110 سوال اور جواب

110 سوال اور جواب0%

110 سوال اور جواب مؤلف:
زمرہ جات: مناظرے

110 سوال اور جواب

مؤلف: آیت اللہ ناصر مکارم شیرازی
زمرہ جات:

مشاہدے: 131743
ڈاؤنلوڈ: 4520

تبصرے:

110 سوال اور جواب
کتاب کے اندر تلاش کریں
  • ابتداء
  • پچھلا
  • 126 /
  • اگلا
  • آخر
  •  
  • ڈاؤنلوڈ HTML
  • ڈاؤنلوڈ Word
  • ڈاؤنلوڈ PDF
  • مشاہدے: 131743 / ڈاؤنلوڈ: 4520
سائز سائز سائز
110 سوال اور جواب

110 سوال اور جواب

مؤلف:
اردو

۴۱ ۔ کیا قرآن کا اعجاز صرف فصاحت و بلاغت میں منحصرہے؟

اس میں کوئی شک نہیں ہے کہ قرآن مجید کا اعجاز صرف فصاحت و بلاغت اور شیریں بیانی سے مخصوص نہیں ہے (جیسا کہ بعض قدیم مفسرین کا نظریہ ہے) بلکہ اس کے علاوہ دینی تعلیمات ، اور ایسے علوم کے لحاظ سے جو اس زمانہ تک پہچانے نہیں گئے تھے، احکام و قوانین، گزشتہ امتوں کی تاریخ ہے کہ جس میں کسی طرح کی غلط بیانی اور خرافات نہیں ہے، اور اس میں کسی طرح کا کوئی اختلاف اور تضاد نہیں ہے ، یہ تمام چیزیں اعجاز کا پہلو رکھتی ہیں۔

بلکہ بعض مفسرین کا تو یہ بھی کہنا ہے کہ قرآن مجید کے الفاظ اور کلمات کا مخصوص آہنگ اور لہجہ بھی اپنی قسم میں خود معجز نما ہے۔

اوراس موضوع کے لئے مختلف شواہد بیان کئے ہیں، منجملہ ان میں مشہور و معروف مفسر سید قطب کے لئے پیش آنے والے واقعات ہیں،موصوف کہتے ہیں:

میں دوسروں کے ساتھ پیش آنے والے واقعات کے بارے میں گفتگو نہیں کرتا بلکہ صرف اس واقعہ کو بیان کرتا ہوں جو میرے ساتھ پیش آیا، اور ۶ / افراد اس واقعہ کے چشم دید گواہ ہیں ( خود میں اور پانچ دوسرے افراد )

ہم چھ مسلمان ایک مصری کشتی میں” بحراطلس“ میں نیویورک کی طرف سفر کر رہے تھے، کشتی میں ۱۲۰/ عورت مرد سوار تھے، اور ہم لوگوں کے علاوہ کوئی مسلمان نہیں تھا، جمعہ کے دن ہم لوگوں کے ذہن میں یہ بات آئی کہ اس عظیم دریا میں ہی کشتی پر نماز جمعہ ادا کی جائے، ہم چاہتے تھے کہ اپنے مذہبی فرائض کو انجام دینے کے علاوہ ایک اسلامی جذبہ کا اظہار کریں، کیونکہ کشتی میں ایک عیسائی مبلغ بھی تھا جو اس سفر کے دوران عیسائیت کی تبلیغ کررہا تھا یہاں تک کہ وہ ہمیں بھی عیسائیت کی تبلیغ کرنا چاہتا تھا!۔

کشتی کا ”ناخدا “ایک انگریز تھا جس نے ہم کو کشتی میں نماز جماعت کی اجازت دیدی، اور کشتی کا تمام اسٹاف افریقی مسلمان تھا، ان کو بھی ہمارے ساتھ نماز جماعت پڑھنے کی اجازت دیدی ، اور وہ بھی اس بات سے بہت خوش ہوئے کیونکہ یہ پہلا موقع تھا کہ جب نماز جمعہ کشتی میں ہورہی تھی!

حقیر (سید قطب) نے نماز جمعہ کی امامت کی ، اور قابل توجہ بات یہ ہے کہ سبھی غیر مسلم مسافر ہمارے چاروں طرف کھڑے ہوئے اس اسلامی فریضہ کے ادائیگی کو غور سے دیکھ رہے تھے۔

نماز جمعہ تمام ہونے کے بعد بہت سے لوگ ہمارے پاس آئے اور اس کامیابی پر ہمیں مبارک باد پیش کی، جن میں ایک عورت بھی تھی جس کو ہم بعد میں سمجھے کہ وہ عیسائی ہے اور یوگو سلاویہ کی رہنے والی ہے اور ٹیٹو او رکمیونیزم کے جہنم سے بھاگی ہے!!

اس پر ہماری نماز کا بہت زیادہ اثر ہوایہاں تک کہ اس کی آنکھوں سے آنسو جاری تھے اور وہ خود پر قابو نہیں پارہی تھی۔

وہ سادہ انگریزی میں گفتگو کررہی تھی اور بہت ہی زیادہ متاثر تھی ایک خاص خضوع و خشوع میں بول رہی تھی، چنانچہ اس نے سوال کیا کہ یہ بتاؤ کہ تمہارا پادری کس زبان میں پڑھ رہا تھا، ( وہ سوچ رہی تھی کہ نماز پڑھانے والا پادری کوئی روحانی ہونا چاہئے، جیسا کہ خود عیسائیوں کے یہاں ہوتا ہے ، لیکن ہم نے اس کو سمجھایا کہ اس اسلامی عبادت کو کوئی بھی باایمان مسلمان انجام دے سکتا ہے) آخر کار ہم نے اس سے کہا کہ ہم عربی زبان میں نماز پڑھ رہے تھے۔

