علوم ومعارف قرآن

علوم ومعارف قرآن0%

علوم ومعارف قرآن مؤلف:
زمرہ جات: علوم قرآن
صفحے: 263

علوم ومعارف قرآن

یہ کتاب برقی شکل میں نشرہوئی ہے اور شبکہ الامامین الحسنین (علیہما السلام) کے گروہ علمی کی نگرانی میں اس کی فنی طورپرتصحیح اور تنظیم ہوئی ہے

مؤلف: مختلف دانشور
زمرہ جات: صفحے: 263
مشاہدے: 121562
ڈاؤنلوڈ: 5027

تبصرے:

علوم ومعارف قرآن
کتاب کے اندر تلاش کریں
  • ابتداء
  • پچھلا
  • 263 /
  • اگلا
  • آخر
  •  
  • ڈاؤنلوڈ HTML
  • ڈاؤنلوڈ Word
  • ڈاؤنلوڈ PDF
  • مشاہدے: 121562 / ڈاؤنلوڈ: 5027
سائز سائز سائز
علوم ومعارف قرآن

علوم ومعارف قرآن

مؤلف:
اردو

یہ کتاب برقی شکل میں نشرہوئی ہے اور شبکہ الامامین الحسنین (علیہما السلام) کے گروہ علمی کی نگرانی میں اس کی فنی طورپرتصحیح اور تنظیم ہوئی ہے

توجواباًکہاجائے گاکہ اس بنا پرہے کہ قول کلام کی نسبت عقیدے سے زیادہ نزدیک ہے اس لیے کہ اس ناقص اورغیرمستقل کلام پربھی ”قول“کااطلاق ہوتاہے جومفید(کلام)ہونے کیلئے اپنے تکملہ کا محتاج ہوتا ہے جیسے وہ جملے ہیں جو اپنے بقیہ(جملوں)کے محتاج ہوتے ہیں لیکن پھر بھی ان پر قول کا اطلاق درست ہے جبکہ ان پر کلام کا اطلاق صحیح نہیں اسی طرح عقیدہ وہ ہے جو کہ اپنی افادیت ظاہر کرنے کے لیے اس عبارت اور الفاظ کا محتاج ہوتا ہے جو اسے نمایاں کر سکیں۔

مختصر یہ کہ قول میں اظہار عقیدہ کا پہلو ہوتا ہے جو کہ عقیدے اور رائے کی جگہ بروئے کار لایا جاسکتا ہے اور محض تلفظ،نطق اور سخن کا مفہوم نہیں لیکن کلام صرف اور صرف سخن (گفتگو)ہے یہی وجہ ہے کہ”قول“غیر انسان کے لیے بھی استعمال ہو سکتاہے جیساکہ شاعر نے کہا ہے۔

قالت له الطیّرتقدم راشداً

انَّک لا ترجع الّٰا حامداً

ایک اور شاعر نے کہا:

قالت له العینان سمعاً وطاعة

وحدرتا کالدر لما یثقب

ایک اورقول ہے:

اِمتَلَاَءَ الحَوضَ وقال قَطنی

مذکورہ بالا ان تمام مثالوں میں زبان حال مراد لی گئی ہے نہ کہ زبان مقال۔

۴۱

راغب اصفہانی کہتا ہے اگرچہ”قول“ کو کئی طرح سے بروئے کار لایاجاتا ہے تاہم ان میں سے نمایاں ترین قول وہ لفظ ہے جو حروف کا مرکب ہو اور نطق کے ذریعے انجام پائے چاہے وہ مفرد ہو یاجملے کی صورت میں ہو(دیگر مواقع جہاں قول کو بروئے کار لایا جاتا ہے درج ذیل ہیں)

۲ لفظوں میں اظہار سے قبل ذہن میں متصور (قول)

جیسا کہ اس آیت میں ہے کہ

( وَیَقُوْلُوْنَ فِیْ اَنْفُسِهِمْ لَوْلَا یُعَذِّ بُنَا اللّٰهُ ) (سورہ مجادلہ آیت۸)

”اور وہ اپنے دلوں میں کہتے ہیں کہ اگر وہ واقعی رسول ہے تو پھر اللہ ہمیں سزا کیوں نہیں دیتا“

یہاں لوگوں نے اپنے دلوں میں جو گمان رکھا اس کے تصور کو قول کا نام دیا گیا ہے

۳ صرَفِ اعتقاد: چنانچہ کہا جاتا ہے کہ فلان شخص نے حضرت ابو حنیفہ کے قول کو اپنا یا یعنی ان کی رائے کو پسند کر کے ان کا ہم عقیدہ بن گیا ہے

۴ مطلق دلالت: مطلق دلالت کو بھی قول کہتے ہیں جیسا کہ شاعر نے کہا ہے کہ:

امتلاء الحوض وقال قطنی

یعنی حوض بھرا ہے جو اس امر پر دلالت کرتا ہے کہ یہ میرے لیے کافی ہے

۴۲

۵ کسی ایسی چیز سے لگاو جو راسخ عقیدے تک پہنچا دےجیسے یہ کہا جائے کہ فلان شخص اس طرح کے قول کا حامل ہے یا جیسے” فلان یقول کذا“ یعنی فلان شخص یوں کہتا ہے اس لیے کہ یہ انقصاص ہی اسے اس قول تک پہنچاتا ہے۔

۶ اہل میزان علمائے منطق کی اصطلاح بھی قول کہلاتی ہے جیسے قول جوھر،قول عرض ہے جنہیں مقولات یعنی موضوعات میں شمار کیا جاتا ہے۔

۷ قول الہام کے معنوں میں بھی آیا ہے جیسے اس آیت میں آیا ہے کہ:

( قُلْنَا يَا ذَا الْقَرْنَيْنِ إِمَّا أَن تُعَذِّبَ وَإِمَّا أَن تَتَّخِذَ فِيهِمْ حُسْنًا )

(سورہ کہف :آیت۸۶)

ہم نے کہا اے ذوالقرنین تمہیں اختیار ہے چاہے انہیں سزا دو اور چاہے ان سے حسن سلوک اختیار کرو۔

اس لیے کہ یہ گفتگو خطاب کی صورت میں نہیں بلکہ الہام اور القائے باطنی تھااسی طرح یہ آیت ہے کہ

( ذٰلِکَ عِیْسَی ابْنَ مَرْیَمَ قَوْلَ الْحَقِّ الَّذِیْ فِیْهِ یَمْتَرُوْنَ ) (سورہ مریم:آیت۳۴)

یہ ہے مریم کے بیٹے عیسٰی کا سچا قصہ جس میں یہ لوگ خواہ مخواہ شک کرتے ہیں۔

اس آیت میں عیسیٰ(۴)کو قول حق کا نام دیا گیا ہے اسی طرح ایک اور آیت میں انہیں کلمہ سے تعبیر کیا گیا

