110 سوال اور جواب

110 سوال اور جواب5%

110 سوال اور جواب مؤلف:
زمرہ جات: مناظرے

۱۱۰ سوال اور جواب
  • ابتداء
  • پچھلا
  • 126 /
  • اگلا
  • آخر
  •  
  • ڈاؤنلوڈ HTML
  • ڈاؤنلوڈ Word
  • ڈاؤنلوڈ PDF
  • مشاہدے: 140458 / ڈاؤنلوڈ: 6361
سائز سائز سائز
110 سوال اور جواب

۱۱۰ سوال اور جواب

مؤلف:
اردو

1

2

۴۶ ۔کیوں بعض قرآنی آیات متشابہ ہیں؟

لیکن اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ قرآن مجید میں متشابہ آیات کی وجہ کیا ہے؟ جبکہ قرآن مجید نور، روشنی، کلام حق اور واضح ہے نیزلوگوں کی ہدایت کے لئے نازل ہوا ہے تو پھر قرآن مجید میں اس طرح کی متشابہ آیات کیوں ہیں اور قرآن مجید کی بعض آیات کا مفہوم پیچیدہ کیوں ہے کہ بعض اوقات شرپسندوں کو ناجائز فائدہ اٹھانے کا مو قع مل جا تا ہے ؟

یہ موضوع در حقیقت بہت اہم ہے جس پر بھر پورتوجہ کرنے کی ضرورت ہے، کلی طور پر درج ذیل چیزیں قرآن میں متشابہ آیات کا راز اور وجہ ہو سکتی ہیں :

۱ ۔ انسان جو الفاظ اور جملے استعمال کرتا ہے وہ صرف روز مرّہ کی ضرورت کے تحت ہوتے ہیں ، اسی وجہ سے جب ہم انسان کی مادی حدود سے باہر نکلتے ہیں مثلاً خداوندعالم جو ہر لحاظ سے نامحدود ہے، اگر اس کے بارے میں گفتگو کر تے ہیں تو ہم واضح طور پر دیکھتے ہیں کہ ہمارے الفاظ ان معانی کے لئے کما حقہ پورے نہیں اترتے، لیکن مجبوراً ان کو استعمال کرتے ہیں ، کہ الفاظ کی یہی نارسائی قرآن مجید کی بہت سی متشابہ آیات کا سرچشمہ ہیں ،( یَدُ اللهِ فَوقَ اٴیدِیهم ) (سورہ فتح/ ۱۰) یا( الرَّحمٰنُ عَلَی الْعَرْشِ استَویٰ ) (سورہ طٰہ/ ۵) یا( إلیٰ رَبِّهَا نَاظِرَةِ ) (سورہ قیامت/ ۲۳) یہ آیات اس چیز کا نمونہ ہیں نیز ”سمیع“ اور ”بَصِیرٌ“ جیسے الفاظ بھی اسی طرح ہیں کہ آیات محکمات پر رجوع کرنے سے ان الفاظ اور آیات متشابہات کے معنی بخوبی واضح اور روشن ہوجاتے ہیں۔

۲ ۔ بہت سے حقائق دوسرے عالم یا ماورائے طبیعت سے متعلق ہوتے ہیں جن کو ہم سمجھنے سے قاصر ہیں، چونکہ ہم زمان و مکان میں مقید ہیں لہٰذا ان کی گہرائی کو سمجھنے سے قاصر ہیں، اورہمارے افکار کی نارسائی اور ان معانی کا بلند و بالا ہونا ان آیات کے تشابہ کا باعث ہے جیسا کہ قیامت وغیرہ سے متعلق بعض آیات موجود ہیں۔

یہ بالکل اسی طرح ہے کہ اگر کوئی شخص شکم مادر میں موجود بچہ کو اس دنیا کے مسائل کی تفصیل بتانا چاہے، تو بہت ہی اختصار اور مجمل طریقہ سے بیان کرنے ہوں گے کیونکہ اس میں صلاحیت اور استعداد نہیں ہے۔

۳ ۔ قرآن مجید میں متشابہ آیات کا ایک راز یہ ہو سکتا ہے کہ اس طرح کا کلام اس لئے پیش کیا گیا تاکہ لوگوں کی فکر و نظر میں اضافہ ہو ، اور یہ دقیق علمی اور پیچیدہ مسائل کی طرح ہیں تاکہ دانشوروں کے سامنے بیان کئے جائیں اور ان کے افکار پختہ ہوں اور مسائل کی مزید تحقیق کریں ۔ ۴ ۔قرآن کریم میں متشابہ آیات کے سلسلہ میں ایک دوسرا نکتہ یہ ہے کہ جس کی تائید اہل بیت علیہم السلام کی احادیث سے بھی ہو تی ہے:قرآن مجید میں اس طرح کی آیات کا موجود ہونا انبیاء اور ائمہ علیہم السلام کی ضرورت کو واضح کرتا ہے تاکہ عوام الناس مشکل مسائل سمجھنے کے لئے ان حضرات کے پاس آئیں، اور ا ن کی رہبری و قیادت کو رسمی طور پر پہچانیں، اور ان کے تعلیم دئے ہوئے دوسرے احکام اور ان کی رہنمائی پر بھی عمل کریں ، اور یہ بالکل اس طرح ہے کہ تعلیمی کتابوں میں بعض مسائل کی وضاحت استاد کے اوپر چھوڑدی جا تی ہے تاکہ شاگرد استاد سے تعلق ختم نہ کرے اور اس ضرورت کے تحت دوسری چیزوں میں استاد کے افکار سے الہام حاصل کرے ، خلاصہ یہ کہ قرآن کے سلسلہ میں پیغمبر اکرم (ص) کی مشہور وصیت کے مصداق پر عمل کریں کہ آنحضرت (ص) نے فرمایا:

”إنِّي َتارکٌ فِیکُمُ الثَّقلین کتابَ اللهِ وَ اٴهلَ َبیتي وَ إنّهما لن یَفترقا حتّٰی یَرِدَا عَلیَّ الْحَوضِ “۔

” یقینامیں تمہارے درمیان دو گرانقدر چیزیں چھوڑے جارہا ہوں: ایک کتاب خدا اور دوسرے میرے اہل بیت، اور (دیکھو!) یہ دونوں ایک دوسرے سے جدا نہیں ہوں گے یہاں تک کہ حوض کوثر پر میرے پاس پہنچ جائیں“(۱)(۲)

____________________

(۱) مستدرک حاکم ، جلد ۳، صفحہ ۱۴۸

(۲)تفسیر نمو نہ ، جلد ۲،صفحہ ۳۲۲

۴۷ ۔ کیا بسم اللہ تمام سوروں کا جز ہے؟

اس مسئلہ میں شیعہ علمااور دانشوروں کے درمیان کوئی اختلاف نہیں ہے کہ ”بسم اللہ “سورہ حمد اور بقیہ دوسرے سوروں کا جز ہے، اور قرآن مجید کے تمام سوروں کے شروع میں ”بسم اللہ “ کا ذکر ہونا خود اس بات پر محکم دلیل ہے، کیونکہ ہم جانتے ہیں کہ قرآن مجید میں کوئی چیز اضافہ نہیں ہوئی ہے، اور پیغمبر اکرم (ص) کے زمانہ سے آج تک ہر سورہ کے شروع میں بسم اللہ کا ذکر ہوتا رہا ہے۔

لیکن اہل سنت علمامیں سے مشہور و معروف مولف صاحب تفسیر المنار نے اس سلسلہ میں مختلف علماکے اقوال نقل کئے ہیں:

علماکے درمیان یہ بحث ہے کہ کیا ہر سورے کے شروع میں بسم اللہ سورہ کا جز ہے یا نہیں؟ مکہ کے قدیمعلما (فقہا اور قاریان قرآن) منجملہ ابن کثیر اور اہل کوفہ سے عاصم اور کسائی قاریان قرآن، اور اہل مدینہ میں بعض صحابہ اور تابعین اور اسی طرح امام شافعی اپنی کتاب جدید میں اور ان کے پیروکار ، نیز ثوری اور احمد (بن حنبل) اپنے دوقول میں سے ایک قول میں ؛ اسی نظریہ کے قائل ہیں کہ بسم اللہ تمام سوروں کا جز ہے، اسی طرح شیعہ علمااور (ان کے قول کے مطابق) اصحاب میں (حضرت ) علی، ابن عباس، عبد اللہ بن عمر اور ابوہریرہ ، اور تابعین میں سے سعید بن جبیر، عطاء، زہری اور ابن المبارک نے بھی اسی عقیدہ کو قبول کیا ہے۔

اس کے بعد مزید بیان کرتے ہیں کہ ان کی سب سے اہم دلیل صحابہ اور ان کے بعد آنے والے حکمران کا اتفاق اور اجماع ہے کہ ان سب لوگوں نے سورہ توبہ کے علاوہ تمام سوروں کے شروع میں ”بسم اللہ“ کو ذکر کیا ہے، جبکہ یہ سبھی حضرات اس بات پر تاکید کرتے تھے کہ جو چیز قرآن مجید کا جز نہیں ہے اس سے قرآن کو محفوظ رکھو ، اور اسی وجہ سے ”آمین“ کو سورہ حمد کے آخر میں ذکر نہیں کیا ہے۔

اس کے بعد (امام) مالک اور ابو حنیفہ کے پیرو نیز دوسرے لوگوں سے نقل کیا ہے کہ وہ لوگ ”بسم اللہ“ کو ایک مستقل آیت مانتے تھے جو ہر سورے کے شروع میں سوروں کے درمیان فاصلہ کرنے کے لئے نازل ہوئی ہے۔

