علوم ومعارف قرآن

علوم ومعارف قرآن21%

علوم ومعارف قرآن مؤلف:
زمرہ جات: علوم قرآن
صفحے: 263

علوم ومعارف قرآن
  • ابتداء
  • پچھلا
  • 263 /
  • اگلا
  • آخر
  •  
  • ڈاؤنلوڈ HTML
  • ڈاؤنلوڈ Word
  • ڈاؤنلوڈ PDF
  • مشاہدے: 136036 / ڈاؤنلوڈ: 6860
سائز سائز سائز
علوم ومعارف قرآن

علوم ومعارف قرآن

مؤلف:
اردو

یہ کتاب برقی شکل میں نشرہوئی ہے اور شبکہ الامامین الحسنین (علیہما السلام) کے گروہ علمی کی نگرانی میں اس کی فنی طورپرتصحیح اور تنظیم ہوئی ہے


1

2

3

4

5

6

7

8

9

10

11

12

13

14

15

16

17

18

19

20

21

22

23

24

25

26

27

28

29

30

31

32

33

34

35

36

37

38

39

40

41

42

43

44

45

46

47

48

49

50

51

52

53

54

55

56

57

58

59

60

61

62

63

64

65

66

67

68

69

70

71

72

73

74

75

76

77

78

79

80

81

82

83

84

85

86

87

88

89

90

91

92

93

94

95

96

97

98

99

100

عثمان کے دور میں کچھ رکاوٹوں کے برطرف ہو جانے اور کوفہ پر ولید کی حکمرانی سے عیسائیت کو پھیلانے کا دائرہ وسیع ہو گیا اور اسی دور میں حیرہ کے عیسائیوں سے تعلقات قائم کئے گئے اور اس علاقہ کے قافلوں کو کچلا گیا اوردَیر کے شعروں کو رائج کیا گیاجو مخفیانہطور پر عقلی ثقافت پر بہت اثر انداز ہوئی۔ اس کے بعد شراب کے شعروں کی باری آئی جو واضح طور پر اسلام کا خیال دل سے نکالنے اور اسے ترک کرنے کا خواہاں تھے۔

ان میں سے کچھ موارد ہم نے اپنی دوسری کتاب''الانحرافات الکبری''میں ذکر کئے ہیں  لہذا اس کی اصل بنیادوں کو جاننے کے لئے اس کی طرف رجوع کریں۔

 دیر اور شراب کے اشعار کی فضا میں کوفہ کا حاکم ولید بن عقبہ  اور اس کا درباری ابوزبید اخلاقی اقدار کو پامال کر رہے تھے۔

'الاستیعاب''کے مصنف اس بارے میں لکھتے ہیں کہ ولید اور اس کے ہم پیالہ ابوزبید کی شراب نوشی کی خبریں بہت مشہور ہیں۔(1) بہت سے مؤرخین اور محدثین نے نقل کیا ہے کہ ولید نے نشہکی حالت میں صبح کی نماز جماعت کے ساتھ مسجد میں پڑھی اور چار رکعت پڑھنے کے بعد مأمومین سے پوچھا کہ کیا وہ چاہتے ہیں کہ ان کے لئے دوبارہ سے نماز پڑھوں؟(2)

عثمان بن عفان کے خلاف قیام کا پہلا سبب یہی مسئلہ تھاکہ خلیفہ نے ولید کو معزول کرکے اور اسے قربانی کا بکرا بنا کر اپنی جان چھڑائی۔لیکن شعر اسی طرح باقی رہے بلکہ  ان میں وسعت آتی گئی،شراب کے شعر عاشقانہ شعروں میں اور پھرعیاشی کے اشعار میں تبدیل ہو گئے۔ معاویہ کے دور میں ادبیات عرب اپنے عروج پر تھی اور حزب حاکم کی سیاست کے دامن میں پلنے   والے فحاش شعر نمودار ہوئے    جو قبائلی اختلافات اور عربی تعصب کو ترویج دے رہے تھے۔بنی امیہ اشعار کی ترویج میں مبالغہ کرتے تھے اور کبھی شعر کے ایک مصرع یا ایک ادبی نکتہ پر ہزاروں دینار سے نوازتے  تھے۔لوگ بھی اشعار کہنے اور عرب کی جنگوں کے احوال بیان کرنے میں لگ گئے  اور انہوں نے بہت سا مال حاصل کیا۔

--------------

[1]۔  الاستیعاب:ج3ص633

[2]۔  الاستیعاب:ج3ص633

۱۰۱

شعر اور ادبیات اس حد تک نفوذ کر چکے تھے کہ حتی بہت سے علماء علمی محافل میں عقلی مسائل سے بحث کرتے وقت اپنانظریہ  ثابت کرنے کے لئے کسی شعر یا ضرب المثل  کو بطور نمونہ پیش  کرتے تھے۔اسی دوران منفی شعر اور راہ خدا سے روکنے والوں نے فتنہ کی تاریک راتوں میں اپنے لئے راستہ بنا رہے تھے اور شعراء تیزی سے رہبر کے مرکز کے نزدیک ہو رہے تھے۔ان شاعروں میں سے اخطل کا نام لیا جا سکتا ہے جو حیرہ میں پیدا ہوا جس کا تعلق بنی تغلب سے تھا اور جو اپنے اکثر قبیلہ والوں کی طرح عیسائی تھا۔جب یزید بن معاویہ خلیفہ بنا تو اسے اپنے پاس بلالیا اور وہ اس کا بہت احترام کرتا تھا۔یزید کے بعد دوسرے خلیفہ بھی اس کا بہت احترام کرتے تھے اور اسے بہت سی دنیاوی نعمتوں سے نوازتے تھے بالخصوص عبدالملک مروان اسے دوسرے شعراء پر ترجیح دیتا تھااور اسے اس کا بہت زیادہ صلہ دیتا تھا۔(1) ان شاعروں میں سے اعشی کا نام بھی لیا جا سکتا ہے جو عیسائی تھا اور وہ جہاں بھی جاتا تھا اس کے اشعار کو بہت  سراہا جاتا تھا۔(2)

فتنہ کی ثقافت اتنی پھیل چکی تھی اور اموی دور میں عیسائیوں کو ایسا مقام مل چکا تھا کہ ان کے بغیر سیاسی تدبیرمیں مشکل ہوتی تھی۔ان میں سے ایک گروہ کے پاس ٹیکس جمع کرنے کی ذمہ داری تھی اور ان میں سے اکثر کو خلفاء کے نزدیک بلند مقام حاصل تھا۔(3)

شعر،شراب اور فحاشی کی مدد سے وجود میں آنے والے فتنہ کے اس لبادہ میں سے زندیقی اور عیسائیوں کے نظریات سامنے آ رہے تھے(4) ،اور یحییٰ دمشقی کی زبان پر مرجئہ کے آراء و نظریات جاری تھے

--------------

[1]۔ تاریخ الأدب العربی:ج1ص۲۰۵

[2]۔ تاریخ الأدب العربی:ج1ص238

[3]۔ تاریخ الأدب العربی:ج1ص256

[4]۔ الحضارة الاسلامیة:ج2ص65

۱۰۲

جس کا باپ عبدالملک بن مروان کا یار ومددگار تھا۔اسی یحییٰ نے خود عیسائیت کے فضائل میں ایک کتاب لکھی تھی۔یہ کوئی اتفاق نہیں تھا کہ یحییٰ دمشقی کے آراء مرجئہ اور شام کے قدریّہ کے پاس پھیلے۔ اس طوفان میں پرانے حالات اور قدیم دنیا پھر سے آہستہ آہستہ آشکارہو گئی ،دولت کو بے مثال طاقت ملی جس نے تمام اقدار کو پامال کیا،ہر چیز مال پر قربان ہونے لگی اور اسے حاصل کرنے کے لئے  سیاستدانوں اور حکمرانوں نے ہرغلط حربہ اختیار کیااور ایک دوسرے پر سبقت لینے میں مگن ہو گئے۔

اس تحریک کے آخر میں کچھ ایسے شعرا پیدا ہوئے جو ہر مذہبی چیز کی تحقیر و توہین کرتے تھے جو واضح اور گستاخانہ انداز میں اپنے نظریات پیش کرتے تھے کہ جس کی اس سے  پہلے کوئی مثال نہیں ملتی۔ شام میں ابوالعلای معری شاعر(363-449)عقلی نظریات کی آڑ میںہر مذہبی چیز پر حملہ کرتا تھااور یوں کہتا تھا:اے گمراہو!ہوش میں آؤ،ہوش میں آؤ کہ تمہاری ایمانداری گذرے ہوئے لوگوں کے دھوکہ سے زیادہ نہیں ہے کہ جو اس  کے ذریعے سے دنیا کے مال و منال کو اکٹھا کرنا چاہتے تھے،وہ اس دنیا سے چلے گئے اوبخیلوںکی سنت دم توڑ گئی۔(!)

وہی کہتا تھا:لوگ پے در پے فساد کے قریب ہو گئے اورسب مذہب گمراہی کے لحاظ سے یکساں ہیں۔(1) پھر ابن راوندی(متوفی 293ھ)کی نوبت آئی جس نے یہاں تک کہہ دیا کہ ہمیں اکثم بن صیفی کے کلمات میں قرآن سے بھی خوبصورت کلمات ملتے ہیں۔(2) اسی طرح ابولعلاء معری کے بارے میں کہتے ہیں کہ وہ قرآن سے مقابلے کے لے کھڑا ہوا   اور اس نے''الفصول والغایات فی محاذاة السور ولآیات''کے نام سے ایک کتاب  لکھی اور جب اس سے کہا گیا کہ تم نے اچھا لکھا ہے لیکن ان میں قرآنی آیات کی مٹھاس نہیں ہے تو اس  نے جواب دیا:اسے چار سو سال تک محرابوں سے زبان پر جاری رہنے تو تا کہ یہ چمک جائے ،پھر اسے ددیکھو کہ یہ کیسی ہے۔(3)

--------------

[1]۔ الحضارة الاسلامیة:137

[2]۔ الحضارة الاسلامیة:139

[3]۔  الحضارة الاسلامیة:140

۱۰۳

اس طرح  اشعار کو قوت ملنے کے بارے میںرسول خدا(ص)کی غیبی پیشنگوئی اس وقت متحقق ہوگئی جب ولید نے اپنا قصر کھولا اور حیرہ کے عیسائیوں نے جزیرہ پر قدم رکھے تا کہ وہ تغلب کے عیسائیوں کو گود میں لے لیں۔پھر دیراس کے بعد شراب اور پھر فحاش شعار رائج ہوئے اور عرب کی قدیم جنگوں ،امویوں کے فضائل کا تذکرہ کرکے اور زمانۂ جاہلیت کی اقدار کو ترویج دے کر وہ خود کو خلافت کی کرسی کے قریب لے آئے۔اور جس میدان میں حدیث نہیں تھی وہاں اس کے نتیجہ میں سیاسی دباؤ اور تصوف نے اپنے پاؤںجما لئے  اور ان واقعات کے مقابلہ میں زندقہ ،مرجئہ کی تعلیمات اور دوسرے واقعات رونما ہوئے۔اس تمام کشمکش کے دوران عیسائی ٹیکس اکٹھا کرنے کی نگرانی کر رہے تھے اور جو بھی وزارت کا خواہشمند ہوتا ،وہ ان کے نزدیک ہو جاتا۔(1) کیونکہ خاردار جھاڑی سے اموال حاصل کرنے کے لئے سب ایک دوسرے کے پیچھے لگے تھے اور شاعروں نے راہ خدا کو بند کرکے دین اور قرآن کے خلاف اس طرح سے اعلان جنگ کیا تھا کہ جس کی کوئی مثال نہیں ملتی۔(2)

تمیم داری کی قصہ گوئی اور عیسائیت کی ترویج

 یہودی اور عیسائی دانشور مساجد میںقصہ گوئی کرتے تھے اور عیسائی علماء ان کہانیوں کے ضمن میں عیسائیت کی تبلیغ و ترویج کرتے تھے۔اہل کتاب کے علماء حکومتی وسرکاری ہدایات کے زیرسایہ یہ کام انجام دیتے تھے۔انہوں نے مسلمانوں کی مساجد اور ان میں سے بھی اہم ترین یعنی مدینہ میں مسجد نبوی پر اپنا قبضہ جما لیا تھا تا کہ لوگوں کوبنی اسرائیل کے حالات کی کہانیاںسنانے میں اور جو کچھ  لوگوں کی طبیعت اوران کے اپنے مقاصد سے سازگار  ہو،اسی میں  مشغول رکھیں۔(3) تمیم داری(تازہ  مسلمان ہونے والا عیسائی)دوسرے خلیفہ کی نظر میں مدینہ کے بہترین لوگوں میں سے شمار ہوتا تھا(4) !اس نے عمر سے تقاضا کیاکہ وہ قصہ گوئی کرنا چاہتا ہے۔عمر نے اسے اجازت دے دی اور وہ جمعہ کے دن مسجد نبوی میں لوگوں کے لئے قصہ  گوئی کرتا تھا۔(5) عمر خود بھی تمیم کی مجلس میں بیٹھتا اور اس کے قصے سنتا تھا!(6)

--------------

[1]۔ الحضارة الاسلامیة:ج1ص127-[2]۔ از ژرفای فتنہ ھا:ج1ص418-[3]۔ الصحیح من سیرة النبی الأعظم:ج1ص122-124(تلخیص)

[4]۔  الاصابة فی تمییز الصحابة:ج1ص215-[5] ۔  الاصابة فی تمییز الصحابہ:ج1ص183،184 اور 186۔نیز الصحیح من سیرة النبی الأعظم:کی پاورقی کے تمام حوالہ جات ملاحظہ فرمائیں۔[6]۔ القصاص و المذکرین:29

۱۰۴

 حقیقت میں اسرائیلیات سے قصہ کہانیوں کے جوڑ کی یہی سب سے اہم دلیل ہے کہ تمیم داری (مسلمان ،جو پہلے عیسائی تھے)نے سب سے پہلے قصہگوئی کی اور کعب الأحبار(تازہ مسلمان ہونے والا یہودی)کابھی شامات میں یہی کام تھا؛حتی کہ اس کا سوتیلا بیٹا (یعنی تبیع بن عامر جس کی پرورش کعب الأحبار کے ذمہ تھی اور جس نے آسمانی کتابیں پڑھیں تھیں)بھی اصحاب کے لئے قصہگوئی کرتا تھا!

