علوم ومعارف قرآن

علوم ومعارف قرآن0%

علوم ومعارف قرآن مؤلف:
زمرہ جات: علوم قرآن
صفحے: 263

علوم ومعارف قرآن

یہ کتاب برقی شکل میں نشرہوئی ہے اور شبکہ الامامین الحسنین (علیہما السلام) کے گروہ علمی کی نگرانی میں اس کی فنی طورپرتصحیح اور تنظیم ہوئی ہے

مؤلف: مختلف دانشور
زمرہ جات: صفحے: 263
مشاہدے: 119959
ڈاؤنلوڈ: 4829

تبصرے:

علوم ومعارف قرآن
کتاب کے اندر تلاش کریں
  • ابتداء
  • پچھلا
  • 263 /
  • اگلا
  • آخر
  •  
  • ڈاؤنلوڈ HTML
  • ڈاؤنلوڈ Word
  • ڈاؤنلوڈ PDF
  • مشاہدے: 119959 / ڈاؤنلوڈ: 4829
سائز سائز سائز
علوم ومعارف قرآن

علوم ومعارف قرآن

مؤلف:
اردو

یہ کتاب برقی شکل میں نشرہوئی ہے اور شبکہ الامامین الحسنین (علیہما السلام) کے گروہ علمی کی نگرانی میں اس کی فنی طورپرتصحیح اور تنظیم ہوئی ہے

مولانا اس پر روشنی ڈالتے ہوئے”یسرنا“ اور ”للذکر“پر لغوی بحث کی ہے مجاہد نے ”یسرنا“ کا معلوم ”ھوناہ“ بتایا ہے اور ابن زید نے اس کا مفہوم ”بیناہ “قرار دیا ہے اس سے ایک حد تک مفہوم تو ادا ہو گیا لیکن اس کی جامعیت کا حق نہ اداہو سکا”یسر“کے معنی لغت میں نرمی اور فرمانبرداری کے ہیںاسی سے تیسیر ہے جس کے معنی ہیں کسی شی کو کسی مقصد کے لئے موزوں،صالح ،موافق اور سازگار بنا لینامثلاً کہیں گے۔”یسرالفرس“ یعنی اس نے گھوڑے کو زین،رکاب اور لگام سے آراستہ کر کے سواری کے لئے بالکل تیار کر لیا۔”یَسًرنا قته للسفراذارحلهاویسرالفرس للسفراذااسرجه والجمه“ (۵۳)

اعرج معنی کا شعر ہے ۔”قمت الیه باللجام یسرًامضالک یحبترینی الذی کنت اضع“ (۵۴) میں اپنے گھوڑے کی طرف بڑھا تو حال یہ تھا کہ وہ لگام کے ساتھ بالکل تیار کھڑا تھا ایسے ہی وقتوں میں وہ میرے احسانا ت کا حق اداکرتا ہے یہیں سے اس میں اہل اور لائق بتانے کا مفہوم بھی پیدا ہو گیامضرس بن ربعی کا شعر ہے ۔”نعین فاعلنا علی ماتابهحتی نیسره لفعل السید“ (۵۵) ہمارے سردار کو جو مشکلیں پیش آتی ہیں ہم اس میں اس کی مدد کرتے ہیںیہاں تک کہ اس کو سرداری کے کام کا اہل بنا دیتے ہیں”للذکر“ کا ترجمہ بعض مفسرین نے نصیحت کرنے کے لئے کیاہے اور بعض نے سمجھنے کے لئے کیا ہے مولانا کے نزدیک یہی درست ہے اگرچہ پھر بھی پوری حقیقت منظر عام پر نہیں آرہی ہے ذکر کے اصل معنی یاد کرنے اور بیان کرنے کے ہیںذکر آسمانی کتابوں کے لئے بھی آتا ہے مثلاً( (فَاسْأَلُوا أَهْلَ الذِّكْرِ ) اسی طرح قرآن مجید میں بھی آیا ہے ۔( وَ هذا ذِكْرٌ مُبارَکٌ أَنْزَلْناهُ )

__________________

۵۱۔اس کے لیے لسان العرب دیکھیے -------------- ۵۲۔یہ مفہوم لسان العرب اور متجد دونوں میں موجود ہے

۵۳۔یہ مفہوم میں متجد میں موجود ہے

۵۴۔بحوالہ مبادی تدبر القرآنص۱۶۸

۵۵۔دیوان الحماسة (بحواشی محمد اعزاز علی ) المکتبہ الرحیمیہدیو بند یوپی ہند(بدون تاریخ)ص۳۰۷

۸۱

اور یہ لفظ قرآن کریم میں اس کی صفت کے طور پر بھی آیا ہے مثلاً( وَالْقُرْآنِ ذِی الذِّکْرِ ) اسی طرح انبیائے کرام کو”مذکر“ اور ان کی تعلیمات کو تزکیہ اور ذکری کے لفظ سے تعبیر کیا گیا ہے( فَذَكِّرْ إِن نَّفَعَتِ الذِّكْرَى )

اس طرح قرآن کو ”تذکرہ“ اور ”نور “کہاگیا ہے ان دونوں لفظوں سے اس کی پوری حقیقت منظر عام پر آجاتی ہے اور یہ چیز نہایت صراحت کے ساتھ سامنے آتی ہے کہ قرآنی تعلیمات فطرت انسانی کے مطابق ہیںایک مذکر صرف اس لئے آتا ہے کہ انسان کو اس کا بھولا بسرا ہوا سبق یاد دلا سکے(۵۶) مولانا فرماتے ہیں کہ ”پس قرآن مجید کے سہل ہونے کے معنی صرف یہ ہیں کہااگر کوئی طالب علم اس کی رہنمائی میں حقیقت تک پہنچنا چاہے گا تو اللہ تعالیٰ کی طرف سے اس کی مدد ہو گی کیونکہ اس نے وہ راہ اختیار کر لی ہے جواللہ کی کھولی ہو ئی راہ ہے اورجس سے سیدھی اور کھولی ہوئی کوئی دوسری راہ نہیں(۵۷)حضرت فتادہ نے”هل من مدکر “کی تاویل فرماتے ہوئے مندرجہ ذیل الفاظ میں اس حقیقت کی طرف اشارہ فرمایا ہے ” ھل من طالب علم فیعان علیہ“ہے کوئی طالب علم جس کی مدد کی جائے۔ اسی حقیقت کی طرف صاحب کشاف نے بھی اشارہ کیا ہے:

”یجوز ان یکون المعنی و لقد هیاناه للذکرمن یسر ناقته للسفراذارحلها ویسرفرسه للسفراذا اسرجه والجمعة“ (۵۹) یعنی اس کے یہ معنی بھی ہو سکتے ہیں کہ ہم نے ذکر یعنی حصول علم کے لئے قرآن مجید کو تیار کیا ہے جیسا کہ محاورہ ہے کہ اس نے اونٹنی کو سفر کے لیے اور گھوڑے کو میدان جنگ کے لئے تیار کیا ہےاس بحث کے بعد یہ واضح ہو گیا کہ تفسیر کا جو مفہوم بیان کیا جاتا ہے کہ یہ ایک عام فہم کتاب ہے اس کے لئے تفکر و تدبر کی ضرورت نہیں اور اس کو جاننے کے لیے صرف عربی جاننا ہی کافی ہے مناسب نہیں ہے