اور احمد (بن حنبل) (اہل سنت کے مشہور و معروف فقیہ) اور بعض کوفی قاریوں سے نقل کرتے ہیں کہ وہ لوگ ”بسم اللہ“ کو صرف سورہ حمد کا جز مانتے تھے نہ کہ دوسرے سوروں کا،(۱)

(قارئین کرام!) مذکورہ اقوال سے یہ نتیجہ نکلتا ہے کہ اہل سنت کے علماکی اکثریت بھی اسی نظریہ کی قائل ہے کہ بسم اللہ سورہ کا جز ہے، ہم یہاں شیعہ اور سنی دونوں فریقوں کی کتابوں میں منقول روایات کو بیان کرتے ہیں (اور اس بات کا اعتراف کرتے ہیں کہ ان تمام کا یہاں ذکر کرنا ہماری بحث سے خارج ہے، اور مکمل طور پر ایک فقہی بحث ہے)

۱ ۔ ”معاویہ بن عمار“ جوامام صادق علیہ السلام کے چاہنے والوں میں سے ہیں، کہتے ہیں کہ میں نے امام علیہ السلام سے سوال کیا کہ جب میں نماز پڑھنے کے لئے تیار ہوجاؤں تو کیاسورہ حمد کے شروع میں بسم اللہ پڑھوں؟ تو امام علیہ السلام نے فرمایا: ہاں، میں نے پھر سوال کیا کہ جس وقت سورہ حمد تمام ہوجائے اور اس کے بعد دوسرا سورہ پڑھنا چاہوں تو کیا بسم اللہ کا پڑھنا ضروری ہے؟ تو آپ نے فرمایا: ہاں۔(۲)

۲ ۔سنی عالم دین دار قطنی صحیح سند کے ساتھ حضرت علی علیہ السلام سے نقل کرتے ہیں کہ ایک شخص نے آپ سے سوال کیا کہ ”السبع المثانی“ سے مراد کیا ہے؟ تو امام علیہ السلام نے فرمایا: اس سے مراد سورہ حمد ہے، تو اس نے سوال کیا کہ سورہ حمد میں تو چھ آیتیں ہیں؟ تو امام علیہ السلام نے فرمایا: بسم اللہ الرحمن الرحیم بھی اس کی ایک آیت ہے۔(۳)

۳ ۔ اہل سنت کے مشہور و معروف عالم بیہقی، صحیح سند کے ساتھ ابن جبیر اور ابن عباس سے اس طرح نقل کرتے ہیں:”استرَقَ الشَّیْطَان مِنَ النَّاسِ، اعظم آیة من القرآن بسمِ الله الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ “(۴) شیطان صفت لوگوں نے قرآن کریم کی سب سے بڑی آیت یعنی ”بسمِ الله الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ“کو چوری کرلیا ہے“ (اس بات کی طرف اشارہ ہے کہ سوروں کے شروع میں بسم اللہ نہیں پڑھتے)

اس کے علاوہ ہمیشہ مسلمانوں کی یہ سیرت رہی ہے کہ ہر سورے کو شروع کرنے سے پہلے بسم اللہ پڑھتے ہیں اور تواتر کے ساتھ یہ بات ثابت ہے کہ پیغمبر اکرم (ص) بھی ہر سورے کے شروع میں بسم اللہ الرحمن الرحیم پڑھا کرتے تھے، اس صورت میں کیسے ممکن ہے کہ جو چیز قرآن کا حصہ نہ ہو خود پیغمبر اکرم (ص) اور آپ کی امت اسے قرآن کے ساتھ ہمیشہ پڑھا کریں؟!۔

لیکن جیسا کہ بعض لوگوں کا خیال ہے کہ بسم اللہ ایک مستقل آیت ہے اور قرآن کا جز ہے مگر سوروں کا جز نہیں ہے، یہ نظریہ بھی بہت ضعیف ہے، کیونکہ بسم اللہ کے معنی کچھ اس طرح کے ہیں جس سے معلوم ہوتا ہے کہ کام کی ابتدا اور آغاز کے لئے ہے، نہ یہ کہ ایک مستقل اور الگ معنی ، درحقیقت اس طرح کا شدید تعصب کہ اپنی بات پر اڑے رہیں اور کہیں کہ بسم اللہ ایک مستقل آیت

ہے ،جس کاما قبل مبا لغہ سے کوئی ربط نہیں ہے، لیکن بسم اللہ کے معنی بلند آواز میں یہ اعلان کرتے ہیں کہ بعد میں شروع ہونے والی بحث کا سر آغاز ہے۔

صرف مخالفین کا ایک اعتراض قابل توجہ ہے اور وہ یہ ہے کہ قرآن مجید کے سوروں میں (سورہ حمد کے علاوہ) بسم اللہ کو ایک آیت شمار نہیں کیا جاتا بلکہ اس کے بعد والی آیت کو پہلی آیت شمار کیا جاتا ہے۔

اس اعتراض کا جواب”فخر الدین رازی“ نے اپنی تفسیر کبیر میں واضح کردیا کہ کوئی ممانعت نہیں ہے کہ بسم اللہ صرف سورہ حمد میں ایک آیت شمار کی جائے اور قرآن کے دوسرے سوروں میں پہلی آیت کا ایک حصہ شمار کیا جائے، ( اس لحاظ سے مثلاً سورہ کوثر میں( بسمِ الله الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ إِنَّا اٴعطینکَ الکَوْثَر ) ایک آیت شمار ہو۔

بہر حال یہ مسئلہ اتنا واضح اور روشن ہے کہ تاریخ نے لکھا ہے کہ معاویہ نے اپنی حکومت کے زمانہ میں ایک روز نماز جماعت میں بسم اللہ نہیں پڑھی، تو نماز کے فوراً بعد مہاجرین اور انصار نے مل کر فریاد بلند کی : ”اسرقت ام نسیت“ (اے معاویہ! تو نے بسم اللہ کی چوری کی ہے یا بھول گیا ہے؟)(۵)(۶)

____________________

(۱)تفسیر المنار ، جلد ۱ صفحہ۳۹۔۴۰ (۲) اصول کافی ، ، جلد ۳،صفحہ ۳۱۲

(۳) الاتقان ، جلد اول، صفحہ ۱۳۶

(۴) بیہقی ، جلد ۲، صفحہ ۵۰

(۵) بیہقی نے جزء دوم کے صفحہ ۴۹ پر اور حاکم نے بھی مستدرک میں جزء اول کے صفحہ ۲۳۳ پر اس حدیث کو نقل کیا ہے اور اس حدیث کوصحیح جانا ہے

(۶) تفسیر نمونہ ، جلد اول، صفحہ ۱۷

۴۸ ۔ امامت سے مراد کیا ہے؟ اور امامت اصول دین میں ہے یا فروع دین میں ؟

امامت کی تعریف کے سلسلہ میں بہت زیادہ اختلاف پایا جاتا ہے، اور اختلاف ہونا بھی چاہئے کیونکہ شیعہ نظریہ (جو کہ مکتب اہل بیت علیہم السلام کے پیروکار ہیں) کے مطابق امامت اصول دین میں سے ہے ، جبکہ اہل سنت کے یہاں امامت کو فروع دین اور عملی احکام میں شمار کیا جاتا ہے۔

اسی وجہ سے فریقین امامت کو ایک نگاہ سے نہیں دیکھتے لہٰذا اس کی تعریف الگ الگ کرتے ہیں

اسی وجہ سے ہم دیکھتے ہیں کہ ایک سنی عالم دین ،امامت کی تعریف اس طرح کرتے ہیں:

”اٴلإمَامَةُ ریاسةٌ عَامةٌ فِی اٴمورِ الدِّینِ وَالدُّنیا، خلافةٌ عَنِ النَّبِي(۱)

” پیغمبر اکرم (ص) کی جانشینی کے عنوان سے دین و دنیا کے امور میں عام سرپرستی کا نام ”امامت “ہے۔

اس تعریف کے لحاظ سے امامت، حکومت کی حد تک ایک ظاہری ذمہ داری ہے، لیکن دینی

اور اسلامی حکومت کی شکل میںپیغمبر اکرم (ص) کی جانشینی کا عنوان (آنحضرت کی جانشینی یقینی حکومتی امور میں ) رکھتی ہے، اور یہ بات ظاہر ہے کہ ایسے امام کو لوگوں کی طرف سے منتخب کیا جاسکتا ہے۔

لیکن بعض حضرات نے امامت کی تعریف اس طرح کی ہے: ”امامت یعنی پیغمبر اکرم کی طرف سے دینی احکام و قوانین نافذکرنے اور دین کی محافظت کرنے میں جانشین ہونا، اس طرح کہ تمام امت پر اس کی اطاعت واجب ہو“۔(۲)

چنانچہ یہ تعریف بھی پہلی تعریف سے الگ نہیں ہے بلکہ مفہوم و معنی کے لحاظ سے تقریباً ایک ہی ہے۔

ابن خلدون نے بھی اپنی تاریخ (ابن خلدون) کے مشہور و معروف مقدمہ میں امامت کی تعریف اسی طرح کی ہے۔(۳)

شیخ مفید (رحمة اللہ علیہ) کتاب ”اوائل المقالات“ میں عصمت کی بحث کرتے ہو ئے فرماتے ہیں: ”وہ ائمہ جو دینی احکام کے نافذ کرنے، حدود الٰہی کو قائم کرنے، شریعت کی حفاظت کرنے اور لوگوں کی تربیت کرنے میں پیغمبر اکرم (ص) کے جانشین ہیں، ان کو (ہر گناہ اور خطا سے) معصوم ہونا چاہئے، جس طرح انبیاء علیہم السلام معصوم ہوتے ہیں۔(۴)

