وہابیت عقل و شریعت کی نگاہ میں

وہابیت عقل و شریعت کی نگاہ میں14%

وہابیت عقل و شریعت کی نگاہ میں مؤلف:
زمرہ جات: ادیان اور مذاھب
صفحے: 274

وہابیت عقل و شریعت کی نگاہ میں
  • ابتداء
  • پچھلا
  • 274 /
  • اگلا
  • آخر
  •  
  • ڈاؤنلوڈ HTML
  • ڈاؤنلوڈ Word
  • ڈاؤنلوڈ PDF
  • مشاہدے: 163905 / ڈاؤنلوڈ: 5550
سائز سائز سائز
وہابیت عقل و شریعت کی نگاہ میں

وہابیت عقل و شریعت کی نگاہ میں

مؤلف:
اردو

1

2

3

4

5

6

7

8

9

10

11

12

13

14

15

16

17

18

19

20

21

22

23

24

25

26

27

28

29

30

31

32

33

34

35

36

37

38

39

40

41

42

43

44

45

46

47

48

49

50

51

52

53

54

55

56

57

58

59

60

علیه اذا ولیه غیر اهله '' .( ۱ )

میں پیغمبرصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے پاس آیا ہوں کسی پتھر کے پاس نہیں آیا اور میں نے پیغمبرصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم سے سنا ہے آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم فرما رہے تھے: جب تک دین کی سرپرستی اسکے اہل افراد

کر رہے ہوں تب تک اس پرگریہ نہ کرنا بلکہ دین پہ گریہ اس وقت کرنا جب نا اہل اس کے سرپرست بن بیٹھیں۔

۳۔ حجاج بن یوسف متوفی ۹۵ ھ

ابن ابی الحدید معتزلی شافعی( ۲ ) متوفی ۹۵ھ لکھتا ہے:

جب حجاج بن یوسف مدینہ منورہ گیا تو دیکھا لوگ پروانہ وار قبر پیغمبرصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے اردگرد مشغول ہیں تو کہنے لگا:

تبالهم!انمایطوفون باعواد ورمة بالیة ، هلا طا فو ا بقصرامیرالمومنین عبدالملک؟ الایعلمون ان خلیفة المرء خیر من رسوله ؟!

افسوس ان لوگوں پر جو پوسیدہ ہڈیوں کے ارد گرد گھوم رہے ہیں (نعوذ باللہ)

____________________

(۱) مستدرک علی الصحیحین ، ج۴، ص ۵۱۵؛ مسند احمد ، ج۵، ص ۲۲. تاریخ مدینہ دمشق ، ج۵۷، ص ۲۴۹، ومجمع الزوائد ، ج۵، ص ۲۴۵.

(۲)ابن ابی الحدید کے مذہب کو جاننے کے لئے کتاب وفیات الاعیان ابن خلکان۷: ۳۷۲ اور فوات الوفیات ابن شاکر ۲:۲۵۹ کا مطالعہ فرمائیں۔

۶۱

یہ لوگ امیر المؤمنین عبد الملک کے قصر کا طواف کیوں نہیں کرتے؟ کیا انھیں یہ معلوم نہیں کہ خلیفہ کا مقام پیغمبر خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم سے زیادہ ہے۔( ۱ )

ادبیات عرب کے ماہر مبرد متوفی ۲۸۶ھ لکھتے ہیں :

ان ذلک مماکفرت به الفقهاء الحجاج ،وانه انماقال ذلک والناس یطوفون بالقبر،

اسی بنا پر فقہاء نے حجاج کو کافر قرار دیا ہے چونکہ اس نے یہ بات اس وقت کہی جب لوگ قبر پیغمبرصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے ارد گرد مشغول تھے۔( ۲ )

۴۔ بربہاری متوفی ۳۲۹ ھ:

سب سے پہلی بارحسن بن علی بربہاری معروف حنبلی عالم نے زیارت قبور، نوحہ خوانی اور امام حسین علیہ السلام کے مصائب کو پڑھنا حرام قرار دیا۔( ۳ )

۵۔ ابن بطّہ متوفی ۳۸۷ھ:

ابن تیمیہ کے بقول حنبلی فقیہ عبید اللہ بن محمد بن حمدان عکبری معروف ابن بطّہ نے زیارت و شفاعت پیغمبرصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کا انکار کیا اور وہ معتقد تھا کہ پیغمبرصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی قبر مبارک کی زیارت کی نیت سے سفر کرنا گناہ ہے لہذا اس سفر میں پوری نماز پڑھی جائے۔( ۴ )

____________________

(۱)شرح نہج البلاغہ ۱۵:۳۴۲،النصائح الکافیة :۱۰۶

(۲)الکامل فی الغةوالادب ۱:۲۲۲، طبع نہضت مصر،

(۳)نشورالمحاضرة ، ۲:۱۳۴

(۴)الرد علی الاخنائی ، ابن تیمیہ :۲۷،شفاء السقام :۲۶۳،

۶۲

۶۔ ابن تیمیہ متوفی ۷۲۷ھ:

تقی الدین احمد بن عبد الحلیم بن تیمیہ مفکر وہابیت نے آٹھویں صدی ہجری میں مذکورہ بالا عقائد کو ایک جدید انداز میں بیان کر کے امت اسلام میں شدید تفرقہ ایجاد کیا۔

۷۔ محمد بن عبد الوہاب متوفی ۱۲۰۵ ھ:

بارہویں صدی ہجری میں بانی و رہبر وہابیت محمد بن عبد الوہاب نے شاہ فہد کے جد اعلی محمد بن سعود کے تعاون اور برطانوی فوجی مشیروں کی مدد سے سعودی عرب کے علاقے نجد اور درعیہ میں افکار ابن تیمیہ یا بالفاظ دیگر افکار بنو اُمیہ کی ترویج کا کام شروع کیا۔

۶۳

وہابیت ایک نظر میں

الف: وہابی افکار کی بنیاد:

وہابی افکار کی تبلیغ باقاعدہ طور پر ۶۹۸ ھ میں شام میں ابن تیمیہ کے توسط سے عقائد میں شدید انحراف اور اسلامی فرقوں کے کفر و شرک کے اثبات کی بناء پر شروع ہوئی جسے اہل سنت اور شیعہ علماء کی سخت مخالفت کا سامنا کرنا پڑا. ابن تیمیہ نے ۷۲۷ ھ میں دمشق کے ایک زندان میں وفات پائی اس کی موت کے ساتھ ہی اس کے افکار بھی دفن ہو گئے۔

۱۱۵۸ ھ میں محمد بن عبد الوہاب نے حاکم درعیہ محمد بن سعود کے تعاون سے سرزمین نجد میں نئے سرے سے ابن تیمیہ کے افکار کو زندہ کیا جس کے نتیجہ میں سخت لڑائی ہوئی اور وہابیوں نے سواحل خلیج فارس اور حجاز کے تمام علاقوں پر قبضہ کر لیا۔

ب: سب سے پہلی سعودی حکومت:

خاندان سعود نے ۷۵ سال مسلسل ۱۲۳۳ ھ تک حکومت کی:

۱۔ محمد بن سعود، حاکم اور امام وہابیت ۱۱۵۷ھ میں ۱۱۷۹ھ تک

۲۔ عبد العزیز بن محمد اپنے باپ کے بعد وہابیوں کا حاکم۱۱۳۳ھ سے ۱۲۱۸ھ تک

۳۔سعود بن عبد العزیز متوفی ۱۲۲۹ھ

۴۔ عبد اللہ بن سعود ۱۲۳۳ھ میں استنبول میں قتل کردیا گیا۔

استنبول میں عبد اللہ بن سعود کے قتل اور عثمانی حکمران ابراہیم پاشا کے ہاتھوں حکومت نجد کے قلع و قمع ہونے سے سعودی خاندان قدرت کو ہاتھ سے دے بیٹھا اور پھر اسّی (۸۰) سال گوشہ نشینی میں گزارے۔

۶۴

ج۔نابودی کے بعد وہابی قبیلوں کے سردار:

۱۔ترکی بن عبداللہ بن محمد بن سعود ۱۲۴۹ھ میں قتل کردیاگیا۔

۲۔فیصل بن ترکی بن عبداللہ ولادت۱۲۱۳ھ وفات۱۲۸۲ھ

۳۔عبدالرحمن بن فیصل بن ترکی متوفی۱۳۴۶ھ

د: دوسری سعودی حکومت:

ملک عبد العزیز بن عبد الرحمن ۱۳۱۹ھ میں کویت سے سعودیہ واپس پلٹا اور وہابی مسلک کے بچ جانے والے پیروکاروں اور برطانیہ و فرانس کی بے تحاشا مدد سے بیس سال کی جد و جہد کے بعد دوبارہ حجاز پر قبضہ کر لیا. حجاز کا نام سعودی میں تبدیل کر کے آل سعود کی حکومت کی بنیاد رکھی اور ۵۴ سال حکومت کرنے کے بعد ۱۳۷۳ھ میں مرا. اب بھی اسی کی اولاد اس ملک پر حکومت کر رہی ہے۔( ۱ )

____________________

(۱)تاریخ وھابیت ومجلہ ھفت آسمان سال اول شمارہ سوم وچھارم :۱۷۷

۶۵

ھ۔عبدالعزیز کا حجاز پرقبضہ:

عبد العزیز بن عبد الرحمن آل سعود ۱۸۸۰ئ میں پیدا ہوا، حاکم ریاض (الرشید) کی سختیوں سے تنگ آکر جوانی میں اپنے خاندان کے ہمراہ اپنی پیدائش گاہ ریاض کو ترک کرکے کویت چلا گیا. دسمبر ۱۹۰۱ئ اکیس سال کی عمر میں اپنے چالیس کے قریب حامیوں کے ہمراہ نجد پرقبضہ کرنے کی نیت سے ریاض واپس پلٹا. ۱۹۰۲ئ کے اوائل میں ریاض کو اپنے کنٹرول میں لے لیا اور (الرشید) کے اثر کو کم کرنے کی کوششیں کرنے لگا۔

