علوم ومعارف قرآن

علوم ومعارف قرآن14%

علوم ومعارف قرآن مؤلف:
زمرہ جات: علوم قرآن
صفحے: 263

علوم ومعارف قرآن
  • ابتداء
  • پچھلا
  • 263 /
  • اگلا
  • آخر
  •  
  • ڈاؤنلوڈ HTML
  • ڈاؤنلوڈ Word
  • ڈاؤنلوڈ PDF
  • مشاہدے: 136044 / ڈاؤنلوڈ: 6860
سائز سائز سائز
علوم ومعارف قرآن

علوم ومعارف قرآن

مؤلف:
اردو

یہ کتاب برقی شکل میں نشرہوئی ہے اور شبکہ الامامین الحسنین (علیہما السلام) کے گروہ علمی کی نگرانی میں اس کی فنی طورپرتصحیح اور تنظیم ہوئی ہے


1

2

3

4

5

6

7

8

9

10

11

12

13

14

15

16

17

18

19

20

ابو عمرعثمان بن صلاح، اس حدیث کے بارے میں جواُبی بن کعب کے واسطے سے پیغمبر اکرم سے منقول ہے لکھتا ہے:

قَدْ بَحَثَ بٰاحِثٌ عَنْ مَخْرَجِهِ حَتّٰی اِنْتَهٰی اِلٰی مَنْ اِعْتَرَفَ بِاَنَّهُ وَجَمٰاعَةٌ وَضَعُوْهُ وَقَدْ اَخْطَا الوٰاحِدي وَجَمٰاعَةٌ مِنْ الْمُفَسَّرِینَ حَیْثُ اَوْدَعُوْهُ فی تَفٰاسِیْرِهِمْ ۔(۱۱)

اس حدیث کے بارے میں جوقرآن کے ہر سورہ کے فضائل میں نقل کی گئی ہے جوتحقیق کی گئی وہ اس نیتجہ پر پہنچی ہے کہ اس حدیث کے گھڑنے والے نے اس کے جعلی ہونے کا اعتراف کر لیا ہے(میں نے اپنے کچھ ساتھیوں سے مل کر اسے گھڑا ہے)۔

واحدی اور دیگر مفسرین اپنی تفسیروں میں اس حدیث کو ذکر کر کے غلطی کا شکار ہوئے ہیں۔

دیکھئے! ان لوگوں نے کتنی بڑی جرات کی ہے کہ رسولِ خدا کی طرف حدیث کی جھوٹی نسبت دی ہے اور ستم یہ کہ اس افتراء اور تہمت کو قرب ِ الہیٰ کا سبب قرار دیتے ہیں۔

( كَذَٰلِكَ زُيِّنَ لِلْمُسْرِفِينَ مَا كَانُوا يَعْمَلُونَ ) (۱۰:۱۲)

جو لوگ زیادتی کرتے ہیں انکی کارستانیاں یوں ہی انہیں اچھی کر دکھائی گئی ہیں۔

____________________

(۱۱) اصول کافی کتاب فضل القرآن۔

۲۱

قرآن میں غور و فکر اور اسکی تفسیر:

قرآن مجید اور صحیح روایات میں معانی قرآن کے سمجھنے اور اس کے مقاصد و اہداف میں فکر کی سخت تاکید کی گئی ہے، اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے:

( اَفَلَا یَتَدَبَّرُوْنَ الْقُرْاٰنَ اَمْ عَلٰی قُلُوْبٍ اَقْفَالُهَا ) (۴۷:۲۴)

تو کیا یہ لوگ قرآن میں (ذرا بھی) غور نہیں کرتے یا (انکے دلوں پر تالے (لگے ہوئے) ہیں۔

اس آیہ کریمہ میں قرآن میں غور نہ کرنے کی سخت مذمت کی گئی ہے۔ ابن عباس نے رسول اکرم سے نقل کیا ہے، آنحضرت نے فرمایا:

اِعرَبُوا القُرآن اِلتَمِسُوا غَراٰئِبَه

قرآن کو بلند آواز سے پڑھا کرو اور اس کے عجائبات اور باریکیوں میں غور و خوض کیا کرو۔

ابوعبدالرحمن سلمی کہتے ہیں:

حَدَّثَنٰا مَن کٰانَ یَقرَئُنٰامِنَ الصَّحٰابَةِ اِنَّهُم کٰانُواَ یاخُذُونَ مِن رَسُولِ اللّٰهِ عَشَرَآیٰاتٍ فَلاٰ یَخُذُونَ فی العَشَرِ الاُخریٰ یَعلَمُوا مٰاف هٰذِهِ مِنَ العِلمِ وَالعَمَل

صحابہ کرام جو ہمیں قرآن کی تعلیم دیا کرتے تھے فرماتے تھے ہم رسول خدا سے قرآن کو دس دس آیتوں کی صورت میں لیتے تھے، جب تک ہم پہلی دس آیتوں کے علمی اور عملی نکات کو حفظ نہیں کر لیتے۔ دوسری دس آیتیں ہمیں نہیں ملتی تھیں۔

۲۲

عثمان ابن مسعود اور اُبیّ کہتے ہیں:

اِنَّ رَسُوْلَ اللّٰهِ کٰانَ یَقْرَئُهُمُ العَشَرَ فَلاٰ یُجٰاوِزُوَنْهٰا اِلٰی عَشَرٍ اُخْریٰ حَتّٰی یَتَعَّلَمُوْا مٰا ِفیهٰا مِنَ الْعَمَلِ فَیَعُلَمَهُمُ القُرْآنْ وَالْعَمَلُ جمیعاً (۱۲)

رسول خدا قرآن کی دس آیتوں کی تعلیم دیتے تھے، ان دس آیتوں سے اس وقت تک تجاوز نہ فرماتے تھے جب تک ان کو سمجھ کر عمل نہ کیا جائے پس علم قرآن اور عمل بہ قرآن کی تعلیم ایک ساتھ دیتے ہیں۔

ایک دن امیرالمومنین نے لوگوں کے سامنے جابر بن عبداللہ انصاری کی تعریف کی توکسی نے کہا: مولا! آپ (باب علم ہونے کے باوجود ) جابر کی تعریف کر رہے ہیں؟ آپ نے فرمایا:

تمہیں معلوم نہیں جابر بن عبد اللہ انصاری آیہ کریمہ:( إِنَّ الَّذِي فَرَضَ عَلَيْكَ الْقُرْآنَ لَرَادُّكَ إِلَىٰ مَعَادٍ ) (۲۸:۸۵)کی تفسیر سمجھتے تھے۔(۱۳)

قرآن کریم میں فکر اور تدبر کرنے کی فضیلت میں بہت سی روایات موجود ہیں۔ چنانچہ بحا ر الانوار کی ۱۹ جلدوں میں اس مضمون کی بے شمار احادیث موجود ہیں۔ لیکن یہ ایسی حقیقت ہے جس کے لیے اخبارو روایات میں تتبع اور جستجو کی ضرورت نہیں ہے۔ کیوں کہ قرآن ایسی کتاب ہے جسے خدا نے لوگوں کے لیے دنیا ہی میں ایک مکمل ضابطہ حیات بناکر بھیجا ہے۔ جس سے آخرت کی راہ، نور اور روشنی حاصل کر سکتے ہیں اور یہ کام اس وقت تک نہیں ہو سکتا جب تک قرآن کے معانی میں تدبر اور فکر نہ کیا جائے۔

____________________

(۱۲) تفسیر قرطبی، ج، ص۷، وفی الکافی کتاب فضل القرآن۔

(۱۳) تفسیر قرطبی، ج،۱،ص۷۸۔ ۷۹، وفی الکافی کتاب فضل القرآن۔

۲۳

یہ ایسی حقیقت ہے جس کا فیصلہ عقل کرتی ہے۔ روایات اور احادیث میں جتنی تاکید ہے وہ اسی حکم عقل کی تائید اور اسی کی طرف راہنمائی ہے۔

زہری نے امام زین العابدین سے روایت کی ہے، آپ نے فرمایا:

آیٰاتُ الْقُرْآنِ خَزٰائِنٌ فَکُلَّمٰا فُتِحَتْ خَزینَةٌ ینَبْغَي لَکَ اَنْ تَنْظُرَ مٰا فِیهٰا ۔(۱۴)

قرآن کی آیات خزانے ہیں جب بھی کوئی خزانہ کھولا جائے اس میں موجود موتیوں اور جواہرات کو ضرور دیکھا کرو (تلاش کیا کرو)

____________________

(۱۴)تفسیر القرطبی ج۱ ص۲۶۔

(۱۵)اصول الکافی، کتاب فضل القرآن۔

۲۴

قرآن مجید کے ناموں کی معنویت

ڈاکٹر محمود احمد غازی

دنیا میں ہر کتاب کا کوئی نام ہوتا ہے جس سے وہ جانی پہچانی جاتی ہے۔ قرآن پاک کا بھی ایک معروف نام ”القران“ ہے جس کے حوالے سے یہ کتاب دنیا بھر میں جانی جاتی ہے لیکن خود قرآن پاک میں اس کتاب کے کئی اور نام بھی دئیے گئے ہیں۔ ان میں سے چار نام ایسے نمایا ں ہیں جن کا ذکر مختلف سورتوں اور مختلف آیات میں ملتا ہے۔ قرآن پاک کے بہت سے ناموں میں خاص طور پر یہ چار نمایاں نام اپنے اندر بڑی گہری معنویت رکھتے ہیں۔ یہ معنویت اتنی غیر معمولی اہمیت رکھتی ہے کہ خود اس سے قرآن پاک کے معجزہ ہونے کے شواہد اور مثالیں ہمارے سامنے آتی ہیں۔

یوں تو دنیا کا ہر مصنف اپنی کتاب کا کوئی نہ کوئی نام رکھ ہی دیتا ہے، لیکن دنیا کی کوئی کتاب ایسی نہیں ہے کہ جس کا نام اس کتاب پر اتنا مکمل طور پر صادق آتا ہو کہ یہ کہا جا سکے کہ اس کتاب کے نام سے زیادہ کوئی نام اس کتاب پر صادق نہیں آسکتا۔ یہ بات قرآن مجید کے علاوہ کسی کتاب کے بارے میں نہیں کہی جا سکتی۔ مثال کے طورپر مشہور کتاب ” داس کپیٹال“ کارل مارکس کی لکھی ہوئی ایک معروف اور اہم کتاب ہے جس کا موضوع سرمایہ ہے۔ سب جانتے ہیں کہ سرمایہ کے موضوع پر دنیا میں ہزاروں کتابیں موجود ہوں گی۔ ممکن ہے ان میں سے بعض کتابیں کارل مارکس کی کتاب سے اچھی ہوں، اور فرض کریں اگر یہ سب کتابیں کارل مارکس کی کتاب سے اچھی نہ بھی ہوں بلکہ فرض کر لیں کہ ساری کتابیں اس سے کم درجہ ہی کی ہوں تب بھی ان میں سے ہر کتا ب کو سرمایہ کے نام سے موسوم کیا جا سکتا ہے۔ جو کتاب بھی سرمائے کے موضوع پر ہے تو آپ اسے داس کپیٹال کہہ سکتے ہیں اور کوئی شخص اس نام پر نہ اعتراض کر سکتا ہے نہ اس نام کو غلط قرار دے سکتا ہے۔ اس لیے اس نام میں کوئی ایسی خصوصی معنویت نہیں ہے جو کارل مارکس کی داس کپیٹال کے علاوہ کسی اور کتاب میں نہ پائی جاتی ہو اور اس کی وجہ سے یہ نام اس موضوع کی کسی اور کتاب کے لئے آپ استعمال نہ کر سکیں۔

۲۵

” دیوان غالب“ کو لیجئے جو اردو ادب تو کیا عالمی ادب کا ایک اعلیٰ نمونہ ہے۔ لیکن لفظ ” دیوان غالب“ میں کیا معنویت ہے، کچھ نہیں۔ ہر وہ شاعر جس کا تخلص غالب ہو اپنے مجموعہ کلام کو دیوان غالب کے نام سے موسوم کر سکتا ہے۔ اس لیے کہ ہرصاحب دیوان شاعر کا دیوان ہوتا ہے جو اس کے نام سے معروف ہوجاتا ہے۔ اس میں نہ کوئی خاص بات ہے اور نہ کوئی منفرد انداز کی معنویت۔ دنیا میں ہزاروں لاکھوں شاعر ہوئے۔ ہر شاعر کے مجموعہ کلام کو آپ اس کا دیوان کہہ سکتے ہیں۔ اس طرح سے آپ دیکھتے جائیں تو دنیا میں جتنی کتابیں ہیں ان کے نام کے بارے میں آپ یقین سے یہ نہیں کہہ سکتے کہ یہ نام اس کتاب کے علاوہ کسی اور کتاب پر صادق نہیں آتا۔ کسی کتاب کے بارے میں ایسا دعویٰ کرنا بہت مشکل بلکہ ناممکن ہے۔ صرف ”قرآن“ ایسا نام ہے جو صرف ایک ہی کتاب پر صادق آتا ہے اور اس کے علاوہ کسی بھی کتاب پر اس مفہوم میں اس منفرد نام کا اطلاق نہیں ہو سکتا۔

القرآن کے لغوی معنی ہیں وہ تحریر جسے باربار پڑھا جائے۔ لہذا باربار پڑھی جانے والی کتاب کو عربی زبان میں قرآن کہا جائے گا۔ پھر جب اس میں حرف تخصیص یعنی الف لام لگتا ہے تو اس میں مزید تخصیص پیدا ہوجاتی ہے، یعنی القرآن۔ اس اضافہ سے اس میں یہ مفہوم پیدا ہوتا ہے کہ وہ واحد چیز جو باربار کثرت اور تسلسل کے ساتھ پڑھی جارہی ہے اور اس کے علاوہ کوئی چیز ایسی نہیں ہے جو اتنے تواتر اور تسلسل سے پڑھی جارہی ہو۔ القرآن کا یہ لفظی مفہوم ذہن میں رکھیں۔