چنانچہ اس تعریف کے لحاظ سے امامت، حکومت و ریاست سے بالاتر ہے بلکہ انبیاء علیہم السلام کی طرح تمام ذمہ داریاں امام کی بھی ہوتی ہیں سوائے وحی کے،اسی وجہ سے جس طرح نبی کا معصوم ہونا ضروری ہوتا ہے اسی طرح امام کا بھی معصوم ہوناضروری ہے۔

اسی وجہ سے شرح احقاق الحق میں شیعہ نقطہ نظر سے امامت کی تعریف یوں کی گئی ہے:

”هِيَ مَنصَبٌ إلٰهيّ حَائزٌ لِجَمیعِ الشوونِ الکریمةِ وَالفَضَائلِ إلاَّ النَّبوة و مایلازم تلک المرتبة السّامیة“ (۵)

”امامت ایک الٰہی منصب اور خدا کی طرف سے ایک ذمہ داری کا نام ہے جونبوت اور اس سے متعلق دوسرے امور کے علاوہ تمام بلند امور اور فضائل کو شامل ہے“۔

چنانچہ اس تعریف کے مطابق ”امام“ خداوندعالم کی طرف سے پیغمبر اکرم (ص) کے ذریعہ معین ہوتاہے اور (مقام نبوت کے علاوہ) پیغمبر اکرم (ص) کے تمام امتیازات و خصوصیات رکھتا ہے، اور اس کا کام دینی حکومت کی ریاست میں منحصر نہیں ہے، اسی دلیل کی بنا پر امامت اصول دین میں شمار ہوتی ہے نہ کہ فروع دین اور عملی فرائض میں۔

امامت اصول دین میں سے ہے یا فروع دین میں سے؟

مذکورہ بحث سے اس سوال کا جواب واضح ہوجاتا ہے ، کیونکہ امامت کے سلسلہ میں نظریات مختلف ہیں،متعصب سنی عالم ”فضل بن روزبہان“”نہج الحق“ (جس کا جواب ”احقاق الحق“ ہے ) اس طرح کہتاہے: اشاعرہ کے نزدیک امامت اصول دین میں سے نہیں ہے بلکہ فروع دین میں سے ہے اور اس کا تعلق مسلمانوں کے افعال او راعمال سے ہے۔(۶)

اس لحاظ سے اہل سنت کے دوسرے فرقوں میں بھی کو ئی فر ق نہیں ہے کیو نکہ ان سب کے یہاں امامت عملی فرائض میں شمارہوتی ہے، اور یہ لوگوں کی ذمہ داری ہوتی ہے کہ امام یا خلیفہ کا انتخاب کرلیں، صرف مکتب اہل بیت علیہم السلام کے ماننے والے اور اہل سنت کے بہت کم افراد جیسے قاضی بیضاوی، اور ان کا اتباع کرنے والے، امامت کو اصول میں شمار کرتے ہیں۔(۷)

ان کی دلیل بھی واضح اور روشن ہے ، کیونکہ ان کے نزدیک امامت ایک الٰہی منصب ہے، یعنی امام خدا کی طرف سے منصوب ہوتا ہے، جس کی ایک شرط معصوم ہونا ہے اور خدا کے علاوہ کوئی اس (کے معصوم ہونے ) کو نہیں جانتا، اور ائمہ علیہم السلام پر ایمان رکھنا اسی طرح ضروری ہے جس طرح پیغمبر اکرم (ص) پر ایمان رکھنا ضروری ہے کیونکہ امامت ،نبوت کی طرح شریعت کا اصلی ستون ہے، لیکن اس کے یہ معنی نہیں ہیں کہ شیعہ ، امامت کے سلسلہ میں اپنے مخالفوں کو کافر شمار کرتے ہوں، بلکہ شیعہ تمام اسلامی فرقوں کو مسلمان شمار کرتے ہیں، اورانھیں اسلامی برادر سمجھتے ہیں، اگرچہ امامت کے سلسلے میں ان کے ہم عقیدہ نہیں ہیں ،اسی وجہ سے کبھی پنجگانہ اصول دین کو دو حصوں میں تقسیم کرتے ہیں: پہلے تین اصول یعنی خدا، پیغمبر اسلام (ص) اور قیامت کو اصول دین شمار کرتے ہیں اور ائمہ علیہم السلام کی امامت اور عدل الٰہی کو اصول مذہب شمار کرتے ہیں۔

ہم اپنی اس گفتگو کو حضرت امام علی بن موسی الرضا علیہما السلام کی حدیث پر ختم کرتے ہیں جو امامت کے مسئلہ میں ہمارے لئے الہام بخش ہے، ”امامت یعنی زمام دین ،نظام مسلمین، دنیا کی صلاح اور مومنین کی عزت ہے، امامت ، اسلام کی بنیاد اور بلند شاخیں ہیں، امام کے ذریعہ نماز روزہ، حج ،زکوٰة اور جہاد کامل ہوتے ہیں،بیت المال میں اضافہ ہوتا ہے اور ضرورتمندوں کے لئے خرچ کیا جاتا ہے، احکام اور حدود الٰہی نافذ ہوتے ہیں امام ہی کے ذریعہ اسلامی ملک کے سرحدی علاقوں کی حفاظت ہوتی ہے۔

امام، حلال خدا کو حلال اور حرام خدا کو حرام شمار کرتا ہے (اور ان کو نا فذکرتا ہے) حدود الٰہی کو قائم کرتا ہے، دین خدا کا دفاع کرتا ہے، اور اپنے علم و دانش اوروعظ و نصیحت کے ذریعہ لوگوں کو راہ خدا کی دعوت دیتا ہے۔(۸)(۹)

____________________

(۱) شرح تجرید قوشنچی ، صفحہ ۴۷۲

(۲) شرح قدیم تجرید، شمس الدین اصفہانی اشعری( توضیح المراد تعلیق بر شرح تجرید عقائد، تالیف سید ہاشم حسینی تہرانی صفحہ ۲۷۲ کی نقل کے مطابق)

(۳) مقدمہ ابن خلدون، صفحہ ۱۹۱

(۴) اوائل المقالات ، صفحہ ۷۴، طبع مکتبة الداوری

(۵) احقاق الحق ،، جلد ۲، صفحہ ۳۰۰، (حاشیہ نمبر ایک) (۶) احقاق الحق ، جلد ۲، صفحہ ۲۹۴۔ دلائل الصدق ،جلد ۲، صفحہ ۴

(۷) دلائل الصدق ،جلد ۲، صفحہ ۸

(۸) اصول کافی ، جلد اول، صفحہ ۲۰۰ (۹) تفسیر پیام قرآن ، جلد ۹، صفحہ ۱۸

۴۹ ۔ امامت کی بحث کب سے شروع ہوئی؟

واضح رہے کہ پیغمبر اکرم (ص) کے فوراً بعد ہی آپ کی خلافت کے سلسلہ میں گفتگو شروع ہوگئی تھی ، چنا نچہ ایک گروہ کا کہنا تھا کہ آنحضرت (ص) نے اپنے بعد کے لئے کسی کو خلیفہ یا جانشین نہیں بنایا ہے، بلکہ اس چیز کو امت پر چھوڑ دیا ہے لہٰذا امت خود اپنے لئے کسی رہبر اور خلیفہ کا انتخاب کرے گی ، جو اسلامی حکومت کی باگ ڈور اپنے ہاتھوں میں لے اور لوگوں کی نمائندگی میں ان پر حکومت کرے، لیکن وفات رسول کے بعد نمائندگی کی صورت پیدا ہی نہیں ہوئی بلکہ چند اصحاب نے بیٹھ کر پہلے مرحلہ میں خلیفہ معین کرلیا اوردوسرے مرحلہ میں خلافت انتصابی ہو گئی، اور تیسرے مرحلہ میں انتخاب کا مسئلہ چھ لوگوں پر مشتمل ایک کمیٹی کے سپر د کیا گیاتاکہ وہ آئندہ خلافت کے مسئلہ کو حل کریں۔

چنانچہ اس طرز فکر رکھنے والوں کو ”اہل سنت“ کہا جاتا ہے۔

لیکن اس کے مقابل دوسرے گروہ کا کہنا تھا کہ پیغمبر (ص) کے جانشین کو خدا کی طرف سے معین ہونا چاہئے، اور وہ خود پیغمبر اکرم (ص) کی طرح ہر خطا اور گناہ سے معصوم اور غیر معمولی علم کا مالک ہونا چاہئے، تاکہ مادی اور معنوی رہبری کی ذمہ داری کو نبھاسکے، اسلامی اصول کی حفاظت کرے، احکام کی مشکلات کو برطرف کرے ، قرآن مجید کے دقیق مطالب کی تشریح فرمائے اور اسلام کو داوم بخشے۔

اس گروہ کو ”امامیہ“ یا ”شیعہ“ کہتے ہیں اور یہ لفظ پیغمبر اکرم (ص) کی مشہور و معروف حدیث سے اقتباس کیا گیا ہے۔

تفسیر الدر المنثور (جس کا شمار اہل سنت کے مشہور منابع میں ہوتا ہے) میں آیہ شریفہ( ِاٴُوْلَئِکَ هُمْ خَیْرُ الْبَرِیَّةِ ) کے ذیل میں جابر بن عبد اللہ انصاری سے اس طرح نقل کیا ہے:

”ہم پیغمبر اکرم (ص) کے پاس بیٹھے ہوئے تھے کہ حضرت علی علیہ السلام تشریف لائے، اس وقت آنحضرت (ص) نے فرمایا: یہ اور ان کے شیعہ روز قیامت کامیاب ہیں، اور اس موقع پر یہ آیہ شریفہ نازل ہوئی:

( إِنَّ الَّذِینَ آمَنُوا وَعَمِلُوا الصَّالِحَاتِ اٴُوْلَئِکَ هُمْ خَیْرُ الْبَرِیَّةِ ) (۱) (۲)

حاکم نیشاپوری (یہ چوتھی صدی کے مشہور و معروف سنی عالم ہیں)بھی اسی مضمون کو اپنی مشہور کتاب ”شواہد التنزیل“ میں پیغمبر اکرم (ص) سے مختلف طریقوں سے نقل کرتے ہیں جس کے راویوں کی تعداد ۲۰ / سے بھی زیادہ ہے۔

منجملہ ابن عباس سے نقل کرتے ہیں کہ جس وقت یہ آیہ شریفہ( إِنَّ الَّذِینَ آمَنُوا وَعَمِلُوا الصَّالِحَاتِ اٴُوْلَئِکَ هُمْ خَیْرُ الْبَرِیَّةِ ) (۳) نازل ہوئی تو پیغمبر اکرم (ص) نے حضرت علی علیہ السلام سے فرمایا: ”ہُوَ اَنْتَ وَ شِیْعَتُکَ“ ( اس آیت سے مراد آپ اور آپ کے شیعہ ہیں۔)(۴)

ایک دوسری حدیث میں ابوبرزہ سے منقول ہے کہ جس وقت پیغمبر اکرم (ص) نے اس

آیت کی تلاوت فرمائی تو فرمایا:”هُوَ اَنْتَ وَ شِیْعَتُکَ یَاعَلِیّ “ (وہ تم اور تمہارے شیعہ ہیں)(۵)

اس کے علاوہ بھی اہل سنت کے دیگرعلمااور دانشوروں نے بھی اس حدیث کو ذکر کیا ہے جیسے صواعق محرقہ میں ابن حجراور نور الابصار میں محمد شبلنجی نے۔(۶)

لہٰذا ان تمام روایات کے پیش نظر خود پیغمبر اکرم (ص) نے حضرت علی علیہ السلام کے پیرووں کا نام ”شیعہ“ رکھا ہے، لیکن اس کے باوجود بھی بعض لوگ اس نام سے خفا ہوتے ہیں اور اس کو بُرا سمجھتے ہیں نیز اس فرقہ کو رافضی کے نام سے یاد کرتے ہیں، کیا یہ تعجب کا مقام نہیں کہ پیغمبر اکرم تو حضرت علی علیہ السلام کے فرمانبرداروں کو ”شیعہ“ کہیں اور دوسرے لو گ اس فرقہ کو برے برے ناموں سے یاد کریں!!۔

بہر حال یہ بات واضح ہوجاتی ہے کہ لفظ شیعہ کا و جود پیغمبر اکرم (ص) کی وفات کے بعد نہیں ہوابلکہ خود آنحضرت (ص)کی زندگی میں ہی ہو چکا تھا، اور آپ نے حضرت علی علیہ السلام کے دوستوں اور پیرووں پر اس نام کا اطلاق کیا ہے، جو لوگ پیغمبر اکرم (ص) کو ”خدا کا رسول“ مانتے ہیں اور یہ جانتے ہیں کہ پیغمبر اکرم (ص) اپنی مرضی سے کلام نہیں کرتے بلکہ وہی کہتے ہیں جو وحی ہوتی ہے،( وَمَا یَنْطِقُ عَنِ الْهَویٰ إنْ هُوَ إلاَّ وَحیٌ یُوحیٰ ) (۷) لہٰذا اگر آنحضرت (ص) فرمائیں کہ اے علی آپ اور آپ کے شیعہ روز قیامت ،کامیاب ہیں تو یہ ایک حقیقت ہے۔(۸)

____________________

(۱) سورہ بینہ ، آیت ۷

(۲) الدر المنثور ، جلد ۶، صفحہ ۳۷۹ (ذیل آیہ ۷ سورہ بینہ)

(۳)سورہ بینہ، آیت ۷ (۴) شواھد التنزیل ، جلد ۲، صفحہ ۳۵۷

(۵) شواھد التنزیل ، جلد ۲، صفحہ ۳۵۹

(۶) صواعق محر قہ، صفحہ ۹۶،نور الابصار، صفحہ ۷۰ و۱۰۱، اس حدیث کے راویوں کی تعداد اور جن کتابوں میں یہ حدیث بیان ہوئی ہے، اس سلسلہ میں مزید معلوما ت کے لئے احقاق الحق ،جلد سوم، صفحہ ۲۸۷، اور جلد۱۴، صفحہ ۲۵۸ کی طرف رجوع فرمائیں

(۷)سورہ نجم آیت ۶، و ۷

(۸) تفسیر پیام قرآن ، جلد ۹، صفحہ ۲۲

۱۳ ۔ خداوندعالم کی طرف سے ہدایت و گمراہی کے کیا معنی ہیں؟

لغت میں ہدایت کے معنی دلالت اور رہنمائی کے ہیں(۱) اور اس کی دو قسمیں ہیں

۱)”ارائة الطریق “ (راستہ دکھانا) ۲) ”إیصالٌ إلیٰ المطلوبِ “ (منزل مقصود تک پہنچانا) دوسرے الفاظ میں یوں کہئے: ”تشریعی اور تکو ینی ہدایت“۔(۲)

وضاحت: کبھی انسان راستہ معلوم کرنے والے کو اپنی تمام دقت اور لطف و کرم کے ساتھ راستہ کا پتہ بتاتا ہے، لیکن راستہ طے کرنا اور منزل مقصود تک پہنچنا خود اس انسان کا کام ہوتا ، اور کبھی انسان راستہ معلوم کرنے والے کا ہاتھ پکڑتا ہے اور راستہ کی رہنمائی کے ساتھ ساتھ اس کو منزل مقصود تک پہنچا دیتا ہے، دوسرے الفاظ میںیوں کہیں کہ انسان پہلے مرحلہ میں صرف قوانین بیان کرتا ہے،اور منزل مقصودتک پہنچنے کے شرائط بیان کردیتا ہے، لیکن دوسرے مرحلہ میں ان چیزوں کے علاوہ سامان سفر بھی فراہم کرتا ہے اور اس میں پیش آنے والی رکاوٹوں کو بھی برطرف کردیتا ہے، نیز اس کے مشکلات کو دور کرتاہے اور اس راہ پر چلنے والوں کے ساتھ ساتھ ان کو منزل مقصود تک پہنچنے میں حفاظت بھی کرتا ہے۔

اگر انسان قرآن مجید کی آیات پر ایک اجمالی نظرڈالے تو یہ بات واضح ہوجاتی ہے کہ قرآن کریم نے ہدایت اور گمراہی کو فعل خدا شمار کیا ہے، اور دونوں کی نسبت اسی کی طرف دی گئی ہے، اگر ہم اس سلسلہ کی تمام آیات کو یکجا کریں تو بحث طولانی ہوجائے گی، صرف اتناہی کافی ہے، چنانچہ ہم سورہ بقرہ کی آیت نمبر ۲۱۳ میں پڑھتے ہیں:

( وَاللهُ یَهْدِی مَنْ یَشَاءُ إِلَی صِرَاطٍ مُسْتَقِیمٍ )

”اور خدا جس کو چاہتا ہے صراط مستقیم کی ہدایت دے دےتا ہے“۔

سورہ نحل کی آیت نمبر ۹۳ میں ارشادہوتا ہے:

( وَلَکِنْ یُضِلُّ مَنْ یَشَاءُ وَیَهْدِی مَنْ یَشَاءُ )

”خدا جسے چاہتا ہے گمراہی میں چھوڑ دیتا ہے اور جسے چاہتا ہے منزل ہدایت تک پہنچا دیتا ہے“۔

ہدایت و گمراہی کے حوالہ سے قرآن مجیدمیں بہت سی آیات موجود ہیں(۳)

بلکہ اس کے علاوہ بعض آیات میں واضح طور پر پیغمبر اکرم (ص) سے ہدایت کی نفی کی گئی ہے اور خدا کی طرف نسبت دی ہے، جیسا کہ سورہ قصص آیت نمبر ۵۶ میں بیان ہوا ہے:

( إِنَّکَ لَاتَهْدِی مَنْ اٴَحْبَبْتَ وَلَکِنَّ اللهَ یَهْدِی مَنْ یَشَاءُ )

”(اے میرے پیغمبر!) آپ جسے چاہیں اسے ہدایت نہیں دے سکتے بلکہ اللہ جسے چاہتا ہے ہدایت دےتا ہے“۔

سورہ بقرہ آیت نمبر ۲۷۲ میں بیان ہوا ہے:

( لَیْسَ عَلَیْکَ هُدَاهُمْ وَلَکِنَّ اللهَ یَهْدِی مَنْ یَشَاءُ )

”اے پیغمبر ! ان کے ہدایت پانے کی ذمہ داری آپ پر نہیں ہے، بلکہ خدا جس کو چاہتا ہے ہدایت دے دیتا ہے“۔

