بانگِ درا (حصہ اول). 1905 تک جلد ۱

بانگِ درا (حصہ اول). 1905 تک11%

بانگِ درا (حصہ اول). 1905 تک مؤلف:
زمرہ جات: شعری مجموعے
صفحے: 171

جلد ۱ جلد ۲ جلد ۳
  • ابتداء
  • پچھلا
  • 171 /
  • اگلا
  • آخر
  •  
  • ڈاؤنلوڈ HTML
  • ڈاؤنلوڈ Word
  • ڈاؤنلوڈ PDF
  • مشاہدے: 46310 / ڈاؤنلوڈ: 2753
سائز سائز سائز
بانگِ درا (حصہ اول). 1905 تک

بانگِ درا (حصہ اول). ۱۹۰۵ تک جلد ۱

مؤلف:
اردو

۱

یہ کتاب برقی شکل میں نشرہوئی ہے اور شبکہ الامامین الحسنین (علیہما السلام) کے گروہ علمی کی نگرانی میں تنظیم ہوئی ہے

۲

بانگ درا

(حصہ اول )

ـــــــ ۱۹۰۵ تک

علاّمہ محمّد اقبال

۳

ہمالہ

اے ہمالہ! اے فصیل کشور ہندوستاں

چومتا ہے تیری پیشانی کو جھک کر آسماں

*

تجھ میں کچھ پیدا نہیں دیرینہ روزی کے نشاں

تو جواں ہے گردش شام و سحر کے درمیاں

*

ایک جلوہ تھا کلیم طور سینا کے لیے

تو تجلی ہے سراپا چشم بینا کے لیے

*

امتحان دیدۂ ظاہر میں کوہستاں ہے تو

پاسباں اپنا ہے تو ، دیوار ہندستاں ہے تو

*

مطلع اول فلک جس کا ہو وہ دیواں ہے تو

سوئے خلوت گاہِ دل دامن کش انساں ہے تو

*

برف نے باندھی ہے دستار فضیلت تیرے سر

خندہ زن ہے جو کلاہِ مہر عالم تاب پر

۴

*

تیری عمر رفتہ کی اک آن ہے عہد کہن

وادیوں میں ہیں تری کالی گھٹائیں خیمہ زن

*

چوٹیاں تیری ثریا سے ہیں سرگرم سخن

تو زمیں پر اور پہنائے فلک تیرا وطن

*

چشمۂ دامن ترا آئینۂ سیال ہے

دامن موج ہوا جس کے لیے رومال ہے

*

ابر کے ہاتھوں میں رہوار ہوا کے واسطے

تازیانہ دے دیا برق سر کہسار نے

*

اے ہمالہ کوئی بازی گاہ ہے تو بھی ، جسے

دست قدرت نے بنایا ہے عناصر کے لیے

*

ہائے کیا فرط طرب میں جھومتا جاتا ہے ابر

فیل بے زنجیر کی صورت اڑا جاتا ہے ابر

۵

*

جنبش موج نسیم صبح گہوارہ بنی

جھومتی ہے نشۂ ہستی میں ہر گل کی کلی

*

یوں زبان برگ سے گویا ہے اس کی خامشی

دست گلچیں کی جھٹک میں نے نہیں دیکھی کبھی

*

کہہ رہی ہے میری خاموشی ہی افسانہ مرا

کنج خلوت خانۂ قدرت ہے کاشانہ مرا

*

آتی ہے ندی فراز کوہ سے گاتی ہوئی

کوثر و تسنیم کی موجوں کی شرماتی ہوئی

*

آئنہ سا شاہد قدرت کو دکھلاتی ہوئی

سنگ رہ سے گاہ بچتی ، گاہ ٹکراتی ہوئی

*

چھیڑتی جا اس عراق دل نشیں کے ساز کو

اے مسافر دل سمجھتا ہے تری آواز کو

۶

*

لیلی شب کھولتی ہے آ کے جب زلف رسا

دامن دل کھینچتی ہے آبشاروں کی صدا

*

وہ خموشی شام کی جس پر تکلم ہو فدا

وہ درختوں پر تفکر کا سماں چھایا ہوا

*

کانپتا پھرتا ہے کیا رنگ شفق کہسار پر

خوشنما لگتا ہے یہ غازہ ترے رخسار پر

*

اے ہمالہ! داستاں اس وقت کی کوئی سنا

