بانگِ درا (حصہ سوم) 1908کے بعد جلد ۳

بانگِ درا (حصہ سوم) 1908کے بعد9%

بانگِ درا (حصہ سوم) 1908کے بعد مؤلف:
زمرہ جات: شعری مجموعے
صفحے: 208

جلد ۱ جلد ۲ جلد ۳
  • ابتداء
  • پچھلا
  • 208 /
  • اگلا
  • آخر
  •  
  • ڈاؤنلوڈ HTML
  • ڈاؤنلوڈ Word
  • ڈاؤنلوڈ PDF
  • مشاہدے: 67921 / ڈاؤنلوڈ: 3104
سائز سائز سائز
بانگِ درا (حصہ سوم) 1908کے بعد

بانگِ درا (حصہ سوم) ۱۹۰۸کے بعد جلد ۳

مؤلف:
اردو

1

2

3

4

5

6

7

8

9

10

11

12

13

14

15

16

17

18

19

20

21

22

23

24

25

26

27

28

29

30

31

32

33

34

35

36

37

38

39

40

41

42

43

44

45

46

47

48

49

50

51

52

53

54

55

56

57

58

59

60

61

62

63

64

65

66

67

68

69

70

71

72

73

74

75

76

77

78

79

80

81

82

83

84

85

86

87

88

89

90

91

92

93

94

95

96

97

98

99

100

101

102

103

104

105

106

107

108

109

110

111

112

113

114

115

116

117

118

119

120

خفتہ خاک پے سپر میں ہے شرار اپنا تو کیا

عارضی محمل ہے یہ مشت غبار اپنا تو کیا

*

زندگی کی آگ کا انجام خاکستر نہیں

ٹوٹنا جس کا مقدر ہو یہ وہ گوہر نہیں

*

زندگی محبوب ایسی دیدۂ قدرت میں ہے

ذوق حفظ زندگی ہر چیز کی فطرت میں ہے

*

موت کے ہاتھوں سے مٹ سکتا اگر نقش حیات

عام یوں اس کو نہ کر دیتا نظام کائنات

*

ہے اگر ارزاں تو یہ سمجھو اجل کچھ بھی نہیں

جس طرح سونے سے جینے میں خلل کچھ بھی نہیں

*

آہ غافل! موت کا راز نہاں کچھ اور ہے

نقش کی ناپائداری سے عیاں کچھ اور ہے

*

جنت نظارہ ہے نقش ہوا بالائے آب

موج مضطر توڑ کر تعمیر کرتی ہے حباب

*

موج کے دامن میں پھر اس کو چھپا دیتی ہے یہ

کتنی بیدردی سے نقش اپنا مٹا دیتی ہے یہ

*

۱۲۱

پھر نہ کر سکتی حباب اپنا اگر پیدا ہوا

توڑنے میں اس کے یوں ہوتی نہ بے پروا ہوا

*

اس روش کا کیا اثر ہے ہیئت تعمیر پر

یہ تو حجت ہے ہوا کی قوت تعمیر پر

*

فطرت ہستی شہید آرزو رہتی نہ ہو

خوب تر پیکر کی اس کو جستجو رہتی نہ ہو

*

آہ سیماب پریشاں ، انجم گردوں فروز

شوخ یہ چنگاریاں ، ممنون شب ہے جن کا سوز

*

عقل جس سے سر بہ زانو ہے وہ مدت ان کی ہے

سرگزشت نوع انساں ایک ساعت ان کی ہے

*

پھر یہ انساں، آں سوئے افلاک ہے جس کی نظر

قدسیوں سے بھی مقاصد میں ہے جو پاکیزہ تر

*

جو مثال شمع روشن محفل قدرت میں ہے

آسماں اک نقطہ جس کی وسعت فطرت میں ہے

*

جس کی نادانی صداقت کے لیے بیتاب ہے

جس کا ناخن ساز ہستی کے لیے مضراب ہے

*

۱۲۲

شعلہ یہ کمتر ہے گردوں کے شراروں سے بھی کیا

کم بہا ہے آفتاب اپنا ستاروں سے بھی کیا

*

تخم گل کی آنکھ زیر خاک بھی بے خواب ہے

کس قدر نشوونما کے واسطے بے تاب ہے

*

زندگی کا شعلہ اس دانے میں جو مستور ہے

