وہابیت عقل و شریعت کی نگاہ میں

وہابیت عقل و شریعت کی نگاہ میں21%

وہابیت عقل و شریعت کی نگاہ میں مؤلف:
زمرہ جات: ادیان اور مذاھب
صفحے: 274

وہابیت عقل و شریعت کی نگاہ میں
  • ابتداء
  • پچھلا
  • 274 /
  • اگلا
  • آخر
  •  
  • ڈاؤنلوڈ HTML
  • ڈاؤنلوڈ Word
  • ڈاؤنلوڈ PDF
  • مشاہدے: 163847 / ڈاؤنلوڈ: 5545
سائز سائز سائز
وہابیت عقل و شریعت کی نگاہ میں

وہابیت عقل و شریعت کی نگاہ میں

مؤلف:
اردو

1

2

3

4

5

6

7

8

9

10

11

12

13

14

15

16

17

18

19

20

21

22

23

24

25

26

27

28

29

30

31

32

33

34

35

36

37

38

39

40

41

42

43

44

45

46

47

48

49

50

51

52

53

54

55

56

57

58

59

60

61

62

63

64

65

66

67

68

69

70

71

72

73

74

75

76

77

78

79

80

۶۔ابن حجر مکی کا ابن تیمیہ کو گمراہ اورگمراہ کن قراردینا :

اہل سنت کے بہت بڑے عالم ابن حجر مکی متوفی ۹۷۴ھ ابن تیمیہ کے بارے میں لکھتے ہیں : (ابن تیمیة عبد خذله الله ، واصله واعماه ، واصمه واذله ، وبذلک صرح الائمة الذین بینوا فساد احواله وکذب اقواله ...واهل عصرهم وغیرهم من الشافعیة والمالکیة والحنفیة ...والحاصل انه مبتدع ،ضال، مضل ، غال ، عاملها الله بعد له واجارنا من مثل طریقته )

علماء اہل سنت کے نزدیک ابن تیمیہ ایسا شخص ہے جسے خدا وندمتعال نے ذلیل ، گمرا ہ ، اندھا اورپست قراردیاہے ، اس کے معاصر اورغیر معاصر شافعی ، مالکی اورحنفی پیشوائوں نے اس کے فاسد احوال اورجھوٹے اقوال کو بیان کیا ہے ...نتیجہ یہ کہ اس کے اقوال کی کوئی اہمیت نہیں اوروہ ایک بدعت گزار ، گمراہ کن اور غیر معتدل انسان تھا خدا اس سے عادلانہ سلوک کرے اور ہمیں اس کے عقیدہ اوراس کے راہ ورسم کے شرسے محفوظ رکھے۔(۱)

____________________

(۱)الفتاوی الحدیثہ ص:۸۶

۸۱

۷۔ابن تیمیہ کو شیخ الاسلام کہنا کفر ہے :

اہل سنت کے بزرگ عالم شوکانی کہتے ہیں : (صرح محمد بن محمد البخاری الحنفی المتوفی سنة ۸۴۱بتبدیعه ثم تکفیر ه ، ثم صار یصرح فی مجلسه :ان من اطلق القول علی ابن تیمیة انه شیخ الاسلام فهو بهذاالاطلاق کافر )( ۱ )

محمد بن محمد بخاری حنفی متوفی ۸۴۱ھنے ابن تیمیہ کے بدعت گزار اورکافر ہونے کی وضاحت کی ہے یہاں تک کہ ایک مجلس میں آشکارا طور پر کہا :جو شخص ابن تیمیہ کو شیخ الاسلام کہے وہ کافر ہے ۔

۸۔ابن بطوطہ کا ابن تیمیہ کو مجنون قرار دینا :

مراکش کا مشہور سیاح ابن بطوطہ اپنے سفر نامہ میں لکھتا ہے : (وکان بدمشق من کبار الفقها ء الحنابلة تقی الدین بن تیمیة کبیر الشام یتکلم فی الفنون الا ان فی عقله شیء )

دمشق میں حنبلیوں کے ایک بڑے عالم کو دیکھا جو مختلف فنون کے بارے میں گفتگو کرتا مگر یہ کہ اس کی عقل سالم نہیں ہے۔( ۲ )

____________________

(۱)البدر الطالع ۲:۸۶۔

(۲)رحلة ابن بطوطہ ۱:۵۷

۸۲

ابن تیمیہ کی گوشہ نشینی کے عوامل اوراس کے افکار کے دوبارہ رشد کے اسباب

منطقہ شامات جو ابن تیمیہ کے علم کا گہوارہ تھا وہاں پر مختلف مذاہب کے علماء ودانشوروں کی ابن تیمیہ کے باطل افکار کی مخالفت اوراعتراضات اس کے گوشہ نشین ہونے کا باعث بنے اوراسی کے باعث اس کے عقائدو نظریات خاموشی کی بھینٹ چڑھ گئے ۔

لیکن بارہویں صدی ہجری میں منطقہ نجد میں محمد بن عبدالوھاب کے توسط سے مختلف اسباب کے تحت اس کے عقائد نے دوبارہ رشد پائی :

۱۔منطقہ نجد تمدن وثقافت سے بے بہرہ اورایسی علمی شخصیات سے خالی تھا جو محمد بن عبدالوھاب کے منحرف عقائد کا مقابلہ کرسکتیں ۔

۲۔منطقہ نجد میں حکومت کے مسئلہ پر قبیلوں میں شدید اختلاف پایاجاتا تھا ، محمد بن عبدالوھاب نے اس موقع سے فائدہ اٹھاتے ہوئے محمد بن سعود شاہ فھد کے جد اعلی سے فوجی اورثقافتی عہدوپیمان باندھا کہ محمد بن سعود اس کے افکار کی حمایت کرے گا اوروہ اپنے فتووں کے ذریعے اس کی حکومت کے وسیع ہونے کے لئے راہ ہموار کرے گا ۔

۳۔استعمار ی طاقت اورخصوصا برطانوی فوجی مشیروں کی حمایت نے وھابی ثقافت کے پھیلانے میں بہت زیادہ کردار ادا کیا ۔

محمد بن عبدالوھاب کی زندگی پر ایک مختصر نظر

۱۔ابن تیمیہ کے افکا رکاباقاعدہ پر چار :

محمد بن عبدالوھاب ۱۱۵۵ھمیں نجد کے ایک شہر عیینہ میں پیدا ہوا وہیں پہ فقہ حنبلی کی تعلیم حاصل کی اور پھر مزید علوم کی تحصیل کے لئے مدینہ منورہ کا رخ کیا ۔

وہ طالب علمی کے دور میں ہی ایسے ایسے مطالب زبان پر لاتا جو اس کے فکری انحراف کی نشاندہی کرتے تھے یہاں تک کہ اس کے بعض اساتذہ اس کے مستقبل کے بارے میں پر یشانی کا اظہار کرتے ۔

۸۳

کہا جاتا ہے کہ وہ فرقہ وھابیت کا بانی ومئوسس نہیں ہے بلکہ ایسے عقائد صدیوں پہلے حنبلی علماء مانند ابن تیمیہ اوراس کے شاگردوں کی جانب سے بیان ہوچکے تھے لیکن علماء اہل سنت اورشیعہ کی مخالفت کی وجہ سے خاموشی کا شکار ہوگئے ، اہم ترین کام جو محمد بن عبد الوھاب نے کیا وہ یہ تھا کہ اس نے ابن تیمیہ کے عقائد کو ایک جدید فرقہ یا مذہب کی صورت میں پیش کیا جو اہل سنت کے چاروں مذاہب اور مذہب شیعہ سے بالکل الگ تھا ۔

۲۔محمد بن عبدالوھاب کا نبوت کے جھوٹے دعویداروں سے لگائو :

وہ شروع میں نبو ت کے جھوٹے دعویداروںمانند مسیلمہ کذاب ، سجاج ، اسود عنسی اورطلیحہ اسدی کے زندگی ناموں کامطالعہ کرنے سے بہت لگائو رکھتا تھا ۔( ۱ )

۳۔آغاز ترویج وہابیت اور لوگوں کی مخالفت :

محمد بن عبدالوھاب اپنی تبلیغ کے آغاز میں بصرہ گیا اوروہاں پہ اپنے عقائد کا اظہار کیا تو بصرہ کے سرداروںنے سخت مخالفت کی ۔

ڈاکٹر منیر عجلانی لکھتا ہے :

(وتجمع علیه اناس فی البصرة من رئوساء ها وغیرهم بآذوه اشدالاذی واخرجو ه منها )بصرہ کے سرداروں اورعوام نے اس کے خلاف وقیام کیا اوراسے شہر سے نکال ڈالا۔( ۲ )

وہاں سے بغداد ، کردستان ، ہمدان اوراصفہان روانہ ہوا ۔( ۳ )

اوربالآخر اپنی پیدایش گاہ کی طرف واپس پلٹ گیا ، وہ اپنے باپ کی زندگی میں اپنے عقائد کے اظہار کی جرئت نہیں رکھتا تھا

____________________

(۱)کشف الارتیاب :۱۲، نقل از خلاصة الکلام

(۲)تاریخ العربیة السعودیة :۸۸.