۱۹۰۴ئ میں عثمانی فوجیوںکی حمایت سے پورے نجد کو (الرشید) سے چھین لیا اور پھر ۱۹۰۶ئ میں (الرشید) کی موت سے عبد العزیز کیلئے راستہ کھل گیا، آہستہ آہستہ (الرشید) کی حکومت کے تحت تمام علاقوں پر قبضہ کر لیا۔

۱۹۱۳ئمیں احساء کا علاقہ بھی اپنی حکومت میں شامل کر کے سواحل خلیج فارس تک پہنچ گیا۔

برطانوی حکومت نے جو عثمانیوں کو سر زمین عرب سے دور اور خود ان پر قبضہ کرنے کی تگ و دو کر رہی تھی ۱۹۱۶ئ پہلی جنگ عظیم کے اواسط میں نجد اور احساء پر

۶۶

عبد العزیز کی حکومت کو باقاعدہ طور پر تسلیم کر لیا۔

عبد العزیز نے ۱۹۲۵ئ میں شریف مکہ اور برطانوی حکومت کے اختلاف سے فائدہ اٹھاتے ہوئے حجاز پر اپنا کنٹرول جما کر اپنے آپ کو نجد و حجاز کا بادشاہ ا علان کرد یا۔

سات جنوری۱۹۲۵ئ کو اپنی مملکت کا نام سعودی رکھ دیا. ۱۹۲۷ئ میں حکومت برطانیہ نے میثاق جدہ کے تحت پہلی عالمی جنگ کے دوران جو علاقہ عثمانیوں کے پاس تھا اُسے سعودی حکومت کا حصہ اعلان کر دیا. آٹھ شوال ۱۹۲۶ئ میں آل سعود نے جنت البقیع کو ویران کیاسعودی حکومت کی تاسیس کا باقاعدہ طور پر اعلان ۲۳ ستمبر۱۹۳۲ئ بمطابق ۲۳ جمادی الاول۱۳۵۱ ھ کو ہوا۔

ملک سعودبن عبدالعزیز:

۱۳۱۹ہجری میں پیداہوااوراپنے باپ کی وفات کے بعد ۱۳۷۷ھ سے ۱۳۸۸ھ تک گیارہ سال حکومت سنبھالی ۔

ملک فیصل بن عبد العزیز:

۱۳ھ میں پیدا ہوا اور اپنے بھائی ملک سعود کی وفات کے بعد سات سال سعودی عرب پر حکومت کی اور اپنی حکومت کے دوران حرمین شریفین کو وسیع کیا۔

۶۷

ملک خالد بن عبد العزیز:

۱۳۳۱ھ میں پیدا ہوااور اپنے بھائی شاہ فیصل کی وفات کے بعد ۱۳۹۵ھ سے ۱۴۰۲ ھ سات سال حکومت کی۔

ملک فہد بن عبد العزیز: ۱۳۴۰ میں پیدا ہوا اور اپنے بھائی خالدکی وفات کے بعد ۱۴۰۲ھ سے ۱۴۲۶ ھ تک ۲۴ سال تک سعودی عرب پر حکومت کی۔( ۱ )

ملک عبد اللہ بن عبد العزیز:

۱۳۵۲ھ میں پیدا ہوا اور اپنے بھائی شاہ فہد کی وفات کے بعد ۱۴۲۶ھ میں ۷۶ سال کی عمر میں سعودی عرب کا بادشاہ بنا۔

____________________

(۱)رسائل ائمة الدعوة التوحید ، ڈاکٹر فیصل بن مشعل بن سعود بن عبدالعزیز ،

۶۸

وہابی فرقہ کے بانی

افکار وہابیت کا بانی ابن تیمیہ:

احمد بن تیمیہ مفکر وہابیت سقوط بغداد کے پانچ سال بعد ۶۶۱ھ میں شام کے ایک علاقہ حرّان میں پیدا ہوا. ابتدائی تعلیم وہیں پہ حاصل کی اور پھر شام پر مغلوں کے حملے کے بعد اپنے خاندان کے ہمراہ دمشق میں جاکر رہائش پذیر ہوگیا۔( ۱ )

۱۔ ابن تیمیہ کا سب سے پہلا انحراف:

۶۹۸ھ میں آہستہ آہستہ ابن تیمیہ کے منحرف عقائد ظاہر ہونے لگے. خاص طور پر حماة (دمشق سے ایک سو پچاس کلو میٹر کے فاصلہ پر ایک شہر کا نام ہے) میں اس آیت شریفہ:( الرحمن علی العرش استویٰ ) ( ۲ )

ترجمہ:وہ رحمان عرش پر اختیار اور قدرت رکھنے والا ہے ۔

کی تفسیر بیان کرتے ہوئے کہا: خداوند متعال آسمانوں کی بلندی میں تخت پر بیٹھا ہے یوں خدا کے لئے سمت کو معین کیا۔( ۳ )

____________________

(۱)الدررالکامنة۱:۱۴۴.

(۲)طہ:۲۰۔

(۳)اس نے عقدہ الحمویہ ص: ۴۲۹لکھا ہے :ان الله تعالی فوق کل شئی وعلی کل شئی وانه فوق العرش وانه فوق السمائ ...،

۶۹

یہ تفسیر ان قرآنی آیات کے مخالف ہے جن میں فرمایا:( لیس کمثله شئی ) اور( ولم یکن له کفوااحد، )

ان آیات میں خداوند متعال کو مخلوقات کی صفات کے ساتھ تشبیہ سے منزہ قرار دیا گیا ہے۔

۲۔ ابن تیمیہ کے افکار کا عکس العمل:

ابن تیمیہ کے باطل افکار نے دمشق اور اس کے اطراف میں غوغا مچا دیا. کچھ فقہا ء نے اس کے خلاف قیام کیا اور قاضی وقت جلال الدین حنفی سے ابن تیمیہ کا محاکمہ کرنے کا تقاضا کیا لیکن اس نے عدالت میں پیش ہونے سے انکار کردیا۔

ابن تیمیہ ہمیشہ اپنے منحرف عقائد کے ذریعہ سے عمومی افکار کو آلودہ کرتا رہتا یہاں تک کہ ۸ رجب ۷۰۵ ھ کو شہر کے تمام قاضی ابن تیمیہ کو لے کر نائب السلطنة کے قصر میں حاضر ہوئے اور اس کی کتاب ''الواسطیة'' پڑھی گئی، کمال الدین بن زملکانی( ۱ ) کے ساتھ دوبار مناظرہ کرنے کے بعد جب ابن تیمیہ کے عقائد وافکار کے منحرف ہونے کا یقین ہوگیا تو اسے مصرجلاوطن کردیا گیا ۔

____________________

(۱) ابن زملکانی محمد بن علی کمال الدین متوفی ۷۲۷ھ اپنے دور کا شافعی فقیہ اور مذہب شافعی کا لیڈر تھا(الاعلام۶:۲۸۴) یا فعی کہتا ہے: وہ امام، علامہ اور منطقہ شامات کا تنہا مفتی تھا اپنے زمانہ میں مذہب شافعی کا استاد، قاضی القضاة، روایات کے متن، مذہب اور اس کے اصول کے بارے میں آشنائی میں نابغہ تھا.(مرآة الجنان۴؛۱۷۸)

ابن کثیر کہتے ہیں : اپنے زمانہ میں مذہب شافعی کا استاد تھا تدریس، فتویٰ اور مناظرہ کا عہدہ اسی کے سپرد کیا گیا وہ اپنے ہم شافعی علماء سے برتری پا گیا (البدایة و النہایة ۱۴ :۱۵۲ ) ۔

۷۰

وہاں پہ بھی اپنے غلط عقائد کو پھیلانے کے سبب قاضی وقت ابن محلوف مالکی کے دستور پر زندان میں ڈال دیا گیا اور پھر ۲۳ ربیع الاول ۷۰۷ھ کو زندان سے آزاد ہوا۔

۳۔ ابن تیمیہ کا محاکمہ:

ابن کثیر لکھتے ہیں :

شوال ۷۰۷ھ میں ابن عربی کے خلاف جسارت کرنے کی بناء پر صوفیوں نے حکومت مصر سے ابن تیمیہ کے خلاف شکایت کی. شافعی قاضی کوفیصلے کا حکم دیا گیا مجلس محاکمہ تشکیل پائی لیکن ابن تیمیہ کے خلاف کوئی خاص بات ثابت نہ ہو سکی. اس نے اسی مجلس میں کہا:

استغاثہ فقط خدا ہی سے جائز ہے اور پیغمبرصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم سے مدد طلب نہیں کی جا سکتی ہاں ان سے توسل اور شفاعت طلب کی جا سکتی ہے۔

لیکن قاضی بدر الدین کو احساس ہوا کہ اس نے مسئلہ توسل میں پیغمبرصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے احترام کو مد نظر نہیں رکھا لہذا شافعی قاضی کو نامہ لکھا کہ اسے شریعت کے مطابق سزا دی جائے۔

۷۱

شافعی قاضی نے کہا: میں نے ابن تیمیہ کے بارے میں بھی وہی بات کہی جو دوسرے منحرف لوگوں کے بارے میں کہتا ہوں. اس وقت حکومت مصر نے ابن تیمیہ کو دمشق، اسکندریہ یا زندان میں سے ایک کو انتحاب کرنے کا حکم دیا جس پر ابن تیمیہ نے زندان کو انتحاب کیا اور زندان روانہ کردیا گیا۔( ۱ )

بالآخر ۷۰۸ھ میں زندان سے باہر آیا لیکن دوبارہ انہی عقائد کی تبلیغ کی وجہ سے ۷۰۹ھ ماہ صفر کے آخرمیں اسے اسکندریہ مصر جلاوطن کردیا گیا وہاں سے آٹھ ماہ کے بعد دوبارہ قاہرہ آگیا ابن کثیر لکھتے ہیں :

