با ل جبر یل

با ل جبر یل0%

با ل جبر یل مؤلف:
زمرہ جات: شعری مجموعے
صفحے: 199

با ل جبر یل

مؤلف: علامہ ڈاکٹرمحمد اقبال لاہوری
زمرہ جات:

صفحے: 199
مشاہدے: 75910
ڈاؤنلوڈ: 1489

تبصرے:

با ل جبر یل
کتاب کے اندر تلاش کریں
  • ابتداء
  • پچھلا
  • 199 /
  • اگلا
  • آخر
  •  
  • ڈاؤنلوڈ HTML
  • ڈاؤنلوڈ Word
  • ڈاؤنلوڈ PDF
  • مشاہدے: 75910 / ڈاؤنلوڈ: 1489
سائز سائز سائز
با ل جبر یل

با ل جبر یل

مؤلف:
اردو

یہ پیران کلیسا و حرم ، اے وائے مجبوری!

یہ پیران کلیسا و حرم ، اے وائے مجبوری!

صلہ ان کی کد و کاوش کا ہے سینوں کی بے نوری

*

یقیں پیدا کر اے ناداں! یقیں سے ہاتھ آتی ہے

وہ درویشی ، کہ جس کے سامنے جھکتی ہے فغفوری

*

کبھی حیرت ، کبھی مستی ، کبھی آہ سحرگاہی

بدلتا ہے ہزاروں رنگ میرا درد مہجوری

*

حد ادراک سے باہر ہیں باتیں عشق و مستی کی

سمجھ میں اس قدر آیا کہ دل کی موت ہے ، دوری

*

وہ اپنے حسن کی مستی سے ہیں مجبور پیدائی

مری آنکھوں کی بینائی میں ہیں اسباب مستوری

*

کوئی تقدیر کی منطق سمجھ سکتا نہیں ورنہ

نہ تھے ترکان عثمانی سے کم ترکان تیموری

*

فقیران حرم کے ہاتھ اقبال آگیا کیونکر

میسر میرو سلطاں کو نہیں شاہین کافوری

***

۶۱

تازہ پھر دانش حاضر نے کیا سحر قدیم

تازہ پھر دانش حاضر نے کیا سحر قدیم

گزر اس عہد میں ممکن نہیں بے چوب کلیم

*

عقل عیار ہے ، سو بھیس بنا لیتی ہے

عشق بے چارہ نہ ملا ہے نہ زاہد نہ حکیم!

*

عیش منزل ہے غریبان محبت پہ حرام

سب مسافر ہیں ، بظاہر نظر آتے ہیں مقیم

*

ہے گراں سیر غم راحلہ و زاد سے تو

کوہ و دریا سے گزر سکتے ہیں مانند نسیم

*

مرد درویش کا سرمایہ ہے آزادی و مرگ

ہے کسی اور کی خاطر یہ نصاب زر و سیم

***

۶۲

فرانس.میں.لکھےگئے

ڈھونڈ رہا ہے فرنگ عیش جہاں کا دوام

وائے تمنائے خام ، وائے تمنائے خام!

