110 سوال اور جواب

110 سوال اور جواب0%

110 سوال اور جواب مؤلف:
زمرہ جات: مناظرے

110 سوال اور جواب

مؤلف: آیت اللہ ناصر مکارم شیرازی
زمرہ جات:

مشاہدے: 131591
ڈاؤنلوڈ: 4500

تبصرے:

110 سوال اور جواب
کتاب کے اندر تلاش کریں
  • ابتداء
  • پچھلا
  • 126 /
  • اگلا
  • آخر
  •  
  • ڈاؤنلوڈ HTML
  • ڈاؤنلوڈ Word
  • ڈاؤنلوڈ PDF
  • مشاہدے: 131591 / ڈاؤنلوڈ: 4500
سائز سائز سائز
110 سوال اور جواب

110 سوال اور جواب

مؤلف:
اردو

۴۶ ۔کیوں بعض قرآنی آیات متشابہ ہیں؟

لیکن اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ قرآن مجید میں متشابہ آیات کی وجہ کیا ہے؟ جبکہ قرآن مجید نور، روشنی، کلام حق اور واضح ہے نیزلوگوں کی ہدایت کے لئے نازل ہوا ہے تو پھر قرآن مجید میں اس طرح کی متشابہ آیات کیوں ہیں اور قرآن مجید کی بعض آیات کا مفہوم پیچیدہ کیوں ہے کہ بعض اوقات شرپسندوں کو ناجائز فائدہ اٹھانے کا مو قع مل جا تا ہے ؟

یہ موضوع در حقیقت بہت اہم ہے جس پر بھر پورتوجہ کرنے کی ضرورت ہے، کلی طور پر درج ذیل چیزیں قرآن میں متشابہ آیات کا راز اور وجہ ہو سکتی ہیں :

۱ ۔ انسان جو الفاظ اور جملے استعمال کرتا ہے وہ صرف روز مرّہ کی ضرورت کے تحت ہوتے ہیں ، اسی وجہ سے جب ہم انسان کی مادی حدود سے باہر نکلتے ہیں مثلاً خداوندعالم جو ہر لحاظ سے نامحدود ہے، اگر اس کے بارے میں گفتگو کر تے ہیں تو ہم واضح طور پر دیکھتے ہیں کہ ہمارے الفاظ ان معانی کے لئے کما حقہ پورے نہیں اترتے، لیکن مجبوراً ان کو استعمال کرتے ہیں ، کہ الفاظ کی یہی نارسائی قرآن مجید کی بہت سی متشابہ آیات کا سرچشمہ ہیں ،( یَدُ اللهِ فَوقَ اٴیدِیهم ) (سورہ فتح/ ۱۰) یا( الرَّحمٰنُ عَلَی الْعَرْشِ استَویٰ ) (سورہ طٰہ/ ۵) یا( إلیٰ رَبِّهَا نَاظِرَةِ ) (سورہ قیامت/ ۲۳) یہ آیات اس چیز کا نمونہ ہیں نیز ”سمیع“ اور ”بَصِیرٌ“ جیسے الفاظ بھی اسی طرح ہیں کہ آیات محکمات پر رجوع کرنے سے ان الفاظ اور آیات متشابہات کے معنی بخوبی واضح اور روشن ہوجاتے ہیں۔

۲ ۔ بہت سے حقائق دوسرے عالم یا ماورائے طبیعت سے متعلق ہوتے ہیں جن کو ہم سمجھنے سے قاصر ہیں، چونکہ ہم زمان و مکان میں مقید ہیں لہٰذا ان کی گہرائی کو سمجھنے سے قاصر ہیں، اورہمارے افکار کی نارسائی اور ان معانی کا بلند و بالا ہونا ان آیات کے تشابہ کا باعث ہے جیسا کہ قیامت وغیرہ سے متعلق بعض آیات موجود ہیں۔

یہ بالکل اسی طرح ہے کہ اگر کوئی شخص شکم مادر میں موجود بچہ کو اس دنیا کے مسائل کی تفصیل بتانا چاہے، تو بہت ہی اختصار اور مجمل طریقہ سے بیان کرنے ہوں گے کیونکہ اس میں صلاحیت اور استعداد نہیں ہے۔

