با ل جبر یل

با ل جبر یل0%

با ل جبر یل مؤلف:
زمرہ جات: شعری مجموعے
صفحے: 199

با ل جبر یل

مؤلف: علامہ ڈاکٹرمحمد اقبال لاہوری
زمرہ جات:

صفحے: 199
مشاہدے: 75911
ڈاؤنلوڈ: 1491

تبصرے:

با ل جبر یل
کتاب کے اندر تلاش کریں
  • ابتداء
  • پچھلا
  • 199 /
  • اگلا
  • آخر
  •  
  • ڈاؤنلوڈ HTML
  • ڈاؤنلوڈ Word
  • ڈاؤنلوڈ PDF
  • مشاہدے: 75911 / ڈاؤنلوڈ: 1491
سائز سائز سائز
با ل جبر یل

با ل جبر یل

مؤلف:
اردو

اذان

اک رات ستاروں سے کہا نجم سحر نے

آدم کو بھی دیکھا ہے کسی نے کبھی بیدار؟

*

کہنے لگا مریخ ، ادا فہم ہے تقدیر

ہے نیند ہی اس چھوٹے سے فتنے کو سزاوار

*

زہرہ نے کہا ، اور کوئی بات نہیں کیا؟

اس کرمک شب کور سے کیا ہم کو سروکار!

*

بولا مہ کامل کہ وہ کوکب ہے زمینی

تم شب کو نمودار ہو ، وہ دن کو نمودار

*

واقف ہو اگر لذت بیداری شب سے

اونچی ہے ثریا سے بھی یہ خاک پر اسرار

*

آغوش میں اس کی وہ تجلی ہے کہ جس میں

کھو جائیں گے افلاک کے سب ثابت و سیار

*

ناگاہ فضا بانگ اذاں سے ہوئی لبریز

وہ نعرہ کہ ہل جاتا ہے جس سے دل کہسار!

***

۱۶۱

محبت

شہید محبت نہ کافر نہ غازی

محبت کی رسمیں نہ ترکی نہ تازی

*

وہ کچھ اور شے ہے ، محبت نہیں ہے

سکھاتی ہے جو غزنوی کو ایازی

*

یہ جوہر اگر کار فرما نہیں ہے

تو ہیں علم و حکمت فقط شیشہ بازی

*

نہ محتاج سلطاں ، نہ مرعوب سلطاں

محبت ہے آزادی و بے نیازی

*

مرا فقر بہتر ہے آ سکندری سے

یہ آدم گری ہے ، وہ آئینہ سازی

***

ستارے کا پیغام

مجھے ڈرا نہیں سکتی فضا کی تاریکی

مری سرشت میں ہے پاکی و درخشانی

*

تو اے مسافر شب! خود چراغ بن اپنا

کر اپنی رات کو داغ جگر سے نورانی

***

۱۶۲

جاوید کے نام

خودی کے ساز میں ہے عمرِ جاوداں کا سراغ

خودی کے سوز سے روشن ہیں امتوں کے چراغ

*

یہ ایک بات کہ آدم ہے صاحبِ مقصود

ہزار گونہ فروغ و ہزار گونہ فراغ !

*

ہوئی نہ زاغ میں پیدا بلند پروازی

خراب کر گئی شاہیں بچے کو صحبتِ زاغ

*

حیا نہیں ہے زمانے کی آنکھ میں باقی

خدا کرے کہ جوانی تری رہے بے داغ

*

ٹھہر سکا نہ کسی خانقاہ میں اقبال

کہ ہے ظریف و خوش اندیشہ و شگفتہ دماغ

***

۱۶۳

فلسفہ و مذہب

یہ آفتاب کیا ، یہ سپہرِ بریں ہے کیا !

