علوم ومعارف قرآن

علوم ومعارف قرآن21%

علوم ومعارف قرآن مؤلف:
زمرہ جات: علوم قرآن
صفحے: 263

علوم ومعارف قرآن
  • ابتداء
  • پچھلا
  • 263 /
  • اگلا
  • آخر
  •  
  • ڈاؤنلوڈ HTML
  • ڈاؤنلوڈ Word
  • ڈاؤنلوڈ PDF
  • مشاہدے: 136000 / ڈاؤنلوڈ: 6856
سائز سائز سائز
علوم ومعارف قرآن

علوم ومعارف قرآن

مؤلف:
اردو

یہ کتاب برقی شکل میں نشرہوئی ہے اور شبکہ الامامین الحسنین (علیہما السلام) کے گروہ علمی کی نگرانی میں اس کی فنی طورپرتصحیح اور تنظیم ہوئی ہے


1

2

3

4

5

6

7

8

9

10

11

12

13

14

15

16

17

18

19

20

21

22

23

24

25

26

27

28

29

30

31

32

33

34

35

36

37

38

39

40

41

42

43

44

45

46

47

48

49

50

51

52

53

54

55

56

57

58

59

60

61

62

63

64

65

66

67

68

69

70

71

72

73

74

75

76

77

78

79

80

مولانا اس پر روشنی ڈالتے ہوئے”یسرنا“ اور ”للذکر“پر لغوی بحث کی ہے مجاہد نے ”یسرنا“ کا معلوم ”ھوناہ“ بتایا ہے اور ابن زید نے اس کا مفہوم ”بیناہ “قرار دیا ہے اس سے ایک حد تک مفہوم تو ادا ہو گیا لیکن اس کی جامعیت کا حق نہ اداہو سکا”یسر“کے معنی لغت میں نرمی اور فرمانبرداری کے ہیںاسی سے تیسیر ہے جس کے معنی ہیں کسی شی کو کسی مقصد کے لئے موزوں،صالح ،موافق اور سازگار بنا لینامثلاً کہیں گے۔”یسرالفرس“ یعنی اس نے گھوڑے کو زین،رکاب اور لگام سے آراستہ کر کے سواری کے لئے بالکل تیار کر لیا۔”یَسًرنا قته للسفراذارحلهاویسرالفرس للسفراذااسرجه والجمه“ (۵۳)

اعرج معنی کا شعر ہے ۔”قمت الیه باللجام یسرًامضالک یحبترینی الذی کنت اضع“ (۵۴) میں اپنے گھوڑے کی طرف بڑھا تو حال یہ تھا کہ وہ لگام کے ساتھ بالکل تیار کھڑا تھا ایسے ہی وقتوں میں وہ میرے احسانا ت کا حق اداکرتا ہے یہیں سے اس میں اہل اور لائق بتانے کا مفہوم بھی پیدا ہو گیامضرس بن ربعی کا شعر ہے ۔”نعین فاعلنا علی ماتابهحتی نیسره لفعل السید“ (۵۵) ہمارے سردار کو جو مشکلیں پیش آتی ہیں ہم اس میں اس کی مدد کرتے ہیںیہاں تک کہ اس کو سرداری کے کام کا اہل بنا دیتے ہیں”للذکر“ کا ترجمہ بعض مفسرین نے نصیحت کرنے کے لئے کیاہے اور بعض نے سمجھنے کے لئے کیا ہے مولانا کے نزدیک یہی درست ہے اگرچہ پھر بھی پوری حقیقت منظر عام پر نہیں آرہی ہے ذکر کے اصل معنی یاد کرنے اور بیان کرنے کے ہیںذکر آسمانی کتابوں کے لئے بھی آتا ہے مثلاً( (فَاسْأَلُوا أَهْلَ الذِّكْرِ ) اسی طرح قرآن مجید میں بھی آیا ہے ۔( وَ هذا ذِكْرٌ مُبارَکٌ أَنْزَلْناهُ )

__________________

۵۱۔اس کے لیے لسان العرب دیکھیے -------------- ۵۲۔یہ مفہوم لسان العرب اور متجد دونوں میں موجود ہے

۵۳۔یہ مفہوم میں متجد میں موجود ہے

۵۴۔بحوالہ مبادی تدبر القرآنص۱۶۸

۵۵۔دیوان الحماسة (بحواشی محمد اعزاز علی ) المکتبہ الرحیمیہدیو بند یوپی ہند(بدون تاریخ)ص۳۰۷

۸۱

اور یہ لفظ قرآن کریم میں اس کی صفت کے طور پر بھی آیا ہے مثلاً( وَالْقُرْآنِ ذِی الذِّکْرِ ) اسی طرح انبیائے کرام کو”مذکر“ اور ان کی تعلیمات کو تزکیہ اور ذکری کے لفظ سے تعبیر کیا گیا ہے( فَذَكِّرْ إِن نَّفَعَتِ الذِّكْرَى )

اس طرح قرآن کو ”تذکرہ“ اور ”نور “کہاگیا ہے ان دونوں لفظوں سے اس کی پوری حقیقت منظر عام پر آجاتی ہے اور یہ چیز نہایت صراحت کے ساتھ سامنے آتی ہے کہ قرآنی تعلیمات فطرت انسانی کے مطابق ہیںایک مذکر صرف اس لئے آتا ہے کہ انسان کو اس کا بھولا بسرا ہوا سبق یاد دلا سکے(۵۶) مولانا فرماتے ہیں کہ ”پس قرآن مجید کے سہل ہونے کے معنی صرف یہ ہیں کہااگر کوئی طالب علم اس کی رہنمائی میں حقیقت تک پہنچنا چاہے گا تو اللہ تعالیٰ کی طرف سے اس کی مدد ہو گی کیونکہ اس نے وہ راہ اختیار کر لی ہے جواللہ کی کھولی ہو ئی راہ ہے اورجس سے سیدھی اور کھولی ہوئی کوئی دوسری راہ نہیں(۵۷)حضرت فتادہ نے”هل من مدکر “کی تاویل فرماتے ہوئے مندرجہ ذیل الفاظ میں اس حقیقت کی طرف اشارہ فرمایا ہے ” ھل من طالب علم فیعان علیہ“ہے کوئی طالب علم جس کی مدد کی جائے۔ اسی حقیقت کی طرف صاحب کشاف نے بھی اشارہ کیا ہے:

”یجوز ان یکون المعنی و لقد هیاناه للذکرمن یسر ناقته للسفراذارحلها ویسرفرسه للسفراذا اسرجه والجمعة“ (۵۹) یعنی اس کے یہ معنی بھی ہو سکتے ہیں کہ ہم نے ذکر یعنی حصول علم کے لئے قرآن مجید کو تیار کیا ہے جیسا کہ محاورہ ہے کہ اس نے اونٹنی کو سفر کے لیے اور گھوڑے کو میدان جنگ کے لئے تیار کیا ہےاس بحث کے بعد یہ واضح ہو گیا کہ تفسیر کا جو مفہوم بیان کیا جاتا ہے کہ یہ ایک عام فہم کتاب ہے اس کے لئے تفکر و تدبر کی ضرورت نہیں اور اس کو جاننے کے لیے صرف عربی جاننا ہی کافی ہے مناسب نہیں ہے

____________________

۵۶۔تدبر قرآن وضاحت کے لیےص۱۷۴۱۷۸

۵۷۔ایضاً ص۱۷۹ --------- ۵۸۔بحوالہ مبادی تدبر القرآنص۱۲۲

۵۹۔تفسیر الکشاف بحوالہ مبادی تدبر القرآن ص۱۲۲۱۲۳

۸۲

مولانا فرماتے ہیں”اگر وہ ایمان لانا چاہتے ہیں اور یہ وعدہ محض مذاق و شرارت نہیں ہے بلکہ سچائی کے ساتھ ان کے دل کا اقرار ہے تو پھر علم کی راہ اختیار کریں،علم کے حصول کے لئے ہم نے قرآن مجید کو نہایت مکمل اور موزوں بتا دیا ہے اس میں ہر سوال کا جواب ہے ہر شبہہ کا ازالہ ہے ہر خلش کے لے تشقی ہےبس اس کو اختیار کرلیں وہ ہر منزل میں رہنمائی کر ے گا اور ہر عقدہ کو حل کریگا۔(۶۰) اس کے بعد مولانا نے تفسیر کے مختلف پہلوؤں سے بحث کی ہے تفسیر کا ایک پہلو یہ بھی ہے کہ قرآن کا نزول عربی مبین میں ہواقرآن کریم میں مختلف جگہوں پر اس خصوصیت کا ذکر ہے(۶۱) مثلاًانا انزلناہ قرآنا عربیآ(سورہ یوسف:۲) دوسری جگہ ارشاد ہے ”کتابُ فصلت آیاتہ قرآنا عریبا(سورہ قصلت:۳)اور تیسری جگہ ارشاد ہے وھذ السان عربی مبین“(سورہ نحل:۱۰۳)مولانا فرماتے ہیںاس لئے قرآن مجید عربی میں نازل ہواپھر عربی بھی وہ عربی جو عربی مبین ہے بالکل واضح اور صاف ،مغلق اور پیچیدہ نہیں جس کو ہر طبقہ بآسانی نہ سمجھ سکے،محدود اور تنگ نہیںجس کے اسالیب و قواعد اور الفاظ و محاورات قبیلوں اور جماعتوں کے ساتھ مخصوص ہوںبلکہ وہ عربی جو مصمائے عرب کی بولی تھیجس کو سب سمجھتے تھے اور جس کی وضاحت پر سب کا اتفاق و اجماع تھاپس عربی زبان میں قرآن مجید کا اترنا عربوں کے لحاظ سے نہایت کھلی ہوئی تیسیر تھی چنانچہ بعض آیات میں اس کی تصریح بھی ہے(۶۲)

( فَإِنَّمَا يَسَّرْنَاهُ بِلِسَانِكَ لِتُبَشِّرَ بِهِ الْمُتَّقِينَ وَتُنذِرَ بِهِ قَوْمًا لُّدًّا ) (سورہ مریم :۹۷)

ہم نے اس کو موزوں بتایا تھاتمہاری زبان میں تاکہ تم اس کے ذریعہ سے خدا ترسوں کو خوشخبری اور ہٹ دھرموں کو آگآہ کرو

اور دوسری جگہ ارشاد ہے :

____________________

۶۰۔تدبر قرآن ص۱۸۱

۶۱۔ایضاً ص۱۸۱

۶۲۔ایضاً ص۱۸۲

۸۳

( فَإِنَّمَا يَسَّرْنَاهُ بِلِسَانِكَ لَعَلَّهُمْ يَتَذَكَّرُونَ ) (سورہ دخان :۵۸)

اور علم نے اسکو استوار کیا تمہاری زبان میں تاکہ وہ یاددہانی حاصل کریں۔

قرآن کی تیسیر کا دوسرا پہلو یہ ہے کہ وہ تھوڑا نازل ہوا ہےتاکہ قرآن کی تعلیمات دلوں میں واضح ہو جائیںوہ آہستہ آہستہ حالات کے تقاضے اور ضروریات کے مطابق نازل ہوتا رہا،جب کفارنے یہ اعتراض کیا کہ یہ کیوں نہیں تورات کی طرح ایک ساتھ نازل ہو جاتا جستہ جستہ کیوں اترتا ہے تو ان کے جواب میں اللہ فرماتا ہے :

( كَذَٰلِكَ لِنُثَبِّتَ بِهِ فُؤَادَكَ ۖ وَرَتَّلْنَاهُ تَرْتِيلًا ) (سورہ الفرقان:۳۲)

ایسا اس لئے ہے کہ اس طرح ہم تمہارے دل کو مضبوط کریں اور ہم نے قرآن کو ٹھہر ٹھہر کر اتارا ہے ۔

دوسری جگہ ارشاد ہے:

( لِتَقْرَأَهُ عَلَى النَّاسِ عَلَىٰ مُكْثٍ ) (بنی اسرائیل:۱۰۶)

تاکہ تو اس کو لوگوں کو وقفہ وقفہ کے ساتھ سنائے۔

تیسیر کا تیسرا پہلو سورہ ہود کے آغاز میں مذکور ہے :

( كِتَابٌ أُحْكِمَتْ آيَاتُهُ ثُمَّ فُصِّلَتْ مِنْ لَدُنْ حَكِيمٍ خَبِيرٍ ) ( سورہ ہود!)

