علوم ومعارف قرآن

علوم ومعارف قرآن21%

علوم ومعارف قرآن مؤلف:
زمرہ جات: علوم قرآن
صفحے: 263

علوم ومعارف قرآن
  • ابتداء
  • پچھلا
  • 263 /
  • اگلا
  • آخر
  •  
  • ڈاؤنلوڈ HTML
  • ڈاؤنلوڈ Word
  • ڈاؤنلوڈ PDF
  • مشاہدے: 136023 / ڈاؤنلوڈ: 6859
سائز سائز سائز
علوم ومعارف قرآن

علوم ومعارف قرآن

مؤلف:
اردو

یہ کتاب برقی شکل میں نشرہوئی ہے اور شبکہ الامامین الحسنین (علیہما السلام) کے گروہ علمی کی نگرانی میں اس کی فنی طورپرتصحیح اور تنظیم ہوئی ہے


1

2

3

4

5

6

7

8

9

10

11

12

13

14

15

16

17

18

19

20

21

22

23

24

25

26

27

28

29

30

31

32

33

34

35

36

37

38

39

40

41

42

43

44

45

46

47

48

49

50

51

52

53

54

55

56

57

58

59

60

61

62

63

64

65

66

67

68

69

70

71

72

73

74

75

76

77

78

79

80

81

82

83

84

85

86

87

88

89

90

91

92

93

94

95

96

97

98

99

100

101

102

103

104

105

106

107

108

109

110

111

112

113

114

115

116

117

118

119

120

121

122

123

124

125

126

127

128

129

130

131

132

133

134

135

136

137

138

139

140

پھر جو کچھ بچ گیا ہے اسے مال موروثہ،ورثہ،میراث یا وراثت کہا جاتا ہےاور اس باقی ماندہ مال پر احکام وراثت جاری کیے جاتے ہیںیوں میت کے چھوڑے ہوئے کل مال کو ترکہ کہا جاتا ہےمعلوم رہے کہ ہمارے محولہ تمام مترجمین ومفسرین میں احمد رضاخان صاحب بریلوی واحد متراجم ہیں کہ جو ولایت کا ترجمہ ترکہ سے کرتے ہیں ملاحظہ ہو”تمہیں ان کا ترکہ کچھ نہیں پہنچتا“ اس ترجمہ کی رو سے فقط تعدیم میراث ہی ثابت نہیں ہوتی بلکہ تعدیم دین(قرض)تعدیم مہر اور تعدیم وصیت غرض سب ہی ثابت ہو جاتے ہیں یو ں یہ ترجمہ اپنی جامعیت اور معنویت میں سب سے بڑھا ہوا معلوم ہوتا ہےبلاشبہ یہ ترجمہ رضاصاحب کے تفردات میں داخل کیا جاسکتا ہے۔

جبکہ

۱ ڈپٹی نذیر احمد صاحب

۲ اشرف علی تھانوی

۳ سید محمد محدث کچھوچھوی

۴ احمد سعید دہلوی

۵ مفتی احمد یا رخان نعیمی

۶ عبدالماجد دریابادی

۷ احمد سعید کاظمی

۸ پیر محمد کرم شاہ الازھری

کے ہاں ولایت کا ترجمہ وراثت یا میراث سے کیا گیا ہے۔

۱۴۱

نمونہ کے طور پر ڈپٹی نذیر احمد کا ترجمہ ملاحظہ ہو۔

”تو تم مسلمانوں کو ان کی وراثت سے کچھ تعلق نہیں“

وراثت کے لفظ سے مفہوم آیت یہ نکلتا ہے کہ دارالکفر میں رہنے والے مومنوں کے وراثت مہاجروں میں جاری نہیں ہو گی(اسی طرح اس کے برعکس ہو گا)خواہ وہ ایک دوسرے کے باپ،بھائی،کیوں نہ ہوں البتہ احمد رضا خان صاحب کے ترجمہ کی رو سے اسی مفہوم پر اتنا اضافہ اور کرلیں کہ اگر کوئی کسی کا مقروض ہویا کسی کے حق میں وصیت ہو یا اہلیہ کا مہر ہو توبھی دارالکفر اور دارالاسلام کے مسلمانوں کے مابین یہ تینوں حقوق غیر موثر رہیں گےنیز ان پراحکام وراثت جاری نہیں ہوں گے(مگر اب یہ احکام منسوخ ہو چکے ہیں)البتہ تفسیر جلالین میں زیر بحث فقرہ قرآنی کامفہوم بایں الفاظ درج ہے۔

”فلاارث بینکم وبینهم ولانصیب لهم فی الغنیمه“

(یعنی اے مہاجر مسلمانو) تمہارے اور غیر مہاجر مسلمانوں کے مابین کوئی میراث نہیں اور نہ ہی اس کے مال غنیمت میں سے کوئی حصہ ہےاور

”الاستا الدکتور وهبة الزحیلی بهی اپنی تفسیر“ التفسیر المنیر فی الشریعة والمنهج“

میں مذکورہ بالا الفاظ ایضاً لکھے ہیںگویا ان ہر دو حضرات کے نزدیک میراث کے ساتھ مال غنیمت بھی شامل ہے جس میں غیر مہاجرین کا کوئی حصہ نہیں۔

جبکہ مُلّا احمد جیون نے آیت مذکورہ کو جس عنواں کے تحت لکھا ہے وہ یہ ہے ” ہجرت کی بناء پر جو ورثاء، وراثت سے محروم ہوئے“ ۷ اس لئے معلوم ہوا کہ ان کے نزدیک اس آیت میں ولایت بمعنی وراثت ہی استعمال ہوا ہے۔ اسی طرح اما م ابن جریر طبری نے بھی اپنی تفسیر میں،اور امام عبدالرحمن بن علی بن محمد الجوزی القرشی البغدای (۰۵۹۷ھ) نے بھی اپنی تفسیر زاد لمسیر فی علم التّفسیر میں ولایت سے مراد میراث لیا ہے۔ فرماتے ہیں۔

۱۴۲

” لیس بینکم وبینهم میراث“

ولایت کا معنی وراثت قرآنی لُغت سے بھی ثابت ہوتا ہے۔ قرآن مجید میں لفظ ” ولی" بمعنی وارث بھی استعمال ہوا ہے۔ سورہ الاسرا کی آیت نمبر ۳۳ میں ارشاد ہوا۔

( وَمَنْ قُتِلَ مَظْلُوْمًا فَقَدْ جَعَلْنَا لِوَلِیِّه سُلْطٰنًا )

اور جو شخص ظلم سے قتل کیاجائے۔ ہم نے اُس کے وارث کو اختیار دیا ہے۔

(فتح محمد جالندھری )

تفسیر جلالین میں بھی لَوَلّیہ کا معنی لوارثہ لکھا ہوا ہے۔ چنانچہ ولایت کا معنی وراثت سے کرنا از روئے لغت قرآن کریم بھی ثابت ہوا۔ اور یہ ہمارے موقف کے حق میں دوسری دلیل ہے۔ پہلی دلیل تو خود نظم کلام سے مستنبط تھی جیسا کہ اوپر گذرا۔ اور اب ہم اپنے موقف کے حق میں تیسری دلیل آلایات تفسیر بعضھا بعض کے تحت سورہ النساء کی آیت نمبر ۷۵ سے پیش کرتے ہیں۔ ارشاد ربانی ہے۔

( وَمَالَکُمْ لَاتُقَاتِلُوْنَ فِیْ سَبِیْلِ اللّٰهِ وَالْمُسْتَضْعَفِیْنَ مِنَ الرِّجَالِ وَالنِّسَآءِ وَالْوِلْدَان الَّذِیْنَ یَقُوْلُوْنَ رَبَّنَآ اَخْرِجْنَا مِنْ هٰذِهِ الْقَرْیَةِ الْظَّالِمِ اَهْلُهَا وَاجْعَلْ لَّنَا مِنْ لَّدُنْکَ وَلِیًّا وَاجْعَلْ لَّنَامِنْ لَّدُنْکَ نَصِیْرًا )

ترجمہ:۔ اور تمہیں کیا ہوا کہ تم اللہ کی راہ میں قتال نہ کرو یعنی کمزور مردوں اورعورتوں اور بچوں کے واسطے جو یہ دعا کر رہے ہیں کہ اے ہمارے پروردگار ! ہمیں اس بستی سے نکال کہ جن کے لوگ ظالم ہیں اور (اے اللہ!)ہمیں اپنے پاس سے کوئی حمایتی اور ہمیں اپنے پاس سے کوئی مددگار دے۔ اس آیت کو دیکھیے اور پھر سورئہ انفال کے آیت نمبر ۷۳ کو دیکھیے۔ اورخود فیصلہ کیجئیے کہ جب سورئہ النساء میں مکہ معظمہ کے بے بس، اور کمزور مسلمانوں کی مدد کے لیے مدینہ منورہ کے مسلمانوں کو اُبھارا جارہا ہے تو یہ کیسے ممکن ہے کہ سورئہ انفال میں انہی مسلمانوں کے لیے یہ کہا جا رہا ہو کہ

۱۴۳

تم کو انکی رفاقت سے کچھ کا م نہیں (محمود حسن)

تمہارے لیے انکی کچھ بھی رفاقت نہیں (محمد جونا گڑھی)

تمہاری ان سے ذرا رفاقت نہ ہونی چائیے (ثناء اللہ امرتسری)

توان سے تمہارا رفاقت کاکوئی تعلق نہیں (وحید الدین خان)

تم لوگوں کو انکی سرپرستی سے سروکار نہیں (حافظ فرمان علی )

تم پر انکی دوستی کا کوئی حق نہیں (محمد علی لاہوری)

ان سے دلی دوستی کرنا تمہارا کام نہیں (مرزا بشیر الدین محمود قادیانی)

تمکو ان کی رفاقت سے کچھ سروکار نہیں (فتح محمد خان جالندھری)

نہیں آپ لوگوں کا کچھ تعلّق ان کی رفاقت سے (صوفی عبدالحمید سواتی)

تو تم کو نہیں ہے ان کی دوستی سے کچھ (سرسّید احمد خان)

تو تمہیں انکی دوستی سے کچھ (کام )نہیں (مرزا حسرت دہلوی) وغیرہ وغیرہ۔

خلاصہ یہ کہ سورئہ انفال کی آیت نمبر(۷۲)میں جن مترجمین نے ولایت کا معنی وراثت،میراث،اور ترکہ سے نیز لفظ اولیاء کا معنی اسی مناسبت سے وارث ہونے سے کیا ہےوھی ہمارے نزدیک زیادہ صحیح اور نظم قرآن کے مناسب اور رُوحِ قُرآنی کے مطابق ہے۔ اس مقام پر اس مطلوب کے پانے کی سعادت جن اُردو مترجمین کے حصّے میں آئی ہے۔ ان کے اسمائے گرامی ایک بار پھر ملاحظہ ہوں۔