(۳)وہ چار سال بصرہ ، پانچ سال بغداد ، ایک سال کردستان ، دوسال ہمدان میں رہا اورکچھ عرصہ اصفہان اورقم میں گذارا اس کے بعد اپنے والد کی رہائش گاہ حریملہ جاپہنچا ، (وھابیت مبانی فکری وکارنامہ عملی :۳۶)

۸۴

لیکن ۱۱۵۳ھ میں باپ کی وفات کے بعد اس نے اپنے عقائد کے اظہار کے لئے راہ ہموار دیکھی اورلوگوں کو جدید آئین کی دعوت دی۔( ۱ )

لیکن لوگوں کے اعتراضات بلکہ اس کے قتل کا پروگرام باعث بنا کہ وہ مجبوراً اس جگہ کو ترک کرے اوراپنی پیدائش گاہ عیینہ جائے ، وہاں کے امیر عثمان بن معمر سے پیمان باندھا کہ دونوں ایک دوسرے کا زور بازوبنیں گے لہٰذا اس کی حمایت سے اپنے عقائد کی برملا تبلیغ کرنے لگا لیکن زیادہ عرصہ نہ گزراکہ حاکم عیینہ نے احساء کے فرمانرواکے دستور پر اسے شہر سے نکال دیا ۔

محمد بن عبدالوھاب نے مجبور ہوکر درعیہ میں رہائش رکھی اورمحمد بن سعود حاکم درعیہ کے ساتھ جدید پیمان باندھا کہ حکومت محمد بن سعود کی ملکیت ہوگی اورتبلیغ کی ذمہ داری محمد بن عبدالوھاب کے ہاتھ ہوگی۔

۴۔زیارت گاہ صحابہ اورخلیفہ دوم کے بھائی کی قبر کا خراب کرنا :

سب سے پہلا کام جو محمد بن عبدالوھاب نے انجام دیا وہ عیینہ کے اطراف میں صحابہ واولیاء کرام کی قبروں کو ویران کرنا تھا جن میں سے ایک قبر خلیفہ دوم کے بھائی زید بن خطاب کی تھی ۔( ۲ )

____________________

(۱)زعماء الاصلاح فی عصرالحدیث :۱۰تاریخ العربیة السعودیة :۹، تاریخ نجد آلوسی : ۱ ۱ ۱

(۲)عنوان المجد فی تاریخ نجد :۹، براھین الجلیة فی رفع تشکیکات الوھابیة :۴،ھذہ ھی الوھابیة :۱۲۵،السلفیة بین اھل السنة والامامیة :۳۰۷

۸۵

علماء ورئو سا کی شدید مخالفت کی نباء پر حاکم عیینہ نے ناچار ہو کر اسے شہر سے نکال دیا جیسا کہ پہلے اشارہ کرچکے ہیں کہ بارہویں صدی ہجری میں مسلمان انتہا ئی نامناسب اورسخت حالات سے گزررہے تھے اسلامی ممالک چاروں طرف سے استعمار ی طاقتوں کے حملوں کا شکار بنے ہوئے تھے اور مرکز اسلام کو برطانیہ ، فرانس ، روس اورامریکہ کی طرف سے خطرات لاحق تھے ۔

ایسے زمانہ میں کہ جب مسلمانوں کو مشترک دشمن کے مقابلہ میں بے حداور وحدت اتحاد کی ضرورت تھی لیکن افسوس کہ محمد بن عبدالوھاب نے مسلمانوں کو انبیاء واولیائے الھی سے توسل کے جرم میں مشرک اور بت پرست قراردے کرا ن کے کفر کا فتوی دیا ، ان کا خون حلال ، قتل جائز اوران کے مال کو جنگی غنیمت شمار کیا ، اس کے پیروکاروں نے اس فتوی کی پیروی کرتے ہوئے ہزاروں بے گناہ مسلمانوں کو خون میں لت پت کیاکہ جس کا تذکرہ بعد والی فصل میں کیاجائے گا ۔

۸۶

محمد بن عبدالوھاب اورعلماء اہل سنت

۱۔اس کے اساتذہ کی طرف سے اس کی گمراہی کی پیش بینی :

مفتی اعظم مکہ مکرمہ احمد زینی دحلان متوفی ۱۳۰۴ھج لکھتے ہیں :

فاخذ عن کثیر من علماء المدینه منهم الشیخ محمد بن سلیمان الکردی الشافعی والشیخ محمد حیاة السندی الحنفی وکان الشیخان المذکوران وغیر هما من اشیاخه یتفرسون فیه الالحادوالضلال، ویقولون :سیضل هذا ، ویضل الله به من ابعد ه واشقاه ، وکان الامر کذلک ، وما اخطات فراسهم فیه )( ۱ )

محمد بن عبدالوھاب نے بہت سے علمائے مدینہ مانند شیخ محمد سلیمان کردی شافعی اور شیخ محمد حیات سندی حنفی سے علمی استفادہ کیا ، یہ دونوں استاد ابتدا ء ہی سے اس کے اندر بے دینی اورگمراہی کے آثار محسوس کررہے تھے اورکہا کر تے تھے کہ وہ گمراہ ہوجائے گا اورا س کے ہا تھوں رحمت خدا سے دور اورشقی لوگ بھی گمراہ ہوں گے ان کی یہ پیش گوئی بالکل درست ثابت ہوئی ۔

۲۔محمد بن عبدالوھاب کا باپ بھی اس کی گمراہی کاگمان کرتا :

احمد زینی دحلان لکھتے ہیں :

(وکان والده عبدالوهاب من العلماء الصالحین فکان ایضا یتفرس فی ولده المذکور الالحادویذمه کثیراویحذرالناس منه ).( ۲ )

محمد بن عبدالوھاب کا باپ نیک علماء میں سے تھا اور وہ بھی دوسرے علماء کے مانند اپنے بیٹے میں الحادوبے دینی کے آثار کو محسوس کرتا اوراس کی شدید مذمت اورلوگوں کو اس سے بچنے کا حکم دیتا تھا۔

____________________

(۱)الدررالسنیة فی الرد علی الوھابیة :۴۲

(۲) حوالہ سابق

۸۷

۳۔محمد بن عبدالوھاب کے بھائی کا اس سے سخت رویہ :

مفتی مکہ مکرمہ زینی دحلان لکھتے ہیں :(وکذا اخوه سلیمان بن عبد الوهاب فکان ینکر مااحد ثه من البدع والضلال والعقائد الذائغة ، وتقدم انه الف کتابا فی الردعلیه ).( ۱ )

محمد بن عبدالوھاب کا بڑا بھائی سلیمان بھی اس کی بدعات ، گمراہی اورمنحرف عقائد کا انکار کرتا اوراس نے اس کے عقائد کی رد میں ایک کتاب بھی لکھی ۔( ۲ )

دوسرے مقام پر لکھا ہے :(کان محمد بن عبد الوهاب الذی ابتدع هذه البد عة یخطب للجمعة فی مسجد الدرعیة ویقول فی کل خطبة :ومن توسل بالنبی فقد کفر ، وکان اخوه الشیخ سلیمان بن عبد الوهاب من اهل العلم فکان ینکر علیه انکارا شدید ا فی کل مایفعله ، او یامربه ولم یتبعه فی شئی مما ابتدا عه،وقال له اخوه سلیمان یوما : کم ارکان الاسلام یامحمد بن عبدا لوهاب ؟!فقال :

____________________

(۱)ایضا

(۲)]اس کتاب کا نام (الصواعق الالھیة فی الرد علی الوھابیة )ہے جو ابوطالب علیہ السلام اسلامک انسٹیٹیوٹ لاہور کی کاوشو ں سے اردو زبان میں ترجمہ وتحقیق کے ساتھ شائع ہوچکی ہے ، یہ وھابیت کے خلاف لکھی جانے والی سب سے پہلی کتا ب ہے (مترجم)[

۸۸

خمسة ، فقال :انت جعلتها ستة ، السادس من لم یتبعک فلیس بمسلم ، هذا عندک رکن سادس للاسلام ۔( ۱ )

محمد بن عبدالوھاب درعیہ میں جمعہ کا خطبہ دیا کرتااورہر مرتبہ خطبے میں کہاکرتا :پیغمبرصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم سے توسل کفر ہے ، اس کا بھائی شیخ سلیمان بھی اہل علم تھا اس کی ہر ہر بات اورہرہر عمل کی سخت مخالفت کرتا اوراس کی بدعات میں سے کسی ایک میں بھی اس کی پیروی نہ کرتا ۔

ایک دن سلیمان نے اپنے بھائی محمد سے سوال کیا اسلام کے ارکان کتنے ہیں ؟محمد نے جواب دیا پانچ ،اس وقت سلیمان نے کہا:تونے تو چھ بنارکھے ہیں اور چھٹا یہ کہ جو تیری پیروی نہ کرے وہ مسلمان ہی نہیں ۔

۴۔محمد بن عبدالوھاب کے بھائی کا قتل سے خوفزدہ ہونا :

احمد زینی دحلان کہتے ہیں :

ولما طال النزاع بینه وبین اخیه خاف اخوه ان یامر بقتله فارتحل الی المدینه المنورة والّف رسالة فی الرد علیه وارسلها له فلم ینته والّف کثیر من علماء الحنابلة وغیر هم رسائل فی الرد علیه وارسلوها له فلم ینته ( ۲ )

____________________

(۱)الدررالسنیة فی الردعلی الوھابیة :۳۹

(۲)ایضا

۸۹

جب سلیمان اوراس کے بھائی محمد کے درمیان اختلاف حد سے تجاوز کرگیا تو سلیمان اس خوف سے مدینہ منورہ ہجرت کرگیا کہ کہیں اس کا بھائی اس کے قتل کا حکم نہ دے دے وہاں پہ اس نے اس کی رد میں ایک رسالہ لکھا اوراسے بھیج دیا ، اسی طرح بہت سے حنبلی اورغیر حنبلی علماء نے بھی اس کی رد میں رسالے لکھے اوراسے بھجوائے لیکن کسی ایک نے بھی اسے فائدہ نہ دیا ۔

رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی ظہور وہابیت کی پیشگوئی

اہل سنت کی معتبر کتب کے اندر پیغمبرصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم سے ایسی روایات نقل کی گئی ہیں جن میں آنحضرتصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے وھابی فرقہ کے ظاہر ہونے کی طرف اشارہ فرمایا:جیسا کہ صحیح بخاری میں عبداللہ بن عمر سے نقل کیاگیا ہے کہ وہ کہتے ہیں :