*

پیر حرم نے کہا سن کے مری روئداد

پختہ ہے تیری فغاں ، اب نہ اسے دل میں تھام

*

تھا ارنی گو کلیم ، میں ارنی گو نہیں

اس کو تقاضا روا ، مجھ پہ تقاضا حرام

*

گرچہ ہے افشائے راز ، اہل نظر کی فغاں

ہو نہیں سکتا کبھی شیوہ رندانہ عام

*

حلقہ صوفی میں ذکر ، بے نم و بے سوز و ساز

میں بھی رہا تشنہ کام ، تو بھی رہا تشنہ کام

*

عشق تری انتہا ، عشق مری انتہا

تو بھی ابھی ناتمام ، میں بھی ابھی ناتمام

*

آہ کہ کھویا گیا تجھ سے فقیری کا راز

ورنہ ہے مال فقیر سلطنت روم و شام

***

۶۳

خودی ہو علم سے محکم تو غیرت جبریل

خودی ہو علم سے محکم تو غیرت جبریل

اگر ہو عشق سے محکم تو صور اسرافیل

*

عذاب دانش حاضر سے باخبر ہوں میں

کہ میں اس آگ میں ڈالا گیا ہوں مثل خلیل

*

فریب خوردہ منزل ہے کارواں ورنہ

زیادہ راحت منزل سے ہے نشاط رحیل

*

نظر نہیں تو مرے حلقہ سخن میں نہ بیٹھ

کہ نکتہ ہائے خودی ہیں مثال تیغ اصیل

*

مجھے وہ درس فرنگ آج یاد آتے ہیں

کہاں حضور کی لذت ، کہاں حجاب دلیل!

*

اندھیری شب ہے ، جدا اپنے قافلے سے ہے تو

ترے لیے ہے مرا شعلہ نوا ، قندیل

*

غریب و سادہ و رنگیں ہے داستان حرم

نہایت اس کی حسین ، ابتدا ہے اسمعیل

***

۶۴

مکتبوں میں کہیں رعنائی افکار بھی ہے؟

مکتبوں میں کہیں رعنائی افکار بھی ہے؟

خانقاہوں میں کہیں لذت اسرار بھی ہے؟

*

منزل راہرواں دور بھی ، دشوار بھی ہے

کوئی اس قافلے میں قافلہ سالار بھی ہے؟

*

بڑھ کے خیبر سے ہے یہ معرکۂ دین و وطن

اس زمانے میں کوئی حیدر کرار بھی ہے؟

*

علم کی حد سے پرے ، بندۂ مومن کے لیے

لذت شوق بھی ہے ، نعمت دیدار بھی ہے

*

پیر میخانہ یہ کہتا ہے کہ ایوان فرنگ

سست بنیاد بھی ہے ، آئنہ دیوار بھی ہے!

