علوم ومعارف قرآن

علوم ومعارف قرآن28%

علوم ومعارف قرآن مؤلف:
زمرہ جات: علوم قرآن
صفحے: 263

علوم ومعارف قرآن
  • ابتداء
  • پچھلا
  • 263 /
  • اگلا
  • آخر
  •  
  • ڈاؤنلوڈ HTML
  • ڈاؤنلوڈ Word
  • ڈاؤنلوڈ PDF
  • مشاہدے: 137258 / ڈاؤنلوڈ: 7152
سائز سائز سائز
علوم ومعارف قرآن

علوم ومعارف قرآن

مؤلف:
اردو

یہ کتاب برقی شکل میں نشرہوئی ہے اور شبکہ الامامین الحسنین (علیہما السلام) کے گروہ علمی کی نگرانی میں اس کی فنی طورپرتصحیح اور تنظیم ہوئی ہے

۱

علوم ومعارف قرآن

مصنف : مختلف علماء ودانشور

ای بک ترتیب وتنظیم : الحسنین علیھما السلام نیٹ ورک

۲

تلاوت قرآن کے آداب اور اس کا ثواب

آیة اللّٰہ العظمی الخوئی

جب فضیلتِ قرآن کی بات آئے تو بہتر ہے کہ انسان توقف اختیار کرے، اپنے آپ کو قرآن کے مقابلے میں حقیر تصور کرے اور اپنی عاجز ی اورناتوانی کا اعتراف کرے، اس لیے کہ بعض اوقات کسی کی مدح میں کچھ کہنے یا لکھنے کی بجائے اپنی عاجزی اور ناتوانی کا اعتراف کر لینا بہتر ہوتا ہے جو انسان عظمت قرآن کے بارے میں لب کشائی کرنا چاہے بھلا وہ کیا کہہ سکتا ہے ؟ یہ کیسے ہو سکتا ہے کہ انسان (جو ایک ممکن اور محدود چیز ہے) لامتناہی ذات کے کلام کی حقیقت کا ادراک کر سکے اور اپنے مختصر اورمحدود ذہن میں اسے جگہ دے سکے۔

انسان میں وہ کون سی طاقت ہے جس کی بدولت وہ اپنے محدود اور ناقص ذہن میں قرآن کی حقیقی قدروقیمت، منزلت اور حیثیت بٹھا سکے اور پھر بیان کر پائے۔ ایک اہل قلم چاہے کتنا ہی مضبوط ہو فضیلت قرآن کے سلسلہ میں لکھ ہی کیا سکتا ہے اور ایک خطیب چاہے وہ کتنا ہی شعلہ بیاں ہو، زبان سے کیا ادا کر سکتا ہے۔ ایک محدود انسان محدود چیز کے علاوہ کسی لامحدود ہستی کی توصیف کیونکرکر سکتا ہے؟

قرآن کی عظمت کے لیے اتنا کافی ہے کہ یہ خالق متعال کا کلام ہے۔ اس کے مقام و منزلت کے لیے اتنا کافی ہے کہ یہ خاتم الانبیاء صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا معجزہ ہے اور اس کی آیات انسانیت کی ہدایت اور سعادت کی ضمانت دیتی ہیں۔ قرآن ہر زمانے میں زندگی کے ہر شعبے میں انسانوں کی راہنمائی کرتا ہے اور سعادت کی ضمانت دیتا ہے۔ اس حقیقت کو قرآن ہی کی زبان سے سن سکتے ہیں۔ ارشاد ہوتا ہے:

۳

( إِنَّ هَـٰذَا الْقُرْآنَ يَهْدِي لِلَّتِي هِيَ أَقْوَمُ ) (سورہ بنی اسرائیل : ۹)

اس میں کوئی شک نہیں کہ یہ قرآن اس راہ کی ہدایت کرتا ہے جو سب سے زیادہ سیدھی ہے۔

( الر ۚ كِتَابٌ أَنزَلْنَاهُ إِلَيْكَ لِتُخْرِجَ النَّاسَ مِنَ الظُّلُمَاتِ إِلَى النُّورِ بِإِذْنِ رَبِّهِمْ إِلَىٰ صِرَاطِ الْعَزِيزِ الْحَمِيدِ ) (سورہ ابراہیم:۱)

(اے رسول یہ قرآن وہ) کتاب ہے جس کو ہم نے تمہارے پاس اس لیے نازل کیا تاکہ تم لوگوں کو ان کے پروردگار کے حکم سے (کفر کی) تاریکی سے (ایمان کی) روشنی میں نکال لاؤ۔ غرض اسکی راہ پر لاؤ جو غالب اور سزا وارِ حمد ہے۔"

( هَـٰذَا بَيَانٌ لِّلنَّاسِ وَهُدًى وَمَوْعِظَةٌ لِّلْمُتَّقِينَ ) (سورہ آلعمران:۱۳۸)

یہ (جو ہم نے کہا) عام لوگوں کے لیے تو صرف بیان(واقعہ ) ہے (مگر) اور پرہیز گاروں کے لیے نصیحت ہے۔

اس سلسلے میں رسول اکرم سے بھی روایت منقول ہے جس میں آپ فرماتے ہیں:

کلام خدا کو دوسروں کے کلام پر وہی فوقیت اور فضیلت حاصل ہے جو خود ذات باری تعالیٰ کو باقی مخلوقات پر ہے۔(۱)

یہاں پر اس حقیقت کا راز کھل کر سامنے آجاتا ہے جس کاہم نے آغاز کلام میں ہی اعتراف کر لیا تھا، یعنی مناسب یہی ہے کہ انسان قرآن کی عظمت اور اس کی فضیلت میں لب کشائی کی جسارت نہ کرے اور اسے ان ہستیوں کے سپرد کر دے جو قرآن کے ہم پلہ اور علوم قرآن میں راسخ اور ماہر ہیں۔ کیونکہ یہ حضرات سب سے زیادہ قرآن کی عظمت اور اس کی حقیقت سے آشنا اور آگاہ ہیں۔

____________________

(۱) بحارالانوار ج۱۹، ص۔ صحیح ترمذی ابن عربی ج۱۱۔ ص۴۷۔ ابواب فضائل۔

۴

یہی ہستیاں ہیں جو قرآن کی ارزش (قدرومنزلت) اور صحیح حقیقت کی طرف لوگوں کی راہنمائی فرماتی ہیں۔ یہی ہستیاں فضیلت میں قرآن کی ہمدوش اور ہم پلہ ہیں اور ہدایت و راہبری میں قرآن کی شریک اور معاون و مددگار ہیں۔ ان حضرات کے جدا مجد وہی رسول اکرم ہیں۔ جنہوں نے قرآن کو انسانیت کے سامنے پیش کیا اور اس کے احکام کی طرف دعوت دی وہی رسول اکرم جو قرآنی تعلیمات اور اس کے حقائق کے ناشر ہیں، آپ قرآن سے ان حضرات کا تعلق یوں بیان فرماتے ہیں:

اِنِّیِ تَارِکٌ فِیْکُمُ الثَّقْلَیْنِ کَتَابَ اللّٰهِ وَعِتْرَتِي أَهْلَ بَیتِي وَاَنّهُما لَن تَضِلُّویَفتَرِقَا حَتّٰی یَرِدَا عَلَيَّ الحَوْض (۲)

میں تم میں دو گرانقدر چیزیں چھوڑے جارہا ہوں ایک اللہ کی کتاب اور دوسری میری عترت و اہل بیت اوریہ ایک دوسرے سے ہر گز جدا نہ ہونگے حتیٰ کہ حوض کوثر پر میرے پاس پہنچیں گے۔

پس اہل بیت اور عترف پیغمبر ہی ہیں جو قرآن کے راہنما اور اس کی فضیلتوں سے مکمل آگاہ ہیں۔ اس لیے ضرور ی ہے کہ ہم انہی کے اقوال پر اکتفاء کریں اور انہی کے ارشادات سے مستفیض ہوں۔ قرآن کی فضیلت میں بہت سی احادیث ائمہ اطہار(ع) سے منقول ہیں، جنہیں مجلسی مرحوم نے کتاب بحار الانوار کی ج۱۶ میں یکجا فرمایا ہے۔ البتہ ہم صرف چند احادیث پر اکتفا کرتے ہیں۔

حارث ہمدانی فرماتے ہیں: میں مسجد میں داخل ہوا اور دیکھا کہ کچھ لوگ بعض (بے فائدہ) باتوں میں الجھے ہوئے ہیں۔ چنانچہ میں امیر المومنین کی خدمت میں حاضر ہوا اور یہ واقعہ آپ کے سامنے بیان کردیا آپ نے فرمایا: واقعاً ایسا ہی ہے؟ میں نے عرض کیا ہاں یا مولا۔ آپ نے فرمایا: اے حارث! میں نے رسول اکرم کو یہ فرماتے ہوئے سنا ہے: عنقریب فتنے برپا ہوں گے۔ میں نے عرض کیا مولا! ان فتنوں سے نجات حاصل کرنے کا کیا طریقہ ہے؟