سمجھا نہیں تسلسلِ شام و سحر کو میں

*

اپنے وطن میں ہوں کہ غریب الدیار ہوں

ڈرتا ہوں دیکھ دیکھ کے اس دشت و در کو میں

*

کُھلتا نہیں مرے سفرِ زندگی کا راز

لاؤں کہاں سے بندۂ صاحب نظر کو میں

*

حیراں ہے بو علی کہ میں آیا کہاں سے ہوں

رومی یہ سوچتا ہے کہ جاؤں کدھر کو میں

*

”جاتا ہوں تھوڑی دور ہر اک راہرو کے ساتھ

پہچانتا نہیں ہوں ابھی راہبر کو میں“

***

۱۶۴

یورپ سے ایک خط

ہم خوگر محسوس ہیں ساحل کے خریدار

اک بحر پر آشوب و پر اسرار ہے رومی

*

تو بھی ہے اسی قافلۂ شوق میں اقبال

جس قافلۂ شوق کا سالار ہے رومی

*

اس عصر کو بھی اس نے دیا ہے کوئی پیغام؟

کہتے ہیں چراغ رہ احرار ہے رومی

****

جواب

کہ نباید خورد و جو ہمچوں خراں

آہوانہ در ختن چر ارغواں

*

ہر کہ کاہ و جو خورد قرباں شود

ہر کہ نور حق خورد قرآں شود

***

۱۶۵

نپولین کے مزار پر

راز ہے ، راز ہے تقدیر جہان تگ و تاز

جوش کردار سے کھل جاتے ہیں تقدیر کے راز

*

جوش کردار سے شمشیر سکندر کا طلوع

کوہ الوند ہوا جس کی حرارت سے گداز

*

جوش کردار سے تیمور کا سیل ہمہ گیر

سیل کے سامنے کیا شے ہے نشیب اور فراز

*

صف جنگاہ میں مردان خدا کی تکبیر

جوش کردار سے بنتی ہے خدا کی آواز

*

ہے مگر فرصت کردار نفس یا دو نفس

عوض یک دو نفس قبر کی شب ہائے دراز!

*

""عاقبت منزل ما وادی خاموشان است

حالیا غلغلہ در گنبد افلاک انداز""!

***

۱۶۶

مسولینی

ندرت فکر و عمل کیا شے ہے ، ذوق انقلاب

ندرت فکر و عمل کیا شے ہے ، ملت کا شباب

*

ندرت فکر و عمل سے معجزات زندگی

ندرت فکر و عمل سے سنگ خارا لعل ناب

*

رومۃ الکبریٰ! دگرگوں ہو گیا تیرا ضمیر

اینکہ می بینم بہ بیدار یست یا رب یا بہ خواب!

*

چشم پیران کہن میں زندگانی کا فروغ

نوجواں تیرے ہیں سوز آرزو سے سینہ تاب

*

یہ محبت کی حرارت ، یہ تمنا ، یہ نمود

فصل گل میں پھول رہ سکتے نہیں زیر حجاب

*

نغمہ ہائے شوق سے تیری فضا معمور ہے

زخمہ ور کا منتظر تھا تیری فطرت کا رباب

*

فیض یہ کس کی نظر کا ہے ، کرامت کس کی ہے؟

وہ کہ ہے حس کی نگہ مثل شعاع آفتاب!

***

۱۶۷

سوال

اک مفلس خود دار یہ کہتا تھا خدا سے

میں کر نہیں سکتا گلۂ درد فقیری

*

لیکن یہ بتا ، تیری اجازت سے فرشتے

کرتے ہیں عطا مرد فرومایہ کو میری ؟

***

۱۶۸

پنجاب کے دہقان سے

بتا کیا تری زندگی کا ہے راز

ہزاروں برس سے ہے تو خاک باز

*

اسی خاک میں دب گئی تیری آگ

سحر کی اذاں ہو گئی ، اب تو جاگ!

*

زمیں میں ہے گو خاکیوں کی برات

نہیں اس اندھیرے میں آب حیات

*

زمانے میں جھوٹا ہے اس کا نگیں

جو اپنی خودی کو پرکھتا نہیں

*

بتان شعوب و قبائل کو توڑ

رسوم کہن کے سلاسل کو توڑ

*

یہی دین محکم ، یہی فتح باب

کہ دنیا میں توحید ہو بے حجاب

*

بخاک بدن دانۂ دل فشاں

کہ ایں دانہ داردز حاصل نشاں

***

۱۶۹

نادر شاہ افغان

حضور حق سے چلا لے کے لولوئے لالا

وہ ابر جس سے رگ گل ہے مثل تار نفس

*

بہشت راہ میں دیکھا تو ہو گیا بیتاب

عجب مقام ہے ، جی چاہتا ہے جاؤں برس

*

صدا بہشت سے آئی کہ منتظر ہے ترا

ہرات و کابل و غزنی کا سبزۂ نورس

*

سرشک دیدۂ نادر بہ داغ لالہ فشاں

چناں کہ آتش او را دگر فرونہ نشاں!

