110 سوال اور جواب

110 سوال اور جواب0%

110 سوال اور جواب مؤلف:
زمرہ جات: مناظرے

110 سوال اور جواب

مؤلف: آیت اللہ ناصر مکارم شیرازی
زمرہ جات:

مشاہدے: 131827
ڈاؤنلوڈ: 4528

تبصرے:

110 سوال اور جواب
کتاب کے اندر تلاش کریں
  • ابتداء
  • پچھلا
  • 126 /
  • اگلا
  • آخر
  •  
  • ڈاؤنلوڈ HTML
  • ڈاؤنلوڈ Word
  • ڈاؤنلوڈ PDF
  • مشاہدے: 131827 / ڈاؤنلوڈ: 4528
سائز سائز سائز
110 سوال اور جواب

110 سوال اور جواب

مؤلف:
اردو

۵۰۔ اولوا الامر سے مراد کون ہیں؟

جیسا کہ قرآن مجید میں ارشاد ہوتا ہے:( یَااٴَیُّهَا الَّذِینَ آمَنُوا اٴَطِیعُوا اللهَ وَاٴَطِیعُوا الرَّسُولَ وَاٴُوْلِی الْاٴَمْرِ مِنْکُم ) (۱) ”اے ایمان والو! اللہ کی اطاعت کرو، رسول اور صاحبان امر کی اطاعت کروجو تمہیں میں سے ہیں“۔

یہاں پر یہ سوال اٹھتا ہے کہ اولوا الامر سے مراد کون حضرات ہیں؟

اولوا الامر کے بارے میں اسلامی مفسرین کے درمیان بہت زیادہ اختلاف پایا جاتا ہے، ذیل میں ہم اس کا خلاصہ پیش کرتے ہیں:

۱ ۔ بعض اہل سنت مفسرین اس بات کا عقیدہ رکھتے ہیں کہ ”اولوا الامر “ سے مراد ہر زمانہ اور ہر مقام کے حکام وقت اور بادشاہ ہیں،اور اس میں کسی طرح کا کو ئی استثنا نہیں ہے جس کے نتیجہ میں مسلمانوں کی ذمہ داری ہے کہ وہ ہر حکومت کی پیروی کریں اگرچہ وہ مغل حکومت ہی کی کیوں نہ ہو۔

۲ ۔ صاحب تفسیر المنار اور صاحب تفسیر فی ظلال القرآن وغیرہ اس بات پر عقیدہ رکھتے ہیں کہ اولوا الامر سے مراد عوام الناس کے نمائندے، حکام وقت، علمااور صاحبان منصب ہیں ،لیکن اس شرط کے ساتھ کہ ان کا حکم اسلامی قوانین کے برخلاف نہ ہو۔

۳ ۔ بعض دیگر علماکے نزدیک اولوا الامر سے معنوی اور فکری حکّام یعنی علمااور دانشورمراد ہیں، ایسے دانشور جو عادل اور قرآن و سنت سے مکمل طور پر آگاہ ہوں۔

۴ ۔ اہل سنت کے بعض مفسرین کا کہنا ہے کہ اولوا الامر سے مراد صرف ابتدائی چار خلفاء ہیں، ان کے علاوہ کوئی دوسرا اولوا الامر میں شامل نہیں ہے لہٰذا ان کے بعد دوسرے زمانہ میں کوئی اولواالامر نہیں ہوگا۔

۵ ۔بعض دوسرے مفسرین نے پیغمبر اکرم (ص) کے اصحاب اور ان کے ناصروں کو اولواالامر مانا ہے۔

۶ ۔ بعض مفسرین نے ایک یہ بھی احتمال دیا ہے کہ اولوا الامر سے مراد اسلامی لشکرکا سردار ہے۔

۷ ۔ تمام شیعہ مفسرین اس بات پر متفق ہیں کہ اولوا الامر سے مراد ”ائمہ معصومین علیہم السلام“ ہیں جن کو خدا اور رسول کی طرف سے اسلامی معاشرے میں مادی اور معنوی رہبری کی ذمہ داری عطا کی گئی ہے، ان کے علاوہ کوئی دوسرا شخص اولوا الامر میں شامل نہیں ہے، البتہ جو افراد ان کی طرف سے منصوب کئے جاتے ہیں اور اسلامی معاشرہ میں ان کو کوئی عہدہ دیا جاتا ہے تو معین شرائط کے ساتھ ان کی اطاعت بھی لازم ہے، البتہ اولوا الامرکے عنوان سے نہیں بلکہ ان کی اطاعت اس لئے ضروری ہوتی ہے کہ وہ اولوا الامر کے نائب اور نمائندے ہوتے ہیں۔

اب ہم یہاں مذکورہ تفاسیر کے سلسلہ میں تحقیق و تنقید کرتے ہیں:

اس میں کوئی شک نہیں ہے کہ پہلی تفسیرکا آیت کے مفہوم اورتعلیمات اسلامی سے کو ئی تعلق نہیںہے ، اور یہ بات ممکن نہیں ہے کہ کوئی بھی حکومت ،خدا اور رسول کے برابر قرار دے دی جائے اور اس کی اطاعت کی جائے اور اس میں کسی بھی طرح کی کوئی قید و شرط نہ ہو، اسی وجہ سے شیعہ مفسرین کے علاوہ خود اہل سنت کے مفسرین نے اس پہلی تفسیر کو قبول نہیں کیا ہے۔

دوسری تفسیر بھی آیہ شریفہ سے ہم آہنگ نہیں ہے، کیونکہ آیت میں اولوا الامر کی اطاعت کو بغیر کسی قید و شرط کے واجب قرار دیا گیا ہے۔

تیسری تفسیر یعنی جس میں عادل اور قرآن و سنت سے واقف علمااور دانشوروں کو اولوا الامر قرار دیا گیا ہے، وہ بھی آیت کے اطلاق سے ہم آہنگ نہیں ہے، کیونکہ علمااو ردانشوروں کی پیروی کی شرط یہ ہے کہ ان کا حکم قرآن و سنت کے برخلاف نہ ہو، لہٰذا اگر وہ کسی خطا کے مرتکب ہوجائیں (کیونکہ وہ معصوم تو ہیں نہیں ان سے خطا ہوسکتی ہے) یا کسی دوسری وجہ کی بنا پر حق سے منحرف ہوجائیں تو پھر ان کی اطاعت ضروری نہیں ہے، لیکن آیہ شریفہ میں اولوا الامر کی اطاعت کو مطلق اور پیغمبر اکرم کی طرح ضروری قرار دیا گیا ہے، اس کے علاوہ وہ علمااو ردانشور افراد جنھوں نے قرآن و سنت سے احکام حاصل کئے ہیں ان کی اطاعت خداو رسول کی اطاعت ہوگی، اور الگ سے بیان کرنے کی ضرورت نہیں ہے۔