اس مفہوم کے بعد میں آپ کے سامنے ایک دعویٰ پیش کرتا ہوں اور اس دعویٰ کی ایک دلیل بھی آپ کے سامنے پیش کرتا ہوں۔ دعویٰ یہ ہے کہ قرآن پاک دنیا کی تاریخ میں واحد کتاب ہے جو گذشتہ چودہ سو سال سے روئے زمین پر اتنے تسلسل سے پڑھی جارہی ہے اور ہر وقت، ایک ایک وقت میں، بلکہ ایک ایک لمحہ میں ہزاروں نہیں بلکہ لاکھوں آدمی اس کو مسلسل اور تواتر سے اس طرح پڑھ رہے ہیں کہ اس تلاوت میں ایک سیکنڈ کے ایک ہزارویں حصہ کا بھی وقفہ نہیں آتا۔ روئے زمین کا اگر نقشہ ہمارے سامنے ہو اوراس کو سامنے رکھ کر اس دعویٰ پر غور کیا جائے کہ چودہ سو برس سے لے کر اس لمحہ تک اور آئندہ جب تک یہ دنیا موجود ہے ایک سیکنڈ کا وقفہ اس روئے زمین پر ایسا نہیں آیا کہ اس وقفہ میں لاکھوں آدمی کہیں نہ کہیں قرآن پاک کی تلاوت نہ کر رہے ہوں تو ذرا سا غور کرنے سے یہ حقیقت واضح اور مبرہن ہو جاتی ہے،

۲۶

اور یہ صاف سمجھ میں آجاتا ہے کہ دنیا میں ایک لمحہ کے لئے بھی کہیں ایسا نہیں ہوتا۔ یہ محض دعویٰ نہیں ہے، بلکہ اس کی دلیل خود آپ کے سامنے موجود ہے۔ روئے زمین پر ایک ارب بیس کروڑ سے زائد مسلمان آباد ہیں۔ دنیا کے نقشے پر نظر ڈال کر دیکھا جائے تو پتا چلتا ہے کہ روئے زمین کے جنوب مشرقی کونے میں فجی اورآاسٹریلیا کے علاقے شامل ہیں۔ فجی میں ایک لاکھ سے زائد مسلمان رہتے ہیں۔ اسی طرح آسٹریلیا میں چار لاکھ سے زائد مسلمان آباد ہیں، جو اکثر وبیشترآسٹریلیا کے بالکل جنوب مشرق کے علاقہ نیو ساؤتھ ویلز میں رہتے ہیں۔ جب فجی اورآسٹریلیا میں صبح کی نماز کا وقت ہوتا ہے اور یہ یاد رہے کہ دنیا میں صبح سب سے پہلے فجی اورآسٹریلیا ہی میں ہوتی ہے تو وہاں کے مسلمان کیا کرتے ہوں گے؟ آپ مان لیجئے کہ نماز پڑھنے والوں کا اوسط مسلمانوں میں بہت کم رہ گیا ہے۔ فرض کر لیں کہ مسلمان قوم میں بہت سے لوگ لا مذہب اور بے دین ہو گئے ہیں اور ان کا دین سے کوئی تعلق نہیں رہ گیا ہے۔ کوئی مخالف زیادہ سے زیادہ یہی فرض کر سکتا ہے۔ لیکن اس بات سے کوئی بڑے سے بڑا مخالف اسلام بھی اختلاف نہیں کر سکتا کہ مسلمانوں کی اتنی بڑی تعداد میں سے ایک چوتھائی یعنی پچیس فی صد لوگ ضرور نماز پڑھتے ہوں گے۔ اگر پچیس فیصد لوگ نماز پڑھتے ہوں تو گویا کم از کم ایک لاکھ مسلمان اس علاقے میں ایسے ضرور ہیں جو روزانہ علی الصباح فجر کی نماز کے لئے کھڑے ہوتے ہیں، اور کھڑے ہو کر قرآن پاک کی تلاوت کرتے ہیں۔ مسلمانوں میں ہمیشہ سے یہ طریقہ چلا آرہا ہے کہ وہ فجر کی نماز کے بعد بقدر توفیق قرآن مجید کی تلاوت کرتے ہیں۔ مان لیجئے کہ اس وقت قرآن مجید کی تلاوت کرنے والے ان دس فیصد میں بھی دس فیصد ہیں تو پھر بھی کئی ہزار مسلمان وہ ہیں جو قرآن پاک کھول کر تلاوت کر رہے ہوں گے، اور جو باقاعدہ تلاوت نہیں کرتے وہ بھی کم از کم نماز میں سورةفاتحہ اور سورة اخلاص وغیرہ کی تلاوت ضرور کرتے ہیں۔ اول تو یہ تعداد لاکھوں میں ہے۔ لیکن بڑے سے بڑا مخالف بھی چند ہزار کا اعتراف ضرور کرے گا اور نہیں کرتا تو آپ اسے فجی اور آسٹریلیا لے جا کر دکھا دیجئے۔

۲۷

اس کے بعد جب آسٹریلیا میں فجر کی نماز کا وقت ختم ہونے لگتا ہے تو انڈونیشیا میں فجر کی نماز کا وقت شروع ہو جاتا ہے۔ انڈونیشیا میں بیس کروڑسے زائد مسلمان بستے ہیں۔ پورے ملک میں ساڑھے پانچ ہزار جزائر ہیں جو تین ہزار میل کے رقبے میں پھیلے ہوئے ہیں۔ مشرق سے لے کر مغرب تک جزائر کا ایک لمبا سلسلہ آپ نقشہ پر دیکھ لیجئے۔ ان بیس کروڑ کی آباد ی میں اگر دس فیصد بھی نماز پڑھتے ہوں تو پہلے مشرقی علاقہ میں فجر کا وقت شروع ہو جاتا ہے پہلے مشرقی جزائر میں فجر کی نمازوں سے سلسلہ کا آغاز ہوتا ہے، پھر وسطی جزائر میں پھر آخر میں مغربی جزائر میں۔ یاد رہے کہ انڈونیشیا کے مغربی جزائر ملائیشیا کے ساتھ ایک ہی عرض بلد پر واقع ہیں۔ یوں فجر کا وقت ملائیشیا اور انڈونیشیا میں بیک وقت شروع ہو جاتا ہے، اور جونہی وہاں یہ سلسلہ ختم ہوتا ہے تو بنگلہ دیش میں شروع ہو جاتا ہے۔ بنگلہ دیش میں ختم ہوتے ہی بھارت میں شروع ہو جاتا ہے جہاں بیس کروڑ کے لگ بھگ مسلمان رہتے ہیں۔

ابھی بھارت کے مسلمان نماز پڑھ ہی رہے ہوتے ہیں کہ فجی میں ظہر کا وقت داخل ہو جاتا ہے وہ سلسلہ دوبارہ شروع ہوجاتا ہے۔ اب گویا دو سلسلے ہوگئے۔ اس روئے زمین پر تلاوت قرآن پاک کی دو لہریں چل رہی ہیں، یہ دو لہریں یا سلسلے یا دو ( Waves ) جو مشرق سے شروع ہو کر مغرب کو جار ہی ہیں۔ ہندوستان میں ابھی یہ لہر ختم نہیں ہوتی کہ پاکستان میں شروع ہوجاتی ہے اور پاکستان کے بعد پورا سنٹرل ایشیا، پورا افغانستان، پورا چین جہاں کروڑوں مسلمان آباد ہیں اس لہر میں شامل ہو جاتے ہیں،اور یوں اس وسیع وعریض خطہ میں تلاوت قرآن کا سلسلہ شروع ہو جاتا ہے پاکستان کے چودہ کروڑ میں سے اگر بیس مسلمان بھی قرآن پڑھتے ہوں تو کم وبیش ستر اسی لاکھ مسلمان پاکستان بھر میں فجر کے وقت تلاوت اور نماز میں مشغول ہوتے ہیں اگرچہ یہاں تلاوت قرآن کرنے والوں کی اصل تعداد اس سے بہت زیادہ ہے۔ جب نماز فجر کا یہ سلسلہ مصر تک پہنچتا ہے تو فجی میں عصر کا وقت داخل ہو چکا ہوتا ہے۔ اس طرح بیک وقت تین سلسلے شروع ہو جاتے ہیں، اور جب یہ سلسلہ آگے پہنچتا ہے اور مراکش میں داخل ہوتا ہے تو پیچھے فجی میں مغرب کا وقت داخل ہو جاتا ہے۔ اب چار سلسلے ہو گئے اور جب امریکہ میں جہاں نوے لاکھ سے زیادہ مسلمان رہتے ہیں فجرکا وقت داخل ہو چکا ہوتا ہے اور وہ فجر کی نماز پڑھنا شروع کرتے ہیں تو فجی میں عشاء کا وقت شر وع ہوجاتا ہے،

۲۸

یوں روئے زمین پر نمازوتلاوت کے پانچ سلسلے ایسے چلتے رہتے ہیں کہ جن میں چاروں طرف سے تسلسل قائم رہتا ہے۔ اس میں کبھی وقفہ نہیں ہوتا۔ اگر کسی کو شک ہوں تو وہ ٹیلیفون کرکے معلوم کر سکتا ہے کہ دنیا میں کہاں کہاں اس وقت کون کونسی نمازیں ادا کی جارہی ہیں اور کہاں کہاں تلاوتیں ہو رہی ہیں۔ یوں بھی دنیا کا نقشہ سامنے ہو، نمازوں کے اوقات اور دنیا میں مسلمانوں کی تعداد کا علم ہو اور سورج کی حرکت کا اندازہ ہو تو ٹیلی فون کرنے کی بھی ضرورت نہیں۔ نقشہ سے ہی پتہ چل جائے گا کہ چوبیس گھنٹے میں نمازو تلاوت کی ہر وقت یہ پانچ روئیں مسلسل اور متواتر چلتی رہتی ہیں، اور روئے زمین پر کہیں نہ کہیں ہزاروں، لاکھوں مسلمان قرآن پاک کی تلاوت یا قرآن پاک کے کسی ایک حصہ کی تلاوت یا سماعت کر رہے ہوتے ہیں۔

اس اعتبار سے اگر ہم یہ کہتے ہیں تو درست کہتے ہیں کہ القرآن وہ واحد کتاب ہے جس پر یہ لفظ اس کمال اور بھر پور طریقہ سے صادق آتا ہے کہ کسی اور کتاب پر صادق نہیں آتا اور دنیا میں کوئی بھی کتاب ایسی نہیں ہے جو اتنے تسلسل کے ساتھ اور اتنی کثرت کے ساتھ پڑھی جار ہی ہو کہ اس میں چودہ سو سال سے کوئی وقفہ ہی نہ آیا ہو۔ وقفہ آہی کیسے سکتا ہے، اس تسلسل میں ایک منٹ یا ایک سیکنڈ کا وقفہ بھی اس لیے نہیں آ سکتا کہ پانچ روئیں متواتر چل رہی ہیں۔ لہذا القرآن ایسا نام ہے کہ یہ کسی اور کتاب پر پورا اتر ہی نہیں سکتا۔ اس لیے اللہ رب العزت نے اپنی کتاب کے لئے نام بھی ایسا رکھا ہے کہ اس ایک کتاب کے علاوہ کوئی کتاب ایسی نہیں ہے جو القرآن تو کیا قرآن بھی کہلا سکے۔ یہ نام ۲۶مرتبہ قرآن پاک میں استعمال ہوا ہے۔

دوسرا نام اس کتاب کا ”الکتاب“ ہے۔ وہ بھی بڑی اہمیت اور معنویت رکھتا ہے اللہ رب العزت کی جو مجموعی اسکیم ہے انبیاء کی اور نبوت کے سلسلہ کی کتابیں بھیجے جانے اور شریعتیں اتارے جانے کی، اس ساری اسکیم سے اس نام کا بڑا گہرا تعلق ہے۔

قرآن مجید کو باربا ر الکتاب کہا گیا ہے۔ آغاز میں ہی ارشاد باری ہے :

( ذٰلِکَ الْکِتَابُ لَا رَیْبَ فِیْهِ)

یہ وہ کتاب ہے جس میں کوئی شک نہیں۔

۲۹

ایک اور جگہ ارشاد ہے:

( اَلْحَمْدُلِلّٰهِ الَّذِی اَنْزَلَ عَلٰی عَبْدِهِ الْکِتَابَ )

سب تعریفیں اس اللہ کی جس نے اپنے بند ہ پر الکتاب اتاری۔

الکتاب کے معنی ہیں ( The B((k )دی بک۔ جب انگریزی میں دی( The ) اور عربی میں ال، تخصیص کے حرف کے طور پر لگایا جاتا ہے تو اس کے معنی ہوتے ہیں صرف وہ متعین چیز جس کا تذکرہ ہے۔ یعنی وہ متعین کتاب جس کا اس سیاق وسباق میں تذکرہ ہو رہا ہے۔ لیکن اس کے باوجود کہ قرآن پاک نے باربار خود کو الکتاب کہا ہے اس کے ساتھ ساتھ قرآن پاک میں جیسا کہ ہر مسلمان جانتا ہے پچھلی کتابوں کا تذکرہ بھی ہے، تورات کا بھی ذکر ہے اور انجیل اور زبور کا بھی ذکر ہے۔ ان تین کتابوں کے نام تو لئے گئے ہیں۔ بقیہ کتابوں کے نام نہیں لئے گئے۔ بقیہ کتابوں کا ذکر عمومی انداز میں ہے۔ مثال کے طورپر سورة اعلیٰ میں صحف ابراہیم وموسیٰ کا ذکر ہے۔ ارشاد ہے:

( اِنَّ هٰذَا لَفِی الصُّحُفِ الْاُوْلٰی صُحُفِ اِبَرَاهیْمَ وَمُوْسٰی )

