بانگِ درا (حصہ سوم) 1908کے بعد جلد ۳

بانگِ درا (حصہ سوم) 1908کے بعد0%

بانگِ درا (حصہ سوم) 1908کے بعد مؤلف:
زمرہ جات: شعری مجموعے
صفحے: 208

بانگِ درا (حصہ سوم) 1908کے بعد

مؤلف: علامہ ڈاکٹرمحمد اقبال لاہوری
زمرہ جات:

صفحے: 208
مشاہدے: 52983
ڈاؤنلوڈ: 1529


تبصرے:

جلد 1 جلد 2 جلد 3
کتاب کے اندر تلاش کریں
  • ابتداء
  • پچھلا
  • 208 /
  • اگلا
  • آخر
  •  
  • ڈاؤنلوڈ HTML
  • ڈاؤنلوڈ Word
  • ڈاؤنلوڈ PDF
  • مشاہدے: 52983 / ڈاؤنلوڈ: 1529
سائز سائز سائز
بانگِ درا (حصہ سوم) 1908کے بعد

بانگِ درا (حصہ سوم) 1908کے بعد جلد 3

مؤلف:
اردو

بجھ گیا وہ شعلہ جو مقصود ہر پروانہ تھا

اب کوئی سودائی سوز تمام آیا تو کیا

*

پھول بے پروا ہیں ، تو گرم نوا ہو یا نہ ہو

کارواں بے حس ہے ، آواز درا ہو یا نہ ہو

*

شمع محفل ہو کے تو جب سوز سے خالی رہا

تیرے پروانے بھی اس لذت سے بیگانے رہے

*

رشتۂ الفت میں جب ان کو پرو سکتا تھا تو

پھر پریشاں کیوں تری تسبیح کے دانے رہے

*

شوق بے پروا گیا ، فکر فلک پیما گیا

تیری محفل میں نہ دیوانے نہ فرزانے رہے

*

وہ جگر سوزی نہیں ، وہ شعلہ آشامی نہیں

فائدہ پھر کیا جو گرد شمع پروانے رہے

*

خیر ، تو ساقی سہی لیکن پلائے گا کسے

اب نہ وہ مے کش رہے باقی نہ مے خانے رہے

*

رو رہی ہے آج اک ٹوٹی ہوئی مینا اسے

کل تلک گردش میں جس ساقی کے پیمانے رہے

*

۶۱

آج ہیں خاموش وہ دشت جنوں پرور جہاں

رقص میں لیلی رہی ، لیلی کے دیوانے رہے

*

وائے ناکامی! متاع کارواں جاتا رہا

کارواں کے دل سے احساس زیاں جاتا رہا

*

جن کے ہنگاموں سے تھے آباد ویرانے کبھی

شہر ان کے مٹ گئے آبادیاں بن ہو گئیں

*

سطوت توحید قائم جن نمازوں سے ہوئی

وہ نمازیں ہند میں نذر برہمن ہو گئیں

*

دہر میں عیش دوام آئیں کی پابندی سے ہے

موج کو آزادیاں سامان شیون ہو گئیں

*

خود تجلی کو تمنا جن کے نظاروں کی تھی

وہ نگاہیں نا امید نور ایمن ہو گئیں

*

اڑتی پھرتی تھیں ہزاروں بلبلیں گلزار میں

دل میں کیا آئی کہ پابند نشیمن ہو گئیں

*

وسعت گردوں میں تھی ان کی تڑپ نظارہ سوز

بجلیاں آسودۂ دامان خرمن ہو گئیں

*

۶۲

دیدۂ خونبار ہو منت کش گلزار کیوں

اشک پیہم سے نگاہیں گل بہ دامن ہو گئیں

*

شام غم لیکن خبر دیتی ہے صبح عید کی

ظلمت شب میں نظر آئی کرن امید کی

*

مژدہ اے پیمانہ بردار خمستان حجاز!

