با ل جبر یل

با ل جبر یل0%

با ل جبر یل مؤلف:
زمرہ جات: شعری مجموعے
صفحے: 199

با ل جبر یل

مؤلف: علامہ ڈاکٹرمحمد اقبال لاہوری
زمرہ جات:

صفحے: 199
مشاہدے: 75925
ڈاؤنلوڈ: 1491

تبصرے:

با ل جبر یل
کتاب کے اندر تلاش کریں
  • ابتداء
  • پچھلا
  • 199 /
  • اگلا
  • آخر
  •  
  • ڈاؤنلوڈ HTML
  • ڈاؤنلوڈ Word
  • ڈاؤنلوڈ PDF
  • مشاہدے: 75925 / ڈاؤنلوڈ: 1491
سائز سائز سائز
با ل جبر یل

با ل جبر یل

مؤلف:
اردو

*

تیری بنا پائدار ، تیرے ستوں بے شمار

شام کے صحرا میں ہو جیسے ہجوم نخیل

*

تیرے در و بام پر وادی ایمن کا نور

تیرا منار بلند جلوہ گہ جبرئیل

*

مٹ نہیں سکتا کبھی مرد مسلماں کہ ہے

اس کی اذانوں سے فاش سر کلیم و خلیل

*

اس کی زمیں بے حدود ، اس کا افق بے ثغور

اس کے سمندر کی موج ، دجلہ و دنیوب و نیل

*

اس کے زمانے عجیب ، اس کے فسانے غریب

عہد کہن کو دیا اس نے پیام رحیل

*

ساقئ ارباب ذوق ، فارس میدان شوق

بادہ ہے اس کا رحیق ، تیغ ہے اس کی اصیل

*

مرد سپاہی ہے وہ اس کی زرہ "لا الہ"

سایۂ شمشیر میں اس کا پنہ "لا الہ"

*

تجھ سے ہوا آشکار بندۂ مومن کا راز

اس کے دنوں کی تپش ، اس کی شبوں کا گداز

*

اس کا مقام بلند ، اس کا خیال عظیم

اس کا سرور اس کا شوق ، اس کا نیاز اس کا ناز

۱۰۱

*

ہاتھ ہے اللہ کا بندۂ مومن کا ہاتھ

غالب و کار آفریں ، کار کشا ، کارساز

*

خاکی و نوری نہاد ، بندۂ مولا صفات

ہر دو جہاں سے غنی اس کا دل بے نیاز

*

اس کی امیدیں قلیل ، اس کے مقاصد جلیل

اس کی ادا دل فریب ، اس کی نگہ دل نواز

*

نرم دم گفتگو ، گرم دم جستجو

رزم ہو یا بزم ہو ، پاک دل و پاک باز

*

نقطۂ پرکار حق ، مرد خدا کا یقیں

اور یہ عالم تمام وہم و طلسم و مجاز

*

عقل کی منزل ہے وہ ، عشق کا حاصل ہے وہ

حلقۂ آفاق میں گرمی محفل ہے وہ

*

کعبۂ ارباب فن! سطوت دین مبیں

تجھ سے حرم مرتبت اندلسیوں کی زمیں

*

ہے تہ گردوں اگر حسن میں تیری نظیر

قلب مسلماں میں ہے ، اور نہیں ہے کہیں

*

آہ وہ مردان حق! وہ عربی شہسوار

حامل " خلق عظیم" ، صاحب صدق و یقیں

۱۰۲

*

جن کی حکومت سے ہے فاش یہ رمز غریب

سلطنت اہل دل فقر ہے ، شاہی نہیں

*

جن کی نگاہوں نے کی تربیت شرق و غرب

ظلمت یورپ میں تھی جن کی خرد راہ بیں

*

جن کے لہو کے طفیل آج بھی ہیں اندلسی

خوش دل و گرم اختلاط ، سادہ و روشن جبیں

*

آج بھی اس دیس میں عام ہے چشم غزال

اور نگاہوں کے تیر آج بھی ہیں دل نشیں

*

بوئے یمن آج بھی اس کی ہواؤں میں ہے

رنگ حجاز آج بھی اس کی نواؤں میں ہے

*

دیدۂ انجم میں ہے تیری زمیں ، آسماں

آہ کہ صدیوں سے ہے تیری فضا بے اذاں

*

کون سی وادی میں ہے ، کون سی منزل میں ہے

عشق بلا خیز کا قافلۂ سخت جاں!