یعنی یہی پیغام پرانے صحیفو ں میں بھی ہے۔ ابراہیم کے صحیفوں میں بھی اور موسیٰ کے صحیفوں میں بھی۔

اب جہاں تک حضرت موسیٰ کے صحیفوں کا تعلق ہے ہم کہہ سکتے ہیں کہ اس سے خامس خمس یعنی عہد نامہ قدیم کی پہلی پانچ کتابیں مراد ہیں جن کو تورات کہا جاتا ہے۔ اگرچہ تورات کو کہیں بھی قرآن میں صحیفے نہیں کہا گیا۔ اس لیے قطعی طورپر ہم نہیں کہہ سکتے کہ صحیفے جو یہاں کہاگیا ہے ان سے مراد تورات ہی ہے یا کوئی اور صحیفے مراد ہیں۔ غالب خیال البتہ یہی ہے کہ اس سے تورات مراد ہو۔ لیکن حضرت ابراہیم کے صحیفے، جن کا یہاں ذکر کیا گیا ہے اس سے پتہ چلتا ہے کہ حضرت ابراہیم پر بھی صحیفے یا کتابچے الگ الگ اجزاء، سورتوں یا پمفلٹوں کی شکل میں اتارے گئے تھے۔ جن کا قرآن پاک کی ان آیات میں ذکر ہے۔ یقیناً یہ صحیفے ان تین مشہور کتابوں کے علاوہ ہیں۔

۳۰

قرآن مجید میں ایک جگہ پرانی کتابوں کا عمومی انداز سے ذکر کیاگیا ہے:

( وَاِنَّه‘ لَفِی زُبُرِالْاَوَّلِیْن )

اور یہی پیغام پہلے لوگوں کی (پرانی) کتابوں میں بھی بیان کیا گیا تھا۔ گویا کچھ اور قدیم اور پرانی کتابیں بھی ایسی تھیں جو اللہ نے پہلے اتاری تھیں جن کے ناموں اور مندرجات کی تفصیلات کا ہمیں علم نہیں ہے۔ اس اجمال کی مزید وضاحت ایک روایت سے ہوتی ہے جو مسند امام احمد بن حنبل میں بیان ہوئی ہے۔ اس روایت میں یہ بیان کیا گیا ہے کہ حضور نے فرمایا کہ اللہ تعالیٰ نے ایک لاکھ چوبیس ہزار پیغمبر بھیجے اور ان میں سے ۳۱۵صاحب کتاب تھے۔ اس طرح گویا کتابوں کی تعداد ۳۱۵کے لگ بھگ تھی۔ لگ بھگ اس لیے کہا گیا کہ بعض کتابیں ایسی بھی ہیں کہ وہ ایک سے زائد پیغمبروں کو دی گئیں۔ اس اعتبار سے کتابوں کی تعداد بہرحال سینکڑوں میں ضرور ہو گی۔ کتنی ہو گی یہ ہم قطعیت سے نہیں کہہ سکتے۔ قرآن پاک میں کئی جگہ ان کتابوں کا اجمالی ذکر آیا ہے، اور ایک صاحب ایمان کے لئے ا ن سب کتابوں پر ایمان لانا ضروری قرار دیا گیا ہے۔ یہ ایمان رکھنا کہ اللہ تعالیٰ نے جتنی کتابیں اتاری ہیں چاہے ان کے نام ہمارے علم میں ہوں یا نہ ہوں، چاہے ان کی تفصیلات ہمارے علم میں ہوں یا نہ ہوں ہم ان سب پر ایمان رکھتے ہیں اور ان کو اللہ کی کتاب مانتے ہیں۔ یہ بات اسلامی عقیدہ کا جزو ہے جس کو ماننا مسلمان ہونے کے لئے ضروری ہے۔

ان کتابوں کے لئے قرآن پاک میں دو الفاظ استعمال ہوئے اور ان دونوں کی بڑی اہمیت ہے۔ قرآن پاک کے اس نام ” الکتاب“ سے اس کا بڑا گہرا تعلق ہے۔ ان سب کتابوں کے لئے جن کی تعداد تین سو پندرہ کے لگ بھگ ہے قرآن میں کئی جگہ کتب (کتابیں) کا لفظ بصیغہ جمع استعمال کیا گیا ہے۔

۳۱

سورہ بقرہ کی آخری آیات میں ارشاد ہوا ہے :

( کُلٌّ اٰمَنَ بِاللّٰهِ وَمَلَأئِکَتِه وَکُتُبِه وَرُسُلِه )

یعنی رسول اللہ اور سب اہل ایمان اللہ، اس کے فرشتوں،اس کی کتابوں اور اس کے رسالوں پر ایمان لائے ہیں۔

یہاں کتب (کتابوں، بصیغہ جمع) سے مراد وہ ساری کتابیں ہیں جو اللہ نے اتاریں، بشمول قرآن مجید۔ یہاں اللہ رب العزت نے کتب کا لفظ استعال کیا ہے جو جمع کے لئے ہے یعنی بہت ساری کتابیں، لیکن ایک دوسری جگہ پہلی تمام کتابوں کے لئے ” الکتاب“ کا لفظ (بصیغہ واحد) استعمال کیا گیا ہے۔ سورة مائدہ کی آیت ۴۸میں جہاں قرآن مجید کا تعارف کرایا گیا ہے وہاں فرمایا

( مُصَدِّقًالِّمٰا بَیْنَ یَدَیْهِ مِنَ الْکِتَابِ وَمُهَیْمِنًا عَلَیْهِ )

کہ قرآن اپنے سے پہلے آنے والی ” الکتاب“ کی تصدیق کرتا ہے اور اس کا محافظ اور اس پر حاوی ہے۔

یہاں بھی دونوں صیغے مفرد کے ہیں۔ اگرچہ کتابیں جن کی طرف اشارہ مقصود ہے بہت سی ہیں، لیکن الکتاب کا لفظ اور علیہ کی ضمیر دونوں صیغہ واحد میں استعمال ہوئے ہیں۔ حالانکہ خود قرآن نے بہت سی کتابوں کا ذکر کیا ہے جن کی تعداد جیسا کہ ہم نے دیکھا سینکٹروں میں ہے۔ پھر الکتاب اور علیہ دونوں کے لئے صیغہ مفرد کیوں استعمال کیا گیا۔ اس میں کیا حکمت پوشیدہ ہے۔ یہ ایک سوال ہے کہ قرآن کو بھی الکتاب کہا گیا اور پچھلی ساری کتابوں کو بھی مجموعی طور پر الکتاب کہا گیا؟آخر کیوں؟ اس کا جواب یہ ہے کہ ان دونوں میں کوئی تعارض نہیں ہے اور یہ دونوں اپنی اپنی جگہ صیغہ جمع میں الکتب کا لفظ ہو یا صیغہ واحد میں الکتاب کا لفظ ہو درست ہیں۔

۳۲

ان میں نہ کوئی تعارض ہے نہ کوئی تضاد، بلکہ اس اسلوب بیان سے ایک چیز کے دو پہلوؤں کی طرف توجہ دلانا مقصود ہے۔ اللہ رب العزت جو خالق کائنات ہے اس کا ارشاد ہے کہ( مَا يُبَدَّلُ الْقَوْلُ لَدَيَّ ) (میرے ہاں بات بدلتی نہیں ہے)جو بات اس نے پہلے دن کہہ دی تھی وہی بات اس نے بعد میں بھی کہی۔ جو تعلیم اس نے حضرت موسیٰ کو دی تھی وہی تعلیم حضرت عیسیٰ کو بھی دی، اور جو تعلیم حضرت عیسٰی کو دی وہی ہمارے نبی کو بھی دی۔ لہذااللہ کی تعلیم میں کبھی کوئی فرق نہیں ہوسکتا۔ اس نے پہلے دن بھی توحید کی تعلیم دی تھی، رسالت پر ایمان لانے کو ضروری قرار دیا تھااور آخرت پر ایمان کا سبق دیا تھا،مکارم اخلاق کی اور برے کردار سے بچنے کی تعلیم پہلے بھی دی تھی اور انہی چیزوں کی تعلیم آج بھی دی۔ تفصیلات میں جو فرق نظر آتا ہے وہ لوگوں کے اپنے حالات بدلنے کی وجہ سے ہے۔ جو ں جوں انسانی تمدن نے ترقی کی اسی لحاظ سے تعلیم کی تفصیلات میں اضافہ ہوتا رہا۔ لیکن دین کی جو بنیادی تعلیم روز اول تھی وہ ہر زمانے میں ایک ہی رہی ہے۔ اس اعتبار سے اللہ نے جتنی کتابیں اتاریں ان سب کو آپ ایک کتاب کہہ سکتے ہیں۔ اس اعتبار سے کہ ان کا مصنف ایک، ان کا بنیادی پیغام ایک، ان کا مقصد ایک، کہ لوگ اچھے انسان بن جائیں، آخرت میں ان کو فلاح حاصل ہو اور وہ جہنم سے نجات پاکر جنت میں داخل ہو جائیں۔ یہی مقصد وحید تھا ان سب کتابوں کے اتارے جانے کا۔ ان میں سے ہر کتاب کا سبق یہ تھا کہ انسان اللہ سے اپنا تعلق جوڑے، ایمان اختیار کرے، تقویٰ کا رویہ اپنائے، اور اعمال صالحہ پر کاربند ہو۔ اس اعتبار سے ان سب کتابوں کو ” ایک کتاب“ کہا جا سکتا ہے۔

اس کی مثال یوں سمجھئے کہ مثلاً ایک مصنف آج اردو میں ایک کتاب لکھتا ہے جس میں وہ یہ بتاتا ہے کہ پاکستان کے باشندے اچھے انسان کس طرح بنیں، اچھا اخلاق ان میں کیسے آجائے، کردار کی تعمیر کیسے ہو، وغیرہ وغیرہ۔ اس کتاب میں دلائل دیئے جاتے ہیں، مثالیں دی جاتی ہیں اور تعمیر کردار کا پیغام دیا جاتا ہے۔ فرض کیجئے وہ کتاب بہت مقبول ہوتی ہے۔ یہاں تک کہ بیرون ملک مثلاً بنگلہ دیش کے مسلمان مطالبہ کرتے ہیں کہ اس کا ایک ایڈیشن ان کے لئے بھی تیار کر دیا جائے۔

۳۳

اب یہ مصنف جو اتفاق سے بنگالی زبان بھی جانتا ہے اس کتاب کے مضامین کو بنگالی زبان میں بھی شائع کراتا ہے۔ لیکن بنگالی ایڈیشن میں وہ مصنف ان مقامی حوالوں اور مثالوں کو بدل دیتا ہے جن کا تعلق صرف پاکستانی معاشرہ سے تھا، اور پاکستانی لوگ ہی ان مثالوں کو سمجھ سکتے ہیں مثلاً پاکستانی ایڈیشن میں کسی سیاق وسباق میں تربیلہ ڈیم کا ذکر ہو سکتا ہے، لیکن بنگالی ایڈیشن میں اس سیاق وسباق میں تربیلہ ڈیم کے بجائے فرخاڈیم کا حوالہ لکھا جاتا ہے، جس سے وہ لوگ نسبتاً زیادہ مانوس ہیں۔ یہاں بلوچستان کے حوالے سے اگر اونٹوں کا ذکر ہے تو بنگالی ایڈیشن میں کشتیوں کی مثال دی جائے گی۔ اسی طرح یہاں کی مشہور شخصیتوں کے حوالوں کی جگہ بنگلہ دیش کی شخصیتوں کا حوالہ دیا جائے گا جسے وہ لوگ بہ آسانی سمجھ سکتے ہیں۔

اسی طرح اب یہ کتاب ترکی کے لوگوں کے علم میں آئی اور انہوں نے مطالبہ کیا کہ اس کا ایک ایڈیشن ان کیلئے بھی شائع کر دیا جائے، اب اس مصنف نے ترکی کے حوالے، شخصیتیں اور مقامات کا ذکر کرکے وہ کتاب ترکی کے لئے تیار کر دی۔ اب دیکھاجائے تو کتاب کا بنیادی پیغام کہ انسانوں کو کس طرح بہتر انسان بنایا جائے وہ تو ایک ہی ہے، خواہ وہ پاکستانی ہوں، بنگالی ہوں، یا ترکی ہوں۔ بنیادی اخلاقی تعلیمات سب کے لئے ایک ہی ہیں۔ صرف مثالیں، حوالے وغیرہ مختلف ہیں۔ اب چونکہ مصنف بھی ایک ہی ہے، کتاب بھی ایک ہی ہے، پیغام بھی ایک ہے، اس لئے کہا جاسکتا ہے کہ اس مصنف نے ایک کتاب لکھی۔ اور یہ بھی کہا جا سکتا ہے کہ اس نے تین کتابیں لکھی ہیں اس لئے کہ وہ تین مختلف علاقوں اور تین مختلف زبانوں میں لکھی گئیں۔

قریب قریب یہی معاملہ بلا تشبیہ کتب سماویہ کا بھی سمجھنا چاہیے۔ اس اعتبار سے قرآن مجید نے ان ساری کتابوں کو کتابیں بھی قرار دیا، اور ایک الکتاب بھی قرار دیا ہے۔ الکتاب وہ سب اس اعتبار سے ہیں کہ ان کا بھیجنے والا ایک، ان کا پہنچانے والا ایک، ان کا بنیادی پیغام ایک، ان کا مقصد ایک، اور ان سے بالآخر جو نتیجہ نکلنے والا ہے وہ ایک، اسی طرح ان کو الگ الگ کتابیں بھی قرار دیا گیا، اس اعتبار سے کہ وہ مختلف انبیاء پر اتاری گئیں، مختلف زبانوں میں ان کو اتارا گیا، مختلف علاقوں میں ان کو اتارا گیا، مختلف اوقات میں ان کو اتارا گیا، ان اسباب کی بنیاد پر ان کو جداگانہ کتابیں بھی کہا جا سکتا ہے۔

