110 سوال اور جواب

110 سوال اور جواب5%

110 سوال اور جواب مؤلف:
زمرہ جات: مناظرے

۱۱۰ سوال اور جواب
  • ابتداء
  • پچھلا
  • 126 /
  • اگلا
  • آخر
  •  
  • ڈاؤنلوڈ HTML
  • ڈاؤنلوڈ Word
  • ڈاؤنلوڈ PDF
  • مشاہدے: 140499 / ڈاؤنلوڈ: 6368
سائز سائز سائز
110 سوال اور جواب

۱۱۰ سوال اور جواب

مؤلف:
اردو

1

2

۵۰۔ اولوا الامر سے مراد کون ہیں؟

جیسا کہ قرآن مجید میں ارشاد ہوتا ہے:( یَااٴَیُّهَا الَّذِینَ آمَنُوا اٴَطِیعُوا اللهَ وَاٴَطِیعُوا الرَّسُولَ وَاٴُوْلِی الْاٴَمْرِ مِنْکُم ) (۱) ”اے ایمان والو! اللہ کی اطاعت کرو، رسول اور صاحبان امر کی اطاعت کروجو تمہیں میں سے ہیں“۔

یہاں پر یہ سوال اٹھتا ہے کہ اولوا الامر سے مراد کون حضرات ہیں؟

اولوا الامر کے بارے میں اسلامی مفسرین کے درمیان بہت زیادہ اختلاف پایا جاتا ہے، ذیل میں ہم اس کا خلاصہ پیش کرتے ہیں:

۱ ۔ بعض اہل سنت مفسرین اس بات کا عقیدہ رکھتے ہیں کہ ”اولوا الامر “ سے مراد ہر زمانہ اور ہر مقام کے حکام وقت اور بادشاہ ہیں،اور اس میں کسی طرح کا کو ئی استثنا نہیں ہے جس کے نتیجہ میں مسلمانوں کی ذمہ داری ہے کہ وہ ہر حکومت کی پیروی کریں اگرچہ وہ مغل حکومت ہی کی کیوں نہ ہو۔

۲ ۔ صاحب تفسیر المنار اور صاحب تفسیر فی ظلال القرآن وغیرہ اس بات پر عقیدہ رکھتے ہیں کہ اولوا الامر سے مراد عوام الناس کے نمائندے، حکام وقت، علمااور صاحبان منصب ہیں ،لیکن اس شرط کے ساتھ کہ ان کا حکم اسلامی قوانین کے برخلاف نہ ہو۔

۳ ۔ بعض دیگر علماکے نزدیک اولوا الامر سے معنوی اور فکری حکّام یعنی علمااور دانشورمراد ہیں، ایسے دانشور جو عادل اور قرآن و سنت سے مکمل طور پر آگاہ ہوں۔

۴ ۔ اہل سنت کے بعض مفسرین کا کہنا ہے کہ اولوا الامر سے مراد صرف ابتدائی چار خلفاء ہیں، ان کے علاوہ کوئی دوسرا اولوا الامر میں شامل نہیں ہے لہٰذا ان کے بعد دوسرے زمانہ میں کوئی اولواالامر نہیں ہوگا۔

۵ ۔بعض دوسرے مفسرین نے پیغمبر اکرم (ص) کے اصحاب اور ان کے ناصروں کو اولواالامر مانا ہے۔

۶ ۔ بعض مفسرین نے ایک یہ بھی احتمال دیا ہے کہ اولوا الامر سے مراد اسلامی لشکرکا سردار ہے۔

۷ ۔ تمام شیعہ مفسرین اس بات پر متفق ہیں کہ اولوا الامر سے مراد ”ائمہ معصومین علیہم السلام“ ہیں جن کو خدا اور رسول کی طرف سے اسلامی معاشرے میں مادی اور معنوی رہبری کی ذمہ داری عطا کی گئی ہے، ان کے علاوہ کوئی دوسرا شخص اولوا الامر میں شامل نہیں ہے، البتہ جو افراد ان کی طرف سے منصوب کئے جاتے ہیں اور اسلامی معاشرہ میں ان کو کوئی عہدہ دیا جاتا ہے تو معین شرائط کے ساتھ ان کی اطاعت بھی لازم ہے، البتہ اولوا الامرکے عنوان سے نہیں بلکہ ان کی اطاعت اس لئے ضروری ہوتی ہے کہ وہ اولوا الامر کے نائب اور نمائندے ہوتے ہیں۔

اب ہم یہاں مذکورہ تفاسیر کے سلسلہ میں تحقیق و تنقید کرتے ہیں:

اس میں کوئی شک نہیں ہے کہ پہلی تفسیرکا آیت کے مفہوم اورتعلیمات اسلامی سے کو ئی تعلق نہیںہے ، اور یہ بات ممکن نہیں ہے کہ کوئی بھی حکومت ،خدا اور رسول کے برابر قرار دے دی جائے اور اس کی اطاعت کی جائے اور اس میں کسی بھی طرح کی کوئی قید و شرط نہ ہو، اسی وجہ سے شیعہ مفسرین کے علاوہ خود اہل سنت کے مفسرین نے اس پہلی تفسیر کو قبول نہیں کیا ہے۔

دوسری تفسیر بھی آیہ شریفہ سے ہم آہنگ نہیں ہے، کیونکہ آیت میں اولوا الامر کی اطاعت کو بغیر کسی قید و شرط کے واجب قرار دیا گیا ہے۔

تیسری تفسیر یعنی جس میں عادل اور قرآن و سنت سے واقف علمااور دانشوروں کو اولوا الامر قرار دیا گیا ہے، وہ بھی آیت کے اطلاق سے ہم آہنگ نہیں ہے، کیونکہ علمااو ردانشوروں کی پیروی کی شرط یہ ہے کہ ان کا حکم قرآن و سنت کے برخلاف نہ ہو، لہٰذا اگر وہ کسی خطا کے مرتکب ہوجائیں (کیونکہ وہ معصوم تو ہیں نہیں ان سے خطا ہوسکتی ہے) یا کسی دوسری وجہ کی بنا پر حق سے منحرف ہوجائیں تو پھر ان کی اطاعت ضروری نہیں ہے، لیکن آیہ شریفہ میں اولوا الامر کی اطاعت کو مطلق اور پیغمبر اکرم کی طرح ضروری قرار دیا گیا ہے، اس کے علاوہ وہ علمااو ردانشور افراد جنھوں نے قرآن و سنت سے احکام حاصل کئے ہیں ان کی اطاعت خداو رسول کی اطاعت ہوگی، اور الگ سے بیان کرنے کی ضرورت نہیں ہے۔

چوتھی تفسیر ( جس میں چاروں خلفا ہی کو اولوا الامر قرار دیا گیا) کا مطلب یہ ہے کہ آج مسلمانوں کے درمیان کوئی اولوا الامرنہ ہو، اس کے علاوہ اولوا الامر کو چاروں خلفا سے مخصوص کرنے پر بھی کوئی دلیل نہیں ہے۔

پانچویں اور چھٹی تفسیر یعنی صحابہ اور سرداران لشکر سے مخصوص کرنے میں بھی یہی مشکل ہے، یعنی ان لوگوں سے مخصوص کرنے پر بھی کوئی دلیل نہیں ہے۔

