بانگِ درا (حصہ دوم ) 1905 سے 1908 تک جلد ۲

بانگِ درا (حصہ دوم )  1905 سے 1908 تک مؤلف:
زمرہ جات: شعری مجموعے
صفحے: 51

  • ابتداء
  • پچھلا
  • 51 /
  • اگلا
  • آخر
  •  
  • ڈاؤنلوڈ HTML
  • ڈاؤنلوڈ Word
  • ڈاؤنلوڈ PDF
  • مشاہدے: 23100 / ڈاؤنلوڈ: 3078
سائز سائز سائز
بانگِ درا (حصہ دوم )  1905 سے 1908 تک

بانگِ درا (حصہ دوم ) ۱۹۰۵ سے ۱۹۰۸ تک جلد ۲

مؤلف:
اردو

۱

۲

۳

۴

۵

۶

۷

۸

۹

۱۰

۱۱

۱۲

۱۳

۱۴

۱۵

۱۶

۱۷

۱۸

۱۹

۲۰

۲۱

۲۲

۲۳

۲۴

۲۵

۲۶

۲۷

۲۸

۲۹

۳۰

۳۱

۳۲

۳۳

۳۴

۳۵

۳۶

۳۷

۳۸

۳۹

۴۰

ارشاد رب العزت

( یَاأَیُّهَا النَّبِیُّ لِمَ تُحَرِّمُ مَا أَحَلَّ الله لَکَ تَبْتَغِیْ مَرْضَاةَ أَزْوَاجِکَ وَالله غَفُوْرٌ رَحِیْمٌ قَدْ فَرَضَ الله لَکُمْ تَحِلَّةَ أَیْمَانِکُمْ وَالله مَوْلَاکُمْ وَهُوَ الْعَلِیْمُ الْحَکِیْمُ وَإِذْ أَسَرَّ النَّبِیُّ إِلٰی بَعْضِ أَزْوَاجِه حَدِیْثًا فَلَمَّا نَبَّأَتْ بِه وَأَظْهَرَهُ الله عَلَیْهِ عَرَّفَ بَعْضَه وَأَعْرَضَ عَنْ م بَعْضٍ فَلَمَّا نَبَّأَهَا بِه قَالَتْ مَنْ أَنْبَأَکَ هَذَا قَالَ نَبَّأَنِیْ الْعَلِیْمُ الْخَبِیْرُ إِنْ تَتُوْبَا إِلَی الله فَقَدْ صَغَتْ قُلُوْبُکُمَا وَإِنْ تَظَاهَرَا عَلَیْهِ فَإِنَّ الله هُوَ مَوْلاَهُ وَجِبْرِیْلُ وَصَالِحُ الْمُؤْمِنِیْنَ وَالْمَلاَئِکَةُ بَعْدَ ذٰلِکَ ظَهِیْرٌ عَسٰی رَبُّه إِنْ طَلَّقَکُنَّ أَنْ یُّبْدِلَه أَزْوَاجًا خَیْرًا مِّنْکُنَّ مُسْلِمَاتٍ مُؤْمِنَاتٍ قَانِتَاتٍ تَائِبَاتٍ عَابِدَاتٍ سَائِحَاتٍ ثَیِّبَاتٍ وَّأَبْکَارًا )

"اے نبی ! تم کیوں اس چیز کو حرام کرتے ہو جو اللہ نے تمہارے لئے حلال کی ہے(کیا اس لئے) کہ تم اپنی بیویوں کی خوشی چاہتے ہو اللہ معاف کرنے والا رحم فرمانے والا ہے اللہ نے تم لوگوں کے لئے اپنی قسموں سے نکلنے کا طریقہ مقرر کر دیا ہے اللہ تمارا مولیٰ اور وہی علیم و حکیم ہے (ترجمہ آیات از تفہیم القرآن مولانا مودودی )

(اور یہ معاملہ بھی قابل توجہ ہے کہ) نبی نے ایک بات اپنی ایک بیوی سے راز میں کہی تھی پھر جب اس بیوی نے (کسی اور) وہ راز ظاہر کر دیا اور اللہ نے نبی کو اس (افشاء راز) کی اطلاع دیدی تو نبی نے ا س پر کسی حد تک (اس بیوی کو) خبردار کیا اور کسی حد تک اس سے در گزر کیا پھر جب نبی نے اسے (افشاء راز کی) یہ بات بتائی تو اس نے پوچھا آپ کو اس کی کس نے خبر دی نبی نے کہا مجھے اس نے خبر دی جو سب کچھ جانتا ہے اور خوب باخبر ہے اگر تم دونوں اللہ سے توبہ کرتی ہو (تو یہ تمہارے لئے بہتر ہے) کیونکہ تمہارے دل سیدھی راہ سے ہٹ گئے ہیں اور اگر نبی کے مقابلہ میں تم نے باہم جتھہ بندی کی تو جان رکھو کہ اللہ اس کا مولیٰ ہے اور اس کے بعد جبرائیل اور تمام صالح اہل ایمان اور سب ملائکہ اس کے ساتھی اور مددگار ہیں بعید نہیں کہ اگر نبی تم سب بیویوں کو طلاق دے دے تو اللہ اسے ایسی بیویاں تمہارے بدلے میں عطا فرما دے جو تم سے بہتر ہوں ، سچی مسلمان ، باایمان ، اطاعت گزار ، توبہ گزار، عبادت گزار اور روزہ دار خواہ شوہر دیدہ ہو ں یا باکرہ جناب مولانا مودودی کے ترجمہ سے واضح ہو رہا ہے (اور باقی تراجم بھی اسی طرح ہی ہیں) کہ حال پتلا ہے کچھ اچھا نہیں خدا خیر کرے