۱۴۴

ڈپٹی نذیر احمد دہلوی احمد رضا خان بریلوی اشرف علی تھانوی

سید محمدمحدث کچھوچھوی

احمد سعید دہلوی

مفتی احمد یار خان نعیمی عبدالماجد دریابادی

احمد سعید کاظمی اور پیر محمد کرم شاہ الازھری

اور انگریزی مترجمین قرآن میں پروفیسر شاہ فرید الحق اور عبدالماجد دریا بادی(۸) نے اسی مفہوم کو اپنے اپنے تراجم میں پیش نظر رکھا ہے۔ نمونہ کے طور شاہ فرید الحق کا ترجمہ ملاحظہ ہو۔ " Y(u have n( duty t( their inharitence" )(۹) جبکہ محمد علی لاہوری،عبداللہ یوسف علی، مارما ڈیوک پکتھال،ڈاکٹر حنیف اختر فاطمی،ڈاکٹر محمد تقی الدین الہلالی، ڈاکٹر محمد محسن خان اور محمدمعظم علی کے ہاں ولایت کا مفہوم Pr(tecti(n سے ادا کیا گیا ہے۔ البتہ ایم ایچ شاکر کے ہاں Guardianship اور آرتھر جے آربری کے ہاں Friendship کے الفاظ لکھے گئے ہیں۔ اور لبنان سے شائع ہونے والے مُسلم اسکالرز کے ترجمے میں Resp(nsibility کا لفظ استعمال کیا گیا ہے۔ ظاہر ہے کہ مذکورہ بالا انگریزی تراجم میں ہمارا مختار اور مطلوب ترجمہ عبدالماجد دریا بادی اور پروفیسر شاہ فرید الحق کا ہے۔

____________________

۸۔ عبدالماجد دریابادی کا پہلا ترجمہ مع تفسیر کے انگریزی میں ہوا تھا

۹۔ محمد علی لاہوری نے بھی اُردو ترجمہ و تفسیر سے قبل انگریزی میں ترجمہ و تفسیر کا کام کر لیا تھا

۱۴۵

” بیان القرآن“ اور ”تفہیم القرآن“ کے اردو تراجم قرآن کا تقابلی جائزہ

تحریر:ڈاکٹر غزل کا شمیری

قرآن پاک کے اکثر اردو تراجم میں معنوی یگانگت کا ہونا ایک فطری امر ہےلیکن اگر دو تراجم میں لفظی اتحاد ہواور وہ بھی ان گنت آیات کے تراجمتو یہ ایک عجیب مظہر ثابت ہو گایہ عجیب مظہر مولانا اشرف علی تھانوی کی تفسیر”بیان القرآن“ اور مولانا ابوالاعلی مودودی کی تفسیر ”تفہیم القرآن“ کے اردو تراجم میں پایا جاتا ہے دونوں بزرگوں کے اردو تراجم، تفسیروں سے علیحدہ بھی طبع ہو چکے ہیں۔ اگرتراجم میں لفظی مماثلت دو چار مقامات تک محدود ہو تو ہم یہ عذر کر سکتے ہیں کہ یہ ایک علمی آمد اور آفاقی حقیقت ہے جودو جینئیس حضرات کے نظریہ اور کلام میں مُلھم ہو جاتی ہےلیکن اگر یہ یک رنگی لاتعداد مقامات پر ملے تو لازماً یہ تسلیم کرنا پڑے گاکہ متاخر جینئیس نے مقدم سے شعوری سے استفادہ کیا ہے یہ اور بات ہے کہ وہ مقدم کو اپنا ماخذ تسلیم نہ کرے۔

آئیے ان مقامات کا مطالعہ کرتے ہیں جن کے مطابق بیان القرآن اور ”تفہیم القرآن“ میں قرآن پاک کی آیات کے اسماء و افعال کے تراجم میں لفظی مماثلت پائی جاتی ہےیہاں یہ حقیقت پھر مدنظر رہے کہ ہم نے وہی مثالیں پیش کی ہیں جن میں مشابہت لفظی ہے مثلاًدرج ذیل مثال سے ہم نے اعراض کیاہےسورة القصص کی آیت۵۹:

( وَمَاکَانَ رَبُّکَ مُهْلِکَ الْقُرٰی حَتّٰی یَبْعَثُ فیْ اُمِّهَا رَسُوْلاً )

مولانا تھانوی اس کا ترجمہ یوں کرتے ہیں”اور آپ کا رب بستیوں کو ہلاک نہیں کیا کرتا جب تک ان کے صدر مقام میں کسی پیغمبر کو نہ بھیج لے“ مولانا مودودی اس کا ترجمہ یوں کرتے ہیںاور تیرا رب بستیوں کو ہلاک کرنے والا نہ تھاجب تک کہ اس کے مرکز میں ایک رسول نہ بھیج دیتا

۱۴۶

یہاں ام کے ترجمہ صدر مقام یا مرکز معنوی موافقت تو ہے لیکن لفظی لحاظ سے اختلاف و تفاوت ہے ہم نے ایسی مثالوں سے صرف نظر کیا ہے اب ہم ترتیب وار وہ آیات پیش کرتے ہیں جن کے اسماء افعال میں دونوں بزرگوں کے تراجم میں مشابہت پائی جاتی ہے۔

سورةالبقرة

ترجمہ: مولانا اشرف علی تھانوی مولانا ابو الاعلی مودودی

آیت ۲۰:( لَذَهَبَ بِسَمْعِهِمْ وَاَبْصٰارِهِمْ )

ان کے گوش وچشم سلب کر لیتے ان کی سماعت اور بصارت بالکل ہی سلب کر لیتا

آیت ۲۲:( فَلاَ تَجْعَلُوْا لِلّٰهِ اَنَدْادًا )

اب تو مت ٹھہراو اللہ پاک کے مقابل تو دوسروں کو اللہ کے مدمقابل نہ ٹھہراو

آیت۳۵:( وَکُلاَ مِنْهَا رَغَدًا حَیْثُ شِئْتُمَا )

پھر کھاؤ دونوں اس میں سے بافراغت جس جگہ سے چاہو اور یہاں بفراغت جو چاہو کھاو

آیت۴۴:( وَاَنْتُمْ تَتْلُوْنَ الْکِتٰبَ )

حالانکہ تم تلاوت کرتے رہتے ہو کتاب کی حالانکہ تم تلاوت کرتے ہو کتاب کی

۱۴۷

آیت۶۰:( وَ اِذْ اسْتَسسْقٰی مُوْسٰی لِقَوْمِه )

اور جب موسٰی نے پانی کی دعا مانگی اپنی قوم کے واسطے یاد کرو جب موسٰی نے اپنی قوم کے لئے پانی کی دعاکی

آیت۶۱:( وَّکَانُوْا یَعْتَدُوْنَ )

اور دائرہ سے نکل نکل جاتے کہ وہ حدود شرع سے نکل نکل جاتے تھے

آیت۶۴:( لَکُنْتُمْ مِّنَ الْخَاسِرِیْنَ )

تو ضرور تباہ ہو جاتے ورنہ تم کب کے تباہ ہو چکے ہوتے

آیت۸۸:( وَقَالُوْا قُلُوْبُنَاغُلْفٌ )

اور کہتے ہیں ہمارے قلوب محفوظ ہیں وہ کہتے ہیں ہمارے دل محفوظ ہیں

آیت۹۷:( قُلْ مَنْ کَانَ عَدُوًّا لِّجِبِْریْلَ )

آپ یہ کہیے جو شخص جبریل سے عداوت رکھے ان سے کہوجو کوئی جبریل سے عداوت رکھتا ہے

آیت۱۱۵:( فَاَیْنَمَا تُوَلَّوْافَثَمَّ وَجْهُ اللّٰهِ )

تو تم لوگ جس طرف بھی منہ کرو ادھر اللہ تعالیٰ کا رخ ہے جس طرف بھی تم رخ کرو گے

اسی طرف اللہ کا رخ ہے

۱۴۸

آیت۱۱۷:( بَدِیْعُ السَّمٰوَاتِ وَالْاَرْضِ )

موجد ہیں آسمانوں اور زمین کے وہ آسمانوں اور زمین کا موجد ہے

آیت۱۲۰:( قُلْ اِنَّ هُدَی اللّٰهِ هُوَالْهُدٰی )

آپ کہہ دیجیے کہ حقیقت میں ہدایت کا وہی راستہ ہے صاف کہہ دو کہ راستہ بس وہی ہے جو اللہ

جس کو خدا نے بنایا ہے نے بتایا ہے

آیت۱۲۷:( وَاِذْ یَرْفَعُ اِبْرَاهمُ الْقَوَاعِدَ مِنَ البَیْتِ وَاِسْمٰعِیْلُ )

اور جب اٹھارہے ہیں ابراہیم دیواریں اور اسمعیل بھی اور یاد کرو ابراہیم واسمعیل جب اس گھر کی

دیواریں اٹھارہے۔

آیت۱۴۵:( اِنَّکَ اِذًا لَّمِنَ الظَّالِمِیْنَ )

تو یقینا آپ ظالموں میں شمار ہونے لگیں تو یقینا تمہارا شمار ظالموں میں ہو گا

آیت ۲۱۳:( کَانَ النَّاسُ اُمَّةً وَّاحِدَةً )

سب آدمی ایک ہی طریق کے تھے ابتداء میں سب لوگ ایک ہی طریقے پر تھے

آیت۲۴۹:( فَمَنْ شَرِبَ مِنْهُ فَلَیْسَ مِنِّیْ )

سو جو شخص اس سے پانی پیئے گا وہ تو میرے ساتھیوں میں نہیں جو اس کا پانی پیئے گا وہ میرا ساتھی نہیں

۱۴۹

آیت۲۵۵:( اَلْحَیُّ الْقَیُّوْمُ )

زندہ ہے سنبھالنے والا ہے وہ زندہ جاوید ہستی جو کائنات کو سنبھالے ہوئے ہے

آیت۲۶۱:( وَاللّٰهُ یُضَاعِفُ لِمَنْ یَّشَآء )

اور یہ افزونی خدا تعالیٰ جس کو چاہتا ہے عطا فرماتا ہے اللہ جس کے عمل کو چاہتا ہے افزونی عطا فرماتا ہے

سورة آل عمران

آیت ۲۶:( بِیَدِکَ الْخَیْرُ اِنَّکَ عَلٰی کُلِّ شَیْءٍ قَدَیْرٌ )

آپ ہی کے اختیار میں ہے سب بھلائی بلاشبہ آپ ہر چیز پر قادر ہیں بھلائی تیرے اختیار میں ہے بے

شک توہرچیز پر قادر ہے

آیت۱۵۶:( یٰااَیُّهَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا لاَتَکُوْنُوْا کَالَّذِیْنَ کَفَرُوْا )

اے ایمان والوتم ان لوگوں کی طرح مت ہوجانا اے لوگوجو ایمان لائے ہو کافروں کی سی بات نہ کرو

(یعنی ان لوگوں کی سی بات مت کرنا)جو حقیقت میں کافر ہیں

نوٹ: مولانا اشرف علی تھانوی نے جو وضاحت بریکٹ کے اندر دی ہے مولانا مودودی اسی کو اصل ترجمہ میں لے آئے ہیں۔

۱۵۰

سورةالنساء

آیت۵۶:( وَیَقُوْلُوْنَ سَمِعْنٰا وَعَصَیْنٰا )

اور یہ کلمات کہتے ہیں سمعنا وعصینا کہتے ہیں سمعنا وعصینا

آیت ۱۰۴( اِبْتِغَاءِ الْقَوْمِ )