محققین نے اس امر کی وضاحت کی ہے کہ ابتدائے اسلام میں قصہ گوئی کرنے کے واقعات اہل کتاب کی ثقافت سے متأثرہ تحریک کا نتیجہ تھے اورصدیوں سے ان کی اصل بنیاد ایسے قصے تھے جنہیں اہل کتاب انبیاء اورددوسروں سے روایت کرتے تھے۔

 قصہ  گوئی کی تحریک کو اسلامی ثقافت کے ساتھ برابرقرار دیا گیااور کچھ علماء کی مخالفت کے باوجود بعض خلفاء و محدثین کی حمایت حاصل ہونے کی وجہ سے یہ معاشرے میں پوری طرح  نفوذ کر گئے جس نے اسلامی ثقافت پر بڑے تباہ کن اثرات چھوڑے۔(1)

 ڈاکٹر مصطفی حسین لکھتے ہیں: اسلامی فتوحات کے بعد شام کا ماحول اسلامی ثقافت میں اسرائیلیات کو پھیلانے میں بہت اثر انداز ہوا اور تمیم داری جیسے افراد - جو تازہ مسلمان ہونے والی عیسائیوں میں سے تھا-کا اس تحریک (اسرائیلیات کی ترویج) میںبہت اہم کردار تھا کیونکہ اصل میں عیسائی ہونے کے باوجود اس کی شخصیت اور روایات پر اسرائیلی ثقافت کے اثرات کسی بھی محقق سے  ڈھکے چھپے نہیں ہیں؛بالخصوص ''جسّاسہ''کی کہانی کہ ججسے اس کے راویوں نے  رسول اکرم(ص) کی طرف جھوٹی نسبت دی ہے۔(2)

 ڈاکٹر احمد امین بھی ظہور اسلام کے بعد شام کے حالات کے بارے میں کہتے ہیں:

--------------

[1]۔  اسرائیلیات وتأثیر آن بر داستان ہای انبیاء در تفاسیر قرآن:63

[2]۔ اسرائیلیات فی الفتاث الاسلامی:79 اور 80

۱۰۵

 شام میں اکثر عیسائی تھے جنہوں نے اپنا مذہب نہ چھوڑا اور وہ جزیہ دیتے تھے۔ایک گروہ نے اسلام قبول کیا اور انہوں نے اپنا علمی سرمایہ اسلام میں داخل کر دیا کہ جو انہوں نے کیش عیسوی سے لیا تھا۔مساجد کلیسا کے ساتھ برابر ہو گئیں تھیں۔مسلمانوں اور عیسائیوں کے میل جول تیزی سے بڑھ رہے تھے۔(1)

 اس لحاظ سے شام کو ''اسرائیلیات کے لئے سرسبز زمین''کا نام دیا جا سکتاہے۔ معاویہ نے طاقت کے بل بوتے پر کچھ عیسائیوں کو اپنا مقرب اور مشیر منتخب کیا۔ان میں سے ''سرجون''وزیراور دربار کا خاص مصنف،''ابن آثال''دربار کامخصوص طبیب اوراموی دربار کے خصوصی شاعر ''اخطل'' کے نام کی طرف اشارہ کیا جا سکتا ہے۔  یہ معلوم ہے کہ یہ وہ لوگ نہیں تھے کہ جو اپنے مسیحی اعتقادات و افکار سے دستبردار ہو چکے تھے بلکہ وہ اموی دربار میں اتنانفوذ کر چکے تھے کہ ان پر اپنے نظریا ت مسلّط کرتے تھے۔(2) مؤرخین نے ان عیسائیوں کے معاویہ سے باہمی میل جول کو بیان کرکے بہت سے نکات درج کئے ہیں۔ہم ان میں سے کچھ کی طرف اشارہ کرتے ہیں:

 1۔ سرجون بن منصور رومی:اس کے بارے میں کہا گیا ہے کہ یہ مصنف اور معاویہ کامحرم راز یا اس کے اسرار کا محافظ تھاجو معاویہ کی موت کے بعد یزید کی خدمت میں تھا۔

 کتاب''الأغانی''میںوارد ہواہے کہ وہ یزید کے ساتھ مل کر شراب خوری کرتا تھا اورجب  مسلم بن عقیل علیہ السلام کے کوفہ پہنچنے کی خبر آئی تو اسی نے یزید سے سفارش کی تھی کہ ابن زیاد کو کوفہ کا گورنر بنا دیا جائے۔(3) اس کا بیٹا بھی عبدالملک بن مروان کے لئے کتابت کے فرائض انجام دے رہا تھا۔(4)

--------------

[1]۔ فجر الاسلام:189

[2]۔ معالم المدرستین:ج1ص50 اور 51

[3] ۔  الاغانی:ج16ص68 ،''معالم المدرستین ''سے اقتباس:ج2ص50،نیز رجوع کریں''تاریخ طبری: ج3ص228 اور 239،الکامل فی التاریخ :ج 4 ص 17''

[4]۔ التنبیہ الاشراف:261،معالم :سے اقتباس:ج2ص50

۱۰۶

2۔ ابن آثال: مؤرخین کے مطابق یہ  عیسائی معاویہ کا درباری طبیب تھا اور دمشق میں اس کا خصوصی ڈاکٹر تھا۔

 احمد امین کہتے ہیں:معاویہ کو اس سے بڑی ہمدردی و عقیدت تھی اور  ہمیشہ اس سے گفتگو کرتا تھا۔(1)

 یعقوبی بھی اپنی تاریخ میں لکھتے ہیں:سب سے پہلے معاویہ نے ابن آثال کو سر زمین''حمص'' سے ٹیکس جمع کرنے کے لئے مأمور کیا تھا جب کہ اس سے پہلے کسی بھی خلیفہ نے عیسائیوں کو ایسی ذمہ داری نہیں سونپی تھی۔(2)

 3۔ اخطل:یہ معاویہ کے دربار کا عیسائی شاعر تھا۔جاحظ اموی حکومت کے ساتھ اس کے تقرب کے سبب کے بارے میں لکھتے ہیں: معاویہ انصار کوذلیل و خوار کرنا چاہتا تھاکیونکہ ان میں سے اکثر حضرت علی بن ابی طالب علیہما السلام کے صحابی تھے اور معاویہ  کی خلافت کے مخالف تھے۔اس کے بیٹے یزید نے کعب بن جعیل سے کہا کہ وہ انصار کی برائی کرے لیکن اس نے منع کر دیا اور کہا:میں ایک نصرانی غلام کے بارے میں بتاتا ہوں جس کی زبان بہت لمبی ہے اور وہ ان کی برائی کرنے میں گریز نہیں کرے گا ،پس اس نے اخطل کے بارے میں بتایا۔(3)

 ''الأغانی''میں بھی اسذیل میں وارد ہوا ہے:وہ عیسائی کافر تھا جو مسلمانوں کی توہین کرتا تھااور جب وہ آتاتھا تو ریشم کا لباس اور گردن میں سونے کی بنی  ہوئی صلیب پہنے ہوتے تھا اور اس کی داڑھی سے شراب ٹپک رہی ہوتی تھی اور اسی حالت میں اجازت کے بغیر عبدالملک بن مروان کے پاس جاتا اور وہ یزید کاہمدم و ہمنشین تھااور اسی کے ساتھ جام سے جام ٹکراتا۔اسی طرح اس نے ایک شعر کہا تھا جسے

انہوں نے مسجد کوفہ کے دروازے پرآویزاں کر دیا تھا۔(4)

--------------

[1]۔ فجر الاسلام:162

[2]۔ تاریخ یعقوبی:ج۲ص۲۲۳

[3]۔ البیان والتبیین:ج1ص86،معالم المدرستینسے اقتباس:ج2ص50

[4]۔ الأغانی:ج8ص229 ،321اور ج16ص68معالم المدرستین سے اقتباس:ج2ص50 اور 51

۱۰۷

 اس کے بارے میں دوسرے محققین لکھتے ہیں:اس کے اشعار میں ایسے شواہد ملتے ہیں کہ جن سے یہ پتہ چلتا ہے اموی دور میں بھی عربوں کی بت پرستی کی  کچھ رسومات باقی تھیں۔نیز ان اشعار سے یہ بھی پتہ چلتا ہے کہ اس سلسلے کے افراد میں کس حد تک مذہبی رواداری تھی۔ اخطل ان لوگوں کی سخت سرزنش کرتا تھاجنہوں نے طاقتور لوگوں کی قربت کی خاظر، اپنے باپ دادا کا بت پرستی اور عیسائیت کا دین چھوڑ دیا تھا۔اس کے بہترین اشعار بھی وہی ہیں جو اس نے امویوں کی شان میں لکھے ہیں۔مسلمانوں کا مذاق اور تمسخر کرنے کے باوجود عبدالملک اس کی حمایت کرتا تھا۔(1)   یہ شواہد واضح و روش دلائل ہیں کہ شام اور معاویہ کا دربارتمام قبیلوں اورقطب کے اکٹھے ہونے کی جگہ میں تبدیل ہو چکا تھاکہ جن کاہدف و مقصد ایک تھااور وہ ہدف اسلام کے تن آور درخت کی جڑوں کو کھوکھلاکر نے کی کوشش کرنااور اسلامی اقدار کے خلاف جنگ کرناتھا۔معاویہ اپنے سیاسی مقاصد حاصل کرنے کے لئے ہر ذریعہ کو استعمال کرنا جائز سمجھتا تھا۔اس نے تازہ مسلمان ہونے والے یہودی  اور عیسائی علماء (جو ظاہراً مسلمان ہوئے تھے)اور تما م ہوس پرست اور نقلی حدیثیں گھڑنے والوں کی جعلی اور من گھڑت روایات سے بہت استفادہ کیا اور یہ سب معاویہ کی سرپرستی  میں ہو رہا تھا۔(2)

  عمر کے دور حکومت میں تمیم داری

ابوریہ لکھتے ہیں: عمر بن خطاب بھی تمیم کا بہت احترام کرتا تھااور اسے''خیر أهل المدینة'' (3) (یعنی مدینے کا بہترین فرد ) کے الفاظ سے یاد کرتا تھا۔اور یہ سب بالکل اسی وقت ہو رہا تھا جب حضرت علی علیہ السلام اور بزرگ صحابی بھی موجود تھے ۔ جب بعد میں دوسرے خلیفہ کے حکم پرلوگ مختلف طبقات میں تقسیم ہو گئے تو تمیم اہل بدر کے ساتھ تھا جن کا شمار پیغمبراکرم(ص) کے سب سے محترم اصحاب میں سے ہوتا تھا اور وہ سب سے زیادہ حقوق لیتا تھا۔

--------------

[1]۔ انتقال علوم یونانی  بہ عالم اسلام(دلیس اولیری):216-[2]۔ اسرائیلیات وتأثیر آن بر داستان ہای انبیاء در تفاسیر قرآن:74

[3] ۔  الاصابة: ج3ص473، نقش ائمہ در احیاء دین''سے اقتباس، چھٹا شمارہ:  87 ۔ ذہبی کی روایت میں تمیم کو ''خیر المؤمنین''کے نام سے یاد کیا گیا ہے۔''سیر أعلام النبلاء''کی طرف رجوع کریں: ج2ص446

۱۰۸

اسی طرح جب اس نے حکم دیا کہ ماہ رمضان کی مستحب نمازوں اور نافلہ کو جماعت کے ساتھ پڑھا جائے (سن 14 ہجری)تو اس نے دو افراد کو امام جماعت نامزد کیا تھا جن میں سے ایک تمیم داری تھا جو کہ راہب اور نصرانی عالم تھا اور جو تازہ مسلمان ہوا تھا۔

وہ ہزار درہم کی مالیت کا  لباس پہن کر بڑے جلال اور مزیّن ہو کر نماز جماعت میں آتا اور مسلمانوں کی امامت کرتا تھا۔(1) عثمان کی خلافت کے اختتام تک تمیم مدینہ میں تھا لیکن اس کے قتل ہو جانے کے بعد وہ شام چلا گیا اورر  40ھ کو وہیں اس دنیا سے چلا گیا۔(2)

ابوریہ لکھتے ہیں:قابل توجہ نکات میں سے یہ ہے کہ ہم یہ دیکھتے ہیں کہ عثمان کے قتل ہو جانے  اور امیر المؤمنین علی علیہ السلام کے منصب خلافت پر فائز ہونے کے بعد تازہ مسلمان ہونے والے تمام یہودی  کاہن ،عیسائی اورسب ہوس پرست مسلمان شام چلے گئے۔

