علوم ومعارف قرآن

علوم ومعارف قرآن28%

علوم ومعارف قرآن مؤلف:
زمرہ جات: علوم قرآن
صفحے: 263

علوم ومعارف قرآن
  • ابتداء
  • پچھلا
  • 263 /
  • اگلا
  • آخر
  •  
  • ڈاؤنلوڈ HTML
  • ڈاؤنلوڈ Word
  • ڈاؤنلوڈ PDF
  • مشاہدے: 135995 / ڈاؤنلوڈ: 6856
سائز سائز سائز
علوم ومعارف قرآن

علوم ومعارف قرآن

مؤلف:
اردو

یہ کتاب برقی شکل میں نشرہوئی ہے اور شبکہ الامامین الحسنین (علیہما السلام) کے گروہ علمی کی نگرانی میں اس کی فنی طورپرتصحیح اور تنظیم ہوئی ہے


1

2

3

4

5

6

7

8

9

10

11

12

13

14

15

16

17

18

19

20

21

22

23

24

25

26

27

28

29

30

31

32

33

34

35

36

37

38

39

40

41

42

43

44

45

46

47

48

49

50

51

52

53

54

55

56

57

58

59

60

61

62

63

64

65

66

67

68

69

70

71

72

73

74

75

76

77

78

79

80

81

82

83

84

85

86

87

88

89

90

91

92

93

94

95

96

97

98

99

100

یہ حدیث بھی تاریخ مدینۃ دمشق میں نقل ہوئی ہے۔(۱؎)

۸ ۔ ام سلمہ کی حدیث

آٹھواں موقع ، جہاں ’’ حدیث منزلت‘‘ بیان ہوئی ہے وہ ام سلمہ کی ایک حدیث ہے۔ پیغمبر اکرم (ص) نے اپنی زوجہ جناب ام سلمہ سے فرمایا:

’’یا امّ سلمة! انّ علیّاً لحمه من لحمي و دمه من دمي وهو منّي بمنزلة هارون من موسیٰ الاَّ انّه لا نبيّ بعدی ۔ اے ام سلمہ! علی(ع) کا گوشت ،میرے گوشت سے اور اس کا خون، میرے خون سے ہے۔ وہ میرے لئے وہی منزلت رکھتا ہے جو موسیٰ کے لئے ہارون رکھتا تھا سوائے یہ کہ میرے بعد کوئی نبی نہیں ہے۔ ‘‘

یہ حدیث بھی تاریخ مدینۃ دمشق میں ہے ۔(۱؎)

ان کے علاوہ بہت سے دوسرے مواقع ہیں جہاں رسول اکرم (ص) نے حضرت امیر المؤمنین(ع) کی شان میں ’’ حدیث منزلت‘‘ بیان فرمائی ہے؛ البتہ ہم نے ان تمام موارد کی تحقیق کی ہے ؛ لیکن اختصار کی غرض سے انہی مذکورہ موارد پر اکتفا کرتے ہوئے باقی تمام موارد کو ذکر کرنے سے اجتناب کریں گے۔

____________________

۱۔ تاریخ مدینۃ دمشق: ۱/۲۹۰ ، حضرت علی(ع) کے حالات زندگی، حدیث ۳۲۹

۲۔ایضا: ۱/۳۶۵ ، حضرت علی(ع) کے حالات زندگی، حدیث ۴۰۶

۱۰۱

خلافت پر حدیث منزلت کی دلالت کا خلاصہ

حضرت امیر المؤمنین(ع) کی خلافت پر حدیث منزلت کی تصریح کو مندرجہ ذیل نکات میں خلاصہ کیا جا سکتا ہے:

پہلا نکتہ:

پیغمبر اکرم (ص) کے بعض بزرگ اصحاب اس عظیم مقام کی تمنا اور آرزو کیا کرتے تھے۔

دوسرا نکتہ:

پیغمبر اکرم (ص) نے مختلف مواقع پر اس حدیث کو تکرار کے ساتھ بیان فرمایا ہے۔

تیسرا نکتہ:

اس حدیث کے متن اور مختلف نقل کے اندر کچھ قرائن موجود ہیں۔

متن حدیث کے بعض قرائن

اس واقعے کے بارے میں بہت سے شواہد اور قرائن موجود ہیں۔ ہم ان میں سے بعض کو بیان کریں گے:

پہلا شاہد:

حضور اکرم (ص) نے اس حدیث میں یوں فرمایا:

’’انّه لا بدّ ان اقیم او تقیم ۔ضروری ہے کہ میں مدینے میں رہوں یا آپ رہیں۔‘‘

۱۰۲

اس جملے سے یہ استفادہ ہوتا ہے کہ کسی بھی کام میں علی(ع) کے سوا کوئی بھی شخص ، پیغمبر اکرم (ص) کی جگہ نہیں بیٹھ سکتا، آنحضرت (ص) کے امور کو انجام دینے کے لئے آپ (ص) جیسا نہیں ہو سکتا اور نہ ہی آپ (ص) کی ذمہ داریوں کو تکمیل تک پہنچانے کے لئے آپ (ص) کا نائب بن سکتا ہے۔

اس حقیقت کے دوسرے نمونے بھی پائے جاتے ہیں جن میں سے امیر المؤمنین(ع) کے ذریعے اہل مکہ تک سورہ برائت پہنچانے کے واقعے کی طرف اشارہ کیا جا سکتا ہے۔

دوسرا شاہد:

پیغمبر اکرم (ص) نے ارشاد فرمایا:

’’خلّفتک أن تکون خلیفتی ۔میں تمہیں اپنی جگہ چھوڑ رہا ہوں تاکہ میرا جانشین بنے رہو۔‘‘

یہ عبارت بھی اسی مطلب پر ایک شاہد ہے جس کی تفصیل گزر چکی ہے۔

تیسرا شاہد:

حضور اکرم (ص) نے فرمایا:

’’أنت منّي بمنزلة هارون من موسیٰ ۔۔۔ ۔تم میرے لئے اسی منزلت پر ہو جس پر موسیٰ کے لئے ہارون تھے۔۔۔۔‘‘

یہاں تک کہ فرمایا:

’’فانّ المدینة لا تصلح الاَّ بي أو بک ۔ بتحق یق مدینے کے امور ، میرے یا تمہارے بغیر منظم نہیں ہوں گے۔‘‘

۱۰۳

المستدرک میں اس حدیث کو نقل کرنے کے بعد حاکم نیشاپوری کہتے ہیں: اس حدیث کی سند صحیح ہے ؛ لیکن بخاری اور مسلم نے اسے نقل نہیں کیا ہے۔

چوتھا شاہد:

پیغمبر اکرم (ص) نے حضرت امیر المؤمنین(ع) سے فرمایا:

’’لک من الأجر مثل مالي و مالک من المغتنم مثلما لي ۔ جو کچھ مجھے اجر و ثواب ملتا ہے تمہ یں بھی دیا جائے گا اور جو غنیمت میرے حصے میں آتی ہے ، تمہارے لئے بھی اسی طرح ہی ہوگی۔‘‘

اس حدیث کو’’الریاض النضرة في مناقب العشرة المبشرة‘‘ کے مصنف نے نقل کیا ہے۔(۱؎)

پانچواں شاہد:

’’حدیث منزلت‘‘ کی ایک نقل کے مطابق ، حضور اکرم (ص) نے حضرت علی(ع) سے فرمایا:

’’ انّه لا ینبغی أن أذهب الاَّ و أنت خلیفتی ۔ کسی صورت میں میرا جانا صحیح نہیں ہے؛ مگر یہ کہ تم میرا جانشین بنے رہو۔‘‘

یہ حدیث قطعی طور پر صحیح ہے اور بہت سارے مصادر میں مذکور ہے جن میں سے مسند احمد(۲؎) ، مسند ابی یعلی، المستدرک(۳؎) ، تاریخ مدینۃ دمشق(۴؎) ، تاریخ ابن کثیر(۵؎) ، الاصابۃ(۶؎) اور دوسرے مصادر کا نام لیا جا سکتا ہے۔

____________________

۱۔الریاض النضرۃ :۳/۱۱۹ ۲۔ مسند احمد: ۱/ ۵۴۵، حدیث ۳۰۵۲

۳۔ المستدرک: ۳/ ۱۳۳۔ ۱۳۴

۴۔ تاریخ مدینۃ دمشق: ۱/ ۲۰۹، حضرت علی(ع) کے حالات زندگی، حدیث ۲۵۱

۵۔البدایہ و النہایہ: ۷/ ۳۳۸

۶۔ الاصابۃ: ۴/ ۲۷۰

۱۰۴

چھٹا شاہد :

پیغمبر اکرم(ص) نے فرمایا:

’’أنت خلیفتی في کلّ مؤمن بعدي أنت منّي بمنزلة هارون من موسیٰ و أنت خلیفتی في کلّ مؤمن بعدي ۔تم م یرے بعد تمام مؤمنین کے درمیان میرے جانشین ہو۔ تم میرے لئے وہی منزلت رکھتے ہو جو موسیٰ کے لئے ہارون رکھتے تھے اور تم میرے بعد تمام مؤمنین کے درمیان میرے جانشین ہو۔‘‘

یہ حدیث بھی صحیح سند کے ساتھ خصائص نسائی میں موجود ہے۔(۳؎)

____________________

۳۔ خصائص نسائی: ۴۹۔ ۵۰

۱۰۵

خارج از متن قرائن

حدیث کے متن سے خارج بہت سارے ایسے قرائن موجود ہیں جو ہمارے مقصود معنی پر دلالت کرتے ہیں۔ ہم نے سند اور دلالت کے لحاظ سے ’’ حدیث منزلت‘‘ کی تحقیق اور جستجو کی جس سے یہ معلوم ہوا کہ یہ حدیث صراحت کے ساتھ پیغمبر اکرم (ص) کی خلافت اور جانشینی پر دلالت کرتی ہے۔

اگر کوئی حضرت امیر المؤمنین(ع) کی خلافت کو چوتھے مرتبے پر قرار دینے کی کوشش کرے تو اس کے لئے ضروری ہے کہ قطعی دلیلوں کے ساتھ پہلے والے تین افراد کی خلافت کی حقانیت کو ثابت کرے تاکہ اس حدیث کو چوتھے مرتبے پر محمول کیا جا سکے ۔ اگر کوئی قطعی دلیل نہیں ہے تو اس خلافت کو چوتھے مرتبے پر محمول کرنا کسی صورت بھی صحیح نہیں ہے۔

ایک جہت سے یہ حدیث ، حضرت امیر المؤمنین(ع) کی عصمت کو ثابت کرتی ہے اور ایک جہت سے ، اعلمیت اور افضلیت کے لحاظ سے دوسروں پر آپ(ع) کی برتری کو ثابت کرتی ہے۔

ارویٰ اور معاویہ کا واقعہ

اگرچہ بات بہت طویل ہو گئی ہے؛ لیکن ایک روایت کو ذکر کرنا بر محل ہے۔ روایت کی گئی ہے کہ حارث بن عبد المطلب بن ہاشم کی بیٹی ارویٰ جو بڑی عمر رسیدہ خاتون تھیں، ایک مرتبہ معاویہ کے پاس پہنچیں۔ معاویہ نے ان سے کہا: آفرین ہو تم پر اے خالہ! کیا حال ہے آپ کا؟

