حیات حضرت زھراء پرتحقیقانہ نظر

حیات حضرت زھراء پرتحقیقانہ نظر0%

حیات حضرت زھراء پرتحقیقانہ نظر مؤلف:
زمرہ جات: فاطمہ زھرا(سلام اللّہ علیھا)
صفحے: 174

حیات حضرت زھراء پرتحقیقانہ نظر

یہ کتاب برقی شکل میں نشرہوئی ہے اور شبکہ الامامین الحسنین (علیہما السلام) کے گروہ علمی کی نگرانی میں اس کی فنی طورپرتصحیح اور تنظیم ہوئی ہے

مؤلف: حجت الاسلام شیخ باقر مقدسی
زمرہ جات: صفحے: 174
مشاہدے: 49569
ڈاؤنلوڈ: 3255

تبصرے:

حیات حضرت زھراء پرتحقیقانہ نظر
کتاب کے اندر تلاش کریں
  • ابتداء
  • پچھلا
  • 174 /
  • اگلا
  • آخر
  •  
  • ڈاؤنلوڈ HTML
  • ڈاؤنلوڈ Word
  • ڈاؤنلوڈ PDF
  • مشاہدے: 49569 / ڈاؤنلوڈ: 3255
سائز سائز سائز
حیات حضرت زھراء پرتحقیقانہ نظر

حیات حضرت زھراء پرتحقیقانہ نظر

مؤلف:
اردو

یہ کتاب برقی شکل میں نشرہوئی ہے اور شبکہ الامامین الحسنین (علیہما السلام) کے گروہ علمی کی نگرانی میں اس کی فنی طورپرتصحیح اور تنظیم ہوئی ہے

اے اللہ اتنا کھا نا کہاں سے آیا جب میں نے کنیز سے لیا تھا اس وقت اتنا نہیں تھا کھا نے کو پیغمبر کی خدمت میں تقدیم کر نے کے بعد خدا کا حمد وثنا اور پیغمبر اکرم پر درود بھیجنا شروع کیا ،لیکن جب پیغمبر اکرم کی نظر کھا نے پر پڑی تو خدا کا شکر ادا کر تے ہو ئے پیغمبر اکرم نے فرمایا .اے بیٹی فاطمہ زہرا یہ کھا نا کیسے فراہم کیا حضرت فاطمہ سلام اللہ علیہا نے کہا یا رسول اللہ خدا نے ہی بھیجا ہے کیونکہ کوئی بھی شخص جب خدا سے مانگتا ہے تو خدا ہی بے انتہامقدار کے ساتھ عطا فرماتا ہے پیغمبر نے حضرت علی بچوں اور ازواج کو طلب کیا پھر سب نے مل کر کھا نا تناول فرمایا بھوک کا غلبہ ختم ہوا لیکن کھا نے میں کو ئی کمی نہیں آئی لہٰذا آپ نے فرمایا اس بابرکت کھا نے سے ہمسائیوں کو بھی سیراب فرما ئیں۔

اسی طرح اور بھی متعدد واقعات اور روایتیں آپ کے معجزات وکرامات کو بیان کر تی ہیں کیونکہ حضرت زہرا جیسی خاتون آدم سے لے کر اب تک نہ آئی ہے نہ قیامت تک آئے گی لہٰذا اللہ نے کا ئنات کو وجود اور بقاء زہرا کے صدقہ میں عطاء کیا ہے کہ جس سے ساری مخلوقات فیضیاب ہو رہی ہیں اسی لئیے بہت سارے لوگوں نے حضرت زہرا کوہو نے والی غائبانہ امداد کو پیغمبر اکرم کے زمانے میں مشاہدہ کر کے اس کا راز بھی پوچھا تو آپ نے فرمایا :'' ان الله یعلم....'' یعنی اللہ تبارک وتعالی زہرا کی کمزوری اور نا توانی کو جا نتا تھا کیو نکہ حضرت زہرا سلام اللہ علیہا خدا کی عبادت میں مشغول رہتی تھیں اللہ نے زہرا کی رضایت اور خوشنودی کی خاطر فرشتے کو نازل کر تے تھے ۔

۱۲۱

''انها علیها السلام ربما اشتغلت بصلاتها وعبادتها فربما بکا ولدها فرأی المهد یتحرک وکان ملک یحرکه '' (۱)

بے شک حضرت زہرا سلام اللہ علیہا جب نماز اور عبادت الہی میں مشغول ہو تی تھیں تو کبھی کھبارآپ کا فرزند گر یہ کر تا تھا اس وقت اللہ تعالی بچے کے گہوارے کو ہلانے کے لئے ایک فرشتہ کو مقرر کرتا تھا کہ وہ فرشتہ ہمیشہ بچے کا گہوارہ ہلاتے ہوئے نظر آتا تھا۔

نیز دوسری روایت میں پیغمبر اکرم نے فرمایا:

یا اباذر لاتعجب فان لله ملائکة سیا حون فی الارض موکلون بمعونة آل محمد صلی الله علیه و اله وسلم (۲)

اے ابوذرتوزہرا کی کرامت پر تعجب نہ کر کیونکہ خدا نے روئے زمین پر کچھ ایسے فرشتوں کو معین کیا ہے جو ال محمد کی ہمشہ مدد کے لئے تیار رہتے ہیں۔

۸) نیز حضرت زہرا کے معجزات میں سے ایک اور یہ ہے ایک دن عائشہ جناب سیدہ کو نین کی خدمت میں آئیں تو دیکھا کہ حضرت زہرا حسنین کے لئے

____________________

(۱) بحارالانوار جلد ۴۳ ص۴۵. (۲)بحارالانوار جلد ۴۳ ص۴۵.

