علوم ومعارف قرآن

علوم ومعارف قرآن28%

علوم ومعارف قرآن مؤلف:
زمرہ جات: علوم قرآن
صفحے: 263

علوم ومعارف قرآن
  • ابتداء
  • پچھلا
  • 263 /
  • اگلا
  • آخر
  •  
  • ڈاؤنلوڈ HTML
  • ڈاؤنلوڈ Word
  • ڈاؤنلوڈ PDF
  • مشاہدے: 136035 / ڈاؤنلوڈ: 6860
سائز سائز سائز
علوم ومعارف قرآن

علوم ومعارف قرآن

مؤلف:
اردو

یہ کتاب برقی شکل میں نشرہوئی ہے اور شبکہ الامامین الحسنین (علیہما السلام) کے گروہ علمی کی نگرانی میں اس کی فنی طورپرتصحیح اور تنظیم ہوئی ہے


1

2

3

4

5

6

7

8

9

10

11

12

13

14

15

16

17

18

19

20

21

22

23

24

25

26

27

28

29

30

31

32

33

34

35

36

37

38

39

40

توجواباًکہاجائے گاکہ اس بنا پرہے کہ قول کلام کی نسبت عقیدے سے زیادہ نزدیک ہے اس لیے کہ اس ناقص اورغیرمستقل کلام پربھی ”قول“کااطلاق ہوتاہے جومفید(کلام)ہونے کیلئے اپنے تکملہ کا محتاج ہوتا ہے جیسے وہ جملے ہیں جو اپنے بقیہ(جملوں)کے محتاج ہوتے ہیں لیکن پھر بھی ان پر قول کا اطلاق درست ہے جبکہ ان پر کلام کا اطلاق صحیح نہیں اسی طرح عقیدہ وہ ہے جو کہ اپنی افادیت ظاہر کرنے کے لیے اس عبارت اور الفاظ کا محتاج ہوتا ہے جو اسے نمایاں کر سکیں۔

مختصر یہ کہ قول میں اظہار عقیدہ کا پہلو ہوتا ہے جو کہ عقیدے اور رائے کی جگہ بروئے کار لایا جاسکتا ہے اور محض تلفظ،نطق اور سخن کا مفہوم نہیں لیکن کلام صرف اور صرف سخن (گفتگو)ہے یہی وجہ ہے کہ”قول“غیر انسان کے لیے بھی استعمال ہو سکتاہے جیساکہ شاعر نے کہا ہے۔

قالت له الطیّرتقدم راشداً

انَّک لا ترجع الّٰا حامداً

ایک اور شاعر نے کہا:

قالت له العینان سمعاً وطاعة

وحدرتا کالدر لما یثقب

ایک اورقول ہے:

اِمتَلَاَءَ الحَوضَ وقال قَطنی

مذکورہ بالا ان تمام مثالوں میں زبان حال مراد لی گئی ہے نہ کہ زبان مقال۔

۴۱

راغب اصفہانی کہتا ہے اگرچہ”قول“ کو کئی طرح سے بروئے کار لایاجاتا ہے تاہم ان میں سے نمایاں ترین قول وہ لفظ ہے جو حروف کا مرکب ہو اور نطق کے ذریعے انجام پائے چاہے وہ مفرد ہو یاجملے کی صورت میں ہو(دیگر مواقع جہاں قول کو بروئے کار لایا جاتا ہے درج ذیل ہیں)

۲ لفظوں میں اظہار سے قبل ذہن میں متصور (قول)

جیسا کہ اس آیت میں ہے کہ

( وَیَقُوْلُوْنَ فِیْ اَنْفُسِهِمْ لَوْلَا یُعَذِّ بُنَا اللّٰهُ ) (سورہ مجادلہ آیت۸)

”اور وہ اپنے دلوں میں کہتے ہیں کہ اگر وہ واقعی رسول ہے تو پھر اللہ ہمیں سزا کیوں نہیں دیتا“

یہاں لوگوں نے اپنے دلوں میں جو گمان رکھا اس کے تصور کو قول کا نام دیا گیا ہے

۳ صرَفِ اعتقاد: چنانچہ کہا جاتا ہے کہ فلان شخص نے حضرت ابو حنیفہ کے قول کو اپنا یا یعنی ان کی رائے کو پسند کر کے ان کا ہم عقیدہ بن گیا ہے

۴ مطلق دلالت: مطلق دلالت کو بھی قول کہتے ہیں جیسا کہ شاعر نے کہا ہے کہ:

امتلاء الحوض وقال قطنی

یعنی حوض بھرا ہے جو اس امر پر دلالت کرتا ہے کہ یہ میرے لیے کافی ہے

۴۲

۵ کسی ایسی چیز سے لگاو جو راسخ عقیدے تک پہنچا دےجیسے یہ کہا جائے کہ فلان شخص اس طرح کے قول کا حامل ہے یا جیسے” فلان یقول کذا“ یعنی فلان شخص یوں کہتا ہے اس لیے کہ یہ انقصاص ہی اسے اس قول تک پہنچاتا ہے۔

۶ اہل میزان علمائے منطق کی اصطلاح بھی قول کہلاتی ہے جیسے قول جوھر،قول عرض ہے جنہیں مقولات یعنی موضوعات میں شمار کیا جاتا ہے۔

۷ قول الہام کے معنوں میں بھی آیا ہے جیسے اس آیت میں آیا ہے کہ:

( قُلْنَا يَا ذَا الْقَرْنَيْنِ إِمَّا أَن تُعَذِّبَ وَإِمَّا أَن تَتَّخِذَ فِيهِمْ حُسْنًا )

(سورہ کہف :آیت۸۶)

ہم نے کہا اے ذوالقرنین تمہیں اختیار ہے چاہے انہیں سزا دو اور چاہے ان سے حسن سلوک اختیار کرو۔

اس لیے کہ یہ گفتگو خطاب کی صورت میں نہیں بلکہ الہام اور القائے باطنی تھااسی طرح یہ آیت ہے کہ

( ذٰلِکَ عِیْسَی ابْنَ مَرْیَمَ قَوْلَ الْحَقِّ الَّذِیْ فِیْهِ یَمْتَرُوْنَ ) (سورہ مریم:آیت۳۴)

یہ ہے مریم کے بیٹے عیسٰی کا سچا قصہ جس میں یہ لوگ خواہ مخواہ شک کرتے ہیں۔

اس آیت میں عیسیٰ(۴)کو قول حق کا نام دیا گیا ہے اسی طرح ایک اور آیت میں انہیں کلمہ سے تعبیر کیا گیا

( کَلِمَتُه اَلْقٰهَآ اِلٰی مَرْیَمَ ) (سورہ نساء:آیت۱۷۱)

۴۳

یہ اشارہ ہے اس آیت کی طرف کہ

( اِنَ مَثَلَ عِیْسَی عِنْدَ اللّٰهِ کَمَثَلِ اٰدَمَ خَلَقَه مِنْ تُرَابٍ ثُمَّ قَالَ لَه کُنْ فَیَکُوْنَ ) (سورہ آل عمران :آیت۵۹)

قرآن میں بھی ”قول“ کی اصطلاح کا غیر انسانوں کے لیے استعمال ہوا ہے قطع نظر اس امر کے کہ انہیں مخاطب قرار دیا گیا ہے یا ان سے قول کو نقل کیا گیا ہے۔

( ثُمَّ اسْتَوٰی اِلَی السَّمَآءِ وَهِیَ دُخَانٌ فَقَالَ لَهَا وَلِلْاَرْضِ ائْتِیَاطَوْعًا اَوْکَرْهًا قَالَتَآ اَتَیْنَا طَآئِعِیْنَ ) (سورہ فصّلت:آیت ۱۱)

پھر اس نے آسمان کی طرف قصد کیا درآنحا لیکہ وہ دھواں تھا پس اس نے اس سے اور زمین سے کہا کہ تم دونوں معرض وجود میں آؤ خوشی یا کراہت سے۔ دونوں نے کہا ہم اپنی خوشی سے بات ماننے والے ہو کر آئے ہیں۔

یہاں زمین و آسمان سے کہنے اور زمین و آسمان کے کہنے سے کیا مراد ہے ؟

علامہ طباطبائی قدس سرّہ نے لکھا ہے کہ یہاں وہی مقصود ہے جو سورہ بقرہ کی آیت ۱۱۷ میں بیان ہوا کہ

( بَدِیْعُ السَّمٰوٰاتِ وَالْاِرْضِ وِاِذَا قَضٰی اَمْرًا فَاِنَّمَا یَقُوْلُ لَه کُنْ فَیَکُوْنُ )

وہ آسمانوں اور زمین کا پیدا کرنے والا ہے وہ جب کسی کام کے کرنے کا طے کر لیتا ہے تو وہ صرف کن(ہوجا)فرماد یتا ہے اور وہ(کام)ہو جاتا ہے۔

۴۴

اسی طرح سورہ یٰسیں کی آیت ۸۲ میں ارشاد ہوا ہے کہ:

( اِنَّمَا اَمْرُه اِذَآ اَرَادَ شَیْئًا اَنْ یَّقُوْلَ لَه کُنْ فَیَکُوْنُ )

بتحقیق اس کا امر یہ ہے کہ جب وہ کسی چیز کا ارادہ کرتا ہے کہ اس کے لیے کن ہو جا فرما دیتا ہے اور وہ کام ہوجاتا ہے۔

ان دونوں آیات کریمہ میں باطنی ارادے اور خواہش کے اظہار کو بطور کنایہ قول سے تعبیر کیا گیا ہے چاہے وہ جس طرح سے بھی ہو لہذا قول(کہنا)لفظ سے نہیںیہاں کسی قسم کی گفتگو (طرفین میں)نہیں تھی سوائے اس کے کہ یہ گفتگو باطنی ارادہ و خواہش کے اظہار اور بیان کرنے والی ہے اس لیے ہر وہ گفتگو جو ارادے اور خواہش کے اظہار کا باعث بنے اسے قول کہا جاتا ہے اس کا لازمہ وہ مقصود ہوتا ہے جس سے اظہار مراد ہو۔

( یَوْمَ نَقُوْلُ لِجَهَنَّمَ هَلِ امْتَلَاْتِ وَتَقُوْلُ هَلْ مِنْ مَّزِیْدٍ ) (سورہ ق:آیت۳۰)

اس دن جب ہم دوزخ سے کہیں گے کیا تو بھر چکی ہے اور وہ کہے گی کیا کچھ اور بھی ہے ؟

یہاں بھی سخن وگفتار کا کوئی وجود نہیں بلکہ جو کہا گیا وہ زبان حال ہے دوزخ میں موجود گنجائش کے اندازہ کی طرف اشارہ ہے۔ جس قدر بھی اس میں ڈالا جائے گا اس میں اضافہ نہیں ہو گا اور یہ قول ان لوگوں کے رد میں ہے جو یہ کہتے ہیں کہ کیا جہنم میں اتنی گنجائش ہے کہ یہ سارے کفار اس میں ڈالے جا سکیں

( وَقِیْلَ یٰاَرْضُ ابْلَعِیْ مَآءَ کِ وَیٰسَمَآءُ اَقْلِعِیْ وَغِیْضَ الْمَآءُ وَقُضِیَ الْاَمْرُ وَاسْتَوَتْ عَلَی الْجُوْدِیِّ وَقِیْلَ بُعْدًا لِّلْقُوْمِ الظّٰلِمِیْنَ ) (سورہ ھود:آیت۴۴)

”اور کہا گیا اے زمین اپنے پانی کو نگل جا اور اے آسمان تو تھم جا اور پانی زمین میں جذب ہو گیا اور معاملے کا فیصلہ کردیا گیا اور کشتی کوہ جودی پر ٹھہر گئی اور کہہ دیا گیا کہ ظالموں کی قوم کے لیے ہلاکت ہو۔"

۴۵

اس قول میں خدا کے ارادے اور خواہش کا اظہار کیا گیا ہے۔

اسی طرح یہ آیت ہے کہ:

( قُلْنَا یٰنَارُ کُوْنِیْ بَرْدًا وَّسَلٰمًا عَلیٰ اِبْرٰهِیْمَ ) (سورہ الانبیاء:آیت۶۹)

یہاں بھی صرف اور صرف ارادہ پروردگار کا اظہار ہے چنانچہ اس آیت کا مفہوم اس طرح ہے کہ ہم نے چاہا کہ آگ ٹھنڈی رہے اور سلامتی کا باعث رہے چنانچہ ایساہی ہوا یہاں لفظ ”کونی“(ہو کر رہے) کو بروئے کا رنہیں لایا گیا

اسی طرح

( اَلَمْ تَرَ اِلَی الَّذِیْنَ خَرَجُوْا مِنْ دِیَارِهِمْ وَهُمْ اُلُوْفٌ حَذَرَالْمَوْتِ فَقَالَ لَهُمُ اللّٰهُ مُوْتُوْا ثُمَّ اَحْیَاهُمْ ) (سورہ بقرہ :آیت۲۴۳)

”کیا تم نے ان کو نہیں دیکھا جو موت کے ڈر سے اپنے گھروں سے نکلتے تھے اور وہ کئی ہزار تھے بس اللہ تعالیٰ نے ان کو فرمایا کہ مر جاو پھر انہیں زندہ کیا گیا۔"