۲۲رجب ۷۲۰ھ ابن تیمیہ کو دارالسعادة میں حاضر کیا گیا اور مذاہب اسلامی (حنفی ، مالکی ، شافعی اورحنبلی )کے قاضیوں اور مفتیوں نے مذاہب اسلامی کے خلاف فتوی صادر کرنے کی بناء پر اس کی مذمت کی اوراسے زندان میں ڈالنے کا حکم دے دیا یہاں تک کہ دومحرم۷۲۱ھکو زندان سے رہائی ملی ۔( ۲ )

____________________

(۱)(ابن کثیر البرزاسیسے نقل کرتے هوئے کهتے هیں :(وفی شوال منها شکی الصوفیه بالقاهره علی الشیخ تقی الدین وکلموه فی ابن عربی وغیره الی الدولة فردواالامر فی ذلک الی القاضی الشافعی فعقد له مجلس وادعی علیه ابن عطاء باشیا ء فلم یثبت علیه منها شئی لکنه قال :(لایستغاث الا بالله لا یستغاثة بمعنی العبادة ، ولکن یتوسل به ویتشفع به الی الله )فبعض الحاضرین قال لیس علیه فی هذا شئی

ورای القاضی بدرالدین بن جماعة ان هذا فیه قلّة ادب فحضرت رسالة الی القاضی ان یعمل معه ما تقتضیه الشریعة ، فقال القاضی قد قلت له مایقال لمثله ، ثم ان الدولة خیروه بین اشیاء اما ان یسیر الی دمشق اوالاسکندریة بشروط اوالحبس ، فاختار الحبس ، بدایة النهایه ۱۴:۵۱،)

(۲)( وفی یوم الخمیس ثانی عشرین رجب عقد مجلس بدار السعادة الشیخ تقی الدین بن تیمیه بحضرة نائب السلطنة وحضر فیه القضاة والمفتیون من المذاهب وحضر الشیخ وعاتبوه علی العود الی الافتاء بمسالة الطلاق ثم حبس فی القلعة فبقی فیها خمسه اشهر وثمانیة یوما ، ثم ورد مرسوم من السلطان باخراجه یوم الاثنین یوم عاشوراء من سنة احدی وعشرین ) البدایه والنهایه ۱۴:۱۱۱، حوادث سال ۷۲۶هجری

۷۲

ابن حجر عسقلانی کہتے ہیں :

ابن تیمیہ کو محاکمہ کے لئے مالکی قاضی کے سامنے پیش کیاگیا لیکن اس نے قاضی کے سامنے جواب دینے سے انکار کردیا اورکہا:یہ قاضی مجھ سے دشمنی رکھتا ہے قاضی نے جس قدر اصرار کیا اس نے جواب نہ دیا ، اس پر قاضی نے اسے ایک قلعہ میں بندکردینے کا حکم صادر کیا ۔

جب قاضی کو خبر ملی کہ کچھ لوگ ابن تیمیہ کے پاس آجارہے ہیں تو اس نے کہا: اس کفر کی وجہ سے جو اس سے ثابت ہوا ہے اگر اسے قتل نہ کیاجائے تو اس پر سختی ضرورکی جائے اورپھر اسے ایک الگ زندان میں منتقل کرنے کا حکم دیا ۔

جب قاضی اپنے شہر واپس پلٹا تو دمشق میں ایک عام اعلان کیاگیا :

(من اعتقد عقیدة ابن تیمیة حل دمه وماله ، خصوصا الحنابلة ) جو بھی ابن تیمیہ کا عقیدہ رکھے اس کا خون اورمال مباح ہے خاص طور پر حنبلی لوگوں کا ۔

دمشق کی جامع مسجد میں اہل سنت کے ایک بہت بڑے عالم نے یہ اعلان لوگوں کو سنا یا کہ جس کے بعد حنبلی اوروہ لوگ جو ابن تیمیہ کی پیروی میں متہم تھے جمع ہوئے اور شافعی مذہب کے پیروکا رہونے کا اعلان کیا ۔( ۱ )

____________________

(۱)(فادعی علی ابن تیمیه عندالمالکی فقال :عدوّی ولم یجب عن الدعوی ، فکرر علیه فاصر، فحکم المالکی بحسبه فاقیم من المجلس وحبس فی برج، ثم بلغ المالکی ان الناس یتر دد ون الیه ، فقال :یجب التضیق علیه ان لم یقتل والا فقد ثبت کفره فنقلوه لیلة عید الفطر الی الجب وعاد القاضی الشافعی الی ولایه ونودی بدمشق من اعتقد عقیدة ابن تیمیة حل دمه وماله ، خصوصا الحنابلة ، فنودی بذلک وقری ء المرسوم وقراها ابن الشهاب محمود فی الجامع ثم جمعو ا الحنابلة من الصالحیة وغیرها واشهد وا علی انهم علی معتقد الامام الشافعی )الدررالکامنه ۱:۱۴۷

۷۳

علماء اہل سنت اورابن تیمیہ کی مخالفت

۱۔ذہبی،ابن تیمیہ کے پیروکاروں کوپست،ذلیل اور مکار سمجھتا :

ذہبی متوفی ۷۷۴ھاہل سنت کا بلند پایہ عالم ، علم حدیث ورجال کا ماہر زمانہ اور خود بھی ابن تیمیہ کے مانند حنبلی مذہب کا پیروکار تھا اس نے ابن تیمیہ کو ایک خط میں لکھا :''یاخیبة !من اتبعک فانه معرض للذند قة والا نحلال ...فهل معظم اتباعک الا قعید مربوط،خفیف العقل ، اوعامی ، کذاب ، بلید الذهن ، اوغریب واجم قوی المکر ، اورناشف صالح عدیمالفهم فان لم تصدقنی ففتشهم وزنهم بالعدل ...،

اے بیچارے !جو لوگ تیری پیروی کررہے ہیں وہ کفر ونابودی کے ٹھکا نے پر کھڑے ہیں ...کیایہ درست نہیں ہے کہ تمہارے اکثر پیروکار عقب ماندہ ، گوشہ نشین ، کم عقل ، عوام ، دروغ گو، احمق ، پست ، مکار ، خشک ، ظاہر پسند اورفاقد فہم وفراست ہیں ، اگر میری اس بات پر یقین نہیں تو ان کا امتحان لے لو اورا نہیں عدالت کے ترازوپر پرکھ کے دیکھ لو۔

۷۴

یہاںتک کہ لکھا :

فما اظنک تقبل علی قولی وتصغی الی وعظی ، فاذا کان هذا حالک عندی وانا الشفوق المحب الواد ، فکیف حالک عند اعدائک ، واعداء ک والله فیهم صلحاء وعقلاء وفضلاء کماان اولیاء ک فیهم فجرة کذبة جهلة .( ۱ )

میں یہ گمان نہیں کرتا کہ تومیری بات قبول کرے گا !اورمیری نصیحتوں پرکان دھرے گا !تومیرے ساتھ دوست ہونے کے باوجود ایسا سلوک کررہا ہے تو پھر دشمنوںکے ساتھ کیسا سلوک کرے گا ؟

خدا کی قسم ! تیرے دشمنوں میں نیک ، شائستہ ، عقل مند اوردانشورافراد موجود ہیں جیسا کہ تیرے چاہنے والوں میں اکثر آلودہ ، جھوٹے ، نادان اورپست لوگ دکھا ئی دیتے ہیں ۔( ۲ )

۲۔ابن حجر کا ابن تیمیہ کی طرف نفاق کی نسبت دینا :

ابن حجرعسقلانی( ۳ )

اہل سنت میں حافظ علی الاطلاق اورعلمی شخصیت شمار ہوتے ہیں وہ ابن تیمیہ کے بارے میں لکھا :

تفرق الناس فیه شیعا ، فمنهم من نسبه الی التجسیم ، لما ذکر فی العقیده الحمویة والواسطیة وغیرهما من ذلک کقوله:ان

____________________

(۱)الاعلان بالتوبیخ :۷۷وتکملة السیف الصیقل :۲۱۸.

(۲)الاعلان بالتوبیخ :۷۷اورتکملة السیف الصیقل :۲۱۸

(۳)(سیوطی کہتاہے:ابن حجر شیخ الاسلام والامام الحافظ فی زمانه،وحافظ الدیا ر المصر یة ، بل حافظ الدنیا مطلقا ، قاضی القضاة ، ابن حجر شیخ الاسلام ، پیشوا، اپنے زمانہ میں مصر بلکہ پوری دنیا کے حافظ شمار ہوتے ۔طبقات الحفاظ :۵۴۷)

۷۵

الید والقدم والساق والوجه صفات حقیقیة لله ، وانه مستوعلی العرش بذاته...،

ابن تیمیہ کے بارے میں علماء اہل سنت کے مختلف نظرئے ہیں بعض معتقد ہیں کہ وہ تجسیم کا قائل تھا اس لئے کہ اس نے اپنی کتاب (العقیدة الحمویة) اور(واسطیہ )وغیرہ میں خدا وندمتعال کے لئے ہاتھ ، پائوں ، پنڈلی اورچہرے کا تصورپیش کیا ہے۔

ومنهم من ینسبه الی الزندقة ، لقوله :النبیصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم لایستغاث به،وان فی ذلک تنقیصا و منعا من تعظیم النبیصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم ...،

بعض نے اسے پیغمبرصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی ذات سے توسل اوراستغاثہ کی مخالفت کرنے کے باعث زندیق اوربے دین قراردیا ہے اس لئے کہ یہ مقام نبوت کو کم کرنا اورآنحضرتصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی عظمت کی مخالفت کرنا ہے ۔

