110 سوال اور جواب

110 سوال اور جواب8%

110 سوال اور جواب مؤلف:
: اقبال حیدرحیدری
زمرہ جات: مناظرے

۱۱۰ سوال اور جواب
  • ابتداء
  • پچھلا
  • 126 /
  • اگلا
  • آخر
  •  
  • ڈاؤنلوڈ HTML
  • ڈاؤنلوڈ Word
  • ڈاؤنلوڈ PDF
  • مشاہدے: 141963 / ڈاؤنلوڈ: 6648
سائز سائز سائز
110 سوال اور جواب

۱۱۰ سوال اور جواب

مؤلف:
اردو

نوٹ:

اسلامی ثقافتی ادارہ"امامین الحسنین(ع)نیٹ ورک" نےاس کتاب کو برقی شکل میں، قارئین کرام کےلئےشائع کیا ہے۔
نیز ادارہ کی گِروہ علمی کی زیرنگرانی حُرُوفِ چِینی، فنی تنظیم وتصحیح اورممکنہ غلطیوں کو درست کرنے کی حدالامکان کوشش کی گئی ہے۔

مفت PDF ڈاؤنلوڈ لنک
https://alhassanain.org/urdu/?com=book&id=۱۷۱&view=download&format=pdf

word
https://alhassanain.org/urdu/?com=book&id=۱۷۱&view=download&format=doc

نیز اپنے مفید مشورے، پیشنہادات، اعتراضات اورہرقسم کےسوالات کوادارہ کےایمیل(ihcf.preach@gmail.com)پرسینڈ کرسکتے ہیں

یہ کتاب برقی شکل میں نشرہوئی ہے اور شبکہ الامامین الحسنین (علیہما السلام) کے گروہ علمی کی نگرانی میں تنظیم ہوئی ہے

۱۱۰/ سوال وجواب

تالیف آیت اللہ مکارم شیرازی

ترجمہ : اقبال حیدر حیدری

تقریظ

حضرت آیت اللہ العظمیٰ مکارم شیرازی دام ظلہ

بِسْمِ اللّٰهِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ الحمد لله رب العالمین و به نستعین و صلی الله علٰی محمد و آله الطیبین الطاهرین

سوال ہمیشہ سے انسانی علم و دانش کے خزانہ کی کنجی رہا ہے۔

لہٰذا وہ افراد اور قوم و ملت جو کم سوال کرتے ہیں انھوں نے اس عظیم خزانہ سے کم فائدہ حاصل کیا ہے، اور بنیادی طور پر سوال کرنا اور اس کا جواب سننا ہر انسان کا حق ہے اور اسے کوئی بھی اس عقلی و منطقی حق سے محروم نہیں کرسکتا،چنانچہ قرآن مجید نے بارہا اس بات کی تاکید کی ہے کہ جس چیز کے بارے میں تم نہیں جانتے ، اسے صاحبان علم و دانش سے دریافت کرو:( فَاسْاٴَلُوا اٴَهْلَ الذِّکْرِ إِنْ کُنْتُمْ لاَتَعْلَمُونَ ) (۱) نحل، ۴۳

اس قرآنی حکم کی وسعت اس بات کی نشاندہی کرتی ہے کہ اسلام ؛ سوال کے لئے کوئی حد معین کرنے کو قبول نہیں کرتا اور مسلمان بلکہ غیر مسلم (کیونکہ آیت غیر مسلم لوگوں سے مخاطب ہے اگرچہ اس کا مفہوم عام ہے) کو اس بات کی اجازت دیتا ہے کہ مختلف مسائل میں چاہے وہ اعتقادی مسائل ہوں یا اجتماعی، اخلاقی ،سیاسی یا کسی بھی چیز کے بارے میں سوال کرسکتے ہیں۔

یہ بات واضح ہے کہ لوگوں کے عقائد و افکار کو خراب کرنے یا عام لوگوں کے افکار میں تشویش اور تزلزل ایجاد کرنے یا ہٹ دھرمی اور جنگ و جدال کے لئے انحرافی سوال اس قاعدہ سے مستثنیٰ ہیں، کیونکہ در حقیقت یہ سوال نہیں ہے بلکہ سوال کے روپ میں فساد پھیلانا ہے۔

بہر حال چونکہ قرآن مجید خدا شناسی اور انسانی مسائل کا ایک عظیم الشان دائرة المعارف (انسائیکلو پیڈیا) ہے ،اس لئے جگہ جگہ پر مختلف آیات کے ذیل میں بہت سے سوالات پیدا ہوتے ہیں لیکن چونکہ عام طور پر سابقہ نہیں پڑتا تھا لہٰذا بعض مفسرین نے ان کا جواب پیش نہیں کیا۔

جس وقت ہم نے (چند دیگر فاضل علماکی مدد سے) تفسیر نمونہ لکھنا شروع کی تو ہماری کوشش تھی ان تمام سوالات (خصوصاً عصر حا ضر کی ترقی یافتہ دنیا میں پیدا ہونے والے سوالات) کو بیان کریں اور دقیق طریقہ سے جواب دیا جائے ۔

اور چونکہ ان سوالات کا جاننا سب کے لئے ضروری ہے خصوصاً آج کل کے پڑھے لکھے نوجوانوں کے لئے نہایت ہی مفید ہے، لہٰذا نظر حجة الاسلام جناب آقای حسینی صاحب نے چند افاضلِ قم کی مدد سے جن کے نام مقدمہ میں بیا ن ہوئے ہیں اس طرح کے سوالات اور ان کے جوابات کو تفسیر نمونہ کی ۲۷/ جلدوں اور تفسیر پیام قرآن کی ۱۰/ جلدوں سے جمع کرکے ترتیب دیا جس کے نتیجہ میں ۱۱۰ / اہم سوال آپ حضرات کی خدمت میں حاضر ہیں، واقعاً سوالات کو مختلف ابواب کی صورت میں تر تیب دینا ان کے ذوق اور سلیقہ کی دلیل ہے، (خدا ان کو جزائے خیر دے) ، امید ہے کہ سوالات کا یہ مجموعہ سب کے لئے بالخصوص ہمارے جوانوں میں اسلامی اور قرآنی مسائل کو سمجھنے کے لئے مفید واقع ہو اور آخرت کے لئے بہترین ذخیرہ قرار پائے۔

ناصر مکارم شیرازی

حوزہ علمیہ، قم المقدسہ

بِسْمِ اللّٰهِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ

پیش گفتار

اگرچہ شیعہ علمائے کرام ابھی تک قرآن مجید کی متعدد تفاسیر لکھ چکے ہیں، جن سے عوام الناس، طلاب حوزات علمیہ اور علمائے کرام فیضیاب ہوتے رہے ہیں، لیکن ان میں ”تفسیر نمونہ“ خاص امتیاز کی حامل ہے وہ بھی فارسی زبان میں جس کی ضرورت محسوس کی جارہی تھی، خصوصاً دور حاضر میں جبکہ قرآن فہمی کا جذبہ ہر طبقہ میں پیدا ہورہا ہے۔

حضرت آیت اللہ العظمیٰ مکارم شیرازی نے چند علماکے ساتھ مل کر اس ضرورت کو پورا کیا اور اس تفسیر کے ذریعہ قرآن مجید کی شایان شان خدمت انجام دی۔

اس تفسیر کے خاص امتیازات حسب ذیل ہیں جن کی وجہ سے یہ مقبول عام ہوئی ہے :

۱ ۔ یہ تفسیر اگرچہ فارسی زبان میں ہے لیکن اس کے علمی اور تحقیقاتی نکات میں کافی رعایت کی گئی ہے، تاکہ طلاب کرام ، علمائے عظام اور قرآن فہمی کا شوق رکھنے والے عوام الناس بھی اس سے فیضیاب ہوسکیں ۔

۲ ۔ تفسیر آیات میں بعض غیر ضروری مسائل میں الجھنے کے بجائے ان مسائل سے خصوصی بحث کی گئی ہے جو انسان کے لئے واقعاً زندگی ساز ہیں جن کے ذریعہ انسان کی فردی اور معاشرتی زندگی کافی متاثر ہے۔

۳ ۔آیات میں بیان شدہ عناوین کے تحت ایک مختصر و مفید عنوان سے الگ بحث کی گئی ہے جس کے مطالعہ کے بعد قارئین کرام کو دوسری کتابوں کے مطالعہ کی ضرور ت نہ ہوگی۔

۴ ۔ تفسیر میں مشکل اور پیچیدہ اصطلاحات سے پرہیز کیا گیا ہے لیکن ضرورت کے وقت حاشیہ میں ضروری وضاحت بھی کی گئی ہے، تاکہ علماء اور صاحبان نظر حضرات کے علاوہ عام قارئین کرام کے لئے بھی مفید واقع ہوسکے۔

۵ ۔ اس تفسیر کا ایک اہم امتیاز یہ ہے کہ اس میں اسلامی معارف اور اصول و فروع کے سلسلہ میں دور حاضر میں ہو نے والے مختلف سوالات اور اعتراضات کاجواب دیا گیا ہے۔

انھیں امتیازات کی بنا پر استاد معظم سے اجازت طلب کی تاکہ تفسیر کے مختلف سوالات اور جوابات کو جمع کرکے الگ ایک کتاب کی شکل دے دی جائے جو عام قارئین کرام کے لئے مفید واقع ہو سکے، ہماری خوش قسمتی ہے کہ استادبزرگوار نے اجازت مرحمت فرمائی، اور ہم نے حجج اسلام احمد جعفری، سید علی رضا جعفری، سید مرتضیٰ موسوی، سید اصغر حسینی اور محمد حسین محمدی کے ہمراہ تفسیر نمونہ اور تفسیر پیام قرآن کا شروع سے آخر تک دقیق مطالعہ کیا اور اس سے سوالات کو جمع کیا، جو ۱۱۰/ سوال و جواب کی صورت میں آپ کی خدمت میں حا ضر ہے ۔

چند ضروری نکات:

۱ ۔ ایسا بھی ہوا ہے کہ ایک ہی سوال، تفسیر کی مختلف جلدوں میں بیان ہوا ہے ہم نے ان کو ایک جگہ جمع کیا اور خاص ترتیب سے ذکر کیا ہے۔

۲ ۔ اس مجموعہ میں تفسیر آیات سے متعلق سوالات کو ذکر نہیں کیا گیا ہے کیونکہ ہمارا مقصد ان سوالات کا جمع کرنا تھا جو آج کل ہمارے دینی معاشرہ میں بیان ہوتے ہیں، نہ کہ تفسیری نکات ؛ ان کے لئے تفسیر کا مکمل طور پر مطالعہ کیا جائے۔

۳ ۔ اگرچہ ظاہراً اس کتاب کے مطالب جمع کرنا آسان کام ہے لیکن اس کے مختلف مراحل طے کرنے پڑے ہیں، منجملہ تفسیری دورہ، سوالات و جوابات کی جمع آوری اور ان کو منظم و مرتب کرنا واقعاً ایک فرصت طلب کام تھا۔

۴ ۔ اس کتاب کے اکثر سوال و جواب تفسیر نمونہ سے لئے گئے ہیں اگرچہ کچھ سوالات پیام قرآن اور پیام امام سے بھی ماخوذ ہیں، (سب کا حوالہ حاشیہ پر ذکر کر دیا گیا ہے )

امید ہے کہ یہ ناچیز کوشش حضرت بقیة اللہ امام زمانہ عجل اللہ تعالیٰ فرجہ الشریف کی بارگاہ میں شرف قبولیت حاصل کرے۔

سید حسین حسینی

قم المقدسہ

۱ ۔ خدا کی معرفت کیوں ضروری ہے؟

جب یہ بات اپنی جگہ مسلم ہے کہ کوئی بھی فعل بغیر علت کے نہیں ہوتا تو پھر اس دنیا کے خالق کی معرفت اور اس کو پہچاننے کے لئے بھی کوئی نہ کوئی علت اور سبب ہونا چاہئے، چنانچہ فلاسفہ اور دانشوروں نے خدا شناسی کے لئے تین بنیادی وجہیں اور علتیں بیان کی ہیں،جن پر قرآن کریم نے واضح طور پر روشنی ڈالی ہے:

۱ ۔ عقلی علت ۔

۲ ۔ فطری علت ۔

۳ ۔ عاطفی علت ۔

۱. عقلی علت :

انسان کمال کا عاشق ہوتا ہے، اور یہ عشق تمام انسانوں میں ہمیشہ پایا جاتا ہے، انسان جس چیز میں اپنا کمال دیکھتا ہے اس کو حاصل کرنے کی کوشش کرتا ہے،البتہ یہ بات علیحدہ ہے کہ بعض لوگ خیالی اور بےہودہ چیزوں ہی کو کمال اور حقیقت تصور کربیٹھتے ہیں۔

کبھی اس چیز کو ”منافع حاصل کرنے اور نقصان سے روکنے والی طاقت“ کے نام سے یاد کیا جاتا ہے کیونکہ انسان اسی طاقت کی بنا پر اپنی ذمہ داری سمجھتا ہے کہ جس چیز میں اس کا فائدہ یا نقصان ہو اس پر خاص توجہ دے۔

انسان کی اس طاقت کو ”غریزہ“ کا نام دینا بہت مشکل ہے کیونکہ معمولاً غریزہ اس اندرونی رجحان کو کہا جاتا ہے جو انسان اور دیگر جانداروں کی زندگی میں بغیر غور و فکر کے اثر انداز ہوتا ہے اسی وجہ سے حیوانات کے یہاں بھی غریزہ پایا جاتا ہے۔

لہٰذا بہتر ہے کہ اس طاقت کو ”عالی رجحانات“کے نام سے یاد کیا جائے جیسا کہ بعض لوگوں نے اس کا تذکرہ بھی کیاہے۔

بہر حال انسان کمال دوست ہوتا ہے اور ہر مادی و معنوی نفع کو حاصل کرنا چاہتا ہے اور ہر طرح کے ضررو نقصان سے پرہیز کرتا ہے چنانچہ اگر انسان کو نفع یا نقصان کا احتمال بھی ہو تو اس چیز پر توجہ دیتا ہے اور جس قدر یہ احتمال قوی تر ہوجاتا ہے اسی اعتبار سے اس کی توجہ بھی بڑھتی جاتی ہے، لہٰذایہ ناممکن ہے کہ انسان اپنی زندگی میں کسی چیز کو اہم و موثر مانے لیکن اس سلسلہ میں تحقیق و کوشش نہ کرے۔

خدا پر ایمان اور مذہب کا مسئلہ بھی انھیں مسائل میں سے ہے کیونکہ مذہب کا تعلق انسان کی زندگی سے ہوتا ہے اور اسی سے انسان کی سعادت اور خوشبختی یا شقاوت اور بدبختی کا تعلق ہوتا ہے، اور اسی کے ذریعہ انسان سعادت مند ہوتا ہے یا بدبخت ہوجاتا ہے،اور ان دونوں میں ایک گہرا ربط پایا جاتا ہے۔

اس بات کو واضح کرنے کے لئے بعض علمامثال بیان کرتے ہیں: فرض کیجئے ہم کسی کو ایک ایسی جگہ دیکھیں جہاں سے دوراستے نکلتے ہوں ، اور وہ کہے کہ یہاں پر رکنا بہت خطرناک ہے اور (ایک راستہ کی طرف اشارہ کرکے )کہے کہ یہ راستہ بھی یقینی طور پر خطرناک ہے لیکن دوسرا راستہ ”راہ نجات“ ہے اور پھر اپنی بات کو ثابت کرنے کے لئے کچھ شواہد و قرائن بیان کرے، تو ایسے موقع پر گزرنے والا مسافر اپنی یہ ذمہ داری سمجھتا ہے کہ اس سلسلہ میں تحقیق و جستجو کرے ،ایسے موقع پر بے توجہی کرنا عقل کے برخلاف ہے۔(۱)

