علوم ومعارف قرآن

علوم ومعارف قرآن21%

علوم ومعارف قرآن مؤلف:
زمرہ جات: علوم قرآن
صفحے: 263

علوم ومعارف قرآن
  • ابتداء
  • پچھلا
  • 263 /
  • اگلا
  • آخر
  •  
  • ڈاؤنلوڈ HTML
  • ڈاؤنلوڈ Word
  • ڈاؤنلوڈ PDF
  • مشاہدے: 136054 / ڈاؤنلوڈ: 6862
سائز سائز سائز
علوم ومعارف قرآن

علوم ومعارف قرآن

مؤلف:
اردو

یہ کتاب برقی شکل میں نشرہوئی ہے اور شبکہ الامامین الحسنین (علیہما السلام) کے گروہ علمی کی نگرانی میں اس کی فنی طورپرتصحیح اور تنظیم ہوئی ہے


1

2

3

4

5

6

7

8

9

10

11

12

13

14

15

16

17

18

19

20

21

22

23

24

25

26

27

28

29

30

31

32

33

34

35

36

37

38

39

40

41

42

43

44

45

46

47

48

49

50

51

52

53

54

55

56

57

58

59

60

61

62

63

64

65

66

67

68

69

70

71

72

73

74

75

76

77

78

79

80

81

82

83

84

85

86

87

88

89

90

91

92

93

94

95

96

97

98

99

100

101

102

103

104

105

106

107

108

109

110

111

112

113

114

115

116

117

118

119

120

فواتح و خواتم السور پر قلم اٹھانے والے علماء و مفسرین:

جن علماء ومفسرین نے فواتح و خواتم سورة القرآن کے ربط پر بطور خاص قلم اٹھایا ہے ان میں سر فہرست علامہ جلال الدین سیوطی ہیںجن کی اس موضوع پر تصنیف”مراصد المطالع فی تناسب المقاطع والمطالع“ کے نام سے ہےاسی طرح علامہ کرمانی کی کتاب العجائب بھی اس موضوع پر بہترین ہے برصغیر پاک وہند کے علماء میں شاہ ولی اللہ نے اپنی کتاب ”الفوز الکبیر“ میں ضمناً اس موضوع کا تذکرہ کیاہے البتہ مولانا اشرف علی تھانوی کی کتاب عربی زبان میں” سبق الغایات فی نسق الایات" اس موضوع پر عمد ہ ہے دیگر مفسرین میں جنہوں نے اپنی تفاسیر میں اس امر کا خاص اہتمام کیاہے۔ فخر الدین رازی،احمد مصطفی المرانی،عبدالحق حقانی صاحب ”فتح المنان“ اور مولانا اشرف علی تھانوی صاحب ”بیان القرآن“ شامل ہیں۔

۱۲۱

وحی کی حقیقت اور اہمیت

اسلامی اور استشراقی افکار کا تحقیقی مطالعہ

”سید حسنین عباس گردیزی“

وحی کا اصطلاحی مفہوم:

لغت میں لفظ ” وحی“ مختلف معانی میں استعمال ہوا ہے ان معانی کے درمیان قدر جامع اور قدر مشترک ” مخفی تفہیم اور القاء“ ہے۔ ۱ دور جاہلیت کے شعراء اس لفظ کو کتابت ‘ اشارے اور مکتوب کے معانی میں بروئے کار لائے ہیں۔ ۲ دین اسلام میں یہ لفظ ایک خاص معنی میں اس درجہ کثرت سے استعمال ہوا کہ منقول شرعی بن گیا اور شرعی نوعیت اختیار کر گیااس کے بعد جب بھی یہ لفظ کسی نبی یا پیغمبر کے حوالے سے ذکر ہوا تو اس سے یہی خاص معنی مراد لیا گیا جسے وحی کا اصطلاحی معنی کہا جاتا ہے۔ لہذا اسلامی متون میں جب یہ لفظ بطور مطلق اور بغیر قرینے کے استعمال ہوتا ہے تو اس سے یہی اصطلاحی خاص معنی خاص مراد ہیں البتہ قرینے کی موجودگی میں دیگر معانی مراد لیے جاسکتے ہیں۔

____________________

۱ اس تحریر کی گذشتہ قسط کی بحث کا یہی نتیجہ نکلا تھا۔

۲ العجاج نے اوحی” کو اشارے کے معنی میں استعمال کیا ہے:” فاوحت الینا و الانا مل رسلهار و شدها بالراسیات الثبت

العجاج نے اسی لفظ کو کتابت کے معنی میں اپنے اس شعر میں ذکر کیا ہے:حتی نحاهم جدنا و الناحی ---- لقدر کان وحاه الواحی

(دیوان عجاج،ص۴۳۹)

لبید نے مکتوب کے معنی میں بیان کیا ہے:وفمدا فع الریان عری رسمها ---- خلقا کما ضمن الوحی سلا مها

۱۲۲

چوتھی صدی ہجری کے اسلامی متکلم شیخ مفید نے بیان کیا ہے:

”واذا اُضیفَ (الوحی) الی الله تعالیٰ کان فیما یخص به الرسل خاصةً دون من سواهم علی عُرْفِ الاِسْلٰام و شریعة البنی“ (۳)

جب وحی کا لفظ اللہ تعالیٰ کے ساتھ آئے تو اس سے مراد شریعت نبی اور اسلام کے عرف میں انبیاء کے ساتھ مخصوص وحی ہے دیگر معانی ہرگز مراد نہیں ہیں۔

تفسیر المنار کے مولف نے مذکورہ مطلب کو یوں بیان کیا:

للوحی معنی عام یطلق علی عدة صور من الاعلام الخفی الخاص الموافق لوضع اللغة وله معنی خاص هو احد الاقسام الثلاثة للتکلیم الالهی وغیرهذه الثلاثة من الوحی العام لایعدمن کلام الله تعالیٰ التشریعی (۴)

وحی کا عام معنی کا اطلاق مخفی طور پر آگاہ کرنے کی مختلف صورتوں پر ہوتا ہے اوراس کا ایک خاص معنی ہے جس کا اطلاق اللہ تعالیٰ کے تشریعی کلام کے سوا کسی اور معنی پر نہیں ہوتا۔

عصر حاضر کے مفسر علامہ طباطبائی لکھتے ہیں:

وقد قرر الادب الدینی فی الاسلام ان لایطلق الوحی غیر ماعند الانبیاء والرسل من التکلیم الالهی (۵)

اسلام میں ادب دینی کا تقاضاہے کہ خدا اور انبیاء کے درمیان گفتگو کے علاوہ کسی اور چیز پر وحی کا اطلاق نہ کیا جائے۔

____________________

۳ مفیدمحمد بن نعمان الشیخ المفید(۵)تصحیح الاعتقاد،المؤتمر العالمی لالفیة الشیخ المفید،۱۴۱۳ه ص۱۲۰

۴ رشید رضا:تفسیر المنار:ج۱۱ص۱۷۹

۵ طباطبائی محمد حسین:المیزان فی تفسیر القرآن:ج۱۲ص۳۱۲

۱۲۳

ڈاکٹر حسن ضیاء الدین عتر، وحی کے اصطلاحی معنی کے بارے میں لکھتے ہیں:

”اقول ومن هنا نلحظ ان معنی الوحی فی الشرع اخص منه فی اللغة من جهة مصدره وهو الله تعالیٰ و من جهة الموحی الیه و هم الرسل“ (۶)

ہم کہتے ہیں کہ اسی وجہ سے ہم ملاحظہ کر سکتے ہیں کہ وحی کا شرعی معنی اپنے مصدر یعنی اللہ تعالیٰ اور جن کی طرف یہ وحی کی جاتی ہے یعنی رسولوں کے لحاظ سے اپنے لغوی معنی سے اخص ہے۔

مولانا تقی عثمانی کہتے ہیں:

لفظ’ ’وحی“ اپنے اصطلاحی معنی میں اتنا مشہور ہو چکا ہے کہ اب اس کا استعمال پیغمبر کے سوا کسی اور کے لیے درست نہیں ہے۔(۷)

رائج لطفی نے بیان کیاہے:

کذلک یذکر اللغویون لکلمة الوحی معانی کثیرة ثم غلب استعمال الوحی علی مایلقی الی الانبیاء من عندالله (۸)

اس طرح اہل لغت نے لفظ وحی کے بہت سے معنی ذکر کیے ہیں پھراس کااستعمال ”اللہ تعالیٰ کی طرف سے انبیاء پر القاء کیے جانے والے کلام کے لیے غالب ہو گیا۔

____________________

۶ ضیاالدین عترحسن ڈاکٹر:وحی اللہ،دعوة الحق مکہ مکرمہ رجب۱۴۰۴ہجریص۵۲

۷ عثمانی محمدتقی:علوم القرآن،مکتبہ دارالعلوم کراچی۱۴۰۸ھ،ص۲۹

۸ جمعہ رائج لطفی:القرآن والمستشرقون،قاہرہ۱۳۹۳ھ

۱۲۴

معاصر محقق محمد باقر سعید ی وحی کے خاص معنی کے بارے میں لکھتے ہیں:

درنتیجہ واژہ وحی درحوزہ اصطلاح علم کلام و بلکہ فلسفہ دین در قلمر و ادیان توحیدی‘اخص از مفہوم لغوی آن است(۹)

نتیجے کے طور پر علم کلام بلکہ ادیان توحیدی کے افق پر فلسفہ دین میں وحی کا مفہوم اس کے لغوی معنی سے اخص ہے۔ اسی مطلب کو اردو دائرة المعارف اور سعید اکبر آبادی نے ذکرکیا ہے :

وحی کا استعمال اس معنی خاص میں اس کثرت سے ہوا ہے کہ منقول شرعی بن گیا ہے۔(۱۰)

یہ لفظ اس معنی خاص میں اس درجہ کثرت سے استعمال ہوا ہے کہ یہ ایک شرعی نوعیت اختیار کر گیاہے۔(۱۱)

اسلامی مفکرین کے علاوہ مستشرقین نے بھی وحی کے خصوصی معنی کو بیان کیا ہے:

رچرڈبل مقدمہ قرآن میں لکھتے ہیں:

The verb "awha"and the n(un "wahy" have bec(me the technical terms in m(slem the(l(gy-(۱۲ )

یعنی فعل ” اوحی“ اور مصدر ”وحی" اسلام کے اندر اصطلاحی مفہوم میں استعمال ہوتا ہے-

____________________

۹ سعیدی روشن محمدباقر:تحلیل وحی ازدیدگاہ اسلام و مسیحیت“،موسسہ فرہنگی اندیشہ ۱۳۷۵ھ شص۱۷

۱۰ اکبر آبادی سعید احمد:وحی الہی،مکتبہ عالیہ لاہورص۲۵

۱۱ اردو دائرةالمعارف الاسلامیہ:دانشگاہ پنجابلاہورج۱۶ص۳۲۱

۱۲۵

منٹگمری واٹ کہتے ہیں:

The verb here translated "reveal"is"awha"which in much (f the Quran is a technical expressi(n f(r this experience (f M(hammad-(۳۱ ) اس کے مطابق فعل ” اوحی" اصطلاحی مفہوم میں استعمال ہوا ہے بالخصوص قرآن میں یہ لفظ ”وحی محمدی"کے لیے زیادہ آیا ہے وحی کا یہ خاص او ر اصطلاحی مفہوم کیا ہے؟ اس بارے میں علوم اسلامی کے ماہرین نے جو تعاریف کی ہیں ان کی رو سے وحی کے مفہوم کے لیے تین تعبیریں بیان کی گئی ہیں۔

۱ کلام الہی:

صحیح بخاری کے شارحین بدر الدین عینی اور کرمانی نے بیان کیا ہے:واما بحسب اصلطاح المتشرعة: فهو کلام الله المنزل علی نبی من انبیائه (۱۴) شریعت کی اصطلاح میں وحی اللہ کا وہی کلام ہے جو اس کے انبیاء میں سے کسی پر نازل ہوا ہو۔ راغب اصفہانی کا قول ہے:ویقال للکلمة الالهیة التی تلقی الی انبیائه (۱۵)

