علوم ومعارف قرآن

علوم ومعارف قرآن14%

علوم ومعارف قرآن مؤلف:
زمرہ جات: علوم قرآن
صفحے: 263

علوم ومعارف قرآن
  • ابتداء
  • پچھلا
  • 263 /
  • اگلا
  • آخر
  •  
  • ڈاؤنلوڈ HTML
  • ڈاؤنلوڈ Word
  • ڈاؤنلوڈ PDF
  • مشاہدے: 136072 / ڈاؤنلوڈ: 6870
سائز سائز سائز
علوم ومعارف قرآن

علوم ومعارف قرآن

مؤلف:
اردو

یہ کتاب برقی شکل میں نشرہوئی ہے اور شبکہ الامامین الحسنین (علیہما السلام) کے گروہ علمی کی نگرانی میں اس کی فنی طورپرتصحیح اور تنظیم ہوئی ہے


1

2

3

4

5

6

7

8

9

10

11

12

13

14

15

16

17

18

19

20

21

22

23

24

25

26

27

28

29

30

31

32

33

34

35

36

37

38

39

40

41

42

43

44

45

46

47

48

49

50

51

52

53

54

55

56

57

58

59

60

61

62

63

64

65

66

67

68

69

70

71

72

73

74

75

76

77

78

79

80

81

82

83

84

85

86

87

88

89

90

91

92

93

94

95

96

97

98

99

100

101

102

103

104

105

106

107

108

109

110

111

112

113

114

115

116

117

118

119

120

121

122

123

124

125

126

127

128

129

130

131

132

133

134

135

136

137

138

139

140

141

142

143

144

145

146

147

148

149

150

151

152

153

154

155

156

157

158

159

160

سورة الاحقاف

آیت۱۵:( حَمَلَتْهُ اُمُّه کُرْهًا وَّ وَضَعَتْهُ کُرْهًا )

اس کی ماں نے اس کو بڑی مشقت کے ساتھ پیٹ اس کی ماں نے مشقت اٹھا کر اسے پیٹ میں رکھا اور

میں رکھا اور بڑی مشقت کے ساتھ اس کو جنا مشقت اٹھا کر ہی اس کو جنا

سورة الفتح

آیت۱:( اِنَّا فَتَحْنَا لَکَ فَتْحًا مُّبِیْنًا )

بیشک ہم نے آپ کو کھلی فتح دی اے نبیہم نے تم کھلی فتح عطاکردی

آیت۶:( الظَّآنِّیْنَ بِاللّٰهِ ظَنَّ السَّوْءِوَسَآءَ تَ مَصِیْرًا )

جو اللہ کے ساتھ بڑے گمان رکھتے ہیں اور وہ جو اللہ کے متعلق بڑے گمان رکھتے ہیںجو بہت

بہت ہی برا ٹھکانہ ہے برا ٹھکانہ ہے

سورةق

آیت۷:( وَاَلْقَیْنَا فِیْهَا رَوَاسِیَ )

اور اس میں پہاڑوں کو جما دیا اور ہم نے اس میں پہاڑ جمادیئے

۱۶۱

آیت۳۶:( فَنَقَّبُوْا فِی الْبِلَادِ )

اور تمام شہروں کو چھانتے پھرتے تھے اور دنیا کے ملکوں کو انہوں نے چھان مارا

سورة الذاریات

آیت۳۱:( فَمَا خَطْبُکُمْ اَیُّهَا الْمُرْسَلُوْنَ )

ابراہیم کہنے لگےاچھا تو تم کو بڑی مہم کیا درپیش ہے ابراہیم نے کہااے فرستادگان الہی کیا مہم

آپ کو درپیش ہے

سورة الطور

آیت۳۳:( اَمْ یَقُوْلُوْنَ تَقَوَّلَه )

ہاں کیا وہ یہ کہتے ہیں کہاانہوں نے اس خود گھڑ لیاہے کیا یہ کہتے ہیں کہ اس شخض نے یہ قرآن خود

گھڑ لیا ہے

سورة النجم

آیت۵۸:( لَیْسَ لَهَا مِنْ دُوْنِ اللّٰهِ کَاشِفَةٌ )

کوئی غیر اللہ اس کا ہٹانے والا نہیں اس کے سوا کوئی اس کو ہٹانے والا نہیں

۱۶۲

سورة القمر

آیت۶:( یَوْمَ یَدْعُ الدَّاعِ اِلٰی شَیْءٍ نُّکُرٍ )

جس روز ایک بلانے والا فرشتہ ایک ناگوار چیزکی طرف بلا دے گا جس روز پکارنے والا ایک سخت ناگوار چیز کی

طرف پکارے گا۔

سورة الرحمن

آیت۳۳:( لَاتَنْفُذُوْنَ اِلَّا بِسُلْطٰنٍ )

بدون زور کے نہیں نکل سکتے نہیں بھاگ سکتے اس کے لیے بڑا زور چاہیے

آیت۷۰:( فَیْهِنَّ خَیْرَاتٌ حِسَانٌ )

ان میں خوب سیرت وخوبصورت عورتیں ہونگی ان نعمتوں کے درمیان خوب سیرت اور خوبصورت بیویاں

سورة الواقعة

آیت۳۵:( اِنَّا اَنْشَاْ نٰهُنَّ اِنْشَآءً )

ہم نے ان عورتوں کو خاص طور پر بنایا ہے ان کی بیویاں کو ہم خاص طور پر نئے سرے سے پیدا کریں گے۔

۱۶۳

سورة الحدید

آیت۹:( هُوَ الَّذِیْ یُنَزِّلُ عَلٰی عَبْدِهٓ اٰیَاتٍ بَیِّنِاتٍ لِّیُخْرِجَکُمْ مِّنَ الظُّلُمَاتِ اِلَی النُّوْرِ وَاِنَّ اللّٰهَ بِکُمْ لَرَئُوفٌ رَّحِیْمٌ )

وہ ایسا ہے کہ اپنے بندہ پر صاف صاف بھیجتا ہے وہ اللہ ہی تو ہے جو اپنے بندے پر صاف صاف آیتیں

تاکہ تم کو تاریکیوں سے روشنی کی طرف لادے نازل کر رہا ہے تا کہ تمہیں تاریکیوں سے نکال کر روشنی

اور بیشک اللہ تعالیٰ تمہارے حال پر بڑا شفیق ومہربان ہے میں لے آئے اور حقیقت یہ ہے کہ اللہ تم پر

نہایت شفیق اور مہربان ہے

آیت ۲۷:( وَرَهْبَانِیَّةَ نِ ابْتَدَعُوْهَا )

اور انہوں نے رہبانیت کو خود ایجاد کیا۔ اور رہبانیت انہوں نے خود ایجاد کرلی۔

سورة المجادلہ

آیت۱۹:( اِسْتَحْوَذَ عَلَیْهِمُ الشَّیْطَانُ )

ان پرشیطان نے پورا تسلط کر لیاہے شیطان ان پر مسلط ہو چکا ہے

آیت۲۲:( اُولٰئِکَ کَتَبَ فِیْ قُلُوْبِهِمْ الْاِیْمَانَ )

ان لوگوں کے دلوں میں اللہ تعالیٰ نے ایمان ثبت کردیاہے یہ وہ لوگ ہیں جن کے دلوں میں اللہ نے ایمان ثبت کر دیا ہے۔

۱۶۴

سورة الحشر

آیت۳:( وَلَهُمْ فِیْ الْاٰخِرَةِ عَذَابُ النَّارِ )

اور ان کے لیے آخرت میں دوزخ کا عذاب ہے اور آخرت میں ان کے لیے دوزخ کا عذاب ہے

سورة الممتحنہ

نوٹ:سورة الممتحنہ کی آیت:۶ میں دونوں جگہ اسوة حسنہ کا کلمہ آیاہے

آیت۴:( قَدْکَانَتْ لَکُمْ اُسْوَةٌ حَسَنَةٌ فِیْ اِبْرَاهِیْمَ )

کاترجمہ تھانوی صاحب کرتے ہیں

”تمہارے لیےابراہیم میں ایک عمدہ نمونہ ہے“

مودودی صاحب فرماتے ہیں۔

”تم لوگوں کے لیے ابراہیم میں ایک اچھا نمونہ ہے“

آیت۶:( لَقَدْ کَانَ لَکُمْ فِیْهِمْ اُسْوَةٌ حَسَنَةٌ )

مولانا تھانوی اس کا ترجمہ کرتے ہیں۔ ”بیشک ان لوگوں میں تمہارے لیے یعنی ایسے شخص کے لیے عمدہ نمونہ ہےمولانا مودودی ترجمہ یہ کرتے ہیںانہی لوگوں کے طرز عمل میں تمہارے لیے اور ہر شخض کے لیے اچھا نمونہ ہےعمدہ نمونہ اور اچھا نمونہ دونوں ترجمے مولانا تھانوی نے کیے ہیں مولانا مودودی نے بھی یہی ترجمے اپنائے ہیں لیکن ان کوآگے پیچھے کر دیاہے

۱۶۵

آیت۱۱:( فَعَاقَبْتُمْ )

پھر تمہاری توبت آوے اور پھر تمہارے توبت آئے

سورة الصف

آیت ۷:( وَاللّٰهُ لَایَهْدِی الْقَوْمَ الظَّالِمِیْنَ )

اور اللہ ایسے ظالم لوگوں کو ہدایت نہیں دیا کرتا ایسے ظالموں کو اللہ ہدایت نہیں دیا کرتا

سورة الجمعہ

آیت۸:( ثُمَّ تُرَدُّوْنَ اِلٰی عٰالِمِ الْغَیْبِ وَالشَّهَادَةِ )

پھر تم پوشیدہ اور ظاہر جاننے والے کے پاس لئے جاوگے پھر تم اس کے سامنے پیش کئے جاو گے جو

پوشیدہ اور ظاہر کا جاننے والا ہے

سورة المنافقون

آیت۷:( حَتّٰی یَنْفَضُّوْا )

یہاں تک کہ یہ آپ ہی منتشر ہو جاویں گے تاکہ یہ منتشر ہوجائیں

۱۶۶

سورة الطلاق

آیت۸:( وَکَاَیِّنْ مِّنْ قَرْیَةٍ عَتَتْ عَنْ اَمْرِ رَبِّهَا وَرُسُلِه )

اور بہت سی بستیاں تھیں جنہوں نے اپنے رب کے کتنی ہی بستیاں ہیں جنہوں نے اپنے رب اور اس

حکم سے اور اس کے رسول سے سرتابی کی کے رسولوں کے حکم سے سرتاب کی

سورة التحریم

آیت۶:( وَ یَفْعَلُوْنَ مَایُوٴْمَرُوْنَ )

اور جوکچھ ان کو حکم دیاہے اس کو بجالاتے ہیں اور جو بھی حکم انہیں دیا جاتا ہے اسے بجالاتے ہیں۔