جیسا کہ ”دفعِ ضررِمحتمل “(احتمالی نقصان سے بچنا) ایک مشہور و معروف قاعدہ ہے جس کی بنیاد عقل ہے، قرآن کریم نے پیغمبر اکرم (ص) سے خطاب کرتے ہوئے فرمایا:

( قُلْ اٴَرَاٴَیْتُمْ إِنْ کَانَ مِنْ عِنْدِ اللهِ ثُمَّ کَفَرْتُمْ بِهِ مَنْ اٴَضَلُّ مِمَّنْ هُوَ فِی شِقَاقٍ بَعِیدٍ ) (۲)

”آپ کہہ دیجئے کہ کیا تمہیں یہ خیال ہے اگر یہ قرآن خدا کی طرف سے ہے اور تم نے اس کا انکار کردیا تو اس سے زیادہ کون گمراہ ہوگا“۔

البتہ یہ بات ان لوگوں کے سلسلہ میں ہے جن کے یہاں کوئی دلیل و منطق قبول نہیں کی جاتی ، در حقیقت وہ آخری بات جو متعصب، مغرور اور ہٹ دھرم لوگوں کے جواب میں کہی جاتی ہے، وہ یہ ہے : اگر تم لوگ قرآن، توحید اور وجود خدا کی حقانیت کو سوفی صد نہیں مانتے تو یہ بات بھی مسلم ہے کہ اس کے بر خلاف بھی تمہارے پاس کوئی دلیل نہیں ہے، لہٰذا یہ احتمال باقی رہ جاتا ہے کہ قرآنی دعوت اور قیامت واقعیت رکھتے ہوں تو اس موقع پر تم لوگ سوچ سکتے ہو کہ دین خدا سے گمراہی اور شدید مخالفت کی وجہ سے تمہاری زندگی کس قدر تاریکی اور اندھیرے میں ہوگی۔

اس بات کو ائمہ علیہم السلام نے ہٹ دھرم لوگوں کے سامنے آخری بات کے عنوان سے کی ہے،جیسا کہ اصول کافی میں ایک حدیث نقل ہوئی ہے جس میں حضرت امام صادق علیہ السلام نے اپنے زمانہ کے ملحد و منکر خدا ”ابن ابی العوجاء“ سے متعدد مرتبہ بحث و گفتگو فرمائی ہے،اور اس گفتگو کاآخری سلسلہ حج کے موسم میں ہوئی ملاقات پر تمام ہواجب امام علیہ السلام کے بعض اصحاب نے آپ سے کہا: کیا ”ابن ابی العوجاء“ مسلمان ہوگیا ہے؟!تو امام علیہ السلام نے فرمایا: اس کا دل کہیں زیادہ اندھا ہے یہ ہرگز مسلمان نہیں ہوگا، لیکن جس وقت اس کی نظر امام علیہ السلام پر پڑی تو اس نے کہا: اے میرے مولا و آقا!

امام علیہ السلام نے فرمایا: ”ماجاءَ بِکَ إلیٰ هذَا المَوضِع “ (تو یہاں کیا کررہا ہے؟)

تو اس نے عرض کی: ”عادة الجسد، و سنة البلد، و لننظر ما الناس فیه من الجنون و الحلق و رمی الحجارة! “ (کیونکہ بدن کو عادت ہوگئی ہے اور ماحول اس طرح کا بن گیا ہے ، اس کے علاوہ لوگوں کا دیوانہ پن، ان کا سرمنڈانا اور رمی ِجمرہ دیکھنے کے لئے آگیا ہوں!!)

امام علیہ السلام نے فرمایا:اٴَنْتَ بعدُ علیٰ عتوک و ضلالک یا عبدَ الکریم ! (اے عبد الکریم!تو ابھی بھی اپنے ضلالت و گمراہی پر باقی ہے )(۳)

اس نے امام علیہ السلام سے گفتگو کا آغاز کرنے کے لئے کہا تو امام علیہ السلام نے فرمایا: ”لا جدال فی الحج “(حج، جنگ و جدال کی جگہ نہیں ہے) اورامام علیہ السلام نے اس کے ہاتھ سے اپنی عبا کو کھینچتے ہوئے یہ جملہ ارشاد فرمایا: ”ان یکن الامر کما تقول ولیس کما تقول نجونا ونجوت وان یکن الامر کما نقول وهو کمانقولنجونا وهلکت “!:

”اگر حقیقت ایسے ہی ہے جیسے تو کہتا ہے کہ (خدا اورقیامت کا کوئی وجود نہیں ہے) جب کہ ہرگز ایسا نہیں ہے، تو ہم بھی اہل نجات ہیں اور تو بھی، لیکن اگر ہمارا عقیدہ ہے ،جب کہ حق بھی یہی ہے تو ہم اہل نجات ہیں اور تو ہلاک ہوجائے گا“۔

”ابن ابی العوجاء“ نے اپنے ساتھی کی طرف رخ کیا اور کہا: ”وجدت فی قلبی حزازة فردونی،فردوہ فمات“ (میں اپنے دل میں درد کا احساس کررہا ہوں، مجھے واپس لے چلو، چنانچہ جیسے ہی اس کو لے کر چلے تو تھوڑی ہی دیر بعدوہ اس دنیا سے رخصت ہوگیا۔(۴) (۵)

۲ ۔جذبہ محبت:

اشارہ:

ایک مشہور و معروف ضرب المثل ہے کہ ”انسان احسان کا غلام ہوتا ہے“ (الانسان عبید الاحسان )

یہی مطلب تھوڑے سے فرق کے ساتھ حضرت امیر المومنین علی علیہ السلام کی حدیث میں بھی نقل ہوا ہے کہ آپ نے فرمایا:

الإنسان عبد الإحسان(۶)

”انسان، احسان کا غلام ہے“۔

نیزامام علیہ السلام نے ایک دوسری حدیث میں فرمایا:

بالإحسان تملک القلوب(۷)

”احسان کے ذریعہ انسان کے قلوب کو مسخر کیا جاتا ہے “۔

نیز ایک دوسری حدیث میں حضرت علی علیہ السلام سے مروی ہے:

وافضِلْ علیٰ من شئت تکن اٴمیره(۸)

”ہر شخص کے ساتھ احسان کرو تاکہ اس کے حاکم بن جاو“

ان تمام مطالب کا سرچشمہ حدیث ِپیغمبر اکرم (ص) ہے کہ آپ نے فرمایا:

إنَّ اللهَ جَعَلَ قُلُوب عبادِهِ علیٰ حُبَّ مَنْ اٴحسَنَ إلیها ،و بغض من اٴساء إلیها(۹)

”خداوندعالم نے اپنے بندوں کے دلوں کو اس شخص کی محبت کےلئے جھکادیا ہے جو ان پر احسان کرتا ہے اور ان کے دلوں میں اس شخص کی طرف سے عداوت ڈال دی ہے جو ان سے بدسلوکی کرتا ہے“۔

مختصر یہ کہ یہ ایک حقیقت ہے کہ اگر کوئی شخص کسی کے ساتھ احسان کرے یا اس کی کوئی خدمت کرے یا اس کو کوئی تحفہ دے تو وہ شخص بھی اس سے محبت کرتا ہے، اور نعمت عطا کرنے والے اور احسان کرنے والے سے مانوس ہوجاتا ہے، اور چاہتا ہے کہ اس کو مکمل طریقہ سے پہچانے، اور اس کا شکریہ ادا کرے، اور یہ بات بھی طے ہے کہ نعمت اور احسان جتنے اہم ہوتے ہیں ”منعم“ (یعنی نعمت دینے والے) کی نسبت اس کی محبت اور اس کی پہچان بھی زیادہ ہوتی ہے۔

اسی وجہ سے علمائے علم کلام (عقائد) قدیم الایام سے مذہب کی تحقیق کے سلسلہ میں ”شکرِ منعم“ (نعمت عطا کرنے والے کا شکریہ ادا کرنے کو ) معرفت خدا کی علتوں میں سے ایک علت شمار کرتے ہیں۔

لیکن اس بات پر بھی توجہ رکھنا چاہئے کہ ”شکر منعم“کا مسئلہ عقلی حکم سے پہلے ایک عاطفی مسئلہ ہے، اس مختصر سے اشارہ کو عرب کے مشہور و معروف شاعر ”ابو الفتح بستی“ کے شعر پر ختم کرتے ہیں:

احسن إلی النَّاس تَستعبد قلوبَهُم

فطالما استعبد الإنسان إحسان

”لوگوں کے ساتھ نیکی کرو تاکہ ان کے دل پر حکومت کرسکو ، بے شک انسان احسان کا غلام ہوتا ہے“۔

حضرت امام محمد باقر علیہ السلام سے روایت ہے کہ آپ نے فرمایا: ” ایک روز رسول اکرم عائشہ کے حجرے میں تھے تو عائشہ نے سوال کیا کہ آپ اس قدر کیوں خود کو (عبادت کے لئے) زحمت میں ڈالتے ہیں؟ جبکہ خداوندعالم نے آپ کے گزشتہ اور آئندہ کے الزاموں کو معاف کردیا ہے“(۱۰)

آنحضرت (ص) نے فرمایا: ”إلاّٰ اکون عبداً شکوراً“(۱۱) (کیا مجھے اس کا شکر گزار بندہ نہیں ہونا چاہئے؟)

۳ ۔ فطری لگاؤ:

اشارہ:

جس وقت فطرت کے بارے میں گفتگو ہوتی ہے تو اس سے مراد اندرونی ادراک و احساس ہوتا ہے جس کے اوپر کسی عقلی دلیل کی کوئی ضرورت نہیں ہوتی۔

جس وقت ہم ایک دلکش منظر ، یا خوبصورت باغ اور چمن دیکھتے ہیں اور ہمارے دل میں اس خوبصورت منظر کے پیش نظر کشش محسوس ہوتی ہے تو اندر سے ہمارا احساس آواز دیتا ہے کہ اس کشش اور لگاؤ کا نام عشق یا خوبصورتی رکھ دیا جائے، جبکہ یہاں کسی بھی طرح کے استدلال کی کوئی ضرورت نہیں ہوتی۔

جی ہاں! خوبصورتی کا احساس کرنے والی یہ طاقت ،انسان کی بلند پرواز روح کے خواہشات اور رجحانات میں سے ہے، مذہب کے سلسلہ میں یہ کشش خصوصاً معرفت خدا کا مسئلہ بھی ایک اندورنی اور ذاتی احساس ہے، بلکہ انسان کے اندر سب سے بڑی طاقت کا نام ہے۔

اسی وجہ سے ہم کسی قوم و ملت کو نہیں دیکھتے (نہ آج اور نہ ماضی میں ) کہ ان کے یہاں مذہبی عقائد نہ پائے جاتے ہوں، جس سے معلوم ہوتا ہے کہ یہ عمیق احساس ہر انسان کے یہاں پایا جاتا ہے۔

قرآن مجید نے عظیم الشان انبیاء کے قیام کے واقعات کو بیان کرتے ہوئے اس نکتہ پر توجہ دی ہے کہ رسالت کی ذمہ داری شرک و بت پرستی کا خاتمہ تھا (نہ کہ خدا کے وجود کو ثابت کرنا، کیونکہ یہ موضوع تو ہر انسان کی فطرت میں پوشیدہ ہے)

یا دوسرے الفاظ میں یوں کہا جائے کہ انبیاء علیہم السلام یہ نہیں چاہتے تھے کہ ”خدا پرستی کا درخت“ لوگوں کے دلوں میں لگائیں بلکہ ان کا مقصد یہ ہوتا تھا کہ ان کے دلوں میں موجود اس درخت کی آبیاری کریں اور اس کے پاس سے بے کار گھاس اور کانٹوں کو ہٹادیں جن کی وجہ سے کبھی یہ درخت بالکل خشک ہوسکتا ہے یہاں تک کہ جڑ سے اکھڑ جاتا ہے۔

الاَّ تعبد وا إلاَّ الله “ یا ”الَّا تعبدوا إلاَّ إیاهُ “ (خدا کے علاوہ کسی کی عبادت نہیں کرو) اس جملہ میں بتوں کی پوجا سے روکا جارہا ہے نہ یہ کہ وجود خدا کو ثابت کیا جارہا ہے، اور یہ جملہ بہت سے انبیاء کی گفتگو میں بیان ہوا ، منجملہ حضرت پیغمبر اکرم (ص) کی تبلیغ میں(۱۲) جناب نوح علیہ السلام کی تبلیغ میں(۱۳) جناب یوسف علیہ السلام کی تبلیغ میں(۱۴) اور جناب ہود علیہ السلام کی تبلیغ میں بیان ہوا ہے۔(۱۵)

اس کے علاوہ ہمارے دل و جان میں دوسرے فطری احساسات بھی پائے جاتے ہیں جیسے علم و دانش ؛ جن کے بارے میں بہت زیادہ شوق و رغبت ہوتی ہے۔

کیا یہ ممکن ہے کہ اس وسیع و عریض دنیا کے عجیب و غریب نظام کو تو دیکھیں لیکن اس نظام کے پیدا کرنے والے کی معرفت و شناخت کے سلسلہ میں کوئی شوق ورغبت نہ ہو؟

کیا یہ ممکن ہے کہ ایک دانشور چیونٹیوں کی شناخت کے بارے میں بیس سال تک ریسرچ کرے اور دوسرا دسیوں سال پرندوں یا درختوں، یا دریائی مچھلیوں کے بارے میں تحقیق کرے ، لیکن اس کے دل میں علم کا شوق نہ پایا جاتا ہو؟ کیا یہ لوگ اس وسیع و عریض دنیا کے سرچشمہ کی تلاش نہیں کریں گے؟!

جی ہاں! یہ تمام چیزیں ہمیں ”معرفت خدا“کی دعوت دیتی ہیں، ہماری عقل کو اس بات کی طرف بلاتی ہیں، ہماری عاطفی طاقت کو اس طرف جذب کرتی ہیں اور ہماری فطرت کو اس راستہ کی طرف لگاتی ہیں۔(۱۶)

____________________

(۱) تفسیر پیام قرآن ،جلد ۲، ص۲۴.

(۲) سورہ فصلت آیت۵۲.