خود نمائی ، خود فزائی کے لیے مجبور ہے

*

سردی مرقد سے بھی افسردہ ہو سکتا نہیں

خاک میں دب کر بھی اپنا سوز کھو سکتا نہیں

*

پھول بن کر اپنی تربت سے نکل آتا ہے یہ

موت سے گویا قبائے زندگی پاتا ہے یہ

*

ہے لحد اس قوت آشفتہ کی شیرازہ بند

ڈالتی ہے گردن گردوں میں جو اپنی کمند

*

موت، تجدید مذاق زندگی کا نام ہے

خواب کے پردے میں بیداری کا اک پیغام ہے

*

خوگر پرواز کو پرواز میں ڈر کچھ نہیں

موت اس گلشن میں جز سنجیدن پر کچھ نہیں

*

۱۲۳

کہتے ہیں اہل جہاں درد اجل ہے لا دوا

زخم فرقت وقت کے مرہم سے پاتا ہے شفا

*

دل مگر ، غم مرنے والوں کا جہاں آباد ہے

حلقۂ زنجیر صبح و شام سے آزاد ہے

*

وقت کے افسوں سے تھمتا نالۂ ماتم نہیں

وقت زخم تیغ فرقت کا کوئی مرہم نہیں

*

سر پہ آجاتی ہے جب کوئی مصیبت ناگہاں

اشک پیہم دیدۂ انساں سے ہوتے ہیں رواں

*

ربط ہو جاتا ہے دل کو نالہ و فریاد سے

خون دل بہتا ہے آنکھوں کی سرشک آباد سے

*

آدمی تاب شکیبائی سے گو محروم ہے

اس کی فطرت میں یہ اک احساس نامعلوم ہے

*

جوہر انساں عدم سے آشنا ہوتا نہیں

آنکھ سے غائب تو ہوتا ہے ،فنا ہوتا نہیں

*

رخت ہستی خاک، غم کی شعلہ افشانی سے ہے

سرد یہ آگ اس لطیف احساس کے پانی سے ہے

*

۱۲۴

آہ، یہ ضبط فغاں غفلت کی خاموشی نہیں

آگہی ہے یہ دل آسائی، فراموشی نہیں

*

پردۂ مشرق سے جس دم جلوہ گر ہوتی ہے صبح

داغ شب کا دامن آفاق سے دھوتی ہے صبح

*

لالۂ افسردہ کو آتش قبا کرتی ہے یہ

بے زباں طائر کو سرمست نوا کرتی ہے یہ

*

سینۂ بلبل کے زنداں سے سرود آزاد ہے

سینکڑوں نغموں سے باد صبح دم آباد ہے

*

خفتگان لالہ زار و کوہسار و رود باد

ہوتے ہیں آخر عروس زندگی سے ہمکنار

*

یہ اگر آئین ہستی ہے کہ ہو ہر شام صبح

مرقد انساں کی شب کا کیوں نہ ہو انجام صبح

*

دام سیمین تخیل ہے مرا آفاق گیر

کر لیا ہے جس سے تیری یاد کو میں نے اسیر

*

یاد سے تیری دل درد آشنا معمور ہے

جیسے کعبے میں دعاؤں سے فضا معمور ہے

*

۱۲۵

وہ فرائض کا تسلسل نام ہے جس کا حیات

جلوہ گاہیں اس کی ہیں لاکھوں جہاں بے ثبات

*

مختلف ہر منزل ہستی کی رسم و راہ ہے

آخرت بھی زندگی کی ایک جولاں گاہ ہے

*

ہے وہاں بے حاصلی کشت اجل کے واسطے

ساز گار آب و ہوا تخم عمل کے واسطے

*

نور فطرت ظلمت پیکر کا زندانی نہیں

تنگ ایسا حلقۂ افکار انسانی نہیں

*

زندگانی تھی تری مہتاب سے تابندہ تر

خوب تر تھا صبح کے تارے سے بھی تیرا سفر

*

مثل ایوان سحر مرقد فروزاں ہو ترا

نور سے معمور یہ خاکی شبستاں ہو ترا

*

آسماں تیری لحد پر شبنم افشانی کرے

سبزۂ نورستہ اس گھر کی نگہبانی کرے

***

۱۲۶

شعاع_آفتاب

صبح جب میری نگہ سودائی نظارہ تھی

آسماں پر اک شعاع آفتاب آوارہ تھی

*

میں نے پوچھا اس کرن سے ""اے سراپا اضطراب!