____________________

۵۶۔تدبر قرآن وضاحت کے لیےص۱۷۴۱۷۸

۵۷۔ایضاً ص۱۷۹ --------- ۵۸۔بحوالہ مبادی تدبر القرآنص۱۲۲

۵۹۔تفسیر الکشاف بحوالہ مبادی تدبر القرآن ص۱۲۲۱۲۳

۸۲

مولانا فرماتے ہیں”اگر وہ ایمان لانا چاہتے ہیں اور یہ وعدہ محض مذاق و شرارت نہیں ہے بلکہ سچائی کے ساتھ ان کے دل کا اقرار ہے تو پھر علم کی راہ اختیار کریں،علم کے حصول کے لئے ہم نے قرآن مجید کو نہایت مکمل اور موزوں بتا دیا ہے اس میں ہر سوال کا جواب ہے ہر شبہہ کا ازالہ ہے ہر خلش کے لے تشقی ہےبس اس کو اختیار کرلیں وہ ہر منزل میں رہنمائی کر ے گا اور ہر عقدہ کو حل کریگا۔(۶۰) اس کے بعد مولانا نے تفسیر کے مختلف پہلوؤں سے بحث کی ہے تفسیر کا ایک پہلو یہ بھی ہے کہ قرآن کا نزول عربی مبین میں ہواقرآن کریم میں مختلف جگہوں پر اس خصوصیت کا ذکر ہے(۶۱) مثلاًانا انزلناہ قرآنا عربیآ(سورہ یوسف:۲) دوسری جگہ ارشاد ہے ”کتابُ فصلت آیاتہ قرآنا عریبا(سورہ قصلت:۳)اور تیسری جگہ ارشاد ہے وھذ السان عربی مبین“(سورہ نحل:۱۰۳)مولانا فرماتے ہیںاس لئے قرآن مجید عربی میں نازل ہواپھر عربی بھی وہ عربی جو عربی مبین ہے بالکل واضح اور صاف ،مغلق اور پیچیدہ نہیں جس کو ہر طبقہ بآسانی نہ سمجھ سکے،محدود اور تنگ نہیںجس کے اسالیب و قواعد اور الفاظ و محاورات قبیلوں اور جماعتوں کے ساتھ مخصوص ہوںبلکہ وہ عربی جو مصمائے عرب کی بولی تھیجس کو سب سمجھتے تھے اور جس کی وضاحت پر سب کا اتفاق و اجماع تھاپس عربی زبان میں قرآن مجید کا اترنا عربوں کے لحاظ سے نہایت کھلی ہوئی تیسیر تھی چنانچہ بعض آیات میں اس کی تصریح بھی ہے(۶۲)

( فَإِنَّمَا يَسَّرْنَاهُ بِلِسَانِكَ لِتُبَشِّرَ بِهِ الْمُتَّقِينَ وَتُنذِرَ بِهِ قَوْمًا لُّدًّا ) (سورہ مریم :۹۷)

ہم نے اس کو موزوں بتایا تھاتمہاری زبان میں تاکہ تم اس کے ذریعہ سے خدا ترسوں کو خوشخبری اور ہٹ دھرموں کو آگآہ کرو

اور دوسری جگہ ارشاد ہے :

____________________

۶۰۔تدبر قرآن ص۱۸۱

۶۱۔ایضاً ص۱۸۱

۶۲۔ایضاً ص۱۸۲

۸۳

( فَإِنَّمَا يَسَّرْنَاهُ بِلِسَانِكَ لَعَلَّهُمْ يَتَذَكَّرُونَ ) (سورہ دخان :۵۸)

اور علم نے اسکو استوار کیا تمہاری زبان میں تاکہ وہ یاددہانی حاصل کریں۔

قرآن کی تیسیر کا دوسرا پہلو یہ ہے کہ وہ تھوڑا نازل ہوا ہےتاکہ قرآن کی تعلیمات دلوں میں واضح ہو جائیںوہ آہستہ آہستہ حالات کے تقاضے اور ضروریات کے مطابق نازل ہوتا رہا،جب کفارنے یہ اعتراض کیا کہ یہ کیوں نہیں تورات کی طرح ایک ساتھ نازل ہو جاتا جستہ جستہ کیوں اترتا ہے تو ان کے جواب میں اللہ فرماتا ہے :

( كَذَٰلِكَ لِنُثَبِّتَ بِهِ فُؤَادَكَ ۖ وَرَتَّلْنَاهُ تَرْتِيلًا ) (سورہ الفرقان:۳۲)

ایسا اس لئے ہے کہ اس طرح ہم تمہارے دل کو مضبوط کریں اور ہم نے قرآن کو ٹھہر ٹھہر کر اتارا ہے ۔

دوسری جگہ ارشاد ہے:

( لِتَقْرَأَهُ عَلَى النَّاسِ عَلَىٰ مُكْثٍ ) (بنی اسرائیل:۱۰۶)

تاکہ تو اس کو لوگوں کو وقفہ وقفہ کے ساتھ سنائے۔

تیسیر کا تیسرا پہلو سورہ ہود کے آغاز میں مذکور ہے :

( كِتَابٌ أُحْكِمَتْ آيَاتُهُ ثُمَّ فُصِّلَتْ مِنْ لَدُنْ حَكِيمٍ خَبِيرٍ ) ( سورہ ہود!)

ایسی کتاب ہے جس کی آیتیں پہلے محکم کی گئیں پھر ایک حِکم کی طرف سے ان کی تفصیل کی گئی۔

۸۴

اس آیت کا مفہوم یہ ہے کہ مکی سورتوں میں دین کی تمام اصولی تعلیمات توحید،رسالت اور معاد وغیرہ نہایت مختصر اور جامع لفظوں میں بیان ہوئی ہیںاور بعد میں ان کی تفصیلات اور جزئیات مدنی سورتوں میں بیان کی گئیںقرآن کریم کے اجمال و تفصیل کا یہ طریقہ فطرت انسانی کے نقطہ نظر سے نہایت مناسب ہے

تیسیرکا چوتھا پہلو تعریف آیات ہے یعنی قرآن کریم مخاطب کے ذہن میں اچھی طرح بات کو ذہن نشین کرانے کے لئے ایک ہی بات کو مختلف انداز سے پیش کرتا ہے(۶۳)قرآن کریم میں ارشاد ہے:

( انظُرْ كَيْفَ نُصَرِّفُ الْآيَاتِ ثُمَّ هُمْ يَصْدِفُونَ ) (سورہ انعام:۴۶)

دیکھو‘کیسے ہم پھیر پھیر کر اپنے دلائل بیان کرتے ہیںپھر بھی وہ منہ موڑتے ہیں۔

( انظُرْ كَيْفَ نُصَرِّفُ الْآيَاتِ لَعَلَّهُمْ يَفْقَهُونَ ) (سورہ انعام:۶۵)