بعض علمااہل سنت جیسے مصر کے مشہور و معروف دانشور”شیخ محمد عبدہ“ نے مشہور و معروف مفسر ”فخر الدین رازی“ کی پیروی کرتے ہوئے دوسرے احتمال ( کہ اولوا الامر سے مراد، عوام الناس کے نمائندے، حاکم وقت، علمااور صاحب منصب افراد ہیں ،لیکن اس شرط کے ساتھ کہ ان کا حکم اسلامی قوانین کے برخلاف نہ ہو)میں چند شرائط کا اضافہ کرتے ہوئے قبول کیا ہے ، ان میں سے ایک شرط یہ بیان کی ہے کہ حاکم وقت مسلمان ہو (جیسا کہ لفظ ”منکُم“ سے نتیجہ نکلتا ہے) اور اس کا حکم قرآن اور سنت کے برخلاف نہ ہو، مزید یہ کہ اس کا حکم اپنے اختیار سے ہو نہ کہ اس نے مجبوری کی حالت میں حکم دیا ہواور یہ کہ مسلمانوں کی فلاح و بہبود کے لئے حکم کرے، نیز ایسے مسائل میں حکم کرے جس میں دخالت کا حق رکھتا ہو (نہ عبادت جیسی چیزوں میں کہ جس کا حکم اسلام میں معین ہے) مزید یہ کہ جس مسئلہ میں حکم کررہا ہو اس میں شریعت کی طرف سے کوئی خاص نص موجود نہ ہو ، ان تمام چیزوں کے علاوہ اتفاقی طور پر نظریہ دے(یعنی ایسا نہ ہو کہ ایک حاکم کچھ کہہ رہا ہے تو دوسرا کچھ)۔

اور چونکہ یہ لوگ اس بات پر عقیدہ رکھتے ہیں کہ تمام امت یا امت کے تمام نمائندے خطا اور غلطی نہیں کرسکتے ،یعنی معصوم ہوتے ہیں، اور ان شرائط کا نتیجہ یہ ہوتا ہے کہ ایسا حکم جس میں کوئی قید و شرط نہ ہوپیغمبر اکرم (ص) کی اطاعت کی طرح ہوجاتا ہے، (جس کا نتیجہ ”اجماع“ کو حجت ماننا اور اس کو قبول کرنا ہے)، لیکن اس تفسیر پر بھی بہت سے اعتراضات ہیں، کیونکہ:

۱ ۔ اجتماعی مسائل میں بہت ہی کم مقامات پر اتفاق ہوتاہے جس کی بنا پر امت مسلمہ کے اکثر امور میں ہمیشہ ایک بے نظمی با قی رہے گی، اور اگر لوگ کثریت کے نظریہ کو قبول کرنا چاہیں تو اس پر اعتراض یہ ہے کہ اکثریت معصوم نہیں ہے بلکہ پوری امت کا اجماع معصوم ہے، لہٰذا ان میں سے کسی ایک کی بھی اطاعت ضروری نہ ہوگی۔

۲ ۔ علم اصول میں یہ بات ثابت ہوچکی ہے کہ بغیر امام معصوم کے”تمام امت “ کے معصوم ہونے پر کوئی دلیل نہیں ہے، (اگر امام معصوم اجماع میں شامل نہ ہو تو اس اجماع کا کوئی فائدہ نہیں ہے)

۳ ۔ اس تفسیر کے حامیوں کی ایک شرط یہ تھی کہ ان کا حکم قرآن و سنت کے برخلاف نہ ہو، لیکن قرآن اور سنت کے خلاف ہے یا نہیں اس کو دیکھنے کی ذمہ داری کس پر ہوگی، تو یہ ذمہ داری مجتہد اور قرآن و سنت سے آگاہ علماکی ہوگی جس کا نتیجہ یہ ہوگا کہ مجتہدین اور علماکی اجازت کے بغیر اولوا الامر کی اطاعت جائز نہ ہوگی، بلکہ علماکی اطاعت اولوا الامر سے بلند ہوگی، جبکہ یہ نظریہ بھی آیت سے ہم آہنگ نہیںہے۔

یہ ٹھیک ہے کہ انھوں نے علمااور دانشوروں کو بھی اولوا الامر میں شمار کیا ہے لیکن حقیقت یہ ہے کہ اس تفسیر کی بنا پر علمااور مجتہدین کا مرتبہ ان نمائندوں سے بلند ہوگا نہ کہ ان کے ہم پلہ، کیونکہ علماو دانشورحضرات اولوا الامر کے امور کے نگراں ہیں کہ کہیں ان کے نظریات قرآن و سنت کے مخالف تو نہیں ہیں، لہٰذا وہ ان سے بلند مرتبہ پر فائز ہیں جو کہ مذکورہ تفسیر سے ہم آہنگ نہیں ہے۔

لہٰذامذکورہ تفسیر پر متعدد اعتراض ہوئے ہیں۔

صرف ساتویں تفسیر مذکورہ اعتراضات سے خالی ہے یعنی اولوا الامر سے مراد ائمہ معصومین علیہم السلام ہے، کیونکہ یہ تفسیر مذکورہ آیت میں موجود ہ وجوبِ اطاعت کے اطلاق سے مکمل طور پر ہم آہنگ ہیں، کیونکہ ”عصمت“ ان کو ہر طرح کی خطا و غلطی سے محفوظ رکھتی ہے، اسی لئے امام کا حکم پیغمبر اکرم (ص) کے حکم کی طرح بغیر کسی قید و شرط کے واجب الاطاعت ہے، اور انھیں آنحضرت (ص) کی اطاعت کی صف میں قرار دیا جانا مناسب ہے، جیسا کہ لفظ ”اطیعوا“ کی تکرار کے بغیر ”رسول“ پر عطف ہوا ہے۔

قابل توجہ بات یہ ہے کہ اہل سنت کے بعض مشہور و معروف علماجیسے فخر الدین رازی نے مذکورہ آیت کے ذیل میں اس حقیقت کا اعتراف کیا ہے، جیسا کہ موصوف تحریر کرتے ہیں:

”خداوندعالم نے جس کی اطاعت کو قاطعانہ اور بغیر چون و چرا کے لازم اور ضروری قرار دیا ہے اس کا معصوم ہونا ضروری ہے، کیونکہ اگر خطا اور غلطی سے معصوم نہ ہو ، اور گنا ہوں کے وقت خدا اس کی اطاعت کو لازم قرار دے اور خطا کی صورت میں بھی اس کی پیروی لازم ہو تو یہ تو خود خداوندعالم کے حکم میں تضاد اور ٹکراؤ ہوگا، کیونکہ ایک طرف تو خداوندعالم نے کسی کام کو ممنوع قرار دیا ہے اور دوسری طرف ”اولوا الامر “ کی پیروی لازم قرار دی ہے ، لہٰذا یہاں ”امر“ اور ”نہی“ دونوں جمع ہوجائیں گے، (یعنی ایک طرف خدا کہہ رہا ہے کہ اس کام کو انجام دو، دوسری طرف اسی کام سے روک بھی رہا ہے)

ایک طرف خداوندعالم اولوا الامر کی اطاعت کا مطلق طور پر حکم دے رہا ہے، دوسری طرف اگر اولوا الامر معصوم نہ ہو اور خدا اس کی اطاعت کا حکم دے تو یہ حکم صحیح نہیں ہے، اس مقدمہ سے یہ بات واضح ہوتی ہے کہ مذکورہ آیت میں جس اولوا الامر کی طرف اشارہ کیا گیا اس کا معصوم ہونا ضروری ہے۔

اس کے بعد فخر الدین رازی تحریر کرتے ہیں کہ یہ معصوم یا تو تمام امت ہے یا امت کے کچھ افراد ہیں ،دوسرا احتمال صحیح نہیں ہے، کیونکہ ہم امت کے ان بعض افراد کو پہچانیں اور اس تک رسائی ممکن ہو، جبکہ ایسا نہیں ہے،(یعنی وہ معصوم کو ن ہے ہمیں معلوم نہیں ہے) اور جب یہ احتمال ردہوجاتا ہے تو صرف پہلا احتمال باقی رہتا ہے کہ پوری امت معصوم ہے، اور یہ خود اس بات کی دلیل ہے کہ امت کا اجماع اور اتفاق حجت و قابل قبول ہے، اور یہ بہترین دلیل ہے۔(۲)