*

دیکھ چکا المنی ، شورش اصلاح دیں

جس نے نہ چھوڑے کہیں نقش کہن کے نشاں

*

حرف غلط بن گئی عصمت پیر کنشت

اور ہوئی فکر کی کشتی نازک رواں

۱۰۳

*

چشم فرانسیس بھی دیکھ چکی انقلاب

جس سے دگرگوں ہوا مغربیوں کا جہاں

*

ملت رومی نژاد کہنہ پرستی سے پیر

لذت تجدید سے وہ بھی ہوئی پھر جواں

*

روح مسلماں میں ہے آج وہی اضطراب

راز خدائی ہے یہ ، کہہ نہیں سکتی زباں

*

دیکھیے اس بحر کی تہ سے اچھلتا ہے کیا

گنبد نیلو فری رنگ بدلتا ہے کیا!

*

وادی کہسار میں غرق شفق ہے سحاب

لعل بدخشاں کے ڈھیر چھوڑ گیا آفتاب

*

سادہ و پرسوز ہے دختر دہقاں کا گیت

کشتی دل کے لیے سیل ہے عہد شباب

*

آب روان کبیر! تیرے کنارے کوئی

دیکھ رہا ہے کسی اور زمانے کا خواب

*

عالم نو ہے ابھی پردۂ تقدیر میں

میری نگاہوں میں ہے اس کی سحر بے حجاب

*

پردہ اٹھا دوں اگر چہرۂ افکار سے

لا نہ سکے گا فرنگ میری نواؤں کی تاب

۱۰۴

*

جس میں نہ ہو انقلاب ، موت ہے وہ زندگی

روح امم کی حیات کشمکش انقلاب

*

صورت شمشیر ہے دست قضا میں وہ قوم

کرتی ہے جو ہر زماں اپنے عمل کا حساب

*

نقش ہیں سب ناتمام خون جگر کے بغیر

نغمہ ہے سودائے خام خون جگر کے بغیر

***

____________________

وادا لکبیر، قرطبہ کا مشہور دریا جس کے قریب ہی مسجد قرطبہ واقع ہے -

۱۰۵

معتمد اشبیلیہ کا بادشاہ اور عربی شاعر تھا

-ہسپانیہ کے ایک حکمران نے اس کو شکست دے کر قید میں ڈال دیا تھا

- معتمد کی نظمیں انگریزی میں ترجمہ ہو کر "" وزڈم آف دی ایسٹ سیریز"" میں شائع ہو چکی ہیں

قید خانے میں معتمد کی فریاد

اک فغان بے شرر سینے میں باقی رہ گئی

سوز بھی رخصت ہوا ، جاتی رہی تاثیر بھی

*

مرد حر زنداں میں ہے بے نیزہ و شمشیر آج

میں پشیماں ہوں ، پشیماں ہے مری تدبیر بھی

*

خود بخود زنجیر کی جانب کھنچا جاتا ہے دل

تھی اسی فولاد سے شاید مری شمشیر بھی

*

جو مری تیغ دو دم تھی ، اب مری زنجیر ہے

شوخ و بے پروا ہے کتنا خالق تقدیر بھی!

***

۱۰۶

یہ اشعار جو عبد الرحمن اول کی تصنیف سے ہیں

، "تاریخ المقری" میں درج ہیں مندرجہ ذیل اردو نظم ان کا آزاد ترجمہ ہے ( درخت مذکور مدینۃ الزہرا میں بویا گیا تھا)

عبد الرحمن اول کا بویا ہوا کھجور کا پہلا درخت سرزمین اندلس میں

میری آنکھوں کا نور ہے تو

میرے دل کا سرور ہے تو

*

اپنی وادی سے دور ہوں میں

میرے لیے نخل طور ہے تو

*

مغرب کی ہوا نے تجھ کو پالا

صحرائے عرب کی حور ہے تو

*

پردیس میں ناصبور ہوں میں

پردیس میں ناصبور ہے تو

*

غربت کی ہوا میں بارور ہو

ساقی تیرا نم سحر ہو

***

۱۰۷

عالم کا عجیب ہے نظارہ

دامان نگہ ہے پارہ پارہ

*

ہمت کو شناوری مبارک!