____________________

(۲) ترمذی ۱۳ /۲۰۰۔ ۲۰۱ مناقب اہل بیت۔

۵

آپ نے فرمایا: راہِ نجات کتاب الہی ہے۔ وہی کتاب جس میں گزشتہ اور آنے والی نسلوں کے واقعات اور خبریں اور تم لوگوں کے اختلافی مسائل کے فیصلے موجود ہیں۔ وہی کتاب جو حق کو باطل سے بٓاسانی تمیز دے سکتی ہے۔ اس میں مذاق اور شوخی کا کوئی پہلو نہیں۔ وہی کتاب جس کو اگر جابر و ظالم بادشاہ بھی ترک اور نظر انداز کرے، خدا اس کی کمر توڑ دیتا ہے۔ جو شخص غیرِقرآن سے ہدایت حاصل کرنا چاہے، خالق اسے گمراہ کر دیتا ہے۔ یہ (قرآن ) خدا کی مضبوط رسی اور حکمت آمیزذکر ہے۔ یہ صراط مستقیم ہے۔ یہ وہ کتاب ہے جسے ہوا و ہوس اور خواہشات نفسانی منحرف نہیں کر سکتیں۔ قرآن کی بدولت زبانیں التباس اور غلطیوں سے محفوظ رہی ہیں۔ علماء اور دانشور اسے پڑھنے اور اس میں فکر کرنے سے سیر نہیں ہوتے۔ زمانے کے گزرنے کے ساتھ یہ پرانی اور فرسودہ نہیں ہوتی اور نہ اس کے عجائبات ختم ہونے میں آتے ہیں۔ یہ وہ کتاب ہے جسے سن کر جن یہ کہے بغیر نہ رہ سکے کہ ہم نے عجیب و غریب قرآن سنا ہے۔ یہ وہ کتاب ہے کہ جو بھی اس کی زبان میں بولے، صادق ہی ہوگا اور جو قرآن کی روشنی میں فیصلے کرے گا، یقینا عادل ہو گا۔ جو قرآن پر عمل کرے، وہ ماجور ہو گا، جو قرآن (احکام قرآن) کی طرف دعوت دے وہ صراط مستقیم کی ہدایت کرتا ہے اس کے بعد امیر المومنین نے حارث ہمدانی سے فرمایا: حارث! اس حدیث کو لے لو اور یاد رکھو۔(۳)

اس حدیث شریف میں چند غیر معمولی نکتے ہیں جن میں سے اہم نکتوں کی ہم وضاحت کرتے ہیں۔ رسول اکرم فرماتے ہیں:

فیه نباء من کان قبلکم و خبر معادکم

قرآن میں گزشتہ اور آئندہ کی خبریں موجود ہیں۔

____________________

(۳) سنن وارمی۔ ج۲۔ ص۴۳۵، کتاب فضائل القرآن میں بھی اس طرح موجود ہے۔ صحیح ترمذی، ج ۱۱، ۳۰، باب فضائل قرآن میں بھی معمولی لفظی اختلاف کے ساتھ موجود ہے۔ بحار۔ ج ۹، ص۷ میں تفسیر عیاشی سے منقول ہے۔

۶

اس جملے کے بارے میں چند احتمال دےئے جا سکتے ہیں۔

۱ اس کا اشارہ عالمِ برزخ اور روزِ محشر کی خبروں کی طرف ہو، جس میں نیک اور برُے اعمال کا محاسبہ ہو گا، شائد یہ احتمال باقی احتمالات سے زیادہ قوی ہو۔ چنانچہ اس احتمال کی تائید امیر المومنین کے اس خطبے سے بھی ہوتی ہے، جس میں آپ فرماتے ہیں۔

اس قرآن میں گزشتگان کی خبریں، تمہارے باہمی اختلافات کے فیصلے اور قیامت کی خبریں موجود ہیں۔(۴)

۲ ان غیبی خبروں کی طرف اشارہ ہو جن کی قرآن نے خبر دی ہے اور آئندہ نسلوں میں بھی رونما ہوں گے۔

۳ ان سے مراد گزشتہ امتوں میں رونما ہونے والے واقعات ہوں جوبعینہ اس امت میں بھی رونما ہوں گے۔

گویایہ حدیث اس آئیہ شریفہ کے ہم معنی ہے۔

( لَتَرکَبُنَّ طَبَقًا عَنْ طَبقٍ ) (سورہ انشقاق :۱۹)

تم لوگ ضرور ایک سختی کے بعد دوسری سختی میں پھنسو گے۔

یا اس حدیث کی ہم معنی ہے جو آنحضرت سے منقول ہے آپ فرماتے ہیں:

”لَتَرکَبَنَّ سُنَنٌ مِن قَبلِکُم

تم بھی گزشتہ لوگوں کی غلط اورگمراہ کن سنتیں اور طریقے اپناؤ گے۔

____________________

(۴) بحار الانوار، ج ۱۹، ص۶۔

۷

پیغمبر اکرم نے فرمایا:

مَن تَرَکَهُ مِن جَبّٰارٍ قَصَمَةُ اللّٰهُ

جو ظالم اور جابر بھی قرآن کو ترک کرے گا اور اسے پسِ پشت ڈالے گا خدا تعالیٰ اس کی کمر توڑ ڈالے گا۔

شاید اس جملے میں رسول اکرم اس بات کی ضمانت دے رہے ہیں کہ خدا قرآن کو جابروں اور ظالموں کے ہاتھ اس طرح کھلونا نہیں بننے دے گا جس سے اس کی تلاوت اور اس پر عمل ترک ہو جائے اور یہ لوگوں کے ہاتھوں سے لے لیا جائے جس طرح دوسری آسمانی کتابوں کے ساتھ یہ سلوک کیا گیا ہے۔ گویا یہ اس حقیقت کی طرف اشارہ ہے کہ قرآن ہمیشہ تحریف سے محفوظ رہے گا۔

حدیث کے اس جملے کا مطلب بھی یہی ہے لاتزیغ بہ الاھواء۔ ” خواہشات اسے کج، زنگ آلودہ نہیں کر سکتیں" یعنی اس کی اصل حقیقت میں تغیر و تبدل نہیں ہو سکتا۔ قرآن کی اصل حقیقت کے تحفظ کی ضمانت اس لیے دی جارہی ہے کہ قرآن کے، خود ساختہ اور اپنی خواہشات کے مطابق معانی بیان کیے گئے ہیں۔ اس کے علاوہ حدیث شریف میں اس حقیقت کی طرف بھی اشارہ ہے کہ اگر لوگ آپس کے اختلافات اور عقائد و اعمال کی مشکلات میں قرآن کی طرف رجوع کریں تو ان سب کا حل قرآن میں مل جائیگا اور لوگ اسے ایک عادل حاکم اور حق و باطل کے درمیان فیصلہ کرنے والا پائیں گے۔

ہاں! اگر مسلمانوں میں احکام اور حدودِ قرآن کا نفاذ ہوتا اور اسکے اشارات اور ارشادات کی پیروی کی جاتی تو حق اور اہل حق پہچانے جاتے اور عترت ِ پیغمبر کی معرفت بھی حاصل ہو جاتی جنہیں رسول اکرم نے قرآن کا ہم پلہ قرار دیا ہے۔(۵) اور یہی وہ ہستیاں ہیں جو آنحضرت کے بعد قرآن کی طرح آپکا جانشین قرار پائیں،

____________________

(۵) حدیث ثقلین کا حوالہ میں ۱۸ میں ذکر کیا گیا۔ بعض روایات میں واضح طور پر کہا گیا ہے: قرآن اور عترت، رسول کے دو جانشین ہیں۔

۸

اور اگر مسلمان قرآنی علوم کی روشنی سے نور حاصل کرتے تو ذلت میں مبتلا نہ ہوتے، ان پر ذلالت و گمراہی کی تاریکیاں نہ چھا جاتیں۔ احکام خدا میں سے کوئی حکم بھی اپنے حقیقی ہدف سے منحرف نہ ہوتا، نہ کوئی شخص راہِ راست سے بھٹکتانہ کسی کے پائے استقلال میں لغزش آتی، لیکن مسلمانوں نے قرآن کو پسِ پشت ڈال دیا اور زمانہ جاہلیت کی طرف لوٹ گئے خواہشات ِ نفساتی کی پیروی اور باطل کے جھنڈے تلے پناہ اختیار کی بلکہ نوبت یہاں تک پہنچی کہ مسلمان ایک دوسرے کو کافرگرداننے لگے اور مسلمان کے قتل، اس کی ہتک حرمت اور اس کے مال کو حلال قرار دینے کو قرب خدا وندی کا وسیلہ سمجھنے لگے۔ قرآن کے متروک ہونے کی دلیل اس اختلاف و انتشار سے بڑھ کر اور کیا ہو سکتی ہے۔ امیر المومنین قرآن کی تعریف میں یوں فرماتے ہیں: پھر آپ پر ایک ایسی کتاب نازل فرمائی جو (سراپا) نور ہے جس کی قندیلیں گل نہیں ہوتیں، ایسا چراغ ہے جس کی لو خاموش نہیں ہوتی، ایسا دریا ہے جس کی گہرائی تک کسی کی رسائی نہیں اور ایسی راہ ہے جس میں راہ پیمائی بے راہ نہیں کرتی، ایسی کرن ہے جس کی پھوٹ مدہم نہیں پڑتی، وہ (حق و باطل میں ) ایسا امتیاز کرنے والی ہے جس کی دلیل کمزور نہیں پڑتی، ایسا کھول کر بیان کرنے والی ہے جس کے ستون منہدم نہیں کئے جاسکتے، وہ سراسر شفا ہے کہ جس کے ہوتے ہوئے، روحانی بیماریوں کا کھٹکا نہیں وہ سرتا سر عزت و غلبہ ہے۔ جس کے یارو مددگار شکست نہیں کھاتے،وہ سراپا حق ہے، جس کے معین و معاون بے سہارا نہیں چھوڑے جاتے، وہ ایمان کا معدن اور مرکز ہے اس سے علم کے چشمے پھوٹنے اور دریا بہتے ہیں، اس میں عدل کے چمن اور انصاف کے حوض ہیں، وہ اسلام کا سنگ بنیاد اور اس کی اساس ہے حق کی وادی اور اس کاہموار میدان ہے ایسا دریا ہے کہ جسے پانی بھرنے والے ختم نہیں کرسکتے وہ ایسا گھاٹ ہے کہ اس میں اترنے والوں سے اس کا پانی گھٹ نہیں سکتا وہ ایسی منزل ہے جس کی راہ میں کوئی راہ رو بھٹکتا نہیں وہ ایسا نشان ہے کہ چلنے والے کی نظر سے اوجھل نہیں ہوتا، وہ ایسا ٹیلہ ہے کہ حق کا قصد کرنے والے اس سے آگے گزر نہیں سکتے، اللہ نے اسے علماء کی تشنگی کے لیے سیرابی، فقہاء کے دلوں کے لیے بہار اور نیکیوں کی راہ گز رکے لیے شاہراہ قرار دیا ہے۔(۶)

