با ل جبر یل

با ل جبر یل0%

با ل جبر یل مؤلف:
زمرہ جات: شعری مجموعے
صفحے: 199

با ل جبر یل

مؤلف: علامہ ڈاکٹرمحمد اقبال لاہوری
زمرہ جات:

صفحے: 199
مشاہدے: 75912
ڈاؤنلوڈ: 1491

تبصرے:

با ل جبر یل
کتاب کے اندر تلاش کریں
  • ابتداء
  • پچھلا
  • 199 /
  • اگلا
  • آخر
  •  
  • ڈاؤنلوڈ HTML
  • ڈاؤنلوڈ Word
  • ڈاؤنلوڈ PDF
  • مشاہدے: 75912 / ڈاؤنلوڈ: 1491
سائز سائز سائز
با ل جبر یل

با ل جبر یل

مؤلف:
اردو

پروانہ اور جگنو

پروانہ

پروانے کی منزل سے بہت دور ہے جگنو

کیوں آتش بے سوز پہ مغرور ہے جگنو

***

جگنو

اللہ کا سو شکر کہ پروانہ نہیں میں

دریوزہ گر آتش بیگانہ نہیں میں

***

۱۲۱

جاوید کے نام

خودی کے ساز میں ہے عمر جاوداں کا سراغ

خودی کے سوز سے روشن ہیں امتوں کے چراغ

*

یہ ایک بات کہ آدم ہے صاحب مقصود

ہزار گونہ فروغ و ہزار گونہ فراغ!

*

ہوئی نہ زاغ میں پیدا بلند پروازی

خراب کر گئی شاہیں بچے کو صحبت زاغ

*

حیا نہیں ہے زمانے کی آنکھ میں باقی

خدا کرے کہ جوانی تری رہے بے داغ

*

ٹھہر سکا نہ کسی خانقاہ میں اقبال

کہ ہے ظریف و خوش اندیشہ و شگفتہ دماغ

***

۱۲۲

گدائی

مے کدے میں ایک دن اک رند زیرک نے کہا

ہے ہمارے شہر کا والی گدائے بے حیا

*

تاج پہنایا ہے کس کی بے کلاہی نے اسے

کس کی عریانی نے بخشی ہے اسے زریں قبا

*

اس کے آب لالہ گوں کی خون دہقاں سے کشید

تیرے میرے کھیت کی مٹی ہے اس کی کیمیا

*

اس کے نعمت خانے کی ہر چیز ہے مانگی ہوئی

دینے والا کون ہے ، مرد غریب و بے نوا

*

مانگنے والا گدا ہے ، صدقہ مانگے یا خراج

کوئی مانے یا نہ مانے ، میرو سلطاں سب گدا!

***

(ماخوذازانوری)

۱۲۳

ملا اور بہشت

میں بھی حاضر تھا وہاں ، ضبط سخن کر نہ سکا

حق سے جب حضرت ملا کو ملا حکم بہشت

*

عرض کی میں نے ، الہی! مری تقصیر معاف

خوش نہ آئیں گے اسے حور و شراب و لب کشت

*

نہیں فردوس مقام جدل و قال و اقول

بحث و تکرار اس اللہ کے بندے کی سرشت

*

ہے بد آموزی اقوام و ملل کام اس کا

اور جنت میں نہ مسجد ، نہ کلیسا ، نہ کنشت!

***

۱۲۴

دین وسیاست

کلیسا کی بنیاد رہبانیت تھی

سماتی کہاں اس فقیری میں میری

*

خصومت تھی سلطانی و راہبی میں

کہ وہ سربلندی ہے یہ سربزیری

*

سیاست نے مذہب سے پیچھا چھٹرایا

چلی کچھ نہ پیر کلیسا کی پیری

*

ہوئی دین و دولت میں جس دم جدائی

ہوس کی امیری ، ہوس کی وزیری

*

دوئی ملک و دیں کے لیے نامرادی

دوئی چشم تہذیب کی نابصیری

*

یہ اعجاز ہے ایک صحرا نشیں کا

بشیری ہے آئینہ دار نذیری!