تیری جان نا شکیبا میں ہے کیسا اضطراب

*

تو کوئی چھوٹی سی بجلی ہے کہ جس کو آسماں

کر رہا ہے خرمن اقوام کی خاطر جواں

*

یہ تڑپ ہے یا ازل سے تیری خو ہے، کیا ہے یہ

رقص ہے، آوارگی ہے، جستجو ہے، کیا ہے یہ""؟

*

""خفتہ ہنگامے ہیں میری ہستی خاموش میں

پرورش پائی ہے میں نے صبح کی آغوش میں

*

مضطرب ہر دم مری تقدیر رکھتی ہے مجھے

جستجو میں لذت تنویر رکھتی ہے مجھے

*

برق آتش خو نہیں، فطرت میں گو ناری ہوں میں

مہر عالم تاب کا پیغام بیداری ہوں میں

*

۱۲۷

سرمہ بن کر چشم انساں میں سما جاؤں گی میں

رات نے جو کچھ چھپا رکھا تھا، دکھلاؤں گی میں

*

تیرے مستوں میں کوئی جویائے ہشیاری بھی ہے

سونے والوں میں کسی کو ذوق بیداری بھی ہے؟

***

۱۲۸

عرفی

محل ایسا کیا تعمیر عرفی کے تخیل نے

تصدق جس پہ حیرت خانۂ سینا و فارابی

*

فضائے عشق پر تحریر کی اس نے نوا ایسی

میسر جس سے ہیں آنکھوں کو اب تک اشک عنابی

*

مرے دل نے یہ اک دن اس کی تربت سے شکایت کی

نہیں ہنگامۂ عالم میں اب سامان بیتابی

*

مزاج اہل عالم میں تغیر آگیا ایسا

کہ رخصت ہو گئی دنیا سے کیفیت وہ سیمابی

*

فغان نیم شب شاعر کی بار گوش ہوتی ہے

نہ ہو جب چشم محفل آشنائے لطف بے خوابی

*

کسی کا شعلۂ فریاد ہو ظلمت ربا کیونکر

گراں ہے شب پرستوں پر سحر کی آسماں تابی

*

صدا تربت سے آئی ""شکوۂ اہل جہاں کم گو

نوا را تلخ تر می زن چو ذوق نغمہ کم یابی

*

حدی را تیز تر می خواں چو محمل را گراں بینی""

***

۱۲۹

ایک.خط.کےجواب.میں

ہوس بھی ہو تو نہیں مجھ میں ہمت تگ و تاز

حصول جاہ ہے وابستۂ مذاق تلاش

*

ہزار شکر، طبیعت ہے ریزہ کار مری

ہزار شکر، نہیں ہے دماغ فتنہ تراش

*

مرے سخن سے دلوں کی ہیں کھیتیاں سرسبز

جہاں میں ہوں میں مثال سحاب دریا پاش

*

یہ عقدہ ہائے سیاست تجھے مبارک ہوں

کہ فیض عشق سے ناخن مرا ہے سینہ خراش

*

ہوائے بزم سلاطیں دلیل مردہ دلی

کیا ہے حافظ رنگیں نوا نے راز یہ فاش

*

""گرت ہوا ست کہ با خضر ہم نشیں باشی

نہاں ز چشم سکندر چو آب حیواں باش""