( کَلِمَتُه اَلْقٰهَآ اِلٰی مَرْیَمَ ) (سورہ نساء:آیت۱۷۱)

۴۳

یہ اشارہ ہے اس آیت کی طرف کہ

( اِنَ مَثَلَ عِیْسَی عِنْدَ اللّٰهِ کَمَثَلِ اٰدَمَ خَلَقَه مِنْ تُرَابٍ ثُمَّ قَالَ لَه کُنْ فَیَکُوْنَ ) (سورہ آل عمران :آیت۵۹)

قرآن میں بھی ”قول“ کی اصطلاح کا غیر انسانوں کے لیے استعمال ہوا ہے قطع نظر اس امر کے کہ انہیں مخاطب قرار دیا گیا ہے یا ان سے قول کو نقل کیا گیا ہے۔

( ثُمَّ اسْتَوٰی اِلَی السَّمَآءِ وَهِیَ دُخَانٌ فَقَالَ لَهَا وَلِلْاَرْضِ ائْتِیَاطَوْعًا اَوْکَرْهًا قَالَتَآ اَتَیْنَا طَآئِعِیْنَ ) (سورہ فصّلت:آیت ۱۱)

پھر اس نے آسمان کی طرف قصد کیا درآنحا لیکہ وہ دھواں تھا پس اس نے اس سے اور زمین سے کہا کہ تم دونوں معرض وجود میں آؤ خوشی یا کراہت سے۔ دونوں نے کہا ہم اپنی خوشی سے بات ماننے والے ہو کر آئے ہیں۔

یہاں زمین و آسمان سے کہنے اور زمین و آسمان کے کہنے سے کیا مراد ہے ؟

علامہ طباطبائی قدس سرّہ نے لکھا ہے کہ یہاں وہی مقصود ہے جو سورہ بقرہ کی آیت ۱۱۷ میں بیان ہوا کہ

( بَدِیْعُ السَّمٰوٰاتِ وَالْاِرْضِ وِاِذَا قَضٰی اَمْرًا فَاِنَّمَا یَقُوْلُ لَه کُنْ فَیَکُوْنُ )

وہ آسمانوں اور زمین کا پیدا کرنے والا ہے وہ جب کسی کام کے کرنے کا طے کر لیتا ہے تو وہ صرف کن(ہوجا)فرماد یتا ہے اور وہ(کام)ہو جاتا ہے۔

۴۴

اسی طرح سورہ یٰسیں کی آیت ۸۲ میں ارشاد ہوا ہے کہ:

( اِنَّمَا اَمْرُه اِذَآ اَرَادَ شَیْئًا اَنْ یَّقُوْلَ لَه کُنْ فَیَکُوْنُ )

بتحقیق اس کا امر یہ ہے کہ جب وہ کسی چیز کا ارادہ کرتا ہے کہ اس کے لیے کن ہو جا فرما دیتا ہے اور وہ کام ہوجاتا ہے۔

ان دونوں آیات کریمہ میں باطنی ارادے اور خواہش کے اظہار کو بطور کنایہ قول سے تعبیر کیا گیا ہے چاہے وہ جس طرح سے بھی ہو لہذا قول(کہنا)لفظ سے نہیںیہاں کسی قسم کی گفتگو (طرفین میں)نہیں تھی سوائے اس کے کہ یہ گفتگو باطنی ارادہ و خواہش کے اظہار اور بیان کرنے والی ہے اس لیے ہر وہ گفتگو جو ارادے اور خواہش کے اظہار کا باعث بنے اسے قول کہا جاتا ہے اس کا لازمہ وہ مقصود ہوتا ہے جس سے اظہار مراد ہو۔

( یَوْمَ نَقُوْلُ لِجَهَنَّمَ هَلِ امْتَلَاْتِ وَتَقُوْلُ هَلْ مِنْ مَّزِیْدٍ ) (سورہ ق:آیت۳۰)

اس دن جب ہم دوزخ سے کہیں گے کیا تو بھر چکی ہے اور وہ کہے گی کیا کچھ اور بھی ہے ؟

یہاں بھی سخن وگفتار کا کوئی وجود نہیں بلکہ جو کہا گیا وہ زبان حال ہے دوزخ میں موجود گنجائش کے اندازہ کی طرف اشارہ ہے۔ جس قدر بھی اس میں ڈالا جائے گا اس میں اضافہ نہیں ہو گا اور یہ قول ان لوگوں کے رد میں ہے جو یہ کہتے ہیں کہ کیا جہنم میں اتنی گنجائش ہے کہ یہ سارے کفار اس میں ڈالے جا سکیں

( وَقِیْلَ یٰاَرْضُ ابْلَعِیْ مَآءَ کِ وَیٰسَمَآءُ اَقْلِعِیْ وَغِیْضَ الْمَآءُ وَقُضِیَ الْاَمْرُ وَاسْتَوَتْ عَلَی الْجُوْدِیِّ وَقِیْلَ بُعْدًا لِّلْقُوْمِ الظّٰلِمِیْنَ ) (سورہ ھود:آیت۴۴)

”اور کہا گیا اے زمین اپنے پانی کو نگل جا اور اے آسمان تو تھم جا اور پانی زمین میں جذب ہو گیا اور معاملے کا فیصلہ کردیا گیا اور کشتی کوہ جودی پر ٹھہر گئی اور کہہ دیا گیا کہ ظالموں کی قوم کے لیے ہلاکت ہو۔"

۴۵

اس قول میں خدا کے ارادے اور خواہش کا اظہار کیا گیا ہے۔

اسی طرح یہ آیت ہے کہ:

( قُلْنَا یٰنَارُ کُوْنِیْ بَرْدًا وَّسَلٰمًا عَلیٰ اِبْرٰهِیْمَ ) (سورہ الانبیاء:آیت۶۹)

یہاں بھی صرف اور صرف ارادہ پروردگار کا اظہار ہے چنانچہ اس آیت کا مفہوم اس طرح ہے کہ ہم نے چاہا کہ آگ ٹھنڈی رہے اور سلامتی کا باعث رہے چنانچہ ایساہی ہوا یہاں لفظ ”کونی“(ہو کر رہے) کو بروئے کا رنہیں لایا گیا

اسی طرح

( اَلَمْ تَرَ اِلَی الَّذِیْنَ خَرَجُوْا مِنْ دِیَارِهِمْ وَهُمْ اُلُوْفٌ حَذَرَالْمَوْتِ فَقَالَ لَهُمُ اللّٰهُ مُوْتُوْا ثُمَّ اَحْیَاهُمْ ) (سورہ بقرہ :آیت۲۴۳)