۳ ۔ قرآن مجید میں متشابہ آیات کا ایک راز یہ ہو سکتا ہے کہ اس طرح کا کلام اس لئے پیش کیا گیا تاکہ لوگوں کی فکر و نظر میں اضافہ ہو ، اور یہ دقیق علمی اور پیچیدہ مسائل کی طرح ہیں تاکہ دانشوروں کے سامنے بیان کئے جائیں اور ان کے افکار پختہ ہوں اور مسائل کی مزید تحقیق کریں ۔ ۴ ۔قرآن کریم میں متشابہ آیات کے سلسلہ میں ایک دوسرا نکتہ یہ ہے کہ جس کی تائید اہل بیت علیہم السلام کی احادیث سے بھی ہو تی ہے:قرآن مجید میں اس طرح کی آیات کا موجود ہونا انبیاء اور ائمہ علیہم السلام کی ضرورت کو واضح کرتا ہے تاکہ عوام الناس مشکل مسائل سمجھنے کے لئے ان حضرات کے پاس آئیں، اور ا ن کی رہبری و قیادت کو رسمی طور پر پہچانیں، اور ان کے تعلیم دئے ہوئے دوسرے احکام اور ان کی رہنمائی پر بھی عمل کریں ، اور یہ بالکل اس طرح ہے کہ تعلیمی کتابوں میں بعض مسائل کی وضاحت استاد کے اوپر چھوڑدی جا تی ہے تاکہ شاگرد استاد سے تعلق ختم نہ کرے اور اس ضرورت کے تحت دوسری چیزوں میں استاد کے افکار سے الہام حاصل کرے ، خلاصہ یہ کہ قرآن کے سلسلہ میں پیغمبر اکرم (ص) کی مشہور وصیت کے مصداق پر عمل کریں کہ آنحضرت (ص) نے فرمایا:

”إنِّي َتارکٌ فِیکُمُ الثَّقلین کتابَ اللهِ وَ اٴهلَ َبیتي وَ إنّهما لن یَفترقا حتّٰی یَرِدَا عَلیَّ الْحَوضِ “۔

” یقینامیں تمہارے درمیان دو گرانقدر چیزیں چھوڑے جارہا ہوں: ایک کتاب خدا اور دوسرے میرے اہل بیت، اور (دیکھو!) یہ دونوں ایک دوسرے سے جدا نہیں ہوں گے یہاں تک کہ حوض کوثر پر میرے پاس پہنچ جائیں“(۱)(۲)

____________________

(۱) مستدرک حاکم ، جلد ۳، صفحہ ۱۴۸

(۲)تفسیر نمو نہ ، جلد ۲،صفحہ ۳۲۲

۴۷ ۔ کیا بسم اللہ تمام سوروں کا جز ہے؟

اس مسئلہ میں شیعہ علمااور دانشوروں کے درمیان کوئی اختلاف نہیں ہے کہ ”بسم اللہ “سورہ حمد اور بقیہ دوسرے سوروں کا جز ہے، اور قرآن مجید کے تمام سوروں کے شروع میں ”بسم اللہ “ کا ذکر ہونا خود اس بات پر محکم دلیل ہے، کیونکہ ہم جانتے ہیں کہ قرآن مجید میں کوئی چیز اضافہ نہیں ہوئی ہے، اور پیغمبر اکرم (ص) کے زمانہ سے آج تک ہر سورہ کے شروع میں بسم اللہ کا ذکر ہوتا رہا ہے۔

لیکن اہل سنت علمامیں سے مشہور و معروف مولف صاحب تفسیر المنار نے اس سلسلہ میں مختلف علماکے اقوال نقل کئے ہیں:

علماکے درمیان یہ بحث ہے کہ کیا ہر سورے کے شروع میں بسم اللہ سورہ کا جز ہے یا نہیں؟ مکہ کے قدیمعلما (فقہا اور قاریان قرآن) منجملہ ابن کثیر اور اہل کوفہ سے عاصم اور کسائی قاریان قرآن، اور اہل مدینہ میں بعض صحابہ اور تابعین اور اسی طرح امام شافعی اپنی کتاب جدید میں اور ان کے پیروکار ، نیز ثوری اور احمد (بن حنبل) اپنے دوقول میں سے ایک قول میں ؛ اسی نظریہ کے قائل ہیں کہ بسم اللہ تمام سوروں کا جز ہے، اسی طرح شیعہ علمااور (ان کے قول کے مطابق) اصحاب میں (حضرت ) علی، ابن عباس، عبد اللہ بن عمر اور ابوہریرہ ، اور تابعین میں سے سعید بن جبیر، عطاء، زہری اور ابن المبارک نے بھی اسی عقیدہ کو قبول کیا ہے۔