۱۲۲

کھانا پکا رہی ہیں کھا نا چو لھے پر بہت ہی جو ش کے ساتھ ابل رہا تھا حضرت زہرا نے اسی حالت میں کھا نے میں اپنے دست مبارک کو ڈالا اور دیکھا کہ کھا نا تیار ہوا ہے یا نہیں یہ حالت عائشہ نے دیکھی تو بہت ہی پریشانی کی حالت میںابو بکر کے پاس آکر کہا اے بابا مجھے آج ایک تعجب آور منظر نظر آیا ابو بکر نے کہا کیا نظر آیا ؟ عائشہ کہنے لگی جب میں حضرت زہرا کی خدمت میں پہنچی تو حضرت زہرا کھا نا پکارہی تھیں اور کھا نا جو ش کے ساتھ ابل رہا تھا زہرا نے اسی حا لت میں ہاتھ لگا کر دیکھا لیکن ہاتھ کو کچھ نہیں ہوا ابو بکر نے عائشہ سے کہا اے بیٹی اس بات سے کسی کو باخبر نہ کر نا۔

جب یہ خبر پیغمبر تک پہنچی تو پیغمبر اکرم نے لوگوں کو جمع فرمایا ممبر پر تشریف لا کر حمدو ثنا انجام دینے کے بعد فرمایا: لو گو! تم آگا ہ ہو کہ حضرت زہرا کا ہاتھ اس ابلتے ہوئے کھانے میں نہ جلنے پر کچھ لوگ تعجب کر تے ہیں خدا کی قسم جس نے مجھ نبوت اور رسالت پر مبعوث کیا ہے اسی نے ہی حضرت زہرا سلام اللہ علیہا کو اتنی فضیلت دی ہے کہ زہرا کے گوشت اور اعضاء وجوارح کو جلانے کی طاقت آگ میں نہیں رکھی۔

۱۲۳

لہٰذا خدا نے حضرت زہرا اور حضرت زہرا کے فرزندان ، ان کے پیروکاروں سے جہنم کی آگ کو دور کیا ہے پس ان لوگوں پر افسوس ہو جو حضرت زہرا کی فضیلت اور بر تری میں شک کر تے ہیں اور خدا کی لعنت اس شخص پر جو ان کے شوہر حضرت علی ابن ابی طالب کے ساتھ بغض اور ان کے خلیفہ بلا فصل ہو نے میں تردید،ان کے بعد ان کے گیارہ فرزندان کی امامت پر راضی نہیں ہیں لہٰذا حضرت فاطمہ زہرا وہ ہستی ہیں جن کو خدا کی نظر میں جو مقام ومنزلت اور ان کے فرندان وپیروکاروں کو جو فضیلت اور مقام حاصل ہے کسی اور نبی کی امت کو حاصل نہیں ہے حضرت فاطمہ زہرا وہ خاتون ہے جو امت کی نجات اور فلاح وبہبود کی خاطر مجھ سے زیادہ دعا مانگتی ہیں اگر وہ اپنے دشمنوں کے بارے میں بھی سفارش کریں تو اللہ تبارک وتعالی قبول فرماتاہے(۱)

اس روایت کا خلاصہ درج ذیل ہے:

۱)ابو بکر نے جان بوجھ کر حضرت زہرا کی کرامت اور معجزہ کو چھپانے کی کوشش کی تھی لیکن پیغمبر نے اس کو بے نقاب کردیا۔

۲)عائشہ حضرت زہرا کی فضیلت اور کرامت پرہمیشہ پریشان رہتی تھیں۔

۳) جو لوگ علی اور باقی گیارہ ہستیوں کی امامت کے قائل نہیں ہیں ان پر خدا کی لعنت ہے

۹)نیز آپ کے معجزات میں سے ایک یہ ہے زمنحشری نے اس آیت

____________________

(۱) کتاب فاطمہ زہرا نقل از داستان (۱)کشف جلد اص ۳۷

۱۲۴

شریفہ( کلما دخل علیها ذکریا ) (۱) کی تفسیر میں پیغمبر اکرم سے یوں روایت کی ہے:

'' عن النبی صلی الله علیه وآله وسلم انه جاع فی زمن قحط فاهدت له فاطمة رضی الله عنها.''

