بانگِ درا (حصہ سوم) 1908کے بعد جلد ۳

بانگِ درا (حصہ سوم) 1908کے بعد9%

بانگِ درا (حصہ سوم) 1908کے بعد مؤلف:
زمرہ جات: شعری مجموعے
صفحے: 208

جلد ۱ جلد ۲ جلد ۳
  • ابتداء
  • پچھلا
  • 208 /
  • اگلا
  • آخر
  •  
  • ڈاؤنلوڈ HTML
  • ڈاؤنلوڈ Word
  • ڈاؤنلوڈ PDF
  • مشاہدے: 67922 / ڈاؤنلوڈ: 3104
سائز سائز سائز
بانگِ درا (حصہ سوم) 1908کے بعد

بانگِ درا (حصہ سوم) ۱۹۰۸کے بعد جلد ۳

مؤلف:
اردو

1

2

3

4

5

6

7

8

9

10

11

12

13

14

15

16

17

18

19

20

21

22

23

24

25

26

27

28

29

30

31

32

33

34

35

36

37

38

39

40

چاند

اے چاند! حسن تیرا فطرت کی آبرو ہے

طوف حریم خاکی تیری قدیم خو ہے

*

یہ داغ سا جو تیرے سینے میں ہے نمایاں

عاشق ہے تو کسی کا، یہ داغ آرزو ہے؟

*

میں مضطرب زمیں پر، بے تاب تو فلک پر

تجھ کو بھی جستجو ہے ، مجھ کو بھی جستجو ہے

*

انساں ہے شمع جس کی ، محفل وہی ہے تیری؟

میں جس طرف رواں ہوں ، منزل وہی ہے تیری؟

*

تو ڈھونڈتا ہے جس کو تاروں کی خامشی میں

پوشیدہ ہے وہ شاید غوغائے زندگی میں

*

استادہ سرو میں ہے ، سبزے میں سو رہا ہے

بلبل میں نغمہ زن ہے ، خاموش ہے کلی میں

*

آ ! میں تجھے دکھاؤں رخسار روشن اس کا

نہروں کے آئنے میں شبنم کی آرسی میں

*

صحرا و دشت و در میں ، کہسار میں وہی ہے

انساں کے دل میں ، تیرے رخسار میں وہی ہے

***

۴۱

رات اور شاعر

(۱)رات

کیوں میری چاندنی میں پھرتا ہے تو پریشاں

خاموش صورت گل ، مانند بو پریشاں

*

تاروں کے موتیوں کا شاید ہے جوہری تو

مچھلی ہے کوئی میرے دریائے نور کی تو

*

یا تو مری جبیں کا تارا گرا ہوا ہے

رفعت کو چھوڑ کر جو بستی میں جا بسا ہے

*

خاموش ہو گیا ہے تار رباب ہستی

ہے میرے آئنے میں تصویر خواب ہستی

*

دریا کی تہ میں چشم گرداب سو گئی ہے

ساحل سے لگ کے موج بے تاب سو گئی ہے

*

بستی زمیں کی کیسی ہنگامہ آفریں ہے

یوں سو گئی ہے جیسے آباد ہی نہیں ہے

*

شاعر کا دل ہے لیکن ناآشنا سکوں سے

آزاد رہ گیا تو کیونکر مرے فسوں سے؟

***

۴۲

(۲)شاعر

میں ترے چاند کی کھیتی میں گہر بوتا ہوں

چھپ کے انسانوں سے مانند سحر روتا ہوں

*

دن کی شورش میں نکلتے ہوئے گھبراتے ہیں

عزلت شب میں مرے اشک ٹپک جاتے ہیں

*

مجھ میں فریاد جو پنہاں ہے ، سناؤں کس کو

تپش شوق کا نظارہ دکھاؤں کس کو

*

برق ایمن مرے سینے پہ پڑی روتی ہے

دیکھنے والی ہے جو آنکھ ، کہاں سوتی ہے!

