با ل جبر یل

با ل جبر یل0%

با ل جبر یل مؤلف:
زمرہ جات: شعری مجموعے
صفحے: 199

با ل جبر یل

مؤلف: علامہ ڈاکٹرمحمد اقبال لاہوری
زمرہ جات:

صفحے: 199
مشاہدے: 75909
ڈاؤنلوڈ: 1489

تبصرے:

با ل جبر یل
کتاب کے اندر تلاش کریں
  • ابتداء
  • پچھلا
  • 199 /
  • اگلا
  • آخر
  •  
  • ڈاؤنلوڈ HTML
  • ڈاؤنلوڈ Word
  • ڈاؤنلوڈ PDF
  • مشاہدے: 75909 / ڈاؤنلوڈ: 1489
سائز سائز سائز
با ل جبر یل

با ل جبر یل

مؤلف:
اردو

خودی کی یہ ہے منزل اولیں

مسافر! یہ تیرا نشیمن نہیں

تری آگ اس خاک داں سے نہیں

جہاں تجھ سے ہے ، تو جہاں سے نہیں

*

بڑھے جا یہ کوہ گراں توڑ کر

طلسم زمان و مکاں توڑ کر

*

خودی شیر مولا ، جہاں اس کا صید

زمیں اس کی صید ، آسماں اس کا صید

*

جہاں اور بھی ہیں ابھی بے نمود

کہ خالی نہیں ہے ضمیر وجود

*

ہر اک منتظر تیری یلغار کا

تری شوخی فکر و کردار کا

*

یہ ہے مقصد گردش روزگار

کہ تیری خودی تجھ پہ ہو آشکار

*

تو ہے فاتح عالم خوب و زشت

تجھے کیا بتاؤں تری سرنوشت

*

۱۴۱

حقیقت پہ ہے جامۂ حرف تنگ

حقیقت ہے آئینہ ، گفتار زنگ

*

فروزاں ہے سینے میں شمع نفس

مگر تاب گفتار کہتی ہے ، بس!

*

اگر یک سر موے برتر پرم

فروغ تجلی بسوزد پرم،

**

۱۴۲

زمانہ

جو تھا نہیں ہے ، جو ہے نہ ہو گا ، یہی ہے اک حرف محرمانہ

قریب تر ہے نمود جس کی ، اسی کا مشتاق ہے زمانہ

*

مری صراحی سے قطرہ قطرہ نئے حوادث ٹپک رہے ہیں

میں اپنی تسبیح روز و شب کا شمار کرتا ہوں دانہ دانہ

*

ہر ایک سے آشنا ہوں ، لیکن جدا جدا رسم و راہ میری

کسی کا راکب ، کسی کا مرکب ، کسی کو عبرت کا تازیانہ

*

نہ تھا اگر تو شریک محفل ، قصور میرا ہے یا کہ تیرا

مرا طریقہ نہیں کہ رکھ لوں کسی کی خاطر مۓ شبانہ

*

مرے خم و پیچ کو نجومی کی آنکھ پہچانتی نہیں ہے

ہدف سے بیگانہ تیرا اس کا ، نظر نہیں جس کی عارفانہ

*

شفق نہیں مغربی افق پر یہ جوئے خوں ہے ، یہ جوئے خوں ہے!