***

۶۵

حادثہ وہ جو ابھی پردۂ افلاک میں ہے

حادثہ وہ جو ابھی پردۂ افلاک میں ہے

عکس اس کا مرے آئینۂ ادراک میں ہے

*

نہ ستارے میں ہے ، نے گردش افلاک میں ہے

تیری تقدیر مرے نالۂ بے باک میں ہے

*

یا مری آہ میں کوئی شرر زندہ نہیں

یا ذرا نم ابھی تیرے خس و خاشاک میں ہے

*

کیا عجب میری نوا ہائے سحر گاہی سے

زندہ ہو جائے وہ آتش کہ تری خاک میں ہے

*

توڑ ڈالے گی یہی خاک طلسم شب و روز

گرچہ الجھی ہوئی تقدیر کے پیچاک میں ہے

***

۶۶

رہا نہ حلقۂ صوفی میں سوز مشتاقی

رہا نہ حلقۂ صوفی میں سوز مشتاقی

فسانہ ہائے کرامات رہ گئے باقی

*

خراب کوشک سلطان و خانقاہ فقیر

فغاں کہ تخت و مصلیٰ کمال زراقی

*

کرے گی داور محشر کو شرمسار اک روز

کتاب صوفی و ملا کی سادہ اوراقی

*

نہ چینی و عربی وہ ، نہ رومی و شامی

سما سکا نہ دو عالم میں مرد آفاقی

*

مۓ شبانہ کی مستی تو ہو چکی ، لیکن

کھٹک رہا ہے دلوں میں کرشمۂ ساقی

*

چمن میں تلخ نوائی مری گوارا کر

کہ زہر بھی کبھی کرتا ہے کار تریاقی

*

عزیز تر ہے متاع امیر و سلطاں سے

وہ شعر جس میں ہو بجلی کا سوز و براقی

***

۶۷

ہوا نہ زور سے اس کے کوئی گریباں چاک

ہوا نہ زور سے اس کے کوئی گریباں چاک

اگرچہ مغربیوں کا جنوں بھی تھا چالاک

*

م ے یقیں سے ضمیر حیات ہے پرسوز

نصیب مدرسہ یا رب یہ آب آتش ناک

*

عروج آدم خاکی کے منتظر ہیں تمام

یہ کہکشاں ، یہ ستارے ، یہ نیلگوں افلاک

*

یہی زمانۂ حاضر کی کائنات ہے کیا

دماغ روشن و دل تیرہ و نگہ بے باک

*

تو بے بصر ہو تو یہ مانع نگاہ بھی ہے

وگرنہ آگ ہے مومن ، جہاں خس و خاشاک

*

زمانہ عقل کو سمجھا ہوا ہے مشعل راہ

کسے خبر کہ جنوں بھی ہے صاحب ادراک

*

جہاں تمام ہے میراث مرد مومن کی

میرے کلام پہ حجت ہے نکتۂ لولاک

***

۶۸

یوں ہاتھ نہیں آتا وہ گوہر یک دانہ

یوں ہاتھ نہیں آتا وہ گوہر یک دانہ

یک رنگی و آزادی اے ہمت مردانہ!

*

یا سنجر و طغرل کا آئین جہاں گیری

یا مرد قلندر کے انداز ملوکانہ!

*

یا حیرت فارابی یا تاب و تب رومی

یا فکر حکیمانہ یا جذب کلیمانہ!

*

یا عقل کی روباہی یا عشق ید اللہی

یا حیلۂ افرنگی یا حملۂ ترکانہ!

*

یا شرع مسلمانی یا دیر کی دربانی

یا نعرۂ مستانہ ، کعبہ ہو کہ بت خانہ!