سورة الملک

آیت۳:( فَارْجِعِ الْبَصَرَهَلْ تَرٰی مِنْ فُطُوْرٍ )

سوتو پھر نگاہ ڈال کر دیکھ لے کہ تجھ کو کوئی خلل نظر آتا ہے پھر پلٹ کر دیکھو کہیں تمہیں کوئی خلل نظر آتا ہے

آیت۵:( وَلَقَدْ زَیَّنَّاالسََّمَآءَ الدُّنْیَا بِمَصَابِیْحَ وَجَعَلْنٰهَا رُجُوْمًا لِّلْشَّیَاطِیْنِ )

اور ہم نے قریب کے آسمانوں کو چراغوں سے آراستہ کر رکھا ہے ہم نے تمہارے قریب کے آسمان کو عظیم

اور ہم نے ان کو شیطانوں کے مارنے کاذریعہ بھی بنایاہے الشان چراغوں سے آراستہ کیاانہیں شیاطین کو مار بھگانے کا ذریعہ بنایا۔

۱۶۷

آیت۲۲:( اَمَّنْ یَّمْشِیْ سَوِیًّا عَلٰی صِرَاطٍ مُّسْتَقِیْمٍ )

یا وہ شخص جوسیدھا ایک ہموارسڑک پر جارہا ہو۔ یاوہ جوسراٹھائے سیدھا ایک ہموار سڑک پر چل رہاہو۔

مولانا مودودی کے ترجمہ میں”سر اٹھائے سیدھا“ کے الفاظ مناسب نہیں ہیں۔

آیت۳۰:( فَمَنْ یَّاْ ِتْیُکْم بِمَآءٍ مَّعِیْنٍ )

یاو ہ کون ہے جو تمہارے پاس سوت کا پانی لے آئے تو کون ہے جو اس پانی کی بہتی ہوئی سوتیں

تمہیں نکال کردلائے گا۔

سورة القلم

آیت ۳:( وَاِنَّ لَکَ لَاَجْرًا غَیْرَ مَمْنُوْنٍ )

اور بے شک آپ کے لیے ایسا اجر ہے جو ختم ہونے والا نہیں ہے اور یقینا تمہارے لیے ایسا اجر ہے جس کا

سلسلہ کبھی ختم ہونے والا نہیں

آیت۱۰:( وَلَاتُطِعْ کُلَّ حَلَّافٍ مَّهِیْنٍ )

آپ کسی ایسے شخص کا کہنا نہ مانیں جو بہت قسمیں کھانے ہر گز نہ دبو کسی ایسے شخض سے جو بہت قسمیں

والاہوبے وقعت ہو کھانے والا بے وقعت آدمی ہے

۱۶۸

آیت۳۲:( اِنَّا اِلٰی رَبِّنَا رٰاغِبُوْنَ )

ہم اپنے رب کی طرف رجوع کرتے ہیں ہم اپنے رب کی طرف رجوع کرتے ہیں

آیت۴۳:( تَرْهَقُهُمْ ذِلَّةٌ وَکقَدْا کَانُوْا یُدْعَوْنَ اِلَی السُّجُوْدِ وَهُمْ سَالِمُوْنَ )

ان پر ذلت چھائی ہوگیاور یہ لوگ سجدہ کی طرف تھے ذلت ان پر چھارہی ہوگییہ جب صحیح و

اس وقت بلائے جایاکرتے تھے اور وہ صحیح سالم تھے سالم تھے انہیں سجدہ کی طرف بلایا جاتا

تھا(اور یہ انکار کرتے تھے)

سورة الحاقة

آیت۷:( سَخَّرَهَا عَلَیْهِمْ سَبْعَ لَیَالٍ وَّثَمَانِیَةَ اَیَّامٍ )

جس کو اللہ تعالیٰ نے اس پرسات رات اور آٹھ دن متواتر مسلط کردیاتھا۔ اللہ تعالیٰ نے اس کو مسلسل سات

رات اورآٹھ دن ان پر مسلط رکھا۔

سورةالمعارج

آیت۲:( لِلْکَافِرِیْنَ لَیْسَ لَه دَافِعٌ )

جوکہ کافروں پر واقع ہونے والا ہے جس کاکوئی دفع کرنے والا نہیں۔ کافروں کے لیے ہے کوئی اسے

دفع کرنے والا نہیں۔

۱۶۹

سورة نوح

آیت۴:( اِنَّ اَجَلَ اللّٰهِ اِذَا جَآءَ لَایُوٴَخَّرُ )

اس کا مقرر کیا ہواوقت جب آجاوے گا تو ٹلے گا نہیں۔ حقیقت یہ ہے کہ اللہ کا مقرر کیا ہوا وقت

جب آجاتا ہے تو پھر ٹالانہیں جاتا۔

سورة الجن

آیت۱۲:( وَلَنْ نُّعْجِزَه هَرَبًا )

اور نہ بھاگ کر اس کو ہراسکتے ہیں اور نہ بھاگ کر اسے ہرا سکتے ہیں

آیت۲۱:( قُلْ اِنِّی لَآ اَمْلِکُ لَکُمْ ضَرًّا وَّلَا رَشَدًا )

آپ کہ دیجئے کہ میں تمہارے نہ کسی ضررکا اختیار کہو میں تم لوگوں کے لیے نہ کسی نقصان کا اختیاررکھتا رکھتاہوں اور نہ کسی بھلائی کا ہوں اور نہ کسی بھلائی کا۔

آیت۲۷:( فَاِنَّه یَسْلُکُ مِنْ بَیْنِ یَدَیْهِ وَمِنْ خَلْفِه رَصَدًا )

تو اس پیغمبر کے آگے اور پیچھے محافظ فرشتے بھیج دیتا ہے تواس کے آگے اور پیچھے وہ محافظ لگا دیتا ہے

آیت۲۸:( وَاَحَاطَ بِمَا لَدَیْهِمْ )

اوراللہ تعالیٰ کے تمام احوال کا احاطہ کیے ہوئے ہے اور وہ ان کے پورے ماحول کا احاطہ کیے ہوئے ہے۔

۱۷۰

سورة المدثر

آیت۱۹:( فَقُتِلَ کَیْفَ قَدَّرَ )

سو اس پر خدا کی مار کیسی بات تجویز کی ہاں خدا کی مار اس پر کیسی بات بنانے کی کوشش کی

آیت۱۹:( وِلْدَانٌ مُّخَلَّدُوْنَ )

ایسے لڑکے جو ہمیشہ لڑکے ہی رہیں گے۔ ایسے لڑکے جو ہمیشہ لڑکے ہی رہیں گے۔

سورة النباء

آیت۳۶:( جَزَآءً مِنْ رَّبِّکَ عَطَآءً حِسَابًا )

یہ بدلہ ملے گا جو کہ کافی انعام ہو گا آپ کے رب کی طرف سے۔ جزاء اور کافی انعام تمہارے رب

کی طرف سے۔

آیت۳۸:( یَوْمَ یَقُوْمُ الرُّوْحُ وَالْمَلَائِکَةُ صَفًّا لَّایَتَکَلَّمُوْنَ اِلَّامَنْ اَذِنَ لَهُ الرَّحْمٰنُ )

جس دن تمام ذی ارواح اور فرشتے صف بستہ جس روز روح اور ملائکہ صف بستہ کھڑے

کھڑے ہوگے نہ بولے گا۔ ہوگے کوئی نہ بولے گا۔

کوئی بول نہ سکے گا بجز اس کے جس کو رحمان اجازت دیدے۔ سوائے اس کے جسے رحمان اجازت دے۔

۱۷۱

سورة النازعات

آیت۳۹:(فَاِنَّ الْجَحِیْمَ هِیَ الْمَاْوٰی )

سودوزخ اس کا ٹھکانا ہو گا۔ دوزخ ہی اس کا ٹھکانہ ہوگی۔

سورة العبس

آیت۱۲:( فَمَنْ شَآءَ ذَکَرَه )

سو جس کا جی چاہے اسے قبول کرلے۔ جس کا جی چاہے اس قبول کرلے۔

آیت۱۳:( فِیْ صُحُفٍ مُّکَرَّمَةٍ )

وہ ایسے صحیفوں میں ہے جو مکرم ہیں۔ یہ ایسے صحیفوں میں درج ہے جو مکرم ہیں۔

آیت۲۶:( ثُمَّ شَقَقْنَا الْاَرْضَ شَقًّا )

پھر عجیب طور پر زمین کو پھاڑا پھر زمین کو عجیب طرح پھاڑا

آیت۳۳:( فَاِذَا جَآءَ تِ الصَّآخَّةُ )

پھر جس وقت کانوں کا بہر کر دینے والا شور برپا ہوگا۔ آخر کا ر جب وہ کان بہرے کردینے والی آواز بلند ہوگی۔

۱۷۲

سورة الضحی

آیت۸:( وَ وَجَدَکَ عَآئِلًا فَاَغْنٰی )

اور اللہ تعالیٰ نے آپ کو نادار پایا سو مال دار بنادیا۔ اور تمہیں نادار پایا اور پھر مال دار کردیا۔

آیت۹،۱۰:( فَاَمَّا الْیَتِیْمَ فَلَاتَقْهَرْ() وَاَمَّا السَّائِلَ فَلَاتَنْهَرْ )

تو آپ یتیم پر سختی نہ کیجیے اور سائل کو مت جھڑکئے۔ لہذا یتیم پر سختی نہ کرو اور سائل کو نہ جھڑکو۔

سورة الم نشرح

آیت۳:( وَرَفَعْنَا لَکَ ذِکْرَکَ )

اور ہم نے آپ کی خاطر آپ کا آواز بلند کیا۔ اور تمہاری خاطر تمہارے ذکر کا آواز بلند کردیا۔

سورة الزلزال

آیت۱:( اِذَا زُلْزِلَتِ الْاَرْضُ زِلْزَالَهَا )

جب زمین اپنی سخت جنبش سے ہلادی جائے گی۔ جب زمین اپنی پوری شدت کے ساتھ ہلادی جائے گی۔

سورة الھمزة

آیت۷:( الَّتِی تَطَّلِعُ عَلَی الْاَفْئِدَةِ )

جو دلوں تک جاپہنچے گی۔ جو دلوں تک پہنچے گی۔

۱۷۳

سورةاللھب

آیت۳:( سَیَصْلٰی نَارًا ذَاتَ لَهَبٍ )

عنقریب وہ ایک شعلہ زن آگ میں داخل ہوگا۔ ضروروہ شعلہ زن آگ میں ڈالا جائے گا۔

تعارف تفاسیر

البیان فی تفسیر القرآن

ازشیخ الطائفہ ابی جعفر محمد بن الحسن طوسی

مترجم: حجة الاسلام والمسلمین محمد علی ایازی

شیخ الطائفہ مرحوم محمد بن حسن المعروف بہ شیخ طوسی کا تحقیقی کارنامہ بہت مفید و سود مند ہے محققین اوراہل دانش و بینش نے اس عظیم مفسرفقہیہ اور مفکر کی تالیفات کی جامعیت نوگرائی،دقت،فصاحت و بلاغت اور محکم بیان کی تعریف کی ہے۔

