علوم ومعارف قرآن

علوم ومعارف قرآن0%

علوم ومعارف قرآن مؤلف:
زمرہ جات: علوم قرآن
صفحے: 263

علوم ومعارف قرآن

یہ کتاب برقی شکل میں نشرہوئی ہے اور شبکہ الامامین الحسنین (علیہما السلام) کے گروہ علمی کی نگرانی میں اس کی فنی طورپرتصحیح اور تنظیم ہوئی ہے

مؤلف: مختلف دانشور
زمرہ جات: صفحے: 263
مشاہدے: 120073
ڈاؤنلوڈ: 4837

تبصرے:

علوم ومعارف قرآن
کتاب کے اندر تلاش کریں
  • ابتداء
  • پچھلا
  • 263 /
  • اگلا
  • آخر
  •  
  • ڈاؤنلوڈ HTML
  • ڈاؤنلوڈ Word
  • ڈاؤنلوڈ PDF
  • مشاہدے: 120073 / ڈاؤنلوڈ: 4837
سائز سائز سائز
علوم ومعارف قرآن

علوم ومعارف قرآن

مؤلف:
اردو

یہ کتاب برقی شکل میں نشرہوئی ہے اور شبکہ الامامین الحسنین (علیہما السلام) کے گروہ علمی کی نگرانی میں اس کی فنی طورپرتصحیح اور تنظیم ہوئی ہے

فواتح و خواتم السور پر قلم اٹھانے والے علماء و مفسرین:

جن علماء ومفسرین نے فواتح و خواتم سورة القرآن کے ربط پر بطور خاص قلم اٹھایا ہے ان میں سر فہرست علامہ جلال الدین سیوطی ہیںجن کی اس موضوع پر تصنیف”مراصد المطالع فی تناسب المقاطع والمطالع“ کے نام سے ہےاسی طرح علامہ کرمانی کی کتاب العجائب بھی اس موضوع پر بہترین ہے برصغیر پاک وہند کے علماء میں شاہ ولی اللہ نے اپنی کتاب ”الفوز الکبیر“ میں ضمناً اس موضوع کا تذکرہ کیاہے البتہ مولانا اشرف علی تھانوی کی کتاب عربی زبان میں” سبق الغایات فی نسق الایات" اس موضوع پر عمد ہ ہے دیگر مفسرین میں جنہوں نے اپنی تفاسیر میں اس امر کا خاص اہتمام کیاہے۔ فخر الدین رازی،احمد مصطفی المرانی،عبدالحق حقانی صاحب ”فتح المنان“ اور مولانا اشرف علی تھانوی صاحب ”بیان القرآن“ شامل ہیں۔

۱۲۱

وحی کی حقیقت اور اہمیت

اسلامی اور استشراقی افکار کا تحقیقی مطالعہ

”سید حسنین عباس گردیزی“

وحی کا اصطلاحی مفہوم:

لغت میں لفظ ” وحی“ مختلف معانی میں استعمال ہوا ہے ان معانی کے درمیان قدر جامع اور قدر مشترک ” مخفی تفہیم اور القاء“ ہے۔ ۱ دور جاہلیت کے شعراء اس لفظ کو کتابت ‘ اشارے اور مکتوب کے معانی میں بروئے کار لائے ہیں۔ ۲ دین اسلام میں یہ لفظ ایک خاص معنی میں اس درجہ کثرت سے استعمال ہوا کہ منقول شرعی بن گیا اور شرعی نوعیت اختیار کر گیااس کے بعد جب بھی یہ لفظ کسی نبی یا پیغمبر کے حوالے سے ذکر ہوا تو اس سے یہی خاص معنی مراد لیا گیا جسے وحی کا اصطلاحی معنی کہا جاتا ہے۔ لہذا اسلامی متون میں جب یہ لفظ بطور مطلق اور بغیر قرینے کے استعمال ہوتا ہے تو اس سے یہی اصطلاحی خاص معنی خاص مراد ہیں البتہ قرینے کی موجودگی میں دیگر معانی مراد لیے جاسکتے ہیں۔

____________________

۱ اس تحریر کی گذشتہ قسط کی بحث کا یہی نتیجہ نکلا تھا۔

۲ العجاج نے اوحی” کو اشارے کے معنی میں استعمال کیا ہے:” فاوحت الینا و الانا مل رسلهار و شدها بالراسیات الثبت

العجاج نے اسی لفظ کو کتابت کے معنی میں اپنے اس شعر میں ذکر کیا ہے:حتی نحاهم جدنا و الناحی ---- لقدر کان وحاه الواحی

(دیوان عجاج،ص۴۳۹)

لبید نے مکتوب کے معنی میں بیان کیا ہے:وفمدا فع الریان عری رسمها ---- خلقا کما ضمن الوحی سلا مها

۱۲۲

چوتھی صدی ہجری کے اسلامی متکلم شیخ مفید نے بیان کیا ہے:

”واذا اُضیفَ (الوحی) الی الله تعالیٰ کان فیما یخص به الرسل خاصةً دون من سواهم علی عُرْفِ الاِسْلٰام و شریعة البنی“ (۳)

جب وحی کا لفظ اللہ تعالیٰ کے ساتھ آئے تو اس سے مراد شریعت نبی اور اسلام کے عرف میں انبیاء کے ساتھ مخصوص وحی ہے دیگر معانی ہرگز مراد نہیں ہیں۔

تفسیر المنار کے مولف نے مذکورہ مطلب کو یوں بیان کیا:

للوحی معنی عام یطلق علی عدة صور من الاعلام الخفی الخاص الموافق لوضع اللغة وله معنی خاص هو احد الاقسام الثلاثة للتکلیم الالهی وغیرهذه الثلاثة من الوحی العام لایعدمن کلام الله تعالیٰ التشریعی (۴)

وحی کا عام معنی کا اطلاق مخفی طور پر آگاہ کرنے کی مختلف صورتوں پر ہوتا ہے اوراس کا ایک خاص معنی ہے جس کا اطلاق اللہ تعالیٰ کے تشریعی کلام کے سوا کسی اور معنی پر نہیں ہوتا۔