ایک وقت خشک سالی اور قحط کی وجہ سے پورا مدینہ منورہ بے تاب تھا جس کی زدمیں پیغمبر اکرم پر بھی پیاس اور بھوک کا غلبہ ہوا اس بے تابی کی حالت میں حضرت زہرا نے پیغمبر اکرم کو سیراب فرمایا اسی روایت کو نقل کرنے کے بعد زمخشری اور صاحب در منثور نے کہا کہ یہ آیت شریفہ حضرت مریم کی شان میں نازل ہوئی ہے لیکن اس روایت کی بناء پر جتنی فضیلت خدا نے حضرت مر یم کو عطا کی ہے اتنی فضیلت حضرت زہرا کو بھی حاصل ہے۔

۱۰) ابن عباس سے روایت ہے ایک دن پیغمبر اکرم کی خدمت میں حضرت علی ، حضرت فاطمہ زہرا (س)،اور حسنین بیٹھے ہو ئے تھے اتنے میں آسمان سے ایک سیب لے کر جبرائیل پیغمبر اکرم کی خدمت میں نازل ہوئے جبرائیل نے مبارکبادی کے ساتھ سیب کو پیغمبر کے حوالہ کیا پیغمبر نے اس سیب کو حضرت علی کی خدمت میں ہد یہ فرمایا:

____________________

(۱) سورئہ ال عمران آیت ۳۷

۱۲۵

حضرت علی نے اس کو بوسہ دے کر پیغمبر اکرم کا شکر یہ ادا کر تے ہوئے واپس کیا پیغمبر اکرم نے امام حسن کو ہدیہ کیا آپ نے بھی واپس کیاپھر امام حسین کو ہدیہ کیا امام حسین نے بھی بوسہ کر کے واپس کیا پھر جناب سیدہ کو ہد یہ کیا حضرت زہرا نے بھی واپس کیا پیغمبراکرم نے دوبارہ حضرت علی کو ہدیہ کیا حضرت علی نے جوں ہی پیغمبر اکرم کے دست مبارک سے اٹھا یا وہ گر کر دو ٹکڑے ہو گیا جس سے ایک نور آسمان کی طرف طلوع ہوا میں نے اس سیب کے ٹکڑوں پر لکھا ہوا دیکھا یہ سیب خدا کی طرف سے پنچتن پاک کے لئے تحفہ تھا یہی پیغمبر اکر م کے اہل بیت ہیں انہیں کے پیروکاروں کو روز قیامت جہنم کی آگ سے نجات ملے گی(۱)

(۱۱)سلمان فارسی نے کہا پیغمبر کی وفات کے بعد میں زہرا کی احوال پر سی کے لئے گیا تھا تو زہرا نے فرمایا اے سلمان فارسی تھوڑی دیر تشریف رکھیں سلمان نے کہا میں حضرت زہرا کے قریب تھوڑی دیر تک بیٹھا تو آپ نے فرمایا اے سلمان پیغمبر کی وفات کے بعد اس گھر میں فرشتوں کی رفت وآمد کا سلسلہ منقطع ہو نے پر میں پریشان رہتی ہوں اور میں ہمیشہ اسی فکر میں مشغول رہتی ہو ں لیکن کل اس گھر میں جنت کی حوروں میں سے چارحوریں داخل ہوئیں جب کہ گھر کا دروازہ بند

____________________

(۱) مقتل الحسین خوارزمی ص۹۵.

۱۲۶

تھا اور کہنے لگی اے دختر رسول ہم جنت کے دارالسلام کی حوروں میں سے ہیں اللہ نے ہمیں آپکی طرف بھیجا ہے ہم شدت سے آپکے مشتاق ہیں حضرت زہرا نے فرمایا اے سلمان فارسی جب میں نے ان حوروں میں سے جو زیادہ جوان خوبصورت تھیں ان سے پوچھا آپکا نام کیا ہے ؟ اس نے کہا میرا نام مقدورہ ہے خدا نے مجھے مقداد ابن اسود کے لئے خلق کیا ہے پھر دوسرے سے پو چھاآپ کا نام کیا ہے ؟

اس نے کہا میرا نام ذرہ ہے اللہ نے مجھے جنت میں ابوذر کی خدمت کے لئے خلق کیا ہے پھر تیسرے سے پو چھا آپ کا نام کیا ہے ؟ اس نے کہا میرا نام سلمی ہے خدا نے مجھے سلمان کی خاطر خلق کیا ہے، جناب سیدہ کے ساتھ سلمان کی گفتگو چل رہی تھی اتنے میں وہ حوریں جنت کے خرموں سے بھرا ہوا ایک طبق لے کر حضرت زہرا کی خدمت میں آئیں ایسے خرمے تھے جو برف سے زیادہ سفید مشک وعنبر سے زیادہ خوشبو دار تھے حضرت زہرا نے سلمان سے کہا یہ آپ کا حصہ ہے اس سے افطار کر کے اس کی گٹھلی مجھے واپس کر یں جناب سلمان کہتے ہیں میں نے حضرت زہرا سے خرماء لے کر اس سے افطار کیا لیکن اس میں گھٹلی نہیں تھی سلمان جناب سیدہ کی خدمت میں آئے اور عرض کی یا حضرت زہرا اس خرما میں گٹھلی نہیں تھی۔