شیخ الطائفہ کی گرانقدر اور کم نظیر تالیفات میں سے ان کی تفسیر ”البیان فی تفسیر القرآن ہے۔ تاریخی اعتبار سے اسلامی فرھنگ و ثقافت کے میدان میں تفسیر نگاری کا سلسلہ ”البیان“ کے منظر عام پر آنے کے ساتھ ہی تنقید، تجزیہ اور تحقیق کے مرحلہ میں داخل ہو گیا۔ شیخ طوسی پہلے شخص ہیں جنہوں نے تفسیر قرآن کو نقل آیات اورسلف کے اقوال سے نکال کر تنقید، تجزیہ اور تحقیق کے میدان میں داخل کر دیا۔ ”بیان“ سے پہلے کی تفسیری کتب میں زیادہ تر نقل روایات اور لغات کے معانی کی وضاحت پر اکتفا کیا جاتا تھا۔

____________________

۱۔ تفسیر طبری سے آگاہی کے لیے ”مجلہ حوزہ“ شمارہ۲۴/۳۸ کی طرف رجو ع کریں

۱۷۴

محمد بن جریرطبری کی گرانقدر کتاب”جامع البیان“ اور معتزلیوں کی چند تفاسیر میں کہیں کہیں اجتہاد اوراستنباط اور تفسیر کاعقلی تجزیہ وتحلیل نظر آتا ہے(۲) شیخ نے اپنی تفسیر کے مقدمہ میں واضح طور پر عقلی دلائل کی پیروی کو مسلّم جانا ہے اور نقلی دلیل کے لیے تواتر او ر ” مجمع علیہ“ ہونے کو شرط قرار دیا ہے وہ تفسیر قرآن میں خبر واحد کو قبول نہیں کرتے اور متاخر مفسرین کے اقوال کو ناقابل پیروی خیال کرتے ہیںانہوں نے محکم اصول پر بھروسہ و اعتماد کرتے ہوئے بہت ساری روایات اور سابقہ مفسرین کے اقوال کو قبول نہیں کیا اور ان کے اشتباہات اور نقائص کوبیان کیا ہے۔

شیخ الطائفہ نے مکتب تشیع کے افکار و اصول پر اعتماد کرتے ہوئے ایک جامع اور مکمل تفسیر مرتب کی اور تفسیر لکھنے کے ھدف ومقصد کو آغاز کتاب میں یوں بیان فرمایا”جس چیز نے مجھے یہ تفسیر لکھنے پر مائل کیا وہ یہ تھی کہ کسی شیعہ عالم نے اب تک مکمل قرآن کی ایسی کوئی جامع اور کامل تفسیر نہ لکھی تھی جو مختلف فنون اور معانی پر مشتمل ہو ماضی میں چند علماء نے ہمت کر کے کچھ روایات جمع کیں البتہ اس میں پوری تحقیق نہ کی گئی اور جن آیات کی تشریح و وضاحت کی ضرورت تھی انکی تشریح و وضاحت نہ ہو سکی۔

بعض نے آیات کی تفسیر کی ہے مگر ان میں بھی چند ایک (طبری)نے الفاظ و لغات کے معانی بیان کرتے ہوئے طوالت سے کام لیا ہے اور فنون کے حوالے سے جو کچھ ہاتھ لگا نقل کرڈالا ہے بعض نے صرف مشکل الفاظ و لغات کے معانی بیان کرنے پر اکتفا کیا ہے۔

اعتدال کی راہ پر چلنے والوں کو جتنی سمجھ آئی لکھ ڈالا جس کو سمجھ نہ آئی نہ لکھا نحویوں نے ساری توجہ قرآن کے ادبی پہلوؤں پرمرتکز کر دی۔ جب کہ متکلموں نے کلامی مباحث پر توجہ دی ہے چند ایک نے دوسرے فنون کا ذکر کیا ہے اوربعض نے تو تفسیر سے مناسبت نہ رکھنے والے مطالب کا بھی ذکر کر لیا ہے۔

____________________

۲۔ معتزلیوں کی تفسیری کتاب سے آگاہی کے لئے ”مجلہ حوزہ“شمارہ ۲۶/۶۷ اور ۵۸ کی طرف رجو ع کریں”الکشاف" انکی مشہور تفسیرہے

۱۷۵

میں نے سنا ہے کہ بعض علمائے شیعہ قدیم زمانے سے ان تفاسیر کی طرف مائل ہوتے تھے جو اعتدال کے ساتھ ساتھ تمام علوم و فنون پر مشتمل تھے میں خداوند تعالیٰ کی توفیق سے اسی قصدکے ساتھ آغاز کرتاہوں اور انتخاب و اختصار سے کام لوں گا۔(۳)

مرحوم شیخ نے اپنی مفید و پر ثمر تفسیر میں آختر تک یہ وعدہ پورا کیا اور اختصار و انتخاب کے ساتھ ساتھ کلامی،ادبی،تاریخی، اور فقہی مباحث سے بھی اپنی تفسیر کو پر رونق بنایا ہے۔

”البیان“ کے مطالب کے وسعت اور گہرائی کا احاطہ ممکن نہیں ہے اس کے مباحث اورمطالب تجزیہ و تحلیل اور شناخت و معرفت، تفسیر نگاری کے دوران اس کے اثرات اور محققین و مفسرین نے اس سے جو استفادہ حاصل کیا ہے اُسے بیان کرنے کے لیے ایک جدا اور ضخیم کتاب کی ضرورت ہے۔(۴)

بہت سارے علماء تفسیر نے تفسیر ”البیان“ پر اپنے اپنے اندازمیں تبصرہ کیا ہے ہم یہاں پر عظیم مفسر قرآن مرحوم امین الاسلام طبرسی کا بیان تحریر کرتے ہیں وہ فرماتے ہیں!

”البیان" ایسی کتاب ہے جس میں نورحق چمکتا دکھائی دیتا ہے سچ کی خوشبو اس سے آتی ہےاسرار و معانی کا خزانہ ہے اور ادب سے پرُ ہے۔

مولف نے تمام مطالب و مباحث کو تحقیق و جستجو کے ساتھ آراستہ وپیراستہ کیا ہے”البیان“ ایک ایسا روشن چراغ ہے جس سے میں روشنائی حاصل کرتا ہوں اور اسی کے پر تو سے میں نے اپنی تفسیرکی کتاب مجمع البیان میں استفادہ کیا ہے۔(۵)

____________________

۳۔ ”البیان“جلد ۱/ص۱

۴۔ البیان فی تفسیر القرآن سے آگاہی کے لئے ” مجلہ حوزہ“شمارہ ۱۹۰/۶۷ کا مطالعہ کریں

۵۔ ”مجمع البیان“ ج۱ص۱۰

۱۷۶

البیان کی باقاعدہ اشاعت:

تفسیر البیان کے نسخہ جات ۱۳۶۴ء ہجری قمری تک مختلف کتابخانوں میں بکھرے پڑئے تھےسال مذکورہ میں اس کے بکھرے ہوئے اجزاء آیت اللہ سید محمدحُجت کوہ کمری تبریزی کی کوششوں سے ایک جگہ جمع کئے گئےچند علماء نے اس کی تصحیح کی اور دو بڑی جلدوں میں(پہلی جلد ۸۷۹ اور دوسری جلد۸۰۰ صفحات پر مشتمل تھی)۱۳۶۵ہجری قمری میں شائع کی گئی اس طرح معارف تفسیر قرآن کے محققین کی آرزو بھرآئی۔

علامہ شیخ آقا بزرگ تہرانی اس سلسلے میں لکھتے ہیں۔

” آیت اللہ حجت نے اس کتاب کو شائع کروا کے امت اسلامی کی ایک بہت بڑی خدمت کی ہے چونکہ علماء ہمیشہ سے اس چیز کی آرزو کرتے چلے آرہے تھے کہ اس تفسیر کے بکھرے اجزاء کو جمع کر کے شائع کیا جائے یہ توفیق مرحوم حجت کے حصے میں آئی۔(۶)

دس جلدوں میں اشاعت (قطع وزیری):

یہ اشاعت جناب حبیب فقیر العاملی کی تحقیق اصلاح اور حاشیہ کے ساتھ منظر عام پر آئیاس اشاعت کی جلداول کے آغاز میں محترم آقا بزرگ تہرانی کے حالات بیان کئے گئے ہیں۔

کتاب کے محقق نے متن کی تصحیح اور تحقیق کے بعد حاشیے میں مفید چیزوں کا اضافہ کیا ہے مثلاً آیات کا حوالہ اشعار،نسخوں کا اختلاف بعض لغات کی تشریح۔ ہر جلد کے آخر میں فہرستوں کی فنی لسٹ موجود ہے مثلاً فہرست احادیث، متکلموں اور مفسروں کی طرف سے کئے گئے اعتراضات سے متعلق مرحوم شیخ کے جوابات، فہرست امثال، لغوی مباحث وغیرہ۔

____________________

۶۔ ”البیان“ ج۱ص۲۰

۱۷۷

جس اشاعت کا یہاں پر ذکر کیا گیا ہے وہ ایک بہتر اور مفید اشاعت ہے لیکن اس کے باوجود ”البیان" کی عظمت و شان اور تفاسیر میں اس کے ممتاز مقام اس کے اعلیٰ اور عظیم مطالب و مباحث کے پیش نظر اس میں مزید بنیادوں پرتحقیق وتصحیح کی بحمد اللہ ضرورت تھی۔

ادارہ اہل البیت الاحیاء التراث کے محققین نے اجتماعی کوششوں اور پوری دقت کے ساتھ اُسے نئے سرے سے مرتب کیا ہے۔

تحقیق کا طریقہ کار:

نسخوں کے درمیان مقائیسہ،تصحیح اور تحقیق کا کام مختلف کمیٹیوں میں تقسیم کر دیا گیاکتاب کے تحقیق کا کام درج ذیل مختلف اہل فن حضرات کی کمیٹیوں کے سپرد کیا گیا۔

۱ نسخوں کے درمیان مقائیسہ و مقابلہ کی کمیٹی:

چند حضرات جو قدیم خطوط و الفاظ کو پڑھنے میں مہارت رکھتے تھے اور مناسب علمی قابلیت رکھتے تھے انہوں نے مطبوعہ نسخوں کا ان نسخوں کے ساتھ مقابلہ و مقائیسہ کیا کہ جن کا ذکر بعد میں کریں گے وہ اختلافی مواقع نوٹ کر لیتے تھے

۲ منقولات کو استخراج کرنے والی کمیٹی:

منقولات کے مصادر و منابع کے استخراج کا کا م اس کمیٹی کے ذمے تھامرحوم شیخ نے جو کچھ تفسیر میں ذکر کیا ہے کمیٹی کے اراکین نے انہیں استخراج کر کے ان کے مصادر اور منابع پر منطبق کیا جیسے احادیث،کتب،اقوال،نحویوں کی آراء،لغت دان حضرات،قرائتیں،اسباب نزول،اشعار امثال اور ہر وہ چیزجسے نکال کر منابع و مصادر پر منطبق کرنے کی ضرورت تھی۔

یہ بات قابل ذکر ہے کہ محققین کی کوشش رہی تھی کہ مذکورہ مواقع پر شیخ الطائفہ سے قبل والے ماخذکا حوالہ دیا جائے اور منقولات کے اصلی اور پرانے ماخذ حاصل کیے جائیں۔

۱۷۸

۳ مقابلہ اور تخریج کرنے والی کمیٹی:

یہ کمیٹی استخراج شدہ نصوص کو ماخذ کی طرف حوالہ دینے کے ساتھ مختلف نسخوں کا مقائیسہ کرتی۔ علاوہ ازیں ماخذکو وسعت دینے کی کوشش کرتی اس طرح اصلی ماخذ کے علاوہ دیگر ماخذ کا بھی حوالہ دیتی۔ تجدید نظر کے بعد مذکورہ تمام چیزوں کو نیچے حاشیے میں لکھ لیتی۔

۴ متن کی اصلاح کرنے والی کمیٹی:

اس کمیٹی کی ذمہ داری مصنف کے اصل متن کتاب کو اس طرح مرتب کرنا تھی کہ اس میں کسی قسم کی ملاوٹ ابہام یا اشتباہ باقی نہ رہے نیزاس میں کسی قسم کی کتابت کی یاادبی غلطی یا تحریف باقی نہ رہےیعنی متن کتاب مولف کی تحریر کے مطابق ہو۔

۵ آخری چیک اپ کرنے والی کمیٹی:

علماء و فضلاء پر مشتمل یہ کمیٹی آخری نظر اور چیک اپ کے لئے تمام مذکورہ مواد اور کمیٹیوں کے تحقیقی کام کا جائزہ لیتی تھیضرورت کے تحت ان میں کمی و بیشی اور اصلاح کرتی تھی۔

قابل اعتماد نسخہ جات

۱ آیت اللہ مرتضٰی نجفی کے کتابخانہ کا نسخہ:

یہ نفیس اور عمدہ نسخہ ۴۵۵ء میں تحریر کیا گیا۔ جوسورہ آل عمران کی آیت نمبر ۱۲۰ سے شروع ہوتا ہےاور سورہ مائدہ کی آیت نمبر ۱۵۰ کی تفسیر پر ختم ہوتا ہے۔

۲ مذکورہ کتابخانہ کا ایک اور نسخہ:

یہ نسخہ منظم ترتیب کا حامل نہیں ہے لیکن ایک قدیم نسخہ ہے یہ ۴۰۰ء میں تحریر کیا گیا۔

۱۷۹

۳ تبریز شہر کا ایک نسخہ:

تہران یونیورسٹی میں اس کی ایک کاپی ۶۲۳۴ نمبر پر محفوظ ہے یہ نفیس نسخہ ۵۳۸ء میں تحریر کیا گیا سورہ انفال سے لیکر سورہ ھود کی آیت نمبر ۸۷ تک ہے

۴ کتابخانہ ملک کا نسخہ:

یہ ایک گرانقد رنسخہ ہے سورہ ھود کی آیت ۴۴ سے لیکر کہف کی آیت نمبر ۶۱ تک ہے

۵ پرسٹن یونیورسٹی امریکہ کا نسخہ:

یہ عمدہ نسخہ ۵۶۷ء میں لکھاگیا یہ سورہ بقرہ کی آیت ۱۳۶ سے لیکر سورہ آل عمران کی آیت نمبر۱۲۰ تک ہے۔

۶ ترکی کا نسخہ:

یہ ۵۸۱ء میں تحریر کیا گیا یہ سورہ ذاریات کی آیت ۱۱ سے لے کر سورہ قمر کے آخر تک ہے۔

۷ کویت کا نسخہ:

سید حضرموت کے نسخہ کی کاپی ہے یہ عمدہ نسخہ ۵۹۵ء میں لکھاگیا سورہ صافات سے لیکر آخر قرآن تک ہے۔

۸ تہران یونیورسٹی کا نسخہ:

یہ نسخہ آٹھویں یا نوویں صدی میں لکھا گیاجوسورہ انبیاء کی آیت نمبر۹۲ سے شروع ہوتا ہے اور سورہ فاطر تک جاری رہتا ہے۔

۱۸۰

تعارف تفسیر

تفسیر ابن کثیر منھج اور خصوصیات

ڈاکٹر محمد اکبر ملک،

لیکچررشعبہ اسلامیات، گورنمنٹ ایس ای کالج بہاول پور

عماد الدین ابوالفداء اسماعیل بن عمر بن کثیر ۷۰۱ہجری(۱) میں شام کے شہر بصریٰ کے مضافات میں ”مجدل“ نامی بستی میں پیدا ہوئے۔(۲) اور دمشق میں تعلیم و تربیت پائی۔ آپ نے اپنے عہد کے ممتاز علماء سے استفادہ کیا

____________________

۱۔الداؤی شمس الدین محمد بن علی، طبقات المفسرین/۱/۱۱۲، دارالکتب العلمیه، بیروت لبنان، الطبعة الاولیٰ، ۱۴۰۳ه/۱۹۸۳ء ۔ بعض مورخین نے ابن کثیر کا سن ولادت ۷۰۰ھ قرار دیا ہے۔ ملاحظہ ہو،شذرات الذهب لابن العماد، ۶/۲۳۱، ذیل طبقات الحفاظ لجلال الدین السیوطی، صفحه ۳۶۱، مطبعة التوفیق بد مشق، ۱۳۴۷ه، عمدة التفسیر عن الحافظ ابن کثیر لاحمد محمد شاکر، ۱/۲۲، دارالمعارف القاهرة، ۱۳۷۶ه /۱۹۵۶ء اسماعیل پاشابغدادی، امام ابن کثیر کا زمانہ ولادت ۷۰۵ھ بیان کرتے ہیں۔ ملاحظہ ہو۔هدیة العارفین، اسماء المولفین و آثار المصنیفین، ۱/۲۱۵، وکالة المعارف، استانبول، ۱۹۵۵ء ۔ امام صاحب کے سن ولادت کے بارے میں اسماعیل پاشا البغدادی کا بیان درست معلوم نہیں ہوتا کیونکہ امام صاحب کے والد ۷۰۳ھ میں فوت ہوئے۔ امام ابن کثیر کا اپنا بیان ہے کہ میں اپنے والد کی وفات کے وقت تقریباً تین سال کا تھا۔ ملاحظہ ہو،البدایه والنهایه لابن کثیر، ۱۴/۳۲ خود امام ابن کثیر اپنی کتاب”البدایه والنهایه“ میں ۷۰۱ھ کے واقعات بیان کرنے کے بعد لکھتے ہیں”وفیها ولد کا تبه اسماعیل بن عمر بن کثیر القرشی“ (البدایه والنهایه، ۱۴/۲۱)

۲۔ احمد محمد شاکر، عمدہ التفسیر، ۱/۲۲، بعض ماخذ کے مطابق ابن کثیر دمشق کے مضافات میں مشرقی بصریٰ کی ایک بستی”مجدل القریة“ میں پیدا ہوئے۔ (ملاحظہ ہو، ذیلتذکره الحفاظ لابی المحاسن شمس الدین الحسینی، صفحه ۵۷، مطبعة التوفیق، دمشق، ۱۳۴۷ه) جبکہ مطبوعہ”البدایه والنهایه“ میں”مجیدل القریة“ منقول ہے(البدایه والنهایه ابن کثیر، ۱۴/۳۱) عمر رضا کحالہ نے مقام ولادت ”جندل" تحریر کیا ہے۔(معجم المئولفین، ۳/۲۸۴، مطبعة الترقی بد مشق، ۱۳۷۶ه /۱۹۵۷ء)

۱۸۱

اور تفسیر، حدیث، فقہ، اصول، تاریخ، علم الرجال اور نحو عربیت میں مہارت حاصل کی۔(۳) آپ نے ۷۷۴ہجری میں دمشق میں وفات پائی اور مقبرہ صوفیہ میں مدفون ہوئے۔(۴) امام ابن کثیر بحیثیت مفسر، محدث، مورخ اور نقاد ایک مسلمہ حیثیت کے حامل ہیں۔ آپ نے علوم شرعیہ میں متعدد بلند پایہ کتب تحریر کیں۔”تفسیر القرآن العظیم“ اور ضخیم تاریخ”البدای والنهای“ آپ کی معروف تصانیف ہیں جن کی بدولت آپ کو شہر ت دوام حاصل ہوئی۔ زیر نظر مضمون اول الذکر کتاب کے تذکرہ پر مشتمل ہے۔

__________________

۳۔الذهبی، شمس الدین، تذکرة الحفاظ، ۴/۱۵۰۸، مطبعة مجلس دائرة المعارف العثمانیه، حید ر آباد دکن الهند، ۱۳۷۷ه ۱۹۵۸ء، ابن العماد، شذرات الذهب، ۶/۲۳۱، الشوکانی محمد بن علی، البدر الطالع بمحاسن من بعد القرآن السابع، مطبعة السعادة القاهرة، الطبعة الاولیٰ، ۱۳۴۸ه

۴۔النعیمی، عبدالقادر بن محمد، الدارس فی تاریخ المدارس، ۱/۳۷، مطعبة الترقی، دمشق، ۱۳۶۷ء۷۰ه

۱۸۲

تعارف تفسیر:

علامہ ابن کثیر نے قرآن کی جو تفسیر لکھی وہ عموماً تفسیرابن کثیر کے نام سے معروف ہے اور قرآن کریم کی تفاسیر ماثورہ میں بہت شہرت رکھتی ہے۔ اس میں مولف نے مفسرین سلف کے تفسیری اقوال کو یکجا کرنے کا اہتمام کیا ہے اور آیات کی تفسیر احادیث مرفوعہ اور اقوال و آثار کی روشنی میں کی ہے۔ تفسیر ابن جریر کے بعد اس تفسیر کو سب سے زیادہ معتبر خیال کیا جاتا ہے۔ اس کا قلمی نسخہ کتب خانہ خدیو یہ مصر میں موجود ہے۔ یہ تفسیر دس جلدوں میں تھی۔ ۱۳۰۰ء میں پہلی مرتبہ نواب صدیق حسن خان کی تفسیر ”فتح البیان“ کے حاشیہ پر بولاق، مصر سے شائع ہوئی۔ ۱۳۴۳ء میں تفسیر بغوی کے ہمراہ نو جلدوں میں مطبع المنار، مصر سے شائع ہوئی۔ پھر ۱۳۸۴ء میں اس کو تفسیر بغوی سے الگ کر کے بڑے سائز کی چار جلدوں میں مطبع المنار سے شائع کیا گیا۔ بعدازاں یہ کتاب متعدد بار شائع ہوئی ہے۔ احمد محمد شاکر نے اس کو بحذف اسانید شائع کیا ہے۔ محققین نے اس پر تعلیقات اور حاشیے تحریر کیے ہیں۔ سید رشید رضا کا تحقیقی حاشیہ مشہور ہے۔ علامہ احمد محمد شاکر (م۱۹۵۸) نے ”عمدة التفسیر عن الحافظ ابن کثیر“ کے نام سے اس کی تلخیص کی ہے۔ اس میں آپ نے عمدہ علمی فوائد جمع کیے ہیں۔ لیکن یہ نامکمل ہے۔ اسکی پانچ جلدیں طبع ہو چکی ہیں اور اختتام سورة انفال کی آٹھویں آیت پر ہوتا ہے۔

محمد علی صابونی نے ”تفسیر ابن کثیر“ کو تین جلدوں میں مختصر کیا اور ”مختصرتفسیر ابن کثیر“ کے نام سے اسے ۱۳۹۳ء میں مطبع دارالقرآن الکریم، بیروت سے شائع کیا بعد ازاں محمد نسیب رفاعی نے اس کو چار جلدوں میں مختصر کیا اور اسے ”تیسرالعلی القدیر لاختصار تفسیر ابن کثیر“ کے نام سے موسوم کیا۔ یہ ۱۳۹۲ء میں پہلی مرتبہ بیروت سے شائع ہوئی۔

ماخذ :

علامہ ابن کثیر نے اپنی ”تفسیر“ کی ترتیب و تشکیل میں سینکڑوں کتب سے استفادہ کیا ہے اور بے شمار علماء کے اقوال و آراء کو اپنی تصنیف کی زینت بنایا ہے۔ چند اہم ماخذ کے نام یہ ہیں۔

۱۸۳

تفاسیر قرآن :

طبری، قرطبی، رازی، ابن عطیة، ابو مسلم الاصفهانی، واحدی، زمخشری، وکیع بن جراح، سدی، ابن ابی حاتم، سنید بن داؤد، عبد بن حمید، ابن مردویة وغیرہ۔

علوم قرآن :

فضائل القرآن ابوعبیدة القاسم، مقدمة فی اصول تفسیر ابن تیمیة وغیرہ۔

کتب حدیث:

صحاح ستة، صحیح ابن حبان، صحیح ابن خزیمة، مؤطا امام مالک، مستدرک حاکم، سنن دارقطنی، مسند امام شافعی، مسند دارمی، مسند ابویعلی الموصلی، مسند عبد بن حمید، مسند ابو بکر البزار، معجم کبیر طبرانی وغیرہ۔

کتب تراجم اور جرح و تعدیل:

التاریخ الکبیر امام بخاری، مشکل الحدیث ابو جعفر الطحاوی، الجرح والتعدیل ابن ابی حاتم، الاستیعاب فی معرفة الاصحاب ابن عبدالبر، الموضوعات ابن الجوزی وغیرہ۔

کتب سیرت و تاریخ:

سیرة ابن اسحاق، سیرة ابن هشام، مغازی سعید بن یحییٰ اموی، مغازی واقدی، دلائل نبوة بیهقی، الروض الانف سهیلی، التنویرفی مولد السراج المنیر عمر بن وحیه الکلبی، تاریخ ابن عساکر وغیره ۔

۱۸۴

فقہ و کلام:

کتاب الام امام شافعی، الارشادفی الکلام امام الحرمین، کتاب الاموال ابوعبیدالقاسم، الاشراف علی مذاهب الاشراف ابن هبیره وغیرہ۔

لغات:

الصحاح ابونصر جوهری، معانی القرآن ابن زیاد الفراء وغیره

ان مصادر کے علاوہفضائل شافعی ابن ابی حاتم، کتاب الآثار و الصفات بیهقی، کشف الغطاء فی تبیین الصلوٰ ة الوسطیٰ و میاطی، کتاب التفکر والا اعتبار ابن ابی الدنیا، السر المکتوم رازی اور دیگر متعدد کتب کے حوالے بھی ہمیں زیر بحث کتاب میں ملتے ہیں، جن سے ابن کثیر کے وسعت مطالعہ اور تحقیقی میدان میں دلچسپی کا اندازہ ہوتا ہے۔

حافظ ابن کثیر نے اپنی کئی تصانیف کے حوالے بھی ”تفسیر“ میں دئیے ہیں، مثلاًالبدایه والنهایه کتاب السیرة الاحکام الکبیر صفته النار، احادیث الاصول، جزء فی ذکر تطهیر المساجد، جزء فی الصلوٰة الوسطیٰ، جزء فی ذکر فضل یوم عرفه، جزء فی حدیث الصور وغیره ۔(۵) ۔

____________________

۵۔ ابن کثیر، عماد الدین اسماعیل بن عمر، تفسیر القرآن العظیم، ملاحظہ کیجئے بالترتیب: ۱/۳۶۳،۳/۴۷۸، ۱/۷۹، ۳۲۷،۴۵۷،۴/۵۴۳،۱/۵۵۵،۳/۲۹۲،۱/۲۹۴،۱/۲۴۳،۲/۱۴۹، امجد اکیڈمی لاہور،الباکستان، ۱۴۰۳ھ /۱۹۸۲ء۔

۱۸۵

منھج:

تفسیرکے اصولوں کا التزام :

علامہ ابن کثیر نے زیر تبصرہ کتاب کا نہایت مفصل مقدمہ تحریر کیا ہے اور تفسیر کے درج ذیل اصول متعین کیے ہیں:تفسیر القرآن بالقرآن تفسیر القرآن بالسنة تفسیر القرآن باقوال الصحابة تفسیر القرآن باقوال التابعین (۶)

یہ مرکزی اور بنیادی اصول تفسیر ابن کثیر میں یکساں طور پر بالترتیب نظر آتے ہیں۔ امام موصوف سلیس اور مختصرعبارت میں آیات کی تفسیر کرتے ہیں ایک آیت کے مفہوم کو واضح کرنے کے لیے کئی قرآنی آیات یکے بعد دیگرے پیش کرتے ہیں اور اس سے متعلق جملہ معلوم احادیث ذکر کرتے ہیں، بعدازاں صحابہ،تابعین اور تبع تابعین کے اقوال و آثاردرج کرتے ہیں۔ اس انداز میں مثالیں ان کی تفسیر میں بکثرت پائی جاتی ہیں۔ سورة المومنون کی آیت۵۰ :

( وَجَعَلْنَا ابْنَ مَرْیَمَ وَاُمَّه اٰیٰةً وَّ اٰوَیْنٰهُمَآ اِلٰی رَبْوَةٍ ذَاتِ قَرَارٍ وَّمَعِیْنٍ )

کی تفسیر میں متعددروایات و اقوال نقل کیے ہیں اور مختلف مفاہیم بیان کیے ہیں۔ ایک مفہوم کو ترجیح دیتے ہوئے لکھتے ہیں۔

”یہ مفہوم زیادہ ”واضح اور ظاہر ہے، اس لیے کہ دوسری آیت میں بھی اس کا تذکرہ ہے، اور قرآن“ کے بعض حصے دوسرے حصوں کی تفسیر کرتے ہیں اور یہی سب سے عمدہ طریقہ تفسیرہے، اس کے بعد صحیح حدیثوں کا اور ان کے بعد آثار کا نمبر آتا ہے۔"(۷)

____________________

۶۔ تفصیل کیلئے دیکھئیے، تفسیر ابن کثیر ۱/۳۔ ۶

۷۔ ایضاً۳/۲۴۶۔

۱۸۶

نقد و جرح:

حافظ ابن کثیر ایک بلند پایہ محدث تھے، اس لیے انہوں نے محدثانہ طریق پر یہ کتاب مرتب کی ہے اور نہایت احتیاط سے صحیح حدیثوں کے انتخاب کی کوشش کی ہے۔ وہ دوران بحث جرح و تعدیل کے اصولوں کو بروئے کار لاتے ہوئے صحیح روایات کو نکھار کر پیش کرتے ہیں،بعض روایات کو ضعیف قرار دیتے ہیں جبکہ غلط اور فاسد روایتوں کی تردید کرتے ہیں، مثلاً آیت( یَوْمَ نَطْوِی السَّمَآءَ کَطَیِّ السِّجِلِّ لِلْکُتُبِ ) (الانبیاء: ۱۰۴) کے بارے میں ابن عمر سے روایت ہے کہ سجل آنحضور کے ایک کاتب کا نام تھا۔ اس پر تنقید کرتے ہوئے ابن کثیر تحریر کرتے ہیں:

”یہ منکر روایت ہے اور یہ قطعاً صحیح نہیں۔ ابن عباس سے بھی جو روایت بیان کی جاتی ہے، وہ ابوداؤد میں ہونے کے باوجود غلط ہے۔ حفاظ کی ایک جماعت نے اس کی وضعیت پر ایک مستقل رسالہ تحریر کیا ہے اور ابن جریر نے بھی اس کا نہایت پر زور رد کیا ہے۔ اس روایت کے ضعیف ہونے کا سب سے بڑا ثبوت یہ ہے کہ رسول اللہ کے تمام کاتبین وحی نہایت مشہور لوگ ہیں ان کے نام معروف ہیں۔ صحابہ میں بھی کسی کا نام سجل نہ تھا۔"(۸)

علامہ ابن کثیر مختلف روایتوں کے متعدد طرق و اسناد کا ذکر کے روات پر بھی جرح کرتے ہیں مثلاً سورة البقرة کی آیت ۱۸۵:

( هُدًی لِّلنَّاسِ وَبَیِّنٰاتٍ مِّنَ الْهُدٰی )

کے تحت ابومعشر نجیح بن عبد الرحمن المدنی کو ضعیف قرار دیا ہے(۹)

____________________

۸۔ ایضاً۳/۲۰۰۔ خود ابن کثیر نے بھی حدیث سجل کے رد میں ایک جزء تحریر کیا ہے جس کا حوالہ انہوں نے اپنی تفسیر میں دیا ہے، ملاحظہ ہو صفحہ مذکور۔

۹۔ ابن کثیر، تفسیر، ۱/۲۱۶۔

۱۸۷

اسی طرح سورہ مذکورہ کی آیت ۲۵۱:

( وَ لَوْلَا دَفْعُ اللّٰهِ النَّاسَ بَعْضَهُمْ بِبَعْضٍ لَّفَسَدَتِ الْاَرْضُ )