اس کے بعد مزید بیان کرتے ہیں کہ ان کی سب سے اہم دلیل صحابہ اور ان کے بعد آنے والے حکمران کا اتفاق اور اجماع ہے کہ ان سب لوگوں نے سورہ توبہ کے علاوہ تمام سوروں کے شروع میں ”بسم اللہ“ کو ذکر کیا ہے، جبکہ یہ سبھی حضرات اس بات پر تاکید کرتے تھے کہ جو چیز قرآن مجید کا جز نہیں ہے اس سے قرآن کو محفوظ رکھو ، اور اسی وجہ سے ”آمین“ کو سورہ حمد کے آخر میں ذکر نہیں کیا ہے۔

اس کے بعد (امام) مالک اور ابو حنیفہ کے پیرو نیز دوسرے لوگوں سے نقل کیا ہے کہ وہ لوگ ”بسم اللہ“ کو ایک مستقل آیت مانتے تھے جو ہر سورے کے شروع میں سوروں کے درمیان فاصلہ کرنے کے لئے نازل ہوئی ہے۔

اور احمد (بن حنبل) (اہل سنت کے مشہور و معروف فقیہ) اور بعض کوفی قاریوں سے نقل کرتے ہیں کہ وہ لوگ ”بسم اللہ“ کو صرف سورہ حمد کا جز مانتے تھے نہ کہ دوسرے سوروں کا،(۱)

(قارئین کرام!) مذکورہ اقوال سے یہ نتیجہ نکلتا ہے کہ اہل سنت کے علماکی اکثریت بھی اسی نظریہ کی قائل ہے کہ بسم اللہ سورہ کا جز ہے، ہم یہاں شیعہ اور سنی دونوں فریقوں کی کتابوں میں منقول روایات کو بیان کرتے ہیں (اور اس بات کا اعتراف کرتے ہیں کہ ان تمام کا یہاں ذکر کرنا ہماری بحث سے خارج ہے، اور مکمل طور پر ایک فقہی بحث ہے)

۱ ۔ ”معاویہ بن عمار“ جوامام صادق علیہ السلام کے چاہنے والوں میں سے ہیں، کہتے ہیں کہ میں نے امام علیہ السلام سے سوال کیا کہ جب میں نماز پڑھنے کے لئے تیار ہوجاؤں تو کیاسورہ حمد کے شروع میں بسم اللہ پڑھوں؟ تو امام علیہ السلام نے فرمایا: ہاں، میں نے پھر سوال کیا کہ جس وقت سورہ حمد تمام ہوجائے اور اس کے بعد دوسرا سورہ پڑھنا چاہوں تو کیا بسم اللہ کا پڑھنا ضروری ہے؟ تو آپ نے فرمایا: ہاں۔(۲)

۲ ۔سنی عالم دین دار قطنی صحیح سند کے ساتھ حضرت علی علیہ السلام سے نقل کرتے ہیں کہ ایک شخص نے آپ سے سوال کیا کہ ”السبع المثانی“ سے مراد کیا ہے؟ تو امام علیہ السلام نے فرمایا: اس سے مراد سورہ حمد ہے، تو اس نے سوال کیا کہ سورہ حمد میں تو چھ آیتیں ہیں؟ تو امام علیہ السلام نے فرمایا: بسم اللہ الرحمن الرحیم بھی اس کی ایک آیت ہے۔(۳)

۳ ۔ اہل سنت کے مشہور و معروف عالم بیہقی، صحیح سند کے ساتھ ابن جبیر اور ابن عباس سے اس طرح نقل کرتے ہیں:”استرَقَ الشَّیْطَان مِنَ النَّاسِ، اعظم آیة من القرآن بسمِ الله الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ “(۴) شیطان صفت لوگوں نے قرآن کریم کی سب سے بڑی آیت یعنی ”بسمِ الله الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ“کو چوری کرلیا ہے“ (اس بات کی طرف اشارہ ہے کہ سوروں کے شروع میں بسم اللہ نہیں پڑھتے)