 یہ واضح ہے کہ یہ کام خدا کے لئے نہیں بلکہ فتنہ پھیلانے اور مسلمانوں میں نفرت و بغض کی آگ بھڑکانے کے لئے تھا تا کہ اس کے ذریعے اموی حکومت کی بنیادیں مستحکم ہوں اور ان کے کشکول بھی اموی حکمرانوں کے دین سے بھر جائیں۔!(4)(3)

--------------

[1] ۔  تاریخ ابن عساکر:ج10ص479، تہذیب ابن عساکر:ج3ص360، سیر اعلام النبلاء:ج2س447، نقش ائمہ در احیاء دین''سے اقتباس :ج6ص87

[2]۔  الاعلام(زرکلی):ج2ص71،اسد الغابہ: ج1ص25

[3]۔ اضواء علی السنّة المحمدیة:182(حوالہ)

[4]۔  اسرائیلیات وتأثیر آن بر داستان ہای انبیاء در تفاسیر قرآن:103

۱۰۹

بنی امیہ کی حکومت کا عیسائیت کی حمایت کرنا

یہ اموی حکمرانوں کا غیر اسلامی کردار و رفتاراور ان کے عیسایوں سے تعلقات صرف ولید تک ہی محدود نہیں تھے بلکہ اس سے قبل وبعد بھی اسی کی طرح ہی تھے جنہوں نے ان کی مدد سے غصب کی گئی حکومت کا طوق اپنے گردن میں ڈال لیا۔

 ولید سے پہلے ہشام نے بھی عیسائیوں کو اتنی اہمیت دی اور ان کو اتنا بلند مقام دیاکہ خالد بن عبداللہ قسری کو عراق کا حاکم بنا دیا ۔ جو کہ عیسائی زادہ تھا اور وہ نہ صرف عیسائیوں بلکہ یہودیوں حتی کہ زرتشتیوں کی بھی حمایت اور طرفداری کرتا تھا۔

کتاب ''امویاں....''میں لکھتے ہیں: ہشام کی خلافت کے کچھ عرصہ بعد  خالد بن عبداللہ قسری  724 سے 738 م تک عراق کا حاکم رہا ۔ بعض موقعوں پر وہ مشرقی ریاستوںکی بھی مکمل نگرانی کرتا تھا لیکن کہتے ہیںکہ بعض دوسرے مواقع میں خراسان اس کی حکومت سے خارج ہوگیا تھااور خلیفہ بذات خود وہاں کا حاکم مقرر کرتا تھا۔تقریباً اموی دور کے آغاز سے ہیشام میں خالد کا خاندان اثر و رسوخ رکھتا تھا اور ولید کی خلافت کے زمانے میں خالد کچھ عرصے تک مکہ کا حاکم تھا۔ہشام کی طرح عراق میں مال پر قبضہ جمانے اور مال و دولت کے حصول کی خاطر چونچیں مارنے میںاس کا بھی کوئی ثانی نہیں تھا۔ سنت روائی میں اس کے بارے میں بھی دشمنانہ نظر کا احساس ہوتا ہے کہ کبھی اسے اسلام کا دشمن تو کبھی عیسائیوں،یہودیوں حتی کہ زرتشتیوں کا طرفدار بیان کیا گیا ہے۔ نقل ہوا ہے کہ ایک بار اس نے عیسائیت کو اسلام پر برتری دی اور اپنی عیسائی ماں کے لئے کوفہ میں مسجد کے پیچھے ایک کلیسا بنوایا۔بعض کتابوں میں اسے زندیق شمار کیا گیا۔یہ ایک ایسا عنوان ہے کہ جس میں اکثر تردید و تنازع رہاہے نیز اسے مانوی حتی کہ ملحدانی افکار میں بھی دلچسپی تھی۔ کہتے ہیں:اسے اپنے خاندان سے اتنی محبت تھی کہ حتی اگر خلیفہ اسے کعبہ کو تباہ کرنے کا حکم دیتا تو یہ اس کے بھی تیار تھا۔لکھتے ہیں کہ جب یہ مکہ کا حاکم تھا  تو اس نے زائرین کے لئے الگ سے پانی فراہم کیا تا کہ اس اقدام سے زمزم کے مقدس کنویں کی اہمیت کو کم کر سکے اور یہ بتائے کہ اس کا پانی کڑوا ہے،اور اس نے یہ اعلان کیا جو پانی اس نے فراہم کیا ہے وہ خدا کے نمائندے(خلیفہ) کے حکم سے ہے!(1)

--------------

[1]۔ امویان؛ نخستین ودمان حکومت گر در اسلام:99

۱۱۰

 ''نہایت الأدب''میں لکھتے ہیں:خالد کی ماں عیسائی کنیزتھی(جس کا تعلق روم سے تھا اور خالد کے باپ نے اسے اسیر بنا لیا اوپھر خالد بھی اسی سے پیدا ہوا)خالد کا بھائی اسد بھی اسی عورت سے پیدا ہوا لیکن وہ مسلمان نہیں ہوا تھا اور جب وہ مرا تو خالد نے اس کے لئے اس کی قبر پر کلیسا بنوایا جس پر لوگوں نے اس کی مذمت کی اور فرزدق نے یہ اشعار کہے:''اے خدائے رحمن!اس سواری کی پشت شکستہ کردے جو خالد کو سوار کروا کرہمارے لئے دمشق سے لائی،کس طرح وہ لوگوں کی امامت کرنا چاہتا ہے جس کی ماں کا ایسا دین ہے کہ جوخدا کو یکتا نہیں مانتی؟ وہ اپنی ماں کے لئے کلیسا بنواتا ہے جس میں عیسائی ہیں اور جو کفر سے مساجد کے مینار تباہ کر رہا ہے''

 خالد نے حکم دیا تھا کہ مسجدوں کے مینار تباہ کر دیئے جائیں اور اس  کی وجہ یہ تھی کہ کسی شاعر نے اس بارے میں شعر کہے تھے:

 ''اے کاش!میری زندگی مؤذنوں کے ساتھ ہوتی کہ وہ کسی بھی شخص کوگھر کی چھت پر دیکھ سکتے ہیں ،یا ان کی طرف اشارہ کرتے ہیں یا دلکش نازنین ان کی طرف اشارہ کرتیںہیں''جب خالد کو اس شعر کی خبر ہوئی تو اس نے اسے بہانہ بنا کر مساجد کے مینار تباہ کرنے کا حکم دیا اور جب خالد تک یہ خبر پہنچی کہ اپنی ماں کے لئے کلیسا بنوانے کی وجہ سے لوگ اس کی مذمت کر رہے ہیں تو اس نے کہا:خداوند ان کے دین و آئین (اگر تمہارے دین و آئین سے بدتر ہے)پرلعنت کرے اوروہ معذرت کے طور پر یہ بات کہتا تھا۔ کہا گیا ہے کہ وہ کہتا تھا:کسی بھی شخص کا خلیفہ و جانشین اس کے خاندان میں اس کے رسول  سے محترم ہے۔اور اس کی مراد یہ تھی کہ ہشام رسول خدا(ص) سے محترم ہے!ہم ان خرافات سے خدا کی پناہ چاہتے ہیں۔(1) حجاج بن یوسف سے بھی یہی بات عبدالملک اور رسول خدا(ص)کے بارے میں نقل ہوئی ہے۔خالد بن عبداللہ قسری (جو عراق اور مشرقی علاوے میں حکومت کرتا تھا) حجاج کی سیاست پر عمل کرتا تھا۔

--------------

[1]۔ نہایت الأدب: ج6 ص۳۷۰

۱۱۱

 خالد ایک عام انسان تھااور جس طرح لکھا ہے کہ حتی وہ قرآن کو بھی صحیح نہیں پڑھ سکتا تھا! ایک دن خطبہ پڑھتے وقت اس نے ایک آیت غلط پڑھی  اور منہ دیکھتا رہ گیا۔ اس کے دوستوں میں سے قبیلہ تغلب کا ایک شخص اٹھا اور اس سے کہا:امیر؛اپنے لئے کام آسان کرو ،میں نے کوئی عاقل انسان نہیں دیکھا جو قرآن کوحفظ کرکے پڑھے۔حفظ کرکے قرآن  پڑھنااحمقوں کا کام ہے۔! خالد نے کہا:تم نے ٹھیک کہا ہے۔(2)(1) عراق میں خالد کے مظالم اس حد تک پہنچ گئے تھے کہ ہشام نے مجبوراً اسے برطرف کردیا۔(3)

اہلبیت اطہار علیہم السلام اور عراق کے لوگوں سے خالد کی دشمنی

 ''الکامل''میں مبرد نے نقل کیا ہے:خالد بن عبداللہ قسری جب عراق کا حاکم بنا تو وہ منبر سے امیر المؤمنین علی علیہ السلام پر سبّ و شتم کرتا تھا اور کہتاتھا:''أللّٰهم علی بن ابی طالب بن عبد المطلب بن هاشم، صهر رسول الله علی ابنته و أبا الحسن و الحسین'' اس کے بعد   وہ لوگوں کی طرف دیکھ کر کہتا تھا: کیا یہ محترمانہ انداز نہیں ہے!(4)

 یہ کلام رسول اور آل رسول علیہم السلام سے اس کی دشمنی کو ظاہر کرتا ہے۔

--------------

[1]۔ ابولفرج اصفہانی: ج19ص60، تاریخ تمدن اسلامی سے اقتباس: ج4 ص80

[2] ۔ نہ  صرف خالد بلکہ بنی امیہ کے کچھ خلفاء صحیح سے بات کرنی بھی نہیں آتی تھی۔

اس بارے میں نقل ہونے والے عجائبات میں سے ایک یہ ہے کہ ولید بن عبدالملک مروان اپنی گفتگو اور محاوروں کے دوران بہت غلطیاں کرتا تھا ۔اس نے اپنی خلافت کے دوران ایک دن امیر المؤمنین علی علیہ السلام کی توہین کی اور کہا:''انه لصّ ابن لصّ'' اور کلمہ'' لص''ّ کو کسرہ کے ساتھ پڑھا ۔ لوگ اس پر بہت حیران ہوئے اور انہوں نے اس سے کہا:ہمیں نہیں پتہ کہ ہم ان دو باتوں میں سے کس پر ہنسیں؛اس نسبت پر جو تم  نے علی بن ابی طالب علیہما السلام سے دی ہے یا کلمہ لصّ پر جسے تم نے مجرور پڑھا ہے۔ (معاویہ و تاریخ: 147)

[3] ۔ تاریخ تحلیلی اسلام:218

[4]۔ معاویہ و تاریخ: 147

۱۱۲

ولید اور اس کے کارندہ خالد بن عبداللہ قسری کو عراق کے مسلمانوں سے خاص دشمنی تھی۔یعقوبی نے اپنی تاریخ میں لکھا ہے:ولید نے ایک خط میں حجاز پر اپنے کارندہ خالد بن عبداللہ قسری کو حکم دیا کہ وہ عراق کے لوگوں میں سے جو بھی حجاز میں ہیں انہیں وہاں سے نکال کر حجاج بن یوسف کے پاس بھیج دو۔پس خالد نے عثمان بن حیّان مرّی کو مدینہ بھیجا تا کہ وہ عراق کے لوگوں میں سے جو بھی مدینہ میں موجود ہیں انہیں نکال دے اور اس نے بھی ان تمام لوگوںکو ان کے اہل و عیال ہمراہ حجاج کے پاس  بھیج دیا ،تاجروں اور غیرتاجروں میںسے کسی کو باقی نہ چھوڑا اور اعلان کیا کہ جو بھی کسی عراقی کوپناہ دے گا وہ امان میں نہیں ہے۔ اسے جیسے ہی خبر ملتی کہ مدینہ والوں میں سے کسی کے گھر میں  کوئی عراقی ہے تو وہ اسے فوراً نکال دیتا تھا۔(1)

 بنی امیہ کے کارندے کلیسا بناتے تھے،قرآن کو حفظ کرکے پڑھنا احمقوں کا کام سمجھتے تھے اور فرزدق شاعر کے قول کے مطابق مساجد کے میناراپنے کفر کی وجہ سے تباہ کر دیتے تھے، خانۂ خدا کو آگ لگاتے تھے، پیغمبراکرم(ص) کے آثار نیست و نابود کرتے تھے اور جہاں تک ہو سکتا تھا وہ دین کے احکامات کو تبدیل کرتے تھے لیکن اس کے باوجود خود کو خدا کا خلیفہ سمجھتے تھے اوروہ جو کچھ کہتے تھے قوم  بھی بغیر سوچے سمجھے اسے مان لیتی تھی!!

کیا ایسے لوگ مذہبی شعور رکھتے ہیں؟!

