بانگِ درا (حصہ سوم) 1908کے بعد جلد ۳

بانگِ درا (حصہ سوم) 1908کے بعد27%

بانگِ درا (حصہ سوم) 1908کے بعد مؤلف:
زمرہ جات: شعری مجموعے
صفحے: 208

جلد ۱ جلد ۲ جلد ۳
  • ابتداء
  • پچھلا
  • 208 /
  • اگلا
  • آخر
  •  
  • ڈاؤنلوڈ HTML
  • ڈاؤنلوڈ Word
  • ڈاؤنلوڈ PDF
  • مشاہدے: 67919 / ڈاؤنلوڈ: 3103
سائز سائز سائز
بانگِ درا (حصہ سوم) 1908کے بعد

بانگِ درا (حصہ سوم) ۱۹۰۸کے بعد جلد ۳

مؤلف:
اردو

1

2

3

4

5

6

7

8

9

10

11

12

13

14

15

16

17

18

19

20

21

22

23

24

25

26

27

28

29

30

31

32

33

34

35

36

37

38

39

40

41

42

43

44

45

46

47

48

49

50

51

52

53

54

55

56

57

58

59

60

بجھ گیا وہ شعلہ جو مقصود ہر پروانہ تھا

اب کوئی سودائی سوز تمام آیا تو کیا

*

پھول بے پروا ہیں ، تو گرم نوا ہو یا نہ ہو

کارواں بے حس ہے ، آواز درا ہو یا نہ ہو

*

شمع محفل ہو کے تو جب سوز سے خالی رہا

تیرے پروانے بھی اس لذت سے بیگانے رہے

*

رشتۂ الفت میں جب ان کو پرو سکتا تھا تو

پھر پریشاں کیوں تری تسبیح کے دانے رہے

*

شوق بے پروا گیا ، فکر فلک پیما گیا

تیری محفل میں نہ دیوانے نہ فرزانے رہے

*

وہ جگر سوزی نہیں ، وہ شعلہ آشامی نہیں

فائدہ پھر کیا جو گرد شمع پروانے رہے

*

خیر ، تو ساقی سہی لیکن پلائے گا کسے

اب نہ وہ مے کش رہے باقی نہ مے خانے رہے

*

رو رہی ہے آج اک ٹوٹی ہوئی مینا اسے

کل تلک گردش میں جس ساقی کے پیمانے رہے

*

۶۱

آج ہیں خاموش وہ دشت جنوں پرور جہاں

رقص میں لیلی رہی ، لیلی کے دیوانے رہے

*

وائے ناکامی! متاع کارواں جاتا رہا

کارواں کے دل سے احساس زیاں جاتا رہا

*

جن کے ہنگاموں سے تھے آباد ویرانے کبھی

شہر ان کے مٹ گئے آبادیاں بن ہو گئیں

*

سطوت توحید قائم جن نمازوں سے ہوئی

وہ نمازیں ہند میں نذر برہمن ہو گئیں

*

دہر میں عیش دوام آئیں کی پابندی سے ہے

موج کو آزادیاں سامان شیون ہو گئیں

*

خود تجلی کو تمنا جن کے نظاروں کی تھی

وہ نگاہیں نا امید نور ایمن ہو گئیں

*

اڑتی پھرتی تھیں ہزاروں بلبلیں گلزار میں

دل میں کیا آئی کہ پابند نشیمن ہو گئیں

*

وسعت گردوں میں تھی ان کی تڑپ نظارہ سوز

بجلیاں آسودۂ دامان خرمن ہو گئیں

*

۶۲

دیدۂ خونبار ہو منت کش گلزار کیوں

اشک پیہم سے نگاہیں گل بہ دامن ہو گئیں

*

شام غم لیکن خبر دیتی ہے صبح عید کی

ظلمت شب میں نظر آئی کرن امید کی

*

مژدہ اے پیمانہ بردار خمستان حجاز!