۳۴

اب آپ دیکھئے کہ قران مجید یہاں جب اپنے آپ کو الکتاب کہتا ہے تو وہ گویا دو باتیں کہتا ہے۔ ایک تو وہ اپنی ایک بنیادی صفت کا تذکرہ کرتا ہے کہ اس وقت یہ اسی طرح کی الکتاب (دی بک) ہے جس طرح ایک زمانہ میں تورات الکتاب تھی یا انجیل الکتاب تھی۔ یعنی اللہ کی مرضی کی واحد ترجمان اور اس کے قانون اور نظام کا واحد اور قطعی ماخذ۔ دوسری بات جو اس پہلی بات سے آپ نکلتی ہے وہ یہ ہے کہ اب رہتی دنیا تک کے لئے یہی الکتاب ہے۔ اس لیے کہ اس کو لانے والا خاتم الانبیاء ہے اور جس امت پر یہ اتاری گئی و ہ خاتم الامم ہے،لہذا لا محالہ اس کو بھی خاتم الکتب ہونا چاہیے۔

دوسری جگہ جہاں الکتب (کتابوں) کا ذکرکرتا ہے وہاں ایک تو اشارہ پچھلی کتابوں کی طرف ہے، قرآن ان سب کی تصدیق کرتا ہے کہ ان کا سارا پیغام درست تھا۔ اس لیے کہ ہم ہی نے ان کو بھی اتار ا تھا، ہم اس پہلی بات کی آج تصدیق کرتے ہیں اور کنفرم کرتے ہیں کہ وہ صحیح بات تھی اورآج بھی وہی بات کہتے ہیں جو پہلے کہی تھی۔ گویا مصنف خود یہ کہہ رہا ہے۔ اس آیت مبارکہ میں اگلی صفت یہ بتائی کہ قرآن ان کتابوں کی تصدیق کے ساتھ ساتھ مہیمنا علیہ بھی ہے، یعنی یہ اس سابقہ کتاب(یا کتابوں) پر اس طرح حاوی ہے کہ اس کے جو بنیادی عناصر ہیں یہ ان سب کو اپنے اندر سموئے ہوئے ہے اور گویا اپنے احاطے میں لیے ہوئے ہے۔

عربی زبان میں بڑے جامع قسم کے الفاظ پائے جاتے ہیں جو مفہوم کو اس طرح اداکرتے ہیں کہ اور کسی زبان میں وہ مفہوم اس جامعیت کے ساتھاادا نہیں ہوتا۔ ”مہیمن“ کہتے ہیں اس طرح حاوی ہو جانے کو جس طرح وہ مرغی کہ جب کوئی چیل یا کوا اس کے بچوں پر جھپٹنے لگے تو وہ پر پھیلا کر اپنے سارے بچوں کو اپنے پروں کے نیچے سمیٹ کر ایسے بیٹھ جاتی ہے کہ کوئی بچہ اس کا باہر نہیں رہتا، اور یوں وہ اپنے سب چوزوں کو اپنی حفاظت میں لے لیتی ہے۔ اس کیفیت کو ”مہیمن“ کے لفظ سے ادا کرتے ہیں۔ اللہ تعالیٰ کی صفت بھی قرآن میں ”مہیمن“ آتی ہے۔ یعنی اللہ تعالیٰ پوری کائنات کو اس طرح اپنے قبضہ اور حفاظت میں لیے ہوئے ہے کہ کوئی قوت ایسی نہیں ہے کہ اس کی کائنات میں دخل اندازی کر سکے یا خالق کائنات کے کام میں مداخلت کر سکے۔

۳۵

قرآن پاک کیلئے بھی یہی لفظ استعمال ہوا ہے، جس کا صاف مفہوم یہ ہے کہ قرآن پاک پچھلی آسمانی کتابوں میں دی گئی تعلیمات کا اس طرح محافظ ہے اور ان کے عطر اور جوہر کو اس نے اس طرح اپنے قبضے میں لیا ہوا ہے کہ کوئی اس میں دخل اندازی کرکے اس کو مٹا نہیں سکتا۔

لوگوں نے تورات کو مٹا دیا، انجیل کو مٹا دیا، دیگر کتابوں میں ملاوٹیں کر دیں۔ لیکن تورات میں کیا تھا آج ہمیں معلوم ہے، اس لیے کہ حضرت موسیٰ نے جو کچھ کہا وہ قرآن میں لکھا ہوا ہے۔ زبور میں جو پیغام دیا گیا تھا وہ قرآن میں لکھا ہوا ہے کہ حضرت داؤد کی تعلیم کیا تھی اور چونکہ قرآن میں لکھا ہوا ہے کہ حضرت داؤد کی تعلیم کیا تھی اور چونکہ قرآن مجید محفوظ ہے لہذا ساری کتابوں کی بنیادی تعلیم بھی محفوظ ہے اور یوں ہر نبی نے جو تعلیم دی وہ قرآن میں محفوظ کر دی گئی ہے۔

قرآن میں یہ جو باربار کہا گیا کہ فلاں نبی کا ذکر کرو، فلاں نبی کا ذکر کرو، یہ اس لیے نہیں ہے کہ بلاوجہ قصے سنانے مقصود ہیں۔ بلکہ یہ ذہن نشین کرانا مقصود ہے کہ ہر علاقہ میں، ہر زمانہ میں، ہر نبی نے یہی بنیادی تعلیم دی ہے کہ اللہ ایک ہے اور وہی عبادت کے لائق ہے۔ اسی طرح آخرت، رسالت اور مکارم اخلاق کے متعلق ایک جیسی تعلیم دی گئی۔ اس لیے الکتاب کا لفظ قرآن پاک کے لئے بھی استعمال ہوا اور پہلی تمام آسمانی کتابوں کے لئے بھی استعمال ہوا ہے۔ جس میں یہ بتا یا گیا ہے کہ یہ کتاب وہ واحد کتا ب ہے جو پچھلی تمام آسمانی کتابوں کے خلاصہ کی حیثیت رکھتی ہے۔ اب ان پرانی کتابوں کی ہمیں کوئی ضرورت باقی نہیں رہی۔ جو کچھ ہے وہ اب اس کتاب میں موجود ہے اور ہمیشہ ہمیشہ کے لئے اب یہی واحد کتاب ہے جو ان ساری کتابوں کی قائم مقام کی حیثیت رکھتی ہے۔ اب ان کتابوں کے صرف نام اور حقیقت پر ہم ایمان رکھتے ہیں کہ جب وہ اتاری گئی تھیں،تو وہ صحیح تھیں، اور جس زمانے کے لئے وہ اتاری تھیں اس وقت تک کے لئے صحیح تھیں۔ ان سب کی تعلیم اور خلاصہ کے طور پر اب اس کتاب یعنی قرآن مجید میں موجود ہے۔ یہ ہے مفہوم الکتاب کا جو قرآن پاک کے نام کے طورپر کئی مقام پر آیا ہے۔

۳۶

اس کتاب کا تیسرا اہم اور معنی خیز نام الفرقان ہے۔ سورة فرقان کا آغاز ہی اس اعلان سے ہوتا ہے کہ وہ ذات انتہائی بابرکت ہے جس نے اپنے بندے پر الفرقان نازل فرمائی۔ عربی زبان میں فرقان مصدر کا وزن ہے اور عربیت کے قاعدہ سے اگر مصدر کے وزن کو کسی صفت کے مفہوم میں استعمال کیا جائے تو اس میں دوام اور تسلسل کا مفہوم پیدا ہو جاتا ہے۔ لغوی اعتبار سے فارق اور فاروق سے مراد وہ چیز یا وہ فرد ہے جو کوئی سی دو چیزوں کے درمیان فرق کرتا ہو۔ فاروق میں مبالغہ کا مفہوم بھی موجود ہے اور اصطلاحاً فاروق سے مراد وہ ہستی یا شخصیت ہے جو حق وباطل کے درمیان فرق کردے۔ جو جھوٹے اور سچے کو الگ الگ کر دے، جو کھرے اور کھوٹے کو جداجدا کر دے۔ فرقا ن کا بھی یہی مفہوم ہے۔ لیکن اس میں مبالغہ کے ساتھ ساتھ دوام اور تسلسل کا مفہوم بھی پایا جاتا ہے۔ لہذا فرقان کے معنی ہیں وہ چیز جو حق وباطل میں دائمی طورپر تمیز کر سکے اور کھرے کھوٹے کو الگ الگ کرکے یہ بتا سکے کہ صحیح کیا ہے اور غلط کیا ہے۔ گویا فرقان سے مراد وہ دائمی کسوٹی ہے جو پرکھ کر یہ بتا سکے کہ سونا کھرا ہے کہ کھوٹا۔

قرآن مجید نہ صرف فرقان ہے بلکہ ”الفرقان“ ہے، یعنی وہ واحد اور مخصوص کسوٹی جو اب ہمیشہ ہمیشہ کے لئے ہے۔ الفرقان کے آجانے کے بعد اب کسی فارق یا کسی اور فرقان کی ضرورت نہیں رہی۔ اب ہمیشہ ہمیشہ کے لئے حق وباطل کی واحد کسوٹی یہی الفرقان ہے۔ اب یہی الفرقان وہ ”المیزان“ ہے جس پر تول کر دیکھا جائے گا کہ کون اس پر پورا اترتا ہے اور کون ہلکا ثابت ہوتا ہے۔ اب جو کچھ اس دائمی کسوٹی کی پرکھ پر پورا اترتا ہے وہ صحیح اور قابل قبول ہے، اور جو پورا نہیں اترتا وہ غلط اور ناقابل قبول ہے۔ یہ ایک فولادی چوکھٹا ہے جس سے کسی بھی چیز کا صحیح اور مکمل ہونا جانچا جائے گا، جو جتنا پورا ہے اتنا مکمل ہے، اور جو جتنا جھوٹا ہے اتنا کھوٹا ہے۔ یہ سارے مفاہیم الفرقان کے لفظ میں شامل ہیں۔

۳۷

اس کتاب کا چوتھا نام” الذکر“ ہے۔ ذکرکے معنی یاددہانی کے ہیں۔ قرآن پاک میں کئی آیات میں قرآن مجید کو” الذکر“کے لفظ سے یاد کیا گیا ہے۔ سورة حجر کی آیت ۹میں جہاں قرآن پاک کی حفاظت کا ذکر ہے وہاں الذکر ہی کا نام استعمال فرمایا گیا ہے۔ ارشاد ہوتا ہے:

( إِنَّا نَحْنُ نَزَّلْنَا الذِّكْرَ وَإِنَّا لَهُ لَحَافِظُونَ )

کہ ہم نے ہی اس ذکر کو نازل کیا ہے اور ہم ہی اس کی حفاظت کرنے والے ہیں۔

یاد دہانی کالفظ اپنے اندر بڑی معنویت رکھتا ہے۔ اگر آپ پہلی مرتبہ کسی کو کوئی خط لکھیں یا پہلی مرتبہ کسی سے کوئی سوال، مطالبہ یا درخواست کریں تو آپ اس کو یاددہانی کے لفظ سے تعبیر نہیں کرتے۔ یاددہانی اس صورت میں ہوتی ہے جب آپ وہ بات پہلے کہہ چکے ہوں۔ کوئی بات، تحریر یا خط اگر ایک بار بھیجا جا چکا ہو اور اس پر عمل نہ ہوا ہو، یا اس کو غلط سمجھا گیا ہو یا اس میں کسی نے ردوبدل کر دی ہو یا وہ سابقہ تحریر سرے سے گم ہو گئی ہو تو پھر یاد دہانی کی ضرورت پیش آتی ہے۔

قرآن مجیداس اعتبار سے ایک یا ددہانی کی حیثیت رکھتا ہے کہ وہ پچھلی تمام کتابوں کی آخری، حتمی، قطعی اور مکمل یاد دہانی ہے۔ قرآن مجید چونکہ دوسری تمام آسمانی کتابوں کی تصدیق کرتا ہے اور قرآنی وحی کو سابقہ کتابوں کی وحی کا ہی

تسلسل قرار دیتا ہے اس لیے اس کی نوعیت دین کی بنیادی تعلیمات کے لئے ایک یاددہانی ہی کی ہونی چاہیے۔

پہلے کہا جا چکا ہے کہ قرآن مجید پچھلی تمام آسمانی کتابوں کے بنیادی اور اساسی پیغام پر حاوی ہے۔ قرآن کا یہ حاوی ہونا خود ایک مسلسل یاد دہانی کی حیثیت رکھتا ہے۔

۳۸

ذکر کے معنی یاد دہانی کے علاوہ کسی چیز کو زبانی یاد کرنے کے بھی آتے ہیں۔ قرآن مجید اس اعتبار سے بھی ”الذکر“ ہے کہ دیگر آسمانی کتابوں کے برعکس یہ واحد کتاب ہے جس کو حفاظت کی خاطر کروڑوں انسانوں نے کاغذی سفینوں کے ساتھ ساتھ سینوں میں بھی محفوظ رکھا۔ قرآن مجید کے علاوہ دنیا کی تاریخ میں کوئی اور ایسی کتاب نہیں ہے جس کو اس محبت، عقیدت، احترام، اہتمام اور انتظام سے لاکھوں اور کروڑوں انسانوں نے اپنے سینوں میں محفوظ کیا ہو۔ اس مفہوم کے اعتبار سے بھی اگر کسی کتاب پر” الذکر“ کالقب صادق آسکتا ہے تو وہ یہی کتاب حکیم ہے۔

