وہابیت عقل و شریعت کی نگاہ میں

وہابیت عقل و شریعت کی نگاہ میں0%

وہابیت عقل و شریعت کی نگاہ میں مؤلف:
زمرہ جات: ادیان اور مذاھب
صفحے: 274

وہابیت عقل و شریعت کی نگاہ میں

مؤلف: ڈاکٹر سید محمد حسینی قزوینی
زمرہ جات:

صفحے: 274
مشاہدے: 137259
ڈاؤنلوڈ: 3377

تبصرے:

وہابیت عقل و شریعت کی نگاہ میں
کتاب کے اندر تلاش کریں
  • ابتداء
  • پچھلا
  • 274 /
  • اگلا
  • آخر
  •  
  • ڈاؤنلوڈ HTML
  • ڈاؤنلوڈ Word
  • ڈاؤنلوڈ PDF
  • مشاہدے: 137259 / ڈاؤنلوڈ: 3377
سائز سائز سائز
وہابیت عقل و شریعت کی نگاہ میں

وہابیت عقل و شریعت کی نگاہ میں

مؤلف:
اردو

علیه اذا ولیه غیر اهله '' .( ۱ )

میں پیغمبرصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے پاس آیا ہوں کسی پتھر کے پاس نہیں آیا اور میں نے پیغمبرصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم سے سنا ہے آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم فرما رہے تھے: جب تک دین کی سرپرستی اسکے اہل افراد

کر رہے ہوں تب تک اس پرگریہ نہ کرنا بلکہ دین پہ گریہ اس وقت کرنا جب نا اہل اس کے سرپرست بن بیٹھیں۔

۳۔ حجاج بن یوسف متوفی ۹۵ ھ

ابن ابی الحدید معتزلی شافعی( ۲ ) متوفی ۹۵ھ لکھتا ہے:

جب حجاج بن یوسف مدینہ منورہ گیا تو دیکھا لوگ پروانہ وار قبر پیغمبرصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے اردگرد مشغول ہیں تو کہنے لگا:

تبالهم!انمایطوفون باعواد ورمة بالیة ، هلا طا فو ا بقصرامیرالمومنین عبدالملک؟ الایعلمون ان خلیفة المرء خیر من رسوله ؟!

افسوس ان لوگوں پر جو پوسیدہ ہڈیوں کے ارد گرد گھوم رہے ہیں (نعوذ باللہ)

____________________

(۱) مستدرک علی الصحیحین ، ج۴، ص ۵۱۵؛ مسند احمد ، ج۵، ص ۲۲. تاریخ مدینہ دمشق ، ج۵۷، ص ۲۴۹، ومجمع الزوائد ، ج۵، ص ۲۴۵.

(۲)ابن ابی الحدید کے مذہب کو جاننے کے لئے کتاب وفیات الاعیان ابن خلکان۷: ۳۷۲ اور فوات الوفیات ابن شاکر ۲:۲۵۹ کا مطالعہ فرمائیں۔

۶۱

یہ لوگ امیر المؤمنین عبد الملک کے قصر کا طواف کیوں نہیں کرتے؟ کیا انھیں یہ معلوم نہیں کہ خلیفہ کا مقام پیغمبر خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم سے زیادہ ہے۔( ۱ )

ادبیات عرب کے ماہر مبرد متوفی ۲۸۶ھ لکھتے ہیں :

ان ذلک مماکفرت به الفقهاء الحجاج ،وانه انماقال ذلک والناس یطوفون بالقبر،

اسی بنا پر فقہاء نے حجاج کو کافر قرار دیا ہے چونکہ اس نے یہ بات اس وقت کہی جب لوگ قبر پیغمبرصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے ارد گرد مشغول تھے۔( ۲ )

۴۔ بربہاری متوفی ۳۲۹ ھ:

سب سے پہلی بارحسن بن علی بربہاری معروف حنبلی عالم نے زیارت قبور، نوحہ خوانی اور امام حسین علیہ السلام کے مصائب کو پڑھنا حرام قرار دیا۔( ۳ )

۵۔ ابن بطّہ متوفی ۳۸۷ھ:

ابن تیمیہ کے بقول حنبلی فقیہ عبید اللہ بن محمد بن حمدان عکبری معروف ابن بطّہ نے زیارت و شفاعت پیغمبرصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کا انکار کیا اور وہ معتقد تھا کہ پیغمبرصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی قبر مبارک کی زیارت کی نیت سے سفر کرنا گناہ ہے لہذا اس سفر میں پوری نماز پڑھی جائے۔( ۴ )

____________________

(۱)شرح نہج البلاغہ ۱۵:۳۴۲،النصائح الکافیة :۱۰۶

(۲)الکامل فی الغةوالادب ۱:۲۲۲، طبع نہضت مصر،

(۳)نشورالمحاضرة ، ۲:۱۳۴

(۴)الرد علی الاخنائی ، ابن تیمیہ :۲۷،شفاء السقام :۲۶۳،

۶۲

۶۔ ابن تیمیہ متوفی ۷۲۷ھ:

تقی الدین احمد بن عبد الحلیم بن تیمیہ مفکر وہابیت نے آٹھویں صدی ہجری میں مذکورہ بالا عقائد کو ایک جدید انداز میں بیان کر کے امت اسلام میں شدید تفرقہ ایجاد کیا۔

۷۔ محمد بن عبد الوہاب متوفی ۱۲۰۵ ھ:

بارہویں صدی ہجری میں بانی و رہبر وہابیت محمد بن عبد الوہاب نے شاہ فہد کے جد اعلی محمد بن سعود کے تعاون اور برطانوی فوجی مشیروں کی مدد سے سعودی عرب کے علاقے نجد اور درعیہ میں افکار ابن تیمیہ یا بالفاظ دیگر افکار بنو اُمیہ کی ترویج کا کام شروع کیا۔

۶۳

وہابیت ایک نظر میں

الف: وہابی افکار کی بنیاد:

وہابی افکار کی تبلیغ باقاعدہ طور پر ۶۹۸ ھ میں شام میں ابن تیمیہ کے توسط سے عقائد میں شدید انحراف اور اسلامی فرقوں کے کفر و شرک کے اثبات کی بناء پر شروع ہوئی جسے اہل سنت اور شیعہ علماء کی سخت مخالفت کا سامنا کرنا پڑا. ابن تیمیہ نے ۷۲۷ ھ میں دمشق کے ایک زندان میں وفات پائی اس کی موت کے ساتھ ہی اس کے افکار بھی دفن ہو گئے۔

۱۱۵۸ ھ میں محمد بن عبد الوہاب نے حاکم درعیہ محمد بن سعود کے تعاون سے سرزمین نجد میں نئے سرے سے ابن تیمیہ کے افکار کو زندہ کیا جس کے نتیجہ میں سخت لڑائی ہوئی اور وہابیوں نے سواحل خلیج فارس اور حجاز کے تمام علاقوں پر قبضہ کر لیا۔

ب: سب سے پہلی سعودی حکومت:

خاندان سعود نے ۷۵ سال مسلسل ۱۲۳۳ ھ تک حکومت کی:

۱۔ محمد بن سعود، حاکم اور امام وہابیت ۱۱۵۷ھ میں ۱۱۷۹ھ تک

۲۔ عبد العزیز بن محمد اپنے باپ کے بعد وہابیوں کا حاکم۱۱۳۳ھ سے ۱۲۱۸ھ تک

۳۔سعود بن عبد العزیز متوفی ۱۲۲۹ھ

۴۔ عبد اللہ بن سعود ۱۲۳۳ھ میں استنبول میں قتل کردیا گیا۔

استنبول میں عبد اللہ بن سعود کے قتل اور عثمانی حکمران ابراہیم پاشا کے ہاتھوں حکومت نجد کے قلع و قمع ہونے سے سعودی خاندان قدرت کو ہاتھ سے دے بیٹھا اور پھر اسّی (۸۰) سال گوشہ نشینی میں گزارے۔

۶۴

ج۔نابودی کے بعد وہابی قبیلوں کے سردار:

۱۔ترکی بن عبداللہ بن محمد بن سعود ۱۲۴۹ھ میں قتل کردیاگیا۔

۲۔فیصل بن ترکی بن عبداللہ ولادت۱۲۱۳ھ وفات۱۲۸۲ھ

۳۔عبدالرحمن بن فیصل بن ترکی متوفی۱۳۴۶ھ

د: دوسری سعودی حکومت:

ملک عبد العزیز بن عبد الرحمن ۱۳۱۹ھ میں کویت سے سعودیہ واپس پلٹا اور وہابی مسلک کے بچ جانے والے پیروکاروں اور برطانیہ و فرانس کی بے تحاشا مدد سے بیس سال کی جد و جہد کے بعد دوبارہ حجاز پر قبضہ کر لیا. حجاز کا نام سعودی میں تبدیل کر کے آل سعود کی حکومت کی بنیاد رکھی اور ۵۴ سال حکومت کرنے کے بعد ۱۳۷۳ھ میں مرا. اب بھی اسی کی اولاد اس ملک پر حکومت کر رہی ہے۔( ۱ )

____________________

(۱)تاریخ وھابیت ومجلہ ھفت آسمان سال اول شمارہ سوم وچھارم :۱۷۷

۶۵

ھ۔عبدالعزیز کا حجاز پرقبضہ:

عبد العزیز بن عبد الرحمن آل سعود ۱۸۸۰ئ میں پیدا ہوا، حاکم ریاض (الرشید) کی سختیوں سے تنگ آکر جوانی میں اپنے خاندان کے ہمراہ اپنی پیدائش گاہ ریاض کو ترک کرکے کویت چلا گیا. دسمبر ۱۹۰۱ئ اکیس سال کی عمر میں اپنے چالیس کے قریب حامیوں کے ہمراہ نجد پرقبضہ کرنے کی نیت سے ریاض واپس پلٹا. ۱۹۰۲ئ کے اوائل میں ریاض کو اپنے کنٹرول میں لے لیا اور (الرشید) کے اثر کو کم کرنے کی کوششیں کرنے لگا۔