ایسی کتاب ہے جس کی آیتیں پہلے محکم کی گئیں پھر ایک حِکم کی طرف سے ان کی تفصیل کی گئی۔

۸۴

اس آیت کا مفہوم یہ ہے کہ مکی سورتوں میں دین کی تمام اصولی تعلیمات توحید،رسالت اور معاد وغیرہ نہایت مختصر اور جامع لفظوں میں بیان ہوئی ہیںاور بعد میں ان کی تفصیلات اور جزئیات مدنی سورتوں میں بیان کی گئیںقرآن کریم کے اجمال و تفصیل کا یہ طریقہ فطرت انسانی کے نقطہ نظر سے نہایت مناسب ہے

تیسیرکا چوتھا پہلو تعریف آیات ہے یعنی قرآن کریم مخاطب کے ذہن میں اچھی طرح بات کو ذہن نشین کرانے کے لئے ایک ہی بات کو مختلف انداز سے پیش کرتا ہے(۶۳)قرآن کریم میں ارشاد ہے:

( انظُرْ كَيْفَ نُصَرِّفُ الْآيَاتِ ثُمَّ هُمْ يَصْدِفُونَ ) (سورہ انعام:۴۶)

دیکھو‘کیسے ہم پھیر پھیر کر اپنے دلائل بیان کرتے ہیںپھر بھی وہ منہ موڑتے ہیں۔

( انظُرْ كَيْفَ نُصَرِّفُ الْآيَاتِ لَعَلَّهُمْ يَفْقَهُونَ ) (سورہ انعام:۶۵)

دیکھو‘کیسے ہم اپنی دلیلیں پھیر پھیر کر بیان کرتے ہیں تاکہ وہ سمجھیں۔

مولانا فرماتے کہ تصریف آیات کا لفظ تصریف ریاح سے لیاگیاہےیعنی ہوا ایک ہی ہے لیکن اس کے تصرفات میں تنوع او ر گونا گونی ہے یعنی وہ رحمت بھی اور نعمت بھیمولانا کا خیال ہے کہ اس کا بہر بھیس اس کا ئنات کی زندگی اور نشوونما کے لئے ضروری ہوتا ہے وہ کبھی گرم ہوتی ہے کبھی سرد کبھی خشک ہوتی ہے کبھی تر کبھی آندھی کی ہولناکی بن کر نمودار ہوتی ہے کبھی نسیم صبح کی جان توازی اور عطربہتری بن کر اللہ تعالیٰ نے اس تصریف ریاح کا مختلف مقامات پر ذکر کیا ہے سورہ ذاریات اور مرسلات میں اسکے عجائب تصرفات کی قسم بھی کھائی گئی ہے۔(۶۴)

___________________

۶۳۔ایضاً وضاحت کے لیے دیکھیےص۱۸۲۱۸۶

۶۴۔ایضاً ص۱۸۷

۸۵

بارش کی ایک مثال سے اللہ تعالیٰ نے تین حقائق کو پیش کیا ہے ایک تو یہ کبھی مدتوں بارش نہیں ہوتی ہے ایسے میں بندہ اللہ کی رحمت سے مایوس ہونے لگتا ہے لیکن اچانک کو ئی ابر کا ٹکڑا اٹھتا ہے اور دلوری سرزمین کو جل تھل کر دیتا ہے چنانچہ بندے کی مایوسیاں امیدمیں بدل جاتی ہیں اسی لئے مناسب یہ ہے کہ خوف اورطمع ہر حال میں اللہ ہی کو پکارا جائے۔

( وَادْعُوهُ خَوْفًا وَطَمَعًا ۚ إِنَّ رَحْمَتَ اللَّـهِ قَرِيبٌ مِّنَ الْمُحْسِنِينَ ) (سورہ الاعراف:۵۶)

پس امید ہو یا بہم ہر حال میں اسی کو پکارو اللہ کی رحمت سے اس اچھے بندوں سے قریب ہے ۔

دوسری حقیقت یہ ہے کہ منکرین کو اس پر حیرت ہے کہ ہم گل سڑ جانے کے بعد دوبارہ کیسے زندہ ہو جائیں گے؟اللہ کا کہنا ہے کہ اس میں کوئی استعجاب نہیں کیونکہ زمین جل جاتی ہے اور سطح زمین پر گھاس کا ایک تنکا بھی نظر نہیں آتالیکن بارش ہوتے ہی چند دنوں کے بعد سطح زمین پر سبزہ کی بارات بچھ جاتی ہے قرآن کریم میں ارشاد ہے

( سُقْنَاهُ لِبَلَدٍ مَّيِّتٍ فَأَنزَلْنَا بِهِ الْمَاءَ فَأَخْرَجْنَا بِهِ مِن كُلِّ الثَّمَرَاتِ ۚ كَذَٰلِكَ نُخْرِجُ الْمَوْتَىٰ ) (سورہ الاعراف:۵۷)

ہم نے ان بادلوں کو کسی سو کبھی زمین کی طرف پانک کر لے جاتے ہیںاور وہاں پانی برسا دیتے ہیںپھر اس سے پیدا کر دیتے ہیں ہرقسم کے پھل اسی طرح مُردوں کو بھی اٹھا کر کھڑے کریں گے۔

ایک تیسری حقیقت یوں ہے کہ بارش زمین کے ہر حصہ پر ہوتی ہے لیکن اس کے اثرات و نتائج مختلف حصوں میں مختلف ہوتے ہیں زرخیز زمین لہلہا اٹھتی ہیں اور لوگوں کے لئے سبب رزق بن جاتی ہیں لیکن تھور زمینیں ویسی کی ویسی ہی پڑی رہتی ہیںاگر اس میں کچھ اُگا بھی تو وہ انسانوں کے لئے راس نہیں یہی حال آسمان کی روحانی بارش کا ہے جو تمام لوگوں کے لئے عام ہوتی ہے لیکن ہر انسان بقدر استعداد اس سے فیضیاب ہوتا ہے فطرت صالحہ اس سے خیروبرکت حاصل کرتی ہے

۸۶

اور فطرت فاسدہ اس سے اضطراب کا شکار ہو جاتی ہے قرآن کریم میں ارشاد ہے۔

( وَالْبَلَدُ الطَّيِّبُ يَخْرُجُ نَبَاتُهُ بِإِذْنِ رَبِّهِ ۖ وَالَّذِي خَبُثَ لَا يَخْرُجُ إِلَّا نَكِدًا ۚ ) (سورہ الاعراف:۵۸)

جو زمین زرخیر ہوتی ہے اس کی نباتات خدا کے حکم سے خوب اُگتی ہے اور جو زمین خراب ہوتی ہے وہ بہت کم اُگاتی ہے۔

تصریف آیات کا مقصد یہ ہے کہ( كَذَٰلِكَ نُصَرِّفُ الْآيَاتِ لِقَوْمٍ يَشْكُرُونَ ) مولانا کہتے ہیں کہ تصریف آیات کا تعلیم اور تیسیر میں اس قدر دخل واضح کہ اس پر کسی بحث کی ضرورت نہیں اس تصریف کا مقصد خود قرآن مجید کی تصریحات کے مطابق یہ ہے کہ لوگ یاد دہانی حاصل کریں اور سمجھیں

( وَلَقَدْ صَرَّ‌فْنَا فِي هَـٰذَا الْقُرْ‌آنِ لِيَذَّكَّرُ‌وا وَمَا يَزِيدُهُمْ إِلَّا نُفُورً‌ا )

اور ہم نے اس قرآن میں اپنے دلائل پھیر پھیر کر بیان کئے کہ لوگ یاددہانی حاصل کریں لیکن یہ چیز ان کی نفرت ہی بڑھاتی ہے۔

اس تفصیل سے یہ بات پوری طرح سامنے آگئی کہ تیسیر کا وہ مفہوم درست نہیں ہے جو عام طور سے سمجھا جاتا ہے اس کا مطلب تو صرف یہ ہے کہ یہ حصول علم اور یاددہانی کے نہایت آسان ہے تو اس کا یہ مطلب نہیں ہے کہ علم دین فکرو تدبر کی تمام کا وشوں سے مستعنی ہو گیا ہے۔(۶۵)

___________________

۶۵۔ایضاً ص۱۸۷۱۹۱

۸۷

اس کے بعد قرآن مجید کی مشکلات بااعتبار مخاطب پر روشنی ڈالی گئی ہےاور اس میں یہ بتایا گیا ہے کہ دور اول میں صحابہ کرام قرآن کی امتثال ،اسالیب،اصطلاحات،تلمیحات،احوال عرب اور اپنی قوم کے عقائد ورسومات سے پوری طرح واقف تھےجہاں قرآن کریم نے ا شارہ کیا سمجھ گئے جہاں لسان غیب سے کوئی نقطہ تراوش ہوا وہ بے تکلف اس کا مطلب سمجھ گئےاس کی مثا ل یہ ہے کہ قرآن کریم کی بہت سی آیات میں ابولہب کی نسبت نہایت لطیف تصریحات ہیں جن کی تہہ تک پہنچنا صحابہ کرام کے لئے دشورا گزار نہ تھالیکن آج کے عہد میں ان تصریحات کا سمجھنا اور قرآنی اسالیب کا بآسانی پکڑنا مشکل ہے ،بہت سی ایسی آیات ہیں جن میں ہلکے سے اشارات ہیں ان کا سمجھنا ہم لوگوں کے لئے ایک مسئلہ ہے لیکن صحابہ کرام اشارہ پاتے ہی پوری داستان کو سمجھ جاتے تھےاس سلسلے کی دو مثالیں یہاں پیش کی جارہی ہیںایک میں اہل مکہ کی نماز کا ذکر ہے۔

( وَمَا كَانَ صَلَاتُهُمْ عِنْدَ الْبَيْتِ إِلَّا مُكَاءً وَتَصْدِيَةً )

نہیں تھی ان کی نماز خانہ کعبہ کے پاس مگر تالی بجانا اور صحیح بجانا

آج اہل مکہ کی اس عبادت کا پورا تصور منظر عام پر لانا ہمارے لیے کس قدر مشکل ہے لیکن عہد نزول قرآن کے لوگوں کے سامنے اس کی پوری تصویر موجود تھیکیونکہ ظہور اسلام سے قبل خود اسی طرز پر اپنی نمازیں اداکرتے تھے۔(۶۶)

اسی طرح سورہ اعراف میں ذکر ہے:

( وَإِذَا فَعَلُوا فَاحِشَةً قَالُوا وَجَدْنَا عَلَيْهَا آبَاءَنَا وَاللَّـهُ أَمَرَنَا بِهَا ۗ قُلْ إِنَّ اللَّـهَ لَا يَأْمُرُ بِالْفَحْشَاءِ ۖ أَتَقُولُونَ عَلَى اللَّـهِ مَا لَا تَعْلَمُونَ ) (سورہ اعراف:۲۸)

اور جب کوئی بے حیائی کا کام کرتے ہیں توکہتے یں کہ ہم نے اپنے آباء و اجداد کو یہ کام کرتے ہوئے پایا ہے اور اللہ نے ہم کو اس کا حکم دیا ہے کہدو اللہ بے حیائی کا حکم نہیں دیتاکیا تم اللہ پر ایسی بات کا الزام دھرتے ہوجس کا تمہیں علم نہیں۔

۸۸

اس آیت میں اہل مکہ کے ننگے طواف کرنے کا ذکر ہوا ہے جبکہ بالفاظ اس کا ذکر نہیں ہے بلکہ ایک لطیف سا اشارہ ہےکیونکہ اہل مکہ اس کے سیاق وسباق سے پوری طرح واقف تھےلیکن آج ہمارے لئے اس آیت کے پس منظر پوری طرح گرفت میں لے لینا آسان نہیں ہے اسی ننگے پنے کی صورت طواف کرنے کا ذکر دوسری جگہ اس طرح ہے ۔

( يَا بَنِي آدَمَ خُذُوا زِينَتَكُمْ عِندَ كُلِّ مَسْجِدٍ وَكُلُوا وَاشْرَبُوا وَلَا تُسْرِفُوا ۚ إِنَّهُ لَا يُحِبُّ الْمُسْرِفِينَ ﴿﴾ قُلْ مَنْ حَرَّمَ زِينَةَ اللَّـهِ الَّتِي أَخْرَجَ لِعِبَادِهِ وَالطَّيِّبَاتِ مِنَ الرِّزْقِ ۚ ) (سورہ اعراف:۳۱، ۳۲)

ہر مسجد کے پاس لباس وغیرہ سے اپنے تئیس آراستہ کر لیا کرو اور کھاؤپیو اور فضول خرچیاں نہ کروکیونکہ خدا فضول خرچیاں کرنے والوں کو پسندنہیں کرتاان لوگوں سے کہ کس نے حرام کی اللہ تعالیٰ کی زینت جو اس نے اپنے بندوں کے لئے پیدا کی اور پاک روزیاں(جو اس نے اپنے بندوں کو بخشیں۔

اسی طرح کی بہت سے واقعات اور اہل مکہ کے عقائد و رسومات متعدد آیات میں ذکر کئے گئے ہیں جن سے صحابہ کرام پوری طرح باخبر تھےلیکن موجودہ عہد میں ان تمام چیزوں سے آگاہ ہونے کے لئے بہت چیزوں کا سہارا لینا پڑے گا۔

جن کی طرف مولانا فراہی نے ان لفظوں میں اشارہ کیا ہے ”ہم کو لازم ہے کہ زمانہ نزول کی پوری حالت تمدن سے ہم واقف ہوں“

۱۔ہم کو اس وقت کے یہود ونصاری ،مشرکین،صابیئین وغیرہ کے مذہب و معتقدات سے واقف ہونا چاہیے

۲۔ہم کو عرب کے عام توہمات کو دریافت کرنا چاہیے۔

۳۔ہم کو جاننا چاہیے کہ نزول قرآن کی مدت میں کیا کیا واقعات نئے پیدا ہوئے اور ان سے عرب کی مختلف جماعتوں میں کیا کیا مختلف باتیں زیر بحث آگئیںکیا کیا ملکی و تمدنی جھگڑے چھڑ گئے اور تمام عرب میں کیا شورش پیدا ہو گئی۔

۸۹

۴۔ہم کو یہ بھی جاننا چاہیے کہ عرب کا مذاق سخن کیاتھا کس قسم کے کلام سننے اور بولنے کے وہ عادی تھے بزم میں ان کا خطیب کس روش پر چلتا تھاایجاز اور اطناب ،ترصیع وترکیب،دیگر اسالیب خطابت کو وہ کیونکر استعمال کرتے تھے۔

۶۔اور بالآخر ہم کو یہ بھی جاننا چاہیے کہ عرب کے ذہن میں اخلاق کے مدارج نیک وبد کیاتھے۔(۶۷) اس کے بعد مولانا نے سلف کے طریقہ تفسیر پر روشنی ڈالتے ہوئے بتایاکہ پہلے وہ آیات کی تفسیر کے لئے دوسری آیات سے مددلیتے تھےاس کے بعد احادیث رسول کے ذریعہ قرآن کریم کی تفسیر بیان کرتے اور تیسرے مرحلہ میں صحابہ کرام کے آثار و اقوال سے مدد لیتے تھے۔(۶۸) جس کی طرف علامہ سیوطی نے خود اپنی کتاب میں اشارہ کیا ہے(۶۹) اور وہیں پر علامہ سیوطی نے یہ بات بھی بڑے شدومد کے ساتھ کہی ہے کہ تفسیر کے وقت اس کا ضرور خیال رہے کہ موضوع اور ضعیف احادیث سے احتراز کیاجائے۔(۷۰) شان نزول کے سلسلے میں مولانا فرماتے ہیں کہ تفاسیر کو دیکھا جائے تو تقریباًہر آیت سے متعلق کوئی نہ کوئی واقعہ موجود ہے اور کبھی کبھی ایک ہی آیت کی شان نزول میں اتنے واقعات درج ہیں کہ ان میں تضاد پایاجاتا ہے اس سلسلے میں مولاناکاخیال ہے کہ ان میں سے اکثر واقعات کا آیت سے کوئی تعلق نہیں ہے اور اگر ہر آیت سے متعلق کوئی واقعہ یا چند واقعات تسلیم کر لیے جائیں توقرآن میں نظم و تسلسل کی تلاش بے معنی ہو کر رہ جائے گی ہر آیت کو کسی واقعہ سے جوڑنا تسلسل کے منافی ہے۔(۷۱) جیساکہ امام رازی نے

