با ل جبر یل

با ل جبر یل0%

با ل جبر یل مؤلف:
زمرہ جات: شعری مجموعے
صفحے: 199

با ل جبر یل

مؤلف: علامہ ڈاکٹرمحمد اقبال لاہوری
زمرہ جات:

صفحے: 199
مشاہدے: 77831
ڈاؤنلوڈ: 1641

تبصرے:

با ل جبر یل
کتاب کے اندر تلاش کریں
  • ابتداء
  • پچھلا
  • 199 /
  • اگلا
  • آخر
  •  
  • ڈاؤنلوڈ HTML
  • ڈاؤنلوڈ Word
  • ڈاؤنلوڈ PDF
  • مشاہدے: 77831 / ڈاؤنلوڈ: 1641
سائز سائز سائز
با ل جبر یل

با ل جبر یل

مؤلف:
اردو

شعور و ہوش و خرد کا معاملہ ہے عجیب

شعور و ہوش و خرد کا معاملہ ہے عجیب

مقام شوق میں ہیں سب دل و نظر کے رقیب

*

میں جانتا ہوں جماعت کا حشر کیا ہو گا

مسائل نظری میں الجھ گیا ہے خطیب

*

اگرچہ میرے نشیمن کا کر رہا ہے طواف

مری نوا میں نہیں طائر چمن کا نصیب

*

سنا ہے میں نے سخن رس ہے ترک عثمانی

سنائے کون اسے اقبال کا یہ شعر غریب

*

سمجھ رہے ہیں وہ یورپ کو ہم جوار اپنا

ستارے جن کے نشیمن سے ہیں زیادہ قریب!

***

۸۱

انداز بیاں گرچہ بہت شوخ نہیں ہے

انداز بیاں گرچہ بہت شوخ نہیں ہے

شاید کہ اتر جائے ترے دل میں مری بات

*

یا وسعت افلاک میں تکبیر مسلسل

یا خاک کے آغوش میں تسبیح و مناجات

*

وہ مذہب مردان خود آگاہ و خدا مست

یہ مذہب ملا و جمادات و نباتات

***

۸۲

قطعات

رہ و رسم حرم نا محرمانہ

کلیسا کی ادا سوداگرانہ

*

تبرک ہے مرا پیراہن چاک

نہیں اہل جنوں کا یہ زمانہ

***

ظلام بحر میں کھو کر سنبھل جا

تڑپ جا ، پیچ کھا کھا کر بدل جا

*

نہیں ساحل تری قسمت میں اے موج

ابھر کر جس طرف چاہے نکل جا!

***

مکانی ہوں کہ آزاد مکاں ہوں

جہاں بیں ہوں کہ خود سارا جہاں ہوں

*

وہ اپنی لامکانی میں رہیں مست

مجھے اتنا بتا دیں میں کہاں ہوں!

***

۸۳

خودی کی خلوتوں میں گم رہا میں

خدا کے سامنے گویا نہ تھا میں

*

نہ دیکھا آنکھ اٹھا کر جلوۂ دوست

قیامت میں تماشا بن گیا میں!

***

پریشاں کاروبار آشنائی

پریشاں تر مری رنگیں نوائی!

*

کبھی میں ڈھونڈتا ہوں لذت وصل

خوش آتا ہے کبھی سوز جدائی!

***

یقیں ، مثل خلیل آتش نشینی

یقیں ، اللہ مستی ، خود گزینی

*

سن ، اے تہذیب حاضر کے گرفتار

غلامی سے بتر ہے بے یقینی

***

۸۴

عرب کے سوز میں ساز عجم ہے

حرم کا راز توحید امم ہے

*

تہی وحدت سے ہے اندیشۂ غرب

کہ تہذیب فرنگی بے حرم ہے

***

کوئی دیکھے تو میری نے نوازی

نفس ہندی ، مقام نغمہ تازی

*

نگہ آلودۂ انداز افرنگ

طبیعت غزنوی ، قسمت ایازی!