*

میری میں فقیری میں ، شاہی میں غلامی میں

کچھ کام نہیں بنتا بے جرأت رندانہ

***

۶۹

نہ تخت و تاج میں ، نے لشکر و سپاہ میں ہے

نہ تخت و تاج میں ، نے لشکر و سپاہ میں ہے

جو بات مرد قلندر کی بارگاہ میں ہے

*

صنم کدہ ہے جہاں اور مرد حق ہے خلیل

یہ نکتہ وہ ہے کہ پوشیدہ لا الہ میں ہے

*

وہی جہاں ہے ترا جس کو تو کرے پیدا

یہ سنگ و خشت نہیں ، جو تری نگاہ میں ہے

*

مہ و ستارہ سے آگے مقام ہے جس کا

وہ مشت خاک ابھی آوارگان راہ میں ہے

*

خبر ملی ہے خدایان بحر و بر سے مجھے

فرنگ رہ گزر سیل بے پناہ میں ہے

*

تلاش اس کی فضاؤں میں کر نصیب اپنا

جہان تازہ مری آہ صبح گاہ میں ہے

*

مرے کدو کو غنیمت سمجھ کہ بادۂ ناب

نہ مدرسے میں ہے باقی نہ خانقاہ میں ہے

***

۷۰

فطرت نے نہ بخشا مجھے اندیشۂ چالاک

فطرت نے نہ بخشا مجھے اندیشۂ چالاک

رکھتی ہے مگر طاقت پرواز مری خاک

*

وہ خاک کہ ہے جس کا جنوں صیقل ادراک

وہ خاک کہ جبریل کی ہے جس سے قبا چاک

*

وہ خاک کہ پروائے نشیمن نہیں رکھتی

چنتی نہیں پہنائے چمن سے خس و خاشاک

*

اس خاک کو اللہ نے بخشے ہیں وہ آنسو

کرتی ہے چمک جن کی ستاروں کو عرق ناک

***

۷۱

کریں گے اہل نظر تازہ بستیاں آباد

کریں گے اہل نظر تازہ بستیاں آباد

مری نگاہ نہیں سوئے کوفہ و بغداد

*

یہ مدرسہ ، یہ جواں ، یہ سرور و رعنائی

انھی کے دم سے ہے میخانۂ فرنگ آباد

*

نہ فلسفی سے ، نہ ملا سے ہے غرض مجھ کو

یہ دل کی موت ، وہ اندیشۂ نظر کا فساد

*

فقیہ شہر کی تحقیر! کیا مجال مری

مگر یہ بات کہ میں ڈھونڈتا ہوں دل کی کشاد

*

خرید سکتے ہیں دنیا میں عشرت پرویز

خدا کی دین ہے سرمایۂ غم فرہاد

*

کیے ہیں فاش رموز قلندری میں نے

کہ فکر مدرسہ و خانقاہ ہو آزاد

*

رشی کے فاقوں سے ٹوٹا نہ برہمن کا طلسم

عصا نہ ہو تو کلیمی ہے کار بے بنیاد

***

۷۲

کی حق سے فرشتوں نے اقبال کی غمازی

گستاخ ہے ، کرتا ہے فطرت کی حنا بندی

*

خاکی ہے مگر اس کے انداز ہیں افلاکی

رومی ہے نہ شامی ہے ، کاشی نہ سمرقندی

*

سکھلائ فرشتوں کو آدم کی تڑپ اس نے

آدم کو سکھاتا ہے آداب خداوندی!

***

گرم فغاں ہے جرس ، اٹھ کہ گیا قافلہ

وائے وہ رہرو کہ ہے منتظر راحلہ!

*

تیری طبیعت ہے اور ، تیرا زمانہ ہے اور

تیرے موافق نہیں خانقہی سلسلہ

*

دل ہو غلام خرد یا کہ امام خرد

سالک رہ ، ہوشیار! سخت ہے یہ مرحلہ

*

اس کی خودی ہے ابھی شام و سحر میں اسیر

گردش دوراں کا ہے جس کی زباں پر گلہ

*

تیرے نفس سے ہوئی آتش گل تیز تر

مرغ چمن! ہے یہی تیری نوا کا صلہ

***

۷۳

مری نوا سے ہوئے زندہ عارف و عامی

مری نوا سے ہوئے زندہ عارف و عامی

دیا ہے میں نے انھیں ذوق آتش آشامی

*

حرم کے پاس کوئی اعجمی ہے زمزمہ سنج

کہ تار تار ہوئے جامہ ہائے احرامی

*

حقیقت ابدی ہے مقام شبیری

بدلتے رہتے ہیں انداز کوفی و شامی

*

مجھے یہ ڈر ہے مقامر ہیں پختہ کار بہت

نہ رنگ لائے کہیں تیرے ہاتھ کی خامی

*

عجب نہیں کہ مسلماں کو پھر عطا کر دیں

شکوہ سنجر و فقر جنید و بسطامی

*

قبائے علم و ہنر لطف خاص ہے ، ورنہ

تری نگاہ میں تھی میری ناخوش اندامی!

***

۷۴

ہر اک مقام سے آگے گزر گیا مہ نو

ہر اک مقام سے آگے گزر گیا مہ نو

کمال کس کو میسر ہ u وا ہے بے تگ و دو

*

نفس کے زور سے وہ غنچہ وا ہوا بھی تو کیا

جسے نصیب نہیں آفتاب کا پرتو

*

نگاہ پاک ہے تیری تو پاک ہے دل بھی

کہ دل کو حق نے کیا ہے نگاہ کا پیرو

*

پنپ سکا نہ خیاباں میں لالۂ دل سوز

کہ ساز گار نہیں یہ جہان گندم و جو

*

رہے نہ ایبک و غوری کے معرکے باقی

ہمیشہ تازہ و شیریں ہے نغمۂ خسرو

***

۷۵

کھو نہ جا اس سحروشام میں اے صاحب ہوش!

کھو نہ جا اس سحروشام میں اے صاحب ہوش!