۷۶

ومنهم من ینسبه الی النفاق ، لقوله فی علی ماتقدم ای انه اخطافی سبعة عشرشیئا ولقوله :ای علیّ کان مخذولا حیثماتوجه ، وانه حاول الخلافة مرارافلم ینلها ، وانماقاتل للرئاسة لا للدیانة ، ولقوله :وانه کان یحب الرئاسة ، ولقوله :اسلم ابوبکر شیخایدری مایقول ، وعلی ّاسلم صبیا ، والصبی لایصح اسلامه وبکلامه فی قصةخطبة بنت ابی جهل ...فانه شنع فی ذلک ، فالزموه بالنفاق ، لقوله صلی الله علیه واله وسلم :ولایبغضک الامنافق ،( ۱ )

اوربعض نے اسے علی (علیہ السلام )کے بارے میں نازیبا کلمات بیان کرنے کی وجہ سے منافق قرار دیا ہے ، اس لئے کہ اس نے کہاہے :علی بن ابیطالب نے خلافت حاصل کرنے کے لئے بارہا کوشش کی لیکن کسی نے مدد نہ کی ، ان کی جنگیں دین کی خاطر نہ تھیں بلکہ ریاست طلبی کی خاطر تھیں ۔اسلام ابوبکر ، اسلام علی (علیہ السلام )سے زیادہ فضیلت رکھتا ہے اس لئے کہ بچپن کا اسلام درست نہیں ہے ۔ اسی طرح کہاہے کہ علی (علیہ السلام)کا ابوجہل کی بیٹی کی خواستگار کے لئے جانا ان کے لئے بہت بڑا عیب شمار ہوتا ہے ۔

یہ تمام کلمات اس کے نفاق کی علامت ہیں اس لئے کہ رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے علی سے فرمایا:منافق کے علاوہ کوئی آپ سے بغض نہیں رکھے گا ۔

۳۔سبکی متوفی ۷۵۶ ھ:( ۲ )

معروف عالم اہل سنت اور معاصر ابن تیمیہ لکھتے ہیں :

____________________

(۱)الدرالکامنة فی اعیان المائة الثامنة ۱:۱۵۵.

(۲)(سیوطی اس کے بارے لکھتا ہے :شیخ الاسلام ، امام العصر و تصانیفہ تدل علی تبحرہ فی الحدیث ، وہ شیخ الاسلام ، امام عصر اور اس کی تصانیف علم حدیث میں اس کی علمی مہارت کی نشاندہی کررہی ہیں ، طبقات الحفاظ :۵۵،ابن کثیر لکھتا ہے :الامام العلامة ....قاضی دمشق ...برع فی الفقه والاصول والعربیة وانواع العلوم ...انتهت الیه رئاسة العلم فی وقته ،

سبکی امام ، علامہ ، قاضی دمشق ، علم فقہ ، اصول ، عربی اور دیگر علوم میں ماہر زمانہ تھے اس زمانہ میں علمی ریاست انہیں میں منحصر تھی ۔البدا یة والنھایة ۱:۵۵۱

۷۷

اس نے قرآن وسنت کی پیروی کے ضمن میں اسلامی عقائد میں بدعت ایجاد کی ، ارکان اسلام کو درہم برہم کردیا ، اجماع مسلمین کی مخالفت کی اورایسی بات کہی جس کا لازمہ خدا کا مجسم ہونا اور اس کی ذات کا مرکب ہونا ہے یہاں تک کہ عالم کے ازلی ہونے کا دعوی کیا اور یوں تہتر(۷۳)فرقوں سے خارج ہوگیا ۔( ۱ )

۴۔حصنی دمشقی:( ۲ )

لکھتے ہیں جس ابن تیمیہ کو دریائے علم توصیف کیا جاتا ہے بعض علماء اسے زندیق مطلق (ملحد )شمار کرتے ہیں ۔

ان علماء کی دلیل یہ ہے کہ انہوں نے ابن تیمیہ کے تمام علمی آثار کا مطالعہ کیا

____________________

(۱)لما احدث ابن تیمیه ما احدث فی اصول العقائد،ونقض من دعائم الاسلام الارکان والمعاقد ، بعد ان کان مستترا بتبعیة الکتاب والسنة مظهر اانه داع الی الحق ، هاد الی الجنة فخرج عن الاتباع الی الاتباع،وشذ عن جماعة المسلمین بمخالفة الاجماع ، وقال بما یقتضی الجسمیة والترکیب فی الذات المقدسة ، وان الافتقارالی الجزء لیس بمحال وقا ل بحلول الحوادث بذات الله تعالی ...فلم یدخل فی فرقة من الفرق الثلاثة والسبعین التی افترقت علیها الامة ، ولاوقفت به مع امة من الامم همة) طبقات الشافعیه ۹:۳۵۳، السیف الصیقل:۱۷۷والدرة المضیئة فی الردعلی ابن تیمیّة ۵.

(۲) (خیرالدین زرکلی وھابی ،حصنی دمشقی کے شرح حال میں لکھتا ہے :وہ امام ، پیشوا ، فقیہ ، باتقوی ، پرہیز گار اوربہت زیادہ کتب کے مئولف ہیں جن میں سے ایک (دفع الشبھة من شبہ وتمرد )ہے ۔الاعلام ۲، :۶۹

شوکانی کہتا ہے :اگر چہ بہت سے لوگ اس کی تشیع جنازہ سے باخبر نہ ہو سکے لیکن پھر بھی شرکت کرنے والوں کی تعداد اس قدر زیادہ تھی کہ خدا کے سواکوئی نہیں جانتا ، البدرالطالع ۱:۱۶۶)

۷۸

لیکن کوئی صحیح عقیدہ نظر نہیں آیا مگر یہ کہ اس نے متعدد مقامات پر بعض مسلمانوں کو کافر اوربعض کو گمراہ قرار دیا ہے ۔

اس کی کتب خدا وندمتعال کو مخلوقات سے تشبیہ ، ذات باری تعالی کی تجسیم ، رسالت مآبصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم ، ابوبکر عمر کی توہین اورعبداللہ بن عباس کی تکفیر سے بھرپڑی ہیں ۔

وہ عبد اللہ بن عباس کو ملحد ، عبداللہ بن عمر کو مجرم ، گمراہ اوربدعت گزار سمجھتا ہے یہ ناروا مطالب اس نے اپنی کتاب ''الصراط المستقیم ''میں ذکر کئے ہیں ۔( ۱ )

حصنی دمشقی دوسری جگہ لکھتا ہے :(وقال (ابن تیمیه )(من استغاث بمیت اوغائب من البشر ...فان هذا ظالم ، ضال ، مشرک )هذا شئی تقشعرمنه الابدان ، ولم نسمع احدا فاه ، بل ولارمز الیه فی

____________________

۱(وان ابن تیمیة الذی کان یوصف بانه بحرفی العلم ، لایستغرب فیه ما قاله بعض الائمة عنه :من انه زندیق مطلق وسبب قوله ذلک انه تتبع کلامه فلم یقف له علی اعتقاد، حتی انه فی مواضع عدید ة یکفر فرقة ویضللها، وفی آخر یعتقد ماقالته اوبعضه ،مع انه کتبه مشحونة بالتشبیه والتجسیم ، والاشارة الی الازدراء بالنبیصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم والشیخین ، وتکفیر عبدالله بن عباس وانه من الملحدین ، وجعل عبدالله بن عمر رضی الله عنهما من المجرمین ، وانه ضال مبتدع ، ذکر ذلک فی کتاب له سماه الصراط المستقیم والرد علی اهل الجحیم )دفع الشبه عن الرسول ، تحقیق جماعة من العلماء :۱۲۵.

۷۹

زمن من الازمان ، ولابلد من البلدان قبل زندیق حرّان قاتله الله ، عزوجل ، وقد جعل الزندیق الجاهل الجامد ، قصة عمردعامة للتوصل بها الی خبث طویته فی الازدراء بسید الاولین والآخرین واکرم السابقین واللاحقین ، وحط رتبته فی حیاته ، وان جاه وحرمته ورسالته وغیر ذلک زال بموته ،وذلک منه کفر بیقین وزندقة محققة ۔( ۱ )

ابن تیمیہ نے کہاہے :جو شخص بھی مردہ یا غایب سے استغاثہ کرے ...وہ ظالم ، گمراہ اورمشرک ہے ۔

اس کی اس بات سے انسان کا بدن لرز اٹھتا ہے ، یہ ایک ایسی بات ہے جو زندیق حرّ ان سے پہلے کسی زمان ومکان میں کسی شخص کی زبان سے نہ نکلی اوراس نادان اور خشک زندیق نے عمر رضی اللہ عنہ اوریہ ادعا کیا ہے کہ پیغمبرصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی رحلت کے بعد ان کی رسالت وحرمت ختم ہوچکی ہے اس کا یہ عقیدہ یقینا اسکے کفر والحاد کی علامت ہے۔

۵۔شافعی قاضی کا ابن تیمیہ کے پیروکاروں کا خون مباح قراردینا :

ابن حجر عسقلانی متوفی ۸۵۲ھاورشوکانی متوفی ۱۲۵۵ھ اہل سنت کے یہ دونوں عالم لکھتے ہیں : دمشق کے شافعی قاضی نے دمشق میں یہ اعلان کرنے کا حکم

دیا: (من اعتقد ة ابن تیمیه حل دمه وماله )جو شخص ابن تیمیہ کے عقیدہ کی پیروی کرے اس کا خون اورمال حلال ہے ۔(۲)

____________________

(۱)دفع الشبھات عن الرسول :۱۳۱.

(۲)الدررالکامنة۱: ۱۴۷، البدرالطالع ۱:۶۷. مرآة الجنان ۲:۲۴۲.