پیدا نہیں بحر کا کنارہ

*

ہے سوز دروں سے زندگانی

اٹھتا نہیں خاک سے شرارہ

*

صبح غربت میں اور چمکا

ٹوٹا ہوا شام کا ستارہ

*

مومن کے جہاں کی حد نہیں ہے

مومن کا مقام ہر کہیں ہے

***

۱۰۸

ہسپانیہ

(ہسپانیہ.کی.سرزمین.لکھےگئے)

(واپس.آتےہوئے)

ہسپانیہ تو خون مسلماں کا امیں ہے

مانند حرم پاک ہے تو میری نظر میں

*

پوشیدہ تری خاک میں سجدوں کے نشاں ہیں

خاموش اذانیں ہیں تری باد سحر میں

*

روشن تھیں ستاروں کی طرح ان کی سنانیں

خیمے تھے کبھی جن کے ترے کوہ و کمر میں

*

پھر تیرے حسینوں کو ضرورت ہے حنا کی؟

باقی ہے ابھی رنگ مرے خون جگر میں!

*

کیونکر خس و خاشاک سے دب جائے مسلماں

مانا ، وہ تب و تاب نہیں اس کے شرر میں

*

غرناطہ بھی دیکھا مری آنکھوں نے و لیکن

تسکین مسافر نہ سفر میں نہ حضر میں

*

دیکھا بھی دکھایا بھی ، سنایا بھی سنا بھی

ہے دل کی تسلی نہ نظر میں ، نہ خبر میں!

***

۱۰۹

طارق کی دعا

(اندلس.کےمیدان.جنگ.میں)

یہ غازی ، یہ تیرے پر اسرار بندے

جنھیں تو نے بخشا ہے ذوق خدائی

*

دو نیم ان کی ٹھوکر سے صحرا و دریا

سمٹ کر پہاڑ ان کی ہیبت سے رائی

*

دو عالم سے کرتی ہے بیگانہ دل کو

عجب چیز ہے لذت آشنائی

*

شہادت ہے مطلوب و مقصود مومن

نہ مال غنیمت نہ کشور کشائی

*

خیاباں میں ہے منتظر لالہ کب سے

قبا چاہیے اس کو خون عرب سے

*

کیا تو نے صحرا نشینوں کو یکتا

خبر میں ، نظر میں ، اذان سحر میں

*

طلب جس کی صدیوں سے تھی زندگی کو

وہ سوز اس نے پایا انھی کے جگر میں

*

۱۱۰

کشاد در دل سمجھتے ہیں اس کو

ہلاکت نہیں موت ان کی نظر میں

*

دل مرد مومن میں پھر زندہ کر دے

وہ بجلی کہ تھی نعرۂ لا تذر ، میں

*

عزائم کو سینوں میں بیدار کر دے

نگاہ مسلماں کو تلوار کر دے

***

۱۱۱

لینن

(خداکےحضورمیں)

اے انفس و آفاق میں پیدا ترے آیات

حق یہ ہے کہ ہے زندہ و پائندہ تری ذات

*

میں کیسے سمجھتا کہ تو ہے یا کہ نہیں ہے

ہر دم متغیر تھے خرد کے نظریات

*

محرم نہیں فطرت کے سرود ازلی سے

بینائے کواکب ہو کہ دانائے نباتات

*

آج آنکھ نے دیکھا تو وہ عالم ہوا ثابت

میں جس کو سمجھتا تھا کلیسا کے خرافات

*

ہم بند شب و روز میں جکڑے ہوئے بندے

تو خالق اعصار و نگارندۂ آنات!