ذکر النبی صلی الله علیه وسلم ، اللهم بارک لنا فی شامنا ، اللهم بارک لنا فی یمننا قالوا:وفی نجدنا،قال اللهم بارک لنا فی شامنا، اللهم بارک لنا فی یمننا،قالوا :وفی نجدنا ، قال اللهم بارک لنا فی شامنااللهم بارک لنا فی یمننا ، قالوا یارسول الله وفی نجدنا ؟فاظنه قال فی الثالثة :هناک الزلازل والفتن وبها یطلع قرن الشیطان .( ۱ )

____________________

(۱)کتاب الفتن ،باب ۱۶، باب قول النبیصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم :الفتنُ من قبل المشرق

۹۰

ترجمہ: آنحضرتصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے فرمایا : اے اللہ !ہمارے ملک شام میں ہمیں برکت دے، ہمارے یمن میں ہمیں برکت دے۔ صحابہ نے عرض کی اور ہمارے نجد میں ؟ آنحضرتصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے پھر فرمایا: اے اللہ!ہمیں ہمارے شام میں برکت دے، ہمیں ہمارے یمن میں برکت دے صحابہ نے عرض کی اور ہمارے نجد میں ؟ میرا خیال ہے کہ آنحضرتصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے تیسری مرتبہ فرمایا: وہاں زلزلے اور فتنے ایجاد ہوں گے اور وہیں سے شیطان کی سینگ طلوع ہوگی۔( ۱ )

اہل سنت کے بہت بڑے عالم عینی جس نے صحیح بخاری کی شرح لکھی وہ کہتے ہیں : شیطان کی شاخ سے مراد اس کا گروہ اورٹولہ ہے ۔( ۲ )

اسی طرح بخاری نے اپنی صحیح میں ابو سعید خدری کے واسطے سے پیغمبرصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کا فرمان نقل کیا ہے کہ آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے فرمایا:

یخرج ناس من قبل المشرق ویقرء ون القرآن لا یجاوز تراقیهم یمرقون من الدین کما یمرق السهم من الرمیة ثم لا یعودون فیه حتی یعود السهم الی فوقه ، قیل ما سیما هم ، قال سیما هم التحلیق اوقال : التسبید .( ۳ )

____________________

(۱)صحیح بخاری۸:۷۰۹۴۹۵۔کتا با لفتن،باب۱۶،باب قول النبی صلی الله علیه وآله و سلم:؛الفتنة من قبل المشرق ،

(۲)عمدة القاری شرح صحیح بخاری ۷:۵۹۔وبنجد یطلع قرن الشیطان ایء :امتہ وحزبہ ،

(۳)صحیح بخاری ج۸ :۲۱۹۔۷۵۶۲۔

۹۱

ترجمہ: مشرق سے کچھ لوگ قیام کریں گے جو قرآن کی تلاوت تو کریں گے مگر قرآن ان کے حلق سے نہ اترے گا، یہ لوگ دین سے اسی طرح خارج ہوجائیں گے جس طرح تیر کمان سے خارج ہوتا ہے اور پھر دین کی طرف پلٹ کرنہ آئیں گے جس طرح تیر پلٹ کر نہیں آتا۔

عرض کیاگیا: ان کی نشانی کیا ہوگی؟ فرمایا: وہ اپنے سر کے بال صاف کرتے ہوں گے۔

زینی دحلان مفتی مکہ مکرمہ اس حدیث کی طرف اشارہ کرنے کے ضمن میں لکھتے ہیں :

(ففی قوله سیماهم التحلیق تصریح بهذه الطائفة لانهم کانوا یامرون کل من اتبعهم ان یحلق راسه ولم یکن هذا الوصف لاحد من طوائف الخوارج والمبتدعة الذین کانوا قبل زمن هئولاء )( ۱ )

پیغمبر اکرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے فرمان میں اس گروہ کی آشکار ترین نشانی (سرمنڈوانا) ہے اوریہ فرقہ وھابیت کی طرف واضح اشارہ ہے ، اس لئے کہ یہی وہ تنہا فرقہ ہے جو اپنے پیروکا روں کو سرمنڈوانے کا حکم دیتا ہے اوریہ صفت وہابیوں سے پہلے خوارج یا بدعت گزار فرقوں میں سے کسی ایک کے اندر نہیں دیکھی گئی ہے ۔

وہ آگے چل کرلکھتے ہیں :

____________________

(۱)فتنة الوھابیة ۱۹

۹۲

(وکان السیدعبدالرحمن الاهدل مفتی زبید یقول :لاحاجة الی التالیف فی الرد علی الوهابیة بل یکفی فی الرد علیهم قوله صلی الله علیه وسلم سیما هم التحلیق ، فانه لم یفعله احد من المبتدعة غیرهم )

مفتی منطقہ زبید سید عبدالرحمن اہدل کہا کرتے کہ وہابیوں کے عقائد کو رد کرنے کے لئے کتاب لکھنے کی ضرورت نہیں ہے بلکہ یہی حدیث پیغمبرصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم جس میں اس فرقہ کی پہچان (سرمنڈوانا )بیان کی گئی ہے ان کے عقید ہ کے باطل ہونے پر کافی ہے اس لئے کہ وہابیوں کے سواکسی بھی بدعت گزار فرقے میں یہ صفت نہیں پائی جاتی۔

(واتفق مرة ان امراة اقامت الحجة علی بن الوهاب لمااکر هو ها علی اتباعهم ففعلت،امرها ابن عبد الوهاب ان تحلق راسها فقالت له حیث انک تامرالمراة بحلق راسها ینبغی لک ان تامر الرجل بحلق لحیته ، لان شعر راس المراة زینتها وشعر لحیة الرجل زینته فلم یجد لها جوابا )( ۱ )

ایک دن محمد بن عبدالوھاب نے ایک عورت کو سرکے بال منڈوانے کا حکم دیا تو اس عورت نے اس سے کہا : تو جو عورتوں کو سرمنڈوانے کا حکم دیتا ہے تو مردوں کو

____________________

(۱)فتنة الوھابیة :۱۹

۹۳

ڈاڑھی منڈوانے کا حکم دے اس لئے کہ جس طرح مرد کی زینت اس کی ڈاڑھی ہے اسی طرح عورت کی زینت اس کے سرکے بال ہیں محمد بن عبدالوھاب کوئی جواب نہ دے پایا۔

ابن تیمیہ کی عقائد کے رد میں لکھی جانے والی کتب اہل سنت

ابن تیمیہ کے ہم عصر اہل سنت کے بعض بڑے بڑے علماء نے اپنی اپنی کتب میں اس کے عقائد پر اعتراض کیا ہے اور بعض نے اس کے عقائد کی رد میں مستقل کتب تالیف کی ہیں جیسے :

تقی الدین سبکی متوفی ۷۵۶ھ نے ابن تیمیہ کے عقائد کی رد میں دوکتابیں لکھیں ایک کا نام (الدرة المضیةفی الرد علی ابن تیمیہ )اوردوسری کانام (شفاء السقام فی زیارة خیرالانام )ہے ۔

اس کتاب کی شرح معروف حنفی فقیہ ملاعلی قاری متوفی ۱۰۱۴ھ مقیم مکہ نے انتہائی محققانہ انداز میں لکھی اوراس کانام (شرح شفاء السقام )رکھا۔

محمد بن ابوبکر اخنائی متوفی ۷۶۳ھ نے ایک کتاب بنام (المقالة المرضیة فی الرد علی ابن تیمیه )لکھی جس میں معتبر احادیث اورمحکم ادلہ کے ساتھ ابن تیمہ کے عقائد کو رد کیا۔

جب ابن تیمیہ نے یہ کتاب پڑھی تو اس کی رد میں ایک کتاب لکھی جس کانام (رداخنائی )ہے ۔

شیخ الاسلام مدینہ علی بن محمد سمہودی شافعی مصری متوفی ۹۱۱ ھ نے ایک گراںبہا کتاب لکھی جس کانام (وفاء الوفاء باخبار دارالمصطفی )رکھا ، اس نے اس کتاب میں زیارت پیغمبر ، شفاعت ، توسل اورآنحضرتصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم سے استغاثہ پر تفصیل کے ساتھ محققانہ بحث کی ہے ۔

۹۴

مذکورہ بالاکتب کے علاوہ بھی علمائے اہل سنت نے ابن تیمیہ کے عقائد کی رد میں کئی ایک کتب تالیف کی ہیں جن میں سے چند ایک کی طرف اشارہ کررہے ہیں : (خیرالحجة فی الرد علی ابن تیمیہ فی العقائد ۔ تالیف : احمد بن حسین بن جبرئیل شھاب الدین شافعی )(الدره المضیئة فی الرد علی ابن تیمیه )تالیف :محمد بن علی شافعی دمشقی کمال الدین معروف ابن زملکانی متوفیٰ ۷۲۷.