****

۱۷۰

خوشحال خاں کی وصیت

قبائل ہوں ملت کی وحدت میں گم

کہ ہو نام افغانیوں کا بلند

*

محبت مجھے ان جوانوں سے ہے

ستاروں پہ جو ڈالتے ہیں کمند

*

مغل سے کسی طرح کمتر نہیں

قہستاں کا یہ بچۂ ارجمند

*

کہوں تجھ سے اے ہم نشیں دل کی بات

وہ مدفن ہے خوشحال خاں کو پسند

*

اڑا کر نہ لائے جہاں باد کوہ

مغل شہسواروں کی گرد سمند!

***

____________________

خوشحال خاں خٹک پشتوزبان کا مشہور وطن دوست شاعر تھا جس نے افغانستان کو مغلوں سے آزادکرانے کے لیے سرحد کے افغانی قبائل کی ایک جمعیت قائم کی -قبائل میں صرف آفریدیوں نے آخردم تک اس کا ساتھ دیا- اس کی قریباً ایک سو نظموں کا انگریزی ترجمہ ۱۸۶۲ء میں لندن میں شائع ہوا تھا

۱۷۱

تاتاری کا خواب

کہیں سجادہ و عمامہ رہزن

کہیں ترسا بچوں کی چشم بے باک!

*

ردائے دین و ملت پارہ پارہ

قبائے ملک و دولت چاک در چاک!

*

مرا ایماں تو ہے باقی ولیکن

نہ کھا جائے کہیں شعلے کو خاشاک!

*

ہوائے تند کی موجوں میں محصور

سمرقند و بخارا کی کف خاک!

*

"بگرداگرد خود چندانکہ بینم

بلا انگشتری و من نگینم "

*

یکایک ہل گئی خاک سمرقند

اٹھا تیمور کی تربت سے اک نور

*

شفق آمیز تھی اس کی سفیدی

صدا آئی کہ ""میں ہوں روح تیمور

*

۱۷۲

اگر محصور ہیں مردان تاتار

نہیں اللہ کی تقدیر محصور

*

تقاضا زندگی کا کیا یہی ہے

کہ تورانی ہو تورانی سے مہجور؟

*

"خودی را سوز و تابے دیگرے دہ

جہاں را انقلابے دیگرے دہ""

***

____________________

یہ شعر معلوم نہیں کس کا ہے ، نصیر الدین طوسی نے غالب" شرح اشارات "میں اسے نقل کیا ہے۔

۱۷۳

حال و مقام

دل زندہ و بیدار اگر ہو تو بتدریج

بندے کو عطا کرتے ہیں چشم نگراں اور

*

احوال و مقامات پہ موقوف ہے سب کچھ

ہر لحظہ ہے سالک کا زماں اور مکاں اور

*

الفاظ و معانی میں تفاوت نہیں لیکن

ملا کی اذاں اور مجاہد کی اذاں اور

*

پرواز ہے دونوں کی اسی ایک فضا میں

کرگس کا جہاں اور ہے ، شاہیں کا جہاں اور

***

۱۷۴

ابوالعلامعری

کہتے ہیں کبھی گوشت نہ کھاتا تھا معری

پھل پھول پہ کرتا تھا ہمیشہ گزر اوقات

*

اک دوست نے بھونا ہوا تیتر اسے بھیجا

شاید کہ وہ شاطر اسی ترکیب سے ہو مات

*

یہ خوان تر و تازہ معری نے جو دیکھا

کہنے لگا وہ صاحب غفران و لزومات

*

اے مرغک بیچارہ! ذرا یہ تو بتا تو

تیرا وہ گنہ کیا تھا یہ ہے جس کی مکافات؟

*

افسوس ، صد افسوس کہ شاہیں نہ بنا تو

دیکھے نہ تری آنکھ نے فطرت کے اشارات

*

تقدیر کے قاضی کا یہ فتوی ہے ازل سے

ہے جرم ضعیفی کی سزا مرگ مفاجات!