عصر حاضر کے مفسر علامہ طباطبائی لکھتے ہیں:

وقد قرر الادب الدینی فی الاسلام ان لایطلق الوحی غیر ماعند الانبیاء والرسل من التکلیم الالهی (۵)

اسلام میں ادب دینی کا تقاضاہے کہ خدا اور انبیاء کے درمیان گفتگو کے علاوہ کسی اور چیز پر وحی کا اطلاق نہ کیا جائے۔

____________________

۳ مفیدمحمد بن نعمان الشیخ المفید(۵)تصحیح الاعتقاد،المؤتمر العالمی لالفیة الشیخ المفید،۱۴۱۳ه ص۱۲۰

۴ رشید رضا:تفسیر المنار:ج۱۱ص۱۷۹

۵ طباطبائی محمد حسین:المیزان فی تفسیر القرآن:ج۱۲ص۳۱۲

۱۲۳

ڈاکٹر حسن ضیاء الدین عتر، وحی کے اصطلاحی معنی کے بارے میں لکھتے ہیں:

”اقول ومن هنا نلحظ ان معنی الوحی فی الشرع اخص منه فی اللغة من جهة مصدره وهو الله تعالیٰ و من جهة الموحی الیه و هم الرسل“ (۶)

ہم کہتے ہیں کہ اسی وجہ سے ہم ملاحظہ کر سکتے ہیں کہ وحی کا شرعی معنی اپنے مصدر یعنی اللہ تعالیٰ اور جن کی طرف یہ وحی کی جاتی ہے یعنی رسولوں کے لحاظ سے اپنے لغوی معنی سے اخص ہے۔

مولانا تقی عثمانی کہتے ہیں:

لفظ’ ’وحی“ اپنے اصطلاحی معنی میں اتنا مشہور ہو چکا ہے کہ اب اس کا استعمال پیغمبر کے سوا کسی اور کے لیے درست نہیں ہے۔(۷)

رائج لطفی نے بیان کیاہے:

کذلک یذکر اللغویون لکلمة الوحی معانی کثیرة ثم غلب استعمال الوحی علی مایلقی الی الانبیاء من عندالله (۸)

اس طرح اہل لغت نے لفظ وحی کے بہت سے معنی ذکر کیے ہیں پھراس کااستعمال ”اللہ تعالیٰ کی طرف سے انبیاء پر القاء کیے جانے والے کلام کے لیے غالب ہو گیا۔

____________________

۶ ضیاالدین عترحسن ڈاکٹر:وحی اللہ،دعوة الحق مکہ مکرمہ رجب۱۴۰۴ہجریص۵۲

۷ عثمانی محمدتقی:علوم القرآن،مکتبہ دارالعلوم کراچی۱۴۰۸ھ،ص۲۹

۸ جمعہ رائج لطفی:القرآن والمستشرقون،قاہرہ۱۳۹۳ھ

۱۲۴

معاصر محقق محمد باقر سعید ی وحی کے خاص معنی کے بارے میں لکھتے ہیں:

درنتیجہ واژہ وحی درحوزہ اصطلاح علم کلام و بلکہ فلسفہ دین در قلمر و ادیان توحیدی‘اخص از مفہوم لغوی آن است(۹)

نتیجے کے طور پر علم کلام بلکہ ادیان توحیدی کے افق پر فلسفہ دین میں وحی کا مفہوم اس کے لغوی معنی سے اخص ہے۔ اسی مطلب کو اردو دائرة المعارف اور سعید اکبر آبادی نے ذکرکیا ہے :

وحی کا استعمال اس معنی خاص میں اس کثرت سے ہوا ہے کہ منقول شرعی بن گیا ہے۔(۱۰)

یہ لفظ اس معنی خاص میں اس درجہ کثرت سے استعمال ہوا ہے کہ یہ ایک شرعی نوعیت اختیار کر گیاہے۔(۱۱)

اسلامی مفکرین کے علاوہ مستشرقین نے بھی وحی کے خصوصی معنی کو بیان کیا ہے:

رچرڈبل مقدمہ قرآن میں لکھتے ہیں:

The verb "awha"and the n(un "wahy" have bec(me the technical terms in m(slem the(l(gy-(۱۲ )

یعنی فعل ” اوحی“ اور مصدر ”وحی" اسلام کے اندر اصطلاحی مفہوم میں استعمال ہوتا ہے-

____________________

۹ سعیدی روشن محمدباقر:تحلیل وحی ازدیدگاہ اسلام و مسیحیت“،موسسہ فرہنگی اندیشہ ۱۳۷۵ھ شص۱۷

۱۰ اکبر آبادی سعید احمد:وحی الہی،مکتبہ عالیہ لاہورص۲۵

۱۱ اردو دائرةالمعارف الاسلامیہ:دانشگاہ پنجابلاہورج۱۶ص۳۲۱

۱۲۵

منٹگمری واٹ کہتے ہیں:

The verb here translated "reveal"is"awha"which in much (f the Quran is a technical expressi(n f(r this experience (f M(hammad-(۳۱ ) اس کے مطابق فعل ” اوحی" اصطلاحی مفہوم میں استعمال ہوا ہے بالخصوص قرآن میں یہ لفظ ”وحی محمدی"کے لیے زیادہ آیا ہے وحی کا یہ خاص او ر اصطلاحی مفہوم کیا ہے؟ اس بارے میں علوم اسلامی کے ماہرین نے جو تعاریف کی ہیں ان کی رو سے وحی کے مفہوم کے لیے تین تعبیریں بیان کی گئی ہیں۔

۱ کلام الہی:

صحیح بخاری کے شارحین بدر الدین عینی اور کرمانی نے بیان کیا ہے:واما بحسب اصلطاح المتشرعة: فهو کلام الله المنزل علی نبی من انبیائه (۱۴) شریعت کی اصطلاح میں وحی اللہ کا وہی کلام ہے جو اس کے انبیاء میں سے کسی پر نازل ہوا ہو۔ راغب اصفہانی کا قول ہے:ویقال للکلمة الالهیة التی تلقی الی انبیائه (۱۵)