اس کے علاوہ ہمیشہ مسلمانوں کی یہ سیرت رہی ہے کہ ہر سورے کو شروع کرنے سے پہلے بسم اللہ پڑھتے ہیں اور تواتر کے ساتھ یہ بات ثابت ہے کہ پیغمبر اکرم (ص) بھی ہر سورے کے شروع میں بسم اللہ الرحمن الرحیم پڑھا کرتے تھے، اس صورت میں کیسے ممکن ہے کہ جو چیز قرآن کا حصہ نہ ہو خود پیغمبر اکرم (ص) اور آپ کی امت اسے قرآن کے ساتھ ہمیشہ پڑھا کریں؟!۔

لیکن جیسا کہ بعض لوگوں کا خیال ہے کہ بسم اللہ ایک مستقل آیت ہے اور قرآن کا جز ہے مگر سوروں کا جز نہیں ہے، یہ نظریہ بھی بہت ضعیف ہے، کیونکہ بسم اللہ کے معنی کچھ اس طرح کے ہیں جس سے معلوم ہوتا ہے کہ کام کی ابتدا اور آغاز کے لئے ہے، نہ یہ کہ ایک مستقل اور الگ معنی ، درحقیقت اس طرح کا شدید تعصب کہ اپنی بات پر اڑے رہیں اور کہیں کہ بسم اللہ ایک مستقل آیت

ہے ،جس کاما قبل مبا لغہ سے کوئی ربط نہیں ہے، لیکن بسم اللہ کے معنی بلند آواز میں یہ اعلان کرتے ہیں کہ بعد میں شروع ہونے والی بحث کا سر آغاز ہے۔

صرف مخالفین کا ایک اعتراض قابل توجہ ہے اور وہ یہ ہے کہ قرآن مجید کے سوروں میں (سورہ حمد کے علاوہ) بسم اللہ کو ایک آیت شمار نہیں کیا جاتا بلکہ اس کے بعد والی آیت کو پہلی آیت شمار کیا جاتا ہے۔

اس اعتراض کا جواب”فخر الدین رازی“ نے اپنی تفسیر کبیر میں واضح کردیا کہ کوئی ممانعت نہیں ہے کہ بسم اللہ صرف سورہ حمد میں ایک آیت شمار کی جائے اور قرآن کے دوسرے سوروں میں پہلی آیت کا ایک حصہ شمار کیا جائے، ( اس لحاظ سے مثلاً سورہ کوثر میں( بسمِ الله الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ إِنَّا اٴعطینکَ الکَوْثَر ) ایک آیت شمار ہو۔

بہر حال یہ مسئلہ اتنا واضح اور روشن ہے کہ تاریخ نے لکھا ہے کہ معاویہ نے اپنی حکومت کے زمانہ میں ایک روز نماز جماعت میں بسم اللہ نہیں پڑھی، تو نماز کے فوراً بعد مہاجرین اور انصار نے مل کر فریاد بلند کی : ”اسرقت ام نسیت“ (اے معاویہ! تو نے بسم اللہ کی چوری کی ہے یا بھول گیا ہے؟)(۵)(۶)

____________________

(۱)تفسیر المنار ، جلد ۱ صفحہ۳۹۔۴۰ (۲) اصول کافی ، ، جلد ۳،صفحہ ۳۱۲

(۳) الاتقان ، جلد اول، صفحہ ۱۳۶

(۴) بیہقی ، جلد ۲، صفحہ ۵۰

(۵) بیہقی نے جزء دوم کے صفحہ ۴۹ پر اور حاکم نے بھی مستدرک میں جزء اول کے صفحہ ۲۳۳ پر اس حدیث کو نقل کیا ہے اور اس حدیث کوصحیح جانا ہے

(۶) تفسیر نمونہ ، جلد اول، صفحہ ۱۷

۴۸ ۔ امامت سے مراد کیا ہے؟ اور امامت اصول دین میں ہے یا فروع دین میں ؟

امامت کی تعریف کے سلسلہ میں بہت زیادہ اختلاف پایا جاتا ہے، اور اختلاف ہونا بھی چاہئے کیونکہ شیعہ نظریہ (جو کہ مکتب اہل بیت علیہم السلام کے پیروکار ہیں) کے مطابق امامت اصول دین میں سے ہے ، جبکہ اہل سنت کے یہاں امامت کو فروع دین اور عملی احکام میں شمار کیا جاتا ہے۔