دیکھو‘کیسے ہم اپنی دلیلیں پھیر پھیر کر بیان کرتے ہیں تاکہ وہ سمجھیں۔

مولانا فرماتے کہ تصریف آیات کا لفظ تصریف ریاح سے لیاگیاہےیعنی ہوا ایک ہی ہے لیکن اس کے تصرفات میں تنوع او ر گونا گونی ہے یعنی وہ رحمت بھی اور نعمت بھیمولانا کا خیال ہے کہ اس کا بہر بھیس اس کا ئنات کی زندگی اور نشوونما کے لئے ضروری ہوتا ہے وہ کبھی گرم ہوتی ہے کبھی سرد کبھی خشک ہوتی ہے کبھی تر کبھی آندھی کی ہولناکی بن کر نمودار ہوتی ہے کبھی نسیم صبح کی جان توازی اور عطربہتری بن کر اللہ تعالیٰ نے اس تصریف ریاح کا مختلف مقامات پر ذکر کیا ہے سورہ ذاریات اور مرسلات میں اسکے عجائب تصرفات کی قسم بھی کھائی گئی ہے۔(۶۴)

___________________

۶۳۔ایضاً وضاحت کے لیے دیکھیےص۱۸۲۱۸۶

۶۴۔ایضاً ص۱۸۷

۸۵

بارش کی ایک مثال سے اللہ تعالیٰ نے تین حقائق کو پیش کیا ہے ایک تو یہ کبھی مدتوں بارش نہیں ہوتی ہے ایسے میں بندہ اللہ کی رحمت سے مایوس ہونے لگتا ہے لیکن اچانک کو ئی ابر کا ٹکڑا اٹھتا ہے اور دلوری سرزمین کو جل تھل کر دیتا ہے چنانچہ بندے کی مایوسیاں امیدمیں بدل جاتی ہیں اسی لئے مناسب یہ ہے کہ خوف اورطمع ہر حال میں اللہ ہی کو پکارا جائے۔

( وَادْعُوهُ خَوْفًا وَطَمَعًا ۚ إِنَّ رَحْمَتَ اللَّـهِ قَرِيبٌ مِّنَ الْمُحْسِنِينَ ) (سورہ الاعراف:۵۶)

پس امید ہو یا بہم ہر حال میں اسی کو پکارو اللہ کی رحمت سے اس اچھے بندوں سے قریب ہے ۔

دوسری حقیقت یہ ہے کہ منکرین کو اس پر حیرت ہے کہ ہم گل سڑ جانے کے بعد دوبارہ کیسے زندہ ہو جائیں گے؟اللہ کا کہنا ہے کہ اس میں کوئی استعجاب نہیں کیونکہ زمین جل جاتی ہے اور سطح زمین پر گھاس کا ایک تنکا بھی نظر نہیں آتالیکن بارش ہوتے ہی چند دنوں کے بعد سطح زمین پر سبزہ کی بارات بچھ جاتی ہے قرآن کریم میں ارشاد ہے

( سُقْنَاهُ لِبَلَدٍ مَّيِّتٍ فَأَنزَلْنَا بِهِ الْمَاءَ فَأَخْرَجْنَا بِهِ مِن كُلِّ الثَّمَرَاتِ ۚ كَذَٰلِكَ نُخْرِجُ الْمَوْتَىٰ ) (سورہ الاعراف:۵۷)

ہم نے ان بادلوں کو کسی سو کبھی زمین کی طرف پانک کر لے جاتے ہیںاور وہاں پانی برسا دیتے ہیںپھر اس سے پیدا کر دیتے ہیں ہرقسم کے پھل اسی طرح مُردوں کو بھی اٹھا کر کھڑے کریں گے۔

ایک تیسری حقیقت یوں ہے کہ بارش زمین کے ہر حصہ پر ہوتی ہے لیکن اس کے اثرات و نتائج مختلف حصوں میں مختلف ہوتے ہیں زرخیز زمین لہلہا اٹھتی ہیں اور لوگوں کے لئے سبب رزق بن جاتی ہیں لیکن تھور زمینیں ویسی کی ویسی ہی پڑی رہتی ہیںاگر اس میں کچھ اُگا بھی تو وہ انسانوں کے لئے راس نہیں یہی حال آسمان کی روحانی بارش کا ہے جو تمام لوگوں کے لئے عام ہوتی ہے لیکن ہر انسان بقدر استعداد اس سے فیضیاب ہوتا ہے فطرت صالحہ اس سے خیروبرکت حاصل کرتی ہے

۸۶

اور فطرت فاسدہ اس سے اضطراب کا شکار ہو جاتی ہے قرآن کریم میں ارشاد ہے۔

( وَالْبَلَدُ الطَّيِّبُ يَخْرُجُ نَبَاتُهُ بِإِذْنِ رَبِّهِ ۖ وَالَّذِي خَبُثَ لَا يَخْرُجُ إِلَّا نَكِدًا ۚ ) (سورہ الاعراف:۵۸)

جو زمین زرخیر ہوتی ہے اس کی نباتات خدا کے حکم سے خوب اُگتی ہے اور جو زمین خراب ہوتی ہے وہ بہت کم اُگاتی ہے۔

تصریف آیات کا مقصد یہ ہے کہ( كَذَٰلِكَ نُصَرِّفُ الْآيَاتِ لِقَوْمٍ يَشْكُرُونَ ) مولانا کہتے ہیں کہ تصریف آیات کا تعلیم اور تیسیر میں اس قدر دخل واضح کہ اس پر کسی بحث کی ضرورت نہیں اس تصریف کا مقصد خود قرآن مجید کی تصریحات کے مطابق یہ ہے کہ لوگ یاد دہانی حاصل کریں اور سمجھیں

( وَلَقَدْ صَرَّ‌فْنَا فِي هَـٰذَا الْقُرْ‌آنِ لِيَذَّكَّرُ‌وا وَمَا يَزِيدُهُمْ إِلَّا نُفُورً‌ا )

اور ہم نے اس قرآن میں اپنے دلائل پھیر پھیر کر بیان کئے کہ لوگ یاددہانی حاصل کریں لیکن یہ چیز ان کی نفرت ہی بڑھاتی ہے۔

اس تفصیل سے یہ بات پوری طرح سامنے آگئی کہ تیسیر کا وہ مفہوم درست نہیں ہے جو عام طور سے سمجھا جاتا ہے اس کا مطلب تو صرف یہ ہے کہ یہ حصول علم اور یاددہانی کے نہایت آسان ہے تو اس کا یہ مطلب نہیں ہے کہ علم دین فکرو تدبر کی تمام کا وشوں سے مستعنی ہو گیا ہے۔(۶۵)