(۳) ”عبد الکریم “ کا اصلی نام ”ابن ابی العوجاء“ تھا،کیونکہ وہ منکر خدا تھا لہٰذا امام نے خاص طور سے اس کواس نام سے پکارا تاکہ وہ شرمندہ ہوجائے

(۴) کافی، جلد اول، صفحہ ۶۱، (کتاب التوحید باب حدوث العالم)

(۵) تفسیر نمونہ ج۲۰، صفحہ ۳۲۵

(۷،۶) غررالحکم

(۸) بحار الانوار ، جلد ۷۷، صفحہ ۴۲۱ ( آخوندی)

(۹) تحف العقول ص۳۷ (بخش کلمات پیامبر (ص))

(۱۰) سورہ فتح کی پہلی آیت کی طرف اشارہ ہے اور اس کی تفسیر کی وضاحت تفسیر نمونہ کی جلد ۲۲، کے صفحہ ۱۸ پر موجود ہے

(۱۱) اصول کافی ،جلد ۲،باب الشکر حدیث۶

(۱۲) سورہ ہود، آیت۲

(۱۳) سورہ ہود، آیت۲۶

(۱۴) سورہ یوسف، آیت۴۰

(۱۵) سورہ احقاف ، آیت۲۱

(۱۶) تفسیر پیام قرآن ، جلد ۲، صفحہ ۳۴

۲ ۔ خداوندعالم کو کیوں درک نہیں کیا جاسکتا؟

خداوندعالم کی ذات پاک کا نامحدود ہونا اور ہماری عقل ، علم اور دانش کا محدود ہونا ہی اس مسئلہ کا اصلی نکتہ ہے۔

خداوندعالم کا وجود ہر لحاظ سے لامتناہی ہے، اس کی ذات ،اس کے علم و قدرت اور دوسرے صفات کی طرح نامحدود اورختم نہ ہونے والا ہے، دوسری طرف ہم اور جو چیزیں ہم سے متعلق ہیں چاہے علم ہو یا قدرت، زندگی ہو یا ہمارے اختیار میں موجود دوسرے امور سب کے سب محدود ہیں۔

لہٰذا ہم اپنی تمام تر محدودیت کے ساتھ کس طرح خدا وندعالم کے لامحدود وجود اور نا محدود صفات کو درک کرسکتے ہیں؟ ہمارا محدود علم اس لامحدود وجود کی خبر کس طرح دے سکتا ہے؟۔

جی ہاں! اگر ہم دور سے کسی چیز کو دیکھیں اگرچہ وہ ہماری سمجھ میں نہ آرہی ہو لیکن پھر بھی اس کی طرف ایک مختصر سا اشارہ کیا جاسکتا ہے، لیکن خداوندعالم کی ذات اور صفات کی حقیقت تک پہنچنا ممکن ہی نہیں ہے یعنی تفصیلی طور پر اس کی ذات کا علم نہیں ہوسکتا۔

اس کے علاوہ ایک لامحدود وجود کسی بھی لحاظ سے اپنا مثل و مانند نہیں رکھتا، وہ محض اکیلا ہے کوئی دوسرا اس کی طرح نہیں ہے، کیونکہ اگر کوئی دوسرا اس کی مانند ہوتا تودونوں محدود ہوجاتے۔

اب ہم کس طرح اس وجود کے بارے میں تفصیلی علم حاصل کریں جس کا کوئی مثل و نظیر نہیں ہے، اس کے علاوہ جو کچھ بھی ہے وہ سبھی ممکنات کے دائرے میں شامل ہے، اور اس کے صفات خداوندعالم سے مکمل طورپرفرق رکھتے ہیں(۱)

ہم یہ بھی نہیں کہہ سکتے کہ اس کے اصل وجود سے آگاہ نہیں ہیں، اس کے علم، قدرت، ارادہ اور اس کی حیات سے بے خبر ہیں، بلکہ ہم ان تمام امور کے سلسلہ میں ایک اجمالی معرفت رکھتے ہیں، جن کی گہرائی اور باطن سے بے خبر ہیں، بڑے بڑے علمااور دانشوروں کے عقلی گھوڑے (بغیر کسی استثنا کے)اس مقام پر لنگڑاتے ہوئے نظر آتے ہیں، یا شاعر کے بقول:

بہ عقل نازی حکیم تاکی؟ بہ فکرت این رہ نمی شود طی!

بہ کنہ ذاتش خرد برد پی اگر رسد خس و بہ قعر دریا!(۲)

”اے حکیم و دانا و فلسفی تو اپنی عقل پر کب تک ناز کرے گا، تو عقل کے ذریعہ اس راہ کو طے نہیں کرسکتا۔

اس کی کنہِ ذات تک عقل نہیں پہنچ سکتی ہیں جس طرح خس و خاشاک سمندر کی تہ تک نہیں پہنچ سکتے۔

حضرت امام صادق علیہ السلام سے حدیث نقل ہوئی ہے:

إذا انتهیٰ الکلام إلیٰ الله فامسکوا(۳)

” جس وقت بات خدا تک پہنچ جائے تو اس وقت خاموش ہوجاؤ“

یعنی حقیقت خدا کے بارے میں گفتگو نہ کرو، کیونکہ اس کے سلسلہ میں عقلیں حیران رہ جاتی ہیں اور کسی مقام پر نہیں پہنچ سکتیں، اس کی لامحدود ذات کے بارے میں محدود عقلوں کے ذریعہ سوچنا ناممکن ہے، کیونکہ جو چیز بھی عقل و فکر کے دائرہ میں آجائے وہ محدود ہوتی ہے اور خداوندعالم کا محدود ہونا محال ہے۔(۴)

یاواضح الفاظ میں یوں کہا جائے کہ جس وقت ہم اس دنیا کی عجیب و غریب چیزوں اور ان کی ظرافت و عظمت کے بارے میں غور و فکر کرتے ہیں یا خود اپنے اوپر ایک نگاہ ڈالتے ہیں تو اجمالی طور پر یہ معلوم ہوجاتا ہے کہ ان تمام چیزوں کا کوئی پیدا کرنے والاہے، جبکہ یہ وہی علمِ اجمالی ہے جس پر انسان خدا کی معرفت اور اس کی شناخت کے آخری مرحلہ میں پہنچتا ہے، (لیکن انسان جس قدر اسرار کائنات سے آگاہ ہوتا جاتا ہے اور اس کی عظمت واضح ہوتی جاتی ہے تو اس کی وہ اجمالی معرفت قوی تر ہوتی جاتی ہے) لیکن جب ہم خود اپنے سے یہ سوال کرتے ہیں کہ وہ کون ہے؟ اور کس طرح ہے؟ اور اس کی ذاتِ پاک کی طرف ہاتھ پھیلاتے ہیں تو حیرت و پریشانی کے علاوہ کچھ حاصل نہیں ہوتا، یہی وہ بات ہے جس کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ اس کی شناخت کا راستہ مکمل طور پر کھلا ہوا ہے حالانکہ مکمل طور پر بند بھی ہے۔

اس مسئلہ کو ایک مثال کے ذریعہ واضح کیا جاسکتا ہے اور وہ یہ ہے کہ یہ بات ہم اچھی طرح جانتے ہیں کہ قوتِ جاذبہ کا وجود ہے اور اس کا ثبوت یہ ہے کہ اگر کسی چیز کو چھوڑتے ہیں تو وہ گرجاتی ہے اور زمین کی طرف آتی ہے ، اور اگر یہ قوتِ جاذبہ نہ ہوتی تو روئے زمین پر بسنے والے کسی موجود کو چین و سکون نہ ملتا،لیکن اس قوہ جاذبہ کے بارے میں علم ہونا کوئی ایسی بات نہیں جو دانشوروں سے مخصوص ہو ، بلکہ چھوٹے بچے بھی اس بات کو اچھی طرح جانتے ہیں البتہ قوتِ جاذبہ کی حقیقت کیا ہے؟ کیا دکھائی نہ دینے والی لہریںہیں ، یا نامعلوم ذرات یا دوسری کوئی طاقت؟ یہ ایک مشکل مرحلہ ہے ۔

اور تعجب کی بات یہ ہے کہ یہ قوتِ جاذبہ ،مادی دنیا میں معلوم شدہ چیز کے برخلاف، ظاہراً کسی چیز کو دوسری جگہ پہنچانے میں کسی زمانہ اور وقت کی محتاج نہیں ہے، نور کے برخلاف جو کہ مادی دنیا میں سب سے زیادہ تیز رفتار ہے ، لیکن کبھی اس نور کوایک جگہ سے دوسری جگہ پہنچنے کے لئے لاکھوں سال درکار ہوتے ہیں، جبکہ قوتِ جاذبہ اسے دنیا کے ایک گوشہ سے دوسرے گوشہ میں لمحہ بھر میں منتقل کردیتی ہے، یا کم سے کم ہم نے جو سرعت و رفتار سنی ہے اس سے کہیں زیادہ اس کی رفتار ہوتی ہے۔

یہ کونسی طاقت ہے جس کے آثار ایسے(عجیب و غریب) ہیں؟ اس کی حقیقت کیا ہے؟ کوئی شخص بھی اس کا واضح جواب نہیں دیتا، جب اس ”قوتِ جاذبہ “ (جو ایک مخلوق ہے) کے بارے میں ہمارا علم صرف اجمالی پہلو رکھتا ہے اور اس کے بارے میں تفصیلی علم نہیں ہے، تو پھر کس طرح اس ذات اقدس کی کُنہ (حقیقت) سے باخبر ہوسکتے ہیں جو اس دنیا اور ماورائے طبیعت کا خالق ہے جس کا وجود لامتناہی ہے، لیکن بہر حال ہم اس کو ہر جگہ پر حاضر و ناظر مانتے ہیں اور کسی بھی ایسی جگہ کا تصور نہیں کرتے جہاں اس کا وجود نہ ہو۔

با صد ہزار جلوہ برون آمدی کہ من با صد ہزار دیدہ تماشا کنم تو را(۵)

” تولاکھوں جلووں کے ساتھ جلوہ افروز ہے تاکہ میں لاکھوں انکھوں کے ذریعہ تیرا دیدار کروں“۔

____________________

(۱) اگر آپ حضرات تعجب نہ کریں تو ہم ”لامتناہی“ (لامحدود) مفہوم کا تصور ہی نہیں کرسکتے ،لہٰذا کس طرح لفظ ”لامتناہی“ کو استعمال کیا جاتا ہے؟ اور اس کے سلسلہ میں خبر دی جاتی ہے اور اس کے احکام کے بارے میں گفتگو ہوتی ہے ، تو کیا بغیر تصور کے تصدیق ممکن ہے؟

جواب : لفظ ”لامتناہی“ دو لفظوں سے مل کر بنا ہے ”لا“ جو کہ عدم اور نہ کے معنی میں ہے اور ”متناہی“ جو کہ محدود کے معنی میں ہے، یعنی ان دونوں کو الگ الگ تصور کیا جاسکتا ہے، (نہ ، محدود) اس کے بعد دونوں کو مرکب کردیا گیا، اور اس کے ذریعہ ایسے وجودکی طرف اشارہ کیا گیاہے جس کا تصور نہیں کیا جاسکتا، اور اس پر (صرف) علم اجمالی حاصل ہوتا ہے (غور کیجئے)

(۲) پیام قرآن ، جلد ۴، ص۳۳.

(۳) تفسیر ”علی بن ابراہیم “ نور الثقلین ، جلد ۵، صفحہ ۱۷۰ کی نقل کے مطابق.

(۴) تفسیر نمونہ ، جلد ۲۲، صفحہ ۵۵۸.

(۵) پیام امام (شرح نہج البلاغہ)، جلد اول، صفحہ ۹۱

امام جعفر صادق- اور سیاست

امام جعفر صادق- کے زمانے میں بنی امیہ اور بنی عباس اقتدار کی جنگ میں مصروف تھے اس فرصت سے فائدہ اٹھاتے ہوئے آپ- اور آپ- کے والد بزرگوار حضرت امام باقر- نے اسلام کی تعلیمات کو پھیلانا شروع کیا اور اگر یہ کہا جائے کہ آپ دونوں نے اس زمانے میں پہلی اسلامی یونیورسٹی کی بنیاد رکھی ، تو کچھ غلط نہ ہوگا۔

اس یونیورسٹی کا مقصد خالص اسلام کی ترویج تھا اس کے ساتھ ساتھ امام صادق- نے اپنے زمانے کے خلیفہ کو یہ بات بھی سمجھانے کی کوشش کی کہ حکومت اور معاشرے کی رہبری ہمارا حق ہے۔

امام جعفر صادق- نے منصور دوانیقی کے زمانے میں جب کہ بنی عباس اپنی حکومت قائم کر چکے تھے لیکن حکومت کو مضبوط کر نے کے لئے ہر مخالف کو تہہ تیغ کر رہے تھے۔ حضرت- نے اس وقت بھی اپنے اقوال کے ذریعے سے خلیفہ تک یہ بات پہنچائی کہ حکومت اور معاشرے کی قیادت ہمارا حق ہے اس کے ساتھ ساتھ امام جعفر صادق- نے ان شیعان حید ر کرار کو جو ظلم و ستم کی وجہ سے یا پھر نادانی کی وجہ سے یہ سمجھنے لگے تھے کہ حکومت کوئی الگ چیز ہے اور دین ایک دوسری چیز، ان کے لئے بھی یہ بات واضح کر دی کہ حکومت حق ولایت ہے اور ولایت فقط ہمارے لئے ہے مثال کے طور پر امام- نے ایک دفعہ فرمایا کہ:

اسلام پانچ چیزوں پر قائم ہے نماز، زکوة ، حج، روزہ، اور ولایت۔

زرارہ نے امام- سے سوال کیا ان میں سے بر تر کون سی چیز ہے؟

امام- نے بلا جھجھک فرمایا:

"ولایت بر تر ہے کیونکہ ولایت تمام چیزوں کی چابی ہے اور حاکم، لوگوں کو ان کی طرف راہنمائی کر تا ہے"

(وسائل الشیعہ جلد ۱ صفحہ ۸۰۷)

کس وضاحت کے ساتھ امام- نے ان افراد کو جو کہ یہ سوچتے ہیں کہ دین اور سیاست دو الگ چیزیں ہیں یہ ثابت کر دیا کہ دین کا اجراء اور اس کا کمال حکومت کے بغیر ممکن ہی نہیں ہے، حکومت ہی ہے جو کہ حاکم اسلامی کو یہ اختیار دیتی ہے کہ وہ دین کا اجراء کماحقہ کر ے حکومت ہے جو کہ حاکم اسلامی کو یہ قدرت عطا کرتی ہے کہ وہ دین کے خلاف ہو نے والی ہر سازش کو ختم کر دے اس لئے ہمارا نظریہ یہ ہے کہ ہر ظالم و فاسق شخص خلافت کے عہدہ پر فائز نہیں ہو سکتا بلکہ اس کا متقی اور پر ہیز گار ہو نا ضروری ہے۔

اسی زمانے میں جب کچھ علماء نے بنی عباس کی حکومت کو اپنے فائدے حاصل کر نے کے لئے صحیح ثابت کر نے کی کوشش کی اور لوگوں کو سمجھانا چاہا کہ یہ حکومت صحیح ہے تو امام جعفر صادق- نے اس کے خلاف بھی اپنا جہاد شروع کیا اور اپنے اقوال کے ذریعے سے ایسے علماء کی مذمت کی جو ظالم اور جابر حکمرانوں کے دربار میں زندہ لاشوں کے عنوان سے جاتے تھے امام جعفر صادق- نے فرمایا:

فقہاء انبیاء کے نمائندہ ہیں اور جب بھی یہ فقہاء سلاطین کے دربار کے چکر لگا نا شروع کر دیں تو ان کو متہم کر و (یعنی اس کے صحیح عالم ہونے کے بارے میں شک کرو۔)(کشف الغمہ جلد ۲ صفحہ ۱۸۲)

کبھی امام- نے اپنے درسوں میں یا اپنی تقریروں میں رسول اکرم(صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم) سے یہ حدیث نقل کر نی شروع کر دی کہ:

"فقہاء اس وقت تک انبیاء کے نمائندہ ہیں جب تک دنیا ان پر حاوی نہ ہو جائے۔ پوچھا گیا کہ یا رسول اللہ دنیا کب حاوی ہو گی تو فرمایا ظالم سلطان کی اطاعت کے وقت اور جب بھی تم ایسا دیکھو تو اپنے دین کو ان سے جداکر لو" (اصول کافی جلد ۱ صفحہ ۴۲)

ایک دفعہ امام صادق- بازار سے گزر رہے تھے تو دیکھا کہ عذافر دوکان پر کھڑے کچھ خرید رہے ہیں امام- نے آگے بڑھ کر سلام کیا اور پوچھا عذافر سنا ہے کہ ابو ایوب اور ربیع (خلیفہ کے دو وزیر) کے لئے کام کر رہے ہو یاد رکھو قیامت کے دن تمہارا حال ان دو جیسا ہو گا سوچو اس وقت تمہاری کیا حالت ہو گی جب تم کو ظالم کی مدد کر نے والے کے نام سے آواز دے کر بلایا جائے گا یہ سنتے ہی عذافر کے چہرے کا رنگ بدل گیا۔