اسی وجہ سے فریقین امامت کو ایک نگاہ سے نہیں دیکھتے لہٰذا اس کی تعریف الگ الگ کرتے ہیں

اسی وجہ سے ہم دیکھتے ہیں کہ ایک سنی عالم دین ،امامت کی تعریف اس طرح کرتے ہیں:

”اٴلإمَامَةُ ریاسةٌ عَامةٌ فِی اٴمورِ الدِّینِ وَالدُّنیا، خلافةٌ عَنِ النَّبِي(۱)

” پیغمبر اکرم (ص) کی جانشینی کے عنوان سے دین و دنیا کے امور میں عام سرپرستی کا نام ”امامت “ہے۔

اس تعریف کے لحاظ سے امامت، حکومت کی حد تک ایک ظاہری ذمہ داری ہے، لیکن دینی

اور اسلامی حکومت کی شکل میںپیغمبر اکرم (ص) کی جانشینی کا عنوان (آنحضرت کی جانشینی یقینی حکومتی امور میں ) رکھتی ہے، اور یہ بات ظاہر ہے کہ ایسے امام کو لوگوں کی طرف سے منتخب کیا جاسکتا ہے۔

لیکن بعض حضرات نے امامت کی تعریف اس طرح کی ہے: ”امامت یعنی پیغمبر اکرم کی طرف سے دینی احکام و قوانین نافذکرنے اور دین کی محافظت کرنے میں جانشین ہونا، اس طرح کہ تمام امت پر اس کی اطاعت واجب ہو“۔(۲)

چنانچہ یہ تعریف بھی پہلی تعریف سے الگ نہیں ہے بلکہ مفہوم و معنی کے لحاظ سے تقریباً ایک ہی ہے۔

ابن خلدون نے بھی اپنی تاریخ (ابن خلدون) کے مشہور و معروف مقدمہ میں امامت کی تعریف اسی طرح کی ہے۔(۳)

شیخ مفید (رحمة اللہ علیہ) کتاب ”اوائل المقالات“ میں عصمت کی بحث کرتے ہو ئے فرماتے ہیں: ”وہ ائمہ جو دینی احکام کے نافذ کرنے، حدود الٰہی کو قائم کرنے، شریعت کی حفاظت کرنے اور لوگوں کی تربیت کرنے میں پیغمبر اکرم (ص) کے جانشین ہیں، ان کو (ہر گناہ اور خطا سے) معصوم ہونا چاہئے، جس طرح انبیاء علیہم السلام معصوم ہوتے ہیں۔(۴)

چنانچہ اس تعریف کے لحاظ سے امامت، حکومت و ریاست سے بالاتر ہے بلکہ انبیاء علیہم السلام کی طرح تمام ذمہ داریاں امام کی بھی ہوتی ہیں سوائے وحی کے،اسی وجہ سے جس طرح نبی کا معصوم ہونا ضروری ہوتا ہے اسی طرح امام کا بھی معصوم ہوناضروری ہے۔

اسی وجہ سے شرح احقاق الحق میں شیعہ نقطہ نظر سے امامت کی تعریف یوں کی گئی ہے:

”هِيَ مَنصَبٌ إلٰهيّ حَائزٌ لِجَمیعِ الشوونِ الکریمةِ وَالفَضَائلِ إلاَّ النَّبوة و مایلازم تلک المرتبة السّامیة“ (۵)

”امامت ایک الٰہی منصب اور خدا کی طرف سے ایک ذمہ داری کا نام ہے جونبوت اور اس سے متعلق دوسرے امور کے علاوہ تمام بلند امور اور فضائل کو شامل ہے“۔

چنانچہ اس تعریف کے مطابق ”امام“ خداوندعالم کی طرف سے پیغمبر اکرم (ص) کے ذریعہ معین ہوتاہے اور (مقام نبوت کے علاوہ) پیغمبر اکرم (ص) کے تمام امتیازات و خصوصیات رکھتا ہے، اور اس کا کام دینی حکومت کی ریاست میں منحصر نہیں ہے، اسی دلیل کی بنا پر امامت اصول دین میں شمار ہوتی ہے نہ کہ فروع دین اور عملی فرائض میں۔