اس نے کہا: میں اگرچہ ان الفاظ کے معنی کو نہیں سمجھ رہی تھی، لیکن یہ بات واضح ہے کہ ان الفاظ کا ایک عجیب آہنگ اور لہجہ ہے اور سب سے زیادہ قا بل تو جہ بات مجھے یہ محسوس ہو ئی کہ تمہارے امام کے خطبوں کے درمیان کچھ ایسے جملے تھے جو واقعاً دوسروں سے ممتاز تھے، وہ ایک غیر معمولی اور عمیق انداز کے محسوس ہورہے تھے، جس سے میرا بدن لرز رہاتھا، یقینا یہ کلمات کوئی دوسرے مطالب تھے، میرا نظریہ یہ ہے کہ جس وقت تمہارا امام ان کلمات کو اداکرتا تھا تو اس وقت ”روح القدس“ سے مملو ہوتا تھا!!

ہم نے کچھ غور و فکر کیا تو سمجھ گئے کہ یہ جملے وہی قرآنی آیات تھے جو خطبوں کے درمیان پڑھے گئے تھے واقعاً اس موضوع نے ہمیں ہلاکر رکھ دیا اور اس نکتہ کی طرف متوجہ ہوئے کہ قرآن مجید کا مخصوص لہجہ اتنا موثر ہے کہ اس نے اس عورت کو بھی متاثر کردیا جو ایک لفظ بھی نہیں سمجھ سکتی تھی لیکن پھر بھی اس پر بہت زیادہ اثر ہوا۔(۱)(۲)

____________________

(۱) تفسیر فی ضلال ، جلد ۴، صفحہ ۴۲۲

(۲) تفسیر نمونہ ، جلد ۸، صفحہ ۲۸۹

۴۲ ۔قرآن کی مثل کیسے نہ لاسکے؟

جیسا کہ ہم سورہ بقرہ میں پڑھتے ہیں:( وَإِنْ کُنتُمْ فِی رَیْبٍ مِمَّا نَزَّلْنَا عَلَی عَبْدِنَا فَاٴْتُوا بِسُورَةٍ مِنْ مِثْلِهِ ) (۱)

”اگر تمہیں اس کلام کے بارے میں کو ئی شک ہے جسے ہم نے اپنے بندے پر نازل کیا ہے تو اس کے جیسا ایک ہی سورہ لے آؤ“۔

یہاں پر یہ سوال اٹھتا ہے کہ دشمنان اسلام قرآن کی مثل کیسے نہ لاسکے؟

اگر ہم اسلامی تاریخ پر ایک نظر ڈالیں تو اس سوال کا جواب آسانی سے روشن ہوجاتا ہے، کیونکہ اسلامی ممالک میں پیغمبر اکرم (ص) کے زمانہ میں اور آپ کی وفات کے بعد خود مکہ اور مدینہ میں بہت ہی متعصب دشمن، یہود اور نصاریٰ رہتے تھے جو مسلمانوں کو کمزور بنانے کے لئے ہر ممکن کوشش کرتے تھے، ان کے علاوہ خود مسلمانوں کے درمیان بعض ”مسلمان نما“ افراد موجود تھے جن کو قرآن کریم نے ”منافق“ کہا ہے، جو غیروں کے لئے ”جاسوسی“ کا رول ادا کررہے تھے ( جیسے ”ابوعامرراہب “ اور اس کے منافق ساتھی، جن کا رابطہ روم کے بادشاہ سے تھا اور تاریخ نے اس کو نقل

کیا ہے یہاں تک کہ انھوں نے مدینہ میں ”مسجد ضرار“ بھی بنائی ، اور وہ عجیب و غریب واقعہ پیش آیا جس کا اشارہ سورہ توبہ نے کیا ہے)۔

مسلّم طور پر منافقین کا یہ گروہ اور اسلام کے بعض دوسرے بڑے بڑے دشمن مسلمانوں کے حالات پر نظر رکھے ہوئے تھے اور مسلمانوں کے ہو نے والے نقصان پر بہت خوش ہوا کرتے تھے، نیز مسلمانوں کو کمزور کرنے کے لئے اپنی پوری طاقت سے ان واقعات کو نشر کرتے تھے، یا کم از کم ان واقعات کو حفظ کرنے کی کوشش کرتے تھے۔

لہٰذا ہم دیکھتے ہیں کہ جن لوگوں نے ذرا بھی قرآن سے مقابلہ کرنے کا ارادہ کیا ہے، تاریخ نے ان کانام نقل کیا ہے، چنانچہ ان میں درج ذیل افراد کا نام لیا جاتا ہے:

”عبد اللہ بن مقفع“ کا نام تاریخ نے بیان کیا ہے کہ اس نے ”الدرة الیتیمة“ نامی کتاب اسی وجہ سے لکھی ہے۔

جبکہ مذکورہ کتاب ہمارے یہاں موجود ہے اور کئی مرتبہ چھپ بھی چکی ہے لیکن اس کتاب میں اس طر ف ذرا بھی اشار ہ نہیں ہے، ہمیں نہیں معلوم کہکس طرح اس شخص کی طرف یہ نسبت دی گئی ہے؟

احمد بن حسین کوفی ”متنبی“ جو کہ کوفہ کا مشہور شاعر تھا اس کا نام بھی اسی سلسلہ میں بیان کیا ہے کہ اس نے نبوت کا دعویٰ کیا ہے، جب کہ بہت سے قرائن اس بات کی گواہی دیتے ہیں کہ اس کی بلندپروازی، خاندانی پسماندگی اور جاہ و مقام کی آرزو اس میں سبب ہوئی ہے۔