___________________

۶۵۔ایضاً ص۱۸۷۱۹۱

۸۷

اس کے بعد قرآن مجید کی مشکلات بااعتبار مخاطب پر روشنی ڈالی گئی ہےاور اس میں یہ بتایا گیا ہے کہ دور اول میں صحابہ کرام قرآن کی امتثال ،اسالیب،اصطلاحات،تلمیحات،احوال عرب اور اپنی قوم کے عقائد ورسومات سے پوری طرح واقف تھےجہاں قرآن کریم نے ا شارہ کیا سمجھ گئے جہاں لسان غیب سے کوئی نقطہ تراوش ہوا وہ بے تکلف اس کا مطلب سمجھ گئےاس کی مثا ل یہ ہے کہ قرآن کریم کی بہت سی آیات میں ابولہب کی نسبت نہایت لطیف تصریحات ہیں جن کی تہہ تک پہنچنا صحابہ کرام کے لئے دشورا گزار نہ تھالیکن آج کے عہد میں ان تصریحات کا سمجھنا اور قرآنی اسالیب کا بآسانی پکڑنا مشکل ہے ،بہت سی ایسی آیات ہیں جن میں ہلکے سے اشارات ہیں ان کا سمجھنا ہم لوگوں کے لئے ایک مسئلہ ہے لیکن صحابہ کرام اشارہ پاتے ہی پوری داستان کو سمجھ جاتے تھےاس سلسلے کی دو مثالیں یہاں پیش کی جارہی ہیںایک میں اہل مکہ کی نماز کا ذکر ہے۔

( وَمَا كَانَ صَلَاتُهُمْ عِنْدَ الْبَيْتِ إِلَّا مُكَاءً وَتَصْدِيَةً )

نہیں تھی ان کی نماز خانہ کعبہ کے پاس مگر تالی بجانا اور صحیح بجانا

آج اہل مکہ کی اس عبادت کا پورا تصور منظر عام پر لانا ہمارے لیے کس قدر مشکل ہے لیکن عہد نزول قرآن کے لوگوں کے سامنے اس کی پوری تصویر موجود تھیکیونکہ ظہور اسلام سے قبل خود اسی طرز پر اپنی نمازیں اداکرتے تھے۔(۶۶)

اسی طرح سورہ اعراف میں ذکر ہے:

( وَإِذَا فَعَلُوا فَاحِشَةً قَالُوا وَجَدْنَا عَلَيْهَا آبَاءَنَا وَاللَّـهُ أَمَرَنَا بِهَا ۗ قُلْ إِنَّ اللَّـهَ لَا يَأْمُرُ بِالْفَحْشَاءِ ۖ أَتَقُولُونَ عَلَى اللَّـهِ مَا لَا تَعْلَمُونَ ) (سورہ اعراف:۲۸)

اور جب کوئی بے حیائی کا کام کرتے ہیں توکہتے یں کہ ہم نے اپنے آباء و اجداد کو یہ کام کرتے ہوئے پایا ہے اور اللہ نے ہم کو اس کا حکم دیا ہے کہدو اللہ بے حیائی کا حکم نہیں دیتاکیا تم اللہ پر ایسی بات کا الزام دھرتے ہوجس کا تمہیں علم نہیں۔

۸۸

اس آیت میں اہل مکہ کے ننگے طواف کرنے کا ذکر ہوا ہے جبکہ بالفاظ اس کا ذکر نہیں ہے بلکہ ایک لطیف سا اشارہ ہےکیونکہ اہل مکہ اس کے سیاق وسباق سے پوری طرح واقف تھےلیکن آج ہمارے لئے اس آیت کے پس منظر پوری طرح گرفت میں لے لینا آسان نہیں ہے اسی ننگے پنے کی صورت طواف کرنے کا ذکر دوسری جگہ اس طرح ہے ۔

( يَا بَنِي آدَمَ خُذُوا زِينَتَكُمْ عِندَ كُلِّ مَسْجِدٍ وَكُلُوا وَاشْرَبُوا وَلَا تُسْرِفُوا ۚ إِنَّهُ لَا يُحِبُّ الْمُسْرِفِينَ ﴿﴾ قُلْ مَنْ حَرَّمَ زِينَةَ اللَّـهِ الَّتِي أَخْرَجَ لِعِبَادِهِ وَالطَّيِّبَاتِ مِنَ الرِّزْقِ ۚ ) (سورہ اعراف:۳۱، ۳۲)

ہر مسجد کے پاس لباس وغیرہ سے اپنے تئیس آراستہ کر لیا کرو اور کھاؤپیو اور فضول خرچیاں نہ کروکیونکہ خدا فضول خرچیاں کرنے والوں کو پسندنہیں کرتاان لوگوں سے کہ کس نے حرام کی اللہ تعالیٰ کی زینت جو اس نے اپنے بندوں کے لئے پیدا کی اور پاک روزیاں(جو اس نے اپنے بندوں کو بخشیں۔

اسی طرح کی بہت سے واقعات اور اہل مکہ کے عقائد و رسومات متعدد آیات میں ذکر کئے گئے ہیں جن سے صحابہ کرام پوری طرح باخبر تھےلیکن موجودہ عہد میں ان تمام چیزوں سے آگاہ ہونے کے لئے بہت چیزوں کا سہارا لینا پڑے گا۔

جن کی طرف مولانا فراہی نے ان لفظوں میں اشارہ کیا ہے ”ہم کو لازم ہے کہ زمانہ نزول کی پوری حالت تمدن سے ہم واقف ہوں“

۱۔ہم کو اس وقت کے یہود ونصاری ،مشرکین،صابیئین وغیرہ کے مذہب و معتقدات سے واقف ہونا چاہیے

۲۔ہم کو عرب کے عام توہمات کو دریافت کرنا چاہیے۔

۳۔ہم کو جاننا چاہیے کہ نزول قرآن کی مدت میں کیا کیا واقعات نئے پیدا ہوئے اور ان سے عرب کی مختلف جماعتوں میں کیا کیا مختلف باتیں زیر بحث آگئیںکیا کیا ملکی و تمدنی جھگڑے چھڑ گئے اور تمام عرب میں کیا شورش پیدا ہو گئی۔

۸۹

۴۔ہم کو یہ بھی جاننا چاہیے کہ عرب کا مذاق سخن کیاتھا کس قسم کے کلام سننے اور بولنے کے وہ عادی تھے بزم میں ان کا خطیب کس روش پر چلتا تھاایجاز اور اطناب ،ترصیع وترکیب،دیگر اسالیب خطابت کو وہ کیونکر استعمال کرتے تھے۔

۶۔اور بالآخر ہم کو یہ بھی جاننا چاہیے کہ عرب کے ذہن میں اخلاق کے مدارج نیک وبد کیاتھے۔(۶۷) اس کے بعد مولانا نے سلف کے طریقہ تفسیر پر روشنی ڈالتے ہوئے بتایاکہ پہلے وہ آیات کی تفسیر کے لئے دوسری آیات سے مددلیتے تھےاس کے بعد احادیث رسول کے ذریعہ قرآن کریم کی تفسیر بیان کرتے اور تیسرے مرحلہ میں صحابہ کرام کے آثار و اقوال سے مدد لیتے تھے۔(۶۸) جس کی طرف علامہ سیوطی نے خود اپنی کتاب میں اشارہ کیا ہے(۶۹) اور وہیں پر علامہ سیوطی نے یہ بات بھی بڑے شدومد کے ساتھ کہی ہے کہ تفسیر کے وقت اس کا ضرور خیال رہے کہ موضوع اور ضعیف احادیث سے احتراز کیاجائے۔(۷۰) شان نزول کے سلسلے میں مولانا فرماتے ہیں کہ تفاسیر کو دیکھا جائے تو تقریباًہر آیت سے متعلق کوئی نہ کوئی واقعہ موجود ہے اور کبھی کبھی ایک ہی آیت کی شان نزول میں اتنے واقعات درج ہیں کہ ان میں تضاد پایاجاتا ہے اس سلسلے میں مولاناکاخیال ہے کہ ان میں سے اکثر واقعات کا آیت سے کوئی تعلق نہیں ہے اور اگر ہر آیت سے متعلق کوئی واقعہ یا چند واقعات تسلیم کر لیے جائیں توقرآن میں نظم و تسلسل کی تلاش بے معنی ہو کر رہ جائے گی ہر آیت کو کسی واقعہ سے جوڑنا تسلسل کے منافی ہے۔(۷۱) جیساکہ امام رازی نے