امامت اصول دین میں سے ہے یا فروع دین میں سے؟

مذکورہ بحث سے اس سوال کا جواب واضح ہوجاتا ہے ، کیونکہ امامت کے سلسلہ میں نظریات مختلف ہیں،متعصب سنی عالم ”فضل بن روزبہان“”نہج الحق“ (جس کا جواب ”احقاق الحق“ ہے ) اس طرح کہتاہے: اشاعرہ کے نزدیک امامت اصول دین میں سے نہیں ہے بلکہ فروع دین میں سے ہے اور اس کا تعلق مسلمانوں کے افعال او راعمال سے ہے۔(۶)

اس لحاظ سے اہل سنت کے دوسرے فرقوں میں بھی کو ئی فر ق نہیں ہے کیو نکہ ان سب کے یہاں امامت عملی فرائض میں شمارہوتی ہے، اور یہ لوگوں کی ذمہ داری ہوتی ہے کہ امام یا خلیفہ کا انتخاب کرلیں، صرف مکتب اہل بیت علیہم السلام کے ماننے والے اور اہل سنت کے بہت کم افراد جیسے قاضی بیضاوی، اور ان کا اتباع کرنے والے، امامت کو اصول میں شمار کرتے ہیں۔(۷)

ان کی دلیل بھی واضح اور روشن ہے ، کیونکہ ان کے نزدیک امامت ایک الٰہی منصب ہے، یعنی امام خدا کی طرف سے منصوب ہوتا ہے، جس کی ایک شرط معصوم ہونا ہے اور خدا کے علاوہ کوئی اس (کے معصوم ہونے ) کو نہیں جانتا، اور ائمہ علیہم السلام پر ایمان رکھنا اسی طرح ضروری ہے جس طرح پیغمبر اکرم (ص) پر ایمان رکھنا ضروری ہے کیونکہ امامت ،نبوت کی طرح شریعت کا اصلی ستون ہے، لیکن اس کے یہ معنی نہیں ہیں کہ شیعہ ، امامت کے سلسلہ میں اپنے مخالفوں کو کافر شمار کرتے ہوں، بلکہ شیعہ تمام اسلامی فرقوں کو مسلمان شمار کرتے ہیں، اورانھیں اسلامی برادر سمجھتے ہیں، اگرچہ امامت کے سلسلے میں ان کے ہم عقیدہ نہیں ہیں ،اسی وجہ سے کبھی پنجگانہ اصول دین کو دو حصوں میں تقسیم کرتے ہیں: پہلے تین اصول یعنی خدا، پیغمبر اسلام (ص) اور قیامت کو اصول دین شمار کرتے ہیں اور ائمہ علیہم السلام کی امامت اور عدل الٰہی کو اصول مذہب شمار کرتے ہیں۔

ہم اپنی اس گفتگو کو حضرت امام علی بن موسی الرضا علیہما السلام کی حدیث پر ختم کرتے ہیں جو امامت کے مسئلہ میں ہمارے لئے الہام بخش ہے، ”امامت یعنی زمام دین ،نظام مسلمین، دنیا کی صلاح اور مومنین کی عزت ہے، امامت ، اسلام کی بنیاد اور بلند شاخیں ہیں، امام کے ذریعہ نماز روزہ، حج ،زکوٰة اور جہاد کامل ہوتے ہیں،بیت المال میں اضافہ ہوتا ہے اور ضرورتمندوں کے لئے خرچ کیا جاتا ہے، احکام اور حدود الٰہی نافذ ہوتے ہیں امام ہی کے ذریعہ اسلامی ملک کے سرحدی علاقوں کی حفاظت ہوتی ہے۔

امام، حلال خدا کو حلال اور حرام خدا کو حرام شمار کرتا ہے (اور ان کو نا فذکرتا ہے) حدود الٰہی کو قائم کرتا ہے، دین خدا کا دفاع کرتا ہے، اور اپنے علم و دانش اوروعظ و نصیحت کے ذریعہ لوگوں کو راہ خدا کی دعوت دیتا ہے۔(۸)(۹)

____________________

(۱) شرح تجرید قوشنچی ، صفحہ ۴۷۲

(۲) شرح قدیم تجرید، شمس الدین اصفہانی اشعری( توضیح المراد تعلیق بر شرح تجرید عقائد، تالیف سید ہاشم حسینی تہرانی صفحہ ۲۷۲ کی نقل کے مطابق)