مخالف قوم کے تعاقب کرنے میں اس گروہ کے تعاقب میں

سورة الاعراف

آیت۹۲:( کَاَنْ لَّمْ یَغْنُوْا فِیْهَا )

حالت یہ ہوئی جیسے ان گھروں میں کبھی بسے ہی نہ تھے گویا کبھی ان گھروں میں بسے ہی نہ تھے

آیت: ۱۲۶( رَبنَّا اَفْرِغْ عَلَیْنٰا صَبْراً )

اے ہمارے رب ہمارے اوپر صبر کا فیضان کر اے رب ہم پر صبر کا فیضان کر

آیت :۱۵۷( وَعُزَّرُوْهُ )

اور ان کی حمایت کرتے ہیں اور اس کی حمایت کریں

آیت: ۱۹۰( فَلَمّٰا اَتٰهُمٰا صٰالِحاً )

سو جب اللہ تعالیٰ نے ان دونوں کو صحیح وسالم اولاد دیدی مگر جب انسان کو ایک صحیح و سالم بچہ دیدیا

۱۵۱

سورة الانفال

آیت:۸( یَحِقُّ الْحَقَّ وَیُبْطِلُ الْبٰاطِلَ )

تاکہ حق کا حق ہونا اور باطل کا باطل ہونا ثابت کردے تاکہ حق حق ہو کررہے اور باطل باطل ہو کررہ

جائے

آیت:۳۰( وَاِذًیَمْکُرْ بِکَ الَّذینَ کِفَرُوا لِیُثْبِتوُکَ )

جب کہ کافر لوگ آپ کی نسبت تدبیریں سوچ رہے وہ وقت یاد کرنے کے قابل ہے جب کہ منکرین حق

تیرے خلاف تدبیریں سوچ رہے تھے کہ آپ کو قید

کریںتھے کہ تجھے قید کردیں

سورة التوبة

آیت:۱۱۸( وَعَلٰی الثَّلاٰثَةِ الَّذینَ خُلِّفُواٰ )

اور ان تین اشخاص کے حال پر بھی جن کا فیصلہ ملتوی چھوڑ دیا گیا تھا اور ان تینوں کو بھی اس نے

معاف کیا جن کے معاملہ کو ملتوی کر دیا گیا تھا

۱۵۲

سورة یوسف

آیت:۸ا( اِنَّ اَبٰانٰا لَفی ضَلاٰلٍ مُبینٍ )

ہمار ے اباجان بالکل ہی بہک گئے ہیں سچی بات یہ ہے کہ ہمارے ابا جان بالکل ہی بہک گئے ہیں

آیت:۶۰( فَاِنْ لَمْ تَأتُونی بِه فَلاٰ کَیْلَ عِنْدی وَلاٰ تَقْربُونَ )

اور اگر اس کو تم میرے پاس نہ لائے تو نہ میری پاس اگر تم اسے نہ لاو گے تو میرے پاس تمہارے

تمہارے نام کا غلہ ہو گا اور نہ تم میرے پاس آنا لئے کوئی غلہ نہیں بلکہ تم میرے قریب بھی نہ پھٹکنا

سورة الکھف

آیت:۱۴( قُلُناٰ اِذاً شَطَطًا )

ہم نے یقیناً بڑی بے جابات کہی اگر ہم ایسا کریں بالکل بے جابات کریں گے

سورة الانبیاء

( آیت:اِنّی کُنْتُ مِنَ الظّٰالِمِینَ )

میں بے شک قصور واروں میں ہوں بیشک میں نے قصور کیا

۱۵۳

سورة الفرقان

آیت:۶۱( اَلَذَّینَ لاٰیَرْ جُونٰا لکقاءَ نٰا )

جو لوگ ہمارے سامنے پیش ہونے سے اندیشہ نہیں کرتے جو لوگ ہمارے حضور پیش ہونے کا اندیشہ نہیں رکھتے

سورة الشعراء

آیت:۱۲۹۱۲۸،( اَتَبْنُونَ بِکُلِّ ریعٍ آیةً تَعْبَثُونَ )

کیاتم ہر اونچے مقام پر ایک یادگار بناتے ہو یہ تمہارا کیا حال ہے کہ ہر اونچے مقام پرلا حاصل ایک جس کو محض فضول بناتے ہو یادگار عمارت بنا ڈالتے ہو

سورة القصص

آیت۳:( نَتْلُوْا عَلَیْکَ مِنْ نَّبَاِ مُوْسٰی وَفِرْعَوْنَ بِالْحَقِّ )

ہم آپ کو موسیٰ اور فرعون کا کچھ حصہ ٹھیک ٹھیک پڑھ کرسناتے ہیں ہم موسیٰ اور فرعون کا کچھ حال ٹھیک ٹھیک تمہیں سناتے ہیں

سورة عنکبوت

آیت۱۷:( لاَّیَمْلِکُوْنَ لَکُمْ رِزْقًا )

تم کو کچھ بھی رزق دینے کا اختیار نہیں رکھتے وہ تمہیں کوئی رزق بھی دینے کا اختیار نہیں رکھتے

۱۵۴

سورة الروم

آیت۴:( لِلّٰهِ اْلاَمَرُ ) اللہ ہی کا اختیار ہے اللہ ہی کا اختیار ہے

سورة لقمان

آیت۱۴:( حَمَلَتْهُ اُمُّه وَهْنًا عَلٰی وَهْنٍ )

اس کی ماں نے ضعف پر ضعف اٹھا کر اس کو پیٹ میں رکھا اس کی ماں نے ضعف پر ضعف اٹھا کر اسے اپنے پیٹ میں رکھا

سورة الاحزاب

آیت۱۰:( وَبَلَغَتِ الْقُلُوْبُ الْحَنَاجِرَ )

کلیجے منہ کو آنے لگے تھے کلیجے منہ کو آگئے

آیت۳۲:( الَّذِیْ فِیْ قَلْبِه مَرَضٌ )

جس کے دل میں خرابی ہے دل کی خرابی کا مبتلا شخص

آیت ۴۲:( وَسَبِّحُوْهُ بُکْرَةً وَّاَصِیْلًا )

اور صبح شام اس کی تسبیح کرتے رہو اور صبح وشام اس کی تسبیح کرتے رہو

آیت۵۱:( ذٰلِکَ اَدْنٰی اَنْ تَقَرَّ اَعْیُنُهُنَّ )

اس میں زیادہ توقع ہے کہ ان کی آنکھیں ٹھنڈی رہیں گی اس طرح زیادہ توقع ہے کہ ان کی آنکھیں ٹھنڈی رہیں گی۔

۱۵۵

سورة الفاطر

آیت۳۹:( فَعَلَیْهِ کُفْرُه )

اس کے کفر کا وبال اسی پر پڑ ے گا اس کے کفر کا وبال اسی پر ہے

سورة یاسین

آیت۴۱:( وَاٰیَةٌ لَّهُمْ اَنَّا حَمَلْنَا ذُرِّیَّتَهُمْ فِی الْفُلَکِ الْمَشْحُوْنِ )

اور ایک نشانی ان کے لیے یہ ہے کہ ہم نے ان کی ان کے لیے یہ بھی ایک نشانی ہے کہ ہم نے ان کی نسل

اولاد کو بھری ہوئی کشتی میں سوار کیا کو بھری ہوئی کشتی میں سوار کر دیا

سورة الصفت

آیت۱۵:( وَقَالُوْا اِنْ هٰذَآ اِلَّا سِحْرٌ مُّبِیْنٌ )

اور کہتے ہیں یہ تو صریح جادو ہے اور کہتے ہیں یہ تو صریح جادو ہے

آیت۶۱:( لِمِثْلِ هٰذَا فَلْیَعْمَلِ الْعٰاِمُلْونَ )

ایسی ہی کامیابی کے لیے عمل کرنے والوں کو عمل کرنا چاہیے ایسی ہی کامیابی کے لیے عمل کرنے والوں کو عمل کرنا چاہیے

آیت۸۳:( وَاِنَّ مِنْ شِیْعَتِه لَاِبْرَاهِیْمَ )

اور نوح کے طریقے والوں میں سے ابراہیم بھی تھے اور نوح ہی کے طریقے پر چلنے والا ابراہیم تھا

۱۵۶

آیت۱۶۱،۱۶۲:( فَاِنَّکُمْ وَمَاتَعْبُدُوْنَ( مَآ اَنْتُمْ عَلَیْهِ بِفَاتِنِیْنَ )

سوتم اور تمہارے سارے معبود خدا سے کسی کو نہیں پھیر سکتے پس تم اور تمہارے یہ معبود اللہ

سے کسی کو پھیر نہیں سکتے

سورةص

آیت۱:( صٓ وَالْقُرْاٰنِ ذِی الذِّکْرِ )

ص قسم ہے قرآن کی جو نصیحت سے پُر ہے ص قسم ہے نصیحت بھر ے قرآن کی

آیت۲۲:( وَلَاتُشْطِطْ )

اور بے انصافی نہ کیجیے بے انصافی نہ کیجیے

آیت۷۵:( مَامَنَعَلَک اَنْ تَسْجُدَ )

اس کو سجدہ کرنے سے تجھ کو کون چیز مانع ہوئی تجھے کیاچیز اس کو سجدہ کرنے سے مانع ہوئی

سورة الزمر

آیت ۳۶:( فَمَالَه مِنْ هَادٍ )

اس کا کوئی حادی نہیں اس کے لیے پھر کوئی حادی نہیں

۱۵۷

سورة المومن

آیت۵:( وَهَمَّتْ کُلُّ اُمَّةٍ بِرَسُوْلِهِمْ لِیَاْخُذُوْهُ )

اور ہرامت نے اپنے پیغمبر کے گرفتار کرنے کا ارادہ کیا ہر قوم رسول پر جھپٹی تاکہ اسے گرفتار کرے

آیت۲۶:( اِنِّیْ اَخَافُ اَنْ یُّبَدِّلَ دِیْنَکُمْ )

مجھ کو اندیشہ ہے کہ وہ تمہار دین بدل ڈالے مجھے اندیشہ ہے کہ وہ تمہارا دین بدل ڈالے گا

آیت۷۶:( فَبِئْسَ مَثْوَی الْمُتَکَبِّرِیْنَ )

سومتکبرین کا وہ برا ٹھکانا ہے بہت ہی برا ٹھکانہ ہے متکبرین کا

سورةحم السجدة

آیت۳۵:( وَمَایُلَقّٰهَآ )

نصیب نہیں ہوتی ہے یہ صفت نصیب نہیں ہوتی

آیت۴۴:( فِیْ اٰذَانِهِمْ وَقْرٌ )

ان کے کانوں میں ڈاٹ ہے ان کے لیے یہ کانوں کی ڈاٹ ہے۔

آیت۵۱:( فَذُوْدُعَآءٍ عَرِیْضٍٍ )

تو خوب لمبی چوڑی دعائیں کرتا ہے تو لمبی چوڑی دعائیں کرنے لگتا ہے

۱۵۸

سورة الشوریٰ

آیت۱۶:( حُجَّتُهُمْ دَاحِضَةٌ عِنْدَ رَبِّهِمْ )