اس آیت میں بھی قول صرف ان کی موت سے متعلق ارادہ پروردگار سے عبارت ہے اور

( قال لهم موتوا )

ان سے کہا مر جاو۔

۴۶

اور( واحیاهم ) (اور انہیں دوبارہ زند ہ کیا )کے درمیان کو ئی فرق نہیں یعنی ایسانہیں کہ

( اما تهم ثم احیاهم )

یعنی پہلے انہیں موت دی پھر زندہ کیا۔

یا پھر یہ کہ

( قال لهم موتوا ثم قال لهم احیوا )

یعنی پہلے انہیں کہا مر جاو پھر کہا کہ زندہ ہو جاو۔

بلکہ ارادہ پروردگار ان کے مرنے کے بعد انہیں زندہ کرنے سے بھی متعلق تھا اور اسی کا اظہار کیا گیا ہے۔

قرآن میں حیوانات کی طرف قول کی نسبت بھی اسی بنیاد پر ہے یعنی باطنی خواہش کا اظہار چاہے وہ کسی بھی ذریعے سے ہواگرچہ کوئی ایسی دلیل موجود نہیں کہ وہ اظہار کسی لفظ یا صدا یعنی موت سے انجام پذیر ہوا ہو

چیونٹی کے بارے میں ارشاد ہوا ہے کہ :

( قَالَتْ نَمْلَةٌ یٰاَیُّهَا النَّمْلُ ادْخُلُوْا مَسٰکِنَکُمْ لاَ یَحْطِمَنَّکُمْ سُلَیْمٰنُ وَجُنُوْدُه وَهُمْ لاَ یَشْعُرُوْنَ ) (سورہ نمل:آیت۱۸)

”ایک چیونٹی نے کہا اے چیونٹیواپنے اپنے بلوں میں گھس جاو ایسانہ ہو کہ سلیمان اور ان کا لشکر تمہیں روند ڈالے اور انہیں خبر بھی نہ ہو۔"

۴۷

ظاہر ہے کہ اس طرح کی گفتگو انسانوں میں ہوتی ہے حیوانات میں بنیادی طور پر ایسی گفتگو نہیں ہوتی بلکہ وہ اپنے پیغامات ہوا کی لہروں سے لیتے اور دیتے ہیں اور ان(حیوانات) سے الفاظ یا آواز وغیرہ ظاہر نہیں ہوتی

یہی صورت حال حضرت سلیمان کے لیے پیغام لانے والے ”ھد ھد“ کے بارے میں ہے چنانچہ یہ ارشاد ہوا کہ:

( فَمَکَثَ غَیْرَ بَعِیْدٍ فَقَالَ اَحَطْتُّ بِمَا لَمْ تُحِطْ بِه وَجِئْتُکَ مِنْ سَبَاٍ بِنَبَاٍ یَّقِیْنٍ اِنِّیْ وَجَدْتُّ امْرَاَةً تَمْلِکُهُمْ وَاُوْتِیَتْ مِنْ کُلِّ شَیِءٍ وَّلَهَا عَرْشٌ عَظِیْمٌ وَجَدْ تُّهَا وَقَوْمَهَا یَسْجُدُوْنَ لِلشَّمْسِ )

(سورہ نمل :آیت۲۲تا ۲۴)

”پھر زیادہ دیر نہ ہوئی کہ وہ آگیا پھر کہنے لگا میں نے ایسی بات معلوم کی جو تمہیں معلوم نہیں اور میں (ملک) سبا سے تمہارے پاس ایک یقینی خبر لایا ہوں میں نے ایک عورت کو پایا جو ان پر حکومت کرتی ہے اور اسے ہر چیز سے حصہ دیا گیا ہے اور اس کے لیے بڑا شاہی تخت ہے اسے اور اس کی قوم کو اللہ تعالیٰ کی بجائے سورج کی پرستش کرتے پایا۔"

کیا یہ کلام بالمشافہ، لفظی یا تکلم کے ذریعے تھا۔ ہرگز ایسا نہیں اس لیے کہ حضرت سلیمان نے خود فرمایا کہ:

( وَوَرِثَ سُلَیْمٰنُ دَاودَ وَقَالَ یٰاَیُّهَا النَّاسُ عُلِّمْنَا مَنْطِقَ الطَّیْرِ وَاُوْتِیْنَا مِنْ کُلِّ شَیْءٍ اِنَّ هٰذَا لَهُوَ الْفَضْلُ الْمُبِیْنُ ) (سورہ نمل:آیت۱۶)

”اور سلیمان داؤد کا وارث ہوا اس نے کہا:اے لوگو ہمیں پرندوں کی بولی سکھلائی گئی ہے اور ہمیں ہر چیز میں سے حصہ دیا گیا اور یقینا یہ کھلم کھلا فضیلت ہے۔"

۴۸

یہ حضرت سلیمان پر اللہ تعالیٰ کی عنایت تھی کہ وہ حضرت داؤد کے وارث قرار پائے اور انہیں پرندوں کی بولی سکھلائی گئی یعنی انہیں اس بات پر قدرت عنایت ہوئی کہ وہ پرندوں کے پیغامات کو جان سکیںایساہر گز نہیں کہ پرندے انسانوں کی طرح باتیں کرتے ہوں۔ لہذا وہ چیز جو کسی کا پیغام یاکسی کی خواہش دوسرے تک پہنچانے کا ذریعہ بنے اسے قول کہا جاتا ہے اور پیغام کا وصول کرنا ویسے ہی ہے جیسے کسی کی گفتگو سننا۔

ملائکہ اور شیاطین سے منسوب قول بھی اسی نوعیت کا ہے جیسے کوئی پیغام بھیجنا یا موصول کرنا ہے اور اس ضمن میں ہر گز یہ خیال نہیں کرنا چا ہیے کہ وہ (قول)انسانوں کے قول کی مانند ہو گا اس لیے کہ یہ قیاس مع الفارق ہے اور یہ امرلازمی ہے کہ مجردات کا مادیات پر قیاس نہ کیا جائے اور حیوانات کے بولنے کو انسانوں کی گفتگو جیسانہ سمجھا جائے۔

انسان کے پاس اپنے باطنی پیغام کو بھیجنے اور وصول کرنے کے مخصوص وسائل ہیں جبکہ دیگر مخلوقات کے پاس بھی اپنے مخصوص وسائل ہیں اس لیے ضروری ہے کہ مخلوقات و موجودات کی مختلف انواع کو جو ایک دوسرے سے الگ الگ ہیں یکساں خیال نہ کیا جائے یہ بہت بڑی غلطی ہے کہ انسان ہر چیز کا اپنی ذات پر ہی قیاس کرے اور سب کو اپنے جیساسمجھے شاید اس طرح کی سوچ کا سرچشمہ خود پسندی اور خود خواہی ہوتی ہے اور آدمی تمام اشیاء کو پرکھنے کا معیار اپنی ذات کو قرار دینے لگتا ہے۔

مثلاً خداوند عالم نے ملائکہ سے جو گفتگو فرمائی ہے اور انہیں پیغام دیا ہے یا ملائکہ نے اللہ کے جواب میں جو کچھ کہا ہے اسے انسان کے کلام سے نہیں سمجھنا چاہیے اور یہی صورتحال ابلیس کے متعلق بھی ہے۔ آپ قرآن کریم کی سورت بقرہ کی آیات ۳۰ تا ۳۴ کا مطالعہ فرمائیے، سورة اعراف کی آیت ۱۱ تا ۱۸ کو دیکھئے نیز سورہ ص آیت ۷۱ تا ۸۴ کو پڑھئے جہاں فرشتوں اور خالق کائنات کے مابین طویل مکالمہ نظر آتا ہے۔

۴۹

اس طرح کے طولانی گفت وشنید کو اگر ہم زبان حال نہ کہیں تب بھی ہمیں یہی کہنا پڑے گا کہ انسانوں جیسی ”زبان مقال“ نہیں ہے اس لیے کہ یہ ایک فاقدالوجہ قیاس ہے(ایک ایسا قیاس جس کا کوئی سبب اور موجب ہی نہ ہو)

خاص طور پر اس جگہ جہاں شیطان نے انسانوں کو مخاطب قرار دیتے ہوئے ان سے جو باتیں کی ہیں وہ انسانی ذہن میں فطوراور وسوسے پیدا کرنے کے علاوہ کچھ بھی نہیں

( کَمَثَلِ الشَّیْطٰنِ اِذْ قَالَ لِلْاِنْسَانِ اکْفُرْ فَلَمَّا کَفَرَ قَالَ اِنِّیْ بَرِیْ ءٌ مِّنْکَ اِنِّیْ اَخَافُ اللّٰهَ رَبَّ الْعٰلَمِیْنَ ) (سورہ حشر:آیت۱۶)

کبھی بھی ابلیس اور انسان کی بالمشافہ بات چیت نہیں ہوئی کہ وہ اسے حکم دے کہ وہ کا فر ہو جائے بلکہ یہ صرف وسوسہ اور باطنی تحریک ہے جو کہ ابلیس کے ذریعے انجام پذیر ہوتی ہے اور جو اس کی زبان حال ہے پھر جب وہ کامیاب ہو جاتا ہے تو انسانوں کا مذاق اڑاتا ہے کہ کس طرح دھوکا کھا کر انہوں نے اس کے بے وقعت وسوسوں کو قبول کر لیا اور اپنی عقل و فطرت کے پیغام توحید کو ذرّہ بھر اہمیت نہ دی۔ قرآن کریم میں قیامت کے دن کے حوالے سے ابلیس کی جو گفتگو نقل ہوئی ہے وہ بھی اسی نوعیت کی ہے۔

( وَقَالَ الشَّیْطٰنُ لَمَّا قُضِیَ الْاَمْرُ اِنَّ اللّٰهَ وَعَدَکُمْ وَعْدَ الْحَقِّ وَ وَعَدْتُّکُمْ فَاَخْلَفْتُکُمْ وَمَاکَانَ لِیَ عَلَیْکُمْ مِّنْ سُلْطٰنٍ اِلآَّ اَنْ دَعَوْتُکُمْ فَاسْتَجَبْتُمْ لِیْ فَلَا تَلُوْمُوْنِیْ وَلُوْمُوْا اَنْفُسَکُمْ مَا اَنَا بِمُصْرِخِکُمْ وَمَآاَنْتُمْ بِمُصْرِخِیَّ اِنِّیْ کَفَرْتُ بِمَآ اَشْرَکْتُمُوْنِ مِنْ قَبْلُ ) (سورہ ابراہیم:آیت۲۲)

”اور جب سب امور کا فیصلہ ہو جائے گا تو شیطان کہے گا یقینا اللہ تعالیٰ نے تم سے سچا وعدہ کہا تھا اور میں نے بھی تم سے وعدہ کیا تھا پھر میں نے تم سے وعدہ خلافی کی اور میرا تم پر کوئی زور نہ تھا سوائے اس کے کہ میں نے تمہیں بلایا اور تم نے میرا کہنا مان لیا پس تم مجھے ملامت نہ کرو بلکہ اپنے آپ کو ہی ملامت کرو نہ میں تمہارا فریاد رس ہوں اور نہ تم میرے فریاد رس ہوجس کا تم نے مجھے شریک بنایا تھا میں تو اس کا پہلے ہی سے منکر تھا۔"

۵۰

یہ گفتگو اپنے استدلال کے ساتھ مکمل طور پر واقعات کے واضح ہونے کی حکایت کرتی ہے اس دن سب پر حقیقت واضح اور آشکار ہو جائے گی کہ انسانوں کے مقابلے میں ابلیس کی حالت اور کیفیت یہ ہو گی کہ وہ انسانوں پر حیرت کا اظہار کرے گا کہ انہوں نے اس کی بے وقعت باتوں کو کس طرح قبول کرلیا جبکہ انسان شیطان کو مورد الزام ٹھہرا رہے ہوں گےدر حقیقت انہیں یقین نہیں تھا مگر پھر بھی ان لوگوں نے بے حقیقت وعدوں پر اعتبار کر کے اپنے دلوں کو خو ش رکھا( بَلِ الْاِنْسَانُ عَلٰی نَفْسِه بَصِیْرَةٌ وَّلَوْ اَلْقٰی مَعَاذِیْرَه ) (سورہ قیامت:آیات۱۳تا۱۴)

بلکہ انسان اپنے نفس کا برا دیکھنے والا ہے اگرچہ وہ اپنے عذر پیش کیا کرے۔

اور اسی طرح جنگ بدر کے موقع پر مشرکین سے یہ گفتگو بھی قرآن کریم میں منقول ہے کہ :

( وَاِذْ زَیَّنَ لَهُمُ الشَّیْطٰنُ اَعْمَالَهُمْ وَقَالَ لَا غَالِبَ لَکُمُ الْیَوْمَ مِنَ النَّاسِ وَاِنِّیْ جَارٌلَّکُمْ فَلَمَّا تَرَآءَ تِ الْفِئَتٰنِ نَکَصَ عَلٰی عَقِبَیْهِ وَقَالَ اِنِّیْ بَرِیءٌ مِّنْکُمْ اِنِیْ اَرٰی مَالَا تَرَوْنَ اِنِّیْ اَخَافُ اللّٰهَ ) (سورہ انفال:آیت۴۸)

