وہابیت عقل و شریعت کی نگاہ میں

وہابیت عقل و شریعت کی نگاہ میں14%

وہابیت عقل و شریعت کی نگاہ میں مؤلف:
زمرہ جات: ادیان اور مذاھب
صفحے: 274

وہابیت عقل و شریعت کی نگاہ میں
  • ابتداء
  • پچھلا
  • 274 /
  • اگلا
  • آخر
  •  
  • ڈاؤنلوڈ HTML
  • ڈاؤنلوڈ Word
  • ڈاؤنلوڈ PDF
  • مشاہدے: 164116 / ڈاؤنلوڈ: 5560
سائز سائز سائز
وہابیت عقل و شریعت کی نگاہ میں

وہابیت عقل و شریعت کی نگاہ میں

مؤلف:
اردو

1

2

3

4

5

6

7

8

9

10

11

12

13

14

15

16

17

18

19

20

21

22

23

24

25

26

27

28

29

30

31

32

33

34

35

36

37

38

39

40

عصر حاضر میں وحدت و اتحاد کی اہمیت

اس میں شک نہیں ہے کہ ہم ایک ایسے زمانہ میں زندگی بسر کر رہے ہیں جہاں دشمنان اسلام، اسلام کی نابودی کے لئے آپس میں معاہدہ کرچکے ہیں اور اپنے تمام تر سیاسی و اقتصادی امکانات اسلام کو صفحہ ہستی سے مٹانے کے لئے بروئے کار لا رہے ہیں ۔

اسی طرح امریکی سی آئی اے کے سابق معاون ڈاکٹر مائیکل برانٹ نے اپنی کتاب (مکاتب الہی کو جدا کرنے کا منصوبہ Aplan to divis and d noylt theiology میں لکھتا ہے:

جو لوگ شیعوں سے اختلاف رائے رکھتے ہیں انھیں شیعوں کے خلاف منظم و مستحکم کر کے شیعوں کے کافر ہونے کے نظریہ کو عام کر کے انھیں معاشرے سے جدا کیا جائے اور ان کے خلاف نفرت انگیز تحریریں لکھی جائیں۔(۱)

____________________

(۱) اخبار جمہوری اسلامی ۱۳۸۳۳۵ اور ہفت روزہ افق حوزہ ۱۳۸۳۲۲۸۔

۴۱

Goldstone برطانوی سیاست دان اور سابق وزیر اعظم برطانیہ کہتا ہے:(یہ برطانوی سیاست دان ۸۰۹ا۔۱۸۹۸)چار بار اس ملک کا وزیر اعظم رہ چکا ہے۔

مادام هٰذاالقرآن موجوداًفی ایدی المسلمین،فلن تستطع أروباالسیطرة علی الشرق و لا أن تکون هی نفسها فی أمان .(۱)

جب تک مسلمانوں کے پاس قرآن موجود ہے تب تک نہ تو برطانیہ مشرق پر اپنا تسلط جما سکتا ہے اور نہ ہی خود امن کی سانس لے سکتا ہے۔

سابق اسرائیلی وزیر اعظم Ben Gurio(۲)

کہتا ہے:''انّ اخشی ما نخشاه أن یظهر فی العالم العربی، محمد جدید'' .(۳)

جس چیز نے ہمیں وحشت زدہ کر رکھا ہے وہ یہ ہے کہ کہیں عالم عرب میں کوئی نیا محمد نہ ظاہر ہوجائے۔

____________________

(۱) الاسلام علی مفترق الطرق:۳۹۔

(۲)یہی وہ شخص ہے جس نے اسرائیل کا نام تجویز کیا اور نو بار اس ملک کا وزیر اعظم بنا، اس نے اپنی زندگی کو صہیونزم کیلئے وقف کیا۔ ۱۹۴۸ئ میں فلسطین پر قبضہ کے لئے جنگ کی سر براہی اسی نے کی. اس کی وزارت کے دور میں جو واقعات رونما ہوئے وہ درج ذیل ہیں : ۱۔۱۹۴۸ئ کی جنگ ،۲۔ یہودیوں کی بے سابقہ ہجرت ،۳۔ یہودی آبادیوں کی افزائش ۴۔اسرائیل، برطانیہ اور فرانس کا ۱۹۵۶ئ میں مصر پر مشترکہ حملہ۔

(۳) اخبار الکفاح الاسلامی ۱۹۵۵ئ۔

۴۲

اگرچہ عیسائیوں کے مسلمہ اصول میں سے ایک حضرت عیسی علیہ السلام کا یہودیوں کے ہاتھوں تختہ دار پر لٹکایا جانا ہے جس کے باعث بیس صدیوں تک ان کے درمیان بغض و کینہ اور دشمنی عروج پر رہی ہے لیکن مسلمانوں کے مقابلے میں عیسائی و یہودی اتحاد کی خاطر حکومت واٹیکان نے سرکاری طور پر اس اصل سے چشم پوشی کا اعلان کر کے یہودیوں کو اس گناہ سے بری الذمہ قرار دے دیا ۔

اور تعجب کی بات تو یہ ہے کہ یہ اعلان ۱۹۷۳ئ میں اسرائیل کی مسلمانوں کے ساتھ جنگ کے دوران کیا گیا تاکہ یہودیوں اور عیسائیوں کی پوری طاقت مسلمانوں کے مقابلے میں صرف کر سکیں۔( ۱ )

مذکورہ بالا نکات سے پیغمبرصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے اس فرمان کی اہمیت واضح ہوجاتی ہے:

''من اصبح و لم یهتم بأمور المسلمین فلیس بمسلم'' ( ۲ )

ترجمہ: جو شخص اپنے دینی بھائیوں کی مشکلات کی فکر نہ کرے وہ مسلمان بھی نہیں ہے۔

واضح رہے کہ موجودہ حالات میں کسی قسم کی مشکوک حرکت جو مسلمانوں کی صفوں میں تفرقہ و جدائی کا باعث بنتی ہو، اسلام کے نفع میں نہیں ہے۔

اور ہر طرح کی گالی گلوچ اور ناروا گفتگو مسلمانوں کے درمیان وحدت و اتحاد

____________________

(۱) مع رجال الفکر فی القاہرة ۱:۱۶۲۔

(۲) اصول کافی ۲:۱۶۳۔

۴۳

اور تقریب مذاہب کونقصان پہنچانے سے بڑھ کر مکتب اسلام کے نورانی چہرے کو خدشہ دار کرنے اور اہل علم حضرات کے اسلام جیسے نورانی مکتب سے بدگمان ہونے کا باعث بنتی ہے۔

وحدت کے اہداف

وہ مسائل جن میں علمائے اسلام کے درمیان اختلاف پایاجاتاہے ان میں سے ایک وحدت کے اہداف کی جامع تعریف ہے اور یہ واضح ہونا چاہیے کہ وحدت کا مقصد تمام مذاہب کو ایک کرنا یا دوسرے مذاہب کو مٹانا نہیں ہے اور تقریب کے ادارے قائم کرنے و الو ں کی غرض بھی معتزلی کی جگہ اشعری ، سنی کو شیعہ، حنفی کو حنبلی بنانایا اس کے بر عکس نہیں تھی۔

اس لئے کہ یہ کام نہ تنہا دشوار بلکہ ناممکن ہے جب کہ ان کا مقصد تو مختلف مذاہب کے پیروکاروں کو مشترک امور کو مد نظر رکھتے ہوئے ایک دوسرے سے نزدیک کرنا اور تمام مسلمانوں کو دشمنان اسلام کے مقابلے میں ایک صف میں لا کر کھڑا کرنا تھا۔

مرحوم شیخ محمد تقی قمی بانی ''دار التقریب بین المذاھب الاسلامیة'' اور مدرسہ فیضیہ میں حضرت آیت اللہ العظمیٰ بروجردی کے نمائندے فرمایا کرتے:

اس ادارے کی تأسیس کا مقصد یہ نہیں ہے کہ شیعہ اپنے اصول و عقائد سے دوری اختیار کر لیں یا سنی اپنے عقائد کے مبانی سے دستبردار ہوجائیںمذاہب کے درمیان فاصلے کا سبب ان کا ایک دوسرے کے افکارو مبانی سے نا آشنا ہونا ہے. اس ادارے کی تأسیس کا مقصد یہ ہے کہ ہر ایک مذہب کے صاحب فکر حضرات آئیں اور اپنے اپنے عقائد کے مبانی کا تحفظ اور دوسروں کے عقائد کا احترام کرتے ہوئے پرسکون فضا میں اختلافی مسائل کو بیان کریں تاکہ ایک دوسرے کے افکار اور مذاہب کے درمیان مشترک امور سے آشنائی کے ضمن میں زیادہ سے زیادہ تفاہم پیدا ہو کہ جس کا فائدہ یقینا مذہب شیعہ کو ہے۔

۴۴

۲۴جنوری ۲۰۰۱ئ میں لندن کے اندر ایک ٹی وی چینل ANN نے وحدت مسلمین اور مذاہب اسلامی کے درمیان تقریب کے عنوان سے ایک کانفرنس کا اہتمام کیا جس میں ایرانی، لبنانی، مصری اور برطانوی مفکرین نے شرکت کی. اس کانفرنس سے ٹیلی فون پر خطاب کرتے ہوئے ''الازہر'' یونیورسٹی کے معاون اور مذاہب اسلامی کے درمیان گفتگوکا اھتمام کرنے والی کمیٹی کے چئر مین جناب شیخ محمد عاشور نے کہا:

فکرة التقریب بین المذاهب الاسلامیةلاتعنی توحید المذ اهب الاسلامیة ولاصرف ایّ مسلم مذهبه وصرف المسلم عن مذهبه تحت التقریب تضلیل فکرة التقریب...فان الاجتماع علی فکرة التقریب یجب ان یکون اساسه البحث والاقناع والاقتناع ، حتی یمکن لسلاح العلم والحجة محاربة الافکار الخرافیّة ...وان یلتقی علماء المذاهب ویتبادلون المعارف والدراسات لیعرف بعضهم بعضا فی هدوء العالم المتثبت الذی لاهم له الاان یدری یعرف ویقول فینتج .( ۱ )

مذاہب اسلامی کے درمیان تقریب کا مقصد تمام مذاہب کو ایک کرنا اور ایک مذہب کو چھوڑ کر دوسرے مذہب کو قبول کرنا نہیں ہے اس لئے کہ ایسی فکرتو تقریب کو اس کے ہدف سے ہٹانا ہے. تقریب کی بنیاد علمی گفتگو اور دوسرے کو قانع کرنے پر ہونی چاہیے تاکہ علم کے اسلحہ اور دلیل کے ذریعہ سے منحرف افکار کا مقابلہ کیا جا سکے... اور یہ کہ علمائے مذاہب مل بیٹھیں اور معارف کا تبادلہ کریں تاکہ پر امن ماحول میں ایک دوسرے کو سمجھیں اور نتیجہ حاصل کریں۔

شہید مطہری کی نگاہ میں وحدت کا غلط مفہوم لینا

شہید مطہری وحدت مسلمین سے غلط مفہوم لینے کے بارے میں لکھتے ہیں :

''.... اس میں شک نہیں ہے کہ مسلمانوں کی واضح ترین ضروریات میں سے ان کا آپس میں اتفاق و اتحاد ہے اور عالم اسلام کا اساسی ترین درد مسلمانوں کے درمیان وہی پرانے کینے ہیں دشمن بھی ہمیشہ انھیں سے فائدہ اٹھاتا ہے....