***

۱۳۰

نانک

قوم نے پیغام گو تم کی ذرا پروا نہ کی

قدر پہچانی نہ اپنے گوہر یک دانہ کی

*

آہ! بد قسمت رہے آواز حق سے بے خبر

غافل اپنے پھل کی شیرینی سے ہوتا ہے شجر

*

آشکار اس نے کیا جو زندگی کا راز تھا

ہند کو لیکن خیالی فلسفے پر ناز تھا

*

شمع حق سے جو منور ہو یہ وہ محفل نہ تھی

بارش رحمت ہوئی لیکن زمیں قابل نہ تھی

*

آہ! شودر کے لیے ہندوستاں غم خانہ ہے

درد انسانی سے اس بستی کا دل بیگانہ ہے

*

برہمن سرشار ہے اب تک مۂ پندار میں

شمع گو تم جل رہی ہے محفل اغیار میں

*

بت کدہ پھر بعد مدت کے مگر روشن ہوا

نور ابراہیم سے آزر کا گھر روشن ہوا

*

۱۳۱

پھر اٹھی آخر صدا توحید کی پنجاب سے

ہند کو اک مرد کامل نے جگایا خواب سے

***

۱۳۲

کفر واسلام

تضمین.برشعرمیررضی.دانش

ایک دن اقبال نے پوچھا کلیم طور سے

اے کہ تیرے نقش پا سے وادی سینا چمن

*

آتش نمرود ہے اب تک جہاں میں شعلہ ریز

ہو گیا آنکھوں سے پنہاں کیوں ترا سوز کہن

*

تھا جواب صاحب سینا کہ مسلم ہے اگر

چھوڑ کر غائب کو تو حاضر کا شیدائی نہ بن

*

ذوق حاضر ہے تو پھر لازم ہے ایمان خلیل

ورنہ خاکستر ہے تیری زندگی کا پیرہن

*

ہے اگر دیوانۂ غائب تو کچھ پروا نہ کر

منتظر رہ وادی فاراں میں ہو کر خیمہ زن

*

عارضی ہے شان حاضر ، سطوت غائب مدام

اس صداقت کو محبت سے ہے ربط جان و تن

*

شعلۂ نمرود ہے روشن زمانے میں تو کیا

""شمع خود رامی گدازد درمیان انجمن

*

نور ما چوں آتش سنگ از نظر پنہاں خوش است""

۱۳۳

بلال

لکھا ہے ایک مغربی حق شناس نے

اہل قلم میں جس کا بہت احترام تھا

*

جولاں گہ سکندر رومی تھا ایشیا

گردوں سے بھی بلند تر اس کا مقام تھا

*

تاریخ کہہ رہی ہے کہ رومی کے سامنے

دعوی کیا جو پورس و دارا نے، خام تھا

*

دنیا کے اس شہنشہ انجم سپاہ کو

حیرت سے دیکھتا فلک نیل فام تھا

*

آج ایشیا میں اس کو کوئی جانتا نہیں

تاریخ دان بھی اسے پہچانتا نہیں

*

لیکن بلال، وہ حبشی زادۂ حقیر

فطرت تھی جس کی نور نبوت سے مستنیر

*

جس کا امیں ازل سے ہوا سینۂ بلال

محکوم اس صدا کے ہیں شاہنشہ و فقیر

*

۱۳۴

ہوتا ہے جس سے اسود و احمر میں اختلاط

کرتی ہے جو غریب کو ہم پہلوئے امیر

*

ہے تازہ آج تک وہ نوائے جگر گداز

صدیوں سے سن رہا ہے جسے گوش چرخ پیر

*

اقبال! کس کے عشق کا یہ فیض عام ہے

رومی فنا ہوا ، حبشی کو دوام ہے

***

۱۳۵

مسلمان.اورتعلیم.جدید

تضمین.برشعرملک.قمی

مرشد کی یہ تعلیم تھی اے مسلم شوریدہ سر

لازم ہے رہرو کے لیے دنیا میں سامان سفر

*

بدلی زمانے کی ہوا ، ایسا تغیر آگیا

تھے جو گراں قیمت کبھی، اب ہیں متاع کس مخر

*

وہ شعلۂ روشن ترا ظلمت گریزاں جس سے تھی

گھٹ کر ہوا مثل شرر تارے سے بھی کم نور تر

*

شیدائی غائب نہ رہ، دیوانۂ موجود ہو

غالب ہے اب اقوام پر معبود حاضر کا اثر

*

ممکن نہیں اس باغ میں کوشش ہو بار آور تری

فرسودہ ہے پھندا ترا، زیرک ہے مرغ تیز پر

*

اس دور میں تعلیم ہے امراض ملت کی دوا

ہے خون فاسد کے لیے تعلیم مثل نیشتر

*

۱۳۶

رہبر کے ایما سے ہوا تعلیم کا سودا مجھے

واجب ہے صحرا گرد پر تعمیل فرمان خضر

*

لیکن نگاہ نکتہ بیں دیکھے زبوں بختی مری

""رفتم کہ خار از پا کشم ،محمل نہاں شد از نظر

*

یک لحظ غافل گشتم و صد سالہ را ہم دور شد""