۴۱

( ۱۴) جناب خدیجة الکبریٰ (زوجہ رسول اعظم )

واقعاً ایک تاریخ ساز خاتون جس نے گھر میں بیٹھ کر تجارت کی مختلف دیار اور امصار میں پھیلی ہوئی تجارت کو سنبھالے رکھا سب سے زیادہ مالدار لیکن عرب شہزادوں ، قبائلی سرداروں اور رؤساء کے پیغام ہائے عقد کو ٹھکرا کر رسول اعظم سے ازدواج کیا اور عورت کی عظمت کو چار چاند لگا دئیے عورت کھلونا نہیں عورت عظمت ہے عورت شرافت ہے عورت جانتی ہے کہ میرا شوہر کون ہو سکتا ہے سب کو ٹھکرا دیا کسی کی خوبصورتی، مالدار ہونا سامنے نہیں رکھا بلکہ نور الہی کو پسند کر کے اللہ و رسول کی خوشنودی کو ترجیح دی واہ رے تیری عظمت اے خدیجہ! خویلد کے اس معزز ترین خاندان کی فرد جو تین پشتوں کے بعد چوتھی میں رسول اعظم سے مل جاتا ہے تزویج سے قبل طاہرہ و سیدہ قریش کے لقب سے پکاری جاتی تھی

قال زبیر کانت تدعٰی فی الجاھلیہ طاہرہ استیعاب برحاشیہ اصابہ جلد ۴ ص ۲۷۹ کانت تدعی فی الجاھلیة بالطاہرہ و کان قیل لہا السیدہ قریش (سیرت حلبیہ جلد ۱ ، ص ۱۸۷)

حضور مدنی زندگی میں اکثر خدیجہ کا ذکر کرتے رہتے اور فرماتے تھے:رزقنی الله اولادها وحرمنی اولاد النساء خدا نے خدیجہ سے مجھے اولاد عطا کی جب کہ اور عورتوں سے نہیں ہوئی، کبھی ارشاد فرماتے :آمنت اذا کفرالناس و صدقتنی اذکذبنی الناس (اصابہ جلد ۴ ص ۲۸۳)

وہ مجھ پر تب ایمان لائیں جب کہ لوگ منکر تھے اور انہوں نے میری اس وقت تصدیق کی جب لوگ مجھے جھٹلاتے تھے تربیتی انداز میں قرآن مجید کی آیات( جن میں امہات المومنین ازواج نبی کو بعض چیزوں سے منع اور بعض کا حکم دیا گیا ہے) مدینہ میں نازل ہوئی ہیں حضرت خدیجہ اس قدر تربیت یافتہ سلیقہ شعار خدا و رسول کے فرامین پر عمل پیرا رسول اعظم کے اشاروں و کنایوں کو سمجھنے والی رسول اعظم کی قلبی راز دار کہ ان کے زمانہ میں ایسے احکام کی ضرورت ہی محسوس نہیں ہوئی وہ خود عاملہ صالحہ مومنہ کاملہ تھیں

۴۲

تاریخ عالم میں برگزیدہ و عظیم خواتین گزری ہیں لیکن رسول اعظم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ) کے معیار (بہترین عادات و خصائل اعلیٰ خدمات اور عظیم قربانیوں کے عنوان سے) چارعورتیں ہی پوری اتریںقال رسول الله صلی الله علیه و آله وسلم خیر نساء العالمین اربع مریم بنت عمران و ابنة مزاح، امراة فرعون و خدیجه بنت خویلد و فاطمه بنت محمد (استیعاب بر حاشیہ اصابہ جلد ۴ ، ۳۸۴) نوٹ: مریم بنت عمران، اینہ مزا، زوجہ فرعون، خدیجہ بنت خویلد، فاطمہ بنت محمد یہ پانچ خواتین ہوتی ہیں جبکہ حدیث مین چار بتائی گئی ہیں ( ۱۵) امہات المومنین میں سے زینب بنت جحش