چوتھی تفسیر ( جس میں چاروں خلفا ہی کو اولوا الامر قرار دیا گیا) کا مطلب یہ ہے کہ آج مسلمانوں کے درمیان کوئی اولوا الامرنہ ہو، اس کے علاوہ اولوا الامر کو چاروں خلفا سے مخصوص کرنے پر بھی کوئی دلیل نہیں ہے۔

پانچویں اور چھٹی تفسیر یعنی صحابہ اور سرداران لشکر سے مخصوص کرنے میں بھی یہی مشکل ہے، یعنی ان لوگوں سے مخصوص کرنے پر بھی کوئی دلیل نہیں ہے۔

بعض علمااہل سنت جیسے مصر کے مشہور و معروف دانشور”شیخ محمد عبدہ“ نے مشہور و معروف مفسر ”فخر الدین رازی“ کی پیروی کرتے ہوئے دوسرے احتمال ( کہ اولوا الامر سے مراد، عوام الناس کے نمائندے، حاکم وقت، علمااور صاحب منصب افراد ہیں ،لیکن اس شرط کے ساتھ کہ ان کا حکم اسلامی قوانین کے برخلاف نہ ہو)میں چند شرائط کا اضافہ کرتے ہوئے قبول کیا ہے ، ان میں سے ایک شرط یہ بیان کی ہے کہ حاکم وقت مسلمان ہو (جیسا کہ لفظ ”منکُم“ سے نتیجہ نکلتا ہے) اور اس کا حکم قرآن اور سنت کے برخلاف نہ ہو، مزید یہ کہ اس کا حکم اپنے اختیار سے ہو نہ کہ اس نے مجبوری کی حالت میں حکم دیا ہواور یہ کہ مسلمانوں کی فلاح و بہبود کے لئے حکم کرے، نیز ایسے مسائل میں حکم کرے جس میں دخالت کا حق رکھتا ہو (نہ عبادت جیسی چیزوں میں کہ جس کا حکم اسلام میں معین ہے) مزید یہ کہ جس مسئلہ میں حکم کررہا ہو اس میں شریعت کی طرف سے کوئی خاص نص موجود نہ ہو ، ان تمام چیزوں کے علاوہ اتفاقی طور پر نظریہ دے(یعنی ایسا نہ ہو کہ ایک حاکم کچھ کہہ رہا ہے تو دوسرا کچھ)۔

اور چونکہ یہ لوگ اس بات پر عقیدہ رکھتے ہیں کہ تمام امت یا امت کے تمام نمائندے خطا اور غلطی نہیں کرسکتے ،یعنی معصوم ہوتے ہیں، اور ان شرائط کا نتیجہ یہ ہوتا ہے کہ ایسا حکم جس میں کوئی قید و شرط نہ ہوپیغمبر اکرم (ص) کی اطاعت کی طرح ہوجاتا ہے، (جس کا نتیجہ ”اجماع“ کو حجت ماننا اور اس کو قبول کرنا ہے)، لیکن اس تفسیر پر بھی بہت سے اعتراضات ہیں، کیونکہ:

۱ ۔ اجتماعی مسائل میں بہت ہی کم مقامات پر اتفاق ہوتاہے جس کی بنا پر امت مسلمہ کے اکثر امور میں ہمیشہ ایک بے نظمی با قی رہے گی، اور اگر لوگ کثریت کے نظریہ کو قبول کرنا چاہیں تو اس پر اعتراض یہ ہے کہ اکثریت معصوم نہیں ہے بلکہ پوری امت کا اجماع معصوم ہے، لہٰذا ان میں سے کسی ایک کی بھی اطاعت ضروری نہ ہوگی۔

۲ ۔ علم اصول میں یہ بات ثابت ہوچکی ہے کہ بغیر امام معصوم کے”تمام امت “ کے معصوم ہونے پر کوئی دلیل نہیں ہے، (اگر امام معصوم اجماع میں شامل نہ ہو تو اس اجماع کا کوئی فائدہ نہیں ہے)

۳ ۔ اس تفسیر کے حامیوں کی ایک شرط یہ تھی کہ ان کا حکم قرآن و سنت کے برخلاف نہ ہو، لیکن قرآن اور سنت کے خلاف ہے یا نہیں اس کو دیکھنے کی ذمہ داری کس پر ہوگی، تو یہ ذمہ داری مجتہد اور قرآن و سنت سے آگاہ علماکی ہوگی جس کا نتیجہ یہ ہوگا کہ مجتہدین اور علماکی اجازت کے بغیر اولوا الامر کی اطاعت جائز نہ ہوگی، بلکہ علماکی اطاعت اولوا الامر سے بلند ہوگی، جبکہ یہ نظریہ بھی آیت سے ہم آہنگ نہیںہے۔

یہ ٹھیک ہے کہ انھوں نے علمااور دانشوروں کو بھی اولوا الامر میں شمار کیا ہے لیکن حقیقت یہ ہے کہ اس تفسیر کی بنا پر علمااور مجتہدین کا مرتبہ ان نمائندوں سے بلند ہوگا نہ کہ ان کے ہم پلہ، کیونکہ علماو دانشورحضرات اولوا الامر کے امور کے نگراں ہیں کہ کہیں ان کے نظریات قرآن و سنت کے مخالف تو نہیں ہیں، لہٰذا وہ ان سے بلند مرتبہ پر فائز ہیں جو کہ مذکورہ تفسیر سے ہم آہنگ نہیں ہے۔

لہٰذامذکورہ تفسیر پر متعدد اعتراض ہوئے ہیں۔

صرف ساتویں تفسیر مذکورہ اعتراضات سے خالی ہے یعنی اولوا الامر سے مراد ائمہ معصومین علیہم السلام ہے، کیونکہ یہ تفسیر مذکورہ آیت میں موجود ہ وجوبِ اطاعت کے اطلاق سے مکمل طور پر ہم آہنگ ہیں، کیونکہ ”عصمت“ ان کو ہر طرح کی خطا و غلطی سے محفوظ رکھتی ہے، اسی لئے امام کا حکم پیغمبر اکرم (ص) کے حکم کی طرح بغیر کسی قید و شرط کے واجب الاطاعت ہے، اور انھیں آنحضرت (ص) کی اطاعت کی صف میں قرار دیا جانا مناسب ہے، جیسا کہ لفظ ”اطیعوا“ کی تکرار کے بغیر ”رسول“ پر عطف ہوا ہے۔