وحی کے معنوں میں سے ایک وہ کلام الہی ہے جو اس کے انبیاء کی طرف القاء کیا گیا ہے۔

____________________

۱۲ Bell,Richard: Intr(ducti(n t( the Quran;p-۳۲Edinburg ۱۹۵۳ -

۱۳ Watt,W.M(ntg(mery: Islamic Revelati(n in the M(dern W(rld; p-۱۳ Edinburg ۱۹۶۹ -

۱۴ عینی بدرالدین ابی محمد محمود بن احمد(م۸۵۵) عمدةالقاری لشرح صحیح البخاری،ج۱ص۱۸کرمانی صحیح البخاری بشرح الکرمانی، موسسہ المطبوعات الاسلامیہ قاہرہ،الجزالاول :ص۱۴

۱۵ راغب اصفہانی:” معجم المفردات الفاظ القرآن“ص۵۱۵

۱۲۶

تفسیر المنار کے مولف نے وحی کے خاص معنی بیان کرتے ہوئے کہا ہے:

وله (الوحی) معنی خاص هواحد الاقسام الثلاثة للتکلیم الالهی وغیر هذه الثلاثة من الوحی العام لایعد من کلام الله تعالیٰ التشریحی (۱۶)

اس میں انہوں نے وحی کا خاص معنی کلام الہی بیان کیا ہے البتہ تشریعی ہونے کی قید لگائی ہے۔

ڈاکٹر حسن ضیاء نے بھی اصطلاحی مفہوم کی اسی تعبیر کاذکر کیا ہے:

وزبدة القول ان الوحی شرعاً القاء الله کلام اوالمعنی فی نفس الرسول بخفاء وسرعة (۱۷)

اس میں انہوں نے اصطلاحی معنی میں تھوڑی سی وسعت پیدا کرتے ہوئے کلام الہی کے علاوہ القاء مفہوم اور معنی کو بھی وحی کا شرعی معنی بتایا ہے: عصر حاضر کے علماء میں تقی عثمانی اور ذوقی نے اصطلاحی مفہوم کو بالترتیب یوں بیان کیا ہے:

”کلام الله المنزل علی نبی من انبیائه"

”اللہ تعالیٰ کا وہ کلام جو اس کے کسی نبی پر نازل ہو“(۱۸)

” وحی کلام الہی ہے جو عالم غیب سے عالم شہادت کی جانب بذریعہ ایک مقرب فرشتہ کے جنہیں جبرئیل کہتے ہیں رسولوں کے پاس پہنچایا جاتا ہے۔"(۱۹)

____________________

۱۶ تفسیر المنارج،ج۱۱،۱۷۹ ۱۷ وحی اللہ،ص۵۲

۱۸ علوم القرآن،ص۲۹

۱۹ شاہ ذوقی مولانا:القاء الہام اور وحی،اقبال اکیڈیمیلاہورص۱۳

۱۲۷

۲ علم و آگاہی اور اس کی تعلیم:

مصر کے معروف مفکر محمد عبدہ وحی کے اصطلاحی مفہوم کو بیان کرتے ہوئے لکھتے ہیں:

”وقدعرَ فوه شرعاَ‘ انه اعلام الله تعالیٰ لنبی من انبیائه بحکم شرعی و نحوه (۲۰)

شرعی لحاظ سے وحی کی تعریف یوں کی گئی کہ اللہ تعالیٰ کا اپنے انبیاء میں سے کسی کو حکم شرعی اور اس طرح کے دیگر احکام سے آگاہ کرنا وحی کہلاتا ہے۔

علوم قرآن کے ماہر محمد عظیم زرقانی نے وحی کی نہایت جامع تعریف کی ہے۔

علم و ہدایت بلکہ ہر قسم کی آگاہی جو اللہ تعالیٰ اپنے برگزیدہ بندوں کو دینا چاہے شریعت میں اسے وحی کہتے ہیں لیکن یہ سب کچھ خارق العادت اور مخفی ذریعے سے ہوتا ہے۔(۲۱)

المنار کے موئف بھی وحی کو ” انبیاء سے مخصوص علم“ سے تعبیر کرتے ہیں وہ کہتے ہیں۔

انبیاء کی جانب وحی الہی انبیاء سے مخصوص علم ہے جو تلاش و کو شش اور کسی غیر کی تعلیم کے بغیر انبیاء کو حاصل ہوتا ہے بلکہ اس علم میں انبیاء کے تفکر اور سوچ و بچار کا بھی کوئی عمل دخل نہیں ہوتا۔(۲۲)

___________________

۲۰ عبدہ محمد: رسالة التوحید،مصر۱۳۸۵،ص۱۱۱

۲۱ زرقانی محمد عظیم:مناھل العرفان فی العلوم القرآن،داراحیاء التراث العربی،بیروت،ص۵۶

۲۲ تفسیر المنار، ج۱ص۲۳۰ ۲۳ القرآن والمستشر قون، ص قاہرہ۱۳۹۳ھ

۱۲۸

ایک اور مصری دانشور رائج لطفی اپنے رائے بیان کرتے ہیں:

علی الاصطلاح الشرعی اعلام الله تعالیٰ انبیائه اما بکتاب اوبر سالةِ ملکٍ فی منام او الهام“ (۲۳)

” اللہ تعالیٰ کا اپنے انبیاء کو آگاہ کرنا وحی کہلاتا ہے اس کے مختلف ذرائع ہیں مکتوب شکل میں‘فرشتے کے ذریعے خواب میں یا دل میں بات ڈالنے سے“

برصغیر کے عالم اسلم جیراجپوری بھی وحی کو علوم الہیہ کا نام دیتے ہیں:

اصطلاح شرع میں وحی ان علوم الہیہ کا نام ہے جو ملاء اعلیٰ سے نبی کے دل پر القاء کیے جاتے ہیں۔(۲۴)

غلام احمد پرویز کے بقول وحی کااصطلاحی مفہوم علم الہی ہے:وہ لکھتے ہیں:

” وحی کے اصطلاحی معنی ہیں وہ علم جسے خدا ایک برگزیدہ فرد کو براہ راست اپنی طرف سے دیتا ہے قرآنی اصطلاح کی رو سے وحی کے معنی ہیں” خداکی طرف سے براہ راست ملنے والا علم“(۲۵)

انہوں نے اصطلاحی معنی کو بہت ہی محدود کر دیاہے ان کی نظر میں فقط وہی علم وحی ہے جو اللہ تعالیٰ کی طرف سے براہ راست دیا جائے اس سے فرشتے کے ذریعے سے ملنے والی آگاہی وحی کے زمرے سے خارج ہو جاتی ہے کہ باقی آراء کے خلاف بات ہےکیونکہ اکثر محققین نے وحی کے تینوں ذرائع جو سورہ شوریٰ کی آیت ۵۱ میں بیان ہوئے ہیں‘ کو اصطلاحی معنی میں وحی کا نام دیاہے۔

__________________

۲۴ جیرا جپوری اسلم:تاریخ القرآن، آواز اشاعت گھر،لاہور ص۱۲

۲۵ پرویز غلام احمد:ختم نبوت اور تحریک احمدیت طلوع اسلام ٹرسٹلاہور۱۹۹۶ءص۲۴

۱۲۹

برصغیر کے ایک اور دانشور نے وحی کو علم الہی کا نام دیا ہے وہ کہتے ہیں:

” شریعت اسلام کی اصطلاح میں وحی خاص اس ذریعہ غیبی کا نام ہے جس کے ذریعہ غوروفکر کسب و نظر اور تجربہ و استدلال کے بغیر خاص اللہ تعالیٰ کی طرف سے اس کے فضل و لطف خاص سے کسی نبی کو کوئی علم حاصل ہوتا ہے۔"(۲۶)

ایران کے معاصر محقق ڈاکٹر صالحی کرمانی لکھتے ہیں:

تعلیمی کہ خدا ونداز راھہای کہ بربشر پنہاں است و بطور سریع یعنی برکنار از مقدمات و روش آگاہی ھای بشری بہ پیا مبرمی دھد“(۲۷)

ان کے بقول وحی وہ تعلیم ہے جو اللہ تعالیٰ مخفی ذریعے سے تیزی کے ساتھ اپنے پیغمبر کو دیتا ہے یہ تعلیم دیگر انسانی ذرائع تعلیم سے یکسر مختلف ہوتی ہے۔

ایران کے ایک اور محقق سعیدی روشن بیان کرتے ہیں:

”بنا بر این معنای اصطلاحی وحی در علم کلام عبارت است:

از تفہیم یک سلسلہ حقائق و معارف از طرف خدا وندبہ انسا نہای بر گذیدہ پیا مبران برای ہدایت مردم‘ از راہ ھای دیگری غیراز راھہای عمومی و شناخة شدہ معرفت ہمچون حس و تجربہ وعقل و حدس و شہود عرفانی ‘ تااینکہ آنہاپس از دریافت ‘آن معارف ربہ مردم ابلاغ کنند“(۲۸) ان کی تحقیق کے مطابق اللہ تعالیٰ کی جانب سے اپنے انبیاء کو لوگوں کی ہدایت کے لیے حقائق اور علوم کی تفہیم کا نام ہے

____________________

۲۶ وحی الہی، ص۲۵ ۲۷ صالحی کرمانی،محمد رضا ڈاکٹر:درآمدی برعلوم قرآنی،انتشارات جہاد دانشگاہی دانشگاہ تہران،۱۳۶۹ھ،شص۲۵۲

۲۸ تحلیل وحی ازدیدگاہ اسلام و مسیحیت،ص۱۷۱۸

۱۳۰

یہ تفہیم اور تعلیم جانے پہچانے انسانی ذرائع علم (جیسے حواس خمسہ، تجربہ، عقل، گمان، عرفانی مشاہدات،) سے ماوراء ذریعے سے ہوتی ہے اور ان حقائق اور معارف کو لوگوں تک پہنچانا مقصود ہے۔ پاکستان کے محقق شمس الحق افغانی وحی کا اصطلاحی مفہوم یہ ذکر کرتے ہیں: ” وحی کا شرعی معنی الاعلام بالشرع ‘یعنی صرف شرعی احکام بتلانے کا نام وحی ہے“(۲۹) یہ وحی انبیاء علیہم الاسلام سے مختص ہے۔"(۳۰) برطانوی مستشرق منٹگمری واٹ لکھتے ہیں:

M(st c(mmentat(rs and translat(rs treat m(st (f instances (f the w(rds in the Quran as technical(۳۱ ہت سے مفسرین اور مترجمین نے قرآن میں اس لفظ کے استعمالات سے اصطلاحی مفہوم مراد لیاہے۔ اصلاحی مفہوم کے بارے میں وہ لکھتے ہیں:

The verb here translated "reveal" is "awha" which in mhich (f the Quran in a technical expressin f(r this experience (f Muhammad(۳۲ )

یعنی وحی کا لفظ اصطلاحی معنوں میں محمدصلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے تجربے (نبوت)کے اظہار کے لیے استعمال ہوتا ہے قرآن میں یہ لفظ زیادہ تر حضرت محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی وحی کے لیے فقط نہیں آیا بلکہ تمام انبیاء علیہم السلام کی وحی کے لیے استعمال ہوتا ہے۔(۳۳)

____________________

۲۹۳۰ افغانی شمس الحق، علوم القرآن مکتبہ الحسن لاہور،ص۹۶،ص۹۸

۳۱۳۲ Watt,W.M(ntg(mery: Islamic Revelati(n in the M(dern W(rld-p۱۳&۱۴-Edinburg۱۹۶۹

۳۳ مندرجہ ذیل آیات میں یہ لفظ دیگر انبیاء کی وحی کے لیے آیاہے نساء۱۶۳:اعراف۱۱۷،۱۶۰یونس۲،۸۷:طہٰ۷۷،مومنون۲۷:شعراء۵۲،۶۳:یوسف۱۰۹:نحل۴۳انبیاء۷،۲۵ شوریٰ۳،۵۱:ھود۳۷،۳۶زمر۶۵