”اور جب شیطان نے ان کے اعمال کو ان کے لیے آراستہ کر دیا اور اس نے کہا کہ آج کے دن تمہارے آدمیوں پر کوئی بھی غالب نہیں آئے گا اور میں یقینا تمہارا مددگار ہوں پھر جب دونوں لشکروں نے ایک دوسرے کو دیکھایعنی ایک دوسرے سے لڑنا شروع کیا تو شیطان اپنی ایڑیوں پر پلٹ گیا اور کہنے لگا یقینا میں تم سے بری ہوں اور بے شک میں وہ کچھ دیکھتا ہوں جو تم نہیں دیکھتے میں تو یقینا اللہ تعالیٰ سے ڈرتا ہوں۔"

۵۱

یہاں یہ جملہ کہ :( وقال:لاٰ غالب لکم ) درحقیقت ان (مشرکین)کے اس کردار کو سراہنا ہے کہ مشرکین اپنے دم،خم اور اسلحے کی بناء پر یہ خیال کر رہے تھے کہ کوئی بھی ان کے سامنے مقاومت کرنے کی جرات نہیں کر سکتا اور ان کی طاقت کے سامنے کوئی بھی نہیں ٹھہر پائے گا۔

لہذا یہ گفتگو سوائے اس بے وقعت گھمنڈ کی تحریک اور القا کے کچھ بھی نہیں جس کا منبع و سرچشمہ خود ان مشرکین کاغیر دانشمندانہ کردار اور طرز عمل تھا۔

مختصر یہ کہ ان مذکورہ تمام آیات میں سوائے اس کے کچھ بھی نہیں کہ باطنی خواہش کے اظہار کو قول سے تعبیر کیا گیا ہے مگر اس طرح سے نہیں جیسے انسان ظاہر کرتے ہیں اور ضروری ہے کہ اس طرح کا قیاس نہ کیا جائےاس لیے کہ ہر موجود اپنے باطن کے اظہار کے لیے مخصوص وسائل رکھتی ہے جو کہ اس کی حیثیت اور کیفیت کے متناسب ہوتے ہیں۔

۵۲

مبادی تدبر قرآن!ایک مطالعہ

مصنف: مولانا حمید الدین فراہی

ابوسفیان اصلاحی شعبہ عربی،مسلم یونیورسٹی علی گڑھ

ترجما ن القرآن مولانا حمید الدین فراہی کے شاگرد مولانا امین احسن اصلاحی کی شخصیت علمی دنیا اور اسلامی حلقوں میں تعارف کی محتاج نہیں، ان کی صلاحیت و لیاقت کے آثار مختلف میدانوں مثلاًخطابت،صحافت،فقہ،حدیث اور تفسیر میں نمایاں ہیںلیکن بعد میں اپنی تمام تر توجہ کا مرکز و محورانہوں نے قرآن کریم کو قرار دیاایک طرف انہوں نے اپنی تصانیف میں قرانیات کے مختلف پہلوؤں پر اظہار خیال کیااور دوسری طرف اپنے استاد گرامی کے بتائے ہوئے تفسیری اصولوں کو پیش نظر رکھتے ہوئے ”تدبر قرآن“کے نام سے ایک تفسیر لکھی یہ تفسیر اپنے نظریہ نظم قرآن کی رو سے دنیا کی تمام تفاسیر میں ممتاز و منفرد مقام کی حامل ہے یہ تفسیر کن اصولوں کو مدنظر رکھتے ہوئے ترتیب دی گئی ہے اور اس کے پیچھے کون سے جذبات و ارادے کارفرما ہیں ان کو جاننے کے لیے مولانا کی کتاب مُبادی تدبر قرآن ۱ کا مطالعہ کرنا از حد ضروری ہے یہ کتاب ایک طرح سے دیکھا جائے تو تفسیر تدبر قرآن کا مقدمہ ہے ۔ یہ کتاب اصلاًمولانا کے مختلف قرآنی مقالات کا مجموعہ ہے ،لیکن یہ مقالات اس انداز سے ترتیب دیئے گئے ہیں کہ یہ کتاب کی شکل اختیار کر گئے ہیںاس کے باوجود بھی کچھ مقالات میں تکرار کا توارد موجود ہے اس کتاب سے یہ بات وضاحت کے ساتھ سامنے آجاتی ہے کہ وہ کون سی چیزیں ہیں جنہیں مولانا حمید الدین فراہی اور مولانا محمد امین احسن اصلاحی فہم القرآن اور اس کے تفکر و تدبر کے لیے ضروری تصور کرتے تھےاور حدیث کے باب میں فقراہی اسکول کا کیا نقطہ نظرہے

____________________

۱۔”مبادی تدبر قرآن“ کی پہلی اشاعت اپریل ۱۹۵۱ءء میں تدبر قرآن کے عنوان سے ہوئی تھیجس میں صرف دو باب”تدبر قرآن ”اور ”تیسیر قرآن“ شامل تھے”تدبر قرآن“ ہی کے عنوان سے مئی ۱۹۵۲ءء میں جب اس کی دوسری اشاعت زیر عمل آئی تو اس میں دواورباب کے اضافے کئے گئے جن کے عناوین ”فہم قرآن کے لئے چند ابتدائی شرطیں“ اور ”تفسیر کے اصول“ تھےاس کا عنوان ”مبادی تدبر قرآن“ کر دیا گیا۔

۵۳

اس پر بھی تفصیل سے روشنی ڈالی گئی ہے۔(۲) یہ کتاب چار مقالات پر مشتمل ہے فہم قرآن کے لئے بعض ابتدائی شرطیں، تدبر قرآن،تیسیر قرآن ارو تفسیر کے اصول ان میں مقالہ تیسیرقرآن بڑی اہمیت کا حامل ہے اس مضمون سے یہ پتہ چلتا ہے کہ مولانا کی قرآن کریم پر گہری نظرتھی،اس میں تیسیر قرآن کے متعدد پہلوؤں کی طرف اشارہ کیا گیا ہے اور قرآن کریم کے بارے میں جو ایک عام تاثر یہ ہے کہ وہ اپنے معنی و مفہوم اور زبان و بیان کے لحاظ سے آسان ہے اس کی حکمتوں اورشیوں تک رسائی بہت معمولی چیز ہے مولانا نے دلائل کی روشنی میں اس کی تردید کی ہے اور تیسیر قران کا صحیح مفہوم پیش کیا ہے

”فہم قرآن“ کے تحت مولانا نے چند شرائط کا ذکر کیا ہے اور یہ شرائط فہم قرآن کے لئے اتنی ہی ضروری ہے جتنا کہ نماز کے لئے وضو اور طہارت،فہم قرآن کی اولین شرط نیت کی پاکیزگی ہے یعنی وہ قرآن کریم کا مطالعہ اس نیت سے کرے کہ وہ اس کے ذریعہ ہدایت اور فلاح کے راستوں کوپالے گا لیکن ایسے بہت سے حضرات جو اپنی ذاتی اغراض کے تحت قرآن کریم کا مطالعہ کرتے ہیںہو سکتا ہے کہ وہ اپنی ذاتی اغراض میں کامیابی حاصل کرلیں لیکن ہدایت قرآن سے محروم رہیں گے مولانا فرماتے ہیں قرآن مجید کو اللہ تعالیٰ نے ہدایت کا صحیفہ بنا کر اتارا ہے اورہر آدمی کے اندر طلب ہدایت کا داعیہ و دیعت کردیا ہے اگر اس داعیہ کے تحت آدمی قرآن مجید کی طرف متوجہ ہوتا ہے تو وہ قرآن مجیدسے بقدر کو شش اور بقدر توفیق الہی فیض پاتا ہے اور اگر اس داعیہ کے علاوہ کسی اور داعیہ کے تحت وہ قرآن کو استعمال کرنا چاہتا ہے تو ”لکل امرمانوی“کے اصول کے مطابق وہ وہی چیزپاتا ہے(۳) قرآن کریم میں اس کی طرف یوں اشارہ کیا گیا ہے

___________________

۲۔اس سلسلے میں دیکھیے؛مولانا حمید الدین قراہی اور علم حدیثمولانا امین احسن اصلاحی مرحوممجلہ الفرقان لکھنو جلد ۶۶،شمارہ ۰۹،دفتر ماہنامہ الفرقان۳۱/۱۴ اظہر آباد،لکھنو ستمبر ۱۹۹۸ء ،ص۱۴۱۸۔

۳۔تدبر قرآن امین احسن اصلاحی مکتبہ چراغ راہلوٹیا بلڈنگ آرام باغ روڈ کراچی باردوم مئی ۱۹۵۶ء ص۲۴۲۵

۵۴

( أُولَـٰئِكَ الَّذِينَ اشْتَرَوُا الضَّلَالَةَ بِالْهُدَىٰ فَمَا رَبِحَت تِّجَارَتُهُمْ وَمَا كَانُوا مُهْتَدِينَ ) (سورہ بقرہ:۱۶)

یہی لوگ ہیں جنہوں نے اختیار کیا گمراہی کو ہدایت کے بدلے تو ان کی یہ تجارت ان کے لئے نفع بخش نہ ہوئی اور وہ ہدایت پانے والے نہ ہوئے۔

نیت کی پاکیزگی کے بعد دوسری شرط یہ ہے کہ قرآن کریم کوایک برتر کلام اور دنیا کی عظیم کتاب مانا جائے کیونکہ بغیر اس کے اس کی حکمتوں او رخزینوں سے استفادہ ممکن نہیںقرآن کے طالب علم کے ذہن میں یہ چیز ارادے اوروثوق کے ساتھ موجود ہو کہ یہ کتاب ایک عظیم الشان تاریخ کی حامل ہے ایک معجز کلام ہے ایک آسمانی کتاب اور لوح محفوظ سے اترا ہوا کلام ہے یہ سب چیزیں اس لئے ضروری ہیں کہ منکرین یہ سمجھتے ہیں کہ یہ کتاب عرب کے بدوؤں کے لئے اتاری گئی تھی اور موجودہ حالات میں یہ کتاب اپنا کوئی مفہوم نہیں رکھتی اور اس کتاب کے ماننے والوں کا یہ خیال ہے کہ یہ کتاب حرام و حلال کے احکامات پر مبنی ہے اور جب سے فقہ کی تدوین ہو گئی ہے اس کی اہمیت میں اور کمی آگئی ہے اسے صرف متبرک کے نقطہ نظر سے دیکھتے ہیں بہت سے لوگ اسے اچھی نصیحتوں کا مجموعہ سمجھتے ہیں بہت سے لوگ اس کو نزع کی سختیوں کو دور کرنے اور ایصال ثواب کی کتاب سمجھتے ہیں اور بہت سے لوگ اس کودفع بلیات اورآفات کا تعویذ سمجھتے ہیں۔(۴)

فہم قرآن کی چوتھی شرط یہ ہے کہ قرآن کریم کے تقاضوں کو پورا کیا جائے اور اسی کے مطابق اپنے ظاہر و باطن کوتبدیل کیا جائے،اس نقطہ نظر سے قرآن کریم کا مطالعہ کیا جائے گا تو جگہ جگہ انسانی خواہشات قرآنی تقاضوں سے متصادم ہوتے ہوئے نظر آئیں گی اور انسان کو اپنے مطالبات سے باز آنا جوئے شیر لانے کے مترادف ہو گالیکن جس کے اندر استقلال اور پختہ ارادہ ہو گاوہ ضرور اپنے اندر قرآنی تقاضوں کے مطابق تبدیلی لائے گالیکن جوپرعزم نہیں ہے اس کے متعلق مولانا لکھتے ہیں وہ اس خلیج کو پاٹنے کی ہمت نہیں کرسکتا جو اپنے اور قرآن کے درمیان حائل پاتا ہے

____________________

۴۔ایضاًص۲۷۲۸

۵۵

وہ یہ محسوس کرتا ہے کہ اگر میں اپنے عقائد و تصورات کو قرآن کے مطابق بنانے کی کوشش کروں تو مجھے ذہنی اور فکری حیثیت سے نیا جنم لینا پڑے گا۔(۵)

لیکن جو لوگ مختلف آزمائشوں سے گزر کر بھی قرآنی تقاضوں اور قرآنی راستوں کو نہیں چھوڑتے ہیں اللہ ان کے لئے راہیں ہموار کر دیتا ہے اگر ایک دروازہ بند ہوتا ہے تو دوسرا دروازہ اس کے لئے کھول دیا جاتا ہے اگر ایک زمین اس کے لئے تنگ ہو جاتی ہے تو دوسری سرزمین اس کے لئے آغوش بن جاتی ہے قرآن کریم میں اسی چیز کی طرف یوں اشارہ کیا گیا

( وَالَّذِينَ جَاهَدُوا فِينَا لَنَهْدِيَنَّهُمْ سُبُلَنَا ۚ وَإِنَّ اللَّـهَ لَمَعَ الْمُحْسِنِينَ ) (سورہ عنکبوت۶۹)

اور جو ہماری راہ میں جدوجہد کریں گے ہم ضروران پر اپنی راہیں کھولیں گے اور اللہ خوبیوں کے طالبوں کے ساتھ ہے

قرآن کریم سے استفادہ کی چوتھی شرط تدبر ہے قرآن کریم نے تدبر نہ کرنے والوں کو ان لفظوں میں یاد کیا ہے