قابل توجہ بات یہ ہے کہ اہل سنت کے بعض مشہور و معروف علماجیسے فخر الدین رازی نے مذکورہ آیت کے ذیل میں اس حقیقت کا اعتراف کیا ہے، جیسا کہ موصوف تحریر کرتے ہیں:

”خداوندعالم نے جس کی اطاعت کو قاطعانہ اور بغیر چون و چرا کے لازم اور ضروری قرار دیا ہے اس کا معصوم ہونا ضروری ہے، کیونکہ اگر خطا اور غلطی سے معصوم نہ ہو ، اور گنا ہوں کے وقت خدا اس کی اطاعت کو لازم قرار دے اور خطا کی صورت میں بھی اس کی پیروی لازم ہو تو یہ تو خود خداوندعالم کے حکم میں تضاد اور ٹکراؤ ہوگا، کیونکہ ایک طرف تو خداوندعالم نے کسی کام کو ممنوع قرار دیا ہے اور دوسری طرف ”اولوا الامر “ کی پیروی لازم قرار دی ہے ، لہٰذا یہاں ”امر“ اور ”نہی“ دونوں جمع ہوجائیں گے، (یعنی ایک طرف خدا کہہ رہا ہے کہ اس کام کو انجام دو، دوسری طرف اسی کام سے روک بھی رہا ہے)

ایک طرف خداوندعالم اولوا الامر کی اطاعت کا مطلق طور پر حکم دے رہا ہے، دوسری طرف اگر اولوا الامر معصوم نہ ہو اور خدا اس کی اطاعت کا حکم دے تو یہ حکم صحیح نہیں ہے، اس مقدمہ سے یہ بات واضح ہوتی ہے کہ مذکورہ آیت میں جس اولوا الامر کی طرف اشارہ کیا گیا اس کا معصوم ہونا ضروری ہے۔

اس کے بعد فخر الدین رازی تحریر کرتے ہیں کہ یہ معصوم یا تو تمام امت ہے یا امت کے کچھ افراد ہیں ،دوسرا احتمال صحیح نہیں ہے، کیونکہ ہم امت کے ان بعض افراد کو پہچانیں اور اس تک رسائی ممکن ہو، جبکہ ایسا نہیں ہے،(یعنی وہ معصوم کو ن ہے ہمیں معلوم نہیں ہے) اور جب یہ احتمال ردہوجاتا ہے تو صرف پہلا احتمال باقی رہتا ہے کہ پوری امت معصوم ہے، اور یہ خود اس بات کی دلیل ہے کہ امت کا اجماع اور اتفاق حجت و قابل قبول ہے، اور یہ بہترین دلیل ہے۔(۲)

(قارئین کرام!) جیسا کہ آپ حضرات جانتے ہیں کہ فخر رازی مختلف علمی مسائل پر اعتراضات کرنے کے شوقین ہیں یہاں مذکورہ آیت میں اولوا الامر کے معصوم ہونے کو قبول کرتے ہیں، لیکن مکتب اہل بیت اور ائمہ علیہم السلام سے آشنائی نہ رکھنے کے سبب اس احتمال سے چشم پوشی کرلیتے ہیں کہ امت کے معین حضرات اولوا الامر ہیں، اور مجبوراً اولوا الامر کے معنی تمام امت (یا عام مسلمانوں کے نمائندے) مرادلیتے ہیں، جبکہ یہ احتمال قابل قبول نہیں ہے کیونکہ ہم نے پہلے بھی عرض کیا کہ اولوا الامر اسلامی معاشرہ کے لئے رہبر ہے اور اسلامی حکومت نیز امت مسلمہ کی مشکلات کے فیصلے اسی کے ذریعہ ہوتے ہیں، جبکہ ہم یہ بات بھی جانتے ہیں کہ تمام حکومتی عہدہ داروں میں اتفاق ہونا ممکن نہیں ہے، کیونکہ مسلمانوں کو درپیش اجتماعی ، سیاسی، ثقافتی، اخلاقی اور اقتصادی مسائل میں سب لو گوں کاہونا غالباً ممکن نہیں ہے، اور اکثریت کی پیروی اولوا الامر کی پیروی شمار نہیں ہوگی،

لہٰذا فخر الدین رازی اور ان کی پیروی کرنے والے معاصرین کے عقیدہ کا لازمہ یہ ہوگا کہ اولوا الامر کی اطاعت کی جگہ باقی نہ رہے، اور صرف استثنائی صورت اختیار کرلے۔

(قارئین کرام!) ہماری تمام باتوں کا خلاصہ یہ ہوا کہ آیہ شریفہ صرف ان معصوم حضرات کی رہبری کو ثابت کرتی ہے جوامت کا ایک حصہ ہیں۔ (غور کیجئے )

چند اعتراضات اور ان کے جوابات

مذکورہ تفسیر پر کچھ اعتراضات ہوئے ہیں،جن کو ہم بغیر طرفداری کے بیان کرتے ہیں:

۱ ۔ اگر ”اولوا الامر“ سے مراد ائمہ معصومین علیہم السلام ہوں تو چونکہ لفظ ”اولی“ جمع کا صیغہ ہے، لہٰذا آیت سے ہم آہنگ نہیں ہے، کیونکہ ہر زمانہ میں امام معصوم صرف ایک ہوتا ہے۔

اس اعتراض کا جواب یہ ہے کہ ہر زمانہ میں امام معصوم ایک سے زیادہ نہیں ہوتا لیکن ہر زمانہ میں ایک ہی امام ہوتا ہے اس کے بعد دوسرا امام،تاآخر، اور ہم جانتے ہیں کہ آیہ شریفہ ہر زمانہ کے افراد کو امام کی اطاعت کے لئے حکم دے رہی ہے۔

۲ ۔ اس معنی کے لحاظ سے پیغمبر اکرم (ص) کے زمانہ میں اولوا الامر موجود نہیں تھے ، تو پھر کس طرح ان کی اطاعت کا حکم دیا گیا؟