۱۳۱

۳ پیغام الہی:

ڈاکٹر حمید اللہ نے اصطلاح میں وحی کا مفہو م یوں ذکر کیا ہے:

” اللہ اپنے کسی برگذیدہ بندے کے پاس اپناپیغام بھیجتا ہے یہ پیغام اس تک مختلف طریقوں سے پہنچایا جاتا ہے کبھی تو اللہ کی آواز براہ راست اس نبی کے کان تک پہنچتی ہے ‘کبھی یہ ہوتا ہے کہ وہ پیغام ایک فرشتہ لاتا ہے اور انسان تک پہنچاتا ہے فرشتے خدا کا جو پیغام لاتے ہیں اس کو ہم اصطلاحاً ” وحی“ کہتے ہیں“(۳۴)

انہوں نے وحی کے خاص مفہو م کو اور بھی محدود کر دیا ہے اور صرف فرشتوں کے ذریعے پہنچائے جانے والے پیغام کو وحی کہا ہے حالانکہ نبی کو براہ راست القاء بھی وحی بمعنی خاص ہے۔ اسلامی علوم کے ماہرین نے وحی کے اصطلاحی مفہوم کو مختلف الفاظ اور تعبیروں سے واضح کی ہے ان میں سے بعض نے اللہ تعالیٰ کے کلام کو وحی کا اصطلاحی مفہوم قرار دیاہے۔(۳۵) یہ وحی کا اسمی معنی ہے۔ بعض مفکرین نے اللہ تعالیٰ کے اپنے انبیاء سے گفتگو کرنے کو اصطلاح میں وحی کہا ہے(۳۶) یہ وحی کے مصدری معنی کے لحاظ سے ہے۔ انہی میں سے بعض نے علم اور معارف کو وحی کا نام دیا ہے۔(۳۷)

___________________

۳۴ ۔ حمید اللہ محمد ڈاکٹر:خطبات بہاولپور،ادارہ تحقیقات اسلامی اسلام آباد ۱۹۸۸ء،ص۱۹۱

۳۵ عینی بدر الدین ابی محمد محمود بن احمد:عمدة القاری شرح صحیح البخاری، ج۱،ص۱۸راغب اصفہانی معجم المفردات لالفاظ القرآن،دارالفکر بیروتص۵۱۵وحی اللہ ص۵۲علوم القرآن ص۲۹القاء الہام اور وحی ص۱۳

۳۶ تفسیر المنار:ج۱۱ص۱۷۹

۳۷ تفسیر المنار،ج۱ص۱۲تاریخ القرآن،ص۱۲ ختم نبوت اور تحریک احمدیت،ص۲۴ وحی الہی ص۲۵

۱۳۲

جبکہ بعض نے خود علم کی تعلیم دینے اور معارف کو سکھانے کے عمل کو وحی کا جامہ پہنایا ہے۔(۳۸) اور یہ تفاوت بھی وحی کے اسمی اور مصدری معنی کی وجہ سے ہے اور چونکہ اہل لغت نے وحی کے دونوں معنی بیان کیے ہیں۔(۳۹) اس لیے جن علماء کے پیش نظر وحی کا اسمی معنی تھا انہوں نے اس کا اصطلاحی مفہوم ”کلام الہی“ اور”علم و معارف“ بیان کیا اور جن کے سامنے اس کا مصدری معنی تھا انہوں نے اس کا مفہوم ”کلام کرنا“اور ”تعلیم دینا“بتایا ہے پس اصطلاحی مفہوم میں دونوں جہتوں کو ملحوظ رکھا گیا ہے۔ تعبیروں کے اختلاف کی وجہ یہ ہے کہ جنہوں نے کلام یاکلام کرنے کی تعبیر استعمال کی ہے انہوں نے خود قرآن کے الفاظ کو استعمال کیا ہے جو وحی کے لیے سورہ شوریٰ کی آیت ۵۱میں استعمال ہوئے ہیں۔(۴۰) جبکہ دوسروں نے واقعیت کو مدنظر رکھتے ہوئے علم،حقائق اور تعلیم کے الفاظ استعمال کیے ہیں کیونکہ اللہ تعالیٰ کا اپنے برگذیدہ بندوں سے کلام کرنا انہیں تعلیم دینا ہی ہے انہیں کائنات کی حقیقتوں سے آگاہ کرنا ہے انہیں آداب زندگی سکھانا ہی ہے اس لیے میری رائے میں تعابیر کا اختلاف مفہوم میں کسی جوہری اور اصلی اختلاف کا باعث نہیں بنتا دونوں کا نتیجہ ایک ہی نکلتاہےالبتہ علم اور تعلیم دینے کی تعبیر زیادہ موزوں ہے۔ اس تمام بحث کا نتیجہ یہ ہے کہ اصطلاح میں: ”وحی اللہ تعالیٰ اور اس کے انبیاء کے درمیان وہ مخصوص، غیر معمولی اور مافوق العادت رابطہ ہے جو بشر کے لیے تمام ذرائع علم(تجربہ،حواس،عقل) سے ماوراء ہے اس کے ذریعے سے اللہ تعالیٰ اپنے انبیاء کو انسانوں کی ہدایت اور ارتقاء کے علوم و معارف اور احکام و قوانین کی تعلیم دینا ہے۔" اس مقالے میں وحی کا یہی اصطلاحی مفہوم اور وحی کا مصدری معنی ہی موضوع تحقیق ہے۔

___________________

۳۸رسالة التوحید،ص۱۱۱، مناهل العرفان فی العلوم القرآن،ص۵۶، القرآن والمستشرقون ، درآمدی برعلوم قرآنی،ص۲۵۲، تحلیل وحی ازدید گاہ اسلام و مسیحیت ص۱۷،۱۸۔

۳۹الصحاح تاج اللغة و صحاح العربیة،تحقیق احمد عبدالغفور عطارج۶،ص۲۵۱۹،داراعلم للملابین،بیروت معجم مقائیس اللغة ج۶۹۳لسان العرب ج۱۵،ص۳۷۹