۱۹۰۴ئ میں عثمانی فوجیوںکی حمایت سے پورے نجد کو (الرشید) سے چھین لیا اور پھر ۱۹۰۶ئ میں (الرشید) کی موت سے عبد العزیز کیلئے راستہ کھل گیا، آہستہ آہستہ (الرشید) کی حکومت کے تحت تمام علاقوں پر قبضہ کر لیا۔

۱۹۱۳ئمیں احساء کا علاقہ بھی اپنی حکومت میں شامل کر کے سواحل خلیج فارس تک پہنچ گیا۔

برطانوی حکومت نے جو عثمانیوں کو سر زمین عرب سے دور اور خود ان پر قبضہ کرنے کی تگ و دو کر رہی تھی ۱۹۱۶ئ پہلی جنگ عظیم کے اواسط میں نجد اور احساء پر

۶۶

عبد العزیز کی حکومت کو باقاعدہ طور پر تسلیم کر لیا۔

عبد العزیز نے ۱۹۲۵ئ میں شریف مکہ اور برطانوی حکومت کے اختلاف سے فائدہ اٹھاتے ہوئے حجاز پر اپنا کنٹرول جما کر اپنے آپ کو نجد و حجاز کا بادشاہ ا علان کرد یا۔

سات جنوری۱۹۲۵ئ کو اپنی مملکت کا نام سعودی رکھ دیا. ۱۹۲۷ئ میں حکومت برطانیہ نے میثاق جدہ کے تحت پہلی عالمی جنگ کے دوران جو علاقہ عثمانیوں کے پاس تھا اُسے سعودی حکومت کا حصہ اعلان کر دیا. آٹھ شوال ۱۹۲۶ئ میں آل سعود نے جنت البقیع کو ویران کیاسعودی حکومت کی تاسیس کا باقاعدہ طور پر اعلان ۲۳ ستمبر۱۹۳۲ئ بمطابق ۲۳ جمادی الاول۱۳۵۱ ھ کو ہوا۔

ملک سعودبن عبدالعزیز:

۱۳۱۹ہجری میں پیداہوااوراپنے باپ کی وفات کے بعد ۱۳۷۷ھ سے ۱۳۸۸ھ تک گیارہ سال حکومت سنبھالی ۔

ملک فیصل بن عبد العزیز:

۱۳ھ میں پیدا ہوا اور اپنے بھائی ملک سعود کی وفات کے بعد سات سال سعودی عرب پر حکومت کی اور اپنی حکومت کے دوران حرمین شریفین کو وسیع کیا۔

۶۷

ملک خالد بن عبد العزیز:

۱۳۳۱ھ میں پیدا ہوااور اپنے بھائی شاہ فیصل کی وفات کے بعد ۱۳۹۵ھ سے ۱۴۰۲ ھ سات سال حکومت کی۔

ملک فہد بن عبد العزیز: ۱۳۴۰ میں پیدا ہوا اور اپنے بھائی خالدکی وفات کے بعد ۱۴۰۲ھ سے ۱۴۲۶ ھ تک ۲۴ سال تک سعودی عرب پر حکومت کی۔( ۱ )

ملک عبد اللہ بن عبد العزیز:

۱۳۵۲ھ میں پیدا ہوا اور اپنے بھائی شاہ فہد کی وفات کے بعد ۱۴۲۶ھ میں ۷۶ سال کی عمر میں سعودی عرب کا بادشاہ بنا۔

____________________

(۱)رسائل ائمة الدعوة التوحید ، ڈاکٹر فیصل بن مشعل بن سعود بن عبدالعزیز ،

۶۸

وہابی فرقہ کے بانی

افکار وہابیت کا بانی ابن تیمیہ:

احمد بن تیمیہ مفکر وہابیت سقوط بغداد کے پانچ سال بعد ۶۶۱ھ میں شام کے ایک علاقہ حرّان میں پیدا ہوا. ابتدائی تعلیم وہیں پہ حاصل کی اور پھر شام پر مغلوں کے حملے کے بعد اپنے خاندان کے ہمراہ دمشق میں جاکر رہائش پذیر ہوگیا۔( ۱ )

۱۔ ابن تیمیہ کا سب سے پہلا انحراف:

۶۹۸ھ میں آہستہ آہستہ ابن تیمیہ کے منحرف عقائد ظاہر ہونے لگے. خاص طور پر حماة (دمشق سے ایک سو پچاس کلو میٹر کے فاصلہ پر ایک شہر کا نام ہے) میں اس آیت شریفہ:( الرحمن علی العرش استویٰ ) ( ۲ )

ترجمہ:وہ رحمان عرش پر اختیار اور قدرت رکھنے والا ہے ۔

کی تفسیر بیان کرتے ہوئے کہا: خداوند متعال آسمانوں کی بلندی میں تخت پر بیٹھا ہے یوں خدا کے لئے سمت کو معین کیا۔( ۳ )

____________________

(۱)الدررالکامنة۱:۱۴۴.