___________________

۶۶۔ایضاً وضاحت کے لیے دیکھیےص۱۹۶۲۱۰ ------------ ۶۷۔قرآنی مقالات(ترتیب و پیشکش ادارہ علوم القرآن علی گڑھ) طبع اول ناشر ادارہ علوم القرآن علی گڑھ ۱۹۹۱ء ص۱۴

۶۸۔تدبر قرآنص۲۱۱

۶۹۔ الاتقان فی علوم القرآنسیوطی(ترجمہ از مولانا محمد حلیم انصاری) نور محمد اصح المطابع کا رخانہ تجارت کتب،آرام باغ

۷۰۔الاتقان فی علوم القرآن (اردو ترجمہ) ۲/۵۶۵ کراچی (بدول تاریخ) ۲/۵۵۶۵۶۰

۷۱۔تدبر قرآنص۲۱۸

۹۰

( وَ إِذا جاءَکَ الَّذينَ يُؤْمِنُونَ بِآياتِنا )

کی تفسیر کرتے ہوئے یہ لکھا ہے کہ میرے سامنے یہاں ایک سخت اشکال ہے وہ یہ کہ لوگ اس بات پر متفق ہیں کہ یہ پوری سورہ بیک دفعہ نازل ہوئی جب معاملہ یوں ہے تو یہ کیسے ممکن ہے کہ سورہ کی ہر آیت کی نسبت یہ کہا جائے کہ اس کے نزل کا سبب فلاں واقعہ ہے ۔(۷۲)

اسی کی مزید وضاحت علامہ سیوطی نے ان لفظوں میں کی ہے کہ زرکشی نے برہان میں لکھا ہے کہ صحابہ کرام وتابعین عظام کا یہ طریقہ عام ہے کہ ان میں سے جب کوئی شخص یہ کہتا ہے یہ آیت فلاں بارے میں نازل ہوئی تو اس کا مطلب یہ ہوتاہے کہ یہ بات اور پتہ اس کے نزول کا سبب ہے گویا یہ بس آیت سے اس معاملہ پر ایک استدلال ہوتا ہے کہ نقل واقعہ(۷۳)ٹھیک یہی تحقیق شاہ ولی اللہ محدث دہلوی نے بھی ”الفوزالکبیر میں پیش کی ہے(۷۴) اسی بحث کو آگے بڑھاتے ہوئے مولانا کا خیال ہے کہ صرف ان قصص و واقعات کو جاننا ضروری ہے جن کی طرف آیات ضروراشارہ کررہی ہوں کیونکہ بغیر اس کے پوری طرح سے آیات کی تفسیر ممکن نہیں ہے(۷۵) اس پہلو کی طرف خود شاہ صاحب نے بھی اشارہ کیاہے۔(۷۶)

آخر میں مولانا نے خلاصہ بحث پیش کرتے ہوئے بتایا کہ

۱۔قرآن مجید بعض پہلوؤں سے آسان ہے اور بعض پہلوؤں دقیق اور مشکلاس لئے یہ کہنا کہ وہ ایک سپاٹ کتاب ہے مناسب نہیں ہے ۔

___________________

۷۲۔تفسیر رازیبحوالہ مبادی تدبر قرآنص۱۵۱ ---------- ۷۳۔الاتقان(اردو ترجمہ) ۱/۷۶

۷۴۔الفوز الکبیر فی اصول التفسیر(اردو)شاہ ولی اللہ(مترجم:مولوی رشید احمد صاحب انصاری مرحوم) فاروق پریس دہلی(بدول تاریخ)ص۵

۷۵۔تدبر قرآنص۲۲۵ ------------ ۷۶۔الفوز الکبیر فی اصول التفسیر(اردو)ص۵

۹۱

۲۔اس کے متعلق یہ نظریہ بھی درست نہیں کہ وہ محض احکام و قوانین کا مجموعہ اور حرام وحلال کے معلوم کرنے کا ایک خشک اور سیدھا سادہ ضابطہ ہے بلکہ یہ کتاب الہی تین اجزاء پر مشتمل ہے ۔

۱ آیات اللہ یعنی دلائل وبراہین

۲ کتاب یعنی قوانین و احکام

۳ اور حکمت یعنی روح شریعت اور جوہر دین پہلا حصہ دین کی منطق،دوسرا حصہ دین کا نظام اور تیسرا حصہ دین کا فلسفہ ہے

۴ قرآن مجید میں کوئی آیت ایسی نہیں ہے جس سے یہ تقاضا ہو کہ وہ ایک سپاٹ کتاب ہے کیونکہ اس میں بیشمار ایسی آیات ہیں جن سے یہ مترشح ہوتا ہے کہ اس پر تفکر و تدبر کرنا چاہیے۔

۵ جو لوگ قرآن مجید کی تفسیر کے باب میں صرف روایات ہی پر اعتماد کرتے ہیں یقینا وہ غلو کرتے ہیں،کیونکہ یہ بات محققین کے مذہب کے برعکس ہے۔

۶ شان نزول سے بھی قرآن مجید کی وضعیت پر کوئی اثر نہیں پڑتا ہے محققین کے نزدیک یہ استنباط کی ایک قسم ہے یعنی صحابہ کرام جو یہ فرماتے ہیں کہ یہ آیت فلاں و اقعہ پر اتری یا فلاں بارے میں نازل ہوئی تو اس کا مطلب یہ نہیں ہوتا کہ اس آیت کے نزول کے سبب بعینہ وہی واقعہ ہے بلکہ اس کا مطلب بالعموم یہ ہوتا ہے کہ وہ آیت فلاں حکم پر مشتمل ہے۔(۷۷)