بعد مدت کے ترے رندوں کو پھر آیا ہے ہوش

*

نقد خود داری بہائے بادۂ اغیار تھی

پھر دکاں تیری ہے لبریز صدائے ناؤ نوش

*

ٹوٹنے کو ہے طلسم ماہ سیمایان ہند

پھر سلیمی کی نظر دیتی ہے پیغام خروش

*

پھر یہ غوغا ہے کہ لاساقی شراب خانہ ساز

دل کے ہنگامے مۓ مغرب نے کر ڈالے خموش

*

نغمہ پیرا ہو کہ یہ ہنگام خاموشی نہیں

ہے سحر کا آسماں خورشید سے مینا بدوش

*

در غم دیگر بسوز و دیگراں را ہم بسوز

گفتمت روشن حدیثے گر توانی دار گوش

*

۶۳

کہہ گئے ہیں شاعری جزو یست از پیغمبری

ہاں سنا دے محفل ملت کو پیغام سروش

*

آنکھ کو بیدار کر دے وعدۂ دیدار سے

زندہ کر دے دل کو سوز جوہر گفتار سے

*

رہزن ہمت ہوا ذوق تن آسانی ترا

بحر تھا صحرا میں تو ، گلشن میں مثل جو ہوا

*

اپنی اصلیت پہ قائم تھا تو جمعیت بھی تھی

چھوڑ کر گل کو پریشاں کاروان بو ہوا

*

زندگی قطرے کی سکھلاتی ہے اسرار حیات

یہ کبھی گوہر ، کبھی شبنم ، کبھی آنسو ہوا

*

پھر کہیں سے اس کو پیدا کر ، بڑی دولت ہے یہ

زندگی کیسی جو دل بیگانۂ پہلو ہوا

*

فرد قائم ربط ملت سے ہے ، تنہا کچھ نہیں

موج ہے دریا میں اور بیرون دریا کچھ نہیں

*

پردۂ دل میں محبت کو ابھی مستور رکھ

آبر باقی تری ملت کی جمیعت ہے تھی

*

۶۴

جب یہ جمعیّت گئی ، دنیا میں رسوا تو ہوا

یعنی اپنی مے کو رسوا صورت مینا نہ کر

*

خیمہ زن ہو وادی سینا میں مانند کلیم

شعلۂ تحقیق کو غارت گر کاشانہ کر

*

شمع کو بھی ہو ذرا معلوم انجام ستم

صرف تعمیر سحر خاکستر پروانہ کر

*

تو اگر خود دار ہے ، منت کش ساقی نہ ہو

عین دریا میں حباب آسا نگوں پیمانہ کر

*

کیفیت باقی پرانے کوہ و صحرا میں نہیں

ہے جنوں تیرا نیا، پیدا نیا ویرانہ کر

*

خاک میں تجھ کو مقدر نے ملایا ہے اگر

تو عصا افتاد سے پیدا مثال دانہ کر

*

ہاں ، اسی شاخ کہن پر پھر بنا لے آشیاں

اہل گلشن کو شہید نغمۂ مستانہ کر

*

اس چمن میں پیرو بلبل ہو یا تلمیذ گل

یا سراپا نالہ بن جا یا نوا پیدا نہ کر

*

۶۵

کیوں چمن میں بے صدا مثل رم شبنم ہے تو

لب کشا ہو جا ، سرود بربط عالم ہے تو

*

آشنا اپنی حقیقت سے ہو اے دہقاں ذرا

دانہ تو ، کھیتی بھی تو ، باراں بھی تو ، حاصل بھی تو

*

آہ ، کس کی جستجو آوارہ رکھتی ہے تجھے

راہ تو ، رہرو بھی تو، رہبر بھی تو ، منزل بھی تو