*

صفت شمع لحد مردہ ہے محفل میری

آہ، اے رات! بڑی دور ہے منزل میری

*

عہد حاضر کی ہوا راس نہیں ہے اس کو

اپنے نقصان کا احساس نہیں ہے اس کا

*

ضبط پیغام محبت سے جو گھبراتا ہوں

تیرے تابندہ ستاروں کو سنا جاتا ہوں

***

۴۳

بزم انجم

سورج نے جاتے جاتے شام سیہ قبا کو

طشت افق سے لے کر لالے کے پھول مارے

*

پہنا دیا شفق نے سونے کا سارا زیور

قدرت نے اپنے گہنے چاندی کے سب اتارے

*

محمل میں خامشی کے لیلائے ظلمت آئی

چمکے عروس شب کے موتی وہ پیارے پیارے

*

وہ دور رہنے والے ہنگامۂ جہاں سے

کہتا ہے جن کو انساں اپنی زباں میں "تارے"

*

محو فلک فروزی تھی انجمن فلک کی

عرش بریں سے آئی آواز اک ملک کی

*

اے شب کے پاسانو، اے آسماں کے تارو!

تابندہ قوم ساری گردوں نشیں تمھاری

*

چھیڑو سرود ایسا ، جاگ اٹھیں سونے والے

رہبر ہے قافلوں کی تاب جبیں تمھاری

*

۴۴

آئینے قسمتوں کے تم کو یہ جانتے ہیں

شاید سنیں صدائیں اہل زمیں تمھاری

*

رخصت ہوئی خموشی تاروں بھری فضا سے

وسعت تھی آسماں کی معمور اس نوا سے

*

""حسن ازل ہے پیدا تاروں کی دلبری میں

جس طرح عکس گل ہو شبنم کے آرسی میں

*

آئین نو سے ڈرنا ، طرز کہن پہ اڑنا

منزل یہی گھٹن ہے قوموں کی زندگی میں

*

یہ کاروان ہستی ہے تیز گام ایسا

قومیں کچل گئی ہیں جس کی روا روی میں

*

آنکھوں سے ہیں ہماری غائب ہزاروں انجم

داخل ہیں وہ بھی لیکن اپنی برادری میں

*

اک عمر میں نہ سمجھے اس کو زمین والے

جو بات پا گئے ہم تھوڑی سی زندگی میں

*

ہیں جذب باہمی سے قائم نظام سارے

پوشیدہ ہے یہ نکتہ تاروں کی زندگی میں

***

۴۵

سیر فلک

تھا تخیل جو ہم سفر میرا

آسماں پر ہوا گزر میرا

*

اڑتا جاتا تھا اور نہ تھا کوئی

جاننے والا چرخ پر میرا

*

تارے حیرت سے دیکھتے تھے مجھے

راز سر بستہ تھا سفر میرا

*

حلقۂ صبح و شام سے نکلا

اس پرانے نظام سے نکلا

*

کیا سناؤں تمھیں ارم کیا ہے

خاتم آرزوئے دیدہ و گوش

*

شاخ طوبی! پہ نغمہ ریز طیور

بے حجابانہ حور جلوہ فروش

*

ساقیان جمیل جام بدست

پینے والوں میں شور نوشانوش

*

۴۶

دور جنت سے آنکھ نے دیکھا

ایک تاریک خانہ سرد و خموش

*

طالع قیس و گیسوئے لیلی

اس کی تاریکیوں سے دوش بدوش

*

خنک ایسا کہ جس سے شرما کر

کرۂ زمہریر ہو روپوش

*

میں نے پوچھی جو کیفیت اس کی

حیرت انگیز تھا جواب سروش

*

یہ مقام خنک جہنم ہے

نار سے ، نور سے تہی آغوش

*

شعلے ہوتے ہیں مستعار اس کے

جن سے لرزاں ہیں مرد عبرت کوش

*

اہل دنیا یہاں جو آتے ہیں

اپنے انگار ساتھ لاتے ہیں

***

۴۷

نصیحت

میں نے اقبال سے از راہ نصیحت یہ کہا

عامل روزہ ہے تو اور نہ پابند نماز

*

تو بھی ہے شیوۂ ارباب ریا میں کامل

دل میں لندن کی ہوس ، لب پہ ترے ذکر حجاز

*

جھوٹ بھی مصلحت آمیز ترا ہوتا ہے