جناب زینب کے ساتھ حضور کی تزویج بڑا مشکل اور حساس مسئلہ ہے اللہ کے حکم ہی نے اس مسئلہ کو انتہا تک پہنچایا ، یہ تزویج اللہ کی طرف سے ہوئی جناب زینب فرمایا کرتی تھیں: میرے جیسا کون ہے سب کی شادیاں رسول اعظم کے ساتھ ان کی خواہش یا والدین کی طرف سے ہوئیں اور میری تزویج براہ راست خدا کی طرف سے ہے جناب زینب حضور کی پھوپھی زادہ ، خاندان بنی ہاشم کی چشم و چراغ لیکن حضور نے خود ان کی تزویج اپنے آزاد کردہ غلام اور پھر جس کو متبنیٰ (منہ بولے بیٹے ) زید بن حارث کے ساتھ کی کافی دیر ملا پ رہا لیکن اختلاف بھی رہا بالآخر انہوں نے طلاق دے دی تو اللہ کا حکم ہواکہ حضور شادی کر لیں اب مشکل درپیش ہے

۱ متبنی (منہ بولے بیٹے) کی زوجہ سے شادی کا فیصلہ

۲ آزاد کردہ غلام کی مطلقہ سے شادی وہ بھی حضور کی لیکن اللہ کا ارادہ حکم بن کر آیا اور خدا کی طرف سے شادی ہو گئی ارشاد رب العزت ہے:

( وَإِذْ تَقُوْلُ لِلَّذِیْ أَنْعَمَ الله عَلَیْهِ وَأَنْعَمْتَ عَلَیْهِ أَمْسِکْ عَلَیْکَ زَوْجَکَ وَاتَّقِ الله وَتُخْفِیْ فِیْ نَفْسِکَ مَا الله مُبْدِیْهِ وَتَخْشَی النَّاسَ وَالله أَحَقُّ أَنْ تَخْشَاهُ فَلَمَّا قَضٰی زَیْدٌ مِّنْهَا وَطَرًا زَوَّجْنَاکَهَا لِکَیْ لاَیَکُوْنَ عَلَی الْمُؤْمِنِینَ حَرَجٌ فِیْ أَزْوَاجِ أَدْعِیَائِهِمْ إِذَا قَضَوْا مِنْهُنَّ وَطَرًا وَکَانَ أَمْرُ الله مَفْعُوْلًا مَا کَانَ عَلَی النَّبِیِّ مِنْ حَرَجٍ فِیْمَا فَرَضَ الله لَه سُنَّةَ الله فِی الَّذِیْنَ خَلَوْا مِنْ قَبْلُ وَکَانَ أَمْرُ الله قَدَرًا مَّقْدُوْرًا )

۴۳

"اور(اے رسول یاد کریں وہ وقت) جب آپ اس شخص سے جس پر اللہ نے اور آپ نے احسان کیا تھا کہہ رہے تھے اپنی زوجہ کو نہ چھوڑو اور اللہ سے ڈرو اور وہ بات آپ اپنے دل میں چھپا ئے ہوئے تھے جسے اللہ ظاہر کرنا چاہتا ہے اور آپ لوگوں سے ڈر رہے تھے حالانکہ اللہ زیادہ حقدار ہے کہ آپ اس سے ڈریں پھر جب زید نے اس (خاتون) سے اپنی حاجت پوری کر لی تو ہم نے اس خاتون کا نکاح آپ سے کر دیا تاکہ مومنوں پر اپنے منہ بولے بیٹوں کی بیویوں (سے شادی کرنے) کے بارے میں کوئی حرج نہ رہے جب کہ وہ ان سے اپنی حاجت پوری کر چکے ہوں اور اللہ کا حکم نافذ ہو کر رہے گا"نبی کے لئے اس (عمل کے انجام دینے میں) کوئی مضائقہ نہیں جو اللہ نے اس کے لئے مقرر کیا ہے جو (انبیاء) پہلے گذر چکے ہیں ان کے لئے بھی اللہ کی سنت یہی رہی ہے اور اللہ کا حکم حقیقی انداز سے طے شدہ ہوتا ہے" (سورہ احزاب آیت ۳۷۳۸)

اس میں کوئی شک نہیں کہ کائنات کی عظیم شخصیت اور سب سے برتر اور معزز شخصیت حضور کی ذات ہے بعد از خدا توئی قصہ مختصر حضور کی محبت کا تقاضا ان کے متعلقین سے پیاراور ان کی عزت کرنا ہے لہٰذا ازواج نبی عزت و عظمت کی مالک ہیں اللہ نے ان کودو خصوصیات عطا کی ہیں

۱ ازواج نبی مومنین کی مائیں ہیں

( وَأَزْوَاجُه أُمَّهَاتُهُمْ ) ( سورہ احزاب آیت ۶)

۲ نبی کی ازواج سے اگرچہ طلاق ہو جائے کسی کو شادی کا حق نہیں

( وَلَاأَنْ تَنْکِحُوْا أَزْوَاجَه مِنْ م بَعْدِه أَبَدًا )

سورہ احزاب آیت ۵۳ اور ان کی ازواج سے ان کے بعد کبھی بھی نکاح نہ کرو لیکن اس میں کوئی شک نہیں کہ کچھ بے اعتدالی اور حد سے تجاوز ان سے بھی ہوا ہے حکم تھا کہ گھر میں جم کر بیٹھی رہو