امام- نے پھر فرمایا کہ میں اپنی طرف سے کچھ نہیں کہہ رہا فقط اسی چیز سے ڈرا رہا ہوں جس سے خدا وند نے مجھ کو ڈرایا ہے۔

یہ کہنے کے بعد امام- آگے چل دئیے عذا فراس قدر متاثر ہوئے کہ کہتے ہیں کہ آخر عمر تک غمگین و افسردہ رہے۔ (وسائل الشعیہ جلد ۱۲ صفحہ ۱۲۸)

امام نے سربازار اپنے ماننے والے کی مذمت کر نے کے لئے اور ان کو سیدھا راستہ دکھانے کے لئے یہ بات کہی یقینا امام- یہ بھی چاہتے ہوں گے کہ جو افراد اطراف میں کھڑے ہوئے ہیں وہ بھی یہ بات سن لیں کہ ظالم کی مدد کر نا ایسا ہی ہے جیسا کہ خود ظلم کر نا۔

ایک اور موقعہ پر امام صادق- نے فرمایا:

"جو کوئی یہ چاہے کہ ظالمین باقی رہیں وہ ایسے ہے کہ جیسے وہ چاہتا ہو کہ خدا کی معصیت اور نافرمانی ہو تی رہے۔

(وسائل شعیہ جلد ۲ صفحہ ۱۳۰)

ان اقوال کے ذریعے سے امام- لوگوں کو یہ بتا دینا چاہتے ہیں کہ اگر ہمارے شیعہ یا ہمارے ماننے والے ہمارا ساتھ نہیں دے سکتے کہ ہم ان ظالموں کو اقتدار سے ہٹا دیں تو ایسا نہیں ہے کہ ہم خاموش بیٹھ جائیں نہیں بلکہ ہمارا جہاد ظالموں سے جاری ہے اور وہ زبان کے ذریعے سے ہے جس کو ختم کر نے کا فقط ایک ہی طریقہ ہے کہ ہماری زبانوں کو کاٹ دیا جائے۔

امام صادق- ہی کے زمانے میں بنی عباس کی حکومت کے قیام کے بعد لوگوں میں یہ باتیں کی گئیں کہ اگر یہ حکومتیں صحیح نہیں ہیں تو کم از کم ان کے ساتھ مل کر لوگوں کی فلاح و بہبود کا کام تو کیا جا سکتا ہے ۔ بہت سے سادہ لوح افراد اس دھوکہ میں آگئے اور حکومت کا ساتھ دینا شروع کر دیا ۔ امام- نے حکومت کی اس حکمت عملی کو بھی فقط اپنے اقوال کے ذریعے سے شکست دی امام- نے ایک موقعہ پر ایک چھوٹا سا جملہ ارشاد فرمایا کہ

"حتیٰ مسجد کی تعمیر میں بھی ظالموں کی مدد نہ کرو"۔

(وسائل الشیعہ جلد ۱۲ صفحہ ۱۳۴)

حضرت امام جعفر صادق- نے معاشرے میں پھیلے ہوئے ان افراد کی بھی مذمت کی جو دولت کے لالچ میں جانتے ہوئے بھی کہ یہ حکمران غاصب اور ظالم ہیں ان کی مدح و سرا میں مشغول تھے۔

امام گرامی قدر فرماتے ہیں کہ:

"اگر کوئی ظالم حکمرانوں کی مدح کر ے اور اس کی دولت کے لالچ میں عزت کر ے تو وہ شخص اسی ظالم کا پڑوسی ہوگا آخرت میں"۔

(وسائل الشیعہ جلد ۱۲ صفحہ ۱۳۳)

لمحہ فکر یہ ہے ہم لوگوں کے لئے کہ آج ہم اگر کسی ایسے شخص کی مدح کریں کہ جس کے بارے میں ہم جانتے ہیں کہ وہ ظالم ہے لیکن کیونکہ وہ ہمارے ذاتی حقوق ہم کو دلادے گا یا پھر ہم کو کسی اچھی جگہ نوکری دلوا سکتا ہے اور ہم اس ظالم شخص کی مدح شروع کر دیں تو یاد رکھئے کہ ہماری جگہ بھی دوزخ میں ہو گی۔

جیسا کہ میں نے پہلے عرض کیا کہ آئمہ(علیہم السلام) بار بار لوگوں تک یہ پیغام پہنچا رہے تھے کہ حکومت اور ولایت ہمارا حق ہے اور ہم ہی اس منصب کے اہل ہیں۔ اسی ضمن میں امام- کی بھی سیاسی حکمت عملی کا تقاضہ یہی تھا کہ لوگوں تک یہ پیغام پہنچائیں کہ اول اسلام سے لے کر انتہا تک جتنے بھی خلیفہ آئیں گے اگر وہ ہمارے علاوہ کوئی ہو تو غاصب ہے۔ ان نظریات کا اظہار ایسا تھا جیسے شیر کے منہ سے شکار چھین لینا امام- نے حالات پر نظر رکھتے ہوئے اپنے بیانات اس طرح سے دیئے کہ افراد تک یہ بات پہنچ گئی اور وہ اس طرح سے ہوا کہ اس زمانے میں لوگ بنی امیہ یا بنی عباس کے خلفاء کو امیرا لمومنین کہہ کر پکارتے تھے ایک شیعہ نے آپ سے سوال کیا کہ کیا امام قائم (عج) کے ظہور کے بعد ان کو امیر المومنین کہہ کر سلام کر سکیں گے؟

امام- نے اس سوال کے جواب میں ایک پورا نظریہ دیااور فرمایا:

"یہ نام مخصوص ہے امیر المومنین حضرت علی ابن ابی طالب- سے ان سے پہلے نہ کسی کو اس نام سے پکارا گیا اور نہ ان کے بعد کسی کو اس نام سے پکارا جائے گا مگر کافر"۔

(اصول کافی جلد ۱ صفحہ ۴۱۳)

امام- نے کمال صراحت سے یہ بات لوگوں تک پہنچاد ی کہ جو بھی اپنے آپ کو امیرالمومنین کہلوائے وہ کافر ہے۔

اپنے آخر ی دور میں بھی امام- نے سیاسی نزاکتوں کو سمجھااور اس کے توڑکے مطابق عمل کیا۔ منصور دوانیقی نے آپ- کو بے انتہا پریشانیوں میں مبتلا کیا اور کئی مرتبہ آپ- کو قتل کر نے کی دھمکی دی آپ- نے منصور دواینقی کی ان ہی باتوں کو مدنظر رکھتے ہوئے اپنے وصی کی جان بچانے کے لئے ایک اور سیاسی حربہ استعمال کیا ۔

امام صادق- نے اپنی وصیت میں اپنے پانچ وصی مقرر کئے۔

۱ ۔ ابو جعفر منصور دوانیقی خلیفہ وقت

۲ ۔ محمد بن سلیمان (مدینہ کا گورنر )

۳ ۔ عبداللہ افطح (آپ- کے فرزند)

۴ ۔ موسیٰ بن جعفر(آپ-کے فرزند)

۵ ۔ حمیدہ (آپ- کی زوجہ محترمہ)

البتہ یہ وصیت جیسا کہ پہلے عرض کیا سیاسی تھی کیونکہ امام صادق- کے وصی اور جانشین امام موسیٰ کا ظم- تھے۔

جب امام- کے انتقال کی خبر منصور کو ملی تو اس نے اپنے ایک وزیر کو بلایا اور کہا کہ والی مدینہ کے نام خط لکھو۔

"یہ خط والی مدینہ محمد بن سلیمان کے لئے خلیفہ وقت منصور کی طرف سے ہے اگر جعفر بن محمد نے کسی خاص شخص کو اپنا وصی بنایا ہو تو اس کو اپنے پاس بلاؤ اور اس کا سر تن سے جدوا کر دو"۔

یہ خط والی مدینہ کے پاس پہنچا تو اس کا جواب کچھ یوں آیا کہ جعفر بن محمد نے پانچ افراد کو اپنا وصی بنایا ہے۔

۔ منصور دوانیقی۱

۲ ۔ محمد بن سلیمان

۳ ۔ عبداللہ افطح

۴ ۔ موسیٰ بن جعفر

۵ ۔ حمیدہ۔ (اصول کافی جلد ۱ صفحہ ۳۱۰)

جب منصور کو یہ خط ملا تو اس نے کہا کہ

"میرے پاس ان افراد کو قتل کر نے کا کوئی راستہ نہیں "۔

(اعلام الوری صفحہ ۱۹۰)

ٍ اس کے علاوہ امام- نے ایک اور وصیت بھی کی کہ میری وفات کے سات سال بعد تک حج کے ایام میں عزاداری امام حسین- کی جائے اور اس عزاداری کے لئے آپ- نے اپنے مال کا کچھ حصہ مقرر فرمایا۔

یہ وصیت بھی سیاسی تھی کیونکہ ان مجالس کے ذریعے سے دوسرے افراد امام- کی مظلومیت سے با خبر ہوتے اور ان کو پتہ چلتا کہ کس طرح امام- پر ظلم ہوئے ہیں اور جب اس کے ذریعے ان کے دل اماموں کی طرف مائل ہوتے اور وہ آئمہ- کی زندگی کے بارے میں جستجو کر تے جس کا نتیجہ یہ نکلتا کہ لوگ باطل حکومت سے دوری اختیار کرتے اور صالح افراد لوگوں کے امور کو سنبھالتے۔

امام موسیٰ کاظم- اور سیاست

امام موسیٰ کاظم- کا زمانہ امامت ۳۵ سال پر محیط تھا اور اس دوران چار عباسی خلیفہ گزرے جن میں سے ہارون رشید نے سب سے زیادہ خلافت کی اور اسی خلیفہ نے امام موسیٰ کاظم- کو سب سے زیادہ تکلیف پہنچائی اور سب سے زیادہ پریشان کیا لیکن اسکے باوجود امام- کو جب بھی فرصت ملتی آپ حکومت کے خلاف سر گرم عمل ہوجاتے۔

امام موسیٰ کاظم- کی زندگی کے بارے میں بحث کرنے سے پہلے میں ضروری سمجھتا ہوں کہ آگ کی توجہ اس نکتہ کی طرف مبذول کراوں کہ آئمہ اطہار(علیہم السلام)کی زندگی میں آپ کو اکثر واقعات بار بار پڑھنے کو ملتے ہیں اسکی وجہ یہ کہ آئمہ(علیہم السلام)کی سیاسی زندگی تقریباً ایک جیسی تھی کیونکہ ہر خلیفہ وقت کا ہدف ایک تھا اور وہ یہ کہ ان شخصیات کو کسی نہ کسی طرح لوگوں سے جدا کردیا جائے۔یہ شخصیات عوام سے اپنا رابطہ مضبوط نہ کرسکیں کیونکہ اگر ایسا ہوگیا تو پھر ان کی حکومت کو خطرہ لاحق ہوجائے گا۔

اس کے مقابلے میں آئمہ(علیہم السلام)کا مقصد یہ تھا کہ لوگوں کو صحیح راستے کی نشاندہی کردی جائے ان کو کمال کا راستہ بتادیا جائے اس مقصد کو حاصل کرنے کے لئے آئمہ(علیہم السلام)نے کبھی بھی حکومت کو اپنے اور عوام کے درمیان روکاوٹ نہ بننے دیا آئمہ(علیہم السلام)نے چھوٹی ملاقاتوں میں جزئی مسائل کے جواب میں بھی لوگوں کی ہدایت فرمائی جیسا کہ پہلے امام صادق کا امیرالمومنین کے نام والا قصہ بیان کیا گیا کہ جس میں امام صادق نے ایک جزئی مسئلہ پر ایک کلی موضوع کوبیان کیا۔ان تمام اہداف اور مقاصد میں آئمہ(علیہم السلام)کا ایک مقصد یہ بھی تھا کہ عوام کو بتایا جائے کہ یہ حکومت غیر قانونی ہے۔یہ خلیفہ غاصب ہیں اور اس منصب کے حق دار نہیں ہیں۔

امام موسیٰ کاظم- کی زندگی میں بھی ہمیں ایسے واقعات کثرت سے ملتے ہیں جو کہ اسی مقصد کو حاصل کرنے کے سلسلے میں تھے۔مثال کے طور پر امام موسیٰ کاظم کا ایک ماننے والا جن کا نام صفوان تھا ان کے پاس اس زمانے میں اونٹ ہوا کرتے تھے جس کو وہ قافلے والوں کو کرائے پر دیتے تھے ایک دفعہ حج کے زمانے میں ہارون رشید نے ان اونٹوں کوکرائے پر لیا امام کوجب اسکی خبرملی تو امام نے صفوان کو بلایا اور پوچھا کہ کیا تم نے اپنے اونٹ ہارون رشید کو کرائے پر دئیے ہیں صفوان نے کہا جی مولا۔

امام نے فرمایا کہ پھر تو ضرور تمہاری یہ دعا ہوگی کہ جب تک اونٹوں کا کرایہ نہ مل جائے ہارون رشید اور اس کے دربار والے زندہ رہیں؟ صفوان نے جواب دیا جی مولا۔

امام- نے فرمایا:

"جو بھی ان کی بقاء کی دعا کرے گا وہ ان میں سے ہے اور جو ان میں سے ہے اسکا ٹھکانہ جہنم ہے"

صفوان نے جب یہ سنا تو چہرہ شرم سے سرخ ہوگیا توبہ کی اور اپنے اونٹ کسی کو بیچ دئیے

ہارون رشید کوجب اس کی خبرملی تو ہارون نے کہا کہ اگر صفوان سے پرانی دوستی نہ ہوتی تو اس کو پھانسی پر لٹکا دیتا۔(وسائل الشیعہ جلد ۱۲ صفحہ ۱۳۱ ۔ ۱۳۲)

اسی کے ذیل میں امام صادق اور امام کاظم- کا ایک واقعہ ذکر کروں گا اور پھر جو چیز مقدمہ کے طور پر عرض کی گئی اس سے متعلق کچھ نتیجہ اخذ کریں گے۔

ایران کے شہر کا گورنر نجاشی تھا جو کہ شیعان اہل بیت میں سے تھا ایک دفعہ خلیفہ کے ظلم وستم سے تنگ آکر اور پریشان ہوکر امام صادق- کو خط لکھا اور اس میں حکومت کے ظلم وستم اورخلیفہ کی زیادتیوں کے بارے میں لکھا اور آخر میں امام سے درخواست کی کہ:

"میں یہ گورنری چھوڑنا چاہتا ہو ں کیونکہ ڈرتاہوں کہ میری آخرت کا کیا ہوگا آپ مجھ کو اجازت دیجئے کہ میں اس مقام کو چھوڑدوں"

امام- نے جواب میں تحریر فرمایا کہ:

تمہارا خط ملنے سے مجھے خوشی بھی ہوئی اور میں پریشان بھی ہوا خوشی اس وجہ سے ہوئی کہ میں نے اپنے آپ سے کہا کہ:

"خدا سے امیدوار ہوں کہ خدا تمہارے ذریعے سے آل محمدکے بے آسرالوگوں کوپناہ دے آل محمد کے بے بس لوگوں کو تمہارے ذریعے سے عزت دے آل محمد کے غریب لوگوں کو تمہارے ذریعے سے غنی کرے، ضعیف لوگوں کو قوی کرے اور دشمن کی آگ کو ان کی نسبت تمہارے ذریعے سے کم کرے"

میری پریشانی کا سبب یہ کہ:

"سب سے چھوٹی چیز جس کی وجہ سے میں پریشان ہو ں وہ یہ ہے کہ خدا نہ کرے کہ تم ہمارے دوستوں میں سے کسی سے بھی برا سلوک کرو اور اسکے نتیجہ میں خطیرہ القدس کی خوشبو سے بھی محروم ہوجاو"(وسائل الشیعہ جلد ۱۲ صفحہ ۱۵۲)

امام موسیٰ کاظم- کے ماننے والوں میں علی بن یقطین نامی ایک شخص تھا جو کہ خلیفہ کے دربار میں وزیرتھا ایک دفعہ خلیفہ کے ظلم وستم سے تنگ آکر امام موسیٰ کاظم- کو ایک خط لکھا کہ:

"خلیفہ کے ظلم وستم کی انتہا ہوچکی ہے میری برداشت سے باہرہے یہاں پر مجھے اپنا دم گھٹتا ہوا محسوس ہوتا ہے میں روز قیامت کے حساب وکتاب کے بارے میں سوچ کر اور پریشان ہوجاتا ہوں اگر آپ مجھے اجازت دیں تو میں یہاں سے فرار ہوجاوں اور کہیں چھپ جاوں۔"

امام موسیٰ کاظم- نے اسکے جواب میں تحریر فرمایا کہ:

"تم کو اجازت نہیں دوں گا کہ تم اس کام کو چھوڑدو جوکہ تم انکے دربار میں انجام دے رہے ہو بس خدا کو مت بھولنا"

(وسائل الشیعہ جلد ۱۲ صفحہ ۱۴۳)

اگر ہم پچھلے صفحوں پر ایک نظر ڈالیں تو ہم کو ایسے واقعات نظر آئیں گے کہ جس میں آئمہ(علیہم السلام)نے اپنے ماننے والوں کو خلفاء سے رابطہ برقرار کرنے پر سخت تنقید کا نشانہ بنایا تھا لیکن ان دو واقعات کی طرف نگاہ ڈالیں تو امام صادق- اور امام موسیٰ کاظم -گورنر اور وزیر کو اجازت نہیں دیتے کہ وہ حکومت چھوڑدیں وہ شخص جس نے اپنے اونٹ فقط کرائے پردے رکھے ہیں اس کواتنی مہلت بھی نہیں دیتے کہ وہ اپنے اونٹوں کا کرایہ لینے تک انتظار کرلے یا اگر کوئی کسی ذریعے سے وزیروں کے لئے کام کررہا ہے تو فرماتے ہیں کہ اسکی جگہ دوذج میں ہے آخر اسکا کیا سبب ہے؟آیا یہ دومخالف سوچیں ہیں؟ آیا یہ ایک دوسرے کے مخالف عمل ہیں؟ اگر نہیں تو پھر اسکا جواب کیا ہے؟

ان سوالوں کے جواب میں چند نکات بیان کروں گا جس کی بناء پر آئمہ اطہار(علیہم السلام) کے عمل میں یہ اختلافی چیزیں نظرآتی ہیں ان کی وجہ سے آئمہ(علیہم السلام)کے عمل میں کسی قسم کا کوئی تضادنہیں۔

وہ شخص جو کہ دربار میں یا حکومت کے ساتھ کام کررہاہے اسمیں مندرجہ ذیل صفات ہونی چاہئیں۔

۱ ۔ متقی اور پرہیز گارہونا۔

۲ ۔ ولایت آئمہ(علیہم السلام)پر ایمان ہونا۔

۳ ۔ غریب اور نادار لوگوں کی مدد کرنا۔

ٍ ۴ ۔ صاحبان ایمان کادفاع اور ان کی حفاظت کرنا۔

ٍ ۵ ۔ راز دار رہنا۔

اسی ضمن میں ایک اوراہم نکتہ کی طرف اشارہ کرتا چلوں اور ایک اورواقعہ حضرت امام موسیٰ کاظم- کی زندگی کے بارے میں بیان کروں ۔

خلفاء بنی عباس کی تاریخ کے اندر ہمیں کچھ ایسے خلفاء بھی ملتے ہیں جو بڑے نرم دل تھے، اور انہوں نے جو مال ان سے پہلے والے خلفاء نے غصب کیا تھا وہ واپس کردیا تھا، من جملہ ان میں فدک بھی تھا جو کہ انہوں نے واپس کرنے کی حامی بھری اس سلسلے میں واقعہ بعد میں بیان کروں گا۔ جس نکتہ کی طرف آپکی توجہ دلانا چاہتا ہوں وہ یہ نہیں ہے بلکہ وہ یہ کہ ان خلفاء کی نرمی اس وجہ سے نہیں تھی کہ وہ آئمہ اطہار(علیہم السلام) سے محبت کرتے تھے بلکہ پے درپے ظالم حکمرانوں کی وجہ سے عوام کے اندر غصہ بھرچکا تھا اور مختلف جگہوں سے حکومت کے خلاف تحریکیں شروع ہوگئی تھیں ان تحریکوں اور ان مخالفتوں کود بانے کے لئے خود حکومت کے مشیر ایسے خلیفہ کو چنتے تھے جو کہ کم ظلم کرے اور لوگوں کے غصب شدہ حقوق ان کو واپس دے دے،’اور یہی افراد جب دیکھتے تھے کہ عوام کا غصہ کم ہوگیا تو خود ہی اس خلیفہ کو زہر دے کرماردیتے تھے۔

مہدی عباسی(بنی عباس کا تیسرا خلیفہ)نے اپنے آباء واجداد کے گناہ پرپردہ ڈالنے کیلئے اور آزادی کی تحریکوں کو ختم کرنے کے لئے تخت پر بیٹھنے کے بعدعام اعلان کیا کہ اگر کسی کا حق میری گردن پر ہے وہ آکر اسکا مطالبہ کرے تو اسکا حق اس کو واپس لوٹادیا جائیگا۔

امام موسیٰ کاظم- نے جب یہ اعلان سنا تو مہدی عباسی کے پاس گئے اس وقت مہدی عباسی لوگوں کے حقوق ان کو واپس کرنے میں مشغول تھا۔

امام- نے اس کی طرف دیکھتے ہوئے فرمایا:

"کیا ہمارے چھنے ہوئے حقوق ہم کو واپس نہیں دیئے جائیں گے؟

مہدی عباسی نے کہا: آپ کے حقوق کون سے ہیں ۔

امام- نے جواب میں فرمایا کہ "فدک"

مہدی نے کہا کہ فدک کی حدود معین کر دیں تو میں فدک آپ کو واپس پلٹا دوں گا۔

امام موسیٰ کاظم- نے اس کے جواب میں فرمایا :

" فدک کی پہلی حدا حد کا پہاڑ ہے اس کی دوسری حد عریش مصر ہے اس کی تیسری حد خزر کے ساحل تک ہے اور اس کی چوتھی حد عراق اور شام ہے۔ (یعنی تمام حکومت اسلامی) "

مہدی عباسی نے تعجب سے پوچھا کہ یہ فدک کی حدود ہیں!

امام کاظم- نے فرمایا :ہاں

یہ سن کر مہدی عباسی اس قدر غصہ میں آیا کہ غصہ کے آثار اس کے چہرے سے عیاں تھے کیونکہ امام موسیٰ کا ظم- اس جواب کے ذریعے سے اس کو سمجھانا چاہتے تھے کہ حکومت اسلامی کی باگ ڈور ہمارے ہاتھ میں ہو نی چاہیے مہدی عباسی وہاں سے اٹھ کر جانے لگا اور زیر لب کہہ رہا تھا کہ یہ حدیں بہت زیادہ ہیں اس کے بارے میں کچھ سوچنا پڑے گا۔ (بحار الانوار جلد ۴۸ صفحہ ۱۵۶)

امام رضا- اور سیاست

حضرت امام رضا- کا طرز زندگی بھی اپنے اجداد کی طرح تھا۔ آپ-نے بھی اپنی تمام زندگی ظالموں کے خلاف جہاد میں گزاری ، اور ان میں بنی عباس کے خلفاء سرفہرست تھے کہ جن کی خلافت کو آپ- نے کبھی بھی قانونی حیثیت نہیں دی۔

آپ- کے ایک صحابی سلیمان جعفری نے کہا کہ میں امام-کی خدمت میں حاضر ہوا اور سوال کیا کہ مامون کی حکومت سے تعلقات کے بارے میں آپ- کا نظریہ کیا ہے؟

حضرت امام رضا- نے جواب میں فرمایا:

"ان کی طرف عمداً اور جان بوجھ کر توجہ دینا گناہ کبیرہ میں سے ہے اور اس کی سزا آتش دوزخ ہی"

وسائل الشیعہ جلد ۱۲ صفحہ ۱۳۸ بحار الانوار جلد ۷۵ صفحہ ۳۷۴

کیونکہ امام رضا- نے ولی عہدی کو قبول کر لیا تھا اس لئے بعض افراد کے ذہنوں میں یہ سوال پیدا ہو تاتھا لیکن سوال یہ ہے کہ حضرت امام رضا- نے کیوں ولی عہدی کو قبول کیا؟

اسلامی سلطنت میں بڑھتی ہوئی اسلامی تحریکوں کو دیکھ کر مامون کو یہ احساس ہونے لگا تھا کہ اب حکومت کو خطرہ لاحق ہے ، اور اس کی سب سے بڑی وجہ یہ تھی کہ حضرت امام رضا- مدینہ میں تھے اور آپ- کا رابطہ عام لوگوں سے مضبوط تھا مامون نے اس رابطے کو توڑنے کے لئے اور آپ- کو زیر نگرانی رکھنے کے لئے ایک چال چلی ۔

خراسان سے مدینہ خط بھیجا کہ میں حکومت کے تمام امور آپ- کو سونپنا چاہتا ہوں اس لئے آپ- خراسان تشریف لے آئیے ۔

مدینہ کے گورنر نے حالات کو کچھ اس طرح سے بنایا کہ امام- کو اپنی مرضی کے بغیر مدینہ چھوڑنا پڑا(البتہ تمام آئمہ اطہار- کے لئے مدینہ چھوڑنا بہت مشکل ہو تا تھا کیونکہ وہاں پر رسول خدا(صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم) اور حضرت زہرا(علیہ السلام) کی مطہر اور منور قبریں ہیں )۔

جب حضرت امام رضا- مامون کے پاس پہنچے تو مامون نے آپ- کو خلافت کی پیشکش کی۔ آپ- نے بڑی سختی سے اس کو رد کر دیا تقریباًدو ہفتہ تک اس گفتگو کا سلسلہ جاری رہا ایک دن مامون نے کہا کہ میں خلافت سے استعفاء دینا چاہتا ہوں اور خلافت کے امور آپ- کے ہاتھ میں سونپنا چاہتا ہوں ۔

امام- نے اس کے جواب میں فرمایا:

"اگر یہ خلافت تمہاری ہے اور خدا نے اس کو تمہارے لئے قرار دیا ہے تو تمہارے لئے جائز نہیں ہے کہ جو لباس خدا نے تمہارے لئے سیا ہے تم اسے دوسرے کو پہنا دو اور اگر خلافت تمہاری چیز نہیں ہے توجائز نہیں ہے کہ جو چیز تمہاری نہیں ہے اس کو مجھے دے دو۔عیون اخبار الرضا جلد ۲ صفحہ ۱۳۹ ، ۱۴۰

مامون کا زور بڑھتا گیا اور آپ- کا انکار اپنی جگہ پر رہا مامون آپ کا انکار دیکھ کر کچھ نرم ہوا اور آپ- کو جانشینی کی پیشکش کی۔ آپ- نے اس کو بھی قبول کر نے سے انکار کر دیا مامون نے بہت زور دیا آخر کار نوبت یہاں تک پہنچی کہ اس گستاخ نے کہا کہ اگر آپ- نے جانشینی قبول نہیں کی تو میں آپ- کو قتل کر دوں گا۔

امام- نے اس کے جواب میں فرمایا کہ:

خدا نے مجھ کو منع کیا ہے کہ میں اپنے آپ کو ہلاکت میں ڈالوں اور اب جب کہ تم زبردستی کر رہے ہو تو میں اپنی شرائط کے ساتھ جانشینی کو قبول کروں گا:

۱ ۔ کسی کو کسی کے مقام سے ہٹاؤں گا نہیں اور کسی کو کسی کے مقام پر فائز نہیں کروں گا۔

۲ ۔ فتویٰ نہیں دوں گا۔

۳ ۔ قضاوت نہیں کروں گا۔

۴ ۔ وہ چیز جو کہ قائم ہے اس کو تبدیل نہیں کروں گا۔

(مناقب آل ابیطالب- جلد ۴ صفحہ ۳۶۳)

یہ شرائط اس بات کی مکمل نشاندہی کر رہی ہیں کہ امام- نے مامون کی سیاست کو سمجھتے ہوئے اس کا جواب دیا مامون یہ چاہتا تھا کہ حضرت امام رضا- کو حکومت میں لاکر یہ ثابت کر دے عام مسلمان کے لئے کہ میری حکومت قانونی ہے اور شرعی ہے لیکن امام- نے اس کے مقابلے میں اپنی خاص روش اختیار کی اور یہ بات سمجھا دی کہ میرا مامون کی ظالم حکومت سے کوئی رابطہ نہیں ہے اور جانشینی فقط ایک عنوان کی حیثیت رکھتی ہے۔

امام- نے اپنی روش کے ذریعے سے دو چیزوں کی وضاحت کی۔

ٍ ۱ ۔ امام- مامون کی حکومت سے راضی نہیں تھے۔

۲ ۔ جانشینی کو قبول کر نا ظاہری تھا کیونکہ امام- کی نظر میں آپ کا زندہ رہنا معاشرے کے لئے ضروری تھا اور اس زمانے کے واقعات اس بات کی نشاندہی کرتے ہیں امام- نے یہ بات صریحاً بیان کر دی تھی کہ میں تم سے پہلے دنیا سے چلا جاؤں گا (یعنی مجھے جانشین بنا نا بے معنی ہی)امام- نے جانشینی کو قبول کر نے کے بعد محروم اور نادار فقراء اور مساکین کی تاحد امکان مدد کی اور ان کے حقوق ان کو دلوائے۔

اپنی مفصل نشستوں میں شیعہ مذہب کی حقانیت کو ثابت کیا اور تشیع کے اصولوں کو جو کہ دراصل خالص اسلام کے اصول ہیں روشن اور واضح کیا اور ان کو پھیلایا جس کی وجہ سے شیعت کو عروج ملا اور بہت سے علاقوں میں شیعت پھیل گئی یہی مسائل تھے کہ جو آگے چل کر اس بات کا سبب بنے کے آپ- کو زہر دے کر شہید کر دیا گیا۔

ان تمام شرائط کے با وجود امام- نے مامون کی سیاست کو سمجھا اور اس کو موقعہ پر ختم کر دیا اور اس کے مقابل اپنے آپ- کوجھکا یا نہیں ، لیکن اگر امام- ان تمام چالاکیوں کے سامنے سادگی سے بیٹھے رہتے اور سیاسی مسائل کو سمجھتے تو شاید وہ واقعات پیش نہ آتے جو کہ تاریخ میں ثبت ہوئے۔

ان تفصیلات کے ذیل میں ایک واقعہ بیان کر تا چلوں کہ کس طرح سے امام رضا- نے مامون کی مخالفت کی ہے امام- کو مدینہ اور حجاز سے یہ خبر دی گئی کہ وہاں پر مسلمانوں کی حالت بہت خراب ہے اور وہاں کے حکمرانوں نے بھی عوام پر ظلم کے پہاڑ توڑ دیئے ہیں۔

ایک دن مامون ہاتھ میں لمبا چوڑا سا خط لئے امام- کے پاس آیا اور اس خط کو پڑھا اس میں کابل کے اطراف کے کچھ علاقوں کی فتح کی خبر دی گئی تھی جب خط ختم ہو گیا تو امام- نے مامون سے پوچھا کہ:

"کیا تم مشرک اور کافر قوموں کی کچھ زمین کو فتح کرنے کی وجہ سے خوش ہو؟"

مامون نے تعجب سے پوچھا آیا ان شہروں کی فتح خوشی کی بات نہیں ہے؟

امام- نے اس کے جواب میں فرمایا:

"امت محمد کے سلسلے میں خدا کے فرمان کی مخالفت سے پرہیز کرواور اسی طرح سے قیادت کے سلسلے میں بھی جو کہ تمہارے ہاتھ میں ہے کیونکہ تم نے مسلمانوں کے امور کو تباہ و برباد کر دیا ہے اور عوام پر ایسے حکمرانوں کو مسلط کر دیا ہے جو کہ خدا کے فرمان کے خلاف کام کر تے ہیں اور تم یہاں پر بیٹھے ہوئے ہو اور مرکز وحی کو چھوڑ دیا ہے اور وہاں کے مظلوم عوام کی فکر میں نہیں ہو"

(عیون اخبار الرضا ج ۲ صفحہ ۱۵۹،۱۶۰)

یہاں پر امام- نے مامون کو مبارک باد دینے کے بجائے اس کے نمائندوں کی بے عدالتی پر اس کو ڈانٹا اور مصلح کہنے کی بجائے ا س کوفاسد کہا۔

آئمہ اطہار (علیہم السلام) نے اپنے اصولوں پر کبھی سمجھوتا نہیں کیا کسی بھی زمانہ میں کسی بھی صورت حال میں ۔ آئمہ(علیہم السلام) کے ان ہی اصولوں میں مظلوم عوام کی حمایت تھی اور ان کی مدد کر نا تھی کبھی راتوں کو روٹیوں کی بوری کمر پر رکھ کر کبھی اندھے اور بوڑھے شخص کو کھانا کھلا کر ، کبھی جنگ کر کے اور کبھی درس و بحث کی محفلوں میں بیٹھ کر ، اس اصول کی حفاظت تمام آئمہ اطہار (علیہم السلام) نے اپنے حالات کے مطابق کی ۔ امام رضا- نے بھی گو کہ سیاسی صورتحال سے اس قدر مضبوط نہ تھے مگر اس کے با وجود بھی کس قاطعیت اور یقین کے ساتھ آپ- نے ظالم حکمرانوں کے سامنے مظلوم مسلمانوں کی حمایت کی۔

ایک دفعہ ایک زاہد اور متقی شخص نے چوری کی اور وہ پکڑا گیا جب اس کو مامون کے دربار میں لایا گیا تو اس نے مامون سے بحث مباحثہ شروع کر دیا بحث نے طول پکڑایہاں تک کہ آخر میں مامون نے امام- سے رائے معلوم کی امام- نے کمال صراحت کے ساتھ مامون کے جواب میں فرمایا کہ:

"خدا نے حضرت محمد(صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم)سے کہا کہ "فللّٰہ الحجة البالغہ" "خدا کے لئے دلیل قاطع ہے(سورہء انعام : ۱۴۹) اور یہ حجت وہی ہے کہ جاہل اپنے جہل کے باوجود اس کو سمجھ لیتا ہے اور عالم اپنے علم کے ذریعے سے اس تک پہنچتا ہے اور دنیا اور آخرت حجت اور دلیل کی بناء پر ہے اور یہ مرد اس کے پاس بھی دلیل ہے"

یہ سننا تھا کہ مامون غصہ میں آگیا لیکن کیونکہ دربار میں تھا اس لئے اس زاہد کو رہا کر دیا اور لوگوں سے کنارہ گیری اختیار کر لی اور امام رضا- سے بھی ملاقاتیں بند کر دیں یہی سبب تھا کہ اس نے امام رضا- کو شہید کر وا دیا اس کے علاوہ امام- کے بہت سے اصحاب کو بھی شہید کر دیا۔ (عیون اخبار الرضا جلد ۲ صفحہ ۲۳۷ ، ۲۳۸)

آئمہ اطہار (علیہم السلام)کی عملی زندگی کو اگر ہم دقت کی نظر سے دیکھیں یا کم از کم دیکھ ہی لیں تو پھر ہمارے لئے یہ سوال باقی نہ رہے کہ ہم کس شخصیت کو اپنے لئے معیار بنائیں کس روش کو اپنائیں کس تنظیم کو اختیار کریں ہمارے لئے راستہ روشن ہے صرف اس بات کی دیر ہے کہ ہم اس پر اپنی عملی زندگی میں عمل کریں ۔ اور سیرت آئمہ(علیہم السلام) کو یہ کہہ کر نہ چھوڑ دیں کہ ہم تو اس قابل نہیں اور یہ عمل تو فقط آئمہ (علیہم السلام)ہی انجام دے سکتے تھے اگر ہم یہ سوچ کر آئمہ(علیہم السلام) کی زندگی کو چھوڑ دیں تو میرے خیال میں یہ سب سے بڑا ظلم ہو گا جو کہ ہم ان کے حق میں کریں گے۔

امام جعفر صادق- اور سیاست

امام جعفر صادق- کے زمانے میں بنی امیہ اور بنی عباس اقتدار کی جنگ میں مصروف تھے اس فرصت سے فائدہ اٹھاتے ہوئے آپ- اور آپ- کے والد بزرگوار حضرت امام باقر- نے اسلام کی تعلیمات کو پھیلانا شروع کیا اور اگر یہ کہا جائے کہ آپ دونوں نے اس زمانے میں پہلی اسلامی یونیورسٹی کی بنیاد رکھی ، تو کچھ غلط نہ ہوگا۔

اس یونیورسٹی کا مقصد خالص اسلام کی ترویج تھا اس کے ساتھ ساتھ امام صادق- نے اپنے زمانے کے خلیفہ کو یہ بات بھی سمجھانے کی کوشش کی کہ حکومت اور معاشرے کی رہبری ہمارا حق ہے۔

امام جعفر صادق- نے منصور دوانیقی کے زمانے میں جب کہ بنی عباس اپنی حکومت قائم کر چکے تھے لیکن حکومت کو مضبوط کر نے کے لئے ہر مخالف کو تہہ تیغ کر رہے تھے۔ حضرت- نے اس وقت بھی اپنے اقوال کے ذریعے سے خلیفہ تک یہ بات پہنچائی کہ حکومت اور معاشرے کی قیادت ہمارا حق ہے اس کے ساتھ ساتھ امام جعفر صادق- نے ان شیعان حید ر کرار کو جو ظلم و ستم کی وجہ سے یا پھر نادانی کی وجہ سے یہ سمجھنے لگے تھے کہ حکومت کوئی الگ چیز ہے اور دین ایک دوسری چیز، ان کے لئے بھی یہ بات واضح کر دی کہ حکومت حق ولایت ہے اور ولایت فقط ہمارے لئے ہے مثال کے طور پر امام- نے ایک دفعہ فرمایا کہ:

اسلام پانچ چیزوں پر قائم ہے نماز، زکوة ، حج، روزہ، اور ولایت۔

زرارہ نے امام- سے سوال کیا ان میں سے بر تر کون سی چیز ہے؟

امام- نے بلا جھجھک فرمایا:

"ولایت بر تر ہے کیونکہ ولایت تمام چیزوں کی چابی ہے اور حاکم، لوگوں کو ان کی طرف راہنمائی کر تا ہے"

(وسائل الشیعہ جلد ۱ صفحہ ۸۰۷)

کس وضاحت کے ساتھ امام- نے ان افراد کو جو کہ یہ سوچتے ہیں کہ دین اور سیاست دو الگ چیزیں ہیں یہ ثابت کر دیا کہ دین کا اجراء اور اس کا کمال حکومت کے بغیر ممکن ہی نہیں ہے، حکومت ہی ہے جو کہ حاکم اسلامی کو یہ اختیار دیتی ہے کہ وہ دین کا اجراء کماحقہ کر ے حکومت ہے جو کہ حاکم اسلامی کو یہ قدرت عطا کرتی ہے کہ وہ دین کے خلاف ہو نے والی ہر سازش کو ختم کر دے اس لئے ہمارا نظریہ یہ ہے کہ ہر ظالم و فاسق شخص خلافت کے عہدہ پر فائز نہیں ہو سکتا بلکہ اس کا متقی اور پر ہیز گار ہو نا ضروری ہے۔

اسی زمانے میں جب کچھ علماء نے بنی عباس کی حکومت کو اپنے فائدے حاصل کر نے کے لئے صحیح ثابت کر نے کی کوشش کی اور لوگوں کو سمجھانا چاہا کہ یہ حکومت صحیح ہے تو امام جعفر صادق- نے اس کے خلاف بھی اپنا جہاد شروع کیا اور اپنے اقوال کے ذریعے سے ایسے علماء کی مذمت کی جو ظالم اور جابر حکمرانوں کے دربار میں زندہ لاشوں کے عنوان سے جاتے تھے امام جعفر صادق- نے فرمایا:

فقہاء انبیاء کے نمائندہ ہیں اور جب بھی یہ فقہاء سلاطین کے دربار کے چکر لگا نا شروع کر دیں تو ان کو متہم کر و (یعنی اس کے صحیح عالم ہونے کے بارے میں شک کرو۔)(کشف الغمہ جلد ۲ صفحہ ۱۸۲)

کبھی امام- نے اپنے درسوں میں یا اپنی تقریروں میں رسول اکرم(صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم) سے یہ حدیث نقل کر نی شروع کر دی کہ:

"فقہاء اس وقت تک انبیاء کے نمائندہ ہیں جب تک دنیا ان پر حاوی نہ ہو جائے۔ پوچھا گیا کہ یا رسول اللہ دنیا کب حاوی ہو گی تو فرمایا ظالم سلطان کی اطاعت کے وقت اور جب بھی تم ایسا دیکھو تو اپنے دین کو ان سے جداکر لو" (اصول کافی جلد ۱ صفحہ ۴۲)

ایک دفعہ امام صادق- بازار سے گزر رہے تھے تو دیکھا کہ عذافر دوکان پر کھڑے کچھ خرید رہے ہیں امام- نے آگے بڑھ کر سلام کیا اور پوچھا عذافر سنا ہے کہ ابو ایوب اور ربیع (خلیفہ کے دو وزیر) کے لئے کام کر رہے ہو یاد رکھو قیامت کے دن تمہارا حال ان دو جیسا ہو گا سوچو اس وقت تمہاری کیا حالت ہو گی جب تم کو ظالم کی مدد کر نے والے کے نام سے آواز دے کر بلایا جائے گا یہ سنتے ہی عذافر کے چہرے کا رنگ بدل گیا۔

امام- نے پھر فرمایا کہ میں اپنی طرف سے کچھ نہیں کہہ رہا فقط اسی چیز سے ڈرا رہا ہوں جس سے خدا وند نے مجھ کو ڈرایا ہے۔

یہ کہنے کے بعد امام- آگے چل دئیے عذا فراس قدر متاثر ہوئے کہ کہتے ہیں کہ آخر عمر تک غمگین و افسردہ رہے۔ (وسائل الشعیہ جلد ۱۲ صفحہ ۱۲۸)

امام نے سربازار اپنے ماننے والے کی مذمت کر نے کے لئے اور ان کو سیدھا راستہ دکھانے کے لئے یہ بات کہی یقینا امام- یہ بھی چاہتے ہوں گے کہ جو افراد اطراف میں کھڑے ہوئے ہیں وہ بھی یہ بات سن لیں کہ ظالم کی مدد کر نا ایسا ہی ہے جیسا کہ خود ظلم کر نا۔

ایک اور موقعہ پر امام صادق- نے فرمایا:

"جو کوئی یہ چاہے کہ ظالمین باقی رہیں وہ ایسے ہے کہ جیسے وہ چاہتا ہو کہ خدا کی معصیت اور نافرمانی ہو تی رہے۔

(وسائل شعیہ جلد ۲ صفحہ ۱۳۰)

ان اقوال کے ذریعے سے امام- لوگوں کو یہ بتا دینا چاہتے ہیں کہ اگر ہمارے شیعہ یا ہمارے ماننے والے ہمارا ساتھ نہیں دے سکتے کہ ہم ان ظالموں کو اقتدار سے ہٹا دیں تو ایسا نہیں ہے کہ ہم خاموش بیٹھ جائیں نہیں بلکہ ہمارا جہاد ظالموں سے جاری ہے اور وہ زبان کے ذریعے سے ہے جس کو ختم کر نے کا فقط ایک ہی طریقہ ہے کہ ہماری زبانوں کو کاٹ دیا جائے۔

امام صادق- ہی کے زمانے میں بنی عباس کی حکومت کے قیام کے بعد لوگوں میں یہ باتیں کی گئیں کہ اگر یہ حکومتیں صحیح نہیں ہیں تو کم از کم ان کے ساتھ مل کر لوگوں کی فلاح و بہبود کا کام تو کیا جا سکتا ہے ۔ بہت سے سادہ لوح افراد اس دھوکہ میں آگئے اور حکومت کا ساتھ دینا شروع کر دیا ۔ امام- نے حکومت کی اس حکمت عملی کو بھی فقط اپنے اقوال کے ذریعے سے شکست دی امام- نے ایک موقعہ پر ایک چھوٹا سا جملہ ارشاد فرمایا کہ

"حتیٰ مسجد کی تعمیر میں بھی ظالموں کی مدد نہ کرو"۔

(وسائل الشیعہ جلد ۱۲ صفحہ ۱۳۴)

حضرت امام جعفر صادق- نے معاشرے میں پھیلے ہوئے ان افراد کی بھی مذمت کی جو دولت کے لالچ میں جانتے ہوئے بھی کہ یہ حکمران غاصب اور ظالم ہیں ان کی مدح و سرا میں مشغول تھے۔

امام گرامی قدر فرماتے ہیں کہ:

"اگر کوئی ظالم حکمرانوں کی مدح کر ے اور اس کی دولت کے لالچ میں عزت کر ے تو وہ شخص اسی ظالم کا پڑوسی ہوگا آخرت میں"۔

(وسائل الشیعہ جلد ۱۲ صفحہ ۱۳۳)

لمحہ فکر یہ ہے ہم لوگوں کے لئے کہ آج ہم اگر کسی ایسے شخص کی مدح کریں کہ جس کے بارے میں ہم جانتے ہیں کہ وہ ظالم ہے لیکن کیونکہ وہ ہمارے ذاتی حقوق ہم کو دلادے گا یا پھر ہم کو کسی اچھی جگہ نوکری دلوا سکتا ہے اور ہم اس ظالم شخص کی مدح شروع کر دیں تو یاد رکھئے کہ ہماری جگہ بھی دوزخ میں ہو گی۔

جیسا کہ میں نے پہلے عرض کیا کہ آئمہ(علیہم السلام) بار بار لوگوں تک یہ پیغام پہنچا رہے تھے کہ حکومت اور ولایت ہمارا حق ہے اور ہم ہی اس منصب کے اہل ہیں۔ اسی ضمن میں امام- کی بھی سیاسی حکمت عملی کا تقاضہ یہی تھا کہ لوگوں تک یہ پیغام پہنچائیں کہ اول اسلام سے لے کر انتہا تک جتنے بھی خلیفہ آئیں گے اگر وہ ہمارے علاوہ کوئی ہو تو غاصب ہے۔ ان نظریات کا اظہار ایسا تھا جیسے شیر کے منہ سے شکار چھین لینا امام- نے حالات پر نظر رکھتے ہوئے اپنے بیانات اس طرح سے دیئے کہ افراد تک یہ بات پہنچ گئی اور وہ اس طرح سے ہوا کہ اس زمانے میں لوگ بنی امیہ یا بنی عباس کے خلفاء کو امیرا لمومنین کہہ کر پکارتے تھے ایک شیعہ نے آپ سے سوال کیا کہ کیا امام قائم (عج) کے ظہور کے بعد ان کو امیر المومنین کہہ کر سلام کر سکیں گے؟