اس اعتراض کا جواب بھی مذکورہ جواب سے واضح اور روشن ہوجاتا ہے کیونکہ آیہ شریفہ کسی خاص زمانہ سے مخصوص نہیں ہے، لہٰذا ہر صدی کے مسلمانوں کا وظیفہ معین کرتی ہے، اور دوسرے الفاظ میں یوں کہیں کہ خود پیغمبر اکرم (ص) کے زمانہ میں خود آنحضرت (ص) اولوا الامر تھے ، کیونکہ اس وقت پیغمبر اکرم (ص) کے پاس دو منصب تھے ایک منصب ”رسالت“ جیسا کہ آیہ شریفہ میں ”اٴطَیعُوا الرَّسوُلَ “ آیاہے ، دوسرے ”امت اسلامی کی رہبری اور سرپرستی“ اس آیت میں ”اولوا الامر“ سے یاد کیا گیا ہے، اس بنا پر پیغمبر اکرم (ص) کے زمانہ میں معصوم رہبر اور پیشوا خود آنحضرت تھے ، یعنی منصب رسالت اور احکام اسلام کی تبلیغ کے علاوہ اس منصب پر بھی فائز تھے، اور شاید ”رسول“ اور ”اولوا الامر“ کے درمیان ”اطیعوا“ کی تکر ار نہ ہو نا اس بات کی طرف اشارہ ہے، دوسرے الفاظ میں یوں سمجھئے کہ منصب ”رسالت“ اور منصب ”اولوا الامر“ دو مختلف منصب ہیں جو پیغمبر اکرم (ص) میں ایک ساتھ جمع تھے، لیکن امام کے سلسلہ میں جدا مسئلہ ہے اور امام صرف دوسرا منصب رکھتا ہے۔

۳ ۔ اگر ”اولوا الامر“ سے مراد ائمہ معصومین اور معصوم رہبر ہوں تو درج ذیل آیہ شریفہ میں مسلمانوں کے اختلاف کی صورت میں صرف خدا و رسول کی طرف رجو ع کرنے کا حکم کیو ں دیا گیاہے، ارشاد ہوتا ہے:( فَإِنْ تَنَازَعْتُمْ فِی شَیْءٍ فَرُدُّوهُ إِلَی اللهِ وَالرَّسُولِ إِنْ کُنتُمْ تُؤْمِنُونَ بِاللهِ وَالْیَوْمِ الْآخِرِ ذَلِکَ خَیْرٌ وَاٴَحْسَنُ تَاٴْوِیلًا ) (۳)

”پھر اگر آپس میں کسی بات میں اختلاف ہوجائے تو اُسے خدا و رسول کی طرف پلٹادو، اگر تم اللہ اور روز آخرت پر ایمان رکھنے والے ہو، یہی تمہارے حق میں خیر اور انجام کے اعتبار سے بہترین بات ہے“۔

جیسا کہ آپ نے ملا حظہ کیا کہ اس آیت میں اولوا الامر کی بات نہیں کی گئی ہے، اور اختلاف دورکرنے کے لئے صرف خدا و رسول کی طرف رجوع کرنے کا حکم دیاگیا ہے، یعنی کتاب خدا ، (قرآن کریم) اور سنت پیغمبر کے ذریعہ اختلاف حل کیا جائے گا۔

اس سوال کے جواب میں ہم عرض کرتے ہیں کہ اولاً یہ اعتراض شیعہ مفسرین پر نہیں ہے بلکہ اگر ذرا غور کریں تو دوسری تفسیروں پر بھی یہی اعتراض وارد ہوتا ہے، اور دوسرے یہ کہ اس بات میں کوئی شک نہیں ہے کہ مذکورہ آیت میں اختلاف اور تنازع سے مراد احکام کا اختلاف ہے، مسلمانوں

کی رہبری اور حکومت کے جزئی مسائل کا اختلاف مراد نہیں ہے ،کیونکہ ان مسائل میں قطعی طور پر اولوا الامر کی اطاعت ہونی چاہئے، (جیسا کہ آیت کے پہلے فقرہ میں بیان ہوا ہے) لہٰذا اختلاف سے مراد اسلام کے عام قوانین اور احکام کا اختلاف مراد ہے جس کا جواز خدااور پیغمبر سے مخصوص ہے، کیونکہ امام صرف احکام کو نافذ کرتا ہے، احکام کو وضع نہیں کرتا، اور نہ ہی اسلام کے کسی قانون کو نسخ کرتا، بلکہ ہمیشہ احکام خدا اور سنت پیغمبر کو نافذ کرتا ہے، اور اسی وجہ سے اہل بیت علیہم السلام سے منقول احادیث میں بیان ہوا ہے کہ اگر(کسی راوی کے ذریعہ) ہم سے کوئی بات کتاب خدا اور سنت پیغمبر کے برخلاف سنو تو اس کو ہرگز قبول نہ کرو ،کیونکہ ہمارے لئے قرآن اور سنت پیغمبر کے برخلاف حکم کرنا محال اور ناممکن ہے۔

مختصر یہ کہ احکام اور اسلامی قوانین لوگوں کے اختلاف کو حل کرنے کا پہلا مرجع خدا اور پیغمبر اکرم (ص) ہیں، کیونکہ پیغمبر پر وحی ہوتی ہے، اور اگر امام معصوم کوئی حکم بیان کرتا ہے تو وہ اپنی طرف سے نہیں ، بلکہ قرآن کریم یا پیغمبر اکرم (ص) سے حاصل ہوئے علم کی بناپر ہوتا ہے، لہٰذا اختلاف حل کرنے والوں کی صف میں اولوا الامرکو ذکر نہ کرنے کی وجہ روشن ہوجاتی ہے۔(۴)

____________________

(۱) سورہ نساء ، آیت ۵۹

(۲) تفسیر کبیر فخر رازی ، جلد ۱۰، صفحہ ۱۴۴، طبع مصر ۱۳۵۷ئھ ش

(۳) سورہ نساء ، آیت ۵۹

(۴) تفسیر نمونہ ، جلد ۳، صفحہ ۴۳۵

۵۱ ۔ اہل بیت سے مراد کون حضرات ہیں؟

سورہ مبارکہ احزاب میں ارشاد ہوتا ہے:

( إِنَّمَا یُرِیدُ اللهُ لِیُذْهِبَ عَنْکُمْ الرِّجْسَ اٴَهْلَ الْبَیْتِ وَیُطَهِّرَکُمْ تَطْهِیرًا ) (۱)

