے کہا جائے کہ اسلام کے نام پر اسلام کے ایک جزوسے روگردانی کر لیں...!( ۱ )

ہم خود شیعہ ہیں اور اہل بیت علیہم السلام کی پیروی کرنے پر افتخار کرتے ہیں چھوٹی سے چھوٹی چیز حتی ایک مستحب یا مکروہ عمل پر بھی معاملہ کرنے کو تیار نہیں ہیں اس بارے میں ہم نہ تو کسی سے توقع رکھتے ہیں کہ وہ اپنے اصول میں سے فلاں اصل کو اسلامی اتحاد کی خاطر ترک کردے اور نہ ہی اس بارے میں کسی کی فرمائش کو قبول کرتے ہیں ۔

جس چیز کی ہم توقع رکھتے ہیں وہ یہ ہے کہ حسن تفاہم کا ماحول ایجاد کیا جائے تاکہ ہمارے پاس جو اصول و فروع، فقہ، حدیث، کلام، فلسفہ اور ادبیات ہیں انھیں ایک

____________________

(۱) امامت و رہبری: ۱۶، چاپ صدرا۔

۴۶

بہترین چیز کے طور پر پیش کر سکیں اور شیعہ اس سے زیادہ زوال کی طرف نہ جائیں اسی طرح عالم اسلام کے بازاروںکو بھی شیعہ معارف کے لئے کھولا جائے( ۱ )

کیا مشترک امور پر عمل پیرا ہونا ممکن ہے؟

شہید مطہری اپنی گفتگوکو آگے بڑھاتے ہوئے فرماتے ہیں :

اسلام کے مشترک امور کو لینا اور ہر فرقے کے مختصات کو ترک کرنا اجماع مرکب کی مخالفت کرنا ہے اور اس کا نتیجہ ایسی چیز ہے جو یقینا حقیقی اسلام سے ہٹ کر کچھ اور ہے. اس لئے کہ کسی بھی فرقے کے مختص امور اسلام کا حصہ ہیں اور ان مشخصات و مختصات سے خالی اسلام کا کوئی وجود نہیں ہے۔

علاوہ از یں اتحاد اسلامی کی بلند فکر پیش کرنے والی شخصیات شیعہ میں مرحوم آیت اللہ العظمیٰ بروجردی قدّس سرّہ اور اہل سنت کے اندر علامہ شیخ عبد المجید سلیم اور علامہ شیخ محمود شلتوت نے بھی اس طرح نہیں سوچا تھا۔

جو چیز ان کے مدنظر رہی وہ یہ تھی کہ اسلامی فرقے در عین حال اگرچہ کلام و فقہ وغیرہ میں اختلاف رکھتے ہیں لیکن مشترکات جو زیادہ بھی ہیں ان کے واسطے سے اسلام کے خطرناک دشمن کے مقابلے میں دست برادری بڑھائیں اور ایک صف تشکیل دیں ان بزرگان نے ہرگزوحدت اسلامی کے عنوان سے وحدت مذہبی

ایجاد کرنے کا تصور نہیں کیا اس لئے کہ ایسی سوچ کبھی بھی عملی طور پر انجام پانے والی نہیں ہے۔(۲)

____________________

(۱) امامت و رہبری: ۱۷۔

(۲) امامت و رہبری:۱۸۔

۴۷

ایک گروہ یا ایک محاذ

شہید مطہری فرماتے ہیں :

عرف عام میں ایک گروہ اور ایک محاذ میں فرق پایا جاتا ہے ایک گروہ ہونے کا تقاضا یہ ہے کہ لوگ شخصی مسائل کے علاوہ فکر، راہ و روش اور نظریات میں ہمرنگ ہوں۔

جبکہ ایک محاذ کا معنیٰ یہ ہے کہ مختلف گروہ اور تنظیمیں مسلک، نظریات اور راہ و روش میں اختلاف کے باوجود مشترک امور کی بناء پر مشترک دشمن کے مقابلے میں ملکر صف آرائی کریں۔