*

اسی میں حفاظت ہے انسانیت کی

کہ ہوں ایک جنیدی و اردشیری

***

۱۲۵

الارض للہ

پالتا ہے بیج کو مٹی کو تاریکی میں کون

کون دریاؤں کی موجوں سے اٹھاتا ہے سحاب؟

*

کون لایا کھینچ کر پچھم سے باد سازگار

خاک یہ کس کی ہے ، کس کا ہے یہ نور آفتاب؟

*

کس نے بھر دی موتیوں سے خوشۂ گندم کی جیب

موسموں کو کس نے سکھلائی ہے خوئے انقلاب؟

*

دہ خدایا! یہ زمیں تیری نہیں ، تیری نہیں

تیرے آبا کی نہیں ، تیری نہیں ، میری نہیں

***

۱۲۶

ایک نوجوان کے نام

ترے صوفے ہیں افرنگی ، ترے قالیں ہیں ایرانی

لہو مجھ کو رلاتی ہے جوانوں کی تن آسانی

*

امارت کیا ، شکوہ خسروی بھی ہو تو کیا حاصل

نہ زور حیدری تجھ میں ، نہ استغنائے سلمانی

*

نہ ڈھونڈ اس چیز کو تہذیب حاضر کی تجلی میں

کہ پایا میں نے استغنا میں معراج مسلمانی

*

عقابی روح جب بیدار ہوتی ہے جوانوں میں

نظر آتی ہے اس کو اپنی منزل آسمانوں میں

*

نہ ہو نومید ، نومیدی زوال علم و عرفاں ہے

امید مرد مومن ہے خدا کے راز دانوں میں

*

نہیں تیرا نشیمن قصر سلطانی کے گنبد پر

تو شاہیں ہے ، بسیرا کر پہاڑوں کی چٹانوں میں

***

۱۲۷

نصیحت

بچۂ شاہیں سے کہتا تھا عقاب سالخورد

اے تیرے شہپر پہ آساں رفعت چرخ بریں

*

ہے شباب اپنے لہو کی آگ میں جلنے کا نام

سخت کوشی سے ہے تلخ زندگانی انگبیں

*

جو کبوتر پر جھپٹنے میں مزا ہے اے پسر!

وہ مزا شاید کبوتر کے لہو میں بھی نہیں

***

۱۲۸

لالۂ صحرا

یہ گنبد مینائی ، یہ عالم تنہائی

مجھ کو تو ڈراتی ہے اس دشت کی پہنائی

*

بھٹکا ہوا راہی میں ، بھٹکا ہوا راہی تو

منزل ہے کہاں تیری اے لالۂ صحرائی!

*

خالی ہے کلیموں سے یہ کوہ و کمر ورنہ

تو شعلۂ سینائی ، میں شعلۂ سینائی!

*

تو شاخ سے کیوں پھوٹا ، میں شاخ سے کیوں ٹوٹا

اک جذبۂ پیدائی ، اک لذت یکتائی!

*

غواص محبت کا اللہ نگہباں ہو

ہر قطرۂ دریا میں دریا کی ہے گہرائی

*

اس موج کے ماتم میں روتی ہے بھنور کی آنکھ

دریا سے اٹھی لیکن ساحل سے نہ ٹکرائی

*

ہے گرمی آدم سے ہنگامۂ عالم گرم

سورج بھی تماشائی ، تارے بھی تماشائی

*

اے باد بیابانی! مجھ کو بھی عنایت ہو

خاموشی و دل سوزی ، سرمستی و رعنائی!

***

۱۲۹

ساقی نامہ

ہوا خیمہ زن کاروان بہار

ارم بن گیا دامن کوہسار

*

گل و نرگس و سوسن و نسترن

شہید ازل لالہ خونیں کفن

*

جہاں چھپ گیا پردۂ رنگ میں

لہو کی ہے گردش رگ سنگ میں

*

فضا نیلی نیلی ، ہوا میں سرور

ٹھہرتے نہیں آشیاں میں طیور

*

وہ جوئے کہستاں اچکتی ہوئی

اٹکتی ، لچکتی ، سرکتی ہوئی

*

اچھلتی ، پھسلتی ، سنبھلتی ہوئی

بڑے پیچ کھا کر نکلتی ہوئی

*

رکے جب تو سل چیر دیتی ہے یہ

پہاڑوں کے دل چیر دیتی ہے یہ

*

ذرا دیکھ اے ساقئ لالہ فام!