وحی کے معنوں میں سے ایک وہ کلام الہی ہے جو اس کے انبیاء کی طرف القاء کیا گیا ہے۔

____________________

۱۲ Bell,Richard: Intr(ducti(n t( the Quran;p-۳۲Edinburg ۱۹۵۳ -

۱۳ Watt,W.M(ntg(mery: Islamic Revelati(n in the M(dern W(rld; p-۱۳ Edinburg ۱۹۶۹ -

۱۴ عینی بدرالدین ابی محمد محمود بن احمد(م۸۵۵) عمدةالقاری لشرح صحیح البخاری،ج۱ص۱۸کرمانی صحیح البخاری بشرح الکرمانی، موسسہ المطبوعات الاسلامیہ قاہرہ،الجزالاول :ص۱۴

۱۵ راغب اصفہانی:” معجم المفردات الفاظ القرآن“ص۵۱۵

۱۲۶

تفسیر المنار کے مولف نے وحی کے خاص معنی بیان کرتے ہوئے کہا ہے:

وله (الوحی) معنی خاص هواحد الاقسام الثلاثة للتکلیم الالهی وغیر هذه الثلاثة من الوحی العام لایعد من کلام الله تعالیٰ التشریحی (۱۶)

اس میں انہوں نے وحی کا خاص معنی کلام الہی بیان کیا ہے البتہ تشریعی ہونے کی قید لگائی ہے۔

ڈاکٹر حسن ضیاء نے بھی اصطلاحی مفہوم کی اسی تعبیر کاذکر کیا ہے:

وزبدة القول ان الوحی شرعاً القاء الله کلام اوالمعنی فی نفس الرسول بخفاء وسرعة (۱۷)

اس میں انہوں نے اصطلاحی معنی میں تھوڑی سی وسعت پیدا کرتے ہوئے کلام الہی کے علاوہ القاء مفہوم اور معنی کو بھی وحی کا شرعی معنی بتایا ہے: عصر حاضر کے علماء میں تقی عثمانی اور ذوقی نے اصطلاحی مفہوم کو بالترتیب یوں بیان کیا ہے:

”کلام الله المنزل علی نبی من انبیائه"

”اللہ تعالیٰ کا وہ کلام جو اس کے کسی نبی پر نازل ہو“(۱۸)

” وحی کلام الہی ہے جو عالم غیب سے عالم شہادت کی جانب بذریعہ ایک مقرب فرشتہ کے جنہیں جبرئیل کہتے ہیں رسولوں کے پاس پہنچایا جاتا ہے۔"(۱۹)

____________________

۱۶ تفسیر المنارج،ج۱۱،۱۷۹ ۱۷ وحی اللہ،ص۵۲

۱۸ علوم القرآن،ص۲۹

۱۹ شاہ ذوقی مولانا:القاء الہام اور وحی،اقبال اکیڈیمیلاہورص۱۳

۱۲۷

۲ علم و آگاہی اور اس کی تعلیم:

مصر کے معروف مفکر محمد عبدہ وحی کے اصطلاحی مفہوم کو بیان کرتے ہوئے لکھتے ہیں:

”وقدعرَ فوه شرعاَ‘ انه اعلام الله تعالیٰ لنبی من انبیائه بحکم شرعی و نحوه (۲۰)

شرعی لحاظ سے وحی کی تعریف یوں کی گئی کہ اللہ تعالیٰ کا اپنے انبیاء میں سے کسی کو حکم شرعی اور اس طرح کے دیگر احکام سے آگاہ کرنا وحی کہلاتا ہے۔

علوم قرآن کے ماہر محمد عظیم زرقانی نے وحی کی نہایت جامع تعریف کی ہے۔

علم و ہدایت بلکہ ہر قسم کی آگاہی جو اللہ تعالیٰ اپنے برگزیدہ بندوں کو دینا چاہے شریعت میں اسے وحی کہتے ہیں لیکن یہ سب کچھ خارق العادت اور مخفی ذریعے سے ہوتا ہے۔(۲۱)

المنار کے موئف بھی وحی کو ” انبیاء سے مخصوص علم“ سے تعبیر کرتے ہیں وہ کہتے ہیں۔

انبیاء کی جانب وحی الہی انبیاء سے مخصوص علم ہے جو تلاش و کو شش اور کسی غیر کی تعلیم کے بغیر انبیاء کو حاصل ہوتا ہے بلکہ اس علم میں انبیاء کے تفکر اور سوچ و بچار کا بھی کوئی عمل دخل نہیں ہوتا۔(۲۲)

___________________

۲۰ عبدہ محمد: رسالة التوحید،مصر۱۳۸۵،ص۱۱۱

۲۱ زرقانی محمد عظیم:مناھل العرفان فی العلوم القرآن،داراحیاء التراث العربی،بیروت،ص۵۶

۲۲ تفسیر المنار، ج۱ص۲۳۰ ۲۳ القرآن والمستشر قون، ص قاہرہ۱۳۹۳ھ

۱۲۸

ایک اور مصری دانشور رائج لطفی اپنے رائے بیان کرتے ہیں:

علی الاصطلاح الشرعی اعلام الله تعالیٰ انبیائه اما بکتاب اوبر سالةِ ملکٍ فی منام او الهام“ (۲۳)

” اللہ تعالیٰ کا اپنے انبیاء کو آگاہ کرنا وحی کہلاتا ہے اس کے مختلف ذرائع ہیں مکتوب شکل میں‘فرشتے کے ذریعے خواب میں یا دل میں بات ڈالنے سے“

برصغیر کے عالم اسلم جیراجپوری بھی وحی کو علوم الہیہ کا نام دیتے ہیں:

اصطلاح شرع میں وحی ان علوم الہیہ کا نام ہے جو ملاء اعلیٰ سے نبی کے دل پر القاء کیے جاتے ہیں۔(۲۴)

غلام احمد پرویز کے بقول وحی کااصطلاحی مفہوم علم الہی ہے:وہ لکھتے ہیں:

” وحی کے اصطلاحی معنی ہیں وہ علم جسے خدا ایک برگزیدہ فرد کو براہ راست اپنی طرف سے دیتا ہے قرآنی اصطلاح کی رو سے وحی کے معنی ہیں” خداکی طرف سے براہ راست ملنے والا علم“(۲۵)

انہوں نے اصطلاحی معنی کو بہت ہی محدود کر دیاہے ان کی نظر میں فقط وہی علم وحی ہے جو اللہ تعالیٰ کی طرف سے براہ راست دیا جائے اس سے فرشتے کے ذریعے سے ملنے والی آگاہی وحی کے زمرے سے خارج ہو جاتی ہے کہ باقی آراء کے خلاف بات ہےکیونکہ اکثر محققین نے وحی کے تینوں ذرائع جو سورہ شوریٰ کی آیت ۵۱ میں بیان ہوئے ہیں‘ کو اصطلاحی معنی میں وحی کا نام دیاہے۔

__________________

۲۴ جیرا جپوری اسلم:تاریخ القرآن، آواز اشاعت گھر،لاہور ص۱۲

۲۵ پرویز غلام احمد:ختم نبوت اور تحریک احمدیت طلوع اسلام ٹرسٹلاہور۱۹۹۶ءص۲۴

۱۲۹

برصغیر کے ایک اور دانشور نے وحی کو علم الہی کا نام دیا ہے وہ کہتے ہیں:

” شریعت اسلام کی اصطلاح میں وحی خاص اس ذریعہ غیبی کا نام ہے جس کے ذریعہ غوروفکر کسب و نظر اور تجربہ و استدلال کے بغیر خاص اللہ تعالیٰ کی طرف سے اس کے فضل و لطف خاص سے کسی نبی کو کوئی علم حاصل ہوتا ہے۔"(۲۶)

ایران کے معاصر محقق ڈاکٹر صالحی کرمانی لکھتے ہیں:

تعلیمی کہ خدا ونداز راھہای کہ بربشر پنہاں است و بطور سریع یعنی برکنار از مقدمات و روش آگاہی ھای بشری بہ پیا مبرمی دھد“(۲۷)

ان کے بقول وحی وہ تعلیم ہے جو اللہ تعالیٰ مخفی ذریعے سے تیزی کے ساتھ اپنے پیغمبر کو دیتا ہے یہ تعلیم دیگر انسانی ذرائع تعلیم سے یکسر مختلف ہوتی ہے۔

ایران کے ایک اور محقق سعیدی روشن بیان کرتے ہیں:

”بنا بر این معنای اصطلاحی وحی در علم کلام عبارت است:

از تفہیم یک سلسلہ حقائق و معارف از طرف خدا وندبہ انسا نہای بر گذیدہ پیا مبران برای ہدایت مردم‘ از راہ ھای دیگری غیراز راھہای عمومی و شناخة شدہ معرفت ہمچون حس و تجربہ وعقل و حدس و شہود عرفانی ‘ تااینکہ آنہاپس از دریافت ‘آن معارف ربہ مردم ابلاغ کنند“(۲۸) ان کی تحقیق کے مطابق اللہ تعالیٰ کی جانب سے اپنے انبیاء کو لوگوں کی ہدایت کے لیے حقائق اور علوم کی تفہیم کا نام ہے

____________________

۲۶ وحی الہی، ص۲۵ ۲۷ صالحی کرمانی،محمد رضا ڈاکٹر:درآمدی برعلوم قرآنی،انتشارات جہاد دانشگاہی دانشگاہ تہران،۱۳۶۹ھ،شص۲۵۲

۲۸ تحلیل وحی ازدیدگاہ اسلام و مسیحیت،ص۱۷۱۸

۱۳۰

یہ تفہیم اور تعلیم جانے پہچانے انسانی ذرائع علم (جیسے حواس خمسہ، تجربہ، عقل، گمان، عرفانی مشاہدات،) سے ماوراء ذریعے سے ہوتی ہے اور ان حقائق اور معارف کو لوگوں تک پہنچانا مقصود ہے۔ پاکستان کے محقق شمس الحق افغانی وحی کا اصطلاحی مفہوم یہ ذکر کرتے ہیں: ” وحی کا شرعی معنی الاعلام بالشرع ‘یعنی صرف شرعی احکام بتلانے کا نام وحی ہے“(۲۹) یہ وحی انبیاء علیہم الاسلام سے مختص ہے۔"(۳۰) برطانوی مستشرق منٹگمری واٹ لکھتے ہیں:

M(st c(mmentat(rs and translat(rs treat m(st (f instances (f the w(rds in the Quran as technical(۳۱ ہت سے مفسرین اور مترجمین نے قرآن میں اس لفظ کے استعمالات سے اصطلاحی مفہوم مراد لیاہے۔ اصلاحی مفہوم کے بارے میں وہ لکھتے ہیں:

The verb here translated "reveal" is "awha" which in mhich (f the Quran in a technical expressin f(r this experience (f Muhammad(۳۲ )

یعنی وحی کا لفظ اصطلاحی معنوں میں محمدصلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے تجربے (نبوت)کے اظہار کے لیے استعمال ہوتا ہے قرآن میں یہ لفظ زیادہ تر حضرت محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی وحی کے لیے فقط نہیں آیا بلکہ تمام انبیاء علیہم السلام کی وحی کے لیے استعمال ہوتا ہے۔(۳۳)

____________________

۲۹۳۰ افغانی شمس الحق، علوم القرآن مکتبہ الحسن لاہور،ص۹۶،ص۹۸

۳۱۳۲ Watt,W.M(ntg(mery: Islamic Revelati(n in the M(dern W(rld-p۱۳&۱۴-Edinburg۱۹۶۹

۳۳ مندرجہ ذیل آیات میں یہ لفظ دیگر انبیاء کی وحی کے لیے آیاہے نساء۱۶۳:اعراف۱۱۷،۱۶۰یونس۲،۸۷:طہٰ۷۷،مومنون۲۷:شعراء۵۲،۶۳:یوسف۱۰۹:نحل۴۳انبیاء۷،۲۵ شوریٰ۳،۵۱:ھود۳۷،۳۶زمر۶۵

۱۳۱

۳ پیغام الہی:

ڈاکٹر حمید اللہ نے اصطلاح میں وحی کا مفہو م یوں ذکر کیا ہے:

” اللہ اپنے کسی برگذیدہ بندے کے پاس اپناپیغام بھیجتا ہے یہ پیغام اس تک مختلف طریقوں سے پہنچایا جاتا ہے کبھی تو اللہ کی آواز براہ راست اس نبی کے کان تک پہنچتی ہے ‘کبھی یہ ہوتا ہے کہ وہ پیغام ایک فرشتہ لاتا ہے اور انسان تک پہنچاتا ہے فرشتے خدا کا جو پیغام لاتے ہیں اس کو ہم اصطلاحاً ” وحی“ کہتے ہیں“(۳۴)

انہوں نے وحی کے خاص مفہو م کو اور بھی محدود کر دیا ہے اور صرف فرشتوں کے ذریعے پہنچائے جانے والے پیغام کو وحی کہا ہے حالانکہ نبی کو براہ راست القاء بھی وحی بمعنی خاص ہے۔ اسلامی علوم کے ماہرین نے وحی کے اصطلاحی مفہوم کو مختلف الفاظ اور تعبیروں سے واضح کی ہے ان میں سے بعض نے اللہ تعالیٰ کے کلام کو وحی کا اصطلاحی مفہوم قرار دیاہے۔(۳۵) یہ وحی کا اسمی معنی ہے۔ بعض مفکرین نے اللہ تعالیٰ کے اپنے انبیاء سے گفتگو کرنے کو اصطلاح میں وحی کہا ہے(۳۶) یہ وحی کے مصدری معنی کے لحاظ سے ہے۔ انہی میں سے بعض نے علم اور معارف کو وحی کا نام دیا ہے۔(۳۷)

___________________

۳۴ ۔ حمید اللہ محمد ڈاکٹر:خطبات بہاولپور،ادارہ تحقیقات اسلامی اسلام آباد ۱۹۸۸ء،ص۱۹۱

۳۵ عینی بدر الدین ابی محمد محمود بن احمد:عمدة القاری شرح صحیح البخاری، ج۱،ص۱۸راغب اصفہانی معجم المفردات لالفاظ القرآن،دارالفکر بیروتص۵۱۵وحی اللہ ص۵۲علوم القرآن ص۲۹القاء الہام اور وحی ص۱۳

۳۶ تفسیر المنار:ج۱۱ص۱۷۹

۳۷ تفسیر المنار،ج۱ص۱۲تاریخ القرآن،ص۱۲ ختم نبوت اور تحریک احمدیت،ص۲۴ وحی الہی ص۲۵

۱۳۲

جبکہ بعض نے خود علم کی تعلیم دینے اور معارف کو سکھانے کے عمل کو وحی کا جامہ پہنایا ہے۔(۳۸) اور یہ تفاوت بھی وحی کے اسمی اور مصدری معنی کی وجہ سے ہے اور چونکہ اہل لغت نے وحی کے دونوں معنی بیان کیے ہیں۔(۳۹) اس لیے جن علماء کے پیش نظر وحی کا اسمی معنی تھا انہوں نے اس کا اصطلاحی مفہوم ”کلام الہی“ اور”علم و معارف“ بیان کیا اور جن کے سامنے اس کا مصدری معنی تھا انہوں نے اس کا مفہوم ”کلام کرنا“اور ”تعلیم دینا“بتایا ہے پس اصطلاحی مفہوم میں دونوں جہتوں کو ملحوظ رکھا گیا ہے۔ تعبیروں کے اختلاف کی وجہ یہ ہے کہ جنہوں نے کلام یاکلام کرنے کی تعبیر استعمال کی ہے انہوں نے خود قرآن کے الفاظ کو استعمال کیا ہے جو وحی کے لیے سورہ شوریٰ کی آیت ۵۱میں استعمال ہوئے ہیں۔(۴۰) جبکہ دوسروں نے واقعیت کو مدنظر رکھتے ہوئے علم،حقائق اور تعلیم کے الفاظ استعمال کیے ہیں کیونکہ اللہ تعالیٰ کا اپنے برگذیدہ بندوں سے کلام کرنا انہیں تعلیم دینا ہی ہے انہیں کائنات کی حقیقتوں سے آگاہ کرنا ہے انہیں آداب زندگی سکھانا ہی ہے اس لیے میری رائے میں تعابیر کا اختلاف مفہوم میں کسی جوہری اور اصلی اختلاف کا باعث نہیں بنتا دونوں کا نتیجہ ایک ہی نکلتاہےالبتہ علم اور تعلیم دینے کی تعبیر زیادہ موزوں ہے۔ اس تمام بحث کا نتیجہ یہ ہے کہ اصطلاح میں: ”وحی اللہ تعالیٰ اور اس کے انبیاء کے درمیان وہ مخصوص، غیر معمولی اور مافوق العادت رابطہ ہے جو بشر کے لیے تمام ذرائع علم(تجربہ،حواس،عقل) سے ماوراء ہے اس کے ذریعے سے اللہ تعالیٰ اپنے انبیاء کو انسانوں کی ہدایت اور ارتقاء کے علوم و معارف اور احکام و قوانین کی تعلیم دینا ہے۔" اس مقالے میں وحی کا یہی اصطلاحی مفہوم اور وحی کا مصدری معنی ہی موضوع تحقیق ہے۔

___________________

۳۸رسالة التوحید،ص۱۱۱، مناهل العرفان فی العلوم القرآن،ص۵۶، القرآن والمستشرقون ، درآمدی برعلوم قرآنی،ص۲۵۲، تحلیل وحی ازدید گاہ اسلام و مسیحیت ص۱۷،۱۸۔

۳۹الصحاح تاج اللغة و صحاح العربیة،تحقیق احمد عبدالغفور عطارج۶،ص۲۵۱۹،داراعلم للملابین،بیروت معجم مقائیس اللغة ج۶۹۳لسان العرب ج۱۵،ص۳۷۹

۴۰( وَمٰا کٰانَ لِبَشَرٍ ان یُکَلَّمَهُ اللّٰه اِلّٰا وَحْیاً اَوَمِنْ وَرٰاء حِجٰابٍ اَوْیُرْسِلْ رَسُولًا فَیُوحی بِاِذْنِهِ مٰایَشاٰءُ اَنَّه عَلیٰ حَکِیمٍ )

۱۳۳

مفہوم ولایت مختلف تراجم وتفاسیر کی روشنی میں تحقیقی جائزہ

ڈاکٹر محمد شکیل اوج

اسسٹنٹ پروفیسر شعبہ علوم اسلامی،جامعہ کراچی

قرآن مجید کی ایک آیت کے حوالہ سے مختلف تراجم و تفاسیر کی روشنی میں ایک تحقیقی جائزہ پیش خدمت ہے۔ اور وہ سورہ انفال کی آیت نمبر۷۲ ہے جس میں ارشاد ہوتا ہے:

( اِنَّ الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا وَهٰاجَرُوْا وَجٰهَدُوْا بِاَمْوَالِهِمْ وَاَنْفُسِهِمْ فِیْ سَبِیْلِ اللّٰهِ وَالَّذِیْنَ اٰوَوْا وَنَصَرُوْا اُولٰئِکَ بَعْضُهُمْ اَوْلِیَآءُ بَعْضٍ وَالَّذِیْنَ اٰمَنُوْا وَلَمْ یُهَاجِرُوْا مَالَکُمْ مِّنْ وِلاَیَتِهِمْ مِّنْ شَیْءٍ حَتّٰی یُهَاجِرُوْا وَاِنِ اسْتَنْصَرُوکُمْ فِیْ الدِّیْنِ فَعَلَیْکُمُ النَّصْرُ اِلاّٰ عَلٰی قَوْمٍ بَیْنَکُمْ وَبَیْنَهُمْ مِّیْثَاقٌ وَاللّٰهُ بِمَاتَعْلَمُوْنَ بَصِیْرٌ )

ترجمہ: بے شک جو لوگ ایمان لائے اور ہجرت کی اور اپنے اموال ونفوس کے ساتھ راہ خدا میں جہاد کیااور وہ لوگ کہ جنہوں نے انہیں ٹھکانہ دیااور امداد دی یہی لوگ ایک دوسرے کے اولیاء(سچے رفقاء اور ورثاء) ہیں اسی طرح وہ لوگ جو ایمان لائے مگر ہجرت(واجب ہونے کے باوجود)نہ کی (یعنی بلاعذر مخالفین کے ساتھ رہنا گوارا کر لیا)تو تمہارے لیے ان کی ولایت (وراثت) میں سے کچھ نہیں جب تک وہ ہجرت نہ کریں البتہ اگر وہ دین کے لیے تم سے کوئی مدد چاہیںتو تم پران کی مدد لازم ہے بشرطیکہ وہ اس قوم کے مقابلہ میں نہ ہوں جن سے تمہارا کوئی معاہدہ (امن دوستی )ہے اور اللہ ہر اس عمل کادیکھنے والا ہے جو تم کرتے ہو۔

اس آیت سے درج ذیل فوائد سامنے آتے ہیں۔

۱۔ مومن مہاجرین و انصار ایک دوسرے کے اولیاء ہیں۔ ۲۔ مومن مہاجرین، غیر مہاجرین کی وراثت سے (دارالکفر میں رہنے کی وجہ سے )محروم ہیں اسی طرح اس کے برعکس بھی ہو گا۔

۱۳۴

۳۔ مومن غیر مہاجرین کے دارالکفر میں ہونے کے باوجود ملت اسلامیہ کے مرکز کی ذمہ داری ہے کہ دینی معاملات میں ان کی مدد کرے بشرطیکہ وہ اس امداد کے طالب ہوں (ظاہر ہے کہ ان کی یہ مدد جہاد کی صورت میں ہو گی)

۴۔ اگر کافر قوم(ملک)سے مسلمانوں کے مرکز کا کوئی معاہدہ صلح و امن موجود ہے تو اس صورت میں بقائے عہد تک یہ امداد نہیں دی جاسکتیالبتہ عہد کو ختم کر کے مدد کرناجائز ہو گا جیسا کہ عبدالماجد دریا بادی نے اپنی تفسیر میں اسی آیت کے تحت لکھا ہے۔

فائدہ نمبر ۳کے مفہوم کی مزید تاکید کے لیے آیت مابعد(آیت نمبر۷۳)ملاحظہ ہو۔

( وَالَّذِیْنَ کَفَرُوْا بَعْضُهُمْ اَوْلِیَآءُ بَعْضٍ اِلَّا تَفْعَلُُْوهُ تَکُنْ فِتْنَةٌ فِی الْاَرْضِ وَ فَسَاٰدٌکَبِیْرٌ )

ترجمہ: اور جو کفر کرتے ہیںوہ ایک دوسرے کے اولیاء ہیں(اے مسلمانو)اگر تم ایسا نہ کرو گے (یعنی دین میں مدد کے طالبوں کی نصرت واعانت اور حفاظت و مدافعت، سرپرستی و پشتیبانی، بصورت جہاد)تو زمین میں فتنہ اور بڑا فساد برپا ہو جائے گا۔

اس آیت میں اکثر وبیشتر علماء کے نزدیک( اَلاّٰتَفْعَلُوه ) میں ضمیر مفعول کا مرجع وہی نصرت ہے جس کا ذکر ”فعلیکم النصر“میں آیا ہے۔

تفسیر جلالین میں( الاتفعلوه ) کا مفہومتولی المومنین وقطع الکفار“ سے اور( تکن فی الارض وفساد کبیر ) کامعنی”بقوة الکفروضعف الاسلام“ سے کیاگیاہے۔

تاہم پیش نظرآیت میں لفظ”اولیاء“ اور ”ولایت“ قابل توجہ ہیں۔

۱۳۵

در اصل آیت میں مہاجرین و انصار کو ایک دوسرے کااولیاء قرار دے کر غیر مہاجرین کو اس ”ولایت“ سے خارج کر دیا گیاہے چنانچہ اس مقام پر ان ہر دو لفظوں کی حقیقت کو سمجھنا بہت ضروری ہے یہ دونوں لفظ اپنے معنی و مفہوم کے اعتبا ر سے ایک دوسرے سے پیوست نظر آتے ہیں چونکہ یہاں” مالکم من ولایتهم من شیءِ“ کے الفاظ استعمال ہوئے ہیں اس لیے اگر اس فقرہ میں لفظ ولایت کو سمجھ لیا جائے تو اولیاء کا مفہوم آپ سے آپ پر واضح ہو جائے گا۔