اوریہ واضح سی بات ہے کہ اپنے مسلک کا دفاع، دوسرے بھائیوں کے مسلک پر اعتراض اور محاذ آرائی میں موجود افراد کو اپنے مسلک کی دعوت دینا دشمن کے مقابلے میں صف واحد تشکیل دینے سے کسی قسم کی منافات نہیں رکھتا۔

خصوصاً مرحوم آیت اللہ العظمیٰ بروجردی جس چیز کی فکر میں تھے وہ یہ تھی کہ برادران اہل سنت کے درمیان معارف اہل بیت علیہم السلام کو منتشر کرنے کی راہیں

۴۸

ہموار کر سکیں اور وہ معتقد تھے کہ یہ کام حسن تفاہم کے بغیر ممکن نہیں شیعہ فقہی کتب کے مصر میں مصریوں کے ہاتھوں چھپوائے جانے کی جو کامیابی آیت اللہ العظمیٰ بروجردی کو حاصل ہوئی یہ اسی حسن تفاہم کا نتیجہ تھا جو انہوں نے ایجاد کیا تھا اور علمائے شیعہ کے لئے یہ ایک بہت بڑی کامیابی تھیجزاه اللّٰه عن الاسلام و المسلمین خیر الجزائ .( ۱ )

کیا مسئلہ امامت اختلاف انگیز ہے؟

شاید کسی کے ذہن میں یہ سوال پیدا ہو کہ شیعہ و سنی یا شیعہ و وہابی کے درمیان اختلافی مسائل کو زیر بحث لانا وحدت مسلمین سے منافات رکھتا ہے اور بعض لوگوں کے لئے دل آزاری و تفرقہ کا باعث بنتا ہے۔

شہید مطہری کی رائے:

شہید مطہری اس بارے میں فرماتے ہیں :

بہر حال ''اسلامی اتحاد'' کی حمایت کا تقاضا یہ نہیں ہے کہ حقائق کو بیان کرنے میں کوتاہی برتی جائے جس چیز سے پرہیز کرنا ضروری ہے وہ یہ ہے کہ کوئی ایسا عمل انجام نہ دیا جائے جو مخالف کے احساسات اور اس کے کینے کو ابھارنے کا باعث بنے. جبکہ علمی گفتگو کا تعلق عقل و منطق سے ہے نہ کہ عواطف و احساسات سے.(۲ )

____________________

(۱) ایضا: ۱۸۔

(۲) ایضا: ۱۹۔

۴۹

آیت اللہ العظمیٰ مکارم شیرازی کی رائے:

حضرت آیت اللہ العظمیٰ مکارم شیرازی فرماتے ہیں :

بعض افراد جیسے ہی مسئلہ امامت کی بات آتی ہے تو فوراً بول اٹھتے ہیں کہ آج ان باتوں کا دن نہیں ہے!

آج وحدت مسلمین کا دن ہے اور جانشین پیغمبرصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے بارے میں گفتگو کرنا اختلاف و انتشار کا باعث بنتا ہے۔

آج ہم مشترک دشمن صہیونزم و استعمار شرق و غرب کے مقابلے میں کھڑے ہیں ہمیں ان کے بار ے میں فکر کرنی چاہیے، لہٰذا اختلافی مسائل کو مت چھیڑیں. جبکہ اس طرح کا طرز تفکر یقینا غلط ہے اس لئے کہ:

اول: جو چیز اختلاف و انتشار کا باعث بنتی ہے وہ تعصب آمیز، غیر منطقی اور کینہ انگیز بحث و گفتگو ہے جبکہ منطقی، مستدل، تعصب سے پاک، ضد سے خالی دوستانہ انداز میں بحث و گفتگو کرنا نہ یہ کہ تنہا اختلاف کا باعث نہیں بنتی بلکہ آپس کے فاصلوں کو کم کر کے مشترک مسائل کو تقویت دینے کا موجب بنتی ہے۔

میں نے خانہ کعبہ کی زیارت کے دوران حجاز کے سفر میں بارہا علمائے اہل سنت سے بحثیں کی ہیں ہم نے بھی اور انھوں نے بھی یہی احساس کیا کہ ایسی بحثیں نہ صرف برا اثر نہیں رکھتی ہیں بلکہ تفاہم و خوش بینی کا باعث بنتی ہیں ، فاصلوں کو کم اور سینوں سے نفاق کو دور کرتی ہیں ۔