۸۰

۶۔ابن حجر مکی کا ابن تیمیہ کو گمراہ اورگمراہ کن قراردینا :

اہل سنت کے بہت بڑے عالم ابن حجر مکی متوفی ۹۷۴ھ ابن تیمیہ کے بارے میں لکھتے ہیں : (ابن تیمیة عبد خذله الله ، واصله واعماه ، واصمه واذله ، وبذلک صرح الائمة الذین بینوا فساد احواله وکذب اقواله ...واهل عصرهم وغیرهم من الشافعیة والمالکیة والحنفیة ...والحاصل انه مبتدع ،ضال، مضل ، غال ، عاملها الله بعد له واجارنا من مثل طریقته )

علماء اہل سنت کے نزدیک ابن تیمیہ ایسا شخص ہے جسے خدا وندمتعال نے ذلیل ، گمرا ہ ، اندھا اورپست قراردیاہے ، اس کے معاصر اورغیر معاصر شافعی ، مالکی اورحنفی پیشوائوں نے اس کے فاسد احوال اورجھوٹے اقوال کو بیان کیا ہے ...نتیجہ یہ کہ اس کے اقوال کی کوئی اہمیت نہیں اوروہ ایک بدعت گزار ، گمراہ کن اور غیر معتدل انسان تھا خدا اس سے عادلانہ سلوک کرے اور ہمیں اس کے عقیدہ اوراس کے راہ ورسم کے شرسے محفوظ رکھے۔(۱)

____________________

(۱)الفتاوی الحدیثہ ص:۸۶

۸۱

۷۔ابن تیمیہ کو شیخ الاسلام کہنا کفر ہے :

اہل سنت کے بزرگ عالم شوکانی کہتے ہیں : (صرح محمد بن محمد البخاری الحنفی المتوفی سنة ۸۴۱بتبدیعه ثم تکفیر ه ، ثم صار یصرح فی مجلسه :ان من اطلق القول علی ابن تیمیة انه شیخ الاسلام فهو بهذاالاطلاق کافر )( ۱ )

محمد بن محمد بخاری حنفی متوفی ۸۴۱ھنے ابن تیمیہ کے بدعت گزار اورکافر ہونے کی وضاحت کی ہے یہاں تک کہ ایک مجلس میں آشکارا طور پر کہا :جو شخص ابن تیمیہ کو شیخ الاسلام کہے وہ کافر ہے ۔

۸۔ابن بطوطہ کا ابن تیمیہ کو مجنون قرار دینا :

مراکش کا مشہور سیاح ابن بطوطہ اپنے سفر نامہ میں لکھتا ہے : (وکان بدمشق من کبار الفقها ء الحنابلة تقی الدین بن تیمیة کبیر الشام یتکلم فی الفنون الا ان فی عقله شیء )

دمشق میں حنبلیوں کے ایک بڑے عالم کو دیکھا جو مختلف فنون کے بارے میں گفتگو کرتا مگر یہ کہ اس کی عقل سالم نہیں ہے۔( ۲ )

____________________

(۱)البدر الطالع ۲:۸۶۔

(۲)رحلة ابن بطوطہ ۱:۵۷

۸۲

ابن تیمیہ کی گوشہ نشینی کے عوامل اوراس کے افکار کے دوبارہ رشد کے اسباب

منطقہ شامات جو ابن تیمیہ کے علم کا گہوارہ تھا وہاں پر مختلف مذاہب کے علماء ودانشوروں کی ابن تیمیہ کے باطل افکار کی مخالفت اوراعتراضات اس کے گوشہ نشین ہونے کا باعث بنے اوراسی کے باعث اس کے عقائدو نظریات خاموشی کی بھینٹ چڑھ گئے ۔

لیکن بارہویں صدی ہجری میں منطقہ نجد میں محمد بن عبدالوھاب کے توسط سے مختلف اسباب کے تحت اس کے عقائد نے دوبارہ رشد پائی :

۱۔منطقہ نجد تمدن وثقافت سے بے بہرہ اورایسی علمی شخصیات سے خالی تھا جو محمد بن عبدالوھاب کے منحرف عقائد کا مقابلہ کرسکتیں ۔

۲۔منطقہ نجد میں حکومت کے مسئلہ پر قبیلوں میں شدید اختلاف پایاجاتا تھا ، محمد بن عبدالوھاب نے اس موقع سے فائدہ اٹھاتے ہوئے محمد بن سعود شاہ فھد کے جد اعلی سے فوجی اورثقافتی عہدوپیمان باندھا کہ محمد بن سعود اس کے افکار کی حمایت کرے گا اوروہ اپنے فتووں کے ذریعے اس کی حکومت کے وسیع ہونے کے لئے راہ ہموار کرے گا ۔

۳۔استعمار ی طاقت اورخصوصا برطانوی فوجی مشیروں کی حمایت نے وھابی ثقافت کے پھیلانے میں بہت زیادہ کردار ادا کیا ۔

محمد بن عبدالوھاب کی زندگی پر ایک مختصر نظر

۱۔ابن تیمیہ کے افکا رکاباقاعدہ پر چار :

محمد بن عبدالوھاب ۱۱۵۵ھمیں نجد کے ایک شہر عیینہ میں پیدا ہوا وہیں پہ فقہ حنبلی کی تعلیم حاصل کی اور پھر مزید علوم کی تحصیل کے لئے مدینہ منورہ کا رخ کیا ۔

وہ طالب علمی کے دور میں ہی ایسے ایسے مطالب زبان پر لاتا جو اس کے فکری انحراف کی نشاندہی کرتے تھے یہاں تک کہ اس کے بعض اساتذہ اس کے مستقبل کے بارے میں پر یشانی کا اظہار کرتے ۔

۸۳

کہا جاتا ہے کہ وہ فرقہ وھابیت کا بانی ومئوسس نہیں ہے بلکہ ایسے عقائد صدیوں پہلے حنبلی علماء مانند ابن تیمیہ اوراس کے شاگردوں کی جانب سے بیان ہوچکے تھے لیکن علماء اہل سنت اورشیعہ کی مخالفت کی وجہ سے خاموشی کا شکار ہوگئے ، اہم ترین کام جو محمد بن عبد الوھاب نے کیا وہ یہ تھا کہ اس نے ابن تیمیہ کے عقائد کو ایک جدید فرقہ یا مذہب کی صورت میں پیش کیا جو اہل سنت کے چاروں مذاہب اور مذہب شیعہ سے بالکل الگ تھا ۔

۲۔محمد بن عبدالوھاب کا نبوت کے جھوٹے دعویداروں سے لگائو :

وہ شروع میں نبو ت کے جھوٹے دعویداروںمانند مسیلمہ کذاب ، سجاج ، اسود عنسی اورطلیحہ اسدی کے زندگی ناموں کامطالعہ کرنے سے بہت لگائو رکھتا تھا ۔( ۱ )

۳۔آغاز ترویج وہابیت اور لوگوں کی مخالفت :

محمد بن عبدالوھاب اپنی تبلیغ کے آغاز میں بصرہ گیا اوروہاں پہ اپنے عقائد کا اظہار کیا تو بصرہ کے سرداروںنے سخت مخالفت کی ۔

ڈاکٹر منیر عجلانی لکھتا ہے :

(وتجمع علیه اناس فی البصرة من رئوساء ها وغیرهم بآذوه اشدالاذی واخرجو ه منها )بصرہ کے سرداروں اورعوام نے اس کے خلاف وقیام کیا اوراسے شہر سے نکال ڈالا۔( ۲ )

وہاں سے بغداد ، کردستان ، ہمدان اوراصفہان روانہ ہوا ۔( ۳ )

اوربالآخر اپنی پیدایش گاہ کی طرف واپس پلٹ گیا ، وہ اپنے باپ کی زندگی میں اپنے عقائد کے اظہار کی جرئت نہیں رکھتا تھا

____________________

(۱)کشف الارتیاب :۱۲، نقل از خلاصة الکلام

(۲)تاریخ العربیة السعودیة :۸۸.

(۳)وہ چار سال بصرہ ، پانچ سال بغداد ، ایک سال کردستان ، دوسال ہمدان میں رہا اورکچھ عرصہ اصفہان اورقم میں گذارا اس کے بعد اپنے والد کی رہائش گاہ حریملہ جاپہنچا ، (وھابیت مبانی فکری وکارنامہ عملی :۳۶)

۸۴

لیکن ۱۱۵۳ھ میں باپ کی وفات کے بعد اس نے اپنے عقائد کے اظہار کے لئے راہ ہموار دیکھی اورلوگوں کو جدید آئین کی دعوت دی۔( ۱ )

لیکن لوگوں کے اعتراضات بلکہ اس کے قتل کا پروگرام باعث بنا کہ وہ مجبوراً اس جگہ کو ترک کرے اوراپنی پیدائش گاہ عیینہ جائے ، وہاں کے امیر عثمان بن معمر سے پیمان باندھا کہ دونوں ایک دوسرے کا زور بازوبنیں گے لہٰذا اس کی حمایت سے اپنے عقائد کی برملا تبلیغ کرنے لگا لیکن زیادہ عرصہ نہ گزراکہ حاکم عیینہ نے احساء کے فرمانرواکے دستور پر اسے شہر سے نکال دیا ۔

محمد بن عبدالوھاب نے مجبور ہوکر درعیہ میں رہائش رکھی اورمحمد بن سعود حاکم درعیہ کے ساتھ جدید پیمان باندھا کہ حکومت محمد بن سعود کی ملکیت ہوگی اورتبلیغ کی ذمہ داری محمد بن عبدالوھاب کے ہاتھ ہوگی۔

۴۔زیارت گاہ صحابہ اورخلیفہ دوم کے بھائی کی قبر کا خراب کرنا :

سب سے پہلا کام جو محمد بن عبدالوھاب نے انجام دیا وہ عیینہ کے اطراف میں صحابہ واولیاء کرام کی قبروں کو ویران کرنا تھا جن میں سے ایک قبر خلیفہ دوم کے بھائی زید بن خطاب کی تھی ۔( ۲ )

