بانگِ درا (حصہ اول). 1905 تک جلد ۱

بانگِ درا (حصہ اول). 1905 تک11%

بانگِ درا (حصہ اول). 1905 تک مؤلف:
زمرہ جات: شعری مجموعے
صفحے: 171

جلد ۱ جلد ۲ جلد ۳
  • ابتداء
  • پچھلا
  • 171 /
  • اگلا
  • آخر
  •  
  • ڈاؤنلوڈ HTML
  • ڈاؤنلوڈ Word
  • ڈاؤنلوڈ PDF
  • مشاہدے: 46424 / ڈاؤنلوڈ: 2775
سائز سائز سائز
بانگِ درا (حصہ اول). 1905 تک

بانگِ درا (حصہ اول). ۱۹۰۵ تک جلد ۱

مؤلف:
اردو

1

2

3

4

5

6

7

8

9

10

11

12

13

14

15

16

17

18

19

20

21

22

23

24

25

26

27

28

29

30

31

32

33

34

35

36

37

38

39

40

41

42

43

44

45

46

47

48

49

50

51

52

53

54

55

56

57

58

59

60

61

62

63

64

65

66

67

68

69

70

71

72

73

74

75

76

77

78

79

80

کچھ عار اسے حسن فروشوں سے نہیں ہے

عادت یہ ہمارے شعرا کی ہے پرانی

*

گانا جو ہے شب کو تو سحر کو ہے تلاوت

اس رمز کے اب تک نہ کھلے ہم پہ معانی

*

لیکن یہ سنا اپنے مریدوں سے ہے میں نے

بے داغ ہے مانند سحر اس کی جوانی

*

مجموعۂ اضداد ہے ، اقبال نہیں ہے

دل دفتر حکمت ہے ، طبیعت خفقانی

*

رندی سے بھی آگاہ شریعت سے بھی واقف

پوچھو جو تصوف کی تو منصور کا ثانی

*

اس شخص کی ہم پر تو حقیقت نہیں کھلتی

ہو گا یہ کسی اور ہی اسلام کا بانی

*

۸۱

القصہ بہت طول دیا وعظ کو اپنے

تا دیر رہی آپ کی یہ نغز بیانی

*

اس شہر میں جو بات ہو اڑ جاتی ہے سب میں

میں نے بھی سنی اپنے احبا کی زبانی

*

اک دن جو سر راہ ملے حضرت زاہد

پھر چھڑ گئی باتوں میں وہی بات پرانی

*

فرمایا ، شکایت وہ محبت کے سبب تھی

تھا فرض مرا راہ شریعت کی دکھانی

*

میں نے یہ کہا کوئی گلہ مجھ کو نہیں ہے

یہ آپ کا حق تھا ز رہ قرب مکانی

*

خم ہے سر تسلیم مرا آپ کے آگے

پیری ہے تواضع کے سبب میری جوانی

*

۸۲

گر آپ کو معلوم نہیں میری حقیقت

پیدا نہیں کچھ اس سے قصور ہمہ دانی

*

میں خود بھی نہیں اپنی حقیقت کا شناسا

گہرا ہے مرے بحر خیالات کا پانی

*

مجھ کو بھی تمنا ہے کہ "اقبال" کو دیکھوں

کی اس کی جدائی میں بہت اشک فشانی

*

اقبال بھی "اقبال" سے آگاہ نہیں ہے

کچھ اس میں تمسخر نہیں ، واللہ نہیں ہے

***

۸۳

شاعر

قوم گویا جسم ہے ، افراد ہیں اعضائے قوم

منزل صنعت کے رہ پیما ہیں دست و پائے قوم

*

محفل نظم حکومت ، چہرۂ زیبائے قوم

شاعر رنگیں نوا ہے دیدۂ بینائے قوم

*

مبتلائے درد کوئی عضو ہو روتی ہے آنکھ

کس قدر ہمدرد سارے جسم کی ہوتی ہے آنکھ

***

۸۴

دل

قصۂ دار و رسن بازئ طفلانۂ دل

التجائے "ارنی" سرخی افسانۂ دل

*

یا رب اس ساغر لبریز کی مے کیا ہو گی

جاوۂ ملک بقا ہے خط پیمانۂ دل

*

ابر رحمت تھا کہ تھی عشق کی بجلی یا رب!

جل گئی مزرع ہستی تو اگا دانۂ دل

*

حسن کا گنج گراں مایہ تجھے مل جاتا

تو نے فرہاد! نہ کھودا کبھی ویرانۂ دل!