ابو العلای معری پر بھی اسی چیز کا الزام ہے ، اگرچہ اس نے اسلام کے سلسلہ میں بہت سی نازیبا حرکتیں کی ہیں لیکن قرآن سے مقابلہ کرنے کا تصور اس کے ذہن میں نہیں تھا، بلکہ اس نے قرآن کی عظمت کے سلسلہ میں بہت سی باتیں کہی ہیں۔

لیکن ”مسیلمہ کذاب“ اہل یمامہ میں سے ایک ایسا شخص تھا جس نے قرآن کا مقابلہ کرتے ہوئے اس جیسی آیات بنانے کی ناکام کوشش کی ، جس میں تفریحی پہلو زیادہ پایا جاتا ہے، یہاں پر اس کے چند جملے نقل کرنا مناسب ہوگا:

۱ ۔ سورہ ”الذاریات“ کے مقابلہ میں یہ جملے پیش کئے:

”وَالمُبذراتِ بذراً والحاصداتِ حَصداً والذَّاریات قَمحاً والطاحناتِ طحناً والعاجناتِ عَجناً والخَابِزاتِ خُبزاً والثارداتِ ثَرداً واللاقماتِ لَقماً إهالة وسَمناً“ (۲)

”یعنی قسم ہے کسانوں کی، قسم ہے بیج ڈالنے والوں کی، قسم ہے گھاس کو گندم سے جدا کرنے والوں کی اورقسم ہے گندم کو گھاس سے جدا کرنے والوں کی، قسم ہے آٹا گوندھنے والیوں کی اور قسم ہے روٹی پکانے والیوں کی اور قسم ہے تر اور نرم لقمہ اٹھانے والوں کی“!!

۲ ۔یا ضفدع بنت ضفدع، نقيّ ما تنقین، نِصفک فی الماء و نِصفک فِي الطین لا الماء تکدّرین ولا الشارب تمنعین(۳) (۴)

” اے مینڈک بنت مینڈک! جو تو چاہے آواز دے! تیرا آدھا حصہ پانی میں اور آدھا کیچڑ میں ہے، تو نہ پانی کوخراب کرتی ہے اور نہ کسی کو پانی پینے سے روکتی ہے“

____________________

(۱)سورہ بقرہ ، آیت ۲۳

(۲) اعجاز القرآن رافعی۳

(۳) قرآن و آخرین پیغمبر

(۴) تفسیر نمونہ ، جلد ۱، صفحہ ۱۳

۴۳ ۔ قرآن کے حروف مقطّعات سے کیا مراد ہے؟

قرآن مجید کے ۲۹ سوروں کے شروع میں حروف مقطّعاتآئے ہیں، اور جیسا کہ ان کے نام سے ظاہر ہے کہ یہ الگ الگ حروف ہیں اور ایک دوسرے سے جدا دکھائی دیتے ہیں، جس سے کسی لفظ کا مفہوم نہیں نکلتا۔

قرآن مجید کے حروف مقطّعات، ہمیشہ قرآن کے اسرار آمیز الفاظ شمار ہوئے ہیں، اور مفسرین نے اس سلسلہ میں متعدد تفسیریں بیان کی ہیں، آج کل کے دانشوروں کی جدید تحقیقات کے مد نظر ان کے معنی مزید واضح ہوجاتے ہیں۔

یہ بات قابل توجہ ہے کہ کسی بھی تاریخ نے بیان نہیں کیا ہے کہ دورِ جاہلیت کے عرب یا مشرکین نے قرآن کے بہت سے سوروں میں حروف مقطّعات پر کوئی اعتراض کیا ہو، یا ان کا مذاق اڑایا ہو، جو خود اس بات کی بہترین دلیل ہے کہ وہ لوگ حروف مقطّعات کے اسرار سے بالکل بے خبر نہیں تھے۔

بہر حال مفسرین کی بیان کردہ چند تفسیریں موجود ہیں، سب سے زیادہ معتبراوراس سلسلہ میں کی گئی تحقیقات سے ہم آہنگ دکھائی دینے والی تفاسیرکی طرف اشارہ کرتے ہیں:

۱ ۔ یہ حروف اس بات کی طرف اشارہ ہیں کہ یہ عظیم الشان آسمانی کتاب کہ جس نے تمام عرب اور عجم کے دانشوروں کو تعجب میں ڈال دیا ہے اور بڑے بڑے سخنور اس کے مقابلہ سے عاجز ہوچکے ہیں، نمونہ کے طور پر یہی حروف مقطّعاتہیں جو سب کی نظروں کے سامنے موجود ہیں۔

جبکہ قرآن مجید انھیں الفابیٹ اور معمولی الفاظ سے مرکب ہے، لیکن اس کے الفاظ اتنے مناسب اور اتنے عظیم معنی لئے ہوئے ہے جو انسان کے دل و جان میں اثر کرتے ہیں، روح پر ایک گہرے اثر ڈالتے ہیں ، جن کے سامنے افکار اور عقول تعظیم کرتی ہوئی نظر آتی ہیں، اس کے جملے عظمت کے بلند درجہ پر فائز ہیں اور اپنے اندر معنی کا گویا ایک سمندر لئے ہوئے ہیں جس کی کوئی مثل و نظیر نہیں ملتی۔

حروف مقطّعات کے سلسلے میں اس بات کی تا ئید یوں بھی ہوتی ہے کہ قرآن مجید کے جہاں سوروں کے شروع میں حروف مقطّعاتآئے ہیں ان میں سے ۲۴ / مقامات پر قرآن کی عظمت بیان کی گئی ہے، جو اس بات کی بہترین دلیل ہے کہ ان دونوں (عظمت قرآن اور حروف مقطّعہ) میں ایک خاص تعلق ہے۔

ہم یہاں پر چند نمونے پیش کرتے ہیں:

۱ ۔( اٰلٰرٰ کِتَابٌ اٴُحْکِمَتْ آیَاتُهُ ثُمَّ فُصِّلَتْ مِنْ لَدُنْ حَکِیمٍ خَبِیر ) (۱)

الرٰیہ وہ کتاب ہے جس کی آیتیں محکم بنائی گئی ہیں اور ایک صاحب علم و حکمت کی طرف سے تفصیل کے ساتھ بیان کی گئی ہیں“۔

۲ ۔( طٰس تِلْکَ آیَاتُ الْقُرْآنِ وَکِتَابٍ مُبِینٍ ) (۲)

”طٰس ،یہ قرآن اور روشن کتاب کی آیتیں ہیں“۔

۳ ۔( اٰلٰم تِلْکَ آیَاتُ الْکِتَابِ الْحَکِیمِ ) (۳)

” الم ، یہ حکمت سے بھری ہوئی کتاب کی آیتیں ہیں“۔

۴ ۔( اٰلٰمص کِتَابٌ اٴُنزِلَ إِلَیْکَ ) (۴)

”المص، یہ کتاب آپ کی طرف نازل کی گئی ہے“۔

ان تمام مقامات اور قرآن مجید کے دوسرے سوروں کے شروع میں حروف مقطّعہ ذکر ہونے کے بعد قرآن اور اس کی عظمت کی گفتگو ہوئی ہے۔(۵)

۲ ۔ ممکن ہے قرآن کریم میں حروف مقطّعات بیان کرنے کا دوسرا مقصد یہ ہو کہ سننے والے متوجہ ہوجائیں اور مکمل خاموشی کے ساتھ سنیں، کیونکہ گفتگو کے شروع میں اس طرح کے جملے عربوں کے درمیان عجیب و غریب تھے، جس سے ان کی تو جہ مزید مبذول ہو جا تی تھی، اور مکمل طور سے سنتے تھے، اور یہ بھی اتفاق ہے کہ جن سوروں کے شروع میں حروف مقطّعاتآئے ہیں وہ سب مکی سورے ہیں، اور ہم جانتے ہیں کہ وہاں پر مسلمان اقلیت میں تھے، اور پیغمبر اکرم (ص) کے دشمن تھے، آپ کی باتوں کو سننے کے لئے بھی تیار نہیں تھے، کبھی کبھی اتنا شور و غل کیا کرتے تھے کہ پیغمبر اکرم (ص) کی آواز تک سنائی نہیں دیتی تھی، جیسا کہ قرآن مجید کی بعض آیات (جیسے سورہ فصلت ، آیت نمبر ۲۶) اسی چیز کی طرف اشارہ کرتی ہیں۔

۳ ۔ اہل بیت علیہم السلام کی بیان شدہ بعض روایات میں پڑھتے ہیں کہ یہ حروف مقطّعات، اسماء خدا کی طرف اشارہ ہیں جیسے سورہ اعراف میں ”المص“ ، ”انا الله المقتدر الصادق“ (میں صاحب قدرت اور سچا خدا ہوں) اس لحاظ سے چاروں حرف خداوندعالم کے ناموں کی طرف اشارہ ہیں۔

مختصر شکل ( یا کوڈ ورڈ) کو تفصیلی الفاظ کی جگہ قرار دینا قدیم زمانہ سے رائج ہے، اگرچہ دورحاضر میں یہ سلسلہ بہت زیادہ رائج ہے، اور بہت ہی بڑی بڑی عبارتوں یا اداروں اور انجمنوں کے نام کا ایک کلمہ میں خلاصہ ہوجا تا ہے۔

ہم اس نکتہ کا ذکرضروری سمجھتے ہیں کہ ”حروف مقطّعات“ کے سلسلہ میں یہ مختلف معنی آپس میں کسی طرح کا کوئی ٹکراؤ نہیں رکھتے، اور ممکن ہے کہ یہ تمام تفسیریں قرآن کے مختلف معنی کی طرف اشارہ ہوں۔(۶)

۴ ۔ ممکن ہے کہ یہ تمام حروف یا کم از کم ان میں ایک خاص معنی اور مفہوم کا حامل ہو، بالکل اسی طرح جیسے دوسرے الفاظ معنی و مفہوم رکھتے ہیں۔

اتفاق کی بات یہ ہے کہ سورہ طٰہٰ اور سورہ یٰس کی تفسیر میں بہت سی روایات اور مفسرین کی گفتگو میں ملتا ہے کہ ”طٰہ“ کے معنی یا رجل (یعنی اے مرد) کے ہیں ، جیسا کہ بعض عرب شعرا کے شعر میں لفظ طٰہ آیاہے اور اے مرد کے مشابہ یا اس کے نزدیک معنی میں استعمال ہوا ہے ، جن میں سے بعض اشعار یا تو اسلام سے پہلے کے ہیں یا آغاز اسلام کے ۔(۷)

یہاں تک کہ ایک صاحب نے ہم سے نقل کیا کہ مغربی ممالک میں اسلامی مسائل پر تحقیق کرنے والے دا نشوروں نے اس مطلب کو تمام حروف مقطّعات کے بارے میں قبول کیا ہے اوراس بات کا اقرار کیا ہے کہ قرآن مجید کے سوروں کی ابتداء میں جو حروف مقطّعات بیان ہوئے ہیں وہ اپنے اندر خاص معنی لئے ہوئے ہیں جو گزشتہ زمانہ میں متروک رہے ہیں، اور صرف بعض ہم تک پہنچے ہیں، ورنہ تو یہ بات بعید ہے کہ عرب کے مشرکین حروف مقطّعات کو سنیں اور ان کے معنی کو نہ سمجھیں اور