___________________

۶۶۔ایضاً وضاحت کے لیے دیکھیےص۱۹۶۲۱۰ ------------ ۶۷۔قرآنی مقالات(ترتیب و پیشکش ادارہ علوم القرآن علی گڑھ) طبع اول ناشر ادارہ علوم القرآن علی گڑھ ۱۹۹۱ء ص۱۴

۶۸۔تدبر قرآنص۲۱۱

۶۹۔ الاتقان فی علوم القرآنسیوطی(ترجمہ از مولانا محمد حلیم انصاری) نور محمد اصح المطابع کا رخانہ تجارت کتب،آرام باغ

۷۰۔الاتقان فی علوم القرآن (اردو ترجمہ) ۲/۵۶۵ کراچی (بدول تاریخ) ۲/۵۵۶۵۶۰

۷۱۔تدبر قرآنص۲۱۸

۹۰

( وَ إِذا جاءَکَ الَّذينَ يُؤْمِنُونَ بِآياتِنا )

کی تفسیر کرتے ہوئے یہ لکھا ہے کہ میرے سامنے یہاں ایک سخت اشکال ہے وہ یہ کہ لوگ اس بات پر متفق ہیں کہ یہ پوری سورہ بیک دفعہ نازل ہوئی جب معاملہ یوں ہے تو یہ کیسے ممکن ہے کہ سورہ کی ہر آیت کی نسبت یہ کہا جائے کہ اس کے نزل کا سبب فلاں واقعہ ہے ۔(۷۲)

اسی کی مزید وضاحت علامہ سیوطی نے ان لفظوں میں کی ہے کہ زرکشی نے برہان میں لکھا ہے کہ صحابہ کرام وتابعین عظام کا یہ طریقہ عام ہے کہ ان میں سے جب کوئی شخص یہ کہتا ہے یہ آیت فلاں بارے میں نازل ہوئی تو اس کا مطلب یہ ہوتاہے کہ یہ بات اور پتہ اس کے نزول کا سبب ہے گویا یہ بس آیت سے اس معاملہ پر ایک استدلال ہوتا ہے کہ نقل واقعہ(۷۳)ٹھیک یہی تحقیق شاہ ولی اللہ محدث دہلوی نے بھی ”الفوزالکبیر میں پیش کی ہے(۷۴) اسی بحث کو آگے بڑھاتے ہوئے مولانا کا خیال ہے کہ صرف ان قصص و واقعات کو جاننا ضروری ہے جن کی طرف آیات ضروراشارہ کررہی ہوں کیونکہ بغیر اس کے پوری طرح سے آیات کی تفسیر ممکن نہیں ہے(۷۵) اس پہلو کی طرف خود شاہ صاحب نے بھی اشارہ کیاہے۔(۷۶)

آخر میں مولانا نے خلاصہ بحث پیش کرتے ہوئے بتایا کہ

۱۔قرآن مجید بعض پہلوؤں سے آسان ہے اور بعض پہلوؤں دقیق اور مشکلاس لئے یہ کہنا کہ وہ ایک سپاٹ کتاب ہے مناسب نہیں ہے ۔

___________________

۷۲۔تفسیر رازیبحوالہ مبادی تدبر قرآنص۱۵۱ ---------- ۷۳۔الاتقان(اردو ترجمہ) ۱/۷۶

۷۴۔الفوز الکبیر فی اصول التفسیر(اردو)شاہ ولی اللہ(مترجم:مولوی رشید احمد صاحب انصاری مرحوم) فاروق پریس دہلی(بدول تاریخ)ص۵

۷۵۔تدبر قرآنص۲۲۵ ------------ ۷۶۔الفوز الکبیر فی اصول التفسیر(اردو)ص۵

۹۱

۲۔اس کے متعلق یہ نظریہ بھی درست نہیں کہ وہ محض احکام و قوانین کا مجموعہ اور حرام وحلال کے معلوم کرنے کا ایک خشک اور سیدھا سادہ ضابطہ ہے بلکہ یہ کتاب الہی تین اجزاء پر مشتمل ہے ۔

۱ آیات اللہ یعنی دلائل وبراہین

۲ کتاب یعنی قوانین و احکام

۳ اور حکمت یعنی روح شریعت اور جوہر دین پہلا حصہ دین کی منطق،دوسرا حصہ دین کا نظام اور تیسرا حصہ دین کا فلسفہ ہے

۴ قرآن مجید میں کوئی آیت ایسی نہیں ہے جس سے یہ تقاضا ہو کہ وہ ایک سپاٹ کتاب ہے کیونکہ اس میں بیشمار ایسی آیات ہیں جن سے یہ مترشح ہوتا ہے کہ اس پر تفکر و تدبر کرنا چاہیے۔

۵ جو لوگ قرآن مجید کی تفسیر کے باب میں صرف روایات ہی پر اعتماد کرتے ہیں یقینا وہ غلو کرتے ہیں،کیونکہ یہ بات محققین کے مذہب کے برعکس ہے۔

۶ شان نزول سے بھی قرآن مجید کی وضعیت پر کوئی اثر نہیں پڑتا ہے محققین کے نزدیک یہ استنباط کی ایک قسم ہے یعنی صحابہ کرام جو یہ فرماتے ہیں کہ یہ آیت فلاں و اقعہ پر اتری یا فلاں بارے میں نازل ہوئی تو اس کا مطلب یہ نہیں ہوتا کہ اس آیت کے نزول کے سبب بعینہ وہی واقعہ ہے بلکہ اس کا مطلب بالعموم یہ ہوتا ہے کہ وہ آیت فلاں حکم پر مشتمل ہے۔(۷۷)

___________________

۷۷۔تدبر قرآن،وضاحت کے لیے دیکھیےص۲۳۲۲۳۳

۹۲

اس کتاب کا آخری باب ”تفسیر کا اصول “ ہے اس کے آغاز میں مولانا نے مفسرین کے چار مکاتب کا ذکر کیا ہے جن میں سے تین مکاتب محدثین اور اہل روایت کا طریقہ (اس طرز پر تفسیر ابن جرید اور تفسیر ابن کثیر لکھی گئی )متکلمین کا طریقہ(اس طرز پر زمخشری ی تفسیر کشاف اور رازی کی تفسیر کبیر منظر عام پر آئی)اور مقلدین کا طریقہ(یعنی مذکورہ تفاسیر کے بعد بقیہ تمام تفاسیر گزشتہ تفاسیر کے خطوط پر تصنیف کی گئیں)کا ذکر باب ”تیسیر قرآن“میں آچکا ہے(۷۸) اور چوتھا مکتب فکرو متجددین کا طریقہ یہ ہے یہ وہ حضرات ہیں جو مغربی افکار و نظریات سے اس درجہ متاثر ہوئے کہ اس کی تائیدقرآنی آیات سے کرنا شروع کر دیااس طریقہ تفسیر کی طرح سر سید مرحوم نے ڈالی اور پھر یہ فتنہ بڑھتا ہی گیامولانا نے ان چاروں مکاتب پر تنقید کی ہے ان میں سے تین مکاتب پر باب ”تیسیر قرآن“ میں تنقید آچکی ہے چوتھے مکتب فکر متجد دین کے باب میں مولانا کا خیال ہے کہ جس طرح متکلمین نے اپنے نظریات کی تائید کے لئے قرآن کو توڑ مروڑ کر پیش کیااسی طرح انہوں نے بھی اپنے خیالات کو امت مسلمہ کے مابین مقبول بنانے کے لیے قرآن مجید پر ہاتھ صاف کیا اس سلسلے میں مصر کے علامہ طنطاوی اور ہندوستان کے سرسید کی تفاسیر کا مطالعہ کیا جائے تو اندازہ ہو گا کہ انہوں نے دین کی تمام حدیں مسمار کر دی ہیںاس طرح کی تفاسیر کو تفسیر قرآن کی بجائے تحریف قرآن کہنا زیادہ صحیح ہو گا۔

مولانا نے تفسیر کے صحیح اصول کے متعلق بتایا کہ وہ دو۲ہیں ایک قطع اور دوسرے ظنی،قطع اصول چارہیںایک تو عربی زبان،دوسرا قرآن مجید کے الفاظ واسالیب،تیسرا قرآن مجید کی نحو اور چوتھا قرآن مجید کی بلاغت و صحافت ان تمام چیزوں پر مولانا نے اسی کتاب میں تدبر قرآن کے داخلی اور خارجی وسائل کے تحت روشنی ڈالی ہے ۔(۷۹)

___________________

۷۸۔ایضاً ص۱۰۶۱۱۹

۷۹ایضاً ص۸۶۹۶

۹۳

اس باب کے آخر میں مولانا نے نظم قرآن سے بحث کی ہے جس پر ان کا ایک مقالہ بھی ہے ۔(۸۰) آپ کے استاذ گرامی مولانا قراہی کی اس موضوع پر ایک مستقل کتاب بھی ہے(۸۱) اور استاذ گرامی دونوں حضرات نے نظریہ نظم قرآن کو اپنی اپنی(۸۲)(۸۳) تفاسیر میں عملی جامہ پہنایا ہے نظم قرآن کے متعلق مولانا کا خیال ہے کہ یہ صحیح تاویل کے تعین میں ایک فیصلہ کن عامل ہے نظم کا مطلب یہ ہے کہ ہر سورہ کا ایک عمود یا موضوع ہوتا ہے اور سورہ کی تمام آیات نہایت ترتیب اور مناسبت کے ساتھ اپنے موضوع سے جڑی ہوئی ہوتی ہیں یعنی بہ متفرق آیات ایک حسین وحدت کی صورت اختیار کر جاتی ہیںاس کے بغیر سورہ کی اصل حیثیت اور آیات کی صحیح تاویلات منظر عام پر نہیں آ سکتیں لیکن چونکہ نظم قرآن ایک مشکل عمل ہے اس لئے مفسرین نے اس کی طرف توجہ کم دی ہےاگر کسی نے دی بھی ہے تو بڑے سر سری انداز میں اور کچھ لوگوں نے نظم قرآن کو کا ر غبت قرار دیا ہے ۔(۸۴) اس کے بعد مولانا نے یہ واضح کیا کہ نظم قرآن آج کوئی نئی چیز نہیں ہے۔(۸۵) بلکہ پہلے کے لوگوں نے بھی اس موضوع پر اظہار خیال کیا ہے علامہ ابو جعفر بن زبیر شیخ ابوحیان کے استاذ نے اس موضوع پر ”البرہان فی مناسبة ترتیب سورا القرآن“کے عنوان سے ایک کتاب ترتیب دی ۔(۸۶)

___________________

۸۰۔قرآنی مقالات(نظم قرآن مولانا امین احسن اصلاحی)طبع اول ۱۹۹۱ء ص۱۶۲۲

۸۱۔رسائل الامام الفراہی فی علوم القرآنالامام عبدالحمید فراہی الطبقہ الثانیہالدائرہ الحمیدیہ مدرسة الاصلاح سرائے میر اعظم گڑھ(الہند) ۱۹۹۱ء ص۷۱۳۹

۸۲۔مولانا اصلاحی کی تفسیر تدبر قرآن کے عنوان سے آٹھ جلدوں پر مشتمل ہے یہ پاکستان میں انجمن خدام القرآن لاہور سے اور ہندوستان میں سے شائع ہوتی ہے

۸۳۔تفسیر نظام القرآنحمید الدین فراہی (ترجمہ ازامین احسن اصلاحی )دائرہ حمیدیہ مدرسة الاصلاحی سرائے میر اعظم گڑھ( ۱۹۹۰ء ص۱)

۸۴۔تدبر قرآن وضاحت کے لیے دیکھیےص۲۵۲۲۵۴

۸۵۔نظم قرآن ہی کے موضوع پر دیکھیےالبریان فی نظام القرآنمحمد عنایت اللہ اسد سبحانی الطبقہ الاولیٰ دارالکتب پشاور پاکستان ۱۹۹۴ء ص۱۶۲۸

۸۶۔الاتقان(اردو) ص۳۲۵

۹۴

اور شیخ برہان الدین بقاعی (المتوفی:۱۴۸۰ء) کی تفسیر نظم ”الدروفی تناسب الای السور“(۸۷) بھی اسی اصول کو مد نظر رکھتے ہوئے لکھی گئی علامہ سیوطی نے بھی نظم قرآن پر اپنی تصنیف کا ذکر کیا۔(۸۸) اما م رازی نے بھی اپنی تفسیر میں نظم قرآن پر خصوصی توجہ دی ہے ۔(۸۹) لیکن مولانا نے ان کی اس خدمت کو زیادہ مفید نہیں بتایا ہے اسی سلسلہ کی ایک کوشش علامہ مخدوم مہایمی کی تفسیر”تبصیر الرحمان وتیسیر المنان“ ہے۔(۹۰) جس میں انہوں نے اپنی کوشش کو حد تک آیات قرآن کا نظم بیان کرنے کی وشش کی ہے اس مسلک کے ایک اور بزرگ علامہ ولی الدین علوی ہیں جن کا نظم قرآن کے متعلق ارشاد ہے ”جو لوگ یہ خیال کرتے ہیں کہ قرآن مجید کا نزول چونکہ حالات کے تقاضے کے مطابق تھوڑا تھوڑا کر کے ہوا ہے اس وجہ سے اس میں نظم نہیں تلاش کرنا چاہیےان کو سخت دھوکا ہوا ہے قرآن مجید کا نزول بلا شبہ حسب حالات جستہ جستہ ہوا ہے لیکن جس طرح اس کو ترتیب دیا گیا ہے اس میں نہایت گہری حکمت ملحوظ ہے۔(۹۱) اس باب کے آخر میں مولانا فرماتے ہیں کہ مذکورہ گفتگو کی روشنی میں یہ بات پوری طرح واضح ہو گئی کہ مولانا قراہی اور ان کے اساتذہ سے قبل بھی نہ صرف یہ کہ اس نظریہ کے قائلین رہے ہیں بلکہ اس پر تصانیف منظر عام پر آئیں اور اسی کی روشنی میں تفاسیر بھی ترتیب دی گئیں(۹۲)

___________________

۸۷۔ ”نظم الدررفی تناسب الایات والسور“بائیس جلدوں پر مشتمل ہے جو حیدر آباد دکن ہند کے مطبع ”مجلس دائرة المعارف العثمانیہ“ سے شائع ہوئی ہے صاحب تفسیر امام بقاعی نے نظم قرآن کے متعلق مقدمہ میں فرمایا ہے ”الحمد للہ الذی انزل الکتاب متنا سباسورہ وآیانہ ومتنسابھا فواصلہ وغایاتہ“