تیرا انداز تملق بھی سراپا اعجاز

*

ختم تقریر تری مدحت سرکار پہ ہے

فکر روشن ہے ترا موجد آئین نیاز

*

در حکام بھی ہے تجھ کو مقام محمود

پالسی بھی تری پیچیدہ تر از زلف ایاز

*

اور لوگوں کی طرح تو بھی چھپا سکتا ہے

پردۂ خدمت دیں میں ہوس جاہ کا راز

*

نظر آ جاتا ہے مسجد میں بھی تو عید کے دن

اثر وعظ سے ہوتی ہے طبیعت بھی گداز

۴۸

*

دست پرورد ترے ملک کے اخبار بھی ہیں

چھیڑنا فرض ہے جن پر تری تشہیر کا ساز

*

اس پہ طرہ ہے کہ تو شعر بھی کہہ سکتا ہے

تیری مینائے سخن میں ہے شراب شیراز

*

جتنے اوصاف ہیں لیڈر کے ، وہ ہیں تجھ میں سبھی

تجھ کو لازم ہے کہ ہو اٹھ کے شریک تگ و تاز

*

غم صیاد نہیں ، اور پر و بال بھی ہیں

پھر سبب کیا ہے ، نہیں تجھ کو دماغ پرواز

*

""عاقبت منزل ما وادی خاموشان است

حالیا غلغلہ در گنبد افلاک انداز""

***

۴۹

رام

لبریز ہے شراب حقیقت سے جام ہند

سب فلسفی ہیں خطۂ مغرب کے رام ہند

*

یہ ہندیوں کے فکر فلک رس کا ہے اثر

رفعت میں آسماں سے بھی اونچا ہے بام ہند

*

اس دیس میں ہوئے ہیں ہزاروں ملک سرشت

مشہور جن کے دم سے ہے دنیا میں نام ہند

*

ہے رام کے وجود پہ ہندوستاں کو ناز

اہل نظر سمجھتے ہیں اس کو امام ہند

*

اعجاز اس چراغ ہدایت کا ہے یہی

روشن تر از سحر ہے زمانے میں شام ہند

*

تلوار کا دھنی تھا ، شجاعت میں فرد تھا

پاکیزگی میں ، جوش محبت میں فرد تھا

***

۵۰

موٹر

کیسی پتے کی بات جگندر نے کل کہی

موٹر ہے ذوالفقار علی خان کا کیا خموش

*

ہنگامہ آفریں نہیں اس کا خرام ناز

مانند برق تیز ، مثال ہوا خموش

*

میں نے کہا ، نہیں ہے یہ موٹر پہ منحصر

ہے جادۂ حیات میں ہر تیز پا خموش

*

ہے پا شکستہ شیوۂ فریاد سے جرس

نکہت کا کارواں ہے مثال صبا خموش

*

مینا مدام شورش قلقل سے پا بہ گل

لیکن مزاج جام خرام آشنا خموش

*

شاعر کے فکر کو پر پرواز خامشی

سرمایہ دار گرمی آواز خامشی!

***

۵۱

انسان

منظر چمنستاں کے زیبا ہوں کہ نازیبا

محروم عمل نرگس مجبور تماشا ہے

*

رفتار کی لذت کا احساس نہیں اس کو

فطرت ہی صنوبر کی محروم تمنا ہے

*

تسلیم کی خوگر ہے جو چیز ہے دنیا میں

انسان کی ہر قوت سرگرم تقاضا ہے

*

اس ذرے کو رہتی ہے وسعت کی ہوس ہر دم

یہ ذرہ نہیں ، شاید سمٹا ہوا صحرا ہے

*

چاہے تو بدل ڈالے ہیئت چمنستاں کی

یہ ہستی دانا ہے ، بینا ہے ، توانا ہے

***

۵۲

خطاب بہ جوانان اسلام

کبھی اے نوجواں مسلم! تدبر بھی کیا تو نے

وہ کیا گردوں تھا تو جس کا ہے اک ٹوٹا ہوا تارا

*

تجھے اس قوم نے پالا ہے آغوش محبت میں

کچل ڈالا تھا جس نے پاؤں میں تاج سر دارا

*

تمدن آفریں خلاق آئین جہاں داری

وہ صحرائے عرب یعنی شتربانوں کا گہوارا

*

سماں "الفقر فخری" کا رہا شان امارت میں

""بآب و رنگ و خال و خط چہ حاجت روے زیبا ر""