اس سے بھی اہم یہ کہ ان بحثوں میں ہمارے لئے واضح ہوجاتا ہے کہ ہمارے درمیان مشترکات بہت زیادہ ہیں کہ جن کی بناء پر ہم مشترک دشمن کے مقابلے میں متحد ہونے کی تاکید کریں۔( ۱ )

____________________

(۱) پنجاہ درس اصول عقائد:۲۲۷۔

۵۰

آیت اللہ العظمیٰ فاضل لنکرانی کی رائے:

حضرت آیت اللہ فاضل لنکرانی ۲۰۰۲ئ میں ایام فاطمیہ کی مناسبت سے اپنے ایک پیغام میں فرماتے ہیں :

''راہ ولایت میں شہید ہونے والی اس سب سے پہلی اور عظیم شخصیت کی شہادت کی یاد منانا مقام ولایت سے تجدید عہد کرنا ہے جس کے ذریعے سے دین خدا کامل اور نعمت پروردگار انتہا تک پہنچی ہے.......

یہاں پہ میں اس نکتہ کا تکرار کرنا لازم سمجھتا ہوں کہ ان ایام کی تعظیم اور مجالس عزا برپا کرنا امام خمینی کی مسلّمہ اور عملی سیرت ہے جس کا مسئلہ وحدت سے کوئی تعلق نہیں ہے۔

مسئلہ وحدت جس کی امام خمینی اور آیت اللہ بروجردی قدس سرّھما نے تاکید فرمائی اس کا معنی یہ نہیں ہے کہ شیعہ اپنے مسلمہ عقائد کے بارے میں سکوت یا ان سے چشم پوشی کر لیں. بلکہ تمام مسلمانوں کا عالمی استکبار کے مقابلے میں متحد ہونا ہے جو سپرپاور ہونے کا دعویٰ کر رہا اور صہیونیوں کی پیروی میں اسلام کی بنیادوںکو مسمار

کرنے کی فکر میں مشغول ہے۔

تین جمادی الثانی حکومت اسلامی کی طرف سے سرکاری چھٹی کا دن ہے اس دن شیعوں کو چاہیے کہ وہ عزاداری کے جلوس لے کر گلیوں اور سڑکوں پرنکلیں تاکہ یوں اس شہیدہ کا حق کسی حد تک ادا کر سکیں۔

اسی طرح ۲۰۰۱ئ میں ایام فاطمیہ کی مناسبت سے اپنے ایک پیغام میں فرمایا: ''یہ درست ہے کہ بانی انقلاب اسلامی حضرت امام خمینی مسئلہ وحدت پر بہت زور دیتے تھے لیکن ان کا مقصد یہ نہیں تھا کہ شیعہ اپنے یقینی اور محکم عقائد سے دستبردار ہوجائیں۔

امام جمعہ زاہدان کی رائے:

مولوی عبد الحمید امام جمعہ زاہدان نے سترہ بہمن ۲۰۰۶ئ نماز جمعہ کے خطبہ میں کہا: ''جس کسی کے پاس جو بھی استدلال ہے اسے عقل و منطق کی روشنی میں بیان کرے اور اس پر کسی کو شکوہ نہیں ہے لیکن مقدسات کی توہین کسی بھی مذہب میں جائز نہیں ہے اور جو بھی اسے جائز سمجھے تو یہ نص قرآن و سنت کے خلاف ہے. ہمیں چاہیے کہ یہودو نصاریٰ کے مقدسات کی بھی توہین و بے احترامی نہ کریں۔

۵۱

وحدت کے لئے پیغمبرصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کا بیان کیا ہوا راستہ

الف: امت اسلام کے درمیان اختلاف کی پیشینگوئی:

اس میں کوئی شک نہیں کہ پیغمبرصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم امت مسلمہ کے مستقبل اور اس کے درمیا ن اختلا ف کے ایجاد ہونے سے باخبر تھے لہذا مسلمانوں کو تفرقہ بازی اور اختلاف کے تلخ نتائج سے آگاہ کرتے ہوئے کھلے الفاظ میں فرمایا:

تفرقت الیهود علی احدی وسبعین فرقة او اثنین و سبعین فرقة و النصارٰی مثل ذٰلک و تفترق اُمّتی علی ثلاث و سبعین فرقة ۔

ترجمہ: جس طرح امت موسی وعیسی اکہتر یا بہتر فرقوں میں تقسیم ہوگئیں اسی طرح میری امت بھی تہتر فرقوں میں بٹ جائے گی۔( ۱ )

اور بعض روایات میں ہے کہ آپ نے فرمایا:

کلهم فی النار الا ملة واحدة . ایک فرقہ کے علاوہ سارے کے سارے جہنمی ہوں گے۔( ۲ )

____________________

(۱) سنن ترمذی ۴:۲۷۷۸۱۳۴، ابواب الایمان، باب افتراق الامة؛ مسند احمد۲:۱۲۰۳۳۳۲؛ سنن ابن ماجہ ۲:۳۹۹۱۱۳۲۱. ترمذی نے کہا ہے: '' حدیث ابی ہریرة حسن وابو ہریرہ کی حدیث حسن ہے'' سنن ترمذی ۴:۲۷۷۸۱۳۴۔

وہابی عالم ناصر الدین البانی کہتا ہے: یہ حدیث صحیح ہے. سلسلة الاحادیث الصحیحة ۱:۲۰۴۳۵۸ اور ۳: ۱۴۹۲۴۸۰۔

حاکم نیشاپوری کہتا ہے:'' ہٰذا حدیث صحیح علی شرط مسلم ''۔یہ حدیث مسلم کی شرائط کے مطابق صحیح ہے'' مستدرک حاکم ۱:۱۲۸ اور ۴:۴۳۰۔

نیز ہیثمی کہتا ہے: '' یہ حدیث صحیح ہے'' مجمع الزوائد ۱:۱۷۹ اور ۱۸۹۔

(۲) سنن ترمذی ۴:۲۷۷۹۱۳۵؛ مسند احمد ۳:۱۴۵؛ مستدرک حاکم ۱: ۱۲۹؛ مجمع الزوائد ۱: ۱۸۹ اور ۶:۲۳۳. مصنف عبد الرزاق صنعانی ۱۰: ۱۵۵؛ عمرو بن ابی عاصم، کتاب السنة: ۷؛ کشف الخفاء عجلونی ۱:۱۴۹ اور ۳۰۹۔

۵۲

اوراس میں بھی کسی قسم کی تردید نہیں ہے کہ امت مسلمہ کااہم اختلاف امامت کے مسئلہ پرتھا جیسا کہ مشہور عالم اہل سنت شہر ستانی لکھتے ہیں :

واعظم خلاف بین الامة خلاف الامامة ، اذماسل سیف فی الاسلام علی قاعدة دینیة مثل ماسل علی الامامة فی کل زمان ( ۱ )

امت اسلام کے درمیان سب سے بڑااختلاف امامت کے بارے میں ہوااورکبھی بھی کسی دینی مسئلہ پراس قدر تلواریں میان سے نہ نکلیں جس قدر مسئلہ امامت پر۔

یہاں پہ یہ سوال پیش آتا ہے کہ وہ اسلامی حکومت جس کی تأسیس کیلئے پیغمبرصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے مسلسل تئیس سال زحمتیں اٹھائیں کیااس کے مستقبل کے بارے میں کوئی اقدام نہ کیا؟

کیا امت مسلمہ کی سر پرستی اور ہدایت کیلئے اپنے جانشین کا انتخاب کیے بغیر دار فنا سے دار بقاء کی طرف منتقل ہوگئے؟

کیا رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے تفرقہ بازی اور اختلاف سے بچنے کی کوئی راہ معین نہ فرمائی؟

