110 سوال اور جواب

110 سوال اور جواب5%

110 سوال اور جواب مؤلف:
زمرہ جات: مناظرے

۱۱۰ سوال اور جواب
  • ابتداء
  • پچھلا
  • 126 /
  • اگلا
  • آخر
  •  
  • ڈاؤنلوڈ HTML
  • ڈاؤنلوڈ Word
  • ڈاؤنلوڈ PDF
  • مشاہدے: 140456 / ڈاؤنلوڈ: 6359
سائز سائز سائز
110 سوال اور جواب

۱۱۰ سوال اور جواب

مؤلف:
اردو

1

2

۳۷ ۔کیا انبیاء میں بھول چوک کا امکان ان کی عصمت سے ہم آہنگ ہے؟

سورہ کہف کی مختلف آیات میں یہ بیان ہوا ہے کہ جناب موسیٰ علیہ السلام بھول گئے، ایک جگہ پر ارشاد ہوتا ہے کہ جس وقت وہ دونوں (جناب موسیٰ اور ان کے ہم سفر دوست ) دو دریا کے سنگم پر پہنچے تواپنی مچھلی بھول گئے، اور وہ مچھلی عجیب طرح سے دریا میںچلنے لگی!۔

( فَلَمَّا بَلَغَا مَجْمَعَ بَیْنِهِمَا نَسِیَا حُوتَهُمَا فَاتَّخَذَ سَبِیلَهُ فِی الْبَحْرِ ) (۱)

پھر جب دونوں دو دریا کے سنگم تک پہنچ گئے تو اپنی مچھلی بھول گئے اور اس نے سمندر میں اپنا راستہ نکال لیا“۔

لہٰذا دونوں ہی بھول گئے۔

اور دو آیت کے بعد جناب موسیٰ علیہ السلام کے دوست کی زبانی نقل ہوا ہے :

( فَإِنِّی نَسِیتُ الْحُوتَ وَمَا اٴَنْسَانِیهُ إِلاَّ الشَّیْطَانُ اٴَنْ اٴَذْکُرَهُ ) (۲)

”(اس جوان نے کہا کہ کیا آپ نے یہ دیکھا ہے کہ جب ہم پتھر کے پاس ٹھہرے تھے) تو میں نے مچھلی وہیں چھوڑ دی تھی اور شیطان نے اس کے ذکر کرنے سے بھی غافل کردیا تھا“۔

اگر جناب موسیٰ علیہ السلام کے دوست یوشع بن نون تھے (جیسا کہ مفسرین کے درمیان مشہور ہے) حالانکہ وہ بھی پیغمبر تھے تو معلوم ہوتا ہے کہ انبیاء علیہم السلام پر بھول طاری ہوسکتی ہے۔

نیز چند آیتوں کے بعد جناب موسیٰ علیہ السلام کی زبانی نقل ہوا ہے کہ جب ان کی ملاقات اس عظیم بندہ خدا (جناب خضر) سے ہوئی تو ان سے وعدہ کیا کہ ان کے اسرار آمیز اعمال کے بارے میں کوئی سوال نہیں کریں گے، یہاں تک کہ وہ خود اس کے بارے میں وضاحت کریں، لیکن جناب موسیٰ علیہ السلام پہلی مرتبہ بھول گئے، کیونکہ جب جناب خضر اس صحیح و سالم کشتی میں سوراخ کرنے لگے تو جناب موسیٰ نے اعتراض کردیا کہ آپ ایسا کیوں کررہے ہیں؟! تو اس وقت جناب خضر نے ان کاکیاہوا وعدہ یاد دلایا جناب موسیٰ علیہ السلام نے کہا:( قَالَ لاَتُؤَاخِذْنِی بِمَا نَسِیتُ ) (۳) ”موسیٰ نے کہا کہ خیر جو فروگزاشت ہوگئی اس کا مواخذہ نہ کریں“۔

اور یہی بات دوسری اور تیسری مرتبہ بھی تکرار ہوئی۔ کیا ان تمام مذکورہ آیات کے پیش نظر یہ نتیجہ نہیں نکلتا ہے کہ انبیاء علیہم السلام فراموشی اور بھول طاری ہوسکتی ہے؟ اور کیا بھول چوک عصمت کے منافی نہیں ہے؟

اس سوال کے جواب میں مفسرین نے مختلف راہ حل بیان کی ہیں، بعض مفسرین کہتے ہیں: ”نسیان“ (بھول) کسی چیز کے ترک کرنے کے معنی میں ہے اگرچہ اس کو بھلایا بھی نہ جائے، جیسا کہ جناب آدم علیہ السلام کے واقعہ میں پڑھتے ہیں:

( وَلَقَدْ عَهِدْنَا إِلَی آدَمَ مِنْ قَبْلُ فَنَسِیَ ) (۴)

”اور ہم نے آدم سے اس سے پہلے عہدلیا مگر انھوں نے اسے ترک کردیا“۔

یہ بات مسلم ہے کہ جناب آدم علیہ السلام ممنوعہ درخت کا پھل کھانے کے بارے میں عہد الٰہی کو نہیں بھولے لیکن چونکہ اس کی نسبت بے اعتنائی کی لہٰذا ”نسیان“ (بھول) کا لفظ استعمال ہوا ہے۔

بعض مفسرین کہتے ہیں کہ ”بھولنے والے“ در حقیقت جناب موسیٰ علیہ السلام کے دوست تھے نہ خود جناب موسیٰ، اور ان کے بارے میں یہ معلوم نہیں ہے کہ وہ نبی تھے یا نہیں، کم از کم قرآن مجید کی رُو سے یہ بات ثابت نہیں ہے، اس کے علاوہ انھیں آیات میں بیان ہوا ہے کہ جناب موسیٰ علیہ السلام کے دوست نے مچھلی کو دریا میں گرنے، اس کے زندہ ہونے اور اس کے چلنے کو دیکھا، انھوں نے سوچا کہ جناب موسیٰ علیہ السلام سے اس ماجرے کو بیان کرے لیکن وہ بھول گئے، لہٰذا یہاں پر بھولنے والے جناب مو سیٰ کے ساتھی ہی تھے، کیونکہ صرف انھوں نے اس واقعہ کو دیکھا تھا، اور اگر آیت میں ”نسیا“ کا لفظ آیا ہے جس میں دونوں کی طرف بھول کی نسبت دی گئی ہے تو یہ نسبت ایسی ہی ہے جیسے مزدور کے کام کو ٹھیکیدار کی طرف نسبت دیتے ہیں اور ایسا بہت رائج ہے ،(مثلاً عمارت میں کام کرنے والے مزدور ہوتے ہیں لیکن کہا جاتا ہے کہ فلاں انجینئر نے یہ عمارت بنائی ہے وغیرہ وغیرہ)

ممکن ہے کوئی یہ کہے :یہ کیسے ہوسکتا ہے کہ انسان اتنے اہم مسئلہ (یعنی مچھلی کا زندہ ہوجانے) کو بھول جائے، تو اس کے جواب میں عرض ہے کہ جناب موسیٰ علیہ السلام کے دوست نے اس سے اہم معجزات دیکھے تھے، اس کے علاوہ اس عجیب و غریب سفر میں اس سے کہیں زیادہ اہم مسائل کی جستجو کی جارہی تھی، اسی وجہ سے اس واقعہ کوبھول جانا جائے تعجب نہیں ہے۔

اور جیسا کہ بھلانے کی نسبت شیطان کی طرف دی گئی ہے،تو اس کی وجہ ممکن ہے یہ ہو مچھلی زندہ ہونے کا واقعہ اس عالم (خضر) کے ملنے سے تعلق رکھتا ہو جن سے جناب موسیٰ علیہ السلام کو علم حاصل کرنا تھا، اور چونکہ شیطان کا کام بہکانا ہے جو ہمیشہ یہی چاہتا ہے کہ کوئی بھی اپنے پاک و پاکیزہ مقصد تک نہ پہنچ سکے، یا دیر سے پہنچے، لہٰذا اس نے جناب موسیٰ کے دوست کو بھلادیا ہو۔

پیغمبر اکرم (ص) سے بعض احادیث میں بیان ہوا ہے کہ جس وقت مچھلی زندہ ہوکر دریا میں کود پڑی، اور پانی میں چلنے لگی ، اس وقت جناب موسیٰ علیہ السلام سورہے تھے، اور ان کے دوست (جو اس واقعہ کو دیکھ رہے تھے) انھوں نے جناب موسیٰ کو بیدار کر نا نہیں چا ہا ،تا کہ ان سے واقعہ بیان کر ے لیکن جب جناب موسیٰ بیدار ہوگئے تو وہ بھول گئے، اور جناب موسیٰ علیہ السلام سے نہ بتاسکے، جس کی بنا پر ایک روز و شب اپنے راستے پر چلتے رہے، اس کے بعد ان کے دوست کو یاد آیا تو انھوں نے جناب موسیٰ علیہ السلام سے وہ واقعہ بیان کیا، تو انھیں مجبوراً اسی جگہ آنا پڑا کہ جہاں پر مچھلی پانی میں گری تھی۔(۵)

اور بعض مفسرین کا کہنا ہے کہ انبیاء علیہم السلام بھول چوک سے معصوم ہوتے ہیں، لیکن وہ بھول چوک جو لوگوں کی ہدایت سے متعلق ہو، لیکن ایسی بھول چوک جو ان کے روز مرہ کے ذاتی کاموں سے متعلق ہو اور جو نبوت، تعلیم و تربیت اور تبلیغ سے متعلق نہ ہو ، تو ایسی بھول ان کی عصمت کے لئے منافات نہیں رکھتی، اور مذکورہ آیات میں جو بھول بیان ہوئی ہے وہ اسی طرح کی ہے۔(۶)

____________________

(۱)سورہ کہف ، آیت۶۱

(۲) سورہ کہف ، آیت ۶۳

(۳) سورہ کہف ، آیت۷۳ (۴) سورہ طہ ، آیت۱۱۵

(۵) تفسیر مراغی ،جلد ۱۵، صفحہ ۱۷۴

(۶) تفسیر پیام قرآن ، جلد ۷، صفحہ ۱۲۶

۳۸ ۔ پیغمبر اکرم (ص) کی متعدد بیویوں کا فلسفہ کیا ہے؟

پیغمبر اکرم (ص) کا مختلف اور متعدد بیویوں سے عقد کرنا بہت سی اجتماعی اور سیاسی مشکلات کا حل تھا۔

کیونکہ ہم جانتے ہیں کہ جس وقت پیغمبر اکرم (ص) نے اعلان رسالت کیا اور خدا کی وحدانیت کی طرف دعوت دی تو اس وقت آپ تن تنہا تھے، اور ایک طولانی مدت تک چند لوگوں کے علاوہ کوئی ایمان نہیں لایا تھا، آنحضرت (ص) نے اپنے زمانہ کے تمام خرافاتی عقائد کے خلاف قیام کیا تھا، اور سبھی کے لئے اعلان جنگ کررکھا تھا، جس کی وجہ سے تمام اقوام اور قبائل آپ سے مقابلہ کے لئے تیارتھے۔