مقابلہ کے لئے نہ کھڑ ے ہوں، جبکہ کوئی بھی تاریخ یہ بیان نہیں کرتی کہ ان کم دماغ والے اور بہانہ باز لوگوں نے حروف مقطّعات کے سلسلہ میں کسی ردّ عمل کا اظہار کیا ہو۔

البتہ یہ نظریہ عام طور پر قرآن مجید کے تمام حروف مقطّعات کے سلسلے میں قبول کیا جانا مشکل ہے، لیکن بعض حروف مقطّعات کے بارے میں قبول کیا جاسکتا ہے، کیونکہ اسلامی منابع ومصادر میں اس موضوع پر بحث کی گئی ہے۔

یہ مطلب بھی قابل توجہ ہے کہ حضرت امام صادق علیہ السلام سے منقول ایک حدیث میں بیان ہوا ہے کہ ”طٰہ“ پیغمبر اکرم (ص) کا ایک نام ہے ،جس کے معنی ”یا طالب الحق، الہادی الیہ“ ( اے حق کے طالب اور حق کی طرف ہدایت کرنے والے)

اس حدیث سے یہ نتیجہ نکلتا ہے کہ لفظ ”طٰہٰ “ دو اختصاری حرف سے مرکب ہے ایک ”طا“ جو ”طالب الحق“ کی طرف اشارہ ہے اور دوسرے ”ھا“ جو ”ہادی الیہ“ کی طرف اشارہ ہے۔

اس سلسلہ میں آخری بات یہ ہے کہ ایک مدت گزرنے کے بعد لفظ ”طٰہ“ ، لفظ ”یٰس“ کی طرح آہستہ آہستہ پیغمبر اکرم (ص) کے لئے ”اسم خاص“ کی شکل اختیار کرگیا ہے، جیسا کہ آل پیامبر (ص) کو ”آل طٰہ“ بھی کہا گیا، جیسا کہ دعائے ندبہ میں حضرت امام زمانہ عجل اللہ تعالی فرجہ ‘ کو ”یابن طٰہ“ کہا گیا ہے۔(۸)

۵ ۔ علامہ طباطبائی ( علیہ الر حمہ) نے ایک دوسرا احتمال دیا ہے جس کو حروف مقطّعات کی ایک دوسری تفسیر شمار کیا جاسکتا ہے، اگرچہ موصوف نے اس کو ایک احتمال اور گمان کے عنوان سے بیان کیا ہے۔

ہم آپ کے سامنے موصوف کے احتمال کا خلاصہ پیش کررہے ہیں:

جس وقت ہم حروف مقطّعات سے شروع ہونے والے سوروں پر غور و فکر کرتے ہیں تو دیکھتے ہیں کہ مختلف سوروں میں بیان ہو ئے حروف مقطّعات سورہ میں بیان شدہ مطالب میں مشترک ہیں مثال کے طور پر جو سورے ”حم“ سے شروع ہوتے ہیں اس کے فوراً بعد جملہ( تَنْزِیْلُ الکِتَابِ مِن الله ) (سورہ زمر آیت ۱) یا اسی مفہوم کا جملہ بیان ہوتا ہے اور جو سورے ”الر“ سے شروع ہوتے ہیں ان کے بعد( تِلْکَ آیاتُ الکتابِ ) یا اس کے مانند جملے بیان ہوئے ہیں۔

اور جو سورے ”الم“ سے شروع ہوتے ہیں اس کے بعد( ذٰلک الکتابُ لاریبَ فِیْه ) یا اس سے ملتے جلتے کلمات بیان ہوئے ہیں۔

اس سے یہ اندازہ لگایا جاسکتا ہے کہ حروف مقطّعات اور ان سوروں میں بیان ہوئے مطالب میں ایک خاص رابطہ ہے مثال کے طور پر سورہ اعراف جو ”المٰص“ سے شروع ہوتا ہے اس کا مضمون اور سورہ ”الم“ اور سورہ ”ص“ کا مضمون تقریباً ایک ہی ہے۔

البتہ ممکن ہے کہ یہ رابطہ بہت عمیق اور دقیق ہو، جس کو ایک عام انسان سمجھنے سے قاصر ہو۔

اور اگر ان سوروں کی آیات کو ایک جگہ رکھ کر آپس میں موازنہ کریں تو شاید ہمارے لئے ایک نیا مطلب کشف ہوجائے۔(۹) (۱۰

____________________

(۱) سورہ ہود ، آیت ۱ (۲) سورہ نمل ، آیت (۳) سورہ لقمان ، آیت ۱و۲

(۴) سورہ اعراف ، آیت ۱و۲

(۵) تفسیر نمونہ ، جلد اول، صفحہ ۶۱

(۵۱) تفسیر نمونہ ، جلد ۶، صفحہ ۷۸

(۶) تفسیر مجمع البیان ،سورہ طہ کی پہلی آیت کے ذیل میں

(۷) تفسیر نمونہ ، جلد ۱۳، صفحہ ۱۵۷

(۸) تفسیر نمونہ ، جلد اول، صفحہ ۸

(۹) تفسیر المیزان ، جلد ۱۸، صفحہ ۵و۶

(۱۰) تفسیر نمونہ ، جلد ۲۰، صفحہ ۳۴۶

۴۴ ۔ قرآن مجید پیغمبر اکرم کے زمانہ میں مرتب ہوچکا تھا یا بعد میں ترتیب دیا گیا؟

جیسا کہ ہم جانتے ہیں کہ قرآن مجید کے پہلے سورے کا نام ”فاتحة الکتاب“ ہے ، ”فاتحة الکتاب“ یعنی کتاب (قرآن) کی ابتدااور پیغمبر اکرم (ص) سے منقول بہت سی روایات کے پیش نظر یہ نتیجہ نکلتا ہے کہ خود آنحضرت (ص) کے زمانہ میں اس سورہ کو اسی نام سے پکارا جاتا تھا۔