___________________

۷۷۔تدبر قرآن،وضاحت کے لیے دیکھیےص۲۳۲۲۳۳

۹۲

اس کتاب کا آخری باب ”تفسیر کا اصول “ ہے اس کے آغاز میں مولانا نے مفسرین کے چار مکاتب کا ذکر کیا ہے جن میں سے تین مکاتب محدثین اور اہل روایت کا طریقہ (اس طرز پر تفسیر ابن جرید اور تفسیر ابن کثیر لکھی گئی )متکلمین کا طریقہ(اس طرز پر زمخشری ی تفسیر کشاف اور رازی کی تفسیر کبیر منظر عام پر آئی)اور مقلدین کا طریقہ(یعنی مذکورہ تفاسیر کے بعد بقیہ تمام تفاسیر گزشتہ تفاسیر کے خطوط پر تصنیف کی گئیں)کا ذکر باب ”تیسیر قرآن“میں آچکا ہے(۷۸) اور چوتھا مکتب فکرو متجددین کا طریقہ یہ ہے یہ وہ حضرات ہیں جو مغربی افکار و نظریات سے اس درجہ متاثر ہوئے کہ اس کی تائیدقرآنی آیات سے کرنا شروع کر دیااس طریقہ تفسیر کی طرح سر سید مرحوم نے ڈالی اور پھر یہ فتنہ بڑھتا ہی گیامولانا نے ان چاروں مکاتب پر تنقید کی ہے ان میں سے تین مکاتب پر باب ”تیسیر قرآن“ میں تنقید آچکی ہے چوتھے مکتب فکر متجد دین کے باب میں مولانا کا خیال ہے کہ جس طرح متکلمین نے اپنے نظریات کی تائید کے لئے قرآن کو توڑ مروڑ کر پیش کیااسی طرح انہوں نے بھی اپنے خیالات کو امت مسلمہ کے مابین مقبول بنانے کے لیے قرآن مجید پر ہاتھ صاف کیا اس سلسلے میں مصر کے علامہ طنطاوی اور ہندوستان کے سرسید کی تفاسیر کا مطالعہ کیا جائے تو اندازہ ہو گا کہ انہوں نے دین کی تمام حدیں مسمار کر دی ہیںاس طرح کی تفاسیر کو تفسیر قرآن کی بجائے تحریف قرآن کہنا زیادہ صحیح ہو گا۔

مولانا نے تفسیر کے صحیح اصول کے متعلق بتایا کہ وہ دو۲ہیں ایک قطع اور دوسرے ظنی،قطع اصول چارہیںایک تو عربی زبان،دوسرا قرآن مجید کے الفاظ واسالیب،تیسرا قرآن مجید کی نحو اور چوتھا قرآن مجید کی بلاغت و صحافت ان تمام چیزوں پر مولانا نے اسی کتاب میں تدبر قرآن کے داخلی اور خارجی وسائل کے تحت روشنی ڈالی ہے ۔(۷۹)

___________________

۷۸۔ایضاً ص۱۰۶۱۱۹

۷۹ایضاً ص۸۶۹۶

۹۳

اس باب کے آخر میں مولانا نے نظم قرآن سے بحث کی ہے جس پر ان کا ایک مقالہ بھی ہے ۔(۸۰) آپ کے استاذ گرامی مولانا قراہی کی اس موضوع پر ایک مستقل کتاب بھی ہے(۸۱) اور استاذ گرامی دونوں حضرات نے نظریہ نظم قرآن کو اپنی اپنی(۸۲)(۸۳) تفاسیر میں عملی جامہ پہنایا ہے نظم قرآن کے متعلق مولانا کا خیال ہے کہ یہ صحیح تاویل کے تعین میں ایک فیصلہ کن عامل ہے نظم کا مطلب یہ ہے کہ ہر سورہ کا ایک عمود یا موضوع ہوتا ہے اور سورہ کی تمام آیات نہایت ترتیب اور مناسبت کے ساتھ اپنے موضوع سے جڑی ہوئی ہوتی ہیں یعنی بہ متفرق آیات ایک حسین وحدت کی صورت اختیار کر جاتی ہیںاس کے بغیر سورہ کی اصل حیثیت اور آیات کی صحیح تاویلات منظر عام پر نہیں آ سکتیں لیکن چونکہ نظم قرآن ایک مشکل عمل ہے اس لئے مفسرین نے اس کی طرف توجہ کم دی ہےاگر کسی نے دی بھی ہے تو بڑے سر سری انداز میں اور کچھ لوگوں نے نظم قرآن کو کا ر غبت قرار دیا ہے ۔(۸۴) اس کے بعد مولانا نے یہ واضح کیا کہ نظم قرآن آج کوئی نئی چیز نہیں ہے۔(۸۵) بلکہ پہلے کے لوگوں نے بھی اس موضوع پر اظہار خیال کیا ہے علامہ ابو جعفر بن زبیر شیخ ابوحیان کے استاذ نے اس موضوع پر ”البرہان فی مناسبة ترتیب سورا القرآن“کے عنوان سے ایک کتاب ترتیب دی ۔(۸۶)

___________________

۸۰۔قرآنی مقالات(نظم قرآن مولانا امین احسن اصلاحی)طبع اول ۱۹۹۱ء ص۱۶۲۲

۸۱۔رسائل الامام الفراہی فی علوم القرآنالامام عبدالحمید فراہی الطبقہ الثانیہالدائرہ الحمیدیہ مدرسة الاصلاح سرائے میر اعظم گڑھ(الہند) ۱۹۹۱ء ص۷۱۳۹

۸۲۔مولانا اصلاحی کی تفسیر تدبر قرآن کے عنوان سے آٹھ جلدوں پر مشتمل ہے یہ پاکستان میں انجمن خدام القرآن لاہور سے اور ہندوستان میں سے شائع ہوتی ہے

۸۳۔تفسیر نظام القرآنحمید الدین فراہی (ترجمہ ازامین احسن اصلاحی )دائرہ حمیدیہ مدرسة الاصلاحی سرائے میر اعظم گڑھ( ۱۹۹۰ء ص۱)

۸۴۔تدبر قرآن وضاحت کے لیے دیکھیےص۲۵۲۲۵۴

۸۵۔نظم قرآن ہی کے موضوع پر دیکھیےالبریان فی نظام القرآنمحمد عنایت اللہ اسد سبحانی الطبقہ الاولیٰ دارالکتب پشاور پاکستان ۱۹۹۴ء ص۱۶۲۸

۸۶۔الاتقان(اردو) ص۳۲۵

۹۴

اور شیخ برہان الدین بقاعی (المتوفی:۱۴۸۰ء) کی تفسیر نظم ”الدروفی تناسب الای السور“(۸۷) بھی اسی اصول کو مد نظر رکھتے ہوئے لکھی گئی علامہ سیوطی نے بھی نظم قرآن پر اپنی تصنیف کا ذکر کیا۔(۸۸) اما م رازی نے بھی اپنی تفسیر میں نظم قرآن پر خصوصی توجہ دی ہے ۔(۸۹) لیکن مولانا نے ان کی اس خدمت کو زیادہ مفید نہیں بتایا ہے اسی سلسلہ کی ایک کوشش علامہ مخدوم مہایمی کی تفسیر”تبصیر الرحمان وتیسیر المنان“ ہے۔(۹۰) جس میں انہوں نے اپنی کوشش کو حد تک آیات قرآن کا نظم بیان کرنے کی وشش کی ہے اس مسلک کے ایک اور بزرگ علامہ ولی الدین علوی ہیں جن کا نظم قرآن کے متعلق ارشاد ہے ”جو لوگ یہ خیال کرتے ہیں کہ قرآن مجید کا نزول چونکہ حالات کے تقاضے کے مطابق تھوڑا تھوڑا کر کے ہوا ہے اس وجہ سے اس میں نظم نہیں تلاش کرنا چاہیےان کو سخت دھوکا ہوا ہے قرآن مجید کا نزول بلا شبہ حسب حالات جستہ جستہ ہوا ہے لیکن جس طرح اس کو ترتیب دیا گیا ہے اس میں نہایت گہری حکمت ملحوظ ہے۔(۹۱) اس باب کے آخر میں مولانا فرماتے ہیں کہ مذکورہ گفتگو کی روشنی میں یہ بات پوری طرح واضح ہو گئی کہ مولانا قراہی اور ان کے اساتذہ سے قبل بھی نہ صرف یہ کہ اس نظریہ کے قائلین رہے ہیں بلکہ اس پر تصانیف منظر عام پر آئیں اور اسی کی روشنی میں تفاسیر بھی ترتیب دی گئیں(۹۲)

