با ل جبر یل

با ل جبر یل0%

با ل جبر یل مؤلف:
زمرہ جات: شعری مجموعے
صفحے: 199

با ل جبر یل

مؤلف: علامہ ڈاکٹرمحمد اقبال لاہوری
زمرہ جات:

صفحے: 199
مشاہدے: 75939
ڈاؤنلوڈ: 1492

تبصرے:

با ل جبر یل
کتاب کے اندر تلاش کریں
  • ابتداء
  • پچھلا
  • 199 /
  • اگلا
  • آخر
  •  
  • ڈاؤنلوڈ HTML
  • ڈاؤنلوڈ Word
  • ڈاؤنلوڈ PDF
  • مشاہدے: 75939 / ڈاؤنلوڈ: 1492
سائز سائز سائز
با ل جبر یل

با ل جبر یل

مؤلف:
اردو

حصہ دوم

ا علیٰ حضرت شہید امیرالمومنین نادر شاہ غازی رحمۃ اللہ علیہ کے لطف و کرم سے نومبر۱۹۳۳ء میں مصنف کو حکیم سنائی غزنوی رحمۃ اللہ علیہ کے مزار مقدس کی زیارت نصیب ہوئی

- یہ چند افکار پریشاں جن میں حکیم ہی کے ایک مشہور قصیدے کی پیروی کی گئی ہے ، اس روز سعید کی یادگار میں سپرد قلم کیے گئے-:ما از پے سنائی و عطار آمدیم"

سما سکتا نہیں پہنائے فطرت میں مرا سودا

سما سکتا نہیں پہنائے فطرت میں مرا سودا

غلط تھا اے جنوں شاید ترا اندازہ صحرا

*

خودی سے اس طلسم رنگ و بو کو توڑ سکتے ہیں

یہی توحید تھی جس کو نہ تو سمجھا نہ میں سمجھا

*

نگہ پیدا کر اے غافل تجلی عین فطرت ہے

کہ اپنی موج سے بیگانہ رہ سکتا نہیں دریا

*

رقابت علم و عرفاں میں غلط بینی ہے منبر کی

کہ وہ حلاج کی سولی کو سمجھا ہے رقیب اپنا

*

خدا کے پاک بندوں کو حکومت میں ، غلامی میں

زرہ کوئی اگر محفوظ رکھتی ہے تو استغنا

۲۱

*

نہ کر تقلید اے جبریل میرے جذب و مستی کی

تن آساں عرشیوں کو ذکر و تسبیح و طواف اولی!

بہت دیکھے ہیں میں نے مشرق و مغرب کے میخانے

یہاں ساقی نہیں پیدا ، وہاں بے ذوق ہے صہبا

*

نہ ایراں میں رہے باقی ، نہ توراں میں رہے باقی

وہ بندے فقر تھا جن کا ہلاک قیصر و کسری

*

یہی شیخ حرم ہے جو چرا کر بیچ کھاتا ہے

گلیم بوذر و دلق اویس و چادر زہرا!

*

حضور حق میں اسرافیل نے میری شکایت کی

یہ بندہ وقت سے پہلے قیامت کر نہ دے برپا

*

ندا آئی کہ آشوب قیامت سے یہ کیا کم ہے

"گرفتہ چینیاں احرام و مکی خفتہ در بطحا۱ "!

*

لبالب شیشہ تہذیب حاضر ہے مے "ل" سے

مگر ساقی کے ہاتھوں میں نہیں پیمانہ "ال"