( أَفَلَا يَتَدَبَّرُونَ الْقُرْآنَ أَمْ عَلَىٰ قُلُوبٍ أَقْفَالُهَا )

کیا یہ لوگ قرآن پر غور نہیں کرتے یا ان کے دلوں پر تالے چڑھے ہو ئے ہیں۔

صحابہ کرام مستقل قرآن کریم پر غور کرتے اور اجتماعی طور پر قرآن کا مطالعہ کرتے خلفاء راشدین اور بالخصوص حضرت عمراس قسم کے حلقوں اور قرآن کریم کے ماہرین سے برابر دلچسپی لیتے صحابہ کرام صرف تبرک کے نقطہ نظر سے تلاوت نہ کرتے نہ ہی اسے جانکنی کی سختیوں کو آسان کرنے کے لئے پڑھتے اور نہ ہی اسے تعویذ کے طور پر استعمال کرتے۔(۶)

____________________

۵ ۔ایضاًص ۲۹ نمبر

۶ ۔ایضاً وضاحت کے لئے دیکھئے۳۲۳۴

۵۶

فہم قرآن کی پانچویں شرط یہ ہے کہ تدبر وتفکر کے وقت بہت سی ایسی مشکلات پیش آئیں گی کہ اسے بد دلی اور قنوطیت کی طرف لے جائیں گیلیکن ان حالات میں اسے دامن صبر کو ہاتھ سے نہ جانے دینا چاہیےمولانا فرماتے ہیں کہ اس طرح کی عملی و فکری مشکلوں اور الجھنوں سے نکلنے کا صحیح اور آزمودہ راستہ صرف یہ ہے کہ آدمی اللہ تعالیٰ سے دعا کرے اور قرآن مجید پر جما رہے اگر قرآن مجید یاد ہو تو شب کی نمازوں میں قرآن ٹھہر ٹھہر کر پڑھے انشاء اللہ اس کی ساری الجھنیں دور ہو جائیں گی اور حکمت قرآن کے ایسے دروازے اس پر کھل جائیں گے کہ پھر اس کو قرآن حکیم کی ہر مشکل آسان معلوم ہونے لگے گی۔(۷)

فہم قرآن کی شرائط کے بعد اس کتاب کا دوسرا باب”تدبر قرآن“ہے تدبر قرآن کے لئے کن کن امور کی ضرورت ہوتی ہے وہی چیزیں اس باب میں زیر بحث ہیں قرآن کریم نے جگہ جگہ تفکر و تدبر کی بات کہی ہے بغیر اس کے قرآنی اسرار وحکم کے دروازے کھل نہیں سکتے اور اس تفکر و تدبر کے کچھ ضابطے اور قواعد ہیںاگر انہیں نہ برتا گیا تو راہ ہدایت کا حصول ممکن نہیں ہو گایہی وجہ ہے کہ ماضی میں بے شمارفتنے پیدا ہوئے اور سبھوں نے قرآن کریم ہی سے دلائل پیش کئےمولانا فرماتے ہیں کہ خوارج اپنے گمان کے مطابق قرآن مجید ہی کے سہار ے ابھرے۔ باطینوں کے تمام استدلات کی بنیاد ان کے خیال میں قرآن مجید ہی پر ہےبابیوں اور سبائیوں نے جو کچھ کہا اپنے زعم کے مطابق قرآن مجید ہی سے کہاقادینوں کی نبوت کی اساس ان کے دعوے کے مطابق قرآن مجید ہی پر ہے اور چکڑالوی تو قرآن کے سوا کچھ بولتے ہی نہیں۔(۸)

آخر ایسا کیوں ہے؟جبکہ قرآن کریم ہدایت اور وضاحت کے لئے آیا تھااختلافات کو ختم کرنے کے لئے نازل کیا گیا تھااپنی تعلیمات میں غیر مشتبہ اور غیرمبھم ہے اور ہر اعتبار سے اس کے اندر ایک نظم، توافق اور کامل وحدت ہے۔ اگر ایسا ہے تو مناسب تو یہ تھا کہ تمام فرقوں کو ایک سطح پرلاکھڑا کر دیتا اور ان کے تمام اختلافات اور انتشارات کو مٹا دیتا

____________________

۷۔ایضاً ص۳۴۳۵

۸۔ایضاً ص۴۱۴۲

۵۷

مولانا نے اس کا جواب ان لفظوں میں دیا ہے ”قرآن مجید کے مطالعہ کے کچھ خاص آداب و قواعد ہیں جن کا لحاظ اور اہتمام ضروری ہے ان کے بغیر قرآن کی راہ نہیں کھل سکتی ان میں سب سے مقدم جیسا کہ اوپر ذکر کیا گیا ہے ارادہ اور نیت کی درستی ہے یہ اللہ کی کتاب ہے اور خلق کی ہدایت کے لئے نازل ہوئی ہے اس لئے سب سے مقدم یہ ہے کہ انسان بالکل خالی الذہن ہو کر اس کو صرف طلب ہدایت کے لئے پڑھے اور اپنے قلب و دماغ کو پورے طور پر اس کے حوالے کر دے اپنے د ل کی باگ اس کے ہاتھ میں دے دے۔(۹)

قرآن کریم نے اپنی خصوصیت کی طرف خود اشارہ کیا ہے:

( هُوَ الَّذِي أَنزَلَ عَلَيْكَ الْكِتَابَ مِنْهُ آيَاتٌ مُّحْكَمَاتٌ هُنَّ أُمُّ الْكِتَابِ وَأُخَرُ مُتَشَابِهَاتٌ ۖ فَأَمَّا الَّذِينَ فِي قُلُوبِهِمْ زَيْغٌ فَيَتَّبِعُونَ مَا تَشَابَهَ مِنْهُ ابْتِغَاءَ الْفِتْنَةِ وَابْتِغَاءَ تَأْوِيلِهِ ۗ وَمَا يَعْلَمُ تَأْوِيلَهُ إِلَّا اللَّـهُ ۗ وَالرَّاسِخُونَ فِي الْعِلْمِ يَقُولُونَ آمَنَّا بِهِ كُلٌّ مِّنْ عِندِ رَبِّنَا ۗ وَمَا يَذَّكَّرُ إِلَّا أُولُو الْأَلْبَابِ ) (آل عمران۔ ۷)

وہی ہے جس نے اُتاری تم پر کتاب جس میں سے کچھ آیات محکمات ہیں اور وہی اصل کتاب ہیں اور دوسری متشابہات ہیں تو جن لوگوں کے دلوں میں کجی ہے وہ قرآن کی متشابہات کے پیچھے پڑتے ہیں فتنہ پیدا کرنے کے لئے اور اس کی اصل ماہیت دریافت کرنے کے لئے حالانکہ اس کی ماہیت نہیں معلوم ہے مگر اللہ کو اور جو علم میں پختہ ہیں وہ کہتے ہیں ہم ان پر ایمان لائے سب ہمارے رب کی طرف سے ہے اور نہیں سمجھتے ہیں مگر وہ جو عقل والے ہیں۔

اس کے بعد مولانانے بتایا کہ قرآن کریم میں دو طرح کی آیات ہیں محکم اور متشابہہ اور اس کے بعد اس پر اظہار خیال کیا ہے کہ قرآن پڑھنے والوں کی دو قسمیں ہیں ایک تو وہ حضرات جو صرف طلب رشد وہدایت کے لئے پڑھتے ہیںچنانچہ آیات محکمات ان کے لئے طمانیت اور ذہنی آسودگی کا سبب بن جاتی ہیںاورجب کبھی وہ ذہنی وساوس اور خلجان میں مبتلا ہوتے ہیں

____________________

۹۔ایضاً ص۴۲۴۳

۵۸

تو ان کی زبان پر یہ دعا جاری ہوجاتی ہے۔(۱۰)

( رَبَّنَا لَا تُزِغْ قُلُوبَنَا بَعْدَ إِذْ هَدَيْتَنَا وَهَبْ لَنَا مِن لَّدُنكَ رَحْمَةً ۚ إِنَّكَ أَنتَ الْوَهَّابُ ) (سورہ آل عمران:۸)

اے ہمارے رب ہم کوہدایت دینے کے بعد ہمارے دلوں کوڈانوا ڈول نہ کر، اپنے پاس سے ہم کو رحمت بخش تو بڑا بخشنے والاہے۔

دوسری جماعت ان لوگوں کی ہے جو اپنے اغراض و خواہشات کی تکمیل کے لئے قرآن کریم کا مطالعہ کرتے ہیںمولانا فرماتے ہیں کہ ان کا مقصود و طلب رشدوہدایت سے زیادہ یہ ہوتا ہے کہ اپنے کسی قرار داد، مسلک کی تائید کے لئے اس میں دلیلیں تلاش کریںیا جن سے ان کو اختلاف ہے ان کو چپ کرانے کے لئے اس میں سے اعتراضات کج بحثیاں ڈھونڈ ڈھونڈ کر نکالیں۔(۱۱)

جبکہ قرآن کریم تطہیر قلب اور روح کے تزکیہ کے لئے نازل کیا گیا ہےیہ دماغی عیاشیوں اور کج بخثی؟ کے لئے نہیں نازل کیا گیاہےقرآن کریم میں ارشاد ہے۔

( إِنَّ فِي ذَٰلِكَ لَذِكْرَىٰ لِمَن كَانَ لَهُ قَلْبٌ أَوْ أَلْقَى السَّمْعَ وَهُوَ شَهِيدٌ ) (سورہ ق:۳۷)

اس کے اندر اس شخص کے لئے یاددہانی ہے جس کے پاس بیدار دل ہو یا وہ کان لگائے متوجہ ہوکر۔

یعنی قرآن کریم ان لوگوں کے لئے صحیفہ ہدایت ہے جو

( إِلَّا مَنْ أَتَى اللَّهَ بِقَلْبٍ سَلِيمٍ )

مگر جو اللہ کے پاس قلب سلیم لے کر آئے۔

____________________

۱۰۔وضاحت کے لئے دیکھیےص۴۴۴۶ -------- ۱۱۔ایضاً ص۴۷

۵۹

اور اسی طرح سورہ ق میں آیا ہے کہ”وجاء بقلب منیب“(جو متوجہ ہونے والا دل لے کر آئے)جو لوگ قلب سلیم اور قلب منیب کے بغیر قرآن کریم کا مطالعہ کرتے ہیں ان کے لئے یہ کتاب کتاب ہدایت ثابت نہیں ہو سکتی۔(۱۲)

قرآن کریم میں ارشاد ہے:

( الَّذِينَ يُجَادِلُونَ فِي آيَاتِ اللَّـهِ بِغَيْرِ سُلْطَانٍ أَتَاهُمْ ۖ كَبُرَ مَقْتًا عِندَ اللَّـهِ وَعِندَ الَّذِينَ آمَنُوا ۚ كَذَٰلِكَ يَطْبَعُ اللَّـهُ عَلَىٰ كُلِّ قَلْبِ مُتَكَبِّرٍ جَبَّارٍ ) (سورہ غافر:۳۵)

قرآن کریم کانزول اس لیے ہو ا ہے کہ وہ لوگوں کو تاریکیوں سے نکال کر اجالوں کی طرف لے آئے لیکن یہ ہدایت اور ضلالت قرآن کریم کے قانون اور ضابطے کے مطابق ہوتی ہے اللہ قانون حکمت کے مطابق جس کو چاہتا ہے ہدایت دیتا ہے اور جس کو چاہتا ہے ضلالت دیتا ہے وہ اہل ایمان کو ہدایت دیتا ہے او اہل کفر جن کے اولیاء طاغوت ہیں انہیں ضلالت سے ہم کنار کرتا ہے مولانا نے سورہ بقرہ کی آیات ۲۵۸سے۲۶۰ تک نقل کی ہیں جن سے تین ایسے لوگوں کی مثالیں پیش کی ہیںجنہیں تاریکی سے نکال کر روشنی کی طرف لاتا ہے یا ان کو تاریکی میں چھوڑدیتا ہے ایک تو وہ ہے جو اپنی دولت و حکومت اور سلطنت و عظمت کے نشہ میں مخبوط ہے وہ حضرت ابراہیم کی پیش کردہ روشنی سے اعراض کرتا ہے اور دوسرا وہ شخص ہے جو یقین و بصیرت کا طلبگار ہے طلب ہدایت اور حصول رشد کے لئے مضطرب ہے مولانا ایسے حیرت زدہ شخص کے لئے لکھتے ہیں” وہ بستیوں کے ہجوم سے بھاگتا اور شہروں کے اژدھام سے گھبراتا ہے اور چاہتا ہے کہ کسی مقام عبرت و موعظت کا کوئی خلوت کدہ میسر آجائے تو اپنے سوالوں کو لے کر بیٹھ جائے جن کے جواب کے لئے وہ ہمہ وقت تشنہ و بیقرار ہے اللہ تعالیٰ ایسے شخص کی تمام الجھنوں کو دورکر دیتا ہے اور وہ یقین کامل کی روشنی سے معمور ہو کر پکار اٹھتا ہے کہ اللہ ہر چیز پر قادر ہے:

( فَلَمَّا تَبَيَّنَ لَهُ قَالَ أَعْلَمُ أَنَّ اللَّـهَ عَلَىٰ كُلِّ شَيْءٍ قَدِيرٌ ) (سورہ البقرة:۲۵۹)