اردو زبان کے بعض مترجمین نے اس فقرہ میں استعمال ہونے والے لفظ ولایت کو ولایت ہی رہنے دیاہے اس کاکوئی مفہوم اپنے ترجمہ میں بیان نہیں کیامثال کے طور پر سید ابو الاعلی مودودی،امین احسن اصلاحی،اور مسعود احمد(امیر جماعت المسلمین) کے تراجم دیکھے جاسکتے ہیں اور اب نمونہ کے طور پر ایک ترجمہ بھی دیکھ لیجیے۔ تو ان سے تمہاراولایت کاکوئی تعلق نہیں ہے(سید مودودی)

سید مودودی نے لفظ ولایت کو اپنی تفسیر میں بایں الفاظ بیان کیا ہے

”ولایت کا لفظ عربی زبان میں حمایت،نصرت،مددگاری،پشتیبانی،دوستی،قرابت،سرپرستی،اور اس سے ملتے جلتے مفہومات کے لیے بولا جاتا ہےاور اس آیت کے سیاق وسباق میں صریح طور پر اس سے مراد وہ رشتہ ہے جو ایک ریاست کا اپنے شہریوں اور شہریوں کا اپنی ریاست سے اور خود شہریوں کا آپس میں ہوتا ہے“(۱) اس مقام پر مودودی صاحب کا مفہوم ولایت جن جن لفظوں میں بیان ہوا ہےان پر ایک نظر پھر ڈال لیجیےحمایتنصرتمددگاریپشتیبانی دوستی قرابت اور سرپرستی وغیرہ ظاہر ہے۔ کہ ان مفہومات میں سے کوئی بھی مفہوم یہاں نہیں لیا جا سکتا اس لئے کہ اس فقرہ کے بعد کا جو فقرہ ہے۔

( وان استنصرو کم فی الدین فعلیکم النصر ) الخ وہ ان مفہومات سے ابا کرتا ہےمطلب یہ کہ اگر وہ تم سے نصر طلب کریں تو تم پر ان کی نصرت فرض ہےلہذا ولایت کا یہاں کوئی ایسا مفہوم نہیں لیاجا سکتاجو ان کی نصرت کے خلاف جاتا ہو

___________________

۱۔ تفہیم القرآن،جلد دوئم حاشیہ نمبر۵۰ص۱۶۱ ادارہ ترجمان القرآن لاہور، ۱۹۷۵ء

۱۳۶

اسی لیے خود سید مودودی نے بھی یہاں ولایت کا ان مفہومات میں سے کوئی مفہوم مراد نہیں لیابلکہ ان کے نزدیک یہاں ولایت سے مراد”وہ رشتہ ہے،جو ایک ریاست کا اپنے شہریوں سے اور شہریوں کا اپنی ریاست سے اور خود شہریوں کا آپس میں ہوتا ہے“ظاہر ہے کہ اس مفہوم کی رو سے لفظ ولایت ملکی قومیت/وطنیت کے سیاسی تصور کو پیش کر رہا ہے اور یوں بحیثیت مجموعی ایک امت کے تصور کی نفی ہو رہی ہے علامہ اقبال وطنیت کے اس سیا سی تصور کے سخت مخالف تھےانہوں نے اپنی ایک نظم میں اسے خلاف اسلام قرار دیا ہے فرماتے ہیں۔

گفتار رسیاست میں وطن اور ہی کچھ ہے ------- ارشاد نبوت میں وطن اور ہی کچھ ہے

وہ اس تصور کو شرک سے تعبیر کرتے ہوئے فرماتے ہیں:

ان تازہ خداؤں میں بڑا سب سے وطن ہے ---- جو پیرہن اس کا ہے وہ مذہب کا کفن ہے

اور مسلمانوں کو مخاطب کرکے فرماتے ہیں: ---- بازو تراتوحید کی قوت سے قوی ہے

اسلام ترا دیس ہے تو مصطفوی ہے ---- نظارہ دیرنہ زمانے کو دکھا دے

اے مصطفوی خاک میں اس بت کو ملا دے(۲)

__________________

۲۔ بانگ ِدرا، نظم زیر عنوان وطنّیت ص ۱۶۰۱۶۱ شیخ غلام علی اینڈ سنز پبلشرز لاہور سنہ اشاعت ۱۹۷۶ء

۱۳۷

لہذا اس مقام پر ”ولایت“ کا یہ مفہوم بھی غیر قرآنی معلوم ہوتا ہےبصورت دیگر ملکی /وطنی نیشنلزم کا تصور قرآن سے ماننا پڑے گا جو ناممکن سی بات ہے۔ نیز اسی عدم ولایت کی بناء پر مودودی صاحب دارالکفر اور دارالاسلام کے مسلمانوں کو ایک دوسرے کا وارث قرار نہیں دیتے اور نہ ہی ان کے مابین شادی بیاہ کے قائل ہیںاور قابل ذکر بلکہ تعجب خیز بات یہ ہے کہ ان سب باتوں کو وہ ”اسلام کے دستوری و سیاسی ولایت“ کے تحت مستقل بنیادوں پر تسلیم کرتے ہیں۔(۳) گویا ان کے نزدیک تفریق ریاست کے سبب بشرطیکہ وہ دارلاسلام اور دارلکفر ہوں)آج بھی ہر دو ریاستوں کے مسلمان رشتہ ازدواج میں منتقل نہیں ہو سکتے اور نہ ہی وہ ایک دوسرے کے وارث ہو سکتے ہیںہمارے خیال میں دونوں باتیں صحیح نہیں ہیں اور نہ ہی ان باتوں کی پشت پر کوئی نص قطعی موجود ہے۔ اب آپ اردو کے وہ مترجمین دیکھئے جنہوں نے اس مقام پر ”ولایت“ کا معنی رفاقت سے کیا ہے ان میں

۱ محمود حسن صاحب (اسیر مالٹا)

۲ ثناء اللہ امرتسری

۳ فتح محمد خان جالندھری

۴ وحید الدین خان

۵ غلام احمد پرویز

۶ صوفی عبدالحمید سواتی

۷ محمد جونا گڑھی شامل ہیں

____________________

۳۔ تفہیم القرآن،جلد دوئم،سورئہ انفال،حاشیہ نمبر۵۱،ص ۱۶۲ ادارہ ترجمان القران لاہور سنہ اشاعت۱۹۷۵ء

۱۳۸

نمونہ کے طور پر محمود صاحب کا ترجمہ ملاحظہ ہو۔

”تم کو ان کی رفاقت سے کچھ کام نہیں“

یہ ترجمہ دیکھئے اور آیة گرامی کا فقر ہ مابعد دیکھئے۔

( وان استنصرواکم فی الذین فعلیکم النصر )

بھلا بتائیے کہ وہ لوگ کو جن کی رفاقت سے مسلمانوں کے کچھ کام نہ ہوں۔ پھر ان کی نصرت کا حکم بھی دیا جائے کیا یہ ممکن ہے؟ اسی طرح وہ مترجمین جنہوں نے ”ولایت“ کا معنی دوستی سے کیا ہےوہ یہ ہیں سرسید احمد خان، مرزا حیرت دہلوی،مرزا بشیر الدین محمود(قادیانی)اور محمد علی (لاہوری) نمونہ کے طور پر سرسید احمد خان کا ترجمہ دیکھئے

”تو تم کو نہیں ہے اس کی دوستی سے کچھ“جبکہ مرزا بشیر الدین کے ہاں دوستی کے ساتھ لفظ ”ولی“ کا اضافہ ملتا ہے

ظاہر ہے کہ رفاقت اور دوستی دونوں ہم معنی الفاظ ہیں اس اعتبار سے ہمارے نزدیک اس مفہوم کا بھی وہی حکم ہے جو اوپر رفاقت کے تحت تبصرہ میں پیش کیاگیا ہے۔ اہل تشیع میں حافظ فرمان علی نے ولایت کا معنی سرپرستی سے کیا ہےملاحظہ ہو”تم لوگوں کو ان کی سرپرستی سے سروکار نہیں“ مگر تعجب ہے کہ مترجم موصوف نے اپنا حاشیہ وراثت کے مفہوم پر مشتمل لکھا ہے فرماتے ہیں۔(۵) ”جب آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ہجرت کر کے مدینہ آئے تو مہاجرین و انصار کو باہم ایک دوسرے کا بھائی قرار دیااور باہم ایک دوسرے کے وارث بھی ہوئے۔

____________________

۴۔ غلام احمد پرویز نے اپنے مفہوم القرآن میں ولایت کو ”اعانت و رفاقت“ سے تعبیر کیا ہے

۵۔ اسی طرح تعجّب ہے کہ پیر محمد کرم شاہ الازھری،اپنے ترجمہ میں ولایت کا ترجمہ وراثت سے کرتے ہیں مگر اپنے حاشیہ میں،ترجمے سے ہٹ کر تفسیر کرتے ہیں دیکھئیے ضیاء القرآن،جلد دوئم،سورئہ انفال کا حاشیہ نمبر ۹۰

۱۳۹

جب آیہ اولوالارحام نازل ہوئی تو یہ وراثت موقوف ہوئی“

ترجمہ: میں سرپرستی اور حاشیہ میں وراثت اس واضح فرق پر کیا تبصرہ کی جائے۔

تفسیر مجمع البیان میں اس آیت کی تفسیر بایں الفاظ کی گئی ہے:

(قیل نزلت الایةفی المیراث وکانوایتو ارثون بالهجرة فجعل الله المیراث المها جرین والانصار دون ذوی الارحام وکان الذی امن ولم یهاجرلم یرث من اجل انه لم یها جرولم ینصر وکانو ایعملون بذلک حتی انزل الله تعالیٰ واولو الارحام بعضهم اولی بعض فسخت هذه الایة وصارالمیراث لذوی الارحام المومنین ولایتوارث اهل ملتین عن ابن عباس والحسن وقتاده ومجاهد والسدیی) (۶)

اس تفسیر سے معلوم ہوا کہ ولایت کا معنی میراث ہےاور اکثرمترجمین ومفسرین نے اس کا معنی وراثت یا میراث سے ہی کیا ہےالبتہ ایک ترجمہ میں لفظ ترکہ بھی استعمال کیا گیاہے۔ واضح رہے کہ وراثت اور میراث ہم معنی الفاظ ہیں اور ترکہ میں البتہ قدرے وسعت پائی جاتی ہےیعنی میت جو کچھ چھوڑ جائے وہ ترکہ ہےاور ترکہ ان تمام مفاہیم پر بولا جاتا ہے۔

۱ میت اگر مقروض ہے تو ترکہ میں سے قرضہ ادا کیا جاتا ہے۔

۲ میت نے اگر کسی کے حق میں مشروع وصیت کر دی ہے تو وہ بھی ترکہ میں سے نکالی جاتی ہے

۳ میت نے اگر اپنی اہلیہ کو مہر نہیں دیا ہے تو وہ بھی ترکہ میں سے نکالا جاتا ہے۔

۴ خود میت کی تجہیز،تکفن اور تدفین بھی ترکہ میں سے کی جاتی ہے۔

___________________

۶۔ الشیخ الطبرسی (متوفٰے ۵۴۸)، مجمع البیان فی تفسیر القرآن،جلد دوئم ص ۵۶۱،مکتبہ العلمیة الاسلامیہ،طھران،سنہ اشاعت ندارد،

۱۴۰

141

142

143

144

145

146

147

148

149

150

151

152

153

154

155

156

157

158

159

160

ہو اور اسکی آنکھوں کو ٹھنڈک نصیب ہوئی ہو اور کوئی ایک بھی ایسا نہیں ہے جس نے اسکو ذلیل سمجھا ہو اور اس نے اس سے فائدہ نہ اٹھایا ہو''

کتب احادیث میں اس قسم کی روایات بہت زیادہ ہیں مگر یہ دوسری بات ہے کہ ان روایات میں کا ئنات کے بارے میںالہی سنتوںکی وضاحت جس انداز میںپیش کی گئی ہے اگر کوئی اس سے واقف نہ ہوتو یہ روایات اسکے لئے کچھ مبہم ہیں لیکن جولوگ زبان وبیان حدیث سے واقفیت رکھتے ہیں انہیں اچھی طرح معلوم ہے کہ ان روایات میں جس عذاب کا تذکرہ کیا گیا ہے اس سے مراد وہ عذاب ہے جو خدا سے روگردانی کرنے اور دنیا سے دل لگالینے کی صورت میں اسکے سامنے آتا ہے یعنی یہ دنیا ہی اسکے لئے عذاب بن جاتی ہے لیکن اگر اسکا دل خداوند عالم کی طرف متوجہ رہے اور وہ دنیا کو خداوند عالم تک رسائی حاصل کرنے کے ذریعہ کے علاوہ کچھ اور خیال نہ کرے اور اسی نیت سے دنیاکا ہر کام کرتار ہے اور اپنا رزق کمائے تو دنیا اسے نقصان نہیں پہونچاسکتی بلکہ وہ اسکے لئے فائدہ مند اور خدمت گذارہی ثابت ہوگی۔