____________________

(۱)مطارحات فکریة فی القنوات الفضائیة، شمارۂ۳:۱۹سال۱۴۲۲ ھج؛ بازخوانی اندیشۂ تقریب:۳۱۔

۴۵

اس آخری صدی میں اسلامی روشن فکر علماء و فضلاء کے درمیان اسلامی اتحاد کا جو مفہوم لیا جا رہا ہے کہ اعتقادی یا غیر اعتقادی اصول سے چشم پوشی اختیار کی جائے یا یہ کہ تمام فرقوں کے مشترک امور کو لے کر ان کے مختص امور کو ترک کردیا جائے یہ کام نہ تو منطقی ہے اور نہ ہی عملی طور پر انجام پانے والا ہے۔

کیسے ممکن ہے کہ ایک مذہب کے پیروکاروں سے یہ تقاضا کیا جائے کہ وہ وحدت اسلام و مسلمین کے تحفظ کی خاطر فلاں اعتقادی یا عملی اصل کو چھوڑ دیں جبکہ وہ اصل ان کے نزدیک دین اسلام کا جزو شمار ہوتی ہو؟

یہ تو بالکل ویسے ہی ہے جیسے اُسے کہا جائے کہ اسلام کے نام پر اسلام کے ایک جزوسے روگردانی کر لیں...!( ۱ )

ہم خود شیعہ ہیں اور اہل بیت علیہم السلام کی پیروی کرنے پر افتخار کرتے ہیں چھوٹی سے چھوٹی چیز حتی ایک مستحب یا مکروہ عمل پر بھی معاملہ کرنے کو تیار نہیں ہیں اس بارے میں ہم نہ تو کسی سے توقع رکھتے ہیں کہ وہ اپنے اصول میں سے فلاں اصل کو اسلامی اتحاد کی خاطر ترک کردے اور نہ ہی اس بارے میں کسی کی فرمائش کو قبول کرتے ہیں ۔

جس چیز کی ہم توقع رکھتے ہیں وہ یہ ہے کہ حسن تفاہم کا ماحول ایجاد کیا جائے تاکہ ہمارے پاس جو اصول و فروع، فقہ، حدیث، کلام، فلسفہ اور ادبیات ہیں انھیں ایک

____________________

(۱) امامت و رہبری: ۱۶، چاپ صدرا۔

۴۶

بہترین چیز کے طور پر پیش کر سکیں اور شیعہ اس سے زیادہ زوال کی طرف نہ جائیں اسی طرح عالم اسلام کے بازاروںکو بھی شیعہ معارف کے لئے کھولا جائے( ۱ )

کیا مشترک امور پر عمل پیرا ہونا ممکن ہے؟

شہید مطہری اپنی گفتگوکو آگے بڑھاتے ہوئے فرماتے ہیں :

اسلام کے مشترک امور کو لینا اور ہر فرقے کے مختصات کو ترک کرنا اجماع مرکب کی مخالفت کرنا ہے اور اس کا نتیجہ ایسی چیز ہے جو یقینا حقیقی اسلام سے ہٹ کر کچھ اور ہے. اس لئے کہ کسی بھی فرقے کے مختص امور اسلام کا حصہ ہیں اور ان مشخصات و مختصات سے خالی اسلام کا کوئی وجود نہیں ہے۔

علاوہ از یں اتحاد اسلامی کی بلند فکر پیش کرنے والی شخصیات شیعہ میں مرحوم آیت اللہ العظمیٰ بروجردی قدّس سرّہ اور اہل سنت کے اندر علامہ شیخ عبد المجید سلیم اور علامہ شیخ محمود شلتوت نے بھی اس طرح نہیں سوچا تھا۔

جو چیز ان کے مدنظر رہی وہ یہ تھی کہ اسلامی فرقے در عین حال اگرچہ کلام و فقہ وغیرہ میں اختلاف رکھتے ہیں لیکن مشترکات جو زیادہ بھی ہیں ان کے واسطے سے اسلام کے خطرناک دشمن کے مقابلے میں دست برادری بڑھائیں اور ایک صف تشکیل دیں ان بزرگان نے ہرگزوحدت اسلامی کے عنوان سے وحدت مذہبی

ایجاد کرنے کا تصور نہیں کیا اس لئے کہ ایسی سوچ کبھی بھی عملی طور پر انجام پانے والی نہیں ہے۔(۲)

____________________

(۱) امامت و رہبری: ۱۷۔

(۲) امامت و رہبری:۱۸۔

۴۷

ایک گروہ یا ایک محاذ

شہید مطہری فرماتے ہیں :

عرف عام میں ایک گروہ اور ایک محاذ میں فرق پایا جاتا ہے ایک گروہ ہونے کا تقاضا یہ ہے کہ لوگ شخصی مسائل کے علاوہ فکر، راہ و روش اور نظریات میں ہمرنگ ہوں۔

جبکہ ایک محاذ کا معنیٰ یہ ہے کہ مختلف گروہ اور تنظیمیں مسلک، نظریات اور راہ و روش میں اختلاف کے باوجود مشترک امور کی بناء پر مشترک دشمن کے مقابلے میں ملکر صف آرائی کریں۔

اوریہ واضح سی بات ہے کہ اپنے مسلک کا دفاع، دوسرے بھائیوں کے مسلک پر اعتراض اور محاذ آرائی میں موجود افراد کو اپنے مسلک کی دعوت دینا دشمن کے مقابلے میں صف واحد تشکیل دینے سے کسی قسم کی منافات نہیں رکھتا۔

خصوصاً مرحوم آیت اللہ العظمیٰ بروجردی جس چیز کی فکر میں تھے وہ یہ تھی کہ برادران اہل سنت کے درمیان معارف اہل بیت علیہم السلام کو منتشر کرنے کی راہیں

۴۸

ہموار کر سکیں اور وہ معتقد تھے کہ یہ کام حسن تفاہم کے بغیر ممکن نہیں شیعہ فقہی کتب کے مصر میں مصریوں کے ہاتھوں چھپوائے جانے کی جو کامیابی آیت اللہ العظمیٰ بروجردی کو حاصل ہوئی یہ اسی حسن تفاہم کا نتیجہ تھا جو انہوں نے ایجاد کیا تھا اور علمائے شیعہ کے لئے یہ ایک بہت بڑی کامیابی تھیجزاه اللّٰه عن الاسلام و المسلمین خیر الجزائ .( ۱ )

کیا مسئلہ امامت اختلاف انگیز ہے؟

شاید کسی کے ذہن میں یہ سوال پیدا ہو کہ شیعہ و سنی یا شیعہ و وہابی کے درمیان اختلافی مسائل کو زیر بحث لانا وحدت مسلمین سے منافات رکھتا ہے اور بعض لوگوں کے لئے دل آزاری و تفرقہ کا باعث بنتا ہے۔

شہید مطہری کی رائے:

شہید مطہری اس بارے میں فرماتے ہیں :

بہر حال ''اسلامی اتحاد'' کی حمایت کا تقاضا یہ نہیں ہے کہ حقائق کو بیان کرنے میں کوتاہی برتی جائے جس چیز سے پرہیز کرنا ضروری ہے وہ یہ ہے کہ کوئی ایسا عمل انجام نہ دیا جائے جو مخالف کے احساسات اور اس کے کینے کو ابھارنے کا باعث بنے. جبکہ علمی گفتگو کا تعلق عقل و منطق سے ہے نہ کہ عواطف و احساسات سے.(۲ )

____________________

(۱) ایضا: ۱۸۔

(۲) ایضا: ۱۹۔

۴۹

آیت اللہ العظمیٰ مکارم شیرازی کی رائے:

حضرت آیت اللہ العظمیٰ مکارم شیرازی فرماتے ہیں :

بعض افراد جیسے ہی مسئلہ امامت کی بات آتی ہے تو فوراً بول اٹھتے ہیں کہ آج ان باتوں کا دن نہیں ہے!

آج وحدت مسلمین کا دن ہے اور جانشین پیغمبرصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے بارے میں گفتگو کرنا اختلاف و انتشار کا باعث بنتا ہے۔

آج ہم مشترک دشمن صہیونزم و استعمار شرق و غرب کے مقابلے میں کھڑے ہیں ہمیں ان کے بار ے میں فکر کرنی چاہیے، لہٰذا اختلافی مسائل کو مت چھیڑیں. جبکہ اس طرح کا طرز تفکر یقینا غلط ہے اس لئے کہ:

اول: جو چیز اختلاف و انتشار کا باعث بنتی ہے وہ تعصب آمیز، غیر منطقی اور کینہ انگیز بحث و گفتگو ہے جبکہ منطقی، مستدل، تعصب سے پاک، ضد سے خالی دوستانہ انداز میں بحث و گفتگو کرنا نہ یہ کہ تنہا اختلاف کا باعث نہیں بنتی بلکہ آپس کے فاصلوں کو کم کر کے مشترک مسائل کو تقویت دینے کا موجب بنتی ہے۔

میں نے خانہ کعبہ کی زیارت کے دوران حجاز کے سفر میں بارہا علمائے اہل سنت سے بحثیں کی ہیں ہم نے بھی اور انھوں نے بھی یہی احساس کیا کہ ایسی بحثیں نہ صرف برا اثر نہیں رکھتی ہیں بلکہ تفاہم و خوش بینی کا باعث بنتی ہیں ، فاصلوں کو کم اور سینوں سے نفاق کو دور کرتی ہیں ۔

اس سے بھی اہم یہ کہ ان بحثوں میں ہمارے لئے واضح ہوجاتا ہے کہ ہمارے درمیان مشترکات بہت زیادہ ہیں کہ جن کی بناء پر ہم مشترک دشمن کے مقابلے میں متحد ہونے کی تاکید کریں۔( ۱ )

____________________

(۱) پنجاہ درس اصول عقائد:۲۲۷۔

۵۰

آیت اللہ العظمیٰ فاضل لنکرانی کی رائے:

حضرت آیت اللہ فاضل لنکرانی ۲۰۰۲ئ میں ایام فاطمیہ کی مناسبت سے اپنے ایک پیغام میں فرماتے ہیں :

''راہ ولایت میں شہید ہونے والی اس سب سے پہلی اور عظیم شخصیت کی شہادت کی یاد منانا مقام ولایت سے تجدید عہد کرنا ہے جس کے ذریعے سے دین خدا کامل اور نعمت پروردگار انتہا تک پہنچی ہے.......