( وَاذْکُرْنَ مَا یُتْلٰی فِیْ بُیُوْتِکُنَّ مِنْ آیَاتِ الله وَالْحِکْمَةِ إِنَّ الله کَانَ لَطِیْفًا خَبِیْرًا )

"اوراللہ کی ان آیات اورحکمت کو یاد رکھو جن کی تمہارے گھروں میں تلاوت ہوتی ہے اللہ یقیناً باریک بین خوب باخبر ہے" (احزاب ۳۴)

۴۴

لیکن گھر سے باہر جانا ہوا حواب کے کتوں نے بھونکتے ہوئے متوجہ کیا، پھر جنگ جمل کی کمان ، نبی اعظم کے خلاف جھة بندی سازش، اللہ کی طرف سے دل ٹیڑھے ہونے کا تذکرہ

( إِنْ تَتُوْبَا إِلَی الله فَقَدْ صَغَتْ قُلُوْبُکُمَا وَإِنْ تَظَاهَرَا عَلَیْهِ فَإِنَّ الله هُوَ مَوْلاَهُ وَجِبْرِیْلُ وَصَالِحُ الْمُؤْمِنِیْنَ وَالْمَلاَئِکَةُ بَعْدَ ذٰلِکَ ظَهِیْرٌ ) (سورہ تحریم: ۴)

اللہ کی طرف سے دھمکی آمیز فرمان ،تم کو طلاق بھی ہو سکتی ہے اور تم سے بہتر ازواج مل سکتی ہیںاس سے واضح ہوتا ہے کہ عورت بڑے گھر میں رہنے کے باوجود عورت ہی رہتی ہے بڑے گھر میں آنے سے حقیقی عظمت پیدا نہیں ہوتی لیکن باین ہمہ ازواج نبی انتہائی قابل عزت ، قابل تکریم ہیں کوئی ایسا کلمہ نہ کہا جائے جو عظمت کے منافی ہو خداوند عالم نے ایک طرف ازواج کی طرف سے رسول اعظم کے خلاف سازش دل کا ٹیڑھا ہونے کا تذکرہ کیا ہے دوسری طرف نوح و لوط کی بیویوں کی مخالفت اور کفر کا ذکر کیا نیز زوجہ فرعون کی عظمت اور مادر عیسیٰ کی تکریم و ثناء کر کے واضح کیا ہے کہ صرف کسی نبی کی زوجہ ہو نا کافی نہیں اصل میں دیکھنایہ ہوگا کہ فرامین خداوندی پر کس قدر عمل ہوا ارتباط بہ خدا کس قدر ہے نبی کی اطاعت کا پیمانہ کیا ہے مثبت پہلو رکھنے والی زوجہ انتہائی عظیم منفی پہلو رکھنے والی زوجہ اپنی سزا کی مستحق

حضرت فاطمة الزہراء

رسول اعظم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ) کی اکلوتی بیٹی ، پر عظمت بیٹی ، معصومہ بیٹی جس کی رضا خدا کی رضا، جس کی ناراضگی خدا کی ناراضگی، باپ کا میوہ دل، جس کے متعلق حضور کا فرمانفاطمه هی ام ابیها بغقہ منی میرا ٹکڑامهجة قلبی دل کا ٹکڑا جس کی تعظیم کے لئے کھڑے ہو جاتے اپنی مسند پر بٹھاتے تھے حضرت مریم علیہا السلام کی عظمت و طہارة قرآن میں مذکور جناب فاطمہ زہراء کی عظمت کا ذکر قرآن مجید کر رہا ہے، سیدہ زاہراء سلام علیہا کو قرآن نےمصطفی (فاطر ۳۲)مرتضیٰ (جن، ۲۷)مجتبیٰ (آل عمر ان : ۱۷۰) اور پھر اذہاب رجس اوریطرکم تطهیرا سے نوازا گیا(احزاب : ۳۳) فاطمہ زہرا ، ان کے شوہر اوران کی اولاد کی محبت اجرر سالت قرار پائی (شوریٰ ۲۳)

۴۵

نصاریٰ نجران کے مقابل میں مباہلہ میں شرکت

( اَلْحَقُّ مِنْ رَبِّکَ فَلَاتَکُنْ مِّنْ الْمُمْتَرِینَ فَمَنْ حَاجَّکَ فِیْهِ مِنْ م بَعْدِمَا جَائَکَ مِّنَ الْعِلْمِ فَقُلْ تَعَالَوْا نَدْعُ أَبْنَائَنَا وَأَبْنَائَکُمْ وَنِسَائَنَا وَنِسَائَکُم ْوَأَنْفُسَنَا وَأَنْفُسَکُمْ ثُمَّ نَبْتَهِلْ فَنَجْعَلْ لَّعْنَةَ الله عَلَی الْکَاذِبِیْنَ ) (آل عمران ۶۱)