***

ہر اک ذرے میں ہے شاید مکیں دل

اسی جلوت میں ہے خلوت نشیں دل

*

اسیر دوش و فردا ہے و لیکن

غلام گردش دوراں نہیں دل

***

۸۵

ترا اندیشہ افلاکی نہیں ہے

تری پرواز لولاکی نہیں ہے

*

یہ مانا اصل شاہینی ہے تیری

تری آنکھوں میں بے باکی نہیں ہے

***

نہ مومن ہے نہ مومن کی امیری

رہا صوفی ، گئی روشن ضمیری

*

خدا سے پھر وہی قلب و نظر مانگ

نہیں ممکن امیری بے فقیری

***

خودی کی جلوتوں میں مصطفائی

خودی کی خلوتوں میں کبریائی

*

زمین و آسمان و کرسی و عرش

خودی کی زد میں ہے ساری خدائی!

***

۸۶

نگہ الجھی ہوئی ہے رنگ و بو میں

خرد کھوئی گئی ہے چار سو میں

*

نہ چھوڑ اے دل فغان صبح گاہی

اماں شاید ملے ، اللہ ھو میں!

***

جمال عشق و مستی نے نوازی

جلال عشق و مستی بے نیازی

*

کمال عشق و مستی ظرف حیدر

زوال عشق و مستی حرف رازی

***

وہ میرا رونق محفل کہاں ہے

مری بجلی ، مرا حاصل کہاں ہے

*

مقام اس کا ہے دل کی خلوتوں میں

خدا جانے مقام دل کہاں ہے!

***

سوار ناقہ و محمل نہیں میں

نشان جادہ ہوں ، منزل نہیں میں

*مری تقدیر ہے خاشاک سوزی

فقط بجلی ہوں میں ، حاصل نہیں میں

***

۸۷

ترے سینے میں دم ہے ، دل نہیں ہے

ترا دم گرمی محفل نہیں ہے

*

گزر جا عقل سے آگے کہ یہ نور

چراغ راہ ہے ، منزل نہیں ہے

***

ترا جوہر ہے نوری ، پاک ہے تو

فروغ دیدۂ افلاک ہے تو

*

ترے صید زبوں افرشتہ و حور

کہ شاہین شہ لولاک ہے تو!

***

محبت کا جنوں باقی نہیں ہے

مسلمانوں میں خوں باقی نہیں ہے

*

صفیں کج ، دل پریشاں ، سجدہ بے ذوق

کہ جذب اندروں باقی نہیں ہے

***

خودی کے زور سے دنیا پہ چھا جا

مقام رنگ و بو کا راز پا جا

*

برنگ بحر ساحل آشنا رہ

کف ساحل سے دامن کھینچتا جا

***

۸۸

چمن میں رخت گل شبنم سے تر ہے

من ہے ، سبزہ ہے ، باد سحر ہے

*

مگر ہنگامہ ہو سکتا نہیں گرم

یہاں کا لالہ بے سوز جگر ہے

***

خرد سے راہرو روشن بصر ہے

خرد کیا ہے ، چراغ رہ گزر ہے

*

درون خانہ ہنگامے ہیں کیا کیا

چراغ رہ گزر کو کیا خبر ہے!

***

جوانوں کو مری آہ سحر دے

پھر ان شاہیں بچوں کو بال و پر دے

*

خدایا! آرزو میری یہی ہے

مرا نور بصیرت عام کر دے

***

۸۹

تری دنیا جہان مرغ و ماہی

مری دنیا فغان صبح گاہی

*

تری دنیا میں میں محکوم و مجبور

مری دنیا میں تیری پادشاہی!

***

کرم تیرا کہ بے جوہر نہیں میں

غلام طغرل و سنجر نہیں میں

*

جہاں بینی مری فطرت ہے لیکن

کسی جمشید کا ساغر نہیں میں

***

وہی اصل مکان و لامکاں ہے

مکاں کیا شے ہے ، انداز بیاں ہے

*

خضر کیونکر بتائے ، کیا بتائے

اگر ماہی کہے دریا کہاں ہے

***

۹۰

کبھی آوارہ و بے خانماں عشق

کبھی شاہِ شہاں نوشیرواں عشق

*

کبھی میداں میں آتا ہے زرہ پوش

کبھی عریان و بے تیغ و سناں عشق!