___________________

۸۷۔ ”نظم الدررفی تناسب الایات والسور“بائیس جلدوں پر مشتمل ہے جو حیدر آباد دکن ہند کے مطبع ”مجلس دائرة المعارف العثمانیہ“ سے شائع ہوئی ہے صاحب تفسیر امام بقاعی نے نظم قرآن کے متعلق مقدمہ میں فرمایا ہے ”الحمد للہ الذی انزل الکتاب متنا سباسورہ وآیانہ ومتنسابھا فواصلہ وغایاتہ“

۸۸۔علامہ سیوطی نے نظم قرآن پر جو کتاب تالیف کی ہے اس کا عنوان ”اسرارالتفسرین“ ہے جس کے متعلق ان کا خیال ہے کہ وہ بھی سورتوں اور آیتوں کی باہمی مناسبتوں کی جامع ہے الاتقان(اردو) ص۳۲۵

۸۹۔اس کے لیے دیکھیے تصنیف،نظم قرآن،جو دائرةالحمیدیہ،مدرسة الاصلاح سرائے میر اعظم گڑھ سے ۱۹۹۲ ء میں شائع ہوتی ہے اس میں نظم قرآن کے متعدد قائلین کا ذکر ہے

۹۰۔نظم قرآن کے موضوع پر ڈاکٹر عبید اللہ فہد فلاحی کی کتاب ۱۹۹۸ء میں شعبہ اسلامیات علی گڑھ مسلم یونیورسٹی علی گڑھ انڈیا سے شائع ہوئی ہےجس میں مہائمی کی نظریہ نظم قرآن سے بحث کی گئی ہے

۹۱۔بحوالہ مبادی تدبر قرآنص۱۷۶ ۹۲۔تدبر قرآن ص۲۵۶

۹۵

فواتح و خواتم سورالقرآن ایک تحقیقی وتجزیاتی مطالعہ

مقالہ نگار:ڈاکٹر محمدعبداللہ

قرآن حکیم کے اسلوب کاہرپہلو ایک معجزہ ہے جملوں کی برجستگی، ترکیب کی چستی،عالمانہ انداز بیان،کوثر و تسنیم میں ملے ہوئے جملے،موقع و محل کے مطابق زور بیان،سیاق وسباق کے مناسب صفات الہیہ ان میں سے ہر ایک ایسی چیز تھی جس نے اہل زبان عربوں کو مبھوت وششدر کر دیایہاں تک کہ اہل عرب جنہیں اپنی زبان دانی پر ناز تھاقرآن حکیم کے اعجاز و اسلوب کے مقابلے میں اپنے آپ کو عاجز وبے بس خیال کرنے لگے۔ بلغاء وفصحاء کو اعتراف کرنا پڑا کہ اسلوب قرآنی زبان وبیان کی وہ جنس گراں ہے جس تک ان کی پرواز نہیں اور نہ ہو سکتی ہے۔ انہوں نے محسوس کیاکہ نظم و اسلوب خود اس کی فطرت لسانی کی روح اور جان ہے اورکسی عرب کے دل و دماغ کو اس بیان سے متاثر ہونے سے نہیں بچایا جاسکتا اور یہ سب کچھ اللہ تعالیٰ کی طرف سے اس کتاب عظیم، اس اعجاز کی طرف اشارہ ہے جو قیامت تک کے تمام انسانوں کو شامل ہے۔

( وَاِنْ کُنْتُمْ فِیْ رَیْبٍ مِّمّٰانَزَّلْنٰا عَلٰی عَبْدِنٰا فَأتُو بِسُورَةٍ مِنْ مِثْلِهِ وَادْعُوا شُهَدَآءَ کُمْ مِّنْ دُوْنِ اللّٰهِ اِنْ کُنْتُمْ صٰدِقِیْنَ فَاِنْ لَّمْ تَفْعَلُوْا وَلَنْ تَفْعَلُوْا فَاتَّقُوا النَّارَالَّتِیْ وَقُوْدُهَا النَّاسُ وَالْحِجَارَةُ اُعِدَّتْ لِلْکٰفِرِیْنَ ) (سورہ بنی اسرائیل:۲۴،۲۳)

اور اگر تمہیں کچھ شک ہو اس میں جو ہم نے اپنے بندے پر اتارا تو اس جیسی ایک سورت تو لے آو اور اللہ کے سوا اپنے سب حمایتیوں کو بلا لو اگر تم سچے ہو پھر اگر نہ لا سکو تم ہرگز نہ لا سکو گے تو ڈر و اس آگ سے جس کا ایندھن آدمی اور پتھر ہیں جوتیار کر رکھی گئی ہے۔ کافروں کے لیے۔

۹۶

قرآن حکیم کا نظم ربط بھی اس کے وجوہ اعجاز میں ایک ہے عربوں کے جملہ اصناف کلام میں سے کسی میں بھی یہ نظم وترتیب موجود نہیں۔ قرآن کریم کے زور بیان اور ندرت کا راز اسی میں مضمر ہے، اس نظم وربط کاایک نمایاں پہلو اس کی سورتوں فواتح وخواتم ہیںجن کا تحقیقی و تجزیاتی مطالعہ بجائے خود ایک دلچسپی کا موضوع ہے اور اس سے قرآن حکیم کے اعجاز کے بعض پہلووں کا انکشاف بھی ہوتا ہے۔

فواتح السور القرآن کا مفہوم:

فواتح فاتحہ کی جمع ہے اس کا سہ حرفی مادہ ف،ت،ح،ہے جس کے لفظی معنی کھولنے اور کسی بھی چیز کی ابتداء کے ہیںابن منظور لکھتے ہیں۔

”فتح الاغلاق الفتح نقیض الاغلاق وفاتحة الشئی، اوله فواتح القرآن اوائل السوره (۲)

یہ لفظ قرآن و حدیث میں متعدد مقامات پر لغوی طور پر انہی معنوں میں استعمال ہوا ہے۔

جن فواتح کو زیر نظر مقالہ میں بطور اصطلاح استعمال کیاجائے گا اس سے مراد فواتح السور القرآن ہے جس کا مطلب قرآن حکیم کی سورتوں کا آغاز یاابتدائی حصہ ہے۔