۴۰( وَمٰا کٰانَ لِبَشَرٍ ان یُکَلَّمَهُ اللّٰه اِلّٰا وَحْیاً اَوَمِنْ وَرٰاء حِجٰابٍ اَوْیُرْسِلْ رَسُولًا فَیُوحی بِاِذْنِهِ مٰایَشاٰءُ اَنَّه عَلیٰ حَکِیمٍ )

۱۳۳

مفہوم ولایت مختلف تراجم وتفاسیر کی روشنی میں تحقیقی جائزہ

ڈاکٹر محمد شکیل اوج

اسسٹنٹ پروفیسر شعبہ علوم اسلامی،جامعہ کراچی

قرآن مجید کی ایک آیت کے حوالہ سے مختلف تراجم و تفاسیر کی روشنی میں ایک تحقیقی جائزہ پیش خدمت ہے۔ اور وہ سورہ انفال کی آیت نمبر۷۲ ہے جس میں ارشاد ہوتا ہے:

( اِنَّ الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا وَهٰاجَرُوْا وَجٰهَدُوْا بِاَمْوَالِهِمْ وَاَنْفُسِهِمْ فِیْ سَبِیْلِ اللّٰهِ وَالَّذِیْنَ اٰوَوْا وَنَصَرُوْا اُولٰئِکَ بَعْضُهُمْ اَوْلِیَآءُ بَعْضٍ وَالَّذِیْنَ اٰمَنُوْا وَلَمْ یُهَاجِرُوْا مَالَکُمْ مِّنْ وِلاَیَتِهِمْ مِّنْ شَیْءٍ حَتّٰی یُهَاجِرُوْا وَاِنِ اسْتَنْصَرُوکُمْ فِیْ الدِّیْنِ فَعَلَیْکُمُ النَّصْرُ اِلاّٰ عَلٰی قَوْمٍ بَیْنَکُمْ وَبَیْنَهُمْ مِّیْثَاقٌ وَاللّٰهُ بِمَاتَعْلَمُوْنَ بَصِیْرٌ )

ترجمہ: بے شک جو لوگ ایمان لائے اور ہجرت کی اور اپنے اموال ونفوس کے ساتھ راہ خدا میں جہاد کیااور وہ لوگ کہ جنہوں نے انہیں ٹھکانہ دیااور امداد دی یہی لوگ ایک دوسرے کے اولیاء(سچے رفقاء اور ورثاء) ہیں اسی طرح وہ لوگ جو ایمان لائے مگر ہجرت(واجب ہونے کے باوجود)نہ کی (یعنی بلاعذر مخالفین کے ساتھ رہنا گوارا کر لیا)تو تمہارے لیے ان کی ولایت (وراثت) میں سے کچھ نہیں جب تک وہ ہجرت نہ کریں البتہ اگر وہ دین کے لیے تم سے کوئی مدد چاہیںتو تم پران کی مدد لازم ہے بشرطیکہ وہ اس قوم کے مقابلہ میں نہ ہوں جن سے تمہارا کوئی معاہدہ (امن دوستی )ہے اور اللہ ہر اس عمل کادیکھنے والا ہے جو تم کرتے ہو۔

اس آیت سے درج ذیل فوائد سامنے آتے ہیں۔

۱۔ مومن مہاجرین و انصار ایک دوسرے کے اولیاء ہیں۔ ۲۔ مومن مہاجرین، غیر مہاجرین کی وراثت سے (دارالکفر میں رہنے کی وجہ سے )محروم ہیں اسی طرح اس کے برعکس بھی ہو گا۔

۱۳۴

۳۔ مومن غیر مہاجرین کے دارالکفر میں ہونے کے باوجود ملت اسلامیہ کے مرکز کی ذمہ داری ہے کہ دینی معاملات میں ان کی مدد کرے بشرطیکہ وہ اس امداد کے طالب ہوں (ظاہر ہے کہ ان کی یہ مدد جہاد کی صورت میں ہو گی)

۴۔ اگر کافر قوم(ملک)سے مسلمانوں کے مرکز کا کوئی معاہدہ صلح و امن موجود ہے تو اس صورت میں بقائے عہد تک یہ امداد نہیں دی جاسکتیالبتہ عہد کو ختم کر کے مدد کرناجائز ہو گا جیسا کہ عبدالماجد دریا بادی نے اپنی تفسیر میں اسی آیت کے تحت لکھا ہے۔

فائدہ نمبر ۳کے مفہوم کی مزید تاکید کے لیے آیت مابعد(آیت نمبر۷۳)ملاحظہ ہو۔

( وَالَّذِیْنَ کَفَرُوْا بَعْضُهُمْ اَوْلِیَآءُ بَعْضٍ اِلَّا تَفْعَلُُْوهُ تَکُنْ فِتْنَةٌ فِی الْاَرْضِ وَ فَسَاٰدٌکَبِیْرٌ )

ترجمہ: اور جو کفر کرتے ہیںوہ ایک دوسرے کے اولیاء ہیں(اے مسلمانو)اگر تم ایسا نہ کرو گے (یعنی دین میں مدد کے طالبوں کی نصرت واعانت اور حفاظت و مدافعت، سرپرستی و پشتیبانی، بصورت جہاد)تو زمین میں فتنہ اور بڑا فساد برپا ہو جائے گا۔

اس آیت میں اکثر وبیشتر علماء کے نزدیک( اَلاّٰتَفْعَلُوه ) میں ضمیر مفعول کا مرجع وہی نصرت ہے جس کا ذکر ”فعلیکم النصر“میں آیا ہے۔

تفسیر جلالین میں( الاتفعلوه ) کا مفہومتولی المومنین وقطع الکفار“ سے اور( تکن فی الارض وفساد کبیر ) کامعنی”بقوة الکفروضعف الاسلام“ سے کیاگیاہے۔