ان آیات کے عمیق معنی کو نہ سمجھنے کی وجہ سے بعض افراد ان کے ظاہری معنی پر تکیہ کرتے ہو ئے ان آیات کی تفسیر میں ایسے ”گمراہ“اور راہ ”ہدایت“ سے بھٹکے کہ”جبریہ“ فرقہ کی آتشِ عقا ئد میں جا گرے اور یہی نہیں بلکہ بعض مشہور مفسرین بھی اس آفت سے نہ بچ سکے، اوراس فر قہ کی خطرناک وادی میں پھنس گئے ہیں، یہاں تک کہ ہدایت و گمراہی کے تمام مراحل کو ”جبری“ طریقہ پر مان بیٹھے، اور تعجب کی بات یہ ہے کہ جیسے ہی انھوں نے اس عقیدہ کو خدا کی عدالت و حکمت کے منافی دیکھا تو خدا کی عدالت ہی کے منکر ہوگئے، تاکہ اپنی کی ہوئی غلطی کی اصلاح کرسکیں،لیکن حقیقت یہ ہے کہ اگر ہم ”جبر“ کے عقیدہ کو مان لیں تو پھر تکالیف و فرائض اور بعثت انبیاء،اورآسمانی کتابوں کے نزول کا کوئی مفہوم ہی نہیں بچتا۔

لیکن جو افراد نظریہ ”اختیار“ کے طرفدار ہیں ،وہ یہ عقیدہ رکھتے ہیں کہ کوئی بھی عقل سلیم اس بات کو قبول نہیں کرسکتی کہ خداوندعالم کسی کو گمراہی کا راستہ طے کرنے پر مجبور (بھی) کرے اور پھر اس پر عذاب بھی کرے، یا بعض لوگوں کو ”ہدایت“ کے لئے مجبور کرے اور پھر بلاوجہ ان کو اس کام کی جزا اور ثواب بھی دے، اور ان کو ایسے کام کی وجہ سے دوسروں پر فوقیت دے جو انھوں نے انجام نہیں د یا ہے۔

لہٰذا انھوں نے ان آیات کی تفسیر کے لئے ایک دوسرا راستہ اختیار کیا ہے اور اس سلسلہ میں بہت ہی دقیق تفسیر کی ہے جو ہدایت و گمراہی کے سلسلے میں بیان ہونے والی تمام آیات سے ہم آہنگ ہے اور بغیر کسی ظاہری خلاف کے بہترین طریقہ سے ان تمام آیات کی تفسیر کرتی ہے، اور وہ تفسیر یہ ہے:

” تشریعی ہدایت“یعنی عام طور سے سبھی کو راستہ دکھادیا گیا ہے اس میں کسی طرح کی کوئی قید و شرط نہیں ہے، جیسا کہ سورہ دہر آیت نمبر ۳ میں وارد ہوا ہے:

( إِنَّا هَدَیْنَاهُ السَّبِیلَ إِمَّا شَاکِرًا وَإِمَّا کَفُورًا )

”یقینا ہم نے اس (انسان) کو راستہ کی ہدایت دیدی ہے چاہے وہ شکر گزار ہوجائے یا کفران نعمت کرنے والا ہوجائے“۔

اسی طرح سورہ شوریٰ کی آیت نمبر ۵۲ میں پڑھتے ہیں:

( وَإِنَّکَ لَتَهْدِي إِلَی صِرَاطٍ مُسْتَقِیمٍ )

” اور بے شک آپ لوگوں کو سیدھے راستہ کی ہدایت کرر ہے ہیں“۔

ظاہر ہے کہ انبیاء علیہم السلام کی دعوت حق خداوندعالم کی طرف سے ہے کیونکہ انبیاء کے پاس جو کچھ بھی ہوتاہے وہ خدا کی طرف سے ہوتا ہے۔

بعض منحرف اور مشرکین کے بارے میں سورہ نجم آیت نمبر ۲۳ میں بیان ہوا ہے:

( وَلَقَدْ جَائَهُمْ مِنْ رَبِّهِمْ الْهُدَی )

”اور یقینا ان کے پروردگار کی طرف سے ان کے پاس ہدایت آچکی ہے“۔

لیکن ”تکوینی ہدایت “یعنی منزل مقصود تک پہنچانا ، راستہ کی تمام رکاوٹوں کو دور کرنا اور ساحل نجات پر پہنچنے تک ہر طرح کی حمایت و حفاظت کرنا،جیسا کہ قرآن مجید کی بہت سی آیات میں بیان ہوا ہے، یہ موضوع بدون قید و شرط نہیں ہے، اور یہ ہدایت ایک ایسے خاص گروہ سے مخصوص ہے جس کے صفات خود قرآن مجید میں بیان ہوئے ہیں، اور اس کے مدمقابل ”ضلالت و گمراہی“ ہے وہ بھی خاص گروہ سے مخصوص ہے جس کے صفات بھی قرآن مجید میں بیان ہوئے ہیں۔

اگرچہ بہت سی آیات مطلق ہیں لیکن دوسری بہت سی آیات میں وہ شرائط واضح طور پر بیان ہوئے ہیں، اور جب ہم ان ”مطلق“ اور ”مقید“ آیات کو ایک دوسرے کے برابر رکھتے ہیں تو مطلب بالکل واضح ہوجاتا ہے اور آیات کے معنی و تفسیر میں کسی طرح کے شک و تردید کی گنجائش باقی نہیں رہتی، اور نہ صرف یہ کہ انسان کے اختیار ، آزادی اور ارادہ کے مخالف نہیں ہے بلکہ مکمل اور دقیق طور پر ان کی تاکید کرتی ہے۔

(قارئین کرام!) یہاں درج ذیل وضاحت ملاحظہ فرمائیں:

قرآن مجید میں ایک جگہ ارشاد ہوتا ہے:

( یُضِلُّ بِهِ کَثِیرًا وَیَهْدِی بِهِ کَثِیرًا وَمَا یُضِلُّ بِهِ إِلاَّ الْفَاسِقِینَ ) (۴)

”خدا ا سی طرح بہت سے لوگوں کو گمراہی میں چھوڑ دیتا ہے اور بہت سوں کو ہدایت دے دیتا ہے اور گمراہی صرف انھیں کا حصہ ہے جو فاسق ہیں “۔

یہاں پر ضلالت و گمراہی کا سرچشمہ، فسق و فجور اور فرمان الٰہی کی مخالفت بیان کی گئی ہے۔

ایک دوسری جگہ ارشاد ہوتا ہے:

( وَاللهُ لاَیَهْدِی الْقَوْمَ الظَّالِمِینَ ) (۵)

”اوراللہ ظالموں کی ہدایت نہیں کرتا “۔

اس آیت میں ظلم پرتوجہ دلائی گئی ہے اور اس کو ضلالت و گمراہی کا راستہ ہموار کرنے والا بتایا گیا ہے۔

ایک دوسری جگہ ارشاد ہوتا ہے:

( وَاللهُ لاَیَهْدِی الْقَوْمَ الْکَافِرِینَ ) (۶)

”اوراللہ کافروں کی ہدایت بھی نہیں کرتا “۔

یہاں پر کفر کو گمراہی کاسبب قراردیا گیا ہے۔

ایک دوسری جگہ ارشاد ہوتا ہے:

( إِنَّ اللهَ لاَیَهْدِی مَنْ هُوَ کَاذِبٌ کَفَّارٌ ) (۷)

”اللہ کسی بھی جھوٹے اور نا شکری کرنے والے کو ہدایت نہیں دیتا ہے “۔

اس آیت میں جھوٹ اور کفر کو ضلالت و گمراہی کا پیش خیمہ شمار کیا گیا ہے۔

نیز ارشاد ہوتا ہے:

( إِنَّ اللهَ لاَیَهْدِی مَنْ هُوَ مُسْرِفٌ کَذَّابٌ ) (۸)

”بیشک اللہ کسی زیادتی کرنے والے اور جھوٹے کی رہنمائی نہیں کرتا ہے “۔

اس کا مطلب یہ ہے کہ فضول خرچی اور جھوٹ گمراہی کا باعث ہے۔

(قارئین کرام!) ہم نے یہاں تک اس سلسلہ میں بیان ہونے والی چند آیات کو بیان کیا ہے، اسی طرح دوسری آیات قرآن مجید کے مختلف سوروں میں بیان ہوئی ہیں۔

نتیجہ یہ ہوا کہ قرآن مجید نے خدا کی طرف سے ضلالت و گمراہی انھیں لوگوں کے لئے مخصوص کی ہے جن میں یہ صفات پائے جاتے ہوں: ”کفر“ ، ”ظلم“، ”فسق“، ”جھوٹ“، ”فضول خرچی“ اور ”کفران نعمت “۔

کیا جن لوگوں میں یہ صفات پائے جاتے ہیں وہ ضلالت و گمراہی کے سزاوار نہیں ہیں؟!

بالفاظ دیگر: جو لوگ ان برائیوں کے مرتکب ہوتے ہیں کیا ان کے دلوں پر ظلمت و تاریکی اثرنہیں کرتی؟!