علمائے مفسرین نے اس اصطلاح کوافتتاح السّور سے بھی تعبیر کیا ہے۔(۳)

____________________

۱۔ البقرة۲:۲۳۲۴

۲۔ ابن منظور، لسان العرب،دار صادر،بیروت ج۲،ص۵۲۷

۳۔ السیوطی جلال الدین، الاتقان فی علوم القرآن،مکتبہ المعارف الریاض،۱۹۹۶،ج۲،ص۳۹۳

۹۷

فواتح السور قرآن کی اہمیت:

ہمارا روزمرہ کامشاہدہ ہے کہ جس چیز پر پہلی نظر پڑتی ہے وہ اس چیز کا ظاہری یاابتدائی حصہ ہوتا ہے اور اسی سے انسان اس کے اچھے یا برے ہونے کا تاثر لیتاہےچنانچہ قرآن حکیم کی سورتوں پر پہلی نظرپڑتے ہی انسان اس کی فصاحت، بلاغت اور ربط و نظم سے متاثر ہوئے بغیر نہیں رہ سکتااس وجہ سے علمائے مفسرین نے فواتح السور القرآن کی اہمیت کو نظر انداز نہیں کیا۔

اہل بیان کا قول ہے حسن الابتداء بلاغت کی جان ہے اور یہ اس چیز کا نام ہے کہ کلام کے آغاز میں خوبی عبارت اور پاکیزگی لفظ کا بہت بڑا خیال رکھا جائے کیونکہ جس وقت کوئی کلام کانوں میں پڑنا شروع ہوگا۔ اگر اس وقت عبارت کا چہرہ درست ہوا تو سننے والا بڑی توجہ سے وہ کلام سنے گا اور اسے اپنے ذہن میں محفوظ کرنے کی کوشش کرے گا ورنہ عبارت کا چہرہ خراب ہونے کی صورت میں باقی کلام خواہ کتنا ہی پاکیزہ ہو سامع کو ابتداء کے بھونڈے الفاظ سن کر کچھ ایسی نفرت ہو گی کہ وہ کبھی اس کو سننا گوارا نہ کرے گااسی وجہ سے یہ ضروری بات ہے کہ آغاز کلام میں بہتر سے بہتر،شیریں سلیس،خوش نما اور معنی کے اعتبار سے صحیح تر اور واضح، تقدیم و تاخیر اور تعقید سے خالی التباس اور عدم مناسبت سے بری لفظ لایا جائے اور کلام مجید کی سورتوں کے فواتح بہترین وجوہ، نہایت بلیغ اور کامل ہو کر آتے ہیں مثلاً تحمیدات، حروف تہجی اورنداء وغیرہ

فواتح السورالقرآن کی اقسام:

قرآن حکیم کی سورتوں کا آغاز کسی ایک طرزیا نوعیت سے نہیں ہوتا بلکہ مختلف انداز واقسام سے ہوتا ہے یہی وجہ ہے کہ ابتداء میں ایسے الفاظ اور موضوع کو لایا جاتاہے جو سورہ میں زیادہ تر مقصود بیان اور ملحوظ ہوچنانچہ علمائے مفسرین نے فواتح السور القرآن پر سیر حاصل بحث کی ہے جس کے نتیجے میں ان کی تحقیق و تالیف قابل ذکر ہیں علامہ جلال الدین سیوطی لکھتے ہیں:

”ابن ابی الاصبع نے اس موضوع پر ایک مستقل کتاب تالیف کی ہے اور اس کانام الخواطر السوانح فی اسرار الفواتح رکھا ہے

۹۸

اور میں اس نوع (فواتح السور القرآن) میں اس کتاب کا ملخص کچھ زائد باتوں کے ساتھ جو مختلف کتابوں سے لی گئی ہیںدرج کرتا ہوں۔(۵) تلاش وتحقیق سے مجموعی طور پر یہ بات معلوم ہوتی ہے کہ اللہ تعالیٰ نے قرآن شریف کی سورتوں کا افتتاح دس انواع کے ساتھ فرمایاہے جو مندرجہ ذیل ہیں۔

۱ قرآن حکیم کی کئی سورتوں کاآغاز اللہ تعالیٰ کی حمد وثناء سے ہوا ہے اور حمد و ثناء کی دو اقسام ہیں۔

اولاً اللہ تعالیٰ کے لیے صفات مدح کا اثبات

ثانیا صفات نقص کی ذات باری تعالی سے نفی اور ایسی صفتوں سے اللہ تعالیٰ کی تنزیہ چنانچہ پہلی قبیل میں پانچ سورتوں کاآغاز تحمید سے کیاگیاہے۔ وہ یہ ہیں:

سورةالفاتحة :( الحمد لله رب العٰلمین ) (۶)

سورةالانعام :( الحمدلله الذی خلق السموات والارض ) (۷)

سورةالکهف :( الحمد لله الذی انزل علی عبده الْکِتٰبُ ) (۸)

____________________

۴۔ نفس مصدر

۵۔ نفس مصدر

۶۔ الفاتحة،۱،۱

۷۔ الانعام،۶،۱

۸۔ الکھف،۱۸،۱

۹۹

سورةسبا :( الحمدلله الذی له مافی السموات وما فی الارض ) (۹)

سورةفاطر ( الحمد لله فاطر السموات والارض ) (۱۰)

جبکہ دوسورتوں میں تبارک کے عنوان سے جس میں ذات باری تعالیٰ کے لئے اثبات حمدی ہے ابتداء فرمایا:

سورةالفرقان :( تَبٰرَکَ الذی نَزَّلَ الفرقان علی عبده لیکون للعالمین نذیراً ) (۱۱)

سورةالملک :( تَبَرَکَ الذی بیده الملک وهو علی کل شیٴٍ قدیر ) (۱۲)

۲ قرآن کریم کی سات سورتوں کی ابتداء تسبیح کے صیغے کے ساتھ ہوئی ہے۔ الکرمانی ”متشابہ القرآن“ کے بیان میں لکھتے ہیں کہ تسبیح ایک ایسا کلمہ ہے جس کو اللہ تعالیٰ نے کثرت سے استعمال فرمایا ہے چنانچہ ان سورتوں کا آغاز اس کلمہ کے ساتھ ہوا ہے۔

سورةبنی اسرائیل :( سبحان الذی اسری بعبده ) (۱۳)

سورةالحدید :( سَبَّح لِلّٰهِ مافی السموات والَارْض ) (۱۴)

سورةالحشر :( سَبَّح لِلّٰهِ مافی السَّموات والَارْض ) (۱۵)

سورةاَلصَّفْ :( سَبَّح لِلّٰهِ مٰافی السَّمٰواتِ وَمٰا فِی الْاَرْضِ )

____________________

۹۔ سبا،۳۴،۱ --- ۱۰۔ فاطر،۳۵:۱ ---- ۱۱۔ الفرقان،۲۵،۱ ----- ۱۲۔ الملک،۷۷،۱ ----- ۱۳۔ بنی اسرائیل،۱۷،۱

۱۴۔ الحدید،۵۷،۱ ----- ۱۵۔ الحشر،۰۹،۱

۱۰۰