____________________

(۱)زعماء الاصلاح فی عصرالحدیث :۱۰تاریخ العربیة السعودیة :۹، تاریخ نجد آلوسی : ۱ ۱ ۱

(۲)عنوان المجد فی تاریخ نجد :۹، براھین الجلیة فی رفع تشکیکات الوھابیة :۴،ھذہ ھی الوھابیة :۱۲۵،السلفیة بین اھل السنة والامامیة :۳۰۷

۸۵

علماء ورئو سا کی شدید مخالفت کی نباء پر حاکم عیینہ نے ناچار ہو کر اسے شہر سے نکال دیا جیسا کہ پہلے اشارہ کرچکے ہیں کہ بارہویں صدی ہجری میں مسلمان انتہا ئی نامناسب اورسخت حالات سے گزررہے تھے اسلامی ممالک چاروں طرف سے استعمار ی طاقتوں کے حملوں کا شکار بنے ہوئے تھے اور مرکز اسلام کو برطانیہ ، فرانس ، روس اورامریکہ کی طرف سے خطرات لاحق تھے ۔

ایسے زمانہ میں کہ جب مسلمانوں کو مشترک دشمن کے مقابلہ میں بے حداور وحدت اتحاد کی ضرورت تھی لیکن افسوس کہ محمد بن عبدالوھاب نے مسلمانوں کو انبیاء واولیائے الھی سے توسل کے جرم میں مشرک اور بت پرست قراردے کرا ن کے کفر کا فتوی دیا ، ان کا خون حلال ، قتل جائز اوران کے مال کو جنگی غنیمت شمار کیا ، اس کے پیروکاروں نے اس فتوی کی پیروی کرتے ہوئے ہزاروں بے گناہ مسلمانوں کو خون میں لت پت کیاکہ جس کا تذکرہ بعد والی فصل میں کیاجائے گا ۔

۸۶

محمد بن عبدالوھاب اورعلماء اہل سنت

۱۔اس کے اساتذہ کی طرف سے اس کی گمراہی کی پیش بینی :

مفتی اعظم مکہ مکرمہ احمد زینی دحلان متوفی ۱۳۰۴ھج لکھتے ہیں :

فاخذ عن کثیر من علماء المدینه منهم الشیخ محمد بن سلیمان الکردی الشافعی والشیخ محمد حیاة السندی الحنفی وکان الشیخان المذکوران وغیر هما من اشیاخه یتفرسون فیه الالحادوالضلال، ویقولون :سیضل هذا ، ویضل الله به من ابعد ه واشقاه ، وکان الامر کذلک ، وما اخطات فراسهم فیه )( ۱ )

محمد بن عبدالوھاب نے بہت سے علمائے مدینہ مانند شیخ محمد سلیمان کردی شافعی اور شیخ محمد حیات سندی حنفی سے علمی استفادہ کیا ، یہ دونوں استاد ابتدا ء ہی سے اس کے اندر بے دینی اورگمراہی کے آثار محسوس کررہے تھے اورکہا کر تے تھے کہ وہ گمراہ ہوجائے گا اورا س کے ہا تھوں رحمت خدا سے دور اورشقی لوگ بھی گمراہ ہوں گے ان کی یہ پیش گوئی بالکل درست ثابت ہوئی ۔

۲۔محمد بن عبدالوھاب کا باپ بھی اس کی گمراہی کاگمان کرتا :

احمد زینی دحلان لکھتے ہیں :

(وکان والده عبدالوهاب من العلماء الصالحین فکان ایضا یتفرس فی ولده المذکور الالحادویذمه کثیراویحذرالناس منه ).( ۲ )

محمد بن عبدالوھاب کا باپ نیک علماء میں سے تھا اور وہ بھی دوسرے علماء کے مانند اپنے بیٹے میں الحادوبے دینی کے آثار کو محسوس کرتا اوراس کی شدید مذمت اورلوگوں کو اس سے بچنے کا حکم دیتا تھا۔

____________________

(۱)الدررالسنیة فی الرد علی الوھابیة :۴۲

(۲) حوالہ سابق

۸۷

۳۔محمد بن عبدالوھاب کے بھائی کا اس سے سخت رویہ :

مفتی مکہ مکرمہ زینی دحلان لکھتے ہیں :(وکذا اخوه سلیمان بن عبد الوهاب فکان ینکر مااحد ثه من البدع والضلال والعقائد الذائغة ، وتقدم انه الف کتابا فی الردعلیه ).( ۱ )

محمد بن عبدالوھاب کا بڑا بھائی سلیمان بھی اس کی بدعات ، گمراہی اورمنحرف عقائد کا انکار کرتا اوراس نے اس کے عقائد کی رد میں ایک کتاب بھی لکھی ۔( ۲ )

دوسرے مقام پر لکھا ہے :(کان محمد بن عبد الوهاب الذی ابتدع هذه البد عة یخطب للجمعة فی مسجد الدرعیة ویقول فی کل خطبة :ومن توسل بالنبی فقد کفر ، وکان اخوه الشیخ سلیمان بن عبد الوهاب من اهل العلم فکان ینکر علیه انکارا شدید ا فی کل مایفعله ، او یامربه ولم یتبعه فی شئی مما ابتدا عه،وقال له اخوه سلیمان یوما : کم ارکان الاسلام یامحمد بن عبدا لوهاب ؟!فقال :

____________________

(۱)ایضا

(۲)]اس کتاب کا نام (الصواعق الالھیة فی الرد علی الوھابیة )ہے جو ابوطالب علیہ السلام اسلامک انسٹیٹیوٹ لاہور کی کاوشو ں سے اردو زبان میں ترجمہ وتحقیق کے ساتھ شائع ہوچکی ہے ، یہ وھابیت کے خلاف لکھی جانے والی سب سے پہلی کتا ب ہے (مترجم)[

۸۸

خمسة ، فقال :انت جعلتها ستة ، السادس من لم یتبعک فلیس بمسلم ، هذا عندک رکن سادس للاسلام ۔( ۱ )

محمد بن عبدالوھاب درعیہ میں جمعہ کا خطبہ دیا کرتااورہر مرتبہ خطبے میں کہاکرتا :پیغمبرصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم سے توسل کفر ہے ، اس کا بھائی شیخ سلیمان بھی اہل علم تھا اس کی ہر ہر بات اورہرہر عمل کی سخت مخالفت کرتا اوراس کی بدعات میں سے کسی ایک میں بھی اس کی پیروی نہ کرتا ۔

ایک دن سلیمان نے اپنے بھائی محمد سے سوال کیا اسلام کے ارکان کتنے ہیں ؟محمد نے جواب دیا پانچ ،اس وقت سلیمان نے کہا:تونے تو چھ بنارکھے ہیں اور چھٹا یہ کہ جو تیری پیروی نہ کرے وہ مسلمان ہی نہیں ۔

۴۔محمد بن عبدالوھاب کے بھائی کا قتل سے خوفزدہ ہونا :

احمد زینی دحلان کہتے ہیں :

ولما طال النزاع بینه وبین اخیه خاف اخوه ان یامر بقتله فارتحل الی المدینه المنورة والّف رسالة فی الرد علیه وارسلها له فلم ینته والّف کثیر من علماء الحنابلة وغیر هم رسائل فی الرد علیه وارسلوها له فلم ینته ( ۲ )

____________________

(۱)الدررالسنیة فی الردعلی الوھابیة :۳۹

(۲)ایضا

۸۹

جب سلیمان اوراس کے بھائی محمد کے درمیان اختلاف حد سے تجاوز کرگیا تو سلیمان اس خوف سے مدینہ منورہ ہجرت کرگیا کہ کہیں اس کا بھائی اس کے قتل کا حکم نہ دے دے وہاں پہ اس نے اس کی رد میں ایک رسالہ لکھا اوراسے بھیج دیا ، اسی طرح بہت سے حنبلی اورغیر حنبلی علماء نے بھی اس کی رد میں رسالے لکھے اوراسے بھجوائے لیکن کسی ایک نے بھی اسے فائدہ نہ دیا ۔

رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی ظہور وہابیت کی پیشگوئی

اہل سنت کی معتبر کتب کے اندر پیغمبرصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم سے ایسی روایات نقل کی گئی ہیں جن میں آنحضرتصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے وھابی فرقہ کے ظاہر ہونے کی طرف اشارہ فرمایا:جیسا کہ صحیح بخاری میں عبداللہ بن عمر سے نقل کیاگیا ہے کہ وہ کہتے ہیں :

ذکر النبی صلی الله علیه وسلم ، اللهم بارک لنا فی شامنا ، اللهم بارک لنا فی یمننا قالوا:وفی نجدنا،قال اللهم بارک لنا فی شامنا، اللهم بارک لنا فی یمننا،قالوا :وفی نجدنا ، قال اللهم بارک لنا فی شامنااللهم بارک لنا فی یمننا ، قالوا یارسول الله وفی نجدنا ؟فاظنه قال فی الثالثة :هناک الزلازل والفتن وبها یطلع قرن الشیطان .( ۱ )

____________________

(۱)کتاب الفتن ،باب ۱۶، باب قول النبیصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم :الفتنُ من قبل المشرق

۹۰

ترجمہ: آنحضرتصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے فرمایا : اے اللہ !ہمارے ملک شام میں ہمیں برکت دے، ہمارے یمن میں ہمیں برکت دے۔ صحابہ نے عرض کی اور ہمارے نجد میں ؟ آنحضرتصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے پھر فرمایا: اے اللہ!ہمیں ہمارے شام میں برکت دے، ہمیں ہمارے یمن میں برکت دے صحابہ نے عرض کی اور ہمارے نجد میں ؟ میرا خیال ہے کہ آنحضرتصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے تیسری مرتبہ فرمایا: وہاں زلزلے اور فتنے ایجاد ہوں گے اور وہیں سے شیطان کی سینگ طلوع ہوگی۔( ۱ )