*

دبا رکھا ہے اس کو زخمہ ور کی تیز دستی نے

بہت نیچے سروں میں ہے ابھی یورپ کا واویلا

۲۲

*

اسی دریا سے اٹھتی ہے وہ موج تند جولاں بھی

نہنگوں کے نشیمن جس سے ہوتے ہیں تہ و بالا

*

غلامی کیا ہے ؟ ذوق حسن و زیبائی سے محرومی

جسے زیبا کہیں آزاد بندے ، ہے وہی زیبا

بھروسا کر نہیں سکتے غلاموں کی بصیرت پر

کہ دنیا میں فقط مردان حر کی آنکھ ہے بینا

*

وہی ہے صاحب امروز جس نے اپنی ہمت سے

زمانے کے سمندر سے نکالا گوہر فردا

*

فرنگی شیشہ گر کے فن سے پتھر ہو گئے پانی

مری اکسیر نے شیشے کو بخشی سختی خارا

*

رہے ہیں ، اور ہیں فرعون میری گھات میں اب تک

مگر کیا غم کہ میری آستیں میں ہے ید بیضا

*

وہ چنگاری خس و خاشاک سے کس طرح دب جائے

جسے حق نے کیا ہو نیستاں کے واسطے پیدا

*

محبت خویشتن بینی ، محبت خویشتن داری

محبت آستان قیصر و کسری سے بے پروا

۲۳

*

عجب کیا رمہ و پرویں مرے نخچیر ہو جائیں

"کہ برفتراک صاحب دولتے بستم سر خود ر"۲

*

وہ دانائے سبل ، ختم الرسل ، مولائے کل جس نے

غبار راہ کو بخشا فروغ وادی سینا

*

نگاہ عشق و مستی میں وہی اول ، وہی آخر

وہی قرآں ، وہی فرقاں ، وہی یسیں ، وہی طہ

سنائی کے ادب سے میں نے غواصی نہ کی ورنہ

ابھی اس بحر میں باقی ہیں لاکھوں لولوئے لالا

***

___________________

۱ یہ مصرع حکیم سنائی کا ہے

۲ یہ مصرع مرزا صائب کا ہے جس میں ایک لفظی تغیر کیا گیا

۲۴

غزلیں

مردں ، حق گوئی و بے باکی

مردں ، حق گوئی و بے باکی

کون غزل خواں ہے پرسوز و نشاط انگیز

*

اللہ کے شیروں کو آتی نیہ

اندیشہ دانا کو کرتا ہے جنوں آمیز

*

گو فقر بھی رکھتا ہے انداز ملوکانہ

نا پختہ ہے پرویزی بے سلطنت پرویز

*

اب حجرہ صوفی میں وہ فقر نہیں باقی

خون دل شیراں ہو جس فقر کی دستاویز

*

اے حلقہ درویشاں! وہ مرد خدا کیسا

ہو جس کے گریباں میں ہنگامہ رستا خیز

*

جو ذکر کی گرمی سے شعلے کی طرح روشن

جو فکر کی سرعت میں بجلی سے زیادہ تیز!

*

کرتی ہے ملوکیت آثار جنوں پیدا

اللہ کے نشتر ہیں تیمور ہو یا چنگیز

*

یوں داد سخن مجھ کو دیتے ہیں عراق و پارس

یہ کافر ہندی ہے بے تیغ و سناں خوں ریز

***

۲۵

وہ حرف راز کہ مجھ کو سکھا گیا ہے جنوں

خدا مجھے نفس جبرئیل دے تو کہوں

*

ستارہ کیا مری تقدیر کی خبر دے گا

وہ خود فراخی افلاک میں ہے خوار و زبوں

*

حیات کیا ہے ، خیال و نظر کی مجذوبی

خودی کی موت ہے اندیشہ ہائے گونا گوں

*

عجب مزا ہے ، مجھے لذت خودی دے کر

وہ چاہتے ہیں کہ میں اپنے آپ میں نہ رہوں

*

ضمیر پاک و نگاہ بلند و مستی شوق

نہ مال و دولت قاروں ، نہ فکر افلاطوں

*

سبق ملا ہے یہ معراج مصطفی سے مجھے

کہ عالم بشریت کی زد میں ہے گردوں

*

یہ کائنات ابھی ناتمام ہے شاید

کہ آ رہی ہے دما دم صدائے "کن فیکوں"