صاف و شفاف الفاظ میں یوں کہیں کہ اس طرح کے اعمال اور صفات کچھ خاص اثررکھتے ہیں جو آخرکار انسان میں موثر ہوتے ہیں،اور اس کی عقل، آنکھ اور کان پر پردہ ڈال دیتے ہیں، اس کو ضلالت و گمراہی کی طرف کھینچتے ہیں، اور چونکہ تمام چیزوں کی خاصیت اور تمام اسباب کے اثرات خدا کے حکم سے ہیں لہٰذا ضلالت و گمراہی کو ان تمام موارد میں خدا کی طرف نسبت دی جاسکتی ہے، لیکن یہ نسبت خود انسان کے ارادہ و اختیار کی وجہ سے ہے۔

یہ سب کچھ ضلالت و گمراہی کے سلسلہ میں تھا، اُدھر ”ہدایت“ کے سلسلہ میں بھی قرآن کریم نے کچھ شرائط اور اوصاف بیان کئے ہیں جن سے پتہ چلتا ہے کہ یہ بھی بغیر کسی علت اور حکمت الٰہی کے خلاف نہیں ہے۔

بعض وہ صفات جن کی وجہ سے انسان ہدایت اور لطف الٰہی کا مستحق ہوتا ہے ؛ درج ذیل آیات میں بیان ہوئی ہیں:

( یَهْدِي بِهِ اللهُ مَنْ اتَّبَعَ رِضْوَانَهُ سُبُلَ السَّلاَمِ وَیُخْرِجُهُمْ مِنْ الظُّلُمَاتِ إِلَی النُّورِ بِإِذْنِهِ وَیَهْدِیهِمْ إِلَی صِرَاطٍ مُسْتَقِیمٍ ) (۹)

”جس کے ذریعہ خدا اپنی خوشنودی کا ابتاع کرنے والوں کو سلامتی کے راستوں کی ہدایت کرتا ہے اور انھیں تاریکیوں سے نکال کر اپنے حکم سے نور کی طرف لے آتا ہے اور انھیں صراط مستقیم کی ہدایت کرتا ہے “۔

آیہ مبارکہ سے یہ نتیجہ نکلتا ہے کہ حکم خدا کی پیروی اور اس کی رضا حاصل کرنے سے ہدایت کا راستہ ہموار ہو جاتا ہے ۔

دوسری جگہ ارشاد ہوتا ہے:

( إِنَّ اللهَ یُضِلُّ مَنْ یَشَاءُ وَیَهْدِی إِلَیْهِ مَنْ اٴَنَابَ ) (۱۰)

”بیشک اللہ جس کو چاہتا ہے گمراہی میں چھوڑ دیتا ہے اور جو اس کی طرف متوجہ ہوجاتے ہیں انھیں ہدایت دیتا ہے “۔

یہاں ”توبہ اور استغفار کرنے والے “ کو ہدایت کامستحق قراردیا گیا ہے۔

ایک دوسری آیت میں ارشاد ہوتا ہے:

( وَالَّذِینَ جَاهَدُوا فِینَا لَنَهْدِیَنَّهُمْ سُبُلَنَا ) (۱۱)

”اور جن لوگوں نے ہمارے حق میں جہاد کیا ہے ہم انھیں اپنے راستوں کی ہدایت کریں گے “۔

اس آیت میں ”راہ خدا میں مخلصانہ جہاد“ کو ہدایت کے لئے اصلی شرط کے عنوان سے ذکر کیا ہے۔

نیز ایک دوسری آیت میں ارشاد ہے:

( وَالَّذِینَ اهْتَدَوْا زَادَهُمْ هُدًی ) (۱۲)

”اور جن لوگوں نے ہدایت حاصل کر لی خدا نے ان کی ہدایت میں اضافہ کردیا اور ان کو مزید تقوی عنایت فرمایا “۔

اس آیت میں اس بات کی طرف اشارہ ہے کہ اگر انسان راہ ہدایت کی طر ف قدم بڑھائے تو خدا وندعالم اس کو مزید راستہ طے کرنے کی طاقت عطا فرمادیتا ہے۔

نتیجہ یہ ہوا کہ جب تک بندوں کی طرف سے توبہ و استغفار نہ ہو اور خدا کے حکم کی پیروی نہ ہو، نیز جب تک خدا کی راہ میں جہاد اور کوشش نہ ہو ، اور جب تک خدا کی راہ میں قدم نہ بڑھائے جائیں تو لطف الٰہی ان کے شامل حال نہیں ہوگا، اور ان کی مدد نہیں ہوگی، نیز وہ منزل مقصود تک نہیں پہنچ سکتے۔

جن لوگوں میں یہ صفات موجود ہوں کیا ان کے لئے ہدایت یافتہ ہونا بے حساب و کتاب ہے ؟! اور کیا انھیں ہدایت کے لئے مجبور کیا گیا ہے ؟!

(قارئین کرام!) آپ حضرات ملاحظہ فرمارہے ہیں کہ اس سلسلہ میں قرآن مجید کی آیات بہت واضح ہیں،لیکن جن لوگوں نے ہدایت و گمراہی کے سلسلہ میں بیان ہونے والی آیات کو صحیح طریقہ سے نہیں سمجھا ، یا سمجھنے کی کوشش نہیں کی تو ایسے ہی لوگ اس خطرناک غلطی کا شکار ہوئے ہیں اور بقول شاعر :”چون ندیدند حقیقت، رہ افسانہ زدند“ (اور جب انھوں نے حقیقت کو نہ پایا تو افسانہ گڑھ لیا) ان کے لئے یہی کہا جا ئے کہ ان لوگوں نے ”ضلالت و گمراہی“ کا راستہ خود ہی ہموار کیا ہے!

بہر حال ہدایت و ضلالت کامسئلہ حکمت ومشیت سے خالی نہیں ہے، بلکہ ہر موقع پر خاص شرائط ہوتے ہیں جو خدا کے حکیم ہونے پر دلالت کرتے ہیں۔(۱۳)

____________________

(۱) مفردات راغب ،مادہ ”ھدی“

(۲) یہاں پر تکوینی ہدایت وسیع معنی میں استعمال ہوئی ہے، جس میں بیان قوانین اور ارایہ طریق کے علاوہ ہر طرح کی ہدایت شامل ہے

اس کے مقابلہ میں ”ضلالت اور گمراہی“ ہے۔

(۳) نمونہ کے طور پر:سورہ فاطر ، آیت ۸ سورہ زمر، آیت ۲۳ سورہ مدثر ، آیت ۳۱ سورہ بقرہ، آیت ۲۷۲ سورہ انعام ، آیت ۸۸ سورہ یونس ، آیت ۲۵ سورہ رعد ، آیت ۲۷ سورہ ابراہیم ، آیت ۴

(۴)سورہ بقرہ ، آیت ۲۶

(۵) سورہ بقرہ ، آیت ۲۵۸

(۶) سورہ بقرہ ، آیت ۲۶۴

(۷) سورہ زمر ، آیت ۳

(۸) سورہ غافر ، آیت ۲۸.

(۹)سورہ مائدہ ، آیت ۱۶

(۱۰)سورہ رعد ، آیت ۲۷ (۱۱)سورہ عنکبوت ، آیت ۶۹

(۱۲) سورہ محمد ، آیت ۱۷.

(۱۳) تفسیر نمونہ ، جلد ۱۹، صفحہ ۴۶۱

۱۴ ۔کس طرح کائنات کی ہر شئی خداکی تسبیح کرتی ہے؟

قرآن مجید کی مختلف آیات میں بیان ہوا ہے کہ اس کائنات کی تمام موجودات خدا کی تسبیح کرتی ہیں ، ان میں سب سے زیادہ واضح آیت سورہ اسراء (بنی اسرائیل) آیت نمبر ۴۴ ہے کہ جہاں ارشاد ہوتا ہے:

( وَإِنْ مِنْ شَیْءٍ إِلاَّ یُسَبِّحُ بِحَمْدِهِ وَلَکِنْ لَاتَفْقَهُونَ تَسْبِیحَهُمْ )

”اور کوئی شئی ایسی نہیں ہے جو اس کی تسبیح نہ کرتی ہویہ اور بات ہے کہ تم ان کی تسبیح کو نہیں سمجھتے “۔

اس آیت کی بناپر کائنات کی تمام موجوات بغیر کسی استثنا کے خداوندعالم کی اس عام تسبیح میں شامل ہیں۔

اس حمد و تسبیح کی حقیقت کی تفسیر کے بارے میں علماو فلاسفہ کے درمیان بہت زیادہ بحث و گفتگو ہے۔

بعض افراد نے اس حمد و تسبیح کو ”حالی“ (یعنی زبان حال) مانا ہے، جبکہ بعض دوسرے افراد نے اس سے ”قولی“ تسبیح مراد لی ہے، ہم یہاں پر ان تمام نظریات کا خلاصہ اور اپنا نظریہ بیان کرتے ہیں:

۱ ۔بعض گروہ کا کہنا یہ ہے کہ اس کائنات کے تمام ذرات چاہے وہ جاندار اور عاقل ہوں یا بے جان اور غیر عاقل؛ سب کی سب ایک طرح کا شعور اور ادراک رکھتی ہیں، اور یہ سب چیزیں خداوندعالم کی حمد و تسبیح کرتی ہیں، اگرچہ ہم ان کی حمد و تسبیح کو سمجھ نہیں پاتے، اور نہ ہی سن پاتے ہیں۔

قرآن مجید کی بہت سی آیات اس عقیدہ پر شاہد اور گواہ ہیں، نمونہ کے طور پر:

( وَإِنَّ مِنْهَا لَمَا یَهْبِطُ مِنْ خَشْیَةِ اللهِ ) (۱)

”اور بعض خوف خدا سے گر پڑتے ہیں“۔

( فَقَالَ لَهَا وَلِلْاٴَرْضِ اِئْتِیَا طَوْعًا اٴَوْ کَرْهًا قَالَتَا اٴَتَیْنَا طَائِعِینَ ) (۲)

”اور اسے اور زمین کو حکم دیا کہ بخوشی یا بکراہت ہماری طرف آؤ تو دونوں نے عرض کی کہ ہم اطاعت گزار بن کر حاضر ہیں“۔

۲ ۔ بہت سے افراد کا عقیدہ ہے کہ یہ حمد و تسبیح وہی ہے جس کو ہم ”زبان حال“ کہتے ہیں، اور یہ حمد و تسبیح حقیقی طور پر ہے، مجازی طور پر نہیں، لیکن زبان حال سے ہے نہ کہ زبان قال سے۔ (غور کیجئے )

وضاحت: بعض اوقات ایسا ہوتا ہے کہ انسان کے چہرے پر پریشانی اور ناراحتی یا درد و غم کے آثار پائے جاتے ہیں یا اس کی آنکھوں سے بیداری کے آثار واضح طور پر دکھائی دیتے ہیں،چنانچہ ایسے موقع پر کہاجاتا ہے: اگرچہ تم اپنی زبان سے پریشانی اور مشکل نہیں بتارہے ہو، لیکن تمہارے چہرے سے پریشانی کے آثار دکھائی دے رہے ہیں، یا کہتے ہیں کہ تمہیں رات میں نیند نہیں آئی ہے!!