____________________

۱۲۔ایضاً ص۱۲

۶۰

61

62

63

64

65

66

67

68

69

70

71

72

73

74

75

76

77

78

79

80

81

82

83

84

85

86

87

88

89

90

91

92

93

94

95

96

97

98

99

100

101

102

103

104

105

106

107

108

109

110

111

112

113

114

115

116

117

118

119

120

121

122

123

124

125

126

127

128

129

130

131

132

133

134

135

136

137

138

139

140

141

142

143

144

145

146

147

148

149

150

151

152

153

154

155

156

157

158

159

160

حوالہ

آثار الصادقین،جلد۱۴،صفحہ۴۹۲،نقل از ”امام الصادق“،جلد۲،صفحہ۵۸۲۔

(ت)۔عَنْ اِبْنِ عَبّٰاسٍ قٰالَ:کُنْتُ أِسِیْرُ مَعَ عُمَرَبْنِ الْخَطّٰابِ فِی لَیْلَةٍ،وَوَعُمَرعَلیٰ بَغْلٍ وَ اَناعَلیٰ فَرَسٍ،فَقَرَأَ آ یَةً فِیْهٰا ذِکْرُ عَلِیِّ بْنِ اَبِیْ طٰالِبِ فَقٰالَ:أَمٰاوَاللّٰهِ یٰا بَنِی عَبْدُالْمُطَّلِبْ لَقَدْ کٰانَ عَلِیٌّ فِیْکُمْ أَوْلیٰ بِهٰذَاالأَمْرِمِنِّی وَمِنْ أَبِیْ بَکْرٍ،(اِلٰی اَنْ قٰالَ) وَاللّٰهِ مٰا نَقْطَعُ اَمْراً دُوْنَهُ،وَلاٰ نَعْمَلُ شَیْئاً حَتّٰی نَسْتَأذِنَهُ

”ابن عباس روایت کرتے ہیں ، وہ کہتے ہیں کہ ایک شب میں اور حضرت عمرہم سفر تھے۔ حضرت عمرخچر پر سوار تھے اور میں گھوڑے پر۔ اس دوران ایک آیت پڑھی گئی۔ اُس آیت میں حضرت علی ابن ابی طالب علیہ السلام کا ذکر آیا۔ اُس پر حضرت عمر بن خطاب نے کہا:خدا کی قسم! اے عبدالمطلب کے بیٹو! ہوشیاررہو۔ تم سب میں علی علیہ السلام سب سے زیادہ اس (خلافت) کے اہل ہیں، مجھ سے اور ابو بکر سےیہاں تک کہ خدا کی قسم! میں کسی کام کو بھی اُن(علی علیہ السلام) کے بغیر مکمل نہیں کروں گا اور کوئی کام اُن کی اجازت کے بغیر نہیں کرونگا“۔

حوالہ راغب،محاضرات میں، جلد۷،صفحہ۲۱۳۔

(ث) عَنِ الْحٰافِظِ الدّٰارِالْقُطْنِیْ عَنْ عُمَرَ، وَقَدْجٰاءَ هُ اَعْرٰابِیّٰانِ یَخْتَصِمٰانِ فقالَ لِعَلِیٍّ:اِقْضِ بَیْنَهُمٰا

فَقٰالَ اَحَدُهُمٰا:هٰذَا یَقْضِی بَیْنَنٰا؟!فَوَثَبَ اِلَیْهِ عُمَرُوَاَحَدَ بِتَلْبِیْبِهِ،وََقٰالَ وَیْحَکَ مٰا تَدْرِی مَنْ هٰذَا؟هٰذَا مَولاٰیَ وَمَنْ لَمْ یَکُنْ مَوْلاٰهُ فَلَیْسَ بِمُومِنٍ

۱۶۱

”حافظ دار قطنی حضرت عمر بن خطاب سے روایت کرتے ہیں کہ دو عرب لڑتے جھگڑتے حضرت عمر کے پاس آئے۔ پس حضرت عمر نے حضرت علی علیہ السلام سے درخواست کی کہ ان کے درمیان فیصلہ فرمادیجئے۔اُن میں سے ایک نے کہا کہ کیا یہ شخص ہمارے درمیان فیصلہ کرے گا؟یہ سن کر حضرت عمراُس شخص کی طرف لپکے اور اُس کا گریبان پکڑ کر کہا:حیف ہے تجھ پر۔ کیا تو جانتا ہے کہ یہ شخص کون ہے؟ یہ میرے مولیٰ ہیں اور جس کے یہ مولیٰ نہیں، وہ شخص مومن نہیں“۔

حوالہ ابن عساکر، تاریخ دمشق ،جلد۲،صفحہ۸۲،باب حال امام علی علیہ السلام،حاشیے پر۔

(خ)۔عَنْ عُمَیْرِبْنِ بِشْْرٍالْخَثْعَمِیّ قٰالَ:قٰالَ عُمَرُ:عَلِیٌّ اَعْلَمُ النّٰاسِ بِمٰااَنْزَلَ اللّٰهُ عَلیٰ مُحَمَّدٍ ۔

”عمیر بن بشیر کہتے ہیں کہ عمر بن خطاب نے کہا کہ حضرت علی علیہ السلام سب انسانوں سے بڑے عالم ہیں اُس میں جو اللہ تعالیٰ نے حضرت محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم پر نازل فرمایا ہے“۔

حوالہ بوستان معرفت،ص۶۷۷نقل از حسکانی، شواہد التنزیل جزو اوّل،ص۳۰حدیث۲۹

(ذ)۔قال عُمَرُبْنُ الْخَطّٰابِ(یَوْمَ غَدِیْرِخُمٍّ)هَنِیئاً لَکَ یَابْنَ اَبِی طٰالِبٍ اَصْبَحْتَ مَوْلیٰ کُلِّ مُومِنٍ وَمُومِنَةٍ ۔

”حضرت عمر بن خطاب نے غدیر خم کے دن( جس دن پیغمبر اکرم نے حضرت علی علیہ السلام کو ولایت پر منصوب فرمایا تھا) حضرت علی علیہ السلام سے کہا :یا علی !آپ کو مبارک ہو، آپ سب مومن مردوں اور عورتوں کے مولیٰ ہوگئے ہیں“۔

حوالہ جات

۱۔ ابن عساکر،تاریخ دمشق ، باب حال علی ،جلد۲،صفحہ۴۸تا۵۱(شرح محمودی)۔

۲۔ ابن کثیر، کتاب البدایہ والنہایہ،جلد۷،صفحہ۳۵۰۔

۳۔ گنجی شافعی، کتاب کفایة الطالب میں،باب اوّل، صفحہ۶۲(حضرت ابوبکر اور عمر کی حضرت علی علیہ السلام کو مبارک باد)۔

۴۔ شیخ سلیمان قندوزی حنفی،ینابیع المودة، باب مناقب السبعون،صفحہ۲۸۳،حدیث۵۶اور باب۴،صفحہ۳۳،۳۴اور دوسرے۔

۱۶۲

(ض)۔عَنْ عُمَرَبْنِ الْخَطّٰابِ اَنَّهُ قٰالَ:اُشْهِدُ عَلیٰ رَسُوْلِ اللّٰهِ لَسَمِعْتُهُ وَهُوَیَقُوْلُ:لَوْاَنَّ السَّمٰاوٰاتِ السَّبْعَ وُضِعَتْ فِیْ کَفَّةٍ وَوُضِعَ اِیْمٰانُ عَلِیٍّ فِیْ کَفَّةٍ لَرَجَّعَ اِیْمٰانُ عَلِیٍ ۔

”حضرت عمر بن خطاب کہتے ہیں کہ میں شہادت دیتا ہوں کہ میں نے رسول خدا سے سنا کہ اگر ساتوں آسمانون کو ترازو کے ایک پلڑے میں رکھ دیا جائے اور دوسرے پلڑے میں حضرت علی کا ایمان رکھ دیا جائے تو علی علیہ السلام کے ایمان والا پلڑا بھاری رہے گا“۔

حوالہ کنزالعمال،جلد۱۲،صفحہ۴۸۹(موسسة الرسالہ،بیروت،اشاعت پنجم)۔

(ظ)۔عَنْ اِبنِ عَبّٰاسٍ قٰالَ:سَمِعْتُ عُمَرَبْنِ الْخَطّٰابِ یَقُوْلُ:قٰالَ رَسُوْلُ اللّٰهِ صَلَّی اللّٰهُ عَلَیْهِ وَآلِه وَسَلَّمْ:یٰاعَلِیُّ اَنْتَ اَوَّلُ الْمُسْلِمِیْنَ اِسْلاٰماً وَاَوَّلُ الْمُومِنِیْنَ اِیْمٰاناً ۔

”ابن عباس کہتے ہیں کہ میں نے عمر بن خطاب سے سنا ،حضرت عمر کہتے ہیں کہ پیغمبر اکرم نے فرمایا :یا علی ! آپ مسلمین میں پہلے مسلمان ہیں اور مومنین میں پہلے مومن ہیں“۔

حوالہ جات

۱۔ آثار الصادقین، جلد۱۴،صفحہ۳۴،نقل ازمناقب ابن شہر آشوب،جلد۲،صفحہ۶۔

۲۔ متقی ہندی،کتاب کنزالعمال میں،روایت کے آخر میں،جلد۶،صفحہ۳۹۵۔

(غ)۔عُمَرُبْنُ الْخَطّٰابِ رَفَعَهُ:لَوِاجْتَمَعَ النّٰاسُ عَلیٰ حُبِّ عَلِیِّ بْنِ اَبِیْ طٰالِبٍ لَمٰاخَلَقَ اللّٰهُ النّٰارَ ۔

”حضرت عمر بن خطاب (حدیث مرفوع) روایت کرتے ہیں جس میں پیغمبر اکرم نے فرمایا تھا کہ اگر تمام انسان علی کی دوستی و محبت پر اکٹھے ہوجاتے تو اللہ تعالیٰ جہنم کو پیدا نہ فرماتا“۔

حوالہ شیخ سلیمان قندوزی حنفی، کتاب ینابیع المودة، باب المودة السادسة،صفحہ۲۹۹۔

۱۶۳

ایک اور مثال

”حضرت عمر بن خطاب اپنی خلافت کے دوران حج سے مشرف ہوئے اور طواف کے دوران اُن کی نظر ایک جوان پر پڑی کہ اُس کی صورت ایک طرف سے سیاہ ہوگئی تھی اورآنکھیں سرخ اور خون آلودہ تھیں۔ حضرت عمر نے اُس کو آواز دی اور کہا:

یٰافتٰی مَنْ فَعَلَ بِکَ هٰذَا؟

اے جوان! تجھے اس طرح کس نے کیا اور تجھے کس نے مارا ہے؟ اُس جوان نے جواب دیا:

ضَرَبَنِی اَ بُوْالْحَسَنِ عَلِیُّ بْنُ اَبِیْ طٰالِبٍ ۔

حضرت علی علیہ السلام نے مجھے مارا ہے۔ حضرت عمر نے کہا: تھوڑا رک جاؤکہ علی علیہ السلام آجائیں۔ اسی حال میں علی ابن ابی طالب علیہ السلام وہاں پہنچ گئے۔ عمر نے کہا:

یٰا عَلِیُّ أَ اَنْتَ ضَرَبْتَ هٰذَاالشَّبٰابَ؟

یا علی ! کیا آپ نے اس جوان کو مارا ہے؟ علی علیہ السلام نے جواب دیا کہ ہاں! میں نے اسے مارا ہے۔ عمر نے کہا: کیا وجہ بنی کہ آپ نے اس کو مارا ہے؟ علی علیہ السلام نے جواب دیا:

رَأَیْتُهُ یَنْظُرُ حُرُمَ الْمُسْلِمِیْنَ

میں نے اسے مسلمان عورتوں اور ناموس مسلمین کی طرف نگاہ کرتے ہوئے دیکھا۔ عمر نے جواب دیا:اے جوان! لعنت ہو تجھ پر،یہاں سے اٹھ اور چلا جا۔

فَقَدْ رَاٰ کَ عَیْنُ اللّٰه وَضَرَبَکَ یَدُاللّٰهِ

بے شک تمہیں اللہ کی آنکھ نے دیکھا اور اللہ کے ہاتھ نے مارا ہے“۔

حوالہ جات

”میں شیعہ کیوں ہوا“، تالیف محمد رازی، صفحہ۲۱۸،نقل از شہرستانی”ملل و نحل“ اور طبری،ریاض النظرہ میں اور ابن ابی الحدید،شرح نہج البلاغہ۔

۱۶۴

۳۔کلام حضرت عثمان بن عفان

(الف)رَجَعَ عُثْمٰانُ اِلٰی عَلِیٍّ فَسَأَ لَهُ الْمَصِیْرَاِلَیْهِ،فَصٰارَاِلَیْهِ فَجَعَلَ یَحُدُّ النَّظَرُ اِلَیْهِ،فَقٰالَ لَهُ عَلِیٌّ:مٰالَکَ یٰاعُثْمٰانُ؟مٰالَکَ تَحُدُّ النَّظَرَ اِلَیَّ؟قٰالَ:سَمِعْتُ رَسُوْلَ اللّٰهِ یَقُوْلُ:النَّظَرُاِلٰی عَلِیٍّ عِبَادَةٌ ۔