اہل سنت کے بہت بڑے عالم عینی جس نے صحیح بخاری کی شرح لکھی وہ کہتے ہیں : شیطان کی شاخ سے مراد اس کا گروہ اورٹولہ ہے ۔( ۲ )

اسی طرح بخاری نے اپنی صحیح میں ابو سعید خدری کے واسطے سے پیغمبرصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کا فرمان نقل کیا ہے کہ آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے فرمایا:

یخرج ناس من قبل المشرق ویقرء ون القرآن لا یجاوز تراقیهم یمرقون من الدین کما یمرق السهم من الرمیة ثم لا یعودون فیه حتی یعود السهم الی فوقه ، قیل ما سیما هم ، قال سیما هم التحلیق اوقال : التسبید .( ۳ )

____________________

(۱)صحیح بخاری۸:۷۰۹۴۹۵۔کتا با لفتن،باب۱۶،باب قول النبی صلی الله علیه وآله و سلم:؛الفتنة من قبل المشرق ،

(۲)عمدة القاری شرح صحیح بخاری ۷:۵۹۔وبنجد یطلع قرن الشیطان ایء :امتہ وحزبہ ،

(۳)صحیح بخاری ج۸ :۲۱۹۔۷۵۶۲۔

۹۱

ترجمہ: مشرق سے کچھ لوگ قیام کریں گے جو قرآن کی تلاوت تو کریں گے مگر قرآن ان کے حلق سے نہ اترے گا، یہ لوگ دین سے اسی طرح خارج ہوجائیں گے جس طرح تیر کمان سے خارج ہوتا ہے اور پھر دین کی طرف پلٹ کرنہ آئیں گے جس طرح تیر پلٹ کر نہیں آتا۔

عرض کیاگیا: ان کی نشانی کیا ہوگی؟ فرمایا: وہ اپنے سر کے بال صاف کرتے ہوں گے۔

زینی دحلان مفتی مکہ مکرمہ اس حدیث کی طرف اشارہ کرنے کے ضمن میں لکھتے ہیں :

(ففی قوله سیماهم التحلیق تصریح بهذه الطائفة لانهم کانوا یامرون کل من اتبعهم ان یحلق راسه ولم یکن هذا الوصف لاحد من طوائف الخوارج والمبتدعة الذین کانوا قبل زمن هئولاء )( ۱ )

پیغمبر اکرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے فرمان میں اس گروہ کی آشکار ترین نشانی (سرمنڈوانا) ہے اوریہ فرقہ وھابیت کی طرف واضح اشارہ ہے ، اس لئے کہ یہی وہ تنہا فرقہ ہے جو اپنے پیروکا روں کو سرمنڈوانے کا حکم دیتا ہے اوریہ صفت وہابیوں سے پہلے خوارج یا بدعت گزار فرقوں میں سے کسی ایک کے اندر نہیں دیکھی گئی ہے ۔

وہ آگے چل کرلکھتے ہیں :

____________________

(۱)فتنة الوھابیة ۱۹

۹۲

(وکان السیدعبدالرحمن الاهدل مفتی زبید یقول :لاحاجة الی التالیف فی الرد علی الوهابیة بل یکفی فی الرد علیهم قوله صلی الله علیه وسلم سیما هم التحلیق ، فانه لم یفعله احد من المبتدعة غیرهم )

مفتی منطقہ زبید سید عبدالرحمن اہدل کہا کرتے کہ وہابیوں کے عقائد کو رد کرنے کے لئے کتاب لکھنے کی ضرورت نہیں ہے بلکہ یہی حدیث پیغمبرصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم جس میں اس فرقہ کی پہچان (سرمنڈوانا )بیان کی گئی ہے ان کے عقید ہ کے باطل ہونے پر کافی ہے اس لئے کہ وہابیوں کے سواکسی بھی بدعت گزار فرقے میں یہ صفت نہیں پائی جاتی۔

(واتفق مرة ان امراة اقامت الحجة علی بن الوهاب لمااکر هو ها علی اتباعهم ففعلت،امرها ابن عبد الوهاب ان تحلق راسها فقالت له حیث انک تامرالمراة بحلق راسها ینبغی لک ان تامر الرجل بحلق لحیته ، لان شعر راس المراة زینتها وشعر لحیة الرجل زینته فلم یجد لها جوابا )( ۱ )

ایک دن محمد بن عبدالوھاب نے ایک عورت کو سرکے بال منڈوانے کا حکم دیا تو اس عورت نے اس سے کہا : تو جو عورتوں کو سرمنڈوانے کا حکم دیتا ہے تو مردوں کو

____________________

(۱)فتنة الوھابیة :۱۹

۹۳

ڈاڑھی منڈوانے کا حکم دے اس لئے کہ جس طرح مرد کی زینت اس کی ڈاڑھی ہے اسی طرح عورت کی زینت اس کے سرکے بال ہیں محمد بن عبدالوھاب کوئی جواب نہ دے پایا۔

ابن تیمیہ کی عقائد کے رد میں لکھی جانے والی کتب اہل سنت

ابن تیمیہ کے ہم عصر اہل سنت کے بعض بڑے بڑے علماء نے اپنی اپنی کتب میں اس کے عقائد پر اعتراض کیا ہے اور بعض نے اس کے عقائد کی رد میں مستقل کتب تالیف کی ہیں جیسے :

تقی الدین سبکی متوفی ۷۵۶ھ نے ابن تیمیہ کے عقائد کی رد میں دوکتابیں لکھیں ایک کا نام (الدرة المضیةفی الرد علی ابن تیمیہ )اوردوسری کانام (شفاء السقام فی زیارة خیرالانام )ہے ۔

اس کتاب کی شرح معروف حنفی فقیہ ملاعلی قاری متوفی ۱۰۱۴ھ مقیم مکہ نے انتہائی محققانہ انداز میں لکھی اوراس کانام (شرح شفاء السقام )رکھا۔

محمد بن ابوبکر اخنائی متوفی ۷۶۳ھ نے ایک کتاب بنام (المقالة المرضیة فی الرد علی ابن تیمیه )لکھی جس میں معتبر احادیث اورمحکم ادلہ کے ساتھ ابن تیمہ کے عقائد کو رد کیا۔

جب ابن تیمیہ نے یہ کتاب پڑھی تو اس کی رد میں ایک کتاب لکھی جس کانام (رداخنائی )ہے ۔

شیخ الاسلام مدینہ علی بن محمد سمہودی شافعی مصری متوفی ۹۱۱ ھ نے ایک گراںبہا کتاب لکھی جس کانام (وفاء الوفاء باخبار دارالمصطفی )رکھا ، اس نے اس کتاب میں زیارت پیغمبر ، شفاعت ، توسل اورآنحضرتصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم سے استغاثہ پر تفصیل کے ساتھ محققانہ بحث کی ہے ۔

۹۴

مذکورہ بالاکتب کے علاوہ بھی علمائے اہل سنت نے ابن تیمیہ کے عقائد کی رد میں کئی ایک کتب تالیف کی ہیں جن میں سے چند ایک کی طرف اشارہ کررہے ہیں : (خیرالحجة فی الرد علی ابن تیمیہ فی العقائد ۔ تالیف : احمد بن حسین بن جبرئیل شھاب الدین شافعی )(الدره المضیئة فی الرد علی ابن تیمیه )تالیف :محمد بن علی شافعی دمشقی کمال الدین معروف ابن زملکانی متوفیٰ ۷۲۷.

(دفع الشبّه من شبّه وتمرّد )تقی الدین ابوبکر حصنی دمشقی متوفی ۸۲۹ھ کی لکھی ہوئی ۔یہ کتاب مکتبة الازھر یة للتراث سے شائع ہوئی اورپھر ۱۴۱۸ھ میں تحقیق اورفہرست کے ساتھ (دفع الشبه عن الرسول صلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم )کے نام سے دوبارہ شائع ہوچکی ہے ۔

(الرد علی ابن تیمیه )تالیف :عیسی بن مسعود منکاتی۔

(الرد علی ابن تیمیه فی الاعتقادات )تالیف : محمد حمید الدین حنفی دمشق فرغانی (ردعلی الشیخ ابن تیمیہ )تالیف :شیخ نجم الدین بن ابوالدربغدادی

(الرد علی ابن تیمیه فی الاعتقادات )تالیف : محمد حمید الدین حنفی دمشقی فرغانی ۔(ردعلی الشیخ ابن تیمیہ )تالیف: شیخ نجم الدین بن ابوالدربغدادی ،

۹۵

(رسالة فی الرد علی ابن تیمیه فی التجسیم والاستواء والجهة )تالیف :شیخ شھاب الدین احمد بن یحیی کلابی حلبی متوفی ۷۳۳، معاصر ابن تیمیہ ۔

(رسالة فی الرد علی ابن تیمیه فی مسالة حودث لااول لها ) تالیف :شیخ بہاء الدین عبدالوھاب بن عبدالرحمن اخمینی شافعی معروف مصری متوفی ۷۶۳ ھ،یہ کتاب ۱۹۹۸ئ میں دارالسراج عمان اردن سے سعید عبدالطیف کی تحقیق اورعبارات کی شرح کے ساتھ چھپ ہوچکی ہے ۔

(رسالة فی مسئلة الزیارة فی الرد علی ابن تیمیه )تالیف : محمد بن علی مازنی (سیف الصیقل فی رد ابن تیمیه وابن قیم )تالیف : تقی الدین سبکی متوفی ۷۵۶ھ یہ کتاب بھی مصر میں چھپ ہوچکی ہے ۔

(شرح کلمات الصوفیه اوالردعلی ابن تیمیه )تالیف: محمود غراب۔

اس کتاب میں ابن عربی اورصوفیوں کے بارے میں ابن تیمیہ کے اقوال کو رد کیاگیاہے ۔

(فتاوی الحدیثة )تالیف : احمد شھاب الدین بن حجرھیثمی مکی متوفی ۹۷۴ھ اس کتاب کا اصلی نسخہ ۱۹۹۶ئ میں استنبول سے چھپ چکا ہے ۔