ان لوگوں کی حجت ان کے رب کے نزدیک باطل ہے ان کی حجت بازی ان کے رب کے نزدیک باطل ہے۔

آیت۳۳:( فَیَظْلَلْنَ رَوَاکِدَ عَلٰی ظَهْرِه )

تووہ سمندری سطح پر کھڑے کھڑے رہ جائیں تویہ سمندر کی پیٹھ پر کھڑے کے کھڑے رہ جائیں

آیت۴۵:( خَاشِعِیْنَ مِنَ الذُّلِّ )

مارے ذلت کے جھکے ہوئے ہوں گے تو ذلت کے مارے جھکے جارہے ہوں گے

آیت۴۵:( الَّذِیْنَ خَسِرُوْا اَنْفُسَهُمْ وَاَهْلِیْهِمْ یَوْمَ الْقِیَامَةِ )

جو اپنی جانوں سے اور اپنے متعلقین سے قیامت کے جنہوں نے آج قیامت ے دن اپنے آپ

روز خسارے میں پڑے۔ کو اور اپنے متعلقین کو خسارے میں ڈال دیا۔

سورةالزخرف

آیت۳:( اِنَّاجَعَلْنَاهُ قُرْءٰ نًاعَرَیِبًّا لَّعَلَّکُمْ تَعْقِلُوْنَ )

کہ ہم نے اس کو عربی زبان کا قرآن بنایا ہے تا کہ تم سمجھ لو کہ ہم نے اسے عربی زبان کا قرآن بنایا

تاکہ تم لوگ اسے سمجھو

۱۵۹

آیت۱۰:( لَّعَلَّکُمْ تَهْتَدُوْنَ )

تاکہ تم منزل مقصود تک پہنچ سکو تاکہ تم اپنی منزل مقصود کی راہ پاسکو

آیت۲۳:( اِنَّاوَجَدْنَا اٰبَآءَ نَا عَلٰی اُمَّةٍ )

ہم نے اپنے باپ دادوں کو ایک طریقہ پر پایا ہم نے اپنے باپ دادا کو ایک طریقے پر پایاہے

آیت۳۶:( نُقَیِضْ لَه شَطْاَنًا )

ہم اس پر ایک شیطان مسلط کردیتے ہیں ہم اس پر ایک شیطان مسلط کردیتے

سورة الجاثیہ

آیت۸:( ثُمَّ یُصِرُّ مُسْتَکْبِرًا کَاَنْ لَّمْ یَسْمَعْهَا )

پھر بھی وہ تکبر ہوتا ہے اس طرح اڑ رہتا ہے پھر پورے استکبار کے ساتھ اپنے کفر پر اسی طرح اڑا

جیسے ان کو سنا ہی نہیں رہتا ہے گویا اس نے ان کو سنا ہی نہیں

آیت۱۱:( هٰذَا هُدًی )

یہ قرآن سرتاہدایت ہے یہ قرآن سر اسر ہدایت ہے

۱۶۰

 نتیجۂ بحث

 ہم نے جو کچھ ذکر کیا اس سے یہ واضح ہو گیا کہ اسلام کے دشمنوں نے دوسرے حربوں کے علاوہ دو بنیادی حربوں سے اسلام کی مخالفت کی  اور انہوں نے یہ سوچا کہ فرقہ سازی اور حقائق کو چھپانے سے اسلام کو شکست دے دیں گے لیکن ان کے یہ بے بنیاد خیالات  نقش بر آب ہوئے اور تمام تر کوششوں کے باوجود وہ نہ صرف اسلام اور مسلمانوں کو نابود نہ کر سکے بلکہ پیغمبر اکرم(ص) اور اہلبیت علیہم السلام کی کوششوں سے اسلام کا پرچم ہمیشہ سربلند رہا اور آخر کار تمام مذاہب اور انسانی مکاتب نابود ہو جائیں گے اور دنیا پر صرف مکتب پیغمبر اکرم(ص) اور امیر المؤمنین علی علیہ السلام کی حکومت ہو گی۔

 جی ہاں!لوگوں کے لئے قرآن، پیغمبر اکرم(ص) اور امیرالمؤمنین علی علیہ السلام کی پیشنگوئیوں نے یہودیوں اور عیسائیوں کے توسط سے پیشنگوئیوں کو چھپانے کا جبران کر دیا ہے۔

 اگرچہ دشمن بہت سے مسلمانوں کو امویوں کی آغوش میں جگہ دینے اور انہیں اسلام کی حقیقت سے دور کرنے میں کامیاب رہے لیکن بنی امیہ اور ان کی حکومت کے بارے میں قرآن کریم ، پیغمبر خدا(ص) اور امیر المؤمنین علی علیہ السلام کی پیشنگوئیوں نے گمراہی کے بھنور میں پھنسے ہوئیبے شمار مسلمانوں کو نجات دی ہے اور انہیں بنی امیہ کی غاصبانہ حکومت  اور مکتب اہلبیت علیہم السلام کے تمام مخالفوں سے آگاہ کیا ہے۔

 ان  پیشنگوئیوں سے آگاہی کے لئے اب ہم انہیں بیان کرتے ہیں کہ جنہیں اہلسنت علماء نے بھی اپنی کتابوں میں ذکر کیا ہے  تاکہ محترم قارئین یہ جان سکیں کہ اسلام کے دشمنوں نے حقائق کو چھپانے میں شکست کھائی ہے اوران کے لئے اموی حکومت کا غاصبانہ ہونا روز روشن کی طرح واضح ہو جائے۔

 کیونکہ یہ پیشنگوئیاں بہت زیادہ تھیں لہذا ہم نے ان میں سے کچھ کو کتاب کے ایک مستقل باب میں ذکر کیا ہے۔

۱۶۱

 پانچواں باب

پیشنگوئیاں

    01) بنی امیہ کے بارے میں قرآن کی پیشنگوئی

    02) بنی امیہ کے بارے میں قرآن کی دوسری پیشنگوئی

    03) حکَم اور اس کے بیٹوں کے بارے میں قرآن کی پیشنگوئی

    04) پیغمبر اکرم(ص) اور امیرالمؤمنین علی علیہ السلام کی پیشنگوئیوں کا راز

    05) بنی امیہ کے بارے میں رسول اکرم(ص) کی پیشنگوئیاں

    06) بنی امیہ کی حکومت کے بارے میں رسول اکرم(ص) کی پیشنگوئی

    07) حضرت امیرالمؤمنین علی علیہ السلام کی بنی امیہ کی حکومت کے بارے میں ''الغارات '' سے منقول پیشنگوئی

    08) بنی امیہ کی حکومت کے بارے میں حضرت امیرالمؤمنین علی علیہ السلام کی ایک اور پیشنگوئی

    09) بنی امیہ کے انجام کے بارے میں حضرت امیرالمؤمنین علی علیہ السلام کی پیشنگوئی

    10) بنی امیہ کے زوال کے بارے میں حضرت امیرالمؤمنین علی علیہ السلام کی دیگر پیشنگوئی

    11) بنی امیہ اور بنی العباس کے بارے میں حضرت امیرالمؤمنین علی علیہ السلام کی ایک اور پیشنگوئی

    12) بنی امیہ اور بنی العباس کے بارے میں حضرت امیرالمؤمنین علی علیہ السلام کی دوسری پیشنگوئی

    13) حکم کے داخل ہونے کے بارے میں پیغمبر اکرم(ص) کی پیشنگوئی اور اس پر لعنت کرنا

    14) یہودیوں، مشرکوں اور منافقوں کے لئے حکم بن ابی العاص کا جاسوسی کرنا

    15) معاویہ وغیرہ کے بارے میں پیغمبر اکرم(ص) کی پیشنگوئی

    16) معاویہ کے بارے میں پیغمبر اکرم(ص) کی دوسری پیشنگوئی

۱۶۲

    17) معاویہ کے بارے میں پیغمبر اکرم(ص) کی ایک اور پیشنگوئی

    18) معاویہ کے بارے میں پیغمبر اکرم(ص) کی ایک اور پیشنگوئی

    19) معاویہ کے بارے میں پیغمبر اکرم(ص) کی دوسری پیشنگوئی

    20) عبداللہ بن عمروعاص کی زبانی معاویہ کے بارے میں پیغمبر اکرم(ص) کی پیشنگوئی

    21) معاویہ وعمروعاص کے بارے میں پیغمبر اکرم(ص) کی پیشنگوئی

    22) امیرالمؤمنین علی علیہ السلام کی معاویہ کے بارے میں پیشنگوئی

    23) ''الغارات''کی روایت کے مطابق شامیوں کی فتح کے بارے میں امیرالمؤمنین علی علیہ السلام کی پیشنگوئی

    24) اس بارے میں امیرالمؤمنین علی علیہ السلام کی دوسری پیشنگوئی

    25) ''الغارات ''سے منقول امیرالمؤمنین علی علیہ السلام کی دوسری پیشنگوئی

    26) ''مروج الذہب'' سے منقول امیرالمؤمنین علی علیہ السلام کی پیشنگوئی

    27) جنگ صفین میں جناب عمار یاسر کی شہادت کے بارے میں رسول اکرم(ص) کی پیشنگوئی

    28) جنگ صفین میں جناب عمار یاسر کی رہنمائی

    29) جنگ صفین میں عمار یاسر کا خطاب اور عمرو عاص پر اعتراض

    30) عمار کے قتل کے بارے میں شبث بن ربعی کا معاویہ سے کلام

    31) جناب عمار کی شہادت کے بارے میں متواتر حدیث

    32) رسول خدا(ص) کی حدیث نقل کرتے وقت صحابہ و تابعین کے حالات

    33) جناب عمار یاسر کے بارے میں پیغمبر اکرم(ص) کی پیشنگوئیوں کے اثرات

    34) ذوالکلاع سے عمار یاسر کی گفتگو کے سولہ اہم نکات

۱۶۳

    35) جناب اویس قرنی کے بارے میں رسول اکرم(ص) کی پیشنگوئی اور جنگ صفین میں آپ کی شرکت

    36) جنگ صفین میں جناب اویس قرنی کی شہادت

    37) اس روایت میں اہم نکات

    38) جنگ صفین کے بارے میں حضرت عیسی علیہ السلام کی پیشنگوئی

    39) حکمیّت کے بارے میں رسول خدا(ص) کی پیشنگوئی

    40) حکمیّت کے بارے میں رسول خدا(ص) کی دوسری پیشنگوئی

    41) ایک دوسری روایت کی رو سے حکمیّت کے بارے میں رسول خدا(ص) کی پیشنگوئی

    42) حکمیّت سے مربوط پیشنگوئی میں اہم نکات

    43) رسول خدا(ص) کی عائشہ کے بارے میں پیشنگوئی

    44) مروان کے بارے میں رسول خدا(ص) کی پیشنگوئی

    45) مروان کا معاویہ سے ملنا اور اس کی خباثت

    46) مروان کے بارے میں امیرالمؤمنین علی علیہ السلام کی پیشنگوئی

    47) مروان کے بارے میں امیرالمؤمنین علی علیہ السلام کی دوسری پیشنگوئی

    48) مروان کے بارے میں ایک اور پیشنگوئی

    49) امیر المؤمنین علی علیہ السلام کی مروان کے بارے میں ''نہایة الأرب'' سے پیشنگوئی