۱۰۶

ارویٰ نے جواب دیا:

’’بخیر یابن أُختی! لقد کفرت النعمة، وأسأت لابن عمّک الصحبة، و تسمّیت بغیر اسمک، و أخذت غیر حقّک، و کنّا أهل البیت أعظم الناس في هذا الدین بلاء اً، حتّی قبض اللّٰه نبیّه مشکوراً سعیه، مرفوعاً منزلته، فوثبت علینا بعده بنو تیم وعدي و أُمیّة، فابتزّونا حقّنا، ولّیتم علینا تحتجّون بقرابتکم من رسول اللّٰه (ص) و نحن أقرب الیه منکم و أولیٰ بهذا الأمر، و کنّا فیکم بمنزلة بني اسرائیل في آل فرعون، و کان علیّ بن أبي طالب بعد نبیّنا بمنزلة هارون من موسی ۔ ٹھیک ہوں اے بھانجے! لیکن تم نے نعمت کے مقابلے میں ناشکری کی اور اپنے چچا کے بیٹے کے ساتھ بد رفتاری کی ، اپنے اوپر کسی اور کے نام کا لیبل لگا لیا اور کسی دوسرے کا حق لے لیا۔ ہم خاندان اہل بیت(ع) کا امتحان اس دین میں سب سے سخت تھا، یہاں تک کہ خدا نے اپنے پیغمبر(ص) کو اپنی طرف اٹھا لیا در حالیکہ ان کی کوششوں کی شکر گزاری کی اور ان کے مقام کو بلند بنا دیا۔ ان کی رحلت کے بعد قبیلہ تیم (ابوبکر) ، عدی (عمر) اور امیہ ( عثمان و معاویہ) نے ہم پر یلغار کی اور ہمارے حق کو غصب کیا۔ تم لوگ ہم پر مسلط ہوگئے ہیں اور رسول اکرم (ص) سے اپنی رشتہ داری کے ذریعے استدلال کرنے لگے؛ حالانکہ تم سے زیادہ ہم پیغمبر اکرم (ص) سے نزدیک تر اور اس امر کے لئے لائق تر ہیں۔ ہم تمہارے درمیان، ایسے ہیں جیسے فرعونیوں کے درمیان بنی اسرائیل، اور علی(ع) بن ابیطالب(ع) ہمارے پیغمبر (ص) کی رحلت کے بعد ، موسیٰ کے لئے ہارون کی مانند تھے۔‘‘

۱۰۷

اس وقت عمر و عاص نے کہا : بس کر اے گمراہ بڑھیا! اپنی باتوں کو تمام کر دو ؛ کیونکہ تمہارا دماغ خراب ہو گیا ہے۔

ارویٰ نے کہا: اے پسر نابغہ! تجھ جیسا بھی منہ کھولتا ہے؛ جبکہ تمہاری ماں، مکے کی مشہور ترین فاحشہ عورت تھی اور اس کی اجرت ساری عورتوں سے کم تھی۔ قریش کے پانچ افراد تجھے اپنے نطفے کی پیداوار سمجھتے ہیں؛ اسی لئے تیری ماں سے پوچھا تھا کہ تم ان میں سے کس کی ناجائز اولاد ہے؟

تیری ماں نے کہا: یہ سب میرے پاس آتے تھے۔ اب دیکھ لو جس سے زیادہ شباہت رکھتا ہے اسی کا سمجھ لو۔ ملاحظہ کیا تو، تو عاص بن وائل سے زیادہ شباہت رکھتا تھا؛ لہٰذا اس کا بیٹا سمجھ لیا گیا۔

اچانک مروان بول پڑا: او بڑھیا! بس کر! اور جس کام کے سلسلے میں یہاں آئی ہو وہ بتاؤ!

ارویٰ کہنے لگیں: اے ابن زرقاء! تو بھی بولنے لگا ہے؟

پھر معاویہ کی سمت رخ کر کے کہا: خدا کی قسم! تو نے ہی ان کو میری توہین کرنے کی اجازت دی ہے۔ سچ یہ ہے کہ تو اس ماں کی اولاد ہے جس نے جناب حمزہ(ع) کی شہادت کے موقع پر کہا تھا:

نحن جزینا کم بیوم بدر

والحرب بعد الحرب ذات سعر

ماکان لی فى عتب ة من صبر

و شکر وحشى ّ عَلَ ى ّ د ه ر ی

حتّی ترمّ أعظمی فی قبرى

ہم نے تمہیں روز بدر کا جواب دے دیا، وہ جنگ جو ایک جنگ کے بعد ہو وہ بڑی آتشیں ہوتی ہے۔ میں عتبہ کی جدائی پر صبر نہیں کر سکتی۔ پوری زندگی وحشی کی شکر گزار رہوں گی، اس وقت تک کہ میری ہڈیاں قبر میں چھپ جائیں۔

۱۰۸

اس وقت میری چچا زاد بہن نے جواب دیا تھا:

خَزیتِ في بدر و بعد بدر

یا بنت جبّار عظیم الکفر

تو جنگ بدر میں بھی اور اس کے بعد بھی ذلیل ہوگئی ہے ، اے اس ظالم و ستمگر کی بیٹی! جو بہت ہی بڑا کافر تھا۔

ایسے میں معاویہ نے کہا: اے خالہ ! جو کچھ گزر چکا، اللہ تعالیٰ نے بخش دیا ہے[!] اپنی حاجت بتاؤ!

ارویٰ نے کہا: میں تجھ سے کوئی حاجت نہیں رکھتی؛ پھر معاویہ سے ہاں سے چلی گئیں۔

ایک روایت میں ہے کہ ارویٰ نے معاویہ کے جواب میں کہا: مجھے دو ہزار دینا چاہئے تاکہ حارث بن عبد المطلب کی غریب ونادار اولاد کے لئے آباد اور سرسبز و شاداب زمین کے ساتھ ایک چشمہ خرید سکوں، اس کے علاوہ اور دوہزار دینار بنی حارث کے فقراء کی شادی کے سلسلے میں اور دوہزار اپنے لئے تاکہ زندگی کی سختیوں اور مشکلات سے آسودہ ہو جاؤں۔

معاویہ نے حکم دیا کہ جو کچھ چاہتی ہے اسے دے دیا جائے۔

اس پورے واقعے کونقل کرنے کا مقصد یہ ہے کہ پیغمبر اکرم (ص) کی چچازاد ارویٰ نے ’’حدیث منزلت‘‘ سے استشہاد کیا ہے اور اس طرح حضرت امیر المؤمنین(ع) کی امامت پر استدلال کیا ہے۔ علی(ع) کو ہارون سے تشبیہ دی ہے اور اہل بیت(ع) کو ، فرعون اور فرعونیوں کے درمیان زندگی گزارنے والے ،بنی اسرائیل کی مانند قرار دیا ہے۔

یہ روایت معمولی سی تفاوت کے ساتھ’’ العقد الفرید‘‘ ،’’ المختصر فی اخبار بنی البشر‘‘ اور ابن شحنہ کی معتبر تاریخی کتاب’’ روضة المناظر‘‘ میں دیکھی جا سکتی ہے۔(۱؎)

جی ہاں ! اس طرح ’’ حدیث منزلت‘‘ کی دلالت کے بارے میں بحث ختم ہوگئی اور اس پر ہونے والے تمام علمی اعتراضات کے جواب دئیے گئے، جس کے لئے اللہ تعالیٰ کی بارگاہ میں شکر گزار ہیں۔

____________________

۱۔العقد الفرید: ۲/ ۱۱۹؛ المختصر فی اخبار بنی البشر: ۱/ ۱۸۸؛ روضۃ المناظر، حاشیہ تاریخ ابن کثیر، سنہ ۶۰ ہجری کے واقعات

۱۰۹

ساتواں حصہ:

غیر علمی اشکالات پر ایک نظر

۱۱۰

غیر علمی اشکالات

یہاں پر کچھ ایسے اشکالات کی طرف مختصر اشارہ کریں گے جن کے سہارے ’’حدیث منزلت‘‘ کو غیر علمی طریقے سے ردّ کرنے کی کوشش کی گئی ہے۔ اہل سنت کے بعض متعصب افراد جب علمی راہ سے ’’حدیث منزلت‘‘ پر کوئی اشکال نہ کر سکے تو انہوں نے غیر علمی راستے کا سہارا لیا ہے۔

۱ ۔ حدیث کی تحریف

شکست خوردہ اشکالات اور بے سر وپا اعتراضات کے بعد مخالفین نے جس راہ کا انتخاب کیا ہے وہ تحریف حدیث کا راستہ ہے۔ جب انہوںنے دیکھا کہ سند اور دلالت کے بارے میں ان کی باتیں بے فائدہ ثابت ہو رہی ہیں تو تحریف کا ہتھکنڈہ استعمال کیا۔ ایک ناصبی کوجب تحریف کے علاوہ کوئی راہ نظر نہ آئی وہ اسی برے عمل کا مرتکب ہوا؛ لیکن تحریف بھی ایسی بری تحریف کر ڈالی کہ کوئی کافر بھی اس طرح نہیں کرتا۔

حریز بن عثمان کے حالات زندگی، خطیب بغدادی کی تاریخ بغداد اور ابن حجر عسقلانی کی تہذیب التہذیب میں ملاحظہ فرمائیں۔ ان کی نقل کے مطابق حریز کہتا ہے کہ علی(ع) کے بارے میں لوگ پیغمبر اکرم (ص) کی ایک حدیث نقل کرتے ہیں کہ آنحضرت (ص) نے فرمایا:’’انت منّي بمنزلة هارون من موسیٰ‘‘ بات تو صحیح ہے ؛ لیکن سننے والے نے سننے میں غلطی کی ہے۔

راوی نے پوچھا: پھر روایت کس طرح تھی؟

حریز کہتا ہے:یہ حدیث اس طرح ہے:’’انت منّي بمنزلة قارون من موسیٰ‘‘ [!!]

راوی نے پوچھا : تو کس سے یوں نقل کر رہا ہے؟

حریز نے کہا: میں نے سنا ہے کہ ولید بن عبد الملک ، منبر پر اس حدیث کو اسی طرح نقل کرتا تھا۔(۱؎)

____________________

۱۔ تاریخ بغداد: ۸/ ۲۶۸، حدیث ۴۳۶۵؛ تہذیب التہذیب: ۲/ ۲۰۹

۱۱۱

افسوس کی بات یہ ہے کہ حریز ان لوگوں میں سے ہے جن پر بخاری نے اپنی صحیح میں اعتماد کیا ہے اور اس سے حدیثیں نقل کی ہیں۔ دوسری جہت سے صحیح مسلم کے علاوہ اہل سنت کی صحیح کتابوں کے مؤلفین نے اس شخص کو قبول کیا ہے ، اس کی روایتوں کی تصحیح کی ہے اور اس سے روایات نقل کی ہیں!

نقل ہوا ہے کہ احمد بن حنبل سے پوچھا گیا کہ حریز کیسا آدمی ہے؟ تو اس نے جواب میں تین مرتبہ کہا: قابل اعتماد ہے، قابل اعتماد ہے، قابل اعتماد ہے!