***

__________________

عفران- رسالۃ الغفران ، معری کی ایک مشہور کتاب کا نام ہے

لزومات - اس کے قصائد کا مجموعہ ہے

۱۷۵

سنیما

وہی بت فروشی ، وہی بت گری ہے

سنیما ہے یا صنعت آزری ہے

*

وہ صنعت نہ تھی ، شیوۂ کافری تھا

یہ صنعت نہیں ، شیوۂ ساحری ہے

*

وہ مذہب تھا اقوام عہد کہن کا

یہ تہذیب حاضر کی سوداگری ہے

*

وہ دنیا کی مٹی ، یہ دوزخ کی مٹی

وہ بت خانہ خاکی ، یہ خاکستری ہے

***

۱۷۶

پنجاب کے پیرزادوں سے

حاضر ہوا میں شیخ مجدد کی لحد پر

وہ خاک کہ ہے زیر فلک مطلع انوار

*

اس خاک کے ذروں سے ہیں شرمندہ ستارے

اس خاک میں پوشیدہ ہے وہ صاحب اسرار

*

گردن نہ جھکی جس کی جہانگیر کے آگے

جس کے نفس گرم سے ہے گرمی احرار

*

وہ ہند میں سرمایۂ ملت کا نگہباں

اللہ نے بر وقت کیا جس کو خبردار

*

کی عرض یہ میں نے کہ عطا فقر ہو مجھ کو

آنکھیں مری بینا ہیں ، و لیکن نہیں بیدار!

*

آئی یہ صدا سلسلۂ فقر ہوا بند

ہیں اہل نظر کشور پنجاب سے بیزار

*

عارف کا ٹھکانا نہیں وہ خطہ کہ جس میں

پیدا کلہ فقر سے ہو طرۂ دستار

*

باقی کلہ فقر سے تھا ولولۂ حق

طروں نے چڑھایا نشۂ "خدمت سرکار"!

***

۱۷۷

سیاست

اس کھیل میں تعیین مراتب ہے ضروری

شاطر کی عنایت سے تو فرزیں ، میں پیادہ

*

بیچارہ پیادہ تو ہے اک مہرۂ ناچیز

فرزیں سے بھی پوشیدہ ہے شاطر کا ارادہ!

***

فقر

اک فقر سکھاتا ہے صیّاد کو نخچیری

اک فقر سے کھلتے ہیں اسرار جہاں گیری

*

اک فقر سے قوموں میں مسکینی و دلگیری

اک فقر سے مٹی میں خاصیت اکسیری

*

اک فقر ہے شبیری ، اس فقر میں ہے میری

میراث مسلمانی ، سرمایۂ شبیری!

***

۱۷۸

خودی

خودی کو نہ دے سیم و زر کے عوض

نہیں شعلہ دیتے شرر کے عوض

*

یہ کہتا ہے فردوسی دیدہ ور

عجم جس کے سرمے سے روشن بصر

*

""ز بہر درم تند و بدخو مباش

تو باید کہ باشی ، درم گو مباش""

***

جدائی

سورج بنتا ہے تار زر سے

دنیا کے لیے ردائے نوری

*

عالم ہے خموش و مست گویا

ہر شے کو نصیب ہے حضوری

*

دریا ، کہسار ، چاند تارے

کیا جانیں فراق و ناصبوری

*

شایاں ہے مجھے غم جدائی

یہ خاک ہے محرم جدائی

***

۱۷۹

خانقاہ

رمز و ایما اس زمانے کے لیے موزوں نہیں

اور آتا بھی نہیں مجھ کو سخن سازی کا فن

*

"قم باذن اللہ" کہہ سکتے تھے جو ، رخصت ہوئے

خانقاہوں میں مجاور رہ گئے یا گورکن!

***

ابلیس.کی.عرضداشت

کہتا تھا عزازیل خداوند جہاں سے

پرکالۂ آتش ہوئی آدم کی کف خاک!

*

جاں لاغر و تن فربہ و ملبوس بدن زیب

دل نزع کی حالت میں ، خرد پختہ و چالاک!

*

ناپاک جسے کہتی تھی مشرق کی شریعت

مغرب کے فقیہوں کا یہ فتوی ہے کہ ہے پاک!

*

تجھ کو نہیں معلوم کہ حوران بہشتی

ویرانی جنت کے تصور سے ہیں غم ناک؟

*

جمہور کے ابلیس ہیں ارباب سیاست

باقی نہیں اب میری ضرورت تہ افلاک!

***

۱۸۰