لہٰذا آنحضرت نے ان کے ناپاک اتحاد کو ختم کرنے کے لئے ہر ممکن راستہ اختیار کیامختلف قبائل میں شادی کے ذریعہ رشتہ داری قائم کرنا ان میں سے ایک راستہ تھا، کیونکہ اس وقت کے جاہل عرب کے نزدیک سب سے مستحکم رابطہ یہی رشتہ داری تھی، اور قبیلہ کے داماد کو اپنا مانتے تھے، اس کا دفاع کرتے تھے، نیز اس کو تنہا چھوڑ دینا گناہ سمجھتے تھے۔

بہت سے قرائن اس بات کی نشاندہی کرتے ہیں کہ پیغمبر اکرم (ص) کی شادیاں بہت سے موارد میں سیاسی پہلو رکھتی تھیں۔

ان میں سے بعض شادی( جیسے زینب سے شادی ) زمانہ جاہلیت کی غلط رسم و رواج کو ختم کرنے کے لئے تھی، جس کی تفصیل سورہ احزاب آیت نمبر ۳۷ میں بیان ہوئی ہے۔

ان میں سے بعض شادی کی وجہ یہ تھی کہ کچھ لوگوں یا چند متعصب اور ہٹ دھرم قبیلوں کے دلوں سے دشمنی اور عداوت کو دور کرکے ان کے دلوں میں محبت کا جام بھردیں۔

کیونکہ یہ بات واضح ہے کہ جس نے اپنی جوانی اور پورے شباب ( ۲۵ سال کی عمر،) میں ایک بیوہ سے شادی کی ہو اور ۵۳ سال کی عمر تک اسی ایک بیوہ عورت کے ساتھ زندگی گزار ی ہو، اور اس طرح اس نے اپنی زندگی کے دن گزار دئے ہوں اور پیری کا عالم آگیا ہو، تو اگر اس موقع پر مختلف قبائل کی عورتوں سے عقد کریں تو پھر اس کا کوئی نہ کوئی فلسفہ ضرور ہے، اور جنسی رجحان سے اس کا کوئی تعلق نہیں ہے، کیونکہ اس جاہلیت کے زمانہ میں چند شادیاں کرلینا ایک عام بات تھی یہاں تک کبھی کبھی پہلی بیوی اپنے شوہر کے لئے دوسری بیوی کا رشتہ لے کر جایا کرتی تھی اور شادیوں کی تعداد میں کسی طرح کی کوئی حد معین نہیں تھی، پیغمبر اکرم (ص) کے لئے جوانی کے عالم میں متعدد شادیاں کرنے میں نہ تو معاشرہ کے لحاظ سے کوئی ممانعت تھی اور نہ مالی اعتبار سے کوئی مشکل تھی، اور نہ ہی اس کو کسی طرح کا کوئی عیب سمجھا جاتا ۔

تعجب کی بات تو یہ ہے کہ تاریخ نے بیان کیا ہے کہ پیغمبر اکرم (ص) نے صرف ایک ”باکرہ“ عورت سے نکاح کیا ہے اور وہ عائشہ تھی، اس کے علاوہ آپ کی تمام بیویاں بیوہ تھیں جو فطری طور پر جنسی تحریک کے لئے کوئی خاص رغبت نہیں رکھتیں۔(۱)

یہاں تک کہ بعض تواریخ میں بیان ہوا ہے کہ پیغمبر اکرم (ص) نے متعدد عقد کئے ، اور صرف عقد خوانی کی رسم ادا کی ، اور ان کے ساتھ ہمبسترتک نہ ہوئے ، بلکہ بعض قبائل کی عورتوں سے صرف رشتہ کی حد تک قناعت کی۔(۲)

اور وہ لوگ اسی پر فخر و مباہات کیا کرتے تھے کہ ان کے قبیلہ کی عورت پیغمبر اکرم (ص) سے منسوب ہوگئی ہے، اور یہ افتخاران کو مل گیاہے، جس کی بنا پر اجتماعی طور پرپیغمبر اکرم (ص) سے رابطہ مستحکم تر ہوجاتا تھا اور آنحضرت (ص) کے دفاع کے لئے مصمم ہوجایا کرتے تھے۔

اس کے علاوہ یہ بات بھی مسلم ہے کہ پیغمبر اکرم (ص) (خدانخواستہ) عقیم نہیں تھے لیکن تاریخ نے بہت ہی کم آپ کی اولادبتا ئی ہے، جبکہ اگر یہ تمام شادیاں اور عقد ،جنسی شہوت کے لئے ہوتیں تو لامحالہ آپ کی اولاد کی تعداد بھی زیادہ ہوتی۔

یہ بات بھی قابل توجہ ہے کہ آنحضرت (ص) کی بعض بیویاں جیسے عائشہ کم سنی کے عالم میں آپ کی زوجیت میں آئی ہیں اور چند سال کے بعد واقعی طور پر ایک زوجہ قرار پائی ہیں، جو اس بات کا واضح ثبوت ہے کہ پیغمبر اکرم (ص) کا اس طرح کی لڑکی سے عقد کرنے کا مقصد جنسی شہوت نہیں تھا بلکہ ہدف اوراس سے وہی مقصد تھا جو اوپر بیان کیا گیا ہے۔

اگرچہ اسلام کے دشمنوں نے پیغمبر اکرم (ص) کی متعدد بیو یوں کو بہانہ بنا کر آپ کی شخصیت کو تنقید کا نشانہ بنایا ہے اور نہ جا نے کیسے کیسے جھوٹے افسانے گڑھ ڈالے ہیں، لیکن ان شادیوں کے وقت آنحضرت (ص) کی عمر کا زیادہ ہونا اور مختلف قبائل کی عورتوں کا بیوہ یا ضعیف العمر ہونا ایک طرف اور ان بیویوں کے قبائلی شرائط دوسری طرف، نیز مذکورہ قرائن کے پیش نظر حقیقت بالکل واضح ہوجاتی ہے ، اور دشمنوں کا راز فاش ہوجاتا ہے۔(۳)

____________________

(۱) (۲) بحار الانوار ، جلد ۲۲، صفحہ ۱۹۱و۱۹۲ (برّے صغیر کے علماء اس سے متفق نہیں ہیں، ان کی تحقیق یہ ہے کہ جناب خدیجہ باکرہ تھیں، اور آپ سے پہلے انھوں نے کسی دوسرے شخص سے شادی نہیں کی تھیمترجم)

(۳) تفسیر نمونہ ، جلد ۱۷، صفحہ ۳۸۱

۳۹۔ کیا قرآن مجید میں تحریف ہوئی ہے؟

شیعہ وسنی علماکے یہاں مشہور و معروف یہی ہے کہ قرآن مجید میں کوئی تحریف نہیں ہوئی ہے، اور مو جودہ قرآن کریم وہی قرآن ہے جو پیغمبر اکرم (ص) پر نازل ہوا ، اوراس میں ایک لفظ بھی کم و زیاد نہیں ہوا ہے۔

قدما اور متاخرین میں جن شیعہ علمانے اس حقیقت کی وضاحت کی ہے ان کے اسما درج ذیل ہیں:

۱۔ مرحوم شیخ طوسی جو ”شیخ الطائفہ“ کے نام سے مشہور ہیں، موصوف نے اپنی مشہور و معروف کتاب ”تبیان“ میں وضاحت اور تفصیل کے ساتھ بیان کیا ہے۔

۲۔ سید مرتضیٰ ، جو چوتھی صدی کے عظیم الشان عالم ہیں۔

۳۔ رئیس المحدثین مرحوم شیخ صدوق محمد بن علی بن بابویہ ، موصوف شیعہ عقیدہ بیان کرتے ہوئے فرماتے ہیں: ”ہمارا عقیدہ یہ ہے کہ قرآن مجید میں کسی طرح کی کوئی تحریف نہیں ہوئی ہے“۔

۴۔ جلیل القدر مفسرقرآن مرحوم علامہ طبرسی، جنھوں نے اپنی تفسیر (مجمع البیان) کے مقدمہ میں اس سلسلہ میں ایک واضح اور مفصل بحث کی ہے۔

۵۔ مرحوم کاشف الغطاء جو علمائے متاخرین میں عظیم مرتبہ رکھتے ہیں۔

۶۔ مرحوم محقق یزدی نے اپنی کتاب عروة الوثقیٰ میں قرآن میں تحریف نہ ہونے کے اقوال کو اکثر شیعہ مجتہدین سے نقل کیا ہے ۔

۷۔ نیز بہت سے جید علماجیسے ”شیخ مفید“ ، ”شیخ بہائی“، قاضی نور اللہ“ اور دوسرے شیعہ محققین نے اسی بات کو نقل کیا ہے کہ قرآن مجید میں کوئی تحریف نہیں ہوئی ہے۔

اہل سنت کے علمااور محققین کا بھی یہی عقیدہ ہے کہ قرآن کریم میں تحریف نہیں ہوئی ہے۔

اگرچہ بعض شیعہ اور سنی محدثین جو قرآن کریم کے بارے میں زیادہ معلومات نہیں رکھتے تھے، اس بات کے قائل ہوئے ہیں کہ قرآن کریم میں تحریف ہوئی ہے، لیکن دونوں مذہب کے عظیم علماکی روشن فکری کی بنا پر یہ عقیدہ باطل قرار دیا گیا اور اس کو بھُلادیا گیا ہے۔

یہاں تک کہ مرحوم سید مرتضیٰ ”المسائل الطرابلسیات“ کے جواب میں کہتے ہیں: ”قرآن کریم کی نقلِ صحت اتنی واضح اور روشن ہے جیسے دنیا کے مشہور و معروف شہروں کے بارے میں ہمیں اطلاع ہے، یا تاریخ کے مشہور و معروف واقعات معلوم ہیں“۔

مثال کے طور پر کیا کوئی مکہ اور مدینہ یا لندن اور پیرس جیسے مشہور و معروف شہروں کے وجود میں شک کرسکتا ہے؟ اگرچہ کسی انسان نے ان شہروں کو نزدیک سے نہ دیکھا ہو، یا انسان ایران پر مغلوں کے حملے ، یا فرانس کے عظیم انقلاب یا پہلی اور دوسری عالمی جنگ کا انکار کرسکتا ہے؟!

پس جیسے ان کا انکار اس لئے نہیں کر سکتے کہ یہ تمام واقعات تواتر کے ساتھ ہم نے سنے ہیں، توقرآن کریم کی آیات بھی اسی طرح ہیں ، جس کی تشریح ہم بعد میں بیان کریں گے۔

لہٰذا جو لو گ اپنے تعصب کے تحت شیعہ اہل سنت کے درمیان اختلاف پیدھا کرنے کے لئے تحریف قرآن کی نسبت شیعوں کی طرف دیتے ہیں تو وہ اس نظریہ کو باطل کرنے والے دلائل کیوں بیان نہیں کرتے جو خود شیعہ علماکی کتابوں میں موجود ہیں ؟!