*

عرش کا ہے کبھی کعبے کا ہے دھوکا اس پر

کس کی منزل ہے الہی! مرا کاشانۂ دل

*

۸۵

اس کو اپنا ہے جنوں اور مجھے سودا اپنا

دل کسی اور کا دیوانہ ، میں دیوانۂ دل

*

تو سمجھتا نہیں اے زاہد ناداں اس کو

رشک صد سجدہ ہے اک لغزش مستانۂ دل

*

خاک کے ڈھیر کو اکسیر بنا دیتی ہے

وہ اثر رکھتی ہے خاکستر پروانۂ دل

*

عشق کے دام میں پھنس کر یہ رہا ہوتا ہے

برق گرتی ہے تو یہ نخل ہرا ہوتا ہے

***

۸۶

مو ج دریا

مضطرب رکھتا ہے میرا دل بے تاب مجھے

عین ہستی ہے تڑپ صورت سیماب مجھے

*

موج ہے نام مرا ، بحر ہے پایاب مجھے

ہو نہ زنجیر کبھی حلقۂ گرداب مجھے

*

آب میں مثل ہوا جاتا ہے توسن میرا

خار ماہی سے نہ اٹکا کبھی دامن میرا

*

میں اچھلتی ہوں کبھی جذب مہ کامل سے

جوش میں سر کو پٹکتی ہوں کبھی ساحل سے

*

ہوں وہ رہرو کہ محبت ہے مجھے منزل سے

کیوں تڑپتی ہوں ، یہ پوچھے کوئی میرے دل سے

*

زحمت تنگی دریا سے گریزاں ہوں میں

وسعت بحر کی فرقت میں پریشاں ہوں میں

***

۸۷

( ماخوذ از ایمرسن)