یہاں پہ میں اس نکتہ کا تکرار کرنا لازم سمجھتا ہوں کہ ان ایام کی تعظیم اور مجالس عزا برپا کرنا امام خمینی کی مسلّمہ اور عملی سیرت ہے جس کا مسئلہ وحدت سے کوئی تعلق نہیں ہے۔

مسئلہ وحدت جس کی امام خمینی اور آیت اللہ بروجردی قدس سرّھما نے تاکید فرمائی اس کا معنی یہ نہیں ہے کہ شیعہ اپنے مسلمہ عقائد کے بارے میں سکوت یا ان سے چشم پوشی کر لیں. بلکہ تمام مسلمانوں کا عالمی استکبار کے مقابلے میں متحد ہونا ہے جو سپرپاور ہونے کا دعویٰ کر رہا اور صہیونیوں کی پیروی میں اسلام کی بنیادوںکو مسمار

کرنے کی فکر میں مشغول ہے۔

تین جمادی الثانی حکومت اسلامی کی طرف سے سرکاری چھٹی کا دن ہے اس دن شیعوں کو چاہیے کہ وہ عزاداری کے جلوس لے کر گلیوں اور سڑکوں پرنکلیں تاکہ یوں اس شہیدہ کا حق کسی حد تک ادا کر سکیں۔

اسی طرح ۲۰۰۱ئ میں ایام فاطمیہ کی مناسبت سے اپنے ایک پیغام میں فرمایا: ''یہ درست ہے کہ بانی انقلاب اسلامی حضرت امام خمینی مسئلہ وحدت پر بہت زور دیتے تھے لیکن ان کا مقصد یہ نہیں تھا کہ شیعہ اپنے یقینی اور محکم عقائد سے دستبردار ہوجائیں۔

امام جمعہ زاہدان کی رائے:

مولوی عبد الحمید امام جمعہ زاہدان نے سترہ بہمن ۲۰۰۶ئ نماز جمعہ کے خطبہ میں کہا: ''جس کسی کے پاس جو بھی استدلال ہے اسے عقل و منطق کی روشنی میں بیان کرے اور اس پر کسی کو شکوہ نہیں ہے لیکن مقدسات کی توہین کسی بھی مذہب میں جائز نہیں ہے اور جو بھی اسے جائز سمجھے تو یہ نص قرآن و سنت کے خلاف ہے. ہمیں چاہیے کہ یہودو نصاریٰ کے مقدسات کی بھی توہین و بے احترامی نہ کریں۔

۵۱

وحدت کے لئے پیغمبرصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کا بیان کیا ہوا راستہ

الف: امت اسلام کے درمیان اختلاف کی پیشینگوئی:

اس میں کوئی شک نہیں کہ پیغمبرصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم امت مسلمہ کے مستقبل اور اس کے درمیا ن اختلا ف کے ایجاد ہونے سے باخبر تھے لہذا مسلمانوں کو تفرقہ بازی اور اختلاف کے تلخ نتائج سے آگاہ کرتے ہوئے کھلے الفاظ میں فرمایا:

تفرقت الیهود علی احدی وسبعین فرقة او اثنین و سبعین فرقة و النصارٰی مثل ذٰلک و تفترق اُمّتی علی ثلاث و سبعین فرقة ۔

ترجمہ: جس طرح امت موسی وعیسی اکہتر یا بہتر فرقوں میں تقسیم ہوگئیں اسی طرح میری امت بھی تہتر فرقوں میں بٹ جائے گی۔( ۱ )

اور بعض روایات میں ہے کہ آپ نے فرمایا:

کلهم فی النار الا ملة واحدة . ایک فرقہ کے علاوہ سارے کے سارے جہنمی ہوں گے۔( ۲ )

____________________

(۱) سنن ترمذی ۴:۲۷۷۸۱۳۴، ابواب الایمان، باب افتراق الامة؛ مسند احمد۲:۱۲۰۳۳۳۲؛ سنن ابن ماجہ ۲:۳۹۹۱۱۳۲۱. ترمذی نے کہا ہے: '' حدیث ابی ہریرة حسن وابو ہریرہ کی حدیث حسن ہے'' سنن ترمذی ۴:۲۷۷۸۱۳۴۔

وہابی عالم ناصر الدین البانی کہتا ہے: یہ حدیث صحیح ہے. سلسلة الاحادیث الصحیحة ۱:۲۰۴۳۵۸ اور ۳: ۱۴۹۲۴۸۰۔

حاکم نیشاپوری کہتا ہے:'' ہٰذا حدیث صحیح علی شرط مسلم ''۔یہ حدیث مسلم کی شرائط کے مطابق صحیح ہے'' مستدرک حاکم ۱:۱۲۸ اور ۴:۴۳۰۔

نیز ہیثمی کہتا ہے: '' یہ حدیث صحیح ہے'' مجمع الزوائد ۱:۱۷۹ اور ۱۸۹۔

(۲) سنن ترمذی ۴:۲۷۷۹۱۳۵؛ مسند احمد ۳:۱۴۵؛ مستدرک حاکم ۱: ۱۲۹؛ مجمع الزوائد ۱: ۱۸۹ اور ۶:۲۳۳. مصنف عبد الرزاق صنعانی ۱۰: ۱۵۵؛ عمرو بن ابی عاصم، کتاب السنة: ۷؛ کشف الخفاء عجلونی ۱:۱۴۹ اور ۳۰۹۔

۵۲

اوراس میں بھی کسی قسم کی تردید نہیں ہے کہ امت مسلمہ کااہم اختلاف امامت کے مسئلہ پرتھا جیسا کہ مشہور عالم اہل سنت شہر ستانی لکھتے ہیں :

واعظم خلاف بین الامة خلاف الامامة ، اذماسل سیف فی الاسلام علی قاعدة دینیة مثل ماسل علی الامامة فی کل زمان ( ۱ )

امت اسلام کے درمیان سب سے بڑااختلاف امامت کے بارے میں ہوااورکبھی بھی کسی دینی مسئلہ پراس قدر تلواریں میان سے نہ نکلیں جس قدر مسئلہ امامت پر۔

یہاں پہ یہ سوال پیش آتا ہے کہ وہ اسلامی حکومت جس کی تأسیس کیلئے پیغمبرصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے مسلسل تئیس سال زحمتیں اٹھائیں کیااس کے مستقبل کے بارے میں کوئی اقدام نہ کیا؟

کیا امت مسلمہ کی سر پرستی اور ہدایت کیلئے اپنے جانشین کا انتخاب کیے بغیر دار فنا سے دار بقاء کی طرف منتقل ہوگئے؟

کیا رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے تفرقہ بازی اور اختلاف سے بچنے کی کوئی راہ معین نہ فرمائی؟

یہ اور اس طرح کے سینکڑوں سوالات ایسے افراد سے صحیح جواب کے منتظر ہیں جو یہ کہتے ہیں کہ پیغمبرصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے اپنے بعد کسی کو جانشین معین نہیں فرمایا بلکہ یہ کام اُمت کے سپرد کرکے چلے گئے۔

____________________

(۱)ملل ونحل :۳۰

۵۳

قرآن و عترت سے تمسک ہی وحدت کی تنہا راہ:

شیعہ و سنی کتب کی ورق گردانی سے معلوم ہوجاتا ہے کہ رسالت مآبصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے امت مسلمہ کو اختلاف سے بچنے اور وحدت ایجاد کرنے کی راہ دکھا کر ہر شخص کی ذمہ داری معین فرمادی۔

آنحضرتصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے قرآن و اہل بیت عصمت و طہارت علیہم السلام سے تمسک ہی کو وحدت کا تنہا سبب بیان فرمایا ہے۔

یہ کہا جاتا سکتا ہے کہ مسلمانوں کے درمیان وحدت اور تقریب مذاہب کا منحصر ترین راستہ پیغمبرصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی وصیت پر عمل پیرا ہونا ہے اور وہ قرآن و اہل بیت علیہم السلام سے تمسک ہے جو ہدایت اور ہر طرح کی ضلالت و گمراہی سے بچانے کا ضامن ہے۔

رسول گرامی اسلامصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے بارہا لوگوں کو قرآن و اہل بیت علیہم السلام سے متمسک رہنے کا حکم فرمایا:

انی تارک فیکم ماان تمسّکتم به لن تضلوا بعدی ، احدهما اعظم من الآخر ، کتاب الله حبل ممدودمن السماء الی الارض وعترتی اهل بیتی ولن یتفرقا حتی یردا علی الحوض ، فانظرواکیف تخلفونی فیهما ،( ۱ )

____________________

(۱)صحیح ترمذی۵:۳۲۹، درالمنثور۷۶و۳۰۶الصواعق المحرقہ۱۴۷و۲۲۶،اسدالغابہ ۲:۱۲وتفسیرابن کثیر۴ : ۱۱۳.

