بانگِ درا (حصہ سوم) 1908کے بعد جلد ۳

بانگِ درا (حصہ سوم) 1908کے بعد9%

بانگِ درا (حصہ سوم) 1908کے بعد مؤلف:
زمرہ جات: شعری مجموعے
صفحے: 208

جلد ۱ جلد ۲ جلد ۳
  • ابتداء
  • پچھلا
  • 208 /
  • اگلا
  • آخر
  •  
  • ڈاؤنلوڈ HTML
  • ڈاؤنلوڈ Word
  • ڈاؤنلوڈ PDF
  • مشاہدے: 67917 / ڈاؤنلوڈ: 3103
سائز سائز سائز
بانگِ درا (حصہ سوم) 1908کے بعد

بانگِ درا (حصہ سوم) ۱۹۰۸کے بعد جلد ۳

مؤلف:
اردو

1

2

3

4

5

6

7

8

9

10

11

12

13

14

15

16

17

18

19

20

21

22

23

24

25

26

27

28

29

30

31

32

33

34

35

36

37

38

39

40

41

42

43

44

45

46

47

48

49

50

51

52

53

54

55

56

57

58

59

60

61

62

63

64

65

66

67

68

69

70

71

72

73

74

75

76

77

78

79

80

81

82

83

84

85

86

87

88

89

90

91

92

93

94

95

96

97

98

99

100

101

102

103

104

105

106

107

108

109

110

111

112

113

114

115

116

117

118

119

120

121

122

123

124

125

126

127

128

129

130

131

132

133

134

135

136

137

138

139

140

دیں ہو تو مقاصد میں بھی پیدا ہو بلندی

فطرت ہے جوانوں کی زمیں گیر زمیں تاز

*

مذہب سے ہم آہنگی افراد ہے باقی

دیں زخمہ ہے ، جمعیت ملت ہے اگر ساز

*

بنیاد لرز جائے جو دیوار چمن کی

ظاہر ہے کہ انجام گلستاں کا ہے آغاز

*

پانی نہ ملا زمزم ملت سے جو اس کو

پیدا ہیں نئی پود میں الحاد کے انداز

*

یہ ذکر حضور شہ یثرب میں نہ کرنا

سمجھیں نہ کہیں ہند کے مسلم مجھے غماز

*

خرما نتواں یافت ازاں خار کہ کشتیم

دیبا نتواں بافت ازاں پشم کہ رشتیم""

***

(سعدی)

۱۴۱

مذہب

تضمین.برشعرمیرزابیدل

تعلیم پیر فلسفۂ مغربی ہے یہ

ناداں ہیں جن کو ہستی غائب کی ہے تلاش

*

پیکر اگر نظر سے نہ ہو آشنا تو کیا

ہے شیخ بھی مثال برہمن صنم تراش

*

محسوس پر بنا ہے علوم جدید کی

اس دور میں ہے شیشہ عقائد کا پاش پاش

*

مذہب ہے جس کا نام، وہ ہے اک جنون خام

ہے جس سے آدمی کے تخیل کو انتعاش

*

کہتا مگر ہے فلسفۂ زندگی کچھ اور

مجھ پر کیا یہ مرشد کامل نے راز فاش

*

""با ہر کمال اند کے آشفتگی خوش است

ہر چند عقل کل شدہ ای بے جنوں مباش""

***

۱۴۲

جنگ.یرموک.کاایک.واقعہ

صف بستہ تھے عرب کے جوانان تیغ بند

تھی منتظر حنا کی عروس زمین شام

*

اک نوجوان صورت سیماب مضطرب

آ کر ہوا امیر عساکر سے ہم کلام

*

اے بو عبیدہ رخصت پیکار دے مجھے

لبریز ہو گیا مرے صبر و سکوں کو جام

*

بے تاب ہو رہا ہوں فراق رسول میں

اک دم کی زندگی بھی محبت میں ہے حرام

*

جاتا ہوں میں حضور رسالت پناہ میں

لے جاؤں گا خوشی سے اگر ہو کوئی پیام

*

یہ ذوق و شوق دیکھ کے پرنم ہوئی وہ آنکھ

جس کی نگاہ تھی صفت تیغ بے نیام

*

بولا امیر فوج کہ ""وہ نوجواں ہے تو

پیروں پہ تیرے عشق کا واجب ہے احترام

*

۱۴۳

پوری کرے خدائے محمد تری مراد

کتنا بلند تیری محبت کا ہے مقام!