جبکہ حریز کے حالات زندگی میں لکھا ہوا ہے کہ وہ ہمیشہ حضرت علی(ع) کو گالیاں دیتا تھا، اپنی پوری قوت کے ساتھ علی(ع) پر حملہ کرتا اور آپ(ع) پر ظلم کرتا تھا۔ [!]

علمائے اہل سنت کی تصریح کے مطابق ، حریز ناصبی تھا جو ہمیشہ کہتا تھا: میں علی(ع) کو دوست نہیں رکھتا؛ کیونکہ اس نے میرے باپ دادا کو قتل کیا ہے۔

وہ ہمیشہ کہتا تھا: ہمارا امام (معاویہ) ہمارے لئے اور تمہارا امام ( علی(ع)) تمہارے لئے۔ وہ ہر صبح و شام حضرت علی(ع) پر ستر ( ۷۰) بار لعن کرتا تھا۔ [!]

۱۱۲

اس طرح کی بہت ساری باتیں اس سے نقل ہوئی ہیں؛ لیکن ساری تفصیلات کے باوجود اہل سنت اس کی روایات کو صحیح سمجھتے ہیں۔ احمد بن حنبل ، تین بار کہتا ہے: وہ قابل اعتماد ہے اور مسلم کے علاوہ سارے ’’صحاح‘‘ کے مؤلفین اس سے روایت نقل کرتے ہیں۔

جی ہاں! اس صورتحال کو دیکھ کر ایک آزاد فکر محقق ، آسانی سے سمجھ جاتا ہے کہ اہل سنت ، راوی کی وثاقت کو ثابت کرنے اور حدیث کی صحت کو جانچنے میں کیسے معیارات اور ضوابط پر اعتماد کرتے ہیں اور حضرت علی(ع) کے ساتھ کس طرح کا سلوک کرتے ہیں۔

۲ ۔ شیخین کی فضلیت میں احادیث گھڑنا

بعض لوگوں نے ’’ حدیث منزلت‘‘ کے مقابلے میں ایک دوسری روش اپنائی ہے اور وہ یہ کہ انہوں نے شیخین کے لئے بھی ایک حدیث منزلت تیار کی ہے اور اس کی نسبت رسول خدا (ص) کی طرف دی ہے کہ آنحضرت (ص) نے فرمایا:

’’ابوبکر و عمر منّي بمنزلة هارون من موسیٰ ۔ابوبکر اور عمر دونوں میرے لئے ایسے ہیں جیسے موسیٰ کے لئے ہارون تھے۔ ‘‘[!]

۱۱۳

اس حدیث کو خطیب بغدادی نے اپنی سند کے ساتھ نقل کیا ہے؛ اس کے بعد منّاوی نے ’’کنوز الحقائق من حدیث غیر الخلائق‘‘ میں خطیب بغدادی سے نقل کیا ہے۔(۱؎)

لیکن خوش قسمتی یہ ہے کہ ابن جوزی نے بھی اس من گھڑت حدیث کو نقل کیا ہے؛ لیکن کتاب ’’ الموضوعات‘‘ میں نہیں ؛ بلکہ’’ العلل المتناهیةفی الاحادیث الواهیة‘‘ میں اس کو جگہ دی ہے اور نقل کرنے کے بعد لکھا ہے: یہ حدیث صحیح نہیں ہے۔(۲؎)

اسی طرح ذہبی نے میزان الاعتدال میں لکھا ہے کہ یہ حدیث ، منکر اور ناشناختہ ہے۔(۳؎)

اسی کتاب میں دوسری جگہ اس حدیث کو نقل کرنے کے بعد ذہبی کہتا ہے: یہ ایک جھوٹی حدیث ہے۔(۴؎)

ابن حجر عسقلانی بھی اپنی کتاب ’’لسان المیزان ‘‘میں اس حدیث کو جھوٹا سمجھتا ہے اور اس کے من گھڑت اور جعلی ہونے کی تصریح کرتا ہے۔(۵؎)

بنا برایں اس جعلی حدیث سے استناد کرنے کا کوئی راستہ نہیں ہے۔ یہ ایسی حدیث ہے جس کے ضعیف ہونے یا جھوٹے اور جعلی ہونے کی خود اہل سنت نے تصریح کی ہے۔ اس کے علاوہ یہ من گھڑت حدیث ، مسانید و سنن اور صحاح ستہ میں سے کسی ایک کتاب کے اندر موجود نہیں ہے۔

____________________

۱۔ تاریخ بغداد: ۱۱ / ۳۸۵، حدیث ۲۶۵۸؛ کنوز الحقائق ،حاشیہ الجامع الصغیر ، حرف الف

۲۔ العلل المتناہیۃ:۱ / ۱۹۹، حدیث ۳۱۲

۳۔ میزان الاعتدال: ۵/ ۴۷۳، حدیث ۴۹۰۰

۴۔ ایضا: ۵/ ۲۰۷، حدیث ۶۰۱۵

۵۔لسان المیزان:۵/ ۹، حدیث ۵۸۲۸۔ اس کتاب میں صرف ابوبکر کا نام ذکر ہوا ہے۔

۱۱۴

۳ ۔ حدیث منزلت کی ردّ

تیسری اور آخری راہ جو مخالفین کو سوجھی وہ حدیث منزلت کو ردّ کرنا اور اس کی صحت کو قبول نہ کرنا ہے؛ جبکہ ہم واضح کر چکے ہیں کہ یہ حدیث ، صحیح بخاری اور مسلم سمیت دوسرے مصادر میں بھی نقل ہوئی ہے۔

اہل سنت کے بہت سارے علماء نے یہی روش اپنائی ہے جو اس بات کی بہترین دلیل ہے کہ وہ دوسرے راستوں سے شکست کھا گئے ہیں اور روش علمی کے ذریعے اس حدیث پر کوئی اشکال وارد نہ کر سکے ہیں۔

ابو الحسن سیف الدین آمدی کہتا ہے: یہ حدیث صحیح نہیں ہے۔ ابن حجر مکی نے اس کی بات کو ’’ الصواعق المحرقہ‘‘ میں نقل کیا ہے۔(۱؎)

شریف جرجانی نے بھی ’’ شرح المواقف‘‘ میں آمدی کی بات کو قبول کر کے اسی پر اعتماد کیا ہے۔(۲؎)

قاضی ایجی نے بھی ’’حدیث منزلت ‘‘کے جواب میں کہا ہے: سند کے لحاظ سے اس حدیث کے ذریعے استدلال نہیں کیا جا سکتا۔(۳؎)

ان کے علاوہ اہل سنت کے دوسرے افراد بھی اس حدیث کو ردّ کرتے اور کہتے ہیں کہ اس کی سند صحیح نہیں ہے۔ ان میں سے بہت سے لوگ آمدی کی بات پر اعتماد کرتے ہیں؛ جبکہ دلچسپ بات یہ ہے کہ ذہبی نے ’’میزان الاعتدال‘‘ میں آمدی کے حالات

____________________

۱۔ الصواعق المحرقۃ: ۷۳

۲۔شرح المواقف: ۸/ ۳۶۲

۳۔ ایضا

۱۱۵

زندگی کے ذیل میں اس طرح لکھا ہے کہ آمدی کو اس کے برے عقائد کی وجہ سے دمشق سے نکال باہر کر دیا گیا تھا اور یہ کہنا بھی صحیح ہے کہ وہ نماز نہیں پڑھتا تھا۔(۱؎)

ہم یہ عرض کریں گے : جب نماز نہ پڑھنا ،ایک ایسا عیب ہے جس کی وجہ سے انسان کی عدالت چلی جاتی ہے اور دینی مسائل میں اس کی بات اور اس کے نظریات کے بے اعتبار ہونے کا سبب بنتا ہے تو پھر اس شخص پر کیوں اعتماد کیا جاتا ہے اور اس کی بات کیوں نقل کی جاتی ہے؟؟

اس کے علاوہ ، اہل سنت کے بہت سے بزرگان اور حافظان حدیث پر کی گئی ایک تحقیق کے مطابق ان کے حالات زندگی میں یہ بات موجود ہے کہ یہی محدثین، روایات سنت پیغمبر اور دین کے امین بنے ہوئے لوگ، نماز نہیں پڑھتے تھے۔ [!]

اگر اس تحریر میں گنجائش ہوتی تو ان کی مدح و ثنا اور توثیق و تعظیم میں لکھی گئی بعض عبارتوں کی طرف اشارہ کرتے ، جن کے ذریعے قاری کو معلوم ہوتا کہ مسلمانوں کے ہاں دین کا ستون شمار ہونے والی نماز کا ترک کرنا ان افراد کے لئے کوئی عیب و نقص کا سبب نہیں ہے۔ [!]

۱۱۶

سخن آخر

جو تحقیق اور بیان آپ کی نظر سے گزرا وہ ’’ حدیث منزلت‘‘ کے بارے میں اہل سنت کی کوششیں اور ان کے اشکالات تھے ۔ اشکال کرنے والے ، اہل سنت کے علماء، حافظان حدیث اور وہ لوگ ہیں جن پر اہل سنت ، اپنے عقائد اور احکام کے سلسلے میں اعتماد کرتے ہیں۔

سچ یہ ہے کہ اگر اللہ تعالیٰ کی جانب سے امت کے نصیب میں ، اس مظلوم گروہ میں سے جو ’’ارویٰ‘‘ کے بقول فرعونیوں کے پنجے میں بنی اسرائیل کی مانند ہیں، بہترین علماء نہ ہوتے تو دین مبین اسلام کا ستیاناس ہوجاتا اور سید المرسلین (ص) کے آثار نابود ہوجاتے؛ لیکن اللہ تعالیٰ نے ان علماء کے ذریعے ، دوسروں پر حجت تمام کر دی ہے۔

اس وقت جو منصف مزاج محققین ، بحث و تحقیق کے درپے ہیں اور جہاں کہیں سے بھی ، حق کو پانے اور اس کی پیروی کرنے کے خواہاں ہیں، ان کے لئے مناسب یہ ہے کہ وہ ان باتوں کی اصلیت اور حقیقت کو سمجھیں۔

اللہ تعالیٰ کی بارگاہ میں دعا ہے کہ ہمیں قرآن اور مقبول و معتبر سنت کی بنیادوں پر قائم عقائد پر استوار اور ثابت قدم رکھے ، حقائق کو آشکار کرنے اور امور کی وضاحت کرنے میں اپنی ذمہ داریوں کو بخوبی انجام دینے کی توفیق عطا فرمائے ؛ نیز اللہ تعالیٰ اور اس کے رسول (ص) کے پسندیدہ امور کی طرف لانے میں طالبان حق و حقیقت کیمدد کرنے کا موقع عطا فرمائے! صلوات و رحمت خدا ہو حضرت محمد (ص) اور آپ (ص) کے خاندان پاک پر !