۵۴

میں تمہارے درمیان دو گرانبہا چیزیں چھوڑ کر جا رہا ہوں اگر ان دونوں کا دامن تھامے رکھو گے تو ہرگز گمراہ نہ ہونے پاؤگے ان میں سے ایک دوسری سے عظیم ہے کتاب خدا آسمان سے زمین کی طرف معلق رسی ہے اور میرے اہل بیت. یہ دونوں ہرگز ایک دوسرے سے جدا نہ ہوں گے یہاں تک کہ حوض کوثر پر مجھے سے جا ملیں۔

بعض علمائے اہل سنت نے اس روایت کو صحیح شمار کیا ہے۔( ۱ )

____________________

(۱) ابن کثیر دمشقی کہتا ہے:'' و قد ثبت فی الصحیح ان رسول الله صلی علیه و آله و سلم قال فی خطبته بغدیر خم: انی تارک فیکم الثقلین کتاب الله و عترتی و انهما لم یفترقا حتیٰ یردا علی الحوض

صحیح روایت میں آیا ہے کہ رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے خطبۂ غدیر میں فرمایا: میں تمھارے درمیان دو قیمتی چیزیں چھوڑے جا رہا ہوں کتاب خدا اور میرے اہل بیت یہ دونوں ہرگز ایک دوسرے سے جدا نہ ہوں گے یہاں تک کہ حوض کوثر پر مجھ سے ملحق ہوں۔تفسیر ابن کثیر۴:۱۲۲. اور اسی طرح کہا ہے:''قال شیخنا ابو عبد الله الذهبی : ہذا حدیث صحیح میرے استاد ذہبی نے کہا ہے کہ یہ حدیث صحیح ہے۔ بدایة و نہایة۵: ۲۲۸۔

وہابی عالم ناصر الدین البانی نے بھی حدیث ثقلین کے صحیح ہونے کی وضاحت کی ہے۔ صحیح الجامع الصغیر۲:۲۱۷ ۲۴۵۴ اور ۱:۲۴۵۷۴۸۲۔

حاکم نیشاپوری کہتے ہیں :''هٰذا حدیث صحیح علی شرط الشیخین و لم یخرجاه بطوله''

یہ حدیث بخاری اور مسلم کی شرط کے مطابق صحیح ہے لیکن طولانی ہونے کی وجہ سے اسے ذکر نہیں کیاحاکم مستدرک ۳:۲۹۰۔

نیز ہیثمی نے بھی اس حدیث کو صحیح قرار دیا ہے۔مجمع الزوائد۱:۱۷۰۔

ابن حجر مکی شیعوںکے خلاف لکھی جانے والی اپنی کتاب میں لکھتا ہے:

'' روی هذا الحدیث ثلاثون صحابیاً و انّ کثیراً من طرقه صحیح و حسن''

یہ حدیث تیس صحابیوں نے نقل کی ہے ان میں اکثر احادیث کی سند صحیح اور حسن ہے۔الصواعق المحرقہ :۱۲۲۔

۵۵

اور بعض روایات میں ثقلین کی جگہ دو جانشین سے تعبیر کیا گیا ہے:

انی تارک فیکم خلیفتین: کتاب اللّٰه و عترتی أهل بیتی، و انهما لن یفترقا حتی یردا علی الحوض .( ۱ )

میں تمہارے درمیان دو جانشین چھوڑ کر جا رہا ہوں ایک کتاب خدا ہے اور دوسرے میرے اہل بیت ہیں یہ دونوں ایک دوسرے سے ہرگز جدا نہ ہوں گے یہاں تک کہ حوض کوثر پر مجھ سے جا ملیں گے۔

اور بعض روایات میں ذکر ہوا ہے:

فلا تقدموهما فتهلکوا، و لا تقصروا عنهما فتهلکوا، و لا تعلّموهم فانهم اعلم منکم .( ۲ )

ان پر سبقت مت لیں اور نہ ہی ان سے پیچھے رہیں ورنہ ہلاک ہوجاؤ گے اور نہ ہی ان کو سکھانے کی کوشش کریں اس لئے کہ وہ تم سے دانا تر ہیں ۔

ج: اہلبیت علیہم السلام حبل اللہ ہیں :

بعض اہل سنت مفسرین جیسے فخر رازی نے یہ حدیث اس آیت مجیدہ( وَاعْتَصِمُوا بِحَبْلِ ﷲ جَمِیعًا وَلاَتَفَرَّقُوا ) ،( ۳ ) و( ۴ )

____________________

(۱) مسند احمد۵: ۱۸۲ اور ۱۸۹ دو صحیح واسطوں سے نقل ہوئی. مجمع الزوائد ۹:۱۶۲؛ الجامع الصغیر۱:۴۰۲؛ تفسیر در المنثور۲ :۶۰۔

(۲) معجم الکبیر طبرانی ۵:۴۹۷۱۱۶۶؛ مجمع الزوائد۹:۱۶۳؛ تفسیر در المنثور۲:۶۰۔

(۳) آل عمران:۱۰۳۔

(۴)فخر رازی اس آیت کی تفسیر میں لکھتے ہیں : ''روی عن ابی سعید الخدری عن النبی صلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم انه قال: انی تارک فیکم الثقلین، کتاب الله تعالیٰ حبل ممدود من السماء الی الارض و عترتی اهل بیتی (تفسیر فخر رازی ۸:۱۷۳)۔

۵۶

اللہ کی رسی کو مضبوطی سے تھام لو اور تفرقہ میں مت پڑو کے ذیل میں ذکر کی ہے۔

اسی طرح آلوسی اس آیت مجیدہ کی تفسیر میں یہی حدیث زید بن ثابت سے نقل کرنے کے بعد کہتے ہیں : ''و ورد بمعنی ذلک اخبار کثیرة''

اس معنی میں بہت سی روایات نقل ہوئی ہیں ۔( ۱ )

ثعلبی (متوفی ۴۲۷ ھ) مفسر اہل سنت نے اسی آیت مجیدہ کی تفسیر میں امام صادق علیہ السلام سے نقل کیا ہے کہ آپ نے فرمایا:نحن حبل الله الذی قال الله :''واعتصموابحبل الله جمیعا ولاتفرقوا''

آج تو اس وحشی قوم کے مظالم اپنی انتھاء کو پہنچ چکے ہیں پارہ چنار کے نہتے ہم خدا کی وہ رسی ہیں جس کے بارے میں خداوند متعال نے فرمایا: خدا کی رسی کو مضبوطی سے تھام لو اور تفرقہ میں مت پڑو۔( ۲ )

حاکم حسکانی (متوفی ۴۷۰ھ تقریباً )اہل سنت عالم دین نے بھی رسول گرامیصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم سے نقل کیا ہے کہ آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے فرمایا:من احبّ أ ن یرکب سفینة النجاة و یتمسکبالعروة الوثقیٰ ویعتصم بحبل اللّٰه المتین فلیوال علیّاولیأتمّ بالهداة من ولده .(۳

____________________

(۱)تفسیر آلوسی ۴:۱۸. و اخرج احمد عن زید بن ثابت قال: قال رسول الله صلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم : انی تارک فیکم خلیفتین کتاب الله عزو جل ممدود مابین السماء و الارض و عترتی اهل بیتی و انهما لن یفترقاحتی یردا علی الحوض و ورد بمعنی ذٰلک اخبار کثیره ۔

(۲) تفسیر ثعلبی۳:۱۶۳، شواہد التنزیل ۱:۱۷۷۱۶۸؛ ینابیع المودة۱:۳۵۶ اور ۲:۳۶۸ اور ۳۴۰؛الصواعق المحرقہ: ۱۵۱، باب ۱۱ فصل ۱۔

(۳)شواہد التنزیل۱: ۱۷۷۱۶۸۔

۵۷

فصل دوم

وہابیت کی تاریخی جڑیں

اسلام کی پہلی صدی میں وہابیت کی بنیاد:

اگر آج ہم یہ مشاہدہ کر رہے ہیں کہ وہابیوں کے عقائد میں سے محکم ترین عقیدہ پیغمبرصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم اور آئمہ طاہرین علیہم السلام کی قبور کی زیارت کا حرام قراردینا ہے تو ماضی پر نگاہ ڈالنے سے معلوم ہوجاتا ہے کہ یہ کوئی جدید موضوع نہیں ہے بلکہ اسلام اور سیرت مسلمین کے مخالف یہ انحرافی تفکر پہلے ہی سے تاریخ میں موجود تھا کہ جس کے بعض نمونوں کی طرف اشارہ کیاجارہا ہے:

۱۔ معاویہ بن ابو سفیان متوفی ۶۰ھ :

مغیرہ بن شعبہ نے ایک ملاقات میں معاویہ سے کہا: بنو ہاشم اقتدار کو ہاتھ سے دے بیٹھے ہیں اب ان کی طرف سے تیری حکومت کو کوئی خطرہ نہیں ہے لہذا بہتر یہی ہے کہ ان پر سختی نہ کر اور ان سے دوستی قائم کرے۔

معاویہ نے جواب میں کہا:

ابوبکر، عمر ، عثمان آئے اور گزر گئے ان کا نام تک باقی نہیں ہے جبکہ ہر روز پانچ مرتبہ''اشهدانّ محمدا لرسول الله'' کی آواز کانوں تک پہنچتی ہے

۵۸

'' فای عمل یبقیٰ مع هذا لا أم لک!؟ لا واللّٰه دفناً دفناً''

ایسے میں بنو امیہ کے لئے کیا باقی بچا ہے خدا کی قسم ! جب تک نام پیغمبرصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم دفن نہ کردوں تب تک چین سے نہ بیٹھوں گا۔( ۱ )

اسی طرح ایک دن معاویہ نے مؤذن کو پیغمبرصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی رسالت کی گواہی دیتے ہوئے سنا تو اعتراضانہ انداز میں کہنے لگا:

اے فرزند عبد اللہ تو نے بہت ہمت کی یہاں تک کہ اپنے نام کو نام خدا کے ساتھ ملانے سے کمتر پر راضی نہ ہوا۔( ۲ )

یہی وجہ تھی کہ اہل سنت کے بہت بڑے عالم محمد رشید رضا لکھتے ہیں :

ایک مغربی دانشور نے کہا تھا: '' کس قدر شایستہ تھا کہ ہم معاویہ کا مجسمہ سونے سے بنا کر اُسے اپنے ملک کے دارالخلافہ کے چوک میں نصب کرتے'' جب اس سے اس کا سبب پوچھا گیا تو جواب دیا:

____________________

(۱) موفقیات زبیر بن بکار:۵۷۶؛ مروج الذہب۳: ۴۵۴ شرح حوادث سال ۱۲۱ھ؛ شرح نہج البلاغہ ابن ابی الحدید۵:۱۳۰؛ النصائح الکافیة:۱۲۴۔