*

گدائی میں بھی وہ اللہ والے تھے غیور اتنے

کہ منعم کو گدا کے ڈر سے بخشش کا نہ تھا یارا

*

غرض میں کیا کہوں تجھ سے کہ وہ صحرا نشیں کیا تھے

جہاں گیر و جہاں دار و جہاں بان و جہاں آرا

*

اگر چاہوں تو نقشہ کھینچ کر الفاظ میں رکھ دوں

مگر تیرے تخیل سے فزوں تر ہے وہ نظارا

*

۵۳

تجھے آبا سے اپنے کوئی نسبت ہو نہیں سکتی

کہ تو گفتار وہ کردار ، تو ثابت وہ سیارا

*

گنوا دی ہم نے جو اسلاف سے میراث پائی تھی

ثریا سے زمیں پر آسماں نے ہم کو دے مارا

*

حکومت کا تو کیا رونا کہ وہ اک عارضی شے تھی

نہیں دنیا کے آئین مسلم سے کوئی چارا

*

مگر وہ علم کے موتی ، کتابیں اپنے آبا کی

جو دیکھیں ان کو یورپ میں تو دل ہوتا ہے سیپارا

*

""غنی! روز سیاہ پیر کنعاں را تماشا کن

کہ نور دیدہ اش روشن کند چشم زلیخا ر""

***

۵۴

غرۂ شوال

یا

ہلال عید

غرۂ شوال! اے نور نگاہ روزہ دار

آ کہ تھے تیرے لیے مسلم سراپا انتظار

*

تیری پیشانی پہ تحریر پیام عید ہے

شام تیری کیا ہے ، صبح عیش کی تمہید ہے

*

سرگزشت ملت بیضا کا تو آئینہ ہے

اے مہ نو! ہم کو تجھ سے الفت دیرینہ ہے

*

جس علم کے سائے میں تیغ آزما ہوتے تھے ہم

دشمنوں کے خون سے رنگیں قبا ہوتے تھے ہم

*

تیری قسمت میں ہم آغوشی اسی رایت کی ہے

حسن روز افزوں سے تیرے آبرو ملت کی ہے

*

آشنا پرور ہے قوم اپنی ، وفا آئیں ترا

ہے محبت خیز یہ پیراہن سیمیں ترا

*

۵۵

اوج گردوں سے ذرا دنیا کی بستی دیکھ لے

اپنی رفعت سے ہمارے گھر کی پستی دیکھ لے !