یہ چار تو وہ نام ہیں جو قرآن میں جا بجا آئے ہیں اور اس کتاب کے مختلف پہلوؤں کا احاطہ کرتے ہیں۔ اس کے علاوہ بہت سے صفاتی نام بھی ہیں جو وقتاً فوقتاً قرآن پاک میں استعمال ہوئے ہیں اور اس کتاب کی مختلف حیثیتوں کو اور مختلف صفتوں کو اجاگر کرتے ہیں۔ جن کا اندازہ سینکٹروں میں ہے۔ یہ ساری قرآن کی صفتیں ہیں یعنی یہ وہ کتاب ہے جو سراپا حکمت ودانائی ہے، جو عظیم الشان ہے، جو بزرگی اور برتری والی ہے۔ اس طرح دیگر صفات قرآن مجید کی مختلف حیثیتوں اور اوصاف کو بیان کرتی ہیں۔

۳۹

زبان قرآن کی شناخت

آیت اللہ محمد ہادی معرفت

قرآن میں قول

لغت میں ”قول“ وہ بات اور گفتار ہے جو ظاھراً تلفظ ہو یعنی زبان پر جاری ہونے والے کچھ الفاظ جیسےقَالَ، تکلّم، نَطَقَ ”لسان العرب“ میں ہے :

القول:الکلام علیٰ الترتیب، وهوعند المحققین کلُّ لفظٍ قال به اللسان تاما کان او ناقصا

قول ترتیب (تالیف)شدہ کلام ہے اور محققین کے نزدیک زبان سے جاری ہونے والا ہر وہ لفظ ہے جو چاہے مکمل(مفید)ہو یا نامکمل (غیر مفید)سیبویہ کہتا ہے :

بسا اوقات اعتقاد اور رائے کو ”قول“کہاجاتا ہے جب کہ وہ مجازی مفہوم ہے اس لیے کہ عقائد اور رائے میں مخفی امر یا قول کی جگہ لینے والی چیز کو قول و لفظ کے ذریعے سے ہی معلوم کیا جاتا ہے، گویا وہ مخفی رائے اور عقیدہ قول کا سبب ہے اور قول اس کی دلیل چنانچہ یہی تعلق (سبب ہونا اور مدلول پر دلالت کا سبب بننا)ہی عقیدے اور رائے پر قول کے اطلاق کا موجب بنتا ہے۔

اگر کہا جائے کہ جس طرح قول کو عقیدہ سے” کنایة“ اخذ کیا گیا ہے اسی طرح کلام کو بھی عقیدے کی علامت قرار دیا جاتا مگر کبھی بھی کلام کو قول کی جگہ عقیدے اور رائے کے مفہوم میں استعمال نہیں کیا گیا آخر کیوں؟

۴۰

توجواباًکہاجائے گاکہ اس بنا پرہے کہ قول کلام کی نسبت عقیدے سے زیادہ نزدیک ہے اس لیے کہ اس ناقص اورغیرمستقل کلام پربھی ”قول“کااطلاق ہوتاہے جومفید(کلام)ہونے کیلئے اپنے تکملہ کا محتاج ہوتا ہے جیسے وہ جملے ہیں جو اپنے بقیہ(جملوں)کے محتاج ہوتے ہیں لیکن پھر بھی ان پر قول کا اطلاق درست ہے جبکہ ان پر کلام کا اطلاق صحیح نہیں اسی طرح عقیدہ وہ ہے جو کہ اپنی افادیت ظاہر کرنے کے لیے اس عبارت اور الفاظ کا محتاج ہوتا ہے جو اسے نمایاں کر سکیں۔

مختصر یہ کہ قول میں اظہار عقیدہ کا پہلو ہوتا ہے جو کہ عقیدے اور رائے کی جگہ بروئے کار لایا جاسکتا ہے اور محض تلفظ،نطق اور سخن کا مفہوم نہیں لیکن کلام صرف اور صرف سخن (گفتگو)ہے یہی وجہ ہے کہ”قول“غیر انسان کے لیے بھی استعمال ہو سکتاہے جیساکہ شاعر نے کہا ہے۔

قالت له الطیّرتقدم راشداً

انَّک لا ترجع الّٰا حامداً

ایک اور شاعر نے کہا:

قالت له العینان سمعاً وطاعة

وحدرتا کالدر لما یثقب

ایک اورقول ہے:

اِمتَلَاَءَ الحَوضَ وقال قَطنی

مذکورہ بالا ان تمام مثالوں میں زبان حال مراد لی گئی ہے نہ کہ زبان مقال۔

۴۱

راغب اصفہانی کہتا ہے اگرچہ”قول“ کو کئی طرح سے بروئے کار لایاجاتا ہے تاہم ان میں سے نمایاں ترین قول وہ لفظ ہے جو حروف کا مرکب ہو اور نطق کے ذریعے انجام پائے چاہے وہ مفرد ہو یاجملے کی صورت میں ہو(دیگر مواقع جہاں قول کو بروئے کار لایا جاتا ہے درج ذیل ہیں)

۲ لفظوں میں اظہار سے قبل ذہن میں متصور (قول)

جیسا کہ اس آیت میں ہے کہ

( وَیَقُوْلُوْنَ فِیْ اَنْفُسِهِمْ لَوْلَا یُعَذِّ بُنَا اللّٰهُ ) (سورہ مجادلہ آیت۸)

”اور وہ اپنے دلوں میں کہتے ہیں کہ اگر وہ واقعی رسول ہے تو پھر اللہ ہمیں سزا کیوں نہیں دیتا“

یہاں لوگوں نے اپنے دلوں میں جو گمان رکھا اس کے تصور کو قول کا نام دیا گیا ہے

۳ صرَفِ اعتقاد: چنانچہ کہا جاتا ہے کہ فلان شخص نے حضرت ابو حنیفہ کے قول کو اپنا یا یعنی ان کی رائے کو پسند کر کے ان کا ہم عقیدہ بن گیا ہے

۴ مطلق دلالت: مطلق دلالت کو بھی قول کہتے ہیں جیسا کہ شاعر نے کہا ہے کہ:

امتلاء الحوض وقال قطنی

یعنی حوض بھرا ہے جو اس امر پر دلالت کرتا ہے کہ یہ میرے لیے کافی ہے

۴۲

۵ کسی ایسی چیز سے لگاو جو راسخ عقیدے تک پہنچا دےجیسے یہ کہا جائے کہ فلان شخص اس طرح کے قول کا حامل ہے یا جیسے” فلان یقول کذا“ یعنی فلان شخص یوں کہتا ہے اس لیے کہ یہ انقصاص ہی اسے اس قول تک پہنچاتا ہے۔

۶ اہل میزان علمائے منطق کی اصطلاح بھی قول کہلاتی ہے جیسے قول جوھر،قول عرض ہے جنہیں مقولات یعنی موضوعات میں شمار کیا جاتا ہے۔

۷ قول الہام کے معنوں میں بھی آیا ہے جیسے اس آیت میں آیا ہے کہ:

( قُلْنَا يَا ذَا الْقَرْنَيْنِ إِمَّا أَن تُعَذِّبَ وَإِمَّا أَن تَتَّخِذَ فِيهِمْ حُسْنًا )

(سورہ کہف :آیت۸۶)

ہم نے کہا اے ذوالقرنین تمہیں اختیار ہے چاہے انہیں سزا دو اور چاہے ان سے حسن سلوک اختیار کرو۔

اس لیے کہ یہ گفتگو خطاب کی صورت میں نہیں بلکہ الہام اور القائے باطنی تھااسی طرح یہ آیت ہے کہ

( ذٰلِکَ عِیْسَی ابْنَ مَرْیَمَ قَوْلَ الْحَقِّ الَّذِیْ فِیْهِ یَمْتَرُوْنَ ) (سورہ مریم:آیت۳۴)

یہ ہے مریم کے بیٹے عیسٰی کا سچا قصہ جس میں یہ لوگ خواہ مخواہ شک کرتے ہیں۔

اس آیت میں عیسیٰ(۴)کو قول حق کا نام دیا گیا ہے اسی طرح ایک اور آیت میں انہیں کلمہ سے تعبیر کیا گیا

( کَلِمَتُه اَلْقٰهَآ اِلٰی مَرْیَمَ ) (سورہ نساء:آیت۱۷۱)

۴۳

یہ اشارہ ہے اس آیت کی طرف کہ

( اِنَ مَثَلَ عِیْسَی عِنْدَ اللّٰهِ کَمَثَلِ اٰدَمَ خَلَقَه مِنْ تُرَابٍ ثُمَّ قَالَ لَه کُنْ فَیَکُوْنَ ) (سورہ آل عمران :آیت۵۹)

قرآن میں بھی ”قول“ کی اصطلاح کا غیر انسانوں کے لیے استعمال ہوا ہے قطع نظر اس امر کے کہ انہیں مخاطب قرار دیا گیا ہے یا ان سے قول کو نقل کیا گیا ہے۔

( ثُمَّ اسْتَوٰی اِلَی السَّمَآءِ وَهِیَ دُخَانٌ فَقَالَ لَهَا وَلِلْاَرْضِ ائْتِیَاطَوْعًا اَوْکَرْهًا قَالَتَآ اَتَیْنَا طَآئِعِیْنَ ) (سورہ فصّلت:آیت ۱۱)

پھر اس نے آسمان کی طرف قصد کیا درآنحا لیکہ وہ دھواں تھا پس اس نے اس سے اور زمین سے کہا کہ تم دونوں معرض وجود میں آؤ خوشی یا کراہت سے۔ دونوں نے کہا ہم اپنی خوشی سے بات ماننے والے ہو کر آئے ہیں۔

یہاں زمین و آسمان سے کہنے اور زمین و آسمان کے کہنے سے کیا مراد ہے ؟

علامہ طباطبائی قدس سرّہ نے لکھا ہے کہ یہاں وہی مقصود ہے جو سورہ بقرہ کی آیت ۱۱۷ میں بیان ہوا کہ

( بَدِیْعُ السَّمٰوٰاتِ وَالْاِرْضِ وِاِذَا قَضٰی اَمْرًا فَاِنَّمَا یَقُوْلُ لَه کُنْ فَیَکُوْنُ )

وہ آسمانوں اور زمین کا پیدا کرنے والا ہے وہ جب کسی کام کے کرنے کا طے کر لیتا ہے تو وہ صرف کن(ہوجا)فرماد یتا ہے اور وہ(کام)ہو جاتا ہے۔

۴۴

اسی طرح سورہ یٰسیں کی آیت ۸۲ میں ارشاد ہوا ہے کہ:

( اِنَّمَا اَمْرُه اِذَآ اَرَادَ شَیْئًا اَنْ یَّقُوْلَ لَه کُنْ فَیَکُوْنُ )

بتحقیق اس کا امر یہ ہے کہ جب وہ کسی چیز کا ارادہ کرتا ہے کہ اس کے لیے کن ہو جا فرما دیتا ہے اور وہ کام ہوجاتا ہے۔

ان دونوں آیات کریمہ میں باطنی ارادے اور خواہش کے اظہار کو بطور کنایہ قول سے تعبیر کیا گیا ہے چاہے وہ جس طرح سے بھی ہو لہذا قول(کہنا)لفظ سے نہیںیہاں کسی قسم کی گفتگو (طرفین میں)نہیں تھی سوائے اس کے کہ یہ گفتگو باطنی ارادہ و خواہش کے اظہار اور بیان کرنے والی ہے اس لیے ہر وہ گفتگو جو ارادے اور خواہش کے اظہار کا باعث بنے اسے قول کہا جاتا ہے اس کا لازمہ وہ مقصود ہوتا ہے جس سے اظہار مراد ہو۔

( یَوْمَ نَقُوْلُ لِجَهَنَّمَ هَلِ امْتَلَاْتِ وَتَقُوْلُ هَلْ مِنْ مَّزِیْدٍ ) (سورہ ق:آیت۳۰)

اس دن جب ہم دوزخ سے کہیں گے کیا تو بھر چکی ہے اور وہ کہے گی کیا کچھ اور بھی ہے ؟

یہاں بھی سخن وگفتار کا کوئی وجود نہیں بلکہ جو کہا گیا وہ زبان حال ہے دوزخ میں موجود گنجائش کے اندازہ کی طرف اشارہ ہے۔ جس قدر بھی اس میں ڈالا جائے گا اس میں اضافہ نہیں ہو گا اور یہ قول ان لوگوں کے رد میں ہے جو یہ کہتے ہیں کہ کیا جہنم میں اتنی گنجائش ہے کہ یہ سارے کفار اس میں ڈالے جا سکیں

( وَقِیْلَ یٰاَرْضُ ابْلَعِیْ مَآءَ کِ وَیٰسَمَآءُ اَقْلِعِیْ وَغِیْضَ الْمَآءُ وَقُضِیَ الْاَمْرُ وَاسْتَوَتْ عَلَی الْجُوْدِیِّ وَقِیْلَ بُعْدًا لِّلْقُوْمِ الظّٰلِمِیْنَ ) (سورہ ھود:آیت۴۴)

”اور کہا گیا اے زمین اپنے پانی کو نگل جا اور اے آسمان تو تھم جا اور پانی زمین میں جذب ہو گیا اور معاملے کا فیصلہ کردیا گیا اور کشتی کوہ جودی پر ٹھہر گئی اور کہہ دیا گیا کہ ظالموں کی قوم کے لیے ہلاکت ہو۔"

۴۵

اس قول میں خدا کے ارادے اور خواہش کا اظہار کیا گیا ہے۔

اسی طرح یہ آیت ہے کہ:

( قُلْنَا یٰنَارُ کُوْنِیْ بَرْدًا وَّسَلٰمًا عَلیٰ اِبْرٰهِیْمَ ) (سورہ الانبیاء:آیت۶۹)

یہاں بھی صرف اور صرف ارادہ پروردگار کا اظہار ہے چنانچہ اس آیت کا مفہوم اس طرح ہے کہ ہم نے چاہا کہ آگ ٹھنڈی رہے اور سلامتی کا باعث رہے چنانچہ ایساہی ہوا یہاں لفظ ”کونی“(ہو کر رہے) کو بروئے کا رنہیں لایا گیا