(دفع الشبّه من شبّه وتمرّد )تقی الدین ابوبکر حصنی دمشقی متوفی ۸۲۹ھ کی لکھی ہوئی ۔یہ کتاب مکتبة الازھر یة للتراث سے شائع ہوئی اورپھر ۱۴۱۸ھ میں تحقیق اورفہرست کے ساتھ (دفع الشبه عن الرسول صلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم )کے نام سے دوبارہ شائع ہوچکی ہے ۔

(الرد علی ابن تیمیه )تالیف :عیسی بن مسعود منکاتی۔

(الرد علی ابن تیمیه فی الاعتقادات )تالیف : محمد حمید الدین حنفی دمشق فرغانی (ردعلی الشیخ ابن تیمیہ )تالیف :شیخ نجم الدین بن ابوالدربغدادی

(الرد علی ابن تیمیه فی الاعتقادات )تالیف : محمد حمید الدین حنفی دمشقی فرغانی ۔(ردعلی الشیخ ابن تیمیہ )تالیف: شیخ نجم الدین بن ابوالدربغدادی ،

۹۵

(رسالة فی الرد علی ابن تیمیه فی التجسیم والاستواء والجهة )تالیف :شیخ شھاب الدین احمد بن یحیی کلابی حلبی متوفی ۷۳۳، معاصر ابن تیمیہ ۔

(رسالة فی الرد علی ابن تیمیه فی مسالة حودث لااول لها ) تالیف :شیخ بہاء الدین عبدالوھاب بن عبدالرحمن اخمینی شافعی معروف مصری متوفی ۷۶۳ ھ،یہ کتاب ۱۹۹۸ئ میں دارالسراج عمان اردن سے سعید عبدالطیف کی تحقیق اورعبارات کی شرح کے ساتھ چھپ ہوچکی ہے ۔

(رسالة فی مسئلة الزیارة فی الرد علی ابن تیمیه )تالیف : محمد بن علی مازنی (سیف الصیقل فی رد ابن تیمیه وابن قیم )تالیف : تقی الدین سبکی متوفی ۷۵۶ھ یہ کتاب بھی مصر میں چھپ ہوچکی ہے ۔

(شرح کلمات الصوفیه اوالردعلی ابن تیمیه )تالیف: محمود غراب۔

اس کتاب میں ابن عربی اورصوفیوں کے بارے میں ابن تیمیہ کے اقوال کو رد کیاگیاہے ۔

(فتاوی الحدیثة )تالیف : احمد شھاب الدین بن حجرھیثمی مکی متوفی ۹۷۴ھ اس کتاب کا اصلی نسخہ ۱۹۹۶ئ میں استنبول سے چھپ چکا ہے ۔

اس کتاب کی رد میں نعمان بن محمود آلوسی بغدادی متوفی ۱۳۱۷ھ نے ایک کتاب بنام (جلاء العینین فی محاکمة الاحمد ین )لکھی (المقالات السنیة فی کشف ضلالات ابن تیمیة )تالیف :شیخ عبداللہ بن محمد بن یوسف ہروی معروف حبشی مفتی ہرو(صومالیہ کا ایک منطقہ )متوفی ۱۳۲۸ھ ۔یہ کتاب دارالمشاریع بیروت سے چوتھی بار ۱۹۹۸ء میں شائع ہوئی ہے ۔

(نجم المهترین برجم المعتدین فی رد ابن تیمیة )تالیف: فخربن معلم قرشی۔

۹۶

ابن تیمیہ کے عقائد کی ردمیں لکھی جانے والی کتب شیعہ

علامہ تہرانی نے اپنی مایہ نازکتا ب(الذریعه )میں ابن تیمیہ کی کتاب منہاج السنة کے جواب میں لکھی جانے والی علماء شیعہ کی کئی ایک کتب کانام ذکر کیا ہے جیسے: (الانصاف فی الانتصاف لا هل الحق من الاسراف )یہ کتاب آٹھویں صدی ہجری کے ایک عالم بزرگوار کی لکھی ہوئی ہے جو ۷۵۷ھ میں مکمل ہوئی لیکن اس پر مولف کا نام درج نہیں کیا گیا ہے ۔( ۱ )

اس کتاب کا ایک نسخہ کتابخانہ بزرگ ایران میں موجود ہے ۔( ۲ )

(اکمال المنة فی نقض منهاج ا لسنة ) تالیف :شیخ سراج الدین حسن یمانی معروف فداحسین ۔

(منهاج الشریعة )تالیف :دانشور مجاہد سید مھدی موسوی قزوینی متوفی ۱۳۵۸م (البراهین الجلیة فی کفر ابن تیمیة )تالیف :سید حسن صدر کاظمی متوفی ۱۳۵۴۔ (الامامة الکبری والخلافة العظمی )تالیف :سید محمد حسن قزوینی متوفی ۱۳۸۰۔یہ کتاب آٹھ جلد وں پرمشتمل ہے ۔

اوران کی دوسری کتاب (البراهین الجلیة فی رفع تشکیکات الوهابیة )اس کتاب کا ترجمہ مولف توانمند جناب آقائے دوانی رضوان اللہ علیہ نے کیا اوراس کانام (فرقہ وھابی وپاسخ بہ شبہات آنھا )رکھا۔

تقریبا بیس ۲۰مستقل کتابیں علمائے شیعہ کی جانب سے ابن تیمیہ کے عقائد کی رد میں تالیف ہوچکی ہیں ۔

____________________

(۱)(آقا بزرگ تہرانی لکھتے ہیں:(لم یذکر المولف اسمه بل ذکر فی اوله ابن تیمیه تعصب فی القول والخطاب فی نقضه لمنهاج الکرامة وقال بالهوی المحض وهو داب المفلس العادم للجحة، الذاهب التایة عن المحجة ، الذریعه ۱۱:۱۲۲

(۲)کتابخانہ آستانہ قدس رضوی مشہد ،شمارہ کتاب ۵۶۴۳، کتاب کانہ ملی تہران شمارہ ۴۸۵، کتاب خانہ ادانشکدہ حقوق تہران شمارہ ۱۳۰، نقل از مجلہ تراثنا شمارہ ۱۷:۱۵۳)

۹۷

فصل سوم

وہابیوں کا عملی کارنامہ

طول تاریخ میں وھابیوں کے مظالم

۱۔نجد میں وھابیوں کا قتل وغارت کرنا:

محمد بن عبدالوھاب نے مسلمانوں پرکفر ، شرک اوربدعت کی تہمت لگاکر عرب بادیہ نشینوں کو ان کے خلاف جہاد پراکسایا اورمحمد بن سعود کی مدد سے لشکرآمادہ کیاجس نے مسلمانوں کے شہروں اوردیہاتوں پرحملے کرکے لوگوں کا قتل عام کیا اوران کے اموال کوجنگی غنیمت کے نام پرغارت کیا ۔( ۱ )

اس فصل میں نجدکے علاقہ میں اورریاض کے اطراف میں وھابیوں کے ظالمانہ قتل عام کے چندنمونوں کی طرف اشارہ کریں گے ۔

____________________

(۱)تاریخ نجد :۹۵فصل سوم غزوات ، تاریخ آل سعود۱:۳۱؛تاریخچہ نقد وبررسی وھابی ھا :۱۳۔۷۶

۹۸

الف۔مسلمانوں کا قتل عام، درختوںکاکاٹنااوردکانوں کی لوٹ مار:

مورخ آل سعود ابن بشرعثمان بن عبداللہ نے نجدکے علاقہ میں آغاز دعوت وھابیت اورشرک کے اتہام میں بے گناہ لوگوں کے قتل عام کے بارے میں لکھا ہے۔

عبدالعزیز ایک گروہ کے ہمراہ اہل ثادق سے جہاد کے قصد سے نکلا، وہاں کا محاصرہ کیا کچھ نخلستانوں کو قطع کیا اوران کے کچھ افراد کو قتل کردیا ،( ۱ )

اس کے بعد عبدالعزیز جہاد کی نیت سے(خرج)کی طرف چلااورمنطقہ دلم میں آٹھ۸مردوں کوقتل کیا، مال سے بھری دکانوں کولوٹا اورپھر سرزمین لعجان ، ثرمدا، دلم اورخرج کی طرف بڑھا ، کچھ لوگوں کو قتل کیا اوربہت زیادہ تعداد میں اونٹ غنیمت کے طور پر لے گئے۔( ۲ )

____________________

(۱)سار عبد العزیز رحمة الله غازیا بجمیع المسلمین وقصد بلد ثادق ونازلهم وحاصر هم ووقع بینهم قتال وقطع شیئا من نخیلهم فاقام علی ذلک ایاما، وقتل من اهل البلد ثمانیةرجال ،وقتل من المسلمین ثمانیة رجال عنوان المجد :۳۴

(۲)غذا عبدالعزیز الی الخرج فاوقع باهل الدلم وقتل من اهلها ثمانیة رجال ونهبوا بهادکاکین فیهااموال ، ثم اغاروا علی اهل بلد نفجان وقتلواعودة بن علی ورجع الی وطنه، ثم بعد ایام سارعبدالعزیز بجیوشه الی بلد (ثرمدا )وقتل من اهلها اربعة رجال واصیب من الغزومبارک بن مزروع ، ثم ان عبدالعزیز کرراجعا وقصد (الدولم) و (الخرج)فقاتل اهلها وقتل من فزعهم سبعة رجال وغنم علیهم ابلاکثیرا عنوان المجد :۴۳

۹۹

ب۔کھیتوں کوآگ لگانا:

ابن بشر آگے چل کرلکھتا ہے :

عبدالعزیز جہاد کے قصد سے (منفوحہ )میں داخل ہوا ، ان کے کھیتوں کو آگ لگادی اوربہت زیادہ مقدار میں جواہرات ، گوسفند اور اونٹ غنیمت بنائے اوردس افراد کو بھی قتل کردیا۔( ۱ )

ج۔حاملہ عورتوں کے بچوں کا ساقط ہونا:لشکر عبدالعزیز رات کے وقت منطقہ (حرمہ )میں داخل ہوا اورعبداللہ بن عبدالعزیز کے فرمان پرطلوع فجر کے بعد توپچیوں نے ایک ساتھ ملکر شہرکی طر ف گولہ باری شروع کی ،گولہ باری کی خوفناک آواز سے شہرپرلرزہ طاری ہوگیا یہاں تک کہ حاملہ عورتوں کے حمل ساقط اورلوگ وحشت زدہ ہوگئے ،شہر کا محاصرہ کرلیاگیالوگ نہ تو مقابلے کی توان رکھ سکتے تھے اورنہ ہی فرارکاکوئی امکان تھا ۔( ۲ )

د۔اہل ریاض کا بھوک اورپیاس سے مرجانا:

ابن بشرریاض پروہابیوں کے حملے کے بار ے میں لکھتا ہے :

____________________

(۱)غذاعبدالعزیز منفوحة واشعل فی زروعهاالنار؟!واخذکثیرا من حللهم وغنم منهم ابلاکثیراوقتل من الاعراب عشرة رجال عنوان المجد:۴۳.