۸۸۔علامہ سیوطی نے نظم قرآن پر جو کتاب تالیف کی ہے اس کا عنوان ”اسرارالتفسرین“ ہے جس کے متعلق ان کا خیال ہے کہ وہ بھی سورتوں اور آیتوں کی باہمی مناسبتوں کی جامع ہے الاتقان(اردو) ص۳۲۵

۸۹۔اس کے لیے دیکھیے تصنیف،نظم قرآن،جو دائرةالحمیدیہ،مدرسة الاصلاح سرائے میر اعظم گڑھ سے ۱۹۹۲ ء میں شائع ہوتی ہے اس میں نظم قرآن کے متعدد قائلین کا ذکر ہے

۹۰۔نظم قرآن کے موضوع پر ڈاکٹر عبید اللہ فہد فلاحی کی کتاب ۱۹۹۸ء میں شعبہ اسلامیات علی گڑھ مسلم یونیورسٹی علی گڑھ انڈیا سے شائع ہوئی ہےجس میں مہائمی کی نظریہ نظم قرآن سے بحث کی گئی ہے

۹۱۔بحوالہ مبادی تدبر قرآنص۱۷۶ ۹۲۔تدبر قرآن ص۲۵۶

۹۵

فواتح و خواتم سورالقرآن ایک تحقیقی وتجزیاتی مطالعہ

مقالہ نگار:ڈاکٹر محمدعبداللہ

قرآن حکیم کے اسلوب کاہرپہلو ایک معجزہ ہے جملوں کی برجستگی، ترکیب کی چستی،عالمانہ انداز بیان،کوثر و تسنیم میں ملے ہوئے جملے،موقع و محل کے مطابق زور بیان،سیاق وسباق کے مناسب صفات الہیہ ان میں سے ہر ایک ایسی چیز تھی جس نے اہل زبان عربوں کو مبھوت وششدر کر دیایہاں تک کہ اہل عرب جنہیں اپنی زبان دانی پر ناز تھاقرآن حکیم کے اعجاز و اسلوب کے مقابلے میں اپنے آپ کو عاجز وبے بس خیال کرنے لگے۔ بلغاء وفصحاء کو اعتراف کرنا پڑا کہ اسلوب قرآنی زبان وبیان کی وہ جنس گراں ہے جس تک ان کی پرواز نہیں اور نہ ہو سکتی ہے۔ انہوں نے محسوس کیاکہ نظم و اسلوب خود اس کی فطرت لسانی کی روح اور جان ہے اورکسی عرب کے دل و دماغ کو اس بیان سے متاثر ہونے سے نہیں بچایا جاسکتا اور یہ سب کچھ اللہ تعالیٰ کی طرف سے اس کتاب عظیم، اس اعجاز کی طرف اشارہ ہے جو قیامت تک کے تمام انسانوں کو شامل ہے۔

( وَاِنْ کُنْتُمْ فِیْ رَیْبٍ مِّمّٰانَزَّلْنٰا عَلٰی عَبْدِنٰا فَأتُو بِسُورَةٍ مِنْ مِثْلِهِ وَادْعُوا شُهَدَآءَ کُمْ مِّنْ دُوْنِ اللّٰهِ اِنْ کُنْتُمْ صٰدِقِیْنَ فَاِنْ لَّمْ تَفْعَلُوْا وَلَنْ تَفْعَلُوْا فَاتَّقُوا النَّارَالَّتِیْ وَقُوْدُهَا النَّاسُ وَالْحِجَارَةُ اُعِدَّتْ لِلْکٰفِرِیْنَ ) (سورہ بنی اسرائیل:۲۴،۲۳)

اور اگر تمہیں کچھ شک ہو اس میں جو ہم نے اپنے بندے پر اتارا تو اس جیسی ایک سورت تو لے آو اور اللہ کے سوا اپنے سب حمایتیوں کو بلا لو اگر تم سچے ہو پھر اگر نہ لا سکو تم ہرگز نہ لا سکو گے تو ڈر و اس آگ سے جس کا ایندھن آدمی اور پتھر ہیں جوتیار کر رکھی گئی ہے۔ کافروں کے لیے۔

۹۶

قرآن حکیم کا نظم ربط بھی اس کے وجوہ اعجاز میں ایک ہے عربوں کے جملہ اصناف کلام میں سے کسی میں بھی یہ نظم وترتیب موجود نہیں۔ قرآن کریم کے زور بیان اور ندرت کا راز اسی میں مضمر ہے، اس نظم وربط کاایک نمایاں پہلو اس کی سورتوں فواتح وخواتم ہیںجن کا تحقیقی و تجزیاتی مطالعہ بجائے خود ایک دلچسپی کا موضوع ہے اور اس سے قرآن حکیم کے اعجاز کے بعض پہلووں کا انکشاف بھی ہوتا ہے۔

فواتح السور القرآن کا مفہوم:

فواتح فاتحہ کی جمع ہے اس کا سہ حرفی مادہ ف،ت،ح،ہے جس کے لفظی معنی کھولنے اور کسی بھی چیز کی ابتداء کے ہیںابن منظور لکھتے ہیں۔

”فتح الاغلاق الفتح نقیض الاغلاق وفاتحة الشئی، اوله فواتح القرآن اوائل السوره (۲)

یہ لفظ قرآن و حدیث میں متعدد مقامات پر لغوی طور پر انہی معنوں میں استعمال ہوا ہے۔

جن فواتح کو زیر نظر مقالہ میں بطور اصطلاح استعمال کیاجائے گا اس سے مراد فواتح السور القرآن ہے جس کا مطلب قرآن حکیم کی سورتوں کا آغاز یاابتدائی حصہ ہے۔

علمائے مفسرین نے اس اصطلاح کوافتتاح السّور سے بھی تعبیر کیا ہے۔(۳)

____________________

۱۔ البقرة۲:۲۳۲۴

۲۔ ابن منظور، لسان العرب،دار صادر،بیروت ج۲،ص۵۲۷

۳۔ السیوطی جلال الدین، الاتقان فی علوم القرآن،مکتبہ المعارف الریاض،۱۹۹۶،ج۲،ص۳۹۳

۹۷

فواتح السور قرآن کی اہمیت:

ہمارا روزمرہ کامشاہدہ ہے کہ جس چیز پر پہلی نظر پڑتی ہے وہ اس چیز کا ظاہری یاابتدائی حصہ ہوتا ہے اور اسی سے انسان اس کے اچھے یا برے ہونے کا تاثر لیتاہےچنانچہ قرآن حکیم کی سورتوں پر پہلی نظرپڑتے ہی انسان اس کی فصاحت، بلاغت اور ربط و نظم سے متاثر ہوئے بغیر نہیں رہ سکتااس وجہ سے علمائے مفسرین نے فواتح السور القرآن کی اہمیت کو نظر انداز نہیں کیا۔

اہل بیان کا قول ہے حسن الابتداء بلاغت کی جان ہے اور یہ اس چیز کا نام ہے کہ کلام کے آغاز میں خوبی عبارت اور پاکیزگی لفظ کا بہت بڑا خیال رکھا جائے کیونکہ جس وقت کوئی کلام کانوں میں پڑنا شروع ہوگا۔ اگر اس وقت عبارت کا چہرہ درست ہوا تو سننے والا بڑی توجہ سے وہ کلام سنے گا اور اسے اپنے ذہن میں محفوظ کرنے کی کوشش کرے گا ورنہ عبارت کا چہرہ خراب ہونے کی صورت میں باقی کلام خواہ کتنا ہی پاکیزہ ہو سامع کو ابتداء کے بھونڈے الفاظ سن کر کچھ ایسی نفرت ہو گی کہ وہ کبھی اس کو سننا گوارا نہ کرے گااسی وجہ سے یہ ضروری بات ہے کہ آغاز کلام میں بہتر سے بہتر،شیریں سلیس،خوش نما اور معنی کے اعتبار سے صحیح تر اور واضح، تقدیم و تاخیر اور تعقید سے خالی التباس اور عدم مناسبت سے بری لفظ لایا جائے اور کلام مجید کی سورتوں کے فواتح بہترین وجوہ، نہایت بلیغ اور کامل ہو کر آتے ہیں مثلاً تحمیدات، حروف تہجی اورنداء وغیرہ

فواتح السورالقرآن کی اقسام:

قرآن حکیم کی سورتوں کا آغاز کسی ایک طرزیا نوعیت سے نہیں ہوتا بلکہ مختلف انداز واقسام سے ہوتا ہے یہی وجہ ہے کہ ابتداء میں ایسے الفاظ اور موضوع کو لایا جاتاہے جو سورہ میں زیادہ تر مقصود بیان اور ملحوظ ہوچنانچہ علمائے مفسرین نے فواتح السور القرآن پر سیر حاصل بحث کی ہے جس کے نتیجے میں ان کی تحقیق و تالیف قابل ذکر ہیں علامہ جلال الدین سیوطی لکھتے ہیں:

”ابن ابی الاصبع نے اس موضوع پر ایک مستقل کتاب تالیف کی ہے اور اس کانام الخواطر السوانح فی اسرار الفواتح رکھا ہے

۹۸

اور میں اس نوع (فواتح السور القرآن) میں اس کتاب کا ملخص کچھ زائد باتوں کے ساتھ جو مختلف کتابوں سے لی گئی ہیںدرج کرتا ہوں۔(۵) تلاش وتحقیق سے مجموعی طور پر یہ بات معلوم ہوتی ہے کہ اللہ تعالیٰ نے قرآن شریف کی سورتوں کا افتتاح دس انواع کے ساتھ فرمایاہے جو مندرجہ ذیل ہیں۔

۱ قرآن حکیم کی کئی سورتوں کاآغاز اللہ تعالیٰ کی حمد وثناء سے ہوا ہے اور حمد و ثناء کی دو اقسام ہیں۔

اولاً اللہ تعالیٰ کے لیے صفات مدح کا اثبات

ثانیا صفات نقص کی ذات باری تعالی سے نفی اور ایسی صفتوں سے اللہ تعالیٰ کی تنزیہ چنانچہ پہلی قبیل میں پانچ سورتوں کاآغاز تحمید سے کیاگیاہے۔ وہ یہ ہیں:

سورةالفاتحة :( الحمد لله رب العٰلمین ) (۶)

سورةالانعام :( الحمدلله الذی خلق السموات والارض ) (۷)

سورةالکهف :( الحمد لله الذی انزل علی عبده الْکِتٰبُ ) (۸)

____________________

۴۔ نفس مصدر

۵۔ نفس مصدر

۶۔ الفاتحة،۱،۱

۷۔ الانعام،۶،۱

۸۔ الکھف،۱۸،۱

۹۹

سورةسبا :( الحمدلله الذی له مافی السموات وما فی الارض ) (۹)

سورةفاطر ( الحمد لله فاطر السموات والارض ) (۱۰)

جبکہ دوسورتوں میں تبارک کے عنوان سے جس میں ذات باری تعالیٰ کے لئے اثبات حمدی ہے ابتداء فرمایا:

سورةالفرقان :( تَبٰرَکَ الذی نَزَّلَ الفرقان علی عبده لیکون للعالمین نذیراً ) (۱۱)

سورةالملک :( تَبَرَکَ الذی بیده الملک وهو علی کل شیٴٍ قدیر ) (۱۲)

۲ قرآن کریم کی سات سورتوں کی ابتداء تسبیح کے صیغے کے ساتھ ہوئی ہے۔ الکرمانی ”متشابہ القرآن“ کے بیان میں لکھتے ہیں کہ تسبیح ایک ایسا کلمہ ہے جس کو اللہ تعالیٰ نے کثرت سے استعمال فرمایا ہے چنانچہ ان سورتوں کا آغاز اس کلمہ کے ساتھ ہوا ہے۔

سورةبنی اسرائیل :( سبحان الذی اسری بعبده ) (۱۳)

سورةالحدید :( سَبَّح لِلّٰهِ مافی السموات والَارْض ) (۱۴)

سورةالحشر :( سَبَّح لِلّٰهِ مافی السَّموات والَارْض ) (۱۵)

سورةاَلصَّفْ :( سَبَّح لِلّٰهِ مٰافی السَّمٰواتِ وَمٰا فِی الْاَرْضِ )

____________________

۹۔ سبا،۳۴،۱ --- ۱۰۔ فاطر،۳۵:۱ ---- ۱۱۔ الفرقان،۲۵،۱ ----- ۱۲۔ الملک،۷۷،۱ ----- ۱۳۔ بنی اسرائیل،۱۷،۱

۱۴۔ الحدید،۵۷،۱ ----- ۱۵۔ الحشر،۰۹،۱

۱۰۰

101

102

103

104

105

106

107

108

109

110

111

112

113

114

115

116

117

118

119

120

121

122

123

124

125

126

127

128

129

130

131

132

133

134

135

136

137

138

139

140

141

142

143

144

145

146

147

148

149

150

151

152

153

154

155

156

157

158

159

160

161

162

163

164

165

166

167

168

169

170

171

172

173

174

175

176

177

178

179

180

181

182

183

184

185

186

187

188

189

190

191

192

193

194

195

196

197

198

199

200

201

202

203

204

205

206

207

208

209

210

211

212

213

214

215

216

217

218

219

220

فدک کے مسئلہ میں کوئی ابہام نہیں تھا

ان تمام واضح اور روشن دلیلوں کے بعد، کیوں اور کس دلیل سے فدک کے بارے میں صحیح فیصلہ نہیں کیا گیا؟ خلیفۂ مسلمین کے لئے ضروری ہے کہ امت کے حقوق کی حفاظت اور ان کے منافع کی حمایت کرے، اگر حقیقت میں فدک عمومی مال میں سے تھا اور پیغمبر نے اسے وقتی طور پر اپنے خاندان کی ایک فرد کو دیا تھا تو ضروری تھا کہ پیغمبر کی رحلت کے بعد مسلمانوں کے رہبر کو دیدیا جاتا، تاکہ اس کے زیر نظر مسلمانوں کے صحیح امور میں خرچ ہوتا، اور یہ ایسی بات ہے جس پر سبھی متفق ہیں لیکن قوم کے حقوق کی حفاظت اور لوگوں کے عمومی منافع کی حمایت کا مطلب ہرگز یہ نہیں ہے کہ کسی شخص کی فردی آزادی اورذاتی ملکیت کو نظر انداز کردیا جائے اور لوگوں کے ذاتی مال کو عمومی مال کے طور پر جمع کیا جائے اور پھر اسے عمومی مال قرار دیا جائے۔