اسی طرح

( اَلَمْ تَرَ اِلَی الَّذِیْنَ خَرَجُوْا مِنْ دِیَارِهِمْ وَهُمْ اُلُوْفٌ حَذَرَالْمَوْتِ فَقَالَ لَهُمُ اللّٰهُ مُوْتُوْا ثُمَّ اَحْیَاهُمْ ) (سورہ بقرہ :آیت۲۴۳)

”کیا تم نے ان کو نہیں دیکھا جو موت کے ڈر سے اپنے گھروں سے نکلتے تھے اور وہ کئی ہزار تھے بس اللہ تعالیٰ نے ان کو فرمایا کہ مر جاو پھر انہیں زندہ کیا گیا۔"

اس آیت میں بھی قول صرف ان کی موت سے متعلق ارادہ پروردگار سے عبارت ہے اور

( قال لهم موتوا )

ان سے کہا مر جاو۔

۴۶

اور( واحیاهم ) (اور انہیں دوبارہ زند ہ کیا )کے درمیان کو ئی فرق نہیں یعنی ایسانہیں کہ

( اما تهم ثم احیاهم )

یعنی پہلے انہیں موت دی پھر زندہ کیا۔

یا پھر یہ کہ

( قال لهم موتوا ثم قال لهم احیوا )

یعنی پہلے انہیں کہا مر جاو پھر کہا کہ زندہ ہو جاو۔

بلکہ ارادہ پروردگار ان کے مرنے کے بعد انہیں زندہ کرنے سے بھی متعلق تھا اور اسی کا اظہار کیا گیا ہے۔

قرآن میں حیوانات کی طرف قول کی نسبت بھی اسی بنیاد پر ہے یعنی باطنی خواہش کا اظہار چاہے وہ کسی بھی ذریعے سے ہواگرچہ کوئی ایسی دلیل موجود نہیں کہ وہ اظہار کسی لفظ یا صدا یعنی موت سے انجام پذیر ہوا ہو

چیونٹی کے بارے میں ارشاد ہوا ہے کہ :

( قَالَتْ نَمْلَةٌ یٰاَیُّهَا النَّمْلُ ادْخُلُوْا مَسٰکِنَکُمْ لاَ یَحْطِمَنَّکُمْ سُلَیْمٰنُ وَجُنُوْدُه وَهُمْ لاَ یَشْعُرُوْنَ ) (سورہ نمل:آیت۱۸)

”ایک چیونٹی نے کہا اے چیونٹیواپنے اپنے بلوں میں گھس جاو ایسانہ ہو کہ سلیمان اور ان کا لشکر تمہیں روند ڈالے اور انہیں خبر بھی نہ ہو۔"

۴۷

ظاہر ہے کہ اس طرح کی گفتگو انسانوں میں ہوتی ہے حیوانات میں بنیادی طور پر ایسی گفتگو نہیں ہوتی بلکہ وہ اپنے پیغامات ہوا کی لہروں سے لیتے اور دیتے ہیں اور ان(حیوانات) سے الفاظ یا آواز وغیرہ ظاہر نہیں ہوتی

یہی صورت حال حضرت سلیمان کے لیے پیغام لانے والے ”ھد ھد“ کے بارے میں ہے چنانچہ یہ ارشاد ہوا کہ:

( فَمَکَثَ غَیْرَ بَعِیْدٍ فَقَالَ اَحَطْتُّ بِمَا لَمْ تُحِطْ بِه وَجِئْتُکَ مِنْ سَبَاٍ بِنَبَاٍ یَّقِیْنٍ اِنِّیْ وَجَدْتُّ امْرَاَةً تَمْلِکُهُمْ وَاُوْتِیَتْ مِنْ کُلِّ شَیِءٍ وَّلَهَا عَرْشٌ عَظِیْمٌ وَجَدْ تُّهَا وَقَوْمَهَا یَسْجُدُوْنَ لِلشَّمْسِ )

(سورہ نمل :آیت۲۲تا ۲۴)

”پھر زیادہ دیر نہ ہوئی کہ وہ آگیا پھر کہنے لگا میں نے ایسی بات معلوم کی جو تمہیں معلوم نہیں اور میں (ملک) سبا سے تمہارے پاس ایک یقینی خبر لایا ہوں میں نے ایک عورت کو پایا جو ان پر حکومت کرتی ہے اور اسے ہر چیز سے حصہ دیا گیا ہے اور اس کے لیے بڑا شاہی تخت ہے اسے اور اس کی قوم کو اللہ تعالیٰ کی بجائے سورج کی پرستش کرتے پایا۔"

کیا یہ کلام بالمشافہ، لفظی یا تکلم کے ذریعے تھا۔ ہرگز ایسا نہیں اس لیے کہ حضرت سلیمان نے خود فرمایا کہ:

( وَوَرِثَ سُلَیْمٰنُ دَاودَ وَقَالَ یٰاَیُّهَا النَّاسُ عُلِّمْنَا مَنْطِقَ الطَّیْرِ وَاُوْتِیْنَا مِنْ کُلِّ شَیْءٍ اِنَّ هٰذَا لَهُوَ الْفَضْلُ الْمُبِیْنُ ) (سورہ نمل:آیت۱۶)

”اور سلیمان داؤد کا وارث ہوا اس نے کہا:اے لوگو ہمیں پرندوں کی بولی سکھلائی گئی ہے اور ہمیں ہر چیز میں سے حصہ دیا گیا اور یقینا یہ کھلم کھلا فضیلت ہے۔"

۴۸

یہ حضرت سلیمان پر اللہ تعالیٰ کی عنایت تھی کہ وہ حضرت داؤد کے وارث قرار پائے اور انہیں پرندوں کی بولی سکھلائی گئی یعنی انہیں اس بات پر قدرت عنایت ہوئی کہ وہ پرندوں کے پیغامات کو جان سکیںایساہر گز نہیں کہ پرندے انسانوں کی طرح باتیں کرتے ہوں۔ لہذا وہ چیز جو کسی کا پیغام یاکسی کی خواہش دوسرے تک پہنچانے کا ذریعہ بنے اسے قول کہا جاتا ہے اور پیغام کا وصول کرنا ویسے ہی ہے جیسے کسی کی گفتگو سننا۔

ملائکہ اور شیاطین سے منسوب قول بھی اسی نوعیت کا ہے جیسے کوئی پیغام بھیجنا یا موصول کرنا ہے اور اس ضمن میں ہر گز یہ خیال نہیں کرنا چا ہیے کہ وہ (قول)انسانوں کے قول کی مانند ہو گا اس لیے کہ یہ قیاس مع الفارق ہے اور یہ امرلازمی ہے کہ مجردات کا مادیات پر قیاس نہ کیا جائے اور حیوانات کے بولنے کو انسانوں کی گفتگو جیسانہ سمجھا جائے۔

انسان کے پاس اپنے باطنی پیغام کو بھیجنے اور وصول کرنے کے مخصوص وسائل ہیں جبکہ دیگر مخلوقات کے پاس بھی اپنے مخصوص وسائل ہیں اس لیے ضروری ہے کہ مخلوقات و موجودات کی مختلف انواع کو جو ایک دوسرے سے الگ الگ ہیں یکساں خیال نہ کیا جائے یہ بہت بڑی غلطی ہے کہ انسان ہر چیز کا اپنی ذات پر ہی قیاس کرے اور سب کو اپنے جیساسمجھے شاید اس طرح کی سوچ کا سرچشمہ خود پسندی اور خود خواہی ہوتی ہے اور آدمی تمام اشیاء کو پرکھنے کا معیار اپنی ذات کو قرار دینے لگتا ہے۔

مثلاً خداوند عالم نے ملائکہ سے جو گفتگو فرمائی ہے اور انہیں پیغام دیا ہے یا ملائکہ نے اللہ کے جواب میں جو کچھ کہا ہے اسے انسان کے کلام سے نہیں سمجھنا چاہیے اور یہی صورتحال ابلیس کے متعلق بھی ہے۔ آپ قرآن کریم کی سورت بقرہ کی آیات ۳۰ تا ۳۴ کا مطالعہ فرمائیے، سورة اعراف کی آیت ۱۱ تا ۱۸ کو دیکھئے نیز سورہ ص آیت ۷۱ تا ۸۴ کو پڑھئے جہاں فرشتوں اور خالق کائنات کے مابین طویل مکالمہ نظر آتا ہے۔

۴۹

اس طرح کے طولانی گفت وشنید کو اگر ہم زبان حال نہ کہیں تب بھی ہمیں یہی کہنا پڑے گا کہ انسانوں جیسی ”زبان مقال“ نہیں ہے اس لیے کہ یہ ایک فاقدالوجہ قیاس ہے(ایک ایسا قیاس جس کا کوئی سبب اور موجب ہی نہ ہو)

خاص طور پر اس جگہ جہاں شیطان نے انسانوں کو مخاطب قرار دیتے ہوئے ان سے جو باتیں کی ہیں وہ انسانی ذہن میں فطوراور وسوسے پیدا کرنے کے علاوہ کچھ بھی نہیں

( کَمَثَلِ الشَّیْطٰنِ اِذْ قَالَ لِلْاِنْسَانِ اکْفُرْ فَلَمَّا کَفَرَ قَالَ اِنِّیْ بَرِیْ ءٌ مِّنْکَ اِنِّیْ اَخَافُ اللّٰهَ رَبَّ الْعٰلَمِیْنَ ) (سورہ حشر:آیت۱۶)

کبھی بھی ابلیس اور انسان کی بالمشافہ بات چیت نہیں ہوئی کہ وہ اسے حکم دے کہ وہ کا فر ہو جائے بلکہ یہ صرف وسوسہ اور باطنی تحریک ہے جو کہ ابلیس کے ذریعے انجام پذیر ہوتی ہے اور جو اس کی زبان حال ہے پھر جب وہ کامیاب ہو جاتا ہے تو انسانوں کا مذاق اڑاتا ہے کہ کس طرح دھوکا کھا کر انہوں نے اس کے بے وقعت وسوسوں کو قبول کر لیا اور اپنی عقل و فطرت کے پیغام توحید کو ذرّہ بھر اہمیت نہ دی۔ قرآن کریم میں قیامت کے دن کے حوالے سے ابلیس کی جو گفتگو نقل ہوئی ہے وہ بھی اسی نوعیت کی ہے۔

( وَقَالَ الشَّیْطٰنُ لَمَّا قُضِیَ الْاَمْرُ اِنَّ اللّٰهَ وَعَدَکُمْ وَعْدَ الْحَقِّ وَ وَعَدْتُّکُمْ فَاَخْلَفْتُکُمْ وَمَاکَانَ لِیَ عَلَیْکُمْ مِّنْ سُلْطٰنٍ اِلآَّ اَنْ دَعَوْتُکُمْ فَاسْتَجَبْتُمْ لِیْ فَلَا تَلُوْمُوْنِیْ وَلُوْمُوْا اَنْفُسَکُمْ مَا اَنَا بِمُصْرِخِکُمْ وَمَآاَنْتُمْ بِمُصْرِخِیَّ اِنِّیْ کَفَرْتُ بِمَآ اَشْرَکْتُمُوْنِ مِنْ قَبْلُ ) (سورہ ابراہیم:آیت۲۲)

”اور جب سب امور کا فیصلہ ہو جائے گا تو شیطان کہے گا یقینا اللہ تعالیٰ نے تم سے سچا وعدہ کہا تھا اور میں نے بھی تم سے وعدہ کیا تھا پھر میں نے تم سے وعدہ خلافی کی اور میرا تم پر کوئی زور نہ تھا سوائے اس کے کہ میں نے تمہیں بلایا اور تم نے میرا کہنا مان لیا پس تم مجھے ملامت نہ کرو بلکہ اپنے آپ کو ہی ملامت کرو نہ میں تمہارا فریاد رس ہوں اور نہ تم میرے فریاد رس ہوجس کا تم نے مجھے شریک بنایا تھا میں تو اس کا پہلے ہی سے منکر تھا۔"

۵۰

یہ گفتگو اپنے استدلال کے ساتھ مکمل طور پر واقعات کے واضح ہونے کی حکایت کرتی ہے اس دن سب پر حقیقت واضح اور آشکار ہو جائے گی کہ انسانوں کے مقابلے میں ابلیس کی حالت اور کیفیت یہ ہو گی کہ وہ انسانوں پر حیرت کا اظہار کرے گا کہ انہوں نے اس کی بے وقعت باتوں کو کس طرح قبول کرلیا جبکہ انسان شیطان کو مورد الزام ٹھہرا رہے ہوں گےدر حقیقت انہیں یقین نہیں تھا مگر پھر بھی ان لوگوں نے بے حقیقت وعدوں پر اعتبار کر کے اپنے دلوں کو خو ش رکھا( بَلِ الْاِنْسَانُ عَلٰی نَفْسِه بَصِیْرَةٌ وَّلَوْ اَلْقٰی مَعَاذِیْرَه ) (سورہ قیامت:آیات۱۳تا۱۴)

بلکہ انسان اپنے نفس کا برا دیکھنے والا ہے اگرچہ وہ اپنے عذر پیش کیا کرے۔

اور اسی طرح جنگ بدر کے موقع پر مشرکین سے یہ گفتگو بھی قرآن کریم میں منقول ہے کہ :

( وَاِذْ زَیَّنَ لَهُمُ الشَّیْطٰنُ اَعْمَالَهُمْ وَقَالَ لَا غَالِبَ لَکُمُ الْیَوْمَ مِنَ النَّاسِ وَاِنِّیْ جَارٌلَّکُمْ فَلَمَّا تَرَآءَ تِ الْفِئَتٰنِ نَکَصَ عَلٰی عَقِبَیْهِ وَقَالَ اِنِّیْ بَرِیءٌ مِّنْکُمْ اِنِیْ اَرٰی مَالَا تَرَوْنَ اِنِّیْ اَخَافُ اللّٰهَ ) (سورہ انفال:آیت۴۸)