تاہم پیش نظرآیت میں لفظ”اولیاء“ اور ”ولایت“ قابل توجہ ہیں۔

۱۳۵

در اصل آیت میں مہاجرین و انصار کو ایک دوسرے کااولیاء قرار دے کر غیر مہاجرین کو اس ”ولایت“ سے خارج کر دیا گیاہے چنانچہ اس مقام پر ان ہر دو لفظوں کی حقیقت کو سمجھنا بہت ضروری ہے یہ دونوں لفظ اپنے معنی و مفہوم کے اعتبا ر سے ایک دوسرے سے پیوست نظر آتے ہیں چونکہ یہاں” مالکم من ولایتهم من شیءِ“ کے الفاظ استعمال ہوئے ہیں اس لیے اگر اس فقرہ میں لفظ ولایت کو سمجھ لیا جائے تو اولیاء کا مفہوم آپ سے آپ پر واضح ہو جائے گا۔

اردو زبان کے بعض مترجمین نے اس فقرہ میں استعمال ہونے والے لفظ ولایت کو ولایت ہی رہنے دیاہے اس کاکوئی مفہوم اپنے ترجمہ میں بیان نہیں کیامثال کے طور پر سید ابو الاعلی مودودی،امین احسن اصلاحی،اور مسعود احمد(امیر جماعت المسلمین) کے تراجم دیکھے جاسکتے ہیں اور اب نمونہ کے طور پر ایک ترجمہ بھی دیکھ لیجیے۔ تو ان سے تمہاراولایت کاکوئی تعلق نہیں ہے(سید مودودی)

سید مودودی نے لفظ ولایت کو اپنی تفسیر میں بایں الفاظ بیان کیا ہے

”ولایت کا لفظ عربی زبان میں حمایت،نصرت،مددگاری،پشتیبانی،دوستی،قرابت،سرپرستی،اور اس سے ملتے جلتے مفہومات کے لیے بولا جاتا ہےاور اس آیت کے سیاق وسباق میں صریح طور پر اس سے مراد وہ رشتہ ہے جو ایک ریاست کا اپنے شہریوں اور شہریوں کا اپنی ریاست سے اور خود شہریوں کا آپس میں ہوتا ہے“(۱) اس مقام پر مودودی صاحب کا مفہوم ولایت جن جن لفظوں میں بیان ہوا ہےان پر ایک نظر پھر ڈال لیجیےحمایتنصرتمددگاریپشتیبانی دوستی قرابت اور سرپرستی وغیرہ ظاہر ہے۔ کہ ان مفہومات میں سے کوئی بھی مفہوم یہاں نہیں لیا جا سکتا اس لئے کہ اس فقرہ کے بعد کا جو فقرہ ہے۔

( وان استنصرو کم فی الدین فعلیکم النصر ) الخ وہ ان مفہومات سے ابا کرتا ہےمطلب یہ کہ اگر وہ تم سے نصر طلب کریں تو تم پر ان کی نصرت فرض ہےلہذا ولایت کا یہاں کوئی ایسا مفہوم نہیں لیاجا سکتاجو ان کی نصرت کے خلاف جاتا ہو

___________________

۱۔ تفہیم القرآن،جلد دوئم حاشیہ نمبر۵۰ص۱۶۱ ادارہ ترجمان القرآن لاہور، ۱۹۷۵ء

۱۳۶

اسی لیے خود سید مودودی نے بھی یہاں ولایت کا ان مفہومات میں سے کوئی مفہوم مراد نہیں لیابلکہ ان کے نزدیک یہاں ولایت سے مراد”وہ رشتہ ہے،جو ایک ریاست کا اپنے شہریوں سے اور شہریوں کا اپنی ریاست سے اور خود شہریوں کا آپس میں ہوتا ہے“ظاہر ہے کہ اس مفہوم کی رو سے لفظ ولایت ملکی قومیت/وطنیت کے سیاسی تصور کو پیش کر رہا ہے اور یوں بحیثیت مجموعی ایک امت کے تصور کی نفی ہو رہی ہے علامہ اقبال وطنیت کے اس سیا سی تصور کے سخت مخالف تھےانہوں نے اپنی ایک نظم میں اسے خلاف اسلام قرار دیا ہے فرماتے ہیں۔

گفتار رسیاست میں وطن اور ہی کچھ ہے ------- ارشاد نبوت میں وطن اور ہی کچھ ہے

وہ اس تصور کو شرک سے تعبیر کرتے ہوئے فرماتے ہیں:

ان تازہ خداؤں میں بڑا سب سے وطن ہے ---- جو پیرہن اس کا ہے وہ مذہب کا کفن ہے

اور مسلمانوں کو مخاطب کرکے فرماتے ہیں: ---- بازو تراتوحید کی قوت سے قوی ہے

اسلام ترا دیس ہے تو مصطفوی ہے ---- نظارہ دیرنہ زمانے کو دکھا دے

اے مصطفوی خاک میں اس بت کو ملا دے(۲)

__________________

۲۔ بانگ ِدرا، نظم زیر عنوان وطنّیت ص ۱۶۰۱۶۱ شیخ غلام علی اینڈ سنز پبلشرز لاہور سنہ اشاعت ۱۹۷۶ء

۱۳۷

لہذا اس مقام پر ”ولایت“ کا یہ مفہوم بھی غیر قرآنی معلوم ہوتا ہےبصورت دیگر ملکی /وطنی نیشنلزم کا تصور قرآن سے ماننا پڑے گا جو ناممکن سی بات ہے۔ نیز اسی عدم ولایت کی بناء پر مودودی صاحب دارالکفر اور دارالاسلام کے مسلمانوں کو ایک دوسرے کا وارث قرار نہیں دیتے اور نہ ہی ان کے مابین شادی بیاہ کے قائل ہیںاور قابل ذکر بلکہ تعجب خیز بات یہ ہے کہ ان سب باتوں کو وہ ”اسلام کے دستوری و سیاسی ولایت“ کے تحت مستقل بنیادوں پر تسلیم کرتے ہیں۔(۳) گویا ان کے نزدیک تفریق ریاست کے سبب بشرطیکہ وہ دارلاسلام اور دارلکفر ہوں)آج بھی ہر دو ریاستوں کے مسلمان رشتہ ازدواج میں منتقل نہیں ہو سکتے اور نہ ہی وہ ایک دوسرے کے وارث ہو سکتے ہیںہمارے خیال میں دونوں باتیں صحیح نہیں ہیں اور نہ ہی ان باتوں کی پشت پر کوئی نص قطعی موجود ہے۔ اب آپ اردو کے وہ مترجمین دیکھئے جنہوں نے اس مقام پر ”ولایت“ کا معنی رفاقت سے کیا ہے ان میں