۱۲۷

آپ نے فرمایا اے سلمان یہ جنت کے ایک مخصوص باغ کا خرما ہے جو پیغمبر نے میرے لئے بو یا تھا لہٰذا اس کی خوشبورنگ اور کیفیت باقی خرموں سے الگ ہے(۱)

(۱۲)روی ان ام ایمن لما توفیت فاطمة حلفت ان لا تکون بالمدینة اذ لاینطق ان تنظر الی مواضع کانت بها فخرجت الی مکة فلما کانت فی بعض الطریق عطشت عطشا شدیدا فرفعت یدیها قالت یا رب انا خادمة فاطمة تقتلنی عطشا فانزل اﷲ علیها دلواً من السماء فشربت فلم تحتج الی الطعام والشراب سبع سنین وکان الناس یعیشونها فی الیوم الشدید الحر فما یصبها عطش (۲)

روایت کی گئی ہے جب حضرت زہرا کی شہادت ہوئی تو جناب ام ایمن نے پھرمدینہ منورمیں نہ رہنے کی قسم کھا ئی چو نکہ جناب ام ایمن کو ان جگہوں کا نظر آنا قابل براشت نہ تھا جس میںحضرت زہرا کے ساتھ رہتی تھیں لہٰذا مکہ کی طرف روانہ ہو ئیں لیکن راستے میں پیاس کی شدت کی وجہ سے چل نہ سکی اتنے میں دونوں ہاتھوں کو بلند کر کے خدا سے التجاء کی اے پالنے والے میں زہرا کی خادمہ ہوں کیا مجھے پیاس کے ذریعے ہلاک کر نا چا ہتے ہیں ؟ اتنے میں آسمان سے آفتابہ نازل ہوا ام ایمن نے اس پانی سے پیاس کی حرارت کو بجھایا پھر سات سال تک بھوک

____________________

(۱)اعجاز معصومین ص۳۹۳. (۲)بحارالانوار جلد ۴۳ ص۲۸.

۱۲۸

اور پیاس کا احساس نہیں ہوا جب کہ اس وقت لوگ بھوک اور پیاس کی وجہ سے مررہے تھے لیکن جناب ام ایمن پر کبھی پیاس لاحق نہیں ہو ئی۔

اگر ہم بھی دل سے حضرت زہرا کے خادم یا خادمہ بنیں تو یقینا خدا ہماری پیاس اور بھوک کی شدت بھی حضرت زہرا کی برکت سے بجھا دے گا کیونکہ آپ کے کرامات اور معجزات سے خود پیغمبر اکرم جو تمام مخلوقات سے افضل ہونے کے باوجود مستفیظ ہو تے ہو ئے نظر آتے ہیں۔

(۱۳) نیز آپ کے کرامات میں سے ایک یہ ہے جو آج سے کئی سالوں پہلے کرمان میں ایک عالم باعمل متعہد باتقوی آیت اللہ کرمانی کے نام سے معروف تھے آپ نے ۱۳۲۸ھ شمسی میں وفات پائی جب آپ نے اس وقت کے طاغوت اور استعماری حالات کو دیکھا تو احساس ذمہ داری کی کہ کرمان کے معاشرے کو دوبارہ قرآن وسنت اور اہل بیت علیہم السلام کے نورانی کلام سے آبیاری کروں لہٰذا اس دور میں ایک تو انا خطیب سید یحییٰ واعظ یزدی کے نام سے مشہور تھا اس کو کرمان آنے کی دعوت دی تاکہ دونوں مل کر معا شرے کی دوبارہ آبیاری کر سکیں واعظ یزدی مر حوم آیت اللہ کرمانی کی د عوت کو قبول کر کے کرمان پہنچے۔

۱۲۹

سیدیحییٰ واعظ یزدی نے آیت اللہ کے حکم سے تبلیغ شروع کی تو استعمار کے ایجنڈوں کو پتہ چلا انہوں نے سید یحیی واعظ یزدی کو قتل کر نے کی سازش کی اور آپس میں کہنے لگے اگر اس واعظ یزدی پر کنڑول نہیں کیا تو معاشرہ ہمارے ہاتھ سے نکل جائے گا۔

لہٰذا استعمار کے ایجنڈوںمیں سے ایک سید یحییٰ کے پاس آکر کہا ہم فلان شخص کے گھر میں جمع ہو جاتے ہیں آپ خطاب کیلئے تشریف لائیں سید یحییٰ نے قبول کیا استعمار کا ایک گروپ احترام کے ساتھ سید یحییٰ کو خطیب زمان کی حیثیت سے استعمار کی مخفی گا ہ کی طرف لے جا نے لگا سید یحییٰ مرحوم کو راستے میں معلوم ہوا یہ لوگ مجھے شہر سے باہر کہیں لے جارہے ہیں آہستہ آہستہ یقین ہوا کہ یہ لوگ مجھے قتل کریں گے لیکن جب آپ مخفی گا ہ میں پہنچے تو استعماری ایجنڈوں نے کہا تم خطابت کی اجرت لینے کو تیار ہو جائو اس وقت آپ نے اپنی جدہ بزرگوار سے متوسل ہو کر کہا:

'' یا مولا تی یا فاطمة اغیثنی''