”بس اللہ کا ارادہ یہ ہے کہ( اے اہل بیت پیغمبر!) تم سے ہر برائی کو دور رکھے اور اس طرح پاک و پاکیزہ رکھے جو پاک و پاکیزہ رکھنے کا حق ہے“۔

آیہ شریفہ کے پیش نظر ،یہ سوال پیدا ہوتا ہے کہ اہل بیت سے مراد کون لوگ ہیں؟

یہ بات اپنی جگہ صحیح ہے کہ یہ آیہ شریفہ ازواج پیغمبر کی شان میں نازل ہو نے والی آیات کے درمیان واقع ہے، لیکن اس آیت کا انداز بدلا ہوا ہے جس سے اندازہ ہوتا ہے کہ اس آیت کا ایک دوسرا مقصد ہے، کیونکہ اس سے پہلی اور بعد والی آیات میں ”جمع مونث“ کے صیغے استعمال ہوئے ہیں لیکن اس آیت میں ”جمع مذکر“ کا صیغہ استعمال ہوا ہے!

آیت کے شروع میں ازواج پیغمبر (ص) کو خطاب کیا گیا اور ان کو حکم دیا گیا کہ وہ اپنے اپنے گھروں میں رہیں ،اور عرب کی جاہلیت کے رسم و رواج کی طرح لوگوں کے سامنے نہ نکلیں، عفت کی رعایت کریں، نماز قائم کریں اور زکوٰة ادا کریں نیز خدا اور رسول کی اطاعت کریں،

( وَقَرْنَ فِی بُیُوتِکُنَّ وَلاَتَبَرَّجْنَ تَبَرُّجَ الْجَاهِلِیَّةِ الْاٴُولَی وَاٴَقِمْنَ الصَّلَاةَ وَآتِینَ الزَّکَاةَ وَاٴَطِعْنَ اللهَ وَرَسُولَهُ)

آیت کے اس حصہ میں تمام چھ ضمیریں ”جمع مونث“ کی استعمال ہوئی ہیں۔ (غور کیجئے )

اس کے بعد لہجہ بدل جاتا ہے اور ارشاد ہوتا ہے کہ اللہ کا ”صرف“ ارادہ یہ ہے کہ تم اہل بیت سے رجس کو دور رکھے اور تمہیں مکمل طور پر پاک رکھے“،( إِنَّمَا یُرِیدُ اللهُ لِیُذْهِبَ عَنْکُمْ الرِّجْسَ اٴَهْلَ الْبَیْتِ وَیُطَهِّرَکُمْ تَطْهِیرًا ) (۲)

آیت کے اس حصہ میں دونوں ضمیریں جمع مذکر کے لئے استعمال ہوئی ہیں۔

یہ بات صحیح ہے کہ عام طور پر آیت کا سیاق و سباق ایک مطلب کو بیان کرتا ہے لیکن یہ اس وقت ہوتا ہے جب اس کے برخلاف کوئی قرینہ اور شاہد نہ ہو، لہٰذا جو لوگ آیت کے اس حصہ کو بھی ازواج پیغمبر (ص) کی شان میں سمجھتے ہیں ان کا نظریہ ظاہر آیت اور اس میں موجود قرینہ کے برخلاف ہے، یعنی ان دونوں حصوں میں ضمیریں مختلف ہیں لہٰذا دو جدا جدا مطلب ہیں۔

اس کے علاوہ مذکورہ آیت کی تفسیر میں بڑے بڑے سنی اور شیعہ علمانے خود پیغمبر اکرم (ص) سے متعدداحادیث نقل کی ہیں، اور فریقین کے معتبر منابع و مآخذ میں اس کو قبول کیا گیا ہے، اور ان روایات کی تعداد بھی بہت زیادہ ہے۔

یہ تمام روایات اس بات کی حکایت کرتی ہیں کہ مذکورہ آیہ شریفہ پیغمبر اکرم (ص)، حضرت علی،حضرت فاطمہ زہرا، حضرت امام حسن اور حضرت امام حسین علیہم السلام کی شان میں نازل ہوئی ہے، (نہ کہ ازواج پیغمبر کی شان میں) جیسا کہ بعد میں تفصیل کے ساتھ بیان کیا جائے گا۔

آیت میں لفظ ”انّما“ استعمال کیا گیا جو حصر کے معنی میں ہے جس کے معنی ”صرف“ ہوتے ہیں جو اس بات کی دلیل ہے کہ اس آیہ شریفہ میں آل ِنبی (ص)کے لئے جو خاص عظمت قرار دی گئی ہے وہ کسی دوسرے کے لئے نہیں ہے۔

بعض مفسرین اہل سنت نے اہل بیت میں ازواج نبی کو بھی شامل کیا ہے، لیکن جیسا کہ ہم نے بیان کیا ہے کہ اس آیت کا سیاق اور آیت کے پہلے اور بعد والے حصے میں استعمال ہونے والی ”جمع مونث“ کی ضمیروں کی جگہ اس حصہ میں ”جمع مذکر“ کی ضمیروں کا استعمال کیا گیا ہے جوایک واضح دلیل ہے کہ اس حصہ کا ایک الگ مطلب ہے، اور اس سے مراد ایک دوسری چیز ہے، کیا خداوندعالم ”حکیم“ نہیں ہے، اور کیا قرآن مجید کی فصاحت و بلاغت بلند وبالا نہیںہے اور اس کے تمام الفاظ کوئی حساب و کتاب نہیں رکھتے؟

لیکن مفسرین کی ایک جماعت نے آیہ تطہیر کو پیغمبر اکرم، علی، فاطمہ، حسن و حسین (علیہم السلام) سے مخصوص کیا ہے، اس سلسلہ میں ہم شیعہ سنی منابع میں وارد ہونے والی روایات میں سے چند نمونے پیش کرتے ہیں جواس تفسیرپر گواہ ہیں۔

اور شاید انھیں روایات کی وجہ سے بعض لوگوں نے آیہ شریفہ کو اہل بیت سے مخصوص نہیں مانا، لیکن انھوں نے مذکورہ آیت کے ایک وسیع معنی بیان کئے ہیں جس میں اہل بیت بھی شامل ہوں اور ازواج رسول بھی، یہ آیت کی ایک تیسری تفسیر ہے۔