--------------

[1]۔ تاریخ یعقوبی: ج2ص246

۱۱۳

چوتھاباب

دشمنوں کے دو بنیادی حربے

    1- مسلمانوں میں تفرقہ سازی-    اموی اور عباسی دور میں زندیقی تحریک-    جہمیّہ-

    اموی دور میں معتزلہ-    مرجئہ ، اموی دور میں-    بنی امیہ کے زمانے میں قدریہ، جبریہ اور مرجئہ

    مرجئہ اور قدریہ کے بارے میں رسول اکرم(ص) کی پیشنگوئی-    معاشرے میں مرجئہ کا کردار-    بہشتی کافر!-

    مرجئہ کی کلیسا اور عیسائیت سے ہماہنگی-    مرجئہ کے فرقے-    ابو حنیفہ اور مرجئہ-

    مرجئہ اور شیعہ-    مرجئہ اور شیعہ روایات-    امویوں کے انحرافی عقائد میں یہودیوں اور عیسائیوں کا کردار

    عقیدتی اختلافات مسلمانوں کو نابود کرنے کا اہم ذریعہ

    اموی دور میں عقلی علوم کی ترویج اور.     خارجی کتابوں کا ترجمہ

    مکتبی ابحاث، حکومت کی بقاء کا ذریعہ

    2- پیشنگوئیوں کوچھپانا

    الف: یہودی اور پیشنگوئیوں کوچھپانا

    ب:عیسائیت اور پیشنگوئیوں کوچھپانا

    برطانوی بادشاہ کا مسلمان ہونا

    نتیجۂ بحث

۱۱۴

 1- مسلمانوں میں تفرقہ سازی

جوافراد یہودیوں کی تاریخ سے آشنا ہیں اور انہیں اسلام کے آئین سے ان کی دشمنی کا علم ہے ،وہ جانتے ہیں کہ انہوں نے ہر ممکن طریقے سے اسلام کے خلاف مبارزہ آرائی کی ۔ ان کے پاس جو وسیلہ بھی تھاانہوں نے اس کے ذریعہ اسلام کا مقابلہ کیا تاکہ نہ صرف یہودی اور دوسرے تمام مذاہب کے درمیان ان کی ترقی کا راستہ روک سکیں بلکہ اسے جڑ سے اکھاڑ پھینکیں اور اپنی ہاری ہوئی سیاسی وفوجی طاقت کا کچھ سامان کر سکیں تا کہ غیر یہودی اقوام پر بھی اپنا حکم چلا سکیں!

اس قدرت طلبی کی بنیاد پر وہ مختلف مکر و فریب اور چال بازیوں کے مرتکب ہوئے تا کہ شاید ان کی دیرینہ خواہشات پوری ہوجائیں اور ان کے  سینے میں موجود دشمنی کی آگ ٹھنڈی ہو جائے۔

ان کی ایک  سازش (جسے وہ مناسب منصوبوں کے ساتھ انجام دیتے تھے) مسلمانوں کے درمیان عقیدتی تفرقہ پیدا کرنا تھا ۔

 مسلمانوں میں مختلف فرقے بنانے میں عیسائیوں کا بھی ہاتھ تھا جو ان میں تفرقہ بازی اور عقیدتی اختلاف پیدا کرتے تھے۔

 ان منصوبوںسے یہودیوں کے دو اہم مقاصد تھے:

1۔ اختلافات پیدا کرکے مسلمانوں میں تفرقہ بازی اور مختلف گروہ بنانے سے نہ صرف ان کے ہاتھوں سے طاقت چلی جائے گی بلکہ اس عملسے مسلمان اصل دین اور اسلام کی بنیادمیں شک کرنے لگیں۔

لوگوں میں شک و شبہ پیدا کرنا ایک ایسا حربہ تھا کہ جسے یہودی صرف ابتدائے اسلام ہی سے نہیں بلکہ ظہوراسلام اور پیغمبر اکرم(ص) کی بعثت سے پہلے بھی استعمال کرتے تھے تا کہ ظہور اسلام کے بعد لوگ اس میں شک و شبہ کریں بلکہ اسے منکرانہ نگاہوں سے دیکھیں۔

2۔ اعتقادات میں اتحاد و یگانگت کو ختم کرکے انہوں نے نہصرف مسلمانوں کے اتحاد کو برہم کر دیا بلکہ ان پر اپناغلبہ پانے کا راستہ بھی ہموار کر لیا۔

۱۱۵

  اموی اور عباسی دور میں زندیقی تحریک

 کتاب''دولت عباسیان''میں لکھتے ہیں:زندیق اموی دور میں وجود میں آئے اور عباسیوں کے پہلے دور میں ان کی سرگرمیاں شدت اختیار کر گئیں۔

 .....حقیقت میں زندقہ منظم مذہبی افکار کے قالب میں ایک سیاسی تحریک تھی جو اپنے پیروکاروں کو مانوی مذہب ،دینی اعتقاد کے محتویٰ اور ان کی فکری میراث کی طرف دعوت دیتی تھی۔اس اعتبار سے کہ اسلامی میراث کی جاگزین عربی ہے۔اور کبھی فلسفی دعوت کے پیچھے سیاست چھپی ہوتی تھی کیونکہ زندقہ نے فلسفہ کا لبادہ اوڑھ کرخود کو چھوپایا ہوا تھا اوردر حقیقت بعض انقلابی پہلوؤں سے مجوس تھے کہ جن کا مقصد اسلامی حکومت کو نابود کرنا اور اس کی جگہ ایرانی حکومت کو لانا تھا۔

 یہ واضح ہے کہ زندقہ ایک مانوی تحریک تھی جس نے اسلامی فتوحات کے بعد دوبارہ سے عراق اور ایران کے کچھ علاقوں میں جگہ بنا لی۔اس رجحان کے انتشار کی وجہ مذہبی آزادی تھی کہ فتوحات کے بعد مختلف مذاہب کے پیروکار وں کو اس کا سامنا تھا

اورجو معاشرے میں ایک طرح کے فکری و نظری  اختلافات اختتام پذیر ہوا۔(1)

اس بناء پر کہ زندیقی ایک فرقہ کے عنوان سے اموی دور میں وجود میں آئے،اب چاہے اسے مانوی تحریک سمجھیں یا مانوی و غیر مانوی تحریک سے اعم سمجھیں۔

جہمیّہ

 اہل سنت علماء نے ''جہم بن صفوان'' کے بارے میں جو کچھ کہا ہے،اس پر غور کرنے سے انسان حیرت زدہ ہو جاتاہے کہ'' جہم'' کے فاسد اور دین مخالف افکار کے باوجود یہ اسے کس طرح مسلمان سمجھتے ہیں اورکس طرح اس کے فرقے کو اسلامی فرقوں میں سے ایک فرقہ سمجھتے ہیں؟! یہ کیوں اس بات پر غور نہیں کرتے کہ دین کی بنیادوں کو ہلا دینے والے اور انہیں جڑ سے اکھاڑ پھینکنے والے افکار  اور فاسد عقائد کس طرح مذہبی افکار و عقائدہو سکتے ہیں؟!

--------------

[1] ۔ دولت عباسیان:75

۱۱۶

 ''جہم''واضح الفاظ میں کہتا تھا:ہر مسلمان باطنی طور پر مسلمان ہو سکتا ہے لیکن ظاہرمیں عیسائیت و یہودیت کااظہار کرے اور عیسائی یا یہودی کے عنوان سے اپنا تعارف کروائے!اور اس کا ایسا عمل  اس کے دین کو کوئی نقصان نہیں پہنچائے گا!

 اس قول کی بنا پر ہر مسلمان اسلام سے دستبردار ہو کر ظاہری طور پر عیسائی یا یہودی ہو سکتا ہے اور صرف دل میں اسلام قبول کرنا ہی کافی ہے!

اس طری''جہم''نے دوسرے باطل فرقوں میں اپنے عقائد کے پیروکاروں کا اضافہ کیا اور بہت سے افراد کو اپنے منحرف عقائد کی طرف جذب کیا۔

     وہ کہتا تھا:ایمان کے لحاظ سے سب مؤمنین کا ایک ہی درجہ ہے حتی کہ پیغمبر اور ان کی امت بھی یکساں ہے۔انسان کوئی بھی عمل انجام دے چاہئے وہ کوئی برا کام یا گناہ ہو پھر بھی اس کے ایمان میں   کوئی کمی  واقع نہیں ہوئی چاہے سب مؤمنین کے اعمال مختلفہوں لیکن ایمان کے لحاظ سے سب یکساں ہیں!

     اس نے اپنے اس انحرافی عقیدے کے ذریعے لوگوں میں آزادی و گناہ کو فروغ دیا اور اس قول سے مسلمانوں کو گناہ،بے پردگی اور نیک کاموں سے دستبردار ہو جانے کی طرف راغب کیا!حقیقت میں اس نے دین کے نام پر دین کی جڑوں پر وار کیا۔

     شہرستانی کہتے ہیں:(1) اپنے اس قول سے '' جہم'' معتزلہ پر بھی بازی لے گیاجو یہ کہتے ہیں: جسے معرفت حاصل ہو گئی اور پھر اس نے زبان کے ذریعے انکار کردیا تو اس نے اس انکار سے کوئی کفر نہیں کیا کیونکہ انکار کے ذریعے معرفت و شناخت ختم نہیں جائے گی اور وہ پہلے کی طرح مؤمن ہے۔     اس کی طرف نسبت دیتے ہیں کہ وہ ایمان کی تعریف میں بہت زیادہ خرافات کہتا تھا اور اسی پر ہی اکتفاء نہیں کرتا تھاکہ ایمان صرف باطنی تصدیق کا نام ہے بلکہ اس کا عقیدہ یہ تھا کہ  جو بھی دل میں ایمان لائے اور بعد میںشرک کرے یا یہودیت و عیسائیت کا اظہار کرے  تویہ عمل اسے دائرۂ ایمان سے خارج نہیں  کرتا!

--------------

[1] ۔  الملل و النحل:801، ملاحظہ کریں''مقالات الاسلامیّین'': ج1ص198

۱۱۷

     وہ کہتا تھا:(1) ایمان ایک  قلبی معاہدہ ہے اور اگر مؤمن کسی تقیہ کے بغیر اپنی زبان سے کفر کا اعلان کرے ،بت پرستی کرے ، اسلامی سرزمین پر یہودیت وعیسائیت کا اقرار کرے،صلیب کی عبادت کرے اور اسلامی شہروں میں تثلیث کاپرچار کرے اور اسی حالت میں  مر جائے تو وہ اسی طرح مؤمن ہے  اور ایمان کامل کے ساتھ خداوند عزوجل کے پاس گیا اور وہ خدا کا دوست اور اہل جنت میں سےہے!

     اس نے مرجئۂ ناب کو ان باتوں سے اپنی طرف کھینچ لیا کہ ایمان میں نہ تو کوئی کمی ہوتی ہے اور   نہ ہی کوئی اضافہ اور ایمان کے لحاظ سے سب مؤمن یکساں ہیں۔

     وہ کہتا تھا:(2) ایمان پارہ پارہ نہیں ہو سکتا یعنی  ایمان عہد و پیمان اور گفتار و کردار میں تقسیم نہیں ہو سکتا اور ایمان رکھنے میں مؤمنوں کو ایک دوسرے پر کوئی برتری نہیں ہے ،پیغمبروں اور امتوں کا ایمان یکساں ہے کیونکہ معارف کو ایک دوسرے پر کوئی فضیلت نہیں ہے۔

     وہ انسان کے مجبور و بے اختیار ہونے میں جبریہناب کی پیروی کرتا تھا۔

     اشعری کہتا ہے:(3) یہ اعتقادات صرف ایک شخص ''جہم'' تک ہی منحصر نہیں ہیں  بلکہ  حقیقت میں کوئی انسان بھی کوئی عمل انجام نہیں دیتا مگر یہ کہ صرف خدائے وحدہ لاشریک ہی اس کا فاعل ہے اور لوگوں کے افعال کومجازی طور پر اسی کی طرف نسبت دی جاتی ہے۔جیسا کہ کہا جاتاہے:درخت نے حرکت کی،آسمان نے گردش کی، سورج غروب ہو گیا،اور درحقیقت یہ خداوند سبحان ہے جو درخت، آسمان اور سورج  کے ساتھ یہ عمل انجام دے رہاہے۔

--------------

[1]۔ الفصل فی الملل و الأھواء و انحل:ج4 ص204

[2]۔ الملل و النحل:ج1ص80، مقالات الاسلامیّین: ج1ص198

[3]۔ مقالات الاسلامیّین: ج1 ص312، الفرق بین الفرق:128 ، الملل و النحل: ج1ص80

۱۱۸

خدا نے صرف انسان کو قوت دی ہے کہ جس کی وجہ سے فعل انجام پا سکے اور اس کے لئے فعل کو انجام دینے کا ارادہ و اختیار الگ سے خلق کیا ہے۔جیسا کہ خدا نے طول کو خلق کیاہے اور آدمی اسی کے مطابق لمبا ہوتا ہے، رنگ کو خلق کیا ہے اور انسان اسی کے مطابق رنگ کو قبول کرتا ہے اور رنگین ہوتا ہے۔

 وہ کہتا تھا:(1) ثواب وعذاب جبر ہے ۔جس طرح تمام افعال جبر کی وجہ سے ہیں اور جہاں بھی جبر ثابت ہو جائے وہاں تکلیف بھی جبر ہو گی۔(2)

اموی دور میں معتزلہ

 بغدادی کتاب''الفرق بین الفرق ''میں لکھتے ہیں: ایک دفعہ حسن بصری اور واصل بن عطای غزال کے درمیان تقدیر اور دومنزلوں کے درمیان منزلت یعنی ایمان و کفر کے درمیان واسطے کے بارے میں اختلاف ہو گیا اور عمرو بن عبید بھی اس بدعت میں اس کے ساتھ تھا۔