کی تفسیر میں مختلف طرق سے ایک روایت بیان کی ہے اور یحییٰ بن سعید کو ضعیف قرار دیا ہے۔(۱۰)

سورة نساء کی آیت۴۳:

( یٰٓاَیُّهَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا لَاتَقْرَبُوا الصَّلٰوٰةَ وَلَا جُنُبًا اِلَّا عَابِرِیْ سَبِیْلٍ حَتّٰی تَغْتَسِلُوْا )

کی تفسیر میں سالم بن ابی حفصہ کو متروک اور ان کے شیخ عطیہ کوضعیف قرار دیا ہے۔(۱۱) اسی سورت کی آیت ۹۳:

( وَمَنْ یَّقْتُلْ مُؤْمِنًا مَُّتَعَمِّدًا فَجَزَآؤُه جَهَنَّمُ الخ ) کے سلسلے میں فرماتے ہیں۔ ابن مردویہ میں حدیث ہے کہ جان بوجھ کر ایمان دار کو مار ڈالنے والا کافر ہے یہ حدیث منکر ہے اور اس کی اسناد میں بہت کلام ہے۔(۱۲) ابن کثیر نے حدیث کے ساتھ ساتھ آثار صحابہ اور اقوال تابعین بھی کثرت سے نقل کئے ہیں لیکن ان کی صحت جانچنے کے لئے یہاں بھی انہوں نے بحث وتنقید کا معیار برقرار رکھا ہے اور ان کی تائید وتردید میں اپنی معتبر رائے کا اظہار کیا ہے مثلاً سورة النساء کی آیت ۴۱:

( فَکَیْفَ اِذَا جِئْنَا مِنْ کُلِّ اُمَّةٍ بِشَهِیْدٍ الخ )

کی تفسیر میں ابوعبداللہ قرطبی کی کتاب ”تذکرہ“ کے حوالے سے حضرت سعید بن مسّیب کا قول نقل کرتے ہیں اور پھرفرماتے ہیں۔ ”یہ اثر ہے اور اس کی سند میں انقطاع ہے۔ اس میں ایک راوی مبُہم ہے، جس کا نام ہی نہیں نیز یہ سعید بن مسیب کا قول ہے جو حدیث مرفوع بیان ہی نہیں کرتے۔ "(۱۳)

____________________

۱۰۔ ایضاً، ۱/۳۰۳۔ ۱۱۔ ایضاً،۱/۵۰۱ ۱۲۔ ایضاً ۱/۵۳۶۔ ۱۳۔ ایضاً،۱/۴۹۹

۱۸۸

جرح وقدح کے ضمن میں ابن کثیر تاریخ غلطیوں اور حوالوں کی بھی تردید کرتے ہیں،مثلاً

( واذا تتلیٰ علیهم اْٰیٰتناٰ قالو اقد سمعنا لونشآ ء لقلنا مثل هذا ) (الانفال: ۳۱)

کے تحت لکھتے ہیں: ”حضور نے بدر کے روز تین قیدیوں کے قتل کا حکم دیا تھا۔ (۱) عقبہ بن ابی معیط (۲) طعیمہ بن عدی (۳) نضر بن حارث۔ سعید بن جبیر نے ایک روایت میں طعیمہ کی بجائے مطعم بن عدی کا نام بتایا ہے۔ یہ بات غلط ہے، کیونکہ مطعم بن عدی تو بدر کے روز زندہ ہی نہیں تھا، اس لیے اس روز حضور نے فرمایا تھا کہ اگر آج مطعم بن عدی زندہ ہوتا اور ان مقتولین میں سے کسی کا سوال کرتا میں تو اس کو وہ قیدی دے دیتا۔ آپ نے یہ اس لیے فرمایا تھاکہ مطعم نے آنحضرت کو اس وقت تحفظ دیا تھا جب آپ طائف کے ظالموں سے پیچھا چھڑا کر مکہ واپس آرہے تھے۔"(۱۴)

شان نزول کا بیان:

اگر کسی سورة یا آیت کا شان نزول ہے تو اما م ابن کثیر اپنی ”تفسیر“ میں اس کا تذکرہ کرتے ہیں، مثلاً سورة بقرة کی آیت ۱۰۹:

( ودکثیر من اهل الکتاب لویر دونکم من بعد ایمانکم )

کے تحت لکھتے ہیں: ”ابن عباس سے روایت ہے کہ حی بن اخطب اور ابویا سر بن اخطب دونوں یہودی مسلمانوں کے سب سے زیادہ حاسد تھے اور وہ لوگوں کو اسلام سے روکتے تھے، ان کے بارے میں یہ آیت نازل ہوئی۔ زہری کہتے ہیں کہ کعب بن اشرف شاعر تھا اور وہ اپنی شاعری میں نبی کی ہجو کیا کرتا تھا۔ اس کے بارے میں یہ آیت نازل ہوئی۔"(۱۵) سورة اخلاص کا شان نزول اس طرح بیان کیا ہے:

____________________

۱۴۔ ایضاً۲/۳۰۴ ۱۵۔ ایضاً۱/۱۵۳۔

۱۸۹

”مسند احمد میں ہے کہ مشرکین نے حضور سے کہا اپنے رب کے اوصاف بیان کرو اس پر یہ آیت اتری اور حافظ ابویعلی موصلی کہتے ہیں کہ ایک اعرابی نے رسول کریم سے یہ سوال کیا اس کے جواب میں یہ سورہ اتری۔(۱۶)

فقہی احکام کا بیان :

ابن کثیر احکام پر مشتمل آیات کی تفسیر کرتے ہوئے فقہی مسائل پر بحث کرتے ہیں اور اس سلسلے میں فقہا کے اختلافی اقوال و دلائل بیان کرتے ہیں، مثلاً سورة بقرہ کی آیت

( قد نری تقلب وجهک فی السماء الخ )

کے تحت لکھتے ہیں: ”مالکیہ نے اس آیت سے استدلال کیا ہے کہ نمازی حالت نماز میں اپنے سامنے اپنی نظر یں رکھے نہ کہ سجدہ کی جگہ جیسا کہ شافعی، احمد اور ابو حنیفہ کا مسلک ہے، اس لیے کہ آیت کے لفظ یہ ہیں۔

( فول و جهک شطر المسجد الحرام )

یعنی مسجد حرام کی طرف منہ کرو اور اگرسجدے کی جگہ نظر جمانا چاہے گا تو اسے قدرے جھکنا پڑے گا اور یہ تکلف خشوع کے خلاف ہو گا۔ بعض مالکیہ کایہ قول بھی ہے کہ قیام کی حالت میں اپنے سینے پر نظر رکھے۔ قاضی شریح کہتے ہیں کہ قیام میں سجدے کی جگہ نظر رکھے جیسا کہ جمہور علماء کا قول ہے اس لیے کہ اس میں پورا پورا خشوع وخضوع ہے۔ اس مضمون کی ایک حدیث بھی موجود ہے اور رکوع کی حالت میں اپنے قدموں کی جگہ نظر رکھے اور سجدے کے وقت ناک کی جگہ اور قعدہ کی حالت میں اپنی آغوش کی طرف۔(۱۷)

____________________

۱۶۔ ایضاً،۵۶۵

۱۷۔ ایضاً،۱/۱۹۳

۱۹۰

( فمن شهد منکم الشهر ) (البقرة: ۱۸۵)

کی تفسیر میں مولف نے چار مسائل کا ذکر کر کے اس بارے میں علما ء کے مختلف مسالک اور ان کے براہین و دلائل بیان کیے ہیں۔(۱۸)

سورہ نساء کی آیت ۴۳ کے تحت تیمم کے مسائل اور احکام ذکر کیے گئے ہیں۔(۱۹)

( لایواخذکم اللّٰه باللغوفی ایمانکم ) (سورة المائدہ:۸۹)

کے تحت قصداً قسم کے سلسلے میں کفارہ ادا کرنے کے مسائل بیان کئے گئے ہیں(۲۰) امام ابن کثیر فقہی مسائل میں عموماً شافعی مسلک کی تائید کرتے ہیں۔

روایات و قول میں تطبیق:

ابن کثیر مختلف و متضاد روایات میں جمع و تطبیق کی کوشش کرتے ہیں اور ان کے مابین محاکمہ کرتے ہیں۔ مثلاً سورة آلِ عمران کی آیت ۱۶۹

( ولاتحسبن الذین قتلوا فی سبیل الله امواتاً بل احیاً ء عند ربهم یرزقون ) کی تفسیر میں لکھتے ہیں : صحیح مسلم میں ہے، مسروق کہتے ہیں ہم نے عبد اللہ ابن مسعود سے اس آیت کا مطلب پوچھا تو حضرت عبداللہ نے فرمایا کہ ہم نے رسول اللہ سے اس آیت کا مطلب دریافت کیا: آپ نے فرمایا: شہیدوں کی روحیں پرندوں کے قالب میں ہیں اور ان کیلئے عرش کی قند یلیں ہیں۔ وہ ساری جنت میں جہاں کہیں چاہیں، کھائیں پےئیں اور قندیلیوں میں آرام کریں۔

___________________

۸۱۔ ایضاً،۱/۲۱۶۔ ۲۱۷ ۱۹۔ ایضاً، ۱/۵۰۵،۴،۵ ۲۰۔ ایضاً،۲/۸۹۔ ۹۱

۱۹۱

لیکن مسند احمد میں ہے کہ شہید لوگ جنت کے دروازے پر نہر کے کنارے سبز گنبد میں ہیں۔ صبح و شام انہیں جنت کی نعمتیں پہنچ جاتی ہیں۔ دونوں حدیثوں میں تطبیق یہ ہے کہ بعض شہداء وہ ہیں جن کی روحیں پرندوں کے قالب میں ہیں اور بعض و ہ ہیں جن کا ٹھکانہ یہ گنبد ہے۔ اور یہ بھی ہو سکتا ہے کہ وہ جنت میں سے پھرتے پھراتے یہاں جمع ہوتے ہوں اور پھر انہیں یہیں کھانے کھلائے جاتے ہوں۔” والله اعلم‘‘ (۲۱)

آپ مختلف تفسیری اقوال میں بھی تطبیق دیتے ہیں مثلاً سورة قصص کی آیت (۸۵) ”لر آدک الیٰ معاد“ کے بارے میں حضرت عبداللہ بن عباس کے تین قول نقل کیے ہیں (۱) موت (۲) جنت (۳) مکہ۔ ان تینوں اقوال میں یوں تطبیق دی ہے کہ مکہ کا مطلب فتح مکہ ہے جوحضوراکرم کی موت کی قربت کی دلیل ہے اور روز قیامت مراد لینے کا مطلب یہ ہے کہ وہ بہر حال موت کے بعد ہی ہو گا اور جنت اس لیے کہ تبلیغ رسالت کے صلہ میں آپ کا ٹھکانہ وہی ہو گا۔(۲۲)

قرآنی آیات کا ربط و تعلق:

ابن کثیر قرآن مجید کے ربط و نظم کے قائل تھے۔ وہ اپنی ”تفسیر" میں آیات کے باہمی تعلق اور مناسبت کو اس طرح بیان کرتے ہیں کہ قرآن پاک ایک مربوط منظم کتاب نظر آتی ہے، اس سلسلے میں متعدد مثالیں ”تفسیر ابن کثیر“ میں نظر آتی ہیں مثلاً آیت

( انما الصدٰقٰت للفقرآء والمساکین ) (سورہ توبہ: ۶۰) کے سلسلے میں رقمطر از ہیں۔

___________________

۲۱۔ ایضاً،۱/۴۲۶۔ ۴۲۷

۲۲۔ ایضاً،۳/۴۰۳

۱۹۲

”سورة توبہ کی آیت ۵۸( ومنهم من یلمزک فی الصدقت )

میں ان جاھل منافقوں کا ذکر تھا جو ذات رسول پر تقسیم صدقات کے سلسلے میں اعتراض کرتے تھے۔ اب یہاں اس آیت میں فرمایا کہ تقسیم زکوةٰ پیغمبر کی مرضی پر موقوف نہیں بلکہ ہمارے بتلائے ہوئے مصارف میں ہی لگتی ہے، ہم نے خود اس کی تقسیم کر دی ہے، کسی اور کے سپرد نہیں کی۔"(۲۳) ( اولئٓک یجزون الغرفة بما صبروا ) (سورہ الفرقان: ۷۵،۷۶) کے متعلق فرماتے ہیں۔ ’چونکہ خدائے رحمن نے اس سے پہلی آیات میں اپنے مومن بندوں کے پاکیزہ اوصاف اور عمدہ طور طریقوں کا ذکر کیا تھا، اس لیے اس کی مناسبت سے اس آیت میں ان اجزا کا ذکر کیا ہے۔"(۲۴)

قرآن مجید میں بعض مقامات پر مومن اور باطل فرقوں کیلئے اسلوب تقابل اختیار کیا گیا ہے جو اس کے منظم و مربوط ہونے کی بہت بڑی دلیل ہے علامہ ابن کثیر نے یہاں بھی آیتوں کی مناسبت اور ان کا باہمی ربط بیان کیا ہے، مثلاً

( وبشرالذین امنوا وعملو الصٰالحٰتِ ) (سورةالبقرة :۲۵)

کے بارے میں تحریر کرتے ہیں۔ ”چونکہ اللہ تعالی نے پہلے اپنے دشمنوں یعنی بدبخت کفار کی سزا اور رسوائی کا تذکرہ کیا تھا، اس لیے اب اس کی مناسبت سے یہاں اس کے مقابلہ میں اپنے دوستوں یعنی خوش قسمت ایماندار، صالح و نیک لوگوں کے اجر کا ذکر کر رہا ہے اور صحیح قول کے مطابق قرآن مجید کے مثالی ہونے کا یہی مطلب ہے کہ ایمان کے ساتھ کفر اور سعادتمندوں کے ساتھ بدبختوں یا اس کے برعکس یعنی کفر کے ساتھ ایمان اور بدبختوں کے ساتھ سعادتمندوں کا تذکرہ کیا جائے۔ اس بحث کا حاصل یہ ہے کہ اگر کسی چیز کے ساتھ اس کے مقابل کا ذکر کیا جائے تو یہ مثانی کہلائے گا اور اگر کسی چیز کے ساتھ اسکے امثال و نظائر کا تذکرہ کیا جائے تو یہ متشابہ ہو گا۔"(۲۵)

__________________

۲۳۔ ایضاً،۲/۳۶۴ ۲۴۔ ۲/۳۶۴ ۲۴۔ ایضاً، ۳/۳۳۰ ۲۵۔ ایضاً، ۱/۶۲

۱۹۳

حروف مقطعات پر بحث:

حروف مقطعات کے بارے میں امام ابن کثیر کا نقطہ نظریہ ہے:

”جن جاہلوں کا یہ خیال ہے کہ قرآن کی بعض چیزوں کی حیثیت محض تعبدی ہے، وہ شدید غلطی پر ہیں۔ یہ تو بہر حال متعین ہے کہ ان حروف (مقطعات ) کے کوئی نہ کوئی معنی ضرور ہیں، خدا نے ان کو عبث نازل نہیں فرمایا، اگر ان کے متعلق نبی کریم سے کوئی بات ثابت ہو گی تو ہم اسے بیان کرینگے اور اگر حدیث سے کوئی بات معلوم نہ ہو گی تو ہم توقف کریں گے اور یہ کہیں گے کہ (امنابہ کل من عندہ ربنا )۔ حروف مقطعات کے متعلق علمائے امت کا کسی ایک قول اور مفہوم پر اجماع نہیں ہے بلکہ اختلافات ہیں، اس لیے اگر کسی دلیل سے کسی کے نزدیک مفہوم زیادہ واضح ہے تو اس کو وہ مفہوم اختیار کر لینا چاہیے، ورنہ حقیقت حال کے انکشاف تک توقف کرنا چاہیے۔"(۲۶)

ابن کثیر نے زیر بحث کتاب میں حروف مقطعات پر عمدہ بحث کی ہے اس سلسلے میں وہ مختلف مفسرین کے اقوال کی روشنی میں ان کے معانی ومفاہیم متعین کرنے کی کوشش کرتے ہیں(۲۷)

فضائل السورآیات:

”تفسیر ابن کثیر“ میں سورتوں اور آیتوں کے فضائل و خصوصیات، آنحضور کا ان پر تعامل اور امت کو ترغیب و تلقین کا تذکرہ پایاجاتا ہے۔ اس سلسلے میں ابن کثیر نے اہم کتب احادیث کے علاوہ امام نسائی کی معروف تصنیف”عمل الیوم واللیلة“ اور امام بیہقی کی”کتاب الخلافیات“ سے بھی استفادہ کیا ہے۔ زیر تبصرہ کتاب کے آغاز میں سورة البقرہ اور سورة آلِ عمران کے فضائل کا مفصل بیان ہے۔ اسی طرح آیت( ولقد اتیناک سبعاً من المثانی ) (سورہ الحجر: ۸۷)

___________________

۲۶۔ ایضاً، ۱/۳۷ ۲۷۔ ایضاً، ۱/۳۵۔ ۳۸

۱۹۴

کے تحت سبع مثانی کی تفسیر میں سات مطول سورتوں بشمول سورة البقرہ وآلِ عمران کے فضائل و خصائص تحریر کیے گئے ہیں۔(۲۸)

امام ابن کثیر سورہ حشر کی آخری تین آیتوں کے متعلق فرماتے ہیں:

”مسند احمد کی حدیث میں ہے کہ جو شخص صبح کو تین مرتبہ

اعوزبالله السمیع العلیم من الشیطان الرجیم

پڑھ کر سورة حشر کی آخری تین آتیوں کو پڑھ لے تو اللہ تعالیٰ اس کیلئے ستر ہزار فرشتے مقرر کرتا ہے جو شام تک اس پر رحمت بھیجتے ہیں اور اگر اسی دن اس کا انتقال ہو جائے تو شہادت کا مرتبہ پاتا ہے اور جو شخص ان کی تلاوت شام کے وقت کرے، وہ بھی اسی حکم میں ہے“(۲۹) امام صاحب ایک جگہ لکھتے ہیں کہ ”جادو کو دور کرنے اور اس کے اثر کو زائل کرنے کیلئے سب سے اعلیٰ چیز معوذ تان یعنی سورة الفلق اور سورة الناس ہیں۔ حدیث میں ہے کہ ان جیسا کوئی تعویذ نہیں۔ اسی طرح آیت الکرسی بھی شیطان کو دفع کرنے میں اعلیٰ درجہ کی چیز ہے۔"(۳۰)

اشعار سے استشھاد:

ابن کثیر نے اپنی تفسیر میں ایک انداز یہ بھی اختیار کیا ہے کہ وہ کسی آیت کے معنی و مفہوم کو واضح کرنے کیلئے حسب موقع عربی اشعار پیش کرتے ہیں۔ یہ طرز غالباً انہوں نے طبری سے حاصل کیا ہے۔ آیت( قل متاع الدنیا قلیل وًالاخرة خیر لمن اتقیٰ ) ۔ (النساء : ۷۷) کی تفسیر بیان کرتے ہوئے موصوف نے ابومصہر کے یہ اشعار بیان کیے ہیں۔

____________________

۲۸۔ ایضاً، ۱/۳۲۔ ۳۵ نیز ملاحظہ کیجئے ۲/۵۵۷ ۲۹۔ ایضاً، ۴/۳۴۴ ۳۰ ایضاً، ۱/۱۴۸

۱۹۵

ولاخیر فی الدنیا لمن لم یکن له

من اللّٰه فی دارالمقام نصیب

فان تعجب الدنیا رجالا فانها

متاع قلیل والزوال قریب(۳۱)

(اس شخص کیلئے دنیا میں کوئی بھلائی نہیں جس کو اللہ کی طرف سے آخرت میں کوئی حصہ ملنے والا نہیں۔ گو یہ دنیا بعض لوگوں کو پسندیدہ معلوم ہوتی ہے، لیکن دراصل یہ معمولی سافائدہ ہے۔ اور وہ بھی ختم ہونے والا ہے)۔

( وَإِنِّي لَأَظُنُّكَ يَا فِرْعَوْنُ مَثْبُورًا ) (سورہ بنی اسرائیل : ۱۰۲)

میں لفظ ”مثبور“ کے معنی ہلاک ہونا۔ ابن کثیر کہتے ہیں کہ یہ معنی عبداللہ بن زبعریٰ کے اس شعر میں بھی ہیں:۔

”اذا جار الشیطٰین فی سنن الغی

ومن مال میله مثبور"(۳۲)

جب شیطان سرکشی کے طریقوں پر چلتا ہے

اور پھر جو لوگ بھی سکے طریقے پر چلیں تو وہ ہلاک ہو جاتے ہیں۔

____________________

۳۱۔ ایضاً، ۱/۵۲۶ ۳۲۔ ایضاً، ۳/۶۷

۱۹۶

لغت عرب سے استدلال:

ابن کثیر تفسیر میں لغت سے بھی استدلال کرتے ہیں اور اقوال عرب کو نظائر و شواہد کے طور پر پیش کرتے ہوئے آیت کی تشریح و توضیح کرتے ہیں مثلاً( فقلیلا مایوٴمنون ) (البقرة : ۸۸) کے متعلق لکھتے ہیں : ”اس کے ایک معنی یہ ہیں کہ یہ بالکل ایمان نہیں رکھتے ہیں، جیسے عرب کہتے ہیں۔(فلما رأیت مثل هذاقط ) مطلب یہ ہے کہ میں نے اس جیسا بالکل نہیں دیکھا۔"(۳۳)