____________________

(۶) نہج البلاغہ، خطبہ نمبر ۱۹۶۔

۹

یہ ایسی دوا ہے جس سے کوئی مرض نہیں رہتا، ایسا نور ہے جس میں تیرگی کا گزر نہیں، ایسی رسی جس کے حلقے مضبوط ہیں، ایسی چوٹی ہے جس کی پناہ گاہ محفوظ ہے، جو اس سے وابستہ رہے اس کے لیے پیغام صلح و امن ہے، جو اس کی پیروی کرے اس کے لیے ہدایت ہے، جو اسے اپنی طرف نسبت دے اس کیلئے حجت ہے جو اس کی رو سے بات کرے اس کے لیے دلیل و برہان ہے، جو اس کی بنیاد پر بحث و مناظرہ کرے اس کیلئے گواہ ہے جو اسے حجت بنا کر پیش کرے اس کے لیے فتح و کامرانی ہے، جو اس کا بار اٹھائے یہ اس کا بوجھ بٹانے والا ہے جو اسے اپنا دستور العمل بنائے اس کے لیے مرکب(تیز گام) ہے، یہ حقیقت شناس کے لیے ایک واضح نشان ہے، (ضلالت سے ٹکرانے کے لیے) جو مسلح ہو اس کے لیے سپر ہے، جو اس کی ہدایت کو گرہ میں باند ھ لے اس کے لیے علم ودانش ہے، بیان کرنے والے کے لیے بہترین کلام اور فیصلہ کرنے والے کے لیے قطعی حکم ہے۔

یہ خطبہ بہت سے اہم نکات پر مشتمل ہے ان سے آگاہی اور ان میں غور و خوض لازمی ہے۔

امیر المومنین کے ارشادلایخبوتوقده ”قرآن ایسا چراغ ہے جس کی لو خاموش نہیں ہوتی“ اور خطبے میں اس قسم کے دوسرے جملوں کا مطلب یہ ہے کہ قرآن کے معانی لامتناہی اور ابدی ہیں۔

مثال کے طور پر ایک آیہ کریمہ کسی خاص مقام شخص یا قوم کے بارے میں نازل ہوئی مگر وہ آیہ اس مقام شخص اور قوم سے ہی مختص نہیں رہتی بلکہ اس کے معانی عام ہوتے ہیں اور یہ ہر جگہ ہر شخص اور ہر قوم پر منطبق ہوتی ہے۔ عیاشی نے اپنی سند سے امام محمد باقر سے آیہ( وَلِکُلِّ قومٍ هادٍ ) (۱۳ :۷) ” ہر قوم کے لیے ایک ہادی ہوا کرتا ہے“ کی تفسیر کے بارے میں روایت کی ہے۔ آپ نے فرمایا:

۱۰

عَلِیٌ :الهاد، ومنا الهادی فقلت فانت جعلت فِدٰاک اَلهٰادِ؟ قَالَ صَدَّقتَ اَنَّ القُرآن حٌَ لاٰیَمُوتُ وَالاَیةُ حَیَّةً لاٰتَمُوتُ، فَلَو کاٰنَت الآِیةُ اِذٰا نَزَلَت فِی اِلاَقوٰامِ وَمٰاتُوا اِمَاتَت الاَیةُ لَمٰاتَ القُرآن وَلٰکِنَّ هِیَ جاٰرِیَةٌ ِ فِ البٰاقینَ کَمٰا جَرَت ف المٰاضینَ

اس آیہ شریفہ میں ہادی سے مراد امیر المومنین علی بن ابی طالب ہیں اور ہادی ہم ہی میں سے ہوا کرے گا۔ راوی کہتا ہے میں نے کہا: میں آ پ پر نثار ہوں کیا آپ بھی ہادی اور اس آیہ شریفہ کے مصداق ہیں؟ آپ نے فرمایا: ہاں میں بھی اس کا مصداق ہوں۔ قرآن ہمیشہ زندہ رہے گا، اسے موت نہیں آئے گی اور یہ آیہ وَلکلً قَومٍ ھادٍ بھی زندہ ہے اسے موت نہیں آسکتی، اگر ایک قوم پر اترنے والی آیت قوم کے مرنے سے مرجائے تو اس کا مطلب یہ ہوا کہ قرآن کو بھی موت آگئی حالانکہ ایسا نہیں ہوسکتا بلکہ قرآن جس طرح گزشتہ اقوام پرمنطبق ہوتا تھا اسی طرح آئندہ آنے والی نسلوں پر بھی منطبق ہو گا۔

امام جعفر صادق فرماتے ہیں:

اِنَّ القُرآن حٌلَم یُمُت، وَاِنَّهُ یَجر کَمٰا یَجر اللَّیلُ وَالنَّهٰارُ، وَکَمٰاتَجر الشَّمسُ، وَیَجر عَلَیٌ آخِرِنٰا کَمٰا یَجر عَلَیٰ اَوَّلِنٰا

قرآن زندہ و جاوید ہے، اسے موت نہیں آسکتی، دن اور رات کی طرح یہ بھی چلتا رہے گا اورسورج اور چاند کی طرح ہر دور میں ضوفشانی کرتا رہے گا۔"

اصول کافی میں ہے جب عمر بن یزید نے امام جعفر صادق سے آیت کریمہ( وَالَّذِينَ يَصِلُونَ مَا أَمَرَ اللَّـهُ بِهِ أَن يُوصَلَ ) (سورہ۱۳:آیت ۲۱) کی تفسیر پوچھی تو آپ نے فرمایا:

هٰذِه نَزَلَت فی رَحِمِ آلِ مُحَمَّد صَلَّی اللّٰهُ عَلَیهِ وَآلهِ وَقَد تَکُونُ فی قَرٰابَتِکَ، فَلٰاَ تَکُوَنَنَّ مِمَّن یَقُولُ لِلشَّیٍ اِنَّهُ فی شَءٍ وٰاحِد

۱۱

یہ آیت کریمہ ہم آل محمد کے بارے میں نازل ہوئی ہے، لیکن یہی آیہ شریفہ تمہارے قریبی رشتہ داروں پر منطبق ہو سکتی ہے، تم ان لوگوں میں سے نہ بنو جو ایک خاص مقام اور چیز پر نازل شدہ آیت کو اس مقام اور چیز سے مختص کر دیتے ہیں۔

تفسیر فرات میں ہے:

و لوان الآیة اذا نزلت فی قوم ثم مات اولئک ماتت الآیة لمابق من القرآن شء ولکن القرآن یجر اوله علی آخره مادامت السماوات والارض ولکل قومٍ آیة یتلوهاهم منها من خیراواشر

اگر کسی قوم پر کوئی آیت نازل ہو پھرو ہ قوم مر جائے اور اس قوم کے ساتھ آیت بھی مر جائے تو قرآن میں سے کچھ بھی باقی نہ رہ جائے مگر ایسا نہیں جب تک آسمان اور زمین موجود ہیں گزشتہ لوگوں کی طرح آئندہ آنے والی نسلوں کے لیے بھی اس کی ہدایت کا سلسلہ جاری رہے گا۔ اور قرآن میں ہر قوم و ملت کے بارے میں ایک آیت موجود ہے جس میں ان کی اچھی یا برُی سر نوشت وتقدیر اور انجام کا ذکر ہے۔

اس مضمون کی اور بھی متعدد روایات منقول ہیں۔( ۷) یہاں پر ہم امیرالمومنین کے کلام کے عربی متن کے بعض جملوں کی مختصر وضاحت کریں گے۔

ومنها جا لایضل نجه

قرآن وہ سیدھا راستہ ہے جو اپنے راہرو کو گمراہ نہیں کرتا۔ اسے خالق نے اپنی مخلوق کی ہدایت کے لیے نازل فرمایا ہے۔ قرآن ہر اس شخص کو گمراہی سے بچاتا ہے جو اس کی پیروی کرے۔

____________________

(۷) مراة الانور، ص ۳۔ ۴۔

۱۲

وتبیاناً لا تهدم ارکانه

اس جملے میں دو احتمال ہیں:

ا۔ پہلا احتمال یہ ہے کہ علوم و معارف اور دیگر قرآنی حقائق جن ستونوں پر استوار ہیں وہ مضبوط اور مستحکم ہیں ان میں انہدام اور تزلزل کا سوال تک پیدا نہیں ہوتا۔

ب۔ دوسرا احتمال یہ ہے کہ قرآن کے الفاظ میں کسی قسم کا خلل اور نقص نہیں ہو سکتا ہے۔ اس احتمال کے مطابق اس جملے میں امیر المومنین اس بات کی طرف اشارہ فرما رہے ہیں کہ قرآن کریم تحریف سے محفوظ ہے۔