رخصت اے بزم جہاں

رخصت اے بزم جہاں! سوئے وطن جاتا ہوں میں

آہ! اس آباد ویرانے میں گھبراتا ہوں میں

*

بسکہ میں افسردہ دل ہوں ، درخور محفل نہیں

تو مرے قابل نہیں ہے ، میں ترے قابل نہیں

*

قید ہے ، دربار سلطان و شبستان وزیر

توڑ کر نکلے گا زنجیر طلائی کا اسیر

*

گو بڑی لذت تری ہنگامہ آرائی میں ہے

اجنبیت سی مگر تیری شناسائی میں ہے

*

مدتوں تیرے خود آراؤں سے ہم صحبت رہا

مدتوں بے تاب موج بحر کی صورت رہا

*

۸۸

مدتوں بیٹھا ترے ہنگامۂ عشرت میں میں

روشنی کی جستجو کرتا رہا ظلمت میں میں

*

مدتوں ڈھونڈا کیا نظارۂ گل خار میں

آہ ، وہ یوسف نہ ہاتھ آیا ترے بازار میں

*

چشم حیراں ڈھونڈتی اب اور نظارے کو ہے

آرزو ساحل کی مجھ طوفان کے مارے کو ہے

*

چھوڑ کر مانند بو تیرا چمن جاتا ہوں میں

رخصت اے بزم جہاں! سوئے وطن جاتا ہوں میں

*

گھر بنایا ہے سکوت دامن کہسار میں

آہ! یہ لذت کہاں موسیقی گفتار میں

*

ہم نشین نرگس شہلا ، رفیق گل ہوں میں

ہے چمن میرا وطن ، ہمسایۂ بلبل ہوں میں

*

۸۹

شام کو آواز چشموں کی سلاتی ہے مجھے

صبح فرش سبز سے کوئل جگاتی ہے مجھے

*

بزم ہستی میں ہے سب کو محفل آرائی پسند

ہے دل شاعر کو لیکن کنج تنہائی پسند

*

ہے جنوں مجھ کو کہ گھبراتا ہوں آبادی میں میں

ڈھونڈتا پھرتا ہوں کس کو کوہ کی وادی میں میں ؟

*

شوق کس کا سبزہ زاروں میں پھراتا ہے مجھے

اور چشموں کے کنارے پر سلاتا ہے مجھے؟

*

طعنہ زن ہے تو کہ شیدا کنج عزلت کا ہوں میں

دیکھ اے غافل! پیامی بزم قدرت کا ہوں میں

*

ہم وطن شمشاد کا ، قمری کا میں ہم راز ہوں

اس چمن کی خامشی میں گوش بر آواز ہوں

*

۹۰

کچھ جو سنتا ہوں تو اوروں کو سنانے کے لیے

دیکھتا ہوں کچھ تو اوروں کو دکھانے کے لیے

*

عاشق عزلت ہے دل ، نازاں ہوں اپنے گھر پہ میں

خندہ زن ہوں مسند دارا و اسکندر پہ میں

***

۹۱

طفل شیر خوار

میں نے چاقو تجھ سے چھینا ہے تو چلاتا ہے تو

مہرباں ہوں میں ، مجھے نا مہرباں سمجھا ہے تو

*

پھر پڑا روئے گا اے نووارد اقلیم غم

چبھ نہ جائے دیکھنا! ، باریک ہے نوک قلم

*

آہ! کیوں دکھ دینے والی شے سے تجھ کو پیار ہے

کھیل اس کاغذ کے ٹکڑے سے ، یہ بے آزار ہے

*

گیند ہے تیری کہاں ، چینی کی بلی ہے کد ھر؟

وہ ذرا سا جانور ٹوٹا ہوا ہے جس کا سر

*

تیرا آئینہ تھا آزاد غبار آرزو

آنکھ کھلتے ہی چمک اٹھا شرار آرزو

*

ہاتھ کی جنبش میں ، طرز دید میں پوشیدہ ہے

تیری صورت آرزو بھی تیری نوزائیدہ ہے

*

۹۲

زندگانی ہے تری آزاد قید امتیاز

تیری آنکھوں پر ہویدا ہے مگر قدرت کا راز

*

جب کسی شے پر بگڑ کر مجھ سے ، چلاتا ہے تو

کیا تماشا ہے ردی کاغذ سے من جاتا ہے تو

*

آہ! اس عادت میں ہم آہنگ ہوں میں بھی ترا

تو تلون آشنا ، میں بھی تلون آشنا

*

عارضی لذت کا شیدائی ہوں ، چلاتا ہوں میں

جلد آ جاتا ہے غصہ ، جلد من جاتا ہوں میں

*

میری آنکھوں کو لبھا لیتا ہے حسن ظاہری

کم نہیں کچھ تیری نادانی سے نادانی مری

*

تیری صورت گاہ گریاں گاہ خنداں میں بھی ہوں

دیکھنے کو نوجواں ہوں ، طفل ناداں میں بھی ہوں

***

۹۳

تصویر درد

نہیں منت کش تاب شنیدن داستاں میری

خموشی گفتگو ہے بے زبانی ہے زباں میری

*

یہ دستور زباں بندی ہے کیسا تیری محفل میں

یہاں تو بات کرنے کو ترستی ہے زباں میری

*

اٹھائے کچھ ورق لالے نے ، کچھ نرگس نے ، کچھ گل نے

چمن میں ہر طرف بکھری ہوئی ہے داستاں میری

*

اڑالی قمریوں نے ، طوطیوں نے ، عندلبوں نے

چمن والوں نے مل کر لوٹ لی طرز فغاں میری

*

ٹپک اے شمع آنسو بن کے پروانے کی آنکھوں سے

سراپا درد ہوں حسرت بھری ہے داستاں میری

*

الہی! پھر مزا کیا ہے یہاں دنیا میں رہنے کا

حیات جاوداں میری ، نہ مرگ ناگہاں میری!

*

۹۴

مرا رونا نہیں ، رونا ہے یہ سارے گلستاں کا

وہ گل ہوں میں ، خزاں ہر گل کی ہے گویا خزاں میری

*

""دریں حسرت سرا عمریست افسون جرس دارم

ز فیض دل تپیدنہا خروش بے نفس دارم""

*

ریاض دہر میں نا آشنائے بزم عشرت ہوں

خوشی روتی ہے جس کو ، میں وہ محروم مسرت ہوں

*

مری بگڑی ہوئی تقدیر کو روتی ہے گویائی

میں حرف زیر لب ، شرمندۂ گوش سماعت ہوں

*

پریشاں ہوں میں مشت خاک ، لیکن کچھ نہیں کھلتا

سکندر ہوں کہ آئینہ ہوں یا گرد کدورت ہوں

*

یہ سب کچھ ہے مگر ہستی مری مقصد ہے قدرت کا

سراپا نور ہو جس کی حقیقت ، میں وہ ظلمت ہوں

*

۹۵

خزینہ ہوں ، چھپایا مجھ کو مشت خاک صحرا نے

کسی کیا خبر ہے میں کہاں ہوں کس کی دولت ہوں!