”کیا تم نے ان کو نہیں دیکھا جو موت کے ڈر سے اپنے گھروں سے نکلتے تھے اور وہ کئی ہزار تھے بس اللہ تعالیٰ نے ان کو فرمایا کہ مر جاو پھر انہیں زندہ کیا گیا۔"

اس آیت میں بھی قول صرف ان کی موت سے متعلق ارادہ پروردگار سے عبارت ہے اور

( قال لهم موتوا )

ان سے کہا مر جاو۔

۴۶

اور( واحیاهم ) (اور انہیں دوبارہ زند ہ کیا )کے درمیان کو ئی فرق نہیں یعنی ایسانہیں کہ

( اما تهم ثم احیاهم )

یعنی پہلے انہیں موت دی پھر زندہ کیا۔

یا پھر یہ کہ

( قال لهم موتوا ثم قال لهم احیوا )

یعنی پہلے انہیں کہا مر جاو پھر کہا کہ زندہ ہو جاو۔

بلکہ ارادہ پروردگار ان کے مرنے کے بعد انہیں زندہ کرنے سے بھی متعلق تھا اور اسی کا اظہار کیا گیا ہے۔

قرآن میں حیوانات کی طرف قول کی نسبت بھی اسی بنیاد پر ہے یعنی باطنی خواہش کا اظہار چاہے وہ کسی بھی ذریعے سے ہواگرچہ کوئی ایسی دلیل موجود نہیں کہ وہ اظہار کسی لفظ یا صدا یعنی موت سے انجام پذیر ہوا ہو

چیونٹی کے بارے میں ارشاد ہوا ہے کہ :

( قَالَتْ نَمْلَةٌ یٰاَیُّهَا النَّمْلُ ادْخُلُوْا مَسٰکِنَکُمْ لاَ یَحْطِمَنَّکُمْ سُلَیْمٰنُ وَجُنُوْدُه وَهُمْ لاَ یَشْعُرُوْنَ ) (سورہ نمل:آیت۱۸)

”ایک چیونٹی نے کہا اے چیونٹیواپنے اپنے بلوں میں گھس جاو ایسانہ ہو کہ سلیمان اور ان کا لشکر تمہیں روند ڈالے اور انہیں خبر بھی نہ ہو۔"

۴۷

ظاہر ہے کہ اس طرح کی گفتگو انسانوں میں ہوتی ہے حیوانات میں بنیادی طور پر ایسی گفتگو نہیں ہوتی بلکہ وہ اپنے پیغامات ہوا کی لہروں سے لیتے اور دیتے ہیں اور ان(حیوانات) سے الفاظ یا آواز وغیرہ ظاہر نہیں ہوتی

یہی صورت حال حضرت سلیمان کے لیے پیغام لانے والے ”ھد ھد“ کے بارے میں ہے چنانچہ یہ ارشاد ہوا کہ:

( فَمَکَثَ غَیْرَ بَعِیْدٍ فَقَالَ اَحَطْتُّ بِمَا لَمْ تُحِطْ بِه وَجِئْتُکَ مِنْ سَبَاٍ بِنَبَاٍ یَّقِیْنٍ اِنِّیْ وَجَدْتُّ امْرَاَةً تَمْلِکُهُمْ وَاُوْتِیَتْ مِنْ کُلِّ شَیِءٍ وَّلَهَا عَرْشٌ عَظِیْمٌ وَجَدْ تُّهَا وَقَوْمَهَا یَسْجُدُوْنَ لِلشَّمْسِ )

(سورہ نمل :آیت۲۲تا ۲۴)

”پھر زیادہ دیر نہ ہوئی کہ وہ آگیا پھر کہنے لگا میں نے ایسی بات معلوم کی جو تمہیں معلوم نہیں اور میں (ملک) سبا سے تمہارے پاس ایک یقینی خبر لایا ہوں میں نے ایک عورت کو پایا جو ان پر حکومت کرتی ہے اور اسے ہر چیز سے حصہ دیا گیا ہے اور اس کے لیے بڑا شاہی تخت ہے اسے اور اس کی قوم کو اللہ تعالیٰ کی بجائے سورج کی پرستش کرتے پایا۔"

کیا یہ کلام بالمشافہ، لفظی یا تکلم کے ذریعے تھا۔ ہرگز ایسا نہیں اس لیے کہ حضرت سلیمان نے خود فرمایا کہ:

( وَوَرِثَ سُلَیْمٰنُ دَاودَ وَقَالَ یٰاَیُّهَا النَّاسُ عُلِّمْنَا مَنْطِقَ الطَّیْرِ وَاُوْتِیْنَا مِنْ کُلِّ شَیْءٍ اِنَّ هٰذَا لَهُوَ الْفَضْلُ الْمُبِیْنُ ) (سورہ نمل:آیت۱۶)

”اور سلیمان داؤد کا وارث ہوا اس نے کہا:اے لوگو ہمیں پرندوں کی بولی سکھلائی گئی ہے اور ہمیں ہر چیز میں سے حصہ دیا گیا اور یقینا یہ کھلم کھلا فضیلت ہے۔"

۴۸

یہ حضرت سلیمان پر اللہ تعالیٰ کی عنایت تھی کہ وہ حضرت داؤد کے وارث قرار پائے اور انہیں پرندوں کی بولی سکھلائی گئی یعنی انہیں اس بات پر قدرت عنایت ہوئی کہ وہ پرندوں کے پیغامات کو جان سکیںایساہر گز نہیں کہ پرندے انسانوں کی طرح باتیں کرتے ہوں۔ لہذا وہ چیز جو کسی کا پیغام یاکسی کی خواہش دوسرے تک پہنچانے کا ذریعہ بنے اسے قول کہا جاتا ہے اور پیغام کا وصول کرنا ویسے ہی ہے جیسے کسی کی گفتگو سننا۔

ملائکہ اور شیاطین سے منسوب قول بھی اسی نوعیت کا ہے جیسے کوئی پیغام بھیجنا یا موصول کرنا ہے اور اس ضمن میں ہر گز یہ خیال نہیں کرنا چا ہیے کہ وہ (قول)انسانوں کے قول کی مانند ہو گا اس لیے کہ یہ قیاس مع الفارق ہے اور یہ امرلازمی ہے کہ مجردات کا مادیات پر قیاس نہ کیا جائے اور حیوانات کے بولنے کو انسانوں کی گفتگو جیسانہ سمجھا جائے۔

انسان کے پاس اپنے باطنی پیغام کو بھیجنے اور وصول کرنے کے مخصوص وسائل ہیں جبکہ دیگر مخلوقات کے پاس بھی اپنے مخصوص وسائل ہیں اس لیے ضروری ہے کہ مخلوقات و موجودات کی مختلف انواع کو جو ایک دوسرے سے الگ الگ ہیں یکساں خیال نہ کیا جائے یہ بہت بڑی غلطی ہے کہ انسان ہر چیز کا اپنی ذات پر ہی قیاس کرے اور سب کو اپنے جیساسمجھے شاید اس طرح کی سوچ کا سرچشمہ خود پسندی اور خود خواہی ہوتی ہے اور آدمی تمام اشیاء کو پرکھنے کا معیار اپنی ذات کو قرار دینے لگتا ہے۔