(۲) شرح نہج البلاغہ ابن ابی الحدید۱۰:۱۰۱۔

۵۹

لانه هوالذی حوّل نظام الحکم الاسلامی عن قاعدته الدیمقراطیة الی عصبیة الغلب ، ولولاذلک لعم الاسلام العالم کله ، ولکنانحن الالمان، وسائر شعوب اروبةعربامسلمین ،( ۱ )

اس لئے کہ یہ معاویہ ہی تھا جس نے اسلامی حکومت کے جمہوری نظام کو شاہانہ نظام میں تبدیل کیا. اگر وہ یہ کام نہ کرتا تو اسلام سارے عالم پر غالب آجاتا اور ہم اہل جرمن اور یورپ کے تمام ممالک کے لوگ عربی مسلمان ہوتے۔( ۲ )

۲۔مروان بن حکم متوفی ۶۱ھ:

حاکم نیشاپوری اور (امام اہل سنت) احمد بن حنبل نقل کرتے ہیں :

مروان نے مسجد نبوی میں صحابی پیغمبرصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم ابو ایوب انصاری کو دیکھا کہ قبر پیغمبرصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم پر بیٹھا اپنا راز دل بیان کر رہا اور آنحضرتصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم سے اپنی عقیدت کا اظہار کر رہا ہے مروان نے ا نہیں گردن سے پکڑ ا اور کہا: أ تدری ما تصنع؟ جانتا ہے کیا کر رہا ہے؟

ابو ایوب انصاری نے اسے جواب دیتے ہوئے فرمایا:

'' جئت رسول الله]صلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم [ ولم آت الحجر ، سمعت رسول الله ]صلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم [ یقول : لا تبکوا علی الدین اذا ولیه اهله ، ولکن ابکوا

____________________

(۱)تفسیر المنار ،۱۱:۲۶۰، الوحی المحمدی :۲۳۲، محمودابوریة :۱۸۵،، مع الرجال الفکر،۱:۲۹۹،

(۲)تفسیر المناد ۱۱:۲۶۰؛الوحی المحمدی:۲۳۲؛محمود ابوریہ:۱۸۵؛ مع رجال الفکرا:۲۹۹۔

۶۰

علیه اذا ولیه غیر اهله '' .( ۱ )

میں پیغمبرصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے پاس آیا ہوں کسی پتھر کے پاس نہیں آیا اور میں نے پیغمبرصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم سے سنا ہے آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم فرما رہے تھے: جب تک دین کی سرپرستی اسکے اہل افراد

کر رہے ہوں تب تک اس پرگریہ نہ کرنا بلکہ دین پہ گریہ اس وقت کرنا جب نا اہل اس کے سرپرست بن بیٹھیں۔

۳۔ حجاج بن یوسف متوفی ۹۵ ھ

ابن ابی الحدید معتزلی شافعی( ۲ ) متوفی ۹۵ھ لکھتا ہے:

جب حجاج بن یوسف مدینہ منورہ گیا تو دیکھا لوگ پروانہ وار قبر پیغمبرصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے اردگرد مشغول ہیں تو کہنے لگا:

تبالهم!انمایطوفون باعواد ورمة بالیة ، هلا طا فو ا بقصرامیرالمومنین عبدالملک؟ الایعلمون ان خلیفة المرء خیر من رسوله ؟!

افسوس ان لوگوں پر جو پوسیدہ ہڈیوں کے ارد گرد گھوم رہے ہیں (نعوذ باللہ)

____________________

(۱) مستدرک علی الصحیحین ، ج۴، ص ۵۱۵؛ مسند احمد ، ج۵، ص ۲۲. تاریخ مدینہ دمشق ، ج۵۷، ص ۲۴۹، ومجمع الزوائد ، ج۵، ص ۲۴۵.

(۲)ابن ابی الحدید کے مذہب کو جاننے کے لئے کتاب وفیات الاعیان ابن خلکان۷: ۳۷۲ اور فوات الوفیات ابن شاکر ۲:۲۵۹ کا مطالعہ فرمائیں۔

۶۱

یہ لوگ امیر المؤمنین عبد الملک کے قصر کا طواف کیوں نہیں کرتے؟ کیا انھیں یہ معلوم نہیں کہ خلیفہ کا مقام پیغمبر خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم سے زیادہ ہے۔( ۱ )

ادبیات عرب کے ماہر مبرد متوفی ۲۸۶ھ لکھتے ہیں :

ان ذلک مماکفرت به الفقهاء الحجاج ،وانه انماقال ذلک والناس یطوفون بالقبر،

اسی بنا پر فقہاء نے حجاج کو کافر قرار دیا ہے چونکہ اس نے یہ بات اس وقت کہی جب لوگ قبر پیغمبرصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے ارد گرد مشغول تھے۔( ۲ )

۴۔ بربہاری متوفی ۳۲۹ ھ:

سب سے پہلی بارحسن بن علی بربہاری معروف حنبلی عالم نے زیارت قبور، نوحہ خوانی اور امام حسین علیہ السلام کے مصائب کو پڑھنا حرام قرار دیا۔( ۳ )

۵۔ ابن بطّہ متوفی ۳۸۷ھ:

ابن تیمیہ کے بقول حنبلی فقیہ عبید اللہ بن محمد بن حمدان عکبری معروف ابن بطّہ نے زیارت و شفاعت پیغمبرصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کا انکار کیا اور وہ معتقد تھا کہ پیغمبرصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی قبر مبارک کی زیارت کی نیت سے سفر کرنا گناہ ہے لہذا اس سفر میں پوری نماز پڑھی جائے۔( ۴ )

____________________

(۱)شرح نہج البلاغہ ۱۵:۳۴۲،النصائح الکافیة :۱۰۶

(۲)الکامل فی الغةوالادب ۱:۲۲۲، طبع نہضت مصر،

(۳)نشورالمحاضرة ، ۲:۱۳۴

(۴)الرد علی الاخنائی ، ابن تیمیہ :۲۷،شفاء السقام :۲۶۳،

۶۲

۶۔ ابن تیمیہ متوفی ۷۲۷ھ:

تقی الدین احمد بن عبد الحلیم بن تیمیہ مفکر وہابیت نے آٹھویں صدی ہجری میں مذکورہ بالا عقائد کو ایک جدید انداز میں بیان کر کے امت اسلام میں شدید تفرقہ ایجاد کیا۔

۷۔ محمد بن عبد الوہاب متوفی ۱۲۰۵ ھ:

بارہویں صدی ہجری میں بانی و رہبر وہابیت محمد بن عبد الوہاب نے شاہ فہد کے جد اعلی محمد بن سعود کے تعاون اور برطانوی فوجی مشیروں کی مدد سے سعودی عرب کے علاقے نجد اور درعیہ میں افکار ابن تیمیہ یا بالفاظ دیگر افکار بنو اُمیہ کی ترویج کا کام شروع کیا۔

۶۳

وہابیت ایک نظر میں

الف: وہابی افکار کی بنیاد:

وہابی افکار کی تبلیغ باقاعدہ طور پر ۶۹۸ ھ میں شام میں ابن تیمیہ کے توسط سے عقائد میں شدید انحراف اور اسلامی فرقوں کے کفر و شرک کے اثبات کی بناء پر شروع ہوئی جسے اہل سنت اور شیعہ علماء کی سخت مخالفت کا سامنا کرنا پڑا. ابن تیمیہ نے ۷۲۷ ھ میں دمشق کے ایک زندان میں وفات پائی اس کی موت کے ساتھ ہی اس کے افکار بھی دفن ہو گئے۔

۱۱۵۸ ھ میں محمد بن عبد الوہاب نے حاکم درعیہ محمد بن سعود کے تعاون سے سرزمین نجد میں نئے سرے سے ابن تیمیہ کے افکار کو زندہ کیا جس کے نتیجہ میں سخت لڑائی ہوئی اور وہابیوں نے سواحل خلیج فارس اور حجاز کے تمام علاقوں پر قبضہ کر لیا۔

ب: سب سے پہلی سعودی حکومت:

خاندان سعود نے ۷۵ سال مسلسل ۱۲۳۳ ھ تک حکومت کی:

۱۔ محمد بن سعود، حاکم اور امام وہابیت ۱۱۵۷ھ میں ۱۱۷۹ھ تک

۲۔ عبد العزیز بن محمد اپنے باپ کے بعد وہابیوں کا حاکم۱۱۳۳ھ سے ۱۲۱۸ھ تک

۳۔سعود بن عبد العزیز متوفی ۱۲۲۹ھ

۴۔ عبد اللہ بن سعود ۱۲۳۳ھ میں استنبول میں قتل کردیا گیا۔

استنبول میں عبد اللہ بن سعود کے قتل اور عثمانی حکمران ابراہیم پاشا کے ہاتھوں حکومت نجد کے قلع و قمع ہونے سے سعودی خاندان قدرت کو ہاتھ سے دے بیٹھا اور پھر اسّی (۸۰) سال گوشہ نشینی میں گزارے۔

۶۴

ج۔نابودی کے بعد وہابی قبیلوں کے سردار:

۱۔ترکی بن عبداللہ بن محمد بن سعود ۱۲۴۹ھ میں قتل کردیاگیا۔

۲۔فیصل بن ترکی بن عبداللہ ولادت۱۲۱۳ھ وفات۱۲۸۲ھ

۳۔عبدالرحمن بن فیصل بن ترکی متوفی۱۳۴۶ھ

د: دوسری سعودی حکومت:

ملک عبد العزیز بن عبد الرحمن ۱۳۱۹ھ میں کویت سے سعودیہ واپس پلٹا اور وہابی مسلک کے بچ جانے والے پیروکاروں اور برطانیہ و فرانس کی بے تحاشا مدد سے بیس سال کی جد و جہد کے بعد دوبارہ حجاز پر قبضہ کر لیا. حجاز کا نام سعودی میں تبدیل کر کے آل سعود کی حکومت کی بنیاد رکھی اور ۵۴ سال حکومت کرنے کے بعد ۱۳۷۳ھ میں مرا. اب بھی اسی کی اولاد اس ملک پر حکومت کر رہی ہے۔( ۱ )