*

پہنچے جو بارگاہ رسول امیں میں تو

کرنا یہ عرض میری طرف سے پس از سلام

*

ہم پہ کرم کیا ہے خدائے غیور نے

پورے ہوئے جو وعدے کیے تھے حضور نے"

***

۱۴۴

مذہب

اپنی ملت پر قیاس اقوام مغرب سے نہ کر

خاص ہے ترکیب میں قوم رسول ہاشمی

*

ان کی جمعیت کا ہے ملک و نسب پر انحصار

قوت مذہب سے مستحکم ہے جمعیت تری

*

دامن دیں ہاتھ سے چھوٹا تو جمعیت کہاں

اور جمعیت ہوئی رخصت تو ملت بھی گئی

***

۱۴۵

پیوستہ.رہ.شجرسے،امیدبہاررکھ!

ڈالی گئی جو فصل خزاں میں شجر سے ٹوٹ

ممکن نہیں ہری ہو سحاب بہار سے

*

ہے لازوال عہد خزاں اس کے واسطے

کچھ واسطہ نہیں ہے اسے برگ و بار سے

*

ہے تیرے گلستاں میں بھی فصل خزاں کا دور

خالی ہے جیب گل زر کامل عیار سے

*

جو نغمہ زن تھے خلوت اوراق میں طیور

رخصت ہوئے ترے شجر سایہ دار سے

*

شاخ بریدہ سے سبق اندوز ہو کہ تو

ناآشنا ہے قاعدۂ روزگار سے

*

ملت کے ساتھ رابطۂ استوار رکھ

پیوستہ رہ شجر سے ، امید بہار رکھ!

***

۱۴۶

شب.معراج

اختر شام کی آتی ہے فلک سے آواز

سجدہ کرتی ہے سحر جس کو، وہ ہے آج کی رات

*

رہ یک گام ہے ہمت کے لیے عرش بریں

کہہ رہی ہے یہ مسلمان سے معراج کی رات

***

۱۴۷

پھول

تجھے کیوں فکر ہے اے گل دل صد چاک بلبل کی

تو اپنے پیرہن کے چاک تو پہلے رفو کر لے

*

تمنا آبرو کی ہو اگر گلزار ہستی میں

تو کانٹوں میں الجھ کر زندگی کرنے کی خو کر لے

*

صنوبر باغ میں آزاد بھی ہے، پا بہ گل بھی ہے

انھی پابندیوں میں حاصل آزادی کو تو کر لے

*

تنک بخشی کو استغنا سے پیغام خجالت دے

نہ رہ منت کش شبنم نگوں جام وسبو کر لے

*

نہیں یہ شان خود داری ، چمن سے توڑ کر تجھ کو

کوئی دستار میں رکھ لے ، کوئی زیب گلو کر لے

*

چمن میں غنچۂ گل سے یہ کہہ کر اڑ گئی شبنم

مذاق جور گلچیں ہو تو پیدا رنگ و بو کر لے

*

اگر منظور ہو تجھ کو خزاں ناآشنا رہنا

جہان رنگ و بو سے، پہلے قطع آرزو کر لے

*

اسی میں دیکھ ، مضمر ہے کمال زندگی تیرا

جو تجھ کو زینت دامن کوئی آئینہ رو کر لے

***

۱۴۸

شیکسپیر

شفق صبح کو دریا کا خرام آئینہ

نغمۂ شام کو خاموشی شام آئینہ

*

برگ گل آئنۂ عارض زبیائے بہار

شاہد مے کے لیے حجلۂ جام آئینہ

*

حسن آئنۂ حق اور دل آئنۂ حسن

دل انساں کو ترا حسن کلام آئینہ

*

ہے ترے فکر فلک رس سے کمال ہستی

کیا تری فطرت روشن تھی مآل ہستی

*

تجھ کو جب دیدۂ دیدار طلب نے ڈھونڈا

تاب خورشید میں خورشید کو پنہاں دیکھا

*

چشم عالم سے تو ہستی رہی مستور تری

اور عالم کو تری آنکھ نے عریاں دیکھا

*

حفظ اسرار کا فطرت کو ہے سودا ایسا

راز داں پھر نہ کرے گی کوئی پیدا ایسا

***

۱۴۹

میں.اورتو

نہ سلیقہ مجھ میں کلیم کا نہ قرینہ تجھ میں خلیل کا

میں ہلاک جادوئے سامری، تو قتیل شیوۂ آزری

*

میں نوائے سوختہ در گلو ، تو پریدہ رنگ، رمیدہ بو

میں حکایت غم آرزو ، تو حدیث ماتم دلبری

*

مرا عیش غم ،مرا شہد سم ، مری بود ہم نفس عدم

ترا دل حرم، گرو عجم ترا دیں خریدہ کافری

*

دم زندگی رم زندگی، غم زندگی سم زندگی

غم رم نہ کر، سم غم نہ کھا کہ یہی ہے شان قلندری

*

تری خاک میں ہے اگر شرر تو خیال فقر و غنا نہ کر

کہ جہاں میں نان شعیر پر ہے مدار قوت حیدری

*

کوئی ایسی طرز طواف تو مجھے اے چراغ حرم بتا!