وریاض العدل وغدرانه

اس میں عدل کے چمن اور انصاف کے حوض ہیں۔

اس جملے کا مطلب یہ ہے کہ عدالت چاہے عقیدہ کے اعتبار سے ہو یا عمل کے اعتبار سے یا اخلاق کے اعتبار اس کے تمام پہلو قرآن میں موجود ہیں۔ پس قرآن عدالت کا محور اور اس کی مختلف جہات کا سنگم ہے۔

وَاَثَّافی اْلاِسْلاٰمِ (۸)

اسلام کا سنگ بنیاد اور اساس ہے

____________________

(۸) ریاض روضہ کی جمع ہے یہ اس سرسبز زمین کو کہتے ہیں جس میں سبزہ ہو۔ غدران جمع ہے غدیر کی، اس کا معنی سیلاب کا جمع شدہ پانی ہے۔

۱۳

اس جملے کا مطلب یہ ہے کہ اسلام کو جو استحکام اور ثبات حاصل ہوا ہے وہ قرآن ہی کی بدولت ہے جس طرح دیگ کو استحکام ان پایوں کی وجہ سے حاصل ہوتا ہے جو اس کے نیچے رکھے ہوتے ہیں۔

واودیة الحق و غیطانه

حق کی وادی اور اس کا ہموار میدان ہے

اس جملے کا مطلب یہ ہے کہ قرآن حق کا سرچشمہ ہے اس جملے میں قرآن کو وسیع اور پُرسکون زرخیز سرزمین سے تشبیہ دی گئی ہے اور حق کو ان نباتات سے تشبیہ دی گئی ہے جواس سرزمین پر اگی ہوں کیونکہ قرآن کے علاوہ کہیں اورسے حق نہیں مل سکتا۔

وبحر لاینزفه المنتزفون

وہ ایسا دریاہے جسے پانی بھرنے والے ختم نہیں کرسکتے

اس جملے اور اس کے بعد والے جملوں کا مطلب یہ ہے کہ جو معانی قرآن کو سمجھنے کی کوشش کرے وہ اس کی انتہا کو نہیں پہنچ سکتا۔ کیونکہ قرآن کے معانی لامتناہی ہیں بلکہ اس جملے میں اس حقیت کی طرف بھی اشارہ ہے کہ قرآن میں کبھی کمی واقع ہوہی نہیں سکتی، جس طرح چشمے سے پانی نکالنے، پینے یا برتن بھرنے سے پانی کم نہیں ہوتا۔

۱۴

وآکامٌّ لاٰیَحوز عنها القاصدون

وہ ایسا ٹیلہ ہے کہ حق کا قصد کرنے والے اس سے آگے نہیں گزر سکتے۔

اس کا مطلب یہ ہے کہ جو محققین اور مفکرین قرآن کی بلندیوں کوسمجھنا چاہتے ہیں و ہ کبھی بھی اس کے معانی کی بلندیوں اور چوٹیوں سے تجاوز نہیں کر سکتے۔ یہاں اس حقیقت کی طرف اشارہ ہے کہ قرآن کریم ایسے سربستہ رازوں پر مشتمل ہے جن تک صاحبان فہم کی رسائی نہیں ہو سکتی۔

اس جملے سے یہ مطلب بھی لیا جاسکتا ہے کہ جب قرآن کے متلاشی اس کی بلندیوں تک پہنچ جاتے ہیں تو وہاں پہنچ کر رک جاتے ہیں اور آگے بڑھنے کی کوشش نہیں کرتے اس لیے کہ انہیں مکمل طور پر اپنی مراد مل جاتی ہے اور وہ منزل مقصود تک پہنچ جاتے ہیں۔

تلاوت قرآن کی فضیلت اور اس کا ثواب:

قرآن وہ آسمانی قانون اور ناموس الہیٰ ہے جو لوگوں کی دنیوی اور اخروی سعادت کی ضمانت دیتا ہے۔ قرآن کی ہر آیت ہدایت کا سرچشمہ اور رحمت و راہنمائی کی کان ہے۔ جو بھی ابدی سعادت اور دین و دنیا کی فلاح و کامیابی کا آرزو مند ہے اسے چاہیے کہ شب و روز قرآن کریم سے عہد و پیمان باندھے، اس کی آیات کریمہ کو اپنے حافظہ میں جگہ دے اور انہیں اپنی فکر اور مزاج میں شامل کرے تاکہ ہمیشہ کی کامیابی اور ختم نہ ہونے والی تجارت کی طرف قدم بڑھاسکے۔

قرآن کی فضیلت میں ائمہ علیہم السلام اور ان کے جدا مجد سے بہت سی روایات منقول ہیں، امام محمد باقر علیہ السلام فرماتے ہیں:

۱۵

قاَلَ رَسُولُ اللّٰه صلی الله علیه وآله وسلم من قٰر عَشَرَ آیاتٍ فی لَیلَةٍ لَم یَکتُب مِنَ الغٰافلین وَمَن قَرَ خَمسینَ آیَةً کُتِبَ مِنَ الذّٰکِرینَ وَمَن قَرَمِاَئةَ آیةًکُتِبَ مِنَ القٰانِتینَ وَمَن قَرءَ مَائَتَی آیةً کُتِبَ مِنَ الخٰاشِعین ومن قر ثَلٰثَمِائَةَ آیةً کُتِبَ من الفٰائِزینَ وَمَن قَرَ خَمسَمِائَةُ آیةً کُتِبَ مِنَ المُجتَهدِینَ وَمَن قَرَ اَلَفَ آیةً کُتِبَ لَهُ قِنطٰارٌ مِن تَبَرٍ

پیغمبر اکرم نے فرمایا، جو شخص رات کو دس آیتوں کی تلاوت کرے اس کا نام غافلین (جو یاد خدا سے بے بہرہ رہتے ہیں) میں نہیں لکھا جائے گااور جو شخص پچاس آیتوں کی تلاوت کرے اس کا نام ذاکرین (جو خدا کو یاد کرتے ہیں۔ حرام و حلال کا خیال رکھتے ہیں) میں لکھا جائے گا اور جو شخص سو آیتوں کی تلاوت کرے اس کا نام قانتین(عبادت گزاروں) میں لکھا جائے گا اور جو شخص دو سو آیتوں کی تلاوت کرے اس کا نام خاشعین (جو خدا کے سامنے متواضع ہوں) میں لکھا جائے گا اور جوشخص تین سو آتیوں کی تلاوت کرے اس کا نام سعادت مندوں میں لکھا جائے گا، جو شخص پانچ سو آیتوں کی تلاوت کرے اس کا نام عبادت اور پرستش خدا کی کوشش کرنے والوں میں لکھا جائیگا اور جو شخص ہزار آیتوں کی تلاوت کرے، وہ ایسا ہے جیسے اس نے کثیر مقدار میں سونا راہِ خدا میں دے دیا ہو

امام جعفر صادق علیہ السلام فرماتے ہیں:

اَلقُرٰانُ عَهدُ اللّٰه اِلٰی خَلقِه، فَقَد یَنبغَللِمَرءِ المُسلِمِ اَن یَنظُرَ فی عَهدِهِ، وَاَن یَقرمِنهُ فی کُلِّ یَومٍ خَمسینَ آیةً

قرآن خدا کی طرف سے اپنے بندوں کے لیے ایک عہدو میثا ق ہے مسلمان کو چاہیے کہ وہ اپنا عہد نامہ غور سے پڑھے اور روزانہ پچاس آیات کی تلاوت کرے

۱۶

آپ نے مزید فرمایا:

مٰایَمْنَع التّٰاجِر مِنْکُمْ الَمَشْغُولُ فی سُوْقِهِ اِذٰا رَجَعَ اِلیٰ مَنْزِلِهِ اَنْ لاٰ یَنٰامُ حَتّٰی یَقْرَأَ سورةً مِنَ الْقُرآنِ فَیُکْتَبُ لَهُ مکانَ کُلِّ آیةٍ یَقْرَأهٰا عشر حسنات ویمحی عنه عَشَرَ سَِّئٰات؟

جب تمہارے تاجر اپنی تجارت اور کاروبار سے فارغ ہو کر گھرواپس لوٹتے ہیں تو سونے سے پہلے ایک سورة کی تلاوت سے کونسی چیز ان کے لیے مانع اور رکاوٹ بنتی ہے (کیوں تلاوت نہیں کرتے ) تاکہ ہر آیت کے بدلے اس کے لیے دس نیکیاں لکھی جائیں اور اس کے نامہ اعمال میں سے دس برائیاں مٹا دی جائیں۔

اس کے بعد آپ نے فرمایا:

عَلَیکُم بِتِلٰاِوَةِ القُرآن، فَاِنَّ دَرَجٰاتُ الجَنَّةِ عَلٰی عَدَدِ آیاتِ القُرآن، فَاِذٰاکٰانَ یَومَ القِیٰامَةِ یُقٰالُ لِقٰارِی القُرآنَ اِقرَوَاِرقِ، فَکُلَّمٰا قَرَ ء آیَةً رَقَیٰ دَرَجَةً

قرآن کی تلاوت ضرورکیاکرو (اس لیے کہ) آیات قرآن کی تعداد کے مطابق جنت کے درجات ہوں گے۔ جب قیامت کا دن ہو گا تو قاری قرآن سے کہا جائے گا قرآن پڑھتے جاؤ اور اپنے درجات بلند کرتے جاؤ۔ پھر وہ جیسے جیسے آیات کی تلاوت کرے گا، اس کے درجات بلند ہوتے چلیں جائیں گے۔