*

علاج آتش رومی کے سوز میں ہے ترا

تری خرد پہ ہے غالب فرنگیوں کا فسوں

*

اسی کے فیض سے میری نگاہ ہے روشن

اسی کے فیض سے میرے سبو میں ہے جیحوں

***

۲۶

عالم آب و خاک و باد! سر عیاں ہے تو کہ میں

عالم آب و خاک و باد! سر عیاں ہے تو کہ میں

وہ جو نظر سے ہے نہاں ، اس کا جہاں ہے تو کہ میں

*

وہ شب درد و سوز و غم ، کہتے ہیں زندگی جسے

اس کی سحر ہے تو کہ میں ، اس کی اذاں ہے تو کہ میں

*

کس کی نمود کے لیے شام و سحر ہیں گرم سیر

شانہ روزگار پر بار گراں ہے تو کہ میں

*

تو کف خاک و بے بصر ، میں کف خاک و خود نگر

کشت وجود کے لیے آب رواں ہے تو کہ میں

***

۲۷

لندن.میں.لکھےگئے

تو ابھی رہ گزر میں ہے ، قید مقام سے گزر

مصر و حجاز سے گزر ، پارس و شام سے گزر

*

جس کا عمل ہے بے غرض ، اس کی جزا کچھ اور ہے

حور و خیام سے گزر ، بادہ و جام سے گزر

*

گرچہ ہے دلکشا بہت حسن فرنگ کی بہار

طائرک بلند بال ، دانہ و دام سے گزر

*

کوہ شگاف تیری ضرب ، تجھ سے کشاد شرق و غرب

تیغ ہلال کی طرح عیش نیام سے گزر

*

تیرا امام بے حضور ، تیری نماز بے سرور

ایسی نماز سے گزر ، ایسے امام سے گزر!

***

۲۸

امین راز ہے مردان حر کی درویشی

امین راز ہے مردان حر کی درویشی

کہ جبرئیل سے ہے اس کو نسبت خویشی

*

کسے خبر کہ سفینے ڈبو چکی کتنے

فقیہ و صوفی و شاعر کی نا خوش اندیشی

*

نگاہ گرم کہ شیروں کے جس سے ہوش اڑ جائیں

نہ آہ سرد کہ ہے گوسفندی و میشی

*

طبیب عشق نے دیکھا مجھے تو فرمایا

ترا مرض ہے فقط آرزو کی بے نیشی

*

وہ شے کچھ اور ہے کہتے ہیں جان پاک جسے

یہ رنگ و نم ، یہ لہو ، آب و ناں کی ہے بیشی

***

۲۹

پھر چراغ لالہ سے روشن ہوئے کوہ و دمن

مجھ کو پھر نغموں پہ اکسانے لگا مرغ چمن

*

پھول ہیں صحرا میں یا پریاں قطار اندر قطار

اودے اودے ، نیلے نیلے ، پیلے پیلے پیرہن

*

برگ گل پر رکھ گئی شبنم کا موتی باد صبح

اور چمکاتی ہے اس موتی کو سورج کی کرن

*

حسن بے پروا کو اپنی بے نقابی کے لیے

ہوں اگر شہروں سے بن پیارے تو شہر اچھے کہ بن

*

اپنے من میں ڈوب کر پا جا سراغ زندگی

تو اگر میرا نہیں بنتا نہ بن ، اپنا تو بن

*

من کی دنیا ! من کی دنیا سوز و مستی ، جذب و شوق

تن کی دنیا! تن کی دنیا سود و سودا ، مکر و فن

*

من کی دولت ہاتھ آتی ہے تو پھر جاتی نہیں

تن کی دولت چھاؤں ہے ، آتا ہے دھن جاتا ہے دھن

*

من کی دنیا میں نہ پایا میں نے افرنگی کا راج

من کی دنیا میں نہ دیکھے میں نے شیخ و برہمن

*

پانی پانی کر گئی مجھ کو قلندر کی یہ بات

تو جھکا جب غیر کے آگے ، نہ من تیرا نہ تن

***

۳۰

کابل.میں.لکھےگئے

مسلماں کے لہو میں ہے سلیقہ دل نوازی کا

مروت حسن عالم گیر ہے مردان غازی کا

*

شکایت ہے مجھے یا رب! خداوندان مکتب سے

سبق شاہیں بچوں کو دے رہے ہیں خاکبازی کا

*

بہت مدت کے نخچیروں کا انداز نگہ بدلا

کہ میں نے فاش کر ڈالا طریقہ شاہبازی کا

*

قلندر جز دو حرف لا الہ کچھ بھی نہیں رکھتا

فقیہ شہر قاروں ہے لغت ہائے حجازی کا

*

حدیث بادہ و مینا و جام آتی نہیں مجھ کو

نہ کر خارا شگافوں سے تقاضا شیشہ سازی کا

*

کہاں سے تو نے اے اقبال سیکھی ہے یہ درویشی

کہ چرچا پادشاہوں میں ہے تیری بے نیازی کا

***

۳۱

عشق سے پیدا نوائے زندگی میں زیر و بم

عشق سے پیدا نوائے زندگی میں زیر و بم

عشق سے مٹی کی تصویروں میں سوز دم بہ دم

*

آدمی کے ریشے ریشے میں سما جاتا ہے عشق

شاخ گل میں جس طرح باد سحر گاہی کا نم

*

اپنے رازق کو نہ پہچانے تو محتاج ملوک

اور پہچانے تو ہیں تیرے گدا دارا و جم

*

دل کی آزادی شہنشاہی ، شکم سامان موت

فیصلہ تیرا ترے ہاتھوں میں ہے ، دل یا شکم!