(قارئین کرام!) جیسا کہ آپ حضرات جانتے ہیں کہ فخر رازی مختلف علمی مسائل پر اعتراضات کرنے کے شوقین ہیں یہاں مذکورہ آیت میں اولوا الامر کے معصوم ہونے کو قبول کرتے ہیں، لیکن مکتب اہل بیت اور ائمہ علیہم السلام سے آشنائی نہ رکھنے کے سبب اس احتمال سے چشم پوشی کرلیتے ہیں کہ امت کے معین حضرات اولوا الامر ہیں، اور مجبوراً اولوا الامر کے معنی تمام امت (یا عام مسلمانوں کے نمائندے) مرادلیتے ہیں، جبکہ یہ احتمال قابل قبول نہیں ہے کیونکہ ہم نے پہلے بھی عرض کیا کہ اولوا الامر اسلامی معاشرہ کے لئے رہبر ہے اور اسلامی حکومت نیز امت مسلمہ کی مشکلات کے فیصلے اسی کے ذریعہ ہوتے ہیں، جبکہ ہم یہ بات بھی جانتے ہیں کہ تمام حکومتی عہدہ داروں میں اتفاق ہونا ممکن نہیں ہے، کیونکہ مسلمانوں کو درپیش اجتماعی ، سیاسی، ثقافتی، اخلاقی اور اقتصادی مسائل میں سب لو گوں کاہونا غالباً ممکن نہیں ہے، اور اکثریت کی پیروی اولوا الامر کی پیروی شمار نہیں ہوگی،

لہٰذا فخر الدین رازی اور ان کی پیروی کرنے والے معاصرین کے عقیدہ کا لازمہ یہ ہوگا کہ اولوا الامر کی اطاعت کی جگہ باقی نہ رہے، اور صرف استثنائی صورت اختیار کرلے۔

(قارئین کرام!) ہماری تمام باتوں کا خلاصہ یہ ہوا کہ آیہ شریفہ صرف ان معصوم حضرات کی رہبری کو ثابت کرتی ہے جوامت کا ایک حصہ ہیں۔ (غور کیجئے )

چند اعتراضات اور ان کے جوابات

مذکورہ تفسیر پر کچھ اعتراضات ہوئے ہیں،جن کو ہم بغیر طرفداری کے بیان کرتے ہیں:

۱ ۔ اگر ”اولوا الامر“ سے مراد ائمہ معصومین علیہم السلام ہوں تو چونکہ لفظ ”اولی“ جمع کا صیغہ ہے، لہٰذا آیت سے ہم آہنگ نہیں ہے، کیونکہ ہر زمانہ میں امام معصوم صرف ایک ہوتا ہے۔

اس اعتراض کا جواب یہ ہے کہ ہر زمانہ میں امام معصوم ایک سے زیادہ نہیں ہوتا لیکن ہر زمانہ میں ایک ہی امام ہوتا ہے اس کے بعد دوسرا امام،تاآخر، اور ہم جانتے ہیں کہ آیہ شریفہ ہر زمانہ کے افراد کو امام کی اطاعت کے لئے حکم دے رہی ہے۔

۲ ۔ اس معنی کے لحاظ سے پیغمبر اکرم (ص) کے زمانہ میں اولوا الامر موجود نہیں تھے ، تو پھر کس طرح ان کی اطاعت کا حکم دیا گیا؟

اس اعتراض کا جواب بھی مذکورہ جواب سے واضح اور روشن ہوجاتا ہے کیونکہ آیہ شریفہ کسی خاص زمانہ سے مخصوص نہیں ہے، لہٰذا ہر صدی کے مسلمانوں کا وظیفہ معین کرتی ہے، اور دوسرے الفاظ میں یوں کہیں کہ خود پیغمبر اکرم (ص) کے زمانہ میں خود آنحضرت (ص) اولوا الامر تھے ، کیونکہ اس وقت پیغمبر اکرم (ص) کے پاس دو منصب تھے ایک منصب ”رسالت“ جیسا کہ آیہ شریفہ میں ”اٴطَیعُوا الرَّسوُلَ “ آیاہے ، دوسرے ”امت اسلامی کی رہبری اور سرپرستی“ اس آیت میں ”اولوا الامر“ سے یاد کیا گیا ہے، اس بنا پر پیغمبر اکرم (ص) کے زمانہ میں معصوم رہبر اور پیشوا خود آنحضرت تھے ، یعنی منصب رسالت اور احکام اسلام کی تبلیغ کے علاوہ اس منصب پر بھی فائز تھے، اور شاید ”رسول“ اور ”اولوا الامر“ کے درمیان ”اطیعوا“ کی تکر ار نہ ہو نا اس بات کی طرف اشارہ ہے، دوسرے الفاظ میں یوں سمجھئے کہ منصب ”رسالت“ اور منصب ”اولوا الامر“ دو مختلف منصب ہیں جو پیغمبر اکرم (ص) میں ایک ساتھ جمع تھے، لیکن امام کے سلسلہ میں جدا مسئلہ ہے اور امام صرف دوسرا منصب رکھتا ہے۔

۳ ۔ اگر ”اولوا الامر“ سے مراد ائمہ معصومین اور معصوم رہبر ہوں تو درج ذیل آیہ شریفہ میں مسلمانوں کے اختلاف کی صورت میں صرف خدا و رسول کی طرف رجو ع کرنے کا حکم کیو ں دیا گیاہے، ارشاد ہوتا ہے:( فَإِنْ تَنَازَعْتُمْ فِی شَیْءٍ فَرُدُّوهُ إِلَی اللهِ وَالرَّسُولِ إِنْ کُنتُمْ تُؤْمِنُونَ بِاللهِ وَالْیَوْمِ الْآخِرِ ذَلِکَ خَیْرٌ وَاٴَحْسَنُ تَاٴْوِیلًا ) (۳)

”پھر اگر آپس میں کسی بات میں اختلاف ہوجائے تو اُسے خدا و رسول کی طرف پلٹادو، اگر تم اللہ اور روز آخرت پر ایمان رکھنے والے ہو، یہی تمہارے حق میں خیر اور انجام کے اعتبار سے بہترین بات ہے“۔

جیسا کہ آپ نے ملا حظہ کیا کہ اس آیت میں اولوا الامر کی بات نہیں کی گئی ہے، اور اختلاف دورکرنے کے لئے صرف خدا و رسول کی طرف رجوع کرنے کا حکم دیاگیا ہے، یعنی کتاب خدا ، (قرآن کریم) اور سنت پیغمبر کے ذریعہ اختلاف حل کیا جائے گا۔

اس سوال کے جواب میں ہم عرض کرتے ہیں کہ اولاً یہ اعتراض شیعہ مفسرین پر نہیں ہے بلکہ اگر ذرا غور کریں تو دوسری تفسیروں پر بھی یہی اعتراض وارد ہوتا ہے، اور دوسرے یہ کہ اس بات میں کوئی شک نہیں ہے کہ مذکورہ آیت میں اختلاف اور تنازع سے مراد احکام کا اختلاف ہے، مسلمانوں

کی رہبری اور حکومت کے جزئی مسائل کا اختلاف مراد نہیں ہے ،کیونکہ ان مسائل میں قطعی طور پر اولوا الامر کی اطاعت ہونی چاہئے، (جیسا کہ آیت کے پہلے فقرہ میں بیان ہوا ہے) لہٰذا اختلاف سے مراد اسلام کے عام قوانین اور احکام کا اختلاف مراد ہے جس کا جواز خدااور پیغمبر سے مخصوص ہے، کیونکہ امام صرف احکام کو نافذ کرتا ہے، احکام کو وضع نہیں کرتا، اور نہ ہی اسلام کے کسی قانون کو نسخ کرتا، بلکہ ہمیشہ احکام خدا اور سنت پیغمبر کو نافذ کرتا ہے، اور اسی وجہ سے اہل بیت علیہم السلام سے منقول احادیث میں بیان ہوا ہے کہ اگر(کسی راوی کے ذریعہ) ہم سے کوئی بات کتاب خدا اور سنت پیغمبر کے برخلاف سنو تو اس کو ہرگز قبول نہ کرو ،کیونکہ ہمارے لئے قرآن اور سنت پیغمبر کے برخلاف حکم کرنا محال اور ناممکن ہے۔