کیا یہ بات جائے تعجب نہیں ہے کہ ”فخر الدین رازی“ جیسا شخص (جو ”شیعوں“ کی نسبت بہت زیادہ متعصب ہے) سورہ حجر کی آیت نمبر ۹ کے ذیل میں کہتا ہے کہ یہ :آیہ شریفہ( إِنَّا نَحْنُ نَزَّلْنَا الذِّکْرَ وَإِنَّا لَهُ لَحَافِظُونَ ) شیعوں کے عقیدہ کو باطل کرنے کے لئے کافی ہے ،جو قرآن مجید میں تحریف ( کمی یا زیادتی) کے قائل ہیں۔

تو ہم فخر رازی کے جواب میں کہتے ہیں: اگر ان کی مراد بزرگ شیعہ محققین ہیں تو ان میں سے کوئی بھی ایسا عقیدہ نہیں رکھتا ہے، اور اگران کی مرادبعض علما ء کا ضعیف قول ہے تو اس طرح کا نظریہ تو اہل سنت کے یہاں بھی پایا جاتا ہے، جس پر نہ اہل سنت توجہ کرتے ہیں اور نہ ہی شیعہ علماتوجہ کرتے ہیں۔

چنا نچہ مشہور و معروف محقق ”کاشف الغطاء“ اپنی کتاب ”کشف الغطاء“ میں فرماتے ہیں:

لارَیبَ اٴنَّهُ (اٴی القرآن) محفوظٌ مِنَ النُّقْصَانِ بحفظِ الملک الدَّیان کما دَلَّ علَیهِ صَریحُ القُرآنِ وَإجمَاع العلماء فِی کُلِّ زمان ولا عبرة بنادر(۱)

”اس میں کوئی شک نہیں ہے کہ قرآن مجید میں کسی بھی طرح کی کوئی تحریف نہیں ہوئی ہے، کیونکہ خداوندعالم اس کا محافظ ہے، جیسا کہ قرآن کریم اور ہر زمانہ کے علماکا اجماع اس بات کی وضاحت کرتا ہے اور شاذو نادر قول پر کوئی توجہ نہیں دی جاتی“۔

تاریخ اسلام میں ایسی بہت سی غلط نسبتیں موجود ہیں جو صرف تعصب کی وجہ سے دی گئی ہیں جبکہ ہم جانتے ہیں کہ ان میں سے بہت سی نسبتوں کی علت اور وجہ صرف اور صرف دشمنی تھی، اور بعض لوگ اس طرح کی چیزوں کو بہانہ بنا کر کوشش کرتے تھے کہ مسلمانوں کے درمیان اختلاف کر ڈالیں۔

اورنوبت یہاں تک پہنچی کہ حجاز کا مشہور و معروف مولف ”عبد اللہ علی قصیمی “ اپنی کتاب ”الصراع“ میں شیعوں کی مذمت کرتے ہوئے کہتا ہے:

”شیعہ ہمیشہ سے مسجد کے دشمن رہے ہیں! اور یہی وجہ ہے کہ اگر کوئی شیعہ علاقے میں شمال

سے جنوب تک اور مشرق سے مغرب تک دیکھے تو بہت ہی کم مسجدیں ملتی ہیں“ !!(۲)

ذرا دیکھے تو سہی ! کہ شیعہ علاقوں میں کس قدر مساجد موجود ہیں، شہر کی سڑکوں پر، گلیوں میں اوربازاروں میں بہت زیادہ مسجدیں ملتی ہیں، کہیں کہیں تو مسجدوں کی تعداد اتنی ہوتی ہے کہ بعض لوگ اعتراض کرنے لگتے ہیں کہ کافی ہے، ہمارے کانوں میں چاروں طرف سے اذانوں کی آوازیں آتی ہیں جن سے ہم پریشان ہیں، لیکن اس کے باوجود مذکورہ مولف اتنی وضاحت کے ساتھ یہ بات کہہ رہے ہیں جس پرہمیں ہنسی آتی ہے چونکہ ہم شیعہ علاقوں میں رہ رہے ہیں، لہٰذا فخر الدین رازی جیسے افراد مذکورہ نسبت دینے لگیں تو ہمیں کوئی تعجب نہیں ہونا چاہئے۔(۳)

____________________

(۱)تفسیر آلاء الرحمن صفحہ ۳۵

۲) موصوف کی عربی عبارت یہ ہے: ”والشّیعة هم اٴبداً اٴعدَاء المساجد ولهذا یقل اٴَن یشاهد الضارب فی طول بلادهم و عرضها مسجداً (الصراع ، جلد ۲، صفحہ ۲۳، علامہ امینی کی نقل کے مطابق الغدیر ، جلد ۳، صفحہ ۳۰۰)

(۳) تفسیر نمونہ ، جلد۱۱، صفحہ ۱۸

۴۰ ۔ قرآن کریم کس طرح معجزہ ہے؟

ہم پہلے قرآن کریم کی عظمت کے سلسلہ میں چند نامور افراد یہاں تک کہ ان لوگوں کے اقوال بھی نقل کریں گے کہ جن لوگوں پر قرآن کریم سے مقابلہ کرنے کا الزام بھی ہے :

۱ ۔ ابو العلاء معرّی (جس پر قرآن کریم سے مقابلہ کرنے کا الزام بھی ہے) کہتا ہے: اس بات پر سبھی لو گ متفق ہیں (چاہے وہ مسلمان ہوں یا غیر مسلمان) کہ حضرت محمد (ص) پر نازل ہونے والی کتاب نے لوگوں کی عقلوں کو مغلوب اور مبہوت کردیا ہے، اور ہر ایک اس کی مثل و مانند لانے سے قاصر ہے، اس کتاب کا طرز ِبیان عرب ماحول کے کسی بھی طرز بیان سے ذرہ برابر بھی مشابہت نہیں رکھتا ، نہ شعر سے مشابہ ہے، نہ خطابت سے، اور نہ کاہنوں کے مسجع سے مشابہ ہے،اس کتاب کی کشش اور اس کا امتیاز اس قدرعالی ہے کہ اگر اس کی ایک آیت دوسرے کے کلام میں موجود ہو تو اندھیری رات میں چمکتے ہوئے ستاروں کی طرح روشن ہوگی!“۔

۲ ۔ ولید بن مغیرہ مخزومی، ( جو شخص عرب میں حسن تدبیر کے نام سے شہرت رکھتا تھا)اور دور جاہلیت میں مشکلات کو حل کرنے کے لئے اس کی فکر اور تدبیر سے استفادہ کیا جاتا تھا، اسی وجہ سے اس کو ”ریحانہ قریش“ (یعنی قریش کا سب سے بہترین پھول) کہا جاتا تھا، یہ شخص پیغمبر اکرم (ص) سے سورہ غافر کی چند آیتوں کو سننے کے بعد قبیلہ ”بنی مخزوم“ کی ایک نشست میں اس طرح کہتا ہے:

” خدا کی قسم میں نے محمد ( (ص)) سے ایسا کلام سنا ہے جو نہ انسان کے کلام سے شباہت رکھتا ہے اور نہ پریوں کے کلام سے،”إنَّ لَهُ لحلاوة، و إِنَّ علیه لطلاوة و إنَّ اعلاه لمُثمر و إنَّ اٴسفله لمغدِق، و اٴنَّه یَعلو و لا یُعلی علیه“ (اس کے کلام کی ایک مخصوص چاشنی ہے، اس میں مخصوص خوبصورتی پائی جاتی ہے، اس کی شاخیں پُر ثمر ہیں اور اس کی جڑیں مضبوط ہیں، یہ وہ کلام ہے جو تمام چیزوں پر غالب ہے اور کوئی چیز اس پر غالب نہیں ہے۔)(۱)

۳ ۔ کارلائل۔ یہ انگلینڈ کا مورخ اور محقق ہے جو قرآن کے حوالہ سے کہتا ہے: ”اگر اس مقدس کتاب پر ایک نظر ڈالی جائے تو اس کے مضا مین بر جستہ حقائق اور موجودات کے اسراراس طرح موجزن ہیں جس سے قرآن مجید کی عظمت بہت زیادہ واضح ہوجاتی ہے، اور یہ خود ایک ایسی فضیلت ہے جو صرف اور صرف قرآن مجید سے مخصوص ہے، اور یہ چیز کسی دوسری علمی، سائنسی اور اقتصادی کتاب میں دیکھنے تک کو نہیں ملتی، اگرچہ بعض کتابوں کے پڑھنے سے انسان کے ذہن پر اثر ہوتا ہے لیکن قرآن کی تاثیر کا کوئی موازنہ نہیں ہے، لہٰذا ان باتوں کے پیش نظر یہ کہا جائے کہ قرآن کی ابتدائی خوبیاں اور بنیادی دستاویزات جن کا تعلق حقیقت، پاکیزہ احساسات، برجستہ عنوانات اور اس کے اہم مسائل و مضامین میں سے ہے ہر قسم کے شک و شبہ سے بالاتر ہیں، وہ فضائل جو تکمیل انسانیت اور سعادت بشری کا باعث ہیں اس میں ان کی انتہا ہے اور قرآن وضاحت کے ساتھ ان فضائل کی نشاندہی کرتا ہے۔(۲)

۴ ۔ جان ڈیون پورٹ: یہ کتاب ”عذر تقصیر بہ پیش گاہ محمد و قرآن“ کا مصنف ہے، قرآن کے بارے میں کہتا ہے: ”قرآن نقائص سے اس قدر مبرا و منزہ ہے کہ چھوٹی سی چھوٹی تصحیح اور اصلاح کا بھی محتاج نہیں ہے، ممکن ہے کہ انسان اسے اول سے آخر تک پڑھ لے اور ذرا بھی تھکان و افسردگی بھی محسوس نہ کرے“۔(۳)

اس کے بعد مزید لکھتا ہے: سب اس بات کو قبول کرتے ہیں کہ قرآن سب سے زیادہ فصیح و بلیغ زبان اور عرب کے سب سے زیادہ نجیب اور ادیب قبیلہ قریش کے لب و لہجہ میں نازل ہوا ہے اور یہ روشن ترین صورتوں اور محکم ترین تشبیہات سے معمور ہے“۔(۴)

۵ ۔ گوئٹے: جرمنی شاعر اور دانشور کہتا ہے:

”قرآن ایسی کتاب ہے کہ ابتدا میں قاری اس کی وزنی عبارت کی وجہ سے روگردانی کرنے لگتا ہے لیکن اس کے بعد اس کی کشش کا فریفتہ ہوجاتا ہے او ربے اختیار اس کی متعدد خوبیوں کا عاشق ہوجاتا ہے“۔