( يَسْأَلُونَكَ مَاذَا أُحِلَّ لَهُمْ ۖ قُلْ أُحِلَّ لَكُمُ الطَّيِّبَاتُ ۙ وَمَا عَلَّمْتُم مِّنَ الْجَوَارِحِ مُكَلِّبِينَ ) (سورةالمائدة : ۴)

کی تفسیر میں لفظ ”جوارح“ کو زیر بحث لاتے ہیں اور لکھتے ہیں: ”شکاری حیوانات کو جوارح اس لیے کہا گیا ہے کہ جرح سے مراد کسب اور کمائی ہے، جیسے کہ عرب کہتے ہیں”فلان جرح اهله خیراً“ یعنی فلاں شخص نے اپنے اہل و عیال کیلئے بھلائی حاصل کر لی ہے۔ نیز عرب کا ایک قول یہ بھی ہے”فلاں لا جارح له" یعنی فلاں شخص کا کوئی کمانے والانہیں۔"(۳۴)

جمہور مفسرین اور ابن کثیر:

ابن کثیر اپنی ”تفسیر" میں متقد مین علمائے تفسیر کے مختلف اقوال کا قدر مشترک تلاش کر کے اس کو ہم معنی ثابت کرتے ہیں اور اکثر جمہور علماء اہل سنت والجماعت کے نقطہء نظر سے اتفاق کرتے ہیں مثلاً آیت

( وَمَن كَانَ مَرِيضًا أَوْ عَلَىٰ سَفَرٍ فَعِدَّةٌ مِّنْ أَيَّامٍ أُخَرَ ) (سورةالبقرة ۱۸۵) کے تحت ابن کثیر قضاء روزوں کے مسئلہ پر جمہور کا یہ مسلک اختیار کرتے ہیں کہ قصاء روزے پے در پے رکھنا واجب نہیں بلکہ یہ مرضی پر منحصر ہے کہ ایسے روزے الگ الگ دنوں میں رکھے جائیں یا متواتر دنوں میں(۳۵)

___________________

۳۳۔ ایضاً،۱/۱۲۴ ۳۴۔ ایضاً، ۲/۱۶ ۳۵۔ ایضاً، ۱/۲۱۷۔

۱۹۷

ابن کثیر نقل و روایت میں مقلد جامدنہ تھے بلکہ ان کی تنقید و تردید بھی کرتے تھے، اس لیے وہ سلف کی تفسیروں کے پابند ہونے کے باوجود بعض اوقات ان کی آراء سے اختلاف بھی کرتے ہیں مثلاً آیت

( فَلَمَّا آتَاهُمَا صَالِحًا جَعَلَا لَهُ شُرَكَاءَ فِيمَا آتَاهُمَا ۚ فَتَعَالَى اللَّـهُ عَمَّا يُشْرِكُونَ ) (الاعراف : ۱۹۰)

کی تفسیر میں ابن عباس کی روایت بیان کی ہے کہ حضرت حوا کی جو اولاد پیدا ہوتی تھی وہ ان کو اللہ تعالیٰ کی عبادت کیلئے مخصوص کر دیتی تھیں اور ان کا نام عبد اللہ، عبیداللہ وغیرہ رکھتی تھیں۔ یہ بچے مر جاتے تھے، چنانچہ حضرت آدم وحوا کے پاس ابلیس آیا اور کہنے لگا کہ اگر تم اپنی اولاد کا نام کوئی اور رکھو گے تو وہ زندہ رہے گا اب حوا کا جو بچہ پیدا ہوا تو ماں باپ نے اس کا نام عبدالحارث رکھا۔ اسی بناء پر اللہ نے فرمایا:

( جَعَلَا لَهُ شُرَكَاءَ فِيمَا آتَاهُمَا )

اللہ کی دی ہوئی چیز میں وہ دونوں اللہ کے شریک قرار دینے لگے۔

پھر ابن کثیر لکھتے ہیں: ”اس روایت کو ابن عباس سے ان کے شاگردوں مجاہد، سعید بن جبیر، عکرمہ اور طقبہ ثانیہ کے فتادہ اور سدی وغیرہ نے نقل کیا ہے۔ اسی طرح سلف سے خلف تک بہت سے مفسرین نے اس آیت کی یہی تفسیر کی ہے،لیکن ظاہر یہ ہے یہ واقعہ اہل کتاب سے لیا گیا ہے، اس کی ایک بڑی دلیل یہ ہے کہ ابن عباس اس واقعہ کو ابی بن کعب سے روایت کرتے ہیں، جیسے کہ ابن ابی حاتم میں ہے۔ میرے نزدیک یہ اثر ناقابل قبول ہے۔"(۳۶)

____________________

۳۶۔ ایضاً، ۲/۲۷۵

۱۹۸

سورة حج کی آیت ۵۲ :

( وَمَا أَرْسَلْنَا مِن قَبْلِكَ مِن رَّسُولٍ وَلَا نَبِيٍّ إِلَّا إِذَا تَمَنَّىٰ أَلْقَى الشَّيْطَانُ فِي أُمْنِيَّتِهِ ) کے متعلق ابن کثیر کو جمہور کے نقطہ نظر سے اتفاق نہیں ہے، چنانچہ تحریر فرماتے ہیں:

”یہاں پر اکثر مفسرین نے غرانیق کا قصہ نقل کیا ہے اور یہ بھی کہ اس واقعہ کی وجہ سے اکثر مہاجرین حبشہ یہ سمجھ کر کہ اب مشرکین مکہ مسلمان ہو گئے ہیں، واپس مکہ آگئے لیکن یہ سب مرسل روایتیں ہیں جو میرے نزدیک مستند نہیں ہیں۔ ان روایات کو محمد بن اسحاق نے سیرت میں نقل کیا ہے، لیکن یہ سب مرسل اور منقطع ہیں۔ امام بغوی نے بھی اپنی تفسیر میں ابن عباس اور محمد بن کعب قرظی سے اس طرح کے اقوال نقل کرنے کے بعد خود ہی ایک سوال وارد کیا ہے کہ جب رسول کریم کی عصمت کا محافظ خود خدا تعالیٰ ہے تو ایسی بات کیسے واقع ہو گئی ؟ پھر اس کے کئی جوابات دےئے ہیں، جن میں سب سے صحیح اور قرین قیاس جواب یہ ہے کہ شیطان نے یہ الفاظ مشرکین کے کانوں میں ڈالے، جس سے ان کو یہ وہم ہو گیا کہ یہ الفاظ آنحضور کے منہ سے نکلے ہیں۔ حقیقت میں ایسا نہیں تھا۔ بلکہ یہ صرف شیطانی حرکت تھی، رسول کا اس سے کوئی تعلق نہیں۔"(۳۷)

علم القراة اور لغوی تحقیق:

ابن کثیر قرآنی آیات کی تفسیر کرتے ہوئے حسب موقع اختلاف قرات و اعراب، صرفی و نحوی ترکیب اور الفاظ کی لغوی تحقیق کے علاوہ ان کے مصادر، تثنیہ، جمع اور اصطلاحی مفہوم بیان کرتے ہیں مثلاً آیت( وَلَقَدْ مَكَّنَّاكُمْ فِي الْأَرْضِ وَجَعَلْنَا لَكُمْ فِيهَا مَعَايِشَ ۗ قَلِيلًا مَّا تَشْكُرُونَ ) (الاعراف: ۱۰) میں لفظ ”معائش“ کی وضاحت اس طرح کرتے ہیں لفظ ”معایش“ کو سب لوگ (ی) کے ساتھ پڑھتے ہیں

___________________

۳۷۔ ایضاً، ۳/۳۲۹۔ ۳۳۰

۱۹۹

یعنی ہمزہ کے ساتھ ”مَعَائِش“ نہیں پڑھتے، لیکن عبدالرحمن بن ہرمز اس کو ہمزہ کے ساتھ پڑھتے ہیں اور صحیح تو یہی ہے۔ جو اکثر کا خیال ہے یعنی بلاہمزہ، اس لیے کہ ”معایش“ جمع معیشتہ کی ہے۔ یہ مصدر ہے، اس کے افعال ”عاش، یعیش مَعِیشَة ہیں اس مصدر کی اصلیت ہے ” معیشة“ کسرہ (ی) پر ثقیل تھا، اس لیے عین کی طرف منتقل کر دیا گیا ہے اور لفظ ”معیشة" معیشہ بن گیا ہے پھر اس واحد کی جب جمع بن گئی تو(ی) کی طرف حرکت پھر لوٹ آئی کیونکہ اب ثقالت باقی نہیں رہی، چنانچہ کہا گیا کہ مَعَایِش کا وزن مفاعل ہے اس لئے کہ اس لفظ میں (ی) اصل ہے بخلاف مدائن، صحائف اور بصائر کے کہ یہ مدنة صحیفة اور بصیرة کی جمع ہیں، چونکہ (ی) اس میں زائد ہے، لہذا جمع بروزن فعائل ہو گی اور ہمزہ بھی آئے گا۔(۳۸)

( وَإِذْ تَأَذَّنَ رَبُّكَ لَيَبْعَثَنَّ عَلَيْهِمْ إِلَىٰ يَوْمِ الْقِيَامَةِ مَن يَسُومُهُمْ سُوءَ الْعَذَابِ ۗ إِنَّ رَبَّكَ لَسَرِيعُ الْعِقَابِ ۖ وَإِنَّهُ لَغَفُورٌ رَّحِيمٌ ) (سورہ الاعراف: ۱۶۷)

میں لفظ ”تَاَذَّنَ“ پر اس طرح بحث کرتے ہیں۔ ”تاذن بروزن تفعل“ اذان سے مشتق ہے یعنی حکم دیا یا معلوم کرایا اور چونکہ اس آیت میں قوت کلام کی شان ہے، اس لیے لیبعثن کا (ل) معنائے قسم کا فائدہ دے رہا ہے، اس لیے(ل) ے بعد ہی یبعثن لا یا گیاھم کی ضمیر یہود کی طرف ہے۔"(۳۹)

لغوی بحث کی عمدہ مثال ہمیں زیر تبصرہ کتاب کے آغاز میں تعوذ، تسمیہ اور سورة الفاتحہ کی تفسیر میں نظر آتی ہے۔ ابن کثیر لفظ ”صلوٰة" کی تحقیق فرماتے ہیں: ’عربی لغت میں (صلوٰة ) کے معنی دعا کے ہیں۔ اعشیٰ کا شعر ہے۔

____________________

۳۸۔ ایضاً، ۲/۲۰۲

۳۹۔ ایضاً، ۲/۲۵۹

۲۰۰

201

202

203

204

205

206

207

208

209

210

211

212

213

214

215

216

217

218

219

220

221

222

223

224

225

226

227

228

229

230

231

232

233

234

235

236

237

238

239

240

241

242

243

244

245

246

247

248

249

250

251

252

253

254

255

256

257

258

259

260

261

262

263