امام- نے اس سوال کے جواب میں ایک پورا نظریہ دیااور فرمایا:

"یہ نام مخصوص ہے امیر المومنین حضرت علی ابن ابی طالب- سے ان سے پہلے نہ کسی کو اس نام سے پکارا گیا اور نہ ان کے بعد کسی کو اس نام سے پکارا جائے گا مگر کافر"۔

(اصول کافی جلد ۱ صفحہ ۴۱۳)

امام- نے کمال صراحت سے یہ بات لوگوں تک پہنچاد ی کہ جو بھی اپنے آپ کو امیرالمومنین کہلوائے وہ کافر ہے۔

اپنے آخر ی دور میں بھی امام- نے سیاسی نزاکتوں کو سمجھااور اس کے توڑکے مطابق عمل کیا۔ منصور دوانیقی نے آپ- کو بے انتہا پریشانیوں میں مبتلا کیا اور کئی مرتبہ آپ- کو قتل کر نے کی دھمکی دی آپ- نے منصور دواینقی کی ان ہی باتوں کو مدنظر رکھتے ہوئے اپنے وصی کی جان بچانے کے لئے ایک اور سیاسی حربہ استعمال کیا ۔

امام صادق- نے اپنی وصیت میں اپنے پانچ وصی مقرر کئے۔

۱ ۔ ابو جعفر منصور دوانیقی خلیفہ وقت

۲ ۔ محمد بن سلیمان (مدینہ کا گورنر )

۳ ۔ عبداللہ افطح (آپ- کے فرزند)

۴ ۔ موسیٰ بن جعفر(آپ-کے فرزند)

۵ ۔ حمیدہ (آپ- کی زوجہ محترمہ)

البتہ یہ وصیت جیسا کہ پہلے عرض کیا سیاسی تھی کیونکہ امام صادق- کے وصی اور جانشین امام موسیٰ کا ظم- تھے۔

جب امام- کے انتقال کی خبر منصور کو ملی تو اس نے اپنے ایک وزیر کو بلایا اور کہا کہ والی مدینہ کے نام خط لکھو۔

"یہ خط والی مدینہ محمد بن سلیمان کے لئے خلیفہ وقت منصور کی طرف سے ہے اگر جعفر بن محمد نے کسی خاص شخص کو اپنا وصی بنایا ہو تو اس کو اپنے پاس بلاؤ اور اس کا سر تن سے جدوا کر دو"۔

یہ خط والی مدینہ کے پاس پہنچا تو اس کا جواب کچھ یوں آیا کہ جعفر بن محمد نے پانچ افراد کو اپنا وصی بنایا ہے۔

۔ منصور دوانیقی۱

۲ ۔ محمد بن سلیمان

۳ ۔ عبداللہ افطح

۴ ۔ موسیٰ بن جعفر

۵ ۔ حمیدہ۔ (اصول کافی جلد ۱ صفحہ ۳۱۰)

جب منصور کو یہ خط ملا تو اس نے کہا کہ

"میرے پاس ان افراد کو قتل کر نے کا کوئی راستہ نہیں "۔

(اعلام الوری صفحہ ۱۹۰)

ٍ اس کے علاوہ امام- نے ایک اور وصیت بھی کی کہ میری وفات کے سات سال بعد تک حج کے ایام میں عزاداری امام حسین- کی جائے اور اس عزاداری کے لئے آپ- نے اپنے مال کا کچھ حصہ مقرر فرمایا۔

یہ وصیت بھی سیاسی تھی کیونکہ ان مجالس کے ذریعے سے دوسرے افراد امام- کی مظلومیت سے با خبر ہوتے اور ان کو پتہ چلتا کہ کس طرح امام- پر ظلم ہوئے ہیں اور جب اس کے ذریعے ان کے دل اماموں کی طرف مائل ہوتے اور وہ آئمہ- کی زندگی کے بارے میں جستجو کر تے جس کا نتیجہ یہ نکلتا کہ لوگ باطل حکومت سے دوری اختیار کرتے اور صالح افراد لوگوں کے امور کو سنبھالتے۔

امام موسیٰ کاظم- اور سیاست

امام موسیٰ کاظم- کا زمانہ امامت ۳۵ سال پر محیط تھا اور اس دوران چار عباسی خلیفہ گزرے جن میں سے ہارون رشید نے سب سے زیادہ خلافت کی اور اسی خلیفہ نے امام موسیٰ کاظم- کو سب سے زیادہ تکلیف پہنچائی اور سب سے زیادہ پریشان کیا لیکن اسکے باوجود امام- کو جب بھی فرصت ملتی آپ حکومت کے خلاف سر گرم عمل ہوجاتے۔

امام موسیٰ کاظم- کی زندگی کے بارے میں بحث کرنے سے پہلے میں ضروری سمجھتا ہوں کہ آگ کی توجہ اس نکتہ کی طرف مبذول کراوں کہ آئمہ اطہار(علیہم السلام)کی زندگی میں آپ کو اکثر واقعات بار بار پڑھنے کو ملتے ہیں اسکی وجہ یہ کہ آئمہ(علیہم السلام)کی سیاسی زندگی تقریباً ایک جیسی تھی کیونکہ ہر خلیفہ وقت کا ہدف ایک تھا اور وہ یہ کہ ان شخصیات کو کسی نہ کسی طرح لوگوں سے جدا کردیا جائے۔یہ شخصیات عوام سے اپنا رابطہ مضبوط نہ کرسکیں کیونکہ اگر ایسا ہوگیا تو پھر ان کی حکومت کو خطرہ لاحق ہوجائے گا۔

اس کے مقابلے میں آئمہ(علیہم السلام)کا مقصد یہ تھا کہ لوگوں کو صحیح راستے کی نشاندہی کردی جائے ان کو کمال کا راستہ بتادیا جائے اس مقصد کو حاصل کرنے کے لئے آئمہ(علیہم السلام)نے کبھی بھی حکومت کو اپنے اور عوام کے درمیان روکاوٹ نہ بننے دیا آئمہ(علیہم السلام)نے چھوٹی ملاقاتوں میں جزئی مسائل کے جواب میں بھی لوگوں کی ہدایت فرمائی جیسا کہ پہلے امام صادق کا امیرالمومنین کے نام والا قصہ بیان کیا گیا کہ جس میں امام صادق نے ایک جزئی مسئلہ پر ایک کلی موضوع کوبیان کیا۔ان تمام اہداف اور مقاصد میں آئمہ(علیہم السلام)کا ایک مقصد یہ بھی تھا کہ عوام کو بتایا جائے کہ یہ حکومت غیر قانونی ہے۔یہ خلیفہ غاصب ہیں اور اس منصب کے حق دار نہیں ہیں۔

امام موسیٰ کاظم- کی زندگی میں بھی ہمیں ایسے واقعات کثرت سے ملتے ہیں جو کہ اسی مقصد کو حاصل کرنے کے سلسلے میں تھے۔مثال کے طور پر امام موسیٰ کاظم کا ایک ماننے والا جن کا نام صفوان تھا ان کے پاس اس زمانے میں اونٹ ہوا کرتے تھے جس کو وہ قافلے والوں کو کرائے پر دیتے تھے ایک دفعہ حج کے زمانے میں ہارون رشید نے ان اونٹوں کوکرائے پر لیا امام کوجب اسکی خبرملی تو امام نے صفوان کو بلایا اور پوچھا کہ کیا تم نے اپنے اونٹ ہارون رشید کو کرائے پر دئیے ہیں صفوان نے کہا جی مولا۔

امام نے فرمایا کہ پھر تو ضرور تمہاری یہ دعا ہوگی کہ جب تک اونٹوں کا کرایہ نہ مل جائے ہارون رشید اور اس کے دربار والے زندہ رہیں؟ صفوان نے جواب دیا جی مولا۔

امام- نے فرمایا:

"جو بھی ان کی بقاء کی دعا کرے گا وہ ان میں سے ہے اور جو ان میں سے ہے اسکا ٹھکانہ جہنم ہے"

صفوان نے جب یہ سنا تو چہرہ شرم سے سرخ ہوگیا توبہ کی اور اپنے اونٹ کسی کو بیچ دئیے

ہارون رشید کوجب اس کی خبرملی تو ہارون نے کہا کہ اگر صفوان سے پرانی دوستی نہ ہوتی تو اس کو پھانسی پر لٹکا دیتا۔(وسائل الشیعہ جلد ۱۲ صفحہ ۱۳۱ ۔ ۱۳۲)

اسی کے ذیل میں امام صادق اور امام کاظم- کا ایک واقعہ ذکر کروں گا اور پھر جو چیز مقدمہ کے طور پر عرض کی گئی اس سے متعلق کچھ نتیجہ اخذ کریں گے۔

ایران کے شہر کا گورنر نجاشی تھا جو کہ شیعان اہل بیت میں سے تھا ایک دفعہ خلیفہ کے ظلم وستم سے تنگ آکر اور پریشان ہوکر امام صادق- کو خط لکھا اور اس میں حکومت کے ظلم وستم اورخلیفہ کی زیادتیوں کے بارے میں لکھا اور آخر میں امام سے درخواست کی کہ:

"میں یہ گورنری چھوڑنا چاہتا ہو ں کیونکہ ڈرتاہوں کہ میری آخرت کا کیا ہوگا آپ مجھ کو اجازت دیجئے کہ میں اس مقام کو چھوڑدوں"

امام- نے جواب میں تحریر فرمایا کہ:

تمہارا خط ملنے سے مجھے خوشی بھی ہوئی اور میں پریشان بھی ہوا خوشی اس وجہ سے ہوئی کہ میں نے اپنے آپ سے کہا کہ:

"خدا سے امیدوار ہوں کہ خدا تمہارے ذریعے سے آل محمدکے بے آسرالوگوں کوپناہ دے آل محمد کے بے بس لوگوں کو تمہارے ذریعے سے عزت دے آل محمد کے غریب لوگوں کو تمہارے ذریعے سے غنی کرے، ضعیف لوگوں کو قوی کرے اور دشمن کی آگ کو ان کی نسبت تمہارے ذریعے سے کم کرے"

میری پریشانی کا سبب یہ کہ:

"سب سے چھوٹی چیز جس کی وجہ سے میں پریشان ہو ں وہ یہ ہے کہ خدا نہ کرے کہ تم ہمارے دوستوں میں سے کسی سے بھی برا سلوک کرو اور اسکے نتیجہ میں خطیرہ القدس کی خوشبو سے بھی محروم ہوجاو"(وسائل الشیعہ جلد ۱۲ صفحہ ۱۵۲)

امام موسیٰ کاظم- کے ماننے والوں میں علی بن یقطین نامی ایک شخص تھا جو کہ خلیفہ کے دربار میں وزیرتھا ایک دفعہ خلیفہ کے ظلم وستم سے تنگ آکر امام موسیٰ کاظم- کو ایک خط لکھا کہ:

"خلیفہ کے ظلم وستم کی انتہا ہوچکی ہے میری برداشت سے باہرہے یہاں پر مجھے اپنا دم گھٹتا ہوا محسوس ہوتا ہے میں روز قیامت کے حساب وکتاب کے بارے میں سوچ کر اور پریشان ہوجاتا ہوں اگر آپ مجھے اجازت دیں تو میں یہاں سے فرار ہوجاوں اور کہیں چھپ جاوں۔"

امام موسیٰ کاظم- نے اسکے جواب میں تحریر فرمایا کہ:

"تم کو اجازت نہیں دوں گا کہ تم اس کام کو چھوڑدو جوکہ تم انکے دربار میں انجام دے رہے ہو بس خدا کو مت بھولنا"

(وسائل الشیعہ جلد ۱۲ صفحہ ۱۴۳)

اگر ہم پچھلے صفحوں پر ایک نظر ڈالیں تو ہم کو ایسے واقعات نظر آئیں گے کہ جس میں آئمہ(علیہم السلام)نے اپنے ماننے والوں کو خلفاء سے رابطہ برقرار کرنے پر سخت تنقید کا نشانہ بنایا تھا لیکن ان دو واقعات کی طرف نگاہ ڈالیں تو امام صادق- اور امام موسیٰ کاظم -گورنر اور وزیر کو اجازت نہیں دیتے کہ وہ حکومت چھوڑدیں وہ شخص جس نے اپنے اونٹ فقط کرائے پردے رکھے ہیں اس کواتنی مہلت بھی نہیں دیتے کہ وہ اپنے اونٹوں کا کرایہ لینے تک انتظار کرلے یا اگر کوئی کسی ذریعے سے وزیروں کے لئے کام کررہا ہے تو فرماتے ہیں کہ اسکی جگہ دوذج میں ہے آخر اسکا کیا سبب ہے؟آیا یہ دومخالف سوچیں ہیں؟ آیا یہ ایک دوسرے کے مخالف عمل ہیں؟ اگر نہیں تو پھر اسکا جواب کیا ہے؟

ان سوالوں کے جواب میں چند نکات بیان کروں گا جس کی بناء پر آئمہ اطہار(علیہم السلام) کے عمل میں یہ اختلافی چیزیں نظرآتی ہیں ان کی وجہ سے آئمہ(علیہم السلام)کے عمل میں کسی قسم کا کوئی تضادنہیں۔

وہ شخص جو کہ دربار میں یا حکومت کے ساتھ کام کررہاہے اسمیں مندرجہ ذیل صفات ہونی چاہئیں۔

۱ ۔ متقی اور پرہیز گارہونا۔

۲ ۔ ولایت آئمہ(علیہم السلام)پر ایمان ہونا۔

۳ ۔ غریب اور نادار لوگوں کی مدد کرنا۔

ٍ ۴ ۔ صاحبان ایمان کادفاع اور ان کی حفاظت کرنا۔

ٍ ۵ ۔ راز دار رہنا۔

اسی ضمن میں ایک اوراہم نکتہ کی طرف اشارہ کرتا چلوں اور ایک اورواقعہ حضرت امام موسیٰ کاظم- کی زندگی کے بارے میں بیان کروں ۔

خلفاء بنی عباس کی تاریخ کے اندر ہمیں کچھ ایسے خلفاء بھی ملتے ہیں جو بڑے نرم دل تھے، اور انہوں نے جو مال ان سے پہلے والے خلفاء نے غصب کیا تھا وہ واپس کردیا تھا، من جملہ ان میں فدک بھی تھا جو کہ انہوں نے واپس کرنے کی حامی بھری اس سلسلے میں واقعہ بعد میں بیان کروں گا۔ جس نکتہ کی طرف آپکی توجہ دلانا چاہتا ہوں وہ یہ نہیں ہے بلکہ وہ یہ کہ ان خلفاء کی نرمی اس وجہ سے نہیں تھی کہ وہ آئمہ اطہار(علیہم السلام) سے محبت کرتے تھے بلکہ پے درپے ظالم حکمرانوں کی وجہ سے عوام کے اندر غصہ بھرچکا تھا اور مختلف جگہوں سے حکومت کے خلاف تحریکیں شروع ہوگئی تھیں ان تحریکوں اور ان مخالفتوں کود بانے کے لئے خود حکومت کے مشیر ایسے خلیفہ کو چنتے تھے جو کہ کم ظلم کرے اور لوگوں کے غصب شدہ حقوق ان کو واپس دے دے،’اور یہی افراد جب دیکھتے تھے کہ عوام کا غصہ کم ہوگیا تو خود ہی اس خلیفہ کو زہر دے کرماردیتے تھے۔

مہدی عباسی(بنی عباس کا تیسرا خلیفہ)نے اپنے آباء واجداد کے گناہ پرپردہ ڈالنے کیلئے اور آزادی کی تحریکوں کو ختم کرنے کے لئے تخت پر بیٹھنے کے بعدعام اعلان کیا کہ اگر کسی کا حق میری گردن پر ہے وہ آکر اسکا مطالبہ کرے تو اسکا حق اس کو واپس لوٹادیا جائیگا۔

امام موسیٰ کاظم- نے جب یہ اعلان سنا تو مہدی عباسی کے پاس گئے اس وقت مہدی عباسی لوگوں کے حقوق ان کو واپس کرنے میں مشغول تھا۔

امام- نے اس کی طرف دیکھتے ہوئے فرمایا:

"کیا ہمارے چھنے ہوئے حقوق ہم کو واپس نہیں دیئے جائیں گے؟

مہدی عباسی نے کہا: آپ کے حقوق کون سے ہیں ۔

امام- نے جواب میں فرمایا کہ "فدک"

مہدی نے کہا کہ فدک کی حدود معین کر دیں تو میں فدک آپ کو واپس پلٹا دوں گا۔

امام موسیٰ کاظم- نے اس کے جواب میں فرمایا :

" فدک کی پہلی حدا حد کا پہاڑ ہے اس کی دوسری حد عریش مصر ہے اس کی تیسری حد خزر کے ساحل تک ہے اور اس کی چوتھی حد عراق اور شام ہے۔ (یعنی تمام حکومت اسلامی) "

مہدی عباسی نے تعجب سے پوچھا کہ یہ فدک کی حدود ہیں!