یہی گوئٹے ایک اور جگہ لکھتا ہے:

”سالہا سال خدا سے نا آشنا پوپ ہمیں قرآن اور اس کے لانے والے محمدکی عظمت سے دور رکھے رہے مگر علم و دانش کی شاہراہ پر جتنا ہم نے قدم آگے بڑھایاتو جہالت و تعصب کے ناروا پردے ہٹتے گئے اور بہت جلد اس کتاب نے جس کی تعریف و توصیف نہیں ہوسکتی دنیا کو اپنی طرف کھینچ لیا اور اس نے دنیا کے علم و دانش پر گہرا اثر کیا ہے او رآخر کار یہ کتاب دنیا بھر کے لوگوں کے افکار کا محور قرار پائے گی“۔

مزید لکھتا ہے: ”ہم ابتدا میں قرآن سے روگرداں تھے لیکن زیادہ وقت نہیں گزرا کہ اس کتاب نے ہماری توجہ اپنی طرف جذب کرلی اور ہمیں حیران کردیا یہاں تک کہ اس کے اصول اور عظیم علمی قوانین کے سامنے ہم نے سرِتسلیم خم کردیا۔(۵)

۶ ۔ول ڈیورانٹ: یہ ایک مشہور مورخ ہے ، لکھتا ہے:

”قرآن نے مسلمانوں میں اس طرح کی عزت نفس، عدالت اور تقویٰ پیدا کیا ہے جس کی مثال دنیا کے دوسرے ممالک میں نہیں ملتی“۔

۷ ۔ ژول لابوم: یہ ایک فرانسیسی مفکر ہے اپنی کتاب ”تفصیل الآیات“ میں کہتا ہے: ”دنیا نے علم و دانش مسلمانوں سے لیا ہے اور مسلمانوں نے یہ علوم قرآن سے لئے ہیں جو علم و دانش کا دریا ہے اور اس سے عالم بشریت کے لئے کئی نہریں جاری ہوتی ہیں“۔

۸ ۔ دینورٹ : یہ ایک اور مستشرق ہے، لکھتا ہے: ”ضروری ہے کہ ہم اس بات کا اعتراف کریں کہ علوم طبیعی و فلکی اور فلسفہ و ریاضیات جو یورپ میں رائج ہیں زیادہ تر قرآن کی برکت سے ہیں اور ہم مسلمانوں کے مقروض ہیں بلکہ اس لحاظ سے یورپ ایک اسلامی شہر ہے“۔(۶)

۹ ۔ ڈاکٹر مسز لورا واکسیاگلیری: یہ ناٹل یونیورسٹی کی پروفیسر ہے، ”پیش رفت سریع اسلام“ میں لکھتی ہے: ”اسلام کی کتاب آسمانی اعجاز کا ایک نمونہ ہے قرآن ایک ایسی کتاب ہے جس کی نظیر پیش نہیں کی جاسکتی، قرآن کا طرز و اسلوب گزشتہ ادبیات میں نہیں پایا جاتا، اور یہ طرز روحِ انسانی میں جو تاثیر پیدا کرتا ہے وہ اس کے امتیازات اور بلندیوں سے پیدا ہوتی ہے کس طرح ممکن ہے کہ یہ اعجاز آمیز کتاب ،محمدکی خود ساختہ ہو جب کہ وہ ایک ایسا عرب تھا جس نے تعلیم حاصل نہیں کی، ہمیں اس کتاب میں علوم کے خزانے اور ذخیرے نظر آتے ہیں جو نہایت ہوش مند اشخاص، بزرگ ترین فلاسفہ اور قوی ترین سیاست مدارو اور قانون داں لوگوں کی استعداد اور ظرفیت سے بلند ہیں، اسی بنا پر قرآن کریم کسی تعلیم یافتہ مفکر اور عالم کا کلام نہیں ہوسکتا“۔(۷)(۸)

قرآن مجید کی حقانیت کی ایک دلیل یہ ہے کہ پورے قرآن میں کوئی تضاد اور اختلاف نہیں پایا جاتا، اس حقیقت کو سمجھنے کے لئے درج ذیل مطالب پر توجہ فرمائیں:

” انسانی خواہشات میں ہمیشہ تبدیلی آتی رہتی ہے، تکامل اور ترقی کا قانون عام حالات میں انسان کی فکر و نظر سے متاثر رہتا ہے، اور زمانہ کی رفتار کے ساتھ اس میں بھی تبدیلی آتی رہتی ہے، اگر ہم غور کریں تو ایک مولف کی تحریر ایک جیسی نہیں ہوتی، بلکہ کتاب کے شروع اورآخر میں فرق ہوتاہے، خصوصاً اگر کوئی شخص ایسے مختلف حوادث سے گزرا ہو، جو ایک فکری ، اجتماعی اور اعتقادی انقلاب کے باعث ہوں، تو ایسے شخص کے کلام میں یکسوئی اور وحدت کا پایا جانا مشکل ہے، خصوصاً اگر اس نے تعلیم بھی حاصل نہ کی ہو، اور اس نے ایک پسماندہ علاقہ میں پرورش پائی ہو۔

لیکن قرآن کریم ۲۳ / سال کی مدت میں اس وقت کے لوگوں کی تربیتی ضرورت کے مطابق نازل ہوا ہے، جبکہ اس وقت کے حالات مختلف تھے، لیکن یہ کتاب موضوعات کے بارے میں متنوع گفتگو کرتی ہے، اور معمولی کتابوں کی طرح صرف ایک اجتماعی یا سیاسی یا فلسفی یا حقوقی یا تاریخی بحث نہیں کرتی ، بلکہ کبھی توحید اور اسرار خلقت سے بحث کرتی ہے اور کبھی احکام و قوانین اور آداب و رسوم کی بحث کرتی ہے اور کبھی گزشتہ امتوں اور ان کے ہلا دینے والے واقعات کو بیان کرتی ہے ، ایک موقع پر وعظ و نصیحت ، عبادت اور انسان کے خدا سے رابطہ کے بارے میں گفتگو کرتی ہے۔ او رڈاکٹر ”گوسٹاولبن“ کے مطابق مسلمانوں کی آسمانی کتاب قرآن مجید صرف مذہبی تعلیمات اور احکام میں منحصر نہیں ہے بلکہ مسلمانوں کے سیاسی اور اجتماعی احکام بھی اس میں درج ہیں۔

عام طور پر ایسی کتاب میں متضاد باتیں، متناقض گفتگو اور بہت زیادہ اتار چڑھاؤپایا جاتاہے، لیکن اس کے باوجود بھی ہم دیکھتے ہیں کہ اس کی آیات ہر لحاظ سے ہم آہنگ او رہر قسم کی تناقض گوئی سے خالی ہیں، جس سے یہ بات اچھی طرح سمجھ میں آتی ہے کہ یہ کتاب کسی انسان کا نتیجہ فکر نہیں ہے بلکہ خداوندعالم کی طرف سے ہے جیسا کہ خود قرآن کریم نے اس حقیقت کو بیان کیا ہے“۔(۹) (۱۰)

سورہ ہود کی آیت نمبر ۱۲ سے ۱۴ تک ایک بار پھر قرآن مجید کے معجزہ ہونے کو بیان کررہی ہیں یہ ایک عام گفتگو نہیں ہے، اور کسی انسان کا نتیجہ فکر نہیں ہے، بلکہ یہ آسمانی وحی ہے جس کا سرچشمہ خداوندعالم کا لا محدود علم و قدرت ہے ،اور اسی وجہ سے چیلنج کرتی ہے اور تمام دنیا والوں کو مقابلہ کی دعوت دیتی ہے ، لیکن خود پیغمبر اکرم (ص) کے زمانہ کے لوگ بلکہ آج تک بھی، اس کی مثل لانے سے عاجز ہیں ، چنانچہ انھوں نےبہت سی مشکلات کو قبول کیا ہے لیکن قرآنی آیات سے مقابلہ نہ کیا، جس سے نتیجہ نکلتا ہے کہ نوع بشر اس کا جواب نہیںلا سکتا تو اگر یہ معجزہ نہیں ہے تو اور کیا ہے؟

قرآن کی یہ آواز اب بھی ہمارے کانوں میں گونج رہی ہے، اور یہ ہمیشہ باقی رہنے والا معجزہ اب بھی دنیا والوں کو اپنے مقابلہ کی دعوت دے رہا ہے اور دنیا کی تمام علمی محفلوں کو چیلنج کررہا ہے ، اور یہی نہیں کہ صرف فصاحت و بلاغت یعنی تحریر کی حلاوت،اس کی جذابیت اور واضح مفہوم کو چیلنج کیا ہے بلکہ مضامین کے لحاظ سے بھی چیلنج ہے ایسے علوم جو اس وقت کے لوگوں کے سامنے نہیں آئے تھے، ایسے قوانین و احکام جو انسان کی سعادت اور نجات کا باعث ہیں، ایسا بیان جو ہر طرح کے تناقض او رٹکراؤ سے خالی ہے، ایسی تاریخ جو ہر طرح کے خرافات اور بےہو دہ باتوں سے خالی ہو۔(۱۱)

یہاں تک سید قطب اپنی تفسیر ”فی ظلال“ میں بیان کرتے ہیں کہ (سابق) روس کے مستشرقین نے ۱۹۵۴ ءء میں ایک کانفرس کی تو بہت سے مادیوں نے قرآن مجید میں عیب نکالنا چاہے

تو کہا:یہ کتاب ایک انسان (محمد) کا نتیجہ فکر نہیں ہوسکتی بلکہ ایک بڑے گروہ کی کاوشوں کا نتیجہ ہے! یہاں تک کہ اس کے بارے میں یہ بھی یقین نہیں کیا جاسکتا کہ یہ جزیرة العرب میں لکھی گئی ہے بلکہ یقین کے ساتھ یہ بات کہی جاسکتی ہے کہ اس کا کچھ حصہ جزیرة العرب سے باہر لکھا گیا ہے!!(۱۲)

چونکہ یہ لوگ خدا اور وحی کا انکار کرتے ہیں ،دوسری طرف قرآن مجید کو جزیرة العرب کے انسانی افکار کا نتیجہ نہ مان سکے، لہٰذا انھوں نے ایک مضحکہ خیز بات کہی اور اس کو عرب اور غیر عرب لوگوں کا نتیجہ فکر قرار دے دیا، جبکہ تاریخ اس بات کا بالکل انکار کرتی ہے۔(۱۳)