(۲)طہ:۲۰۔

(۳)اس نے عقدہ الحمویہ ص: ۴۲۹لکھا ہے :ان الله تعالی فوق کل شئی وعلی کل شئی وانه فوق العرش وانه فوق السمائ ...،

۶۹

یہ تفسیر ان قرآنی آیات کے مخالف ہے جن میں فرمایا:( لیس کمثله شئی ) اور( ولم یکن له کفوااحد، )

ان آیات میں خداوند متعال کو مخلوقات کی صفات کے ساتھ تشبیہ سے منزہ قرار دیا گیا ہے۔

۲۔ ابن تیمیہ کے افکار کا عکس العمل:

ابن تیمیہ کے باطل افکار نے دمشق اور اس کے اطراف میں غوغا مچا دیا. کچھ فقہا ء نے اس کے خلاف قیام کیا اور قاضی وقت جلال الدین حنفی سے ابن تیمیہ کا محاکمہ کرنے کا تقاضا کیا لیکن اس نے عدالت میں پیش ہونے سے انکار کردیا۔

ابن تیمیہ ہمیشہ اپنے منحرف عقائد کے ذریعہ سے عمومی افکار کو آلودہ کرتا رہتا یہاں تک کہ ۸ رجب ۷۰۵ ھ کو شہر کے تمام قاضی ابن تیمیہ کو لے کر نائب السلطنة کے قصر میں حاضر ہوئے اور اس کی کتاب ''الواسطیة'' پڑھی گئی، کمال الدین بن زملکانی( ۱ ) کے ساتھ دوبار مناظرہ کرنے کے بعد جب ابن تیمیہ کے عقائد وافکار کے منحرف ہونے کا یقین ہوگیا تو اسے مصرجلاوطن کردیا گیا ۔

____________________

(۱) ابن زملکانی محمد بن علی کمال الدین متوفی ۷۲۷ھ اپنے دور کا شافعی فقیہ اور مذہب شافعی کا لیڈر تھا(الاعلام۶:۲۸۴) یا فعی کہتا ہے: وہ امام، علامہ اور منطقہ شامات کا تنہا مفتی تھا اپنے زمانہ میں مذہب شافعی کا استاد، قاضی القضاة، روایات کے متن، مذہب اور اس کے اصول کے بارے میں آشنائی میں نابغہ تھا.(مرآة الجنان۴؛۱۷۸)

ابن کثیر کہتے ہیں : اپنے زمانہ میں مذہب شافعی کا استاد تھا تدریس، فتویٰ اور مناظرہ کا عہدہ اسی کے سپرد کیا گیا وہ اپنے ہم شافعی علماء سے برتری پا گیا (البدایة و النہایة ۱۴ :۱۵۲ ) ۔

۷۰

وہاں پہ بھی اپنے غلط عقائد کو پھیلانے کے سبب قاضی وقت ابن محلوف مالکی کے دستور پر زندان میں ڈال دیا گیا اور پھر ۲۳ ربیع الاول ۷۰۷ھ کو زندان سے آزاد ہوا۔

۳۔ ابن تیمیہ کا محاکمہ:

ابن کثیر لکھتے ہیں :

شوال ۷۰۷ھ میں ابن عربی کے خلاف جسارت کرنے کی بناء پر صوفیوں نے حکومت مصر سے ابن تیمیہ کے خلاف شکایت کی. شافعی قاضی کوفیصلے کا حکم دیا گیا مجلس محاکمہ تشکیل پائی لیکن ابن تیمیہ کے خلاف کوئی خاص بات ثابت نہ ہو سکی. اس نے اسی مجلس میں کہا:

استغاثہ فقط خدا ہی سے جائز ہے اور پیغمبرصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم سے مدد طلب نہیں کی جا سکتی ہاں ان سے توسل اور شفاعت طلب کی جا سکتی ہے۔

لیکن قاضی بدر الدین کو احساس ہوا کہ اس نے مسئلہ توسل میں پیغمبرصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے احترام کو مد نظر نہیں رکھا لہذا شافعی قاضی کو نامہ لکھا کہ اسے شریعت کے مطابق سزا دی جائے۔

۷۱

شافعی قاضی نے کہا: میں نے ابن تیمیہ کے بارے میں بھی وہی بات کہی جو دوسرے منحرف لوگوں کے بارے میں کہتا ہوں. اس وقت حکومت مصر نے ابن تیمیہ کو دمشق، اسکندریہ یا زندان میں سے ایک کو انتحاب کرنے کا حکم دیا جس پر ابن تیمیہ نے زندان کو انتحاب کیا اور زندان روانہ کردیا گیا۔( ۱ )