بعد مدت کے ترے رندوں کو پھر آیا ہے ہوش

*

نقد خود داری بہائے بادۂ اغیار تھی

پھر دکاں تیری ہے لبریز صدائے ناؤ نوش

*

ٹوٹنے کو ہے طلسم ماہ سیمایان ہند

پھر سلیمی کی نظر دیتی ہے پیغام خروش

*

پھر یہ غوغا ہے کہ لاساقی شراب خانہ ساز

دل کے ہنگامے مۓ مغرب نے کر ڈالے خموش

*

نغمہ پیرا ہو کہ یہ ہنگام خاموشی نہیں

ہے سحر کا آسماں خورشید سے مینا بدوش

*

در غم دیگر بسوز و دیگراں را ہم بسوز

گفتمت روشن حدیثے گر توانی دار گوش

*

۶۳

کہہ گئے ہیں شاعری جزو یست از پیغمبری

ہاں سنا دے محفل ملت کو پیغام سروش

*

آنکھ کو بیدار کر دے وعدۂ دیدار سے

زندہ کر دے دل کو سوز جوہر گفتار سے

*

رہزن ہمت ہوا ذوق تن آسانی ترا

بحر تھا صحرا میں تو ، گلشن میں مثل جو ہوا

*

اپنی اصلیت پہ قائم تھا تو جمعیت بھی تھی

چھوڑ کر گل کو پریشاں کاروان بو ہوا

*

زندگی قطرے کی سکھلاتی ہے اسرار حیات

یہ کبھی گوہر ، کبھی شبنم ، کبھی آنسو ہوا

*

پھر کہیں سے اس کو پیدا کر ، بڑی دولت ہے یہ

زندگی کیسی جو دل بیگانۂ پہلو ہوا

*

فرد قائم ربط ملت سے ہے ، تنہا کچھ نہیں

موج ہے دریا میں اور بیرون دریا کچھ نہیں

*

پردۂ دل میں محبت کو ابھی مستور رکھ

آبر باقی تری ملت کی جمیعت ہے تھی

*

۶۴

جب یہ جمعیّت گئی ، دنیا میں رسوا تو ہوا

یعنی اپنی مے کو رسوا صورت مینا نہ کر

*

خیمہ زن ہو وادی سینا میں مانند کلیم

شعلۂ تحقیق کو غارت گر کاشانہ کر

*

شمع کو بھی ہو ذرا معلوم انجام ستم

صرف تعمیر سحر خاکستر پروانہ کر

*

تو اگر خود دار ہے ، منت کش ساقی نہ ہو

عین دریا میں حباب آسا نگوں پیمانہ کر

*

کیفیت باقی پرانے کوہ و صحرا میں نہیں

ہے جنوں تیرا نیا، پیدا نیا ویرانہ کر

*

خاک میں تجھ کو مقدر نے ملایا ہے اگر

تو عصا افتاد سے پیدا مثال دانہ کر

*

ہاں ، اسی شاخ کہن پر پھر بنا لے آشیاں

اہل گلشن کو شہید نغمۂ مستانہ کر

*

اس چمن میں پیرو بلبل ہو یا تلمیذ گل

یا سراپا نالہ بن جا یا نوا پیدا نہ کر

*

۶۵

کیوں چمن میں بے صدا مثل رم شبنم ہے تو

لب کشا ہو جا ، سرود بربط عالم ہے تو

*

آشنا اپنی حقیقت سے ہو اے دہقاں ذرا

دانہ تو ، کھیتی بھی تو ، باراں بھی تو ، حاصل بھی تو

*

آہ ، کس کی جستجو آوارہ رکھتی ہے تجھے

راہ تو ، رہرو بھی تو، رہبر بھی تو ، منزل بھی تو

*

کانپتا ہے دل ترا اندیشۂ طوفاں سے کیا

ناخدا تو ، بحر تو ، کشتی بھی تو ، ساحل بھی تو

*

دیکھ آ کر کوچۂ چاک گریباں میں کبھی

قیس تو، لیلی بھی تو ، صحرا بھی تو، محمل بھی تو

*

وائے نادانی کہ تو محتاج ساقی ہو گیا

مے بھی تو، مینا بھی تو، ساقی بھی تو، محفل بھی تو

*

شعلہ بن کر پھونک دے خاشاک غیر اللہ کو

خوف باطل کیا کہ ہے غارت گر باطل بھی تو

*

بے خبر! تو جوہر آئینۂ ایام ہے

تو زمانے میں خدا کا آخری پیغام ہے

*

۶۶

اپنی اصلیت سے ہو آگاہ اے غافل کہ تو

قطرہ ہے ، لیکن مثال بحر بے پایاں بھی ہے

*

کیوں گرفتار طلسم ہیچ مقداری ہے تو

دیکھ تو پوشیدہ تجھ میں شوکت طوفاں بھی ہے

*

سینہ ہے تیرا امیں اس کے پیام ناز کا

جو نظام دہر میں پیدا بھی ہے ، پنہاں بھی ہے

*

ہفت کشور جس سے ہو تسخیر بے تیغ و تفنگ

تو اگر سمجھے تو تیرے پاس وہ ساماں بھی ہے

*

اب تلک شاہد ہے جس پر کوہ فاراں کا سکوت