جو روایات اس بات پر دلالت کرتی ہیں کہ یہ آیت پیغمبر اکرم (ص) ، حضرت علی مرتضیٰ، حضرت فاطمہ زہرا، اور حضرت امام حسن و امام حسین علیہم السلام سے مخصوص ہے، ان کی تعداد بہت زیادہ ہے، صرف تفسیر ”الدر المنثور“ میں ۱۸/ حدیث نقل ہوئی ہیں، جن میں سے پانچ روایت امّ سلمہ سے ، تین ابو سعید خدری سے، ایک عائشہ سے، ایک انس سے، دو روایت ابن عباس سے، دو روایت ابی الحمراء سے، ایک روایت وائلہ بن اسقع سے، ایک روایت سعد سے ، ایک روایت ضحاک بن مزاحم سے اور ایک روایت زید بن ارقم سے نقل کی گئی ہے۔(۳)

جناب علامہ طباطبائی رحمة اللہ علیہ نے تفسیر ”المیزان“ میں اس سلسلہ میں بیان ہونے والی روایات کی تعداد ۷۰ / تک بیان کی ہے، موصوف فرماتے ہیں: اہل سنت کے ذریعہ اس سلسلہ میں نقل ہونے والی روایات شیعہ طریقہ سے بیان ہونے والی روایات سے بھی زیادہ ہیں! اس کے بعد موصوف نے مذکورہ ناموں کے علاوہ بہت سے نام شمار کرائے ہیں، یعنی تفسیر الدر المنثور کے علاوہ دوسری کتابوں میں بیان ہونے والے راویوں کے نام بیان کئے ہیں۔

بعض حضرات نے ان روایات اور جن کتابوں میں یہ روایات نقل ہوئی ان کی تعداد سیکڑوں تک بتا ئی ہے اور ایسا ہونا بعید بھی نہیں ہے۔

ہم یہاں پر ان روایات کے چند نمونے مع منابع و مآخذ نقل کرتے ہیں تاکہ”اسباب النزول “ میں ”واحدی“ کی بات روشن ہوجائے، جو واقعاً ایک حقیقت ہے، چنانچہ موصوف فرماتے ہیں:

( إنَّ الٓا یةَ نَزَلَتْ فِي النَّبيِّ(ص) ،وعَلیّ و فَاطِمَةَ والحَسنین (ع) خاصة لایشارکهُم فیها غیرَهُم)

”یہ آیہ شریفہ پیغمبر اکرم (ص) ، حضرت علی مرتضیٰ، حضرت فاطمہ زہرا، اور حضرت امام حسن و امام حسین علیہم السلام سے مخصوص ہے اور کوئی دوسرا اس میں شامل نہیں ہے“۔(۴)

چنا نچہ ان احادیث کا خلاصہ چار حصوں میں کیا جاسکتا ہے:

۱ ۔ جن احادیث کو پیغمبر اکرم (ص) کی بعض ازواج نے نقل کیا ہے جو واضح طور پر کہتی ہیں

کہ جس وقت آنحضرت (ص) نے اس آیہ شریفہ کی گفتگو فرمائی تو آپ سے سوال کیا کہ کیا ہم لوگ بھی اس آیت میں شامل ہیں؟ تو آنحضرت (ص) نے فرمایا: تم خیر پر ہو لیکن اس آیت میں شامل نہیں ہو!

جیسا کہ ثعلبی اپنی تفسیر میں ”ام سلمیٰ ( زوجہ پیغمبر)سے نقل کرتے ہیں کہ پیغمبر اکرم (ص) اپنے حجرے میں تشریف فرما تھے کہ جناب فاطمہ (س) آنحضرت (ص) کی خدمت میں کھا نالائیں تو آپ نے فرمایا: اپنے شوہر نامدار اور دونوں بیٹوں حسن و حسین (علیہم السلام) کو بھی بلالاؤ، اور جب یہ سب حضرات جمع ہوگئے سب نے ساتھ میں کھانا تناول کیا اس کے بعد پیغمبر اکرم (ص) نے ان پر اپنی عبا ڈالی اور فرمایا:

”اَللَّهُمَ! إِنَّ هولاء اٴهلَ بَیتِی وَ عِتْرتِی فَاَذْهِب عَنهُم الرَّجس وطهّرهُم تَطْهِیْراً“

”خداوندا! یہ میرے اہل بیت اور میری عترت ہیں، ان سے رجس اور برائی کو دور فرما، اور ہر طرح کے رجس سے پاک و پاکیزہ قرار دے“۔

اسی موقع پر آیہ( إِنَّمَا یُرِیدُ اللهُ لِیُذْهِبَ عَنْکُمْ الرِّجْسَ اٴَهْلَ الْبَیْتِ ) نازل ہوئی ، میں (امّ سلمیٰ) نے کہا یا رسول اللہ! کیا میں آپ کے ساتھ ہوں؟ تو آنحضرت (ص) نے فرمایا: انکِ إلی خَیرٍ ”تم خیر پر ہو“ (لیکن ان میں شامل نہیں ہو)(۵)

نیز اہل سنت کے مشہور و معروف عالم دین”ثعلبی“(۶) جناب عائشہ سے اس طرح نقل

کرتے ہیں : جب لوگوں نے جنگ جمل اور اس جنگ میں آپ کی دخالت کے بارے میں سوال کیا تو (بہت افسوس کے ساتھ) جواب دیا: یہ ایک تقدیر الٰہی تھی! اور جب حضرت علی علیہ السلام کے بارے میں سوال کیا تو کہا:

” تساٴلیني عن اٴحبِ النَّاسِ کان إلیٰ رسولِ الله وَ زوجٌ اٴحب النَّاسِ کانَ إلیٰ رسولِ الله، لقد راٴیْت علیاً و فَاطمَة و حسناً وحسیناً و جمع رسول الله بثوبٍ علیهم ثم قال:اللّٰهم هولاء اٴهل بیتي و حامتي فاذّهب عنهم الرِّجس و طهّرهم تطهیراً، قالت : فقلتُ یا رسولَ الله ! اٴنا من اٴهلک قال تنحّی فَإنَّکِ إلیٰ خَیر(۷)