*

قافلے دیکھ اور ان کی برق رفتاری بھی دیکھ

رہر و درماندہ کی منزل سے بیزاری بھی دیکھ

*

دیکھ کر تجھ کو افق پر ہم لٹاتے تھے گہر

اے تہی ساغر! ہماری آج ناداری بھی دیکھ

*

فرقہ آرائی کی زنجیروں میں ہیں مسلم اسیر

اپنی آزادی بھی دیکھ ، ان کی گرفتاری بھی دیکھ

*

دیکھ مسجد میں شکست رشتۂ تسبیح شیخ

بت کدے میں برہمن کی پختہ زناری بھی دیکھ

*

کافروں کی مسلم آئینی کا بھی نظارہ کر

اور اپنے مسلموں کی مسلم آزاری بھی دیکھ

*

بارش سنگ حوادث کا تماشائی بھی ہو

امت مرحوم کی آئینہ دیواری بھی دیکھ

*

ہاں ، تملق پیشگی دیکھ آبرو والوں کی تو

اور جو بے آبرو تھے ، ان کی خود داری بھی دیکھ

*

۵۶

جس کو ہم نے آشنا لطف تکلم سے کیا

اس حریف بے زباں کی گرم گفتاری بھی دیکھ

*

ساز عشرت کی صدا مغرب کے ایوانوں میں سن

اور ایراں میں ذرا ماتم کی تیاری بھی دیکھ

*

چاک کر دی ترک ناداں نے خلافت کی قبا

سادگی مسلم کی دیکھ ، اوروں کی عیاری بھی دیکھ

*

صورت آئینہ سب کچھ دیکھ اور خاموش رہ

شورش امروز میں محو سرود دوش رہ

***

۵۷

شمع اور شاعر

(فروری۱۹۱۲ء)شاعر

دوش می گفتم بہ شمع منزل ویران خویش

گیسوے تو از پر پروانہ دارد شانہ اے

*

در جہاں مثل چراغ لالۂ صحراستم

نے نصیب محفلے نے قسمت کاشانہ اے

*

مدتے مانند تو من ہم نفس می سوختم

در طواف شعلہ ام بالے نہ زد پروانہ اے

*

می تپد صد جلوہ در جان امل فرسودمن

بر نمی خیزد ازیں محفل دل دیوانہ اے

*

از کجا ایں آتش عالم فروز اندوختی

کرمک بے مایہ را سوز کلیم آموختی

***

۵۸

شمع

مجھ کو جو موج نفس دیتی ہے پیغام اجل

لب اسی موج نفس سے ہے نوا پیرا ترا

*

میں تو جلتی ہوں کہ ہے مضمر مری فطرت میں سوز

تو فروزاں ہے کہ پروانوں کو ہو سودا ترا

*

گریہ ساماں میں کہ میرے دل میں ہے طوفان اشک

شبنم افشاں تو کہ بزم گل میں ہو چرچا ترا

*

گل بہ دامن ہے مری شب کے لہو سے میری صبح

ہے ترے امروز سے نا آشنا فردا ترا

*

یوں تو روشن ہے مگر سوز دروں رکھتا نہیں

شعلہ ہے مثل چراغ لالۂ صحرا ترا

*

سوچ تو دل میں ، لقب ساقی کا ہے زیبا تجھے؟

انجمن پیاسی ہے اور پیمانہ بے صہبا ترا!

*

اور ہے تیرا شعار ، آئین ملت اور ہے

زشت روئی سے تری آئینہ ہے رسوا ترا

*

۵۹

کعبہ پہلو میں ہے اور سودائی بت خانہ ہے

کس قدر شوریدہ سر ہے شوق بے پروا ترا

*

قیس پیدا ہوں تری محفل میں یہ ممکن نہیں

تنگ ہے صحرا ترا ، محمل ہے بے لیلا ترا

*

اے در تابندہ ، اے پروردۂ آغوش موج!

لذت طوفاں سے ہے نا آشنا دریا ترا

*

اب نوا پیرا ہے کیا ، گلشن ہوا برہم ترا

بے محل تیرا ترنم ، نغمہ بے موسم ترا

*

تھا جنھیں ذوق تماشا ، وہ تو رخصت ہو گئے

لے کے اب تو وعدۂ دیدار عام آیا تو کیا

*

انجمن سے وہ پرانے شعلہ آشام اٹھ گئے

ساقیا! محفل میں تو آتش بجام آیا تو کیا

*

آہ ، جب گلشن کی جمعیت پریشاں ہو چکی

پھول کو باد بہاری کا پیام آیا تو کیا

*

آخر شب دید کے قابل تھی بسمل کی تڑپ

صبح دم کوئی اگر بالائے بام آیا تو کیا

*

۶۰

61

62

63

64

65

66

67

68

69

70

71

72

73

74

75

76

77

78

79

80

81

82

83

84

85

86

87

88

89

90

91

92

93

94

95

96

97

98

99

100

101

102

103

104

105

106

107

108

109

110

111

112

113

114

115

116

117

118

119

120

121

122

123

124

125

126

127

128

129

130

131

132

133

134

135

136

137

138

139

140

141

142

143

144

145

146

147

148

149

150

151

152

153

154

155

156

157

158

159

160

161

162

163

164

165

166

167

168

169

170

171

172

173

174

175

176

177

178

179

180

181

182

183

184

185

186

187

188

189

190

191

192

193

194

195

196

197

198

199

200

201

202

203

204

205

206

207

208