 حسن نے اسے اپنی مجلس سے نکال دیا اور وہ بھی مسجد بصرہ کے ایک ستوں کے ساتھ گوشہ نشین ہو کیا ،اور پھر انہیںاور ان کے پیروکاروں کو معتزلہ کا نام دے دیا کیونکہ انہوں نے دوسروں کے عقیدے سے عُزلت اختیار کر لی تھی (یعنی وہ دوسروں کے عقائد سے گوشہ نشین ہو چکے تھے) اور ان کا یہ دعویٰ تھا کہ مسلمانوں میں سے جو بھی فاسق ہو جائے ، وہ نہ تو مؤمن ہے اور نہ ہی کافر۔

 ''برون''معتزلہ کی پیدائش کے بارے میں کہتے ہیں:معتزلہ کی پیدائش اور ان کی وجہ تسمیہ کے بارے میں جوہم تک جو معلومات پہنچی ہیں وہ یہ ہیں کہ واصل بن عطا غزال (جو پارسی نژاد تھا) کا اپنے استاد کے ساتھ  گناہگار مؤمن کے بارے میں اختلاف ہو گیا کہ کیا پھر بھی وہ مؤمن ہے یا نہیں؟

--------------

[1]۔ الملل والنحل: ج1ص80

[2]۔ مرجئہ و جھمیّہ در خراسان اموی:79

۱۱۹

واصل کہتا تھا: ایسے کسی شخص کومؤمن یا کافر نہیں کہا جا سکتا بلکہ اسے ایمان و کفر کی درمیانی منزل میں قرار دینا چاہئے۔

     واصل نے مسجد کے ایک گوشہ میں اپنا ٹھکانہ بنا لیا جہاں وہ کچھ لوگوں کے لئے اپنے عقیدے کی تشریح و وضاحت کرتا تھا اور حسن بصری اپنے اطرافیوں سے کہتا تھا:واصل نے ہم سے کنارہ کشی اختیار کی ہے اس وجہ سے واصل کے دشمنوں نے اسے اور اس کے پیروکاروں کو معتزلہ کا نام دیا۔

     ''دوزی''کے قول کے مطابق حاصل ہونے والی معلومات سے پتہ چلتا ہے کہیہ گروہ عراق یا قدیم بابل میں وجود میں آیاکہ جہاں سامی اور ایرانی نژاد کا آمنا سامنا ہوا اور ایک دوسرے کے ساتھ ملحق گئے اور کچھ مدت کے بعد علوم کا قبلہ بن کیا اور اور کچھ عرصہ کے بعد ہی وہ عباسی حکومت کا مرکز شمار کیا جانے لگا۔

 ''فون کریمر''کے مطابق معتزلہ مذہب دمشق میں رومی مذہبی پیشواؤں کے نفوذ اور بالخصوص یحییٰ دمشقی اور اس کے شاگر''تئودور ابو قرّہ'' کی ذریعے وجود میں آیا۔اس گروہ کا دوسرا نام قدریہ ہے جو ان کے عقیدے پر واضح دلالت کرتا ہے کیونکہ یہ انسان کے ارادے کو آزاد سمجھتے ہیں اور نیز یہ اس حدیث سے بھی مربوط ہے جو انہوں نے قول پیغمبر(ص) سے اخذ کی ہے کہ قدریہ اس امت کے مجوس ہیں۔ کیونکہ یہ گروہ-جیسا کہ ''ستننر''کہتاہے کہ شرّ کے وجود کو جائز سمجھتے ہیں اور انہوں نے ایک دوسرا قاعدہ وضع کیا کہ جو انسان اور خدا کے ارادے کے درمیان ضدّیت پر مبنی تھا۔(1)

مرجئہ ، اموی دور میں

مرجعہ کی تبلیغ کرنا مسلمانوں کو اسلام سے دستبردا کرنے اور انہیں واپس پلٹانے اور انہیں یہودیت و عیسائیت کی طرف لے جانے کے لئے بہت مؤثر سازش تھی۔

لوگوں کی مکتب مرجئہ کی طرف دلچسپی سے اموی اپنی حکومت کو جاری رکھ سکے کیونکہ مرجئہ کے عقیدے کی رو سے بنی امیہ کسی بھی غلطی اور گناہ  کے مرتکب ہو سکتے تھے اور کوئی ان سے مقابلے کے لئے بھی کھڑا نہیں ہو سکتا تھا۔

--------------

[1]۔ تاریخ سیاسی اسلام: (ڈاکٹر حسن بن ابراہیم حسن): ج۱ص۴۱۳

۱۲۰

121

122

123

124

125

126

127

128

129

130

131

132

133

134

135

136

137

138

139

140

141

142

143

144

145

146

147

148

149

150

151

152

153

154

155

156

157

158

159

160

161

162

163

164

165

166

167

168

169

170

171

172

173

174

175

176

177

178

179

180

تعارف تفسیر

تفسیر ابن کثیر منھج اور خصوصیات

ڈاکٹر محمد اکبر ملک،

لیکچررشعبہ اسلامیات، گورنمنٹ ایس ای کالج بہاول پور

عماد الدین ابوالفداء اسماعیل بن عمر بن کثیر ۷۰۱ہجری(۱) میں شام کے شہر بصریٰ کے مضافات میں ”مجدل“ نامی بستی میں پیدا ہوئے۔(۲) اور دمشق میں تعلیم و تربیت پائی۔ آپ نے اپنے عہد کے ممتاز علماء سے استفادہ کیا

____________________

۱۔الداؤی شمس الدین محمد بن علی، طبقات المفسرین/۱/۱۱۲، دارالکتب العلمیه، بیروت لبنان، الطبعة الاولیٰ، ۱۴۰۳ه/۱۹۸۳ء ۔ بعض مورخین نے ابن کثیر کا سن ولادت ۷۰۰ھ قرار دیا ہے۔ ملاحظہ ہو،شذرات الذهب لابن العماد، ۶/۲۳۱، ذیل طبقات الحفاظ لجلال الدین السیوطی، صفحه ۳۶۱، مطبعة التوفیق بد مشق، ۱۳۴۷ه، عمدة التفسیر عن الحافظ ابن کثیر لاحمد محمد شاکر، ۱/۲۲، دارالمعارف القاهرة، ۱۳۷۶ه /۱۹۵۶ء اسماعیل پاشابغدادی، امام ابن کثیر کا زمانہ ولادت ۷۰۵ھ بیان کرتے ہیں۔ ملاحظہ ہو۔هدیة العارفین، اسماء المولفین و آثار المصنیفین، ۱/۲۱۵، وکالة المعارف، استانبول، ۱۹۵۵ء ۔ امام صاحب کے سن ولادت کے بارے میں اسماعیل پاشا البغدادی کا بیان درست معلوم نہیں ہوتا کیونکہ امام صاحب کے والد ۷۰۳ھ میں فوت ہوئے۔ امام ابن کثیر کا اپنا بیان ہے کہ میں اپنے والد کی وفات کے وقت تقریباً تین سال کا تھا۔ ملاحظہ ہو،البدایه والنهایه لابن کثیر، ۱۴/۳۲ خود امام ابن کثیر اپنی کتاب”البدایه والنهایه“ میں ۷۰۱ھ کے واقعات بیان کرنے کے بعد لکھتے ہیں”وفیها ولد کا تبه اسماعیل بن عمر بن کثیر القرشی“ (البدایه والنهایه، ۱۴/۲۱)

۲۔ احمد محمد شاکر، عمدہ التفسیر، ۱/۲۲، بعض ماخذ کے مطابق ابن کثیر دمشق کے مضافات میں مشرقی بصریٰ کی ایک بستی”مجدل القریة“ میں پیدا ہوئے۔ (ملاحظہ ہو، ذیلتذکره الحفاظ لابی المحاسن شمس الدین الحسینی، صفحه ۵۷، مطبعة التوفیق، دمشق، ۱۳۴۷ه) جبکہ مطبوعہ”البدایه والنهایه“ میں”مجیدل القریة“ منقول ہے(البدایه والنهایه ابن کثیر، ۱۴/۳۱) عمر رضا کحالہ نے مقام ولادت ”جندل" تحریر کیا ہے۔(معجم المئولفین، ۳/۲۸۴، مطبعة الترقی بد مشق، ۱۳۷۶ه /۱۹۵۷ء)

۱۸۱

اور تفسیر، حدیث، فقہ، اصول، تاریخ، علم الرجال اور نحو عربیت میں مہارت حاصل کی۔(۳) آپ نے ۷۷۴ہجری میں دمشق میں وفات پائی اور مقبرہ صوفیہ میں مدفون ہوئے۔(۴) امام ابن کثیر بحیثیت مفسر، محدث، مورخ اور نقاد ایک مسلمہ حیثیت کے حامل ہیں۔ آپ نے علوم شرعیہ میں متعدد بلند پایہ کتب تحریر کیں۔”تفسیر القرآن العظیم“ اور ضخیم تاریخ”البدای والنهای“ آپ کی معروف تصانیف ہیں جن کی بدولت آپ کو شہر ت دوام حاصل ہوئی۔ زیر نظر مضمون اول الذکر کتاب کے تذکرہ پر مشتمل ہے۔

__________________

۳۔الذهبی، شمس الدین، تذکرة الحفاظ، ۴/۱۵۰۸، مطبعة مجلس دائرة المعارف العثمانیه، حید ر آباد دکن الهند، ۱۳۷۷ه ۱۹۵۸ء، ابن العماد، شذرات الذهب، ۶/۲۳۱، الشوکانی محمد بن علی، البدر الطالع بمحاسن من بعد القرآن السابع، مطبعة السعادة القاهرة، الطبعة الاولیٰ، ۱۳۴۸ه

۴۔النعیمی، عبدالقادر بن محمد، الدارس فی تاریخ المدارس، ۱/۳۷، مطعبة الترقی، دمشق، ۱۳۶۷ء۷۰ه

۱۸۲

تعارف تفسیر:

علامہ ابن کثیر نے قرآن کی جو تفسیر لکھی وہ عموماً تفسیرابن کثیر کے نام سے معروف ہے اور قرآن کریم کی تفاسیر ماثورہ میں بہت شہرت رکھتی ہے۔ اس میں مولف نے مفسرین سلف کے تفسیری اقوال کو یکجا کرنے کا اہتمام کیا ہے اور آیات کی تفسیر احادیث مرفوعہ اور اقوال و آثار کی روشنی میں کی ہے۔ تفسیر ابن جریر کے بعد اس تفسیر کو سب سے زیادہ معتبر خیال کیا جاتا ہے۔ اس کا قلمی نسخہ کتب خانہ خدیو یہ مصر میں موجود ہے۔ یہ تفسیر دس جلدوں میں تھی۔ ۱۳۰۰ء میں پہلی مرتبہ نواب صدیق حسن خان کی تفسیر ”فتح البیان“ کے حاشیہ پر بولاق، مصر سے شائع ہوئی۔ ۱۳۴۳ء میں تفسیر بغوی کے ہمراہ نو جلدوں میں مطبع المنار، مصر سے شائع ہوئی۔ پھر ۱۳۸۴ء میں اس کو تفسیر بغوی سے الگ کر کے بڑے سائز کی چار جلدوں میں مطبع المنار سے شائع کیا گیا۔ بعدازاں یہ کتاب متعدد بار شائع ہوئی ہے۔ احمد محمد شاکر نے اس کو بحذف اسانید شائع کیا ہے۔ محققین نے اس پر تعلیقات اور حاشیے تحریر کیے ہیں۔ سید رشید رضا کا تحقیقی حاشیہ مشہور ہے۔ علامہ احمد محمد شاکر (م۱۹۵۸) نے ”عمدة التفسیر عن الحافظ ابن کثیر“ کے نام سے اس کی تلخیص کی ہے۔ اس میں آپ نے عمدہ علمی فوائد جمع کیے ہیں۔ لیکن یہ نامکمل ہے۔ اسکی پانچ جلدیں طبع ہو چکی ہیں اور اختتام سورة انفال کی آٹھویں آیت پر ہوتا ہے۔

محمد علی صابونی نے ”تفسیر ابن کثیر“ کو تین جلدوں میں مختصر کیا اور ”مختصرتفسیر ابن کثیر“ کے نام سے اسے ۱۳۹۳ء میں مطبع دارالقرآن الکریم، بیروت سے شائع کیا بعد ازاں محمد نسیب رفاعی نے اس کو چار جلدوں میں مختصر کیا اور اسے ”تیسرالعلی القدیر لاختصار تفسیر ابن کثیر“ کے نام سے موسوم کیا۔ یہ ۱۳۹۲ء میں پہلی مرتبہ بیروت سے شائع ہوئی۔

ماخذ :

علامہ ابن کثیر نے اپنی ”تفسیر“ کی ترتیب و تشکیل میں سینکڑوں کتب سے استفادہ کیا ہے اور بے شمار علماء کے اقوال و آراء کو اپنی تصنیف کی زینت بنایا ہے۔ چند اہم ماخذ کے نام یہ ہیں۔

۱۸۳

تفاسیر قرآن :

طبری، قرطبی، رازی، ابن عطیة، ابو مسلم الاصفهانی، واحدی، زمخشری، وکیع بن جراح، سدی، ابن ابی حاتم، سنید بن داؤد، عبد بن حمید، ابن مردویة وغیرہ۔

علوم قرآن :

فضائل القرآن ابوعبیدة القاسم، مقدمة فی اصول تفسیر ابن تیمیة وغیرہ۔

کتب حدیث:

صحاح ستة، صحیح ابن حبان، صحیح ابن خزیمة، مؤطا امام مالک، مستدرک حاکم، سنن دارقطنی، مسند امام شافعی، مسند دارمی، مسند ابویعلی الموصلی، مسند عبد بن حمید، مسند ابو بکر البزار، معجم کبیر طبرانی وغیرہ۔