***

کبھی تنہائی کوہ و دمن عشق

کبھی سوز و سرور و انجمن عشق

*

کبھی سرمایۂ محراب و منبر

کبھی مولا علی خیبر شکن عشق!

***

عطا اسلاف کا جذب دروں کر

شریک زمرۂ لا یحزنوں ، کر

*

خرد کی گتھیاں سلجھا چکا میں

مرے مولا مجھے صاحب جنوں کر!

***

۹۱

یہ نکتہ میں نے سیکھا بوالحسن سے

کہ جاں مرتی نہیں مرگ بدن سے

*

چمک سورج میں کیا باقی رہے گی

اگر بیزار ہو اپنی کرن سے!

***

خرد واقف نہیں ہے نیک و بد سے

بڑھی جاتی ہے ظالم اپنی حد سے

*

خدا جانے مجھے کیا ہو گیا ہے

خرد بیزار دل سے ، دل خرد سے!

***

خدائی اہتمام خشک و تر ہے

خداوندا! خدائی درد سر ہے

*

و لیکن بندگی ، استغفراللہ!

یہ درد سر نہیں ، درد جگر ہے

***

۹۲

یہی آدم ہے سلطاں بحر و بر کا

کہوں کیا ماجرا اس بے بصر کا

*

نہ خود بیں ، نے خدا بیں نے جہاں بیں

یہی شہکار ہے تیرے ہنر کا!

***

دم عارف نسیم صبح دم ہے

اسی سے ریشۂ معنی میں نم ہے

*

اگر کوئی شعیب آئے میسر

شبانی سے کلیمی دو قدم ہے

***

رگوں میں وہ لہو باقی نہیں ہے

وہ دل ، وہ آرزو باقی نہیں ہے

*

نماز و روزہ و قربانی و حج

یہ سب باقی ہیں ، تو باقی نہیں ہے

***

۹۳

کھلے جاتے ہیں اسرار نہانی

گیا دور حدیث "لن ترانی"

*

ہوئی جس کی خودی پہلے نمودار

وہی مہدی ، وہی آخر زمانی!

***

زمانے کی یہ گردش جاودانہ

حقیقت ایک تو ، باقی فسانہ

*

کسی نے دوش دیکھا ہے نہ فردا

فقط امروز ہے تیرا زمانہ

***

حکیمی ، نامسلمانی خودی کی

کلیمی ، رمز پنہانی خودی کی

*

تجھے گر فقر و شاہی کا بتا دوں

غریبی میں نگہبانی خودی کی!

***

۹۴

ترا تن روح سے ناآشنا ہے

عجب کیا ! آہ تیری نارسا ہے

*

تن بے روح سے بیزار ہے حق

خدائے زندہ ، زندوں کا خدا ہے

***

اقبال نے کل اہل خیاباں کو سنایا

یہ شعر نشاط آور و پر سوز طرب ناک

*

میں صورت گل دست صبا کا نہیں محتاج

کرتا ہے مرا جوش جنوں میری قبا چاک

***

۹۵

منظوما ت

دعا

(مسجدقرطبہ.میں.لکھی.گئی)

ہے یہی میری نماز ، ہے یہی میرا وضو

میری نواؤں میں ہے میرے جگر کا لہو

*

صحبت اہل صفا ، نور و حضور و سرور

سر خوش و پرسوز ہے لالہ لب آبجو

*

راہ محبت میں ہے کون کسی کا رفیق

ساتھ مرے رہ گئی ایک مری آرزو

*

میرا نشیمن نہیں درگہ میر و وزیر

میرا نشیمن بھی تو ، شاخ نشیمن بھی تو

*

تجھ سے گریباں مرا مطلع صبح نشور

تجھ سے مرے سینے میں آتش "اللہ ھو"

*

تجھ سے مری زندگی سوز و تب و درد و داغ

تو ہی مری آرزو ، تو ہی مری جستجو

*

۹۶

پاس اگر تو نہیں ، شہر ہے ویراں تمام

تو ہے تو آباد ہیں اجڑے ہوئے کاخ و کو

*

پھر وہ شراب کہن مجھ کو عطا کہ میں

ڈھونڈ رہا ہوں اسے توڑ کے جام و سبو

*

چشم کرم ساقیا! دیر سے ہیں منتظر

جلوتیوں کے سبو ، خلوتیوں کے کدو

*

تیری خدائی سے ہے میرے جنوں کو گلہ

اپنے لیے لامکاں ، میرے لیے چار سو!