(۲)اتوابلاد حرمة فی اللیل وهم هاجعون ...فلماانفجر الصبح امرعبدالله علی صاحب بندق یثورها فثورواالبنادق دفعة واحدة فارتجت البلد باهلها وسقط بعض الحوامل ، ففزعواواذاالبلاد قدضبطت علیهم ولیس لهم قدرة ولامخرج عنوان المجد:۶۷.

۱۰۰

101

102

103

104

105

106

107

108

109

110

111

112

113

114

115

116

117

118

119

120

121

122

123

124

125

126

127

128

129

130

131

132

133

134

135

136

137

138

139

140

141

142

143

144

145

146

147

148

149

150

151

152

153

154

155

156

157

158

159

160

161

162

163

164

165

166

167

168

169

170

171

172

173

174

175

176

177

178

179

180

181

182

183

184

185

186

187

188

189

190

191

192

193

194

195

196

197

198

199

200

201

202

203

204

205

206

207

208

209

210

211

212

213

214

215

216

217

218

219

220

کیا ہے کہ آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے فرمایا :

''واذا رائیتم اهل الریب والبدع من بعدی فاظهروا البراء ة منهم واکثروا من سبهم والقول فیهم والوقیعة..'' ( ۱)

اگر میرے بعد اہل شک اور بدعت گزاروں کو دیکھو تو ان سے بیزاری و نفرت کا اظہار کرو ان پر سب وشتم کرو اور ان کی برائی کو بیان کرو ( تاکہ معاشرے میں ان کا مقام گر جائے اور ان کی بات کی اہمیت نہ رہے )

۵۔بدعت گذار کا احترام ، دین کی نابودی:

امام جعفر صادق علیہ السلام فرماتے ہیں :

''من تبسم فی وجه مبتدع فقد اعان علی هدم دینه '' ( ۲ )

جو شخص بدعت گذار کے سامنے اظہار تبسم کرے اس نے دین کی نابودی میں اس کی مدد کی ہے ۔

نیز فرمایا:''من مشیٰ الی صاحب بدعة فوقره فقد مشی فی هدم الاسلام '' .( ۳ )

جو شخص بدعت گذار کی ہمراہی اور ا س کا احترام کرے درحققیت اس نے دین اسلام کی نابودی کی طرف ایک قدم بڑھایا ۔

____________________

(۱)اصول کافی ۲: ۴۳۷۵، باب مجالسة اہل المعاصی

(۲) بحار الانوار۴۷: ۲۱۷،مناقب ابن شہر آشوب ۳: ۳۷۵ ؛ مستدرک الوسائل ۱۲: ۳۲۲.

(۳)محاسن برقی ۱: ۲۰۸ ؛ ثواب الاعمال شیخ صدوق : ۲۵۸؛ من لا یحضرہ الفقیہ ۳: ۵۷۲؛ بحار الانوار۲:۳۰۴.

۲۲۱

۶۔ بدعت کا مقابلہ کرنے کاحکم :

مرحوم کلینی (رحمة اللہ علیہ )نے محمد بن جمہور کے واسطے سے پیغمبر (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم )سے نقل کیا ہے کہ آنحضرتصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے فرمایا :

''اذا ظهرت البدع فی امتی فلیظهر العالم علمه ، فمن لم یفعل فعلیه لعنة الله '' ۔( ۱ )

ترجمہ: جب میری امت میں بدعات ظاہر ہونے لگیں تو علماء پر واجب ہے کہ وہ اپنے علم کا اظہار کریں ( اور اس بدعت کا راستہ روکیں ) پس جو ایسا نہ کرے اس پر خدا کی لعنت ہے ۔

کیا بزرگان دین کی یاد منانا بدعت ہے ؟

اس فصل کے شروع میں بیان کر چکے کہ وہابی پیغمبر (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ) کے میلاد اور انکی وفات کے سوگ منانے کو بدعت قرار دیتے ہیں ۔

سابق سعودی مفتی اعظم بن باز کا فتویٰ بھی نقل کرچکے کہ وہ کہتا ہے :

میلاد النبیصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم جائز نہیں ہے چونکہ دین میں بدعت شمار ہوتا ہے اس لئے کہ رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم ، خلفائے راشدین اور دیگر صحابہ و تابعین نے یہ کام انجام نہیں دیا :( ۲ )

اسی طرح سعودی عرب کی مجلس دائمی فتویٰ نے مراسم سوگواری کے بارے میں سوال کے جواب میں لکھا ہے :

انبیاء و اولیاء کی وفات کی یاد مانا جائز نہیں ہے چونکہ یہ دین میں بدعت اور شرک کا وسیلہ ہے ۔(۳)

____________________

(۱)اصول کافی ۱: ۲۵۴،باب البدع.

( ۲)لایجوز الاحتفال بمولد الرسول الله صلی الله علیه وسلم ولا غیره ؛ لان ذلک من البدع المحدثة فی الدین ، لان الرسول (ص)لم یفعله ولاخلفاؤه الراشدون ولا غیرهم من الصحابة رضی الله عنهم والتابعون لهم باحسان فی القرون المفضلة ''مجموع فتاوی ومقالات متنوعة ۱:۱۸۳ وفتاوی اللجنة الدایمة للبحوث العلمیة والافتاء ۳: ۱۸.

(۳)لا یجوز احتفال بمن مات من الانبیاء والصالحین والاحیاء ذکراهم بالموالد و...لان جمیع ماذکر من البدع المحدثة فی الدین ومن وسایل الشرک ''.فتاوی اللجنة الدائمة للبحوث العلمیة والافتاء ۳:۵۴ ، فتوای شماره ۱۷۷۴

۲۲۲

انبیاء کے میلاد کا قرآن سے اثبات

گذشتہ مطالب سے یہ واضح ہو جاتا ہے کہ پیغمبر (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ) اور اہل بیت عصمت وطہارت علیہم السلام کی یاد منانے پر قرآن و سنت میں ایسے اطلاقات و عمومات موجود ہیں جو اس کی مشروعیت کو ثابت کرتے ہیں ۔

۱۔یہ درحقیقت تعظیم رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم )ہے :

خداوند متعال فرماتا ہے :

( فَالَّذِینَ آمَنُوا بِهِ وَعَزَّرُوهُ وَنَصَرُوهُ وَاتَّبَعُوا النُّورَ الَّذِی أُنزِلَ مَعَهُ أوْلَئِکَ هُمْ الْمُفْلِحُونَ ) ( ۲ )

ترجمہ : ...پس جو لوگ اس پر ایمان لائے اس کا حترام کیا اس کی مدد کی اور

____________________

(۲) سورۂ اعراف: ۱۵۷.

۲۲۳

اس نور کا اتباع کیا جو اس کے ساتھ نازل ہوا ہے وہی درحقیت فلاح یافتہ اورکامیاب ہیں ۔

جب جملہ (وَعَزَّرُوہُ )سے بطور کلی تعظیم رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ) ثابت ہوتی ہے تومیلاد النبیصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کا جشن اور اس کی خوشی بھی تعظیم و تکریم نبیصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کا ایک مصداق ہے ۔

۲۔ یہ اجر رسالت ہے :

( قُلْ لاَأَسْأَلُکُمْ عَلَیْها َجْرًا ِالاَّ الْمَوَدَّةَ فِی الْقُرْبَی ) ( ۱ )

ترجمہ : رسولصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم ! ان سے کہہ دو کہ میں تم سے اجر رسالت نہیں چاہتا مگر یہ کہ میرے اہل بیت سے محبت کرو ۔

خداوند متعال نے اس آیت شریفہ میں اہل بیت پیغمبر (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم )سے محبت ودوستی کو اجر رسالت قرار دیا ہے تو اہل بیت علیہم السلام کی ہر طرح کی تعظیم و تکریم چاہے وہ ان کی ولادت کے دن خوشی مناکر ہویا ان کی شہادت کے ایام میں عزاداری کی مجالس برپا کرکے یہ سب حکم خدا پر لبیک کہتے ہوئے ان سے محبت و مودت کا اظہار کرنا ہے ۔

۳۔ میلاالنبی بھی جشن نزول مائدہ کے مانند:

قابل غور نکتہ آسمانی دسترخوان کے نزول کی مناسبت سے بنی اسرائیل کی

____________________

(۱) سورۂ شوریٰ:۲۳.