یہ جملہ تکرار کر تے رہے قاتل نے تلوار لے کر کہا کہ تم کو اسی تلوار سے ٹکڑے ٹکڑے کروں گا اسی کشمکش کی حالت میں تھے کہ اتنے میں پورے مخفی گاہ کے ارد گرد سے اللہ اکبر کی آواز بلند ہوئی لوگ مخفی گاہ کے تمام اطراف سے اندر آنے لگے اور قاتلوں کے ہاتھ سے سیدیحییٰ واعظ یزدی کو نجات ملی لوگوں نے ان کو احترام کے ساتھ آیت اللہ محمد رضا کرمانی کے پاس پہنچا دیا سید یحییٰ واعظ یزدی نے آیت اللہ کرما نی سے پوچھا آپ کو کیسے معلوم ہوا کہ مجھ پر ایسی حالت پیش آئی ہے

۱۳۰

آیت اللہ کرمانی نے کہا اے سید یحیی جب قاتلوں نے آپ کو قتل کر نے کی تیاری کی تواس وقت مجھے حضرت زہرا خواب میں نظر آئیں اور سیدہ نے مجھ سے فرمایا اے محمد رضا فوراً میرے بیٹے سیدیحییٰ کو نجات دینے کے لئے جائو اگر تاخیر کی تو اس کو قتل کر دیا جائے گا(۱)

(۱۴)اسی طرح آپ کی کرامات میں سے ایک دلچسپ کرامت یہ ہے کسی شخص کے دو فرزند تھے ایک نیک اور اچھے رفتار کا مالک دوسرا برے کردار کا مالک تھا برے کردار میں مرتکب ہو نے والا فرزند ہمیشہ لوگوں کو اذیتیں ،طرح طرح کے ظلم وستم پہنچا تا تھا .لوگ اس کے نیک کر دار کے عادی بھا ئی سے ان کی شکایت کر تے تھے ایک دن نیک کردار کے عادی فرزند نے کسی قافلہ کے ساتھ امام رضا علیہ السلام کی زیارت کو جا نے کا عزم کیا لیکن بری رفتار کا عادی بھائی بھی ان کے ساتھ زائرین کے قافلہ میں شریک ہو کر مشہد کی طرف جا نے لگا راستے میں زواروں پر ہر قسم کی اذیت ،ظلم وستم پہنچا یا لیکن اچا نک مشہد پہنچنے سے پہلے وہ مریض ہو کر دنیا سے چل پڑا زائرین نے اس کی مو ت پر اظہار خوشی کے ساتھ خدا کا شکر ادا کیا اور کہا پالنے والے تو نے ہی ہمیں اس ظالم سے نجات دی لیکن اس کے بھا ئی کی غیرت اور رشتہ داری کے رابطہ نے اس کو راستے میں دفن کرنے کی اجازت نہیں دی،لہٰذا اس کو تجہیز وتکفین کر کے تابوت میں رکھ کر مشہد امام رضا علیہ السلام پر پہنچا دیا ضریح

____________________

(۱)داستاندوستان جلد۲ ص۱۹۳

۱۳۱

مقدس کا طواف کرانے کے بعد اس کو دفن کیا لیکن جب رات ہو ئی تواس کے بھا ئی کو وہ عالم خواب میں نظر آیا کہ وہ جنت کے سر سبز بہت ہی مجلل باغ میں استبرق کے لباس سے مزین ہو کر خوشی کے ساتھ رہ رہا ہے بھا ئی نے عالم خواب میں اس سے پوچھا تم تو دنیا میں برے اعما ل کے عادی تھا ایسا مقام تمہیں کیسے ملا ہے اس نے کہا اے میرے بھائی جب میرا احتضار کا وقت شروع ہوا تو مجھے بہت اذیت ہو ئی غسل کا پانی جب میرے بدن پر ڈالاگیا تو آگ سے زیادہ گرمی کا احساس ہو ا جب کفن پہنا یا گیا تو کفن کے ٹکڑوں کو میرے بدن پر آگ کے ٹکڑوں کی مانند گرمی کا احساس ہوا اور دو فرشتے مسلسل جنازہ کے ساتھ مجھے عذاب اور آتش جہنم کے ذریعے اذیت دیتے رہے۔

لیکن جب میر ا جنازہ امام ہشتم کے روضہ کے قریب صحن میں پہنچا تو وہ دو فرشتے جو مجھے عذاب دینے کے لئے معین تھے مجھ سے جدا ہو ئے اور جب میرے جنازہ کو حرم امام رضاعلیہ السلام میں داخل کیا گیا تو امام رضاعلیہ السلام زوّاروں کے استقبال کے لئے ایک بلند جگہ پر تشریف فرما تھے میں نے حضرت سے گنا ہوں کو معاف کر نے کی درخواست کی لیکن امام نے نہیں ما نی جب جنازہ امام رضا علیہ السلام کے بالائے سر پر پہنچا تو مجھے ایک نورانی عمر رسیدہ ہستی نظر آئی اس نے مجھ سے فرمایا اے گنا ہگار امام رضا سے شفاعت ما نگووگر نہ حرم سے نکلنے کے بعد وہی عذاب دو بارہ کیا جا ئے گا جو پہلے کیا تھا میں نے کہا اے عمر رسیدہ ہستی میں نے امام رضا سے شفاعت ما نگی تھی