مثلاً خداوند عالم نے ملائکہ سے جو گفتگو فرمائی ہے اور انہیں پیغام دیا ہے یا ملائکہ نے اللہ کے جواب میں جو کچھ کہا ہے اسے انسان کے کلام سے نہیں سمجھنا چاہیے اور یہی صورتحال ابلیس کے متعلق بھی ہے۔ آپ قرآن کریم کی سورت بقرہ کی آیات ۳۰ تا ۳۴ کا مطالعہ فرمائیے، سورة اعراف کی آیت ۱۱ تا ۱۸ کو دیکھئے نیز سورہ ص آیت ۷۱ تا ۸۴ کو پڑھئے جہاں فرشتوں اور خالق کائنات کے مابین طویل مکالمہ نظر آتا ہے۔

۴۹

اس طرح کے طولانی گفت وشنید کو اگر ہم زبان حال نہ کہیں تب بھی ہمیں یہی کہنا پڑے گا کہ انسانوں جیسی ”زبان مقال“ نہیں ہے اس لیے کہ یہ ایک فاقدالوجہ قیاس ہے(ایک ایسا قیاس جس کا کوئی سبب اور موجب ہی نہ ہو)

خاص طور پر اس جگہ جہاں شیطان نے انسانوں کو مخاطب قرار دیتے ہوئے ان سے جو باتیں کی ہیں وہ انسانی ذہن میں فطوراور وسوسے پیدا کرنے کے علاوہ کچھ بھی نہیں

( کَمَثَلِ الشَّیْطٰنِ اِذْ قَالَ لِلْاِنْسَانِ اکْفُرْ فَلَمَّا کَفَرَ قَالَ اِنِّیْ بَرِیْ ءٌ مِّنْکَ اِنِّیْ اَخَافُ اللّٰهَ رَبَّ الْعٰلَمِیْنَ ) (سورہ حشر:آیت۱۶)

کبھی بھی ابلیس اور انسان کی بالمشافہ بات چیت نہیں ہوئی کہ وہ اسے حکم دے کہ وہ کا فر ہو جائے بلکہ یہ صرف وسوسہ اور باطنی تحریک ہے جو کہ ابلیس کے ذریعے انجام پذیر ہوتی ہے اور جو اس کی زبان حال ہے پھر جب وہ کامیاب ہو جاتا ہے تو انسانوں کا مذاق اڑاتا ہے کہ کس طرح دھوکا کھا کر انہوں نے اس کے بے وقعت وسوسوں کو قبول کر لیا اور اپنی عقل و فطرت کے پیغام توحید کو ذرّہ بھر اہمیت نہ دی۔ قرآن کریم میں قیامت کے دن کے حوالے سے ابلیس کی جو گفتگو نقل ہوئی ہے وہ بھی اسی نوعیت کی ہے۔

( وَقَالَ الشَّیْطٰنُ لَمَّا قُضِیَ الْاَمْرُ اِنَّ اللّٰهَ وَعَدَکُمْ وَعْدَ الْحَقِّ وَ وَعَدْتُّکُمْ فَاَخْلَفْتُکُمْ وَمَاکَانَ لِیَ عَلَیْکُمْ مِّنْ سُلْطٰنٍ اِلآَّ اَنْ دَعَوْتُکُمْ فَاسْتَجَبْتُمْ لِیْ فَلَا تَلُوْمُوْنِیْ وَلُوْمُوْا اَنْفُسَکُمْ مَا اَنَا بِمُصْرِخِکُمْ وَمَآاَنْتُمْ بِمُصْرِخِیَّ اِنِّیْ کَفَرْتُ بِمَآ اَشْرَکْتُمُوْنِ مِنْ قَبْلُ ) (سورہ ابراہیم:آیت۲۲)

”اور جب سب امور کا فیصلہ ہو جائے گا تو شیطان کہے گا یقینا اللہ تعالیٰ نے تم سے سچا وعدہ کہا تھا اور میں نے بھی تم سے وعدہ کیا تھا پھر میں نے تم سے وعدہ خلافی کی اور میرا تم پر کوئی زور نہ تھا سوائے اس کے کہ میں نے تمہیں بلایا اور تم نے میرا کہنا مان لیا پس تم مجھے ملامت نہ کرو بلکہ اپنے آپ کو ہی ملامت کرو نہ میں تمہارا فریاد رس ہوں اور نہ تم میرے فریاد رس ہوجس کا تم نے مجھے شریک بنایا تھا میں تو اس کا پہلے ہی سے منکر تھا۔"

۵۰

یہ گفتگو اپنے استدلال کے ساتھ مکمل طور پر واقعات کے واضح ہونے کی حکایت کرتی ہے اس دن سب پر حقیقت واضح اور آشکار ہو جائے گی کہ انسانوں کے مقابلے میں ابلیس کی حالت اور کیفیت یہ ہو گی کہ وہ انسانوں پر حیرت کا اظہار کرے گا کہ انہوں نے اس کی بے وقعت باتوں کو کس طرح قبول کرلیا جبکہ انسان شیطان کو مورد الزام ٹھہرا رہے ہوں گےدر حقیقت انہیں یقین نہیں تھا مگر پھر بھی ان لوگوں نے بے حقیقت وعدوں پر اعتبار کر کے اپنے دلوں کو خو ش رکھا( بَلِ الْاِنْسَانُ عَلٰی نَفْسِه بَصِیْرَةٌ وَّلَوْ اَلْقٰی مَعَاذِیْرَه ) (سورہ قیامت:آیات۱۳تا۱۴)

بلکہ انسان اپنے نفس کا برا دیکھنے والا ہے اگرچہ وہ اپنے عذر پیش کیا کرے۔

اور اسی طرح جنگ بدر کے موقع پر مشرکین سے یہ گفتگو بھی قرآن کریم میں منقول ہے کہ :

( وَاِذْ زَیَّنَ لَهُمُ الشَّیْطٰنُ اَعْمَالَهُمْ وَقَالَ لَا غَالِبَ لَکُمُ الْیَوْمَ مِنَ النَّاسِ وَاِنِّیْ جَارٌلَّکُمْ فَلَمَّا تَرَآءَ تِ الْفِئَتٰنِ نَکَصَ عَلٰی عَقِبَیْهِ وَقَالَ اِنِّیْ بَرِیءٌ مِّنْکُمْ اِنِیْ اَرٰی مَالَا تَرَوْنَ اِنِّیْ اَخَافُ اللّٰهَ ) (سورہ انفال:آیت۴۸)