اے تغافل پیشہ! تجھ کو یاد وہ پیماں بھی ہے ؟

*

تو ہی ناداں چند کلیوں پر قناعت کر گیا

ورنہ گلشن میں علاج تنگی داماں بھی ہے

*

دل کی کیفیت ہے پیدا پردۂ تقریر میں

کسوت مینا میں مے مستور بھی ، عریاں بھی ہے

*

پھونک ڈالا ہے مری آتش نوائی نے مجھے

اورمیری زندگانی کا یہی ساماں بھی ہے

*

۶۷

راز اس آتش نوائی کا مرے سینے میں دیکھ

جلوۂ تقدیر میرے دل کے آئینے میں دیکھ!

*

آسماں ہوگا سحر کے نور سے آئینہ پوش

اور ظلمت رات کی سیماب پا ہو جائے گی

*

اس قدر ہوگی ترنم آفریں باد بہار

نکہت خوابیدہ غنچے کی نوا ہو جائے گی

*

آ ملیں گے سینہ چاکان چمن سے سینہ چاک

بزم گل کی ہم نفس باد صبا ہو جائے گی

*

شبنم افشانی مری پیدا کرے گی سوز و ساز

اس چمن کی ہر کلی درد آشنا ہو جائے گی

*

دیکھ لو گے سطوت رفتار دریا کا مآل

موج مضطر ہی اسے زنجیر پا ہو جائے گی

*

پھر دلوں کو یاد آ جائے گا پیغام سجود

پھر جبیں خاک حرم سے آشنا ہو جائے گی

*

نالۂ صیاد سے ہوں گے نوا ساماں طیور

خون گلچیں سے کلی رنگیں قبا ہو جائے گی

*

۶۸

آنکھ جو کچھ دیکھتی ہے ، لب پہ آ سکتا نہیں

محو حیرت ہوں کہ دنیا کیا سے کیا ہو جائے گی

*

شب گریزاں ہو گی آخر جلوہ خورشید سے

یہ چمن معمور ہوگا نغمۂ توحید سے

***

۶۹

مسلم

(جون۱۹۱۲ء)

ہر نفس اقبال تیرا آہ میں مستور ہے

سینۂ سوزاں ترا فریاد سے معمور ہے

*

نغمۂ امید تیری بربط دل میں نہیں

ہم سمجھتے ہیں یہ لیلی تیرے محمل میں نہیں

*

گوش آواز سرود رفتہ کا جویا ترا

اور دل ہنگامۂ حاضر سے بے پروا ترا

*

قصۂ گل ہم نوایان چمن سنتے نہیں

اہل محفل تیرا پیغام کہن سنتے نہیں

*

اے درائے کاروان خفتہ پا! خاموش رہ

ہے بہت یاس آفریں تیری صدا خاموش رہ

*

زندہ پھر وہ محفل دیرینہ ہو سکتی نہیں

شمع سے روشن شب دو شینہ ہوسکتی نہیں

*

ہم نشیں! مسلم ہوں میں، توحید کا حامل ہوں میں

اس صداقت پر ازل سے شاہد عادل ہوں میں

*

۷۰

نبض موجودات میں پیدا حرارت اس سے ہے

اور مسلم کے تخیل میں جسارت اس سے ہے

*

حق نے عالم اس صداقت کے لیے پیدا کیا

اور مجھے اس کی حفاظت کے لیے پیدا کیا

*

دہر میں غارت گر باطل پرستی میں ہوا

حق تو یہ ہے حافظ ناموس ہستی میں ہوا

*

میری ہستی پیرہن عریانی عالم کی ہے

میرے مٹ جانے سے رسوائی بنی آدم کی ہے

*

قسمت عالم کا مسلم کوکب تابندہ ہے

جس کی تابانی سے افسون سحر شرمندہ ہے

*

آشکارا ہیں مری آنکھوں پہ اسرار حیات

کہہ نہیں سکتے مجھے نومید پیکار حیات

*

کب ڈرا سکتا ہے غم کا عارضی منظر مجھے

ہے بھروسا اپنی ملت کے مقدر پر مجھے

*

یاس کے عنصر سے ہے آزاد میرا روزگار

فتح کامل کی خبر دیتا ہے جوش کارزار

*

۷۱

ہاں یہ سچ ہے چشم بر عہد کہن رہتا ہوں میں

اہل محفل سے پرانی داستاں کہتا ہوں میں

*

یاد عہد رفتہ میری خاک کو اکسیر ہے

میرا ماضی میرے استقبال کی تفسیر ہے

*

سامنے رکھتا ہوں اس دور نشاط افزا کو میں

دیکھتا ہوں دوش کے آئینے میں فردا کو میں

***

۷۲

حضور رسالت مآب میں

گراں جو مجھ پہ یہ ہنگامۂ زمانہ ہوا

جہاں سے باندھ کے رخت سفر روانہ ہوا

*

قیود شام وسحر میں بسر تو کی لیکن

نظام کہنۂ عالم سے آشنا نہ ہوا

*

فرشتے بزم رسالت میں لے گئے مجھ کو

حضور آیۂ رحمت میں لے گئے مجھ کو

*

کہا حضور نے ، اے عندلیب باغ حجاز!