کتب تراجم اور جرح و تعدیل:

التاریخ الکبیر امام بخاری، مشکل الحدیث ابو جعفر الطحاوی، الجرح والتعدیل ابن ابی حاتم، الاستیعاب فی معرفة الاصحاب ابن عبدالبر، الموضوعات ابن الجوزی وغیرہ۔

کتب سیرت و تاریخ:

سیرة ابن اسحاق، سیرة ابن هشام، مغازی سعید بن یحییٰ اموی، مغازی واقدی، دلائل نبوة بیهقی، الروض الانف سهیلی، التنویرفی مولد السراج المنیر عمر بن وحیه الکلبی، تاریخ ابن عساکر وغیره ۔

۱۸۴

فقہ و کلام:

کتاب الام امام شافعی، الارشادفی الکلام امام الحرمین، کتاب الاموال ابوعبیدالقاسم، الاشراف علی مذاهب الاشراف ابن هبیره وغیرہ۔

لغات:

الصحاح ابونصر جوهری، معانی القرآن ابن زیاد الفراء وغیره

ان مصادر کے علاوہفضائل شافعی ابن ابی حاتم، کتاب الآثار و الصفات بیهقی، کشف الغطاء فی تبیین الصلوٰ ة الوسطیٰ و میاطی، کتاب التفکر والا اعتبار ابن ابی الدنیا، السر المکتوم رازی اور دیگر متعدد کتب کے حوالے بھی ہمیں زیر بحث کتاب میں ملتے ہیں، جن سے ابن کثیر کے وسعت مطالعہ اور تحقیقی میدان میں دلچسپی کا اندازہ ہوتا ہے۔

حافظ ابن کثیر نے اپنی کئی تصانیف کے حوالے بھی ”تفسیر“ میں دئیے ہیں، مثلاًالبدایه والنهایه کتاب السیرة الاحکام الکبیر صفته النار، احادیث الاصول، جزء فی ذکر تطهیر المساجد، جزء فی الصلوٰة الوسطیٰ، جزء فی ذکر فضل یوم عرفه، جزء فی حدیث الصور وغیره ۔(۵) ۔

____________________

۵۔ ابن کثیر، عماد الدین اسماعیل بن عمر، تفسیر القرآن العظیم، ملاحظہ کیجئے بالترتیب: ۱/۳۶۳،۳/۴۷۸، ۱/۷۹، ۳۲۷،۴۵۷،۴/۵۴۳،۱/۵۵۵،۳/۲۹۲،۱/۲۹۴،۱/۲۴۳،۲/۱۴۹، امجد اکیڈمی لاہور،الباکستان، ۱۴۰۳ھ /۱۹۸۲ء۔

۱۸۵

منھج:

تفسیرکے اصولوں کا التزام :

علامہ ابن کثیر نے زیر تبصرہ کتاب کا نہایت مفصل مقدمہ تحریر کیا ہے اور تفسیر کے درج ذیل اصول متعین کیے ہیں:تفسیر القرآن بالقرآن تفسیر القرآن بالسنة تفسیر القرآن باقوال الصحابة تفسیر القرآن باقوال التابعین (۶)

یہ مرکزی اور بنیادی اصول تفسیر ابن کثیر میں یکساں طور پر بالترتیب نظر آتے ہیں۔ امام موصوف سلیس اور مختصرعبارت میں آیات کی تفسیر کرتے ہیں ایک آیت کے مفہوم کو واضح کرنے کے لیے کئی قرآنی آیات یکے بعد دیگرے پیش کرتے ہیں اور اس سے متعلق جملہ معلوم احادیث ذکر کرتے ہیں، بعدازاں صحابہ،تابعین اور تبع تابعین کے اقوال و آثاردرج کرتے ہیں۔ اس انداز میں مثالیں ان کی تفسیر میں بکثرت پائی جاتی ہیں۔ سورة المومنون کی آیت۵۰ :

( وَجَعَلْنَا ابْنَ مَرْیَمَ وَاُمَّه اٰیٰةً وَّ اٰوَیْنٰهُمَآ اِلٰی رَبْوَةٍ ذَاتِ قَرَارٍ وَّمَعِیْنٍ )

کی تفسیر میں متعددروایات و اقوال نقل کیے ہیں اور مختلف مفاہیم بیان کیے ہیں۔ ایک مفہوم کو ترجیح دیتے ہوئے لکھتے ہیں۔

”یہ مفہوم زیادہ ”واضح اور ظاہر ہے، اس لیے کہ دوسری آیت میں بھی اس کا تذکرہ ہے، اور قرآن“ کے بعض حصے دوسرے حصوں کی تفسیر کرتے ہیں اور یہی سب سے عمدہ طریقہ تفسیرہے، اس کے بعد صحیح حدیثوں کا اور ان کے بعد آثار کا نمبر آتا ہے۔"(۷)

____________________

۶۔ تفصیل کیلئے دیکھئیے، تفسیر ابن کثیر ۱/۳۔ ۶

۷۔ ایضاً۳/۲۴۶۔

۱۸۶

نقد و جرح:

حافظ ابن کثیر ایک بلند پایہ محدث تھے، اس لیے انہوں نے محدثانہ طریق پر یہ کتاب مرتب کی ہے اور نہایت احتیاط سے صحیح حدیثوں کے انتخاب کی کوشش کی ہے۔ وہ دوران بحث جرح و تعدیل کے اصولوں کو بروئے کار لاتے ہوئے صحیح روایات کو نکھار کر پیش کرتے ہیں،بعض روایات کو ضعیف قرار دیتے ہیں جبکہ غلط اور فاسد روایتوں کی تردید کرتے ہیں، مثلاً آیت( یَوْمَ نَطْوِی السَّمَآءَ کَطَیِّ السِّجِلِّ لِلْکُتُبِ ) (الانبیاء: ۱۰۴) کے بارے میں ابن عمر سے روایت ہے کہ سجل آنحضور کے ایک کاتب کا نام تھا۔ اس پر تنقید کرتے ہوئے ابن کثیر تحریر کرتے ہیں:

”یہ منکر روایت ہے اور یہ قطعاً صحیح نہیں۔ ابن عباس سے بھی جو روایت بیان کی جاتی ہے، وہ ابوداؤد میں ہونے کے باوجود غلط ہے۔ حفاظ کی ایک جماعت نے اس کی وضعیت پر ایک مستقل رسالہ تحریر کیا ہے اور ابن جریر نے بھی اس کا نہایت پر زور رد کیا ہے۔ اس روایت کے ضعیف ہونے کا سب سے بڑا ثبوت یہ ہے کہ رسول اللہ کے تمام کاتبین وحی نہایت مشہور لوگ ہیں ان کے نام معروف ہیں۔ صحابہ میں بھی کسی کا نام سجل نہ تھا۔"(۸)

علامہ ابن کثیر مختلف روایتوں کے متعدد طرق و اسناد کا ذکر کے روات پر بھی جرح کرتے ہیں مثلاً سورة البقرة کی آیت ۱۸۵:

( هُدًی لِّلنَّاسِ وَبَیِّنٰاتٍ مِّنَ الْهُدٰی )

کے تحت ابومعشر نجیح بن عبد الرحمن المدنی کو ضعیف قرار دیا ہے(۹)

____________________

۸۔ ایضاً۳/۲۰۰۔ خود ابن کثیر نے بھی حدیث سجل کے رد میں ایک جزء تحریر کیا ہے جس کا حوالہ انہوں نے اپنی تفسیر میں دیا ہے، ملاحظہ ہو صفحہ مذکور۔

۹۔ ابن کثیر، تفسیر، ۱/۲۱۶۔

۱۸۷

اسی طرح سورہ مذکورہ کی آیت ۲۵۱:

( وَ لَوْلَا دَفْعُ اللّٰهِ النَّاسَ بَعْضَهُمْ بِبَعْضٍ لَّفَسَدَتِ الْاَرْضُ )

کی تفسیر میں مختلف طرق سے ایک روایت بیان کی ہے اور یحییٰ بن سعید کو ضعیف قرار دیا ہے۔(۱۰)

سورة نساء کی آیت۴۳:

( یٰٓاَیُّهَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا لَاتَقْرَبُوا الصَّلٰوٰةَ وَلَا جُنُبًا اِلَّا عَابِرِیْ سَبِیْلٍ حَتّٰی تَغْتَسِلُوْا )

کی تفسیر میں سالم بن ابی حفصہ کو متروک اور ان کے شیخ عطیہ کوضعیف قرار دیا ہے۔(۱۱) اسی سورت کی آیت ۹۳:

( وَمَنْ یَّقْتُلْ مُؤْمِنًا مَُّتَعَمِّدًا فَجَزَآؤُه جَهَنَّمُ الخ ) کے سلسلے میں فرماتے ہیں۔ ابن مردویہ میں حدیث ہے کہ جان بوجھ کر ایمان دار کو مار ڈالنے والا کافر ہے یہ حدیث منکر ہے اور اس کی اسناد میں بہت کلام ہے۔(۱۲) ابن کثیر نے حدیث کے ساتھ ساتھ آثار صحابہ اور اقوال تابعین بھی کثرت سے نقل کئے ہیں لیکن ان کی صحت جانچنے کے لئے یہاں بھی انہوں نے بحث وتنقید کا معیار برقرار رکھا ہے اور ان کی تائید وتردید میں اپنی معتبر رائے کا اظہار کیا ہے مثلاً سورة النساء کی آیت ۴۱:

( فَکَیْفَ اِذَا جِئْنَا مِنْ کُلِّ اُمَّةٍ بِشَهِیْدٍ الخ )

کی تفسیر میں ابوعبداللہ قرطبی کی کتاب ”تذکرہ“ کے حوالے سے حضرت سعید بن مسّیب کا قول نقل کرتے ہیں اور پھرفرماتے ہیں۔ ”یہ اثر ہے اور اس کی سند میں انقطاع ہے۔ اس میں ایک راوی مبُہم ہے، جس کا نام ہی نہیں نیز یہ سعید بن مسیب کا قول ہے جو حدیث مرفوع بیان ہی نہیں کرتے۔ "(۱۳)

____________________

۱۰۔ ایضاً، ۱/۳۰۳۔ ۱۱۔ ایضاً،۱/۵۰۱ ۱۲۔ ایضاً ۱/۵۳۶۔ ۱۳۔ ایضاً،۱/۴۹۹

۱۸۸

جرح وقدح کے ضمن میں ابن کثیر تاریخ غلطیوں اور حوالوں کی بھی تردید کرتے ہیں،مثلاً

( واذا تتلیٰ علیهم اْٰیٰتناٰ قالو اقد سمعنا لونشآ ء لقلنا مثل هذا ) (الانفال: ۳۱)

کے تحت لکھتے ہیں: ”حضور نے بدر کے روز تین قیدیوں کے قتل کا حکم دیا تھا۔ (۱) عقبہ بن ابی معیط (۲) طعیمہ بن عدی (۳) نضر بن حارث۔ سعید بن جبیر نے ایک روایت میں طعیمہ کی بجائے مطعم بن عدی کا نام بتایا ہے۔ یہ بات غلط ہے، کیونکہ مطعم بن عدی تو بدر کے روز زندہ ہی نہیں تھا، اس لیے اس روز حضور نے فرمایا تھا کہ اگر آج مطعم بن عدی زندہ ہوتا اور ان مقتولین میں سے کسی کا سوال کرتا میں تو اس کو وہ قیدی دے دیتا۔ آپ نے یہ اس لیے فرمایا تھاکہ مطعم نے آنحضرت کو اس وقت تحفظ دیا تھا جب آپ طائف کے ظالموں سے پیچھا چھڑا کر مکہ واپس آرہے تھے۔"(۱۴)

شان نزول کا بیان:

اگر کسی سورة یا آیت کا شان نزول ہے تو اما م ابن کثیر اپنی ”تفسیر“ میں اس کا تذکرہ کرتے ہیں، مثلاً سورة بقرة کی آیت ۱۰۹:

( ودکثیر من اهل الکتاب لویر دونکم من بعد ایمانکم )

کے تحت لکھتے ہیں: ”ابن عباس سے روایت ہے کہ حی بن اخطب اور ابویا سر بن اخطب دونوں یہودی مسلمانوں کے سب سے زیادہ حاسد تھے اور وہ لوگوں کو اسلام سے روکتے تھے، ان کے بارے میں یہ آیت نازل ہوئی۔ زہری کہتے ہیں کہ کعب بن اشرف شاعر تھا اور وہ اپنی شاعری میں نبی کی ہجو کیا کرتا تھا۔ اس کے بارے میں یہ آیت نازل ہوئی۔"(۱۵) سورة اخلاص کا شان نزول اس طرح بیان کیا ہے:

____________________

۱۴۔ ایضاً۲/۳۰۴ ۱۵۔ ایضاً۱/۱۵۳۔

۱۸۹

”مسند احمد میں ہے کہ مشرکین نے حضور سے کہا اپنے رب کے اوصاف بیان کرو اس پر یہ آیت اتری اور حافظ ابویعلی موصلی کہتے ہیں کہ ایک اعرابی نے رسول کریم سے یہ سوال کیا اس کے جواب میں یہ سورہ اتری۔(۱۶)

فقہی احکام کا بیان :

ابن کثیر احکام پر مشتمل آیات کی تفسیر کرتے ہوئے فقہی مسائل پر بحث کرتے ہیں اور اس سلسلے میں فقہا کے اختلافی اقوال و دلائل بیان کرتے ہیں، مثلاً سورة بقرہ کی آیت