*

نظر میری نہیں ممنون سیر عرصۂ ہستی

میں وہ چھوٹی سی دنیا ہوں کہ آپ اپنی ولایت ہوں

*

نہ صہباہوں نہ ساقی ہوں نہ مستی ہوں نہ پیمانہ

میں اس میخا نۂ ہستی میں ہر شے کی حقیقت ہوں

*

مجھے راز دو عالم دل کا آئینہ دکھاتا ہے

وہی کہتا ہوں جو کچھ سامنے آنکھوں کے آتا ہے

*

عطا ایسا بیاں مجھ کو ہوا رنگیں بیانوں میں

کہ بام عرش کے طائر ہیں میرے ہم زبانوں میں

*

اثر یہ بھی ہے اک میرے جنون فتنہ ساماں کا

مرا آ ئینۂ دل ہے قضا کے راز دانوں میں

*

۹۶

رلاتا ہے ترا نظارہ اے ہندوستاں! مجھ کو

کہ عبرت خیز ہے تیرا فسانہ سب فسانوں میں

*

دیا رونا مجھے ایسا کہ سب کچھ دے دیا گویا

لکھا کلک ازل نے مجھ کو تیرے نوحہ خوانوں میں

*

نشان برگ گل تک بھی نہ چھوڑ اس باغ میں گلچیں!

تری قسمت سے رزم آرائیاں ہیں باغبانوں میں

*

چھپاکر آستیں میں بجلیاں رکھی ہیں گردوں نے

عنادل باغ کے غافل نہ بیٹھیں آشیانوں میں

*

سن اے غافل صدا میری، یہ ایسی چیز ہے جس کو

وظیفہ جان کر پڑھتے ہیں طائر بوستانوں میں

*

وطن کی فکر کر ناداں مصیبت آنے والی ہے

تری بربادیوں کے مشورے ہیں آسمانوں میں

*

۹۷

ذرا دیکھ اس کو جو کچھ ہو رہا ہے، ہونے والا ہے

دھرا کیا ہے بھلا عہد کہن کی داستانوں میں

*

یہ خاموشی کہاں تک؟ لذت فریاد پیدا کر

زمیں پر تو ہو اور تیری صدا ہو آسمانوں میں

*

نہ سمجھو گے تو مٹ جاؤ گے اے ہندوستاں والو!

تمھاری داستاں تک بھی نہ ہو گی داستانوں میں

*

یہی آئین قدرت ہے، یہی اسلوب فطرت ہے

جو ہے راہ عمل میں گام زن، محبوب فطرت ہے

*

ہویدا آج اپنے زخم پنہاں کر کے چھوڑوں گا

لہو رو رو کے محفل کو گلستاں کر کے چھوڑوں گا

*

جلانا ہے مجھے ہر شمع دل کو سوز پنہاں سے

تری تاریک راتوں میں چراغاں کر کے چھوڑں گا

*

۹۸

مگر غنچوں کی صورت ہوں دل درد آشنا پیدا

چمن میں مشت خاک اپنی پریشاں کر کے چھوڑں گا

*

پرونا ایک ہی تسبیح میں ان بکھرے دانوں کو

جو مشکل ہے، تو اس مشکل کو آساں کر کے چھوڑوں گا

*

مجھے اے ہم نشیں رہنے دے شغل سینہ کاوی میں

کہ میں داغ محبت کو نمایاں کر کے چھوڑوں گا

*

دکھا دوں گا جہاں کو جو مر ی آنکھوں نے دیکھا ہے

تجھے بھی صورت آئینہ حیراں کر کے چھوڑوں گا

*

جو ہے پردوں میں پنہاں، چشم بینا دیکھ لیتی ہے

زمانے کی طبیعت کا تقاضا دیکھ لیتی ہے

*

کیا رفعت کی لذت سے نہ دل کو آشنا تو نے

گزاری عمر پستی میں مثال نقش پا تو نے

*

۹۹

رہا دل بستۂ محفل، مگر اپنی نگاہوں کو

کیا بیرون محفل سے نہ حیرت آشنا تو نے

*

فدا کرتا رہا دل کو حسنیوں کی اداؤں پر

مگر دیکھی نہ اس آئینے میں اپنی ادا تو نے

*

تعصب چھوڑ ناداں! دہر کے آئینہ خانے میں

یہ تصویریں ہیں تیری جن کو سمجھا ہے برا تو نے

*

سراپا نالۂ بیداد سوز زندگی ہو جا

سپند آسا گرہ میں باندھ رکھی ہے صدا تو نے

*

صفائے دل کو کیا آرائش رنگ تعلق سے

کف آئینہ پر باندھی ہے او ناداں حنا تو نے

*

زمیں کیا آسماں بھی تیری کج بینی پہ روتا ہے

غضب ہے سطر قرآں کو چلیپا کر دیا تو نے

*

۱۰۰

101

102

103

104

105

106

107

108

109

110

111

112

113

114

115

116

117

118

119

120

121

122

123

124

125

126

127

128

129

130

131

132

133

134

135

136

137

138

139

140

141

142

143

144

145

146

147

148

149

150

151

152

153

154

155

156

157

158

159

160

161

162

163

164

165

166

167

168

169

170

171