    50) عمرو بن سعید بن عاص کے بارے میں پیغمبر اکرم(ص) کی پیشنگوئی

    51) جنگ نہروان میں ذوالثدیہ کے قتل کے بارے میں پیغمبر اکرم(ص) پیشنگوئی

۱۶۴

    52) محمد بن ابی بکر اور ان کی شہادت کے واقعہ کے بارے میں پیغمبر اکرم(ص) پیشنگوئی

    53) سمرة بن جندب کے بارے میں پیغمبر اکرم(ص) پیشنگوئی

    54) کربلاکے بارے میں امیرالمؤمنین علی علیہ السلام کی پیشنگوئی

    55) کربلا میں ابن زیادکے لشکر کے سرداروں میں سے حصین بن تمیم کے بارے میں امیرالمؤمنین علی علیہ السلام کی پیشنگوئی

    56) پیشنگوئیوں کے وقوع پذیر ہونے کو روکنے کے لئے جدید منصوبہ بندی

    57) 1- رشید ہجری کی شہادت اور ان سے مقابلہ کے بارے میں امیرالمؤمنین علی علیہ السلام کی پیشنگوئی

    58) 2- جناب میثم کی شہادت اور ان سے مقابلہ کے بارے میں امیرالمؤمنین علی علیہ السلام کی پیشنگوئی

۱۶۵

 بنی امیہ کے بارے میں قرآن کی پیشنگوئی

 قرآن مجید میں پروردگار عالم کی بنی امیہ کی حکومت کے بارے میں پیشنگوئی لوگوں کوبنی امیہ  کے طرز حکومت اوران کے غیر اسلامی کردار و رفتار سے آشنا کروانے کے لئے ہے کہ جس میں  تمام اہلسنت اور بالخصوص نوجوانوں  کے لئے بہت بڑا درس ہے  تاکہ وہ یہ جان لیں کہ بنی امیہ اور مکتب اہلبیت علیہم السلام کے تمام مخالفین  کا نہ صرف حکومت الٰہی پر کوئی حق نہیں ہیبلکہ وہ اس حکومت کے غاصب ہیں، اور ان میں نہ صرف یہ کہ الٰہی حکام کی صفات ہی نہیں تھیں بلکہ وہ اپنے منصوبوں اور مکاریوں سے الٰہی حکومت کو اس کے حقیقی حاکموں سے غصب کرکے خدا کے خلیفہ کے عنوان سے مسلمان کی گردن پر سوار ہو گئے۔جہاں تک ہو سکا انہوں نے نور الٰہی کو بجھانے اور دین کے احکامات کو نیست ونابود کرنے کی کوشش کی۔لیکن ان سب کے باوجود قرآن کریم اور پیغمبر عظیم(ص) کی پیشنگوئیوں نے اس زمانے میں بھی بے شمار لوگوں کو خواب غفلت سے بیدار کیااور اس زمانے کے لوگوں کی راہ راست کی طرف ہدایت کی۔

 جس طرح قرآن کریم اور پیغمبر اکرم(ص) کے ارشادات نے اس زمانے کے بہت سے لوگوں  کو آگاہ  کیا تا کہ وہ اپنے آباء و اجداد کے عقائد سے دستبردار ہو جائیں ،اسی طرح اس زمانے میں بھی لوگ قرآن مجید کی آیات اور پیغمبر اکرم(ص) کی احادیث میں غور فکر کرکے راہ حق کو پہچان کر اسی راہ پر گامزن ہو سکتے ہیں۔

 اس طرح کی آیات و روایات سے آشنا ہونے کے لئے ان موارد پر توجہ کریں:

1۔ ترمذی نے یہ روایت سورۂ قدر کے باب (باب85) میں یوسف بن سعید سے نقل کی ہے:

 جب لوگوں نے معاویہ کی بیعت کی تو اس کے بعد ایک شخص حضرت امام حسن علیہ السلام کے پاس آیا اور اس نے کہا:تم نے مؤمنینروسیاہ کر دیا!یا کہا:اے مؤمنوں کو روسیاہ  کرنے والے!

 آنحضرت نے اس سے فرمایا:

 میری مذمت نہ کرو،خداوند تم پر رحمت کرے ؛کیونکہ پیغمبر اکرم(ص) نے دیکھا کہ بنی امیہ ان کے منبر پر بیٹھے ہیں۔

۱۶۶

 آنحضرت اس واقعہ سے پریشان ہوئے ،پس یہ آیت نازل ہوئی:

 (اِنّٰا أَعْطَیْنٰاکَ الْکَوْثَرَ ) (1) یعنی جنت میں ایک نہر۔

(انَّا أَنْزَلْنَاهُ فِیْ لَیْلَةِ الْقَدْرِ ،،وَمَا أَدْرَاکَ مَا لَیْلَةُ الْقَدْرِ ،، لَیْلَةُ الْقَدْرِ خَیْر مِّنْ أَلْفِ شَهْرٍ ،، تَنَزَّلُ الْمَلَائِکَةُ وَالرُّوحُ فِیْهَا بِاِذْنِ رَبِّهِم مِّن کُلِّ أَمْرٍ ،، سَلَام هِیَ حَتَّی مَطْلَعِ الْفَجْرِ ) (2)

 بیشک ہم نے قراان کو شب قدر میں نازل کیا.اور آپ کیا جانیں کہ یہ شب قدر کیا چیز ہے.  شب قدر ہزار مہینوں سے بہتر ہے.اس میں فرشتے اور روح القدس اذن خدا کے ساتھ تمام امور کو لے کر نازل ہوتے ہیں.اور یہ رات طلوع فجر تک سلامتی ہی سلامتی ہے۔

 اے محمد !بنی امیہ اس کے مالک بن جائیں گے!

 قاسم کہتے ہیں:میں نے بنی امیہ کی حکومت کو شمار کیا جس کے ہزار مہینہ تھے نہ اس سے کم اور نہ ہی اس سے زیادہ۔(3)

2۔ سیوطی نے کہا ہے:خطیب نے اپنی تاریخ میں ابن عباس سے نقل کیا ہے کہ اس نے کہا:

رسول خدا(ص) نے بنی امیہ کو اپنے منبر پر دیکھا  تو اس واقعہ سے بہت پریشان ہوئے۔  پس خداوند کریم نے ان پر وحی کی کہ یہ ایک حکومت ہے جو انہیں ملے گی اور پھر یہ آیت نازل ہوئی:(انَّا أَنْزَلْنَاهُ فِیْ لَیْلَةِ الْقَدْرِ ،، وَمَا أَدْرَاکَ مَا لَیْلَةُ الْقَدْرِ ،، لَیْلَةُ الْقَدْرِ خَیْر مِّنْ أَلْفِ شَهْرٍ ، تَنَزَّلُ الْمَلَائِکَةُ وَالرُّوحُ فِیْهَا بِاِذْنِ رَبِّهِم مِّن کُلِّ أَمْرٍ ،، سَلَام هِیَ حَتَّی مَطْلَعِ الْفَجْرِ ) خطیب نے ابن مسیب سے نقل کیا ہے کہ اس نے کہا: رسول خدا(ص) نے فرمایا:

--------------

[1]۔ سورۂ کوثر، آیت:1

[2]۔ سورۂ قدر،آیت: 5 -1

[3]۔ الدر المنثور: ج6ص371

۱۶۷

میں نے دیکھا کہ بنی امیہ میرے منبر پر چڑھیں گے،یہ واقعہ میرے لئے بہت ناگوار تھا۔خدا نے یہ آیت نازل فرمائی:(انَّا أَنْزَلْنَاهُ فِیْ لَیْلَةِ الْقَدْرِ)

3۔ ابن اثیر کہتا ہے: جب (امام)حسن (علیہ السلام) واپس کوفہ گئے تو ایک شخص نے ان سے کہا:اے مسلمانوں کو روسیاہ کرنے والے!(امام) حسن (علیہ السلام) نے اس سے فرمایا: میری سرزنش نہ کرو؛کیونکہ رسول اکرم(ص) نے خواب میں دیکھا کہ بنی امیہ ایک

ایک کر کے ان کے منبر پر چڑھ رہے ہیں ۔آپ اس واقعہ سے بہت پریشان ہوئے۔  خداوند عزوجل نے یہ آیت نازل فرمائی:(اِنّٰا أَعْطَیْنٰاکَ الْکَوْثَرَ ) ''ہم نے تمہیں کوثر عطا کی''جوجنت میں ایک نہرہے۔

 اور یہ آیت نازل فرمائی:(انَّا أَنْزَلْنَاهُ فِیْ لَیْلَةِ الْقَدْرِ ،، وَمَا أَدْرَاکَ مَا لَیْلَةُ الْقَدْرِ ،، لَیْلَةُ الْقَدْرِ خَیْر مِّنْ أَلْفِ شَهْرٍ ،، تَنَزَّلُ الْمَلَائِکَةُ وَالرُّوحُ فِیْهَا بِاِذْنِ رَبِّهِم مِّن کُلِّ أَمْرٍ ،، سَلَام هِیَ حَتَّی مَطْلَعِ الْفَجْرِ )

 بنی امیہ تمہارے بعد اس کے مالک بن جائیں گے۔

طبری نے بھی ''تاریخ طبری: 5810'' میں اس روایت کو نقل کیا ہے اور سیوطی نے بھی ''تاریخ  خلفائ:25''میں اسے ترمذی سے نقل کیا ہے ۔ حاکم نے بھی اسے اپنی مستدرک میںاور ابن جریر نے  اپنی تفسیر میں اس روایت کو نقل کیا ہے۔(1)

  بنی امیہ کے بارے میں قرآن کی دوسری پیشنگوئی

قرآن کریم میں بنی امیہ کو شجر ملعونہ سے تعبیر کیاگیا ہے اور ابن ابی الحدید کے مطابق مؤرخین و محدثین عبداللہ بن عباس (پیغمبر اکرم(ص) کے چچا زاد بھائی) سے نقل کرتے ہیں: ایک رات پیغمبر اکرم(ص) نے خواب میں دیکھا کہ بندروں کا ایک گروہ آپ کے منبر کے اوپر چڑھ رہا ہے اور اتر رہا ہے ۔ اس خواب کے بعد آنحضرت بہت پریشان ہوئے ۔گویا اس خواب سے آپ مطمئن نہیں تھے یہاں تک آنحضرت پر سورہ قدر نازل ہوا جوپیغمبر (ص) کے لئے سکون کا باعث بنا۔

--------------

[1]۔ معاویہ بن ابی سفیان:25

۱۶۸

 مفسرین قرآن کی تفسیر کی بناپر درج ذیل آیۂ مبارکہ رسول اکرم(ص) کے اس خواب کی طرف  اشارہ ہے کہ خداوند متعال نے فرمایا:

(وَاِذْ قُلْنٰالَکَ اِنَّ رَبَّکَ أَحٰاطَ بِالنّٰاسِ وَمٰا جَعَلْنَا الرُّؤْیَا الَّتِی أَرَیْنٰاکَ اِلاّٰ فِتْنَةً لِلنّٰاسِ وَالشَّجَرَةَ الْمَلْعُوْنَةَ فِی الْقُرْآنِ وَنُخَوِّفُهُمْ فَمٰا یَزِیْدُهُمْ اِلاّٰ طُغْیٰاناً کَبِیْراً) (1)

     اور جب ہم نے کہہ دیا کہ آپ کا پروردگار تمام لوگوں کے حالات سے باخبر ہے اور جو خواب ہم نے آپ کو دکھلایا ہے وہ صرف لوگوں کی آزمائش کا ذریعہ ہے جس طرح کہ قرآن میں قابل لعنت شجرہ بھی ایسا ہی ہے اور ہم لوگوں کو ڈراتے رہتے ہیں لیکن ان کی سرکشی بڑھتی ہی جارہی ہے۔(2)

 پیغمبر اکرم(ص) اس خواب کے بعد بہت زیادہ پریشان تھے یہاں تک کہ بعض کہتے ہیں:اس کے بعد تا وقتِ آخر تک رسول خدا(ص) کے لبوں  پر مسکراہٹ نہیں آئی۔

 اس آیت میں شجر ملعونہ (وہی بنی امیہ کے حکمران)کی طرف واضح اشارہ ہوا ہے۔

41   ھ میں معاویہ کے ساتھ حضرت امام حسن علیہ السلام کی صلح کے بعد سفیان بن ابی لیلیٰ حضرت امام حسن علیہ السلام کے پاس آیا اور اس نے کہا:اے مؤمنو کو رسوا کرنے والے تم پر سلام ہو!