حدیث کی کتابوں میں علماء کرام نے اس مضمون کی بہت سی روایا ت کو یکجا کر دیا ہے شائقین ان کی طرف رجوع کر سکتے ہیں اور بحار الانور کی انیسویں جلد میں اس مضمون کی کافی روایات موجود ہیں ان میں بعض روایات کے مطابق قرآن دیکھ کر تلاوت کرنا زبانی اور ازبرتلاوت کرنے سے بہتر ہے۔

ان میں سے ایک حدیث یہ ہے: اسحاق بن عمار نے امام جعفر صادق کی خدمت میں عرض کی:

۱۷

جُعْلتُ فِدٰاکَ اِنّي اَحْفَظُ الْقُرْآنَ عَنْ ظَهْرِ قَلْبي فَاْقرأُهُ عَنْ ظَهْرَ قَلْبِي اَفْضَلُ اَوْ اُنْظُرُ فی الْمُصْحَفِ قٰاَل: فَقٰالَ لِي لَاٰ بَلْ اقرأَهُ وَانْظُر فی الْمُصْحَفِ فَهُوَ افْضَلُ اَمٰا عَلِمْتَ اِنَ النَّظُرَ فی الْمُصْحَفِ عِبٰادَةٌ مِنْ قرا القُرْآنَ فی المُصْحَفِ مَتَّعَ بِبَصَرِهِ وَخَفَّفَ عَنْ وٰالِدَیْهِ وَاِنَ کٰانا کافِرین (۹)

میری جان آپ پر نثار ہو میں نے قرآن حفظ کر لیا ہے۔ اور زبانی ہی اس کی تلاوت کرتا ہوں یہی بہتر ہے یا یہ کہ قرآن دیکھ کے تلاوت کروں؟ آپ نے فرمایا: قرآن دیکھ کے تلاوت کیا کرو یہ بہتر ہے، کیا تمہیں معلوم نہیں کہ قرآن میں دیکھنا عبادت ہے جو شخص قرآن میں دیکھ کے اس کی تلاوت کرے اس کی آنکھ مستفید اور مستفیض ہوتی ہے اور اس کے والدین کے عذاب میں کمی کردی جاتی ہے۔ اگرچہ وہ کافر ہی کیوں نہ ہوں۔

۱۔ قرآن میں دیکھ کر تلاوت کرنے کی تاکید و تشویق میں چند اہم نکات ہیں جن کی طرف توجہ ضروری ہے۔ قرآن میں دیکھ کر تلاوت کرنے کی تاکید اس لیے کی ہے تاکہ نسخوں کی کثرت کی وجہ سے قرآن ضیاع سے محفوظ رہ سکے کیوں کہ جب قرآن کی زبانی تلاوت پر اکتفاء کیا جائے گا تو قرآن کے نسخے متروک ہو جائیں گے اور آہستہ آہستہ کم یاب ہو جائیں گے بلکہ بعید نہیں کہ بتدریج اس کے آثار تک باقی نہ رہیں۔

۲۔ دوسری وجہ یہ ہے کہ قرآن میں دیکھ کر تلاوت کرنے کے بہت سے آثار ہیں جن کی روایات میں تصریح کی گئی ہے مثلاً معصوم نے فرمایا :”مَتَّعَ بِبَصَرِهِ" یعنی۔ ۔ ۔ یہ بڑا جامع کلمہ ہے اس کا مطلب یہ ہے کہ قرآن میں دیکھ کر تلاوت کرنا اس بات کا سبب بنتا ہے کہ انسان نابینائی اور آشوب چشم سے محفوظ رہے یا یہ مراد ہو سکتی ہے کہ قرآن میں دیکھ کر تلاوت کرنے سے انسان قرآنی رموز اور اس کے دقیق اور باریک نکات سے باخبر ہو جاتا ہے۔ کیوں کہ جب انسان کی نظر ایسی چیز پر پڑے جو اسے پسند ہو تو اس کانفس خوشحال ہو جاتا ہے اوروہ اپنی بصارت اور بصیرت میں روشنی محسوس کرتا ہے۔

____________________

(۹) ثانی جو امانی کے وزن پر ہے، اثفیہ کی جمع ہے۔ اثفیہ اس پتھر کو کہا جاتا ہے جس پر دیگچی رکھی جاتی ہے۔

۱۸

قرآن کے الفاظ پر جب بھی قاری کی نظر پڑتی ہے اور وہ اسکے علوم و معانی میں فکرکرتا ہے تو علم و آگاہی کی لذت محسوس کرتا ہے اور اس کی روح ہشاش بشاش ہو جاتی ہے۔

۳۔ بعض روایات میں گھر کے اندر قرآن کی تلاوت کی فضیلت بیان کی گئی ہے اس کا راز قرآن کی تبلیغ و ترویج اور تلاوتِ قرآن کا چرچا ہے کیونکہ جب انسان اپنے گھر کے اندر قرآن کی تلاوت کرے تو اس کے بیوی بچے بھی قرآن کی تلاوت کرتے ہیں اس سے یہ عمل عام ہو جاتا ہے لیکن اگرقرآن کی تلاوت کسی خاص مقام پر کی جائے تو اس کا ہر شخص، ہر جگہ شرف حاصل نہیں کر سکتا اور یہ تبلیغ اسلام کا بہت بڑا سبب ہے۔

شاید گھروں میں تلاوت کی ایک وجہ یہ بھی ہو کہ اس سے شعائر ِ الہیٰ قائم ہو جاتے ہیں کیونکہ جب صبح و شام گھروں سے تلاوت قرآن کی آواز بلند ہو گی تو سننے والوں کی نظر میں اسلام کی اہمیت بڑھے گی اس لیے کہ جب شہر کے کونے کونے سے تلاوت قرآن کی آواز سنائی دے گی تو سننے والوں پر ایک قسم کا رعب اور ہیبت طاری ہو جائے گا۔

گھروں میں تلاوت کے آثار جو روایات میں مذکور ہیں:

اِنَّ البَیتَ الَّذ یُقرَ فِیه القُرآنُ وَیُذکَرُ اللّٰهُ تَعٰالی فیه تَکثُرُ بَرَکَتُهُ وَتَحضُرُهُ المَلاٰئِکَةِ، وَتَهجُرُه الشِّیاطینَ وَیُضُِ لِاَهلِ السَّمٰاءِ کَمٰا یُضِ الکَوکَبُ الدُّر لِاَهلِ الاَرضِ وَانَّ البَیتَ الَّذ لٰاَ یَقُرُ فِیهِ القُرآنُ وَلٰایُذکِرُ اللّٰهُ تَعٰالٰی فِیهِ تَقِلُّ بَرَکَتهُ وَتَهجُرُهُ المَلاٰئِکَةِ وَتَحضُرو الشَیٰاطین

وہ گھر جس میں قرآن کی تلاوت کی اور ذکرِ خدا کیا جاتا ہو اس کی برکتوں میں اضافہ ہوتا ہے اس میں فرشتوں کا نزول ہوتا ہے شیاطین اس گھر کو ترک کر دیتے ہیں اور یہ گھر آسمان والوں کو روشن نظر آتے ہیں جس طرح آسمان کے ستارے اہل زمین کو نور بخشتے ہیں اور وہ گھر جس میں قرآن کی تلاوت نہیں ہوتی اور ذکر خدا نہیں ہوتا اس میں برکت کم ہوتی ہے فرشتے اسے ترک کر دیتے ہیں اور ان میں شیاطین بس جاتے ہیں۔"

۱۹

قرآن کی فضیلت اور وہ عزت و تکریم جن سے خداوند قاری قرآن کو نوازتا ہے روایات میں اتنی ہے کہ جس سے عقلیں حیرت زدہ رہ جاتی ہیں رسول اکرم نے فرمایا:

مَن قَرَء َحَرفاً مِن کِتٰابِ اللّٰهِ تَعٰالیٰ فَلَهُ حَسَنَةً وَالحَسَنَةُ بِعَشَرِ اَمُثٰالِهٰا لا اَقُولُ ”الم“ حَرَفٌ وَلٰکِن اَلِف حَرفٌ وَلاٰمُ حَرفٌ وَمیمُ حَرفٌ

”جو شخص کتاب الہی کے ایک حرف کی تلاوت کرے اس کے اعمال میں ایک حسنہ اور نیکی لکھی جاتی ہے اور ہر حسنہ کا دس گنا ثواب ملتا ہے (اس کے بعد آپ نے فرمایا) میں یہ نہیں کہتا کہ الم یہ ایک حرف ہے بلکہ ’الف‘ ایک حرف ہے ’ل‘ دوسرا حرف ہے اور ’م‘ تیسرا حرف ہے۔ اس حدیث کو اہل سنت کے راویوں نے بھی نقل کیا ہے۔ چنانچہ قرطبی نے اپنی تفسیر۱ میں ترمذی سے اور اس نے ابن مسعود سے نقل کیا ہے، کلینی رحمة اللہ علیہ نے بھی تقریباً اسی مضمون کی حدیث امام جعفر صادق سے نقل فرمائی ہے۔ اس میدان میں کچھ جھوٹے راوی بھی ہیں جن کی نظر میں شاید فضیلت قرآن کی یہ تمام روایات کم تھیں اس لیے انہوں نے اپنی طرف سے فضیلت قرآن میں کچھ روایات گھڑ لیں جن کی نہ تو وحی نازل ہوئی ہے اور نہ ان کا سنت نبوی میں کوئی ذکر ہے۔ ان جھوٹے راویوں میں ابو عصتمہ فرج بن ابی مریم مروزی، محمد بن عکاشہ کرمانی اور احمد بن عبداللہ جویباری شامل ہیں۔ ابو عصتمہ نے خود اس جعل سازی کا اعتراف کیا ہے۔ جب اس سے پوچھا گیا کہ تونے کس طرح عکرمہ کے واسطے سے ابن عباس سے قرآن کے ایک ایک سورے کے بارے میں احادیث نقل کی ہیں تو اس (ابو عصتمہ) نے جواب دیا۔اِنِیّٰ رَاَیْتُ النّٰاسَ قَدْاِعْرَضُوا عَنِ الْقُرْآنَ وَاشْتَغَلُوا بِفِقْهِ اِبی حَنِیْفَةِ وَمَغٰازي مُحَمَّد ِبنْ اِسْحٰقَ فَوَضَعْتُ هٰذَا الْحدیثُ حسبةً