*

کانپتا ہے دل ترا اندیشۂ طوفاں سے کیا

ناخدا تو ، بحر تو ، کشتی بھی تو ، ساحل بھی تو

*

دیکھ آ کر کوچۂ چاک گریباں میں کبھی

قیس تو، لیلی بھی تو ، صحرا بھی تو، محمل بھی تو

*

وائے نادانی کہ تو محتاج ساقی ہو گیا

مے بھی تو، مینا بھی تو، ساقی بھی تو، محفل بھی تو

*

شعلہ بن کر پھونک دے خاشاک غیر اللہ کو

خوف باطل کیا کہ ہے غارت گر باطل بھی تو

*

بے خبر! تو جوہر آئینۂ ایام ہے

تو زمانے میں خدا کا آخری پیغام ہے

*

۶۶

اپنی اصلیت سے ہو آگاہ اے غافل کہ تو

قطرہ ہے ، لیکن مثال بحر بے پایاں بھی ہے

*

کیوں گرفتار طلسم ہیچ مقداری ہے تو

دیکھ تو پوشیدہ تجھ میں شوکت طوفاں بھی ہے

*

سینہ ہے تیرا امیں اس کے پیام ناز کا

جو نظام دہر میں پیدا بھی ہے ، پنہاں بھی ہے

*

ہفت کشور جس سے ہو تسخیر بے تیغ و تفنگ

تو اگر سمجھے تو تیرے پاس وہ ساماں بھی ہے

*

اب تلک شاہد ہے جس پر کوہ فاراں کا سکوت

اے تغافل پیشہ! تجھ کو یاد وہ پیماں بھی ہے ؟

*

تو ہی ناداں چند کلیوں پر قناعت کر گیا

ورنہ گلشن میں علاج تنگی داماں بھی ہے

*

دل کی کیفیت ہے پیدا پردۂ تقریر میں

کسوت مینا میں مے مستور بھی ، عریاں بھی ہے

*

پھونک ڈالا ہے مری آتش نوائی نے مجھے

اورمیری زندگانی کا یہی ساماں بھی ہے

*

۶۷

راز اس آتش نوائی کا مرے سینے میں دیکھ

جلوۂ تقدیر میرے دل کے آئینے میں دیکھ!

*

آسماں ہوگا سحر کے نور سے آئینہ پوش

اور ظلمت رات کی سیماب پا ہو جائے گی

*

اس قدر ہوگی ترنم آفریں باد بہار

نکہت خوابیدہ غنچے کی نوا ہو جائے گی

*

آ ملیں گے سینہ چاکان چمن سے سینہ چاک

بزم گل کی ہم نفس باد صبا ہو جائے گی

*

شبنم افشانی مری پیدا کرے گی سوز و ساز

اس چمن کی ہر کلی درد آشنا ہو جائے گی

*

دیکھ لو گے سطوت رفتار دریا کا مآل

موج مضطر ہی اسے زنجیر پا ہو جائے گی

*

پھر دلوں کو یاد آ جائے گا پیغام سجود

پھر جبیں خاک حرم سے آشنا ہو جائے گی

*

نالۂ صیاد سے ہوں گے نوا ساماں طیور

خون گلچیں سے کلی رنگیں قبا ہو جائے گی

*

۶۸

آنکھ جو کچھ دیکھتی ہے ، لب پہ آ سکتا نہیں

محو حیرت ہوں کہ دنیا کیا سے کیا ہو جائے گی

*

شب گریزاں ہو گی آخر جلوہ خورشید سے

یہ چمن معمور ہوگا نغمۂ توحید سے

***

۶۹

مسلم

(جون۱۹۱۲ء)