زہرا ،حسین و زینب کبری کی ماں جنہوں نے جان و چادر دیکر اسلام کو زندہ و جاوید بنا دیا فدک کی مالک فاطمہ ، دربار میں خطبہ دینے والی فاطمہ ، پانی جس کا حق مہر فاطمہ ، جس کی تزویج پہلے عرش عُلیٰ پر پھر زمین پرہوئی فاطمہ ، بس فاطمہ فاطمہ ،فاطمہ ہی ہے، فاطمہ و اولاد فاطمہ اللہ کے محبو ب جان کا نذرانہ پیش کرنے والے جنہوں نے بچے دئیے ، بھتیجے دئیے، بھانجے دئیے، بھائی دئیے، اصحاب و انصار دئیے ، جان کا نذرانہ پیش کیا چادر دی، ہتکڑیاں و طوق پہنے جن کے ہاتھ پس پشت باندھے گئے سیدانیوں کو درباروں ، بازاروں میں پھرایا گیا سب کچھ برداشت ، سب کچھ قبولکیوں؟ اسلام بچ جائے انسانیت کی عظمت محفوظ رہے

انسانیت کی محافظ ، فاطمہ بنت فاطمہ ، اولاد فاطمہ

زینب (عورت) کی عظمت کہ حسین کے کارنامہ کو بازاروں ، درباروں میں خطبہ دے کے واضح و آشکار کیا جب بھی عورت کی عظمت میں تذبذب ، شک ہو تو زینب ، رباب ، ام لیلیٰ ، کلثوم ، سکینہ کے کارنامے دیکھ لیا کرو گردن جھک جائے گی مرد قوام علی النساء لیکن فاطمہ فاطمہ ہے زینب زینب ہے ان کی برابری کیسے ہو؟ عورت بیٹی ، زوجہ ، والدہ بیٹی اللہ کی طرف سے رحمت اوربیٹا نعمت ہے نعمت سے رحمت کی اہمیت زیادہ ہوتی ہے رحمت ہی سے نظام چل رہاہے باران رحمت انسانی زندگی کے لیے عظیم تحفہ ہے بہرحال قرآن رحمت رسول اعظم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم )رحمت ، رحمت جباریت و قہاریت سے زیادہ وسیع ہے اور بیٹی بھی رحمت

۴۶

جیسا کہ ارشاد رب العزت ہے :

( إِذْ قَالَتِ امْرَأةُ عِمْرَانَ رَبِّ إِنِّیْ نَذَرْتُ لَکَ مَا فِیْ بَطْنِیْ مُحَرَّرًا فَتَقَبَّلْ مِنِّیْ إِنَّکَ أَنْتَ السَّمِیْعُ الْعَلِیْمُ فَلَمَّا وَضَعَتْهَا قَالَتْ رَبِّ إِنِّیْ وَضَعْتُهَا أُنْثٰی وَالله أَعْلَمُ بِمَا وَضَعَتْ وَلَیْسَ الذَّکَرُ کَالْأُنْثٰی وَإِنِّیْ مَّیْتُهَا مَرْیَمَ وَإِنِّیْ أُعِیْذُهَا بِکَ وَذُرِّیَّتَهَا مِنَ الشَّیْطَانِ الرَّجِیْمِ فَتَقَبَّلَهَا رَبُّهَا بِقَبُولٍ حَسَنٍ وَّأَنْبَتَهَا نَبَاتًا حَسَنًا وَّکَفَّلَهَا زَکَرِیَّا کُلَّمَا دَخَلَ عَلَیْهَا زَکَرِیَّا الْمِحْرَابَ وَجَدَ عِنْدَهَا رِزْقًا قَالَ یَامَرْیَمُ أَنّٰی لَکِ هَذَا قَالَتْ هُوَ مِنْ عِنْدِ الله إِنَّ الله یَرْزُقُ مَنْ یَّشَاءُ بِغَیْرِ حِسَابٍ )

"(اور وہ وقت یاد کرو) جب عمران کی عورت نے کہا کہ اے پروردگار جو (بچہ) میرے شکم میں ہے اسے تیری نذر کرتی ہوں وہ اورباتوں سے آزاد ہوگاتو میری طرف سے قبول فرما بے شک تو بڑا سننے والا جاننے والا ہے پھر جب اسے جن چکی تو کہنے لگی، مالک میں نے تو بیٹی جنی ہے اللہ کے بارے میں بہتر جانتا ہے کہ جو اس (مادر مریم )نے جنا اور بیٹا اس بیٹی جیسا نہیں ہو سکتا اور میں نے اس (بیٹی)کا نام مریم رکھا ہے اور میں اسے اور اسکی اولاد کو شیطان مردود سے تیری پناہ میں دیتی ہوں چنانچہ اسکے رب نے اسکی نذر (لڑکی) کو بوجہ احسن قبول کیا اوار اس کی بہترین نشوونما کا اہتمام کیااور زکریا کو اس کا سر پر ست بنادیا جب زکریا اس کے حجرہ عبادت میں آتے تو اسکے پاس طعام موجود پاتے پوچھا اے مریم یہ (کھانا) تمہارے پاس کہاں سے آتاہے وہ کہتی اللہ کے ہاں سے بے شک خدا جسے چاہتا ہے بے حساب رزق دیتاہے " )سورہ آل عمران آیت نمبر ۳۵۳۶۳۷