____________________

(۱)تاریخ وھابیت ومجلہ ھفت آسمان سال اول شمارہ سوم وچھارم :۱۷۷

۶۵

ھ۔عبدالعزیز کا حجاز پرقبضہ:

عبد العزیز بن عبد الرحمن آل سعود ۱۸۸۰ئ میں پیدا ہوا، حاکم ریاض (الرشید) کی سختیوں سے تنگ آکر جوانی میں اپنے خاندان کے ہمراہ اپنی پیدائش گاہ ریاض کو ترک کرکے کویت چلا گیا. دسمبر ۱۹۰۱ئ اکیس سال کی عمر میں اپنے چالیس کے قریب حامیوں کے ہمراہ نجد پرقبضہ کرنے کی نیت سے ریاض واپس پلٹا. ۱۹۰۲ئ کے اوائل میں ریاض کو اپنے کنٹرول میں لے لیا اور (الرشید) کے اثر کو کم کرنے کی کوششیں کرنے لگا۔

۱۹۰۴ئ میں عثمانی فوجیوںکی حمایت سے پورے نجد کو (الرشید) سے چھین لیا اور پھر ۱۹۰۶ئ میں (الرشید) کی موت سے عبد العزیز کیلئے راستہ کھل گیا، آہستہ آہستہ (الرشید) کی حکومت کے تحت تمام علاقوں پر قبضہ کر لیا۔

۱۹۱۳ئمیں احساء کا علاقہ بھی اپنی حکومت میں شامل کر کے سواحل خلیج فارس تک پہنچ گیا۔

برطانوی حکومت نے جو عثمانیوں کو سر زمین عرب سے دور اور خود ان پر قبضہ کرنے کی تگ و دو کر رہی تھی ۱۹۱۶ئ پہلی جنگ عظیم کے اواسط میں نجد اور احساء پر

۶۶

عبد العزیز کی حکومت کو باقاعدہ طور پر تسلیم کر لیا۔

عبد العزیز نے ۱۹۲۵ئ میں شریف مکہ اور برطانوی حکومت کے اختلاف سے فائدہ اٹھاتے ہوئے حجاز پر اپنا کنٹرول جما کر اپنے آپ کو نجد و حجاز کا بادشاہ ا علان کرد یا۔

سات جنوری۱۹۲۵ئ کو اپنی مملکت کا نام سعودی رکھ دیا. ۱۹۲۷ئ میں حکومت برطانیہ نے میثاق جدہ کے تحت پہلی عالمی جنگ کے دوران جو علاقہ عثمانیوں کے پاس تھا اُسے سعودی حکومت کا حصہ اعلان کر دیا. آٹھ شوال ۱۹۲۶ئ میں آل سعود نے جنت البقیع کو ویران کیاسعودی حکومت کی تاسیس کا باقاعدہ طور پر اعلان ۲۳ ستمبر۱۹۳۲ئ بمطابق ۲۳ جمادی الاول۱۳۵۱ ھ کو ہوا۔

ملک سعودبن عبدالعزیز:

۱۳۱۹ہجری میں پیداہوااوراپنے باپ کی وفات کے بعد ۱۳۷۷ھ سے ۱۳۸۸ھ تک گیارہ سال حکومت سنبھالی ۔

ملک فیصل بن عبد العزیز:

۱۳ھ میں پیدا ہوا اور اپنے بھائی ملک سعود کی وفات کے بعد سات سال سعودی عرب پر حکومت کی اور اپنی حکومت کے دوران حرمین شریفین کو وسیع کیا۔

۶۷

ملک خالد بن عبد العزیز:

۱۳۳۱ھ میں پیدا ہوااور اپنے بھائی شاہ فیصل کی وفات کے بعد ۱۳۹۵ھ سے ۱۴۰۲ ھ سات سال حکومت کی۔

ملک فہد بن عبد العزیز: ۱۳۴۰ میں پیدا ہوا اور اپنے بھائی خالدکی وفات کے بعد ۱۴۰۲ھ سے ۱۴۲۶ ھ تک ۲۴ سال تک سعودی عرب پر حکومت کی۔( ۱ )

ملک عبد اللہ بن عبد العزیز:

۱۳۵۲ھ میں پیدا ہوا اور اپنے بھائی شاہ فہد کی وفات کے بعد ۱۴۲۶ھ میں ۷۶ سال کی عمر میں سعودی عرب کا بادشاہ بنا۔

____________________

(۱)رسائل ائمة الدعوة التوحید ، ڈاکٹر فیصل بن مشعل بن سعود بن عبدالعزیز ،

۶۸

وہابی فرقہ کے بانی

افکار وہابیت کا بانی ابن تیمیہ:

احمد بن تیمیہ مفکر وہابیت سقوط بغداد کے پانچ سال بعد ۶۶۱ھ میں شام کے ایک علاقہ حرّان میں پیدا ہوا. ابتدائی تعلیم وہیں پہ حاصل کی اور پھر شام پر مغلوں کے حملے کے بعد اپنے خاندان کے ہمراہ دمشق میں جاکر رہائش پذیر ہوگیا۔( ۱ )

۱۔ ابن تیمیہ کا سب سے پہلا انحراف:

۶۹۸ھ میں آہستہ آہستہ ابن تیمیہ کے منحرف عقائد ظاہر ہونے لگے. خاص طور پر حماة (دمشق سے ایک سو پچاس کلو میٹر کے فاصلہ پر ایک شہر کا نام ہے) میں اس آیت شریفہ:( الرحمن علی العرش استویٰ ) ( ۲ )

ترجمہ:وہ رحمان عرش پر اختیار اور قدرت رکھنے والا ہے ۔

کی تفسیر بیان کرتے ہوئے کہا: خداوند متعال آسمانوں کی بلندی میں تخت پر بیٹھا ہے یوں خدا کے لئے سمت کو معین کیا۔( ۳ )

____________________

(۱)الدررالکامنة۱:۱۴۴.

(۲)طہ:۲۰۔

(۳)اس نے عقدہ الحمویہ ص: ۴۲۹لکھا ہے :ان الله تعالی فوق کل شئی وعلی کل شئی وانه فوق العرش وانه فوق السمائ ...،

۶۹

یہ تفسیر ان قرآنی آیات کے مخالف ہے جن میں فرمایا:( لیس کمثله شئی ) اور( ولم یکن له کفوااحد، )

ان آیات میں خداوند متعال کو مخلوقات کی صفات کے ساتھ تشبیہ سے منزہ قرار دیا گیا ہے۔

۲۔ ابن تیمیہ کے افکار کا عکس العمل:

ابن تیمیہ کے باطل افکار نے دمشق اور اس کے اطراف میں غوغا مچا دیا. کچھ فقہا ء نے اس کے خلاف قیام کیا اور قاضی وقت جلال الدین حنفی سے ابن تیمیہ کا محاکمہ کرنے کا تقاضا کیا لیکن اس نے عدالت میں پیش ہونے سے انکار کردیا۔

ابن تیمیہ ہمیشہ اپنے منحرف عقائد کے ذریعہ سے عمومی افکار کو آلودہ کرتا رہتا یہاں تک کہ ۸ رجب ۷۰۵ ھ کو شہر کے تمام قاضی ابن تیمیہ کو لے کر نائب السلطنة کے قصر میں حاضر ہوئے اور اس کی کتاب ''الواسطیة'' پڑھی گئی، کمال الدین بن زملکانی( ۱ ) کے ساتھ دوبار مناظرہ کرنے کے بعد جب ابن تیمیہ کے عقائد وافکار کے منحرف ہونے کا یقین ہوگیا تو اسے مصرجلاوطن کردیا گیا ۔

____________________

(۱) ابن زملکانی محمد بن علی کمال الدین متوفی ۷۲۷ھ اپنے دور کا شافعی فقیہ اور مذہب شافعی کا لیڈر تھا(الاعلام۶:۲۸۴) یا فعی کہتا ہے: وہ امام، علامہ اور منطقہ شامات کا تنہا مفتی تھا اپنے زمانہ میں مذہب شافعی کا استاد، قاضی القضاة، روایات کے متن، مذہب اور اس کے اصول کے بارے میں آشنائی میں نابغہ تھا.(مرآة الجنان۴؛۱۷۸)

ابن کثیر کہتے ہیں : اپنے زمانہ میں مذہب شافعی کا استاد تھا تدریس، فتویٰ اور مناظرہ کا عہدہ اسی کے سپرد کیا گیا وہ اپنے ہم شافعی علماء سے برتری پا گیا (البدایة و النہایة ۱۴ :۱۵۲ ) ۔

۷۰

وہاں پہ بھی اپنے غلط عقائد کو پھیلانے کے سبب قاضی وقت ابن محلوف مالکی کے دستور پر زندان میں ڈال دیا گیا اور پھر ۲۳ ربیع الاول ۷۰۷ھ کو زندان سے آزاد ہوا۔

۳۔ ابن تیمیہ کا محاکمہ:

ابن کثیر لکھتے ہیں :

شوال ۷۰۷ھ میں ابن عربی کے خلاف جسارت کرنے کی بناء پر صوفیوں نے حکومت مصر سے ابن تیمیہ کے خلاف شکایت کی. شافعی قاضی کوفیصلے کا حکم دیا گیا مجلس محاکمہ تشکیل پائی لیکن ابن تیمیہ کے خلاف کوئی خاص بات ثابت نہ ہو سکی. اس نے اسی مجلس میں کہا:

استغاثہ فقط خدا ہی سے جائز ہے اور پیغمبرصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم سے مدد طلب نہیں کی جا سکتی ہاں ان سے توسل اور شفاعت طلب کی جا سکتی ہے۔

لیکن قاضی بدر الدین کو احساس ہوا کہ اس نے مسئلہ توسل میں پیغمبرصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے احترام کو مد نظر نہیں رکھا لہذا شافعی قاضی کو نامہ لکھا کہ اسے شریعت کے مطابق سزا دی جائے۔

۷۱

شافعی قاضی نے کہا: میں نے ابن تیمیہ کے بارے میں بھی وہی بات کہی جو دوسرے منحرف لوگوں کے بارے میں کہتا ہوں. اس وقت حکومت مصر نے ابن تیمیہ کو دمشق، اسکندریہ یا زندان میں سے ایک کو انتحاب کرنے کا حکم دیا جس پر ابن تیمیہ نے زندان کو انتحاب کیا اور زندان روانہ کردیا گیا۔( ۱ )