____________________

(۱) مجمع البیان ، جلد۱۰ ،سورہ مدثر (۲) مقدمہ سازمانہای تمدن امپراطوری اسلام

(۳) مقدمہ سازمانہای تمدن امپرا طوری اسلام، صفحہ ۱۱۱

(۴) مقدمہ سازمانہای تمدن امپرطوری اسلام، صفحہ ۹۱

(۵)کتاب ”عذر تقصیر بہ پیش گاہ محمد و قرآن“

(۶) المعجزة الخالدہ،بنا بر نقل از قرآن بر فراز اعصار

(۷)پیش رفت سریع اسلام، اعجاز قرآن کے سلسلہ میں مذکورہ بحث میں ”قرآن و آخرین پیامبر“ سے استفادہ کیا گیا ہے

(۸) تفسیر نمونہ ، جلد ۱، صفحہ ۱۳۵

(۹) قرآن وآخرین پیغمبر صفحہ۳۰۹

(۱۰) تفسیر نمونہ ، جلد ۴، صفحہ ۲۸

(۱۱) تفسیر نمونہ ، جلد ۹، صفحہ ۴۲

(۱۲) تفسیر فی ظلال ، جلد ۵، صفحہ ۲۸۲

(۱۳) تفسیر نمونہ ، جلد ۱۱، صفحہ ۴۱۰

۱۳ ۔ خداوندعالم کی طرف سے ہدایت و گمراہی کے کیا معنی ہیں؟

لغت میں ہدایت کے معنی دلالت اور رہنمائی کے ہیں(۱) اور اس کی دو قسمیں ہیں

۱)”ارائة الطریق “ (راستہ دکھانا) ۲) ”إیصالٌ إلیٰ المطلوبِ “ (منزل مقصود تک پہنچانا) دوسرے الفاظ میں یوں کہئے: ”تشریعی اور تکو ینی ہدایت“۔(۲)

وضاحت: کبھی انسان راستہ معلوم کرنے والے کو اپنی تمام دقت اور لطف و کرم کے ساتھ راستہ کا پتہ بتاتا ہے، لیکن راستہ طے کرنا اور منزل مقصود تک پہنچنا خود اس انسان کا کام ہوتا ، اور کبھی انسان راستہ معلوم کرنے والے کا ہاتھ پکڑتا ہے اور راستہ کی رہنمائی کے ساتھ ساتھ اس کو منزل مقصود تک پہنچا دیتا ہے، دوسرے الفاظ میںیوں کہیں کہ انسان پہلے مرحلہ میں صرف قوانین بیان کرتا ہے،اور منزل مقصودتک پہنچنے کے شرائط بیان کردیتا ہے، لیکن دوسرے مرحلہ میں ان چیزوں کے علاوہ سامان سفر بھی فراہم کرتا ہے اور اس میں پیش آنے والی رکاوٹوں کو بھی برطرف کردیتا ہے، نیز اس کے مشکلات کو دور کرتاہے اور اس راہ پر چلنے والوں کے ساتھ ساتھ ان کو منزل مقصود تک پہنچنے میں حفاظت بھی کرتا ہے۔

اگر انسان قرآن مجید کی آیات پر ایک اجمالی نظرڈالے تو یہ بات واضح ہوجاتی ہے کہ قرآن کریم نے ہدایت اور گمراہی کو فعل خدا شمار کیا ہے، اور دونوں کی نسبت اسی کی طرف دی گئی ہے، اگر ہم اس سلسلہ کی تمام آیات کو یکجا کریں تو بحث طولانی ہوجائے گی، صرف اتناہی کافی ہے، چنانچہ ہم سورہ بقرہ کی آیت نمبر ۲۱۳ میں پڑھتے ہیں:

( وَاللهُ یَهْدِی مَنْ یَشَاءُ إِلَی صِرَاطٍ مُسْتَقِیمٍ )

”اور خدا جس کو چاہتا ہے صراط مستقیم کی ہدایت دے دےتا ہے“۔

سورہ نحل کی آیت نمبر ۹۳ میں ارشادہوتا ہے:

( وَلَکِنْ یُضِلُّ مَنْ یَشَاءُ وَیَهْدِی مَنْ یَشَاءُ )

”خدا جسے چاہتا ہے گمراہی میں چھوڑ دیتا ہے اور جسے چاہتا ہے منزل ہدایت تک پہنچا دیتا ہے“۔

ہدایت و گمراہی کے حوالہ سے قرآن مجیدمیں بہت سی آیات موجود ہیں(۳)

بلکہ اس کے علاوہ بعض آیات میں واضح طور پر پیغمبر اکرم (ص) سے ہدایت کی نفی کی گئی ہے اور خدا کی طرف نسبت دی ہے، جیسا کہ سورہ قصص آیت نمبر ۵۶ میں بیان ہوا ہے:

( إِنَّکَ لَاتَهْدِی مَنْ اٴَحْبَبْتَ وَلَکِنَّ اللهَ یَهْدِی مَنْ یَشَاءُ )

”(اے میرے پیغمبر!) آپ جسے چاہیں اسے ہدایت نہیں دے سکتے بلکہ اللہ جسے چاہتا ہے ہدایت دےتا ہے“۔

سورہ بقرہ آیت نمبر ۲۷۲ میں بیان ہوا ہے:

( لَیْسَ عَلَیْکَ هُدَاهُمْ وَلَکِنَّ اللهَ یَهْدِی مَنْ یَشَاءُ )

”اے پیغمبر ! ان کے ہدایت پانے کی ذمہ داری آپ پر نہیں ہے، بلکہ خدا جس کو چاہتا ہے ہدایت دے دیتا ہے“۔

ان آیات کے عمیق معنی کو نہ سمجھنے کی وجہ سے بعض افراد ان کے ظاہری معنی پر تکیہ کرتے ہو ئے ان آیات کی تفسیر میں ایسے ”گمراہ“اور راہ ”ہدایت“ سے بھٹکے کہ”جبریہ“ فرقہ کی آتشِ عقا ئد میں جا گرے اور یہی نہیں بلکہ بعض مشہور مفسرین بھی اس آفت سے نہ بچ سکے، اوراس فر قہ کی خطرناک وادی میں پھنس گئے ہیں، یہاں تک کہ ہدایت و گمراہی کے تمام مراحل کو ”جبری“ طریقہ پر مان بیٹھے، اور تعجب کی بات یہ ہے کہ جیسے ہی انھوں نے اس عقیدہ کو خدا کی عدالت و حکمت کے منافی دیکھا تو خدا کی عدالت ہی کے منکر ہوگئے، تاکہ اپنی کی ہوئی غلطی کی اصلاح کرسکیں،لیکن حقیقت یہ ہے کہ اگر ہم ”جبر“ کے عقیدہ کو مان لیں تو پھر تکالیف و فرائض اور بعثت انبیاء،اورآسمانی کتابوں کے نزول کا کوئی مفہوم ہی نہیں بچتا۔

لیکن جو افراد نظریہ ”اختیار“ کے طرفدار ہیں ،وہ یہ عقیدہ رکھتے ہیں کہ کوئی بھی عقل سلیم اس بات کو قبول نہیں کرسکتی کہ خداوندعالم کسی کو گمراہی کا راستہ طے کرنے پر مجبور (بھی) کرے اور پھر اس پر عذاب بھی کرے، یا بعض لوگوں کو ”ہدایت“ کے لئے مجبور کرے اور پھر بلاوجہ ان کو اس کام کی جزا اور ثواب بھی دے، اور ان کو ایسے کام کی وجہ سے دوسروں پر فوقیت دے جو انھوں نے انجام نہیں د یا ہے۔

لہٰذا انھوں نے ان آیات کی تفسیر کے لئے ایک دوسرا راستہ اختیار کیا ہے اور اس سلسلہ میں بہت ہی دقیق تفسیر کی ہے جو ہدایت و گمراہی کے سلسلے میں بیان ہونے والی تمام آیات سے ہم آہنگ ہے اور بغیر کسی ظاہری خلاف کے بہترین طریقہ سے ان تمام آیات کی تفسیر کرتی ہے، اور وہ تفسیر یہ ہے:

” تشریعی ہدایت“یعنی عام طور سے سبھی کو راستہ دکھادیا گیا ہے اس میں کسی طرح کی کوئی قید و شرط نہیں ہے، جیسا کہ سورہ دہر آیت نمبر ۳ میں وارد ہوا ہے:

( إِنَّا هَدَیْنَاهُ السَّبِیلَ إِمَّا شَاکِرًا وَإِمَّا کَفُورًا )

”یقینا ہم نے اس (انسان) کو راستہ کی ہدایت دیدی ہے چاہے وہ شکر گزار ہوجائے یا کفران نعمت کرنے والا ہوجائے“۔

اسی طرح سورہ شوریٰ کی آیت نمبر ۵۲ میں پڑھتے ہیں:

( وَإِنَّکَ لَتَهْدِي إِلَی صِرَاطٍ مُسْتَقِیمٍ )

” اور بے شک آپ لوگوں کو سیدھے راستہ کی ہدایت کرر ہے ہیں“۔

ظاہر ہے کہ انبیاء علیہم السلام کی دعوت حق خداوندعالم کی طرف سے ہے کیونکہ انبیاء کے پاس جو کچھ بھی ہوتاہے وہ خدا کی طرف سے ہوتا ہے۔

بعض منحرف اور مشرکین کے بارے میں سورہ نجم آیت نمبر ۲۳ میں بیان ہوا ہے:

( وَلَقَدْ جَائَهُمْ مِنْ رَبِّهِمْ الْهُدَی )

”اور یقینا ان کے پروردگار کی طرف سے ان کے پاس ہدایت آچکی ہے“۔

لیکن ”تکوینی ہدایت “یعنی منزل مقصود تک پہنچانا ، راستہ کی تمام رکاوٹوں کو دور کرنا اور ساحل نجات پر پہنچنے تک ہر طرح کی حمایت و حفاظت کرنا،جیسا کہ قرآن مجید کی بہت سی آیات میں بیان ہوا ہے، یہ موضوع بدون قید و شرط نہیں ہے، اور یہ ہدایت ایک ایسے خاص گروہ سے مخصوص ہے جس کے صفات خود قرآن مجید میں بیان ہوئے ہیں، اور اس کے مدمقابل ”ضلالت و گمراہی“ ہے وہ بھی خاص گروہ سے مخصوص ہے جس کے صفات بھی قرآن مجید میں بیان ہوئے ہیں۔

اگرچہ بہت سی آیات مطلق ہیں لیکن دوسری بہت سی آیات میں وہ شرائط واضح طور پر بیان ہوئے ہیں، اور جب ہم ان ”مطلق“ اور ”مقید“ آیات کو ایک دوسرے کے برابر رکھتے ہیں تو مطلب بالکل واضح ہوجاتا ہے اور آیات کے معنی و تفسیر میں کسی طرح کے شک و تردید کی گنجائش باقی نہیں رہتی، اور نہ صرف یہ کہ انسان کے اختیار ، آزادی اور ارادہ کے مخالف نہیں ہے بلکہ مکمل اور دقیق طور پر ان کی تاکید کرتی ہے۔

(قارئین کرام!) یہاں درج ذیل وضاحت ملاحظہ فرمائیں:

قرآن مجید میں ایک جگہ ارشاد ہوتا ہے:

( یُضِلُّ بِهِ کَثِیرًا وَیَهْدِی بِهِ کَثِیرًا وَمَا یُضِلُّ بِهِ إِلاَّ الْفَاسِقِینَ ) (۴)

”خدا ا سی طرح بہت سے لوگوں کو گمراہی میں چھوڑ دیتا ہے اور بہت سوں کو ہدایت دے دیتا ہے اور گمراہی صرف انھیں کا حصہ ہے جو فاسق ہیں “۔

یہاں پر ضلالت و گمراہی کا سرچشمہ، فسق و فجور اور فرمان الٰہی کی مخالفت بیان کی گئی ہے۔

ایک دوسری جگہ ارشاد ہوتا ہے:

( وَاللهُ لاَیَهْدِی الْقَوْمَ الظَّالِمِینَ ) (۵)

”اوراللہ ظالموں کی ہدایت نہیں کرتا “۔

اس آیت میں ظلم پرتوجہ دلائی گئی ہے اور اس کو ضلالت و گمراہی کا راستہ ہموار کرنے والا بتایا گیا ہے۔

ایک دوسری جگہ ارشاد ہوتا ہے:

( وَاللهُ لاَیَهْدِی الْقَوْمَ الْکَافِرِینَ ) (۶)

”اوراللہ کافروں کی ہدایت بھی نہیں کرتا “۔

یہاں پر کفر کو گمراہی کاسبب قراردیا گیا ہے۔

ایک دوسری جگہ ارشاد ہوتا ہے:

( إِنَّ اللهَ لاَیَهْدِی مَنْ هُوَ کَاذِبٌ کَفَّارٌ ) (۷)

”اللہ کسی بھی جھوٹے اور نا شکری کرنے والے کو ہدایت نہیں دیتا ہے “۔

اس آیت میں جھوٹ اور کفر کو ضلالت و گمراہی کا پیش خیمہ شمار کیا گیا ہے۔

نیز ارشاد ہوتا ہے:

( إِنَّ اللهَ لاَیَهْدِی مَنْ هُوَ مُسْرِفٌ کَذَّابٌ ) (۸)

”بیشک اللہ کسی زیادتی کرنے والے اور جھوٹے کی رہنمائی نہیں کرتا ہے “۔

اس کا مطلب یہ ہے کہ فضول خرچی اور جھوٹ گمراہی کا باعث ہے۔

(قارئین کرام!) ہم نے یہاں تک اس سلسلہ میں بیان ہونے والی چند آیات کو بیان کیا ہے، اسی طرح دوسری آیات قرآن مجید کے مختلف سوروں میں بیان ہوئی ہیں۔

نتیجہ یہ ہوا کہ قرآن مجید نے خدا کی طرف سے ضلالت و گمراہی انھیں لوگوں کے لئے مخصوص کی ہے جن میں یہ صفات پائے جاتے ہوں: ”کفر“ ، ”ظلم“، ”فسق“، ”جھوٹ“، ”فضول خرچی“ اور ”کفران نعمت “۔

کیا جن لوگوں میں یہ صفات پائے جاتے ہیں وہ ضلالت و گمراہی کے سزاوار نہیں ہیں؟!

بالفاظ دیگر: جو لوگ ان برائیوں کے مرتکب ہوتے ہیں کیا ان کے دلوں پر ظلمت و تاریکی اثرنہیں کرتی؟!

صاف و شفاف الفاظ میں یوں کہیں کہ اس طرح کے اعمال اور صفات کچھ خاص اثررکھتے ہیں جو آخرکار انسان میں موثر ہوتے ہیں،اور اس کی عقل، آنکھ اور کان پر پردہ ڈال دیتے ہیں، اس کو ضلالت و گمراہی کی طرف کھینچتے ہیں، اور چونکہ تمام چیزوں کی خاصیت اور تمام اسباب کے اثرات خدا کے حکم سے ہیں لہٰذا ضلالت و گمراہی کو ان تمام موارد میں خدا کی طرف نسبت دی جاسکتی ہے، لیکن یہ نسبت خود انسان کے ارادہ و اختیار کی وجہ سے ہے۔

یہ سب کچھ ضلالت و گمراہی کے سلسلہ میں تھا، اُدھر ”ہدایت“ کے سلسلہ میں بھی قرآن کریم نے کچھ شرائط اور اوصاف بیان کئے ہیں جن سے پتہ چلتا ہے کہ یہ بھی بغیر کسی علت اور حکمت الٰہی کے خلاف نہیں ہے۔

بعض وہ صفات جن کی وجہ سے انسان ہدایت اور لطف الٰہی کا مستحق ہوتا ہے ؛ درج ذیل آیات میں بیان ہوئی ہیں:

( یَهْدِي بِهِ اللهُ مَنْ اتَّبَعَ رِضْوَانَهُ سُبُلَ السَّلاَمِ وَیُخْرِجُهُمْ مِنْ الظُّلُمَاتِ إِلَی النُّورِ بِإِذْنِهِ وَیَهْدِیهِمْ إِلَی صِرَاطٍ مُسْتَقِیمٍ ) (۹)

”جس کے ذریعہ خدا اپنی خوشنودی کا ابتاع کرنے والوں کو سلامتی کے راستوں کی ہدایت کرتا ہے اور انھیں تاریکیوں سے نکال کر اپنے حکم سے نور کی طرف لے آتا ہے اور انھیں صراط مستقیم کی ہدایت کرتا ہے “۔

آیہ مبارکہ سے یہ نتیجہ نکلتا ہے کہ حکم خدا کی پیروی اور اس کی رضا حاصل کرنے سے ہدایت کا راستہ ہموار ہو جاتا ہے ۔

دوسری جگہ ارشاد ہوتا ہے:

( إِنَّ اللهَ یُضِلُّ مَنْ یَشَاءُ وَیَهْدِی إِلَیْهِ مَنْ اٴَنَابَ ) (۱۰)

”بیشک اللہ جس کو چاہتا ہے گمراہی میں چھوڑ دیتا ہے اور جو اس کی طرف متوجہ ہوجاتے ہیں انھیں ہدایت دیتا ہے “۔

یہاں ”توبہ اور استغفار کرنے والے “ کو ہدایت کامستحق قراردیا گیا ہے۔

ایک دوسری آیت میں ارشاد ہوتا ہے:

( وَالَّذِینَ جَاهَدُوا فِینَا لَنَهْدِیَنَّهُمْ سُبُلَنَا ) (۱۱)

”اور جن لوگوں نے ہمارے حق میں جہاد کیا ہے ہم انھیں اپنے راستوں کی ہدایت کریں گے “۔

اس آیت میں ”راہ خدا میں مخلصانہ جہاد“ کو ہدایت کے لئے اصلی شرط کے عنوان سے ذکر کیا ہے۔

نیز ایک دوسری آیت میں ارشاد ہے:

( وَالَّذِینَ اهْتَدَوْا زَادَهُمْ هُدًی ) (۱۲)

”اور جن لوگوں نے ہدایت حاصل کر لی خدا نے ان کی ہدایت میں اضافہ کردیا اور ان کو مزید تقوی عنایت فرمایا “۔

اس آیت میں اس بات کی طرف اشارہ ہے کہ اگر انسان راہ ہدایت کی طر ف قدم بڑھائے تو خدا وندعالم اس کو مزید راستہ طے کرنے کی طاقت عطا فرمادیتا ہے۔

نتیجہ یہ ہوا کہ جب تک بندوں کی طرف سے توبہ و استغفار نہ ہو اور خدا کے حکم کی پیروی نہ ہو، نیز جب تک خدا کی راہ میں جہاد اور کوشش نہ ہو ، اور جب تک خدا کی راہ میں قدم نہ بڑھائے جائیں تو لطف الٰہی ان کے شامل حال نہیں ہوگا، اور ان کی مدد نہیں ہوگی، نیز وہ منزل مقصود تک نہیں پہنچ سکتے۔

جن لوگوں میں یہ صفات موجود ہوں کیا ان کے لئے ہدایت یافتہ ہونا بے حساب و کتاب ہے ؟! اور کیا انھیں ہدایت کے لئے مجبور کیا گیا ہے ؟!

(قارئین کرام!) آپ حضرات ملاحظہ فرمارہے ہیں کہ اس سلسلہ میں قرآن مجید کی آیات بہت واضح ہیں،لیکن جن لوگوں نے ہدایت و گمراہی کے سلسلہ میں بیان ہونے والی آیات کو صحیح طریقہ سے نہیں سمجھا ، یا سمجھنے کی کوشش نہیں کی تو ایسے ہی لوگ اس خطرناک غلطی کا شکار ہوئے ہیں اور بقول شاعر :”چون ندیدند حقیقت، رہ افسانہ زدند“ (اور جب انھوں نے حقیقت کو نہ پایا تو افسانہ گڑھ لیا) ان کے لئے یہی کہا جا ئے کہ ان لوگوں نے ”ضلالت و گمراہی“ کا راستہ خود ہی ہموار کیا ہے!

بہر حال ہدایت و ضلالت کامسئلہ حکمت ومشیت سے خالی نہیں ہے، بلکہ ہر موقع پر خاص شرائط ہوتے ہیں جو خدا کے حکیم ہونے پر دلالت کرتے ہیں۔(۱۳)

____________________

(۱) مفردات راغب ،مادہ ”ھدی“

(۲) یہاں پر تکوینی ہدایت وسیع معنی میں استعمال ہوئی ہے، جس میں بیان قوانین اور ارایہ طریق کے علاوہ ہر طرح کی ہدایت شامل ہے

اس کے مقابلہ میں ”ضلالت اور گمراہی“ ہے۔

(۳) نمونہ کے طور پر:سورہ فاطر ، آیت ۸ سورہ زمر، آیت ۲۳ سورہ مدثر ، آیت ۳۱ سورہ بقرہ، آیت ۲۷۲ سورہ انعام ، آیت ۸۸ سورہ یونس ، آیت ۲۵ سورہ رعد ، آیت ۲۷ سورہ ابراہیم ، آیت ۴

(۴)سورہ بقرہ ، آیت ۲۶

(۵) سورہ بقرہ ، آیت ۲۵۸

(۶) سورہ بقرہ ، آیت ۲۶۴

(۷) سورہ زمر ، آیت ۳

(۸) سورہ غافر ، آیت ۲۸.

(۹)سورہ مائدہ ، آیت ۱۶

(۱۰)سورہ رعد ، آیت ۲۷ (۱۱)سورہ عنکبوت ، آیت ۶۹

(۱۲) سورہ محمد ، آیت ۱۷.