یہیں سے ایک دریچہ اسلام کے مسائل میں سے ایک اہم مسئلہ کی طرف وا ہوتا ہے اور وہ یہ کہ ایک گروہ کے درمیان یہ مشہور ہے کہ ( پیغمبر اکرم (ص) کے زمانہ میں قرآن پراکندہ تھا بعد میں حضرت ابوبکر یا عمر یا عثمان کے زمانہ میں مرتب ہوا ہے)، قرآن مجید خود پیغمبر اکرم (ص) کے زمانہ میں اسی ترتیب سے موجود تھا جو آج ہمارے یہاں موجود ہے، اور جس کا سر آغاز یہی سورہ حمد تھا، ورنہ تو یہ پیغمبر اکرم (ص) پر نازل ہونے والاسب سے پہلا سورہ نہیں تھا اور نہ ہی کوئی دوسری دلیل تھی جس کی بناپر اسے ”فاتحة الکتاب“ کے نام سے یاد کیا جاتا۔

اس کے علاوہ اور بہت سے شواہد اس حقیقت کی تائید کرتے ہیں کہ قرآن کریم اسی موجودہ صورت میں پیغمبر اکرم (ص) کے زمانہ میں جمع ہوچکا تھا۔

”علی بن ابراہیم“ حضرت امام صادق علیہ السلام سے نقل کرتے ہیں کہ حضرت رسول خدا نے حضرت علی علیہ السلام سے فرمایا: قرآن کریم حریر کے کپڑوں ،کاغذ اور ان جیسی دوسری چیزوں پر متفرق ہے لہٰذا اس کو ایک جگہ جمع کرلو“ اس کے بعد مزید فرماتے ہیں کہ حضرت علی علیہ السلام اس نشست سے اٹھے اور قرآن کو ایک زرد رنگ کے کپڑے پر جمع کیا اور اس پر مہر لگائی:

”وَانطلقَ عَليَّ (ع)فَجمعہُ فِي ثوبٍ اصفرٍ ثُمَّ خَتَم علَیْہِ“(۱)

ایک دوسرا گواہ: ”خوارزمی“ اہل سنت کے مشہور و معروف مولف اپنی کتاب ”مناقب“ میں ”علی بن ریاح“ سے نقل کرتے ہیں کہ قرآن مجید کو حضرت علی بن ابی طالب اور ابیّ بن کعب نے پیغمبر اکرم (ص) کے زمانہ ہی میں جمع کردیا تھا۔

تیسرا گواہ: اہل سنت کے مشہور و معروف مولفحاکم نیشاپوری اپنی کتاب ”مستدرک“ میں زید بن ثابت سے نقل کرتے ہیں:

زید کہتے ہیں: ” ہم لوگ قرآن کے مختلف حصوں کو پیغمبر اکرم (ص) کی خدمت میں جمع کرتے تھے اور آنحضرت (ص) کے فرمان کے مطابق اس کی مناسب جگہ قرار دیتے تھے، لیکن پھر بھی یہ لکھا ہوا قرآن متفرق تھا ،حضرت رسول خدا (ص) نے حضرت علی علیہ السلام سے فرمایا کہ اس کو ایک جگہ جمع کردیں ، اور ہمیں اس کی حفا ظت کے لئے تا کید کیاکرتے تھے“۔

عظیم الشان شیعہ عالم دینسید مرتضیٰ کہتے ہیں:قرآن مجید پیغمبر اکرم (ص) کے زمانہ میں اسی موجودہ صورت میں مرتب ہوچکا تھا“(۲)

طبرانی اور ابن عساکر دونوں ”شعبی“ سے نقل کرتے ہیں کہ پیغمبر اکرم (ص) کے زمانہ میں انصار کے چھ افراد نے قرآن کو جمع کیا۔(۳) اور قتادہ نقل کرتے ہیں کہ میں نے انس سے سوال کیا

کہ پیغمبر اکرم (ص) کے زمانہ میں کن لوگوں نے قرآن جمع کیا تھا؟ تو انھوں نے :ابیّ بن کعب، معاذ،زید بن ثابت اور ابوزید کا نام لیا جو سبھی انصار میںسے تھے(۳) اس کے علاوہ بھی بہت سی روایات ہیں جو اسی مطلب کی طرف اشارہ کرتی ہیں کہ اگر ہم ان سب کو بیان کریں تو ایک طولانی بحث ہوجائے گی۔

بہر حال شیعہ اور سنی کتب میں نقل ہونے والی روایات جن میں سورہ حمد کو ”فا تحة الکتاب“ کا نام دیا جانا، اس موضوع کو ثابت کرنے کے لئے کافی ہے۔

سوال:

یہاں ایک سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ کس طرح اس بات پر یقین کیا جاسکتا ہے جبکہ بہت سے علماکے نزدیک یہ بات مشہور ہے کہ قرآن کریم کو پیغمبر اکرم (ص) کی وفات کے بعد ترتیب دیا گیا ہے (حضرت علی کے ذریعہ یا دوسرے لوگوں کے ذریعہ)

اس سوال کے جواب میںہم یہ کہتے ہیں : حضرت علی علیہ السلام کا جمع کیا ہوا قرآن خالی قرآن نہیں تھا بلکہ قرآن مجید کے ساتھ سا تھ اس کی تفسیر اورشان نزول بھی تھی۔