مختصر یہ کہ احکام اور اسلامی قوانین لوگوں کے اختلاف کو حل کرنے کا پہلا مرجع خدا اور پیغمبر اکرم (ص) ہیں، کیونکہ پیغمبر پر وحی ہوتی ہے، اور اگر امام معصوم کوئی حکم بیان کرتا ہے تو وہ اپنی طرف سے نہیں ، بلکہ قرآن کریم یا پیغمبر اکرم (ص) سے حاصل ہوئے علم کی بناپر ہوتا ہے، لہٰذا اختلاف حل کرنے والوں کی صف میں اولوا الامرکو ذکر نہ کرنے کی وجہ روشن ہوجاتی ہے۔(۴)

____________________

(۱) سورہ نساء ، آیت ۵۹

(۲) تفسیر کبیر فخر رازی ، جلد ۱۰، صفحہ ۱۴۴، طبع مصر ۱۳۵۷ئھ ش

(۳) سورہ نساء ، آیت ۵۹

(۴) تفسیر نمونہ ، جلد ۳، صفحہ ۴۳۵

۵۱ ۔ اہل بیت سے مراد کون حضرات ہیں؟

سورہ مبارکہ احزاب میں ارشاد ہوتا ہے:

( إِنَّمَا یُرِیدُ اللهُ لِیُذْهِبَ عَنْکُمْ الرِّجْسَ اٴَهْلَ الْبَیْتِ وَیُطَهِّرَکُمْ تَطْهِیرًا ) (۱)

”بس اللہ کا ارادہ یہ ہے کہ( اے اہل بیت پیغمبر!) تم سے ہر برائی کو دور رکھے اور اس طرح پاک و پاکیزہ رکھے جو پاک و پاکیزہ رکھنے کا حق ہے“۔

آیہ شریفہ کے پیش نظر ،یہ سوال پیدا ہوتا ہے کہ اہل بیت سے مراد کون لوگ ہیں؟

یہ بات اپنی جگہ صحیح ہے کہ یہ آیہ شریفہ ازواج پیغمبر کی شان میں نازل ہو نے والی آیات کے درمیان واقع ہے، لیکن اس آیت کا انداز بدلا ہوا ہے جس سے اندازہ ہوتا ہے کہ اس آیت کا ایک دوسرا مقصد ہے، کیونکہ اس سے پہلی اور بعد والی آیات میں ”جمع مونث“ کے صیغے استعمال ہوئے ہیں لیکن اس آیت میں ”جمع مذکر“ کا صیغہ استعمال ہوا ہے!

آیت کے شروع میں ازواج پیغمبر (ص) کو خطاب کیا گیا اور ان کو حکم دیا گیا کہ وہ اپنے اپنے گھروں میں رہیں ،اور عرب کی جاہلیت کے رسم و رواج کی طرح لوگوں کے سامنے نہ نکلیں، عفت کی رعایت کریں، نماز قائم کریں اور زکوٰة ادا کریں نیز خدا اور رسول کی اطاعت کریں،

( وَقَرْنَ فِی بُیُوتِکُنَّ وَلاَتَبَرَّجْنَ تَبَرُّجَ الْجَاهِلِیَّةِ الْاٴُولَی وَاٴَقِمْنَ الصَّلَاةَ وَآتِینَ الزَّکَاةَ وَاٴَطِعْنَ اللهَ وَرَسُولَهُ)

آیت کے اس حصہ میں تمام چھ ضمیریں ”جمع مونث“ کی استعمال ہوئی ہیں۔ (غور کیجئے )

اس کے بعد لہجہ بدل جاتا ہے اور ارشاد ہوتا ہے کہ اللہ کا ”صرف“ ارادہ یہ ہے کہ تم اہل بیت سے رجس کو دور رکھے اور تمہیں مکمل طور پر پاک رکھے“،( إِنَّمَا یُرِیدُ اللهُ لِیُذْهِبَ عَنْکُمْ الرِّجْسَ اٴَهْلَ الْبَیْتِ وَیُطَهِّرَکُمْ تَطْهِیرًا ) (۲)

آیت کے اس حصہ میں دونوں ضمیریں جمع مذکر کے لئے استعمال ہوئی ہیں۔

یہ بات صحیح ہے کہ عام طور پر آیت کا سیاق و سباق ایک مطلب کو بیان کرتا ہے لیکن یہ اس وقت ہوتا ہے جب اس کے برخلاف کوئی قرینہ اور شاہد نہ ہو، لہٰذا جو لوگ آیت کے اس حصہ کو بھی ازواج پیغمبر (ص) کی شان میں سمجھتے ہیں ان کا نظریہ ظاہر آیت اور اس میں موجود قرینہ کے برخلاف ہے، یعنی ان دونوں حصوں میں ضمیریں مختلف ہیں لہٰذا دو جدا جدا مطلب ہیں۔

اس کے علاوہ مذکورہ آیت کی تفسیر میں بڑے بڑے سنی اور شیعہ علمانے خود پیغمبر اکرم (ص) سے متعدداحادیث نقل کی ہیں، اور فریقین کے معتبر منابع و مآخذ میں اس کو قبول کیا گیا ہے، اور ان روایات کی تعداد بھی بہت زیادہ ہے۔

یہ تمام روایات اس بات کی حکایت کرتی ہیں کہ مذکورہ آیہ شریفہ پیغمبر اکرم (ص)، حضرت علی،حضرت فاطمہ زہرا، حضرت امام حسن اور حضرت امام حسین علیہم السلام کی شان میں نازل ہوئی ہے، (نہ کہ ازواج پیغمبر کی شان میں) جیسا کہ بعد میں تفصیل کے ساتھ بیان کیا جائے گا۔

آیت میں لفظ ”انّما“ استعمال کیا گیا جو حصر کے معنی میں ہے جس کے معنی ”صرف“ ہوتے ہیں جو اس بات کی دلیل ہے کہ اس آیہ شریفہ میں آل ِنبی (ص)کے لئے جو خاص عظمت قرار دی گئی ہے وہ کسی دوسرے کے لئے نہیں ہے۔

بعض مفسرین اہل سنت نے اہل بیت میں ازواج نبی کو بھی شامل کیا ہے، لیکن جیسا کہ ہم نے بیان کیا ہے کہ اس آیت کا سیاق اور آیت کے پہلے اور بعد والے حصے میں استعمال ہونے والی ”جمع مونث“ کی ضمیروں کی جگہ اس حصہ میں ”جمع مذکر“ کی ضمیروں کا استعمال کیا گیا ہے جوایک واضح دلیل ہے کہ اس حصہ کا ایک الگ مطلب ہے، اور اس سے مراد ایک دوسری چیز ہے، کیا خداوندعالم ”حکیم“ نہیں ہے، اور کیا قرآن مجید کی فصاحت و بلاغت بلند وبالا نہیںہے اور اس کے تمام الفاظ کوئی حساب و کتاب نہیں رکھتے؟

لیکن مفسرین کی ایک جماعت نے آیہ تطہیر کو پیغمبر اکرم، علی، فاطمہ، حسن و حسین (علیہم السلام) سے مخصوص کیا ہے، اس سلسلہ میں ہم شیعہ سنی منابع میں وارد ہونے والی روایات میں سے چند نمونے پیش کرتے ہیں جواس تفسیرپر گواہ ہیں۔

اور شاید انھیں روایات کی وجہ سے بعض لوگوں نے آیہ شریفہ کو اہل بیت سے مخصوص نہیں مانا، لیکن انھوں نے مذکورہ آیت کے ایک وسیع معنی بیان کئے ہیں جس میں اہل بیت بھی شامل ہوں اور ازواج رسول بھی، یہ آیت کی ایک تیسری تفسیر ہے۔