(۱۳) تفسیر نمونہ ، جلد ۱۹، صفحہ ۴۶۱

۱۴ ۔کس طرح کائنات کی ہر شئی خداکی تسبیح کرتی ہے؟

قرآن مجید کی مختلف آیات میں بیان ہوا ہے کہ اس کائنات کی تمام موجودات خدا کی تسبیح کرتی ہیں ، ان میں سب سے زیادہ واضح آیت سورہ اسراء (بنی اسرائیل) آیت نمبر ۴۴ ہے کہ جہاں ارشاد ہوتا ہے:

( وَإِنْ مِنْ شَیْءٍ إِلاَّ یُسَبِّحُ بِحَمْدِهِ وَلَکِنْ لَاتَفْقَهُونَ تَسْبِیحَهُمْ )

”اور کوئی شئی ایسی نہیں ہے جو اس کی تسبیح نہ کرتی ہویہ اور بات ہے کہ تم ان کی تسبیح کو نہیں سمجھتے “۔

اس آیت کی بناپر کائنات کی تمام موجوات بغیر کسی استثنا کے خداوندعالم کی اس عام تسبیح میں شامل ہیں۔

اس حمد و تسبیح کی حقیقت کی تفسیر کے بارے میں علماو فلاسفہ کے درمیان بہت زیادہ بحث و گفتگو ہے۔

بعض افراد نے اس حمد و تسبیح کو ”حالی“ (یعنی زبان حال) مانا ہے، جبکہ بعض دوسرے افراد نے اس سے ”قولی“ تسبیح مراد لی ہے، ہم یہاں پر ان تمام نظریات کا خلاصہ اور اپنا نظریہ بیان کرتے ہیں:

۱ ۔بعض گروہ کا کہنا یہ ہے کہ اس کائنات کے تمام ذرات چاہے وہ جاندار اور عاقل ہوں یا بے جان اور غیر عاقل؛ سب کی سب ایک طرح کا شعور اور ادراک رکھتی ہیں، اور یہ سب چیزیں خداوندعالم کی حمد و تسبیح کرتی ہیں، اگرچہ ہم ان کی حمد و تسبیح کو سمجھ نہیں پاتے، اور نہ ہی سن پاتے ہیں۔

قرآن مجید کی بہت سی آیات اس عقیدہ پر شاہد اور گواہ ہیں، نمونہ کے طور پر:

( وَإِنَّ مِنْهَا لَمَا یَهْبِطُ مِنْ خَشْیَةِ اللهِ ) (۱)

”اور بعض خوف خدا سے گر پڑتے ہیں“۔

( فَقَالَ لَهَا وَلِلْاٴَرْضِ اِئْتِیَا طَوْعًا اٴَوْ کَرْهًا قَالَتَا اٴَتَیْنَا طَائِعِینَ ) (۲)

”اور اسے اور زمین کو حکم دیا کہ بخوشی یا بکراہت ہماری طرف آؤ تو دونوں نے عرض کی کہ ہم اطاعت گزار بن کر حاضر ہیں“۔

۲ ۔ بہت سے افراد کا عقیدہ ہے کہ یہ حمد و تسبیح وہی ہے جس کو ہم ”زبان حال“ کہتے ہیں، اور یہ حمد و تسبیح حقیقی طور پر ہے، مجازی طور پر نہیں، لیکن زبان حال سے ہے نہ کہ زبان قال سے۔ (غور کیجئے )

وضاحت: بعض اوقات ایسا ہوتا ہے کہ انسان کے چہرے پر پریشانی اور ناراحتی یا درد و غم کے آثار پائے جاتے ہیں یا اس کی آنکھوں سے بیداری کے آثار واضح طور پر دکھائی دیتے ہیں،چنانچہ ایسے موقع پر کہاجاتا ہے: اگرچہ تم اپنی زبان سے پریشانی اور مشکل نہیں بتارہے ہو، لیکن تمہارے چہرے سے پریشانی کے آثار دکھائی دے رہے ہیں، یا کہتے ہیں کہ تمہیں رات میں نیند نہیں آئی ہے!!

کبھی کبھی یہ ”زبان حال“ اس قدر واضح اورروشن ہوتی ہے کہ ”زبان قال“ کو موثر بنا دےتی ہے، اور زبان قال کو جھٹلادیتی ہے، جیسا کہ ایک شاعر نے کیا خوب کہا ہے:

گفتم کہ با مکر و فسون پنہان کنم راز درون!

پنہان نمی گردد کہ خون از دیدگانم می رود!

”میں نے کہا کہ مکر و فریب سے اپنے اندرونی راز کو چھپالوں لیکن خون کبھی چھپائے سے نہیں چھپتا ، اور میری آنکھوں سے خون برستا دکھائی دیتا ہے“۔

اسی چیز کی طرف حضرت امیر المومنین علی علیہ السلام نے اپنے مشہور و معروف قول میں اشارہ فرمایا ہے:

مَا ضمَر اٴحد شیئًا اِلاَّ ظهر فی فلتاتِ لسانِه وَصفحاتِ وَجههِ(۳)

”کوئی بھی راز دل میں چھپائے سے چھپ نہیں سکتا، اور ایک نہ ایک دن اس کی زبان یا چہرے پر ظاہر ہوہی جاتا ہے“۔

دوسری طرف کیا یہ ممکن ہے کہ ایک بہترین مصور کی بنائی ہوئی تصویر اس کی مہارت اور ذوق کی گواہی نہ دے اور اس کی مدح و ثنا نہ کرے؟

کیا اس بات سے انکار کیا جاسکتا ہے کہ ایک مشہور و معروف شاعر کا کلام اس کے بہترین ذوق کی عکاسی نہ کرے اور ہمیشہ اس کی مدح و ثنا نہ کرے؟

کیا اس بات کا منکر ہوا جاسکتا ہے کہ ایک عظیم الشان عمارت اوربڑے بڑے کارخا نے وغیرہ اپنی بے زبانی سے اپنے بنانے والے کے خلاق ذہن اور ایجادات کرنے والے ذہن کی تعریف نہ کریں اور ان کی ذہنیت کی قصیدہ خوانی نہ کریں؟

لہٰذا ہم کو یہ بات مان لینا چاہئے کہ کائنات کایہ عجیب و غریب نظام اور چکاچوند کردینے والی چیزیں خداوندعالم کی ”حمد و تسبیح“ کرتی ہیں۔

کیا ”تسبیح“ پاک و پاکیزہ ماننے کے علاوہ کسی اور چیز کا نام ہے، اس کائنات کا نظام اپنے پورے وجود کے ساتھ یہ اعلان کررہا ہے کہ اس کا خالق ہر طرح کے نقص و عیب سے پاک و پاکیزہ ہے۔

کیا ”حمد“ صفاتِ کمال بیان کرنے کے علاوہ کسی اور چیز کو کہتے ہیں؟ یہ کائنات کا نظام خدا وندعالم کی صفات کمال( بے کراں علم و قدرت ،اور مکمل حکمت )کی گفتگو نہیں کررہا ہے۔

(قارئین کرام!) ”حمد و تسبیح “ کے یہ معنی تمام موجوات کے لئے قابل فہم ہیں اور اس بات کی بھی کوئی ضرورت نہیں ہے کہ ہم تمام مخلوقات کے ذروں کو صاحب عقل و شعور فرض کریں، کیونکہ کوئی قطعی دلیل ان کے بارے میں موجود نہیں ہے، اور مذکورہ آیات بھی قوی احتمال کی بنا پر ”زبان حال“ کو بیان کرتی ہیں۔

لیکن یہاں پر ایک سوال باقی رہ جاتا ہے اور وہ یہ کہ اگر خداوندعالم کی ”حمد و تسبیح“ سے مراد نظام کائنات کا خدا کی عظمت اور اس کی پاکیزگی و عظمت کی حکایت کرنا ہے اور ”صفات سلبیہ“ و ”صفات ثبوتیہ“ اس کی وضاحت کرتی ہیں، تو پھر قرآن مجید میں کیوں ارشاد ہوا ہے کہ تم ان کی حمد و تسبیح کو نہیں سمجھتے؟

اگر بعض عوام الناس نہیں سمجھ سکتے تو کم سے کم دانشوروں کو تو سمجھنا چاہئے؟

اس سوال کے دو جواب دئے جاسکتے ہیں:

پہلا جواب: یہ ہے کہ قرآن مجید میں خطاب اکثر جاہلوں خصوصاً مشرکین سے ہے اور مومن دانشوروں کی اقلیت اس عموم سے مستثنیٰ ہے کیونکہ ہر عام کے لئے ایک استثنا ہوتا ہے۔

دوسرا جواب: یہ ہے کہ اس کائنات کے جن اسرار کو ہم جانتے ہیں وہ نامعلوم اسرارکے مقابل سمندر کے مقابل ایک قطرہ یا پہاڑ کے مقابلہ میں ایک ذرّہ کی حیثیت رکھتے ہیں کہ اگر صحیح غور و فکر کریں تو اس کو کسی علم و دانش کا نام تک نہیں دیا جاسکتا ۔

تا بدانجا رسید دانش من کہ بدانستمی کہ نادانم

”میری عقل آخر میں اس بات کو سمجھ پائی ہے کہ میں نادان اور جاہل ہوں“

لہٰذا حقیقت تو یہ ہے کہ اگرچہ ہم کتنے ہی بڑے عالم کیوں نہ ہوں اس کائنات کے ذروں کو نہیں سمجھ سکتے، کیونکہ جو کچھ ہم سنتے ہیں وہ کسی بڑی کتاب کا ایک لفظ ہے، اس بنا پر تمام عوام الناس کے لئے یہ اعلان عام کیا جاسکتا ہے کہ تم اس کائنات کی موجودات کی حمد و تسبیح کو نہیں سمجھ سکتے کیونکہ وہ زبان حال سے خداوندعالم کی حمد و تسبیح کرتے ہیں اور جو چیزیں ہم سمجھتے ہیں وہ اس قدر کم اور ناچیز ہیں کہ ان کا کوئی شمار ہی نہیں ہے۔

۳ ۔بعض مفسرین نے یہ بھی احتمال دیا ہے کہ اس کائنات کی موجودات کی حمد و تسبیح زبان ”حال“ اور زبان ”قال“ دونوں سے مرکب ہے یا دوسرے الفاظ میں ”تکوینی اور تشریعی تسبیح“ ہے، کیونکہ بہت سے انسان اور تمام ملائکہ اپنی عقل و شعور کے لحاظ سے خداوندعالم کی حمد و تسبیح کرتے ہیں لیکن اس کائنات کے تمام ذرے اپنی زبان بے زبانی سے خداوندعالم کی عظمت و کبریائی کی گواہی دے رہے ہیں۔

اگرچہ” حمد و تسبیح“کے دونوں معنی آپس میں مختلف ہیں لیکن ”ایک مشترک پہلو بھی رکھتے ہیں“ یعنی حمد و تسبیح کے عام اور وسیع معنی (یعنی اعلان پاکیزگی اور مدح و ثنا) میں مشترک ہیں۔

لیکن جیسا کہ ظاہر ہے کہ مذکورہ دوسری تفسیر سب سے بہتر ہے۔(۴) .