امام کاظم- نے فرمایا :ہاں

یہ سن کر مہدی عباسی اس قدر غصہ میں آیا کہ غصہ کے آثار اس کے چہرے سے عیاں تھے کیونکہ امام موسیٰ کا ظم- اس جواب کے ذریعے سے اس کو سمجھانا چاہتے تھے کہ حکومت اسلامی کی باگ ڈور ہمارے ہاتھ میں ہو نی چاہیے مہدی عباسی وہاں سے اٹھ کر جانے لگا اور زیر لب کہہ رہا تھا کہ یہ حدیں بہت زیادہ ہیں اس کے بارے میں کچھ سوچنا پڑے گا۔ (بحار الانوار جلد ۴۸ صفحہ ۱۵۶)

امام رضا- اور سیاست

حضرت امام رضا- کا طرز زندگی بھی اپنے اجداد کی طرح تھا۔ آپ-نے بھی اپنی تمام زندگی ظالموں کے خلاف جہاد میں گزاری ، اور ان میں بنی عباس کے خلفاء سرفہرست تھے کہ جن کی خلافت کو آپ- نے کبھی بھی قانونی حیثیت نہیں دی۔

آپ- کے ایک صحابی سلیمان جعفری نے کہا کہ میں امام-کی خدمت میں حاضر ہوا اور سوال کیا کہ مامون کی حکومت سے تعلقات کے بارے میں آپ- کا نظریہ کیا ہے؟

حضرت امام رضا- نے جواب میں فرمایا:

"ان کی طرف عمداً اور جان بوجھ کر توجہ دینا گناہ کبیرہ میں سے ہے اور اس کی سزا آتش دوزخ ہی"

وسائل الشیعہ جلد ۱۲ صفحہ ۱۳۸ بحار الانوار جلد ۷۵ صفحہ ۳۷۴

کیونکہ امام رضا- نے ولی عہدی کو قبول کر لیا تھا اس لئے بعض افراد کے ذہنوں میں یہ سوال پیدا ہو تاتھا لیکن سوال یہ ہے کہ حضرت امام رضا- نے کیوں ولی عہدی کو قبول کیا؟

اسلامی سلطنت میں بڑھتی ہوئی اسلامی تحریکوں کو دیکھ کر مامون کو یہ احساس ہونے لگا تھا کہ اب حکومت کو خطرہ لاحق ہے ، اور اس کی سب سے بڑی وجہ یہ تھی کہ حضرت امام رضا- مدینہ میں تھے اور آپ- کا رابطہ عام لوگوں سے مضبوط تھا مامون نے اس رابطے کو توڑنے کے لئے اور آپ- کو زیر نگرانی رکھنے کے لئے ایک چال چلی ۔

خراسان سے مدینہ خط بھیجا کہ میں حکومت کے تمام امور آپ- کو سونپنا چاہتا ہوں اس لئے آپ- خراسان تشریف لے آئیے ۔

مدینہ کے گورنر نے حالات کو کچھ اس طرح سے بنایا کہ امام- کو اپنی مرضی کے بغیر مدینہ چھوڑنا پڑا(البتہ تمام آئمہ اطہار- کے لئے مدینہ چھوڑنا بہت مشکل ہو تا تھا کیونکہ وہاں پر رسول خدا(صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم) اور حضرت زہرا(علیہ السلام) کی مطہر اور منور قبریں ہیں )۔

جب حضرت امام رضا- مامون کے پاس پہنچے تو مامون نے آپ- کو خلافت کی پیشکش کی۔ آپ- نے بڑی سختی سے اس کو رد کر دیا تقریباًدو ہفتہ تک اس گفتگو کا سلسلہ جاری رہا ایک دن مامون نے کہا کہ میں خلافت سے استعفاء دینا چاہتا ہوں اور خلافت کے امور آپ- کے ہاتھ میں سونپنا چاہتا ہوں ۔

امام- نے اس کے جواب میں فرمایا:

"اگر یہ خلافت تمہاری ہے اور خدا نے اس کو تمہارے لئے قرار دیا ہے تو تمہارے لئے جائز نہیں ہے کہ جو لباس خدا نے تمہارے لئے سیا ہے تم اسے دوسرے کو پہنا دو اور اگر خلافت تمہاری چیز نہیں ہے توجائز نہیں ہے کہ جو چیز تمہاری نہیں ہے اس کو مجھے دے دو۔عیون اخبار الرضا جلد ۲ صفحہ ۱۳۹ ، ۱۴۰

مامون کا زور بڑھتا گیا اور آپ- کا انکار اپنی جگہ پر رہا مامون آپ کا انکار دیکھ کر کچھ نرم ہوا اور آپ- کو جانشینی کی پیشکش کی۔ آپ- نے اس کو بھی قبول کر نے سے انکار کر دیا مامون نے بہت زور دیا آخر کار نوبت یہاں تک پہنچی کہ اس گستاخ نے کہا کہ اگر آپ- نے جانشینی قبول نہیں کی تو میں آپ- کو قتل کر دوں گا۔

امام- نے اس کے جواب میں فرمایا کہ:

خدا نے مجھ کو منع کیا ہے کہ میں اپنے آپ کو ہلاکت میں ڈالوں اور اب جب کہ تم زبردستی کر رہے ہو تو میں اپنی شرائط کے ساتھ جانشینی کو قبول کروں گا:

۱ ۔ کسی کو کسی کے مقام سے ہٹاؤں گا نہیں اور کسی کو کسی کے مقام پر فائز نہیں کروں گا۔

۲ ۔ فتویٰ نہیں دوں گا۔

۳ ۔ قضاوت نہیں کروں گا۔

۴ ۔ وہ چیز جو کہ قائم ہے اس کو تبدیل نہیں کروں گا۔

(مناقب آل ابیطالب- جلد ۴ صفحہ ۳۶۳)

یہ شرائط اس بات کی مکمل نشاندہی کر رہی ہیں کہ امام- نے مامون کی سیاست کو سمجھتے ہوئے اس کا جواب دیا مامون یہ چاہتا تھا کہ حضرت امام رضا- کو حکومت میں لاکر یہ ثابت کر دے عام مسلمان کے لئے کہ میری حکومت قانونی ہے اور شرعی ہے لیکن امام- نے اس کے مقابلے میں اپنی خاص روش اختیار کی اور یہ بات سمجھا دی کہ میرا مامون کی ظالم حکومت سے کوئی رابطہ نہیں ہے اور جانشینی فقط ایک عنوان کی حیثیت رکھتی ہے۔

امام- نے اپنی روش کے ذریعے سے دو چیزوں کی وضاحت کی۔

ٍ ۱ ۔ امام- مامون کی حکومت سے راضی نہیں تھے۔

۲ ۔ جانشینی کو قبول کر نا ظاہری تھا کیونکہ امام- کی نظر میں آپ کا زندہ رہنا معاشرے کے لئے ضروری تھا اور اس زمانے کے واقعات اس بات کی نشاندہی کرتے ہیں امام- نے یہ بات صریحاً بیان کر دی تھی کہ میں تم سے پہلے دنیا سے چلا جاؤں گا (یعنی مجھے جانشین بنا نا بے معنی ہی)امام- نے جانشینی کو قبول کر نے کے بعد محروم اور نادار فقراء اور مساکین کی تاحد امکان مدد کی اور ان کے حقوق ان کو دلوائے۔

اپنی مفصل نشستوں میں شیعہ مذہب کی حقانیت کو ثابت کیا اور تشیع کے اصولوں کو جو کہ دراصل خالص اسلام کے اصول ہیں روشن اور واضح کیا اور ان کو پھیلایا جس کی وجہ سے شیعت کو عروج ملا اور بہت سے علاقوں میں شیعت پھیل گئی یہی مسائل تھے کہ جو آگے چل کر اس بات کا سبب بنے کے آپ- کو زہر دے کر شہید کر دیا گیا۔

ان تمام شرائط کے با وجود امام- نے مامون کی سیاست کو سمجھا اور اس کو موقعہ پر ختم کر دیا اور اس کے مقابل اپنے آپ- کوجھکا یا نہیں ، لیکن اگر امام- ان تمام چالاکیوں کے سامنے سادگی سے بیٹھے رہتے اور سیاسی مسائل کو سمجھتے تو شاید وہ واقعات پیش نہ آتے جو کہ تاریخ میں ثبت ہوئے۔

ان تفصیلات کے ذیل میں ایک واقعہ بیان کر تا چلوں کہ کس طرح سے امام رضا- نے مامون کی مخالفت کی ہے امام- کو مدینہ اور حجاز سے یہ خبر دی گئی کہ وہاں پر مسلمانوں کی حالت بہت خراب ہے اور وہاں کے حکمرانوں نے بھی عوام پر ظلم کے پہاڑ توڑ دیئے ہیں۔

ایک دن مامون ہاتھ میں لمبا چوڑا سا خط لئے امام- کے پاس آیا اور اس خط کو پڑھا اس میں کابل کے اطراف کے کچھ علاقوں کی فتح کی خبر دی گئی تھی جب خط ختم ہو گیا تو امام- نے مامون سے پوچھا کہ:

"کیا تم مشرک اور کافر قوموں کی کچھ زمین کو فتح کرنے کی وجہ سے خوش ہو؟"

مامون نے تعجب سے پوچھا آیا ان شہروں کی فتح خوشی کی بات نہیں ہے؟

امام- نے اس کے جواب میں فرمایا:

"امت محمد کے سلسلے میں خدا کے فرمان کی مخالفت سے پرہیز کرواور اسی طرح سے قیادت کے سلسلے میں بھی جو کہ تمہارے ہاتھ میں ہے کیونکہ تم نے مسلمانوں کے امور کو تباہ و برباد کر دیا ہے اور عوام پر ایسے حکمرانوں کو مسلط کر دیا ہے جو کہ خدا کے فرمان کے خلاف کام کر تے ہیں اور تم یہاں پر بیٹھے ہوئے ہو اور مرکز وحی کو چھوڑ دیا ہے اور وہاں کے مظلوم عوام کی فکر میں نہیں ہو"

(عیون اخبار الرضا ج ۲ صفحہ ۱۵۹،۱۶۰)

یہاں پر امام- نے مامون کو مبارک باد دینے کے بجائے اس کے نمائندوں کی بے عدالتی پر اس کو ڈانٹا اور مصلح کہنے کی بجائے ا س کوفاسد کہا۔

آئمہ اطہار (علیہم السلام) نے اپنے اصولوں پر کبھی سمجھوتا نہیں کیا کسی بھی زمانہ میں کسی بھی صورت حال میں ۔ آئمہ(علیہم السلام) کے ان ہی اصولوں میں مظلوم عوام کی حمایت تھی اور ان کی مدد کر نا تھی کبھی راتوں کو روٹیوں کی بوری کمر پر رکھ کر کبھی اندھے اور بوڑھے شخص کو کھانا کھلا کر ، کبھی جنگ کر کے اور کبھی درس و بحث کی محفلوں میں بیٹھ کر ، اس اصول کی حفاظت تمام آئمہ اطہار (علیہم السلام) نے اپنے حالات کے مطابق کی ۔ امام رضا- نے بھی گو کہ سیاسی صورتحال سے اس قدر مضبوط نہ تھے مگر اس کے با وجود بھی کس قاطعیت اور یقین کے ساتھ آپ- نے ظالم حکمرانوں کے سامنے مظلوم مسلمانوں کی حمایت کی۔

ایک دفعہ ایک زاہد اور متقی شخص نے چوری کی اور وہ پکڑا گیا جب اس کو مامون کے دربار میں لایا گیا تو اس نے مامون سے بحث مباحثہ شروع کر دیا بحث نے طول پکڑایہاں تک کہ آخر میں مامون نے امام- سے رائے معلوم کی امام- نے کمال صراحت کے ساتھ مامون کے جواب میں فرمایا کہ:

"خدا نے حضرت محمد(صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم)سے کہا کہ "فللّٰہ الحجة البالغہ" "خدا کے لئے دلیل قاطع ہے(سورہء انعام : ۱۴۹) اور یہ حجت وہی ہے کہ جاہل اپنے جہل کے باوجود اس کو سمجھ لیتا ہے اور عالم اپنے علم کے ذریعے سے اس تک پہنچتا ہے اور دنیا اور آخرت حجت اور دلیل کی بناء پر ہے اور یہ مرد اس کے پاس بھی دلیل ہے"

یہ سننا تھا کہ مامون غصہ میں آگیا لیکن کیونکہ دربار میں تھا اس لئے اس زاہد کو رہا کر دیا اور لوگوں سے کنارہ گیری اختیار کر لی اور امام رضا- سے بھی ملاقاتیں بند کر دیں یہی سبب تھا کہ اس نے امام رضا- کو شہید کر وا دیا اس کے علاوہ امام- کے بہت سے اصحاب کو بھی شہید کر دیا۔ (عیون اخبار الرضا جلد ۲ صفحہ ۲۳۷ ، ۲۳۸)

آئمہ اطہار (علیہم السلام)کی عملی زندگی کو اگر ہم دقت کی نظر سے دیکھیں یا کم از کم دیکھ ہی لیں تو پھر ہمارے لئے یہ سوال باقی نہ رہے کہ ہم کس شخصیت کو اپنے لئے معیار بنائیں کس روش کو اپنائیں کس تنظیم کو اختیار کریں ہمارے لئے راستہ روشن ہے صرف اس بات کی دیر ہے کہ ہم اس پر اپنی عملی زندگی میں عمل کریں ۔ اور سیرت آئمہ(علیہم السلام) کو یہ کہہ کر نہ چھوڑ دیں کہ ہم تو اس قابل نہیں اور یہ عمل تو فقط آئمہ (علیہم السلام)ہی انجام دے سکتے تھے اگر ہم یہ سوچ کر آئمہ(علیہم السلام) کی زندگی کو چھوڑ دیں تو میرے خیال میں یہ سب سے بڑا ظلم ہو گا جو کہ ہم ان کے حق میں کریں گے۔


4

5

6

7

8

9

10

11

12

13

14

15

16

17

18

19

20

21

22

23

24

25

26

27

28

29

30

31

32

33

34

35

36