____________________

۱۔میزان الاعتدال: ۳/ ۳۵۸، حدیث ۳۶۵۲

۱۱۷

کتابنامہ

۱ ۔ قرآن مجید

۲ ۔ نہج البلاغہ: (شیخ محمد عبدہ) مطبع استقامت ، مصر۔

’’الف‘‘

۳ ۔ ارشاد الساری: احمد بن محمد بن ابو بکر قسطلانی، دار احیاء تراث عربی، بیروت۔

۴ ۔ الاستیعاب: ابن عبد البر، دا الجلیل، بیروت، لبنان، اشاعت اول، ۱۴۱۲ ھ۔

۵ ۔ الاصابۃ: ابن حجر عسقلانی، دارالکتب علمیہ، بیروت ، لبنان

’’ب‘‘

۶ ۔ البدایۃ و النہایۃ: ابن کثیر، دار الفکر، بیروت لبنان

’’ت‘‘

۷ ۔تاریخ بغداد: خطیب بغداد، دار الکتب العربی، بیروت ، اشاعت اول ، ۱۴۱۷ ۔

۸ ۔تاریخ مدینۃ دمشق: ابن عساکر، دار الفکر، بیروت، ۱۴۱۵

۹ ۔تحفہ اثنا عشریہ: شاہ عبد العزیز دہلوی، نورانی کتابخانہ، پشاور ، پاکستان

۱۰ ۔ تفسیر بغوی= معالم التنزیل فی التفسیر و التأویل:ابو محمد حسین بن مسعود فراء بغوی، دارلفکر، بیروت، ۱۴۰۵

۱۱ ۔ تفسیر الجلالین: جلال الدین محمد بن احمد المحلی شافعی؛ جلال الدین سیوطی

۱۲ ۔ تفسیر ثعلبی = الکشف و البیان: امام ثعلبی، نشر مصطفی بابی حلبی، مصر ، ۱۳۸۸

۱۳ ۔ تہذیب التہذیب: ابن حجر عسقلانی، دار الفکر، بیروت، ۱۴۰۴

۱۴ ۔تہذیب الکمال: مزی ، مؤسسہ الرسالۃ ، بیروت، ۱۴۱۳

’’ج‘‘

۱۵ ۔ الجامع الکبیر: جلال الدین سیوطی، دار الفکر، بیروت ۱۴۱۴

۱۱۸

’’خ‘‘

۱۶ ۔الخصائص: نسائی، مجمع احیاء الثقافۃ الاسلامیہ، قم، ایران، اشاعت اول، ۱۴۱۹

’’د‘‘

۱۷ ۔الدر المنثور فی تفسیر الماثور: جلال الدین سیوطی، دار الفکر، بیروت، ۱۴۰۳

’’ر‘‘

۱۸ ۔روضۃ المناظر: ابن شحنہ حنفی، ( مطبوع در حاشیہ تاریخ ابن کثیر)

۱۹ ۔ریاض النضرۃ: محب الدین الطبری، دار الکتب علمیہ ، بیروت

’’ز‘‘

۲۰ ۔زاد المعاد: ابن قیم جوزی، مؤسسہ الرسالہ ، بیروت، ۱۴۰۸

’’س‘‘

۲۱ ۔سنن ابن ماجہ: ابن ماجہ قزوینی، دار الجلیل ، بیروت، اشاعت اول ، ۱۴۱۸

۲۲ ۔ سنن ابی داؤد: ابو داؤود، دار الکتب علمیہ، بیروت ، اشاعت اول ، ۱۴۱۶

۲۳ ۔ السنن الکبریٰ: بیہقی، دار الکتب علمیہ، بیروت، اشاعت دوم، ۱۴۱۴

۲۴ ۔ سنن ترمذی: محمد بن عیسیٰ ترمذی، دار الفکر ، بیروت

۲۵ ۔ سنن النسائی: نسائی، دار المعرفۃ، بیروت، اشاعت سوم، ۱۴۱۴

۲۶ ۔ سیرۃ ابن ہشام: ابن ہشام، دار احیاء التراث العربی، بیروت، اشاعت اول ۱۴۱۵

۲۷ ۔ السیرۃ الحلبیہ: علی بن برہان الدین حلبی، مکتبۃ التجاریۃ الکبریٰ، قاہرہ، مصر، ۱۳۸۲

’’ش‘‘

۲۸ ۔ شرح صحیح مسلم: محی الدین یحییٰ بن شرف نووی

۲۹ ۔ شرح المواقف: سید شریف جرجانی، منشورات شریف رضی، قم، ایران، اشاعت اول، ۱۴۱۲

۱۱۹

’’ص‘‘

۳۰ ۔ صحیح بخاری: محمد بن اسماعیل بخاری، دار احیاء التراث العربی، بیروت

۳۱ ۔ صحیح مسلم: مسلم بن حجاج قشیری نیشاپوری، دار الفکر، بیروت، ۱۳۹۸

۳۲ ۔ الصواعق المحرقۃ: ابن حجر ہیتمی مکی، مکتبۃ القاہرہ، قاہرہ، مصر

’’ط‘‘

۳۳ ۔الطبقات الکبریٰ :ابن سعد، دار صادر، بیروت ، ۱۴۰۵

’’ع‘‘

۳۴ ۔العقد الفرید: ابن عبد ربہ، دار الکتاب العربی، بیروت، ۱۴۰۳

۳۵ ۔ العلل المتناھیۃ: ابن جوزی ، دار الکتب علمیہ، بیروت، اشاعت اول، ۱۴۰۳

۳۶ ۔ عیون الأثر: ابن سید الناس، مکتبہ دار التراث، مدینہ منورہ، ۱۴۱۳

’’ف‘‘

۳۷ ۔فتح الباری فی شرح البخاری: ابن حجر، دار احیاء التراث العربی، بیروت

۳۸ ۔ فیض القدیر: مناوی، دار الکتب العلمیہ، بیروت، اشاعت اول، ۱۴۱۵

’’ق‘‘

۳۹ ۔ قطف الازہار المتناثرۃ فی الاخبار المتواترۃ: جلال الدین سیوطی

’’ک‘‘

۴۰ ۔کشف الاسرار فی شرح اصول البزدوی: شیخ عبد العزیز بخاری، دار الکتب علمیہ، بیروت ، ۱۴۱۸

۴۱ ۔کفایۃ الطالب فی مناقب علی بن ابی طالب(ع): حافظ گنجی

۴۲ ۔ کنز العُمّال: متقی ہندی، دار احیاء التراث العربی، بیروت

۴۳ ۔ کنوز الحقائق من حدیث خیر الخلائق : مناوی، مطبوع در حاشیہ الجامع الصغیر

۱۲۰

121

122

123

124

125

126

127

128

129

130

131

132

133

134

135

136

137

138

139

140

141

142

143

144

145

146

147

148

149

150

151

152

153

154

155

156

157

158

159

160

161

162

163

164

165

166

167

168

169

170

171

172

173

174

175

176

177

178

179

180

تعارف تفسیر

تفسیر ابن کثیر منھج اور خصوصیات

ڈاکٹر محمد اکبر ملک،

لیکچررشعبہ اسلامیات، گورنمنٹ ایس ای کالج بہاول پور

عماد الدین ابوالفداء اسماعیل بن عمر بن کثیر ۷۰۱ہجری(۱) میں شام کے شہر بصریٰ کے مضافات میں ”مجدل“ نامی بستی میں پیدا ہوئے۔(۲) اور دمشق میں تعلیم و تربیت پائی۔ آپ نے اپنے عہد کے ممتاز علماء سے استفادہ کیا

____________________

۱۔الداؤی شمس الدین محمد بن علی، طبقات المفسرین/۱/۱۱۲، دارالکتب العلمیه، بیروت لبنان، الطبعة الاولیٰ، ۱۴۰۳ه/۱۹۸۳ء ۔ بعض مورخین نے ابن کثیر کا سن ولادت ۷۰۰ھ قرار دیا ہے۔ ملاحظہ ہو،شذرات الذهب لابن العماد، ۶/۲۳۱، ذیل طبقات الحفاظ لجلال الدین السیوطی، صفحه ۳۶۱، مطبعة التوفیق بد مشق، ۱۳۴۷ه، عمدة التفسیر عن الحافظ ابن کثیر لاحمد محمد شاکر، ۱/۲۲، دارالمعارف القاهرة، ۱۳۷۶ه /۱۹۵۶ء اسماعیل پاشابغدادی، امام ابن کثیر کا زمانہ ولادت ۷۰۵ھ بیان کرتے ہیں۔ ملاحظہ ہو۔هدیة العارفین، اسماء المولفین و آثار المصنیفین، ۱/۲۱۵، وکالة المعارف، استانبول، ۱۹۵۵ء ۔ امام صاحب کے سن ولادت کے بارے میں اسماعیل پاشا البغدادی کا بیان درست معلوم نہیں ہوتا کیونکہ امام صاحب کے والد ۷۰۳ھ میں فوت ہوئے۔ امام ابن کثیر کا اپنا بیان ہے کہ میں اپنے والد کی وفات کے وقت تقریباً تین سال کا تھا۔ ملاحظہ ہو،البدایه والنهایه لابن کثیر، ۱۴/۳۲ خود امام ابن کثیر اپنی کتاب”البدایه والنهایه“ میں ۷۰۱ھ کے واقعات بیان کرنے کے بعد لکھتے ہیں”وفیها ولد کا تبه اسماعیل بن عمر بن کثیر القرشی“ (البدایه والنهایه، ۱۴/۲۱)

۲۔ احمد محمد شاکر، عمدہ التفسیر، ۱/۲۲، بعض ماخذ کے مطابق ابن کثیر دمشق کے مضافات میں مشرقی بصریٰ کی ایک بستی”مجدل القریة“ میں پیدا ہوئے۔ (ملاحظہ ہو، ذیلتذکره الحفاظ لابی المحاسن شمس الدین الحسینی، صفحه ۵۷، مطبعة التوفیق، دمشق، ۱۳۴۷ه) جبکہ مطبوعہ”البدایه والنهایه“ میں”مجیدل القریة“ منقول ہے(البدایه والنهایه ابن کثیر، ۱۴/۳۱) عمر رضا کحالہ نے مقام ولادت ”جندل" تحریر کیا ہے۔(معجم المئولفین، ۳/۲۸۴، مطبعة الترقی بد مشق، ۱۳۷۶ه /۱۹۵۷ء)

۱۸۱

اور تفسیر، حدیث، فقہ، اصول، تاریخ، علم الرجال اور نحو عربیت میں مہارت حاصل کی۔(۳) آپ نے ۷۷۴ہجری میں دمشق میں وفات پائی اور مقبرہ صوفیہ میں مدفون ہوئے۔(۴) امام ابن کثیر بحیثیت مفسر، محدث، مورخ اور نقاد ایک مسلمہ حیثیت کے حامل ہیں۔ آپ نے علوم شرعیہ میں متعدد بلند پایہ کتب تحریر کیں۔”تفسیر القرآن العظیم“ اور ضخیم تاریخ”البدای والنهای“ آپ کی معروف تصانیف ہیں جن کی بدولت آپ کو شہر ت دوام حاصل ہوئی۔ زیر نظر مضمون اول الذکر کتاب کے تذکرہ پر مشتمل ہے۔

__________________

۳۔الذهبی، شمس الدین، تذکرة الحفاظ، ۴/۱۵۰۸، مطبعة مجلس دائرة المعارف العثمانیه، حید ر آباد دکن الهند، ۱۳۷۷ه ۱۹۵۸ء، ابن العماد، شذرات الذهب، ۶/۲۳۱، الشوکانی محمد بن علی، البدر الطالع بمحاسن من بعد القرآن السابع، مطبعة السعادة القاهرة، الطبعة الاولیٰ، ۱۳۴۸ه