جب میں نے دیکھا کہ لوگ قرآن سے منحرف ہو گئے ہیں اور ابو حنیفہ اور مغازی محمد بن اسحاق کی فقہ میں مصروف ہیں تو میں نے قرآن کی فضیلت میں یہ احادیث قربة الی اللہ گھڑ لیں۔(۱۰)

____________________

(۱۰) اصول کافی۔ کتاب فضل القرآن۔ وسائل طبة عین الدولہ۔ ج۱، ص۳۷۰۔

۲۰

21

22

23

24

25

26

27

28

29

30

31

32

33

34

35

36

37

38

39

40

اپنے کاموں کا نتیجہ پاتے ہیں _ سعیدہ بیٹی ہم آخرت میں ہمیشہ ہمیشہ زندہ رہیں گے اچھے کام کرنے والے لوگ بہشت میں جائیں گے اور بہت راحت و آرام کی زندگی بسرکریں گے _ اور گنہکار جہنم میں جائیں گے _ اور عذاب اور سختی میں رہیں گے _

آخرت کی نعمتیں اور لذتیں دنیا کی لذتوں اور نعمتوں سے بہتر اور برتر ہیں ان میں کوئی عیب اور نقص نہیں ہوگا _ اہل بہشت ہمیشہ اللہ تعالی کی خاص توجہ اور محبت کا مرکز رہتے ہیں _ خدا انہیںہمیشہ تازہ نعمتوں سے نوازتا ہے اہل بہشت اللہ تعالی کی تازہ نعمتوں اور اس کی پاک محبت سے مستفید ہوتے ہیں اور ان نعمتوں اور محبت سے خوش و خرم رہتے ہیں _

سوچ کر جواب دیجئے

۱_ سعیدہ کس چیز کو بے فائدہ اور بے نتیجہ سمجھتی تھی او رکیوں؟

۲_ اس کی ماں نے اسے کیا جواب دیا؟

۳_ کیا ہم مرجانے سے فنا ہوجاتے ہیں اگر مرنے سے ہم فنا ہوجاتے ہوں تو پھر ہمارے کاموں اور کوششوں کا کیا نتیجہ ہوگا؟

۴_ اپنے کاموں کا پورا نتیجہ کس دنیا میں دیکھیں گے ؟

۵_ نیک لوگ آخرت میں کیسے رہیں گے اور گناہ کار کیسے رہیں گے ؟

۶_ '' دنیا آخرت کی کھیتی ہے '' سے کیا مراد ہے ؟

۴۱

چھٹا سبق

آخرت میں بہتر مستقبل

اس جہان کے علاوہ ایک جہان اور ہے جسے جہان آخرت کہا جاتا ہے _ خدانے ہمیں جہان آخرت کے لئے پیدا کیا ہے _ جب ہم مرتے ہیں تو فنا نہیں بلکہ اس جہان سے جہان آخرت کی طرف چلے جاتی ہیں ہم صرف کھا نے پینے سونے کے لئے اس جہاں میں نہیں آئے بلکہ ہم یہاں اس لئے آئے ہیں تا کہ خداوند عالم کی عبادت اور پرستش کریں _ اچھے اور مناسب کام انجام دیں تا کہ کامل ہوجائیں اور جہان آخرت میں اللہ کی ان نعمتوں سے جو اللہ نے ہمارے لئے پیدا کی ہیں _ زیادہ سے زیادہ فائدہ اٹھا سکیں _

جو کام بھی ہم اس دنیا انجام دیتے ہیں اس کا نتیجہ آخرت میں دیکھیں گے _

اگر ہم نے خدا کی عبادت کی اور نیک کام کرنے والے قرار پائے تو ہمارا مستقبل روشن ہو گا اور بہترین زندگی شروع کرینگے اور اگر ہم نے خدا کے فرمان کی پیروی نہ کی اور برے کام انجام دیئے تو آخرت میں بدبخت قرار پائیں گے اور اپنے کئے کی سزاپائیں گے اور سختی اور عذاب میں زندگی بسر کریں گے

۴۲

سوچ کر جواب دیجئے

۱_ اس جہاں میں ہمارا فرض کیا ہے _ کامل بنے کے لئے ہمیں کیا کام انجام دینے چاہیئے ؟

۲_ اللہ کی بڑی اور اعلی نعمتیں کس جہان میں ہیں ؟

۳_ روشن مستقبل کن لوگوں کے لئے ہے ؟

۴_ آخرت میں سخت عذاب کن لوگوں کے لئے ہے ؟

۵_ کیا تمہیں معلوم ہے کہ کون سے کام اچھے اور مناسب ہیں اور کوں لوگ ہمیں اچھے اور مناسب کاموں کی تعلیم دیتے ہیں ؟

۴۳

تیسرا حصّہ

نبوت

۴۴

پہلا سبق

اللہ نے پیغمبڑ بھیجے ہیں

خدا چونکہ بندوں پر مہربان ہے اور چاہتا ہے کہ اس کے بند ے اس دنیا میں اچھی اور آرام دہ زندگی بسر کریں اور آخرت میں خوش بخت اور سعادتمند ہوں وہ دستور جوان کی دنیا اور آخرت کے لئے فائدہ مند ہیں _ پیغمبروں کے ذریعہ ان تک پہنچا ئے چونکہ پیغمبروں کی شخصیت عظیم ہوتی ہے اسی لئے خدا نے انہیں لوگوں کی رہنمائی کیلئےچنا_ پیغمبر لوگوں کو نیک کام اور خدائے مہربان کی پرستش کی طرف راہنمائی کرتے تھے _ پیغمبر ظالموں کے دشمن تھے اور کوشش کرتے تھے کہ لوگوں کے درمیان مساوات و برابری قائم کریں _

سوالات

۱_ خدانے کیوں لوگوں کے لئے پیغمبر بھیجا ہے ؟

۲_ پیغمبر خدا سے کیا چیز لیکرآئے؟

۳_ پیغمبر کیا کرتے تھے؟

۴_ پیغمبر کس قسم کے لوگ ہوتے تھے؟

۵_ اگر ہم پیغمبروں کے دستور کے مطابق عمل کریں تو کیا ہوگا؟

۴۵

دوسرا سبق

انسانوں کے معلّم

پیغمبرانسانوں کے معلّم ہوتے ہیں _ ابتداء آفرینش سے لوگوں کے ساتھ _ اور ہمیشہ ان کی تعلیم و تربیت میں کوشاں رہے _ وہ بنی نوع انسان کو معاشرتی زندگی اور زندگی کے اچھے اصولوں کی تعلیم دیتے رہے _ مہربان خدا اور اس کی نعمتوں کو لوگوں کو بتلاتے تھے اور آخرت اور اس جہاں کی عمدہ نعمتوں کا تذکرہ لوگوں سے کرتے رہے _ پیغمبر ایک ہمدرد اور مخلص استاد کے مانند ہوتے تھے جو انسانوں کی تربیت کرتے تھے_ اللہ کی پرستش کا راستہ انہیں بتلاتے تھے پیغمبر نیکی اور اچھائی کا منبع تھے وہ نیک اور برے اخلاق کی وضاحت کرتے تھے_ مدد اور مہربانی خیرخواہی اور انسان دوستی کی ان میں ترویج کرتے تھے تمام انسانوں میں پہلے دور کے انسان بے لوث اور سادہ لوح تھے پیغمبروں نے ان کی رہنمائی کے لئے بہت کوشش کی اور بہت زحمت اور تکلیفیں برداشت کیں پیغمبروں کی محنت و کوشش اور رہنمائی کے نتیجے میں انسانوں نے بتدریج ترقی کی اور اچھے اخلاق سے واقف ہوئے _

سوچ کر جواب دیجئے

۱_ زندگی کے اصول اور بہتر زندگی بسر کرنے کا درس انسانوں کو کس نے دیا ؟

۴۶

۲_ پیغمبر لوگوں کون سے تعلیم دیتے تھے؟

۳_ پیغمبروں نے کن لوگوں کے لئے سب سے زیادہ محنت اور کوشش کی ؟

۴_ پیغمبروں نے کس قسم کے لوگوں کے درمیان کن چیزوں کا رواج دیا ؟

۴۷

تیسرا سبق

خدا کے عظیم پیغمبر ابراہیم علیہ السلام

کیا آپ جانتے ہیں کہ حضرت ابراہیم علیہ السلام کے زمانے میں لوگوں کا کیا دین تھا اور وہ کس طرح زندگی گزارتے تھے_ انہوں نے گذشتہ پیغمبروں کی تعلیم کو فراموش کردیا تھا وہ نہیں جانتے تھے کہ اس دنیا میں کس طرح زندگی گذار کر آخرت میں سعادت مند ہوسکتے ہیں وہ صحیح قانون اور نظم و ضبط سے ناواقف تھے اور خدا کی پرستش کے طریقے نہیں جانتے تھے _ چونکہ خدا اپنے بندوں پر مہربان ہے اسلئے اس نے حضرت ابراہیم علیہ السلام کو اپنی پیغمبری کے لئے منتخب فرمایا تا کہ لوگوں کو نیکی اور اللہ تعالی کی عبادت کی طرف راہنمائی فرمائیں