۲۲۴

سالانہ عید کے جشن کی داستان ہے جس کے بارے میں خداوند متعال فرماتا ہے :

( اللّٰهُمَّ رَبَّنَا اَنزِلْ عَلَیْنَا مَائِدَةً مِنْ السَّمَائِ تَکُونُ لَنَا عِیدًا لِأَوَّلِنَا وَآخِرِنَا وَآیَةً مِنْکَ وَارْزُقْنَا وَأَنْتَ خَیرُ الرَّازِقِینَ ) ( ۱ )

ترجمہ: پروردگار ! ہمارے اوپر آسمان سے دستر خوان نازل کردے کہ ہمارے اول وآخر کے لئے عید ہو جائے اور تیری قدرت کی نشانی بن جائے اور ہمیں رزق دے کہ تو بہترین رزق دینے والا ہے ۔

جب نزول مائدہ جیسی عارضی نعمت سالانہ عیدبن سکتی ہے تو پھر ولادت وبعثت نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم )جو بشریت کے لئے نعمت جاودانہ ہے وہ کیسے عید اور خوشی کا باعث نہیں بن سکتی ۔

سعودی عرب کی قومی عیدیں

تعجب آور بات تو یہ ہے کہ اسی مجلس نے سعودی عرب کی سرکاری عیدوں کے بارے میں لکھا ہے :

''وماکان المقصود منه ( العید ) تنظیم الاعمال مثلا لمصلحة الامة وضبط امورها ؛ کاسبوع المرور ، وتنظیم مواعید الدراسیة والاجتماع الموظفین للعمل ونحوذلک ، مما یفضی به الی

____________________

(۱)سورۂ مائدہ: ۱۱۴.

۲۲۵

التقرب والعبادة والتعظیم بالاصالة ، فهو من البدع العادیة التی لا یشملها قوله صلی الله علیه وسلم احدث فی امرنا ما لیس منه فهو رد ، فلا حرج فیه ؛ بل یکون مشروعاً '' ( ۱ )

اگر ان عیدوں کے منانے کا مقصد قوم کی مصلحت اور ان کے امور کی تنظیم ہو جیسے ہفتہ پولیس ، تعلیمی سال کا آغاز ، سر کاری ملازموں کا اجتماع وغیرہ جن میں عبادت اور تقرب خدا کا قصد نہیں کیا جاتا تو اس میں کوئی مانع نہیں ہے اور یہ نہی پیغمبر میں شامل نہیں ہوں گی ۔

واضح ہے کہ ایسا تفکر ، فکری جمود کی انتہاء ہے اس لئے کہ اگر چہ جشن ولادت کی مخالفت ایک فطری امر کی مخالفت کرنا ہے بلکہ جشن ولادت اور سرکاری جشن میں کوئی فرق نہیں ہے چونکہ اپنی اولاد کی ولادت کی خوشی منانے والا شخص ہر گز عبادت یا تقرب خداکا ارادہ نہیں کرتا ( تاکہ اس کا یہ جشن منانا بدعت قرار پائے )۔

____________________

(۱) فتاویٰ اللجنة الدائمة للبحوث العلمیة والافتاء ۳: ۸۸، فتویٰ ۹۴۰۳.

۲۲۶

فصل ہفتم

انبیاء واولیاء سے توسل کا حرام قراردینا

پیغمبرصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم سے توسل کے بارے میں وہابیوں کے نظریات

۱۔ ابن تیمیہ کانظریہ

مسلمانوں پر وہابیوں کے اعتراضات میں سے بنیادی ترین اعتراض ان کے پیغمبر (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم )اور اولیائے خدا سے توسل کرنے کے بارے میں ہے جسے بہانہ بناکر وہ مسلمانوں پر شرک کی تہمت لگاتے ہیں ۔

مفکر وہابیت ابن تیمیہ کہتا ہے :

''من یاتی الی قبر نبی او صالح، ویساله حاجته ،ویستنجده ، مثل ان یساله ان یزیل مرضه ، او یقضی دینه ، او نحو ذلک مما لا یقدر علیه الا الله فهذا شرک صریح ، یجب ان یستتاب صاحبه، فان تاب والاقتل .وقال: قول کثیر من الضلال: هذااقرب الی الله منی :. وانا بعید من الله لایمکننی ان ادعوه الا بهذه الواسطة ونحو ذلک من اقوال المشرکین ''.( ۱ )

اگر کوئی شخص قبر نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم )یا کسی ولی کی قبر کے پاس اس سے حاجت طلب کرے مثلاً اپنی بیماری کی شفا یا قرض کی ادائیگی کی درخواست کرے جس پر خدا کے سوا کوئی قادر نہیں تو یہ واضح شرک ہے لہٰذا ایسے شخص کو توبہ پرآمادہ کیا جائے اگر توبہ کرلے تو صحیح ورنہ اسے قتل کر دیا جائے ۔نیز کہا ہے :جو لوگ کہتے ہیں کہ ہم فلاں کو اس لئے واسطہ بناتے ہیں کہ وہ ہم سے زیادہ خدا کے قریب ہے تو یہ بات شرک اور اس کا کہنے والا مشرک ہے ۔

۲۔ نظریہ محمد بن عبد الوہاب:

مجدد افکار ابن تیمیہ محمد بن عبد الوہاب کہتا ہے :

''وان قصدهم الملائکة والانبیاء ، والاولیاء یریدون شفاعتهم والتقرب الی الله بذلک ، هو الذی احل دماء هم واموالهم '' .( ۲ )

____________________

(۱) زیارة القبور والاستنجادبالمقبور :۱۵۶؛ الھدیة السنیة : ۴۰؛کشف الارتیاب :۲۱۴.

(۲)کشف الشبہات ، ص ۵۸، ط، دار العلم بیروت و مجموع مؤلفات الشیخ محمد بن الوہاب ۶: ۱۱۵، رسالة کشف الشبہات

۲۲۷

یہ لوگ ملائکہ ، انبیاء اورا ولیاء سے شفاعت طلب کرتے ہیں اور انھیں تقرب خدا کا وسیلہ قرار دیتے ہیں یہی چیز ان کے مال کے حلال اور قتل کے جائز ہونے کا باعث بنی ہے ۔

محمد بن عبد الوہاب نے شاہ فہد کے دادا محمد بن سعود سے کئے ہوئے معاہدہ کو پورا کرنے کی خاطریہ اعلان کیا :

جو شخص انبیاء و اولیاء کو واسطہ قرار دے اور ان سے شفاعت طلب کرے اس کا مال و جان مباح ہے ۔(..)

دوسری جگہ لکھا ہے :

''من ظن ان بین الله وبین خلقه وسائط ترفع الیهم الحوائج فقد ظن بالله سوء الظن '' .( ۱ )

جو شخص یہ گمان کرے کہ خدا اور مخلوق کے درمیان واسطے موجود ہیں جو ان کی حاجات کو خدا تک پہنچاتے ہیں تو اس نے خد اکے بارے میں سوء ظن کیا ۔

''ان محمداصلی الله علیه وسلم ، لم یفرّق بین من اعتقد فی الاصنام ومن اعتقد فی الصالحین ؛ بل قاتلهم کلهم وحکم بکفرهم '' ( ۲ )

____________________

(۱) مجموعہ مولفات شیخ محمدبن عبد الوہاب ۵: ۲۴۱.

(۲)حوالہ سابق ۶: ۱۴۶.

۲۲۸

محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم )بت پرستوں اور اولیاء کو وسیلہ قرار دینے والوں میں فرق نہ کرتے بلکہ ان سب کوکافر قرار دے کرا ن سے جنگ کا حکم صادر فرمایا:

''لا یصح دین الاسلام الا بالبرأة ممن یتقرب الی الله بالصلحاء و تکفیر هم '' ( ۱ )

کسی شخص سے اس وقت تک اسلام قبول نہ ہو گا جب تک وہ صالحین کو تقرب خدا کا واسطہ بنانے والوں سے بیزاری کا اعلان اور انھیں کافر نہ سمجھ لے ۔

''من عبد الله لیلا ونهارا ثم دعا نبیاً او ولیاً عند قبره ، فقد اتخذ الهین اثنین ، ولم یشهد ان لا اله الا الله ؛ لان الا له هو الموعد '' .( ۲ )

اگر کوئی شخص دن رات عبادت کرے اور پھر قبر نبیصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم یا ولی کے پاس آکر اسے پکارے تو اس نے دو معبودوں کی پرستش کی اور اس نے توحید کی گواہی نہیں دی اس لئے کہ معبود وہی ہوتا ہے جسے انسان پکار تا ہے ۔

مرتد کے حکم کے بارے میں کہتا ہے :

''اجماع المذاهب کلهم علی ان من جعل بینه وبین الله وسائط یدعوهم انه کافر مرتد حلال المال والدم '' ( ۳ )

____________________

(۱)حوالہ سابق.

(۲)حوالہ سابق

(۳) حوالہ سابق

۲۲۹

تمام مذاہب اسلامی کا اجماع ہے کہ اگر کوئی شخص اپنے اور خدا کے درمیان واسطہ قرار دے تو وہ کافرو مرتد ہے اور ا س کامال وجان مباح ہے ۔

ارے، محمدبن عبد الوہاب نے اپنے جھوٹے خیالات کے ذریعہ مسلمانوں کے کفر کو ثابت کر کے جہاد کا اعلان کر تے ہوئے بدو عربوں کے احساسات کو ابھارا اور پھر محمدبن سعود کی مدد سے لشکر آمادہ کر کے مسلمانوں کے شہروں اور دیہاتوں پر حملہ کر کے خون کی ندیاں بہائیں اور ان کے اموال کو مال غنیمت سمجھ کر لوٹ لیا ۔( ۱)

۳۔ سعودی مجلس فتویٰ کا نظریہ :

سعودی عرب کی مجلس دائمی فتویٰ نے شیعہ کے ساتھ شادی کے بارے میں سوال کا جوا ب دیتے ہوئے اس کے حرام ہونے کی علت یوں بیان کی ہے :

''لایجوز تزویج بنات اهل السنة من ابناء الشیعة ولا من الشیوعیین ، واذا وقع النکاح فهو باطل، لا ن المعروف عن الشیعة دعاء اهل البیت،والا ستغاثة بهم ، وذلک شرک اکبر '' .( ۲ )

اہل سنت کے لئے جائز نہیں ہے کہ وہ اپنی بیٹیوں کی شادی شیعہ یا کیمونسٹ بچوں سے کریں اگر ایسا نکاح واقع ہو جائے تو باطل ہے اس لئے کہ مشہور یہ ہے کہ شیعہ اہل بیت سے تو سل کرتے ہیں اور یہ شرک اکبر ہے ۔

____________________

(۱) تاریخ نجد :۹۵ ، فصل الثالث ، الغزوات ؛ تاریخ آل سعود۱:۳۱؛تاریخچۂ نقد وبررسی وہابی ہا :۱۳۔ ۷۶.