خواہشات کی پیروی کے بعد انسان کی دوسری مصیبت

گذشتہ صفحات میں ہم نے دنیا داری اور خواہشات کے نتیجہ میں پیدا ہونے والے پہلے عذاب کا تذکرہ کیا ہے جس میں انسان کے معاملاتِ زندگی بکھرکر رہ جاتے ہیں اوراسکی خواہشات کے آپسی ٹکرائو کی بناء پر اسکا نفس عجیب وغریب اندرونی خلفشار کا شکار ہوجاتا ہے ۔

مگر اس تذبذب اور خلفشار کے بعد بھی یہ خواہشات انسان کو چین سے نہیں رہنے دیتیں بلکہ جب انسان خدا سے اپنا منھ پھیرکر انہیں خواہشات کے مطابق چلتا ہے تو وہ حرص اور لالچ کے عذاب میں بھی پھنس جاتا ہے کیونکہ اگر انسان کی توجہ خدا کے بجائے دنیا کی طرف ہوتو وہ کسی چیز سے سیر نہیں ہوپاتا اور اسے چاہے جس مقدار میںدنیا مل جائے یا اسکے برعکس وہ اس سے منھ پھیرے رہے تب بھی اسکی طمع کا وہی حال رہے گا کیونکہ یہ ایک نفسیاتی بات ہے اور مال ودولت وغیرہ کی کمی یا زیادتی سے اسکا کوئی تعلق نہیں ہے بلکہ اکثر تو ایسا ہوتا ہے کہ انسان کو جتنی زیادہ فراوانی کے ساتھ دولت ملتی ہے اسکے اندر دنیا کی محبت اور لالچ اتنی ہی زیادہ بڑھ جاتی ہے اور انسان دنیا کے پیچھے دیوانہ بنا رہتا ہے اور اسکا پیٹ کبھی بھی نہیں بھر پاتا اور اسکے سینہ میں محبت دنیا کی آگ پہلے کی طرح ہی جلتی رہتی ہے اور وہ کبھی سردنہیں پڑتی ہے ۔

۱۶۱

دنیا انسان کا ایک سایہ

جب انسان اس دنیا کو اپنا مقصد حیات بنالے تو پھر اس دنیا کے بارے میں وہی مثال مناسب ہے جو بعض روایات میں امیر المومنین سے مروی ہے کہ آپ نے فرمایا :

(مثل الدنیا کظلکِ،انْ وقفتَ وقفَ،وانْ طلبتَه بَعُدَ )( ۱ )

''دنیا کی مثال تمہارے سایہ کی طرح ہے کہ اگر تم رک جائو تو وہ بھی رک جائے گا اور اگر تم اسے پکڑنا چاہو تو وہ تم سے دور بھاگے گا''

آپ کا یہ جملہ دنیا سے انسان کے رابطہ اور انسان سے دنیا کے رابطہ کے بارے میں بہت ہی بلیغ ہے کیونکہ دنیا کی لالچ اور اس پر ٹوٹ پڑنے سے اسے اپنے نصیب سے زیادہ کچھ حاصل ہونے والا نہیں ہے کیونکہ دنیا بالکل سایہ کی طرح ہے کہ اگرہم اسکی طرف آگے بڑھیں گے تووہ ہم سے اتنا ہی آگے بڑھ جائے گا ۔گویا ایسا محسوس ہوتا ہے کہ وہ اپناپیچھا کرنے والے سے فرار کرجاتا ہے ، لہٰذا اسکے پیچھے دوڑنے سے تھکن اور دردسر کے علاوہ اور کچھ ہاتھ آنے والا نہیں ہے ۔۔۔ اور بالکل یہی حال دنیا کا بھی ہے ۔

لہٰذا دنیا کو حاصل کرنے کا سب سے بہتر راستہ یہی ہے کہ طلب دنیا کی آرزو کو مختصر کردیا جائے اور دنیا کے اوپر جان کی بازی نہ لگائی جائے کیونکہ اس کے اوپر مرمٹنے سے کچھ حاصل ہونے والا نہیں ہے بلکہ انسان اپنے لئے مزید مصیبت مول لے لیتا ہے ۔

____________________

(۱)غررالحکم ج۲ ص۲۸۴۔

۱۶۲

روایات کی روشنی میں عذاب دنیا کے چند نمونے

رسول اکرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم :(ما سکن حب الدنیاقلباً الا التاط بثلاث:شغل لاینفدْ عناؤه،وفقرلا ید رکغناه،وأمل لاینال مناه )( ۱ )

''دنیا کی محبت کسی دل میں نہیں آتی مگر یہ کہ وہ تین چیزوں میں مبتلاہوجاتاہے ایسی مصروفیت جو ختم ہونے کا نام نہیں لیتی،ایسی فقیری جو مالداری میں تبدیل نہیں ہوسکتی اور ایسی آرزو جو کبھی پوری نہیں ہوسکتی ہے ''

رسول اکرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم سے مروی ہے :

(من أصبح والدنیا أ کبرهمه،فلیس من ﷲ فی شی ئ،وألزمه قلبه أربع خصال:همّاً لا ینقطع أبداً،وشغلاً لاینفرج عنه أبداً،وفقراً لایبلغ غناه أبداً،وأملا ً لا یبلغ منتهاه ابداً )( ۲ )

''صبح ہوتے ہی جسے سب سے زیادہ دنیا کی فکر ہوا سے خدا سے کچھ حاصل ہونے والا نہیں ہے بلکہ وہ اسکے دل میں چار خصلتوںکو راسخ کردے گا۔کبھی ختم نہ ہونے والا غم،ایسی مصروفیت جس سے کبھی چھٹکارانہ ملے،ایسی فقیری جو استغنا تک نہ پہونچ سکے ،ایسی آرزو جو کبھی اپنی آخری منزل نہ پا سکے''

حضرت علی :

(من لهج قلبه بحب الدنیاالتاط قلبه منهابثلاث:همّ لایغنیه، ومرض لایترکه،وأمل لایدرکه )( ۳ )

____________________

(۱)بحارالانوار ج ۷۷ ص ۱۸۸ ۔

(۲)میزان الحکمت ج۳ص۳۱۹۔

(۳)شرح نہج البلاغہ ابی الحدیدج۱۹ص۵۲،بحارالانوار ج۷۳ص۱۳۰۔

۱۶۳

''جس شخص کا دل دنیا کی محبت کا دلدادہ ہوجائے اسکا دل تین چیزوں میں پھنس کررہ جاتا ہے ۔ ایسا غم جس سے افاقہ ممکن نہیںایسی بیماری جو اسے کبھی نہ چھوڑے گی ایسی آرزو جسے وہ کبھی نہیں پاسکتا''

حضرت علی :

(من کانت الدنیا اکبر همّه،طال شقاؤه وغمه )( ۱ )

''جسکے لئے دنیا سب کچھ ہوگی اسکی بدبختی اور غم طولانی ہوجائینگے''

حضرت علی :

(من کانت الدنیا همّته اشتدت حسرته عند فراقها )( ۲ )

''جسکا سب سے بڑا مقصد، دنیا ہو تو اس سے دوری کے وقت اس کی حسرت شدید ہوجاتی ہے ''

حضرت علی :

(المتمتّعون من الدنیا تبکی قلوبهم وان فرحوا،ویشتد مقتهم لانفسهم وان اغتبطواببعض مارزقوا )( ۳ )

''دنیا سے لطف اندوز ہونے والے اگر چہ بظاہر خوش نظر آتے ہیں مگر ان کے دل روتے ہیں اور وہ خود اپنے نفس سے بیزار رہتے ہیں چاہے لوگ ان کے رزق سے غبطہ ہی کیوں نہ کریں''

امام جعفر صادق :

(من تعلّق قلبه بالدنیا تعلّق قلبه بثلاث خصال:همّ لایُغنی،وأمل لایُدرک، ورجاء لایُنال )( ۴ )

____________________

(۱)بحارالانوار ج۷۳ص۸۱۔

(۲) بحارالانوار ج۷۱ ص۱۸۱۔

(۳)بحارالانوارج۷۸ص۲۱۔

(۴)بحار الانوار جلد ۷۳ص۲۴۔

۱۶۴

''جسکا دل دنیا سے وابستہ ہوجائے اسکے دل کے اندر تین خصلتیں پیدا ہوجاتی ہیں:لازوال غم ،پو ری نہ ہونے والی آرزو،ہاتھ نہ آنے والی امید''

یہ رنگ برنگے عذاب ،دنیا کے ان عذابوں کا کچھ حصہ ہیں جو خداوند عالم نے خواہشات کی پیروی کرنے والوں کے لئے آخرت سے پہلے اسی دنیا میں معین فرمادئے ہیں مثلاً اہل ثروت کو اپنے اقرباء یا دور والوں سے اپنے مال کے بارے میں جو خوف اور پریشانی لا حق رہتی ہے یہ ان کے لئے دنیاوی عذاب کا صرف ایک حصہ ہے ۔

آخرت میں انسان کی سرگردانی وپریشا ں حالی

حدیث قدسی میں انسان کی جس پریشان حالی (افتراق اوردرہم برہم ہوجانے )کا تذکرہ ہے اسکا تعلق صرف دنیا سے ہی نہیںہے بلکہ دنیا کی طرح اسے آخرت میں بھی اسی صورتحال سے دوچارہونا پڑے گا ۔

آخرت میں یہ افتراق اور بیقراری سب سے پہلے اپنے خواہشات نفس اور ہوی وہوس کے پیچھے چلنے والوں کے درمیان ہی دکھائی دینگے کیونکہ وہ دنیا میں جسمانی اعتبار سے بظاہر متحدضرور تھے مگر ان سب کی تمنائیں اور ہوس ایک دوسرے سے الگ تھیں نیزانھوں نے اپنے جواختلافات دنیا میں چھپارکھے تھے وہ سب آخرت میں کھل کر سامنے آجائیں گے خداوند عالم نے قرآن مجید میں اہل جہنم کے حالات کی یوںتصویر کشی کی ہے :

(کلّما دخلت اُمة لعنت اُختها )( ۱ )

''جہنم میں داخل ہونے والی ہر جماعت اپنی دوسری برادری پر لعنت کرے گی''

اس اختلاف اور انتشار یا خانہ جنگی کی دوسری صورت اس وقت سامنے آئے گی کہ جب

انسان خدا سے اپنے جرائم چھپانا چاہے گا اور اسی وقت اس کے اعضاء اسکے جرائم کے بارے میں

____________________

(۱)سورئہ اعراف آیت ۳۸

۱۶۵

گواہی دینے لگیں گے تو وہ ان پر غصہ ہو گااوراسی وقت اسکے یہی ہاتھ پیر اور کھال وغیرہ اسے ذلیل و رسوا کرکے رکھ دینگے تووہ اپنے اعضاء سے یہ کہے گا:

(وقالوا لجلود هم لم شهد تم علینا قالوا أنطقنا ﷲ الذی أنطق کلّ شیئ )( ۱ )

''اور وہ (اہل جہنم )اپنے اعضاء سے کہیں گے کہ تم نے ہمارے خلاف کیسے شہادت دیدی تو وہ جواب دینگے کہ ہمیں اسی خدا نے گویا بنایا ہے جس نے ہر چیز کو گویائی عطا کی ہے ''

بلکہ روایات میں تو یہاں تک ہے کہ روز قیامت اپنی خواہشات کی پیروی کرنے والے گنہگاروں کے بعض اعضاء ان سے اظہار نفرت کرینگے اور ایک دوسرے پر لعنت کرتے دکھائی دینگے اور یہ بعینہ وہی صورتحال ہے جو دنیا میں خواہشات کی پیروی کی بنا پر انسان کے اندر دکھائی دیتی ہے ۔