طلوع فردا کا منتظر رہ کہ دوش و امروز ہے فسانہ

*

وہ فکر گستاخ جس نے عریاں کیا ہے فطرت کی طاقتوں کو

اس کی بیتاب بجلیوں سے خطر میں ہے اس کا آشیانہ

۱۴۳

*

ہوائیں ان کی ، فضائیں ان کی ، سمندر ان کے ، جہاز ان کے

گرہ بھنور کی کھلے تو کیونکر ، بھنور ہے تقدیر کا بہانہ

*

جہان نو ہو رہا ہے پیدا ، وہ عالم پیر مر رہا ہے

جسے فرنگی مقامروں نے بنا دیا ہے قمار خانہ

*

ہوا ہے گو تند و تیز لیکن چراغ اپنا جلا رہا ہے

وہ مرد درویش جس کو حق نے دیے ہیں انداز خسروانہ

***

۱۴۴

فرشتے آدم کو جنت سے رخصت کرتے ہیں

عطا ہوئی ہے تجھے روز و شب کی بیتابی

خبر نہیں کہ تو خاکی ہے یا کہ سیمابی

*

سنا ہے ، خاک سے تیری نمود ہے ، لیکن

تری سرشت میں ہے کوکبی و مہ تابی

*

جمال اپنا اگر خواب میں بھی تو دیکھے

ہزار ہوش سے خوشتر تری شکر خوابی

*

گراں بہا ہے ترا گریۂ سحر گاہی

اسی سے ہے ترے نخل کہن کی شادابی

*

تری نوا سے ہے بے پردہ زندگی کا ضمیر

کہ تیرے ساز کی فطرت نے کی ہے مضرابی

***

۱۴۵

روح ارضی آدم کا استقبال کرتی ہے

کھول آنکھ ، زمیں دیکھ ، فلک دیکھ ، فضا دیکھ

مشرق سے ابھرتے ہوئے سورج کو ذرا دیکھ

*

اس جلوۂ بے پردہ کو پردوں میں چھپا دیکھ

ایام جدائی کے ستم دیکھ ، جفا دیکھ

*

بے تاب نہ ہو معرکۂ بیم و رجا دیکھ!

*

*

ہیں تیرے تصرف میں یہ بادل ، یہ گھٹائیں

یہ گنبد افلاک ، یہ خاموش فضائیں

*

یہ کوہ یہ صحرا ، یہ سمندر یہ ہوائیں

تھیں پیش نظر کل تو فرشتوں کی ادائیں

*

آئینۂ ایام میں آج اپنی ادا دیکھ!

*

*

سمجھے گا زمانہ تری آنکھوں کے اشارے

دیکھیں گے تجھے دور سے گردوں کے ستارے

*

ناپید ترے بحر تخیل کے کنارے

پہنچیں گے فلک تک تری آہوں کے شرارے

*

تعمیر خودی کر ، اثر آہ رسا دیکھ!

*

۱۴۶

*

خورشید جہاں تاب کی ضو تیرے شرر میں

آباد ہے اک تازہ جہاں تیرے ہنر میں

*

جچتے نہیں بخشے ہوئے فردوس نظر میں

نت تری پنہاں ہے ترے خون جگر میں

*

اے پیکر گل کوشش پیہم کی جزا دیکھ!

*

*

نالندہ ترے عود کا ہر تار ازل سے

تو جنس محبت کا خریدار ازل سے

*

تو پیر صنم خانۂ اسرار ازل سے

محنت کش و خوں ریز و کم آزار ازل سے

*

ہے راکب تقدیر جہاں تیری رضا ، دیکھ!

***

۱۴۷

پیرو مرید

مریدہندی

چشم بینا سے ہے جاری جوئے خوں

علم حاضر سے ہے دیں زار و زبوں!

***

پیررومی

علم را بر تن زنی مارے بود

علم را بر دل زنی یارے بود

***

مریدہندی

اے امام عاشقان دردمند!