(۲)فتاویٰ اللجنة الدائمة للبحوث العلمیة والافتاء ۱۸: ۲۹۸.

۲۳۰

ایک اور سوال کے جواب میں یوں فتویٰ دیا:

''اذاکان الواقع کما ذکرت من دعائهم علیا والحسن والحسین ونحوهم فهم مشرکین شرکا اکبر یخرج من ملة الاسلام فلا یحل ان نزوجهم المسلمات ، ولا یحل لنا ان نتزوج من نسائهم ، ولا یحل لنا ان ناکل من ذبائحهم '' .( ۱ )

اگر یہ حقیقت ہے جیسا کہ سوال میں بیان ہو اہے کہ وہ لوگ (یاعلی ) (یاحسن) (یا حسین )کہتے ہیں تو وہ مشرک اور دین اسلام سے خارج ہیں ان سے اپنی بیٹیوں کی شادی کرنا جائز نہیں ہے اور نہ ہی ان کے ذبح کئے ہوئے حیوان کا گوشت کھانا جائز ہے جب کہ اسی مجلس نے یہودی اور مسیحی کے ساتھ شادی کرنے کے بارے میں سوال کے جواب میں لکھا ہے :

یجوز للمسلم ان یتزوج کتابیة یهودیة او نصرانیة اذا کانت محصنة وهی الحرة العفیفة '' ( ۲ )

مسلمان کا اہل کتاب یہودی یا مسیحی لڑکی سے شادی کرنا جائز ہے مگر یہ کہ وہ بدکار نہ ہو ۔

افسوس اور تعجب کا مقام تو یہ ہے کہ یہی مجلس اسلام کے نام پر یہود ونصاریٰ

____________________

(۱)حوالہ سابق۳: ۳۷۳فتویٰ نمبر ۳۰۸.

(۲) حوالہ سابق ۱۸:۳۱۵.

۲۳۱

کے ساتھ تو نکاح کو جائز قرار دے رہی جن کے شرک آلود چہرے کو قرآن نے آشکار کرتے ہوئے فرمایا:

( وَقَالَتْ الْیَهُودُ عُزَیْر ابْنُ ﷲ وَقَالَتْ النَّصَارَی الْمَسِیحُ ابْنُ ﷲ ذَلِکَ قَوْلُهُمْ بِأَفْوَاهِهِمْ یُضَاهِئُونَ قَوْلَ الَّذِینَ کَفَرُوا مِنْ قَبْلُ قَاتَلَهُمُ ﷲ أَنَّی یُؤْفَکُونَ ) ( ۱ )

ترجمہ: اور یہودیوں کا کہنا ہے کہ عزیر اللہ کے بیٹے ہیں اور نصاریٰ کہتے ہیں کہ مسیح اللہ کے بیٹے ہیں یہ سب ان کی زبانی باتیں ہیں ان باتوں میں یہ بالکل ان کے مثل ہیں جو ان کے پہلے کفار کہا کرتے تھے ۔

لیکن شیعوں کے ساتھ نکاح کو باطل وحرام قرار دے رہی جب کہ شیعہ شہادتین کاا قرار کرتے ہیں قبلہ کی طرف منہ کرکے نماز پڑھتے ہیں تمام احکام خد اکو بجا لاتے ہیں اور اپنے مذہب کو اہل بیت علیہم السلام سے لیا ہے ۔

۴۔ سعودی مفتی اعظم کا نظریہ :

طائف میں سعودی عرب کے مفتی اعظم جنا ب شیخ عبد العزیز بن عبد اللہ آل الشیخ کے ساتھ ہونے والی ملاقات میں اس نے توسل اور وسیلہ کے حرام ہونے کے بارے میں جو دلیل بیان کی وہ یہ تھی کہ وفات کے بعد پیغمبر کا رابطہ اس عالم سے منقطع ہو چکا ہے اور وہ کسی چیز پر قادر نہیں یہاں تک کہ وہ کسی کے حق میں دعا بھی

نہیں کر سکتے ۔ بنا بر ایں عاجز سے توسل کرنا اور اسے وسیلہ بنا نا عقلی طور پر باطل اور موجب شرک ہوگا ۔(۲)

____________________

(۱) سورۂ توبہ: ۳۰.

(۲)۲۴ جمادی الثانی ۱۴۲۴ ہجری بمطابق ۲۰۰۳ ء کوطے شدہ پروگرام کے مطابق حجة الاسلام والمسلمین جناب نواب صاحب ( مکہ مکرمہ میں رہبر معظم کے نمائندے ) کے ہمراہ طائف کا سفر کیا جہاں مفتی اعظم سعودی عرب جناب شیخ عبد العزیز عبد اللہ آل الشیخ سے ملاقات کی اور تقریبا ایک گھنٹہ نکاح متعہ ، سجدہ اور توسل و وسیلہ کے موضوع پر بحث کی ۔ یہ ساری بحث ریکارڈ شدہ ( valiasr - aj. com )پر موجود ہے ۔

۲۳۲

توسل کے بارے میں وہابیوں کے نظریات کی رد

الف:انبیاء سے توسل قرآن میں ثابت ہے

۱۔ رسول اکرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم سے توسل پر حکم قرآن :

انبیاء علیہم السلام سے ان کی زندگی میں شفاعت طلب کرنا ایک ایسا مسئلہ ہے جس کا شیعہ عقائد سے کسی قسم کاکوئی تضاد نہیں پایاجاتا ۔ جیساکہ خداوند متعال کا فرمان ہے :

( وَلَوْأ َنَّهُمْ إِذْ ظَلَمُوا أَنفُسَهُمْ جَائُوکَ فَاسْتَغْفَرُوا ﷲ وَاسْتَغْفَرَ لَهُمْ الرَّسُولُ لَوَجَدُوا ﷲ تَوَّابًا رَحِیمًا ) (۱)

ترجمہ : اور کاش جب ان لوگوں نے اپنے نفس پر ظلم کیا تھا آپ کے پاس آتے اور خود بھی اپنے گناہوں کے لئے استغفار کرتے اور رسولصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم بھی ان کے حق

____________________

(۱) سورۂ نساء : ۶۴.

۲۳۳

میں استغفار کرتا تو یہ خدا کو بڑا ہی توبہ قبول کرنے والا اور مہربان پاتے ۔

۲۔ پیغمبرصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم سے ان کی زندگی اور اس کے بعد توسل کا ثابت ہونا :

اردن کے اہل سنت عالم دین محمود سعید ممدوح توسل کے جوازکے بارے میں علمائے اہل سنت کے اقوال نقل کرنے کے بعد لکھتے ہیں :

اس آیت شریفہ( إِذْ ظَلَمُوا أَنفُسَهُمْ... )

میں گناہگاروں کو یہ حکم دیا گیا ہے کہ وہ اپنی بخشش کے لئے رسول خدا (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم )کو واسطہ اور شفیع قرار دیں ۔ یہ حکم پیغمبر (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ) کی حیات اور اس کے بعد دونوں حالتوں کو شامل ہے اور اگر کوئی اسے فقط آنحضرتصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی حیات تک محدود کرنا چاہے تو وہ غلطی کا شکار ہوا اور راستہ سے اتر گیا اس لئے کہ جب بھی کوئی فعل حرف شرط کے بعد آتا ہے تو وہ عموم کا فائدہ دیتا ہے اور کسی عبارت کے مفہوم کے عام اور کلی ہونے کی سب سے واضح ترین صورت یہی ہے جیساکہ کتاب ( ارشاد الفحول ) کے صفحہ نمبر ۲۲ پر اس مطلب کی طرف اشارہ کیا گیا ہے ۔

استاد محترم علامہ محقق سید عبد اللہ صدیق غماری لکھتے ہیں : یہ آیت شریفہ عموم رکھتی ہے اور حیات وممات دونوں کو شامل ہوگی اور ان دونوں حالتوں میں سے کسی ایک کے ساتھ معین کرنا دلیل کا محتاج ہے جوموجود نہیں ہے ۔

۲۳۴

قرآنی آیات کی شرح اور اس مقدس کتاب کی تفسیر کرنے والے حضرات نے بھی اس آیت شریفہ سے عموم ہی سمجھا ہے اس لئے کہ تمام مفسرین نے اس آیت کے ذیل میں عتبیٰ سے ایک اعرابی شخص کے قبر پیغمبرصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے پاس آنے کی داستان نقل کی ہے ۔

ابن کثیر دمشقی نے اپنی تفسیر میں لکھا ہے : بعض بزرگان مانند شیخ ابو نصر صباغ نے اس مشہور داستان کو عتبی سے اپنی کتاب میں نقل کیا ہے کہ وہ کہتا ہے : میں قبر پیغمبر (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم )کے پاس بیٹھا تھا کہ ایک اعرابی داخل ہوا اور کہا: ''السلام علیک یا رسول اللہ... ''.( ۱ )

۳۔ مالک کا توسل کے جواز پر قرآن سے استدلال

ایک مرتبہ جب عباسی خلیفہ منصور دوانقی مسجد پیغمبر (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) میں زیارت میں مشغول تھا اور بلند آواز سے سلام اور دعا پڑھ رہا تھا تو اہل سنت کے امام مالک سے پوچھا :

''استقبل القبلة وادعوا ام استقبل رسول الله (صلی الله علیه وسلم ) و ادعو'' .