مسکن آبائے انساں جب بنا دامن ترا

*

داغ جس پر غازۂ رنگ تکلف کا نہ تھا

کچھ بتا اس سیدھی سادی زندگی کا ماجرا

*

ہاں دکھا دے اے تصور پھر وہ صبح و شام تو

دوڑ پیچھے کی طرف اے گردش ایام تو

***

۷

گل رنگیں

تو شناسائے خراش عقدۂ مشکل نہیں

اے گل رنگیں ترے پہلو میں شاید دل نہیں

*

زیب محفل ہے ، شریک شورش محفل نہیں

یہ فراغت بزم ہستی میں مجھے حاصل نہیں

*

اس چمن میں مَیں سراپا سوز و ساز آرزو

اور تیری زندگانی بے گداز آرزو

*

توڑ لینا شاخ سے تجھ کو مرا آئیں نہیں

یہ نظر غیر از نگاہ چشم صورت بیں نہیں

*

آہ! یہ دست جفا جو اے گل رنگیں نہیں

کس طرح تجھ کو یہ سمجھاؤں کہ میں گلچیں نہیں

*

کام مجھ کو دیدۂ حکمت کے الجھیڑوں سے کیا

دیدۂ بلبل سے میں کرتا ہوں نظارہ ترا

*

۸

سو زبانوں پر بھی خاموشی تجھے منظور ہے

راز وہ کیا ہے ترے سینے میں جو مستور ہے

*

میری صورت تو بھی اک برگ ریاض طور ہے

میں چمن سے دور ہوں تو بھی چمن سے دور ہے

*

مطمئن ہے تو ، پریشاں مثل بو رہتا ہوں میں

زخمی شمشیر ذوق جستجو رہتا ہوں میں

*

یہ پریشانی مری سامان جمعیت نہ ہو

یہ جگر سوزی چراغ خانہ حکمت نہ ہو

*

ناتوانی ہی مری سرمایۂ قوت نہ ہو

رشک جام جم مرا آیئنۂ حیرت نہ ہو

*

یہ تلاش متصل شمع جہاں افروز ہے

توسن ادراک انساں کو خرام آموز ہے

***

۹

عہد طفلی

تھے دیار نو زمین و آسماں میرے لیے

وسعت آغوش مادر اک جہاں میرے لیے

*

تھی ہر اک جنبش نشان لطف جاں میرے لیے

حرف بے مطلب تھی خود میری زباں میرے لیے

*

درد ، طفلی میں اگر کوئی رلاتا تھا مجھے

شورش زنجیر در میں لطف آتا تھا مجھے

*

تکتے رہنا ہائے! وہ پہروں تلک سوئے قمر

وہ پھٹے بادل میں بے آواز پا اس کا سفر

*

پوچھنا رہ رہ کے اس کے کوہ و صحرا کی خبر

اور وہ حیرت دروغ مصلحت آمیز پر

*

آنکھ وقف دید تھی ، لب مائل گفتار تھا

دل نہ تھا میرا ، سراپا ذوق استفسار تھا

***

۱۰

مرزا غالب

فکر انساں پر تری ہستی سے یہ روشن ہوا

ہے پر مرغ تخیل کی رسائی تا کجا

*

تھا سراپا روح تو ، بزم سخن پیکر ترا

زیب محفل بھی رہا محفل سے پنہاں بھی رہا

*

دید تیری آنکھ کو اس حسن کی منظور ہے

بن کے سوز زندگی ہر شے میں جو مستور ہے

*

محفل ہستی تری بربط سے ہے سرمایہ دار

جس طرح ندی کے نغموں سے سکوت کوہسار

*

تیرے فردوس تخیل سے ہے قدرت کی بہار

تیری کشت فکر سے اگتے ہیں عالم سبزہ وار

*

۱۱

زندگی مضمر ہے تیری شوخی تحریر میں

تاب گویائی سے جنبش ہے لب تصویر میں

*

نطق کو سو ناز ہیں تیرے لب اعجاز پر

محو حیرت ہے ثریا رفعت پرواز پر

*

شاہد مضموں تصدق ہے ترے انداز پر