کہ ترے پتنگ کو پھر عطا ہو وہی سرشت سمندری

*

گلۂ جفائے وفا نما کہ حرم کو اہل حرم سے ہے

کسی بت کدے میں بیاں کروں تو کہے صنم بھی "ہری ہری"

*

۱۵۰

نہ ستیزہ گاہ جہاں نئی نہ حریف پنجہ فگن نئے

وہی فطرت اسد اللہی وہی مرحبی، وہی عنتری

*

کرم اے شہ عرب و عجم کہ کھڑے ہیں منتظر کرم

وہ گدا کہ تو نے عطا کیا ہے جنھیں دماغ سکندری

***

۱۵۱

اسیری

ہے اسیری اعتبار افزا جو ہو فطرت بلند

قطرۂ نیساں ہے زندان صدف سے ارجمند

*

مشک اذفر چیز کیا ہے ، اک لہو کی بوند ہے

مشک بن جاتی ہے ہو کر نافۂ آہو میں بند

*

ہر کسی کی تربیت کرتی نہیں قدرت، مگر

کم ہیں وہ طائر کہ ہیں دام وقفس سے بہرہ مند

*

""شہپر زاغ و زغن در بند قید و صید نیست

ایں سعادت قسمت شہباز و شاہیں کردہ اند""

***

۱۵۲

دریوزۂ خلافت

*

اگر ملک ہاتھوں سے جاتا ہے، جائے

تو احکام حق سے نہ کر بے وفائی

*

نہیں تجھ کو تاریخ سے آگہی کیا

خلافت کی کرنے لگا تو گدائی

*

خریدیں نہ جس کو ہم اپنے لہو سے

مسلماں کو ہے ننگ وہ پادشائی

*

""مرا از شکستن چناں عار ناید

کہ از دیگراں خواستن مومیائی""

***

۱۵۳

ہمایوں

(مسٹرجسٹسں.شاہ.دین.مرحوم)

اے ہمایوں! زندگی تیری سراپا سوز تھی

تیری چنگاری چراغ انجمن افروز تھی

*

گرچہ تھا تیرا تن خاکی نزار و دردمند

تھی ستارے کی طرح روشن تری طبع بلند

*

کس قدر بے باک دل اس ناتواں پیکر میں تھا

شعلۂ گردوں نورد اک مشت خاکستر میں تھا

*

موت کی لیکن دل دانا کو کچھ پروا نہیں

شب کی خاموشی میں جز ہنگامۂ فردا نہیں

*

موت کو سمجھے ہیں غافل اختتام زندگی

ہے یہ شام زندگی، صبح دوام زندگی

***

۱۵۴

خضرِراہ

شاعر

ساحل دریا پہ میں اک رات تھا محو نظر

گوشۂ دل میں چھپائے اک جہان اضطراب

*

شب سکوت افزا، ہوا آسودہ، دریا نرم سیر

تھی نظر حیراں کہ یہ دریا ہے یا تصویر آب

*

جیسے گہوارے میں سو جاتا ہے طفل شیر خوار

موج مضطر تھی کہیں گہرائیوں میں مست خواب

*

رات کے افسوں سے طائر آشیانوں میں اسیر

انجم کم ضو گرفتار طلسم ماہتاب

*

دیکھتا کیا ہوں کہ وہ پیک جہاں پیما خضر

جس کی پیری میں ہے مانند سحر رنگ شباب

*

کہہ رہا ہے مجھ سے، اے جویائے اسرار ازل!

چشم دل وا ہو تو ہے تقدیر عالم بے حجاب

*

دل میں یہ سن کر بپا ہنگامۂ محشر ہوا

میں شہید جستجو تھا، یوں سخن گستر ہوا

*

۱۵۵

اے تری چشم جہاں بیں پر وہ طوفاں آشکار

جن کے ہنگامے ابھی دریا میں سوتے ہیں خموش

*

"کشتی مسکین، و "جان پاک" و "دیوار یتیم،

علم موسی بھی ہے تیرے سامنے حیرت فروش

*

چھوڑ کر آبادیاں رہتا ہے تو صحرا نورد

زندگی تیری ہے بے روز و شب و فردا دوش

*

زندگی کا راز کیا ہے، سلطنت کیا چیز ہے

اور یہ سرمایہ و محنت میں ہے کیسا خروش

*

ہو رہا ہے ایشیا کا خرقۂ دیرینہ چاک

نوجواں اقوام نو دولت کے ہیں پیرایہ پوش

*

گرچہ اسکندر رہا محروم آب زندگی

فطرت اسکندری اب تک ہے گرم ناؤ نوش

*

بیچتا ہے ہاشمی ناموس دین مصطفی

خاک و خوں میں مل رہا ہے ترکمان سخت کوش

*

آگ ہے، اولاد ابراہیم ہے، نمرود ہے

کیا کسی کو پھر کسی کا امتحاں مقصود ہے!