( قد نری تقلب وجهک فی السماء الخ )

کے تحت لکھتے ہیں: ”مالکیہ نے اس آیت سے استدلال کیا ہے کہ نمازی حالت نماز میں اپنے سامنے اپنی نظر یں رکھے نہ کہ سجدہ کی جگہ جیسا کہ شافعی، احمد اور ابو حنیفہ کا مسلک ہے، اس لیے کہ آیت کے لفظ یہ ہیں۔

( فول و جهک شطر المسجد الحرام )

یعنی مسجد حرام کی طرف منہ کرو اور اگرسجدے کی جگہ نظر جمانا چاہے گا تو اسے قدرے جھکنا پڑے گا اور یہ تکلف خشوع کے خلاف ہو گا۔ بعض مالکیہ کایہ قول بھی ہے کہ قیام کی حالت میں اپنے سینے پر نظر رکھے۔ قاضی شریح کہتے ہیں کہ قیام میں سجدے کی جگہ نظر رکھے جیسا کہ جمہور علماء کا قول ہے اس لیے کہ اس میں پورا پورا خشوع وخضوع ہے۔ اس مضمون کی ایک حدیث بھی موجود ہے اور رکوع کی حالت میں اپنے قدموں کی جگہ نظر رکھے اور سجدے کے وقت ناک کی جگہ اور قعدہ کی حالت میں اپنی آغوش کی طرف۔(۱۷)

____________________

۱۶۔ ایضاً،۵۶۵

۱۷۔ ایضاً،۱/۱۹۳

۱۹۰

( فمن شهد منکم الشهر ) (البقرة: ۱۸۵)

کی تفسیر میں مولف نے چار مسائل کا ذکر کر کے اس بارے میں علما ء کے مختلف مسالک اور ان کے براہین و دلائل بیان کیے ہیں۔(۱۸)

سورہ نساء کی آیت ۴۳ کے تحت تیمم کے مسائل اور احکام ذکر کیے گئے ہیں۔(۱۹)

( لایواخذکم اللّٰه باللغوفی ایمانکم ) (سورة المائدہ:۸۹)

کے تحت قصداً قسم کے سلسلے میں کفارہ ادا کرنے کے مسائل بیان کئے گئے ہیں(۲۰) امام ابن کثیر فقہی مسائل میں عموماً شافعی مسلک کی تائید کرتے ہیں۔

روایات و قول میں تطبیق:

ابن کثیر مختلف و متضاد روایات میں جمع و تطبیق کی کوشش کرتے ہیں اور ان کے مابین محاکمہ کرتے ہیں۔ مثلاً سورة آلِ عمران کی آیت ۱۶۹

( ولاتحسبن الذین قتلوا فی سبیل الله امواتاً بل احیاً ء عند ربهم یرزقون ) کی تفسیر میں لکھتے ہیں : صحیح مسلم میں ہے، مسروق کہتے ہیں ہم نے عبد اللہ ابن مسعود سے اس آیت کا مطلب پوچھا تو حضرت عبداللہ نے فرمایا کہ ہم نے رسول اللہ سے اس آیت کا مطلب دریافت کیا: آپ نے فرمایا: شہیدوں کی روحیں پرندوں کے قالب میں ہیں اور ان کیلئے عرش کی قند یلیں ہیں۔ وہ ساری جنت میں جہاں کہیں چاہیں، کھائیں پےئیں اور قندیلیوں میں آرام کریں۔

___________________

۸۱۔ ایضاً،۱/۲۱۶۔ ۲۱۷ ۱۹۔ ایضاً، ۱/۵۰۵،۴،۵ ۲۰۔ ایضاً،۲/۸۹۔ ۹۱

۱۹۱

لیکن مسند احمد میں ہے کہ شہید لوگ جنت کے دروازے پر نہر کے کنارے سبز گنبد میں ہیں۔ صبح و شام انہیں جنت کی نعمتیں پہنچ جاتی ہیں۔ دونوں حدیثوں میں تطبیق یہ ہے کہ بعض شہداء وہ ہیں جن کی روحیں پرندوں کے قالب میں ہیں اور بعض و ہ ہیں جن کا ٹھکانہ یہ گنبد ہے۔ اور یہ بھی ہو سکتا ہے کہ وہ جنت میں سے پھرتے پھراتے یہاں جمع ہوتے ہوں اور پھر انہیں یہیں کھانے کھلائے جاتے ہوں۔” والله اعلم‘‘ (۲۱)

آپ مختلف تفسیری اقوال میں بھی تطبیق دیتے ہیں مثلاً سورة قصص کی آیت (۸۵) ”لر آدک الیٰ معاد“ کے بارے میں حضرت عبداللہ بن عباس کے تین قول نقل کیے ہیں (۱) موت (۲) جنت (۳) مکہ۔ ان تینوں اقوال میں یوں تطبیق دی ہے کہ مکہ کا مطلب فتح مکہ ہے جوحضوراکرم کی موت کی قربت کی دلیل ہے اور روز قیامت مراد لینے کا مطلب یہ ہے کہ وہ بہر حال موت کے بعد ہی ہو گا اور جنت اس لیے کہ تبلیغ رسالت کے صلہ میں آپ کا ٹھکانہ وہی ہو گا۔(۲۲)

قرآنی آیات کا ربط و تعلق:

ابن کثیر قرآن مجید کے ربط و نظم کے قائل تھے۔ وہ اپنی ”تفسیر" میں آیات کے باہمی تعلق اور مناسبت کو اس طرح بیان کرتے ہیں کہ قرآن پاک ایک مربوط منظم کتاب نظر آتی ہے، اس سلسلے میں متعدد مثالیں ”تفسیر ابن کثیر“ میں نظر آتی ہیں مثلاً آیت

( انما الصدٰقٰت للفقرآء والمساکین ) (سورہ توبہ: ۶۰) کے سلسلے میں رقمطر از ہیں۔

___________________

۲۱۔ ایضاً،۱/۴۲۶۔ ۴۲۷

۲۲۔ ایضاً،۳/۴۰۳

۱۹۲

”سورة توبہ کی آیت ۵۸( ومنهم من یلمزک فی الصدقت )

میں ان جاھل منافقوں کا ذکر تھا جو ذات رسول پر تقسیم صدقات کے سلسلے میں اعتراض کرتے تھے۔ اب یہاں اس آیت میں فرمایا کہ تقسیم زکوةٰ پیغمبر کی مرضی پر موقوف نہیں بلکہ ہمارے بتلائے ہوئے مصارف میں ہی لگتی ہے، ہم نے خود اس کی تقسیم کر دی ہے، کسی اور کے سپرد نہیں کی۔"(۲۳) ( اولئٓک یجزون الغرفة بما صبروا ) (سورہ الفرقان: ۷۵،۷۶) کے متعلق فرماتے ہیں۔ ’چونکہ خدائے رحمن نے اس سے پہلی آیات میں اپنے مومن بندوں کے پاکیزہ اوصاف اور عمدہ طور طریقوں کا ذکر کیا تھا، اس لیے اس کی مناسبت سے اس آیت میں ان اجزا کا ذکر کیا ہے۔"(۲۴)

قرآن مجید میں بعض مقامات پر مومن اور باطل فرقوں کیلئے اسلوب تقابل اختیار کیا گیا ہے جو اس کے منظم و مربوط ہونے کی بہت بڑی دلیل ہے علامہ ابن کثیر نے یہاں بھی آیتوں کی مناسبت اور ان کا باہمی ربط بیان کیا ہے، مثلاً

( وبشرالذین امنوا وعملو الصٰالحٰتِ ) (سورةالبقرة :۲۵)

کے بارے میں تحریر کرتے ہیں۔ ”چونکہ اللہ تعالی نے پہلے اپنے دشمنوں یعنی بدبخت کفار کی سزا اور رسوائی کا تذکرہ کیا تھا، اس لیے اب اس کی مناسبت سے یہاں اس کے مقابلہ میں اپنے دوستوں یعنی خوش قسمت ایماندار، صالح و نیک لوگوں کے اجر کا ذکر کر رہا ہے اور صحیح قول کے مطابق قرآن مجید کے مثالی ہونے کا یہی مطلب ہے کہ ایمان کے ساتھ کفر اور سعادتمندوں کے ساتھ بدبختوں یا اس کے برعکس یعنی کفر کے ساتھ ایمان اور بدبختوں کے ساتھ سعادتمندوں کا تذکرہ کیا جائے۔ اس بحث کا حاصل یہ ہے کہ اگر کسی چیز کے ساتھ اس کے مقابل کا ذکر کیا جائے تو یہ مثانی کہلائے گا اور اگر کسی چیز کے ساتھ اسکے امثال و نظائر کا تذکرہ کیا جائے تو یہ متشابہ ہو گا۔"(۲۵)

__________________

۲۳۔ ایضاً،۲/۳۶۴ ۲۴۔ ۲/۳۶۴ ۲۴۔ ایضاً، ۳/۳۳۰ ۲۵۔ ایضاً، ۱/۶۲

۱۹۳

حروف مقطعات پر بحث:

حروف مقطعات کے بارے میں امام ابن کثیر کا نقطہ نظریہ ہے:

”جن جاہلوں کا یہ خیال ہے کہ قرآن کی بعض چیزوں کی حیثیت محض تعبدی ہے، وہ شدید غلطی پر ہیں۔ یہ تو بہر حال متعین ہے کہ ان حروف (مقطعات ) کے کوئی نہ کوئی معنی ضرور ہیں، خدا نے ان کو عبث نازل نہیں فرمایا، اگر ان کے متعلق نبی کریم سے کوئی بات ثابت ہو گی تو ہم اسے بیان کرینگے اور اگر حدیث سے کوئی بات معلوم نہ ہو گی تو ہم توقف کریں گے اور یہ کہیں گے کہ (امنابہ کل من عندہ ربنا )۔ حروف مقطعات کے متعلق علمائے امت کا کسی ایک قول اور مفہوم پر اجماع نہیں ہے بلکہ اختلافات ہیں، اس لیے اگر کسی دلیل سے کسی کے نزدیک مفہوم زیادہ واضح ہے تو اس کو وہ مفہوم اختیار کر لینا چاہیے، ورنہ حقیقت حال کے انکشاف تک توقف کرنا چاہیے۔"(۲۶)

ابن کثیر نے زیر بحث کتاب میں حروف مقطعات پر عمدہ بحث کی ہے اس سلسلے میں وہ مختلف مفسرین کے اقوال کی روشنی میں ان کے معانی ومفاہیم متعین کرنے کی کوشش کرتے ہیں(۲۷)

فضائل السورآیات:

”تفسیر ابن کثیر“ میں سورتوں اور آیتوں کے فضائل و خصوصیات، آنحضور کا ان پر تعامل اور امت کو ترغیب و تلقین کا تذکرہ پایاجاتا ہے۔ اس سلسلے میں ابن کثیر نے اہم کتب احادیث کے علاوہ امام نسائی کی معروف تصنیف”عمل الیوم واللیلة“ اور امام بیہقی کی”کتاب الخلافیات“ سے بھی استفادہ کیا ہے۔ زیر تبصرہ کتاب کے آغاز میں سورة البقرہ اور سورة آلِ عمران کے فضائل کا مفصل بیان ہے۔ اسی طرح آیت( ولقد اتیناک سبعاً من المثانی ) (سورہ الحجر: ۸۷)

___________________

۲۶۔ ایضاً، ۱/۳۷ ۲۷۔ ایضاً، ۱/۳۵۔ ۳۸

۱۹۴

کے تحت سبع مثانی کی تفسیر میں سات مطول سورتوں بشمول سورة البقرہ وآلِ عمران کے فضائل و خصائص تحریر کیے گئے ہیں۔(۲۸)

امام ابن کثیر سورہ حشر کی آخری تین آیتوں کے متعلق فرماتے ہیں:

”مسند احمد کی حدیث میں ہے کہ جو شخص صبح کو تین مرتبہ

اعوزبالله السمیع العلیم من الشیطان الرجیم

پڑھ کر سورة حشر کی آخری تین آتیوں کو پڑھ لے تو اللہ تعالیٰ اس کیلئے ستر ہزار فرشتے مقرر کرتا ہے جو شام تک اس پر رحمت بھیجتے ہیں اور اگر اسی دن اس کا انتقال ہو جائے تو شہادت کا مرتبہ پاتا ہے اور جو شخص ان کی تلاوت شام کے وقت کرے، وہ بھی اسی حکم میں ہے“(۲۹) امام صاحب ایک جگہ لکھتے ہیں کہ ”جادو کو دور کرنے اور اس کے اثر کو زائل کرنے کیلئے سب سے اعلیٰ چیز معوذ تان یعنی سورة الفلق اور سورة الناس ہیں۔ حدیث میں ہے کہ ان جیسا کوئی تعویذ نہیں۔ اسی طرح آیت الکرسی بھی شیطان کو دفع کرنے میں اعلیٰ درجہ کی چیز ہے۔"(۳۰)

اشعار سے استشھاد:

ابن کثیر نے اپنی تفسیر میں ایک انداز یہ بھی اختیار کیا ہے کہ وہ کسی آیت کے معنی و مفہوم کو واضح کرنے کیلئے حسب موقع عربی اشعار پیش کرتے ہیں۔ یہ طرز غالباً انہوں نے طبری سے حاصل کیا ہے۔ آیت( قل متاع الدنیا قلیل وًالاخرة خیر لمن اتقیٰ ) ۔ (النساء : ۷۷) کی تفسیر بیان کرتے ہوئے موصوف نے ابومصہر کے یہ اشعار بیان کیے ہیں۔