یاد ہے مجھ کو ترا حرف بلند

*

خشک مغز و خشک تار و خشک پوست

از کجا می آید ایں آواز دوست،

*

دور حاضر مست چنگ و بے سرور

بے ثبات و بے یقین و بے حضور

*

کیا خبر اس کو کہ ہے یہ راز کیا

دوست کیا ہے ، دوست کی آواز کیا

*

آہ ، یورپ با فروغ و تاب ناک

نغمہ اس کو کھینچتا ہے سوئے خاک

***

۱۴۸

پیررومی

بر سماع راست ہر کس چیر نیست

طعمۂ ہر مرغکے انجیر نیست

***

مریدہندی

پڑھ لیے میں نے علوم شرق و غرب

روح میں باقی ہے اب تک درد و کرب

**

پیررومی

دست ہر نا اہل بیمارت کند

سوئے مادر آکہ تیمارت کند

***

مریدہندی

اے نگہ تیری مرے دل کی کشاد

کھول مجھ پر نکتۂ حکم جہاد

***

پیررومی

نقش حق را ہم بہ امر حق شکن

بر زجاج دوست سنگ دوست زن

***

۱۴۹

مریدہندی

ہے نگاہ خاوراں مسحور غرب

حور جنت سے ہے خوشتر حور غرب

***

پیررومی

ظاہر نقرہ گر اسپید است و نو

دست و جامہ ہم سیہ گردو ازو!

***

مریدہندی

آہ مکتب کا جوان گرم خوں!

ساحر افرنگ کا صید زبوں!

***

پیررومی

مرغ پر نارستہ چوں پراں شود

طعمۂ ہر گربۂ دراں شود

***

مریدہندی

تا کجا آویزش دین و وطن

جوہر جاں پر مقدم ہے بدن!

***

۱۵۰

پیررومی

قلب پہلو می زندہ با زر بشب

انتظار روز می دارد ذہب

***

مریدہندی

سر آدم سے مجھے آگاہ کر

خاک کے ذرے کو مہر و ماہ کر!

***

پیررومی

ظاہرش را پشۂ آرد بچرخ

باطنش آمد محیط ہفت چرخ

***

مریدہندی

خاک تیرے نور سے روشن بصر

غایت آدم خبر ہے یا نظر؟

***

پیررومی

آدمی دید است ، باقی پوست است

دید آں باشد کہ دید دوست است

***

۱۵۱

مریدہندی

زندہ ہے مشرق تری گفتار سے

امتیں مرتی ہیں کس آزار سے؟

***

پیررومی

ہر ہلاک امت پیشیں کہ بود

زانکہ بر جندل گماں بردند عود

***

مریدہندی

اب مسلماں میں نہیں وہ رنگ و بو

سرد کیونکر ہو گیا اس کا لہو؟

***

پیررومی

تا دل صاحبدلے نامد بہ درد

ہیچ قومے را خدا رسوا نہ کرد

***

مریدہندی

گرچہ بے رونق ہے بازار وجود

کون سے سودے میں ہے مردوں کا سود؟

***

۱۵۲

پیررومی

زیرکی بفروش و حیرانی بخر

زیرکی ظن است و حیرانی نظر

***

مریدہندی

ہم نفس میرے سلاطیں کے ندیم

میں فقیر بے کلاہ و بے گلیم!

***

پیررومی

بندۂ یک مرد روشن دل شوی

بہ کہ بر فرق سر شاہاں روی

***

مریدہندی

اے شریک مستی خاصان بدر

میں نہیں سمجھا حدیث جبر و قدر!

***

پیررومی

بال بازاں را سوے سلطاں برد

بال زاغاں را بگورستاں برد

***

۱۵۳

مریدہندی

کاروبار خسروی یا راہبی

کیا ہے آخر غایت دین نبی ؟

***

پیررومی

مصلحت در دین ما جنگ و شکوہ

مصلحت در دین عیسی غار و کوہ

***

مریدہندی

کس طرح قابو میں آئے آب و گل

کس طرح بیدار ہو سینے میں دل ؟

***

پیررومی

بندہ باش و بر زمیں رو چوں سمند

چوں جنازہ نے کہ بر گردن برند

***

مریدہندی

سر دیں ادراک میں آتا نہیں

کس طرح آئے قیامت کا یقیں؟

***

۱۵۴

پیررومی

پس قیامت شو قیامت را ببیں

دیدن ہر چیز را شرط است ایں

***

مریدہندی

آسماں میں راہ کرتی ہے خودی

صید مہر و ماہ کرتی ہے خودی

*

بے حضور و با فروغ و بے فراغ

اپنے نخچیروں کے ہاتھوں داغ داغ!

***

پیررومی

آں کہ ارزد صید را عشق است و بس

لیکن او کے گنجد اندر دام کس!