رسول اکرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم سے مروی ہے :

(کُفّ أذاک عننفسک،ولا تتابع هواهافی معصیةاللّٰه،اذتخاصمک یوم القیامة،فیلغی بعضک بعضاً،الا أن یغفرﷲو یستر برحمته )( ۲ )

''اپنے نفس کو اذیت نہ دواور معصیت خدا میں اپنے نفس کے خواہشات کی پیروی نہ کرو کیونکہ وہ روز قیامت تم سے جھگڑا کریگا اور اسکا بعض حصہ دوسرے حصہ کو برا بھلاکہے گا ۔مگر یہ کہ خدا وند کریم تمہیں معاف فرمادے اور اپنی رحمت کے پردے ڈال دے ''

____________________

(۱)سورئہ فصلت آیت ۲۱۔

(۲)محجةالبیضاء فیض کاشانی ج۵ص۱۱۱۔

۱۶۶

۲۔اسکی دنیا کو اسکے لئے مزین کردوںگا

دنیا کا ظاہر اور باطن

خواہشات کی پیروی کرنے والے کی دوسری سزا یہ ہے کہ اسکے لئے دنیا مزین کردی جاتی ہے اور دنیا کے مزین ہونے کا مطلب یہ ہے کہ ظاہری لحاظ سے دنیا اس پرفریب انداز میں اس کے سامنے آتی ہے کہ وہ اسے دیکھ کر دھوکہ میں پڑا رہتا ہے جبکہ وہ دنیا کی واقعی شکل نہیں ہو تی ہے اور انسان اسی ظاہری صورت سے فریب کھا جاتا ہے کیونکہ اس کی جن ظاہری صورتوں کو دیکھ کر وہ فریب خوردہ رہتا ہے وہ وقتی ہیں اور ان میں بہت جلد تبدیلی آجاتی ہے لیکن دنیا کی واقعی شکل و صورت جو اسکے بالکل برخلاف ہے وہ درحقیقت یہ ہے کہ یہ دنیاانسان کے لئے مقام عبرت اور چشم بصیرت حاصل کرنے نیز زہد وتقوی اختیار کرنے کا سرچشمہ اور مرکز ہے ۔

یہی وجہ ہے کہ جن افراد کو خداوند عالم نے چشم بصیرت عنایت فرمائی ہے ان کی نگاہیں دنیاکے وقتی اور اوپری خول کے اندر گھس کر اس کی حقیقت کو بخوبی دیکھ لیتی ہیں اسی لئے وہ اس میں زہد سے کام لیتے ہیں اور اس سے عبرت اور نصیحت حاصل کرتے رہتے ہیںلیکن جو لوگ خداوندعالم کی عطا کردہ بصیرت کو ضائع کردیتے ہیں وہ زندگانی دنیا کو اسی ظاہری نگاہ سے دیکھتے ہیں اور ان کی نگاہیں اس کے باطن اور حقیقت تک نہیں پہونچ پاتی ہیں لہٰذا ان کے دل اس کے دھوکہ میں پڑے رہتے ہیں ۔

مختصر یہ کہ دنیا کے دو روپ ہیں :

۱۔ظاہری

۲۔ باطنی

اسی اعتبار سے اہل دنیا کی بھی دو قسمیں ہیں :

۱۔کچھ وہ لوگ ہیں جن کی نگاہیں دنیا کے ظاہرسے آگے نہیں بڑھتی ہیں ۔

۲۔ کچھ ایسے افراد ہیں جن کی نظر یںدنیا کے باطن کو بخوبی دیکھ لیتی ہیں ۔

۱۶۷

اس تقسیم کی طرف قرآن مجید نے اس آیت میں اشارہ کیا ہے ۔

(یعلمون ظاهراًمن الحیاة الدنیا وهم عن الآخرة هم غافلون )( ۱ )

''یہ لوگ صرف زندگانی دنیا کے ظاہر کو جانتے ہیں اور آخرت کی طرف سے بالکل غافل ہیں ''

لیکن جن لوگوں کو خداوند عالم نے فہم وبصیرت عطا فرمائی ہے ان کے سامنے دنیاکا ظاہر وباطن ایک دوسرے سے مشتبہ نہیں ہوتا ہے ۔البتہ جب خداوند عالم کسی سے غضبنا ک ہوجاتا ہے تو اس کی بصیرت سلب کرلیتا ہے اور پھر اسکے سامنے دنیا کا ظاہر وباطن مخلوط ہو کر رہ جاتا ہے اور وہ اسکے ظاہری خول اور اسکی واقعی حقیقت کے درمیان تمیزنہیں کرپاتا لہٰذا دنیا کی ظاہری رنگینیاں اسے دھوکہ دیدیتی ہیں اور وہ بھی اس دنیا کوفریب خوردہ نگاہ سے دیکھتا ہے جسکی طرف قرآن مجید نے یوں اشارہ کیا ہے :

(زُیّن للذ ین کفروا الحیاة الدنیا )( ۲ )

''اصل میں کافروں کے لئے زندگانی دنیا آراستہ کردی گئی ہے ''

لہٰذا کیونکہ وہ اسکے پرفریب ظاہر کو دیکھتا ہے اس لئے اسکی نگاہوں میں دنیا سجی رہتی ہے لیکن اگر اسکے باطن پر نگاہ رکھی جائے تو پھر کبھی اسکی رنگینی نظر نہ آئے گی۔

مختصر یہ کہ زندگانی دنیا کے دو روپ اور دوچہرے ہوتے ہیں :

ا۔باطنی حقیقت (اصلی چہرہ)

ب۔ظاہری چہرہ

أ ۔دنیا کا باطنی چہرہ (اصل حقیقت)

جیسا کہ ہم عرض کرچکے ہیں کہ دنیاکی واقعی شکل و صورت صرف اہل بصیرت کو دکھائی دیتی

____________________

(۱)سورئہ روم آیت ۷۔

(۲)سورئہ بقرہ آیت۲۱۲۔

۱۶۸

ہے اوراسکی اس شکل میں کسی قسم کا دھوکہ اور فریب نہیں ہے بلکہ وہ منزل عبرت ونصیحت ہے جیسا کہ قرآن کریم نے بھی دنیا کے اس پہلو کی نہایت دقیق تعریف و توصیف فرمائی ہے جسکے بعض نمونے ملاحظہ فرمائیں :

۱۔دنیا ایک پونجی ہے :ارشاد الٰہی ہے :

(وماالحیاة الدنیا فی الآخرة الامتاع )( ۱ )

''اور آخرت میں زندگانی دنیا کی حقیقت مختصر پونجی کے علاوہ اور کیا ہے ''

متاع ،وقتی لذت کو کہا جاتا ہے جبکہ اس کے بالمقابل آخرت کی لذتیں دائمی اور باقی رہنے والی ہیں جیسا کہ قرآن مجید میں ارشاد ہے :

(فما متاع الحیاة الدنیا فی الآخرة الا قلیل )( ۲ )

''پس آخرت میں اس متاع زندگانی دنیا کی حقیقت بہت قلیل ہے ''

۲۔دنیا عارضی ہے ۔ارشاد الٰہی ہے :

(تریدون عرَضَ الد نیاوﷲ یرید الآخرة )( ۳ )

''تم لوگ صرف مال دنیا چاہتے ہو جبکہ اللہ آخرت چاہتا ہے ''

یا ارشا د ہے :

(تبتغون عَرَضَ الحیاة الدنیا فعند ﷲ مغانم کثیرة )( ۴ )

''اس طرح تم زندگانی دنیا کا چند روزہ سرمایہ چاہتے ہو اور خدا کے پاس بکثرت فوائد پائے جاتے ہیں''

____________________

(۱)سورئہ رعد آیت ۲۶۔

(۲)سورئہ توبہ آیت ۳۸۔

(۳)سورئہ انفال آیت ۶۷۔

(۴)سورئہ نساء آیت ۹۴۔

۱۶۹

(یأخذون عَرَضَ هذا الادنیٰ و یقولون سَیُغْفَرلنا )( ۱ )

''لیکن وہ دنیا کا ہر مال لیتے رہے اور یہ کہتے رہے کہ عنقریب ہمیں بخش دیا جائے گا ''

عارضی چیز اسکو کہتے ہیں جو بہت جلد تبدیل ہوکر ختم ہوجائے اور کیونکہ دنیا کی لذتیں تبدیل ہوکر ختم ہو جاتی ہیں اور کسی کے لئے بھی باقی رہنے والی نہیںہیںاسکے باوجود بھی یہ لوگوںکو بری طرح فریب میں مبتلا کردیتی ہیں۔

گویادنیا کی دوصفتیں ہیں :

۱۔وہ صفت جس سے انسان زاہد دنیا بن جاتا ہے ۔

۲۔وہ صفت جو انسان کو فریب میں مبتلا کردیتی ہے ۔(جس سے انسان دھوکہ کھاجاتاہے )

وہ صفت جس کی بنا پر انسان زاہد بن جاتا ہے وہ یہ ہے کہ یہ دنیا عارضی، زوال پذیر اور بہت جلد ختم ہوجانے والی ہے ۔(لہٰذا وہ اس سے دل نہیں لگاتا)

لیکن اسکا پر فریب رخ یہ ہے کہ یہ نرم لقمہ ہے نچلی سطح پر جلد ہاتھ آجاتی ہے ۔

اور کیونکہ لوگ عام طورسے عجلت پسند ہوتے ہیں لہٰذاوہ جلد ہاتھ آنے والی چٹپٹی چیزوں کو دیر سے ملنے والی دائمی نعمتوں پر ترجیح دیتے ہیں جیسا کہ ارشاد الٰہی ہے :

(لوکان عرضاً قریباً وسفراً قاصد اً لا تّبعوک )( ۲ )

''پیغمبر،اگر کوئی قریبی فائدہ یا آسان سفر ہوتا تو یہ ضرور تمہارا اتباع کرتے ''

اس طرح انسان کی طبیعت اور فطرت میں ہی جلدبازی پائی جاتی ہے ۔

۳۔دنیا دھوکہ اور فریب کا اڈہ ہے ۔

ﷲتعالی کا ارشاد ہے :

____________________

(۱)سورئہ اعراف آیت ۱۶۹۔

(۲)سورئہ توبہ آیت ۴۲۔

۱۷۰

(فلا تغرّنّکم الحیاة الدنیا ولایغرّنّکم بﷲ الغرور )( ۱ )

''لہٰذا تمہیں زندگانی دنیا دھوکہ میں نہ ڈال دے اور خبردار کوئی دھوکہ دینے والا بھی تمہیں دھوکہ نہ دے سکے''

۴۔اور دنیا متاع غرور ہے: یہ دو الفاظ کی ترکیب ہے جن کو قرآن مجید نے دنیا کے لئے الگ الگ اور ایک ساتھ دونوں طرح استعمال کیا ہے ۔جیسا کہ ارشاد ہے :

(وماالحیاةالدنیاالامتاع الغرور )( ۲ )

''اور زندگانی دنیا تو صرف دھوکہ کا سرمایہ ہے ''

اس فریب کی اصل بنیاد دنیا کی وقتی اور ختم ہوجانے والی پونجی ہے ۔

دنیا اورآخرت کا تقابلی جائزہ

اگر ہم قرآن مجید پر ایک اور نظر ڈالیں تو اسکے بیان کردہ اوصاف کی روشنی میں دنیا و آخرت کا موازنہ کرنا بہت آسان ہے جیسا کہ ہم عرض کرچکے ہیں کے قرآن مجید کی نگاہ میں یہ دنیا وقتی ،بہت جلد قابل زوال اور ایسی پونجی ہے جو کسی کے لئے دائمی (اور باقی رہنے والی)نہیں ہے لیکن آخرت سکون واطمینان کی ایک دائمی جگہ ہے ۔جیسا کہ ارشادالٰہی ہے :

( یاقوم انماهذه الحیاة الدنیامتاع وانّ الآخرة هی دارالقرار ) ( ۳ )

''قوم والو،یاد رکھو کہ یہ حیات دنیا صرف چند روزہ لذت ہے اور ہمیشہ رہنے کا گھر صرف آخرت کا گھر ہے ''