یہ اور اس طرح کے سینکڑوں سوالات ایسے افراد سے صحیح جواب کے منتظر ہیں جو یہ کہتے ہیں کہ پیغمبرصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے اپنے بعد کسی کو جانشین معین نہیں فرمایا بلکہ یہ کام اُمت کے سپرد کرکے چلے گئے۔

____________________

(۱)ملل ونحل :۳۰

۵۳

قرآن و عترت سے تمسک ہی وحدت کی تنہا راہ:

شیعہ و سنی کتب کی ورق گردانی سے معلوم ہوجاتا ہے کہ رسالت مآبصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے امت مسلمہ کو اختلاف سے بچنے اور وحدت ایجاد کرنے کی راہ دکھا کر ہر شخص کی ذمہ داری معین فرمادی۔

آنحضرتصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے قرآن و اہل بیت عصمت و طہارت علیہم السلام سے تمسک ہی کو وحدت کا تنہا سبب بیان فرمایا ہے۔

یہ کہا جاتا سکتا ہے کہ مسلمانوں کے درمیان وحدت اور تقریب مذاہب کا منحصر ترین راستہ پیغمبرصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی وصیت پر عمل پیرا ہونا ہے اور وہ قرآن و اہل بیت علیہم السلام سے تمسک ہے جو ہدایت اور ہر طرح کی ضلالت و گمراہی سے بچانے کا ضامن ہے۔

رسول گرامی اسلامصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے بارہا لوگوں کو قرآن و اہل بیت علیہم السلام سے متمسک رہنے کا حکم فرمایا:

انی تارک فیکم ماان تمسّکتم به لن تضلوا بعدی ، احدهما اعظم من الآخر ، کتاب الله حبل ممدودمن السماء الی الارض وعترتی اهل بیتی ولن یتفرقا حتی یردا علی الحوض ، فانظرواکیف تخلفونی فیهما ،( ۱ )

____________________

(۱)صحیح ترمذی۵:۳۲۹، درالمنثور۷۶و۳۰۶الصواعق المحرقہ۱۴۷و۲۲۶،اسدالغابہ ۲:۱۲وتفسیرابن کثیر۴ : ۱۱۳.

۵۴

میں تمہارے درمیان دو گرانبہا چیزیں چھوڑ کر جا رہا ہوں اگر ان دونوں کا دامن تھامے رکھو گے تو ہرگز گمراہ نہ ہونے پاؤگے ان میں سے ایک دوسری سے عظیم ہے کتاب خدا آسمان سے زمین کی طرف معلق رسی ہے اور میرے اہل بیت. یہ دونوں ہرگز ایک دوسرے سے جدا نہ ہوں گے یہاں تک کہ حوض کوثر پر مجھے سے جا ملیں۔

بعض علمائے اہل سنت نے اس روایت کو صحیح شمار کیا ہے۔( ۱ )

____________________

(۱) ابن کثیر دمشقی کہتا ہے:'' و قد ثبت فی الصحیح ان رسول الله صلی علیه و آله و سلم قال فی خطبته بغدیر خم: انی تارک فیکم الثقلین کتاب الله و عترتی و انهما لم یفترقا حتیٰ یردا علی الحوض

صحیح روایت میں آیا ہے کہ رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے خطبۂ غدیر میں فرمایا: میں تمھارے درمیان دو قیمتی چیزیں چھوڑے جا رہا ہوں کتاب خدا اور میرے اہل بیت یہ دونوں ہرگز ایک دوسرے سے جدا نہ ہوں گے یہاں تک کہ حوض کوثر پر مجھ سے ملحق ہوں۔تفسیر ابن کثیر۴:۱۲۲. اور اسی طرح کہا ہے:''قال شیخنا ابو عبد الله الذهبی : ہذا حدیث صحیح میرے استاد ذہبی نے کہا ہے کہ یہ حدیث صحیح ہے۔ بدایة و نہایة۵: ۲۲۸۔

وہابی عالم ناصر الدین البانی نے بھی حدیث ثقلین کے صحیح ہونے کی وضاحت کی ہے۔ صحیح الجامع الصغیر۲:۲۱۷ ۲۴۵۴ اور ۱:۲۴۵۷۴۸۲۔