بالآخر ۷۰۸ھ میں زندان سے باہر آیا لیکن دوبارہ انہی عقائد کی تبلیغ کی وجہ سے ۷۰۹ھ ماہ صفر کے آخرمیں اسے اسکندریہ مصر جلاوطن کردیا گیا وہاں سے آٹھ ماہ کے بعد دوبارہ قاہرہ آگیا ابن کثیر لکھتے ہیں :

۲۲رجب ۷۲۰ھ ابن تیمیہ کو دارالسعادة میں حاضر کیا گیا اور مذاہب اسلامی (حنفی ، مالکی ، شافعی اورحنبلی )کے قاضیوں اور مفتیوں نے مذاہب اسلامی کے خلاف فتوی صادر کرنے کی بناء پر اس کی مذمت کی اوراسے زندان میں ڈالنے کا حکم دے دیا یہاں تک کہ دومحرم۷۲۱ھکو زندان سے رہائی ملی ۔( ۲ )

____________________

(۱)(ابن کثیر البرزاسیسے نقل کرتے هوئے کهتے هیں :(وفی شوال منها شکی الصوفیه بالقاهره علی الشیخ تقی الدین وکلموه فی ابن عربی وغیره الی الدولة فردواالامر فی ذلک الی القاضی الشافعی فعقد له مجلس وادعی علیه ابن عطاء باشیا ء فلم یثبت علیه منها شئی لکنه قال :(لایستغاث الا بالله لا یستغاثة بمعنی العبادة ، ولکن یتوسل به ویتشفع به الی الله )فبعض الحاضرین قال لیس علیه فی هذا شئی

ورای القاضی بدرالدین بن جماعة ان هذا فیه قلّة ادب فحضرت رسالة الی القاضی ان یعمل معه ما تقتضیه الشریعة ، فقال القاضی قد قلت له مایقال لمثله ، ثم ان الدولة خیروه بین اشیاء اما ان یسیر الی دمشق اوالاسکندریة بشروط اوالحبس ، فاختار الحبس ، بدایة النهایه ۱۴:۵۱،)

(۲)( وفی یوم الخمیس ثانی عشرین رجب عقد مجلس بدار السعادة الشیخ تقی الدین بن تیمیه بحضرة نائب السلطنة وحضر فیه القضاة والمفتیون من المذاهب وحضر الشیخ وعاتبوه علی العود الی الافتاء بمسالة الطلاق ثم حبس فی القلعة فبقی فیها خمسه اشهر وثمانیة یوما ، ثم ورد مرسوم من السلطان باخراجه یوم الاثنین یوم عاشوراء من سنة احدی وعشرین ) البدایه والنهایه ۱۴:۱۱۱، حوادث سال ۷۲۶هجری

۷۲

ابن حجر عسقلانی کہتے ہیں :

ابن تیمیہ کو محاکمہ کے لئے مالکی قاضی کے سامنے پیش کیاگیا لیکن اس نے قاضی کے سامنے جواب دینے سے انکار کردیا اورکہا:یہ قاضی مجھ سے دشمنی رکھتا ہے قاضی نے جس قدر اصرار کیا اس نے جواب نہ دیا ، اس پر قاضی نے اسے ایک قلعہ میں بندکردینے کا حکم صادر کیا ۔

جب قاضی کو خبر ملی کہ کچھ لوگ ابن تیمیہ کے پاس آجارہے ہیں تو اس نے کہا: اس کفر کی وجہ سے جو اس سے ثابت ہوا ہے اگر اسے قتل نہ کیاجائے تو اس پر سختی ضرورکی جائے اورپھر اسے ایک الگ زندان میں منتقل کرنے کا حکم دیا ۔

جب قاضی اپنے شہر واپس پلٹا تو دمشق میں ایک عام اعلان کیاگیا :

(من اعتقد عقیدة ابن تیمیة حل دمه وماله ، خصوصا الحنابلة ) جو بھی ابن تیمیہ کا عقیدہ رکھے اس کا خون اورمال مباح ہے خاص طور پر حنبلی لوگوں کا ۔

دمشق کی جامع مسجد میں اہل سنت کے ایک بہت بڑے عالم نے یہ اعلان لوگوں کو سنا یا کہ جس کے بعد حنبلی اوروہ لوگ جو ابن تیمیہ کی پیروی میں متہم تھے جمع ہوئے اور شافعی مذہب کے پیروکا رہونے کا اعلان کیا ۔( ۱ )

____________________

(۱)(فادعی علی ابن تیمیه عندالمالکی فقال :عدوّی ولم یجب عن الدعوی ، فکرر علیه فاصر، فحکم المالکی بحسبه فاقیم من المجلس وحبس فی برج، ثم بلغ المالکی ان الناس یتر دد ون الیه ، فقال :یجب التضیق علیه ان لم یقتل والا فقد ثبت کفره فنقلوه لیلة عید الفطر الی الجب وعاد القاضی الشافعی الی ولایه ونودی بدمشق من اعتقد عقیدة ابن تیمیة حل دمه وماله ، خصوصا الحنابلة ، فنودی بذلک وقری ء المرسوم وقراها ابن الشهاب محمود فی الجامع ثم جمعو ا الحنابلة من الصالحیة وغیرها واشهد وا علی انهم علی معتقد الامام الشافعی )الدررالکامنه ۱:۱۴۷