____________________

(۱)سورہ بقرہ ، آیت ۷۴

(۲) سورہ فصلت ، آیت ۱۱

(۳) نہج البلاغہ کلمات قصار نمبر ۲۶.

(۴) تفسیر نمونہ ، جلد ۱۲، صفحہ ۱۳۴

۱۵ ۔ کیا خداوندعالم کسی چیز میں حلول کرسکتا ہے؟

بعض عیسائیوں کا یہ عقیدہ ہے کہ خداوندعالم ”عیسیٰ مسیح“ میں حلول کئے ہوئے ہے، اور بعض صوفی لوگ بھی اپنے پیرو مرشد کے بارے میں یہی نظریہ رکھتے ہیں اور کہتے ہیں کہ خداوندعالم ان میں حلول کئے ہوئے ہے۔

کتاب ”کشف المراد“ میں علامہ حلّی علیہ الرحمہ کے قول کے مطابق اس عقیدہ کے باطل و بے بنیاد ہونے میں ذرہ برابر بھی شک و شبہ نہیں ہے، کیونکہ حلول سے جو چیز تصور کی جاتی ہے وہ یہ ہے کہ ایک موجود دوسرے موجود کے ذریعہ قائم ہو، (مثال کے طور پر کہاجا ئے کہ گلاب کے پھول میں خوشبو حلول کئے ہوئے ہے) ، مسلم طور پر خداوندعالم کے سلسلہ میں یہ معنی قابل تصور نہیںہیں، کیونکہ اس کا لازمہ مکان، نیاز اور ضرورت ہے جو ”واجب الوجود“کے لئے ”غیر ممکن“ ہے، اور جو لوگ خداوندعالم کے حلول کے معتقد ہیں آخر کار وہ شرک میں گرفتار ہوکر دائرہ اسلام سے خارج ہوجاتے ہیں۔

تصوّف اور اتحاد و حلول کا مسئلہ

مرحوم علامہ حلّی علیہ الرحمہ اپنی کتاب ”نہج الحق“ میں فرماتے ہیں کہ کسی دوسری چیز میں خداوندعالم کااس طرح سے حلو ل کرنا کہ دونوں شئی ایک چیز بن جائیں، یہ عقیدہ باطل ہے،اور اس کا باطل و بے بنیاد ہونا بالکل واضح ہے، اس کے بعد فرماتے ہیں: ”اہل سنت کے صوفیہ فرقہ نے اس سلسلہ میں قرآن و حدیث کی مخالفت کی ہے، اور کہتے ہیں کہ خداوندعالم، عرفاء کے بدن میں حلول کرجاتا ہے!! یہاں تک کہ ان میں سے بعض لوگ کہتے ہیں: خداوندعالم عین موجودات ہے، اور ہر موجود خدا ہے، (وحدت مصداقی وجود کے مسئلہ کی طرف اشارہ ہے) ، اس کے بعد علامہ موصوف فرماتے ہیں: یہ عقیدہ عین کفر و دہریت ہے، خدا کا شکر ہے کہ اس نے ہمیں اہل بیت علیہم السلام کی برکت سے اس باطل عقیدہ سے دور رکھا ہے“۔

علامہ موصوف ”حلول“ کی بحث میں فرماتے ہیں:”یہ ایک مسلّم مسئلہ ہے کہ اگر کوئی چیز کسی چیز میں حلول کرنا چاہے تو اس کو ”محل“ کی ضرورت ہوتی ہے اور چونکہ خداوندعالم واجب الوجود ہے اور اسے کسی چیز کی ضرورت نہیں ہے، لہٰذا اس کا کسی چیز میں حلول کرنا غیر ممکن ہے“ اس کے بعد فرماتے ہیں: ”اہل سنت کے صوفیہ فرقہ نے اس سلسلہ میں مخالفت کی ہے، اور خداوندعالم کے حلول کو، عرفاء کے بدن میں ممکن شمار کرتے ہیں“ اس کے بعد علامہ موصوف ان لوگوں کی بہت زیادہ مذمت کرتے ہوئے فرماتے ہیں: ہم نے خود صوفیہ کے ایگ گروہ کو حضرت امام حسین علیہ السلام کے روضہ مبارک میں دیکھا ہے کہ ایک شخص کے علاوہ سب نے نماز مغرب پڑھی، اس کے بعدسبھی نے نماز عشاء پڑھی سوائے اسی ایک شخص کے، چنانچہ وہ یونہی بیٹھا رہا!!

ہم نے سوال کیا کہ اس نے نمازکیوں نہیں پڑھی؟ تو جواب دیا کہ اس کو نماز کی کیا ضرورت ہے؟ وہ تو خدا سے پیوستہ ہے! کیا یہ بات جائز ہے کہ خدا اور اس کے درمیان کوئی چیز پردہ بن جائے، نماز ان کے اور خدا کے درمیان ایک پردہ ہے!(۱)

یہی معنی ”مثنوی “کی پانچویں جلد میں ایک دوسری طرح پیش کئے گئے ہیں: جب تم منزل مقصود پر پہنچ جاؤ تو وہی حقیقت ہے، اور اس کی وجہ یہ بتائی ہے:

”لَو ظَهرتْ الحقائقُ بَطَلَتِ الشّرائعُ“

”جب حقائق ظاہر ہوجاتے ہیں تو شریعتیں باطل ہوجاتی ہیں“۔

اس کے بعد شریعت کو علم کیمیا سے مشابہ قرار دیا ہے ( جس علم کے ذریعہ تانباکو سونے میں تبدیل کیا جاتا ہے) اور کہا ہے: جو چیز اصل میں ہی سونا ہے ، یا سونا بن چکا ہے تو اسے علم کیمیا کی کیا ضرورت ہے؟! جیسا کہ کہتے ہیں:”طَلبُ الدَلیلِ بعدَ الوُصُولِ إلیٰ المدلولِ قبیحٌ!“ (۲)

”منزل مقصود تک پہنچنے کے بعد دلیل طلب کرنا قبیح اور برا ہے“۔

کتاب ”دلائل الصدق“ شرح ”نہج الحق“ میں بھی ”صاحب مواقف“ سے نقل کیا گیا ہے کہ نفی ”حلول“ اور ”اتحاد“ کے سلسلہ میں مخالفوں کے تین گروپ ہیں، اس کے بعد دوسرے گروہ کے بعض صوفیوں کا نام لیتے ہوئے کہتے ہیں کہ ان کی باتیں حلول و اتحاد کے بارے میں مردد ہیں، ( حلول سے مراد خداوندعالم کا کسی چیز میں نفوذ کرنا ہے، اور اتحاد و وحدت سے مراد خدا اور دوسری چیزوں کا ایک ہوجانا ہے)

اس کے بعد موصوف مزید فرماتے ہیں: ہم نے بعض ”صوفیہ وجودیہ“ کو دیکھا ہے جو حلول و اتحاد کا انکار کرتے ہیں، اور کہتے ہیں کہ یہ دونوں الفاظ خدا اور مخلوق میں مغایرت (جدائی) کی طرف اشارہ کرتے ہیں اور ہم اس چیز کے قائل نہیں ہیں! بلکہ ہماراکہنا یہ ہے :

لَیسَ فِی دارِالوجودِ غیرهُ دیّار “، (وجود کی وادی میں اس کے علاوہ کوئی چیز موجود ہی نہیں ہے“!)

اس موقع پر صاحب مواقف کہتے ہیں کہ یہ عذر،گناہ سے بھی بدتر ہے۔(۳)

البتہ اس سلسلہ میں صوفیوں کی بہت سی بے تُکی باتیں ہیں جو نہ اصول و منطق سے ہم آہنگ ہیں اور نہ ہی شریعت کے موافق۔

بہر حال دو چیزوں کے درمیان حقیقی ”اتحاد “ محال اور ناممکن ہے جیساکہ ”علامہ مرحوم“ نے بیان فرمایا ہے چونکہ یہ بات بالکل تضاد اورٹکراؤ پر مشتمل ہے، یہ کیسے ممکن ہے کہ دو چیزیں ایک ہوجائیں، اس کے علاوہ اگر کوئی خدا کا دوسری مخلوق بالخصوص عارفوں سے اتحاد کے عقیدہ کا قائل ہو، تو اس کا لازمہ یہ ہے کہ خداوندعالم میں ممکنات کے صفات پائے جائیں جیسے زمان و مکان اور تغیر وغیرہ۔

اور اسی طرح خداوندعالم کا دوسری چیزوں میں ”حلول“ کا لازمہ بھی زمان و مکان ہے جبکہ یہ چیزیں خداوندعالم کے واجب الوجود ہونے سے ہم آہنگ نہیں ہیں۔(۴)

اصولی طور پر خود صوفی بھی اس بات کے قائل ہیں کہ اس طرح کی باتوں کو عقلی دلائل کے ذریعہ ثابت نہیں کیا جاسکتا، اور غالباً اپنے راستہ کو عقلی راستہ سے الگ کرلیتے ہیں، اور اس سلسلہ میں اپنی مرضی جس کو ”راہ دل“ کہتے ہیں اس کے ذریعہ اپنے عقائد کو ثابت کرنے کی ناکام کوشش کرتے ہیں، اور مسلّم طور پر اگر کوئی عقلی منطق کو نہ مانے تو اس سے اس طرح کی ضد و نقیض باتوں کے علاوہ اور کوئی امید بھی نہیں کی جاسکتی۔

یہی وجہ ہے کہ ہمیشہ تاریخ میں بڑے بڑے علمائے کرام نے ان لوگوں سے دوری اختیار کی ہے، اور ان کو اپنے سے دور رکھا ہے۔

قرآن کریم نے بہت سی آیات میں عقل و برہان اور غور وخوض کے بارے میں توجہ دلائی ہے اور اسی کو ”معرفة اللہ“ کا راستہ بتایا ہے۔(۵)

____________________

(۱) نہج الحق ، ص۵۸ و۵۹.

(۲) دفترپنجم مثنوی ص۸۱۸،طبع سپہر ، تہران.

(۳) دلائل الصدق ، جلد اول، صفحہ ۱۳۷.

(۴) قابل توجہ بات یہ ہے کہ حلول واتحاد کے باطل ہونے کے سلسلہ میں علامہ حلی علیہ الرحمہ نے شرح تجرید الاعتقاد میں مفصل استدلال کے ساتھ بیان کیا ہے، (کشف المراد، صفحہ۲۲۷،باب انہ تعالیٰ لیس بحال فی غیرہ ونفی الاتحاد عنہ).

(۵) تفسیر پیام قرآن ، جلد ۴، صفحہ ۲۶۷ ، ۲۸۱


5

6

7

8

9

10

11

12

13

14

15

16

17

18

19

20

21

22

23

24

25

26

27

28

29

30

31

32

33

34

35

36