۴۔النعیمی، عبدالقادر بن محمد، الدارس فی تاریخ المدارس، ۱/۳۷، مطعبة الترقی، دمشق، ۱۳۶۷ء۷۰ه

۱۸۲

تعارف تفسیر:

علامہ ابن کثیر نے قرآن کی جو تفسیر لکھی وہ عموماً تفسیرابن کثیر کے نام سے معروف ہے اور قرآن کریم کی تفاسیر ماثورہ میں بہت شہرت رکھتی ہے۔ اس میں مولف نے مفسرین سلف کے تفسیری اقوال کو یکجا کرنے کا اہتمام کیا ہے اور آیات کی تفسیر احادیث مرفوعہ اور اقوال و آثار کی روشنی میں کی ہے۔ تفسیر ابن جریر کے بعد اس تفسیر کو سب سے زیادہ معتبر خیال کیا جاتا ہے۔ اس کا قلمی نسخہ کتب خانہ خدیو یہ مصر میں موجود ہے۔ یہ تفسیر دس جلدوں میں تھی۔ ۱۳۰۰ء میں پہلی مرتبہ نواب صدیق حسن خان کی تفسیر ”فتح البیان“ کے حاشیہ پر بولاق، مصر سے شائع ہوئی۔ ۱۳۴۳ء میں تفسیر بغوی کے ہمراہ نو جلدوں میں مطبع المنار، مصر سے شائع ہوئی۔ پھر ۱۳۸۴ء میں اس کو تفسیر بغوی سے الگ کر کے بڑے سائز کی چار جلدوں میں مطبع المنار سے شائع کیا گیا۔ بعدازاں یہ کتاب متعدد بار شائع ہوئی ہے۔ احمد محمد شاکر نے اس کو بحذف اسانید شائع کیا ہے۔ محققین نے اس پر تعلیقات اور حاشیے تحریر کیے ہیں۔ سید رشید رضا کا تحقیقی حاشیہ مشہور ہے۔ علامہ احمد محمد شاکر (م۱۹۵۸) نے ”عمدة التفسیر عن الحافظ ابن کثیر“ کے نام سے اس کی تلخیص کی ہے۔ اس میں آپ نے عمدہ علمی فوائد جمع کیے ہیں۔ لیکن یہ نامکمل ہے۔ اسکی پانچ جلدیں طبع ہو چکی ہیں اور اختتام سورة انفال کی آٹھویں آیت پر ہوتا ہے۔

محمد علی صابونی نے ”تفسیر ابن کثیر“ کو تین جلدوں میں مختصر کیا اور ”مختصرتفسیر ابن کثیر“ کے نام سے اسے ۱۳۹۳ء میں مطبع دارالقرآن الکریم، بیروت سے شائع کیا بعد ازاں محمد نسیب رفاعی نے اس کو چار جلدوں میں مختصر کیا اور اسے ”تیسرالعلی القدیر لاختصار تفسیر ابن کثیر“ کے نام سے موسوم کیا۔ یہ ۱۳۹۲ء میں پہلی مرتبہ بیروت سے شائع ہوئی۔

ماخذ :

علامہ ابن کثیر نے اپنی ”تفسیر“ کی ترتیب و تشکیل میں سینکڑوں کتب سے استفادہ کیا ہے اور بے شمار علماء کے اقوال و آراء کو اپنی تصنیف کی زینت بنایا ہے۔ چند اہم ماخذ کے نام یہ ہیں۔

۱۸۳

تفاسیر قرآن :

طبری، قرطبی، رازی، ابن عطیة، ابو مسلم الاصفهانی، واحدی، زمخشری، وکیع بن جراح، سدی، ابن ابی حاتم، سنید بن داؤد، عبد بن حمید، ابن مردویة وغیرہ۔

علوم قرآن :

فضائل القرآن ابوعبیدة القاسم، مقدمة فی اصول تفسیر ابن تیمیة وغیرہ۔

کتب حدیث:

صحاح ستة، صحیح ابن حبان، صحیح ابن خزیمة، مؤطا امام مالک، مستدرک حاکم، سنن دارقطنی، مسند امام شافعی، مسند دارمی، مسند ابویعلی الموصلی، مسند عبد بن حمید، مسند ابو بکر البزار، معجم کبیر طبرانی وغیرہ۔

کتب تراجم اور جرح و تعدیل:

التاریخ الکبیر امام بخاری، مشکل الحدیث ابو جعفر الطحاوی، الجرح والتعدیل ابن ابی حاتم، الاستیعاب فی معرفة الاصحاب ابن عبدالبر، الموضوعات ابن الجوزی وغیرہ۔

کتب سیرت و تاریخ:

سیرة ابن اسحاق، سیرة ابن هشام، مغازی سعید بن یحییٰ اموی، مغازی واقدی، دلائل نبوة بیهقی، الروض الانف سهیلی، التنویرفی مولد السراج المنیر عمر بن وحیه الکلبی، تاریخ ابن عساکر وغیره ۔

۱۸۴

فقہ و کلام:

کتاب الام امام شافعی، الارشادفی الکلام امام الحرمین، کتاب الاموال ابوعبیدالقاسم، الاشراف علی مذاهب الاشراف ابن هبیره وغیرہ۔

لغات:

الصحاح ابونصر جوهری، معانی القرآن ابن زیاد الفراء وغیره

ان مصادر کے علاوہفضائل شافعی ابن ابی حاتم، کتاب الآثار و الصفات بیهقی، کشف الغطاء فی تبیین الصلوٰ ة الوسطیٰ و میاطی، کتاب التفکر والا اعتبار ابن ابی الدنیا، السر المکتوم رازی اور دیگر متعدد کتب کے حوالے بھی ہمیں زیر بحث کتاب میں ملتے ہیں، جن سے ابن کثیر کے وسعت مطالعہ اور تحقیقی میدان میں دلچسپی کا اندازہ ہوتا ہے۔

حافظ ابن کثیر نے اپنی کئی تصانیف کے حوالے بھی ”تفسیر“ میں دئیے ہیں، مثلاًالبدایه والنهایه کتاب السیرة الاحکام الکبیر صفته النار، احادیث الاصول، جزء فی ذکر تطهیر المساجد، جزء فی الصلوٰة الوسطیٰ، جزء فی ذکر فضل یوم عرفه، جزء فی حدیث الصور وغیره ۔(۵) ۔

____________________

۵۔ ابن کثیر، عماد الدین اسماعیل بن عمر، تفسیر القرآن العظیم، ملاحظہ کیجئے بالترتیب: ۱/۳۶۳،۳/۴۷۸، ۱/۷۹، ۳۲۷،۴۵۷،۴/۵۴۳،۱/۵۵۵،۳/۲۹۲،۱/۲۹۴،۱/۲۴۳،۲/۱۴۹، امجد اکیڈمی لاہور،الباکستان، ۱۴۰۳ھ /۱۹۸۲ء۔

۱۸۵

منھج:

تفسیرکے اصولوں کا التزام :

علامہ ابن کثیر نے زیر تبصرہ کتاب کا نہایت مفصل مقدمہ تحریر کیا ہے اور تفسیر کے درج ذیل اصول متعین کیے ہیں:تفسیر القرآن بالقرآن تفسیر القرآن بالسنة تفسیر القرآن باقوال الصحابة تفسیر القرآن باقوال التابعین (۶)

یہ مرکزی اور بنیادی اصول تفسیر ابن کثیر میں یکساں طور پر بالترتیب نظر آتے ہیں۔ امام موصوف سلیس اور مختصرعبارت میں آیات کی تفسیر کرتے ہیں ایک آیت کے مفہوم کو واضح کرنے کے لیے کئی قرآنی آیات یکے بعد دیگرے پیش کرتے ہیں اور اس سے متعلق جملہ معلوم احادیث ذکر کرتے ہیں، بعدازاں صحابہ،تابعین اور تبع تابعین کے اقوال و آثاردرج کرتے ہیں۔ اس انداز میں مثالیں ان کی تفسیر میں بکثرت پائی جاتی ہیں۔ سورة المومنون کی آیت۵۰ :

( وَجَعَلْنَا ابْنَ مَرْیَمَ وَاُمَّه اٰیٰةً وَّ اٰوَیْنٰهُمَآ اِلٰی رَبْوَةٍ ذَاتِ قَرَارٍ وَّمَعِیْنٍ )

کی تفسیر میں متعددروایات و اقوال نقل کیے ہیں اور مختلف مفاہیم بیان کیے ہیں۔ ایک مفہوم کو ترجیح دیتے ہوئے لکھتے ہیں۔

”یہ مفہوم زیادہ ”واضح اور ظاہر ہے، اس لیے کہ دوسری آیت میں بھی اس کا تذکرہ ہے، اور قرآن“ کے بعض حصے دوسرے حصوں کی تفسیر کرتے ہیں اور یہی سب سے عمدہ طریقہ تفسیرہے، اس کے بعد صحیح حدیثوں کا اور ان کے بعد آثار کا نمبر آتا ہے۔"(۷)

____________________

۶۔ تفصیل کیلئے دیکھئیے، تفسیر ابن کثیر ۱/۳۔ ۶

۷۔ ایضاً۳/۲۴۶۔

۱۸۶

نقد و جرح:

حافظ ابن کثیر ایک بلند پایہ محدث تھے، اس لیے انہوں نے محدثانہ طریق پر یہ کتاب مرتب کی ہے اور نہایت احتیاط سے صحیح حدیثوں کے انتخاب کی کوشش کی ہے۔ وہ دوران بحث جرح و تعدیل کے اصولوں کو بروئے کار لاتے ہوئے صحیح روایات کو نکھار کر پیش کرتے ہیں،بعض روایات کو ضعیف قرار دیتے ہیں جبکہ غلط اور فاسد روایتوں کی تردید کرتے ہیں، مثلاً آیت( یَوْمَ نَطْوِی السَّمَآءَ کَطَیِّ السِّجِلِّ لِلْکُتُبِ ) (الانبیاء: ۱۰۴) کے بارے میں ابن عمر سے روایت ہے کہ سجل آنحضور کے ایک کاتب کا نام تھا۔ اس پر تنقید کرتے ہوئے ابن کثیر تحریر کرتے ہیں:

”یہ منکر روایت ہے اور یہ قطعاً صحیح نہیں۔ ابن عباس سے بھی جو روایت بیان کی جاتی ہے، وہ ابوداؤد میں ہونے کے باوجود غلط ہے۔ حفاظ کی ایک جماعت نے اس کی وضعیت پر ایک مستقل رسالہ تحریر کیا ہے اور ابن جریر نے بھی اس کا نہایت پر زور رد کیا ہے۔ اس روایت کے ضعیف ہونے کا سب سے بڑا ثبوت یہ ہے کہ رسول اللہ کے تمام کاتبین وحی نہایت مشہور لوگ ہیں ان کے نام معروف ہیں۔ صحابہ میں بھی کسی کا نام سجل نہ تھا۔"(۸)