۷۳

علماء اہل سنت اورابن تیمیہ کی مخالفت

۱۔ذہبی،ابن تیمیہ کے پیروکاروں کوپست،ذلیل اور مکار سمجھتا :

ذہبی متوفی ۷۷۴ھاہل سنت کا بلند پایہ عالم ، علم حدیث ورجال کا ماہر زمانہ اور خود بھی ابن تیمیہ کے مانند حنبلی مذہب کا پیروکار تھا اس نے ابن تیمیہ کو ایک خط میں لکھا :''یاخیبة !من اتبعک فانه معرض للذند قة والا نحلال ...فهل معظم اتباعک الا قعید مربوط،خفیف العقل ، اوعامی ، کذاب ، بلید الذهن ، اوغریب واجم قوی المکر ، اورناشف صالح عدیمالفهم فان لم تصدقنی ففتشهم وزنهم بالعدل ...،

اے بیچارے !جو لوگ تیری پیروی کررہے ہیں وہ کفر ونابودی کے ٹھکا نے پر کھڑے ہیں ...کیایہ درست نہیں ہے کہ تمہارے اکثر پیروکار عقب ماندہ ، گوشہ نشین ، کم عقل ، عوام ، دروغ گو، احمق ، پست ، مکار ، خشک ، ظاہر پسند اورفاقد فہم وفراست ہیں ، اگر میری اس بات پر یقین نہیں تو ان کا امتحان لے لو اورا نہیں عدالت کے ترازوپر پرکھ کے دیکھ لو۔

۷۴

یہاںتک کہ لکھا :

فما اظنک تقبل علی قولی وتصغی الی وعظی ، فاذا کان هذا حالک عندی وانا الشفوق المحب الواد ، فکیف حالک عند اعدائک ، واعداء ک والله فیهم صلحاء وعقلاء وفضلاء کماان اولیاء ک فیهم فجرة کذبة جهلة .( ۱ )

میں یہ گمان نہیں کرتا کہ تومیری بات قبول کرے گا !اورمیری نصیحتوں پرکان دھرے گا !تومیرے ساتھ دوست ہونے کے باوجود ایسا سلوک کررہا ہے تو پھر دشمنوںکے ساتھ کیسا سلوک کرے گا ؟

خدا کی قسم ! تیرے دشمنوں میں نیک ، شائستہ ، عقل مند اوردانشورافراد موجود ہیں جیسا کہ تیرے چاہنے والوں میں اکثر آلودہ ، جھوٹے ، نادان اورپست لوگ دکھا ئی دیتے ہیں ۔( ۲ )

۲۔ابن حجر کا ابن تیمیہ کی طرف نفاق کی نسبت دینا :

ابن حجرعسقلانی( ۳ )

اہل سنت میں حافظ علی الاطلاق اورعلمی شخصیت شمار ہوتے ہیں وہ ابن تیمیہ کے بارے میں لکھا :

تفرق الناس فیه شیعا ، فمنهم من نسبه الی التجسیم ، لما ذکر فی العقیده الحمویة والواسطیة وغیرهما من ذلک کقوله:ان

____________________

(۱)الاعلان بالتوبیخ :۷۷وتکملة السیف الصیقل :۲۱۸.

(۲)الاعلان بالتوبیخ :۷۷اورتکملة السیف الصیقل :۲۱۸

(۳)(سیوطی کہتاہے:ابن حجر شیخ الاسلام والامام الحافظ فی زمانه،وحافظ الدیا ر المصر یة ، بل حافظ الدنیا مطلقا ، قاضی القضاة ، ابن حجر شیخ الاسلام ، پیشوا، اپنے زمانہ میں مصر بلکہ پوری دنیا کے حافظ شمار ہوتے ۔طبقات الحفاظ :۵۴۷)

۷۵

الید والقدم والساق والوجه صفات حقیقیة لله ، وانه مستوعلی العرش بذاته...،

ابن تیمیہ کے بارے میں علماء اہل سنت کے مختلف نظرئے ہیں بعض معتقد ہیں کہ وہ تجسیم کا قائل تھا اس لئے کہ اس نے اپنی کتاب (العقیدة الحمویة) اور(واسطیہ )وغیرہ میں خدا وندمتعال کے لئے ہاتھ ، پائوں ، پنڈلی اورچہرے کا تصورپیش کیا ہے۔

ومنهم من ینسبه الی الزندقة ، لقوله :النبیصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم لایستغاث به،وان فی ذلک تنقیصا و منعا من تعظیم النبیصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم ...،

بعض نے اسے پیغمبرصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی ذات سے توسل اوراستغاثہ کی مخالفت کرنے کے باعث زندیق اوربے دین قراردیا ہے اس لئے کہ یہ مقام نبوت کو کم کرنا اورآنحضرتصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی عظمت کی مخالفت کرنا ہے ۔