____________________

(۱)سورئہ لقمان آیت ۳۳سورئہ فاطر آیت ۵۔

(۲)سورئہ آل عمران آیت ۱۸۵سورئہ حدید آیت ۲۰ ۔

(۳)سورئہ غافر آیت۳۹۔

۱۷۱

دنیا ایک کھیل تماشہ ہے لیکن آخرت دائمی حیات کا گھر ہے اور وہی حقیقی زندگی ہے اور وہ زندگی کھیل تما شہ نہیں ہے ۔

جیسا کہ ارشادالٰہی ہے :

(وماهذه الحیاةالدنیاالالهوولعب وان الدارالآخرة لهی الحیوان لوکانوایعلمون )( ۱ )

''اور یہ دنیاوی زندگی تو کھیل تماشہ کے سوا کچھ نہیں اور اگر یہ لوگ سمجھیں بو جھیں تو اس میں شک نہیں کہ ابدی زندگی (کی جگہ)تو بس آخرت کا گھر ہے ''

کلا م امیر المومنین میں دنیاکا تذکرہ

مولائے کائنات نے اپنے اقوال میں دنیا کی حقیقت کو بالکل آشکار کر دیا ہے اور اس کے چہرہ سے دھوکہ اور فریب کی نقاب نوچ لی ہے جس کے بعد ہر شخص دنیا کی اصلی شکل و صورت کو بآسانی پہچان سکتا ہے۔

لہٰذا دنیا کے بارے میں آپ کے چند اقوال ملاحظہ فرمائیں :

۱۔(وﷲ مادنیاکم عندی الاکسَفْرٍعلیٰ منهل حلّوا،اذصاح بهم سائقهم فارتحلوا،ولالذاذاتُهافی عینی الاکحمیم أشربُه غسّاقا،وعلقم أتجرع به زُعافا،وسمّ أفعاةٍ دِهاقاً،وقَلادةٍ من نار )( ۲ )

''خدا کی قسم تمہاری دنیا میرے نزدیک ان مسافروں کی طرح ہے جو کسی چشمہ پر اترے ہوں ،اور جیسے ہی قافلہ سالار آواز لگائے وہ چل پڑیں ،اور اسکی لذتیں میری نگاہ میں اس گرم اور

____________________

(۱)سورئہ عنکبوت آیت ۶۴۔

(۲)بحارالانوارج۷۷ص۳۵۲۔

۱۷۲

گندے پانی کی طرح ہیں جسے مجبوراً پینا پڑے اور وہ کڑوی چیز ہے جسے مردنی کی حالت میں زبردستی گلے سے نیچے اتارا جائے اور وہ اژدہے کے زہر سے بھرا ہوا پیالہ اور آگ کا طوق ہے''

اس دنیا کا جو رخ لوگوں کو دکھائی دیتا ہے وہ اسی بھرے ہوئے چشمہ کی طرح ہے جس پر قافلہ ٹھہراہو '' سفرعلی منھل حلوا''اور یہ اسکا وہی ظاہری رخ ہے جس کے اوپر وہ ایک دوسرے کو مرنے اور مارنے کو تیار رہتے ہیں ۔جبکہ مولائے کائنات نے اس کو زود گذر قرار دیا ہے جو کہ دنیا کا واقعی چہرہ ہے :

(اذصاح بهم سائقهم فارتحلوا )''جیسے ہی قافلہ سالار آواز لگائے وہ چل پڑیں''

یہی وجہ ہے کہ دنیا کی جن لذتوں کیلئے لوگ ایک دوسرے سے آگے نکل جانے کی کوشش کرتے ہیں وہ مولائے کائنات کی نگاہ میں گرم، بدبوداراور سانپ کے زہر کے پیالہ کی طرح ہے ۔

''جب معاویہ نے جناب ضرار بن حمزہ شیبانی(رح) سے امیر المومنین کے اوصاف و خصائل و معلوم کئے تو آپ نے کہا کہ بعض اوقات میں نے خوددیکھا ہے کہ آپ رات کی تاریکی میں محراب عبادت میں کھڑے ہیں اور اپنی ریش مبارک ہاتھ میںلئے ہوئے ایک بیمار کی طرح تڑپ رہے ہیں اور ایک غمزدہ کی طرح گریہ کررہے ہیںاس وقت آپ کی زبان مبارک پر یہ الفاظ جاری رہتے ہیں :

(یادنیاالیک عنی،أبی تعرّضتِ؟أم الیّ تشوّقتِ؟هیهات!!غرّی غیری لا حاجة لی فیکِ،قدطلقتک ثلاثاً،لارجعة فیها:فعیشک قصیر،وخطرک کبیر،واملک حقیر،آه من قلّة الزاد،وطول الطریق )( ۱ )

''اے دنیا مجھ سے دورہوجا کیا تو میرے سامنے بن ٹھن کر آئی ہے اور کیا واقعاً میری مشتاق بن کر آئی ہے بہت بعید ہے جا میرے علاوہ کسی اور کو دھوکا دینا مجھے تیری کوئی ضرورت نہیں ہے ۔میں تجھے تین بار طلاق دے چکا ہوں جسکے بعد رجوع ممکن نہیں ہے تیری زندگی بہت مختصر، تیری حیثیت

____________________

(۱) نہج البلاغہ حکمت ۷۷وبحارالانوار ج۷۳ص۱۲۹۔

۱۷۳

بہت معمولی ،تیری آرزوئیں حقیر ہیں ،آہ، زاد راہ کس قدر کم اور راستہ کتنا طولانی ہے ''

آپ نے دنیاکے ان تینوں حقائق کو اس سے فریب کھانے والے شخص کے لئے واضح کردیا ہے کہ اسکی زندگی بہت مختصر اسکے خطرات زیادہ اور اسکی آرزوئیں حقیر ہیں ۔

اس بارے میں آپ کے یہ ارشادات بھی ہیں ۔

۱۔(ألاوان الدنیا دارغرّارة،خدّاعة، تنکح فی کل یوم بعلاً،وتقتل فی کل لیلة أهلاً،وتُفرّق فی کل ساعة شملاً )( ۱ )

''یاد رکھو یہ دنیا بہت پر فریب گھر ہے اور بیحد دھوکے باز(عورت کے مانند ہے جو) ہر روز ایک نئے شوہر سے نکاح کرتی ہے اوہر رات اپنے گھر والوں کوہلاک کرڈالتی ہے اور ہرساعت ایک قوم کو متفرق کرڈالتی ہے ''

۲۔(ان اقبلت غرّت،وان أدبرت ضرّت )( ۲ )

''اگریہ دنیا تمہاری طرف رخ کرے گی تو تمہیں فریب میں مبتلا کردیگی اور اگروہ تمہارے ہاتھ سے نکل گئی تونقصان دہ ہے ''

۳۔(الدنیا غرورحائل،وسراب زائل،وسنادمائل )( ۳ )

''دنیابدل جانے والا فریب، زائل ہوجانے والا سراب اور خم شدہ ستون ہے ''

۴۔دنیا کے ظاہر وباطن کی نقشہ کشی آپ نے ان الفاظ میں کی ہے :

(مثل الد نیا مثل الحیّة مسّها لیّن،وفی جوفهاالسم القاتل،یحذرها الرجال ذووالعقول،ویهوی الیهاالصبیان بأید یهم )( ۴ )

____________________

(۱)بحارالانوارج۷۷ص۳۷۴۔

(۲)بحارالانوارج۷۸ ص۲۳۔

(۳)غررالحکم ج۱ص۱۰۹۔

(۴) بحارالانوارج۷۸ص۳۱۱۔

۱۷۴

''یہ دنیا بالکل سانپ کی طرح ہے جو چھونے میں بہت نرم ہے مگراسکے اندر مہلک زہر بھرا ہوا ہے اہل عقل اس سے ڈرتے رہتے ہیں اور بچے اسے ہاتھ میں اٹھانے کیلئے جھک جاتے ہیں ''

اس قول میں امام نے بہت ہی حسین وجمیل انداز میں دنیا کے ظاہروباطن کو ایک دوسرے سے جدا کردیا ہے کہ اسکا ظاہر سانپ کی طرح جاذب نظراور چھونے پر بہت نرم معلوم ہوتا ہے لیکن اسکے باطن میں دھوکہ اور زوال ہی زوال ہے جیسے ایک سانپ کے منھ میں مہلک زہر بھرا رہتا ہے ۔

اسی طرح اس دنیا کی طرف دیکھنے والے لوگوں کی بھی دو قسمیں ہیں :

اہل عقل اور صاحبان بصیرت اس سے خائف رہتے ہیں جس طرح انہیں سانپ سے خوف محسوس ہوتاہے ۔لیکن ان کے علاوہ بقیہ لوگ اس سے اسی طرح دھوکہ کھاجاتے ہیں جس طرح زہریلے سانپ کی چمکیلی اور نرم کھال دیکھ کر بچے دھوکہ کھاتے ہیں ۔

آپ کے ایک خطبہ کا ایک حصہ

''یہ ایک ایسا گھر ہے جو بلائوں میں گھرا ہوا ہے اور اپنی غداری میں مشہور ہے نہ اس کے حالات کو دوام ہے اور نہ اس میں نازل ہونے والوں کے لئے سلامتی ہے ۔

اسکے حالات مختلف اور اسکے طورطریقے بدلنے والے ہیں اس میں پر کیف زندگی قابل مذمت ہے اور اس میں امن وامان کا کہیں دو ر دور تک پتہ نہیں ہے ۔۔۔اسکے باشندے وہ نشانے ہیں جن پر دنیا اپنے تیر چلاتی رہتی ہے اور اپنی مدت کے سہارے انھیں فنا کے گھاٹ اتارتی رہتی ہے ۔

۱۷۵

اے بندگان خدا ،یاد رکھو اس دنیا میں تم اور جو کچھ تمہارے پاس ہے سب کا وہی راستہ ہے جس پر پہلے والے چل چکے ہیں جن کی عمریں تم سے زیادہ طویل اور جن کے علاقے تم سے زیادہ آبادتھے ان کے آثار بھی دور دور تک پھیلے ہوئے تھے لیکن اب ان کی آوازیں دب گئیں ہیں ان کی ہوائیں اکھڑگئیں ہیں ان کے جسم بوسیدہ ہوگئے ہیں ۔ان کے مکانات خالی ہوگئے ہیں اور ان کے آثار مٹ چکے ہیں وہ مستحکم قلعوں اور بچھی ہوئی مسندوں کو پتھروں اور چنی ہوئی سلوں اور زمین کے اندرقبروں میں تبدیل کرچکے ہیں جن کے صحنوں کی بنیاد تباہی پر قائم ہے اور جن کی عمارت مٹی سے مضبوط کی گئی ہے ۔ان قبروں کی جگہیں تو قریب قریب ہیں لیکن ان کے رہنے والے سب ایک دوسرے سے اجنبی اور بیگانہ ہیں ایسے لوگوں کے درمیان ہیں جو بوکھلائے ہوئے ہیں اور یہاں کے کاموں سے فارغ ہوکر وہاں کی فکر میں مشغول ہوگئے ہیں ۔نہ اپنے وطن سے کوئی انس رکھتے ہیں اور نہ اپنے ہمسایوں سے کوئی ربط رکھتے ہیں ۔حالانکہ بالکل قرب وجوار اور نزدیک ترین دیار میں ہیں ۔ اور ظاہر ہے اب ملاقات کا کیاامکان ہے جبکہ بوسیدگی نے انہیں اپنے سینہ سے دباکر پیس ڈالا ہے اور پتھروں اور مٹی نے انہیں کھاکر برابر کردیا ہے اور گویا کہ اب تم بھی وہیں پہونچ گئے ہو جہاں وہ پہونچ چکے ہیں اور تمہیں بھی اسی قبر نے گروی رکھ لیا ہے اور اسی امانت گا ہ نے جکڑلیا ہے ۔

ذرا سوچو اس وقت کیا ہوگا جب تمہارے تمام معاملات آخری حد تک پہنچ جائیںگے اور دوبارہ قبروں سے نکال لیا جائے گا اس وقت ہر نفس اپنے اعمال کا خود محاسبہ کرے گا اور سب کو مالک برحق کی طرف پلٹادیا جائے گا اور کسی پر کوئی افترا پر دازی کام آنے والی نہ ہوگی۔( ۱ )

سید رضی نے نہج البلاغہ میں نقل کیا ہے کہ حضرت امیر المومنین نے شریح بن حارث سے فرمایا:

(بلغنی انّک ابتعت داراً بثمانین دیناراً،وکتبت لهاکتاباً، وأشهدت فیه شهوداً؟!)