اسلامی قانون جس طرح سے اجتماعی چیزوں کو محترم جانتا ہے اسی طرح کسی کے ذاتی و شخصی مال کو جو شرعی طریقے سے حاصل ہو اسے بھی محترم سمجھتا ہے ،اور خلیفہ جس طرح سے عمومی اموال کی حفاظت میں کوشاں رہتا ہے اسی طرح لوگوں کے ذاتی مال اور حقوق کی جن کا اسلام نے حکم دیاہے ان کی بھی حفاظت کرتا رہے کیونکہ جس طرح عمومی مصالح کی رعایت کے بغیر عمومی مال کو کسی شخص کو دینا لوگوں کے حقوق کے ساتھ ناانصافی ہے ، اسی طرح کسی کی ذاتی ملکیت کو جواسلامی قانون کے اعتبار سے مالک ہے اس سے چھین لینا لوگوں کے حقوق سے نا انصافی ہے اگر پیغمبر کی بیٹی کا اپنی ملکیت فدک کے بارے میں دعوی کرنا

قانون قضاوت کے مطابق تھا اور اپنے دعوے کو ثابت کرنے کے لئے گواہوں کو جمع کیا تھا اور عدالت کے قاضی کی نظر میں مسئلہ فدک میں کوئی نقص نہ تھا تو ایسی صورت میں قاضی کا صحیح نظریہ دینے سے پرہیز کرنا یا حقیقت مسئلہ کے برخلاف نظریہ پیش کرنا لوگوں کی مصلحتوں کے خلاف اقدام کرنا ہے اور یہ ہے ایسا سنگین جرم جس کی اسلامی قانون میں سخت مذمت کی گئی ہے۔

مسئلہ فدک کا بعض حصہ اس بات پر شاہد ہے کہ ا سکے اندر نقص نہ تھا اور اسلام کے قضائی قانون کی بنیاد پر خلیفہ پیغمبر کی بیٹی کے حق میں اپنا نظریہ پیش کرسکتا تھا، کیونکہ :

پہلے یہ کہ، مورخین کے نقل کے مطابق جیسا کہ گذر چکا ہے خلیفہ نے حضرت زہرا کی طرف سے گواہ پیش کرنے کے بعدچاہا کہ فدک کو اس کے حقیقی مالک کو واپس کردے اور اسی وجہ سے انہوں نے ایک کاغذ پر فدک کو حضرت زہرا کی ملکیت قرار دے کر ان کے سپرد کردیا، لیکن جب عمر اس بات سے آگاہ ہوے تو خلیفہ پر غصہ ہوئے اور نامہ لے کر پھاڑ ڈالا۔

۲۲۱

اگر حضرت زہرا کے گواہ ،مدعا کو ثابت کرنے کے لئے کافی نہ تھے ،اور فدک کی سند میں کوئی کمی تھی تو خلیفہ کبھی بھی ان کے حق میںرائے نہیں دیتا اور حقیقی طور پر ان کی ملکیت کی تصدیق نہ کرتا۔

دوسرے یہ کہ ، جن لوگوں نے پیغمبر کی بیٹی کی حقانیت پر گواہی دی تھی وہ یہ افراد تھے:

۱۔ حضرت امام امیر المومنین ۔

۲۔ حضرت امام حسن ۔

۳۔ حضرت امام حسین ۔

۴۔ رباح، پیغمبر کا غلام۔

۵۔ ام ایمن۔

۶۔ اسماء بنت عمیس۔

کیا ان افراد کی گواہی حضرت زہرا کے مدعا کو ثابت کرنے کے لئے کافی نہیں تھی؟

اگر فرض کریں کہ حضرت زہرا اپنے دعوے کو ثابت کرنے کے لئے سوائے حضرت علی اور ام ایمن کے کسی کو عدالت میں نہیں لائیں تو کیا ان دو افراد کی گواہی ان کے مدعا کو ثابت کرنے کے لئے کافی نہ تھی؟

ان دو گواہوں میں سے ا یک گواہ حضرت امیر المومنین ـ ہیں کہ جن کی عصمت و طہارت پر آیت تطہیر کی مہر لگی ہوئی ہے اور پیغمبر کے فرمان کے مطابق ''علی حق کے ساتھ ہیں اور حق علی کے ساتھ ہے اور وہ حق کا محور ہیں اور حق انہی کے اردگرد طواف کرتا ہے'' ان تمام چیزوں کے باوجو دخلیفہ نے امام کی گواہی کو یہ بہانہ بنا کر قبول نہیں کیا کہ ضروری ہے کہ دو آدمی یا ایک آدمی اور دو عورتیں گواہی دیں۔

تیسرے یہ کہ، اگر خلیفہ نے حضرت زہرا کی گواہی اس لئے قبول نہیں کیا کہ تعداد معین افراد سے کم تھی تو ایسی صورت میں قضاوت اسلام کا قانون یہ ہے کہ وہ مدعی سے قسم کا مطالبہ کرے کیونکہ اسلامی قوانین میں مال و دولت اور قرض کے مسئلوں میں ایک گواہ کی گواہی کو قسم کے ساتھ قبول کرکے فیصلہ کرسکتے ہیں ،تو پھر خلیفہ نے اس قانون کے جاری کرنے سے کیوں پرہیز کیا اور جھگڑے کو ختم نہیں کیا؟

۲۲۲

چوتھے یہ کہ، خلیفہ نے ایک طرف حضرت زہرا کی گفتگو اور ان کے گواہوں (حضرت علی اور ام ایمن) کی تصدیق کی اور دوسری طرف عمر او رابوعبیدہ کی (ان لوگوں نے گواہی دیا تھا کہ پیغمبر نے فدک کی آمدنی کو مسلمانوں کے درمیان تقسیم کردیا تھا) تصدیق کی۔ اور پھر فیصلہ کرنے کے لئے اٹھے او رکہا کہ سب کے سب صحیح اور سچے ہیں، کیونکہ فدک عمومی مال میں سے تھا اور پیغمبر اس کی آمدنی سے اپنے خاندان کی زندگی کی ضرورتوں کو پورا کرتے تھے اور باقی اموال کو مسلمانوں کے درمیان تقسیم کرتے تھے جب کہ ضروری تھا کہ خلیفہ عمر او رابوعبیدہ کی گفتگو پر سنجیدگی سے غور کرتے کیونکہ ان دونوں نے یہ گواہی نہیں دی تھی کہ فدک عمومی مال میں سے تھا بلکہ صرف اس بات کی گواہی دی تھی کہ پیغمبر نے بقیہ اموال کو مسلمانوں کے درمیان تقسیم کیا تھا، اور یہ بات حضرت زہرا کے مالک ہونے کے ذرہ برابر بھی مخالف نہ تھی کیونکہ پیغمبر اسلام کواپنی بیٹی کی طرف سے اجازت تھی کہ بقیہ اموال کو مسلمانوں کے درمیان تقسیم کردیں۔

خلیفہ کا وقت سے پہلے فیصلہ اورفدک لینے کا اس کا باطنی رجحان سبب بنا کہ خلیفہ ان دونوں کی اس گواہی کے بہانے کہ پیغمبر اسلام بقیہ مال مسلمانوں کے درمیان تقسیم کرتے تھے حضرت زہرا کی ملکیت ہونے سے انکار کردے جب کہ ان دونوں کی گواہی پیغمبر کی بیٹی کے دعوے کے مخالف نہیں تھی۔

اہمبات یہ کہ خلیفہ نے حضرت فاطمہ زہرا(س) سے وعدہ کیا تھا کہ فدک کے سلسلے میں ہمارا طریقہ وہی رہے گا جو پیغمبر کا طریقہ تھا اگر حقیقت میں فدک عمومی مال میں سے تھا تو پھر کیوں انہوں نے حضرت زہرا سے رضایت چاہی؟ اور اگر ذاتی ملکیت تھی یعنی پیغمبر کی بیٹی کی ملکیت تھی تو اس طرح کا وعدہ جب کہ مالک اپنی ملکیت سپردکرنے سے ا نکار کرے اس میں تصرف کے جواز باعث نہیں بن سکتا۔

ان تمام چیزوں کے علاوہ اگر فرض کریں کہ خلیفہ کے پاس یہ اختیارات نہیں تھے مگر وہ مہاجرین اور انصار سے رائے مشورہ اور ان کی رضایت حاصل کرنے کے بعد فدک پیغمبر کی بیٹی کے حوالے کرسکتا تھا، توکیوں انہوں نے یہ کام نہیں کیا اور حضرت زہرا کے شعلہ ور غضب کا اپنے کو مستحق قرار دیا؟

۲۲۳

پیغمبر کی زندگی میں بھی ایسا ہی واقعہ پیش آیاتھا اور پیغمبر نے مسلمانوں کی رضایت کو حاصل کر کے مشکل کو حل کردیاتھا جنگ بدر میں پیغمبر کا داماد ابو العاص (جو پیغمبر کی پروردہ بیٹی زینب کا شوہر تھا:مترجم) گرفتار ہوا تو مسلمانوں نے اس کے علاوہ اس کے ستر افراد کو بھی گرفتار کرلیا، پیغمبر کی طرف سے اعلان ہوا کہ جن کے رشتہ دار گرفتار ہوئے ہیں وہ کچھ رقم دے کر اپنے اسیروں کو آزاد کرسکتے ہیں۔ ابو العاص ایک شریف انسان اور مکہ کا تاجر تھا او رزمانہ جاہلیت میں اس کی شادی پیغمبر کی پروردہ بیٹی سے ہوئی تھی، لیکن بعثت کے بعد اپنی بیوی کے برخلاف اسلام قبول نہیں کیا اور جنگ بدر میں مسلمانوں کے مقابلے میں شریک ہوااور گرفتار ہوگیا اس کی بیوی ان دنوں مکہ میں تھی زینب نے اپنے شوہر کی رہائی کے لئے اپنے اس ہار کو فدیہ قرار دیا جو آپ کی(پرورش کرنے والی ) ماں خدیجہ نے شادی کی رات دیا تھا جب پیغمبر کی نظر زینب کے ہار پر پڑی تو بہت زیادہ گریہ کیا اور ان کی ماں خدیحہ کی فدا کاری و قربانی یاد آگئی جنھوں نے سخت مشکلات کے زمانے میں آپ کی مدد کی تھی اور اپنی تمام دولت کو اسلام کی کامیابی و ترقی کے لئے خرچ کیا تھا۔

پیغمبر اسلام (ص) عمومی اموال کے احترام کی رعایت کرنے کے لئے اپنے صحابیوں کی طرف متوجہ ہوئے اور فرمایا: یہ ہار تمہارا ہے اور اس پر تمہارا ہی اختیار ہے اگر دل چاہے تو اس ہار کو واپس کردو اور ابوالعاص کو بغیر فدیہ لئے ہوئے رہا کردو آپ کے صحابیوں نے آپ کی درخواست کو قبول کرلیا۔

ابن ابی الحدید لکھتے ہیں:(۱)

''میں نے زینب کے واقعہ کو اپنے استاد ابوجعفر بصری علوی کے سامنے پڑھا تو انھوں نے اس کی

______________________

شرح نہج البلاغہ ابن ابی الحدید، ج۱۴، ص ۱۶۱۔

۲۲۴

تصدیق کی اور کہا:کیا فاطمہ کی عظمت و منزلت زینب سے زیادہ نہ تھی ؟کیا بہتر نہیں تھا کہ خلیفہ فاطمہ کو فدک واپس کر کے ان کے قلب کو خوشحال کردیتا؟اگرچہ فدک تمام مسلمانوں کا مال تھا۔

ابن ابی الحدید مزید لکھتے ہیں:

میں نے کہا کہ فدک اس روایت کے مطابق کہ ''گروہ انبیاء بطور میراث کچھ نہیں چھوڑتے'' مسلمانوں کا مال تھا تو کس طرح ممکن تھا کہ مسلمانوں کا مال حضرت زہرا کو دیدیتے؟

استاد نے کہا: کیا زینب کا وہ ہار جو اس نے اپنے شوہر ابوالعاص کی رہائی کے لئے بھیجا تھا وہ مسلمانوں کا مال نہ تھا؟ میں نے کہا:

پیغمبر صاحب شریعت تھے اور تمام امور کے نفاذ او راجراء کا حکم ان کے ہاتھوں میںتھا لیکن خلفاء کے پاس یہ اختیار نہیں تھا۔

استاد نے میرے جواب میں کہا: میں یہ نہیں کہتا کہ خلفاء زبردستی مسلمانوں سے فدک چھین لیتے اور فاطمہ کے ہاتھوں میں دیدیتے، بلکہ میراکہنا یہ ہے کہ کیوں حاکم وقت نے فدک دینے کے لئے مسلمانوں کو راضی نہیں کیا؟ کیوں پیغمبر کی طرح نہ اٹھے اوران کے اصحاب کے درمیان نہیں کہا کہ اے لوگو! زہرا تمہارے نبی کی بیٹی ہیں وہ چاہتی ہیں کہ پیغمبر کے زمانے کی طرح فدک کا نخلستان (کھجور کا باغ) ان کے ہاتھ میں رہے کیا تم لوگ خود اپنی مرضی سے راضی ہو کہ فدک فاطمہ کے حوالے کردیا جائے ؟

آخر میں ابن ابی الحدید لکھتے ہیں:

ہمارے پاس استاد کی باتوں کا جواب نہ تھا اور صرف بطور تائید کہا: ابوالحسن عبد الجبار بھی خلفاء کے بارے میں ایساہی اعتراض رکھتا ہے اور کہتا ہے کہ اگرچہ ان کاطور طریقہ شرع کے مطابق تھا لیکن جناب زہرا کا احترام اور ان کی عظمت کا پاس و لحاظ نہیں رکھا گیا ۔

۲۲۵

چھٹیں فصل

کیاانبیاء میراث نہیں چھوڑتے؟

اس بارے میں قرآن کا نظریہ

ابوبکر نے پیغمبر کی بیٹی کو میراث نہ دینے کے لئے ایک حدیث کا سہارالیاجس کا مفہوم خلیفہ کی نظر میں یہ تھا کہ پیغمبران خدا بطور میراث کوئی چیز نہیں چھوڑ تے اور ان کی وفات کے بعد ان کی چھوڑی ہوئی چیزیں صدقہ ہوتی ہیں۔ قبل اس کے کہ اس حدیث کے متن کو نقل کریں جس سے خلیفہ نے استناد کیا ہے، ضروری ہے کہ اس مسئلے کو قرآن سے حل کریں کیونکہ قرآن مجید حدیث صحیح کو حدیث باطل سے پہچاننے کا بہترین ذریعہ ہے اور اگر قرآن نے اس موضوع کی تصدیق نہیں کیا تو اس حدیث کو (اگرچہ ابوبکر ناقل ہوں) صحیح حدیث شمار نہیں کیا جائے گا بلکہ اسے من گھڑت او رباطل حدیث شمار کیاجائے گا۔