علامہ ابن کثیر مختلف روایتوں کے متعدد طرق و اسناد کا ذکر کے روات پر بھی جرح کرتے ہیں مثلاً سورة البقرة کی آیت ۱۸۵:

( هُدًی لِّلنَّاسِ وَبَیِّنٰاتٍ مِّنَ الْهُدٰی )

کے تحت ابومعشر نجیح بن عبد الرحمن المدنی کو ضعیف قرار دیا ہے(۹)

____________________

۸۔ ایضاً۳/۲۰۰۔ خود ابن کثیر نے بھی حدیث سجل کے رد میں ایک جزء تحریر کیا ہے جس کا حوالہ انہوں نے اپنی تفسیر میں دیا ہے، ملاحظہ ہو صفحہ مذکور۔

۹۔ ابن کثیر، تفسیر، ۱/۲۱۶۔

۱۸۷

اسی طرح سورہ مذکورہ کی آیت ۲۵۱:

( وَ لَوْلَا دَفْعُ اللّٰهِ النَّاسَ بَعْضَهُمْ بِبَعْضٍ لَّفَسَدَتِ الْاَرْضُ )

کی تفسیر میں مختلف طرق سے ایک روایت بیان کی ہے اور یحییٰ بن سعید کو ضعیف قرار دیا ہے۔(۱۰)

سورة نساء کی آیت۴۳:

( یٰٓاَیُّهَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا لَاتَقْرَبُوا الصَّلٰوٰةَ وَلَا جُنُبًا اِلَّا عَابِرِیْ سَبِیْلٍ حَتّٰی تَغْتَسِلُوْا )

کی تفسیر میں سالم بن ابی حفصہ کو متروک اور ان کے شیخ عطیہ کوضعیف قرار دیا ہے۔(۱۱) اسی سورت کی آیت ۹۳:

( وَمَنْ یَّقْتُلْ مُؤْمِنًا مَُّتَعَمِّدًا فَجَزَآؤُه جَهَنَّمُ الخ ) کے سلسلے میں فرماتے ہیں۔ ابن مردویہ میں حدیث ہے کہ جان بوجھ کر ایمان دار کو مار ڈالنے والا کافر ہے یہ حدیث منکر ہے اور اس کی اسناد میں بہت کلام ہے۔(۱۲) ابن کثیر نے حدیث کے ساتھ ساتھ آثار صحابہ اور اقوال تابعین بھی کثرت سے نقل کئے ہیں لیکن ان کی صحت جانچنے کے لئے یہاں بھی انہوں نے بحث وتنقید کا معیار برقرار رکھا ہے اور ان کی تائید وتردید میں اپنی معتبر رائے کا اظہار کیا ہے مثلاً سورة النساء کی آیت ۴۱:

( فَکَیْفَ اِذَا جِئْنَا مِنْ کُلِّ اُمَّةٍ بِشَهِیْدٍ الخ )

کی تفسیر میں ابوعبداللہ قرطبی کی کتاب ”تذکرہ“ کے حوالے سے حضرت سعید بن مسّیب کا قول نقل کرتے ہیں اور پھرفرماتے ہیں۔ ”یہ اثر ہے اور اس کی سند میں انقطاع ہے۔ اس میں ایک راوی مبُہم ہے، جس کا نام ہی نہیں نیز یہ سعید بن مسیب کا قول ہے جو حدیث مرفوع بیان ہی نہیں کرتے۔ "(۱۳)

____________________

۱۰۔ ایضاً، ۱/۳۰۳۔ ۱۱۔ ایضاً،۱/۵۰۱ ۱۲۔ ایضاً ۱/۵۳۶۔ ۱۳۔ ایضاً،۱/۴۹۹

۱۸۸

جرح وقدح کے ضمن میں ابن کثیر تاریخ غلطیوں اور حوالوں کی بھی تردید کرتے ہیں،مثلاً

( واذا تتلیٰ علیهم اْٰیٰتناٰ قالو اقد سمعنا لونشآ ء لقلنا مثل هذا ) (الانفال: ۳۱)

کے تحت لکھتے ہیں: ”حضور نے بدر کے روز تین قیدیوں کے قتل کا حکم دیا تھا۔ (۱) عقبہ بن ابی معیط (۲) طعیمہ بن عدی (۳) نضر بن حارث۔ سعید بن جبیر نے ایک روایت میں طعیمہ کی بجائے مطعم بن عدی کا نام بتایا ہے۔ یہ بات غلط ہے، کیونکہ مطعم بن عدی تو بدر کے روز زندہ ہی نہیں تھا، اس لیے اس روز حضور نے فرمایا تھا کہ اگر آج مطعم بن عدی زندہ ہوتا اور ان مقتولین میں سے کسی کا سوال کرتا میں تو اس کو وہ قیدی دے دیتا۔ آپ نے یہ اس لیے فرمایا تھاکہ مطعم نے آنحضرت کو اس وقت تحفظ دیا تھا جب آپ طائف کے ظالموں سے پیچھا چھڑا کر مکہ واپس آرہے تھے۔"(۱۴)

شان نزول کا بیان:

اگر کسی سورة یا آیت کا شان نزول ہے تو اما م ابن کثیر اپنی ”تفسیر“ میں اس کا تذکرہ کرتے ہیں، مثلاً سورة بقرة کی آیت ۱۰۹:

( ودکثیر من اهل الکتاب لویر دونکم من بعد ایمانکم )

کے تحت لکھتے ہیں: ”ابن عباس سے روایت ہے کہ حی بن اخطب اور ابویا سر بن اخطب دونوں یہودی مسلمانوں کے سب سے زیادہ حاسد تھے اور وہ لوگوں کو اسلام سے روکتے تھے، ان کے بارے میں یہ آیت نازل ہوئی۔ زہری کہتے ہیں کہ کعب بن اشرف شاعر تھا اور وہ اپنی شاعری میں نبی کی ہجو کیا کرتا تھا۔ اس کے بارے میں یہ آیت نازل ہوئی۔"(۱۵) سورة اخلاص کا شان نزول اس طرح بیان کیا ہے:

____________________

۱۴۔ ایضاً۲/۳۰۴ ۱۵۔ ایضاً۱/۱۵۳۔

۱۸۹

”مسند احمد میں ہے کہ مشرکین نے حضور سے کہا اپنے رب کے اوصاف بیان کرو اس پر یہ آیت اتری اور حافظ ابویعلی موصلی کہتے ہیں کہ ایک اعرابی نے رسول کریم سے یہ سوال کیا اس کے جواب میں یہ سورہ اتری۔(۱۶)

فقہی احکام کا بیان :

ابن کثیر احکام پر مشتمل آیات کی تفسیر کرتے ہوئے فقہی مسائل پر بحث کرتے ہیں اور اس سلسلے میں فقہا کے اختلافی اقوال و دلائل بیان کرتے ہیں، مثلاً سورة بقرہ کی آیت

( قد نری تقلب وجهک فی السماء الخ )

کے تحت لکھتے ہیں: ”مالکیہ نے اس آیت سے استدلال کیا ہے کہ نمازی حالت نماز میں اپنے سامنے اپنی نظر یں رکھے نہ کہ سجدہ کی جگہ جیسا کہ شافعی، احمد اور ابو حنیفہ کا مسلک ہے، اس لیے کہ آیت کے لفظ یہ ہیں۔

( فول و جهک شطر المسجد الحرام )

یعنی مسجد حرام کی طرف منہ کرو اور اگرسجدے کی جگہ نظر جمانا چاہے گا تو اسے قدرے جھکنا پڑے گا اور یہ تکلف خشوع کے خلاف ہو گا۔ بعض مالکیہ کایہ قول بھی ہے کہ قیام کی حالت میں اپنے سینے پر نظر رکھے۔ قاضی شریح کہتے ہیں کہ قیام میں سجدے کی جگہ نظر رکھے جیسا کہ جمہور علماء کا قول ہے اس لیے کہ اس میں پورا پورا خشوع وخضوع ہے۔ اس مضمون کی ایک حدیث بھی موجود ہے اور رکوع کی حالت میں اپنے قدموں کی جگہ نظر رکھے اور سجدے کے وقت ناک کی جگہ اور قعدہ کی حالت میں اپنی آغوش کی طرف۔(۱۷)

____________________

۱۶۔ ایضاً،۵۶۵

۱۷۔ ایضاً،۱/۱۹۳

۱۹۰

( فمن شهد منکم الشهر ) (البقرة: ۱۸۵)

کی تفسیر میں مولف نے چار مسائل کا ذکر کر کے اس بارے میں علما ء کے مختلف مسالک اور ان کے براہین و دلائل بیان کیے ہیں۔(۱۸)

سورہ نساء کی آیت ۴۳ کے تحت تیمم کے مسائل اور احکام ذکر کیے گئے ہیں۔(۱۹)

( لایواخذکم اللّٰه باللغوفی ایمانکم ) (سورة المائدہ:۸۹)

کے تحت قصداً قسم کے سلسلے میں کفارہ ادا کرنے کے مسائل بیان کئے گئے ہیں(۲۰) امام ابن کثیر فقہی مسائل میں عموماً شافعی مسلک کی تائید کرتے ہیں۔

روایات و قول میں تطبیق:

ابن کثیر مختلف و متضاد روایات میں جمع و تطبیق کی کوشش کرتے ہیں اور ان کے مابین محاکمہ کرتے ہیں۔ مثلاً سورة آلِ عمران کی آیت ۱۶۹

( ولاتحسبن الذین قتلوا فی سبیل الله امواتاً بل احیاً ء عند ربهم یرزقون ) کی تفسیر میں لکھتے ہیں : صحیح مسلم میں ہے، مسروق کہتے ہیں ہم نے عبد اللہ ابن مسعود سے اس آیت کا مطلب پوچھا تو حضرت عبداللہ نے فرمایا کہ ہم نے رسول اللہ سے اس آیت کا مطلب دریافت کیا: آپ نے فرمایا: شہیدوں کی روحیں پرندوں کے قالب میں ہیں اور ان کیلئے عرش کی قند یلیں ہیں۔ وہ ساری جنت میں جہاں کہیں چاہیں، کھائیں پےئیں اور قندیلیوں میں آرام کریں۔

___________________

۸۱۔ ایضاً،۱/۲۱۶۔ ۲۱۷ ۱۹۔ ایضاً، ۱/۵۰۵،۴،۵ ۲۰۔ ایضاً،۲/۸۹۔ ۹۱

۱۹۱

لیکن مسند احمد میں ہے کہ شہید لوگ جنت کے دروازے پر نہر کے کنارے سبز گنبد میں ہیں۔ صبح و شام انہیں جنت کی نعمتیں پہنچ جاتی ہیں۔ دونوں حدیثوں میں تطبیق یہ ہے کہ بعض شہداء وہ ہیں جن کی روحیں پرندوں کے قالب میں ہیں اور بعض و ہ ہیں جن کا ٹھکانہ یہ گنبد ہے۔ اور یہ بھی ہو سکتا ہے کہ وہ جنت میں سے پھرتے پھراتے یہاں جمع ہوتے ہوں اور پھر انہیں یہیں کھانے کھلائے جاتے ہوں۔” والله اعلم‘‘ (۲۱)