”حضرت عثمان،حضرت علی علیہ السلام کی طرف پلٹے اور اُن سے درخواست کی کہ وہ اُن کی طرف آجائیں۔ حضرت علی علیہ السلام، حضرت عثمان کی طرف آئے۔ اُس وقت حضرت عثمان نے حضرت علی علیہ السلام کی طرف دیکھنا شروع کیا۔ حضرت علی علیہ السلام نے حضرت عثمان سے پوچھا کہ اے عثمان!تمہیں کیا ہوگیا ہے؟ تم میری طرف کیوں دیکھ رہے ہو؟تو حضرت عثمان نے جواب دیا کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے سنا ہے کہ رسول خدا نے فرمایا کہ’علی کے چہرے کی طرف دیکھنا عبادت ہے‘۔“

حوالہ جات

۱۔ ابن کثیر، کتاب البدایہ والنہایہ میں،جلد۷،صفحہ۳۵۸،باب فضائل علی علیہ السلام۔

۲۔ ابن عساکر، تاریخ دمشق میں، باب حال امام علی ،جلد۲،صفحہ۳۹۳(شرح محمودی)۔

۳۔ سیوطی، کتاب تاریخ الخلفاء میں،صفحہ۱۷۲۔

(ب)۔ خلیفہ سوم حضرت عثمان نے تین مرتبہ حضرت علی علیہ السلام کو دعوت دی کہ وہ اُن کے ساتھ تعاون کریں۔ پہلی مرتبہ ۲۲ھ میں یعنی اُسی سال جب وہ خلیفہ بنے۔ دوسری مرتبہ ۲۷ھ میں اور تیسری مرتبہ۳۲ھ میں۔ حضرت علی علیہ السلام نے کسی دفعہ بھی حضرت عثمان کی کسی دعوت کو سیاسی تعاون کیلئے قبول نہ کیا۔ البتہ ہر دفعہ حضرت علی علیہ السلام یہی جواب دیتے رہے کہ ایک کام واجب ہے یعنی قرآن کی جمع آوری اور اُس کو ایک کتابی شکل دینا۔ میں اس واجب شرعی کام کیلئے تم سے تعاون کرنے کیلئے تیار ہوں۔

حوالہ

فواد فاروقی، کتاب پچیس سال خاموشی علی علیہ السلام، نقل از روڈولف زائیگر کی کتاب”علم اور تلوار کا خداوند“۔

۱۶۵

(ج)۔ حضرت عثمان کا حضرت علی علیہ السلام سے خطاب:

”خدا کی قسم! اگر قرار یہ ہو کہ آپ (علی علیہ السلام) مجھ سے پہلے مرجائیں تو میں زندہ رہنے کو پسند نہیں کرتا کیونکہ میں آپ کے علاوہ اپنا کوئی جانشین نہیں دیکھتا اور اگر آپ زندہ رہیں تو میں کسی بھی سرکش اور باغی کو نہیں دیکھتاجو آپ کورہبر،مددگار اور مستضعفین کی پناہ گاہ کے طور پر انتخاب کرے میری نسبت تو آپ سے وہی ہے جو کسی عاق شدہ بیٹے کی باپ سے ہو“۔

حوالہ ”امام علی علیہ السلام“باب روزگار عثمان، تالیف عبدالفتاح عبدالمقصود،صفحہ۲۰۲۔

فضائل علی علیہ السلام اُم المومنین حضرت عائشہ کی نظر میں

حضرت عائشہ،حضرت ابوبکر بن ابی قحافہ کی بیٹی اور پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی زوجہ تھیں۔ معتبر تواریخ سے پتہ چلتا ہے کہ حضرت عائشہ کا رویہ حضرت علی علیہ السلام،جناب فاطمہ سلام اللہ علیہا اور اُن کے دو فرزندان ارجمندکے ساتھ اچھا نہ تھا اوراس کااظہار جنگ جمل میں مکمل طور پر ہوا۔ وہ کھل کر حضرت علی علیہ السلام کے مقابل آگئیں جبکہ پیغمبر اکرمنے واضح طور پر پیروی اور اطاعت علی علیہ السلام کا حکم دیا تھا۔

لیکن اہم نکتہ یہ ہے کہ فضائل و کمالات علی علیہ السلام اور اہل بیت اطہار اس قدر زیادہ ہیں کہ کوئی بھی ان کو چھپا نہیں سکتا۔ اس کی مثال ایسے ہے جیسے چمکتے آفتاب کی روشنی کو کوئی بھی چیز ڈھانپ نہیں سکتی۔ حضرت عائشہ بھی باوجودیکہ اُن کی سوچ علی علیہ السلام کے بارے میں مختلف تھی، حضرت علی کے فضائل کی معترف ہوئے بغیر نہ رہ سکیں۔آئیے اب اُن کے کلام کی طرف متوجہ ہوتے ہیں۔

۱۶۶

(الف)۔عَنْ هِشٰامِ بْنِ عُرْوَةٍ،عَنْ اَبِیْهِ،عَنْ عٰائِشَةَ قٰالَتْ:قٰالَ رَسُوْلُ اللّٰهِ صَلَّی اللّٰهُ عَلَیْهِ وَآلِه وَسَلَّمْ ذِکْرُ عَلِیٍّ عِبٰادَةٌ ۔

”ہشام بن عروہ اپنے والد سے اور وہ حضرت عائشہ سے روایت کرتے ہیں کہ حضرت عائشہ نے کہا کہ پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ارشاد فرمایا کہ علی کا ذکر کرنا عبادت ہے“۔

حوالہ جات

۱۔ ابن مغازلی، مناقب میں، حدیث۲۴۳،صفحہ۲۰۶۔

۲۔ ابن عساکر،تاریخ دمشق،باب حال امام علی ،ج۲ص۴۰۸حدیث۹۱۴شرح محمودی

۳۔ ابن کثیر، کتاب البدایہ والنہایہ میں،جلد۷،صفحہ۳۵۸۔

۴۔ متقی ہندی،کنزالعمال میں،جلد۱۱،صفحہ۶۰۱۔

۵۔ سیوطی،تاریخ الخلفاء میں،صفحہ۱۷۲۔

۶۔ شیخ سلیمان قندوزی حنفی، ینابیع المودة،باب مناقب السبعون،ص۲۸۱،حدیث۴۶ اور۳۱۲۔

(ب)۔عَنْ عٰائِشَةَ،اَنَّ رَسُوْلَ اللّٰهِ صَلَّی اللّٰهُ عَلَیْهِ وَآلِه وَسَلَّمْ خَرَجَ وَعَلَیْهِ مَرْطٌ مُرَجَّلٌ مِنْ شَعْرٍأَسْوَدٍ،فَجٰاءَ الْحَسَنُ فَأَدْخَلَهُ،ثُمَّ جٰاءَ الْحُسَیْنُ فَاَدْخَلَهُ،ثُمَّ فٰاطِمَةٌ،ثُمَّ عَلِیُّ،ثُمَّ قٰالَ:اِنَّمٰایُرِیْدُاللّٰهُ لِیُذْهِبَ عَنْکُمُ الرِّجْسَ أَهْلَ الْبَیْتِ

”حضرت عائشہ روایت کرتی ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم باہر آئے۔ انہوں نے چادر اوڑھی ہوئی تھی جو سیاہ ریشوں سے بنی ہوئی تھی۔ اتنے میں حضرت حسن علیہ السلام آئے، آپ نے انہیں چادر کے اندر کرلیا۔پھر امام حسین علیہ السلام آئے، آپ نے انہیں بھی چادر کے اندر کرلیا۔ اس کے بعد فاطمہ سلام اللہ علیہا اور علی علیہ السلام تشریف لائے، وہ بھی چادر کے اندر آگئے(جب یہ ہستیاں چادر کے اندر آگئیں) تو پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے قرآن کی یہ آیت تلاوت فرمائی:

۱۶۷

بِسْمِ اللّٰهِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْم

( اِنَّمٰا یُرِیْدُ اللّٰهُ لِیُذْهِبَ عَنْکُمُ الرِّجْسَ اَهْلَ الْبَیْتِ وَ یُطَهِّرَکُمْ تَطْهِیْرا )

”اے اہل بیت ! سوائے اس کے نہیں ہے کہ اللہ تعالیٰ یہ چاہتا ہے کہ تم کو ہر قسم کے رجس سے دوررکھے اور تم کو ایسا پاک رکھے جیسا کہ پاک رکھنے کا حق ہے“۔

حوالہ

زمخشری،تفسیر کشاف،ج۱،ص۳۶۹،ذیل آیت۶۱،سورئہ آل عمران’فَمَنْ حَاجَّکَ

(ج)۔عَنْ عٰائِشَةَقٰالَتْ:رَحِمَ اللّٰهُ عَلِیّاً لَقَدْکٰانَ عَلَی الْحَقِّ

”حضرت عائشہ کہتی ہیں کہ اللہ تعالیٰ علی پر رحمت نازل فرمائے، بیشک وہ حق پر تھے“۔

حوالہ ابن کثیر، کتاب البدایہ والنہایہ میں،جلد۷،صفحہ۳۰۵،حدیث۱۴۔

(د)۔عَنْ جَمیعِ بْنِ عُمَیْرٍقٰالَ دَخَلْتُ عَلیٰ عٰائِشَةَ،فَقُلْتُ لَهٰا:مَنْ کٰانَ اَحَبُّ النّٰاسِ اِلیٰ رَسُوْلِ اللّٰهِ صَلَّی اللّٰهُ عَلَیْهِ وَآلِه وَسَلَّمْ قٰالَتْ:أَمّٰامِنَ الرِّجٰالِ فَعَلِیٌّ،وَأَمّٰامِنَ النِّسٰاءِ فَفٰاطِمَةُ ۔

”جمیع بن عمیر سے روایت ہے ،وہ کہتے ہیں کہ میں حضرت عائشہ تک پہنچا اور میں نے اُن سے پوچھا کہ پیغمبرصلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے نزدیک محبوب ترین شخص کون ہے؟حضرت عائشہ نے کہا کہ مردوں میں حضرت علی علیہ السلام اور عورتوں میں جناب سیدہ فاطمہ سلام اللہ علیہا ہیں“۔

۱۶۸

حوالہ جات

۱۔ حاکم، المستدرک میں،جلد۳،صفحہ۱۵۴،۱۵۷۔

۲۔ شیخ سلیمان قندوزی حنفی، کتاب ینابیع المودة، باب۵۵،صفحہ۲۰۲،۲۴۱۔

۳۔ ابن عساکر، تاریخ دمشق ، باب شرح حال امام علی ،جلد۲،صفحہ۱۶۷،شرح محمودی۔

۴۔ ابن کثیر، کتاب البدایہ والنہایہ میں،جلد۷،صفحہ۳۵۵اور دوسرے۔

(ھ)۔عَنْ شُرَیْحِ بْنِ هٰانِی،عَنْ اَبِیهِ،عَنْ عٰائِشَةَ قٰالَتْ:مٰاخَلَقَ اللّٰهُ خَلْقاً کٰانَ اَحَبُّ اِلیٰ رَسُوْلِ اللّٰهِ مِنْ عَلِیٍّ ۔

”شریح بن ہانی اپنے باپ سے روایت کرتے ہیں کہ حضرت عائشہ نے کہا کہ اللہ نے کسی کو خلق ہی نہیں کیا جو رسول اللہ کو علی سے زیادہ محبوب ہو“۔

حوالہ

ابن کثیر،تاریخ دمشق ،باب حال امام علی ،ج۲،ص۱۶۲،حدیث۶۴۸،شرح محمودی

(و) عَنْ عَطٰاءٍ قٰالَ:سَأَلْتُ عٰائِشَةَ عَنْ عَلِیٍّ عَلَیْهِ السَّلام فَقٰالَتْ:ذٰاکَ خَیْرُالْبَشَرِلاٰ یَشُکُّ فِیْهِ اِلّٰاکٰافِرٌ

”عطاء سے روایت ہے ،وہ کہتے ہیں کہ میں نے حضرت عائشہ سے علی علیہ السلام کے بارے میں سوال کیا تو حضرت عائشہ نے کہا کہ علی علیہ السلام سب انسانوں سے بہتر ہیں اور اس میں سوائے کافر کے کوئی شک نہیں کرسکتا“۔

۱۶۹

حوالہ

۱۔ ابن عساکر،تاریخ دمشق ،باب حال امیرالمومنین ،جلد۲،صفحہ۴۴۸،حدیث۹۷۲۔

۲۔ شیخ سلیمان قندوزی حنفی، کتاب ینابیع المودة،باب مودة الثالثہ،صفحہ۲۹۳۔

(ز)۔حَدَّثْنٰا جَعْفَرُبْنُ بَرْقٰان قٰالَ:بَلَغَنِی اَنَّ عٰائِشَةَ کٰانَتْ تَقُولُ:زَیِّنُوْامَجٰالِسَکُمْ بِذِکْرِعَلِیِّ بْنِ اَبِیْ طٰالِب ۔

”جعفر بن برقان سے روایت ہے کہ مجھ تک یہ حدیث رسول حضرت عائشہ کے ذریعے سے پہنچی ،وہ کہتی ہیں کہ پیغمبر اکرم نے فرمایا کہ اپنی مجلسوں کو ذکر علی سے زینت دو“۔