کلی کلی ہے تری گرمئ نوا سے گداز

*

ہمیشہ سرخوش جام ولا ہے دل تیرا

فتادگی ہے تری غیرت سجود نیاز

*

اڑا جو پستی دنیا سے تو سوئے گردوں

سکھائی تجھ کو ملائک نے رفعت پرواز

*

نکل کے باغ جہاں سے برنگ بو آیا

ہمارے واسطے کیا تحفہ لے کے تو آیا؟

*

۷۳

""حضور! دہر میں آسودگی نہیں ملتی

تلاش جس کی ہے وہ زندگی نہیں ملتی

*

ہزاروں لالہ و گل ہیں ریاض ہستی میں

وفا کی جس میں ہو بو" وہ کلی نہیں ملتی

*

مگر میں نذر کو اک آبگینہ لایا ہوں

جو چیز اس میں ہے" جنت میں بھی نہیں ملتی

*

جھلکتی ہے تری امت کی آبرو اس میں

طرابلس کے شہیدوں کا ہے لہو اس میں""

***

۷۴

شفاخانۂ حجاز

اک پیشوائے قوم نے اقبال سے کہا

کھلنے کو جدہ میں ہے شفاخانۂ حجاز

*

ہوتا ہے تیری خاک کا ہر ذرہ بے قرار

سنتا ہے تو کسی سے جو افسانۂ حجاز

*

دست جنوں کو اپنے بڑھا جیب کی طرف

مشہور تو جہاں میں ہے دیوانۂ حجاز

*

دارالشفا حوالی لبطحا میں چاہیے

نبض مریض پنجۂ عیسی میں چاہیے

*

میں نے کہا کہ موت کے پردے میں ہے حیات

پوشیدہ جس طرح ہو حقیقت مجاز میں

*

تلخابۂ اجل میں جو عاشق کو مل گیا

پایا نہ خضر نے مے عمر دراز میں

*

اوروں کو دیں حضور! یہ پیغام زندگی

میں موت ڈھونڈتا ہوں زمین حجاز میں

*

آئے ہیں آپ لے کے شفا کا پیام کیا

رکھتے ہیں اہل درد مسیحا سے کام کیا!

***

۷۵

جواب شکوہ

دل سے جو بات نکلتی ہے اثر رکھتی ہے

پر نہیں ، طاقتِ پرواز مگر رکھتی ہے

*

قدسی الاصل ہے، رفعت پہ نظر رکھتی ہے

خاک سے اُٹھتی ہے ، گردُوں پہ گزر رکھتی ہے

*

عشق تھا فتنہ گر و سرکش و چالاک مرا

آسماں چیر گیا نالۂ فریاد مرا

*

پیر گردُوں نے کہا سُن کے ، کہیں ہے کوئی !

بولے سیارے ، سرِ عرشِ بریں ہے کوئی !

*

چاند کہتا تھا ، نہیں اہلِ زمیں ہے کوئی !

کہکشاں کہتی تھی پوشیدہ یہیں ہے کوئی !

*

کُچھ جو سمجھا مرے شکوے کو تو رضواں سمجھا

مجھے جنت سے نکالا ہوا انساں سمجھا

*

تھی فرشتوں کو بھی حیرت کہ یہ آواز ہے کیا !

عرش والوں پہ بھی کھلتا نہیں یہ راز ہے کیا !

*

۷۶

تا سرِ عرش بھی انساں کی تگ و تاز ہے کیا ؟

آ گئی خاک کی چُٹکی کو بھی پرواز ہے کیا ؟

*

غافل آداب سے سُکانِ زمیں کیسے ہیں !

شوخ و گُستاخ یہ پستی کے مکیں کیسے ہیں !