حاکم نیشاپوری کہتے ہیں :''هٰذا حدیث صحیح علی شرط الشیخین و لم یخرجاه بطوله''

یہ حدیث بخاری اور مسلم کی شرط کے مطابق صحیح ہے لیکن طولانی ہونے کی وجہ سے اسے ذکر نہیں کیاحاکم مستدرک ۳:۲۹۰۔

نیز ہیثمی نے بھی اس حدیث کو صحیح قرار دیا ہے۔مجمع الزوائد۱:۱۷۰۔

ابن حجر مکی شیعوںکے خلاف لکھی جانے والی اپنی کتاب میں لکھتا ہے:

'' روی هذا الحدیث ثلاثون صحابیاً و انّ کثیراً من طرقه صحیح و حسن''

یہ حدیث تیس صحابیوں نے نقل کی ہے ان میں اکثر احادیث کی سند صحیح اور حسن ہے۔الصواعق المحرقہ :۱۲۲۔

۵۵

اور بعض روایات میں ثقلین کی جگہ دو جانشین سے تعبیر کیا گیا ہے:

انی تارک فیکم خلیفتین: کتاب اللّٰه و عترتی أهل بیتی، و انهما لن یفترقا حتی یردا علی الحوض .( ۱ )

میں تمہارے درمیان دو جانشین چھوڑ کر جا رہا ہوں ایک کتاب خدا ہے اور دوسرے میرے اہل بیت ہیں یہ دونوں ایک دوسرے سے ہرگز جدا نہ ہوں گے یہاں تک کہ حوض کوثر پر مجھ سے جا ملیں گے۔

اور بعض روایات میں ذکر ہوا ہے:

فلا تقدموهما فتهلکوا، و لا تقصروا عنهما فتهلکوا، و لا تعلّموهم فانهم اعلم منکم .( ۲ )

ان پر سبقت مت لیں اور نہ ہی ان سے پیچھے رہیں ورنہ ہلاک ہوجاؤ گے اور نہ ہی ان کو سکھانے کی کوشش کریں اس لئے کہ وہ تم سے دانا تر ہیں ۔

ج: اہلبیت علیہم السلام حبل اللہ ہیں :

بعض اہل سنت مفسرین جیسے فخر رازی نے یہ حدیث اس آیت مجیدہ( وَاعْتَصِمُوا بِحَبْلِ ﷲ جَمِیعًا وَلاَتَفَرَّقُوا ) ،( ۳ ) و( ۴ )

____________________

(۱) مسند احمد۵: ۱۸۲ اور ۱۸۹ دو صحیح واسطوں سے نقل ہوئی. مجمع الزوائد ۹:۱۶۲؛ الجامع الصغیر۱:۴۰۲؛ تفسیر در المنثور۲ :۶۰۔

(۲) معجم الکبیر طبرانی ۵:۴۹۷۱۱۶۶؛ مجمع الزوائد۹:۱۶۳؛ تفسیر در المنثور۲:۶۰۔

(۳) آل عمران:۱۰۳۔

(۴)فخر رازی اس آیت کی تفسیر میں لکھتے ہیں : ''روی عن ابی سعید الخدری عن النبی صلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم انه قال: انی تارک فیکم الثقلین، کتاب الله تعالیٰ حبل ممدود من السماء الی الارض و عترتی اهل بیتی (تفسیر فخر رازی ۸:۱۷۳)۔

۵۶

اللہ کی رسی کو مضبوطی سے تھام لو اور تفرقہ میں مت پڑو کے ذیل میں ذکر کی ہے۔

اسی طرح آلوسی اس آیت مجیدہ کی تفسیر میں یہی حدیث زید بن ثابت سے نقل کرنے کے بعد کہتے ہیں : ''و ورد بمعنی ذلک اخبار کثیرة''

اس معنی میں بہت سی روایات نقل ہوئی ہیں ۔( ۱ )

ثعلبی (متوفی ۴۲۷ ھ) مفسر اہل سنت نے اسی آیت مجیدہ کی تفسیر میں امام صادق علیہ السلام سے نقل کیا ہے کہ آپ نے فرمایا:نحن حبل الله الذی قال الله :''واعتصموابحبل الله جمیعا ولاتفرقوا''