***

۱۵۶

جواب.خضر

صحرانوردی

کیوں تعجب ہے مری صحرا نوردی پر تجھے

یہ تگا پوئے دما دم زندگی کی ہے دلیل

*

اے رہین خانہ تو نے وہ سماں دیکھا نہیں

گونجتی ہے جب فضائے دشت میں بانگ رحیل

*

ریت کے ٹیلے پہ وہ آہو کا بے پروا خرام

وہ حضر بے برگ و ساماں، وہ سفر بے سنگ و میل

*

وہ نمود اختر سیماب پا ہنگام صبح

یا نمایاں بام گردوں سے جبین جبرئیل

*

وہ سکوت شام صحرا میں غروب آفتاب

جس سے روشن تر ہوئی چشم جہاں بین خلیل

*

اور وہ پانی کے چشمے پر مقام کارواں

اہل ایماں جس طرح جنت میں گرد سلسبیل

*

تازہ ویرانے کی سودائے محبت کو تلاش

اور آبادی میں تو زنجیری کشت و نخیل

***

۱۵۷

زندگی

پختہ تر ہے گردش پیہم سے جام زندگی

ہے یہی اے بے خبر راز دوام زندگی

*

برتر از اندیشۂ سود و زیاں ہے زندگی

ہے کبھی جاں اور کبھی تسلیم جاں ہے زندگی

*

تو اسے پیمانۂ امروز و فردا سے نہ ناپ

جاوداں پیہم دواں، ہر دم جواں ہے زندگی

*

اپنی دنیا آپ پیدا کر اگر زندوں میں ہے

سر آدم ہے، ضمیر کن فکاں ہے زندگی

*

زندگانی کی حقیقت کوہکن کے دل سے پوچھ

جوئے شیر و تیشہ و سنگ گراں ہے زندگی

*

بندگی میں گھٹ کے رہ جاتی ہے اک جوئے کم آب

اور آزادی میں بحر بے کراں ہے زندگی

*

آشکارا ہے یہ اپنی قوت تسخیر سے

گرچہ اک مٹی کے پیکر میں نہاں ہے زندگی

*

۱۵۸

قلزم ہستی سے تو ابھرا ہے مانند حباب

اس زیاں خانے میں تیرا امتحاں ہے زندگی

*

خام ہے جب تک تو ہے مٹی کا اک انبار تو

پختہ ہو جائے تو ہے شمشیر بے زنہار تو

*

ہو صداقت کے لیے جس دل میں مرنے کی تڑپ

پہلے اپنے پیکر خاکی میں جاں پیدا کرے

*

پھونک ڈالے یہ زمین و آسمان مستعار

اور خاکستر سے آپ اپنا جہاں پیدا کرے

*

زندگی کی قوت پنہاں کو کر دے آشکار

تا یہ چنگاری فروغ جاوداں پیدا کرے

*

خاک مشرق پر چمک جائے مثال آفتاب

تا بدخشاں پھر وہی لعل گراں پیدا کرے

*

سوئے گردوں نالۂ شب گیر کا بھیجے سفیر

رات کے تاروں میں اپنے راز داں پیدا کرے

*

یہ گھڑی محشر کی ہے ، تو عرصۂ محشر میں ہے

پیش کر غافل ، عمل کوئی اگر دفتر میں ہے

***

۱۵۹

سلطنت

آ بتاؤں تجھ کو رمز آیۂ "ان الملوک"

سلطنت اقوام غالب کی ہے اک جادوگری

*

خواب سے بیدار ہوتا ہے ذرا محکوم اگر

پھر سلا دیتی ہے اس کو حکمراں کی ساحری

*

جادوئے محمود کی تاثیر سے چشم ایاز

دیکھتی ہے حلقۂ گردن میں ساز دلبری

*

خون اسرائیل آ جاتا ہے آخر جوش میں

توڑ دیتا ہے کوئی موسی طلسم سامری

*

سروری زیبا فقط اس ذات بے ہمتا کو ہے

حکمراں ہے اک وہی، باقی بتان آزری

*

از غلامی فطرت آزاد را رسوا مکن

تا تراشی خواجہ ے از برہمن کافر تری

*

ہے وہی ساز کہن مغرب کا جمہوری نظام

جس کے پردوں میں نہیں غیر از نوائے قیصری

*

۱۶۰

161

162

163

164

165

166

167

168

169

170

171

172

173

174

175

176

177

178

179

180

181

182

183

184

185

186

187

188

189

190

191

192

193

194

195

196

197

198

199

200

201

202

203

204

205

206

207

208