”اور جب شیطان نے ان کے اعمال کو ان کے لیے آراستہ کر دیا اور اس نے کہا کہ آج کے دن تمہارے آدمیوں پر کوئی بھی غالب نہیں آئے گا اور میں یقینا تمہارا مددگار ہوں پھر جب دونوں لشکروں نے ایک دوسرے کو دیکھایعنی ایک دوسرے سے لڑنا شروع کیا تو شیطان اپنی ایڑیوں پر پلٹ گیا اور کہنے لگا یقینا میں تم سے بری ہوں اور بے شک میں وہ کچھ دیکھتا ہوں جو تم نہیں دیکھتے میں تو یقینا اللہ تعالیٰ سے ڈرتا ہوں۔"

۵۱

یہاں یہ جملہ کہ :( وقال:لاٰ غالب لکم ) درحقیقت ان (مشرکین)کے اس کردار کو سراہنا ہے کہ مشرکین اپنے دم،خم اور اسلحے کی بناء پر یہ خیال کر رہے تھے کہ کوئی بھی ان کے سامنے مقاومت کرنے کی جرات نہیں کر سکتا اور ان کی طاقت کے سامنے کوئی بھی نہیں ٹھہر پائے گا۔

لہذا یہ گفتگو سوائے اس بے وقعت گھمنڈ کی تحریک اور القا کے کچھ بھی نہیں جس کا منبع و سرچشمہ خود ان مشرکین کاغیر دانشمندانہ کردار اور طرز عمل تھا۔

مختصر یہ کہ ان مذکورہ تمام آیات میں سوائے اس کے کچھ بھی نہیں کہ باطنی خواہش کے اظہار کو قول سے تعبیر کیا گیا ہے مگر اس طرح سے نہیں جیسے انسان ظاہر کرتے ہیں اور ضروری ہے کہ اس طرح کا قیاس نہ کیا جائےاس لیے کہ ہر موجود اپنے باطن کے اظہار کے لیے مخصوص وسائل رکھتی ہے جو کہ اس کی حیثیت اور کیفیت کے متناسب ہوتے ہیں۔

۵۲

مبادی تدبر قرآن!ایک مطالعہ

مصنف: مولانا حمید الدین فراہی

ابوسفیان اصلاحی شعبہ عربی،مسلم یونیورسٹی علی گڑھ

ترجما ن القرآن مولانا حمید الدین فراہی کے شاگرد مولانا امین احسن اصلاحی کی شخصیت علمی دنیا اور اسلامی حلقوں میں تعارف کی محتاج نہیں، ان کی صلاحیت و لیاقت کے آثار مختلف میدانوں مثلاًخطابت،صحافت،فقہ،حدیث اور تفسیر میں نمایاں ہیںلیکن بعد میں اپنی تمام تر توجہ کا مرکز و محورانہوں نے قرآن کریم کو قرار دیاایک طرف انہوں نے اپنی تصانیف میں قرانیات کے مختلف پہلوؤں پر اظہار خیال کیااور دوسری طرف اپنے استاد گرامی کے بتائے ہوئے تفسیری اصولوں کو پیش نظر رکھتے ہوئے ”تدبر قرآن“کے نام سے ایک تفسیر لکھی یہ تفسیر اپنے نظریہ نظم قرآن کی رو سے دنیا کی تمام تفاسیر میں ممتاز و منفرد مقام کی حامل ہے یہ تفسیر کن اصولوں کو مدنظر رکھتے ہوئے ترتیب دی گئی ہے اور اس کے پیچھے کون سے جذبات و ارادے کارفرما ہیں ان کو جاننے کے لیے مولانا کی کتاب مُبادی تدبر قرآن ۱ کا مطالعہ کرنا از حد ضروری ہے یہ کتاب ایک طرح سے دیکھا جائے تو تفسیر تدبر قرآن کا مقدمہ ہے ۔ یہ کتاب اصلاًمولانا کے مختلف قرآنی مقالات کا مجموعہ ہے ،لیکن یہ مقالات اس انداز سے ترتیب دیئے گئے ہیں کہ یہ کتاب کی شکل اختیار کر گئے ہیںاس کے باوجود بھی کچھ مقالات میں تکرار کا توارد موجود ہے اس کتاب سے یہ بات وضاحت کے ساتھ سامنے آجاتی ہے کہ وہ کون سی چیزیں ہیں جنہیں مولانا حمید الدین فراہی اور مولانا محمد امین احسن اصلاحی فہم القرآن اور اس کے تفکر و تدبر کے لیے ضروری تصور کرتے تھےاور حدیث کے باب میں فقراہی اسکول کا کیا نقطہ نظرہے

____________________

۱۔”مبادی تدبر قرآن“ کی پہلی اشاعت اپریل ۱۹۵۱ءء میں تدبر قرآن کے عنوان سے ہوئی تھیجس میں صرف دو باب”تدبر قرآن ”اور ”تیسیر قرآن“ شامل تھے”تدبر قرآن“ ہی کے عنوان سے مئی ۱۹۵۲ءء میں جب اس کی دوسری اشاعت زیر عمل آئی تو اس میں دواورباب کے اضافے کئے گئے جن کے عناوین ”فہم قرآن کے لئے چند ابتدائی شرطیں“ اور ”تفسیر کے اصول“ تھےاس کا عنوان ”مبادی تدبر قرآن“ کر دیا گیا۔

۵۳

اس پر بھی تفصیل سے روشنی ڈالی گئی ہے۔(۲) یہ کتاب چار مقالات پر مشتمل ہے فہم قرآن کے لئے بعض ابتدائی شرطیں، تدبر قرآن،تیسیر قرآن ارو تفسیر کے اصول ان میں مقالہ تیسیرقرآن بڑی اہمیت کا حامل ہے اس مضمون سے یہ پتہ چلتا ہے کہ مولانا کی قرآن کریم پر گہری نظرتھی،اس میں تیسیر قرآن کے متعدد پہلوؤں کی طرف اشارہ کیا گیا ہے اور قرآن کریم کے بارے میں جو ایک عام تاثر یہ ہے کہ وہ اپنے معنی و مفہوم اور زبان و بیان کے لحاظ سے آسان ہے اس کی حکمتوں اورشیوں تک رسائی بہت معمولی چیز ہے مولانا نے دلائل کی روشنی میں اس کی تردید کی ہے اور تیسیر قران کا صحیح مفہوم پیش کیا ہے