*

اے مسلماں! اپنے دل سے پوچھ ، ملا سے نہ پوچھ

ہو گیا اللہ کے بندوں سے کیوں خالی حرم

***

۳۲

دل سوز سے خالی ہے ، نگہ پاک نہیں ہے

دل سوز سے خالی ہے ، نگہ پاک نہیں ہے

پھر اس میں عجب کیا کہ تو بے باک نہیں ہے

*

ہے ذوق تجلی بھی اسی خاک میں پنہاں

غافل! تو نرا صاحب ادراک نہیں ہے

*

وہ آنکھ کہ ہے سرم ہ افرنگ سے روشن

پرکار و سخن ساز ہے ، نم ناک نہیں ہے

*

کیا صوفی و ملا کو خبر میرے جنوں کی

ان کا سر دامن بھی ابھی چاک نہیں ہے

*

کب تک رہے محکومی انجم میں مری خاک

یا میں نہیں ، یا گردش افلاک نہیں ہے

*

بجلی ہوں ، نظر کوہ و بیاباں پہ ہے مری

میرے لیے شایاں خس و خاشاک نہیں ہے

*

عالم ہے فقط مومن جاں باز کی میراث

مومن نہیں جو صاحب لولاک نہیں ہے!

***

۳۳

ہزار خوف ہو لیکن زباں ہو دل کی رفیق

ہزار خوف ہو لیکن زباں ہو دل کی رفیق

یہی رہا ہے ازل سے قلندروں کا طریق

*

ہجوم کیوں ہے زیادہ شراب خانے میں

فقط یہ بات کہ پیر مغاں ہے مرد خلیق

*

علاج ضعف یقیں ان سے ہو نہیں سکتا

غریب اگرچہ ہیں رازی کے نکتہ ہائے دقیق

*

مرید سادہ تو رو رو کے ہو گیا تائب

خدا کرے کہ ملے شیخ کو بھی یہ توفیق

*

اسی طلسم کہن میں اسیر ہے آدم

بغل میں اس کی ہیں اب تک بتان عہد عتیق

*

مرے لیے تو ہے اقرار باللساں بھی بہت

ہزار شکر کہ ملا ہیں صاحب تصدیق

*

اگر ہو عشق تو ہے کفر بھی مسلمانی

نہ ہو تو مرد مسلماں بھی کافر و زندیق

***

۳۴

پوچھ اس سے کہ مقبول ہے فطرت کی گواہی

پوچھ اس سے کہ مقبول ہے فطرت کی گواہی

تو صاحب منزل ہے کہ بھٹکا ہوا راہی

*

کافر ہے مسلماں تو نہ شاہی نہ فقیری

مومن ہے تو کرتا ہے فقیری میں بھی شاہی

*

کافر ہے تو شمشیر پہ کرتا ہے بھروسا

مومن ہے تو بے تیغ بھی لڑتا ہے سپاہی

*

کافر ہے تو ہے تابع تقدیر مسلماں

مومن ہے تو وہ آپ ہے تقدیر الہی

*

میں نے تو کیا پردۂ اسرار کو بھی چاک

دیرینہ ہے تیرا مرض کور نگاہی

***

۳۵

قرطبہ.میں.لکھےگئے

یہ حوریان فرنگی ، دل و نظر کا حجاب

بہشت مغربیاں ، جلوہ ہائے پا بہ رکاب

*

دل و نظر کا سفینہ سنبھال کر لے جا

مہ و ستارہ ہیں بحر وجود میں گرداب

*

جہان صوت و صدا میں سما نہیں سکتی

لطیفہ ازلی ہے فغان چنگ و رباب

*

سکھا دیے ہیں اسے شیوہ ہائے خانقہی

فقیہ شہر کو صوفی نے کر دیا ہے خراب

*

وہ سجدہ ، روح زمیں جس سے کانپ جاتی تھی

اسی کو آج ترستے ہیں منبر و محراب

*

سنی نہ مصر و فلسطیں میں وہ اذاں میں نے

دیا تھا جس نے پہاڑوں کو رعشہ سیماب

*

ہوائے قرطبہ! شاید یہ ہے اثر تیرا

مری نوا میں ہے سوز و سرور عہد شباب

***

۳۶

دل بیدار فاروقی ، دل بیدار کراری