جو روایات اس بات پر دلالت کرتی ہیں کہ یہ آیت پیغمبر اکرم (ص) ، حضرت علی مرتضیٰ، حضرت فاطمہ زہرا، اور حضرت امام حسن و امام حسین علیہم السلام سے مخصوص ہے، ان کی تعداد بہت زیادہ ہے، صرف تفسیر ”الدر المنثور“ میں ۱۸/ حدیث نقل ہوئی ہیں، جن میں سے پانچ روایت امّ سلمہ سے ، تین ابو سعید خدری سے، ایک عائشہ سے، ایک انس سے، دو روایت ابن عباس سے، دو روایت ابی الحمراء سے، ایک روایت وائلہ بن اسقع سے، ایک روایت سعد سے ، ایک روایت ضحاک بن مزاحم سے اور ایک روایت زید بن ارقم سے نقل کی گئی ہے۔(۳)

جناب علامہ طباطبائی رحمة اللہ علیہ نے تفسیر ”المیزان“ میں اس سلسلہ میں بیان ہونے والی روایات کی تعداد ۷۰ / تک بیان کی ہے، موصوف فرماتے ہیں: اہل سنت کے ذریعہ اس سلسلہ میں نقل ہونے والی روایات شیعہ طریقہ سے بیان ہونے والی روایات سے بھی زیادہ ہیں! اس کے بعد موصوف نے مذکورہ ناموں کے علاوہ بہت سے نام شمار کرائے ہیں، یعنی تفسیر الدر المنثور کے علاوہ دوسری کتابوں میں بیان ہونے والے راویوں کے نام بیان کئے ہیں۔

بعض حضرات نے ان روایات اور جن کتابوں میں یہ روایات نقل ہوئی ان کی تعداد سیکڑوں تک بتا ئی ہے اور ایسا ہونا بعید بھی نہیں ہے۔

ہم یہاں پر ان روایات کے چند نمونے مع منابع و مآخذ نقل کرتے ہیں تاکہ”اسباب النزول “ میں ”واحدی“ کی بات روشن ہوجائے، جو واقعاً ایک حقیقت ہے، چنانچہ موصوف فرماتے ہیں:

( إنَّ الٓا یةَ نَزَلَتْ فِي النَّبيِّ(ص) ،وعَلیّ و فَاطِمَةَ والحَسنین (ع) خاصة لایشارکهُم فیها غیرَهُم)

”یہ آیہ شریفہ پیغمبر اکرم (ص) ، حضرت علی مرتضیٰ، حضرت فاطمہ زہرا، اور حضرت امام حسن و امام حسین علیہم السلام سے مخصوص ہے اور کوئی دوسرا اس میں شامل نہیں ہے“۔(۴)

چنا نچہ ان احادیث کا خلاصہ چار حصوں میں کیا جاسکتا ہے:

۱ ۔ جن احادیث کو پیغمبر اکرم (ص) کی بعض ازواج نے نقل کیا ہے جو واضح طور پر کہتی ہیں

کہ جس وقت آنحضرت (ص) نے اس آیہ شریفہ کی گفتگو فرمائی تو آپ سے سوال کیا کہ کیا ہم لوگ بھی اس آیت میں شامل ہیں؟ تو آنحضرت (ص) نے فرمایا: تم خیر پر ہو لیکن اس آیت میں شامل نہیں ہو!

جیسا کہ ثعلبی اپنی تفسیر میں ”ام سلمیٰ ( زوجہ پیغمبر)سے نقل کرتے ہیں کہ پیغمبر اکرم (ص) اپنے حجرے میں تشریف فرما تھے کہ جناب فاطمہ (س) آنحضرت (ص) کی خدمت میں کھا نالائیں تو آپ نے فرمایا: اپنے شوہر نامدار اور دونوں بیٹوں حسن و حسین (علیہم السلام) کو بھی بلالاؤ، اور جب یہ سب حضرات جمع ہوگئے سب نے ساتھ میں کھانا تناول کیا اس کے بعد پیغمبر اکرم (ص) نے ان پر اپنی عبا ڈالی اور فرمایا:

”اَللَّهُمَ! إِنَّ هولاء اٴهلَ بَیتِی وَ عِتْرتِی فَاَذْهِب عَنهُم الرَّجس وطهّرهُم تَطْهِیْراً“

”خداوندا! یہ میرے اہل بیت اور میری عترت ہیں، ان سے رجس اور برائی کو دور فرما، اور ہر طرح کے رجس سے پاک و پاکیزہ قرار دے“۔

اسی موقع پر آیہ( إِنَّمَا یُرِیدُ اللهُ لِیُذْهِبَ عَنْکُمْ الرِّجْسَ اٴَهْلَ الْبَیْتِ ) نازل ہوئی ، میں (امّ سلمیٰ) نے کہا یا رسول اللہ! کیا میں آپ کے ساتھ ہوں؟ تو آنحضرت (ص) نے فرمایا: انکِ إلی خَیرٍ ”تم خیر پر ہو“ (لیکن ان میں شامل نہیں ہو)(۵)

نیز اہل سنت کے مشہور و معروف عالم دین”ثعلبی“(۶) جناب عائشہ سے اس طرح نقل

کرتے ہیں : جب لوگوں نے جنگ جمل اور اس جنگ میں آپ کی دخالت کے بارے میں سوال کیا تو (بہت افسوس کے ساتھ) جواب دیا: یہ ایک تقدیر الٰہی تھی! اور جب حضرت علی علیہ السلام کے بارے میں سوال کیا تو کہا:

” تساٴلیني عن اٴحبِ النَّاسِ کان إلیٰ رسولِ الله وَ زوجٌ اٴحب النَّاسِ کانَ إلیٰ رسولِ الله، لقد راٴیْت علیاً و فَاطمَة و حسناً وحسیناً و جمع رسول الله بثوبٍ علیهم ثم قال:اللّٰهم هولاء اٴهل بیتي و حامتي فاذّهب عنهم الرِّجس و طهّرهم تطهیراً، قالت : فقلتُ یا رسولَ الله ! اٴنا من اٴهلک قال تنحّی فَإنَّکِ إلیٰ خَیر(۷)

”کیا مجھ سے اس شخص کے بارے میں سوال کرتے ہو جو پیغمبر اکرم (ص) کے نزدیک سب سے زیادہ محبوب تھا ،اور اس کے بارے میں سوال کرتے ہو جو رسول اللہ (ص) کی چہیتی بیٹی کا شوہر ہے، میں نے خود اپنی آنکھوں سے دیکھا ہے کہ پیغمبر اکرم (ص) نے علی، فاطمہ ،حسن وحسین (علیہم السلام ) کو ایک چادر کے نیچے جمع کیا اور فرمایا: پالنے والے! یہ میرے اہل بیت اور میرے حامی ہیں ان سے رجس اور برائی کو دور فرما، اوران کو پاک و پاکیزہ قرار دے، اس وقت میں نے کہا: یا رسول اللہ (ص) کیا میں بھی ان (اہل بیت) میں شا مل ہوں تو آنحضرت نے فرمایا: تم یہاں سے چلی جاؤ تم خیر پر ہو (لیکن ان میں شامل نہیں ہو، اس طرح کی حدیثیں صراحت کے ساتھ بیان کررہی ہیں کہ ازواج پیغمبر اہل بیت میں شامل نہیں تھیں)“۔

۲ ۔ حدیث کسا بہت ،سی کتابوں میں مختلف الفاظ میں بیان ہوئی ہے، جن کا مشترک بیان یہ ہے کہ پیغمبر اکرم (ص) نے حضرت علی مرتضیٰ، حضرت فاطمہ زہرا، اور حضرت امام حسن و امام حسین علیہم السلام کو ایک جگہ جمع کیا (یا یہ حضرات خود آپ کی خدمت میں آئے) پیغمبر اکرم (ص) نے ان

پر اپنی عبا (یا چادر) اڑھائی اور دعا کی: خداوندا! یہ میرے اہل بیت ہیں ان سے ہر قسم کے رجس اوربرائی کو دور فرما، چنانچہ اسی موقع پر یہ آیت نازل ہوئی:( إِنَّمَا یُرِیدُ اللهُ لِیُذْهِبَ عَنْکُمْ الرِّجْسَ اٴَهْلَ الْبَیْتِ وَیُطَهِّرَکُمْ تَطْهِیرًا )