*

اس قدر شوخ کہ اللہ سے بھی برہم ہے

تھا جو مسجودِ ملائک یہ وہی آدم ہے ؟

*

عالمِ کیف ہے دانائے رموزِ کم ہے

ہاں ، مگر عجز کے اسرار سے نا محرم ہے

*

ناز ہے طاقتِ گُفتار پہ انسانوں کو

بات کرنے کا سلیقہ نہیں نادانوں کو

*

آئی آواز غم انگیز ہے افسانہ ترا

اشکِ بیتاب سے لبریز ہے پیمانہ ترا

*

آسماں گیر ہوا نعرۂ مستانہ ترا

کس قدر شوخ زباں ہے دلِ دیوانہ ترا

*

شکر شکوے کو کیا حُسنِ ادا سے تُو نے

ہم سُخن کر دیا بندوں کو خدا سے تُو نے

*

۷۷

ہم تو مائل بہ کرم ہیں کوئی سائل ہی نہیں

راہ دکھلائیں کسے؟ رہروِ منزل ہی نہیں

*

تربیت عام تو ہے ، جوہرِ قابل ہی نہیں

جس سے تعمیر ہو آدم کی ، یہ وہ گِل ہی نہیں

*

کوئی قابل ہو تو ہم شان کئی دیتے ہیں

ڈُھونڈنے والوں کو دُنیا بھی نئی دیتے ہیں

*

ہاتھ بے زور ہیں ، الحاد سے دل خُوگر ہیں

اُمتی باعثِ رسوائی پیغمبر ہیں

*

بُت شکن اُٹھ گئے ، باقی جو رہے بُت گر ہیں

تھا براہیم پدر اور پسر آذر ہیں

*

بادہ آشام نئے ، بادہ نیا ، خم بھی نئے

حرمِ کعبہ نیا ، بُت بھی نئے ، تم بھی نئے

*

وہ بھی دِن تھے کہ یہی مایۂ رعنائی تھا !

نازشِ موسمِ گُل ، لالۂ صحرائی تھا !

*

جو مُسلمان تھا اللہ کا سَودائی تھا !

کبھی محبُوب تمہارا یہی ہرجائی تھا !

*

۷۸

کسی یکجائی سے اَب عہدِ غُلامی کر لو

ملتِ احمدِ مُرسل کو مقامی کر لو

*

کِس قدر تُم پہ گراں صُبح کی بیداری ہے !

ہم سے کب پیار ہے ؟ ہاں نیند تُمہیں پیاری ہے

*

طبع آزاد پہ قیدِ رمضاں بھاری ہے

تمہیں کہہ دو یہی آئینِ وفا داری ہے ؟

*

قوم مذہب سے ہے ، مذہب جو نہیں تم بھی نہیں

جذبِ باہم جو نہیں ، محفلِ انجم بھی نہیں

*

جن کو آتا نہیں دُنیا میں کوئی فن ، تُم ہو

نہیں جس قوم کو پروائے نشیمن ، تُم ہو

*

بِجلیاں جِس میں ہوں آسُودہ وہ خرمن ، تُم ہو

بیچ کھاتے ہیں جو اسلاف کے مدفن ، تُم ہو

*

ہو نکو نام جو قبروں کی تجارت کر کے

کیا نہ بیچو گے جو مل جائیں صنم پتھر کے ؟

*

صفحۂ دہر سے باطل کو مٹایا کس نے ؟

نوعِ انساں کو غلامی سے چُھڑایا کس نے ؟

*

۷۹

میرے کعبے کو جبینوں سے بسایا کس نے ؟

میرے قرآن کو سینوں سے لگایا کس نے ؟

*

تھے تو آباء وہ تمہارے ہی ، مگر تم کیا ہو ؟

ہاتھ پر ہاتھ دھرے منتظرِ فردا ہو !

*

کیا گیا ؟ بہرِ مُسلماں ہے فقط وعدۂ حُور

شکوہ بیجا بھی کرے کوئی تو لازم ہے شعور !

*

عدل ہے فاطرِ ہستی کا اَزل سے دستور

مُسلم آئیں ہوا کافر تو ملے حُور و قصور

*

تُم میں حُوروں کا کوئی چاہنے والا ہی نہیں

جلوۂ طُور تو موجُود ہے مُوسٰی ہی نہیں

*

منفعت ایک ہے اِس قوم کی ، نقصان بھی ایک

ایک ہی سب کا نبی ، دین بھی ، ایمان بھی ایک

*

حرمِ پاک بھی ، اللہ بھی ، قُرآن بھی ایک

کچھ بڑی بات تھی ہوتے جو مُسلمان بھی ایک؟

*

فرقہ بندی ہے کہیں ، اور کہیں ذاتیں ہیں !

کیا زمانے میں پنپنے کی یہی باتیں ہیں ؟

*

۸۰