قرآن کریم کی نظر میں اور اسلام میں میراث کے احکام کی روسے پیغمبروں کی اولاد یا ان کے وارثوں کو مستثنیٰ کرنا قانون میراث کے مطابق غیر منطقی بات ہے اور جب تک قطعی دلیل ان آیات ارث کو تخصیص نہ دے میراث کے تمام قوانین تمام افراد کو کہ انہی میں پیغمبر کی تمام اولادیں اور وارثین ہی شامل ہیں۔

اس جگہ سوال کرنا چاہیئے کہ کیوں پیغمبر کی اولاد میراث نہیں لے سکتی؟ ان کی رحلت کے بعد ان کا گھر اور تمام زندگی کے اسباب ان سے کیوں لے لیا جائے؟ آخر پیغمبر کے وارث کس گناہ کے مرتکب ہوئے ہیں کہ ان کے مرنے کے بعد تمام لوگ گھر سے باہر نکال دیئے جائیں؟

اگرچہ پیغمبر کے وارثوں کو میراث سے محروم کرنا عقلا بعید ہے لیکن اگر وحی کی طرف سے قطعی اور صحیح دلیل موجود ہو کہ تمام انبیاء کوئی چیز بعنوان میرا ث نہیں چھوڑتے اور ان کا ترکہ عمومی مال شمار ہوتا ہے تو ایسی صورت میں''اٰمَنَّا وَصَدَّقْنَا'' حدیث کو قبول کریں گے اور غلط فہمی کو دور کردیں گے او رمیراث سے مربوط آیتوں کو صحیح حدیث کے ذریعے تخصیص دیں گے، لیکن اہم بات یہ ہے کہ کیا اس طرح کی حدیثیں پیغمبر سے وارد ہوئی ہیں؟

۲۲۶

وہ حدیث جو خلیفہ نے نقل کی ہے اس کو پہچاننے کے لئے بہترین راستہ یہ ہے کہ حدیث کے مفہوم کو قرآن کی آیتوں سے ملائیں اگر قرآن کے مطابق ہو تو قبول کریں گے اور اگر قرآن کے مطابق نہ ہوتو اسے رد کردیں گے۔ جب ہم قرآنی آیتوں کی طرف رجوع کرتے ہیں تو ہمیں ملتا ہے کہ قرآن نے دو جگہوں پر پیغمبر کی اولادکی میراث کا تذکرہ کیاہے اور ان کے میراث لینے کو ایک مسلّم حق بیان کیا ہے وہ آیتیں جو اس مطلب کو بیان کرتی ہیں یہ ہیں:

۱۔ یحییٰ نے زکریا سے میراث پائی

( وَانِّی خِفْتُ الْمَوَالِیَ مِنْ وَرَائِی وَکَانَتْ امْرَاتِی عَاقِرًا فَهَبْ لِی مِنْ لَدُنْکَ وَلِیًّا یَرِثُنِی وَیَرِثُ مِنْ آلِ یَعْقُوبَ وَاجْعَلْهُ رَبِّ رَضِیًّا ) (سورۂ مریم، آیت ۵، ۶)

اور میں اپنے (مرنے کے) بعد اپنے وارثوں(چچا زاد بھائیوں) سے ڈرجاتا ہوں(کہ مبادا دین کو برباد کریں) اور میری بی بی (ام کلثوم بنت عمران) بانجھ ہے پس تو مجھ کو اپنی بارگاہ سے ایک جانشین (فرزند) عطا فرما، جو میری او ریعقوب کی نسل کی میراث کا مالک ہو اور اسے میرے پروردگار او را س کو اپنا پسندیدہ بنا۔

اس آیت کو ا گر ہر اس شخص کے سامنے پڑھایا جائے جو لڑائی جھگڑوں سے دور ہو تو وہ یہی کہے گا کہ حضرت زکریا نے خداوند عالم سے ایک بیٹا طلب کیا تھا جو ان کا وارث ہو کیونکہ ان کو اپنے دوسرے وارثوں سے خطرہ اور خوف محسوس ہو رہا تھا اور آپ نہیں چاہتے تھے کہ آپ کی دولت و ثروت ان لوگوں تک پہونچے، وہ کیوں خوف محسوس کر رہے تھے اس کی وضاحت بعد میں کریں گے۔

آیت میں ''یرثنی'' سے مراد میراث میں سے مال لینا ہے لیکن اس کا مطلب یہ نہیں کہ یہ لفظ مال کی وراثت کے علاوہ دوسری چیزوں میں استعمال نہیں ہوتا مثلاً نبوت اور علوم کا وارث ہونا، بلکہ اس سے مراد یہ ہے کہ جب تک دوسرے والے معنی کے ساتھ کوئی قرینہ موجود نہ ہو اس وقت تک یہ مال سے میراث لینا مراد ہوگا نہ کہ علم اور نبوت سے میراث لینا۔(۱)

_____________________

(۱) جی ہاں، کبھی کبھی یہی لفظ کسی خاص قرینے کی وجہ سے میراث علم میں استعمال ہوتا ہے مثلا''ثم اورثنا الکتاب الذین اصطفینا من عبادنا'' (فاطر، آیت ۳۲) یعنی ہم نے اس کتاب کو اس گروہ سے جس کو نے چنا ہے ان کو میراث میں دیا، یہاں پر لفظ ''کتاب'' واضح و روشن قرینہ ہے کہ یہاں مال میں میراث مراد نہیں ہے بلکہ قرآن کے حقائق سے آگاہی کی میراث مراد ہے۔

۲۲۷

یہاں ہم ان قرینوں کو پیش کر رہے ہیں جو اس بات کی تائید کرتے ہیں کہ ''یرثنی و یرث من آل یعقوب'' سے مراد مال میں میراث ہے نہ کہ علم و نبوت میں میراث لینا۔

۱۔ لفظ ''یرثنی'' اور ''یرث'' سے یہ ظاہر ہے کہ اس سے مراد وہی مال میں میراث ہے نہ کہ غیرمیں، اور جب تک اس کے برخلاف کوئی قطعی دلیل نہ ہو جب تک اس کو اس معنی سے خارج نہیں کرسکتے، اگر آپ قرآن میں اس لفظ کے تما م مشتقات کو غور سے دیکھیں تو آپ کو معلوم ہوگا کہ یہ لفظ پورے قرآن میں (سوائے سورۂ فاطر آیت ۳۲ کے) مال میں وراثت کے متعلق استعمال ہوا ہے اور یہ خود بہترین دلیل ہے کہ ان دو لفظوں کو اس کے اسی معروف و مشہور معنی میں استعمال کریں۔

۲۔ نبوت اور امامت خداوند عالم کا فیض ہے جو مسلسل مجاہدت ، فداکاری اور ایثار کے ذریعے باعظمت انسان کو نصیب ہوتا ہے اور یہ فیض بغیر کسی ملاک کے کسی کو دیا نہیں جاتا اس لئے یہ قابل میراث نہیں ہے بلکہ ایک ایسے باعظمت و مقدس گروہ میں ہے کہ ملاک نہ ہونے کی صورت میں ہرگز کسی کو دیا نہیں جاتا اگرچہ پیغمبر کا بیٹا ہی کیوں نہ ہو۔یہی وجہ تھی کہ زکریا نے پروردگار عالم سے بیٹے کی درخواست نہیں کی جو نبوت و رسالت کا وارث ہو اور اس بات کی تائید قرآن مجید میں ہے کہ:

( اَللهُ اَعْلَمُ حَیْثُ یَجْعَلُ رِسَالَتَه ) (۱)

خداوند عالم سب سے زیادہ جانتا ہے کہ اپنی رسالت کو کہاں قرار دے۔

۳۔ حضرت زکریا نے صرف خدا سے بیٹے کی تمنا ہی نہیں کی بلکہ کہا کہ پروردگار اسے میرا پاک و پاکیزہ اور پسندیدہ وارث قرار دے اگر اس سے مراد مال میں میراث ہو تو صحیح ہے کہ حضرت زکریا اس کے حق میں دعا کریں کہ ''و اجعلہ رب رضیاً'' (خدایا) اسے مورد پسند قرار دے ۔کیونکہ ممکن ہے کہ مال کا وارث کوئی غیر سالم شخص ہو، لیکن اگر اس سے مراد نبوت و رسالت کا وارث ہو، تو اس طرح سے دعا کرنا صحیح نہیں ہوگا اور یہ بالکل ایسا ہی ہے کہ ہم خدا سے دعا کریں کہ خدایا ایک علاقہ کے لئے پیغمبر بھیج دے اور اسے پاک و مورد پسند قرار دے۔ یہ بات بالکل واضح ہے کہ

______________________

(۱) سورۂ انعام ، آیت ۱۲۴۔

۲۲۸

ایسی دعا پیغمبر کے بارے میں جو خداوند عالم کی جانب سے مقام رسالت و نبوت پر فائز ہو باطل ہو جائے گی۔

۴۔ حضرت زکریا اپنی دعا میں کہتے ہیں کہ ''میں اپنے عزیزوں اور چچازاد بھائیوں سے خوف محسوس کرتا ہوں'' لیکن ابتدا میں زکریا کے ڈرنے کی کیا وجہ تھی؟

کیا انھیں اس بات کا خوف تھا کہ ان کے بعد رسالت و نبوت کا منصب ان نا اہلوں تک پہونچ جائے گا اسی لئے انھوں نے اپنے لئے خدا سے ایک بیٹے کی تمنا کی؟ یہ احتمال بالکل بے جا ہے کیونکہ خداوند عالم نبوت و رسالت کے منصب کو ہرگز نااہلوں کو نہیں دیتا کہ ان کو اس بات کا خوف ہو۔ یا حضرت زکریا کو اس بات کا ڈر تھا کہ ان کے بعد دین اور اس کے قوانین ختم ہو جائیں گے اور ان کی قوم الگ الگ گروہوں میں ہو جائے گی؟ اس طرح کا خوف بھی انھیں نہیں تھا کیونکہ خداوند عالم اپنے بندوں کو ایک لمحہ کے لئے بھی اپنی ہدایت کے فیض سے محروم نہیں کرتا اور مسلسل اپنی حجت ان کی رہبری کے لئے بھیجتا ہے اور ان لوگوں کو بھی بغیر رہبر کے نہیں چھوڑتا۔

اس کے علاوہ اگر مراد یہی تھی تو ایسی صورت میں زکریا کو بیٹے کی دعا نہیں کرنی چاہئیے تھی، بلکہ صرف اتنا ہی کافی تھا کہ دعا کرتے کہ پروردگار ا ان لوگوں کے لئے پیغمبر بھیج دے (چاہے ان کی نسل سے ان کا وارث ہو چاہے دوسرے کی نسل سے) تاکہ ان کو جاہلیت کے دور سے نجات دیدے حالانکہ زکریا نے وارث کے نہ ہونے پر خوف محسوس کیا۔

دو سوالوں کا جواب

مورد بحث آیت کے سلسلے میں دواعتراض ذکر ہوا ہے جس کی طرف اہلسنت کے بعض دانشمندوں نے اشارہ کیا ہے یہاں پر ہم دونوں سوالوں کا جائزہ لے رہے ہیں

الف: حضرت یحییٰ اپنے والد کے زمانے میں منصب نبوت پر فائز ہوئے لیکن ہرگز ان کے مال سے میراث نہیں لی کیونکہ اپنے والد سے پہلے ہی شہید ہوگئے اس لئے ضروری ہے کہ لفظ ''یرثنی'' کو نبوت میں وارث کے عنوان سے تفسیر کریں نہ کہ مال میں وراثت سے۔

۲۲۹

جواب:

ہر حالت میں اس اعتراض کا جواب دینا ضروری ہے چاہے اس سے مراد مال کا وارث ہو یا نبوت کا وارث ہو، چونکہ نبوت میں وارث ہونے سے مراد یہ ہے کہ وہ اپنے باپ کے بعد منصب نبوت پر فائز ہو۔ یہی وجہ ہے کہ آیت کی تفسیر میں دونوں نظریوں پر اشکال ہوا ہے اور تفسیر، مال میں وارث ہونے سے مخصوص نہیں ہے لیکن اس کا جواب یہ ہے کہ یحییٰ کا زکریا سے میراث پانا صرف ان کی دعاؤں کی وجہ سے نہ تھا بلکہ ان کی دعا صرف یہ تھی کہ خداوند عالم انھیں صالح بیٹا عطا کرے اور بیٹے کی تمنا کرنے کا مقصد یہ تھا کہ وہ زکریا کا وارث بنے، خدا نے ان کی دعا کو قبول کرلیا اگرچہ حضرت زکریا نے جو اس بیٹے کی تمنا کی اس مقصد (یحییٰ کا ان سے میراث لینا) میں کامیاب نہ ہوئے۔

مورد بحث آیت میں تین جملے استعمال ہوئے ہیں جن کی ہم وضاحت کر رہے ہیں:

( فَهَبْ لِیْ مِنْ لَدُنْکَ وَلِیًّا ) پروردگارا! مجھے ایک بیٹا عطا کر۔

( یَرِثُنِی وَ یَرِثُ مِنْ آلِ یَعْقُوْب ) میرا اور یعقوب کے خاندان کا وارث ہو۔

''وَاجْعَلْهُ رَبِّ رَضِیّاً'' پروردگارا! اسے مورد پسند قرار دے۔ان تین جملوں میں پہلا اور تیسرا جملہ بطور درخواست استعمال ہوا ہے جو حضرت زکریا کی دعا کو بیان کرتاہے یعنی انھوں نے خدا سے یہ دعا کی کہ مجھے لائق و پسندیدہ بیٹا عطا کر، لیکن غرض اور مقصد یا دوسرے لفظوں میں علت غائی، مسئلہ وراثت تھا۔جب کہ مسئلہ وراثت دعا کا جزء نہ تھا اور جس چیز کی جناب زکریا نے خدا سے دراخواست کی تھی وہ پوری ہوگئی اگرچہ ان کی غرض و مقصد پورا نہ ہوا او ران کا بیٹا ان کے بعد موجود نہ رہا کہ ان کے مال یا نبوت کا وراث ہوتا۔(۱) وراثت جزء دعا نہ تھی بلکہ امید تھی جو اس درخواست پر اثر انداز ہوئی، اس بات پر بہترین گواہیہ ہے کہ دعا کی عبارت اور زکریا کی درخواست دوسرے سورہ میں اس طرح وارد ہوئی ہے ،اور وہاں پر اصلاً وراثت کا تذکرہ نہیں ہے۔