”کیا مجھ سے اس شخص کے بارے میں سوال کرتے ہو جو پیغمبر اکرم (ص) کے نزدیک سب سے زیادہ محبوب تھا ،اور اس کے بارے میں سوال کرتے ہو جو رسول اللہ (ص) کی چہیتی بیٹی کا شوہر ہے، میں نے خود اپنی آنکھوں سے دیکھا ہے کہ پیغمبر اکرم (ص) نے علی، فاطمہ ،حسن وحسین (علیہم السلام ) کو ایک چادر کے نیچے جمع کیا اور فرمایا: پالنے والے! یہ میرے اہل بیت اور میرے حامی ہیں ان سے رجس اور برائی کو دور فرما، اوران کو پاک و پاکیزہ قرار دے، اس وقت میں نے کہا: یا رسول اللہ (ص) کیا میں بھی ان (اہل بیت) میں شا مل ہوں تو آنحضرت نے فرمایا: تم یہاں سے چلی جاؤ تم خیر پر ہو (لیکن ان میں شامل نہیں ہو، اس طرح کی حدیثیں صراحت کے ساتھ بیان کررہی ہیں کہ ازواج پیغمبر اہل بیت میں شامل نہیں تھیں)“۔

۲ ۔ حدیث کسا بہت ،سی کتابوں میں مختلف الفاظ میں بیان ہوئی ہے، جن کا مشترک بیان یہ ہے کہ پیغمبر اکرم (ص) نے حضرت علی مرتضیٰ، حضرت فاطمہ زہرا، اور حضرت امام حسن و امام حسین علیہم السلام کو ایک جگہ جمع کیا (یا یہ حضرات خود آپ کی خدمت میں آئے) پیغمبر اکرم (ص) نے ان

پر اپنی عبا (یا چادر) اڑھائی اور دعا کی: خداوندا! یہ میرے اہل بیت ہیں ان سے ہر قسم کے رجس اوربرائی کو دور فرما، چنانچہ اسی موقع پر یہ آیت نازل ہوئی:( إِنَّمَا یُرِیدُ اللهُ لِیُذْهِبَ عَنْکُمْ الرِّجْسَ اٴَهْلَ الْبَیْتِ وَیُطَهِّرَکُمْ تَطْهِیرًا )

قابل توجہ بات یہ ہے کہ اس حدیث کو صحیح مسلم ، مستدرک حاکم ، سنن بیہقی، تفسیر ابن جریر اور تفسیرسیوطی الد ر المنثور میں نقل کیا گیا ہے۔(۸)

حاکم حسکانی نے بھی ”شواہد التنزیل“ میں اس حدیث کو بیان کیا ہے(۹) ”صحیح ترمذی“ میں بھی یہ حدیث بارہا بیان ہوئی ہے، جن میں سے ایک جگہ ”عمر بن ابی سلمہ“ اور دوسری جگہ ”ام سلمہ“ سے نقل کیا گیا ہے۔(۱۰)

ایک دوسرا نکتہ یہ ہے کہ ”فخر رازی“ نے آیہ مباہلہ (سورہ آل عمران ، آیت ۶۱) کے ذیل میں اس حدیث (حدیث کساء) کو نقل کرنے کے بعد اضافہ کیا ہے:

”وَاعلمْ إنَّ هٰذِهِ الرِّوایةُ کالمُتَّفقِ عَلیٰ صحتِها بَین اٴهلَ التَفْسِیرِ وَالْحَدِیثِ“ (۱۱)

”معلوم ہونا چاہئے کہ یہ اس روایت کی طرح ہے جوتمام مفسرین اور محد ثین کے نزدیک متفق علیہ ہو“۔

یہ بات بھی قابل توجہ ہے کہ امام ”احمد بن حنبل“ نے اپنی مسند میں اس حدیث کو مختلف طریقوں سے نقل کیا ہے۔(۱۲)

۳ ۔ بہت سی روایات میں یہ بھی بیان ہوا ہے کہ اس آیہ شریفہ کے نازل ہونے کے بعد چندمہینے تک (بعض روایات میں ۶ مہینے، بعض میں ۸ مہینے اور بعض میں ۹ مہینے ذکر ہوئے ہیں) نماز صبح کے وقت پیغمبر اکرم (ص) جب در ِفاطمہ زہرا سلام اللہ علیہا سے گزرتے تھے تو فرمایا کرتے تھے:

”الصلاة! یا اہلَ البیتِ!( إِنَّمَا یُرِیدُ اللهُ لِیُذْهِبَ عَنْکُمْ الرِّجْسَ اٴَهْلَ الْبَیْتِ وَیُطَهِّرَکُمْ تَطْهِیرًا )

”اے اہل بیت نماز کا وقت ہے، خداوندعالم کا ارادہ ہے کہ تم سے ہر قسم کے رجس اور برائی کو دور رکھے اور ایسا پاکیزہ قرار دے جیسا پاکیزہ رکھنے کا حق ہے“!

اس حدیث کو مشہور و معروف مفسر حاکم حسکانی نے اپنی تفسیر ”شواہد التنزیل“ میں ”انس بن مالک“ سے نقل کیا ہے۔(۱۳)

اسی مذکورہ کتاب میں ایک دوسری حدیث کے ضمن میں ”سات مہینے“ کی روایت ”ابی الحمراء“ سے نقل کی ہے،(یعنی پیغمبر اکرم (ص) سات مہینے تک درِ فاطمہ پر آکر مذکورہ جملے فرمایا کرتے تھے)

نیز اسی کتاب میں آٹھ مہینے کی روایت ”ابو سعید خدری“ سے نقل کی گئی ہے۔(۱۴)

قار ئین کرام! مدت میں فرق ہونا کوئی اہم بات نہیں ہے کیونکہ ہوسکتا ہے کہ انس نے چھ ماہ، ابوسعید خدری نے آٹھ ماہ اور ابن عباس نے نو ماہ تک اس چیز کا مشا ہد ہ کیا ہو(۱۵)

جس نے جتنی مدت دیکھا ہے اسی اعتبار سے نقل کیا ہے حالانکہ ان کی روایت میں کوئی دوسرا اختلاف نہیں ہے۔

بہر حال اتنی مدت تک پیغمبر اکرم (ص) کا ہر روز اسی عمل کی تکرار کرنا ایک طے شدہ مسئلہ تھا، کیونکہ آنحضرت (ص) اپنے اس عمل سے یہ بات بالکل واضح کرناچاہتے تھے کہ ”اہل بیت“ سے مراد صرف اس گھر کے رہنے والے ہیں، تاکہ آنے والے زمانہ میں کسی کے لئے کوئی شک و شبہ باقی نہ رہے، اور یہ باتسب کو معلوم ہوجائے کہ یہ آیت صرف اور صرف ان حضرات کی شان میں نازل ہوئی ہے، لیکن واقعاً تعجب کی بات ہے کہ اس قدر تاکید کے باوجود بھی بعض لوگوں کے نزدیک یہ مسئلہ واضح نہ ہوسکا، کیا واقعاً یہ تعجب کا مقام نہیں ہے!!