مجھے اطلاع ملی ہے کہ تم نے اسی (۸۰) دینا ر میں ایک گھر خریدا ہے اور اسکے لئے باقاعدہ ایک بیع نامہ لکھ کر لوگوں کی گواہی بھی درج کی ہے ۔تو شریح نے عرض کی :اے امیر المومنین ۔جی ہاں: ایسا ہی ہے ۔تو آپ نے ان کی طرف غصہ بھری نظر وں سے دیکھ کرکہا ۔اے شریح عنقریب تمہارے پاس ایسا شخص آنے والا ہے جو نہ تمہارے اس بیع نامہ کو دیکھے گا اور نہ گواہوں کے بارے

____________________

(۱)نہج البلاغہ خطبہ ۲۲۶۔

۱۷۶

میں تم سے کچھ سوال کرے گا اور وہ تمہیں اس گھر سے نکال کر تن تنہا تمہاری قبر کے حوالے کردیگا لہٰذا ۔ اے شریح۔کہیں ایسا نہ ہوکہ تم نے اس گھر کو اپنے مال سے نہ خریدا ہو اور ناجائز طریقے سے اسکے دام ادا کئے ہوں۔اگر ایسا ہواتو تم دنیا اورآخرت دونوں جگہ گھاٹے میں ہو ۔کاش تم یہ گھر خریدنے سے پہلے میرے پاس آجاتے تو میں تمہارے لئے ایک دستاویز تحریر کردیتا تو تم ایک درہم میں بھی یہ گھر نہ خریدتے ۔

میں اسکی دستاویز اس طرح لکھتا :

یہ وہ مکان ہے جسے ایک بندئہ ذلیل نے اس مرنے والے سے خریداہے جسے کوچ کے لئے آمادہ کردیا گیا ہے ۔یہ مکان پر فریب دنیا میں واقع ہے جہاں فنا ہونے والوں کی بستی ہے اور ہلاک ہونے والوں کا علاقہ ہے ۔اس مکان کے حدود اربعہ یہ ہیں ۔

ایک حد اسباب آفات کی طرف ہے اور دوسری اسباب مصائب سے ملتی ہے تیسری حد ہلاک کردینے والی خواہشات کی طرف ہے اور چوتھی گمراہ کرنے والے شیطان کی طرف اور اسی طرف سے گھر کا دروازہ کھلتا ہے ۔

اس مکان کو امیدوں کے فریب خوردہ نے اجل کے راہ گیر سے خریدا ہے جس کے ذریعہ قناعت کی عزت سے نکل کر طلب وخواہش کی ذلت میں داخل ہوگیا ہے ۔اب اگر اس خریدار کو اس سودے میں کوئی خسارہ ہوتو یہ اس ذات کی ذمہ داری ہے جو بادشاہوں کے جسموں کو تہ وبالا کرنے والا، جابروں کی جان لینے والا،فرعونوں کی سلطنت کوتباہ کردینے والا،کسریٰ وقیصر ،تبع وحمیر اور زیادہ سے زیادہ مال جمع کرنے والوں،مستحکم عمارتیں بناکر انھیں سجانے والوں،ان میں بہترین فرش بچھانے والوں اور اولاد کے خیال سے ذخیرہ کرنے والوں اور جاگیریں بنانے والوں کو فناکے گھاٹ اتار دینے والا ہے ۔کہ ان سب کو قیامت کے میدان حساب اور منزل ثواب و عذاب میں حاضر کردے جب حق وباطل کا حتمی فیصلہ ہوگا اور اہل باطل یقیناخسارہ میں ہونگے۔

۱۷۷

اس سودے پر اس عقل نے گواہی دی ہے جو خواہشات کی قید سے آزاد اور دنیا کی وابستگیوں سے محفوظ ہے ''( ۱ )

دنیا کے بارے میںآپ نے یہ بھی فرمایا ہے :

یاد رکھو:اس دنیا کا سرچشمہ گندہ اور اسکا گھاٹ گندھلاہے ،اسکا منظر خوبصورت دکھائی دیتا ہے لیکن اندر کے حالات انتہائی درجہ خطرناک ہیں ،یہ ایک فنا ہوجانے والا فریب، بجھ جانے والی روشنی ،ڈھل جانے والا سایہ اور ایک گر جانے والا ستون ہے ۔جب اس سے نفرت کرنے والا مانوس ہوجاتا ہے اور اسے برا سمجھنے والا مطمئن ہوجاتا ہے تو یہ اچانک اپنے پیروں کو پٹکنے لگتی ہے اور عاشق کو اپنے جال میں گرفتار کرلیتی ہے اور پھر اپنے تیروں کا نشانہ بنالیتی ہے انسان کی گردن میں موت کا پھندہ ڈال دیتی ہے اور اسے کھینچ کر قبر کی تنگی اور وحشت کی منزل تک لے جاتی ہے جہاں وہ اپنا ٹھکانہ دیکھ لیتا ہے اور اپنے اعمال کا معاوضہ حاصل کرلیتا ہے اور یوں ہی یہ سلسلہ نسلوں میں چلتا رہتا ہے کہ اولاد بزرگوں کی جگہ پر آجاتی ہے نہ موت چیرہ دستیوں سے بازآتی ہے اور نہ آنے والے افراد گناہوں سے باز آتے ہیں پرانے لوگوں کے نقش قدم پر چلتے رہتے ہیں اور تیزی کے ساتھ اپنی آخری منزل انتہا ء وفنا کی طرف بڑھتے رہتے ہیں ۔( ۲ )

دنیا کے بارے میں آپ نے یہ بھی ارشاد فرمایا ہے :

''میں اس دار دنیاکے بارے میں کیا بیان کروں جسکی ابتداء رنج وغم اور انتہا فنا ونابودی ہے

____________________

(۱)نہج البلاغہ مکتوب ۳۔

(۲)نہج البلاغہ خطبہ۸۳۔

۱۷۸

اسکے حلال میں حساب ہے اور حرام میںعذاب،جو اس میں غنی ہوجائے وہ آزمائشوں میں مبتلا ہوجائے ۔ اور جو فقیر ہوجائے وہ رنجیدہ و افسردہ ہوجائے ۔جو اسکی طرف دوڑلگائے اسکے ہاتھ سے نکل جائے اور جو منھ پھیر کر بیٹھ رہے اسکے پاس حاضر ہوجائے جو اسکو ذریعہ بناکر آگے دیکھے اسے بینابنادے اور جو اسے منظور نظر بنالے اسے اندھا بنادے ''( ۱ )

اپنے دور خلافت سے پہلے آپ نے جناب سلمان فارسی کو اپنے ایک خط میں یہ بھی تحریر فرمایا تھا ۔اما بعد :اس دنیا کی مثال صرف اس سانپ جیسی ہے جو چھونے میں انتہائی نرم ہوتا ہے لیکن اسکا زہر انتہائی قاتل ہوتا ہے اس میں جو چیز اچھی لگے اس سے بھی کنارہ کشی اختیار کرو۔کہ اس میں سے ساتھ جانے والا بہت کم ہے ۔اسکے ہم وغم کو اپنے سے دور رکھو کہ اس سے جدا ہونا یقینی ہے اور اسکے حالات بدلتے ہی رہتے ہیں ۔اس سے جس وقت زیادہ انس محسوس کرو اس وقت زیادہ ہوشیار رہو کہ اسکا ساتھی جب بھی کسی خوشی کی طرف سے مطمئن ہوجاتا ہے تو یہ اسے کسی ناخوشگواری کے حوالے کردیتی ہے اور انس سے نکال کرو حشت کے حالات تک پہونچادیتی ہے ۔والسلام ''( ۲ )

دنیا کے بارے میں آپ نے یہ بھی فرمایاہے :

آگاہ ہوجائو دنیا جارہی ہے اور اس نے اپنی رخصت کا اعلان کردیا ہے اور اسکی جانی پہچانی چیزیں بھی اجنبی ہوگئی ہیں وہ تیزی سے منھ پھیر رہی ہے اور اپنے باشندوں کو فنا کی طرف لی جارہی ہے اور اپنے ہمسایوں کو موت کی طرف ڈھکیل رہی ہے اسکی شیرینی تلخ ہوچکی ہے اور اسکی صفائی ہوچکی ہے اب اس میں صرف اتنا ہی پانی باقی رہ گیا ہے جو، تہ میں بچاہوا ہے اور وہ نپا تلا گھونٹ رہ گیا ہے جسے پیاسا پی بھی لے تو اسکی پیاس نہیں بجھ سکتی ہے لہٰذا بند گان خدا اب اس دنیا سے کوچ کرنے کا ارادہ کرلو جسکے رہنے والوں کا مقدر زوال ہے اور خبردار: تم پر خواہشات غالب نہ آنے پائیں اور اس

____________________

(۱)نہج البلاغہ خطبہ ۸۲۔

(۲)نہج البلاغہ مکتوب۶۸۔

۱۷۹

مختصر مدت کو طویل نہ سمجھ لینا''( ۱ )

دنیا کے بارے میں آپ نے یہ بھی فرمایاہے :

میں تم لوگوں کو دنیا سے ہوشیار کر رہا ہوں کہ یہ شیریں اور شاداب ہے لیکن خواہشات میں گھری ہو ئی ہے اپنی جلد مل جانے والی نعمتوں کی بنا پر محبوب بن جاتی ہے اور تھوڑی سی زینت سے خوبصورت بن جاتی ہے یہ امیدوں سے آراستہ ہے اور دھوکہ سے مزین ہے۔نہ اس کی خو شی دائمی ہے اور نہ اس کی مصیبت سے کو ئی محفوظ رہنے والا ہے یہ دھوکہ باز ،نقصان رساں ،بدل جانے والی ،فنا ہو جانے والی ،زوال پذیراور ہلاک ہو جانے والی ہے ۔یہ لوگوں کو کھا بھی جاتی ہے اور مٹا بھی دیتی ہے ۔

جب اسکی طرف رغبت رکھنے والوں اور اس سے خوش ہو جانے والوںکی خواہشات انتہاء کو پہونچ جاتی ہے تویہ بالکل پروردگار کے اس ارشاد کے مطابق ہو جاتی ہے :

(کمائٍ أنزلناه من السماء فاختلط به نبَات الأرض فأصبح هشیماً تذروه الریاح وکان ﷲ علیٰ کل شیئٍ مقتدرا )( ۲ )

''یعنی دنیا کی مثال اس پانی کے جیسی ہے جسے ہم نے آسمان سے نازل کیا اور اسکے ذریعہ زمین کے سبزہ مخلوط(ہوکر روئیدہ)ہوئے وہ سبزہ سوکھ کر ایسا تنکا ہوگیا جسے ہوائیں اڑالے جاتی ہیں اور اللہ ہر شئے پر قدرت رکھنے والا ہے ''

اس دنیا میں کو ئی شخص خوش نہیں ہوا ہے مگر یہ کہ اسے بعد میں آنسو بہانا پڑے اور کوئی اس کی خوشی کو آتے نہیں دیکھتا ہے مگر یہ کہ وہ مصیبت میں ڈال کر پیٹھ دکھلا دیتی ہے اور کہیں راحت وآرام کی ہلکی بارش نہیں ہوتی ہے مگر یہ کہ بلائوں کا دو گڑا گرنے لگتا ہے ۔اس کی شان ہی یہ ہے کہ اگر صبح کو کسی طرف سے بدلہ لینے آتی ہے تو شام ہوتے ہوتے انجان بن جاتی ہے اور اگر ایک طرف سے

____________________

(۱)نہج البلاغہ خطبہ ۵۲۔

(۲)سورئہ کہف آیت۴۵۔

۱۸۰

181

182

183

184

185

186

187

188

189

190

191

192

193

194

195

196

197

198

199

200

201

202

203

204

205

206

207

208

209

210

211

212

213

214

215

216

217

218

219

220

221

222

223

224

225

226

227

228

229

230

231

232

233

234

235

236

237

238

239

240

241

242

243

244

245

246

247

248

249

250

251

252

253

254

255

256

257

258

259

260

261

262

263