ہر نفس اقبال تیرا آہ میں مستور ہے

سینۂ سوزاں ترا فریاد سے معمور ہے

*

نغمۂ امید تیری بربط دل میں نہیں

ہم سمجھتے ہیں یہ لیلی تیرے محمل میں نہیں

*

گوش آواز سرود رفتہ کا جویا ترا

اور دل ہنگامۂ حاضر سے بے پروا ترا

*

قصۂ گل ہم نوایان چمن سنتے نہیں

اہل محفل تیرا پیغام کہن سنتے نہیں

*

اے درائے کاروان خفتہ پا! خاموش رہ

ہے بہت یاس آفریں تیری صدا خاموش رہ

*

زندہ پھر وہ محفل دیرینہ ہو سکتی نہیں

شمع سے روشن شب دو شینہ ہوسکتی نہیں

*

ہم نشیں! مسلم ہوں میں، توحید کا حامل ہوں میں

اس صداقت پر ازل سے شاہد عادل ہوں میں

*

۷۰

نبض موجودات میں پیدا حرارت اس سے ہے

اور مسلم کے تخیل میں جسارت اس سے ہے

*

حق نے عالم اس صداقت کے لیے پیدا کیا

اور مجھے اس کی حفاظت کے لیے پیدا کیا

*

دہر میں غارت گر باطل پرستی میں ہوا

حق تو یہ ہے حافظ ناموس ہستی میں ہوا

*

میری ہستی پیرہن عریانی عالم کی ہے

میرے مٹ جانے سے رسوائی بنی آدم کی ہے

*

قسمت عالم کا مسلم کوکب تابندہ ہے

جس کی تابانی سے افسون سحر شرمندہ ہے

*

آشکارا ہیں مری آنکھوں پہ اسرار حیات

کہہ نہیں سکتے مجھے نومید پیکار حیات

*

کب ڈرا سکتا ہے غم کا عارضی منظر مجھے

ہے بھروسا اپنی ملت کے مقدر پر مجھے

*

یاس کے عنصر سے ہے آزاد میرا روزگار

فتح کامل کی خبر دیتا ہے جوش کارزار

*

۷۱

ہاں یہ سچ ہے چشم بر عہد کہن رہتا ہوں میں

اہل محفل سے پرانی داستاں کہتا ہوں میں

*

یاد عہد رفتہ میری خاک کو اکسیر ہے

میرا ماضی میرے استقبال کی تفسیر ہے

*

سامنے رکھتا ہوں اس دور نشاط افزا کو میں

دیکھتا ہوں دوش کے آئینے میں فردا کو میں

***

۷۲

حضور رسالت مآب میں

گراں جو مجھ پہ یہ ہنگامۂ زمانہ ہوا

جہاں سے باندھ کے رخت سفر روانہ ہوا

*

قیود شام وسحر میں بسر تو کی لیکن

نظام کہنۂ عالم سے آشنا نہ ہوا

*

فرشتے بزم رسالت میں لے گئے مجھ کو

حضور آیۂ رحمت میں لے گئے مجھ کو

*

کہا حضور نے ، اے عندلیب باغ حجاز!

کلی کلی ہے تری گرمئ نوا سے گداز

*

ہمیشہ سرخوش جام ولا ہے دل تیرا

فتادگی ہے تری غیرت سجود نیاز

*

اڑا جو پستی دنیا سے تو سوئے گردوں

سکھائی تجھ کو ملائک نے رفعت پرواز

*

نکل کے باغ جہاں سے برنگ بو آیا

ہمارے واسطے کیا تحفہ لے کے تو آیا؟

*

۷۳

""حضور! دہر میں آسودگی نہیں ملتی

تلاش جس کی ہے وہ زندگی نہیں ملتی

*

ہزاروں لالہ و گل ہیں ریاض ہستی میں

وفا کی جس میں ہو بو" وہ کلی نہیں ملتی

*

مگر میں نذر کو اک آبگینہ لایا ہوں

جو چیز اس میں ہے" جنت میں بھی نہیں ملتی

*

جھلکتی ہے تری امت کی آبرو اس میں

طرابلس کے شہیدوں کا ہے لہو اس میں""