خدا کو علم تھا کہ لوگ تشخیص نہیں کر سکتے کہ کون سے کام آخرت کے لئے فائدہ مند اور کون سے کام نقصان دہ ہیں _ خدا جانتا تھا کہ لوگوں کے لئے راہنما اور استاد ضروری ہے اسی لئے جناب ابراہیم علیہ السلام کو چنا اور انہیں عبادت اور خدا پرستی کے طریقہ بتائے _ خدا حضرت ابراہیم علیہ السلام کو بتلاتا تھا کہ کون سے کام لوگوں کی دنیا اور آخرت کے لئے بہتر ہیں اور کون سے کام مضر ہیں _

حضرت ابراہیم علیہ السلام بھی اللہ تعالی کے پیغام اور احکام کو لوگوں تک پہنچاتے اور ان کی رہنمائی فرماتے تھے _

حضرت ابراہیم علیہ السلام خدا کے پیغمبر اور لوگوں کے استاد اور معلّم تھے _

۴۸

سوچ کر جواب دیجئے

۱_ پیغمبروں کو کون منتخب کرتا ہے ؟

۲_ پہلے انسانوں کا کردار کیا تھا؟

۳_ کون سے حضرات زندگی کا بہتر راستہ بتاتے ہیں؟

۴_ کیا لوگ خود سمجھ سکتے ہیں کہ کون سے کام آخرت کے لئے بہتر اور کون سے مضر ہیں ؟

۵_ حضرت ابراہیم (ع) لوگوں کو کیا تعلیم دیتے تھے ؟

۶_ حضرت ابراہیم (ع) کا پیغام اور احکام کس کی طرف سے تھے؟

۴۹

چوتھا سبق

لوگوں کا رہبر اور استاد

پیغمبر لوگوں کا رہبر اور استاد ہوتا ہے _ رہبری کے لئے جس چیز کی ضرورت ہوتی ہے _ اسے جانتا ہے _ دین کے تمام احکام جانتا ہے _ اچھے اور برے سب کاموں سے واقف ہوتا ہے _ وہ جانتا ہے کہ کون سے احکام آخرت کی سعادت کا موجب ہوتے ہیں اور کون سے کام آخرت کی بدبختی کا سبب بنتے ہیں _ پیغمبر خدا کو بہتر جانتا ہے _ آخرت اور بہشت اور جہنم سے آگاہ ہوتا ہے _ اچھے اور برے اخلاق سے پوری طرح با خبر ہوتا ہے _ علم اور دانش میں تمام لوگوں کا سردار ہوتا ہے اس کے اس مرتبہ کو کوئی نہیں پہنچانتا _ خداوند عالم تمام علوم پیغمبر کو عنایت فرما دیتا ہے تا کہ وہ لوگو۱ں کی اچھے طریقے سے رہبری کر سکے _چونکہ پیغمبررہبر کامل اور لوگوں کا معلم اور استاد ہوتا ہے _ اسلئے اسے دنیا اور آخرت کی سعادت کا علم ہونا چاہیے تا کہ سعادت کی طرف لوگوں کی رہبری کر سکے _

سوچ کر جواب دیجئے

۱_ لوگوں کا رہبر اور استاد کون ہے اور ان کو کون سی چیزیں بتلاتا ہے ؟

۵۰

۲_ پیغمبر کا علم کیسا ہوتا ہے کیا کوئی علم میں اس کا ہم مرتبہ ہوسکتا ہے؟

۳_ پیغمبر کا علوم سے کون نواز تا ہے ؟

۴_ رہبر کامل کون ہوتا ہے؟

۵۱

پانچوان سبق

پیغمبر لوگوں کے رہبر ہوتے ہیں

حضرت ابراہیم علیہ السلام اور تمام پیغمبران خدا انسان تھے _ اور اانہیں میں زندگی گذار تے تھے خدا کے حکم اور راہنمائی مطابق لوگوں کی سعادت اور ترقی میں کوشاں رہتے تھے _ پیغمبر ابتدائے آفرینش سے لوگوں کے ساتھ ہوتے تھے اور انہیں زندگی بہترین را ستے بتا تے تھے _ خدا شناسی آخرت اور اچھے کاموں کے بارے میں لوگوں سے گفتگو کرتے تھے _ بے دینی اور ظلم کے ساتھ مقابلہ کیا کرتے تھے اور مظلوموں کی حمایت کرتے تھے اور کوشش کرتے تھے کہ لوگوں کے درمیان محبت اور مساوات کو بر قرار رکھیں پیغمبروں نے ہزاروں سال کوشش کی کہ عبادت کے طریقے خدا شناسی اور اچھی زندگی بسر کرنا لوگوں پر واضح کریں _آج پیغمبروں اور ان کے پیرو کاروں کی محنت اور مشقت سے استفادہ کررہے ہیں _ اس لئے ان کے شکر گزار ہیں اور ان پر درود وسلام بھیجتے ہیں اور کہتے ہیں ;

... ...اللہ کے تمام پیغمبروں پر ہمارا سلام

... اللہ کے بڑ ے پیغمبر جناب ابراہیم پر ہمارا سلام

... جناب ابراہیم کے پیرو کاروں پر ہمارا سلام

۵۲

چھٹا سبق

اولوا لعزم پیغمبر

اللہ تعالی نے لوگوں کی راہنمائی کے لئے بہت زیادہ پیغمبر بھیجے ہیں کہ ان میں سب سے بڑ ے پیغمبر پانچ ہیں

____ حضرت نوح علیہ السلام

____ حضرت ابراہیم علیہ السلام

____ حضرت موسی علیہ السلام

____ حضرت عیسی علیہ السلام

____ حضرت محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم

جناب موسی علیہ السلام کے ماننے والوں کو یہودی کہا جاتا ہے اور جناب عیسی علیہ السلام کے ماننے والوں کو مسیحی یا عیسائی کہا جاتا ہے اور جناب محمڈ کے ماننے والوں کو مسلمان کہا جاتا ہے

تمام پیغمبر خدا کی طرف سے آئے ہیں اور ہم ان سب کا احترام کرتے ہیں

لیکن تمام پیغمبروں سے بزرگ و برتر آخری پیغمبر جناب محمد مصطفی (ص) ہیں آپ کے بعد کوئی اور پیغمبر نہیں آئے گا _

۵۳

سوالات

۱_ بڑے پیغمبرکتنے ہیں اور ان کے نام کیا ہیں ؟

۲_ یہودی کسے کہا جاتا ہے ؟

۳_ مسیحی یا عیسائی کسے کہا جاتا ہے ؟

۴_ جناب محمد مصطفی (ص) کے ماننے والوں کو کیا کہا جاتا ہے ؟

۵_ سب سے بڑ ے اور بہتر اللہ کے پیغمبروں کون ہیں ؟

ان جملوں کو مکمل کیجئے

۱_ تمام پیغمبر ... آئے ہیں اور ہم ان ... کرتے ہیں

۲_ لیکن جناب محمد مصطفی (ص) تمام پیغمبروں سے ... و ...ہیں

۳_ آپ کے بعد نہیں آئے گا

۵۴

ساتواں سبق

حضرت محمد مصطفے (ص) کا بچپن

جناب محمد صلی اللہ علیہ وآلہ مکہّ میں پیدا ہوئے _ آپ کے والد جناب عبد اللہ علیہ السلام تھے اور والدہ ماجدہ جناب آمنہ تھیں _ بچین ہی سے آپ نیک اور صحیح انسان تھے دستر خوان پر با ادب بیھٹتے تھے_ اپنی غذا کھا تے اور دوسرے بچوں کے ہاتھ سے ان غذا نہیں چھینتے تھے _ غذا کھا تے وقت بسم اللہ کہتے تھے _ بچوں کو آزار نہ دیتے تھے بلکہ ان سے اچھا سلوک اور محبت کرتے تھے _ ہر روز زنبیل خرما سے پر کر کے بچوں کے در میان تقسیم کرتے تھے _

سوالات

۱_ جناب محمد مصطفی کس شہر میں پیدا ہوئے ؟

۲_ غذا کھا تے وقت کیا کہتے تھے اور کس طرح بیٹھتے تھے ؟

۳_ دوسرے بچوں کے ساتھ کیسا سلوک کرتے تھے ؟

۴_ تمہارا دوسروں کے ساتھ کیسا سلوک ہے ؟

۵۵

آٹھواں سبق

آخری نبی حضرت محمد مصطفے (ص)