کیا زیارت کے بعد قبلہ کا رخ کرکے خد اکو پکاروں یا رسول خدا (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم )کی طرف منہ کر کے دعا کروں ؟

امام مالک نے کہا :

____________________

(۱)رفع المنارةفی تخریج احادیث التوسل و الزیارة : ۵۷.

۲۳۵

''ولم تصرف وجهک عنه وهو وسیلتک ووسیلة ابیک آدم الی الله تعالیٰ ؟ بل استقبل واستشفع به فیشفعه الله فیک ''

پیغمبرصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم سے اپنا چہرہ کیوں موڑنا چاہتے ہو جب کہ وہ تو آپ اور آپ کے باپ حضرت آدم علیہ السلام کا بھی وسیلہ ہیں بلکہ قبر آنحضرت کی طرف رخ کر کے کھڑے ہو اور ان سے شفاعت طلب کروخدا وند متعال ان کی شفاعت کو قبول کرتا ہے اس لئے کہ اس نے قرآن مجید میں فرمایا ہے :

( وَلَوْأ َنَّهُمْ إِذْ ظَلَمُوا أَنفُسَهُمْ جَائُوکَ فَاسْتَغْفَرُوا ﷲ وَاسْتَغْفَرَ لَهُمْ الرَّسُولُ لَوَجَدُوا ﷲ تَوَّابًا رَحِیمًا ) ( ۱ )

ترجمہ : اور کاش جب ان لوگوں نے اپنے نفس پر ظلم کیا تھا آپ کے پاس آتے اور خود بھی اپنے گناہوں کے لئے استغفار کرتے اور رسولصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم بھی ان کے حق میں استغفار کرتا تو یہ خدا کو بڑا ہی توبہ قبول کرنے والا اور مہربان پاتے ۔( ۲ )

۴۔ برادران یوسفصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کا حضرت یعقوب علیہ السلام سے توسل :

قرآن مجید نے جناب یوسف علیہ السلام کی داستان میں ان کے بھائیوں کے قول کو نقل کرتے ہوئے فرمایا:

( یَاَأبَانَا اسْتَغْفِرْ لَنَا ذُنُوبَنَا إِنَّا کُنَّا خَاطِئِینَ ) ( ۳ )

____________________

(۱) سورۂ نساء : ۶۴. (۲) الشفاء بتعریف حقوق المصطفیٰ ۱: ۲۸.

(۳) سورۂ یوسف: ۹۷.

۲۳۶

بابا جان اب آپ ہمارے گناہوں کے لئے استغفار کریں ۔

حضرت یعقوب علیہ السلام نے جواب میں فرمایا :( قَالَ سَوْفَ أَسْتَغْفِرُ لَکُمْ رَبِّی ) ( ۱ )

میں عنقریب تمہارے حق میں دعا کروں گا ۔

ب: بعثت سے پہلے آنحضرتصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم سے توسل

۱۔ آنحضرتصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی خلقت سے پہلے ان سے توسل :

رسول خدا(صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم )کی خلقت سے پہلے گذشتہ انبیاء علیہم السلام کا ان سے توسل اور انھیں وسیلہ قرار دینا ایک مسلم اور غیر قابل انکار مسئلہ ہے چونکہ کتب اہل سنت کے اندر اس موضوع پر اس قدر صحیح روایات موجو دہیں جو انبیاء وا ولیاء سے کسی بھی قسم کے توسل کے شرک ہونے کے وہابی نظریہ کی ہر طرح کی توجیہ و تاویل کا راستہ مسدود کر دیتی ہیں جن میں سے چند ایک روایات کو بطور نمونہ پیش کر رہے ہیں :

اہل سنت کے بزرگ عالم دین حاکم نیشاپوری اپنی کتاب( ۲ ) میں عمر بن خطاب سے نقل کرتے ہیں کہ رسول خدا (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ) نے فرمایا:

''لما اقترف آدم الخطیئة قال: یا رب اسئلک بحق محمد

____________________

(۱) سورۂ یوسف: ۹۸

(۲) المستدرک علی الصحیحین .۲:۶۷۲۔۴۲۲۷اور۲:۶۱۵تحقیق ڈاکٹر یوسف مرعشلی ، طبعہ دارالمعرفت بیروت

۲۳۷

لما غفرت لی فقال الله تعالیٰ : یا آدم وکیف عرفت محمد ا ً ولم اخلقه ؟ قال: یا رب لانک لما خلقتنی بیدک ، ونفخت فی من روحک ، رفعت راسی ، فرایت علی قوائم العرش مکتوبا لا اله الا الله ، محمد رسول الله ، فعرفت انک لم تضف الی اسمک الا احب الخلق الیک ؛'' .

جب حضرت آدم علیہ السلام مصیبت میں مبتلاہوئے تو خد اوند متعال کو رسول اکرم کا واسطہ دے کر بخشش طلب کی ۔

خداوند متعال نے فرمایا : اے آدم ! تو نے محمدصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کو کیسے پہچانا جب کہ ابھی تو ہم نے اسے خلق ہی نہیں کیا ؟

حضرت آدم نے عرض کیا: جب تونے مجھے خلق کیا اور مجھ میں اپنی روح پھونکی تو میں نے سر اٹھا کر دیکھا میری نظر عرش پر پڑی تو دیکھا کہ عرش کے ستونوں پر لکھا ہے :

''لا الہ الا اللہ محمد رسول اللہ '' میں سمجھ گیا کہ محمدصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم آپ کی محبوب ترین ہستی ہیں اسی لئے تو ان کا نام اپنے نام کے ساتھ لکھا ہے

''فقال الله: صدقت یا آدم انه لا حب الخلق ، اذا سئالتنی بحقه فقد غفرت لک ، ولولا محمد ما خلقتک''.

خدا وند متعال نے فرمایا: ہاں! تونے سچ کہا کہ وہ پوری مخلوق میں سب سے زیادہ مجھے محبوب ہے اور اب جب تو نے مجھے اس کا واسطہ دیا ہے تو میں نے تجھے معاف کر دیا اور اگر محمدصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کو خلق نہ کیا ہوتا تو تجھے بھی خلق نہ کرتا ۔

۲۳۸

حاکم نیشاپوری اس حدیث کو نقل کرنے کے بعد کہتا ہے :ھذا حدیث صحیح الاسناد''( ۱ ) اس حدیث کی سندصحیح ہے :

بیہقی نے اپنی کتاب دلائل النبوة میں اس حدیث کونقل کیا ہے۔( ۲ )

ذہبی اس کتاب کے بارے میں لکھتا ہے کہ یہ پوری کتاب ہدایت اور نور ہے اسی طرح طبرانی نے اپنی کتاب معجم صغیر( ۳ ) اور سبکی نے شفاء السقام( ۴ ) میں اس حدیث کے صحیح ہونے کی گواہی دی ہے ، سمہودی نے وفاء الوفاء( ۵ ) اور قسطلانی نے بھی المواہب نیة( ۶ ) میں اس حدیث کو نقل کیا ہے ۔

۲۔ آنحضر تصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی شیر خوارگی میں جناب عبد المطلب کا ان سے توسل :

اہل سنت کے معروف عالم شہرستانی اپنی کتاب ملل ونحل میں لکھتے ہیں :

جب سرزمین مکہ کو قحط نے اپنی لپیٹ میں لیا اور بادلوں نے برسنے سے انکار

____________________

(۱)مستدرک علی الصحیحین ۲: ۴۲۲۷۶۷۲و۲: ۶۱۵، تحقیق ڈاکٹر یوسف مرعشلی ، دار المعرفة بیروت

(۲) دلائل النبوة ۵: ۴۸۹.

(۳)معجم صغیر۲:۸۲.

(۴)شفاء السقام فی زیارة خیر الانام :۱۲۰

(۵) وفاء الوفاء ۴: ۳۷۱.

(۶) المواہب اللدنیة ۴: ۵۹۴.

۲۳۹

کر دیا تو اہل مکہ کے لئے زندگی کرنا ناگزیر ہوگیا ۔ جناب عبد المطلب نے رسول اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم )کو اپنے ہاتھوں پر لیا اور خانہ کعبہ کے سامنے کھڑے ہو کر کہا :

''یارب !بحق هذا الغلام ورماه ثانیا وثالثا وکان یقول : بحق هذا الغلام اسقنا غیثا ، مغیثا، دائما، هاطلا، فلم یلبث ساعة ان طبق السحاب وجه السماء ، وامطر حتی خافوا علی المسجد '' .( ۱ )

خدا یا اس بچے کا واسطہ اپنی رحمت کا نزول فرما: ابھی تھوری ہی دیر گذری تھی کہ مکہ پر بادل چھانے لگے اور اس قدر بارش ہوئی کہ لوگ ڈرگئے کہ کہیں خانہ کعبہ سیلاب میں ہی نہ بہہ جائے ۔

ابن حجرکہتا ہے :

جب عبد المطلب نے پیغمبر (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ) کا واسطہ دے کر بارش طلب کی تو سرداران مکہ عبد اللہ بن جد عان اور حرب بن امیہ حضرت عبد المطلب کے پاس آئے اور کہنے لگی :''ھنیائً لک ! ابا البطحاء ''( ۲ ) اے حجاز کے باپ تجھے یہ بچہ مبارک ہو ۔

اسی طرح ابن حجر یہ بھی لکھتا ہے :

____________________

(۱)الملل والنحل ۲: ۲۴۹.

(۲) الاصابة فی تمییز الصحابة۸:۱۳۶ ، ترجمہ رقیقة بنت ابی صیفی بن ہاشم

۲۴۰

241

242

243

244

245

246

247

248

249

250

251

252

253

254

255

256

257

258

259

260

261

262

263

264

265

266

267

268

269

270

271

272

273

274