*

اک بات اگر مجھ کو اجازت ہو تو پوچھوں

حل کر نہ سکے جس کو حکیموں کے مقالات

*

جب تک میں جیا خیمۂ افلاک کے نیچے

کانٹے کی طرح دل میں کھٹکتی رہی یہ بات

۱۱۲

*

گفتار کے اسلوب پہ قابو نہیں رہتا

جب روح کے اندر متلاطم ہوں خیالات

*

وہ کون سا آدم ہے کہ تو جس کا ہے معبود

وہ آدم خاکی کہ جو ہے زیر سماوات؟

*

مشرق کے خداوند سفیدان فرنگی

مغرب کے خداوند درخشندۂ فلزات

*

یورپ میں بہت روشنی علم و ہنر ہے

حق یہ ہے کہ بے چشمۂ حیواں ہے یہ ظلمات

*

رعنائی تعمیر میں ، رونق میں ، صفا میں

گرجوں سے کہیں بڑھ کے ہیں بنکوں کی عمارات

*

ظاہر میں تجارت ہے ، حقیقت میں جوا ہے

سود ایک کا لاکھوں کے لیے مرگ مفاجات

*

یہ علم ، یہ حکمت ، یہ تدبر ، یہ حکومت

پیتے ہیں لہو ، دیتے ہیں تعلیم مساوات

*

بے کاری و عریانی و مے خواری و افلاس

کیا کم ہیں فرنگی مدنیت کے فتوحات

۱۱۳

*

وہ قوم کہ فیضان سماوی سے ہو محروم

حد اس کے کمالات کی ہے برق و بخارات

*

ہے دل کے لیے موت مشینوں کی حکومت

احساس مروت کو کچل دیتے ہیں آلات

*

آثار تو کچھ کچھ نظر آتے ہیں کہ آخر

تدبیر کو تقدیر کے شاطر نے کیا مات

*

میخانے کی بنیاد میں آیا ہے تزلزل

بیٹھے ہیں اسی فکر میں پیران خرابات

*

چہروں پہ جو سرخی نظر آتی ہے سر شام

یا غازہ ہے یا ساغر و مینا کی کرامات

*

تو قادر و عادل ہے مگر تیرے جہاں میں

ہیں تلخ بہت بندۂ مزدور کے اوقات

*

کب ڈوبے گا سرمایہ پرستی کا سفینہ؟

دنیا ہے تری منتظر روز مکافات

***

۱۱۴

فرشتوں کا گیت

عقل ہے بے زمام ابھی ، عشق ہے بے مقام ابھی

نقش گر ، ازل! ترا نقش ہے نا تمام ابھی

*

خلق خدا کی گھات میں رند و فقیہ و میر و پیر

تیرے جہاں میں ہے وہی گردش صبح و شام ابھی

*

تیرے امیر مال مست ، تیرے فقیر حال مست

بندہ ہے کوچہ گرد ابھی ، خواجہ بلند بام ابھی

*

دانش و دین و علم و فن بندگی ہوس تمام

عشق گرہ کشاۓ کا فیض نہیں ہے عام ابھی

*

جوہر زندگی ہے عشق ، جوہر عشق ہے خودی

آہ کہ ہے یہ تیغ تیز پردگی نیام ابھی!

***

۱۱۵

فرمان خدا

(فرشتوں سے)

اٹھو ! مری دنیا کے غریبوں کو جگا دو

کاخ امرا کے در و دیوار ہلا دو=

*

گرماؤ غلاموں کا لہو سوز یقیں سے

کنجشک فرومایہ کو شاہیں سے لڑا دو

*

سلطانی جمہور کا آتا ہے زمانہ

جو نقش کہن تم کو نظر آئے ، مٹا دو

*

جس کھیت سے دہقاں کو میسر نہیں روزی

اس کھیت کے ہر خوشۂ گندم کو جلا دو

*

کیوں خالق و مخلوق میں حائل رہیں پردے

پیران کلیسا کو کلیسا سے اٹھا دو

*

حق را بسجودے ، صنماں را بطوافے

بہتر ہے چراغ حرم و دیر بجھا دو

*

میں ناخوش و بیزار ہوں مرمر کی سلوں سے

میرے لیے مٹی کا حرم اور بنا دو

*

تہذیب نوی کار گہ شیشہ گراں ہے

آداب جنوں شاعر مشرق کو سکھا دو

***

۱۱۶

ذوق و شوق

(ان.اشعارمیں سےاکثرفلسطین.میں لکھےگئے)