قابل توجہ بات یہ ہے کہ اس حدیث کو صحیح مسلم ، مستدرک حاکم ، سنن بیہقی، تفسیر ابن جریر اور تفسیرسیوطی الد ر المنثور میں نقل کیا گیا ہے۔(۸)

حاکم حسکانی نے بھی ”شواہد التنزیل“ میں اس حدیث کو بیان کیا ہے(۹) ”صحیح ترمذی“ میں بھی یہ حدیث بارہا بیان ہوئی ہے، جن میں سے ایک جگہ ”عمر بن ابی سلمہ“ اور دوسری جگہ ”ام سلمہ“ سے نقل کیا گیا ہے۔(۱۰)

ایک دوسرا نکتہ یہ ہے کہ ”فخر رازی“ نے آیہ مباہلہ (سورہ آل عمران ، آیت ۶۱) کے ذیل میں اس حدیث (حدیث کساء) کو نقل کرنے کے بعد اضافہ کیا ہے:

”وَاعلمْ إنَّ هٰذِهِ الرِّوایةُ کالمُتَّفقِ عَلیٰ صحتِها بَین اٴهلَ التَفْسِیرِ وَالْحَدِیثِ“ (۱۱)

”معلوم ہونا چاہئے کہ یہ اس روایت کی طرح ہے جوتمام مفسرین اور محد ثین کے نزدیک متفق علیہ ہو“۔

یہ بات بھی قابل توجہ ہے کہ امام ”احمد بن حنبل“ نے اپنی مسند میں اس حدیث کو مختلف طریقوں سے نقل کیا ہے۔(۱۲)

۳ ۔ بہت سی روایات میں یہ بھی بیان ہوا ہے کہ اس آیہ شریفہ کے نازل ہونے کے بعد چندمہینے تک (بعض روایات میں ۶ مہینے، بعض میں ۸ مہینے اور بعض میں ۹ مہینے ذکر ہوئے ہیں) نماز صبح کے وقت پیغمبر اکرم (ص) جب در ِفاطمہ زہرا سلام اللہ علیہا سے گزرتے تھے تو فرمایا کرتے تھے:

”الصلاة! یا اہلَ البیتِ!( إِنَّمَا یُرِیدُ اللهُ لِیُذْهِبَ عَنْکُمْ الرِّجْسَ اٴَهْلَ الْبَیْتِ وَیُطَهِّرَکُمْ تَطْهِیرًا )

”اے اہل بیت نماز کا وقت ہے، خداوندعالم کا ارادہ ہے کہ تم سے ہر قسم کے رجس اور برائی کو دور رکھے اور ایسا پاکیزہ قرار دے جیسا پاکیزہ رکھنے کا حق ہے“!

اس حدیث کو مشہور و معروف مفسر حاکم حسکانی نے اپنی تفسیر ”شواہد التنزیل“ میں ”انس بن مالک“ سے نقل کیا ہے۔(۱۳)

اسی مذکورہ کتاب میں ایک دوسری حدیث کے ضمن میں ”سات مہینے“ کی روایت ”ابی الحمراء“ سے نقل کی ہے،(یعنی پیغمبر اکرم (ص) سات مہینے تک درِ فاطمہ پر آکر مذکورہ جملے فرمایا کرتے تھے)

نیز اسی کتاب میں آٹھ مہینے کی روایت ”ابو سعید خدری“ سے نقل کی گئی ہے۔(۱۴)

قار ئین کرام! مدت میں فرق ہونا کوئی اہم بات نہیں ہے کیونکہ ہوسکتا ہے کہ انس نے چھ ماہ، ابوسعید خدری نے آٹھ ماہ اور ابن عباس نے نو ماہ تک اس چیز کا مشا ہد ہ کیا ہو(۱۵)

جس نے جتنی مدت دیکھا ہے اسی اعتبار سے نقل کیا ہے حالانکہ ان کی روایت میں کوئی دوسرا اختلاف نہیں ہے۔

بہر حال اتنی مدت تک پیغمبر اکرم (ص) کا ہر روز اسی عمل کی تکرار کرنا ایک طے شدہ مسئلہ تھا، کیونکہ آنحضرت (ص) اپنے اس عمل سے یہ بات بالکل واضح کرناچاہتے تھے کہ ”اہل بیت“ سے مراد صرف اس گھر کے رہنے والے ہیں، تاکہ آنے والے زمانہ میں کسی کے لئے کوئی شک و شبہ باقی نہ رہے، اور یہ باتسب کو معلوم ہوجائے کہ یہ آیت صرف اور صرف ان حضرات کی شان میں نازل ہوئی ہے، لیکن واقعاً تعجب کی بات ہے کہ اس قدر تاکید کے باوجود بھی بعض لوگوں کے نزدیک یہ مسئلہ واضح نہ ہوسکا، کیا واقعاً یہ تعجب کا مقام نہیں ہے!!

خصوصاً جب مسجد النبی (ص) کی طرف کھلنے والے تمام دروازے بند کرادئے گئے ،صرف پیغمبر اکرم (ص) اور حضرت علی علیہ السلام کے دروازے کھلے رہے (کیونکہ پیغمبر اکرم (ص) نے فرمان جاری کیا تھا کہ ان دو دروازوں کے علاوہ تمام دروازے بند کردئے جائیں)

یہ بات واضح ہے متعدد افراد پیغمبر اکرم (ص) کی زبان مبارک سے یہ کلمات سنتے ہوں گے، لیکن پھر بھی بعض مفسرین یہ کوشش کرتے ہیں کہ آیت کے معنی میں وسعت کے قائل ہوجائیں تاکہ ازواج پیغمبر کو بھی شامل کرلیا جائے، کیا یہ تعجب کا مقام نہیں ہے، اور جیسا کہ ہم نے عرض بھی کیا کہ تاریخی شواہد کے مطابق خود حضرت عائشہ پیغمبر اکرم (ص) سے متعلق اپنے تمام فضائل کو بیان کرنے سے نہیں کتراتی تھیں بلکہ چھوٹی چھوٹی چیزوں کو بھی بیان کردیا ہے، وہ خود کو اس آیت میں شامل نہیں جانتی، بلکہ وہ خود کہتی ہیں کہ پیغمبر اکرم (ص) نے مجھ سے فرمایا: ”تم اس آیت میں شامل نہیں ہو“!

۴ ۔ وہ متعدد روایات جو پیغمبر اکرم (ص) کے مشہور و معروف صحابی ابوسعید خدری کے ذریعہ نقل ہوئی ہیں اور آیہ تطہیر کی طرف اشارہ ہیں، ان میں واضح طور پر بیان ہوا :

”نَزلَتْ فِی خَمسةٍ فِی رَسولِ اللهِ وَ عَليّ وفاطمة والحَسنِ وَالحُسَینِ علَیهُمَ السّلام(۱۶)

”یہ آیہ شریفہ رسول خدا،مولائے کائنات،فاطمہ زہرا سلام اللہ علیہا اور حسنین علیہما السلام کی شان میں نازل ہوئی ہے“

المختصر: آیہ تطہیرکی شان ِنزول کے سلسلہ میں بیان ہونے والی وہ احادیث جو پیغمبر اکرم ، حضرت علی علیہ السلام، جناب فاطمہ زہرا سلام اللہ علیہا اور امام حسن و امام حسین علیہم السلام سے مخصوص ہیں، اور یہ احادیث اسلامی معتبر کتابوں میں اس قدر زیادہ ہیں کہ ان کو متواتر حدیثوں میں شمار کیا جاتا ہے، اور اس لحاظ سے ان میں شک و شبہ کی کوئی گنجائش باقی نہیں رہ جاتی، یہاں تک کہ کتاب شرح احقاق الحق میں (شیعہ منابع کے علاوہ) خوداہل سنت کی مشہور و معروف ۷۰/ معتبر کتابوں سے اس حدیث کو نقل کیا گیا ہے، اس کے بعد صاحب کتاب فرماتے ہیں: ”اگر ان تمام منابع و مدارک کو جمع کیا جائے تو ان کی تعداد ہزار سے بھی زیادہ ہوجائے گی“۔(۱۷)(۱۸)