(۳) مقدمہ ابن خلدون، صفحہ ۱۹۱

(۴) اوائل المقالات ، صفحہ ۷۴، طبع مکتبة الداوری

(۵) احقاق الحق ،، جلد ۲، صفحہ ۳۰۰، (حاشیہ نمبر ایک) (۶) احقاق الحق ، جلد ۲، صفحہ ۲۹۴۔ دلائل الصدق ،جلد ۲، صفحہ ۴

(۷) دلائل الصدق ،جلد ۲، صفحہ ۸

(۸) اصول کافی ، جلد اول، صفحہ ۲۰۰ (۹) تفسیر پیام قرآن ، جلد ۹، صفحہ ۱۸

۴۹ ۔ امامت کی بحث کب سے شروع ہوئی؟

واضح رہے کہ پیغمبر اکرم (ص) کے فوراً بعد ہی آپ کی خلافت کے سلسلہ میں گفتگو شروع ہوگئی تھی ، چنا نچہ ایک گروہ کا کہنا تھا کہ آنحضرت (ص) نے اپنے بعد کے لئے کسی کو خلیفہ یا جانشین نہیں بنایا ہے، بلکہ اس چیز کو امت پر چھوڑ دیا ہے لہٰذا امت خود اپنے لئے کسی رہبر اور خلیفہ کا انتخاب کرے گی ، جو اسلامی حکومت کی باگ ڈور اپنے ہاتھوں میں لے اور لوگوں کی نمائندگی میں ان پر حکومت کرے، لیکن وفات رسول کے بعد نمائندگی کی صورت پیدا ہی نہیں ہوئی بلکہ چند اصحاب نے بیٹھ کر پہلے مرحلہ میں خلیفہ معین کرلیا اوردوسرے مرحلہ میں خلافت انتصابی ہو گئی، اور تیسرے مرحلہ میں انتخاب کا مسئلہ چھ لوگوں پر مشتمل ایک کمیٹی کے سپر د کیا گیاتاکہ وہ آئندہ خلافت کے مسئلہ کو حل کریں۔

چنانچہ اس طرز فکر رکھنے والوں کو ”اہل سنت“ کہا جاتا ہے۔

لیکن اس کے مقابل دوسرے گروہ کا کہنا تھا کہ پیغمبر (ص) کے جانشین کو خدا کی طرف سے معین ہونا چاہئے، اور وہ خود پیغمبر اکرم (ص) کی طرح ہر خطا اور گناہ سے معصوم اور غیر معمولی علم کا مالک ہونا چاہئے، تاکہ مادی اور معنوی رہبری کی ذمہ داری کو نبھاسکے، اسلامی اصول کی حفاظت کرے، احکام کی مشکلات کو برطرف کرے ، قرآن مجید کے دقیق مطالب کی تشریح فرمائے اور اسلام کو داوم بخشے۔

اس گروہ کو ”امامیہ“ یا ”شیعہ“ کہتے ہیں اور یہ لفظ پیغمبر اکرم (ص) کی مشہور و معروف حدیث سے اقتباس کیا گیا ہے۔

تفسیر الدر المنثور (جس کا شمار اہل سنت کے مشہور منابع میں ہوتا ہے) میں آیہ شریفہ( ِاٴُوْلَئِکَ هُمْ خَیْرُ الْبَرِیَّةِ ) کے ذیل میں جابر بن عبد اللہ انصاری سے اس طرح نقل کیا ہے:

”ہم پیغمبر اکرم (ص) کے پاس بیٹھے ہوئے تھے کہ حضرت علی علیہ السلام تشریف لائے، اس وقت آنحضرت (ص) نے فرمایا: یہ اور ان کے شیعہ روز قیامت کامیاب ہیں، اور اس موقع پر یہ آیہ شریفہ نازل ہوئی:

( إِنَّ الَّذِینَ آمَنُوا وَعَمِلُوا الصَّالِحَاتِ اٴُوْلَئِکَ هُمْ خَیْرُ الْبَرِیَّةِ ) (۱) (۲)

حاکم نیشاپوری (یہ چوتھی صدی کے مشہور و معروف سنی عالم ہیں)بھی اسی مضمون کو اپنی مشہور کتاب ”شواہد التنزیل“ میں پیغمبر اکرم (ص) سے مختلف طریقوں سے نقل کرتے ہیں جس کے راویوں کی تعداد ۲۰ / سے بھی زیادہ ہے۔