حضرت امام حسن علیہ السلام نے فرمایا:بیٹھو، خدا تم پر رحمت کرے؛ پیغمبر اکرم(ص) پر بنی امیہ کی بادشاہی واضح ہو گئی تھی اور آپ نے خواب میں یوں دیکھا تھا کہ وہ ایک کے بعد ایک آپ کے منبر پر جا رہے ہیں۔اس کام سے رسول خدا(ص) بہت پریشان ہوئے اور خدا نے اس بارے میں قران کریم کی کچھ آیات نازل فرمائیں اور پیغمبر(ص) سے یوں خطاب ہوا:'' اور جو خواب ہم نے آپ کو دکھلایا ہے وہ صرف لوگوں کی آزمائش کا ذریعہ ہے جس طرح کہ قرآن میں قابل لعنت شجرہ بھی ایسا ہی ہے....''۔

--------------

[1]۔ سورۂ اسراء، آیت:60

[2] ۔ اس آیۂ شریفہ میں ایک بہت خوبصورت تلمیح استعمال ہوئی ہے اور وہ ''یزید ''کا نام ہے اور یہ موضوع کہ بہت بڑا ظالم و سرکش ہے

۱۶۹

میں نے اپنے بابا علی علیہ السلام (ان پر خدا کی رحمت ہو) سے سنا کہ آپ نے فرمایا:

 جلد ہی امت کی خلافت موٹی گردن اور موٹے پیٹ والا شخص سنبھالے گا۔

 میں نے پوچھا :وہ کون ہے؟

 فرمایا:وہ معاویہ ہے۔

 میرے بابا نے مجھ سے فرمایا:قرآن نے بنی امیہ کی حکمرانی اور اس کی مدت کی خبر دی ہے اور خداوند متعال نے فرمایا ہے:''شب قدر ہزار مہینوں سے بہتر ہے'' اور پھر فرمایا:یہ ہزار مہینے بنی امیہ کی مدت حکومت ہے۔(1)

 اس روایت میں ایک اور پیشنگوئی بھی ہوئی ہے کہ جو اس کی صحت پر دوسری دلیل ہے اور وہ یہ کہ:بنی امیہ کی مدت ہزار ماہ تک ہو گی اور اس مدت کے دوران خاندان عصمت و طہارت علیہم السلام اور تمام لوگوں پر کیسے کیسے مظالم کئے جائیں گے۔

 اہلسنت کے معروف علماء نے متعدد روایات میں بنی امیہ کے فتنہ کے بارے میں قرآن کی کچھ آیات نقل کی ہیں کہ جو ان سب لوگوں کے لئے عبرت کا وسیلہ ہونی چاہئیں کہ جو معاویہ اور تمام بنی امیہ کو مثبت نظر سے دیکھتے ہیں۔

 ان روایات مں بنی امیہ کو کفر کے امام اور دین کے دشمنوں کے طور پر متعارف کروایا گیا ہے ۔ اس بناء پر اہل تسنن میں ایسا گروہ کہ جومعاویہ کو مسلمان اور رسول خدا(ص) کا خلیفہ سمجھتا ہے !وہ اپنے عقیدے میں تجدید نظر کریں اور اپنے دل سے ان کی محبت کو نکال دیں ۔

 کیا ایسا ہو سکتا ہے کہ خود کو ملت اسلام کا جزء اور رسول خدا(ص) کی شریعت کا تابع شمار کرنے والے آنحضرت(ص) کے دشمنوں اور آنحضرت کے خاندان اطہار علیہم السلام کے دشمنوں کا احترام کریں اور انہیں رسول خدا کا جانشین اور خلیفہ سمجھیں؟!

 کیا جن کے بارے میں پیغمبر اکرم(ص) نے فرمایا کہ میں نے انہیں بندروں اور خنزیروں کی شکل میں دیکھا ہے،تو کیا ان میں آنحضرت(ص) کے آئین کی قیادت و رہبری کرنے کی صلاحیت ہے؟!

--------------

[1]۔ اعجاز پیغمبر اعظم(ص) در پیشگوئی از حوادث آیندہ:302

۱۷۰

 ''تاریخ بغداد''میں خطیب بغدادی کہتے ہیں: رسول اکرم(ص) نے فرمایا:

أریت بن اُمیّة فی صورة القردة و الخنازیر، یصعدون منبر، فشق ذلک فأنزلت (اِنّٰا أَنْزَلْنٰاهُ فِی لَیْلَةِ الْقَدْرِ)

 مجھے بنی امیہ دکھلائے گئے کہ وہ بندروں اور خنزیروں کی شکل میں میرے منبر پر چڑھیں گے، یہ مجھ پر سخت ناگوار گذرا پس یہ آیت نازل ہوئی:''

 نیز کہا ہے کہ پیغمبر اکرم(ص) نے فرمایا:

 أریت بن اُمیّة یصعدونمنبر، فشق علّ فأنزلت (اِنّٰا أَنْزَلْنٰاهُ فِی لَیْلَةِ الْقَدْرِ) (1)

 مجھے بنی امیہ دکھلائیگئے کہ وہ میرے منبر پر چڑھیں گے اور یہ مجھ  پر سخت ناگوار گذرا پس یہ   آیت نازل ہوئی:''بیشک ہم نے اسے شب قدر میں نازل کیا ہے''۔

سیوطی نے ''الدّر المنثور''میں نقل کیاہے:

 رأء رسول اللّٰه (ص) بن فلان ینزون علی منبره نزو القردة، فساء ذلک ، فما استجع ضاحکاًحتّی مات وأنزل اللّٰه: (وَمٰاجَعَلْنَا الرُّؤْیَاالَّتِی أَرَیْنٰاکَ اِلاّٰ فِتْنَةً لِلنّٰاسِ) ۔

 رسول اکرم(ص) نے دیکھا کہ بنی امیہ ان کے منبر پر بندروں کی طرح اچھل رہے ہیں۔پس آپ اس سے بہت پریشان ہوئے  اور اس واقعہ کے بعد کسی کے ساتھ نہیں مسکرائے یہاں تک کہ اس دنیا سے چلے گئے ۔خداوند کریم نے یہ آیت نازل فرمائی:'' اور جو خواب ہم نے آپ کو دکھلایا ہے وہ صرف لوگوں کی آزمائش کا ذریعہ ہے''۔نیز سیوطی نے روایت کی ہے کہ رسول خدا(ص) نے فرمایا:أریت بن امیّة علی منابر الأرض وسیتملّکونکم فتجدونهم أرباب سوء

 مجھے بنی امیہ دکھلائے گئے کہ وہ زمین کے منبروں پر چڑھے ہوئے ہیں اور وہ بہت جلد تمہارے مالک بن جائیں گے!اور پھرتم انہیں برے ارباب پاؤ گے۔

--------------

[1]۔ معاویہ بن ابی سفیان:38، تاریخ بغداد:449

۱۷۱

واهتمّ رسول اللّٰه (ص) لذلک: فأنزل اللّٰه (وَمٰاجَعَلْنَاالرُّؤْیَاالَّتِی أَرَیْنٰاکَ اِلاّٰ فِتْنَةً لِلنّٰاسِ) (1)

 پیغمبر اکرم (ص) اس واقعہ سے بہت پریشان و غضبناک ہوئے پس خداوند کریم نے یہ آیت نازل فرمائی:'' اور جو خواب ہم نے آپ کو دکھلایا ہے وہ صرف لوگوں کی آزمائش کا ذریعہ ہے''۔

  حکَم اور اس کے بیٹوں کے بارے میں قرآن کی پیشنگوئی

بنی امیہ  کی حکومت کے بارے میں نقل ہونے والی  پیشنگوئیوں میں سے کچھ پیشنگوئیاں ان سب کے بارے میں ہیں اور کچھ پیشنگوئیاں ان میں سے مخصوص افراد کے بارے میں ہیں۔جیسے ابوسفیان،حکم یا اس کے کسی بیٹے کے بارے میں وارد ہونے والی پیشنگوئیاں۔

 ہم اس بارے میں جو روایت ذکر کریں گے ،وہ روایت اہلسنت کے مشہور علماء نے اپنی کتابوں میں نقل کی ہیں۔

 سیوطی نے اپنی تفسیر میں  ابن ابی حاتم سے اور اس نے عمر کے بیٹے سے روایت کی ہے کہ پیغمبر اکرم(ص) نے فرمایا:

 میں نے حکم بن ابی العاص کے بیٹوں کو اپنے منبر پر دیکھا گویا وہ بندروں کی طرح تھے، خداوند نے اس بارے میں یہ آیت نازل فرمائی:

 (وَمٰا جَعَلْنَا الرُّؤْیَا الَّتِی أَرَیْنٰاکَ اِلاّٰ فِتْنَةً لِلنّٰاسِ وَالشَّجَرَةَ الْمَلْعُوْنَةَ ) (2)

 اور جو خواب ہم نے آپ کو دکھلایا ہے وہ صرف لوگوں کی آزمائش کا ذریعہ ہے جس طرح کہ قرآن میں قابل لعنت شجرہ بھی ایسا ہی ہے۔ ''شجر ملعونہ''سے حکم اور اس کے بیٹے مراد ہیں۔

 نیز سیوطی نے عائشہ سے روایت کی ہے کہ اس نے مروان بن حکم سے کہا:

 میں نے رسول خدا(ص) سے سنا ہے کہ وہ تمہارے باپ اور دادا سے فرما رہے تھے:

--------------

[1]۔ معاویہ بن ابی سفیان:28، الدّر المنثور:ج۴ص۱۹۱

[2]۔ سورۂ اسراء،آیت:60

۱۷۲

 انکم الشجرة الملعونة فی القرآن

 تم ہی وہ شجر ہو جس پر قرآن میں لعنت کی گئی ہے۔(1)