”فہم قرآن“ کے تحت مولانا نے چند شرائط کا ذکر کیا ہے اور یہ شرائط فہم قرآن کے لئے اتنی ہی ضروری ہے جتنا کہ نماز کے لئے وضو اور طہارت،فہم قرآن کی اولین شرط نیت کی پاکیزگی ہے یعنی وہ قرآن کریم کا مطالعہ اس نیت سے کرے کہ وہ اس کے ذریعہ ہدایت اور فلاح کے راستوں کوپالے گا لیکن ایسے بہت سے حضرات جو اپنی ذاتی اغراض کے تحت قرآن کریم کا مطالعہ کرتے ہیںہو سکتا ہے کہ وہ اپنی ذاتی اغراض میں کامیابی حاصل کرلیں لیکن ہدایت قرآن سے محروم رہیں گے مولانا فرماتے ہیں قرآن مجید کو اللہ تعالیٰ نے ہدایت کا صحیفہ بنا کر اتارا ہے اورہر آدمی کے اندر طلب ہدایت کا داعیہ و دیعت کردیا ہے اگر اس داعیہ کے تحت آدمی قرآن مجید کی طرف متوجہ ہوتا ہے تو وہ قرآن مجیدسے بقدر کو شش اور بقدر توفیق الہی فیض پاتا ہے اور اگر اس داعیہ کے علاوہ کسی اور داعیہ کے تحت وہ قرآن کو استعمال کرنا چاہتا ہے تو ”لکل امرمانوی“کے اصول کے مطابق وہ وہی چیزپاتا ہے(۳) قرآن کریم میں اس کی طرف یوں اشارہ کیا گیا ہے

___________________

۲۔اس سلسلے میں دیکھیے؛مولانا حمید الدین قراہی اور علم حدیثمولانا امین احسن اصلاحی مرحوممجلہ الفرقان لکھنو جلد ۶۶،شمارہ ۰۹،دفتر ماہنامہ الفرقان۳۱/۱۴ اظہر آباد،لکھنو ستمبر ۱۹۹۸ء ،ص۱۴۱۸۔

۳۔تدبر قرآن امین احسن اصلاحی مکتبہ چراغ راہلوٹیا بلڈنگ آرام باغ روڈ کراچی باردوم مئی ۱۹۵۶ء ص۲۴۲۵

۵۴

( أُولَـٰئِكَ الَّذِينَ اشْتَرَوُا الضَّلَالَةَ بِالْهُدَىٰ فَمَا رَبِحَت تِّجَارَتُهُمْ وَمَا كَانُوا مُهْتَدِينَ ) (سورہ بقرہ:۱۶)

یہی لوگ ہیں جنہوں نے اختیار کیا گمراہی کو ہدایت کے بدلے تو ان کی یہ تجارت ان کے لئے نفع بخش نہ ہوئی اور وہ ہدایت پانے والے نہ ہوئے۔

نیت کی پاکیزگی کے بعد دوسری شرط یہ ہے کہ قرآن کریم کوایک برتر کلام اور دنیا کی عظیم کتاب مانا جائے کیونکہ بغیر اس کے اس کی حکمتوں او رخزینوں سے استفادہ ممکن نہیںقرآن کے طالب علم کے ذہن میں یہ چیز ارادے اوروثوق کے ساتھ موجود ہو کہ یہ کتاب ایک عظیم الشان تاریخ کی حامل ہے ایک معجز کلام ہے ایک آسمانی کتاب اور لوح محفوظ سے اترا ہوا کلام ہے یہ سب چیزیں اس لئے ضروری ہیں کہ منکرین یہ سمجھتے ہیں کہ یہ کتاب عرب کے بدوؤں کے لئے اتاری گئی تھی اور موجودہ حالات میں یہ کتاب اپنا کوئی مفہوم نہیں رکھتی اور اس کتاب کے ماننے والوں کا یہ خیال ہے کہ یہ کتاب حرام و حلال کے احکامات پر مبنی ہے اور جب سے فقہ کی تدوین ہو گئی ہے اس کی اہمیت میں اور کمی آگئی ہے اسے صرف متبرک کے نقطہ نظر سے دیکھتے ہیں بہت سے لوگ اسے اچھی نصیحتوں کا مجموعہ سمجھتے ہیں بہت سے لوگ اس کو نزع کی سختیوں کو دور کرنے اور ایصال ثواب کی کتاب سمجھتے ہیں اور بہت سے لوگ اس کودفع بلیات اورآفات کا تعویذ سمجھتے ہیں۔(۴)

فہم قرآن کی چوتھی شرط یہ ہے کہ قرآن کریم کے تقاضوں کو پورا کیا جائے اور اسی کے مطابق اپنے ظاہر و باطن کوتبدیل کیا جائے،اس نقطہ نظر سے قرآن کریم کا مطالعہ کیا جائے گا تو جگہ جگہ انسانی خواہشات قرآنی تقاضوں سے متصادم ہوتے ہوئے نظر آئیں گی اور انسان کو اپنے مطالبات سے باز آنا جوئے شیر لانے کے مترادف ہو گالیکن جس کے اندر استقلال اور پختہ ارادہ ہو گاوہ ضرور اپنے اندر قرآنی تقاضوں کے مطابق تبدیلی لائے گالیکن جوپرعزم نہیں ہے اس کے متعلق مولانا لکھتے ہیں وہ اس خلیج کو پاٹنے کی ہمت نہیں کرسکتا جو اپنے اور قرآن کے درمیان حائل پاتا ہے

____________________

۴۔ایضاًص۲۷۲۸

۵۵

وہ یہ محسوس کرتا ہے کہ اگر میں اپنے عقائد و تصورات کو قرآن کے مطابق بنانے کی کوشش کروں تو مجھے ذہنی اور فکری حیثیت سے نیا جنم لینا پڑے گا۔(۵)

لیکن جو لوگ مختلف آزمائشوں سے گزر کر بھی قرآنی تقاضوں اور قرآنی راستوں کو نہیں چھوڑتے ہیں اللہ ان کے لئے راہیں ہموار کر دیتا ہے اگر ایک دروازہ بند ہوتا ہے تو دوسرا دروازہ اس کے لئے کھول دیا جاتا ہے اگر ایک زمین اس کے لئے تنگ ہو جاتی ہے تو دوسری سرزمین اس کے لئے آغوش بن جاتی ہے قرآن کریم میں اسی چیز کی طرف یوں اشارہ کیا گیا

( وَالَّذِينَ جَاهَدُوا فِينَا لَنَهْدِيَنَّهُمْ سُبُلَنَا ۚ وَإِنَّ اللَّـهَ لَمَعَ الْمُحْسِنِينَ ) (سورہ عنکبوت۶۹)

اور جو ہماری راہ میں جدوجہد کریں گے ہم ضروران پر اپنی راہیں کھولیں گے اور اللہ خوبیوں کے طالبوں کے ساتھ ہے

قرآن کریم سے استفادہ کی چوتھی شرط تدبر ہے قرآن کریم نے تدبر نہ کرنے والوں کو ان لفظوں میں یاد کیا ہے