البتہ کچھ ایسے قرائن وشواہد بھی پا ئے جا تے ہیں جن سے پتہ چلتا ہے کہ حضرت عثمان نے قرائت کے اختلاف کودور کرنے کے لئے ایک قرآن لکھا جس میں قرائت اور نقطوں کا اضافہ کیا (چونکہ اس وقت تک نقطوں کا رواج نہیں تھا) بعض لوگوں کا یہ کہنا کہ پیغمبر اکرم (ص) کے زمانہ میں کسی بھی صورت میں قرآن جمع نہیں کیا گیا تھا بلکہ یہ افتخار خلیفہ دوم یا حضرت عثمان کونصیب ہوا، تو یہ بات فضیلت سازی کا زیادہپہلو رکھتی ہے لہٰذا اصحاب کی فضیلت بڑھا نے کے لئے نسبت دیتے ہیں اورروایت نقل کرتے ہیں۔

بہر حال اس بات پرکس طرح یقین کیا جاسکتا ہے کہ پیغمبر اکرم (ص) اتنے اہم کام پر کوئی توجہ نہ کریں جبکہ آنحضرت (ص) چھوٹے چھوٹے کاموں کو بہت اہمیت دیتے تھے،کیا قرآن کریم اسلام کے بنیادی قوانین کی کتاب نہیں ہے؟! کیا قرآن کریم تعلیم و تربیت کی عظیم کتاب نہیں ہے؟! کیا قرآن کریم اعتقادات نیز اسلامی منصوبوں کی بنیادی کتاب نہیں ہے؟! کیا پیغمبر اکرم (ص) کے زمانہ میں قرآن کریم کے جمع نہ کرنے سے یہ خطرہ درپیش نہ تھا کہ اس کا کچھ حصہ نابود ہوجائے گایا مسلمانوں کے درمیان اختلاف ہوجائے گا؟!

اس کے علاوہ مشہور و معروف حدیث ”ثقلین“ جس کو شیعہ اور سنی دونوں فر یقوں نے نقل کیا ہے کہ پیغمبر اکرم (ص) نے فرمایا: ”میں تمہارے درمیان دو گرانقدر چیزیں چھوڑے جارہا ہوں :ایک کتاب خدا (قرآن) اور دوسرے میری عترت (اہل بیت )“ اس حدیث سے بھی ظاہر ہوتا ہے کہ قرآن کریم ایک کتاب کی شکل میں موجود تھا۔

اور اگر ہم دیکھتے ہیں کہ بعض روایات میں بیان ہوا ہے کہ خود آنحضرت (ص) کی زیرنگرانی بعض اصحاب نے قرآن جمع کیا ، اوروہ تعداد کے لحاظ سے مختلف ہیں تواس سے کوئی مشکل پیدا نہیں ہوتی، کیو نکہ ممکن ہے کہ ہر روایت ان میں سے کسی ایک کی نشاندہی کرتی ہو۔(۴)

____________________

(۱) تاریخ القرآن ، ابو عبداللہ زنجانی صفحہ ۲۴ (۲) مجمع البیان ، جلد اول، صفحہ ۱۵

(۳) منتخب کنز العمال ، جلد ۲، صفحہ ۵۲

(۴) صحیح بخاری ، جلد ۶، صفحہ ۱۰۲

۴۵ ۔ قرآن مجید کی آیات میں محکم اور متشابہ سے کیا مراد ہے؟

جیسا کہ ہم سورہ آل عمران میں پڑھتے ہیں:( هُوَ الَّذِی اٴَنْزَلَ عَلَیْکَ الْکِتَابَ مِنْهُ آیَاتٌ مُحْکَمَاتٌ هُنَّ اٴُمُّ الْکِتَابِ وَاٴُخَرُ مُتَشَابِهَاتٌ ) (۱)

”اس نے آپ پر وہ کتاب نازل کی ہے جس میں سے کچھ آیتیں محکم ہیں جو اصل کتاب ہیں اور کچھ متشابہ ہیں“۔

یہاں پر یہ سوال پیدا ہوتا ہے کہ ”محکم“ اور ”متشابہ“ سے کیا مراد ہے؟

لفظ ”محکم“ کی اصل ”احکام“ ہے اسی وجہ سے مستحکم او رپائیدار موضوعات کو ”محکم“ کہا جاتا ہے، کیونکہ وہ خود سے نابودی کے اسباب کو دور کرتے ہیں، اور اسی طرح واضح و روشن گفتگوجس میں احتمال خلاف نہ پایا جاتا ہو اس کو ”محکم“ کہا جاتا ہے، اس بنا پر ”محکمات“ سے وہ آیتیں مراد ہیں جن کا مفہوم اور معنی اس قدر واضح اور روشن ہو کہ جس کے معنی میں بحث و گفتگو کی کوئی گنجائش نہ ہو، مثال کے طور پر درج ذیل آیات :

( قُلْ هُوَ اللهُ اٴحدٌ ) ( لَیْسَ کَمِثْلِهِ شَیءٌ ) ( اللهخَالِقُ کُلّ شَیءٍ ) ( لِلذَکَرِ مِثْلُ حَظَّ الاٴنْثَیَینِ )

اور اس کی طرح دوسری ہزاروں آیات جو عقائد، احکام، وعظ و نصیحت اور تاریخ کے بارے

میں موجود ہیں یہ سب آیات ”محکمات“ ہیں، ان محکم آیات کو قرآن کریم میں ”امّ الکتاب“ کانام دیا گیا ہے، یعنی یہی آیات اصل ،اور مرجع و مفسر ہیں اور یہی آیات دیگر آیات کی وضاحت کرتی ہیں۔

لفظ ”متشابہ“ کے لغوی معنی یہ ہیں کہ اس کے مختلف حصے ایک دوسرے کے شبیہ اور مانند ہوں، اسی وجہ سے ایسے جملے جن کے معنی پیچیدہ ہوں اور جن کے بارے میں مختلف احتمالات دئے جاسکتے ہوں ان کو ”متشابہ“ کہا جاتا ہے، اور قرآن کریم میں بھی یہی معنی مراد ہیں، یعنی ایسی آیات جن کے معنی ابتدائی نظر میں پیچیدہ ہیں شروع میں کئی احتمالات دئے جاتے ہیں اگرچہ آیات ”محکمات“ پر توجہ کرنے سے اس کے معنی واضح اور روشن ہوجاتے ہیں۔