***

۷۴

شفاخانۂ حجاز

اک پیشوائے قوم نے اقبال سے کہا

کھلنے کو جدہ میں ہے شفاخانۂ حجاز

*

ہوتا ہے تیری خاک کا ہر ذرہ بے قرار

سنتا ہے تو کسی سے جو افسانۂ حجاز

*

دست جنوں کو اپنے بڑھا جیب کی طرف

مشہور تو جہاں میں ہے دیوانۂ حجاز

*

دارالشفا حوالی لبطحا میں چاہیے

نبض مریض پنجۂ عیسی میں چاہیے

*

میں نے کہا کہ موت کے پردے میں ہے حیات

پوشیدہ جس طرح ہو حقیقت مجاز میں

*

تلخابۂ اجل میں جو عاشق کو مل گیا

پایا نہ خضر نے مے عمر دراز میں

*

اوروں کو دیں حضور! یہ پیغام زندگی

میں موت ڈھونڈتا ہوں زمین حجاز میں

*

آئے ہیں آپ لے کے شفا کا پیام کیا

رکھتے ہیں اہل درد مسیحا سے کام کیا!

***

۷۵

جواب شکوہ

دل سے جو بات نکلتی ہے اثر رکھتی ہے

پر نہیں ، طاقتِ پرواز مگر رکھتی ہے

*

قدسی الاصل ہے، رفعت پہ نظر رکھتی ہے

خاک سے اُٹھتی ہے ، گردُوں پہ گزر رکھتی ہے

*

عشق تھا فتنہ گر و سرکش و چالاک مرا

آسماں چیر گیا نالۂ فریاد مرا

*

پیر گردُوں نے کہا سُن کے ، کہیں ہے کوئی !

بولے سیارے ، سرِ عرشِ بریں ہے کوئی !

*

چاند کہتا تھا ، نہیں اہلِ زمیں ہے کوئی !

کہکشاں کہتی تھی پوشیدہ یہیں ہے کوئی !

*

کُچھ جو سمجھا مرے شکوے کو تو رضواں سمجھا

مجھے جنت سے نکالا ہوا انساں سمجھا

*

تھی فرشتوں کو بھی حیرت کہ یہ آواز ہے کیا !

عرش والوں پہ بھی کھلتا نہیں یہ راز ہے کیا !

*

۷۶

تا سرِ عرش بھی انساں کی تگ و تاز ہے کیا ؟

آ گئی خاک کی چُٹکی کو بھی پرواز ہے کیا ؟

*

غافل آداب سے سُکانِ زمیں کیسے ہیں !

شوخ و گُستاخ یہ پستی کے مکیں کیسے ہیں !

*

اس قدر شوخ کہ اللہ سے بھی برہم ہے

تھا جو مسجودِ ملائک یہ وہی آدم ہے ؟

*

عالمِ کیف ہے دانائے رموزِ کم ہے

ہاں ، مگر عجز کے اسرار سے نا محرم ہے

*

ناز ہے طاقتِ گُفتار پہ انسانوں کو

بات کرنے کا سلیقہ نہیں نادانوں کو

*

آئی آواز غم انگیز ہے افسانہ ترا

اشکِ بیتاب سے لبریز ہے پیمانہ ترا

*

آسماں گیر ہوا نعرۂ مستانہ ترا

کس قدر شوخ زباں ہے دلِ دیوانہ ترا

*

شکر شکوے کو کیا حُسنِ ادا سے تُو نے

ہم سُخن کر دیا بندوں کو خدا سے تُو نے

*

۷۷

ہم تو مائل بہ کرم ہیں کوئی سائل ہی نہیں

راہ دکھلائیں کسے؟ رہروِ منزل ہی نہیں

*

تربیت عام تو ہے ، جوہرِ قابل ہی نہیں

جس سے تعمیر ہو آدم کی ، یہ وہ گِل ہی نہیں

*

کوئی قابل ہو تو ہم شان کئی دیتے ہیں

ڈُھونڈنے والوں کو دُنیا بھی نئی دیتے ہیں

*

ہاتھ بے زور ہیں ، الحاد سے دل خُوگر ہیں

اُمتی باعثِ رسوائی پیغمبر ہیں

*

بُت شکن اُٹھ گئے ، باقی جو رہے بُت گر ہیں

تھا براہیم پدر اور پسر آذر ہیں

*

بادہ آشام نئے ، بادہ نیا ، خم بھی نئے

حرمِ کعبہ نیا ، بُت بھی نئے ، تم بھی نئے

*

وہ بھی دِن تھے کہ یہی مایۂ رعنائی تھا !