اک جہاں اور بھی ہے جس میں نہ فردا ہے نہ دوش

*

کس کو معلوم ہے ہنگامۂ فردا کا مقام

مسجد و مکتب و میخانہ ہیں مدت سے خموش

*

میں نے پایا ہے اسے اشک سحر گاہی میں

جس در ناب سے خالی ہے صدف کی آغوش

*

نئی تہذیب تکلف کے سوا کچھ بھی نہیں

چہرہ روشن ہو تو کیا حاجت گلگونہ فروش!

*

صاحب ساز کو لازم ہے کہ غافل نہ رہے

گاہے گاہے غلط آہنگ بھی ہوتا ہے سروش

***

۷۶

تھا جہاں مدرسۂ شیری و شاہنشاہی

تھا جہاں مدرسۂ شیری و شاہنشاہی

آج ان خانقہوں میں ہے فقط روباہی

*

نظر آئی نہ مجھے قافلہ سالاروں میں

وہ شبانی کہ ہے تمہید کلیم اللہی

*

لذت نغمہ کہاں مرغ خوش الحاں کے لیے

آہ ، اس باغ میں کرتا ہے نفس کوتاہی

*

ایک سرمستی و حیرت ہے سراپا تاریک

ایک سرمستی و حیرت ہے تمام آگاہی

*

صفت برق چمکتا ہے مرا فکر بلند

کہ بھٹکتے نہ پھریں ظلمت شب میں راہی

***

۷۷

ہے یاد مجھے نکتۂ سلمان خوش آہنگ

ہے یاد مجھے نکتۂ سلمان خوش آہنگ

دنیا نہیں مردان جفاکش کے لیے تنگ

*

چیتے کا جگر چاہیے ، شاہیں کا تجسس

جی سکتے ہیں بے روشنی دانش و فرہنگ

*

کر بلبل و طاؤس کی تقلید سے توبہ

بلبل فقط آواز ہے ، طاؤس فقط رنگ!

***

__________________

سلمان: مسعود سور سلیمان -

غزنوی دور کا نامور ایرانی شاعر جو غالبا

ً لاہور میں پیدا ہوا –

۷۸

فقر کے ہیں معجزات تاج و سریر و سپاہ

فقر کے ہیں معجزات تاج و سریر و سپاہ

فقر ہے میروں کا میر ، فقر ہے شاہوں کا شاہ

*

علم کا مقصود ہے پاکی عقل و خرد

فقر کا مقصود ہے عفت قلب و نگاہ

*

علم فقیہ و حکیم ، فقر مسیح و کلیم

علم ہے جویائے راہ ، فقر ہے دانائے راہ

*

فقر مقام نظر ، علم مقام خبر

فقر میں مستی ثواب ، علم میں مستی گناہ

*

علم کا "موجود" اور ، فقر کا "موجود" اور

اشھد ان لا الہ" اشھد ان لا الہ!

*

چڑھتی ہے جب فقر کی سان پہ تیغ خودی

ایک سپاہی کی ضرب کرتی ہے کار سپاہ

*

دل اگر اس خاک میں زندہ و بیدار ہو

تیری نگہ توڑ دے آئنۂ مہر و ماہ

***

۷۹

کمال جوش جنوں میں رہا میں گرم طواف

کمال جوش جنوں میں رہا میں گرم طواف

خدا کا شکر ، سلامت رہا حرم کا غلاف

*

یہ اتفاق مبارک ہو مومنوں کے لیے

کہ یک زباں ہیں فقیہان شہر میرے خلاف

*

تڑپ رہا ہے فلاطوں میان غیب و حضور

ازل سے اہل خرد کا مقام ہے اعراف

*

ترے ضمیر پہ جب تک نہ ہو نزول کتاب

گرہ کشا ہے نہ رازی نہ صاحب کشاف

*

سرور و سوز میں ناپائدار ہے ، ورنہ

مۓ فرنگ کا تہ جرعہ بھی نہیں ناصاف

***

۸۰