”اور جب شیطان نے ان کے اعمال کو ان کے لیے آراستہ کر دیا اور اس نے کہا کہ آج کے دن تمہارے آدمیوں پر کوئی بھی غالب نہیں آئے گا اور میں یقینا تمہارا مددگار ہوں پھر جب دونوں لشکروں نے ایک دوسرے کو دیکھایعنی ایک دوسرے سے لڑنا شروع کیا تو شیطان اپنی ایڑیوں پر پلٹ گیا اور کہنے لگا یقینا میں تم سے بری ہوں اور بے شک میں وہ کچھ دیکھتا ہوں جو تم نہیں دیکھتے میں تو یقینا اللہ تعالیٰ سے ڈرتا ہوں۔"

۵۱

یہاں یہ جملہ کہ :( وقال:لاٰ غالب لکم ) درحقیقت ان (مشرکین)کے اس کردار کو سراہنا ہے کہ مشرکین اپنے دم،خم اور اسلحے کی بناء پر یہ خیال کر رہے تھے کہ کوئی بھی ان کے سامنے مقاومت کرنے کی جرات نہیں کر سکتا اور ان کی طاقت کے سامنے کوئی بھی نہیں ٹھہر پائے گا۔

لہذا یہ گفتگو سوائے اس بے وقعت گھمنڈ کی تحریک اور القا کے کچھ بھی نہیں جس کا منبع و سرچشمہ خود ان مشرکین کاغیر دانشمندانہ کردار اور طرز عمل تھا۔

مختصر یہ کہ ان مذکورہ تمام آیات میں سوائے اس کے کچھ بھی نہیں کہ باطنی خواہش کے اظہار کو قول سے تعبیر کیا گیا ہے مگر اس طرح سے نہیں جیسے انسان ظاہر کرتے ہیں اور ضروری ہے کہ اس طرح کا قیاس نہ کیا جائےاس لیے کہ ہر موجود اپنے باطن کے اظہار کے لیے مخصوص وسائل رکھتی ہے جو کہ اس کی حیثیت اور کیفیت کے متناسب ہوتے ہیں۔

۵۲

مبادی تدبر قرآن!ایک مطالعہ

مصنف: مولانا حمید الدین فراہی

ابوسفیان اصلاحی شعبہ عربی،مسلم یونیورسٹی علی گڑھ

ترجما ن القرآن مولانا حمید الدین فراہی کے شاگرد مولانا امین احسن اصلاحی کی شخصیت علمی دنیا اور اسلامی حلقوں میں تعارف کی محتاج نہیں، ان کی صلاحیت و لیاقت کے آثار مختلف میدانوں مثلاًخطابت،صحافت،فقہ،حدیث اور تفسیر میں نمایاں ہیںلیکن بعد میں اپنی تمام تر توجہ کا مرکز و محورانہوں نے قرآن کریم کو قرار دیاایک طرف انہوں نے اپنی تصانیف میں قرانیات کے مختلف پہلوؤں پر اظہار خیال کیااور دوسری طرف اپنے استاد گرامی کے بتائے ہوئے تفسیری اصولوں کو پیش نظر رکھتے ہوئے ”تدبر قرآن“کے نام سے ایک تفسیر لکھی یہ تفسیر اپنے نظریہ نظم قرآن کی رو سے دنیا کی تمام تفاسیر میں ممتاز و منفرد مقام کی حامل ہے یہ تفسیر کن اصولوں کو مدنظر رکھتے ہوئے ترتیب دی گئی ہے اور اس کے پیچھے کون سے جذبات و ارادے کارفرما ہیں ان کو جاننے کے لیے مولانا کی کتاب مُبادی تدبر قرآن ۱ کا مطالعہ کرنا از حد ضروری ہے یہ کتاب ایک طرح سے دیکھا جائے تو تفسیر تدبر قرآن کا مقدمہ ہے ۔ یہ کتاب اصلاًمولانا کے مختلف قرآنی مقالات کا مجموعہ ہے ،لیکن یہ مقالات اس انداز سے ترتیب دیئے گئے ہیں کہ یہ کتاب کی شکل اختیار کر گئے ہیںاس کے باوجود بھی کچھ مقالات میں تکرار کا توارد موجود ہے اس کتاب سے یہ بات وضاحت کے ساتھ سامنے آجاتی ہے کہ وہ کون سی چیزیں ہیں جنہیں مولانا حمید الدین فراہی اور مولانا محمد امین احسن اصلاحی فہم القرآن اور اس کے تفکر و تدبر کے لیے ضروری تصور کرتے تھےاور حدیث کے باب میں فقراہی اسکول کا کیا نقطہ نظرہے

____________________

۱۔”مبادی تدبر قرآن“ کی پہلی اشاعت اپریل ۱۹۵۱ءء میں تدبر قرآن کے عنوان سے ہوئی تھیجس میں صرف دو باب”تدبر قرآن ”اور ”تیسیر قرآن“ شامل تھے”تدبر قرآن“ ہی کے عنوان سے مئی ۱۹۵۲ءء میں جب اس کی دوسری اشاعت زیر عمل آئی تو اس میں دواورباب کے اضافے کئے گئے جن کے عناوین ”فہم قرآن کے لئے چند ابتدائی شرطیں“ اور ”تفسیر کے اصول“ تھےاس کا عنوان ”مبادی تدبر قرآن“ کر دیا گیا۔

۵۳

اس پر بھی تفصیل سے روشنی ڈالی گئی ہے۔(۲) یہ کتاب چار مقالات پر مشتمل ہے فہم قرآن کے لئے بعض ابتدائی شرطیں، تدبر قرآن،تیسیر قرآن ارو تفسیر کے اصول ان میں مقالہ تیسیرقرآن بڑی اہمیت کا حامل ہے اس مضمون سے یہ پتہ چلتا ہے کہ مولانا کی قرآن کریم پر گہری نظرتھی،اس میں تیسیر قرآن کے متعدد پہلوؤں کی طرف اشارہ کیا گیا ہے اور قرآن کریم کے بارے میں جو ایک عام تاثر یہ ہے کہ وہ اپنے معنی و مفہوم اور زبان و بیان کے لحاظ سے آسان ہے اس کی حکمتوں اورشیوں تک رسائی بہت معمولی چیز ہے مولانا نے دلائل کی روشنی میں اس کی تردید کی ہے اور تیسیر قران کا صحیح مفہوم پیش کیا ہے

”فہم قرآن“ کے تحت مولانا نے چند شرائط کا ذکر کیا ہے اور یہ شرائط فہم قرآن کے لئے اتنی ہی ضروری ہے جتنا کہ نماز کے لئے وضو اور طہارت،فہم قرآن کی اولین شرط نیت کی پاکیزگی ہے یعنی وہ قرآن کریم کا مطالعہ اس نیت سے کرے کہ وہ اس کے ذریعہ ہدایت اور فلاح کے راستوں کوپالے گا لیکن ایسے بہت سے حضرات جو اپنی ذاتی اغراض کے تحت قرآن کریم کا مطالعہ کرتے ہیںہو سکتا ہے کہ وہ اپنی ذاتی اغراض میں کامیابی حاصل کرلیں لیکن ہدایت قرآن سے محروم رہیں گے مولانا فرماتے ہیں قرآن مجید کو اللہ تعالیٰ نے ہدایت کا صحیفہ بنا کر اتارا ہے اورہر آدمی کے اندر طلب ہدایت کا داعیہ و دیعت کردیا ہے اگر اس داعیہ کے تحت آدمی قرآن مجید کی طرف متوجہ ہوتا ہے تو وہ قرآن مجیدسے بقدر کو شش اور بقدر توفیق الہی فیض پاتا ہے اور اگر اس داعیہ کے علاوہ کسی اور داعیہ کے تحت وہ قرآن کو استعمال کرنا چاہتا ہے تو ”لکل امرمانوی“کے اصول کے مطابق وہ وہی چیزپاتا ہے(۳) قرآن کریم میں اس کی طرف یوں اشارہ کیا گیا ہے

___________________

۲۔اس سلسلے میں دیکھیے؛مولانا حمید الدین قراہی اور علم حدیثمولانا امین احسن اصلاحی مرحوممجلہ الفرقان لکھنو جلد ۶۶،شمارہ ۰۹،دفتر ماہنامہ الفرقان۳۱/۱۴ اظہر آباد،لکھنو ستمبر ۱۹۹۸ء ،ص۱۴۱۸۔

۳۔تدبر قرآن امین احسن اصلاحی مکتبہ چراغ راہلوٹیا بلڈنگ آرام باغ روڈ کراچی باردوم مئی ۱۹۵۶ء ص۲۴۲۵

۵۴

( أُولَـٰئِكَ الَّذِينَ اشْتَرَوُا الضَّلَالَةَ بِالْهُدَىٰ فَمَا رَبِحَت تِّجَارَتُهُمْ وَمَا كَانُوا مُهْتَدِينَ ) (سورہ بقرہ:۱۶)

یہی لوگ ہیں جنہوں نے اختیار کیا گمراہی کو ہدایت کے بدلے تو ان کی یہ تجارت ان کے لئے نفع بخش نہ ہوئی اور وہ ہدایت پانے والے نہ ہوئے۔

نیت کی پاکیزگی کے بعد دوسری شرط یہ ہے کہ قرآن کریم کوایک برتر کلام اور دنیا کی عظیم کتاب مانا جائے کیونکہ بغیر اس کے اس کی حکمتوں او رخزینوں سے استفادہ ممکن نہیںقرآن کے طالب علم کے ذہن میں یہ چیز ارادے اوروثوق کے ساتھ موجود ہو کہ یہ کتاب ایک عظیم الشان تاریخ کی حامل ہے ایک معجز کلام ہے ایک آسمانی کتاب اور لوح محفوظ سے اترا ہوا کلام ہے یہ سب چیزیں اس لئے ضروری ہیں کہ منکرین یہ سمجھتے ہیں کہ یہ کتاب عرب کے بدوؤں کے لئے اتاری گئی تھی اور موجودہ حالات میں یہ کتاب اپنا کوئی مفہوم نہیں رکھتی اور اس کتاب کے ماننے والوں کا یہ خیال ہے کہ یہ کتاب حرام و حلال کے احکامات پر مبنی ہے اور جب سے فقہ کی تدوین ہو گئی ہے اس کی اہمیت میں اور کمی آگئی ہے اسے صرف متبرک کے نقطہ نظر سے دیکھتے ہیں بہت سے لوگ اسے اچھی نصیحتوں کا مجموعہ سمجھتے ہیں بہت سے لوگ اس کو نزع کی سختیوں کو دور کرنے اور ایصال ثواب کی کتاب سمجھتے ہیں اور بہت سے لوگ اس کودفع بلیات اورآفات کا تعویذ سمجھتے ہیں۔(۴)

فہم قرآن کی چوتھی شرط یہ ہے کہ قرآن کریم کے تقاضوں کو پورا کیا جائے اور اسی کے مطابق اپنے ظاہر و باطن کوتبدیل کیا جائے،اس نقطہ نظر سے قرآن کریم کا مطالعہ کیا جائے گا تو جگہ جگہ انسانی خواہشات قرآنی تقاضوں سے متصادم ہوتے ہوئے نظر آئیں گی اور انسان کو اپنے مطالبات سے باز آنا جوئے شیر لانے کے مترادف ہو گالیکن جس کے اندر استقلال اور پختہ ارادہ ہو گاوہ ضرور اپنے اندر قرآنی تقاضوں کے مطابق تبدیلی لائے گالیکن جوپرعزم نہیں ہے اس کے متعلق مولانا لکھتے ہیں وہ اس خلیج کو پاٹنے کی ہمت نہیں کرسکتا جو اپنے اور قرآن کے درمیان حائل پاتا ہے

____________________

۴۔ایضاًص۲۷۲۸

۵۵

وہ یہ محسوس کرتا ہے کہ اگر میں اپنے عقائد و تصورات کو قرآن کے مطابق بنانے کی کوشش کروں تو مجھے ذہنی اور فکری حیثیت سے نیا جنم لینا پڑے گا۔(۵)

لیکن جو لوگ مختلف آزمائشوں سے گزر کر بھی قرآنی تقاضوں اور قرآنی راستوں کو نہیں چھوڑتے ہیں اللہ ان کے لئے راہیں ہموار کر دیتا ہے اگر ایک دروازہ بند ہوتا ہے تو دوسرا دروازہ اس کے لئے کھول دیا جاتا ہے اگر ایک زمین اس کے لئے تنگ ہو جاتی ہے تو دوسری سرزمین اس کے لئے آغوش بن جاتی ہے قرآن کریم میں اسی چیز کی طرف یوں اشارہ کیا گیا

( وَالَّذِينَ جَاهَدُوا فِينَا لَنَهْدِيَنَّهُمْ سُبُلَنَا ۚ وَإِنَّ اللَّـهَ لَمَعَ الْمُحْسِنِينَ ) (سورہ عنکبوت۶۹)

اور جو ہماری راہ میں جدوجہد کریں گے ہم ضروران پر اپنی راہیں کھولیں گے اور اللہ خوبیوں کے طالبوں کے ساتھ ہے

قرآن کریم سے استفادہ کی چوتھی شرط تدبر ہے قرآن کریم نے تدبر نہ کرنے والوں کو ان لفظوں میں یاد کیا ہے

( أَفَلَا يَتَدَبَّرُونَ الْقُرْآنَ أَمْ عَلَىٰ قُلُوبٍ أَقْفَالُهَا )