۷۶

ومنهم من ینسبه الی النفاق ، لقوله فی علی ماتقدم ای انه اخطافی سبعة عشرشیئا ولقوله :ای علیّ کان مخذولا حیثماتوجه ، وانه حاول الخلافة مرارافلم ینلها ، وانماقاتل للرئاسة لا للدیانة ، ولقوله :وانه کان یحب الرئاسة ، ولقوله :اسلم ابوبکر شیخایدری مایقول ، وعلی ّاسلم صبیا ، والصبی لایصح اسلامه وبکلامه فی قصةخطبة بنت ابی جهل ...فانه شنع فی ذلک ، فالزموه بالنفاق ، لقوله صلی الله علیه واله وسلم :ولایبغضک الامنافق ،( ۱ )

اوربعض نے اسے علی (علیہ السلام )کے بارے میں نازیبا کلمات بیان کرنے کی وجہ سے منافق قرار دیا ہے ، اس لئے کہ اس نے کہاہے :علی بن ابیطالب نے خلافت حاصل کرنے کے لئے بارہا کوشش کی لیکن کسی نے مدد نہ کی ، ان کی جنگیں دین کی خاطر نہ تھیں بلکہ ریاست طلبی کی خاطر تھیں ۔اسلام ابوبکر ، اسلام علی (علیہ السلام )سے زیادہ فضیلت رکھتا ہے اس لئے کہ بچپن کا اسلام درست نہیں ہے ۔ اسی طرح کہاہے کہ علی (علیہ السلام)کا ابوجہل کی بیٹی کی خواستگار کے لئے جانا ان کے لئے بہت بڑا عیب شمار ہوتا ہے ۔

یہ تمام کلمات اس کے نفاق کی علامت ہیں اس لئے کہ رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے علی سے فرمایا:منافق کے علاوہ کوئی آپ سے بغض نہیں رکھے گا ۔

۳۔سبکی متوفی ۷۵۶ ھ:( ۲ )

معروف عالم اہل سنت اور معاصر ابن تیمیہ لکھتے ہیں :

____________________

(۱)الدرالکامنة فی اعیان المائة الثامنة ۱:۱۵۵.

(۲)(سیوطی اس کے بارے لکھتا ہے :شیخ الاسلام ، امام العصر و تصانیفہ تدل علی تبحرہ فی الحدیث ، وہ شیخ الاسلام ، امام عصر اور اس کی تصانیف علم حدیث میں اس کی علمی مہارت کی نشاندہی کررہی ہیں ، طبقات الحفاظ :۵۵،ابن کثیر لکھتا ہے :الامام العلامة ....قاضی دمشق ...برع فی الفقه والاصول والعربیة وانواع العلوم ...انتهت الیه رئاسة العلم فی وقته ،

سبکی امام ، علامہ ، قاضی دمشق ، علم فقہ ، اصول ، عربی اور دیگر علوم میں ماہر زمانہ تھے اس زمانہ میں علمی ریاست انہیں میں منحصر تھی ۔البدا یة والنھایة ۱:۵۵۱

۷۷

اس نے قرآن وسنت کی پیروی کے ضمن میں اسلامی عقائد میں بدعت ایجاد کی ، ارکان اسلام کو درہم برہم کردیا ، اجماع مسلمین کی مخالفت کی اورایسی بات کہی جس کا لازمہ خدا کا مجسم ہونا اور اس کی ذات کا مرکب ہونا ہے یہاں تک کہ عالم کے ازلی ہونے کا دعوی کیا اور یوں تہتر(۷۳)فرقوں سے خارج ہوگیا ۔( ۱ )

۴۔حصنی دمشقی:( ۲ )

لکھتے ہیں جس ابن تیمیہ کو دریائے علم توصیف کیا جاتا ہے بعض علماء اسے زندیق مطلق (ملحد )شمار کرتے ہیں ۔

ان علماء کی دلیل یہ ہے کہ انہوں نے ابن تیمیہ کے تمام علمی آثار کا مطالعہ کیا

____________________

(۱)لما احدث ابن تیمیه ما احدث فی اصول العقائد،ونقض من دعائم الاسلام الارکان والمعاقد ، بعد ان کان مستترا بتبعیة الکتاب والسنة مظهر اانه داع الی الحق ، هاد الی الجنة فخرج عن الاتباع الی الاتباع،وشذ عن جماعة المسلمین بمخالفة الاجماع ، وقال بما یقتضی الجسمیة والترکیب فی الذات المقدسة ، وان الافتقارالی الجزء لیس بمحال وقا ل بحلول الحوادث بذات الله تعالی ...فلم یدخل فی فرقة من الفرق الثلاثة والسبعین التی افترقت علیها الامة ، ولاوقفت به مع امة من الامم همة) طبقات الشافعیه ۹:۳۵۳، السیف الصیقل:۱۷۷والدرة المضیئة فی الردعلی ابن تیمیّة ۵.