آپ کے والد کا نام جناب عبداللہ اور والدہ کانام آمنہ تھا _ عام الفیل میں سترہ ربیع الاوّل کو مکہّ میں پیدا ہوئے _ آپ کی پیدائشے سے قبل ہی آپ کے والد جناب عبداللہ کا انتقال ہو گیا _ جناب آمنہ نے آپکی چھ سال تک پرورش کی _ جب آپ چھ سال کے ہوئے تو آپ کی والدہ کا انتقال ہو گیا _ والدہ کے فوت ہونے کے بعد آپ کے دادا جناب عبدالمطلب نے آپ کی _ جناب عبد المطلب آپ سے بہت زیادہ محبت کرتے تھے اور آپ پر بہت مہربان تھے پیغمبر اسلام کے مستقبل کا آپ کو علم تھا عیسائی اور یہودی علماء سے آپ نے سن رکھا تھا کہ مکہّ سے ایک پیغمبر مبعوث ہو گا _ جناب عبد المطلب عربوں کے سردار تھے _ کعبہ کے نزدیک آپ کے لئے مخصوص جگہ تھی کہ جس پراور کوئی نہیں بیٹھ سکتا تھا _ صرف پیغمبر اسلام اس مخصوص جگہ پراپنے دادا کے پہلو میں بیٹھا کرتے تھے _ اگر آپ کو وہاں بیٹھنے سے کبھی کوئی منع کرتا تو جناب عبد المطلب فرماتے کہ میرے بیٹے کو آنے دو _ بخدا اس کے چہرے پر بزرگی کے آثار موجود ہیں _ میں دیکھ رہاہوں کہ ایک دن محمڈ تم سب کا سردار ہو گا _ جناب عبدالمطلب پیغمبر اسلام کو اپنے نزدیک بٹھا تے اور اپنے دست شفقت کو آپ کے سر پر پھیر تے تھے چونکہ حضوڑ کے مستقبل سے آگاہ تھے اسلئے انہیں کے ساتھ غذا تناول کرتے تھے اور اپنے سے کبھی آپ کو جدا نہیں کرتے تھے _

۵۶

پیغمبر اسلام کا بچپن

پیغمبر اسلام بچپنے میں بھی با ادب تھے _ آپ کے چچا جناب ابو طالب علیہ السلام فرما تے ہیں کہ محمڈ غذا کھا تے وقت بسم اللہ کہتے تھے اور غذا کے بعد الحمدللہ فرماتے _ میں نے محمڈ کونہ تو جھوٹ بولتے دیکھا اور نہ ہی برا اور نارو ا کام کرتے دیکھا _ آپ(ص) او نچی آواز سے نہیں ہنستے تھے بلکہ مسکراتے تھے _

جواب دیجئے

۱_ پیغمبر اسلام (ص) کس سال اور کس مہینہ اور کس دن پیدا ہوئے ؟

۲_ آپ کی والدہ آور آپ کے والدکا کیا نام تھا ؟

۳_ جناب عبدالمطلب کا پیغمبر اسلام (ص) سے کیارشتہ تھا اور آپ کے متعلق وہ کیا فرما تے تھے ؟

۴_ یہودی اور عیسائی علماء کیا کہا کرتے تھے؟

۵_ بچپن میں آپ (ص) کا کردار کیسا تھا اور آپ کے متعلق آپ کے چچا کیا فرمایا کرتے تھے ؟

۵۷

نواں سبق

پیغمبر (ص) کا بچوّں کے ساتھ سلوک

پیغمبر(ص) اسلام بچّوں سے بہت زیادہ محبت کرتے تھے اور ان کا احترام کرتے تھے یہاں تک کہ آپ ان کو سلام کرتے تھے _ آپ(ص) مسلمانوں سے کہتے تھے کہ بچوں کا احترام کیا کرو اور ان سے محبت کیا کرو اور جو بچوں سے محبت نہ کرے وہ مسلمان نہیں ہے _

ایک مسلمان کہتا ہے کہ میں نے رسول (ص) کے ساتھ نماز پڑھی اور آپ کے ساتھ گھر تک گیا تو میں نے دیکھا کہ بچے گروہ در گروہ آپ کا استقبال کرنے کے لئے دوڑ کر آرہے تھے _ آپ نے انہیں پیار کیا اور اپنا دست مبارک ان کے سر اور چہرے پرپھیرا

سوالات:

۱_ پیغمبر اسلام(ص) کے والد کا نام کیا تھا؟

۲_ آپ کی والدہ کا کیا نام تھا؟

۳_ بچوں کو کیوں سلام کیا کرتے تھے؟

۴_ اپنے اصحاب سے بچوں کے متعلق کیا فرماتے تھے؟

۵_ بچّے کیوں آپ(ص) کے استقبال کیلئے دوڑ پڑتے تھے؟

۶_ کیا تم اپنے دوستوں کو سلام کرتے ہو؟

۵۸

دسواں سبق

امین

ایک زمانے میں مکہ کے لوگ خانہ کعبہ کو از سر نو بنارہے تھے _ تمام لوگ خانہ کعبہ بنانے میں ایک دوسرے کی مدد کررہے تھے _ جب کعبہ کی دیوار ایک خاص اونچائی تک پہنچی کہ جہان حجر اسود رکھا جانا تھا'' حجر اسود ایک محترم پتھر ہے'' مكّہ کے سرداروں میں سے ہر ایک کی خواہش یہ تھی کہ اس پتھر کو صرف وہی اس کی بناپر رکھے اوراس کام سے اپنے آپ اور اپنے قبیلے کی سربلندی کا موجب بنے _ اسی وجہ سے ان کے درمیان جھگڑا شروع ہوا _ ہر ایک یہی کہتا تھا کہ صرف میں حجر اسود کو اس کی جگہ نصب کروں گا ان کا اختلاف بہت بڑھ گیا تھا اور ایک خطرناک موڑ تک پہنچ گیا تھا قریب تھا کہ ان کے درمیان جنگ شروع ہوجائے _ جنگ کے لئے تیار بھی ہوچکے تھے اسے اثناء میں ایک دانا اور خیرخواہ آدمی نے کہا _ لوگو جنگ اوراختلاف سے بچو کیونکہ جنگ شہر اور گھروں کو ویران کردیتی ہے _ اور اختلاف لوگوں کو متفرق اور بدبخت کردیتا ہے _ جہالت سے کام نہ لو اور کوئی معقول حل تلاش کرو_ مكّہ کے سردار کہنے لگے کیا کریں _ اس دانا آدمی نے کہا تم اپنے درمیان میں سے ایک ایسے آدمی کا انتخاب کرلو جو تمہارے اختلاف کو دور کردے _ سب نے کہا یہ ہمیں قبول ہے یہ مفید مشورہ ہے _ لیکن ہر قبیلہ کہتا تھا کہ وہ قاضی ہم میں سے ہو _ پھر بھی اختلاف اور نزاع برطرف نہ ہوا _ اسی خیرخواہ اور دانا آدمی نے کہا _ جب تم قاضی کے انتخاب میں بھی اتفاق نہیں کرپائے تو سب سے پہلا شخص جو

۵۹

اس مسجد کے دروازے سے اندر آئے اسے قاضی مان لو _ سب نے کہا یہ ہمیں قبول ہے تمام کی آنکھیں مسجد کے دروازے پر لگی ہوئی تھیں اور دل دھڑک رہے تھے کہ کون پہلے اس مسجد سے اندر آتا ہے اور فیصلہ کس قبیلے کے حق میں ہوتا ہے ؟ ایک جوان اندر داخل ہوا _ سب میں خوشی کی امید دوڑگئی اور سب نے بیک زبان کہا بہت اچھا ہو کہ محمد (ص) ہی آیا ہے _ محمد (ص) امین محمد(ص) امین _ منصف اور صحیح فیصلہ دینے والا ہے اس کا فیصلہ ہم سب کو قبول ہے حضرت محمد (ص) وارد ہوئے انہوں نے اپنے اختلاف کی کہانی انہیں سنائی: آپ نے تھوڑا ساتامل کیا پھر فرمایا کہ اس کام میں تمام مكّہ کے سرداروں کو شریک ہونا چاہیے لوگوں نے پوچھا کیا ایسا ہوسکتا ہے؟ اور کس طرح _ حضرت نے فرمایا کہ ہر قبیلے کا سردار یہاں حاضر ہو تمام سردار آپ کے پاس آئے _ آنحضرت (ص) نے اپنی عبا بچھائی پھر آپ نے فرمایا تمام سردار عبا کے کناروں کو پکڑیں اور حجر اسود کو لے چلیں _ تمام سردار نے حجر اسود اٹھایا اور اسے اسکی مخصوص جگہ تک لے آئے اس وقت آپ نے حجر اسود کو اٹھایا اور اسے اس کی جگہ نصب کردیا_ مكّہ کے تمام لوگ آپ کی اس حکمت عملی سے راضی اور خوش ہوگئے _ آپ کے اس فیصلے پر شاباش اور آفرین کہنے لگے _

ہمارے پیغمبر(ص) اس وقت جوان تھے اور ابھی اعلان رسالت نہیں فرمایا تھا لیکن اس قدر امین اور صحیح کام انجام دیتے تھے کہ آپ کا نام محمد(ص) امین پڑچکا تھا _

لوگ آپ پر اعتماد کرتے تھے اور قیمتی چیزیں آپ کے پاس امانت رکھتے تھے اور آپ ان کے امانتوں کی حفاظت کرتے تھے آپ صحیح و سالم انہیں واپس لوٹا دیتے تھے _ سبھی لوگ اپنے اختلاف دور کرنے میں آپ کی طرف

۶۰

61

62

63

64

65

66

67

68

69

70

71

72

73

74

75

76

77

78

79

80

81

82

83

84

85

86

87

88

89

90

91

92

93

94

95

96

97

98

99

100

101

102

103

104

105

106

107

108

109

110

111

112

113

114

115

116

117

118

119

120

121

122

123

124

125

126

127

128

129

130

131

132

133

134

135

136

137

138

139

140

141

142

143

144

145

146

147

148

149

150

151

152

153

154

155

156

157

158

159

160

161

162

163

164

165

166

167

168

169

170

171

172

173

174

175

176

177

178

179

180

181

182

183

184

185

186

187

188

189

190

191

192

193

194

195

196

197

198

199

200

201

202

203

204

205

206

207

208

209

210

211

212

213

214

215

216

217

218

219

220

221

222

223

224

225

226

227

228

229

230

231

232

233

234

235

236

237

238

239

240

241

242

243

244

245

246

247

248

249

250

251

252

253

254

255

256

257

258

259

260

261

262

263