( عام طور پر نذر لڑکوں کی ہوتی ہے ادر مریم بھی پریشان ہوئی لیکن اللہ نے اس کی نذر کو بوجہ احسن قبول فرمایا ارشا د ہو ایس الذکر کالانثی یعنی لڑکا ،لڑکی جیسا نہیں ہو سکتا معلوم ہوا کہ بیٹی کی اہمیت اس کا م میں بھی (جس کی نذر کی تھی)بیٹے سے کم نہیں ہے کہ جسے بوجہ احسن قبول فرمایا گیا پھر جب زکریاجیسے نبی ہی کھانا و طعام ملاحظہ فرماتے ہیں تواللہ کی طرف سے ان نعمات کی آمد پر شکر بجالاتے بیٹی کی عظمت کی دلیل بیٹی کی اہمیت کا اندازہ اس سے لگائیے کہ خدا نے رسول اعظم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم )کو بیٹی ہی دی صرف ایک بیٹی لیکن وہ اس عظمت کی مالک کہ جب تشریف لاتیں تورسول اعظم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ) بنفس نفیس تعظیم کے لیے کھڑے ہو جاتے

۴۷

جب ارشاد رب العزب ہوا:

( وآتِ ذَا الْقُرْبیٰ حَقَّه )

"قریبی رشتہ داروں کو انکا حق دیا کرو" (بنی اسرائیل: ۲۶)

تب رسول اعظم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم )نے جناب فاطمہ الزہرا کو فدک دے دیا الدر المنثور جلد ۴ ص ۳۲۰ روایت حضرت ابن عباس اسی طرح ارشاد رب العزت ہے:

( قُلْ لاَأَسْأَلُکُمْ عَلَیْهِ أَجْرًا إِلاَّ الْمَوَدَّةَ فِی الْقُرْبَی )

"کہہ دیجیے کہ میں اس تبلیغ پر کوئی اجر نہیں مانگتا سوائے اپنے قریب ترین رشتہ داروں کی محبت کے" ( سورہ شوریٰ: ۲۳ )

اس آیت میں بھی قربت کا محور جناب سیدہ ہیں مزید ارشاد رب العزت ہے:

( إِنَّمَا یُرِیْدُ الله لِیُذْهِبَ عَنْکُمْ الرِّجْسَ أَهْلَ الْبَیْتِ وَیُطَهِّرَکُمْ تَطْهِیْرًا )

"اے اہل بیت اللہ کا ارادہ بس یہی ہے کہ ہر طرح کی ناپاکی کو آپ سے دور رکھے اور آپ کو ایسا پاکیزہ رکھے جیسے پاکیزہ رکھنے کا حق ہے "( سورہ احزاب: ۳۳ )

آیت تطہیر کا محور بھی جناب سیدہ دختر رسول اعظم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم )ہیں چنانچہ وقت تعارف کہا گیا ہے

هم فاطمة وابوها وبعلها وبنوها

یعنی مرکز تعارف بیٹی ہی بن رہی ہے عورت( بیٹی) کا مقام سیدہ زینب بنت علی کیوں نہ ایک اور بیٹی کاذکر بھی کر دیا جائے جس نے باپ کے زانو پر بیٹھے ہوئے پوچھا تھابابا آپ کو ہم سے محبت ہے

حضرت نے فرمایا تھا جی ہاں عرض کی یہ ہو سکتا ہے کہ اللہ سے محبت بھی ہو اور بیٹی سے محبت بھی ہو پھر خود کہا ہاں اللہ سے محبت بیٹی اوراولاد پر شفقت ہے کیا کہنا عظمتِ ثانی زہرا ء کیا شان ہے دختر مرتضی کی جس نے اپنے خطبات سے اسلام کو زندہ وپائندہ بنادیا حق کوروز روشن کی طرح پوری دنیا کے سامنے واضح کیا کہ حسین باغی نہیں نواسہ رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم )ہے بہرحال تم بیٹی یعنی عورت کو کم درجہ کی مخلوق نہ سمجھو مرد کے کام کی تکمیل عورت ہی کرتی ہے عورت و مرد کا کوئی فرق نہیں ہے

۴۸

معیار ِتفاضل صرف تقویٰ اور ارتباط بہ خداہے عورت ۔۔۔۔۔زوجہ شادی اورتزویج فطرت کی تکمیل ہے حدیث میں ہے کہ شادی کے بغیر مرد کادین آدھاہے تزویج سے اسکے دین کی تکمیل ہو گی بعض روایات میں غیر شادی شدہ مرد کو بد ترین کہا گیاہے ارشاد ہوتا ہےشرا ء کم عزابکم تم میں سے بد ترین افراد غیر شادی شدہ ہیں(تفسیر مجمع البیان )