 آلوسی نے اپنی تفسیر میں روایت کی ہے کہ رسول اکرم(ص) نے فرمایا:

 رأیت ولد الحکم بن ابی العاص علی المنابرکأٔنهم القردة، و أنزل اللّٰه تعالی فی ذلک: (وَمٰا جَعَلْنٰا....)، والشجرة الملعونة الحکم وولده

 میں نے حکم بن ابی العاص کے بیٹوں کو منبروں پر دیکھا گویا وہ بندر وں کی طرح تھے۔خداوند نے اس بارے میں یہ آیت(وَمٰا جَعَلْنٰا..) نازل فرمائی ۔اور شجر ملعونہ حکم اور اس کے بیٹے ہیں۔(2) قرطبی نے بھی اپنی تفسیر میں نقل کیا ہے:

 انه رأء فی المنام بن مروان علی منبره نزو القردة، فساء ذلک فقیل:انّما ه الدّنیا أعطوها، فسرّی عنه و ما کان له بمکّة منبر و لکنّه یجوز أن یری بمکّة رؤیا المنبر بالمدینة

 رسول اکرم(ص) نے عالم خواب میں دیکھا کہ بنی مروان آپ کے منبر پر بندروں کی طرح اچھل رہے ہیں ۔آپ اس واقعہ سے بہت پریشان ہوئے تو آنحضرت سے کہا گیا کہ یہ دنیا ہے کہ جو انہیں دی جائے گی۔اس سے آپ کا غم ہلکا ہوا اور اس زمانے میں آنحضرت کا مکہ میں کوئی منبر نہیں تھا لیکن آپ نے مکہ میں عالم خواب میں وہی منبر دیکھا تھا کہ جو مدینہ میں تھا۔(3)

شوکانی نے اپنی تفسیر میں یہ روایت ذکر کی ہے کہ پیغمبر اکرم(ص) نے فرمایا:رأیت ولد الحکم بن ابی العاص علی المنابر کأنهم القردة ، فأنزل اللّٰه هذه الآیة میں نے حکم بن ابی العاص کے بیٹوں کو منبروں پر دیکھا گویا وہ بندروں کی طرح تھے،پس  خدا نے  یہ آیت(وَمٰا جَعَلْنٰا...) نازل فرمائی ۔(4)

--------------

[1]۔ معاویہ بن ابی سفیان:28، الدّر المنثور:ج۴ص۱۹۱

[2]۔ معاویہ بن ابی سفیان:29،روح المعانی:ج4ص191

[3]۔ معاویہ بن ابی سفیان:31،الجامع لأحکام القرآن:ج10ص283

[4]۔ معاویہ بن ابی سفیان:31،فتح القدیر:ج3ص298

۱۷۳

 فخر رازی نے بھی اپنی تفسیر میں اس آیت مبارکہ کے بارے میں روایت کی ہے:

 .... رأی رسول اللّٰه(ص)ف المنام انّ ولد مروان یتداولون منبره، فقصّ رؤیاه علی أبی بکر و عمر و قد خلا ف بیته معهما، فلمّا تفرّقوا سمع رسول اللّٰه (ص) الحکم یخبر رسول الله (ص)، فاشتدّ ذلک علیه و ممّا یؤکده هذا التأویل قول عایشه لمروان: لعن اللّٰه أباک و أنت ف صلبه، فأنت بعض من لعنه اللّٰه( 1)

.... رسول خدا(ص) نے خواب میں دیکھا کہ مروان کے بیٹے آپ کے منبر پر چڑھ رہے ہیں۔آپ نے اپنا خواب ابوبکر و عمر سے بیان کیا کہ جو پیغمبر(ص) کے گھر میں آپ کے ساتھ تنہا تھے ۔ جب وہ چلے گئے تو رسول خدا(ص) نے سنا کہ حکم نے یہ واقعہ پیغمبر(ص) سے نقل کیا ہے ۔ یہ واقعہ آپ پر سخت ناگوار گذرا (کہ ان دو افراد نے آپ کا فرمان حکم تک پہنچا دیا) اس آیت کی تأویل پر جو چیز تاکید کرتی ہے وہ عائشہ کا مروان سے کہا گیا قول ہے کہ خداوند نے تمہارے باپ پر  لعنت کی ہے جب کہ تم اس کے صلب میں تھے پس تم پر بھی خدا کی لعنت ہے۔سیوطی نے بھی اس آیت کی تأویل میں یہ روایت دوسری عبارت میں نقل کی ہے:

....رأی  رسول اللّٰه (ص) بن الحکم بن أب یالعاص ینزون علی منبره نزو القردة، فساء ذلک، فما استجمع ضاحکاً حتّی مات و أنزل اللّٰه فی ذلک ( وَمٰا جَعَلْنَا الرُّؤْیَا الَّتِی أَرَیْنٰاکَ اِلاّٰ فِتْنَةً لِلنّٰاسِ) (2)

 پیغمبراکرم(ص) نے خواب میں دیکھا کہ آپ کے منبروں پر حکم بن ابی العاص کے بیٹے بندروں کی طرح اچھل رہے ہیں ۔ اس واقعہ کے بعد آپ بہت پریشان ہوئے اور دنیاسے جاتے وقت تک کسی نے آپ کو ہنستے ہوئے نہیں دیکھا ۔

--------------

[1]۔ معاویہ بن ابی سفیان:31،جامع البیان:ج9ص112

[2]۔ معاویہ بن ابی سفیان:33،اتاریخ الخلفاء:26

۱۷۴

 زمخشری نے بھی اپنی تفسیر میں اس آیت کی تأویل کو دوسری طرح نقل کیا ہے:اس نے اس آیت مبارکہ( وَمٰا جَعَلْنَا الرُّؤْیَا الَّتِی أَرَیْنٰاکَ اِلاّٰ فِتْنَةً لِلنّٰاسِ) کے بارے روایت کی ہے:

رأی فی المنام أنّ ولد الحکم یتداولون منبره کما یتداول الصبیان الکرّة ۔(1)

پیغمبر اکرم(ص) نے خواب میں دیکھا کہ حکم کے بیٹے آپ کے منبر پر اس طرح  کھیل رہے ہیں کہ جس طرح بچے گیند سے کھیلتے ہیں۔

پیغمبر اکرم(ص) اور امیرالمؤمنین علی علیہ السلام کی پیشنگوئیوں کا راز

 پیشنگوئیاں مستقبل کے لوگوں کا رسول اکرم(ص) کے ساتھ ارتباط اور ان بزرگ ہستیوں کے صحیح عقائد سے آشنا ہونے کا ذریعہ ہیں۔ جنہوں نے پیغمبر اکرم(ص) کے زمانے کو درک نہیں کیا اور جو آنحضرت کی خدمت میں حاضر ہونے اور آپ کے ارشادات سے استفادہ کرنے سے محروم تھے اور ہیں،لیکن وہ مستقبل کے بارے میں آنحضرت کے بیان کئے گئے فرمودات کی طرف رجوع کرکے رسول خدا(ص) کی نظر میںآنے والے واقعات کا تجزیہ کر سکتے ہیں اور وہ یہ جان سکتے ہیں کہ جو واقعات آنحضرت کے زمانے کے بعد وقوع ہوئے یا وقع پذیر ہوں گے ،ان کے بارے میں رسول اکرم(ص) نے کیا فرمایا ہے۔

پیشنگوئیوں اور آئندہ کے حوادث کو بیان کرنے سے خاندان وحی علیہم السلام کا مقصد یہ تھا کہ مستقبل کے لوگ اپنے زمانے میں پیش آنے والے واقعات سے آگاہ ہوں اور کھلی آنکھوں سے ان کا مشاہدہ کریں اور ان کے مقابلے میں ہوشیار رہیں۔

 اگرچہ خاندان وحی علیہم السلام نے گذشتہ زمانے میں اپنے پاس موجود لوگوں سے اپنے فرامین بیان کئے لیکن ان کے فرامین ہر اس شخص کے  لئے ہیں کہ جنہوں نے ان حوادث کا سامنا کیا یاسامنا   کریں گے۔اسی طرح اس زمانے کے بعد زندگی گذارنے والے لوگوں کو گذشتہ تاریخ سے آگاہ ہونا چاہئے اور انہیں یہ جاننا چاہئے کہ ان واقعات کے بارے میں رسول خدا(ص) اور دین خدا کے پیشواؤں کا کیا اعتقاد تھا۔

--------------

[1]۔ معاویہ بن ابی سفیان:34،الکشّاف:ج2ص676

۱۷۵

 اس بناء پر جس زمانے کے بارے میں بھی خاندان وحی علیہم السلام  نے کسی واقعہ کی پیشنگوئی کی ہو تو اس زمانے کے لوگوں (اور اس زمانے کے بعد زندگی گذارنے والوں)کو ان سے آگاہ ہونا چاہئے تا کہ آنکھیں بند کرکے گمراہی کی طرف نہ چلے جائیں اور گمراہ کرنے والی سازشوںسے دھوکا نہ کھائیں۔

 پس خاندان وحی علیہم السلام کی زبان سے پیشنگوئیوں کو بیان کرنے کا ایک راز یہ ہے کہ آئندہ آنے والے لوگ اپنے زمانے کے حوادث و واقعات سے آگاہ ہوں اور گمراہ کرنے والوں کی سازشوں سے محفوظ رہیں اور گمراہی کی وادی میں قدم نہ رکھیں۔

 ایک بہت ہی اہم نکتہ کہ جس کی طرف توجہ اور غور و فکر کرنا بہت ضروری ہے،وہ یہ ہے کہ حدیث لکھنے سے منع کرنے کے اسباب وعلل میں سے ایک رسول اکرم(ص) کی احادیث میں پیشنگوئیوں کے انتشار کو روکنا تھا۔کیونکہ رسول اکرم(ص) کی حدیثوں کی وجہ سے لوگ آئندہ کے حالات اور جنم لینے والے فتنوں سے آگاہ ہورہے تھے اور اس میں کوئی شک نہیں ہے کہ یہ بہت سے افراد کی ہوشیاری اور بیداری کے لئے مؤثر تھیں۔

 رسول اکرم(ص) کی پیشنگوئیوں سے آگاہ افراد کے لئے یہ حقیقت واضح و روشن ہے اور سب لوگوں کو ان سے آگاہ ہونے کے لئے حضرت امیر المؤمنین علی علیہ السلام کے سپہ سالار جناب عمار یاسر کی شہادت کے بارے میں رسول خدا(ص) کی پیشنگوئی کی طرف توجہ کرنی چاہئے۔

 ہم آئندہ اس بارے میں بحث کریں گے تا کہ یہ واضح ہو جائے کہ آنحضرت کی پیشنگوئیوں نے کس طرح شام کے لشکر میں اختلافات پیدا کر دیئے اور ان میں سے کچھ لوگ امیر المؤمنین علی علیہ السلام کے ساتھ کیوں مل گئے حتی کہ پیشنگوئیوں کے اثرات اتنے گہرے تھے کہ معاویہ اور عمرو عاص کے درمیان  اختلافات پیدا ہو گئے اور نزدیک تھا کہ اس کی وجہ سے شام کے لشکر کو شکست کا سامنا کرنا پڑے۔