کبھی کبھی یہ ”زبان حال“ اس قدر واضح اورروشن ہوتی ہے کہ ”زبان قال“ کو موثر بنا دےتی ہے، اور زبان قال کو جھٹلادیتی ہے، جیسا کہ ایک شاعر نے کیا خوب کہا ہے:

گفتم کہ با مکر و فسون پنہان کنم راز درون!

پنہان نمی گردد کہ خون از دیدگانم می رود!

”میں نے کہا کہ مکر و فریب سے اپنے اندرونی راز کو چھپالوں لیکن خون کبھی چھپائے سے نہیں چھپتا ، اور میری آنکھوں سے خون برستا دکھائی دیتا ہے“۔

اسی چیز کی طرف حضرت امیر المومنین علی علیہ السلام نے اپنے مشہور و معروف قول میں اشارہ فرمایا ہے:

مَا ضمَر اٴحد شیئًا اِلاَّ ظهر فی فلتاتِ لسانِه وَصفحاتِ وَجههِ(۳)

”کوئی بھی راز دل میں چھپائے سے چھپ نہیں سکتا، اور ایک نہ ایک دن اس کی زبان یا چہرے پر ظاہر ہوہی جاتا ہے“۔

دوسری طرف کیا یہ ممکن ہے کہ ایک بہترین مصور کی بنائی ہوئی تصویر اس کی مہارت اور ذوق کی گواہی نہ دے اور اس کی مدح و ثنا نہ کرے؟

کیا اس بات سے انکار کیا جاسکتا ہے کہ ایک مشہور و معروف شاعر کا کلام اس کے بہترین ذوق کی عکاسی نہ کرے اور ہمیشہ اس کی مدح و ثنا نہ کرے؟

کیا اس بات کا منکر ہوا جاسکتا ہے کہ ایک عظیم الشان عمارت اوربڑے بڑے کارخا نے وغیرہ اپنی بے زبانی سے اپنے بنانے والے کے خلاق ذہن اور ایجادات کرنے والے ذہن کی تعریف نہ کریں اور ان کی ذہنیت کی قصیدہ خوانی نہ کریں؟

لہٰذا ہم کو یہ بات مان لینا چاہئے کہ کائنات کایہ عجیب و غریب نظام اور چکاچوند کردینے والی چیزیں خداوندعالم کی ”حمد و تسبیح“ کرتی ہیں۔

کیا ”تسبیح“ پاک و پاکیزہ ماننے کے علاوہ کسی اور چیز کا نام ہے، اس کائنات کا نظام اپنے پورے وجود کے ساتھ یہ اعلان کررہا ہے کہ اس کا خالق ہر طرح کے نقص و عیب سے پاک و پاکیزہ ہے۔

کیا ”حمد“ صفاتِ کمال بیان کرنے کے علاوہ کسی اور چیز کو کہتے ہیں؟ یہ کائنات کا نظام خدا وندعالم کی صفات کمال( بے کراں علم و قدرت ،اور مکمل حکمت )کی گفتگو نہیں کررہا ہے۔

(قارئین کرام!) ”حمد و تسبیح “ کے یہ معنی تمام موجوات کے لئے قابل فہم ہیں اور اس بات کی بھی کوئی ضرورت نہیں ہے کہ ہم تمام مخلوقات کے ذروں کو صاحب عقل و شعور فرض کریں، کیونکہ کوئی قطعی دلیل ان کے بارے میں موجود نہیں ہے، اور مذکورہ آیات بھی قوی احتمال کی بنا پر ”زبان حال“ کو بیان کرتی ہیں۔

لیکن یہاں پر ایک سوال باقی رہ جاتا ہے اور وہ یہ کہ اگر خداوندعالم کی ”حمد و تسبیح“ سے مراد نظام کائنات کا خدا کی عظمت اور اس کی پاکیزگی و عظمت کی حکایت کرنا ہے اور ”صفات سلبیہ“ و ”صفات ثبوتیہ“ اس کی وضاحت کرتی ہیں، تو پھر قرآن مجید میں کیوں ارشاد ہوا ہے کہ تم ان کی حمد و تسبیح کو نہیں سمجھتے؟

اگر بعض عوام الناس نہیں سمجھ سکتے تو کم سے کم دانشوروں کو تو سمجھنا چاہئے؟

اس سوال کے دو جواب دئے جاسکتے ہیں:

پہلا جواب: یہ ہے کہ قرآن مجید میں خطاب اکثر جاہلوں خصوصاً مشرکین سے ہے اور مومن دانشوروں کی اقلیت اس عموم سے مستثنیٰ ہے کیونکہ ہر عام کے لئے ایک استثنا ہوتا ہے۔

دوسرا جواب: یہ ہے کہ اس کائنات کے جن اسرار کو ہم جانتے ہیں وہ نامعلوم اسرارکے مقابل سمندر کے مقابل ایک قطرہ یا پہاڑ کے مقابلہ میں ایک ذرّہ کی حیثیت رکھتے ہیں کہ اگر صحیح غور و فکر کریں تو اس کو کسی علم و دانش کا نام تک نہیں دیا جاسکتا ۔

تا بدانجا رسید دانش من کہ بدانستمی کہ نادانم

”میری عقل آخر میں اس بات کو سمجھ پائی ہے کہ میں نادان اور جاہل ہوں“

لہٰذا حقیقت تو یہ ہے کہ اگرچہ ہم کتنے ہی بڑے عالم کیوں نہ ہوں اس کائنات کے ذروں کو نہیں سمجھ سکتے، کیونکہ جو کچھ ہم سنتے ہیں وہ کسی بڑی کتاب کا ایک لفظ ہے، اس بنا پر تمام عوام الناس کے لئے یہ اعلان عام کیا جاسکتا ہے کہ تم اس کائنات کی موجودات کی حمد و تسبیح کو نہیں سمجھ سکتے کیونکہ وہ زبان حال سے خداوندعالم کی حمد و تسبیح کرتے ہیں اور جو چیزیں ہم سمجھتے ہیں وہ اس قدر کم اور ناچیز ہیں کہ ان کا کوئی شمار ہی نہیں ہے۔

۳ ۔بعض مفسرین نے یہ بھی احتمال دیا ہے کہ اس کائنات کی موجودات کی حمد و تسبیح زبان ”حال“ اور زبان ”قال“ دونوں سے مرکب ہے یا دوسرے الفاظ میں ”تکوینی اور تشریعی تسبیح“ ہے، کیونکہ بہت سے انسان اور تمام ملائکہ اپنی عقل و شعور کے لحاظ سے خداوندعالم کی حمد و تسبیح کرتے ہیں لیکن اس کائنات کے تمام ذرے اپنی زبان بے زبانی سے خداوندعالم کی عظمت و کبریائی کی گواہی دے رہے ہیں۔

اگرچہ” حمد و تسبیح“کے دونوں معنی آپس میں مختلف ہیں لیکن ”ایک مشترک پہلو بھی رکھتے ہیں“ یعنی حمد و تسبیح کے عام اور وسیع معنی (یعنی اعلان پاکیزگی اور مدح و ثنا) میں مشترک ہیں۔

لیکن جیسا کہ ظاہر ہے کہ مذکورہ دوسری تفسیر سب سے بہتر ہے۔(۴) .

____________________

(۱)سورہ بقرہ ، آیت ۷۴

(۲) سورہ فصلت ، آیت ۱۱

(۳) نہج البلاغہ کلمات قصار نمبر ۲۶.