بالآخر ۷۰۸ھ میں زندان سے باہر آیا لیکن دوبارہ انہی عقائد کی تبلیغ کی وجہ سے ۷۰۹ھ ماہ صفر کے آخرمیں اسے اسکندریہ مصر جلاوطن کردیا گیا وہاں سے آٹھ ماہ کے بعد دوبارہ قاہرہ آگیا ابن کثیر لکھتے ہیں :

۲۲رجب ۷۲۰ھ ابن تیمیہ کو دارالسعادة میں حاضر کیا گیا اور مذاہب اسلامی (حنفی ، مالکی ، شافعی اورحنبلی )کے قاضیوں اور مفتیوں نے مذاہب اسلامی کے خلاف فتوی صادر کرنے کی بناء پر اس کی مذمت کی اوراسے زندان میں ڈالنے کا حکم دے دیا یہاں تک کہ دومحرم۷۲۱ھکو زندان سے رہائی ملی ۔( ۲ )

____________________

(۱)(ابن کثیر البرزاسیسے نقل کرتے هوئے کهتے هیں :(وفی شوال منها شکی الصوفیه بالقاهره علی الشیخ تقی الدین وکلموه فی ابن عربی وغیره الی الدولة فردواالامر فی ذلک الی القاضی الشافعی فعقد له مجلس وادعی علیه ابن عطاء باشیا ء فلم یثبت علیه منها شئی لکنه قال :(لایستغاث الا بالله لا یستغاثة بمعنی العبادة ، ولکن یتوسل به ویتشفع به الی الله )فبعض الحاضرین قال لیس علیه فی هذا شئی

ورای القاضی بدرالدین بن جماعة ان هذا فیه قلّة ادب فحضرت رسالة الی القاضی ان یعمل معه ما تقتضیه الشریعة ، فقال القاضی قد قلت له مایقال لمثله ، ثم ان الدولة خیروه بین اشیاء اما ان یسیر الی دمشق اوالاسکندریة بشروط اوالحبس ، فاختار الحبس ، بدایة النهایه ۱۴:۵۱،)

(۲)( وفی یوم الخمیس ثانی عشرین رجب عقد مجلس بدار السعادة الشیخ تقی الدین بن تیمیه بحضرة نائب السلطنة وحضر فیه القضاة والمفتیون من المذاهب وحضر الشیخ وعاتبوه علی العود الی الافتاء بمسالة الطلاق ثم حبس فی القلعة فبقی فیها خمسه اشهر وثمانیة یوما ، ثم ورد مرسوم من السلطان باخراجه یوم الاثنین یوم عاشوراء من سنة احدی وعشرین ) البدایه والنهایه ۱۴:۱۱۱، حوادث سال ۷۲۶هجری

۷۲

ابن حجر عسقلانی کہتے ہیں :

ابن تیمیہ کو محاکمہ کے لئے مالکی قاضی کے سامنے پیش کیاگیا لیکن اس نے قاضی کے سامنے جواب دینے سے انکار کردیا اورکہا:یہ قاضی مجھ سے دشمنی رکھتا ہے قاضی نے جس قدر اصرار کیا اس نے جواب نہ دیا ، اس پر قاضی نے اسے ایک قلعہ میں بندکردینے کا حکم صادر کیا ۔

جب قاضی کو خبر ملی کہ کچھ لوگ ابن تیمیہ کے پاس آجارہے ہیں تو اس نے کہا: اس کفر کی وجہ سے جو اس سے ثابت ہوا ہے اگر اسے قتل نہ کیاجائے تو اس پر سختی ضرورکی جائے اورپھر اسے ایک الگ زندان میں منتقل کرنے کا حکم دیا ۔

جب قاضی اپنے شہر واپس پلٹا تو دمشق میں ایک عام اعلان کیاگیا :

(من اعتقد عقیدة ابن تیمیة حل دمه وماله ، خصوصا الحنابلة ) جو بھی ابن تیمیہ کا عقیدہ رکھے اس کا خون اورمال مباح ہے خاص طور پر حنبلی لوگوں کا ۔

دمشق کی جامع مسجد میں اہل سنت کے ایک بہت بڑے عالم نے یہ اعلان لوگوں کو سنا یا کہ جس کے بعد حنبلی اوروہ لوگ جو ابن تیمیہ کی پیروی میں متہم تھے جمع ہوئے اور شافعی مذہب کے پیروکا رہونے کا اعلان کیا ۔( ۱ )

____________________

(۱)(فادعی علی ابن تیمیه عندالمالکی فقال :عدوّی ولم یجب عن الدعوی ، فکرر علیه فاصر، فحکم المالکی بحسبه فاقیم من المجلس وحبس فی برج، ثم بلغ المالکی ان الناس یتر دد ون الیه ، فقال :یجب التضیق علیه ان لم یقتل والا فقد ثبت کفره فنقلوه لیلة عید الفطر الی الجب وعاد القاضی الشافعی الی ولایه ونودی بدمشق من اعتقد عقیدة ابن تیمیة حل دمه وماله ، خصوصا الحنابلة ، فنودی بذلک وقری ء المرسوم وقراها ابن الشهاب محمود فی الجامع ثم جمعو ا الحنابلة من الصالحیة وغیرها واشهد وا علی انهم علی معتقد الامام الشافعی )الدررالکامنه ۱:۱۴۷

۷۳

علماء اہل سنت اورابن تیمیہ کی مخالفت

۱۔ذہبی،ابن تیمیہ کے پیروکاروں کوپست،ذلیل اور مکار سمجھتا :

ذہبی متوفی ۷۷۴ھاہل سنت کا بلند پایہ عالم ، علم حدیث ورجال کا ماہر زمانہ اور خود بھی ابن تیمیہ کے مانند حنبلی مذہب کا پیروکار تھا اس نے ابن تیمیہ کو ایک خط میں لکھا :''یاخیبة !من اتبعک فانه معرض للذند قة والا نحلال ...فهل معظم اتباعک الا قعید مربوط،خفیف العقل ، اوعامی ، کذاب ، بلید الذهن ، اوغریب واجم قوی المکر ، اورناشف صالح عدیمالفهم فان لم تصدقنی ففتشهم وزنهم بالعدل ...،

اے بیچارے !جو لوگ تیری پیروی کررہے ہیں وہ کفر ونابودی کے ٹھکا نے پر کھڑے ہیں ...کیایہ درست نہیں ہے کہ تمہارے اکثر پیروکار عقب ماندہ ، گوشہ نشین ، کم عقل ، عوام ، دروغ گو، احمق ، پست ، مکار ، خشک ، ظاہر پسند اورفاقد فہم وفراست ہیں ، اگر میری اس بات پر یقین نہیں تو ان کا امتحان لے لو اورا نہیں عدالت کے ترازوپر پرکھ کے دیکھ لو۔

۷۴

یہاںتک کہ لکھا :

فما اظنک تقبل علی قولی وتصغی الی وعظی ، فاذا کان هذا حالک عندی وانا الشفوق المحب الواد ، فکیف حالک عند اعدائک ، واعداء ک والله فیهم صلحاء وعقلاء وفضلاء کماان اولیاء ک فیهم فجرة کذبة جهلة .( ۱ )

میں یہ گمان نہیں کرتا کہ تومیری بات قبول کرے گا !اورمیری نصیحتوں پرکان دھرے گا !تومیرے ساتھ دوست ہونے کے باوجود ایسا سلوک کررہا ہے تو پھر دشمنوںکے ساتھ کیسا سلوک کرے گا ؟

خدا کی قسم ! تیرے دشمنوں میں نیک ، شائستہ ، عقل مند اوردانشورافراد موجود ہیں جیسا کہ تیرے چاہنے والوں میں اکثر آلودہ ، جھوٹے ، نادان اورپست لوگ دکھا ئی دیتے ہیں ۔( ۲ )

۲۔ابن حجر کا ابن تیمیہ کی طرف نفاق کی نسبت دینا :

ابن حجرعسقلانی( ۳ )

اہل سنت میں حافظ علی الاطلاق اورعلمی شخصیت شمار ہوتے ہیں وہ ابن تیمیہ کے بارے میں لکھا :

تفرق الناس فیه شیعا ، فمنهم من نسبه الی التجسیم ، لما ذکر فی العقیده الحمویة والواسطیة وغیرهما من ذلک کقوله:ان

____________________

(۱)الاعلان بالتوبیخ :۷۷وتکملة السیف الصیقل :۲۱۸.

(۲)الاعلان بالتوبیخ :۷۷اورتکملة السیف الصیقل :۲۱۸

(۳)(سیوطی کہتاہے:ابن حجر شیخ الاسلام والامام الحافظ فی زمانه،وحافظ الدیا ر المصر یة ، بل حافظ الدنیا مطلقا ، قاضی القضاة ، ابن حجر شیخ الاسلام ، پیشوا، اپنے زمانہ میں مصر بلکہ پوری دنیا کے حافظ شمار ہوتے ۔طبقات الحفاظ :۵۴۷)

۷۵

الید والقدم والساق والوجه صفات حقیقیة لله ، وانه مستوعلی العرش بذاته...،

ابن تیمیہ کے بارے میں علماء اہل سنت کے مختلف نظرئے ہیں بعض معتقد ہیں کہ وہ تجسیم کا قائل تھا اس لئے کہ اس نے اپنی کتاب (العقیدة الحمویة) اور(واسطیہ )وغیرہ میں خدا وندمتعال کے لئے ہاتھ ، پائوں ، پنڈلی اورچہرے کا تصورپیش کیا ہے۔

ومنهم من ینسبه الی الزندقة ، لقوله :النبیصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم لایستغاث به،وان فی ذلک تنقیصا و منعا من تعظیم النبیصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم ...،

بعض نے اسے پیغمبرصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی ذات سے توسل اوراستغاثہ کی مخالفت کرنے کے باعث زندیق اوربے دین قراردیا ہے اس لئے کہ یہ مقام نبوت کو کم کرنا اورآنحضرتصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی عظمت کی مخالفت کرنا ہے ۔