خندہ زن ہے غنچۂ دلی گل شیراز پر

*

آہ! تو اجڑی ہوئی دلی میں آرامیدہ ہے

گلشن ویمر میں تیرا ہم نوا خوابیدہ ہے

*

لطف گویائی میں تیری ہمسری ممکن نہیں

ہو تخیل کا نہ جب تک فکر کامل ہم نشیں

*

ہائے! اب کیا ہو گئی ہندوستاں کی سر زمیں

آہ! اے نظارہ آموز نگاہ نکتہ بیں

*

۱۲

گیسوئے اردو ابھی منت پذیر شانہ ہے

شمع یہ سودائی دل سوزیِ پروانہ ہے

*

اے جہان آباد ، اے گہوارۂ علم و ہنر

ہیں سراپا نالۂ خاموش تیرے بام و در

*

ذرے ذرے میں ترے خوابیدہ ہیں شمس و قمر

یوں تو پوشیدہ ہیں تیری خاک میں لاکھوں گہر

*

دفن تجھ میں کوئی فخر روزگار ایسا بھی ہے؟

تجھ میں پنہاں کوئی موتی آبدار ایسا بھی ہے؟

***

۱۳

ابر کوہسار

ہے بلندی سے فلک بوس نشیمن میرا

ابر کہسار ہوں گل پاش ہے دامن میرا

*

کبھی صحرا ، کبھی گلزار ہے مسکن میرا

شہر و ویرانہ مرا ، بحر مرا ، بن میرا

*

کسی وادی میں جو منظور ہو سونا مجھ کو

سبزۂ کوہ ہے مخمل کا بچھونا مجھ کو

*

مجھ کو قدرت نے سکھایا ہے در افشاں ہونا

ناقۂ شاہد رحمت کا حدی خواں ہونا

*

غم زدائے دل افسردۂ دہقاں ہونا

رونق بزم جوانان گلستاں ہونا

*

بن کے گیسو رخ ہستی پہ بکھر جاتا ہوں

شانۂ موجۂ صرصر سے سنور جاتا ہوں

۱۴

*

دور سے دیدۂ امید کو ترساتا ہوں

کسی بستی سے جو خاموش گزر جاتا ہوں

*

سیر کرتا ہوا جس دم لب جو آتا ہوں

بالیاں نہر کو گرداب کی پہناتا ہوں

*

سبزۂ مزرع نوخیز کی امید ہوں میں

زادۂ بحر ہوں پروردۂ خورشید ہوں میں

*

چشمۂ کوہ کو دی شورش قلزم میں نے

اور پرندوں کو کیا محو ترنم میں نے

*

سر پہ سبزے کے کھڑے ہو کے کہا قم میں نے

غنچۂ گل کو دیا ذوق تبسم میں نے

*

فیض سے میرے نمونے ہیں شبستانوں کے

جھونپڑے دامن کہسار میں دہقانوں کے

***

۱۵

ماخوذ - بچوں کے لیے

ایک مکڑا اور مکھی

اک دن کسی مکھی سے یہ کہنے لگا مکڑا

اس راہ سے ہوتا ہے گزر روز تمھارا

*

لیکن مری کٹیا کی نہ جاگی کبھی قسمت

بھولے سے کبھی تم نے یہاں پاؤں نہ رکھا

*

غیروں سے نہ ملیے تو کوئی بات نہیں ہے

اپنوں سے مگر چاہیے یوں کھنچ کے نہ رہنا

*

آؤ جو مرے گھر میں تو عزت ہے یہ میری

وہ سامنے سیڑھی ہے جو منظور ہو آنا

*

مکھی نے سنی بات جو مکڑے کی تو بولی

حضرت! کسی نادان کو دیجے گا یہ دھوکا

*

اس جال میں مکھی کبھی آنے کی نہیں ہے

جو آپ کی سیڑھی پہ چڑھا ، پھر نہیں اترا

۱۶

*

مکڑے نے کہا واہ! فریبی مجھے سمجھے

تم سا کوئی نادان زمانے میں نہ ہو گا

*

منظور تمھاری مجھے خاطر تھی وگرنہ

کچھ فائدہ اپنا تو مرا اس میں نہیں تھا

*

اڑتی ہوئی آئی ہو خدا جانے کہاں سے

ٹھہرو جو مرے گھر میں تو ہے اس میں برا کیا!