کیا یہ لوگ قرآن پر غور نہیں کرتے یا ان کے دلوں پر تالے چڑھے ہو ئے ہیں۔

صحابہ کرام مستقل قرآن کریم پر غور کرتے اور اجتماعی طور پر قرآن کا مطالعہ کرتے خلفاء راشدین اور بالخصوص حضرت عمراس قسم کے حلقوں اور قرآن کریم کے ماہرین سے برابر دلچسپی لیتے صحابہ کرام صرف تبرک کے نقطہ نظر سے تلاوت نہ کرتے نہ ہی اسے جانکنی کی سختیوں کو آسان کرنے کے لئے پڑھتے اور نہ ہی اسے تعویذ کے طور پر استعمال کرتے۔(۶)

____________________

۵ ۔ایضاًص ۲۹ نمبر

۶ ۔ایضاً وضاحت کے لئے دیکھئے۳۲۳۴

۵۶

فہم قرآن کی پانچویں شرط یہ ہے کہ تدبر وتفکر کے وقت بہت سی ایسی مشکلات پیش آئیں گی کہ اسے بد دلی اور قنوطیت کی طرف لے جائیں گیلیکن ان حالات میں اسے دامن صبر کو ہاتھ سے نہ جانے دینا چاہیےمولانا فرماتے ہیں کہ اس طرح کی عملی و فکری مشکلوں اور الجھنوں سے نکلنے کا صحیح اور آزمودہ راستہ صرف یہ ہے کہ آدمی اللہ تعالیٰ سے دعا کرے اور قرآن مجید پر جما رہے اگر قرآن مجید یاد ہو تو شب کی نمازوں میں قرآن ٹھہر ٹھہر کر پڑھے انشاء اللہ اس کی ساری الجھنیں دور ہو جائیں گی اور حکمت قرآن کے ایسے دروازے اس پر کھل جائیں گے کہ پھر اس کو قرآن حکیم کی ہر مشکل آسان معلوم ہونے لگے گی۔(۷)

فہم قرآن کی شرائط کے بعد اس کتاب کا دوسرا باب”تدبر قرآن“ہے تدبر قرآن کے لئے کن کن امور کی ضرورت ہوتی ہے وہی چیزیں اس باب میں زیر بحث ہیں قرآن کریم نے جگہ جگہ تفکر و تدبر کی بات کہی ہے بغیر اس کے قرآنی اسرار وحکم کے دروازے کھل نہیں سکتے اور اس تفکر و تدبر کے کچھ ضابطے اور قواعد ہیںاگر انہیں نہ برتا گیا تو راہ ہدایت کا حصول ممکن نہیں ہو گایہی وجہ ہے کہ ماضی میں بے شمارفتنے پیدا ہوئے اور سبھوں نے قرآن کریم ہی سے دلائل پیش کئےمولانا فرماتے ہیں کہ خوارج اپنے گمان کے مطابق قرآن مجید ہی کے سہار ے ابھرے۔ باطینوں کے تمام استدلات کی بنیاد ان کے خیال میں قرآن مجید ہی پر ہےبابیوں اور سبائیوں نے جو کچھ کہا اپنے زعم کے مطابق قرآن مجید ہی سے کہاقادینوں کی نبوت کی اساس ان کے دعوے کے مطابق قرآن مجید ہی پر ہے اور چکڑالوی تو قرآن کے سوا کچھ بولتے ہی نہیں۔(۸)

آخر ایسا کیوں ہے؟جبکہ قرآن کریم ہدایت اور وضاحت کے لئے آیا تھااختلافات کو ختم کرنے کے لئے نازل کیا گیا تھااپنی تعلیمات میں غیر مشتبہ اور غیرمبھم ہے اور ہر اعتبار سے اس کے اندر ایک نظم، توافق اور کامل وحدت ہے۔ اگر ایسا ہے تو مناسب تو یہ تھا کہ تمام فرقوں کو ایک سطح پرلاکھڑا کر دیتا اور ان کے تمام اختلافات اور انتشارات کو مٹا دیتا

____________________

۷۔ایضاً ص۳۴۳۵

۸۔ایضاً ص۴۱۴۲

۵۷

مولانا نے اس کا جواب ان لفظوں میں دیا ہے ”قرآن مجید کے مطالعہ کے کچھ خاص آداب و قواعد ہیں جن کا لحاظ اور اہتمام ضروری ہے ان کے بغیر قرآن کی راہ نہیں کھل سکتی ان میں سب سے مقدم جیسا کہ اوپر ذکر کیا گیا ہے ارادہ اور نیت کی درستی ہے یہ اللہ کی کتاب ہے اور خلق کی ہدایت کے لئے نازل ہوئی ہے اس لئے سب سے مقدم یہ ہے کہ انسان بالکل خالی الذہن ہو کر اس کو صرف طلب ہدایت کے لئے پڑھے اور اپنے قلب و دماغ کو پورے طور پر اس کے حوالے کر دے اپنے د ل کی باگ اس کے ہاتھ میں دے دے۔(۹)

قرآن کریم نے اپنی خصوصیت کی طرف خود اشارہ کیا ہے:

( هُوَ الَّذِي أَنزَلَ عَلَيْكَ الْكِتَابَ مِنْهُ آيَاتٌ مُّحْكَمَاتٌ هُنَّ أُمُّ الْكِتَابِ وَأُخَرُ مُتَشَابِهَاتٌ ۖ فَأَمَّا الَّذِينَ فِي قُلُوبِهِمْ زَيْغٌ فَيَتَّبِعُونَ مَا تَشَابَهَ مِنْهُ ابْتِغَاءَ الْفِتْنَةِ وَابْتِغَاءَ تَأْوِيلِهِ ۗ وَمَا يَعْلَمُ تَأْوِيلَهُ إِلَّا اللَّـهُ ۗ وَالرَّاسِخُونَ فِي الْعِلْمِ يَقُولُونَ آمَنَّا بِهِ كُلٌّ مِّنْ عِندِ رَبِّنَا ۗ وَمَا يَذَّكَّرُ إِلَّا أُولُو الْأَلْبَابِ ) (آل عمران۔ ۷)

وہی ہے جس نے اُتاری تم پر کتاب جس میں سے کچھ آیات محکمات ہیں اور وہی اصل کتاب ہیں اور دوسری متشابہات ہیں تو جن لوگوں کے دلوں میں کجی ہے وہ قرآن کی متشابہات کے پیچھے پڑتے ہیں فتنہ پیدا کرنے کے لئے اور اس کی اصل ماہیت دریافت کرنے کے لئے حالانکہ اس کی ماہیت نہیں معلوم ہے مگر اللہ کو اور جو علم میں پختہ ہیں وہ کہتے ہیں ہم ان پر ایمان لائے سب ہمارے رب کی طرف سے ہے اور نہیں سمجھتے ہیں مگر وہ جو عقل والے ہیں۔

اس کے بعد مولانانے بتایا کہ قرآن کریم میں دو طرح کی آیات ہیں محکم اور متشابہہ اور اس کے بعد اس پر اظہار خیال کیا ہے کہ قرآن پڑھنے والوں کی دو قسمیں ہیں ایک تو وہ حضرات جو صرف طلب رشد وہدایت کے لئے پڑھتے ہیںچنانچہ آیات محکمات ان کے لئے طمانیت اور ذہنی آسودگی کا سبب بن جاتی ہیںاورجب کبھی وہ ذہنی وساوس اور خلجان میں مبتلا ہوتے ہیں

____________________

۹۔ایضاً ص۴۲۴۳

۵۸

تو ان کی زبان پر یہ دعا جاری ہوجاتی ہے۔(۱۰)

( رَبَّنَا لَا تُزِغْ قُلُوبَنَا بَعْدَ إِذْ هَدَيْتَنَا وَهَبْ لَنَا مِن لَّدُنكَ رَحْمَةً ۚ إِنَّكَ أَنتَ الْوَهَّابُ ) (سورہ آل عمران:۸)

اے ہمارے رب ہم کوہدایت دینے کے بعد ہمارے دلوں کوڈانوا ڈول نہ کر، اپنے پاس سے ہم کو رحمت بخش تو بڑا بخشنے والاہے۔

دوسری جماعت ان لوگوں کی ہے جو اپنے اغراض و خواہشات کی تکمیل کے لئے قرآن کریم کا مطالعہ کرتے ہیںمولانا فرماتے ہیں کہ ان کا مقصود و طلب رشدوہدایت سے زیادہ یہ ہوتا ہے کہ اپنے کسی قرار داد، مسلک کی تائید کے لئے اس میں دلیلیں تلاش کریںیا جن سے ان کو اختلاف ہے ان کو چپ کرانے کے لئے اس میں سے اعتراضات کج بحثیاں ڈھونڈ ڈھونڈ کر نکالیں۔(۱۱)

جبکہ قرآن کریم تطہیر قلب اور روح کے تزکیہ کے لئے نازل کیا گیا ہےیہ دماغی عیاشیوں اور کج بخثی؟ کے لئے نہیں نازل کیا گیاہےقرآن کریم میں ارشاد ہے۔

( إِنَّ فِي ذَٰلِكَ لَذِكْرَىٰ لِمَن كَانَ لَهُ قَلْبٌ أَوْ أَلْقَى السَّمْعَ وَهُوَ شَهِيدٌ ) (سورہ ق:۳۷)

اس کے اندر اس شخص کے لئے یاددہانی ہے جس کے پاس بیدار دل ہو یا وہ کان لگائے متوجہ ہوکر۔

یعنی قرآن کریم ان لوگوں کے لئے صحیفہ ہدایت ہے جو

( إِلَّا مَنْ أَتَى اللَّهَ بِقَلْبٍ سَلِيمٍ )

مگر جو اللہ کے پاس قلب سلیم لے کر آئے۔

____________________

۱۰۔وضاحت کے لئے دیکھیےص۴۴۴۶ -------- ۱۱۔ایضاً ص۴۷

۵۹

اور اسی طرح سورہ ق میں آیا ہے کہ”وجاء بقلب منیب“(جو متوجہ ہونے والا دل لے کر آئے)جو لوگ قلب سلیم اور قلب منیب کے بغیر قرآن کریم کا مطالعہ کرتے ہیں ان کے لئے یہ کتاب کتاب ہدایت ثابت نہیں ہو سکتی۔(۱۲)

قرآن کریم میں ارشاد ہے:

( الَّذِينَ يُجَادِلُونَ فِي آيَاتِ اللَّـهِ بِغَيْرِ سُلْطَانٍ أَتَاهُمْ ۖ كَبُرَ مَقْتًا عِندَ اللَّـهِ وَعِندَ الَّذِينَ آمَنُوا ۚ كَذَٰلِكَ يَطْبَعُ اللَّـهُ عَلَىٰ كُلِّ قَلْبِ مُتَكَبِّرٍ جَبَّارٍ ) (سورہ غافر:۳۵)

قرآن کریم کانزول اس لیے ہو ا ہے کہ وہ لوگوں کو تاریکیوں سے نکال کر اجالوں کی طرف لے آئے لیکن یہ ہدایت اور ضلالت قرآن کریم کے قانون اور ضابطے کے مطابق ہوتی ہے اللہ قانون حکمت کے مطابق جس کو چاہتا ہے ہدایت دیتا ہے اور جس کو چاہتا ہے ضلالت دیتا ہے وہ اہل ایمان کو ہدایت دیتا ہے او اہل کفر جن کے اولیاء طاغوت ہیں انہیں ضلالت سے ہم کنار کرتا ہے مولانا نے سورہ بقرہ کی آیات ۲۵۸سے۲۶۰ تک نقل کی ہیں جن سے تین ایسے لوگوں کی مثالیں پیش کی ہیںجنہیں تاریکی سے نکال کر روشنی کی طرف لاتا ہے یا ان کو تاریکی میں چھوڑدیتا ہے ایک تو وہ ہے جو اپنی دولت و حکومت اور سلطنت و عظمت کے نشہ میں مخبوط ہے وہ حضرت ابراہیم کی پیش کردہ روشنی سے اعراض کرتا ہے اور دوسرا وہ شخص ہے جو یقین و بصیرت کا طلبگار ہے طلب ہدایت اور حصول رشد کے لئے مضطرب ہے مولانا ایسے حیرت زدہ شخص کے لئے لکھتے ہیں” وہ بستیوں کے ہجوم سے بھاگتا اور شہروں کے اژدھام سے گھبراتا ہے اور چاہتا ہے کہ کسی مقام عبرت و موعظت کا کوئی خلوت کدہ میسر آجائے تو اپنے سوالوں کو لے کر بیٹھ جائے جن کے جواب کے لئے وہ ہمہ وقت تشنہ و بیقرار ہے اللہ تعالیٰ ایسے شخص کی تمام الجھنوں کو دورکر دیتا ہے اور وہ یقین کامل کی روشنی سے معمور ہو کر پکار اٹھتا ہے کہ اللہ ہر چیز پر قادر ہے:

( فَلَمَّا تَبَيَّنَ لَهُ قَالَ أَعْلَمُ أَنَّ اللَّـهَ عَلَىٰ كُلِّ شَيْءٍ قَدِيرٌ ) (سورہ البقرة:۲۵۹)

____________________

۱۲۔ایضاً ص۱۲

۶۰

61

62

63

64

65

66

67

68

69

70

71

72

73

74

75

76

77

78

79

80

81

82

83

84

85

86

87

88

89

90

91

92

93

94

95

96

97

98

99

100

101

102

103

104

105

106

107

108

109

110

111

112

113

114

115

116

117

118

119

120

121

122

123

124

125

126

127

128

129

130

131

132

133

134

135

136

137

138

139

140

141

142

143

144

145

146

147

148

149

150

151

152

153

154

155

156

157

158

159

160

161

162

163

164

165

166

167

168

169

170

171

172

173

174

175

176

177

178

179

180

181

182

183

184

185

186

187

188

189

190

191

192

193

194

195

196

197

198

199

200

201

202

203

204

205

206

207

208

209

210

211

212

213

214

215

216

217

218

219

220

221

222

223

224

225

226

227

228

229

230

231

232

233

234

235

236

237

238

239

240

241

242

243

244

245

246

247

248

249

250

251

252

253

254

255

256

257

258

259

260

261

262

263