(۲) (خیرالدین زرکلی وھابی ،حصنی دمشقی کے شرح حال میں لکھتا ہے :وہ امام ، پیشوا ، فقیہ ، باتقوی ، پرہیز گار اوربہت زیادہ کتب کے مئولف ہیں جن میں سے ایک (دفع الشبھة من شبہ وتمرد )ہے ۔الاعلام ۲، :۶۹

شوکانی کہتا ہے :اگر چہ بہت سے لوگ اس کی تشیع جنازہ سے باخبر نہ ہو سکے لیکن پھر بھی شرکت کرنے والوں کی تعداد اس قدر زیادہ تھی کہ خدا کے سواکوئی نہیں جانتا ، البدرالطالع ۱:۱۶۶)

۷۸

لیکن کوئی صحیح عقیدہ نظر نہیں آیا مگر یہ کہ اس نے متعدد مقامات پر بعض مسلمانوں کو کافر اوربعض کو گمراہ قرار دیا ہے ۔

اس کی کتب خدا وندمتعال کو مخلوقات سے تشبیہ ، ذات باری تعالی کی تجسیم ، رسالت مآبصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم ، ابوبکر عمر کی توہین اورعبداللہ بن عباس کی تکفیر سے بھرپڑی ہیں ۔

وہ عبد اللہ بن عباس کو ملحد ، عبداللہ بن عمر کو مجرم ، گمراہ اوربدعت گزار سمجھتا ہے یہ ناروا مطالب اس نے اپنی کتاب ''الصراط المستقیم ''میں ذکر کئے ہیں ۔( ۱ )

حصنی دمشقی دوسری جگہ لکھتا ہے :(وقال (ابن تیمیه )(من استغاث بمیت اوغائب من البشر ...فان هذا ظالم ، ضال ، مشرک )هذا شئی تقشعرمنه الابدان ، ولم نسمع احدا فاه ، بل ولارمز الیه فی

____________________

۱(وان ابن تیمیة الذی کان یوصف بانه بحرفی العلم ، لایستغرب فیه ما قاله بعض الائمة عنه :من انه زندیق مطلق وسبب قوله ذلک انه تتبع کلامه فلم یقف له علی اعتقاد، حتی انه فی مواضع عدید ة یکفر فرقة ویضللها، وفی آخر یعتقد ماقالته اوبعضه ،مع انه کتبه مشحونة بالتشبیه والتجسیم ، والاشارة الی الازدراء بالنبیصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم والشیخین ، وتکفیر عبدالله بن عباس وانه من الملحدین ، وجعل عبدالله بن عمر رضی الله عنهما من المجرمین ، وانه ضال مبتدع ، ذکر ذلک فی کتاب له سماه الصراط المستقیم والرد علی اهل الجحیم )دفع الشبه عن الرسول ، تحقیق جماعة من العلماء :۱۲۵.

۷۹

زمن من الازمان ، ولابلد من البلدان قبل زندیق حرّان قاتله الله ، عزوجل ، وقد جعل الزندیق الجاهل الجامد ، قصة عمردعامة للتوصل بها الی خبث طویته فی الازدراء بسید الاولین والآخرین واکرم السابقین واللاحقین ، وحط رتبته فی حیاته ، وان جاه وحرمته ورسالته وغیر ذلک زال بموته ،وذلک منه کفر بیقین وزندقة محققة ۔( ۱ )

ابن تیمیہ نے کہاہے :جو شخص بھی مردہ یا غایب سے استغاثہ کرے ...وہ ظالم ، گمراہ اورمشرک ہے ۔

اس کی اس بات سے انسان کا بدن لرز اٹھتا ہے ، یہ ایک ایسی بات ہے جو زندیق حرّ ان سے پہلے کسی زمان ومکان میں کسی شخص کی زبان سے نہ نکلی اوراس نادان اور خشک زندیق نے عمر رضی اللہ عنہ اوریہ ادعا کیا ہے کہ پیغمبرصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی رحلت کے بعد ان کی رسالت وحرمت ختم ہوچکی ہے اس کا یہ عقیدہ یقینا اسکے کفر والحاد کی علامت ہے۔

۵۔شافعی قاضی کا ابن تیمیہ کے پیروکاروں کا خون مباح قراردینا :

ابن حجر عسقلانی متوفی ۸۵۲ھاورشوکانی متوفی ۱۲۵۵ھ اہل سنت کے یہ دونوں عالم لکھتے ہیں : دمشق کے شافعی قاضی نے دمشق میں یہ اعلان کرنے کا حکم

دیا: (من اعتقد ة ابن تیمیه حل دمه وماله )جو شخص ابن تیمیہ کے عقیدہ کی پیروی کرے اس کا خون اورمال حلال ہے ۔(۲)

____________________

(۱)دفع الشبھات عن الرسول :۱۳۱.

(۲)الدررالکامنة۱: ۱۴۷، البدرالطالع ۱:۶۷. مرآة الجنان ۲:۲۴۲.

۸۰