سناتی ہے یہ زندگی کا پیام

*

۱۳۰

پلا دے مجھے وہ مۓ پردہ سوز

کہ آتی نہیں فصل گل روز روز

*

وہ مے جس سے روشن ضمیر حیات

وہ مے جس سے ہے مستی کائنات

*

وہ مے جس میں ہے سوزوساز ازل

وہ مے جس سے کھلتا ہے راز ازل

*

اٹھا ساقیا پردہ اس راز سے

لڑا دے ممولے کو شہباز سے

*

زمانے کے انداز بدلے گئے

نیا راگ ہے ، ساز بدلے گئے

*

ہوا اس طرح فاش راز فرنگ

کہ حیرت میں ہے شیشہ باز فرنگ

*

پرانی سیاست گری خوار ہے

زمیں میر و سلطاں سے بیزار ہے

*

گیا دور سرمایہ داری گیا

تماشا دکھا کر مداری گیا

*

۱۳۱

گراں خواب چینی سنبھلنے لگے

ہمالہ کے چشمے ابلنے لگے

*

دل طور سینا و فاراں دو نیم

تجلی کا پھر منتظر ہے کلیم

*

مسلماں ہے توحید میں گرم جوش

مگر دل ابھی تک ہے زنار پوش

*

تمدن، تصوف، شریعت، کلام

بتان عجم کے پجاری تمام!

*

حقیقت خرافات میں کھو گئی

یہ امت روایات میں کھو گئی

*

لبھاتا ہے دل کو کلام خطیب

مگر لذت شوق سے بے نصیب!

*

بیاں اس کا منطق سے سلجھا ہوا

لغت کے بکھیڑوں میں الجھا ہوا

*

وہ صوفی کہ تھا خدمت حق میں مرد

محبت میں یکتا ، حمیت میں فرد

*

۱۳۲

عجم کے خیالات میں کھو گیا

یہ سالک مقامات میں کھو گیا

*

بجھی عشق کی آگ ، اندھیر ہے

مسلماں نہیں ، راکھ کا ڈھیر ہے

*

شراب کہن پھر پلا ساقیا

وہی جام گردش میں لا ساقیا!

*

مجھے عشق کے پر لگا کر اڑا

مری خاک جگنو بنا کر اڑا

*

خرد کو غلامی سے آزاد کر

جوانوں کو پیروں کا استاد کر

*

ہری شاخ ملت ترے نم سے ہے

نفس اس بدن میں ترے دم سے ہے

*

تڑپنے پھٹرکنے کی توفیق دے

دل مرتضی ، سوز صدیق دے

*

جگر سے وہی تیر پھر پار کر

تمنا کو سینوں میں بیدار کر

*

۱۳۳

ترے آسمانوں کے تاروں کی خیر

زمینوں کے شب زندہ داروں کی خیر

*

جوانوں کو سوز جگر بخش دے

مرا عشق ، میری نظر بخش دے

*

مری ناؤ گرداب سے پار کر

یہ ثابت ہے تو اس کو سیار کر

*

بتا مجھ کو اسرار مرگ و حیات

کہ تیری نگاہوں میں ہے کائنات

*

مرے دیدۂ تر کی بے خوابیاں

مرے دل کی پوشیدہ بے تابیاں

*

مرے نالۂ نیم شب کا نیاز

مری خلوت و انجمن کا گداز

*

امنگیں مری ، آرزوئیں مری

امیدیں مری ، جستجوئیں مری

*

مری فطرت آئینۂ روزگار

غزالان افکار کا مرغزار

*

۱۳۴

مرا دل ، مری رزم گاہ حیات

گمانوں کے لشکر ، یقیں کا ثبات

*

یہی کچھ ہے ساقی متاع فقیر

اسی سے فقیری میں ہوں میں امیر

*

مرے قافلے میں لٹا دے اسے

لٹا دے ، ٹھکانے لگا دے اسے!