(ح) عٰائِشَةُ رَفَعَتْهُ:اِنَّ اللّٰهَ قَدْعَهِدَ اِلیٰ مَنْ خَرَجَ عَلیٰ عَلِیٍّ فَهُوَکٰافِرٌفِی النّٰارِ،قِیْلَ:لِمَ خَرَجْتِ عَلَیْهِ؟قٰالَتْ:أَنَا نَسِیْتُ هٰذَاالْحَدِیْثَ یَومَ الْجَمَلِ حَتّٰی ذَکَرْتُهُ بِالْبَصْرَةِ وَأَ نَااَسْتَغْفِرُاللّٰهَ

”حضرت عائشہ سے حدیث مرفوع(پیغمبر اکرم)روایت ہے کہ بے شک یہ اللہ تعالیٰ کا وعدہ ہے کہ جو کوئی بھی علی علیہ السلام سے جنگ کرے گا، وہ کافر ہے اور جہنم میں جائے گا۔ اُن سے پوچھا گیا تو پھر آپ نے کیوں علی علیہ السلام سے جنگ کی؟ کہنے لگیں کہ جنگ جمل کے روز میں یہ حدیث بھول گئی تھی جب مجھے یہ حدیث یاد آئی تو میں نے اللہ سے توبہ کرلی“۔

حوالہ

شیخ سلیمان قندوزی حنفی، کتاب ینابیع المودة، باب مودة الثالثہ،صفحہ۲۹۴۔

۱۷۰

(ط)۔عَنْ عَطَاءِ بْنِ اَبِی رَبَاحٍ، عَنْ عٰائِشَةَ، قٰالَتْ: عَلِیُّ بْنُ اَبِیْ طٰالِبٍ اَعْلَمُکُمْ بِالسُّنَّةِ

”عطا ابن ابی رباح روایت کرتے ہیں کہ حضرت عائشہ نے کہا کہ سنّت پیغمبر میں عالم ترین شخص علی ابن ابی طالب علیہ السلام ہیں“۔

حوالہ جات

۱۔ سیوطی، تاریخ الخلفاء میں،صفحہ۱۷۱۔

۲۔ شیخ سلیمان قندوزی حنفی، کتاب ینابیع المودة،باب۳،صفحہ۳۴۳۔

۳۔ ابن عبدالبر،کتاب استیعاب ، شرح حال علی ،جلد۳،صفحہ۱۱۰۴،حدیث۱۸۵۵۔

۴۔ ابن عساکر،تاریخ دمشق ،باب حال امام علی ،ج۳حدیث۱۰۷۹ص۴۸شرح محمودی

۵۔ بلاذری،کتاب انساب الاشراف میں۔ ،باب شرح حال علی ،جلد۲،حدیث۸۶،صفحہ ۱۲۴،اشاعت اوّل، بیروت اور دوسرے۔

(ی)۔عَنْ عَطٰاءٍ عَنْ عٰائِشَةَ قٰالَتْ:عَلِیٌّ اَعْلَمُ اَصْحٰابِ مُحَمَّدٍ صَلَّی اللّٰهُ عَلَیْهِ وَآلِه وَسَلَّمْ

”عطاء حضرت عائشہ سے روایت کرتے ہیں کہ حضرت عائشہ نے کہا کہ اصحاب پیغمبر میں سب سے بڑے عالم حضرت علی علیہ السلام تھے“۔

حوالہ

بوستان معرفت، صفحہ۶۵۸،نقل از کتاب شواہد التنزیل(مصنف حسکانی)جزو اوّل،صفحہ۳۵،حدیث۴۰۔

۱۷۱

(ک)۔عَنْ عٰائِشَةَ،قٰالَتْ:قٰالَ رَسُوْلُ اللّٰهِ صَلَّی اللّٰهُ عَلَیْهِ وَآلِه وَسَلَّمْ،وَهُوَفِی بَیْتِهٰالَمّٰاحَضَرَهُ الْمَوْتُ:اُدْعُوا لِیْ حَبِیْبِی (قٰالَتْ) فَدَعَوْتُ لَهُ اَبَابَکرَ فَنَظَرَاِلَیْهِ ثُمَّ وَضَعَ رَأسَهُ ثُمَّ قٰالَ:اُدْعُوْا لِیْ حَبِیْبِیفَدَعُوْا لَهُ عُمَرَ،فَلَمّٰانَظَرَاِلَیْهِ وَضَعَ رَأسَهُ،ثُمَّ قٰالَ:اُدْعُوْا لِی حَبِیْبِی، فَقُلْتُ:وَیْلَکُمْ اُدْعُوالَهُ عَلِیُّ بْنُ اَبِیْ طٰالِبٍ،فَوَاللّٰهِ مٰا یُرِیْدُ غَیْرُهُ(فَدَعُوْاعَلِیّاً فَأَتٰاهُ)فَلَمّٰا أَتٰاهُ أَفْرَدَالثُّوبَ الَّذِی کٰانَ عَلَیْهِ ثُمَّ أَدْخَلَهُ فِیْهِ فَلَمْ یَزَلْ یَحْتَضِنَهُ حَتّٰی قُبِضَ وَیَدُهُ عَلَیْهِ ۔

”حضرت عائشہ سے روایت ہے کہ جب رحلت پیغمبر کا وقت قریب تھا تو آپ نے فرمایا کہ میرے حبیب کو میرے نزدیک بلاؤ۔ پس ہم نے حضرت ابوبکر کو بلایا۔ پیغمبر اکرمنے ایک نگاہ کی اور اپنا سرجھکا دیا۔پھر فرمایا کہ میرے حبیب کو میرے نزدیک بلاؤ۔ پس ہم نے حضرت عمر کو بلالیا۔ پیغمبر اسلام نے ایک نگاہ کی اور پھر اپنا سرجھکا دیا۔ پھر فرمایا کہ میرے حبیب کو میرے نزدیک بلاؤ۔ میں نے کہا حیف ہے، علی ابن ابی طالب علیہ السلام کو ان کیلئے بلاؤ۔خدا کی قسم! آپ نے علی علیہ السلام کے سوا کسی کو نہیں چاہا ہے۔ پس علی علیہ السلام کو بلایا گیا۔ جس وقت وہ آئے تو پیغمبر نے وہ چادرجو خود اوڑھی ہوئی تھی، اُس میں علی علیہ السلام کو داخل کیا اور پھر اُن سے جدا نہ ہوئے،یہاں تک کہ رحلت فرمائی اور اس حالت میں کہ پیغمبر صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا ہاتھ علی علیہ السلام کے بدن پر تھا“۔

حوالہ جات

۱۔ ابن کثیر، کتاب البدایہ والنہایہ میں،جلد۷،صفحہ۳۶۰(روایت عبداللہ بن عمر سے)۔

۲۔ ابن عساکر، تاریخ دمشق ،باب شرح حال امام علی علیہ السلام ،ج۳،ص۱۴،حدیث۱۰۲۷،شرح محمودی۔

۳۔ حاکم، المستدرک میں،جلد۳،صفحہ۱۳۸،۱۳۹۔

۴ ۔ ذھبی، کتاب میزان الاعتدال میں،جلد۲،صفحہ۴۸۲،شمارہ۴۵۳۰۔

۵۔ سیوطی،اللئالی المصنوعہ میں،جلد ۱،صفحہ۱۹۳،اشاعت اوّل۔

۶۔ مناقب خوارزمی، جلد۱،صفحہ۳۸،باب۴۔

۱۷۲

(ل)۔عَنْ عٰائِشَةَ قٰالَتْ:رَأَیْتُ النَّبِیَّ صَلَّی اللّٰهُ عَلَیْهِ وَآلِه وَسَلَّمْ اِلْتَزَمَ عَلِیّاً وَقَبَّلَهُ وَ(هُوَ)یَقُوْلُ:بِأَبِی الْوَحِیْدَ الشَّهِیْدَ،بِأَبِی الْوَحِیْدَ الشَّهِیْدَ ۔

”حضرت عائشہ روایت کرتی ہیں کہ میں نے دیکھا کہ پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم حضرت علی علیہ السلام کے ہمراہ تھے۔ اُن کو اپنے ساتھ چمٹایا ہوا تھا اور اُن کا منہ چوم رہے تھے اور یہ بھی کہہ رہے تھے کہ اے شہید تنہا!میرے والد تم پر فدا۔ اے شہید تنہا! میرے والد تم پر فدا“۔

حوالہ جات

۱۔ ہیثمی، کتاب مجمع الزوائد میں، جلد۹،صفحہ۱۳۸۔

۲۔ ابن عساکر،تاریخ دمشق،باب حال علی ،ج۳،ص۲۸۵،حدیث۱۳۷۶،شرح محمودی

۳۔ شیخ سلیمان قندوزی حنفی، کتاب ینابیع المودة،باب۵۹،صفحہ۳۳۹۔

۴۔ متقی ہندی،کنزالعمال میں،جلد۱۱،صفحہ۶۱۷(اشاعت بیروت، پنجم)۔

۱۷۳

فضائل علی علیہ السلام علمائے اہل سنت کی نظر میں

مقام حضرت علی علیہ السلام کو سمجھنے کا ایک بہترین اور اہم ترین ذریعہ علمائے اہل سنت کے نظریات اور اُن کا کلام ہے۔ یہ انتہائی دلچسپ بات ہوگی کہ علی علیہ السلام کے بلندوبالا مقام کو اُن افراد کی زبانی سنیں جو مسند خلافت کیلئے تو دوسروں کو مقدم سمجھتے ہیں لیکن علی علیہ السلام کی عظمت کے قائل بھی ہیں اور احادیث نبوی کی روشنی میں علی علیہ السلام کی خلافت بلافصل کو مانتے بھی ہیں لیکن چند صحابہ کے قول و فعل کو پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی وصیت و نصیحت پر ترجیح دیتے ہیں۔اس سے خود اُن کو بہت بڑا نقصان ہوا کیونکہ وہ علوم اہل بیت سے فائدہ اٹھانے سے محروم رہے اور حکمت و دانائی کے وسیع خزانوں اور قرآن کی برحق تفسیر سے ہدایت و رہنمائی حاصل کرنے سے قاصر رہے۔

علمائے اہل سنت کے نظریات کو لکھنے کا ایک مقصد یہ ہے کہ ان بزرگوں کے اقوال اور نظریات پر غوروفکر کیا جائے جو علی علیہ السلام کی شان میں کہے گئے ہیں اور جو یہ ثابت کرتے ہیں کہ حضرت علی کی شخصیت،پیغمبر اسلام کے مقدس وجود کے بعد سب سے بلند ہے جیسے کہ قرآن کی آیات، احادیث نبوی اور کلام خلفاء کو جمع کرنے کے بعد حضرت علی علیہ السلام کی شخصیت واضح ہوئی ہے۔ اب ہم علمائے اہل سنت کے کلام اور نظریات کا مطالعہ کرتے ہیں کہ وہ مولیٰ علی علیہ السلام کے بارے میں کیا کہتے ہیں۔اُمید ہے کہ حق طلب حق کو پالیں گے، انشاء اللہ۔

شروع میں ابن عباس کے کلام کا مطالعہ کرتے ہیں۔ ابن عباس کو اُمت مسلمہ کے تمام فرقے قبول کرتے ہیں۔

ابن عباس

ابن عباس نے اپنی عمر کے آخری لمحوں میں سربلند کرکے یہ کہا:

”اَلَّلهُمَّ اِنِّی اَ تَقَرَّبُ اِلَیْکَ بِحُبِّ الشَّیْخِ عَلِیِّ بْنِ اَبِیْ طٰالِب“ ۔

”پروردگارا! میں علی کی دوستی اورمحبتکا واسطہ دے کر تیری قربت چاہتا ہوں“۔

۱۷۴

ابن ابی الحدید معتزلی

”میں اُس شخص کے بارے میں کیا کہوں کہ جس پر تمام فضائل انسانی کی انتہاہوجاتی ہے۔ تمام اسلامی فرقے اُسے اپنا سمجھتے ہیں۔ وہ تمام خوبیوں کا مالک ہے اور تمام فضیلتوں کا سرچشمہ ہے۔ وہ پہلوں میں کامیاب ترین شخص تھا اور بعد میں آنے والوں میں اگر کوئی فضیلت دیکھی گئی تو تحقیق کرنے پر معلوم ہوا کہ وہ خوبی بھی وہاں سے ہی شروع ہوئی۔ پس چاہئے کہ خوبیاں اُسی پر اکتفا کریں اور اُس جیسے کی اقتداء کریں“۔

حوالہ ابن ابی الحدید،شرح نہج البلاغہ، جلد۱،صفحہ۱۶۔

ابن ابی الحدید اپنے قصیدہ عینیہ جو کہ اُس کے سات قصیدوں میں بہترین قصیدہ ہے اور وہ اس کو سونے کے پانی کے ساتھ مولیٰ علی علیہ السلام کے روضے پر لکھنے میں سالہا سال مصروف رہا، اُس میں کہتے ہیں:

”میں نے اُس برق سے جس نے رات کی تاریکی کو پھاڑ دیا، مخاطب ہوکرکہا:

اے برق! اگر تو سرزمین نجف میں نہیں تو بتا کہاں ہے؟ کیا تجھے پتہ ہے کہ تجھ میں کون کونسی ہستیاں پوشیدہ ہیں؟