( أَفَلَا يَتَدَبَّرُونَ الْقُرْآنَ أَمْ عَلَىٰ قُلُوبٍ أَقْفَالُهَا )

کیا یہ لوگ قرآن پر غور نہیں کرتے یا ان کے دلوں پر تالے چڑھے ہو ئے ہیں۔

صحابہ کرام مستقل قرآن کریم پر غور کرتے اور اجتماعی طور پر قرآن کا مطالعہ کرتے خلفاء راشدین اور بالخصوص حضرت عمراس قسم کے حلقوں اور قرآن کریم کے ماہرین سے برابر دلچسپی لیتے صحابہ کرام صرف تبرک کے نقطہ نظر سے تلاوت نہ کرتے نہ ہی اسے جانکنی کی سختیوں کو آسان کرنے کے لئے پڑھتے اور نہ ہی اسے تعویذ کے طور پر استعمال کرتے۔(۶)

____________________

۵ ۔ایضاًص ۲۹ نمبر

۶ ۔ایضاً وضاحت کے لئے دیکھئے۳۲۳۴

۵۶

فہم قرآن کی پانچویں شرط یہ ہے کہ تدبر وتفکر کے وقت بہت سی ایسی مشکلات پیش آئیں گی کہ اسے بد دلی اور قنوطیت کی طرف لے جائیں گیلیکن ان حالات میں اسے دامن صبر کو ہاتھ سے نہ جانے دینا چاہیےمولانا فرماتے ہیں کہ اس طرح کی عملی و فکری مشکلوں اور الجھنوں سے نکلنے کا صحیح اور آزمودہ راستہ صرف یہ ہے کہ آدمی اللہ تعالیٰ سے دعا کرے اور قرآن مجید پر جما رہے اگر قرآن مجید یاد ہو تو شب کی نمازوں میں قرآن ٹھہر ٹھہر کر پڑھے انشاء اللہ اس کی ساری الجھنیں دور ہو جائیں گی اور حکمت قرآن کے ایسے دروازے اس پر کھل جائیں گے کہ پھر اس کو قرآن حکیم کی ہر مشکل آسان معلوم ہونے لگے گی۔(۷)

فہم قرآن کی شرائط کے بعد اس کتاب کا دوسرا باب”تدبر قرآن“ہے تدبر قرآن کے لئے کن کن امور کی ضرورت ہوتی ہے وہی چیزیں اس باب میں زیر بحث ہیں قرآن کریم نے جگہ جگہ تفکر و تدبر کی بات کہی ہے بغیر اس کے قرآنی اسرار وحکم کے دروازے کھل نہیں سکتے اور اس تفکر و تدبر کے کچھ ضابطے اور قواعد ہیںاگر انہیں نہ برتا گیا تو راہ ہدایت کا حصول ممکن نہیں ہو گایہی وجہ ہے کہ ماضی میں بے شمارفتنے پیدا ہوئے اور سبھوں نے قرآن کریم ہی سے دلائل پیش کئےمولانا فرماتے ہیں کہ خوارج اپنے گمان کے مطابق قرآن مجید ہی کے سہار ے ابھرے۔ باطینوں کے تمام استدلات کی بنیاد ان کے خیال میں قرآن مجید ہی پر ہےبابیوں اور سبائیوں نے جو کچھ کہا اپنے زعم کے مطابق قرآن مجید ہی سے کہاقادینوں کی نبوت کی اساس ان کے دعوے کے مطابق قرآن مجید ہی پر ہے اور چکڑالوی تو قرآن کے سوا کچھ بولتے ہی نہیں۔(۸)

آخر ایسا کیوں ہے؟جبکہ قرآن کریم ہدایت اور وضاحت کے لئے آیا تھااختلافات کو ختم کرنے کے لئے نازل کیا گیا تھااپنی تعلیمات میں غیر مشتبہ اور غیرمبھم ہے اور ہر اعتبار سے اس کے اندر ایک نظم، توافق اور کامل وحدت ہے۔ اگر ایسا ہے تو مناسب تو یہ تھا کہ تمام فرقوں کو ایک سطح پرلاکھڑا کر دیتا اور ان کے تمام اختلافات اور انتشارات کو مٹا دیتا

____________________

۷۔ایضاً ص۳۴۳۵

۸۔ایضاً ص۴۱۴۲

۵۷

مولانا نے اس کا جواب ان لفظوں میں دیا ہے ”قرآن مجید کے مطالعہ کے کچھ خاص آداب و قواعد ہیں جن کا لحاظ اور اہتمام ضروری ہے ان کے بغیر قرآن کی راہ نہیں کھل سکتی ان میں سب سے مقدم جیسا کہ اوپر ذکر کیا گیا ہے ارادہ اور نیت کی درستی ہے یہ اللہ کی کتاب ہے اور خلق کی ہدایت کے لئے نازل ہوئی ہے اس لئے سب سے مقدم یہ ہے کہ انسان بالکل خالی الذہن ہو کر اس کو صرف طلب ہدایت کے لئے پڑھے اور اپنے قلب و دماغ کو پورے طور پر اس کے حوالے کر دے اپنے د ل کی باگ اس کے ہاتھ میں دے دے۔(۹)

قرآن کریم نے اپنی خصوصیت کی طرف خود اشارہ کیا ہے:

( هُوَ الَّذِي أَنزَلَ عَلَيْكَ الْكِتَابَ مِنْهُ آيَاتٌ مُّحْكَمَاتٌ هُنَّ أُمُّ الْكِتَابِ وَأُخَرُ مُتَشَابِهَاتٌ ۖ فَأَمَّا الَّذِينَ فِي قُلُوبِهِمْ زَيْغٌ فَيَتَّبِعُونَ مَا تَشَابَهَ مِنْهُ ابْتِغَاءَ الْفِتْنَةِ وَابْتِغَاءَ تَأْوِيلِهِ ۗ وَمَا يَعْلَمُ تَأْوِيلَهُ إِلَّا اللَّـهُ ۗ وَالرَّاسِخُونَ فِي الْعِلْمِ يَقُولُونَ آمَنَّا بِهِ كُلٌّ مِّنْ عِندِ رَبِّنَا ۗ وَمَا يَذَّكَّرُ إِلَّا أُولُو الْأَلْبَابِ ) (آل عمران۔ ۷)

وہی ہے جس نے اُتاری تم پر کتاب جس میں سے کچھ آیات محکمات ہیں اور وہی اصل کتاب ہیں اور دوسری متشابہات ہیں تو جن لوگوں کے دلوں میں کجی ہے وہ قرآن کی متشابہات کے پیچھے پڑتے ہیں فتنہ پیدا کرنے کے لئے اور اس کی اصل ماہیت دریافت کرنے کے لئے حالانکہ اس کی ماہیت نہیں معلوم ہے مگر اللہ کو اور جو علم میں پختہ ہیں وہ کہتے ہیں ہم ان پر ایمان لائے سب ہمارے رب کی طرف سے ہے اور نہیں سمجھتے ہیں مگر وہ جو عقل والے ہیں۔