آج تو اس وحشی قوم کے مظالم اپنی انتھاء کو پہنچ چکے ہیں پارہ چنار کے نہتے ہم خدا کی وہ رسی ہیں جس کے بارے میں خداوند متعال نے فرمایا: خدا کی رسی کو مضبوطی سے تھام لو اور تفرقہ میں مت پڑو۔( ۲ )

حاکم حسکانی (متوفی ۴۷۰ھ تقریباً )اہل سنت عالم دین نے بھی رسول گرامیصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم سے نقل کیا ہے کہ آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے فرمایا:من احبّ أ ن یرکب سفینة النجاة و یتمسکبالعروة الوثقیٰ ویعتصم بحبل اللّٰه المتین فلیوال علیّاولیأتمّ بالهداة من ولده .(۳

____________________

(۱)تفسیر آلوسی ۴:۱۸. و اخرج احمد عن زید بن ثابت قال: قال رسول الله صلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم : انی تارک فیکم خلیفتین کتاب الله عزو جل ممدود مابین السماء و الارض و عترتی اهل بیتی و انهما لن یفترقاحتی یردا علی الحوض و ورد بمعنی ذٰلک اخبار کثیره ۔

(۲) تفسیر ثعلبی۳:۱۶۳، شواہد التنزیل ۱:۱۷۷۱۶۸؛ ینابیع المودة۱:۳۵۶ اور ۲:۳۶۸ اور ۳۴۰؛الصواعق المحرقہ: ۱۵۱، باب ۱۱ فصل ۱۔

(۳)شواہد التنزیل۱: ۱۷۷۱۶۸۔

۵۷

فصل دوم

وہابیت کی تاریخی جڑیں

اسلام کی پہلی صدی میں وہابیت کی بنیاد:

اگر آج ہم یہ مشاہدہ کر رہے ہیں کہ وہابیوں کے عقائد میں سے محکم ترین عقیدہ پیغمبرصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم اور آئمہ طاہرین علیہم السلام کی قبور کی زیارت کا حرام قراردینا ہے تو ماضی پر نگاہ ڈالنے سے معلوم ہوجاتا ہے کہ یہ کوئی جدید موضوع نہیں ہے بلکہ اسلام اور سیرت مسلمین کے مخالف یہ انحرافی تفکر پہلے ہی سے تاریخ میں موجود تھا کہ جس کے بعض نمونوں کی طرف اشارہ کیاجارہا ہے:

۱۔ معاویہ بن ابو سفیان متوفی ۶۰ھ :

مغیرہ بن شعبہ نے ایک ملاقات میں معاویہ سے کہا: بنو ہاشم اقتدار کو ہاتھ سے دے بیٹھے ہیں اب ان کی طرف سے تیری حکومت کو کوئی خطرہ نہیں ہے لہذا بہتر یہی ہے کہ ان پر سختی نہ کر اور ان سے دوستی قائم کرے۔

معاویہ نے جواب میں کہا:

ابوبکر، عمر ، عثمان آئے اور گزر گئے ان کا نام تک باقی نہیں ہے جبکہ ہر روز پانچ مرتبہ''اشهدانّ محمدا لرسول الله'' کی آواز کانوں تک پہنچتی ہے

۵۸

'' فای عمل یبقیٰ مع هذا لا أم لک!؟ لا واللّٰه دفناً دفناً''

ایسے میں بنو امیہ کے لئے کیا باقی بچا ہے خدا کی قسم ! جب تک نام پیغمبرصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم دفن نہ کردوں تب تک چین سے نہ بیٹھوں گا۔( ۱ )

اسی طرح ایک دن معاویہ نے مؤذن کو پیغمبرصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی رسالت کی گواہی دیتے ہوئے سنا تو اعتراضانہ انداز میں کہنے لگا:

اے فرزند عبد اللہ تو نے بہت ہمت کی یہاں تک کہ اپنے نام کو نام خدا کے ساتھ ملانے سے کمتر پر راضی نہ ہوا۔( ۲ )