اس کتاب کی رد میں نعمان بن محمود آلوسی بغدادی متوفی ۱۳۱۷ھ نے ایک کتاب بنام (جلاء العینین فی محاکمة الاحمد ین )لکھی (المقالات السنیة فی کشف ضلالات ابن تیمیة )تالیف :شیخ عبداللہ بن محمد بن یوسف ہروی معروف حبشی مفتی ہرو(صومالیہ کا ایک منطقہ )متوفی ۱۳۲۸ھ ۔یہ کتاب دارالمشاریع بیروت سے چوتھی بار ۱۹۹۸ء میں شائع ہوئی ہے ۔

(نجم المهترین برجم المعتدین فی رد ابن تیمیة )تالیف: فخربن معلم قرشی۔

۹۶

ابن تیمیہ کے عقائد کی ردمیں لکھی جانے والی کتب شیعہ

علامہ تہرانی نے اپنی مایہ نازکتا ب(الذریعه )میں ابن تیمیہ کی کتاب منہاج السنة کے جواب میں لکھی جانے والی علماء شیعہ کی کئی ایک کتب کانام ذکر کیا ہے جیسے: (الانصاف فی الانتصاف لا هل الحق من الاسراف )یہ کتاب آٹھویں صدی ہجری کے ایک عالم بزرگوار کی لکھی ہوئی ہے جو ۷۵۷ھ میں مکمل ہوئی لیکن اس پر مولف کا نام درج نہیں کیا گیا ہے ۔( ۱ )

اس کتاب کا ایک نسخہ کتابخانہ بزرگ ایران میں موجود ہے ۔( ۲ )

(اکمال المنة فی نقض منهاج ا لسنة ) تالیف :شیخ سراج الدین حسن یمانی معروف فداحسین ۔

(منهاج الشریعة )تالیف :دانشور مجاہد سید مھدی موسوی قزوینی متوفی ۱۳۵۸م (البراهین الجلیة فی کفر ابن تیمیة )تالیف :سید حسن صدر کاظمی متوفی ۱۳۵۴۔ (الامامة الکبری والخلافة العظمی )تالیف :سید محمد حسن قزوینی متوفی ۱۳۸۰۔یہ کتاب آٹھ جلد وں پرمشتمل ہے ۔

اوران کی دوسری کتاب (البراهین الجلیة فی رفع تشکیکات الوهابیة )اس کتاب کا ترجمہ مولف توانمند جناب آقائے دوانی رضوان اللہ علیہ نے کیا اوراس کانام (فرقہ وھابی وپاسخ بہ شبہات آنھا )رکھا۔

تقریبا بیس ۲۰مستقل کتابیں علمائے شیعہ کی جانب سے ابن تیمیہ کے عقائد کی رد میں تالیف ہوچکی ہیں ۔

____________________

(۱)(آقا بزرگ تہرانی لکھتے ہیں:(لم یذکر المولف اسمه بل ذکر فی اوله ابن تیمیه تعصب فی القول والخطاب فی نقضه لمنهاج الکرامة وقال بالهوی المحض وهو داب المفلس العادم للجحة، الذاهب التایة عن المحجة ، الذریعه ۱۱:۱۲۲

(۲)کتابخانہ آستانہ قدس رضوی مشہد ،شمارہ کتاب ۵۶۴۳، کتاب کانہ ملی تہران شمارہ ۴۸۵، کتاب خانہ ادانشکدہ حقوق تہران شمارہ ۱۳۰، نقل از مجلہ تراثنا شمارہ ۱۷:۱۵۳)

۹۷

فصل سوم

وہابیوں کا عملی کارنامہ

طول تاریخ میں وھابیوں کے مظالم

۱۔نجد میں وھابیوں کا قتل وغارت کرنا:

محمد بن عبدالوھاب نے مسلمانوں پرکفر ، شرک اوربدعت کی تہمت لگاکر عرب بادیہ نشینوں کو ان کے خلاف جہاد پراکسایا اورمحمد بن سعود کی مدد سے لشکرآمادہ کیاجس نے مسلمانوں کے شہروں اوردیہاتوں پرحملے کرکے لوگوں کا قتل عام کیا اوران کے اموال کوجنگی غنیمت کے نام پرغارت کیا ۔( ۱ )

اس فصل میں نجدکے علاقہ میں اورریاض کے اطراف میں وھابیوں کے ظالمانہ قتل عام کے چندنمونوں کی طرف اشارہ کریں گے ۔

____________________

(۱)تاریخ نجد :۹۵فصل سوم غزوات ، تاریخ آل سعود۱:۳۱؛تاریخچہ نقد وبررسی وھابی ھا :۱۳۔۷۶

۹۸

الف۔مسلمانوں کا قتل عام، درختوںکاکاٹنااوردکانوں کی لوٹ مار:

مورخ آل سعود ابن بشرعثمان بن عبداللہ نے نجدکے علاقہ میں آغاز دعوت وھابیت اورشرک کے اتہام میں بے گناہ لوگوں کے قتل عام کے بارے میں لکھا ہے۔

عبدالعزیز ایک گروہ کے ہمراہ اہل ثادق سے جہاد کے قصد سے نکلا، وہاں کا محاصرہ کیا کچھ نخلستانوں کو قطع کیا اوران کے کچھ افراد کو قتل کردیا ،( ۱ )

اس کے بعد عبدالعزیز جہاد کی نیت سے(خرج)کی طرف چلااورمنطقہ دلم میں آٹھ۸مردوں کوقتل کیا، مال سے بھری دکانوں کولوٹا اورپھر سرزمین لعجان ، ثرمدا، دلم اورخرج کی طرف بڑھا ، کچھ لوگوں کو قتل کیا اوربہت زیادہ تعداد میں اونٹ غنیمت کے طور پر لے گئے۔( ۲ )

____________________

(۱)سار عبد العزیز رحمة الله غازیا بجمیع المسلمین وقصد بلد ثادق ونازلهم وحاصر هم ووقع بینهم قتال وقطع شیئا من نخیلهم فاقام علی ذلک ایاما، وقتل من اهل البلد ثمانیةرجال ،وقتل من المسلمین ثمانیة رجال عنوان المجد :۳۴

(۲)غذا عبدالعزیز الی الخرج فاوقع باهل الدلم وقتل من اهلها ثمانیة رجال ونهبوا بهادکاکین فیهااموال ، ثم اغاروا علی اهل بلد نفجان وقتلواعودة بن علی ورجع الی وطنه، ثم بعد ایام سارعبدالعزیز بجیوشه الی بلد (ثرمدا )وقتل من اهلها اربعة رجال واصیب من الغزومبارک بن مزروع ، ثم ان عبدالعزیز کرراجعا وقصد (الدولم) و (الخرج)فقاتل اهلها وقتل من فزعهم سبعة رجال وغنم علیهم ابلاکثیرا عنوان المجد :۴۳

۹۹

ب۔کھیتوں کوآگ لگانا:

ابن بشر آگے چل کرلکھتا ہے :

عبدالعزیز جہاد کے قصد سے (منفوحہ )میں داخل ہوا ، ان کے کھیتوں کو آگ لگادی اوربہت زیادہ مقدار میں جواہرات ، گوسفند اور اونٹ غنیمت بنائے اوردس افراد کو بھی قتل کردیا۔( ۱ )

ج۔حاملہ عورتوں کے بچوں کا ساقط ہونا:لشکر عبدالعزیز رات کے وقت منطقہ (حرمہ )میں داخل ہوا اورعبداللہ بن عبدالعزیز کے فرمان پرطلوع فجر کے بعد توپچیوں نے ایک ساتھ ملکر شہرکی طر ف گولہ باری شروع کی ،گولہ باری کی خوفناک آواز سے شہرپرلرزہ طاری ہوگیا یہاں تک کہ حاملہ عورتوں کے حمل ساقط اورلوگ وحشت زدہ ہوگئے ،شہر کا محاصرہ کرلیاگیالوگ نہ تو مقابلے کی توان رکھ سکتے تھے اورنہ ہی فرارکاکوئی امکان تھا ۔( ۲ )

د۔اہل ریاض کا بھوک اورپیاس سے مرجانا:

ابن بشرریاض پروہابیوں کے حملے کے بار ے میں لکھتا ہے :

____________________

(۱)غذاعبدالعزیز منفوحة واشعل فی زروعهاالنار؟!واخذکثیرا من حللهم وغنم منهم ابلاکثیراوقتل من الاعراب عشرة رجال عنوان المجد:۴۳.

(۲)اتوابلاد حرمة فی اللیل وهم هاجعون ...فلماانفجر الصبح امرعبدالله علی صاحب بندق یثورها فثورواالبنادق دفعة واحدة فارتجت البلد باهلها وسقط بعض الحوامل ، ففزعواواذاالبلاد قدضبطت علیهم ولیس لهم قدرة ولامخرج عنوان المجد:۶۷.

۱۰۰

101

102

103

104

105

106

107

108

109

110

111

112

113

114

115

116

117

118

119

120

121

122

123

124

125

126

127

128

129

130

131

132

133

134

135

136

137

138

139

140

141

142

143

144

145

146

147

148

149

150

151

152

153

154

155

156

157

158

159

160

161

162

163

164

165

166

167

168

169

170

171

172

173

174

175

176

177

178

179

180

181

182

183

184

185

186

187

188

189

190

191

192

193

194

195

196

197

198

199

200

201

202

203

204

205

206

207

208

209

210

211

212

213

214

215

216

217

218

219

220

221

222

223

224

225

226

227

228

229

230

231

232

233

234

235

236

237

238

239

240

241

242

243

244

245

246

247

248

249

250

251

252

253

254

255

256

257

258

259

260

261

262

263

264

265

266

267

268

269

270

271

272

273

274