نازشِ موسمِ گُل ، لالۂ صحرائی تھا !

*

جو مُسلمان تھا اللہ کا سَودائی تھا !

کبھی محبُوب تمہارا یہی ہرجائی تھا !

*

۷۸

کسی یکجائی سے اَب عہدِ غُلامی کر لو

ملتِ احمدِ مُرسل کو مقامی کر لو

*

کِس قدر تُم پہ گراں صُبح کی بیداری ہے !

ہم سے کب پیار ہے ؟ ہاں نیند تُمہیں پیاری ہے

*

طبع آزاد پہ قیدِ رمضاں بھاری ہے

تمہیں کہہ دو یہی آئینِ وفا داری ہے ؟

*

قوم مذہب سے ہے ، مذہب جو نہیں تم بھی نہیں

جذبِ باہم جو نہیں ، محفلِ انجم بھی نہیں

*

جن کو آتا نہیں دُنیا میں کوئی فن ، تُم ہو

نہیں جس قوم کو پروائے نشیمن ، تُم ہو

*

بِجلیاں جِس میں ہوں آسُودہ وہ خرمن ، تُم ہو

بیچ کھاتے ہیں جو اسلاف کے مدفن ، تُم ہو

*

ہو نکو نام جو قبروں کی تجارت کر کے

کیا نہ بیچو گے جو مل جائیں صنم پتھر کے ؟

*

صفحۂ دہر سے باطل کو مٹایا کس نے ؟

نوعِ انساں کو غلامی سے چُھڑایا کس نے ؟

*

۷۹

میرے کعبے کو جبینوں سے بسایا کس نے ؟

میرے قرآن کو سینوں سے لگایا کس نے ؟

*

تھے تو آباء وہ تمہارے ہی ، مگر تم کیا ہو ؟

ہاتھ پر ہاتھ دھرے منتظرِ فردا ہو !

*

کیا گیا ؟ بہرِ مُسلماں ہے فقط وعدۂ حُور

شکوہ بیجا بھی کرے کوئی تو لازم ہے شعور !

*

عدل ہے فاطرِ ہستی کا اَزل سے دستور

مُسلم آئیں ہوا کافر تو ملے حُور و قصور

*

تُم میں حُوروں کا کوئی چاہنے والا ہی نہیں

جلوۂ طُور تو موجُود ہے مُوسٰی ہی نہیں

*

منفعت ایک ہے اِس قوم کی ، نقصان بھی ایک

ایک ہی سب کا نبی ، دین بھی ، ایمان بھی ایک

*

حرمِ پاک بھی ، اللہ بھی ، قُرآن بھی ایک

کچھ بڑی بات تھی ہوتے جو مُسلمان بھی ایک؟

*

فرقہ بندی ہے کہیں ، اور کہیں ذاتیں ہیں !

کیا زمانے میں پنپنے کی یہی باتیں ہیں ؟

*

۸۰

81

82

83

84

85

86

87

88

89

90

91

92

93

94

95

96

97

98

99

100

101

102

103

104

105

106

107

108

109

110

111

112

113

114

115

116

117

118

119

120

121

122

123

124

125

126

127

128

129

130

131

132

133

134

135

136

137

138

139

140

141

142

143

144

145

146

147

148

149

150

151

152

153

154

155

156

157

158

159

160

161

162

163

164

165

166

167

168

169

170

171

172

173

174

175

176

177

178

179

180

181

182

183

184

185

186

187

188

189

190

191

192

193

194

195

196

197

198

199

200

201

202

203

204

205

206

207

208