یہی وجہ تھی کہ اہل سنت کے بہت بڑے عالم محمد رشید رضا لکھتے ہیں :

ایک مغربی دانشور نے کہا تھا: '' کس قدر شایستہ تھا کہ ہم معاویہ کا مجسمہ سونے سے بنا کر اُسے اپنے ملک کے دارالخلافہ کے چوک میں نصب کرتے'' جب اس سے اس کا سبب پوچھا گیا تو جواب دیا:

____________________

(۱) موفقیات زبیر بن بکار:۵۷۶؛ مروج الذہب۳: ۴۵۴ شرح حوادث سال ۱۲۱ھ؛ شرح نہج البلاغہ ابن ابی الحدید۵:۱۳۰؛ النصائح الکافیة:۱۲۴۔

(۲) شرح نہج البلاغہ ابن ابی الحدید۱۰:۱۰۱۔

۵۹

لانه هوالذی حوّل نظام الحکم الاسلامی عن قاعدته الدیمقراطیة الی عصبیة الغلب ، ولولاذلک لعم الاسلام العالم کله ، ولکنانحن الالمان، وسائر شعوب اروبةعربامسلمین ،( ۱ )

اس لئے کہ یہ معاویہ ہی تھا جس نے اسلامی حکومت کے جمہوری نظام کو شاہانہ نظام میں تبدیل کیا. اگر وہ یہ کام نہ کرتا تو اسلام سارے عالم پر غالب آجاتا اور ہم اہل جرمن اور یورپ کے تمام ممالک کے لوگ عربی مسلمان ہوتے۔( ۲ )

۲۔مروان بن حکم متوفی ۶۱ھ:

حاکم نیشاپوری اور (امام اہل سنت) احمد بن حنبل نقل کرتے ہیں :

مروان نے مسجد نبوی میں صحابی پیغمبرصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم ابو ایوب انصاری کو دیکھا کہ قبر پیغمبرصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم پر بیٹھا اپنا راز دل بیان کر رہا اور آنحضرتصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم سے اپنی عقیدت کا اظہار کر رہا ہے مروان نے ا نہیں گردن سے پکڑ ا اور کہا: أ تدری ما تصنع؟ جانتا ہے کیا کر رہا ہے؟

ابو ایوب انصاری نے اسے جواب دیتے ہوئے فرمایا:

'' جئت رسول الله]صلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم [ ولم آت الحجر ، سمعت رسول الله ]صلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم [ یقول : لا تبکوا علی الدین اذا ولیه اهله ، ولکن ابکوا

____________________

(۱)تفسیر المنار ،۱۱:۲۶۰، الوحی المحمدی :۲۳۲، محمودابوریة :۱۸۵،، مع الرجال الفکر،۱:۲۹۹،

(۲)تفسیر المناد ۱۱:۲۶۰؛الوحی المحمدی:۲۳۲؛محمود ابوریہ:۱۸۵؛ مع رجال الفکرا:۲۹۹۔

۶۰

61

62

63

64

65

66

67

68

69

70

71

72

73

74

75

76

77

78

79

80

81

82

83

84

85

86

87

88

89

90

91

92

93

94

95

96

97

98

99

100

101

102

103

104

105

106

107

108

109

110

111

112

113

114

115

116

117

118

119

120

121

122

123

124

125

126

127

128

129

130

131

132

133

134

135

136

137

138

139

140

141

142

143

144

145

146

147

148

149

150

151

152

153

154

155

156

157

158

159

160

161

162

163

164

165

166

167

168

169

170

171

172

173

174

175

176

177

178

179

180

181

182

183

184

185

186

187

188

189

190

191

192

193

194

195

196

197

198

199

200

201

202

203

204

205

206

207

208

209

210

211

212

213

214

215

216

217

218

219

220

221

222

223

224

225

226

227

228

229

230

231

232

233

234

235

236

237

238

239

240

241

242

243

244

245

246

247

248

249

250

251

252

253

254

255

256

257

258

259

260

261

262

263

264

265

266

267

268

269

270

271

272

273

274