***

۱۳۷

پھولوں.کی.شہزادی

کلی سے کہہ رہی تھی ایک دن شبنم گلستاں میں

رہی میں ایک مدت غنچہ ہائے باغ رضواں میں

*

تمھارے گلستاں کی کیفیت سرشار ہے ایسی

نگہ فردوس در دامن ہے میری چشم حیراں میں

*

سنا ہے کوئی شہزادی ہے حاکم اس گلستاں کی

کہ جس کے نقش پا سے پھول ہوں پیدا بیاباں میں

*

کبھی ساتھ اپنے اس کے آستاں تک مجھ کو تو لے چل

چھپا کر اپنے دامن میں برنگ موج بو لے چل

*

کلی بولی، سریر آرا ہماری ہے وہ شہزادی

درخشاں جس کی ٹھوکر سے ہوں پتھر بھی نگیں بن کر

*

مگر فطرت تری افتندہ اور بیگم کی شان اونچی

نہیں ممکن کہ تو پہنچے ہماری ہم نشیں بن کر

*

پہنچ سکتی ہے تو لیکن ہماری شاہزادی تک

کسی دکھ درد کے مارے کا اشک آتشیں بن کر

*

نظر اس کی پیام عید ہے اہل محرم کو

بنا دیتی ہے گوہر غم زدوں کے اشک پیہم کو

***

۱۳۸

تضمین.برشعرصائب

کہاں اقبال تو نے آ بنایا آشیاں اپنا

نوا اس باغ میں بلبل کو ہے سامان رسوائی

*

شرارے وادی ایمن کے تو بوتا تو ہے لیکن

نہیں ممکن کہ پھوٹے اس زمیں سے تخم سینائی

*

کلی زور نفس سے بھی وہاں گل ہو نہیں سکتی

جہاں ہر شے ہو محروم تقاضائے خود افزائی

*

قیامت ہے کہ فطرت سو گئی اہل گلستاں کی

نہ ہے بیدار دل پیری، نہ ہمت خواہ برنائی

*

دل آگاہ جب خوابیدہ ہو جاتے ہیں سینوں میں

نو اگر کے لیے زہراب ہوتی ہے شکر خائی

*

نہیں ضبط نوا ممکن تو اڑ جا اس گلستاں سے

کہ اس محفل سے خوشتر ہے کسی صحرا کی تنہائی

*

""ہماں بہتر کہ لیلی در بیاباں جلوہ گر باشد

ندارد تنگناۓ شہر تاب حسن صحرائی""

***

۱۳۹

فردوس.میں.ایک.مکالمہ

ہاتف نے کہا مجھ سے کہ فردوس میں اک روز

حالی سے مخاطب ہوئے یوں سعدی شیراز

*

اے آنکہ ز نور گہر نظم فلک تاب

دامن بہ چراغ مہ اختر زدہ ای باز!

*

کچھ کیفیت مسلم ہندی تو بیاں کر

واماندۂ منزل ہے کہ مصروف تگ و تاز

*

مذہب کی حرارت بھی ہے کچھ اس کی رگوں میں؟

تھی جس کی فلک سوز کبھی گرمی آواز

*

باتوں سے ہوا شیخ کی حالی متاثر

رو رو کے لگا کہنے کہ ""اے صاحب اعجاز

*

جب پیر فلک نے ورق ایام کا الٹا

آئی یہ صدا ، پاؤگے تعلیم سے اعزاز

*

آیا ہے مگر اس سے عقیدوں میں تزلزل

دنیا تو ملی، طائر دیں کر گیا پرواز

*

۱۴۰

141

142

143

144

145

146

147

148

149

150

151

152

153

154

155

156

157

158

159

160

161

162

163

164

165

166

167

168

169

170

171

172

173

174

175

176

177

178

179

180

181

182

183

184

185

186

187

188

189

190

191

192

193

194

195

196

197

198

199

200

201

202

203

204

205

206

207

208