شادی ہی سے اجتماعیت کا تصور پید ا ہوتا ہے اس وقت انسان خود سے ہٹ کر سوچنے کاسلسلہ شروع کرتا ہے قرآن مجید نے دعاکی تلقین کی ہے اے انسان یہ دعا طلب کیاکر :

( رَبَّنَا هَبْ لَنَا مِنْ أَزْوَاجِنَا وَذُرِّیَّاتِنَا قُرَّةَ أَعْیُنٍ )

"پرودگار ہماری ازواج او رہماری اولا دسے ہماری آنکھوں کو ٹھنڈک عطا فرما " (سورہ فرقان : ۷۴)

ارشاد رب العزت ہے:

( وَأَنْکِحُوْا الْأَیَامٰی مِنْکُمْ وَالصَّالِحِیْنَ مِنْ عِبَادِکُمْ وَإِمَائِکُمْ إِنْ یَّکُوْنُوْا فُقَرَاءَ یُغْنِهِمُ الله مِنْ فَضْلِه وَالله وَاسِعٌ عَلِیْمٌ )

"تم میں سے جو لوگ بے نکاح ہوں اور تمہارے غلاموں کنیزوں میں سے جو صالح ہوں ان کے نکاح کردو اگروہ نادار ہو ں تواللہ اپنے فضل سے انہیں غنی کر د ے گا او راللہ بڑا وسعت والا علم والا ہے" (سورہ نور: ۳۲)

انسانیت کی بقا کے لیے سلسلہ تناسل کا جاری رہنا ضروری ہے سلسلہ تناسل کے لیے عورت اسکا لازمی جز وہے انسانیت کی بقا ء مرد و عورت دونو ں کی مرہون منت ہے مرد کی طرح عورت بھی اہمیت رکھتی ہےعورت کاوجود لازمی او رضروری ہے اس لیے حکم دیاگیاکہ بے نکاح لوگوں کے نکاح کرو یعنی ایسے اسباب مہیا کرو کہ ان کی شادی ہو سکے نکاح کے اسباب وسائل مہیا کرو تا کہ صالح مرد او ر صالحہ عورتوں کے ملاپ سے انسانیت کی بقاء ہو بہرحال اسلام نے بہترین توازن پیدا کیا اورایسا نظام دیا جس میں ان دونوں کی عزت ،عظمت اور اہمیت ظاہرر ہے خطبہ طلب زوجہ بھی (شادی کرنے کی خواہش کا اظہار)مرد کی طرف سے ہے برات مرد کی طرف سے ہے لیکن برات کے آنے سے نکاح کا صیغہ عورت کی طرف سے ہوگا گویا عورت برات کا استقبال کررہی ہے ایجاب عورت کی طرف سے ہو رہا ہے

۴۹

اب اس عزت واحترام کے ساتھ عورت کاورود مرد کے گھرمیں ہوتا ہے تاکہ عورت (زوجہ ) کی اہمیت واضح ہو جائے مرد سمجھے کہ کسی نے اپنے جگر کا ٹکڑا اس کے پاس امانت کے طور پر رکھوایا ہے اسی لیے تو اس لڑکی کا باپ یہ کہہ رہا ہوتاہے کہ میری امانت آپ کے حوالے ہے

عورت بہ حیثیت زوجہ

رسول اعظم کا فرمان ہے کہلولا علی لما کان لفاطمة کفو علی سید الاولیا ء ، علی نفس رسول علی رسول الله (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم )کے بھا ئی نورِ علی رسول اعظم کے نور میں شریک علی مدینة العلم ، علی منبرسلو نی کے داعی ، فاطمہ کے کفو صرف علی ہیں اس سے واضح ہو ا کہ فاطمہ زہر ا کس قدر عظمت کی مالک ہیں اے انسان عورت زوجہ کی شکل میں اب تیری مشیر ،تیر ے گھر کی ملکہ ،تیری غم گسار ،تیری عزت کا نشان ،تیرے بچوں کی ماں،تیرے بچوں کی مربی ،اس کی عزت کر اس کی عظمت کا قائل ہو جا اسی میں تیری عزت وعظمت ہے عورت (والدہ) والدین ( ماں باپ ) کی اہمیت قرآن مجید میں بیان کی گئی ہے اس میں بھی باپ کیساتھ عورت ( ما ں) کا ذکر کیا گیا ہے تاکہ یہ بتا یا جاسکے ماں عورت ہونے کی وجہ سے درجہ میں کم نہیں ہے بلکہ بعض روایات میں ماں کی عظمت بہتر انداز میں ذکر کی گئی ہے ارشاد ہے کہ الجنة تحت اقدام الامہات جنت ما ں کے قدمو ں کے نیچے ہے نیزارشاد رب العزت ہے:

( وَإِذْ أَخَذْنَا مِیثَاقَ بَنِی إِسْرَائِیلَ لاَتَعْبُدُونَ إِلاَّ الله وَبِالْوَالِدَیْنِ إِحْسَانًا )