۱ محمود حسن صاحب (اسیر مالٹا)

۲ ثناء اللہ امرتسری

۳ فتح محمد خان جالندھری

۴ وحید الدین خان

۵ غلام احمد پرویز

۶ صوفی عبدالحمید سواتی

۷ محمد جونا گڑھی شامل ہیں

____________________

۳۔ تفہیم القرآن،جلد دوئم،سورئہ انفال،حاشیہ نمبر۵۱،ص ۱۶۲ ادارہ ترجمان القران لاہور سنہ اشاعت۱۹۷۵ء

۱۳۸

نمونہ کے طور پر محمود صاحب کا ترجمہ ملاحظہ ہو۔

”تم کو ان کی رفاقت سے کچھ کام نہیں“

یہ ترجمہ دیکھئے اور آیة گرامی کا فقر ہ مابعد دیکھئے۔

( وان استنصرواکم فی الذین فعلیکم النصر )

بھلا بتائیے کہ وہ لوگ کو جن کی رفاقت سے مسلمانوں کے کچھ کام نہ ہوں۔ پھر ان کی نصرت کا حکم بھی دیا جائے کیا یہ ممکن ہے؟ اسی طرح وہ مترجمین جنہوں نے ”ولایت“ کا معنی دوستی سے کیا ہےوہ یہ ہیں سرسید احمد خان، مرزا حیرت دہلوی،مرزا بشیر الدین محمود(قادیانی)اور محمد علی (لاہوری) نمونہ کے طور پر سرسید احمد خان کا ترجمہ دیکھئے

”تو تم کو نہیں ہے اس کی دوستی سے کچھ“جبکہ مرزا بشیر الدین کے ہاں دوستی کے ساتھ لفظ ”ولی“ کا اضافہ ملتا ہے

ظاہر ہے کہ رفاقت اور دوستی دونوں ہم معنی الفاظ ہیں اس اعتبار سے ہمارے نزدیک اس مفہوم کا بھی وہی حکم ہے جو اوپر رفاقت کے تحت تبصرہ میں پیش کیاگیا ہے۔ اہل تشیع میں حافظ فرمان علی نے ولایت کا معنی سرپرستی سے کیا ہےملاحظہ ہو”تم لوگوں کو ان کی سرپرستی سے سروکار نہیں“ مگر تعجب ہے کہ مترجم موصوف نے اپنا حاشیہ وراثت کے مفہوم پر مشتمل لکھا ہے فرماتے ہیں۔(۵) ”جب آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ہجرت کر کے مدینہ آئے تو مہاجرین و انصار کو باہم ایک دوسرے کا بھائی قرار دیااور باہم ایک دوسرے کے وارث بھی ہوئے۔

____________________

۴۔ غلام احمد پرویز نے اپنے مفہوم القرآن میں ولایت کو ”اعانت و رفاقت“ سے تعبیر کیا ہے

۵۔ اسی طرح تعجّب ہے کہ پیر محمد کرم شاہ الازھری،اپنے ترجمہ میں ولایت کا ترجمہ وراثت سے کرتے ہیں مگر اپنے حاشیہ میں،ترجمے سے ہٹ کر تفسیر کرتے ہیں دیکھئیے ضیاء القرآن،جلد دوئم،سورئہ انفال کا حاشیہ نمبر ۹۰

۱۳۹

جب آیہ اولوالارحام نازل ہوئی تو یہ وراثت موقوف ہوئی“

ترجمہ: میں سرپرستی اور حاشیہ میں وراثت اس واضح فرق پر کیا تبصرہ کی جائے۔

تفسیر مجمع البیان میں اس آیت کی تفسیر بایں الفاظ کی گئی ہے:

(قیل نزلت الایةفی المیراث وکانوایتو ارثون بالهجرة فجعل الله المیراث المها جرین والانصار دون ذوی الارحام وکان الذی امن ولم یهاجرلم یرث من اجل انه لم یها جرولم ینصر وکانو ایعملون بذلک حتی انزل الله تعالیٰ واولو الارحام بعضهم اولی بعض فسخت هذه الایة وصارالمیراث لذوی الارحام المومنین ولایتوارث اهل ملتین عن ابن عباس والحسن وقتاده ومجاهد والسدیی) (۶)

اس تفسیر سے معلوم ہوا کہ ولایت کا معنی میراث ہےاور اکثرمترجمین ومفسرین نے اس کا معنی وراثت یا میراث سے ہی کیا ہےالبتہ ایک ترجمہ میں لفظ ترکہ بھی استعمال کیا گیاہے۔ واضح رہے کہ وراثت اور میراث ہم معنی الفاظ ہیں اور ترکہ میں البتہ قدرے وسعت پائی جاتی ہےیعنی میت جو کچھ چھوڑ جائے وہ ترکہ ہےاور ترکہ ان تمام مفاہیم پر بولا جاتا ہے۔

۱ میت اگر مقروض ہے تو ترکہ میں سے قرضہ ادا کیا جاتا ہے۔

۲ میت نے اگر کسی کے حق میں مشروع وصیت کر دی ہے تو وہ بھی ترکہ میں سے نکالی جاتی ہے

۳ میت نے اگر اپنی اہلیہ کو مہر نہیں دیا ہے تو وہ بھی ترکہ میں سے نکالا جاتا ہے۔

۴ خود میت کی تجہیز،تکفن اور تدفین بھی ترکہ میں سے کی جاتی ہے۔

___________________

۶۔ الشیخ الطبرسی (متوفٰے ۵۴۸)، مجمع البیان فی تفسیر القرآن،جلد دوئم ص ۵۶۱،مکتبہ العلمیة الاسلامیہ،طھران،سنہ اشاعت ندارد،

۱۴۰