*

دما دم رواں ہے یم زندگی

ہر اک شے سے پیدا رم زندگی

*

اسی سے ہوئی ہے بدن کی نمود

کہ شعلے میں پوشیدہ ہے موج دود

*

گراں گرچہ ہے صحبت آب و گل

خوش آئی اسے محنت آب و گل

*

یہ ثابت بھی ہے اور سیار بھی

عناصر کے پھندوں سے بیزار بھی

*

یہ وحدت ہے کثرت میں ہر دم اسیر

مگر ہر کہیں بے چگوں ، بے نظیر

*

۱۳۵

یہ عالم ، یہ بت خانۂ شش جہات

اسی نے تراشا ہے یہ سومنات

*

پسند اس کو تکرار کی خو نہیں

کہ تو میں نہیں ، اور میں تو نہیں

*

من و تو سے ہے انجمن آفرین

مگر عین محفل میں خلوت نشیں

*

چمک اس کی بجلی میں تارے میں ہے

یہ چاندی میں ، سونے میں ، پارے میں ہے

*

اسی کے بیاباں ، اسی کے ببول

اسی کے ہیں کانٹے ، اسی کے ہیں پھول

*

کہیں اس کی طاقت سے کہسار چور

کہیں اس کے پھندے میں جبریل و حور

*

کہیں جرہ شاہین سیماب رنگ

لہو سے چکوروں کے آلودہ چنگ

*

کبوتر کہیں آشیانے سے دور

پھڑکتا ہوا جال میں ناصبور

*

۱۳۶

فریب نظر ہے سکون و ثبات

تڑپتا ہے ہر ذرۂ کائنات

*

ٹھہرتا نہیں کاروان وجود

کہ ہر لحظہ ہے تازہ شان وجود

*

سمجھتا ہے تو راز ہے زندگی

فقط ذوق پرواز ہے زندگی

*

بہت اس نے دیکھے ہیں پست و بلند

سفر اس کو منزل سے بڑھ کر پسند

*

سفر زندگی کے لیے برگ و ساز

سفر ہے حقیقت ، حضر ہے مجاز

*

الجھ کر سلجھنے میں لذت اسے

تڑپنے پھٹرکنے میں راحت اسے

*

ہوا جب اسے سامنا موت کا

کٹھن تھا بڑا تھامنا موت کا

*

اتر کر جہان مکافات میں

رہی زندگی موت کی گھات میں

*

۱۳۷

مذاق دوئی سے بنی زوج زوج

اٹھی دشت و کہسار سے فوج فوج

*

گل اس شاخ سے ٹوٹتے بھی رہے

اسی شاخ سے پھوٹتے بھی رہے

*

سمجھتے ہیں ناداں اسے بے ثبات

ابھرتا ہے مٹ مٹ کے نقش حیات

*

بڑی تیز جولاں ، بڑی زورد رس

ازل سے ابد تک رم یک نفس

*

زمانہ کہ زنجیر ایام ہے

دموں کے الٹ پھیر کا نام ہے

*

یہ موج نفس کیا ہے تلوار ہے

خودی کیا ہے ، تلوار کی دھار ہے

*

خودی کیا ہے ، راز درون حیات

خودی کیا ہے ، بیداری کائنات

*

خودی جلوہ بدمست و خلوت پسند

سمندر ہے اک بوند پانی میں بند

*

۱۳۸

اندھیرے آ جالے میں ہے تابناک

من و تو میں پیدا ، من و تو سے پاک

*

ازل اس کے پیچھے ، ابد سامنے

نہ حد اس کے پیچھے ، نہ حد سامنے

*

زمانے کے دریا میں بہتی ہوئی

ستم اس کی موجوں کے سہتی ہوئی

*

تجسس کی راہیں بدلتی ہوئی

وما دم نگاہیں بدلتی ہوئی

*

سبک اس کے ہاتھوں میں سنگ گراں

پہاڑ اس کی ضربوں سے ریگ رواں

*

سفر اس کا انجام و آغاز ہے

یہی اس کی تقویم کا راز ہے

*

کرن چاند میں ہے ، شرر سنگ میں

یہ بے رنگ ہے ڈوب کر رنگ میں

*

اسے واسطہ کیا کم و بیش سے

نشیب و فراز وپس و پیش سے

*

۱۳۹

ازل سے ہے یہ کشمکش میں اسیر

ہوئی خاک آدم میں صورت پذیر

*

خودی کا نشیمن ترے دل میں ہے

فلک جس طرح آنکھ کے تل میں ہے

*

خودی کے نگہباں کو ہے زہر ناب

وہ ناں جس سے جاتی رہے اس کی آب

*

وہی ناں ہے اس کے لیے ارجمند

رہے جس سے دنیا میں گردن بلند

*

فرو فال محمود سے درگزر

خودی کو نگہ رکھ ، ایازی نہ کر

*

وہی سجدہ ہے لائق اہتمام

کہ ہو جس سے ہر سجدہ تجھ پر حرام

*

یہ عالم ، یہ ہنگامۂ رنگ و صوت

یہ عالم کہ ہے زیر فرمان موت

*

یہ عالم ، یہ بت خانۂ چشم و گوش

جہاں زندگی ہے فقط خورد و نوش

*

۱۴۰