۷۶

ومنهم من ینسبه الی النفاق ، لقوله فی علی ماتقدم ای انه اخطافی سبعة عشرشیئا ولقوله :ای علیّ کان مخذولا حیثماتوجه ، وانه حاول الخلافة مرارافلم ینلها ، وانماقاتل للرئاسة لا للدیانة ، ولقوله :وانه کان یحب الرئاسة ، ولقوله :اسلم ابوبکر شیخایدری مایقول ، وعلی ّاسلم صبیا ، والصبی لایصح اسلامه وبکلامه فی قصةخطبة بنت ابی جهل ...فانه شنع فی ذلک ، فالزموه بالنفاق ، لقوله صلی الله علیه واله وسلم :ولایبغضک الامنافق ،( ۱ )

اوربعض نے اسے علی (علیہ السلام )کے بارے میں نازیبا کلمات بیان کرنے کی وجہ سے منافق قرار دیا ہے ، اس لئے کہ اس نے کہاہے :علی بن ابیطالب نے خلافت حاصل کرنے کے لئے بارہا کوشش کی لیکن کسی نے مدد نہ کی ، ان کی جنگیں دین کی خاطر نہ تھیں بلکہ ریاست طلبی کی خاطر تھیں ۔اسلام ابوبکر ، اسلام علی (علیہ السلام )سے زیادہ فضیلت رکھتا ہے اس لئے کہ بچپن کا اسلام درست نہیں ہے ۔ اسی طرح کہاہے کہ علی (علیہ السلام)کا ابوجہل کی بیٹی کی خواستگار کے لئے جانا ان کے لئے بہت بڑا عیب شمار ہوتا ہے ۔

یہ تمام کلمات اس کے نفاق کی علامت ہیں اس لئے کہ رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے علی سے فرمایا:منافق کے علاوہ کوئی آپ سے بغض نہیں رکھے گا ۔

۳۔سبکی متوفی ۷۵۶ ھ:( ۲ )

معروف عالم اہل سنت اور معاصر ابن تیمیہ لکھتے ہیں :

____________________

(۱)الدرالکامنة فی اعیان المائة الثامنة ۱:۱۵۵.

(۲)(سیوطی اس کے بارے لکھتا ہے :شیخ الاسلام ، امام العصر و تصانیفہ تدل علی تبحرہ فی الحدیث ، وہ شیخ الاسلام ، امام عصر اور اس کی تصانیف علم حدیث میں اس کی علمی مہارت کی نشاندہی کررہی ہیں ، طبقات الحفاظ :۵۵،ابن کثیر لکھتا ہے :الامام العلامة ....قاضی دمشق ...برع فی الفقه والاصول والعربیة وانواع العلوم ...انتهت الیه رئاسة العلم فی وقته ،

سبکی امام ، علامہ ، قاضی دمشق ، علم فقہ ، اصول ، عربی اور دیگر علوم میں ماہر زمانہ تھے اس زمانہ میں علمی ریاست انہیں میں منحصر تھی ۔البدا یة والنھایة ۱:۵۵۱

۷۷

اس نے قرآن وسنت کی پیروی کے ضمن میں اسلامی عقائد میں بدعت ایجاد کی ، ارکان اسلام کو درہم برہم کردیا ، اجماع مسلمین کی مخالفت کی اورایسی بات کہی جس کا لازمہ خدا کا مجسم ہونا اور اس کی ذات کا مرکب ہونا ہے یہاں تک کہ عالم کے ازلی ہونے کا دعوی کیا اور یوں تہتر(۷۳)فرقوں سے خارج ہوگیا ۔( ۱ )

۴۔حصنی دمشقی:( ۲ )

لکھتے ہیں جس ابن تیمیہ کو دریائے علم توصیف کیا جاتا ہے بعض علماء اسے زندیق مطلق (ملحد )شمار کرتے ہیں ۔

ان علماء کی دلیل یہ ہے کہ انہوں نے ابن تیمیہ کے تمام علمی آثار کا مطالعہ کیا

____________________

(۱)لما احدث ابن تیمیه ما احدث فی اصول العقائد،ونقض من دعائم الاسلام الارکان والمعاقد ، بعد ان کان مستترا بتبعیة الکتاب والسنة مظهر اانه داع الی الحق ، هاد الی الجنة فخرج عن الاتباع الی الاتباع،وشذ عن جماعة المسلمین بمخالفة الاجماع ، وقال بما یقتضی الجسمیة والترکیب فی الذات المقدسة ، وان الافتقارالی الجزء لیس بمحال وقا ل بحلول الحوادث بذات الله تعالی ...فلم یدخل فی فرقة من الفرق الثلاثة والسبعین التی افترقت علیها الامة ، ولاوقفت به مع امة من الامم همة) طبقات الشافعیه ۹:۳۵۳، السیف الصیقل:۱۷۷والدرة المضیئة فی الردعلی ابن تیمیّة ۵.

(۲) (خیرالدین زرکلی وھابی ،حصنی دمشقی کے شرح حال میں لکھتا ہے :وہ امام ، پیشوا ، فقیہ ، باتقوی ، پرہیز گار اوربہت زیادہ کتب کے مئولف ہیں جن میں سے ایک (دفع الشبھة من شبہ وتمرد )ہے ۔الاعلام ۲، :۶۹

شوکانی کہتا ہے :اگر چہ بہت سے لوگ اس کی تشیع جنازہ سے باخبر نہ ہو سکے لیکن پھر بھی شرکت کرنے والوں کی تعداد اس قدر زیادہ تھی کہ خدا کے سواکوئی نہیں جانتا ، البدرالطالع ۱:۱۶۶)

۷۸

لیکن کوئی صحیح عقیدہ نظر نہیں آیا مگر یہ کہ اس نے متعدد مقامات پر بعض مسلمانوں کو کافر اوربعض کو گمراہ قرار دیا ہے ۔

اس کی کتب خدا وندمتعال کو مخلوقات سے تشبیہ ، ذات باری تعالی کی تجسیم ، رسالت مآبصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم ، ابوبکر عمر کی توہین اورعبداللہ بن عباس کی تکفیر سے بھرپڑی ہیں ۔

وہ عبد اللہ بن عباس کو ملحد ، عبداللہ بن عمر کو مجرم ، گمراہ اوربدعت گزار سمجھتا ہے یہ ناروا مطالب اس نے اپنی کتاب ''الصراط المستقیم ''میں ذکر کئے ہیں ۔( ۱ )

حصنی دمشقی دوسری جگہ لکھتا ہے :(وقال (ابن تیمیه )(من استغاث بمیت اوغائب من البشر ...فان هذا ظالم ، ضال ، مشرک )هذا شئی تقشعرمنه الابدان ، ولم نسمع احدا فاه ، بل ولارمز الیه فی

____________________

۱(وان ابن تیمیة الذی کان یوصف بانه بحرفی العلم ، لایستغرب فیه ما قاله بعض الائمة عنه :من انه زندیق مطلق وسبب قوله ذلک انه تتبع کلامه فلم یقف له علی اعتقاد، حتی انه فی مواضع عدید ة یکفر فرقة ویضللها، وفی آخر یعتقد ماقالته اوبعضه ،مع انه کتبه مشحونة بالتشبیه والتجسیم ، والاشارة الی الازدراء بالنبیصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم والشیخین ، وتکفیر عبدالله بن عباس وانه من الملحدین ، وجعل عبدالله بن عمر رضی الله عنهما من المجرمین ، وانه ضال مبتدع ، ذکر ذلک فی کتاب له سماه الصراط المستقیم والرد علی اهل الجحیم )دفع الشبه عن الرسول ، تحقیق جماعة من العلماء :۱۲۵.

۷۹

زمن من الازمان ، ولابلد من البلدان قبل زندیق حرّان قاتله الله ، عزوجل ، وقد جعل الزندیق الجاهل الجامد ، قصة عمردعامة للتوصل بها الی خبث طویته فی الازدراء بسید الاولین والآخرین واکرم السابقین واللاحقین ، وحط رتبته فی حیاته ، وان جاه وحرمته ورسالته وغیر ذلک زال بموته ،وذلک منه کفر بیقین وزندقة محققة ۔( ۱ )

ابن تیمیہ نے کہاہے :جو شخص بھی مردہ یا غایب سے استغاثہ کرے ...وہ ظالم ، گمراہ اورمشرک ہے ۔

اس کی اس بات سے انسان کا بدن لرز اٹھتا ہے ، یہ ایک ایسی بات ہے جو زندیق حرّ ان سے پہلے کسی زمان ومکان میں کسی شخص کی زبان سے نہ نکلی اوراس نادان اور خشک زندیق نے عمر رضی اللہ عنہ اوریہ ادعا کیا ہے کہ پیغمبرصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی رحلت کے بعد ان کی رسالت وحرمت ختم ہوچکی ہے اس کا یہ عقیدہ یقینا اسکے کفر والحاد کی علامت ہے۔

۵۔شافعی قاضی کا ابن تیمیہ کے پیروکاروں کا خون مباح قراردینا :

ابن حجر عسقلانی متوفی ۸۵۲ھاورشوکانی متوفی ۱۲۵۵ھ اہل سنت کے یہ دونوں عالم لکھتے ہیں : دمشق کے شافعی قاضی نے دمشق میں یہ اعلان کرنے کا حکم

دیا: (من اعتقد ة ابن تیمیه حل دمه وماله )جو شخص ابن تیمیہ کے عقیدہ کی پیروی کرے اس کا خون اورمال حلال ہے ۔(۲)

____________________

(۱)دفع الشبھات عن الرسول :۱۳۱.

(۲)الدررالکامنة۱: ۱۴۷، البدرالطالع ۱:۶۷. مرآة الجنان ۲:۲۴۲.

۸۰

81

82

83

84

85

86

87

88

89

90

91

92

93

94

95

96

97

98

99

100

101

102

103

104

105

106

107

108

109

110

111

112

113

114

115

116

117

118

119

120

121

122

123

124

125

126

127

128

129

130

131

132

133

134

135

136

137

138

139

140

141

142

143

144

145

146

147

148

149

150

151

152

153

154

155

156

157

158

159

160

161

162

163

164

165

166

167

168

169

170

171

172

173

174

175

176

177

178

179

180

181

182

183

184

185

186

187

188

189

190

191

192

193

194

195

196

197

198

199

200

201

202

203

204

205

206

207

208

209

210

211

212

213

214

215

216

217

218

219

220

221

222

223

224

225

226

227

228

229

230

231

232

233

234

235

236

237

238

239

240

241

242

243

244

245

246

247

248

249

250

251

252

253

254

255

256

257

258

259

260

261

262

263

264

265

266

267

268

269

270

271

272

273

274