______________________

(۱) بعض قاریوں نے '' یرثنی '' کو جزم کے ساتھ پڑھا ہے اور اسے جواب یا '' ھَب ''(کہ جو صیغہ امر ہے) کی جزا جانا ہے یعنی'' ان تهب ولیاً یرثنی '' اگر بیٹا عطا کرے گا تو وہ میرا وارث ہوگا۔

۲۳۰

( هُنَالِکَ دَعَا زَکَرِیَّا رَبَّهُ قَالَ رَبِّ هَبْ لِی مِنْ لَدُنْکَ ذُرِّیَّةً طَیِّبَةً انَّکَ سَمِیعُ الدُّعَاء ) (۱)

اس وقت زکریا نے اپنے پروردگار کی بارگاہ میں دعا کی پروردگارا! مجھے اپنی جانب سے ایک صالح اور پاکیزہ بیٹا عطا فرما اور تو اپنے بندوں کی دعا کو سننے والا ہے۔ اب آپ اس آیت میں ملاحظہ کرسکتے ہیں کہ اس درخواست میں وراثت دعا کا حصہ نہیں ہے بلکہ درخواست میں پاکیزہ نسل کا تذکرہ ہے اور سورۂ مریم میں ''ذریت'' کی جگہ پر لفظ ''ولیاً'' اور ''طیبة'' کی جگہ پر لفظ ''رضیاًّ'' استعمال ہوا ہے۔

ب: مورد بحث آیت میں ضروری ہے کہ زکریا کا فرزند دو آدمیوں سے میراث لے ایک زکریا سے دوسرے یعقوب کے خاندان سے جیسا کہ ارشاد قدرت ہے: ''یرثنی و یرث من آل یعقوب'' یعقوب کے خاندان کی تمام وراثت ، نبوت کی وراثت کا حصہ نہیں بن سکتی۔

جواب: آیت کا مفہوم یہ نہیں ہے کہ زکریا کا فرزند، خاندان یعقوب کے تمام افراد کا وارث ہو ، بلکہ آیت کا مفہوم لفظ ''مِن'' سے جو کہ تبعیض کا فائدہ دیتی ہے ،یہ ہے کہ اس خاندان کے بعض افراد سے میراث حاصل کرے نہ کہ تمام افراد سے، اور اس بات کے صحیح ہونے کے لئے بس اتنا ہی کافی ہے کہ وہ اپنی ماں سے یعقوب کے خاندان کے کسی فرد سے میراث حاصل کریں. اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ اس یعقوب سے مراد کون ہے کیا وہی یعقوب بن اسحاق مراد ہیں یا کوئی دوسرا فی الحال مشخص نہیں ہے۔

۲: سلیمان نے داؤد سے میراث پائی

( وَوَرِثَ سُلَیْمَانُ دَاوُود ) (۲)

سلیمان نے داؤد سے میراث پائی۔

اس میں کوئی شک نہیں ہے کہ اس آیت سے مراد یہ ہے کہ سلیمان نے مال و سلطنت کو حضرت داؤد سے بطور میراث حاصل کیا اور یہ خیال کرنا کہ اس سے مراد علم کا وارث ہونا تھا دولحاظ سے باطل ہے۔

______________________

(۱) سورۂ آل عمران، آیت ۳۸۔------(۲) سورۂ نمل، آیت ۱۶۔

۲۳۱

۱۔ اصطلاح میں کلمہ ''ورث'' کے معنی مال سے میراث لینا ہے اور علم کی وراثت مراد لینا تفسیر کے برخلاف ہے جو قرینہ قطعی کے بغیر صحیح نہیں ہوگا۔

۲۔ چونکہ اکتسابی علم استاد سے شاگرد کی طرف منتقل ہوتا ہے اور مجازاً یہ کہنا صحیح ہے کہ '' فلاں شخص اپنے استاد کے علم کا وارث ہے'' لیکن مقام نبوت اور علوم الہی وہبی ہیں اور اکتسابی اور موروثی نہیں ہیں اور خدا جسے چاہتا ہے اسے عطا کرتاہے لہٰذا وراثت کی تفسیر اس طریقے کے علوم و معارف اور مقامات او رمنصبوں سے اس وقت تک صحیح نہیں ہے جب تک قرینہ موجود نہ ہو کیونکہ بعد میں آنے والے پیغمبر نے نبوت اور علم کو خدا سے لیا ہے نہ کہ اپنے والد سے۔

اس کے علاوہ اس آیت سے پہلے والی آیت میں خداوند عالم داؤد اور سلیمان کے بارے میں فرماتا ہے:

( وَلَقَدْ آتَیْنَا دَاوُودَ وَسُلَیْمَانَ عِلْمًا وَقَالاَالْحَمْدُ لِلَّهِ الَّذِی فَضَّلَنَا عَلَی کَثِیرٍ مِنْ عِبَادِهِ الْمُؤْمِنِینَ ) (۱)

اور اس میں شک نہیں کہ ہم نے داؤد اور سلیمان کو علم عطا کیا اوردونوں نے (خوش ہو کر) کہا خدا کا شکر جس نے ہم کو اپنے بہتیرے ایماندار بندوں پر فضیلت دی۔

کیا آیت سے یہ ظاہر نہیں ہے کہ خداوند عالم نے دونوں کو علم و دانش عطا کیا او رسلیمان کا علم وہبی تھا نہ کہ موروثی؟

سورۂ نمل اور سورۂ مریم کی آیتوں کی روشنی میں یہ بات ثابت ہوتی ہے کہ شریعت الہی کا پچھلے پیغمبروں کے بارے میں یہ ارادہ نہیں تھا کہ ان کی اولادیںان کی میراث نہ لیں، بلکہ ان کی اولادیں بھی دوسرں کی اولادوں کی طرح ایک دوسرے سے میراث حاصل کریں۔یہی وجہ ہے کہ صریحی طور پر وہ آیتیں جو یحییٰ اور سلیمان کی اپنے والد سے میراث لینے کے متعلق ہیں انہیں حضرت فاطمہ نے اپنے خطبہ میں جو آپ نے پیغمبر کے بعد مسجد نبوی میں ارشاد فرمایا تھا بیان کیا اور ان دونوں آیتوں سے استناد کرتے ہوئے اس فکر کے غلط ہونے پر استدلال کیا اور فرمایا:

______________________

(۱) سورۂ نمل، آیت ۱۵۔

۲۳۲

''هذا کتاب الله حکماً عدلاً و ناطقاً فصلاً یقول ''یرثنی و یرث من آل یعقوب '' و ورث سلیمان داؤد'' (۱)

یہ کتاب خدا حاکم اور عادل و گویا ہے اور بہترین فیصلہ کرنے والی ہے جس کا بیان یہ ہے کہ (یحییٰ نے) مجھ (زکریاسے) اور یعقوب کے خاندان سے میراث پائی (پھر کہا) سلیمان نے داؤد سے میراث پائی۔

______________________

(۱) احتجاج طبرسی، ج۱، ص ۱۴۵، (مطبوعہ نجف اشرف)

۲۳۳

پیغمبر(ص) سے منسوب حدیث

گذشتہ بحث میں قرآن کی آیتوں نے یہ ثابت کردیا کہ پیغمبروں کے وارث ،پیغمبروں سے میراث پاتے تھے اور ان کے بعد ان کی چھوڑی ہوئی چیزیں (میراث) غریبوں اور محتاجوں میں بعنوان صدقہ تقسیم نہیں ہوتی تھیں، اب اس وقت ہم ان روایتوں کی تحقیق کریں گے جنہیں اہلسنت کے علماء نے نقل کیا ہے اور خلیفہ اول کے اس عمل کی توجیہ کی ہے جو انھوں نے حضرت زہرا کو ان کے باپ کی میراث لینے سے محروم کردیاتھا۔

ابتدا میں ہم ان حدیثوں کو نقل کررہے ہیں جو حدیث کی کتابوںمیں وارد ہوئی ہیں پھر ان کے معنٰی کو بیان کریں گے ۔

۱۔'' نَحْنُ مَعَاشِرُا لْاَنْبِیَائِ لَانُوْرِثُ ذَهْبًا وَلَا فِضَّةً وَلَا اَرْضًا وَلَا عِقَاراً وَلَا دَاراً وَلٰکِنَّا نُوَرِّثُ الْاِیْمَانَ وَالْحِکْمَةَ وَالْعِلْمَ وَالسُّنَّةَ''

ہم گروہ انبیاء سونا، چاندی، زمین اور گھر وغیرہ بطور میراث نہیں چھوڑتے، بلکہ ہم ایمان ، حکمت ، علم او رحدیث بعنوان میراث چھوڑتے ہیں۔

۲۔'' اِنَّ الْاَنْبِیَائَ لَایُوْرثون''

بے شک انبیاء کوئی چیز بھی بعنوان میراث نہیں چھوڑتے (یا ان کی چیزیں میراث واقع نہیں ہوتیں)

۳۔'' اِنَّ النَّبِیَّ لَایُوْرثُ''

بے شک پیغمبر کوئی چیز میراث نہیں چھوڑتے (یا میراث واقع نہیں ہوتی)

۴۔'' لَانُوْرث، مَا تَرَکْنَاه صَدْقَةً''

ہم کوئی چیز میراث نہیں چھوڑتے بلکہ جو چیز ہمارے بعد باقی رہتی ہے وہ صدقہ ہے۔

۲۳۴

یہ ان تمام حدیثوں کی اصلی عبارتیں ہیں جنھیں اہلسنت نے نقل کیا ہے خلیفہ اول نے حضرت زہرا کو ان کے باپ کی میراث نہ دینے کے لئے چوتھی حدیث کا سہارا لیا، اس سلسلے میں پانچویں حدیث بھی ہے جسے ابوہریرہ نے نقل کیا ہے لیکن چونکہ معلوم ہے کہ ابوہریرہ صاحب نے یہ حدیث گڑھی ہے جیسا کہ (خود ابوبکر جوہری کتاب ''السقیفہ'' کے مولف نے اس حدیث کے متن کی غرابت کا اعتراف کیا ہے)(۱)

اس لئے ہم نے اسے نقل کرنے سے پرہیز کیا ہے اب ہم ان چاروں حدیثوں کا تجزیہ و تحلیل کرتے ہیں۔

پہلی حدیث کے سلسلے میں ہم کہہ سکتے ہیں کہ اس حدیث سے مراد یہ نہیں ہے کہ انبیاء کوئی چیز میراث میں نہیں چھوڑتے ، بلکہ مراد یہ ہے کہ پیغمبروں کی شان یہ نہیں ہے کہ وہ اپنی عمر کو سونے چاندی ، مال و دولت کے جمع کرنے میں خرچ کریں اور اپنے وارثوں کے لئے مال و دولت چھوڑیں اور ان کی جو یادگاریں باقی ہیں وہ سونا چاندی نہیں ہیں، بلکہ علم و حکمت اور سنت ہیں،اسکا مطلب یہ نہیں کہ اگر پیغمبرنے اپنی پوری زندگی لوگوں کی ہدایت و رہبری میں صرف کی اور تقوی اور زہد کے ساتھ زندگی بسر کی تو ان کے انتقال کے بعد اس حکم کی بناء پر کہ پیغمبر کوئی چیز بطور میراث میں نہیں چھوڑتے، ان کے وارثوں سے فورا ان کا ترکہ لے کر صدقہ دیدیں۔

واضح لفظوں میں اس حدیث کا مقصد یہ ہے کہ پیغمبروں کی امتیں یا ان کے ورثاء ا س بات کے منتظر نہ رہیں کہ وہ اپنے بعد مال ودولت بطور میراث چھوڑیں گے، کیونکہ وہ لوگ اس کا م کے لئے نہیں آئے تھے،بلکہ وہ اس لئے بھیجے گئے تھے کہ لوگوں کے درمیان دین و شریعت، علم و حکمت کو پھیلائیں اور انہی

______________________

(۱) شرح نہج البلاغہ ابن ابی الحدیدج۱۶ ص ۲۲۰۔

۲۳۵

چیزوں کو اپنی یادگار چھوڑیں، شیعہ دانشمندوں نے اسی مضمون میں ایک حدیث امام صادق سے نقل کی ہے اور یہ اس بات پر گواہ ہے کہ پیغمبر کا مقصد یہی تھا۔

امام جعفر صادق فرماتے ہیں:

''انَّ الْعُلَمَائَ وَرَثَةُ الْاَنْبِیَائِ َوذَالِکَ اَنَّ الْاَنْبِیَائَ لَمْ یُوَرِّثُوْا دِرْهَماً وَلَادِیْنَاراً وَاِنَّمَا وُرِثُوْا اَحٰادِیْثَ مِنْ اَحَادِیْثِهِمْ'' (۱)

علماء انبیاء کے وارث ہیں کیونکہ پیغمبروں نے درہم و دینار ورثہ میں نہیں چھوڑا ہے بلکہ (لوگوں کے لئے) اپنی حدیثوں میں سے حدیث کو یادگار چھوڑا ہے

اس حدیث اور اس سے مشابہ حدیث کامراد یہ ہے کہ پیغمبروں کی شان مال کو جمع کر کے میراث میں چھوڑ نا نہیں ہے ،بلکہ ان کی عظمت و شان کا تقاضا یہ ہے کہ اپنی امت کے لئے علم و ایمان کو بطور میراث چھوڑیں، لہذا یہ تعبیر اس بات کو ثابت نہیں کرتی کہ اگر پیغمبر کوئی چیز میراث میں چھوڑ دیںتو ضروری ہے کہ ان کے وارثوں سے لے لیا جائے۔اس بیان سے یہ با ت واضح ہوتی ہے کہ دوسری اور تیسری حدیثوں کا مقصد بھی یہی ہے اگرچہ مختصر اور غیر واضح نقل ہوئی ہیں۔ حقیقت میں جو پیغمبر نے فرمایا: وہ صرف ایک ہی حدیث ہے جس میں کتر بیونت کر کے مختصرا نقل کیا گیا ہے ۔اب تک ہم نے شروع کی تین حدیثوں کی بالکل صحیح تفسیر کی ہے اوران کے قرآن سے اختلافات کو جو پیغمبروں کی اولادوں کے وارث ہونے بتاتاہے، اسے برطرف کردیا۔