موسیٰ بن عمران، عیسیٰ مسیح اور پیغمبر اسلام اس میں ہیں اورنور خدائے ذوالجلال تجھ میں ہے بلکہ جو بھی چشم بینا رکھتا ہے،آئے اور دیکھ لے۔

خدا کی قسم!اگر علی نہ ہوتے تو نہ تو زمین ہوتی اور نہ ہی اُس پر کوئی مرد ہوتا۔

قیامت کے روز ہمارا حساب کتاب اُسی کے وسیلہ سے خدا کے حضور پیش کیا جائے گا۔

قیامت کے ہولناک دن وہی ہمارا ایک مددگار ہوگا۔

یا علی !میں آپ ہی کی خاطر مکتب اعتزال کو بڑا سمجھتا ہوں اور آپ ہی کی خاطر سب شیعوں کو دوست رکھتا ہوں۔

حوالہ

ابن ابی الحدید، کتاب”علی علیہ السلام،چہرئہ درخشان اسلام“،حصہ پیش لفظ،صفحہ۹۔

۱۷۵

وہ مزید کہتے ہیں:

”یا علی ! اگر آپ میں آثار حدث موجود نہ ہوتے تو میں کہتا کہ آپ ہی بخشنے والے اور جانداروں کی روح کو قبض کرنے والے ہیں۔ اگر طبعی موت آپ پر اثر انداز نہ ہوتی تو میں کہتا کہ آپ ہی سب کے روزی رساں ہیں اور آپ ہی جس کو کم یا زیادہ چاہیں، بخشیں۔ میں تو بس اتنا جانتا ہوں کہ دین اسلام کے پرچم کو پوری دنیا میں لہرانے اور اس جہاں میں عدل و انصاف بھرنے کیلئے آپ کے بیٹے مہدی علیہ السلام جلد تشریف لائیں گے“۔

حوالہ داستان غدیر، صفحہ۲۸۵،بہ نقل از ”المراجعات السبع العلویات“، صفحہ۴۳۔

ابن ابی الحدید نہج البلاغہ کی شرح میں لکھتے ہیں:

اِنَّهُ علیه السلام کَانَ اَولٰی بِالْاَمْرِوَاَحَقَّ لَاعَلٰی وَجْهِ النَّصِّ، بَلْ عَلٰی وَجْهِ الْاَفْضَلِیَّةِ،فَاِنَّهُ اَفْضَلُ الْبَشَرْبَعْدَ رَسُوْلِ اللّٰه وَاَحَقُّ بِالْخِلاٰ فَةِ مِنْ جَمِیْعِ الْمُسْلِمِیْنَ ۔

”حضرت علی علیہ السلام منصب ولایت کیلئے سب سے بہتر اور سب سے زیادہ حقدار تھے۔ وہ اس کیلئے از طریق نص نہیں بلکہ اپنے افضل ہونے کی وجہ سے اہل تھے کیونکہ رسول اللہ کے بعد وہ سب سے افضل بشر تھے اور تمام مسلمانوں سے زیادہ خلافت پر حق اُن کا تھا“۔

۱۷۶

ابوحامدغزالی(شافعی مذہب کے سکالر)

ابوحامد محمد ابن محمد غزالی کتاب”سرّالعالمین“میں لکھتے ہیں:

”اَسْفَرَتِ الْحُجَّةُ وَجْهَهٰاوَاَجْمَعَ الْجَمٰاهِیْرُعَلٰی مَتْنِ الْحَدِیْثِ عَنْ خُطْبَةِ یَوْمِ غَدِیْرِ خُمٍّ بِاتِّفَاقِ الْجَمِیْعِ وَهُوَ یَقُوْلُ:مَنْ کُنْتُ مَوْلاٰهُ فَعَلِیٌّ مَوْلاٰهُ فَقٰالَ عُمَرُ بَخٍ بَخٍ لَکَ یٰااَبَالْحَسَنِ لَقَدْ اَصْبَحْتَ مَوْلاٰیٰ وَمَوْلٰی کُلِّ مُومِنٍ وَمُومِنَةٍهٰذَا تَسْلِیْمٌ وَرَضِیٍّ وَتَحْکِیْمٌثُمَّ بَعْدَ هَذٰاغَلِبَ الْهَوٰی لِحُبِّ الْرِّیٰاسَةِ وَحَمْلِ عَمُودِ الْخِلاٰفَةِالخ

”رخ حقیقت سے پردہ اٹھ گیا اور تمام مسلمانان عالم حدیث غدیر خم اور خطبہ یوم غدیر کے متن پر متفق ہیں۔ جب پیغمبر اسلام نے فرمایا تھا کہ جس کا میں مولا ہوں، اُس کا علی مولا ہے، اُس وقت حضرت عمر نے کہا:اے ابا الحسن ! مبارک مبارک ۔ آج آپ نے اس حال میں صبح کی کہ میرے بھی مولیٰ ہیں اور تمام مومن مردوں اور مومن عورتوں کے بھی مولیٰ ہیں۔ اس طرح مبارک باد دینا پیغمبر کے فرمان کو تسلیم کرنا ہے اور علی علیہ السلام کی خلافت پر راضی ہونا ہے(لیکن افسوس) اس کے بعد نفس امارہ نے ریاست طلبی اور خلافت طلبی کی خاطر اُن پر غلبہ پالیا“۔

حوالہ شبہائے پشاور،صفحہ۶۰۸،نقل از ”سرّ العالمین“، غزالی۔

عبدالفتاح عبدالمقصود(مصنف معروف مصری)

”حضرت محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے بعد میں نے کسی کو نہیں دیکھا جو آپ کی جانشینی کے قابل ہو،سوائے پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے پاک فرزندوں کے والد یعنی علی ابن ابی طالب علیہ السلام کے۔ میں یہ بات اہل تشیع کی طرفداری کیلئے نہیں کہہ رہا بلکہ یہ ایسی بات ہے کہ تاریخی حقائق اس کے گواہ ہیں۔ امام (علی علیہ السلام) سب سے بلند مرتبہ مرد ہے جسے کوئی بھی ماں آخری عمر تک پیدا نہ کرسکے گی اور وہ ایسی شخصیت ہے کہ جب بھی ہدایت تلاش کرنے والے اُس کے کلام، ارشادات اور نصیحتوں کو پڑھیں گے تو ہر جملے سے اُن کو نئی روشنیاں ملیں گی۔ ہاں! وہ مجسم کمال ہے جو لباس بشریت میں اس دنیا میں بھیجا گیا“۔

حوالہ داستان غدیر،صفحہ۲۹۱،نقل از”الغدیر“، جلد۶۔

۱۷۷

ابوحنیفہ( مذہب حنفی کے امام)

”کسی ایک نے بھی علی سے جنگ و جدل نہیں کیا مگر یہ کہ علی علیہ السلام اُس سے اعلیٰ اور حق پر تھے۔ اگر علی علیہ السلام اُن کے مقابلہ میں نہ آتے تو مسلمانوں کو پتہ نہ چلتا کہ اس قسم کے افراد یا گروہ کیلئے اُن کی شرعی ذمہ داری کیا ہے“۔

حوالہ

مہدی فقیہ ایمانی،کتاب”حق با علی است“، نقل از مناقب ابو حنیفہ، خوارزمی،۸۳/۲،

اشاعت حیدرآباد۔

فخر رازی(اہل سنت کے مشہور و معروف مفکر)

”جوکوئی دین میں حضرت علی ابن ابی طالب علیہ السلام کو اپنا رہبر و پیشوا تسلیم کرے گا، وہی کامیاب ہے اور اس کی دلیل خود پیغمبراسلام صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا فرمان پاک ہے۔آپ نے فرمایا:

”پروردگار!حق کو اُدھر پھیر دے جدھر علی ہو“۔

حوالہ

داستان غدیر،مصنف:بہت سے استاد، صفحہ۲۸۵،نقل از تفسیر فخر رازی، جلد۱،صفحہ۱۱۱،اور الغدیر،جلد۳،صفحہ۱۷۹۔

۱۷۸

زمخشری(اہل سنت کے مشہور مفکر)

”میں اُس مرد کے فضائل کے بارے میں کیا کہوں کہ جس کے دشمنوں نے اپنے حسد اور کینہ کی وجہ سے اُس کے فضائل سے انکار کیا اور اُس کے دوستوں نے خوف و ترس کی وجہ سے اُس کے فضائل چھپائے۔مگر اس کے باوجود اُس کے فضائل دنیا میں اتنے پھیلے کہ مشرق و مغرب کو گھیر لیا“۔

زمخشری اس حدیث قدسی کے ضمن میں کہتے ہیں:

”مَنْ اَحَبَّ عَلِیّاً اَدْخَلَهُ الْجَنَّةَ وَاِنْ عَصَانِیْ وَمَنْ اَبْغَضَ عَلِیّاً اَدْخَلَهُ النّٰارَ وَاِنْ اَطَاعَنِی“

ٍ ”جس نے علی علیہ السلام سے محبت کی، وہ جنت میں جائیگا ،گرچہ وہ میرا نافرمان ہی کیوں نہ ہو اور جس نے علی سے دشمنی و بغض رکھا، وہ جہنم میں جائیگا، بے شک وہ میرا فرمانبردار ہی کیوں نہ ہو“۔

اس کے بارے میں زمخشری کہتے ہیں کہ محبت و تسلیم ولایت علی علیہ السلام انسان کے ایمان کے کمال کا سبب ہے اور اگر کمال ایمان ہو تو فروع میں چھوٹی غلطی زیادہ نقصان نہیں پہنچاتی، لیکن اگر محبت و ولایت علی نہ ہو تو ایمان ناقص ہے اور وہ شخص جہنم کا مستحق ہے۔

حوالہ جات

۱۔ داستان غدیر،صفحہ۲۸۴بہ نقل از زندگانی امیر المومنین علیہ السلام، صفحہ۵۔

۲۔ مباحثی در معارف اسلامی،مصنف:علامہ فقید آیت اللہ حاجی سیدبہبہانی،صفحہ۱۶۹۔

شافعی(رہبر مذہب شافعی)

”اگر مولیٰ علی مرتضیٰ اپنے ظاہر وباطن کو لوگوں پر ظاہر کردیں تو لوگ کافر ہوجائیں گے کیونکہ وہ انہیں اپناخدا سمجھ کر سجدہ میں گرجائیں گے ۔ اُن کے فضائل و عظمت کیلئے بس یہی کافی ہے کہ بہت سے لوگ یہ نہ سمجھ سکے کہ علی خدا ہیں یا خدا علی ہے یاپھر علی علیہ السلام مخلوق خدا ہیں“۔

حوالہ سید یحییٰ برقعی، کتاب ”چکیدہ اندیشہ ہا“،صفحہ۲۹۷۔

۱۷۹

حافظ ابو نعیم(اہل سنت کے مشہور عالم)

”علی ابن ابی طالب علیہ السلام سردار قوم، محب ذات مشہود،محبوب ذات کبریا،باب شہر علم،مخاطب آیات ایمانی،عالم رمز قرآنی،تلاش راہ حق کیلئے بڑی نشانی،ماننے والوں کیلئے شمع جاودانی، مولائے اہل تقویٰ و ایمان،رہبر عدالت و قاضیان، ایمان لانے والوں میں سب سے اوّل، یقین میں سب سے بڑھ کر، بردباری میں سب سے آگے، علم و دانش کا منبع، اہل عرفان کی زینت،حقائق توحید سے باخبر،خداپرستی کا عالم، حکمت و دانائی کا سرچشمہ، حق سننے اور حق بولنے والا، وفائے عہد کا بادشاہ، اہل فتنہ کی آنکھ پھوڑنے والا، امتحانات الٰہی میں سرفراز و سربلند، ناکثین کو دورکرنے والا، قاسطین و مارقین کو ذلیل و رسوا کرنے والا،خدا کے دین میں سخت کاربند،ذات الٰہی میں فانی حضرت علی ابن ابی طالب کرم اللہ وجہ۔

حوالہ

حافظ ابونعیم، کتاب حلیة الاولیاء،جلد۱،صفحہ۶۱،باب ذکر علی علیہ السلام۔

احمد بن حنبل(رہبر مذہب حنبلی)

محمد ابن منصور کہتے ہیں کہ ہم احمد بن حنبل کے پاس تھے کہ ایک شخص نے اُن سے کہا کہ اے اباعبداللہ! مجھے اس حدیث کے بارے میں بتائیں جو حضرت علی علیہ السلام سے روایت کی گئی ہے:

”اَنَا قَسِیْمُ النّٰارِوَالْجَنَّة“

”میں جنت اور دوزخ کو تقسیم کرنے والا ہوں“

احمد بن حنبل نے جواب دیا:

”وَمٰا تُنْکِرُوْنَ مَنْ ذٰا؟“

”تم اُس سے انکار کیوں کررہے ہو؟“

۱۸۰

181

182

183

184

185

186

187

188

189

190

191

192

193

194

195

196

197

198

199

200

201

202

203

204

205

206

207

208

209

210

211

212

213

214

215

216

217

218

219

220

221

222

223

224

225

226

227

228

229

230

231

232

233

234

235

236

237

238

239

240

241

242

243

244

245

246

247

248

249

250

251

252

253

254

255

256

257

258

259

260

261

262

263