*

اس گھر میں کئی تم کو دکھانے کی ہیں چیزیں

باہر سے نظر آتا ہے چھوٹی سی یہ کٹیا

*

لٹکے ہوئے دروازوں پہ باریک ہیں پردے

دیواروں کو آئینوں سے ہے میں نے سجایا

*

مہمانوں کے آرام کو حاضر ہیں بچھونے

ہر شخص کو ساماں یہ میسر نہیں ہوتا

*

۱۷

مکھی نے کہا خیر ، یہ سب ٹھیک ہے لیکن

میں آپ کے گھر آؤں ، یہ امید نہ رکھنا

*

ان نرم بچھونوں سے خدا مجھ کو بچائے

سو جائے کوئی ان پہ تو پھر اٹھ نہیں سکتا

*

مکڑے نے کہا دل میں سنی بات جو اس کی

پھانسوں اسے کس طرح یہ کم بخت ہے دانا

*

سو کام خوشامد سے نکلتے ہیں جہاں میں

دیکھو جسے دنیا میں خوشامد کا ہے بندا

*

یہ سوچ کے مکھی سے کہا اس نے بڑی بی !

اللہ نے بخشا ہے بڑا آپ کو رتبا

*

ہوتی ہے اسے آپ کی صورت سے محبت

ہو جس نے کبھی ایک نظر آپ کو دیکھا

۱۸

*

آنکھیں ہیں کہ ہیرے کی چمکتی ہوئی کنیاں

سر آپ کا اللہ نے کلغی سے سجایا

*

یہ حسن ، یہ پوشاک ، یہ خوبی ، یہ صفائی

پھر اس پہ قیامت ہے یہ اڑتے ہوئے گانا

*

مکھی نے سنی جب یہ خوشامد تو پسیجی

بولی کہ نہیں آپ سے مجھ کو کوئی کھٹکا

*

انکار کی عادت کو سمجھتی ہوں برا میں

سچ یہ ہے کہ دل توڑنا اچھا نہیں ہوتا

*

یہ بات کہی اور اڑی اپنی جگہ سے

پاس آئی تو مکڑے نے اچھل کر اسے پکڑا

*

بھوکا تھا کئی روز سے اب ہاتھ جو آئی

آرام سے گھر بیٹھ کے مکھی کو اڑایا

***

۱۹

(ماخوذ از ایمرسن)

(بچوں کے لیے)

ایک پہاڑ اور گلہری

کوئی پہاڑ یہ کہتا تھا اک گلہری سے

تجھے ہو شرم تو پانی میں جا کے ڈوب مرے

*

ذرا سی چیز ہے ، اس پر غرور ، کیا کہنا

یہ عقل اور یہ سمجھ ، یہ شعور ، کیا کہنا!

*

خدا کی شان ہے ناچیز چیز بن بیٹھیں

جو بے شعور ہوں یوں باتمیز بن بیٹھیں

*

تری بساط ہے کیا میری شان کے آگے

زمیں ہے پست مری آن بان کے آگے

*

جو بات مجھ میں ہے ، تجھ کو وہ ہے نصیب کہاں

بھلا پہاڑ کہاں جانور غریب کہاں!

*

۲۰

21

22

23

24

25

26

27

28

29

30

31

32

33

34

35

36

37

38

39

40

41

42

43

44

45

46

47

48

49

50

51

52

53

54

55

56

57

58

59

60

61

62

63

64

65

66

67

68

69

70

71

72

73

74

75

76

77

78

79

80

81

82

83

84

85

86

87

88

89

90

91

92

93

94

95

96

97

98

99

100

101

102

103

104

105

106

107

108

109

110

111

112

113

114

115

116

117

118

119

120

121

122

123

124

125

126

127

128

129

130

131

132

133

134

135

136

137

138

139

140

141

142

143

144

145

146

147

148

149

150

151

152

153

154

155

156

157

158

159

160

161

162

163

164

165

166

167

168

169

170

171