خصوصاً جب مسجد النبی (ص) کی طرف کھلنے والے تمام دروازے بند کرادئے گئے ،صرف پیغمبر اکرم (ص) اور حضرت علی علیہ السلام کے دروازے کھلے رہے (کیونکہ پیغمبر اکرم (ص) نے فرمان جاری کیا تھا کہ ان دو دروازوں کے علاوہ تمام دروازے بند کردئے جائیں)

یہ بات واضح ہے متعدد افراد پیغمبر اکرم (ص) کی زبان مبارک سے یہ کلمات سنتے ہوں گے، لیکن پھر بھی بعض مفسرین یہ کوشش کرتے ہیں کہ آیت کے معنی میں وسعت کے قائل ہوجائیں تاکہ ازواج پیغمبر کو بھی شامل کرلیا جائے، کیا یہ تعجب کا مقام نہیں ہے، اور جیسا کہ ہم نے عرض بھی کیا کہ تاریخی شواہد کے مطابق خود حضرت عائشہ پیغمبر اکرم (ص) سے متعلق اپنے تمام فضائل کو بیان کرنے سے نہیں کتراتی تھیں بلکہ چھوٹی چھوٹی چیزوں کو بھی بیان کردیا ہے، وہ خود کو اس آیت میں شامل نہیں جانتی، بلکہ وہ خود کہتی ہیں کہ پیغمبر اکرم (ص) نے مجھ سے فرمایا: ”تم اس آیت میں شامل نہیں ہو“!

۴ ۔ وہ متعدد روایات جو پیغمبر اکرم (ص) کے مشہور و معروف صحابی ابوسعید خدری کے ذریعہ نقل ہوئی ہیں اور آیہ تطہیر کی طرف اشارہ ہیں، ان میں واضح طور پر بیان ہوا :

”نَزلَتْ فِی خَمسةٍ فِی رَسولِ اللهِ وَ عَليّ وفاطمة والحَسنِ وَالحُسَینِ علَیهُمَ السّلام(۱۶)

”یہ آیہ شریفہ رسول خدا،مولائے کائنات،فاطمہ زہرا سلام اللہ علیہا اور حسنین علیہما السلام کی شان میں نازل ہوئی ہے“

المختصر: آیہ تطہیرکی شان ِنزول کے سلسلہ میں بیان ہونے والی وہ احادیث جو پیغمبر اکرم ، حضرت علی علیہ السلام، جناب فاطمہ زہرا سلام اللہ علیہا اور امام حسن و امام حسین علیہم السلام سے مخصوص ہیں، اور یہ احادیث اسلامی معتبر کتابوں میں اس قدر زیادہ ہیں کہ ان کو متواتر حدیثوں میں شمار کیا جاتا ہے، اور اس لحاظ سے ان میں شک و شبہ کی کوئی گنجائش باقی نہیں رہ جاتی، یہاں تک کہ کتاب شرح احقاق الحق میں (شیعہ منابع کے علاوہ) خوداہل سنت کی مشہور و معروف ۷۰/ معتبر کتابوں سے اس حدیث کو نقل کیا گیا ہے، اس کے بعد صاحب کتاب فرماتے ہیں: ”اگر ان تمام منابع و مدارک کو جمع کیا جائے تو ان کی تعداد ہزار سے بھی زیادہ ہوجائے گی“۔(۱۷)(۱۸)

____________________

(۱)سورہ احزاب ، آیت ۳۳ (۲)سورہ احزاب ، آیت ۳۳(۳)الدرالمنثور ، جلد ۵، صفحہ ۱۹۶و ۱۹۹

(۴) المیزان ، جلد ۱۶، صفحہ ۳۱۱

(۵) علامہ طبرسی نے مجمع البیان میں مذکورہ آیت کے ذیل میں،اورحاکم حسکانی نے شواہد التنزیل ، جلد ۲، صفحہ ۵۶ میں مذ کورہ حدیث کو ذکر کیا ہے

(۶) یہ چوتھی صدی کے آخر اور پانچوی صدی کے شروع میں زندگی بسر کرتے تھے ، جن کی تفسیر ”تفسیر کبیر“ کے نام سے مشہور ہے

۷) مجمع البیان ، سورہ احزاب آیت ۳۳کے ذیل میں(۸) صحیح مسلم ، جلد ۴، صفحہ ۱۸۸۳، حدیث۲۴۲۴، (باب فضائل اہل بیت النبی (ص))

(۹) شواہد التنزیل ، جلد ۲، صفحہ ۳۳، حدیث ۳۷۶

(۱۰) صحیح ترمذی ، جلد ۵، صفحہ ۶۹۹، حدیث ۳۸۷۱، (باب فضل فاطمہ)مطبو عہ احیاء التراث

(۱۱) تفسیر فخر رازی ، جلد ۸، صفحہ ۸۰

(۱۲) مسند احمد ، جلد اول، صفحہ ۳۳۰، جلد ۴، صفحہ ۱۰۷ ، اور جلد ۶، صفحہ ۲۹۲ ( نقل از فضائل الخمسة ، جلد اول، صفحہ ۲۷۶)

(۱۳) شواہد التنزیل ، جلد ۲، صفحہ ۱۱، ۱۲، ۱۳، ۱۴، ۱۵ ،۹۲ ،(توجہ کریں کہ شواہد التنزیل نے اس روایت کو متعدد طریقہ سے نقل کیا ہے)

(۱۴) شواہد التنزیل ، جلد ۲، صفحہ ۲۸ واحقا ق الحق، جلد ۲، صفحہ ۵۰۳ سے ۵۴۸ تک

(۱۵) الدر المنثور ، جلد ۵، صفحہ ۱۹۹

(۱۶) شواہد التنزیل میں اس سلسلے میں چار حدیثیں موجود ہیں ،جلد ۲، صفحہ ۲۴ سے ۲۷ تک (حدیث ۶۹۵ و۶۶۰ و۶۶۱ و۶۶۴)

(۱۷) اقتبا س از جلد دوم احقاق الحق ، صفحہ ۵۰۲ تا ۵۶۳

(۱۸) تفسیر پیام قرآن ، جلد ۹ ،صفحہ ۱۳۷