دل بیدار فاروقی ، دل بیدار کراری

مس آدم کے حق میں کیمیا ہے دل کی بیداری

*

دل بیدار پیدا کر کہ دل خوابیدہ ہے جب تک

نہ تیری ضرب ہے کاری ، نہ میری ضرب ہے کاری

*

مشام تیز سے ملتا ہے صحرا میں نشاں اس کا

ظن و تخمیں سے ہاتھ آتا نہیں آہوئے تاتاری

*

اس اندیشے سے ضبط آہ میں کرتا رہوں کب تک

کہ مغ زادے نہ لے جائیں تری قسمت کی چنگاری

*

خداوندا یہ تیرے سادہ دل بندے کدھر جائیں

کہ درویشی بھی عیاری ہے ، سلطانی بھی عیاری

*

مجھے تہذیب حاضر نے عطا کی ہے وہ آزادی

کہ ظاہر میں تو آزادی ہے ، باطن میں گرفتاری

*

تو اے مولائے یثرب! آپ میری چارہ سازی کر

مری دانش ہے افرنگی ، مرا ایماں ہے زناری

***

۳۷

خودی کی شوخی و تندی میں کبر و ناز نہیں

خودی کی شوخی و تندی میں کبر و ناز نہیں

جو ناز ہو بھی تو بے لذت نیاز نہیں

*

نگاہ عشق دل زندہ کی تلاش میں ہے

شکار مردہ سزاوار شاہباز نہیں

*

مری نوا میں نہیں ہے ادائے محبوبی

کہ بانگ صور سرافیل دل نواز نہیں

*

سوال مے نہ کروں ساقی فرنگ سے میں

کہ یہ طریقہ رندان پاک باز نہیں

*

ہوئی نہ عام جہاں میں کبھی حکومت عشق

سبب یہ ہے کہ محبت زمانہ ساز نہیں

*

اک اضطراب مسلسل ، غیاب ہو کہ حضور

میں خود کہوں تو مری داستاں دراز نہیں

*

اگر ہو ذوق تو خلوت میں پڑھ زبور عجم

فغان نیم شبی بے نوائے راز نہیں

***

۳۸

میر سپاہ ناسزا ، لشکریاں شکستہ صف

میر سپاہ ناسزا ، لشکریاں شکستہ صف

آہ! وہ تیر نیم کش جس کا نہ ہو کوئی ہدف

*

تیرے محیط میں کہیں گوہر زندگی نہیں

ڈھونڈ چکا میں موج موج ، دیکھ چکا صدف صدف

*

عشق بتاں سے ہاتھ اٹھا ، اپنی خودی میں ڈوب جا

نقش و نگار دیر میں خون جگر نہ کر تلف

*

کھول کے کیا بیاں کروں سر مقام مرگ و عشق

عشق ہے مرگ با شرف ، مرگ حیات بے شرف

*

صحبت پیر روم سے مجھ پہ ہوا یہ راز فاش

لاکھ حکیم سر بجیب ، ایک کلیم سر بکف

*

مثل کلیم ہو اگر معرکہ آزما کوئی

اب بھی درخت طور سے آتی ہے بانگ" لا تخف

*

خیرہ نہ کر سکا مجھے جلوہ دانش فرنگ

سرمہ ہے میری آنکھ کا خاک مدینہ و نجف

***

۳۹

یورپ.میں.لکھےگئے

زمستانی ہوا میں گرچہ تھی شمشیر کی تیزی

نہ چھوٹے مجھ سے لندن میں بھی آداب سحر خیزی

*

کہیں سرمایہ محفل تھی میری گرم گفتاری

کہیں سب کو پریشاں کر گئی میری کم آمیزی

*

زمام کار اگر مزدور کے ہاتھوں میں ہو پھر کیا!

طریق کوہکن میں بھی وہی حیلے ہیں پرویزی

*

جلال پادشاہی ہو کہ جمہوری تماشا ہو

جدا ہو دیں سیاست سے تو رہ جاتی ہے چنگیزی

*

سواد رومة الکبریٰ میں دلی یاد آتی ہے

وہی عبرت ، وہی عظمت ، وہی شان دل آویزی

***

۴۰