اس کے بعد مولانانے بتایا کہ قرآن کریم میں دو طرح کی آیات ہیں محکم اور متشابہہ اور اس کے بعد اس پر اظہار خیال کیا ہے کہ قرآن پڑھنے والوں کی دو قسمیں ہیں ایک تو وہ حضرات جو صرف طلب رشد وہدایت کے لئے پڑھتے ہیںچنانچہ آیات محکمات ان کے لئے طمانیت اور ذہنی آسودگی کا سبب بن جاتی ہیںاورجب کبھی وہ ذہنی وساوس اور خلجان میں مبتلا ہوتے ہیں

____________________

۹۔ایضاً ص۴۲۴۳

۵۸

تو ان کی زبان پر یہ دعا جاری ہوجاتی ہے۔(۱۰)

( رَبَّنَا لَا تُزِغْ قُلُوبَنَا بَعْدَ إِذْ هَدَيْتَنَا وَهَبْ لَنَا مِن لَّدُنكَ رَحْمَةً ۚ إِنَّكَ أَنتَ الْوَهَّابُ ) (سورہ آل عمران:۸)

اے ہمارے رب ہم کوہدایت دینے کے بعد ہمارے دلوں کوڈانوا ڈول نہ کر، اپنے پاس سے ہم کو رحمت بخش تو بڑا بخشنے والاہے۔

دوسری جماعت ان لوگوں کی ہے جو اپنے اغراض و خواہشات کی تکمیل کے لئے قرآن کریم کا مطالعہ کرتے ہیںمولانا فرماتے ہیں کہ ان کا مقصود و طلب رشدوہدایت سے زیادہ یہ ہوتا ہے کہ اپنے کسی قرار داد، مسلک کی تائید کے لئے اس میں دلیلیں تلاش کریںیا جن سے ان کو اختلاف ہے ان کو چپ کرانے کے لئے اس میں سے اعتراضات کج بحثیاں ڈھونڈ ڈھونڈ کر نکالیں۔(۱۱)

جبکہ قرآن کریم تطہیر قلب اور روح کے تزکیہ کے لئے نازل کیا گیا ہےیہ دماغی عیاشیوں اور کج بخثی؟ کے لئے نہیں نازل کیا گیاہےقرآن کریم میں ارشاد ہے۔

( إِنَّ فِي ذَٰلِكَ لَذِكْرَىٰ لِمَن كَانَ لَهُ قَلْبٌ أَوْ أَلْقَى السَّمْعَ وَهُوَ شَهِيدٌ ) (سورہ ق:۳۷)

اس کے اندر اس شخص کے لئے یاددہانی ہے جس کے پاس بیدار دل ہو یا وہ کان لگائے متوجہ ہوکر۔

یعنی قرآن کریم ان لوگوں کے لئے صحیفہ ہدایت ہے جو

( إِلَّا مَنْ أَتَى اللَّهَ بِقَلْبٍ سَلِيمٍ )

مگر جو اللہ کے پاس قلب سلیم لے کر آئے۔

____________________

۱۰۔وضاحت کے لئے دیکھیےص۴۴۴۶ -------- ۱۱۔ایضاً ص۴۷

۵۹

اور اسی طرح سورہ ق میں آیا ہے کہ”وجاء بقلب منیب“(جو متوجہ ہونے والا دل لے کر آئے)جو لوگ قلب سلیم اور قلب منیب کے بغیر قرآن کریم کا مطالعہ کرتے ہیں ان کے لئے یہ کتاب کتاب ہدایت ثابت نہیں ہو سکتی۔(۱۲)

قرآن کریم میں ارشاد ہے:

( الَّذِينَ يُجَادِلُونَ فِي آيَاتِ اللَّـهِ بِغَيْرِ سُلْطَانٍ أَتَاهُمْ ۖ كَبُرَ مَقْتًا عِندَ اللَّـهِ وَعِندَ الَّذِينَ آمَنُوا ۚ كَذَٰلِكَ يَطْبَعُ اللَّـهُ عَلَىٰ كُلِّ قَلْبِ مُتَكَبِّرٍ جَبَّارٍ ) (سورہ غافر:۳۵)

قرآن کریم کانزول اس لیے ہو ا ہے کہ وہ لوگوں کو تاریکیوں سے نکال کر اجالوں کی طرف لے آئے لیکن یہ ہدایت اور ضلالت قرآن کریم کے قانون اور ضابطے کے مطابق ہوتی ہے اللہ قانون حکمت کے مطابق جس کو چاہتا ہے ہدایت دیتا ہے اور جس کو چاہتا ہے ضلالت دیتا ہے وہ اہل ایمان کو ہدایت دیتا ہے او اہل کفر جن کے اولیاء طاغوت ہیں انہیں ضلالت سے ہم کنار کرتا ہے مولانا نے سورہ بقرہ کی آیات ۲۵۸سے۲۶۰ تک نقل کی ہیں جن سے تین ایسے لوگوں کی مثالیں پیش کی ہیںجنہیں تاریکی سے نکال کر روشنی کی طرف لاتا ہے یا ان کو تاریکی میں چھوڑدیتا ہے ایک تو وہ ہے جو اپنی دولت و حکومت اور سلطنت و عظمت کے نشہ میں مخبوط ہے وہ حضرت ابراہیم کی پیش کردہ روشنی سے اعراض کرتا ہے اور دوسرا وہ شخص ہے جو یقین و بصیرت کا طلبگار ہے طلب ہدایت اور حصول رشد کے لئے مضطرب ہے مولانا ایسے حیرت زدہ شخص کے لئے لکھتے ہیں” وہ بستیوں کے ہجوم سے بھاگتا اور شہروں کے اژدھام سے گھبراتا ہے اور چاہتا ہے کہ کسی مقام عبرت و موعظت کا کوئی خلوت کدہ میسر آجائے تو اپنے سوالوں کو لے کر بیٹھ جائے جن کے جواب کے لئے وہ ہمہ وقت تشنہ و بیقرار ہے اللہ تعالیٰ ایسے شخص کی تمام الجھنوں کو دورکر دیتا ہے اور وہ یقین کامل کی روشنی سے معمور ہو کر پکار اٹھتا ہے کہ اللہ ہر چیز پر قادر ہے:

( فَلَمَّا تَبَيَّنَ لَهُ قَالَ أَعْلَمُ أَنَّ اللَّـهَ عَلَىٰ كُلِّ شَيْءٍ قَدِيرٌ ) (سورہ البقرة:۲۵۹)

____________________

۱۲۔ایضاً ص۱۲

۶۰