منجملہ ابن عباس سے نقل کرتے ہیں کہ جس وقت یہ آیہ شریفہ( إِنَّ الَّذِینَ آمَنُوا وَعَمِلُوا الصَّالِحَاتِ اٴُوْلَئِکَ هُمْ خَیْرُ الْبَرِیَّةِ ) (۳) نازل ہوئی تو پیغمبر اکرم (ص) نے حضرت علی علیہ السلام سے فرمایا: ”ہُوَ اَنْتَ وَ شِیْعَتُکَ“ ( اس آیت سے مراد آپ اور آپ کے شیعہ ہیں۔)(۴)

ایک دوسری حدیث میں ابوبرزہ سے منقول ہے کہ جس وقت پیغمبر اکرم (ص) نے اس

آیت کی تلاوت فرمائی تو فرمایا:”هُوَ اَنْتَ وَ شِیْعَتُکَ یَاعَلِیّ “ (وہ تم اور تمہارے شیعہ ہیں)(۵)

اس کے علاوہ بھی اہل سنت کے دیگرعلمااور دانشوروں نے بھی اس حدیث کو ذکر کیا ہے جیسے صواعق محرقہ میں ابن حجراور نور الابصار میں محمد شبلنجی نے۔(۶)

لہٰذا ان تمام روایات کے پیش نظر خود پیغمبر اکرم (ص) نے حضرت علی علیہ السلام کے پیرووں کا نام ”شیعہ“ رکھا ہے، لیکن اس کے باوجود بھی بعض لوگ اس نام سے خفا ہوتے ہیں اور اس کو بُرا سمجھتے ہیں نیز اس فرقہ کو رافضی کے نام سے یاد کرتے ہیں، کیا یہ تعجب کا مقام نہیں کہ پیغمبر اکرم تو حضرت علی علیہ السلام کے فرمانبرداروں کو ”شیعہ“ کہیں اور دوسرے لو گ اس فرقہ کو برے برے ناموں سے یاد کریں!!۔

بہر حال یہ بات واضح ہوجاتی ہے کہ لفظ شیعہ کا و جود پیغمبر اکرم (ص) کی وفات کے بعد نہیں ہوابلکہ خود آنحضرت (ص)کی زندگی میں ہی ہو چکا تھا، اور آپ نے حضرت علی علیہ السلام کے دوستوں اور پیرووں پر اس نام کا اطلاق کیا ہے، جو لوگ پیغمبر اکرم (ص) کو ”خدا کا رسول“ مانتے ہیں اور یہ جانتے ہیں کہ پیغمبر اکرم (ص) اپنی مرضی سے کلام نہیں کرتے بلکہ وہی کہتے ہیں جو وحی ہوتی ہے،( وَمَا یَنْطِقُ عَنِ الْهَویٰ إنْ هُوَ إلاَّ وَحیٌ یُوحیٰ ) (۷) لہٰذا اگر آنحضرت (ص) فرمائیں کہ اے علی آپ اور آپ کے شیعہ روز قیامت ،کامیاب ہیں تو یہ ایک حقیقت ہے۔(۸)

____________________

(۱) سورہ بینہ ، آیت ۷

(۲) الدر المنثور ، جلد ۶، صفحہ ۳۷۹ (ذیل آیہ ۷ سورہ بینہ)

(۳)سورہ بینہ، آیت ۷ (۴) شواھد التنزیل ، جلد ۲، صفحہ ۳۵۷

(۵) شواھد التنزیل ، جلد ۲، صفحہ ۳۵۹

(۶) صواعق محر قہ، صفحہ ۹۶،نور الابصار، صفحہ ۷۰ و۱۰۱، اس حدیث کے راویوں کی تعداد اور جن کتابوں میں یہ حدیث بیان ہوئی ہے، اس سلسلہ میں مزید معلوما ت کے لئے احقاق الحق ،جلد سوم، صفحہ ۲۸۷، اور جلد۱۴، صفحہ ۲۵۸ کی طرف رجوع فرمائیں

(۷)سورہ نجم آیت ۶، و ۷

(۸) تفسیر پیام قرآن ، جلد ۹، صفحہ ۲۲