۱۳۲

لیکن حضرت نے قبول نہیں فرمایا عمر رسیدہ ہستی نے کہا تو امام کے پاس جائو اور جناب سیدہ فاطمہ سے متوسل ہو کر امام سے شفاعت کی در خواست کرو جب میں حضر ت زہرا کے متوسل ہوکر امام سے شفاعت مانگی تو آپ نے میری شفاعت فرمائی اور میرے جنازہ کے ساتھ عذاب دینے والے جو دو فرشتے آئے تھے وہ امام کی شفاعت کے بعد چلے گئے ان کے بدلے میں اور دو فرشتے رحمت بن کر میری نگہبانی کو آئے ہیں انہوں نے یہ مقام مجھے دیا ہے(۱)

(۱۵)لہٰذا اگر ہم بحارالانوار جیسی مفصل کتاب کا بغور مطالعہ کریں تو واضح ہو جا تاہے کہ حضرت زہرا کی فضیلت ،مقام ومنزلت خدا کی نظر میں کتنا زیادہ ہے جس کے تو سل اور کراما ت کی طرف حتی امام معصوم علیہ السلام بھی محتاج ہیں چنانچہ امام محمد باقر علیہ السلام کے بارے میں ایک روایت ہے آپ کبھی کبھاربخار جیسے مرض کا شکار ہو تے تھے جس کے نتیجہ میں آپ کی توانائی کھوجاتی تھی اس وقت آپ بخار کی تکلیف کو برطرف کرنے اور اس بیماری سے نجات کی خاطر یازہرا بنت رسول اللہ کی آواز بلند کر تے تھے جس سے آپ کو شفا ملتا تھا(۲)

نیز امام جواد علیہ السلام کے بارے میں روایت کی گئی ہے کہ امام جواد ہر روز ظہر کے قریب مسجد نبوی میں تشریف لے جا تے تھے پھر پیغمبر اکرم پر درود

____________________

(۱) سیمائے فاطمہ زہرا ص۳۹ (۲) سفینة البحارجلد ۲ ص۷۴.

۱۳۳

وسلام بھیجنے کے بعد خا نہ حضرت زہرا سلام اللہ علیہا میں داخل ہو جا تے تھے اور بہت ہی گریہ وزاری کے ساتھ دعا کرتے تھے(۱)

یہ چیزیں حقیقت میں ہمارے لیئے دلیل ہیں حضرت زہرا جس جگہ زندگی گزاری ہے اس جگہ جا کر مشکلات کے حل کو چاہنا ان سے متوسل ہو کر خدا سے دعا کر نا ایک مر غوب عمل ہے ۔

(۱۶)مرحوم آیت اللہ سید محمد ہادی میلانی کے زمانے میں جرمن سے ایک خاتون ایک مرد جو آپس میں میاں ،بیوی تھی ایک نوجوان بیٹی لے کر آپ کی خدمت میں حاضر ہوئے آیت اللہ میلانی سے کہنے لگے ہمیں قوانین اسلام سے باخبر کریں ہم مسلمان ہو جائیں گے آیت اللہ نے اس کا راز پوچھا تو انہوں نے کہا ہماری یہ بیٹی ایک حادثہ میں گر گئی تھی اس کے پہلو اور کچھ اعضاء کی ہڈیاں ٹوٹ گئیں تھی جس کے علاج کے لئے دنیا کے ما ہر ترین ڈاکٹروں سے ہم نے مراجعہ کیا کا فی خرچہ کر نے کے علاوہ وافر مقدار میں ان کوٹھیک کر نے پر سونے اور چاندی کا انعام بھی رکھا تھا لیکن تمام ڈاکڑوں نے بالا تفاق کہا بچی کی بیماری ٹھیک نہیں ہو سکتی ہم لوگ مایوسی کے عالم میں بچی کو لے کر ہمیشہ مغموم رہتے تھے لیکن ہمارے گھر کی خادمہ ایرانی تھی ہم اس کو بی بی سے یاد کر تے تھے ایک دن ہماری بیٹی نے پوری

____________________

(۱)ریاحین شریعہ جلد ۱ ص۵۸.

۱۳۴

داستان بی بی کو سنائی اور کہا ہم پوری دولت دینے پر راضی تھے لیکن میری صحت اور تندرستی واپس نہیں آسکی کا ش کو ئی تندرستی کو واپس لانے والا ہو تا بی بی نے بیٹی سے کہا اگر تو راضی ہے تو مجھے ایک طبیب کا پتہ ہے شاید وہ تمہاری بیماری کو ٹھیک کر سکے کیا تم ان سے علاج کر نے پر راضی ہو بچی نے کہا ہم ساری دولت تجھے دیں گے اگر ٹھیک کیا بی بی نے کہا اے بیٹی میں علوی سادات سے تعلق رکھتی ہوں میری جدہ حضرت زہرا کا پہلو بھی دشمنوں نے ظلم وستم کر کے شہید کر دیا تھا تو دل سے حضرت زہرا سے متوسل ہو کر یہ جملہ کہو یا اللہ مجھے حضرت زہرا کے صدقہ میں شفادے بیٹی نے بی بی کی بات پر عمل کر کے دل شکستہ ہو کر یہ جملہ شروع کیا خود بی بی نے بھی حضرت زہرا سے درخواست کی یا حضرت زہرا ہماری ابرو کا مسئلہ ہے اگر آپ اس مریض کی بیماری کو شفانہ دیں اتنے میں وہ لڑکی ٹھیک ہو نے لگی اور کہا:

'' بابا مجھے حضرت زہرا نے شفادی ہے ما ما مجھے حضرت زہرا نے ٹھیک کر دیا ہے ''

یہ حالت جب دیکھی تو ہمیں یقین آیا کہ اسلام دین حق ہے ہم بیٹی کو لے کر آپ کی خدمت میں قوانین اسلام سے با خبر ہو نے کو آئے ہیں یہ سن کر حضرت آیت اللہ میلانی کو تعجب کے ساتھ خوشی ہو ئی اور ان کو اصول وفروع کے احکام سے نوازا وہ خاندان مسلمان ہو گئے(۱)

____________________

(۱)کتاب فضائل الزہرا ص ۱۰۹

۱۳۵

(۱۷)نیز ہندوستان کی ایک جگہ کا نام عباس آباد ہے جس میں ایام محرم میں معمول تھا کہ شبیہ حضرت عباس بنائے کہ ایک دن لوگوں میں سے جو شخص رشید،تنومند اور طاقتوار ہو اس کو حضرت عباس بنایا تھا جس کا باپ اہل بیت کا دشمن تھا وہ جوان مراسم انجام دینے کی وجہ سے گھر میں دیر سے پہنچا باپ نے اس سے پوچھا تم کہاں تھے کیوں دیر سے آئے ہو ؟ بیٹے نے کہا لوگوں نے مجھے شبیہ حضرت عباس بنایا اور مراسم عاشورا انجام دے رہے تھے اس وجہ سے تاخیر ہوئی یہ سن کر باپ غصہ کی حالت میں کہنے لگے کیا تم حضرت عباس سے محبت رکھتے ہو ؟

بیٹے نے کہا جی ہاں میری جان ان پر فدا ہو باپ نے کہا اگر تم ان سے محبت رکھتے ہو تو جس طرح کربلا میں حضرت عباس کے ہاتھوں کو بدن سے جدا کیا گیا ہے اسی طرح میں بھی تمہا رے ہاتھوں کو بدن سے جدا کروں گا یہ کہہ کر بیٹے کے ہاتھوں کو اس شقی نے الگ کر دیا یہ حالت ان کی والدہ نے دیکھی تو شوہر سے کہنے لگی اے شقی القلب کیا تو حضرت زہرا سے شرمندہ نہیں ہو تا ؟ جب بیوی نے حضرت زہرا کا نام لیا تو اس نے بیوی کی زبان کو کا ٹ دیا بیوی اور بیٹے دونوں کو گھر سے نکال دیا اور کہا جائو حضرت عباس سے ہماری شکایت کرو ما ں ،بیٹا دونوں نے عباس آباد کی مسجد میں رات گزاری۔

۱۳۶

وہ خاتون نقل کر تی ہے جب رات کی تاریکی میں میں اور میرا فرزند بیہوشی کی حالت میں تھے رات کاکچھ حصے گزرنے کے بعد ایک حسین خاتون میرے پاس آئیں اور میری زبان کو ٹھیک کر نے لگیں یہ حالت جب میں نے دیکھی تو میں نے ان سے درخواست کی میرے جوان فرزند کے ہاتھوں کو بھی ٹھیک فرمائیں آپ نے فرمایا ان کے ہاتھوں کو بھی ٹھیک کریں گے میں نے پوچھا آپ کون ہیں فرمایا میں امام حسین کی والدہ گرامی فاطمہ زہرا ہوں یہ کہہ کر میری نظروں سے غائب ہو گئیں میں اپنے فرزند کے پاس آئی تو دیکھا ان کے دونوں ہاتھ بالکل ٹھیک ہو چکے ہیں میں نے پو چھا تمہارے دونوں ہاتھ کیسے ٹھیک ہوئے ؟ اس نے کہا میں بیہوشی کی حالت میں سویا ہوا تھا اتنے میں ایک جوان میرے پاس آیا اور میرے ہاتھوں کو ٹھیک کیا میں نے پوچھا آپ کو ن ہیں ؟فرمایا میں عباس ہوں یہ کہہ کر وہ میری نظروں سے غائب ہو گئے(۱)

(۱۸)نیز زہرا سلام اللہ علیہا کے معجزات میں سے ایک یہ ہے جو کچھ عرصہ پہلے حوزہ علمیہ قم کے کسی عالم دین کے لیے رونما ہوا تھا جب اس کو کوئی مشکل پیش آنے کی وجہ سے اساتذہ اور بڑے بڑے اثررسوخ والوں سے متوسل ہوئے لیکن بر طرف نہیں ہوئی عالم دین نے مشکل کی برطرفی کی خاطر حضرت امام رضا علیہ السلام کی زیارت کو جا نے کا عزم کیا راستے میں جناب علامہ طبا طبائی سے ہم سفر ہوئے عالم دین نے علامہ سے کہا اے استاد بزرگوار مجھے کو ئی ایسی دعا تعلیم فرمائیں