"او ر جب ہم نے بنی اسرائیل سے عہد لیا ( اور کہا ) کہ اللہ کے سوا کسی کی عبادت نہ کرو او راپنے والدین پر احسان کرو " ( سورہ بقرہ : ۸۳)

پھر ارشاد رب العزت ہے :

( کُتِبَ عَلَیْکُمْ إِذَا حَضَرَ أَحَدَکُمُ الْمَوْتُ إِنْ تَرَکَ خَیْرَاًن الْوَصِیَّةُ لِلْوَالِدَیْنِ وَالْأَقْرَبِیْنَ بِالْمَعْرُوْفِ )

"تمہارے لیے یہ لکھ دیا گیا ہے کہ جب تم میں سے کسی کی موت کا وقت آئے او روہ کچھ مال چھوڑے جا رہا ہو تو اسے چاہیے کہ والدین اور رشتہ دارو ں کے لیے مناسب طور پروصیت کرے" سورہ بقرہ: ۱۸۰

۵۰

نیزارشاد رب العزت ہے :

( وَوَصَّیْنَا الْإِنْسَانَ بِوَالِدَیْهِ حُسْنًا وَإِنْ جَاهَدَاکَ لِتُشْرِکَ بِیْ مَا لَیْسَ لَکَ بِه عِلْمٌ فَلَا تُطِعْهُمَا )

"او رہم نے انسان کو اپنے والدین کے ساتھ اچھا سلوک کرنے کاحکم دیا ہے اگر تیرے ماں باپ میرے ساتھ شرک پر مجبور کریں جس کا تجھے کو ئی علم نہ ہو توان دونوں کا کہنا نہ ماننا" (سورہ عنکبوت : ۸)

اللہ تبارک وتعالیٰ نے بعض آیات میں اپنی عبادت اورشرک نہ کرنے کے فوراً بعد والدین کے ساتھ اچھے برتاؤ کا حکم دیا ہے جیساکہ ارشاد رب العزت ہے:

)وَاعْبُدُوا الله وَلَاتُشْرِکُوْا بِه شَیْئًا وَّبِالْوَالِدَیْنِ إِحْسَانًا )

"او رتم لوگ اللہ ہی کی بندگی کرو او رکسی کو اسکا شریک قرار نہ دو او رماں باپ کے ساتھ احسان کرو" (سورہ نساء : ۳۶)

اللہ نے دس حقوق انسانی کا تذکرہ کرتے ہوئے پہلے اپنے ساتھ شرک نہ کرنے اور والدین سے اچھائی کرنے کا حکم دیا ہے ارشاد رب العزت ہے:

( قُلْ تَعَالَوْا أَتْلُ مَا حَرَّمَ رَبُّکُمْ عَلَیْکُمْ أَلاَّ تُشْرِکُوْا بِه شَیْئًا وَّبِالْوَالِدَیْنِ إِحْسَانًا )

"کہہ دیجئے آومیں تمہیں وہ چیزیں بتا دوں جو تمہارے رب نے تم پر حرام کر دی ہیں وہ یہ ہیں کہ تم لوگ کسی کو اللہ کا شریک نہ بناؤ اور والدین پر احسان کرو" (انعام: ۱۵۱)

مزید ارشاد رب العزت ہے:

( وَقَضٰی رَبُّکَ أَلاَّ تَعْبُدُوْا إِلاَّ إِیَّاهُ وَبِالْوَالِدَیْنِ إِحْسَانًا إِمَّا یَبْلُغَنَّ عِنْدَکَ الْکِبَرَ أَحَدُهُمَا أَوْ کِلَاهُمَا فَلَا تَقُلْ لَّهُمَا أُفٍّ وَّلَاتَنْهَرْهُمَا وَقُلْ لَّهُمَا قَوْلًا کَرِیْمًا وَاخْفِضْ لَهُمَا جَنَاحَ الذُّلِّ مِنَ الرَّحْمَةِ وَقُلْ رَّبِّ ارْحَمْهُمَا کَمَا رَبَّیَانِیْ صَغِیرًا )

"اورتمہارے کے پروردگار کا فیصلہ ہے کہ تم اس کے سوا کسی کی بندگی نہ کرو اور ماں باپ کے ساتھ نیکی کرو اگر ان میں سے ایک یا دونوں تمہارے سامنے بوڑھے ہو جائیں تو خبر دار ان سے اف تک نہ کہنا اور انہیں جھڑکنا بھی نہیں بلکہ ان سے عزت و تکریم سے بات کرنا اور ان کیلئے خاکساری کے ساتھ کاندھوں کو جھکا دینا اور ان کے حق میں دعا کرتے رہنا کہ پروردگارا ان دونوں پر اسی طرح رحمت نازل فرما جس طرح کہ انہوں نے بچپنے میں مجھے پالا ہے" ( بنی اسرائیل : ۲۳ تا ۲۴)

۵۱