مشکل چوتھی حدیث میں ہے، کیونکہ مذکورہ توجیہ اس میں جاری نہیں ہوگی،کیونکہ حدیث میں صراحتاً موجود ہے کہ پیغمبریا پیغمبروں کا ترکہ صدقہ کے عنوان سے لے لینا چاہئے۔اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ اگر اس حدیث کا مقصد یہی ہے کہ یہ حکم تمام پیغمبروں کے لئے ہے تو اس صورت میں اس کا مفہوم قرآن کے مخالف ہوگا اور پھر معتبر نہیں ہو گی، اور اگر اس حدیث کا مطلب یہ ہے کہ یہ حکم صرف پیغمبر اسلام کے لئے نافذ ہے اور تمام پیغمبروں کے درمیان صرف وہ اس خصوصیت کے

______________________

(۱)مقدمۂ معالم ص۱ منقول از کلینی ۔

۲۳۶

حامل ہیں، تو ایسی صورت میں اگرچہ کلی طور پر قرآن مجید کے مخالف نہیں ہے، لیکن قرآن مجید کی متعدد آیتوں کے مقابلے میں عمل کرنا خصوصاً میراث اور اس کے وارثوں کے درمیان تقسیم کرنا، جو کلی و عمومی ہے پیغمبر اسلام کو بھی شامل کرتی ہے بشرطیکہ یہ حدیث اس قدر صحیح و معتبر ہو کہ ان قرآنی آیتوں کی تخصیص کردے، لیکن افسوس کہ یہ حدیث کہ جس پر خلیفہ اول نے اعتماد کیا ہے اس قدر غیر معتبر ہے جس کوہم یہاںبیان کر رہے ہیں۔

۱۔ پیغمبر کے صحابیوں میں سے کسی نے بھی اس حدیث کو نقل نہیں کیا ہے اور صرف اس کو نقل کرنے میں خلیفہ اول فردفرید ہیں۔

اور ہم نے جو یہ کہا ہے کہ حدیث نقل کرنے میں صرف وہی ہیں تو یہ غلط عبات نہیں ہے بلکہ یہ مطلب تاریخ کے دامن میں تحریر ہے اور مسلمات میں سے ہے چنانچہ ابن حجر نے تنہا اس حدیث کے نقل کرنے کی بنا پر ان کی اعلمیت کا اعتراف کیا ہے۔(۱)

جی ہاں، صرف تاریخ میں جو چیز بیان کی گئی ہے وہ یہ ہے کہ حضرت علی علیہ السلام اور عباس کے درمیان پیغمبر کی میراث کے بارے میں جواختلاف تھا۔(۲) عمر نے دونوں کے درمیان فیصلہ کرنے کے لئے اسی حدیث کا سہارا لیا جسے خلیفہ اول نے نقل کیا تھا اور اس مجمع میں سے پانچ لوگوںنے اس کے صحیح ہونے پر گواہی دی۔(۳) ابن ابی الحدید لکھتے ہیں:

پیغمبر کی رحلت کے بعد صرف ابوبکر نے اس حدیث کو نقل کیا تھا ،ان کے علاوہ کسی نے اس

حدیث کو نقل نہیں کیا اور کبھی کبھی یہ کہا جاتا ہے کہ مالک بن اوس نے بھی اس حدیث کو نقل کیا ہے۔ البتہ، عمر کی خلافت کی زمانے میں بعض مہاجرین نے اس کے صحیح ہونے کی گواہی دی ہے۔(۴)

______________________

(۱) صواعق محرقہ ص ۱۹۔

(۲) حضرت علی علیہ السلام کا عباس سے اختلاف جس طرح سے اہلسنت کی کتابوں میں نقل ہوا ہے وہ محققین شیعہ کی نظر میں غیر قابل قبول ہے۔

(۳) شرح نہج البلاغہ ابن ابی الحدید ج۱۶ ص ۲۲۹، صواعق محرقہ ص ۲۱۔

(۴) شرح نہج البلاغہ ابن ابی الحدید ج ۱۶ ص ۲۲۷۔

۲۳۷

ایسی صورت میں کیا یہ صحیح ہے کہ خلیفہ جو کہ خود بھی مدعی ہے ایسی حدیث کو بطور گواہ پیش کرے کہ اس زمانے میں اس کے علاوہ کسی کو بھی اس حدیث کی اطلاع نہ ہو؟

ممکن ہے کہ کوئی یہ کہے کہ قاضی فیصلہ کرتے وقت اپنے علم پر عمل کرسکتا ہے اوراپنے کینہ اپنے علم و آگاہی کی بنیاد پر فیصلہ کرے، اور چونکہ خلیفہ نے اس حدیث کو پیغمبر سے سنا تھا لہٰذااپنے علم کی بنیادپر اولاد کی میراث کے سلسلے میں جو آیتیں ہیں انہیں تخصیص دیدیں،اور پھر اسی اساس پر فیصلہ کریں، لیکن افسوس، خلیفہ کامتضادکردار اور فدک دینے میں کشمکش کا شکار ہونا اور پھر دوبارہ فدک واپس کرنے سے منع کرنا (جس کی تفصیل گذر چکی ہے) اس بات کو ثابت کرتا ہے کہ انہیں حدیث کے صحیح ہونے پر یقین و اطمینان نہ تھا۔

اس بناء پر ہم کس طرح کہہ سکتے ہیں کہ خلیفہ نے پیغمبر کی بیٹی کو ان کے باپ کی میراث نہ دینے میں اپنے علم کے مطابق عمل کیا ہے اور قرآن مجیدکی آیتوں کو اس حدیث سے جو پیغمبر سے سنا تھا مخصوص کردیا ہے؟

۲۔اگر خداوند عالم کا پیغمبر کے ترکہ کے بارے یہ حکم تھا کہ ان کا مال عمومی ہے اور مسلمانوں کے امور میں صرف ہو، تو کیوں پیغمبر نے اپنے تنہا وارث سے یہ بات نہیں بتائی؟ کیا یہ بات معقول ہے کہ پیغمبر اپنی بیٹی سے اس حکم الہی کو جو خود ان سے مربوط تھا پوشیدہ رکھیں؟ یا یہ کہ ان کو باخبر کردیں مگر وہ اسے نظر انداز کردیں؟

نہیں ۔ یہ ایساہرگز ممکن نہیں ہے ،کیونکہ پیغمبرکی عصمت اور آپ کی بیٹی کا گناہ سے محفوظ رہنا اس چیز کے لئے مانع ہے کہ اس طرح کا احتمال ان کے بارے میں دیا جائے؛ بلکہ ضروری ہے کہ حضرت فاطمہ کے انکار کواس بات پر گواہ سمجھیں کہ ان چیزوں کی کوئی حقیقت نہیں ہے اور یہ حدیث ان لوگوںکی من گھڑت ہے جن لوگوں نے سیاسی طور پر یہ ارادہ کیا کہ پیغمبر کے حقیقی وراث کو ان کے شرعی حق سے محروم کردیں۔

۳۔ وہ حدیث جس کو خلیفہ نے نقل کیا تھا اگر واقعاً وہ صحیح تھی تو پھر کیوں فدک مختلف سیاستوںکا شکار رہااور ہر نئے خلیفہ اپنے دوران حکومت میںمتضاد کردار اداکیا؟ تاریخ کا مطالعہ کرنے سے معلوم ہوتا ہے کہ فدک خلفاء کے زمانے میں ایک آدمی کے پاس نہ تھا کبھی فدک ان کے حقیقی مالکوں کو واپس کیا گیا تو کبھی حکومت کے قبضے میں رہا، بہرحال ہر زمانے میں فدک ایک حساس مسئلہ اور اسلام کے

۲۳۸

پیچیدہ مسائل کے طور پر تھا۔(۱) جیسا کہ پہلے بھی ذکر ہوچکا ہے کہ عمر کی خلافت کے دور میں فدک علی علیہ السلام اور عبا س کو واپس کر دیا گیا تھا(۲) خلافت عثمان کے زمانے میں مروان کی جاگیر تھا معاویہ کے خلافت کے دور میں اور امام حسن بن علی کی شہادت کے بعد فدک تین آدمیوں کے درمیان (مروان، عمر وبن عثمان، یزید بن معاویہ) تقسیم ہوا پھر مروان کی خلافت کے دوران تمام فدک اسی کے اختیار میں تھا اور مروان نے اسے اپنے بیٹے عبد العزیز کو دے دیا، اور خود اس نے بھی اپنے بیٹے عمر کے نام ہبہ کردیا۔عمر بن عبد العزیز نے اپنی حکومت کے زمانے میں حضرت زہرا کی اولادوں کے حوالے کردیا اور جب یزید بن عبدالملک نے حکومت کی باگ ڈور سنبھالی تو فدک کو حضرت فاطمہ کے بچوں سے واپس لے لیا اور کافی عرصے تک بنی مروان کے خاندان میں ایک دوسرے کے ہاتھوں میں جاتارہایہاں تک کہ ان کی حکومت کا زمانہ ختم ہوگیا۔

بنی عباس کی خلافت کے زمانے میں بھی فدک مختلف لوگوں کے پاس رہا، ابو العباس سفاح نے اسے عبد اللہ بن حسن بن علی کے حوالے کردیا، ابو جعفر منصور نے اسے واپس لے لیا ، مہدی عباسی نے اسے اولاد فاطمہ کو واپس کردیا موسی بن مہدی اوراس کے بھائی نے اسے واپس لے لیا یہاں تک خلافت مامون تک پہونچی اور اس نے فدک اس کے حقیقی مالک کو واپس کردیا اور جب متوکل خلیفہ ہوا تواس نے فدک کو اس کے حقیقی مالک سے چھین لیا۔(۳) اگر پیغمبر کے فرزندوں کو پیغمبر کے ترکہ سے محروم کرنے والی حدیث صحیح اور مسلّم ہوتی تو فدک کبھی بھی دربدر کی ٹھوکر نہ کھاتی۔

۴۔ پیغمبر اسلام نے فدک کے علاوہ دوسری چیزیں بھی ورثہ میں چھوڑیں، لیکن خلیفہ اول نے تمام

______________________

(۱) اس سلسلے میں مزید معلومات کے لئے کتاب الغدیر مطبوعہ نجف ج۷ ص ۱۵۶ تا ۱۹۶ ، پڑھ سکتے ہیں۔

(۲) یہ عبارت امام ـ کی اس نامہ سے سازگار نہیں ہے جو آپ نے عثمان بن حنیف کو لکھا تھا آپ وہاں لکھتے ہیں:''کانت فی ایدنا فدک من کل ما اظلته السماء فشحت علیها نفوس قوم و سخت عنها نفوس قوم آخرین و نعم الحکم لله'' یعنی وہ چیز جس پر آسمان نے اپنا سایہ کیا ہے اس میں سے صرف فدک میرے اختیار میں ہے جب کہ بعض گروہ نے اسے لالچ کی نگاہ سے دیکھا اور دوسری گروہ نے اسے نظر انداز کردیاواہ کیاخوب ہے خدا کا فیصلہ۔

(۳) شرح نہج البلاغہ ابن ابی الحدید ج۱۶ ص ۲۱۷۔ ۲۱۶۔

۲۳۹

ورثے میں سے صرف فدک کو ہی زبردستی چھین لیا اور باقی تمام مال رسول خدا کی بیویوں کے گھر میں موجود تھا اور بالکل اسی طرح ان کے ہاتھوں میں باقی رہا اور خلیفہ نے کبھی بھی ان کی طرف رخ نہیں کیا اور کسی کو بھی اس کے لئے نہ بھیجا کہ جاکر گھروں کے حالات معلوم کرے کہ کیا وہ خود پیغمبر کی ملکیت ہے یا حضرت نے اپنی زندگی ہی میں اپنی بیویوں کو دیدیا تھا۔

ابوبکر نے نہ یہ کہ اس سلسلے میں تحقیق نہیں کیا بلکہ پیغمبر کے جوار میں دفن ہونے کے لئے اپنی بیٹی عائشہ سے اجازت مانگی ،کیونکہ وہ اپنی بیٹی کو پیغمبر کا وارث مانتے تھے۔

انہوں نے نہ یہ کہ ازدواج پیغمبر کے گھروںکو نہیں لیا بلکہ رسول خدا کی انگوٹھی، عمامہ، تلوار، سواری، لباس وغیرہ جو حضرت علی کے ہاتھ میں تھے توواپس نہیں لیا اورا س سلسلے میں کبھی کوئی گفتگو بھی نہیں کی۔

ابن ابی الحدید معتزلی اس تبعیض کودیکھ کر اتنا مبہوت ہوگئے کہ وہ چاہتے تھے کہ خود اپنی طرف سے اس کی توجیہ کریں لیکن ان کی توجیہ اتنی بے اساس اور غیر معقول ہے کہ وہ نقل اورتنقید کے لائق نہیں ہے(۱)

کیا میراث سے محروم ہونا صرف پیغمبر کی بیٹی سے مخصوص تھا ،یاان میں تمام ورثاء بھی شامل تھے، یا اصلاً محرومیت کی بات ہی نہ تھی صرف سیاسی مسئلہ تھا اور وہ یہ کہ حضرت فاطمہ زہرا کو ان کی میراث سے محروم کردیا جائے؟

۵۔ اگر شریعت اسلامی میں پیغمبر کے وارثوں کا ان کی میراث سے محروم ہونا یقینی امر تھا تو کیوں پیغمبر کی بیٹی نے جن کی عصمت پر آیت تطہیر کا پہرہ ہے اپنے شعلہ ور خطبہ میں اس طرح فرمایا:

''یابن ابی قحافة أفی کتاب الله ان ترث أباک و لاارث ابی؟ لقد جئت شیئاً فریاًّ افعلی عمد ترکتم کتاب الله فنبذتموه وراء ظهورکم و و زعمتم ان لا خطَّ لی و لاارث من ابی و لارحم بیننا؟ افخصّکم الله بآیة اخرج ابی منها ام هل تقولون: ان اهل ملتین لایتوارثان؟ او لست أنا و ابی من اهل ملة واحدة ام أنتم اعلم بخصوص القرآن و عمومه من ابی و ابن عمّی؟ فدونکها مخطومة مرحولة تلقاک یوم حشرک

_____________________

(۱) شرح نہج البلاغہ ابن ابی الحدید ج۱۶ ص۲۶۱۔

۲۴۰

241

242

243

244

245

246

247

248

249

250

251

252

253

254

255

256

257

258

259

260

261

262

263