۱۷۶

 بنی امیہ کے بارے میں رسول اکرم(ص) کی پیشنگوئیاں

معاویہ، اس کی حکومت اور بنی امیہ کے پورے خاندان کے بارے میں رسول اکرم(ص) کی پیشنگوئیاں یہ بنیادی نکتہ بیان کرتی ہیں کہ امویوں نے رسول خدا(ص) کے فرامین پر توجہ نہیں کی اور حکومت کی کرسی پر ٹیک لگا کر آنحضرت کے حقیقی جانشینوں کو ان کے حق سے محروم کر دیا۔

مختلف پروپگنڈوں، جعلی اور من گھڑت افواہوں کے ذریعہ اکثر لوگوں (جو اسلام کے اصولوں سے آشنا نہیں تھے) کو دھوکا دیا اور خود کو رسول خدا(ص) کا حقیقی جانشین اور سچے خلفاء کےعنوان سےپیش کیا! رسول خدا(ص) کی پیشنگوئیاں صرف ان لوگوں کی گمراہی کی واضح دلیل نہیں تھیں کہ جنہوں نے امویوں سے دل لگایا اور ان کے ساتھ مل کر دین کی کمر توڑی ، بلکہ اس سے بھی بڑھ کر یہ گمراہ کرنے والے اموی خاندان کی گمراہی کی بھی دلیل تھیں۔ حیرت کا مقام ہے کہ تدوین حدیث کے بارے میں عمر کی ان تما م سختیوں اور ممانعت ( اس نے رسول خدا(ص) کے فرمودات کو پھیلانے سے منع کر دیا) کے باوجود لوگوں میں آئندہ کے منحوس حوادث کے بارے آنحضرت (ص) کی پیشنگوئیاں عام ہوئیں کہ جن سے صرف اس زمانے کے سیاستدان ہی نہیںبلکہ عام لوگ بھی آگاہ ہوئے۔ اس نکتہ کی یاد دہانی ضروری ہے کہ رسول اکرم(ص) اور امیرالمؤمنین علی علیہ السلام کی پیشنگوئیوں کا تذکرہ صرف شیعہ بزرگ علماء نے ہی اپنی کتابوں میں نہیں کیا بلکہ اہلسنت  کے مؤرخین اور بزرگ علماء نے بھی انہیں اپنی کتابوں میں نقل کیا ہے اور یوںلوگوں کا امویوں کے کردار و رفتار کو پہچاننے اور ان سے آشنا ہونے کے لئے حجت تمام ہوئی ہے۔

بنی امیہ کی حکومت کے بارےمیں رسول اکرم(ص) کی پیشنگوئی

پیغمبر اکرم(ص) نے بنی امیہ اور ان کے بعض افراد کے بارے میں کچھ پیشنگوئیاں کیں اور لوگوں کو اسلام کے ساتھ ان کی دشمنی اور نفاق سے آگاہ کیا۔جناب ابوذر نے آنحضرت سے معاویہ کے بارے میں جو پیشنگوئی نقل کی،ہم ابن ابی الحدید کے قول کے مطابق

۱۷۷

کچھ مطالب ذکر کریں گے ۔جب بھی ععاص کی اولاد کی تعداد تیس تک پہنچ جائے گی تو اس کے بارے میں رسول اکرم(ص) نے کچھ مطالب بیان فرمائے ہیں۔اب ہم ان تیس افراد کے بارے میں یعقوبی(اہلسنت کے ایک مؤرخ) کی واضح عبارت سے آنحضرت کی پیشنگوئی بیان کرتے ہیں۔

     وہ کہتے ہیں: معاویہ نے عثمان کو لکھا کہ تم نے ابوذر کے ذریعے اپنے لئے شام کو تباہ کر لیا۔

     پس اس کے لئے لکھا کہ اسے بے کجاوہ سواری پر سوار کرو۔

     اس طرح انہیں مدینہ لایا گیا جب کہ ان کے دونوں زانوں کا گوشت الگ ہو چکا تھا۔پس جب وہ آئے تو اس کے پاس ایک گروہ موجود تھا،اس نے کہا:مجھ سے کہا گیا ہے کہ تم یہ کہتے ہو:میں نے پیغمبر سے سنا ہے کہ وہ کہتے تھے:

     اذا کملت بنو امیّة ثلاثین رجلاً اتّخذوا بلاد اللّٰه دولاًوعباد اللّٰه خولاً،و دین اللّٰه دغلاً

     جب بھی بنی امیہ کی تعداد تیس افراد تک پہنچ گئی تووہ خدا کی زمین کو اپنی ملکیت سمجھیں گے۔ خدا کے بندوں کو اپنا نوکر  اور خدا کے دین کومکاری و فساد سمجھیں گے۔

کہا: ہاں؛ میں نے پیغمبرخدا(ص) سے سنا تھا کہ آپ نے ایسا ہی فرمایا۔

 پھر ان سے کہا:کیا تم لوگوں نے رسول خدا (ص) سے کچھ سنا ہے تو بیان کرو؟پھر حضرت علی بن ابی طالب علیہما السلام کے پاس بھیجا اور آنحضرت اس کے پاس آئے۔

 ان سے کہا:اے ابوالحسن! کیا آپ نے پیغمبر خدا(ص) سے یہ حدیث سنی ہے کہ جسے ابوذر بیان کر  رہے ہیں؟اور پھر حضرت علی علیہ السلام سے سارا واقعہ بیان کیاگیا۔

     حضرت علی علیہ السلام نے فرمایا:ہاں

     اس نے کہا:آپ کس طرح گواہی دے رہے ہیں؟فرمایا:

     رسول خدا(ص) کے اس فرمان کی روشنی میں:

۱۷۸

     ''ما اظلّت الخضراء ولاأقلّت الغبراء ذا لهجة أصدق من ابی ذر'' (1)

     آسمان نے سایہ نہیں کیا اور زمین نے کسی کو خود پر جگہ نہیں دی کہ جو ابوذر سے زیادہ سچا ہو۔

     پس ابوذر مدینہ میں کچھ دن تک ہی تھے کہ عثمان نے ان کے پاس کسی کو بھیجا اور کہا کہ خدا کی قسم تم مدینہ سے باہر چلے جاؤ۔

     ابوذر نے کہا:کیا تم مجھے حرم رسول خدا(ص) سے نکال رہے ہو؟

     کہا:ہاں؛جب کہ تم ذلیل وخوارہو!

     ابوذرنے کہا:میں مکہ چلا جاؤں ؟

     کہا :نہیں

     پھر کہا:کیا بصرہ چلا جاؤں؟

 کہا: نہیں

 ابوذر نے کہا:پس پھر کوفہ چلا جاؤں؟

 کہا: نہیں؛ لیکن ربذہ چلے جاؤ کہ جہاں سے آئے تھے تا کہ وہیں مر جاؤ۔اے مروان اسے باہر نکال دو اور کسی کو اس سے بات کرنے کی اجازت نہ دو یہاں تک کہ یہ یہاں سے باہر نکل جائے۔ پس ابوذر کو ان کی زوجہ اور بیٹی کے ساتھ اونٹ پر سوار کر کے باہر نکال دیا گیا۔ حضرت علی علیہ السلام، امام حسن علیہ السلام،امام حسین علیہ السلام،عبداللہ بن جعفر اور عمار بن یاسر جناب ابوذر سے ملنے کے   لئے شہر سے باہرآئے اور جب ابوذر نے حضرت علی علیہ السلام کو دیکھا تو آگے بڑے اور آپ کی دست بوسی کی اور پھر رونا شروع کر دیا اور کہا:میں جب بھی آپ کو اور آپ کے بیٹوں کو دیکھتا ہوں تو مجھے پیغمبر اکرم(ص) کا فرمان یاد آ جاتا ہے اور رونے کے علاوہ میرے پاس اور کوئی چارہ نہیں ہوتا۔

--------------

[1]۔ نہج البلاغہ ابن ابی الحدید:283

۱۷۹

 حضرت علی علیہ السلام ان سے بات کرنے  کے لئے گئے لیکن مروان نے کہا:امیر المؤمنین !نے منع کیا ہے کہ کوئی بھی ان کے ساتھ بات نہ کرے۔

 حضرت علی علیہ السلام نے تازیانہ اٹھایا اور مروان کے اونٹ پر مارا اور کہا:دور ہو جاؤ؛ خدا تمہیں آگ میں جلائے۔ اور پھر آپ نے جناب ابوذر کو الوداع کیا اور ان کے ساتھ گفتگو کی کہ جن کی تفصیلات بہت طولانی ہیں۔(3)(2)

 اس روایت میں پیغمبر اکرم(ص) کے فرمان کی بناء پر جب بنی امیہ کے افراد کی تعداد تیس ہو جائے گی تو وہ نہ صرف ممالک کو اپنا مال ،خدا کے بندوں کو اپنا نوکر و فرمانبردارسمجھیں گے بلکہ اصل دین کو مکاری و فساد قراد دیں گے۔اور یہ خود اس چیز کی دلیل ہے کہ ان کے اسلام کی کوئی بنیاد نہیں تھی بلکہ وہ صرف ایک ظاہری پہلو تھا۔سب لوگ جانتے ہیں کہ معاویہ نے خدا کے پاک بندے  اور رسول خدا(ص)کے محبوب صحابی جناب ابوزر کے ساتھ کیسا سلوک کیا۔

حضرت امیرالمؤمنین علی علیہ السلام کی بنی امیہ کی حکومت کے بارے میں ''الغارات '' سے منقول پیشنگوئی

 زر بن حبیش کہتے ہیں:حضرت امیرالمؤمنین علی علیہ السلام نے جنگ نہروان کے ختم ہونے کے بعد لوگوں کو خطبہ دیا اور خدا کی حمد و ثنا اور درود و سلام کے بعد یوں فرمایا:

اے لوگ!میں نے فتنہ کی آگ کو بجھا دیا اور ان کی آنکھیں کھول دیںاور سب پر حقیقت کو آشکار کر دیا۔میرے علاوہ کسی میں یہ جرأت نہیں تھی کہ خود کو اس فتنہ میں داخل کرے اور یہ فتنہ جنم دینے والوں کے خلاف جنگ و جہاد کے لئے اٹھے۔

 (ابن ابی لیلیٰ کی حدیث میں آیا ہے کہ حضرت علی علیہ السلام نے فرمایا:)میرے علاوہ کوئی اور نہیں تھا کہ جو فتنہ کی آنکھیں کھولے اور لوگوں کے لئے حقائق و واقعات آشکار کرے،اگر میں تم لوگوں میں نہ ہوتا تو کوئی بھی اہل جمل و نہروان کے ساتھ جنگ نہ کرتا۔

--------------

[2]۔ نہج البلاغہ

[3]۔ تاریخ یعقوبی:ج۲ص6۷

۱۸۰

181

182

183

184

185

186

187

188

189

190

191

192

193

194

195

196

197

198

199

200

201

202

203

204

205

206

207

208

209

210

211

212

213

214

215

216

217

218

219

220

221

222

223

224

225

226

227

228

229

230

231

232

233

234

235

236

237

238

239

240

241

242

243

244

245

246

247

248

249

250

251

252

253

254

255

256

257

258

259

260

261

262

263