____________________

(۱)سورہ احزاب ، آیت ۳۳ (۲)سورہ احزاب ، آیت ۳۳(۳)الدرالمنثور ، جلد ۵، صفحہ ۱۹۶و ۱۹۹

(۴) المیزان ، جلد ۱۶، صفحہ ۳۱۱

(۵) علامہ طبرسی نے مجمع البیان میں مذکورہ آیت کے ذیل میں،اورحاکم حسکانی نے شواہد التنزیل ، جلد ۲، صفحہ ۵۶ میں مذ کورہ حدیث کو ذکر کیا ہے

(۶) یہ چوتھی صدی کے آخر اور پانچوی صدی کے شروع میں زندگی بسر کرتے تھے ، جن کی تفسیر ”تفسیر کبیر“ کے نام سے مشہور ہے

۷) مجمع البیان ، سورہ احزاب آیت ۳۳کے ذیل میں(۸) صحیح مسلم ، جلد ۴، صفحہ ۱۸۸۳، حدیث۲۴۲۴، (باب فضائل اہل بیت النبی (ص))

(۹) شواہد التنزیل ، جلد ۲، صفحہ ۳۳، حدیث ۳۷۶

(۱۰) صحیح ترمذی ، جلد ۵، صفحہ ۶۹۹، حدیث ۳۸۷۱، (باب فضل فاطمہ)مطبو عہ احیاء التراث

(۱۱) تفسیر فخر رازی ، جلد ۸، صفحہ ۸۰

(۱۲) مسند احمد ، جلد اول، صفحہ ۳۳۰، جلد ۴، صفحہ ۱۰۷ ، اور جلد ۶، صفحہ ۲۹۲ ( نقل از فضائل الخمسة ، جلد اول، صفحہ ۲۷۶)

(۱۳) شواہد التنزیل ، جلد ۲، صفحہ ۱۱، ۱۲، ۱۳، ۱۴، ۱۵ ،۹۲ ،(توجہ کریں کہ شواہد التنزیل نے اس روایت کو متعدد طریقہ سے نقل کیا ہے)

(۱۴) شواہد التنزیل ، جلد ۲، صفحہ ۲۸ واحقا ق الحق، جلد ۲، صفحہ ۵۰۳ سے ۵۴۸ تک

(۱۵) الدر المنثور ، جلد ۵، صفحہ ۱۹۹

(۱۶) شواہد التنزیل میں اس سلسلے میں چار حدیثیں موجود ہیں ،جلد ۲، صفحہ ۲۴ سے ۲۷ تک (حدیث ۶۹۵ و۶۶۰ و۶۶۱ و۶۶۴)

(۱۷) اقتبا س از جلد دوم احقاق الحق ، صفحہ ۵۰۲ تا ۵۶۳

(۱۸) تفسیر پیام قرآن ، جلد ۹ ،صفحہ ۱۳۷

۱۳ ۔ خداوندعالم کی طرف سے ہدایت و گمراہی کے کیا معنی ہیں؟

لغت میں ہدایت کے معنی دلالت اور رہنمائی کے ہیں(۱) اور اس کی دو قسمیں ہیں

۱)”ارائة الطریق “ (راستہ دکھانا) ۲) ”إیصالٌ إلیٰ المطلوبِ “ (منزل مقصود تک پہنچانا) دوسرے الفاظ میں یوں کہئے: ”تشریعی اور تکو ینی ہدایت“۔(۲)

وضاحت: کبھی انسان راستہ معلوم کرنے والے کو اپنی تمام دقت اور لطف و کرم کے ساتھ راستہ کا پتہ بتاتا ہے، لیکن راستہ طے کرنا اور منزل مقصود تک پہنچنا خود اس انسان کا کام ہوتا ، اور کبھی انسان راستہ معلوم کرنے والے کا ہاتھ پکڑتا ہے اور راستہ کی رہنمائی کے ساتھ ساتھ اس کو منزل مقصود تک پہنچا دیتا ہے، دوسرے الفاظ میںیوں کہیں کہ انسان پہلے مرحلہ میں صرف قوانین بیان کرتا ہے،اور منزل مقصودتک پہنچنے کے شرائط بیان کردیتا ہے، لیکن دوسرے مرحلہ میں ان چیزوں کے علاوہ سامان سفر بھی فراہم کرتا ہے اور اس میں پیش آنے والی رکاوٹوں کو بھی برطرف کردیتا ہے، نیز اس کے مشکلات کو دور کرتاہے اور اس راہ پر چلنے والوں کے ساتھ ساتھ ان کو منزل مقصود تک پہنچنے میں حفاظت بھی کرتا ہے۔

اگر انسان قرآن مجید کی آیات پر ایک اجمالی نظرڈالے تو یہ بات واضح ہوجاتی ہے کہ قرآن کریم نے ہدایت اور گمراہی کو فعل خدا شمار کیا ہے، اور دونوں کی نسبت اسی کی طرف دی گئی ہے، اگر ہم اس سلسلہ کی تمام آیات کو یکجا کریں تو بحث طولانی ہوجائے گی، صرف اتناہی کافی ہے، چنانچہ ہم سورہ بقرہ کی آیت نمبر ۲۱۳ میں پڑھتے ہیں:

( وَاللهُ یَهْدِی مَنْ یَشَاءُ إِلَی صِرَاطٍ مُسْتَقِیمٍ )

”اور خدا جس کو چاہتا ہے صراط مستقیم کی ہدایت دے دےتا ہے“۔

سورہ نحل کی آیت نمبر ۹۳ میں ارشادہوتا ہے:

( وَلَکِنْ یُضِلُّ مَنْ یَشَاءُ وَیَهْدِی مَنْ یَشَاءُ )

”خدا جسے چاہتا ہے گمراہی میں چھوڑ دیتا ہے اور جسے چاہتا ہے منزل ہدایت تک پہنچا دیتا ہے“۔

ہدایت و گمراہی کے حوالہ سے قرآن مجیدمیں بہت سی آیات موجود ہیں(۳)

بلکہ اس کے علاوہ بعض آیات میں واضح طور پر پیغمبر اکرم (ص) سے ہدایت کی نفی کی گئی ہے اور خدا کی طرف نسبت دی ہے، جیسا کہ سورہ قصص آیت نمبر ۵۶ میں بیان ہوا ہے:

( إِنَّکَ لَاتَهْدِی مَنْ اٴَحْبَبْتَ وَلَکِنَّ اللهَ یَهْدِی مَنْ یَشَاءُ )

”(اے میرے پیغمبر!) آپ جسے چاہیں اسے ہدایت نہیں دے سکتے بلکہ اللہ جسے چاہتا ہے ہدایت دےتا ہے“۔

سورہ بقرہ آیت نمبر ۲۷۲ میں بیان ہوا ہے:

( لَیْسَ عَلَیْکَ هُدَاهُمْ وَلَکِنَّ اللهَ یَهْدِی مَنْ یَشَاءُ )

”اے پیغمبر ! ان کے ہدایت پانے کی ذمہ داری آپ پر نہیں ہے، بلکہ خدا جس کو چاہتا ہے ہدایت دے دیتا ہے“۔

ان آیات کے عمیق معنی کو نہ سمجھنے کی وجہ سے بعض افراد ان کے ظاہری معنی پر تکیہ کرتے ہو ئے ان آیات کی تفسیر میں ایسے ”گمراہ“اور راہ ”ہدایت“ سے بھٹکے کہ”جبریہ“ فرقہ کی آتشِ عقا ئد میں جا گرے اور یہی نہیں بلکہ بعض مشہور مفسرین بھی اس آفت سے نہ بچ سکے، اوراس فر قہ کی خطرناک وادی میں پھنس گئے ہیں، یہاں تک کہ ہدایت و گمراہی کے تمام مراحل کو ”جبری“ طریقہ پر مان بیٹھے، اور تعجب کی بات یہ ہے کہ جیسے ہی انھوں نے اس عقیدہ کو خدا کی عدالت و حکمت کے منافی دیکھا تو خدا کی عدالت ہی کے منکر ہوگئے، تاکہ اپنی کی ہوئی غلطی کی اصلاح کرسکیں،لیکن حقیقت یہ ہے کہ اگر ہم ”جبر“ کے عقیدہ کو مان لیں تو پھر تکالیف و فرائض اور بعثت انبیاء،اورآسمانی کتابوں کے نزول کا کوئی مفہوم ہی نہیں بچتا۔