اگرچہ ”محکم“ اور ”متشابہ“ کے سلسلہ میں مفسرین نے بہت سے احتمالات دئے ہیں لیکن ہمارا پیش کردہ مذکورہ نظریہ ان الفاظ کے اصلی معنی کے لحاظ سے بھی مکمل طور پر ہم آہنگ ہے اور شان نزول سے بھی، آیت کی تفسیر کے سلسلہ میں بیان ہونے والی روایات سے بھی،اورمحل بحث آیت سے بھی، کیونکہ مذکورہ آیت کے ذیل میں ہم پڑھتے ہیں کہ بعض خود غرض لوگ ”متشابہ“ آیات کو اپنی دلیل قرار دیتے تھے، یہ بات واضح ہے کہ وہ لوگ آیات سے ناجائز فائدہ اٹھانا چاہتے تھے کہ متشابہ آیات سرسری نظر میں متعدد معنی کئے جانے کی صلاحیت رکھتی ہیں جس سے یہ بات واضح ہوجاتی ہے کہ ”متشابہ“ سے وہی معنی مراد ہیں جو ہم نے اوپر بیان کئے ہیں۔

”متشابہ“ وہ آیات ہیں جو خداوندعالم کے صفات اور معاد کی کیفیت کے بارے میں ہیں ہم یہاں پر چند آیات کو نمونہ کے طور پر بیان کرتے ہیں:( یَدُ اللهِ فُوقَ اَیْدِیْهِم ) (خدا کا ہاتھ ان کے ہاتھوں کے اوپر ہے) جو خداوندعالم کی قدرت کے بارے میں ہے، اسی طرح( وَاللهُ سَمِیْعُ عَلِیْمُ ) (خدا سننے والا اور عالم ہے) یہ آیت خداوندعالم کے علم کے بارے میں دلیل ہے، اسی طرح( وَنَضَعُ المَوَازِینَ القِسْطِ لِیَومِ القَیَامَةِ ) ( ہم روزِ قیامت عدالت کی ترازو قائم کریں گے) یہ آیت اعمال کے حساب کے بارے میں ہے۔یہ بات ظاہر ہے کہ نہ خداوندعالم کے ہاتھ ہیں اور نہ ہی وہ آنکھ اور کان رکھتا ہے، اور نہ ہی اعمال کے حساب و کتاب کے لئے ہمارے جیسی ترازو رکھتا ہے بلکہ یہ سب خداوندعالم کی قدرت اور اس کے علم کی طرف اشارہ ہیں۔

یہاں اس نکتہ کی یاد دہانی کرانا ضروری ہے کہ قرآن مجید میں محکم اور متشابہ دوسرے معنی میں بھی آئے ہیں جیسا کہ سورہ ہود کے شروع میں ارشاد ہوتا ہے:( کتاب احکمت آیاته ) اس آیت میں تمام قرآنی آیات کو ”محکم“ قرار دیا ہے، جس کا مطلب یہ ہے کہ قرآن کریم کی آیات آپس میں ایک دوسرے سے تعلق رکھتی ہیں ،اور سورہ زمر میں آیت نمبر ۲۳ میں ارشاد ہوتا ہے:( کتاباً متشابه ) اس آیت میں قرآ ن کی تمام آیات کو متشابہ قراردیا گیا ہے کیو نکہ یہاں متشابہ کے معنی حقیقت ،صحیح اور درست ہونے کے لحاظ سے تمام آیات ایک دوسرے جیسی ہیں۔

لہٰذا محکم اور متشابہ کے حوالہ سے ہمارے بیان کئے ہو ئے مطالب کے پیش نظر معلوم ہوجاتا ہے ایک حقیقت پسند اور حق تلاش کرنے والے انسان کے لئے خداوندعالم کے کلام کو سمجھنے کا یہی ایک راستہ ہے کہ تمام آیات کو پیش نظر رکھے اور ان سے حقیقت تک پہنچ جائے ،چنانچہ اگر بعض آیات میں ابتدائی لحاظ سے کوئی ابہام اور پیچیدگی دیکھے تو دوسری آیات کے ذریعہ اس ابہام اور پیچیدگی کو دور کرکے اصل تک پہنچ جائے، درحقیقت ”آیات محکمات“ ایک شاہراہ کی طرح ہیں اور ”آیات متشابہات“ فرعی راستوں کی طرح ہیں ، کیونکہ یہ بات واضح ہے کہ اگر انسان فرعی راستوں میں بھٹک جائے تو کوشش کرتا ہے کہ اصلی راستہ پر پہنچ جائے، اور وہاں پہنچ کرصحیح راستہ کو معین کرلے۔

چنا نچہ آیات محکمات کو ”امّ الکتاب“ کہا جانا بھی اس حقیقت کی تاکید کرتا ہے، کیونکہ عربی میں لفظ ”امّ“ کے معنی ”اصل اور بنیاد“ کے ہیں، اور اگر ماں کو ”امّ“ کہا جاتا ہے تو اسی وجہ سے کہ بچوں کی اصل اور اپنی اولاد کی مختلف مشکلات اور حوادث میں پناہ گاہ ہوتی ہے، اسی طرح آیات محکمات دوسری آیات کی اصل اور ماں شمار ہوتی ہیں۔(۲)

____________________

(۱)سورہ آل عمران ، آیت ۷

(۲) تفسیر نمونہ ، جلد ۲، صفحہ ۳۲۰