____________________

۲۸۔ ایضاً، ۱/۳۲۔ ۳۵ نیز ملاحظہ کیجئے ۲/۵۵۷ ۲۹۔ ایضاً، ۴/۳۴۴ ۳۰ ایضاً، ۱/۱۴۸

۱۹۵

ولاخیر فی الدنیا لمن لم یکن له

من اللّٰه فی دارالمقام نصیب

فان تعجب الدنیا رجالا فانها

متاع قلیل والزوال قریب(۳۱)

(اس شخص کیلئے دنیا میں کوئی بھلائی نہیں جس کو اللہ کی طرف سے آخرت میں کوئی حصہ ملنے والا نہیں۔ گو یہ دنیا بعض لوگوں کو پسندیدہ معلوم ہوتی ہے، لیکن دراصل یہ معمولی سافائدہ ہے۔ اور وہ بھی ختم ہونے والا ہے)۔

( وَإِنِّي لَأَظُنُّكَ يَا فِرْعَوْنُ مَثْبُورًا ) (سورہ بنی اسرائیل : ۱۰۲)

میں لفظ ”مثبور“ کے معنی ہلاک ہونا۔ ابن کثیر کہتے ہیں کہ یہ معنی عبداللہ بن زبعریٰ کے اس شعر میں بھی ہیں:۔

”اذا جار الشیطٰین فی سنن الغی

ومن مال میله مثبور"(۳۲)

جب شیطان سرکشی کے طریقوں پر چلتا ہے

اور پھر جو لوگ بھی سکے طریقے پر چلیں تو وہ ہلاک ہو جاتے ہیں۔

____________________

۳۱۔ ایضاً، ۱/۵۲۶ ۳۲۔ ایضاً، ۳/۶۷

۱۹۶

لغت عرب سے استدلال:

ابن کثیر تفسیر میں لغت سے بھی استدلال کرتے ہیں اور اقوال عرب کو نظائر و شواہد کے طور پر پیش کرتے ہوئے آیت کی تشریح و توضیح کرتے ہیں مثلاً( فقلیلا مایوٴمنون ) (البقرة : ۸۸) کے متعلق لکھتے ہیں : ”اس کے ایک معنی یہ ہیں کہ یہ بالکل ایمان نہیں رکھتے ہیں، جیسے عرب کہتے ہیں۔(فلما رأیت مثل هذاقط ) مطلب یہ ہے کہ میں نے اس جیسا بالکل نہیں دیکھا۔"(۳۳)

( يَسْأَلُونَكَ مَاذَا أُحِلَّ لَهُمْ ۖ قُلْ أُحِلَّ لَكُمُ الطَّيِّبَاتُ ۙ وَمَا عَلَّمْتُم مِّنَ الْجَوَارِحِ مُكَلِّبِينَ ) (سورةالمائدة : ۴)

کی تفسیر میں لفظ ”جوارح“ کو زیر بحث لاتے ہیں اور لکھتے ہیں: ”شکاری حیوانات کو جوارح اس لیے کہا گیا ہے کہ جرح سے مراد کسب اور کمائی ہے، جیسے کہ عرب کہتے ہیں”فلان جرح اهله خیراً“ یعنی فلاں شخص نے اپنے اہل و عیال کیلئے بھلائی حاصل کر لی ہے۔ نیز عرب کا ایک قول یہ بھی ہے”فلاں لا جارح له" یعنی فلاں شخص کا کوئی کمانے والانہیں۔"(۳۴)

جمہور مفسرین اور ابن کثیر:

ابن کثیر اپنی ”تفسیر" میں متقد مین علمائے تفسیر کے مختلف اقوال کا قدر مشترک تلاش کر کے اس کو ہم معنی ثابت کرتے ہیں اور اکثر جمہور علماء اہل سنت والجماعت کے نقطہء نظر سے اتفاق کرتے ہیں مثلاً آیت

( وَمَن كَانَ مَرِيضًا أَوْ عَلَىٰ سَفَرٍ فَعِدَّةٌ مِّنْ أَيَّامٍ أُخَرَ ) (سورةالبقرة ۱۸۵) کے تحت ابن کثیر قضاء روزوں کے مسئلہ پر جمہور کا یہ مسلک اختیار کرتے ہیں کہ قصاء روزے پے در پے رکھنا واجب نہیں بلکہ یہ مرضی پر منحصر ہے کہ ایسے روزے الگ الگ دنوں میں رکھے جائیں یا متواتر دنوں میں(۳۵)

___________________

۳۳۔ ایضاً،۱/۱۲۴ ۳۴۔ ایضاً، ۲/۱۶ ۳۵۔ ایضاً، ۱/۲۱۷۔

۱۹۷

ابن کثیر نقل و روایت میں مقلد جامدنہ تھے بلکہ ان کی تنقید و تردید بھی کرتے تھے، اس لیے وہ سلف کی تفسیروں کے پابند ہونے کے باوجود بعض اوقات ان کی آراء سے اختلاف بھی کرتے ہیں مثلاً آیت

( فَلَمَّا آتَاهُمَا صَالِحًا جَعَلَا لَهُ شُرَكَاءَ فِيمَا آتَاهُمَا ۚ فَتَعَالَى اللَّـهُ عَمَّا يُشْرِكُونَ ) (الاعراف : ۱۹۰)

کی تفسیر میں ابن عباس کی روایت بیان کی ہے کہ حضرت حوا کی جو اولاد پیدا ہوتی تھی وہ ان کو اللہ تعالیٰ کی عبادت کیلئے مخصوص کر دیتی تھیں اور ان کا نام عبد اللہ، عبیداللہ وغیرہ رکھتی تھیں۔ یہ بچے مر جاتے تھے، چنانچہ حضرت آدم وحوا کے پاس ابلیس آیا اور کہنے لگا کہ اگر تم اپنی اولاد کا نام کوئی اور رکھو گے تو وہ زندہ رہے گا اب حوا کا جو بچہ پیدا ہوا تو ماں باپ نے اس کا نام عبدالحارث رکھا۔ اسی بناء پر اللہ نے فرمایا:

( جَعَلَا لَهُ شُرَكَاءَ فِيمَا آتَاهُمَا )

اللہ کی دی ہوئی چیز میں وہ دونوں اللہ کے شریک قرار دینے لگے۔

پھر ابن کثیر لکھتے ہیں: ”اس روایت کو ابن عباس سے ان کے شاگردوں مجاہد، سعید بن جبیر، عکرمہ اور طقبہ ثانیہ کے فتادہ اور سدی وغیرہ نے نقل کیا ہے۔ اسی طرح سلف سے خلف تک بہت سے مفسرین نے اس آیت کی یہی تفسیر کی ہے،لیکن ظاہر یہ ہے یہ واقعہ اہل کتاب سے لیا گیا ہے، اس کی ایک بڑی دلیل یہ ہے کہ ابن عباس اس واقعہ کو ابی بن کعب سے روایت کرتے ہیں، جیسے کہ ابن ابی حاتم میں ہے۔ میرے نزدیک یہ اثر ناقابل قبول ہے۔"(۳۶)

____________________

۳۶۔ ایضاً، ۲/۲۷۵

۱۹۸

سورة حج کی آیت ۵۲ :

( وَمَا أَرْسَلْنَا مِن قَبْلِكَ مِن رَّسُولٍ وَلَا نَبِيٍّ إِلَّا إِذَا تَمَنَّىٰ أَلْقَى الشَّيْطَانُ فِي أُمْنِيَّتِهِ ) کے متعلق ابن کثیر کو جمہور کے نقطہ نظر سے اتفاق نہیں ہے، چنانچہ تحریر فرماتے ہیں:

”یہاں پر اکثر مفسرین نے غرانیق کا قصہ نقل کیا ہے اور یہ بھی کہ اس واقعہ کی وجہ سے اکثر مہاجرین حبشہ یہ سمجھ کر کہ اب مشرکین مکہ مسلمان ہو گئے ہیں، واپس مکہ آگئے لیکن یہ سب مرسل روایتیں ہیں جو میرے نزدیک مستند نہیں ہیں۔ ان روایات کو محمد بن اسحاق نے سیرت میں نقل کیا ہے، لیکن یہ سب مرسل اور منقطع ہیں۔ امام بغوی نے بھی اپنی تفسیر میں ابن عباس اور محمد بن کعب قرظی سے اس طرح کے اقوال نقل کرنے کے بعد خود ہی ایک سوال وارد کیا ہے کہ جب رسول کریم کی عصمت کا محافظ خود خدا تعالیٰ ہے تو ایسی بات کیسے واقع ہو گئی ؟ پھر اس کے کئی جوابات دےئے ہیں، جن میں سب سے صحیح اور قرین قیاس جواب یہ ہے کہ شیطان نے یہ الفاظ مشرکین کے کانوں میں ڈالے، جس سے ان کو یہ وہم ہو گیا کہ یہ الفاظ آنحضور کے منہ سے نکلے ہیں۔ حقیقت میں ایسا نہیں تھا۔ بلکہ یہ صرف شیطانی حرکت تھی، رسول کا اس سے کوئی تعلق نہیں۔"(۳۷)

علم القراة اور لغوی تحقیق:

ابن کثیر قرآنی آیات کی تفسیر کرتے ہوئے حسب موقع اختلاف قرات و اعراب، صرفی و نحوی ترکیب اور الفاظ کی لغوی تحقیق کے علاوہ ان کے مصادر، تثنیہ، جمع اور اصطلاحی مفہوم بیان کرتے ہیں مثلاً آیت( وَلَقَدْ مَكَّنَّاكُمْ فِي الْأَرْضِ وَجَعَلْنَا لَكُمْ فِيهَا مَعَايِشَ ۗ قَلِيلًا مَّا تَشْكُرُونَ ) (الاعراف: ۱۰) میں لفظ ”معائش“ کی وضاحت اس طرح کرتے ہیں لفظ ”معایش“ کو سب لوگ (ی) کے ساتھ پڑھتے ہیں

___________________

۳۷۔ ایضاً، ۳/۳۲۹۔ ۳۳۰

۱۹۹

یعنی ہمزہ کے ساتھ ”مَعَائِش“ نہیں پڑھتے، لیکن عبدالرحمن بن ہرمز اس کو ہمزہ کے ساتھ پڑھتے ہیں اور صحیح تو یہی ہے۔ جو اکثر کا خیال ہے یعنی بلاہمزہ، اس لیے کہ ”معایش“ جمع معیشتہ کی ہے۔ یہ مصدر ہے، اس کے افعال ”عاش، یعیش مَعِیشَة ہیں اس مصدر کی اصلیت ہے ” معیشة“ کسرہ (ی) پر ثقیل تھا، اس لیے عین کی طرف منتقل کر دیا گیا ہے اور لفظ ”معیشة" معیشہ بن گیا ہے پھر اس واحد کی جب جمع بن گئی تو(ی) کی طرف حرکت پھر لوٹ آئی کیونکہ اب ثقالت باقی نہیں رہی، چنانچہ کہا گیا کہ مَعَایِش کا وزن مفاعل ہے اس لئے کہ اس لفظ میں (ی) اصل ہے بخلاف مدائن، صحائف اور بصائر کے کہ یہ مدنة صحیفة اور بصیرة کی جمع ہیں، چونکہ (ی) اس میں زائد ہے، لہذا جمع بروزن فعائل ہو گی اور ہمزہ بھی آئے گا۔(۳۸)

( وَإِذْ تَأَذَّنَ رَبُّكَ لَيَبْعَثَنَّ عَلَيْهِمْ إِلَىٰ يَوْمِ الْقِيَامَةِ مَن يَسُومُهُمْ سُوءَ الْعَذَابِ ۗ إِنَّ رَبَّكَ لَسَرِيعُ الْعِقَابِ ۖ وَإِنَّهُ لَغَفُورٌ رَّحِيمٌ ) (سورہ الاعراف: ۱۶۷)

میں لفظ ”تَاَذَّنَ“ پر اس طرح بحث کرتے ہیں۔ ”تاذن بروزن تفعل“ اذان سے مشتق ہے یعنی حکم دیا یا معلوم کرایا اور چونکہ اس آیت میں قوت کلام کی شان ہے، اس لیے لیبعثن کا (ل) معنائے قسم کا فائدہ دے رہا ہے، اس لیے(ل) ے بعد ہی یبعثن لا یا گیاھم کی ضمیر یہود کی طرف ہے۔"(۳۹)

لغوی بحث کی عمدہ مثال ہمیں زیر تبصرہ کتاب کے آغاز میں تعوذ، تسمیہ اور سورة الفاتحہ کی تفسیر میں نظر آتی ہے۔ ابن کثیر لفظ ”صلوٰة" کی تحقیق فرماتے ہیں: ’عربی لغت میں (صلوٰة ) کے معنی دعا کے ہیں۔ اعشیٰ کا شعر ہے۔

____________________

۳۸۔ ایضاً، ۲/۲۰۲

۳۹۔ ایضاً، ۲/۲۵۹

۲۰۰

201

202

203

204

205

206

207

208

209

210

211

212

213

214

215

216

217

218

219

220

221

222

223

224

225

226

227

228

229

230

231

232

233

234

235

236

237

238

239

240

241

242

243

244

245

246

247

248

249

250

251

252

253

254

255

256

257

258

259

260

261

262

263