***

مریدہندی

تجھ پہ روشن ہے ضمیر کائنات

کس طرح محکم ہو ملت کی حیات؟

***

۱۵۵

پیررومی

دانہ باشی مرغکانت برچنند

غنچہ باشی کود کانت برکنند

*

دانہ پنہاں کن سراپا دام شو

غنچہ پنہاں کن گیاہ بام شو

***

مریدہندی

تو یہ کہتا ہے کہ دل کی کر تلاش

طالب دل باش و در پیکار باش

*

جو مرا دل ہے ، مرے سینے میں ہے

میرا جوہر میرے آئینے میں ہے

***

پیررومی

تو ہمی گوئی مرا دل نیز ہست

دل فراز عرش باشد نے بہ پست

*

تو دل خود را دلے پنداشتی

جستجوے اہل دل بگذاشتی

***

۱۵۶

مریدہندی

آسمانوں پر مرا فکر بلند

میں زمیں پر خوار و زار و دردمند

*

کار دنیا میں رہا جاتا ہوں میں

ٹھوکریں اس راہ میں کھاتا ہوں میں

*

کیوں مرے بس کا نہیں کار زمیں

ابلہ دنیا ہے کیوں دانائے دیں؟

***

پیررومی

آں کہ بر افلاک رفتارش بود

بر زمیں رفتن چہ دشوارش بود

***

مریدہندی

علم و حکمت کا ملے کیونکر سراغ

کس طرح ہاتھ آئے سوز و درد و داغ

***

پیررومی

علم و حکمت زاید نان حلال

عشق و رقت آید از نان حلال

***

۱۵۷

مریدہندی

ہے زمانے کا تقاضا انجمن

اور بے خلوت نہیں سوز سخن!

***

پیررومی

خلوت از اغیار باید ، نے ز یار

پوستیں بہر دے آمد ، نے بہار

***

مریدہندی

ہند میں اب نور ہے باقی نہ سوز

اہل دل اس دیس میں ہیں تیرہ روز!

***

پیررومی

کار مرداں روشنی و گرمی است

کار دوناں حیلہ و بے شرمی است

***

۱۵۸

جبریل وابلیس

جبریل

ہمدم دیرینہ! کیسا ہے جہان رنگ و بو؟

***

ابلیس

سوز و ساز و درد و داغ و جستجوے و آرزو

***

جبریل

ہر گھڑی افلاک پر رہتی ہے تیری گفتگو

کیا نہیں ممکن کہ تیرا چاک دامن ہو رفو؟

***

ابلیس

آہ اے جبریل! تو واقف نہیں اس راز سے

کر گیا سرمست مجھ کو ٹوٹ کر میرا سبو

*

اب یہاں میری گزر ممکن نہیں ، ممکن نہیں

کس قدر خاموش ہے یہ عالم بے کاخ و کو!

*

جس کی نومیدی سے ہو سوز درون کائنات

اس کے حق میں "تقنطو" اچھا ہے یا "لاتقظو"؟

***

۱۵۹

جبریل

کھو دیے انکار سے تو نے مقامات بلند

چشم یزداں میں فرشتوں کی رہی کیا آبرو!

***

ابلیس

ہے مری جرأت سے مشت خاک میں ذوق نمو

میرے فتنے جامۂ عقل و خرد کا تار و پو

*

دیکھتا ہے تو فقط ساحل سے رزم خیر و شر

کون طوفاں کے طمانچے کھا رہا ہے ، میں کہ تو؟

*

خضر بھی بے دست و پا ، الیاس بھی بے دست و پا

میرے طوفاں یم بہ یم ، دریا بہ دریا ، جو بہ جو

*

گر کبھی خلوت میسر ہو تو پوچھ اللہ سے

قصۂ آدم کو رنگیں کر گیا کس کا لہو!

*

میں کھٹکتا ہوں دل یزداں میں کانٹے کی طرح

تو فقط اللہ ھو ، اللہ ھو ، اللہ ھو

***

۱۶۰