دریغ آمدم زاں ہمہ بوستاں

تہی دست رفتن سوئے دوستاں

*

قلب و نظر کی زندگی دشت میں صبح کا سماں

چشمۂ آفتاب سے نور کی ندیاں رواں

*

حسن ازل کی ہے نمود ، چاک ہے پردۂ وجود

دل کے لیے ہزار سود ایک نگاہ کا زیاں

*

سرخ و کبود بدلیاں چھوڑ گیا سحاب شب

کوہ اضم کو دے گیا رنگ برنگ طیلساں

*

گرد سے پاک ہے ہوا ، برگ نخیل دھل گئے

ریگ نواح کاظمہ نرم ہے مثل پرنیاں

*

آگ بجھی ہوئی ادھر ، ٹوٹی ہوئی طناب ادھر

کیا خبر اس مقام سے گزرے ہیں کتنے کارواں

*

آئی صدائے جبرئیل ، تیرا مقام ہے یہی

اہل فراق کے لیے عیش دوام ہے یہی

۱۱۷

*

کس سے کہوں کہ زہر ہے میرے لیے مۓ حیات

کہنہ ہے بزم کائنات ، تازہ ہیں میرے واردات

*

کیا نہیں اور غزنوی کارگہ حیات میں

بیٹھے ہیں کب سے منتظر اہل حرم کے سومنات

*

ذکر عرب کے سوز میں ، فکر عجم کے ساز میں

نے عربی مشاہدات ، نے عجمی تخیلات

*

قافلۂ حجاز میں ایک حسین بھی نہیں

گرچہ ہے تاب دار ابھی گیسوئے دجلہ و فرات

*

عقل و دل و نگاہ کا مرشد اولیں ہے عشق

عشق نہ ہو تو شرع و دیں بت کدۂ تصورات

*

صدق خلیل بھی ہے عشق ، صبر حسین بھی ہے عشق

معرکۂ وجود میں بدر و حنین بھی ہے عشق

*

آیۂ کائنات کا معنی دیر یاب تو

نکلے تری تلاش میں قافلہ ہائے رنگ و بو

*

جلوتیان مدرسہ کور نگاہ و مردہ ذوق

خلوتیان مے کدہ کم طلب و تہی کدو

۱۱۸

*

میں کہ مری غزل میں ہے آتش رفتہ کا سراغ

میری تمام سرگزشت کھوئے ہوؤں کی جستجو

*

باد صبا کی موج سے نشو و نمائے خار و خس

میرے نفس کی موج سے نشو و نمائے آرزو

*

خون دل و جگر سے ہے میری نوا کی پرورش

ہے رگ ساز میں رواں صاحب ساز کا لہو

*

فرصت کشمکش مدہ ایں دل بے قرار را

یک دو شکن زیادہ کن گیسوے تابدار را

*

لوح بھی تو ، قلم بھی تو ، تیرا وجود الکتاب

گنبد آبگینہ رنگ تیرے محیط میں حباب

*

عالم آب و خاک میں تیرے ظہور سے فروغ

ذرۂ ریگ کو دیا تو نے طلوع آفتاب

*

شوکت سنجر و سلیم تیرے جلال کی نمود

فقر جنید و با یزید تیرا جمال بے نقاب

*

شوق ترا اگر نہ ہو میری نماز کا امام

میرا قیام بھی حجاب ، میرا سجود بھی حجاب

*

تیری نگاہ ناز سے دونوں مراد پا گئے

عقل غیاب و جستجو ، عشق حضور و اضطراب

۱۱۹

*

تیرہ و تار ہے جہاں گردش آفتاب سے

طبع زمانہ تازہ کر جلوۂ بے حجاب سے

*

تیری نظر میں ہیں تمام میرے گزشتہ روز و شب

مجھ کو خبر نہ تھی کہ ہے علم نخیل بے رطب

*

تازہ مرے ضمیر میں معرکۂ کہن ہوا

عشق تمام مصطفی ، عقل تمام بولہب

*

گاہ بحیلہ می برد ، گاہ بزور می کشد

عشق کی ابتدا عجب ، عشق کی انتہا عجب

*

عالم سوز و ساز میں وصل سے بڑھ کے ہے فراق

وصل میں مرگ آرزو ، ہجر میں لذت طلب

*

عین وصال میں مجھے حوصلۂ نظر نہ تھا

گرچہ بہانہ جو رہی میری نگاہ بے ادب

*

گرمی آرزو فراق ، شورش ہاۓ و ہو فراق

موج کی جستجو فراق ، قطرے کی آبرو فراق!

***

۱۲۰