____________________

(۱)کتاب کنارعلقمہ ص۶۲

۱۳۷

تا کہ میں امام رضا کے روضے پر اس دعا کے ذریعے اپنے راز ونیاز اورحوائج بیان کر سکوں علامہ نے فرمایا جب امام کے روضے پر پہنچیں تو امام سے حضرت زہرا سے متوسل ہو کر دعا کریں انشاء اللہ آپ کی حاجت روا ہو گی کیونکہ امام رضا علیہ السلام حضرت زہراسلام اللہ علیہا سے اتنی محبت اور دوستی کے خواہاں ہیں کہ جو بھی گنہگار امام رضاسے کسی مشکل کا حل حضرت زہرا کے تو سل سے چا ہتا ہے تو وہ ضرور امام قبول فرماتے ہیں عالم دین نے حضرت علامہ طباطبائی کی نصیحت پر عمل کر تے ہوئے اللہ تبارک وتعالی سے امام رضا کے روضے پر حضرت زہرا سے متوسل ہو کر دعا کی خدانے ان کی دعا کو قبول فرمایا(۱)

(۱۹)جناب شیخ عبدالنبی حوزہ علمیہ قم کے فضلاء میں سے ایک ہیں وہ فرماتے تھے کہ میں کچھ سال پہلے سردرد کی بیماری میں مبتلا ہو ا ایران کے ماہرین ڈاکٹروں میں سے ما ہر تر ڈاکڑ سے علاج کرایا ہر قسم کے ٹیکے اور دوائیوں سے استفادہ کیا لیکن کو ئی اثر ظاہر نہیں ہوا بہت ہی مایوسی کی حالت میں ایک دن حضرت آیت اللہ بہجت دام عزہ کی نماز جماعت میں شرکت کی بیماری کی وجہ سے میری حالت ابتر تھی ساتھ والے ہم صف کو میری حالت کا پتہ چلا تو پوچھا اے آقا آپ کی حالت خراب نظر آتی ہے کیا آپ مریض تو نہیں ہے ؟ میں نے کہا کئی سالوں سے

____________________

(۱)کتاب چشمہ در بشر ص۳۵۵.

۱۳۸

سردرد کی بیماری میں مبتلا ہوں ڈاکڑوں سے علاج کر ایا لیکن ٹھیک نہیں ہو سکا اس نے مجھ سے کہا حضرت زہرا سے متوسل ہو کر دعا کیجئے انشاء اللہ تندرست ہو جا ئیں گے ان کی نصیحت نے مجھے بہت متاثر کیا میں نے حضرت زہرا سے متوسل ہو کر دعا کی تو اللہ تبارک وتعالی نے میری دعا کو مستجاب فرمایا لہٰذا میں نے دوستوں کو جمع کر کے حضرت زہرا کے نام سے گھر میں ہر ہفتہ مجلس کرنے کا عزم کیا ہے اور ہر ہفتے میں ایک دفعہ غریب خانہ میں حضرت زہرا سلام اللہ علیہا کے نام پر مجلس ہو تی ہے(۱)

پس حضرت زہرا کی اتنی عظمت اور شرافت ہو نے کے باوجودحضرت زہرا سے انکار کر نا ہماری بد بختی ہے اور حضرت زہرا کی کرامات اور معجزات انہی مذکورہ معجزات وکرامات میں منحصر نہیں ہیں بلکہ معجزات حضرت زہرا کے موضوع پر کئی کتابیں لکھی گئی ہے رجوع کیجئے ۔

____________________

(۱) داستانہای شگفتہ ص ۳۲

۱۳۹

چھٹی فصل:

شہادت حضرت زہرا (سلام اللہ علیہا )

الف۔ تاریخ شہادت

حضرت زہرا سلام اللہ علیہا کی تاریخ شہادت کے بارے میں کئی نظر ئے پائے جا تے ہیں:

۱۔ کچھ سنی اور شیعہ علما کا نظر یہ یہ ہے کہ آپ کی شہادت گیارہ ہجری تیرہ(۱۳) جمادی الاول کو ہوئی جن کو ہمارے علما ء میں سے مر حوم کلینی صاحب الامامةوالسیاسة جناب طبری شیعی صاحب کشف الغمہ وغیرہ نے فرمایا ہیں۔(۱)

اس نظر یے کی بناء پر حضرت زہرا نے پیغمبر اکرم کے بعد صرف پچہتر دن زندگی گذاری کیونکہ پیغمبر اکرم کی وفات ۲۸ صفر گیارہ ہجری کو ہو ئی تھی ۔

____________________

(۱) کافی ج۱ ص۴۵۸ الامامة و السیاسة ج۱ ص۲۰ دلائل الامامة کشف الغمہ.

۱۴۰