آپ مختلف تفسیری اقوال میں بھی تطبیق دیتے ہیں مثلاً سورة قصص کی آیت (۸۵) ”لر آدک الیٰ معاد“ کے بارے میں حضرت عبداللہ بن عباس کے تین قول نقل کیے ہیں (۱) موت (۲) جنت (۳) مکہ۔ ان تینوں اقوال میں یوں تطبیق دی ہے کہ مکہ کا مطلب فتح مکہ ہے جوحضوراکرم کی موت کی قربت کی دلیل ہے اور روز قیامت مراد لینے کا مطلب یہ ہے کہ وہ بہر حال موت کے بعد ہی ہو گا اور جنت اس لیے کہ تبلیغ رسالت کے صلہ میں آپ کا ٹھکانہ وہی ہو گا۔(۲۲)

قرآنی آیات کا ربط و تعلق:

ابن کثیر قرآن مجید کے ربط و نظم کے قائل تھے۔ وہ اپنی ”تفسیر" میں آیات کے باہمی تعلق اور مناسبت کو اس طرح بیان کرتے ہیں کہ قرآن پاک ایک مربوط منظم کتاب نظر آتی ہے، اس سلسلے میں متعدد مثالیں ”تفسیر ابن کثیر“ میں نظر آتی ہیں مثلاً آیت

( انما الصدٰقٰت للفقرآء والمساکین ) (سورہ توبہ: ۶۰) کے سلسلے میں رقمطر از ہیں۔

___________________

۲۱۔ ایضاً،۱/۴۲۶۔ ۴۲۷

۲۲۔ ایضاً،۳/۴۰۳

۱۹۲

”سورة توبہ کی آیت ۵۸( ومنهم من یلمزک فی الصدقت )

میں ان جاھل منافقوں کا ذکر تھا جو ذات رسول پر تقسیم صدقات کے سلسلے میں اعتراض کرتے تھے۔ اب یہاں اس آیت میں فرمایا کہ تقسیم زکوةٰ پیغمبر کی مرضی پر موقوف نہیں بلکہ ہمارے بتلائے ہوئے مصارف میں ہی لگتی ہے، ہم نے خود اس کی تقسیم کر دی ہے، کسی اور کے سپرد نہیں کی۔"(۲۳) ( اولئٓک یجزون الغرفة بما صبروا ) (سورہ الفرقان: ۷۵،۷۶) کے متعلق فرماتے ہیں۔ ’چونکہ خدائے رحمن نے اس سے پہلی آیات میں اپنے مومن بندوں کے پاکیزہ اوصاف اور عمدہ طور طریقوں کا ذکر کیا تھا، اس لیے اس کی مناسبت سے اس آیت میں ان اجزا کا ذکر کیا ہے۔"(۲۴)

قرآن مجید میں بعض مقامات پر مومن اور باطل فرقوں کیلئے اسلوب تقابل اختیار کیا گیا ہے جو اس کے منظم و مربوط ہونے کی بہت بڑی دلیل ہے علامہ ابن کثیر نے یہاں بھی آیتوں کی مناسبت اور ان کا باہمی ربط بیان کیا ہے، مثلاً

( وبشرالذین امنوا وعملو الصٰالحٰتِ ) (سورةالبقرة :۲۵)

کے بارے میں تحریر کرتے ہیں۔ ”چونکہ اللہ تعالی نے پہلے اپنے دشمنوں یعنی بدبخت کفار کی سزا اور رسوائی کا تذکرہ کیا تھا، اس لیے اب اس کی مناسبت سے یہاں اس کے مقابلہ میں اپنے دوستوں یعنی خوش قسمت ایماندار، صالح و نیک لوگوں کے اجر کا ذکر کر رہا ہے اور صحیح قول کے مطابق قرآن مجید کے مثالی ہونے کا یہی مطلب ہے کہ ایمان کے ساتھ کفر اور سعادتمندوں کے ساتھ بدبختوں یا اس کے برعکس یعنی کفر کے ساتھ ایمان اور بدبختوں کے ساتھ سعادتمندوں کا تذکرہ کیا جائے۔ اس بحث کا حاصل یہ ہے کہ اگر کسی چیز کے ساتھ اس کے مقابل کا ذکر کیا جائے تو یہ مثانی کہلائے گا اور اگر کسی چیز کے ساتھ اسکے امثال و نظائر کا تذکرہ کیا جائے تو یہ متشابہ ہو گا۔"(۲۵)

__________________

۲۳۔ ایضاً،۲/۳۶۴ ۲۴۔ ۲/۳۶۴ ۲۴۔ ایضاً، ۳/۳۳۰ ۲۵۔ ایضاً، ۱/۶۲

۱۹۳

حروف مقطعات پر بحث:

حروف مقطعات کے بارے میں امام ابن کثیر کا نقطہ نظریہ ہے:

”جن جاہلوں کا یہ خیال ہے کہ قرآن کی بعض چیزوں کی حیثیت محض تعبدی ہے، وہ شدید غلطی پر ہیں۔ یہ تو بہر حال متعین ہے کہ ان حروف (مقطعات ) کے کوئی نہ کوئی معنی ضرور ہیں، خدا نے ان کو عبث نازل نہیں فرمایا، اگر ان کے متعلق نبی کریم سے کوئی بات ثابت ہو گی تو ہم اسے بیان کرینگے اور اگر حدیث سے کوئی بات معلوم نہ ہو گی تو ہم توقف کریں گے اور یہ کہیں گے کہ (امنابہ کل من عندہ ربنا )۔ حروف مقطعات کے متعلق علمائے امت کا کسی ایک قول اور مفہوم پر اجماع نہیں ہے بلکہ اختلافات ہیں، اس لیے اگر کسی دلیل سے کسی کے نزدیک مفہوم زیادہ واضح ہے تو اس کو وہ مفہوم اختیار کر لینا چاہیے، ورنہ حقیقت حال کے انکشاف تک توقف کرنا چاہیے۔"(۲۶)

ابن کثیر نے زیر بحث کتاب میں حروف مقطعات پر عمدہ بحث کی ہے اس سلسلے میں وہ مختلف مفسرین کے اقوال کی روشنی میں ان کے معانی ومفاہیم متعین کرنے کی کوشش کرتے ہیں(۲۷)

فضائل السورآیات:

”تفسیر ابن کثیر“ میں سورتوں اور آیتوں کے فضائل و خصوصیات، آنحضور کا ان پر تعامل اور امت کو ترغیب و تلقین کا تذکرہ پایاجاتا ہے۔ اس سلسلے میں ابن کثیر نے اہم کتب احادیث کے علاوہ امام نسائی کی معروف تصنیف”عمل الیوم واللیلة“ اور امام بیہقی کی”کتاب الخلافیات“ سے بھی استفادہ کیا ہے۔ زیر تبصرہ کتاب کے آغاز میں سورة البقرہ اور سورة آلِ عمران کے فضائل کا مفصل بیان ہے۔ اسی طرح آیت( ولقد اتیناک سبعاً من المثانی ) (سورہ الحجر: ۸۷)

___________________

۲۶۔ ایضاً، ۱/۳۷ ۲۷۔ ایضاً، ۱/۳۵۔ ۳۸

۱۹۴

کے تحت سبع مثانی کی تفسیر میں سات مطول سورتوں بشمول سورة البقرہ وآلِ عمران کے فضائل و خصائص تحریر کیے گئے ہیں۔(۲۸)

امام ابن کثیر سورہ حشر کی آخری تین آیتوں کے متعلق فرماتے ہیں:

”مسند احمد کی حدیث میں ہے کہ جو شخص صبح کو تین مرتبہ

اعوزبالله السمیع العلیم من الشیطان الرجیم

پڑھ کر سورة حشر کی آخری تین آتیوں کو پڑھ لے تو اللہ تعالیٰ اس کیلئے ستر ہزار فرشتے مقرر کرتا ہے جو شام تک اس پر رحمت بھیجتے ہیں اور اگر اسی دن اس کا انتقال ہو جائے تو شہادت کا مرتبہ پاتا ہے اور جو شخص ان کی تلاوت شام کے وقت کرے، وہ بھی اسی حکم میں ہے“(۲۹) امام صاحب ایک جگہ لکھتے ہیں کہ ”جادو کو دور کرنے اور اس کے اثر کو زائل کرنے کیلئے سب سے اعلیٰ چیز معوذ تان یعنی سورة الفلق اور سورة الناس ہیں۔ حدیث میں ہے کہ ان جیسا کوئی تعویذ نہیں۔ اسی طرح آیت الکرسی بھی شیطان کو دفع کرنے میں اعلیٰ درجہ کی چیز ہے۔"(۳۰)

اشعار سے استشھاد:

ابن کثیر نے اپنی تفسیر میں ایک انداز یہ بھی اختیار کیا ہے کہ وہ کسی آیت کے معنی و مفہوم کو واضح کرنے کیلئے حسب موقع عربی اشعار پیش کرتے ہیں۔ یہ طرز غالباً انہوں نے طبری سے حاصل کیا ہے۔ آیت( قل متاع الدنیا قلیل وًالاخرة خیر لمن اتقیٰ ) ۔ (النساء : ۷۷) کی تفسیر بیان کرتے ہوئے موصوف نے ابومصہر کے یہ اشعار بیان کیے ہیں۔

____________________

۲۸۔ ایضاً، ۱/۳۲۔ ۳۵ نیز ملاحظہ کیجئے ۲/۵۵۷ ۲۹۔ ایضاً، ۴/۳۴۴ ۳۰ ایضاً، ۱/۱۴۸

۱۹۵

ولاخیر فی الدنیا لمن لم یکن له

من اللّٰه فی دارالمقام نصیب

فان تعجب الدنیا رجالا فانها

متاع قلیل والزوال قریب(۳۱)

(اس شخص کیلئے دنیا میں کوئی بھلائی نہیں جس کو اللہ کی طرف سے آخرت میں کوئی حصہ ملنے والا نہیں۔ گو یہ دنیا بعض لوگوں کو پسندیدہ معلوم ہوتی ہے، لیکن دراصل یہ معمولی سافائدہ ہے۔ اور وہ بھی ختم ہونے والا ہے)۔

( وَإِنِّي لَأَظُنُّكَ يَا فِرْعَوْنُ مَثْبُورًا ) (سورہ بنی اسرائیل : ۱۰۲)

میں لفظ ”مثبور“ کے معنی ہلاک ہونا۔ ابن کثیر کہتے ہیں کہ یہ معنی عبداللہ بن زبعریٰ کے اس شعر میں بھی ہیں:۔

”اذا جار الشیطٰین فی سنن الغی

ومن مال میله مثبور"(۳۲)

جب شیطان سرکشی کے طریقوں پر چلتا ہے

اور پھر جو لوگ بھی سکے طریقے پر چلیں تو وہ ہلاک ہو جاتے ہیں۔

____________________

۳۱۔ ایضاً، ۱/۵۲۶ ۳۲۔ ایضاً، ۳/۶۷

۱۹۶

لغت عرب سے استدلال:

ابن کثیر تفسیر میں لغت سے بھی استدلال کرتے ہیں اور اقوال عرب کو نظائر و شواہد کے طور پر پیش کرتے ہوئے آیت کی تشریح و توضیح کرتے ہیں مثلاً( فقلیلا مایوٴمنون ) (البقرة : ۸۸) کے متعلق لکھتے ہیں : ”اس کے ایک معنی یہ ہیں کہ یہ بالکل ایمان نہیں رکھتے ہیں، جیسے عرب کہتے ہیں۔(فلما رأیت مثل هذاقط ) مطلب یہ ہے کہ میں نے اس جیسا بالکل نہیں دیکھا۔"(۳۳)

( يَسْأَلُونَكَ مَاذَا أُحِلَّ لَهُمْ ۖ قُلْ أُحِلَّ لَكُمُ الطَّيِّبَاتُ ۙ وَمَا عَلَّمْتُم مِّنَ الْجَوَارِحِ مُكَلِّبِينَ ) (سورةالمائدة : ۴)

کی تفسیر میں لفظ ”جوارح“ کو زیر بحث لاتے ہیں اور لکھتے ہیں: ”شکاری حیوانات کو جوارح اس لیے کہا گیا ہے کہ جرح سے مراد کسب اور کمائی ہے، جیسے کہ عرب کہتے ہیں”فلان جرح اهله خیراً“ یعنی فلاں شخص نے اپنے اہل و عیال کیلئے بھلائی حاصل کر لی ہے۔ نیز عرب کا ایک قول یہ بھی ہے”فلاں لا جارح له" یعنی فلاں شخص کا کوئی کمانے والانہیں۔"(۳۴)

جمہور مفسرین اور ابن کثیر:

ابن کثیر اپنی ”تفسیر" میں متقد مین علمائے تفسیر کے مختلف اقوال کا قدر مشترک تلاش کر کے اس کو ہم معنی ثابت کرتے ہیں اور اکثر جمہور علماء اہل سنت والجماعت کے نقطہء نظر سے اتفاق کرتے ہیں مثلاً آیت

( وَمَن كَانَ مَرِيضًا أَوْ عَلَىٰ سَفَرٍ فَعِدَّةٌ مِّنْ أَيَّامٍ أُخَرَ ) (سورةالبقرة ۱۸۵) کے تحت ابن کثیر قضاء روزوں کے مسئلہ پر جمہور کا یہ مسلک اختیار کرتے ہیں کہ قصاء روزے پے در پے رکھنا واجب نہیں بلکہ یہ مرضی پر منحصر ہے کہ ایسے روزے الگ الگ دنوں میں رکھے جائیں یا متواتر دنوں میں(۳۵)

___________________

۳۳۔ ایضاً،۱/۱۲۴ ۳۴۔ ایضاً، ۲/۱۶ ۳۵۔ ایضاً، ۱/۲۱۷۔

۱۹۷

ابن کثیر نقل و روایت میں مقلد جامدنہ تھے بلکہ ان کی تنقید و تردید بھی کرتے تھے، اس لیے وہ سلف کی تفسیروں کے پابند ہونے کے باوجود بعض اوقات ان کی آراء سے اختلاف بھی کرتے ہیں مثلاً آیت

( فَلَمَّا آتَاهُمَا صَالِحًا جَعَلَا لَهُ شُرَكَاءَ فِيمَا آتَاهُمَا ۚ فَتَعَالَى اللَّـهُ عَمَّا يُشْرِكُونَ ) (الاعراف : ۱۹۰)

کی تفسیر میں ابن عباس کی روایت بیان کی ہے کہ حضرت حوا کی جو اولاد پیدا ہوتی تھی وہ ان کو اللہ تعالیٰ کی عبادت کیلئے مخصوص کر دیتی تھیں اور ان کا نام عبد اللہ، عبیداللہ وغیرہ رکھتی تھیں۔ یہ بچے مر جاتے تھے، چنانچہ حضرت آدم وحوا کے پاس ابلیس آیا اور کہنے لگا کہ اگر تم اپنی اولاد کا نام کوئی اور رکھو گے تو وہ زندہ رہے گا اب حوا کا جو بچہ پیدا ہوا تو ماں باپ نے اس کا نام عبدالحارث رکھا۔ اسی بناء پر اللہ نے فرمایا:

( جَعَلَا لَهُ شُرَكَاءَ فِيمَا آتَاهُمَا )

اللہ کی دی ہوئی چیز میں وہ دونوں اللہ کے شریک قرار دینے لگے۔

پھر ابن کثیر لکھتے ہیں: ”اس روایت کو ابن عباس سے ان کے شاگردوں مجاہد، سعید بن جبیر، عکرمہ اور طقبہ ثانیہ کے فتادہ اور سدی وغیرہ نے نقل کیا ہے۔ اسی طرح سلف سے خلف تک بہت سے مفسرین نے اس آیت کی یہی تفسیر کی ہے،لیکن ظاہر یہ ہے یہ واقعہ اہل کتاب سے لیا گیا ہے، اس کی ایک بڑی دلیل یہ ہے کہ ابن عباس اس واقعہ کو ابی بن کعب سے روایت کرتے ہیں، جیسے کہ ابن ابی حاتم میں ہے۔ میرے نزدیک یہ اثر ناقابل قبول ہے۔"(۳۶)

____________________

۳۶۔ ایضاً، ۲/۲۷۵

۱۹۸

سورة حج کی آیت ۵۲ :

( وَمَا أَرْسَلْنَا مِن قَبْلِكَ مِن رَّسُولٍ وَلَا نَبِيٍّ إِلَّا إِذَا تَمَنَّىٰ أَلْقَى الشَّيْطَانُ فِي أُمْنِيَّتِهِ ) کے متعلق ابن کثیر کو جمہور کے نقطہ نظر سے اتفاق نہیں ہے، چنانچہ تحریر فرماتے ہیں:

”یہاں پر اکثر مفسرین نے غرانیق کا قصہ نقل کیا ہے اور یہ بھی کہ اس واقعہ کی وجہ سے اکثر مہاجرین حبشہ یہ سمجھ کر کہ اب مشرکین مکہ مسلمان ہو گئے ہیں، واپس مکہ آگئے لیکن یہ سب مرسل روایتیں ہیں جو میرے نزدیک مستند نہیں ہیں۔ ان روایات کو محمد بن اسحاق نے سیرت میں نقل کیا ہے، لیکن یہ سب مرسل اور منقطع ہیں۔ امام بغوی نے بھی اپنی تفسیر میں ابن عباس اور محمد بن کعب قرظی سے اس طرح کے اقوال نقل کرنے کے بعد خود ہی ایک سوال وارد کیا ہے کہ جب رسول کریم کی عصمت کا محافظ خود خدا تعالیٰ ہے تو ایسی بات کیسے واقع ہو گئی ؟ پھر اس کے کئی جوابات دےئے ہیں، جن میں سب سے صحیح اور قرین قیاس جواب یہ ہے کہ شیطان نے یہ الفاظ مشرکین کے کانوں میں ڈالے، جس سے ان کو یہ وہم ہو گیا کہ یہ الفاظ آنحضور کے منہ سے نکلے ہیں۔ حقیقت میں ایسا نہیں تھا۔ بلکہ یہ صرف شیطانی حرکت تھی، رسول کا اس سے کوئی تعلق نہیں۔"(۳۷)

علم القراة اور لغوی تحقیق:

ابن کثیر قرآنی آیات کی تفسیر کرتے ہوئے حسب موقع اختلاف قرات و اعراب، صرفی و نحوی ترکیب اور الفاظ کی لغوی تحقیق کے علاوہ ان کے مصادر، تثنیہ، جمع اور اصطلاحی مفہوم بیان کرتے ہیں مثلاً آیت( وَلَقَدْ مَكَّنَّاكُمْ فِي الْأَرْضِ وَجَعَلْنَا لَكُمْ فِيهَا مَعَايِشَ ۗ قَلِيلًا مَّا تَشْكُرُونَ ) (الاعراف: ۱۰) میں لفظ ”معائش“ کی وضاحت اس طرح کرتے ہیں لفظ ”معایش“ کو سب لوگ (ی) کے ساتھ پڑھتے ہیں

___________________

۳۷۔ ایضاً، ۳/۳۲۹۔ ۳۳۰

۱۹۹

یعنی ہمزہ کے ساتھ ”مَعَائِش“ نہیں پڑھتے، لیکن عبدالرحمن بن ہرمز اس کو ہمزہ کے ساتھ پڑھتے ہیں اور صحیح تو یہی ہے۔ جو اکثر کا خیال ہے یعنی بلاہمزہ، اس لیے کہ ”معایش“ جمع معیشتہ کی ہے۔ یہ مصدر ہے، اس کے افعال ”عاش، یعیش مَعِیشَة ہیں اس مصدر کی اصلیت ہے ” معیشة“ کسرہ (ی) پر ثقیل تھا، اس لیے عین کی طرف منتقل کر دیا گیا ہے اور لفظ ”معیشة" معیشہ بن گیا ہے پھر اس واحد کی جب جمع بن گئی تو(ی) کی طرف حرکت پھر لوٹ آئی کیونکہ اب ثقالت باقی نہیں رہی، چنانچہ کہا گیا کہ مَعَایِش کا وزن مفاعل ہے اس لئے کہ اس لفظ میں (ی) اصل ہے بخلاف مدائن، صحائف اور بصائر کے کہ یہ مدنة صحیفة اور بصیرة کی جمع ہیں، چونکہ (ی) اس میں زائد ہے، لہذا جمع بروزن فعائل ہو گی اور ہمزہ بھی آئے گا۔(۳۸)

( وَإِذْ تَأَذَّنَ رَبُّكَ لَيَبْعَثَنَّ عَلَيْهِمْ إِلَىٰ يَوْمِ الْقِيَامَةِ مَن يَسُومُهُمْ سُوءَ الْعَذَابِ ۗ إِنَّ رَبَّكَ لَسَرِيعُ الْعِقَابِ ۖ وَإِنَّهُ لَغَفُورٌ رَّحِيمٌ ) (سورہ الاعراف: ۱۶۷)

میں لفظ ”تَاَذَّنَ“ پر اس طرح بحث کرتے ہیں۔ ”تاذن بروزن تفعل“ اذان سے مشتق ہے یعنی حکم دیا یا معلوم کرایا اور چونکہ اس آیت میں قوت کلام کی شان ہے، اس لیے لیبعثن کا (ل) معنائے قسم کا فائدہ دے رہا ہے، اس لیے(ل) ے بعد ہی یبعثن لا یا گیاھم کی ضمیر یہود کی طرف ہے۔"(۳۹)

لغوی بحث کی عمدہ مثال ہمیں زیر تبصرہ کتاب کے آغاز میں تعوذ، تسمیہ اور سورة الفاتحہ کی تفسیر میں نظر آتی ہے۔ ابن کثیر لفظ ”صلوٰة" کی تحقیق فرماتے ہیں: ’عربی لغت میں (صلوٰة ) کے معنی دعا کے ہیں۔ اعشیٰ کا شعر ہے۔

____________________

۳۸۔ ایضاً، ۲/۲۰۲

۳۹۔ ایضاً، ۲/۲۵۹

۲۰۰

201

202

203

204

205

206

207

208

209

210

211

212

213

214

215

216

217

218

219

220

221

222

223

224

225

226

227

228

229

230

231

232

233

234

235

236

237

238

239

240

241

242

243

244

245

246

247

248

249

250

251

252

253

254

255

256

257

258

259

260

261

262

263