*

فلسفہ و شعر کی اور حقیقت ہے کیا

حرف تمنا ، جسے کہہ نہ سکیں رو برو

***

۹۷

مسجد قرطبہ

(ہسپانیہ.کی.سرزمین.بالخصوص.قرطبہ.میں.لکھی.گئی)

سلسلۂ روز و شب ، نقش گر حادثات

سلسلۂ روز و شب ، اصل حیات و ممات

*

سلسلۂ روز و شب ، تار حریر دو رنگ

جس سے بناتی ہے ذات اپنی قبائے صفات

*

سلسلۂ روز و شب ، ساز ازل کی فغاں

جس سے دکھاتی ہے ذات زیر و بم ممکنات

*

تجھ کو پرکھتا ہے یہ ، مجھ کو پرکھتا ہے یہ

سلسلۂ روز و شب ، صیرفی کائنات

*

تو ہو اگر کم عیار ، میں ہوں اگر کم عیار

موت ہے تیری برات ، موت ہے میری برات

*

تیرے شب و روز کی اور حقیقت ہے کیا

ایک زمانے کی رو جس میں نہ دن ہے نہ رات

*

آنی و فانی تمام معجزہ ہائے ہنر

کار جہاں بے ثبات ، کار جہاں بے ثبات!

۹۸

*

اول و آخر فنا ، باطن و ظاہر فنا

نقش کہن ہو کہ نو ، منزل آخر فنا

*

ہے مگر اس نقش میں رنگ ثبات دوام

جس کو کیا ہو کسی مرد خدا نے تمام

*

مرد خدا کا عمل عشق سے صاحب فروغ

عشق ہے اصل حیات ، موت ہے اس پر حرام

*

تند و سبک سیر ہے گرچہ زمانے کی رو

عشق خود اک سیل ہے ، سیل کو لیتا ہے تھام

*

عشق کی تقویم میں عصر رواں کے سوا

اور زمانے بھی ہیں جن کا نہیں کوئی نام

*

عشق دم جبرئیل ، عشق دل مصطفی

عشق خدا کا رسول ، عشق خدا کا کلام

*

عشق کی مستی سے ہے پیکر گل تابناک

عشق ہے صہبائے خام ، عشق ہے کاس الکرام

*

عشق فقیہ حرم ، عشق امیر جنود

عشق ہے ابن السبیل ، اس کے ہزاروں مقام

*

عشق کے مضراب سے نغمۂ تار حیات

عشق سے نور حیات ، عشق سے نار حیات

۹۹

*

اے حرم قرطبہ! عشق سے تیرا وجود

عشق سراپا دوام ، جس میں نہیں رفت و بود

*

رنگ ہو یا خشت و سنگ ، چنگ ہو یا حرف و صوت

معجزۂ فن کی ہے خون جگر سے نمود

*

قطرۂ خون جگر ، سل کو بناتا ہے دل

خون جگر سے صدا سوز و سرور و سرود

*

تیری فضا دل فروز ، میری نوا سینہ سوز

تجھ سے دلوں کا حضور ، مجھ سے دلوں کی کشود

*

عرش معلّیٰ سے کم سینۂ آدم نہیں

گرچہ کف خاک کی حد ہے سپہر کبود

*

پیکر نوری کو ہے سجدہ میسر تو کیا

اس کو میسر نہیں سوز و گداز سجود

*

کافر ہندی ہوں میں ، دیکھ مرا ذوق و شوق

دل میں صلوۃ و درود ، لب پہ صلوۃ و درود

*

شوق مری لے میں ہے ، شوق مری نے میں ہے

نغمۂ "اللہ ھو" میرے رگ و پے میں ہے

*

تیرا جلال و جمال ، مرد خدا کی دلیل

وہ بھی جلیل و جمیل ، تو بھی جلیل و جمیل

۱۰۰