(۴) تفسیر نمونہ ، جلد ۱۲، صفحہ ۱۳۴

۱۵ ۔ کیا خداوندعالم کسی چیز میں حلول کرسکتا ہے؟

بعض عیسائیوں کا یہ عقیدہ ہے کہ خداوندعالم ”عیسیٰ مسیح“ میں حلول کئے ہوئے ہے، اور بعض صوفی لوگ بھی اپنے پیرو مرشد کے بارے میں یہی نظریہ رکھتے ہیں اور کہتے ہیں کہ خداوندعالم ان میں حلول کئے ہوئے ہے۔

کتاب ”کشف المراد“ میں علامہ حلّی علیہ الرحمہ کے قول کے مطابق اس عقیدہ کے باطل و بے بنیاد ہونے میں ذرہ برابر بھی شک و شبہ نہیں ہے، کیونکہ حلول سے جو چیز تصور کی جاتی ہے وہ یہ ہے کہ ایک موجود دوسرے موجود کے ذریعہ قائم ہو، (مثال کے طور پر کہاجا ئے کہ گلاب کے پھول میں خوشبو حلول کئے ہوئے ہے) ، مسلم طور پر خداوندعالم کے سلسلہ میں یہ معنی قابل تصور نہیںہیں، کیونکہ اس کا لازمہ مکان، نیاز اور ضرورت ہے جو ”واجب الوجود“کے لئے ”غیر ممکن“ ہے، اور جو لوگ خداوندعالم کے حلول کے معتقد ہیں آخر کار وہ شرک میں گرفتار ہوکر دائرہ اسلام سے خارج ہوجاتے ہیں۔

تصوّف اور اتحاد و حلول کا مسئلہ

مرحوم علامہ حلّی علیہ الرحمہ اپنی کتاب ”نہج الحق“ میں فرماتے ہیں کہ کسی دوسری چیز میں خداوندعالم کااس طرح سے حلو ل کرنا کہ دونوں شئی ایک چیز بن جائیں، یہ عقیدہ باطل ہے،اور اس کا باطل و بے بنیاد ہونا بالکل واضح ہے، اس کے بعد فرماتے ہیں: ”اہل سنت کے صوفیہ فرقہ نے اس سلسلہ میں قرآن و حدیث کی مخالفت کی ہے، اور کہتے ہیں کہ خداوندعالم، عرفاء کے بدن میں حلول کرجاتا ہے!! یہاں تک کہ ان میں سے بعض لوگ کہتے ہیں: خداوندعالم عین موجودات ہے، اور ہر موجود خدا ہے، (وحدت مصداقی وجود کے مسئلہ کی طرف اشارہ ہے) ، اس کے بعد علامہ موصوف فرماتے ہیں: یہ عقیدہ عین کفر و دہریت ہے، خدا کا شکر ہے کہ اس نے ہمیں اہل بیت علیہم السلام کی برکت سے اس باطل عقیدہ سے دور رکھا ہے“۔

علامہ موصوف ”حلول“ کی بحث میں فرماتے ہیں:”یہ ایک مسلّم مسئلہ ہے کہ اگر کوئی چیز کسی چیز میں حلول کرنا چاہے تو اس کو ”محل“ کی ضرورت ہوتی ہے اور چونکہ خداوندعالم واجب الوجود ہے اور اسے کسی چیز کی ضرورت نہیں ہے، لہٰذا اس کا کسی چیز میں حلول کرنا غیر ممکن ہے“ اس کے بعد فرماتے ہیں: ”اہل سنت کے صوفیہ فرقہ نے اس سلسلہ میں مخالفت کی ہے، اور خداوندعالم کے حلول کو، عرفاء کے بدن میں ممکن شمار کرتے ہیں“ اس کے بعد علامہ موصوف ان لوگوں کی بہت زیادہ مذمت کرتے ہوئے فرماتے ہیں: ہم نے خود صوفیہ کے ایگ گروہ کو حضرت امام حسین علیہ السلام کے روضہ مبارک میں دیکھا ہے کہ ایک شخص کے علاوہ سب نے نماز مغرب پڑھی، اس کے بعدسبھی نے نماز عشاء پڑھی سوائے اسی ایک شخص کے، چنانچہ وہ یونہی بیٹھا رہا!!

ہم نے سوال کیا کہ اس نے نمازکیوں نہیں پڑھی؟ تو جواب دیا کہ اس کو نماز کی کیا ضرورت ہے؟ وہ تو خدا سے پیوستہ ہے! کیا یہ بات جائز ہے کہ خدا اور اس کے درمیان کوئی چیز پردہ بن جائے، نماز ان کے اور خدا کے درمیان ایک پردہ ہے!(۱)

یہی معنی ”مثنوی “کی پانچویں جلد میں ایک دوسری طرح پیش کئے گئے ہیں: جب تم منزل مقصود پر پہنچ جاؤ تو وہی حقیقت ہے، اور اس کی وجہ یہ بتائی ہے:

”لَو ظَهرتْ الحقائقُ بَطَلَتِ الشّرائعُ“

”جب حقائق ظاہر ہوجاتے ہیں تو شریعتیں باطل ہوجاتی ہیں“۔

اس کے بعد شریعت کو علم کیمیا سے مشابہ قرار دیا ہے ( جس علم کے ذریعہ تانباکو سونے میں تبدیل کیا جاتا ہے) اور کہا ہے: جو چیز اصل میں ہی سونا ہے ، یا سونا بن چکا ہے تو اسے علم کیمیا کی کیا ضرورت ہے؟! جیسا کہ کہتے ہیں:”طَلبُ الدَلیلِ بعدَ الوُصُولِ إلیٰ المدلولِ قبیحٌ!“ (۲)

”منزل مقصود تک پہنچنے کے بعد دلیل طلب کرنا قبیح اور برا ہے“۔

کتاب ”دلائل الصدق“ شرح ”نہج الحق“ میں بھی ”صاحب مواقف“ سے نقل کیا گیا ہے کہ نفی ”حلول“ اور ”اتحاد“ کے سلسلہ میں مخالفوں کے تین گروپ ہیں، اس کے بعد دوسرے گروہ کے بعض صوفیوں کا نام لیتے ہوئے کہتے ہیں کہ ان کی باتیں حلول و اتحاد کے بارے میں مردد ہیں، ( حلول سے مراد خداوندعالم کا کسی چیز میں نفوذ کرنا ہے، اور اتحاد و وحدت سے مراد خدا اور دوسری چیزوں کا ایک ہوجانا ہے)

اس کے بعد موصوف مزید فرماتے ہیں: ہم نے بعض ”صوفیہ وجودیہ“ کو دیکھا ہے جو حلول و اتحاد کا انکار کرتے ہیں، اور کہتے ہیں کہ یہ دونوں الفاظ خدا اور مخلوق میں مغایرت (جدائی) کی طرف اشارہ کرتے ہیں اور ہم اس چیز کے قائل نہیں ہیں! بلکہ ہماراکہنا یہ ہے :

لَیسَ فِی دارِالوجودِ غیرهُ دیّار “، (وجود کی وادی میں اس کے علاوہ کوئی چیز موجود ہی نہیں ہے“!)

اس موقع پر صاحب مواقف کہتے ہیں کہ یہ عذر،گناہ سے بھی بدتر ہے۔(۳)

البتہ اس سلسلہ میں صوفیوں کی بہت سی بے تُکی باتیں ہیں جو نہ اصول و منطق سے ہم آہنگ ہیں اور نہ ہی شریعت کے موافق۔

بہر حال دو چیزوں کے درمیان حقیقی ”اتحاد “ محال اور ناممکن ہے جیساکہ ”علامہ مرحوم“ نے بیان فرمایا ہے چونکہ یہ بات بالکل تضاد اورٹکراؤ پر مشتمل ہے، یہ کیسے ممکن ہے کہ دو چیزیں ایک ہوجائیں، اس کے علاوہ اگر کوئی خدا کا دوسری مخلوق بالخصوص عارفوں سے اتحاد کے عقیدہ کا قائل ہو، تو اس کا لازمہ یہ ہے کہ خداوندعالم میں ممکنات کے صفات پائے جائیں جیسے زمان و مکان اور تغیر وغیرہ۔

اور اسی طرح خداوندعالم کا دوسری چیزوں میں ”حلول“ کا لازمہ بھی زمان و مکان ہے جبکہ یہ چیزیں خداوندعالم کے واجب الوجود ہونے سے ہم آہنگ نہیں ہیں۔(۴)

اصولی طور پر خود صوفی بھی اس بات کے قائل ہیں کہ اس طرح کی باتوں کو عقلی دلائل کے ذریعہ ثابت نہیں کیا جاسکتا، اور غالباً اپنے راستہ کو عقلی راستہ سے الگ کرلیتے ہیں، اور اس سلسلہ میں اپنی مرضی جس کو ”راہ دل“ کہتے ہیں اس کے ذریعہ اپنے عقائد کو ثابت کرنے کی ناکام کوشش کرتے ہیں، اور مسلّم طور پر اگر کوئی عقلی منطق کو نہ مانے تو اس سے اس طرح کی ضد و نقیض باتوں کے علاوہ اور کوئی امید بھی نہیں کی جاسکتی۔

یہی وجہ ہے کہ ہمیشہ تاریخ میں بڑے بڑے علمائے کرام نے ان لوگوں سے دوری اختیار کی ہے، اور ان کو اپنے سے دور رکھا ہے۔

قرآن کریم نے بہت سی آیات میں عقل و برہان اور غور وخوض کے بارے میں توجہ دلائی ہے اور اسی کو ”معرفة اللہ“ کا راستہ بتایا ہے۔(۵)

____________________

(۱) نہج الحق ، ص۵۸ و۵۹.

(۲) دفترپنجم مثنوی ص۸۱۸،طبع سپہر ، تہران.

(۳) دلائل الصدق ، جلد اول، صفحہ ۱۳۷.

(۴) قابل توجہ بات یہ ہے کہ حلول واتحاد کے باطل ہونے کے سلسلہ میں علامہ حلی علیہ الرحمہ نے شرح تجرید الاعتقاد میں مفصل استدلال کے ساتھ بیان کیا ہے، (کشف المراد، صفحہ۲۲۷،باب انہ تعالیٰ لیس بحال فی غیرہ ونفی الاتحاد عنہ).

(۵) تفسیر پیام قرآن ، جلد ۴، صفحہ ۲۶۷ ، ۲۸۱


5

6

7

8

9

10

11

12

13

14

15

16

17

18

19

20

21

22

23

24

25

26

27

28

29

30

31

32

33

34

35

36