لیکن جو افراد نظریہ ”اختیار“ کے طرفدار ہیں ،وہ یہ عقیدہ رکھتے ہیں کہ کوئی بھی عقل سلیم اس بات کو قبول نہیں کرسکتی کہ خداوندعالم کسی کو گمراہی کا راستہ طے کرنے پر مجبور (بھی) کرے اور پھر اس پر عذاب بھی کرے، یا بعض لوگوں کو ”ہدایت“ کے لئے مجبور کرے اور پھر بلاوجہ ان کو اس کام کی جزا اور ثواب بھی دے، اور ان کو ایسے کام کی وجہ سے دوسروں پر فوقیت دے جو انھوں نے انجام نہیں د یا ہے۔

لہٰذا انھوں نے ان آیات کی تفسیر کے لئے ایک دوسرا راستہ اختیار کیا ہے اور اس سلسلہ میں بہت ہی دقیق تفسیر کی ہے جو ہدایت و گمراہی کے سلسلے میں بیان ہونے والی تمام آیات سے ہم آہنگ ہے اور بغیر کسی ظاہری خلاف کے بہترین طریقہ سے ان تمام آیات کی تفسیر کرتی ہے، اور وہ تفسیر یہ ہے:

” تشریعی ہدایت“یعنی عام طور سے سبھی کو راستہ دکھادیا گیا ہے اس میں کسی طرح کی کوئی قید و شرط نہیں ہے، جیسا کہ سورہ دہر آیت نمبر ۳ میں وارد ہوا ہے:

( إِنَّا هَدَیْنَاهُ السَّبِیلَ إِمَّا شَاکِرًا وَإِمَّا کَفُورًا )

”یقینا ہم نے اس (انسان) کو راستہ کی ہدایت دیدی ہے چاہے وہ شکر گزار ہوجائے یا کفران نعمت کرنے والا ہوجائے“۔

اسی طرح سورہ شوریٰ کی آیت نمبر ۵۲ میں پڑھتے ہیں:

( وَإِنَّکَ لَتَهْدِي إِلَی صِرَاطٍ مُسْتَقِیمٍ )

” اور بے شک آپ لوگوں کو سیدھے راستہ کی ہدایت کرر ہے ہیں“۔

ظاہر ہے کہ انبیاء علیہم السلام کی دعوت حق خداوندعالم کی طرف سے ہے کیونکہ انبیاء کے پاس جو کچھ بھی ہوتاہے وہ خدا کی طرف سے ہوتا ہے۔

بعض منحرف اور مشرکین کے بارے میں سورہ نجم آیت نمبر ۲۳ میں بیان ہوا ہے:

( وَلَقَدْ جَائَهُمْ مِنْ رَبِّهِمْ الْهُدَی )

”اور یقینا ان کے پروردگار کی طرف سے ان کے پاس ہدایت آچکی ہے“۔

لیکن ”تکوینی ہدایت “یعنی منزل مقصود تک پہنچانا ، راستہ کی تمام رکاوٹوں کو دور کرنا اور ساحل نجات پر پہنچنے تک ہر طرح کی حمایت و حفاظت کرنا،جیسا کہ قرآن مجید کی بہت سی آیات میں بیان ہوا ہے، یہ موضوع بدون قید و شرط نہیں ہے، اور یہ ہدایت ایک ایسے خاص گروہ سے مخصوص ہے جس کے صفات خود قرآن مجید میں بیان ہوئے ہیں، اور اس کے مدمقابل ”ضلالت و گمراہی“ ہے وہ بھی خاص گروہ سے مخصوص ہے جس کے صفات بھی قرآن مجید میں بیان ہوئے ہیں۔

اگرچہ بہت سی آیات مطلق ہیں لیکن دوسری بہت سی آیات میں وہ شرائط واضح طور پر بیان ہوئے ہیں، اور جب ہم ان ”مطلق“ اور ”مقید“ آیات کو ایک دوسرے کے برابر رکھتے ہیں تو مطلب بالکل واضح ہوجاتا ہے اور آیات کے معنی و تفسیر میں کسی طرح کے شک و تردید کی گنجائش باقی نہیں رہتی، اور نہ صرف یہ کہ انسان کے اختیار ، آزادی اور ارادہ کے مخالف نہیں ہے بلکہ مکمل اور دقیق طور پر ان کی تاکید کرتی ہے۔

(قارئین کرام!) یہاں درج ذیل وضاحت ملاحظہ فرمائیں:

قرآن مجید میں ایک جگہ ارشاد ہوتا ہے:

( یُضِلُّ بِهِ کَثِیرًا وَیَهْدِی بِهِ کَثِیرًا وَمَا یُضِلُّ بِهِ إِلاَّ الْفَاسِقِینَ ) (۴)

”خدا ا سی طرح بہت سے لوگوں کو گمراہی میں چھوڑ دیتا ہے اور بہت سوں کو ہدایت دے دیتا ہے اور گمراہی صرف انھیں کا حصہ ہے جو فاسق ہیں “۔

یہاں پر ضلالت و گمراہی کا سرچشمہ، فسق و فجور اور فرمان الٰہی کی مخالفت بیان کی گئی ہے۔

ایک دوسری جگہ ارشاد ہوتا ہے:

( وَاللهُ لاَیَهْدِی الْقَوْمَ الظَّالِمِینَ ) (۵)

”اوراللہ ظالموں کی ہدایت نہیں کرتا “۔

اس آیت میں ظلم پرتوجہ دلائی گئی ہے اور اس کو ضلالت و گمراہی کا راستہ ہموار کرنے والا بتایا گیا ہے۔

ایک دوسری جگہ ارشاد ہوتا ہے:

( وَاللهُ لاَیَهْدِی الْقَوْمَ الْکَافِرِینَ ) (۶)

”اوراللہ کافروں کی ہدایت بھی نہیں کرتا “۔

یہاں پر کفر کو گمراہی کاسبب قراردیا گیا ہے۔

ایک دوسری جگہ ارشاد ہوتا ہے:

( إِنَّ اللهَ لاَیَهْدِی مَنْ هُوَ کَاذِبٌ کَفَّارٌ ) (۷)

”اللہ کسی بھی جھوٹے اور نا شکری کرنے والے کو ہدایت نہیں دیتا ہے “۔

اس آیت میں جھوٹ اور کفر کو ضلالت و گمراہی کا پیش خیمہ شمار کیا گیا ہے۔

نیز ارشاد ہوتا ہے:

( إِنَّ اللهَ لاَیَهْدِی مَنْ هُوَ مُسْرِفٌ کَذَّابٌ ) (۸)

”بیشک اللہ کسی زیادتی کرنے والے اور جھوٹے کی رہنمائی نہیں کرتا ہے “۔

اس کا مطلب یہ ہے کہ فضول خرچی اور جھوٹ گمراہی کا باعث ہے۔

(قارئین کرام!) ہم نے یہاں تک اس سلسلہ میں بیان ہونے والی چند آیات کو بیان کیا ہے، اسی طرح دوسری آیات قرآن مجید کے مختلف سوروں میں بیان ہوئی ہیں۔

نتیجہ یہ ہوا کہ قرآن مجید نے خدا کی طرف سے ضلالت و گمراہی انھیں لوگوں کے لئے مخصوص کی ہے جن میں یہ صفات پائے جاتے ہوں: ”کفر“ ، ”ظلم“، ”فسق“، ”جھوٹ“، ”فضول خرچی“ اور ”کفران نعمت “۔

کیا جن لوگوں میں یہ صفات پائے جاتے ہیں وہ ضلالت و گمراہی کے سزاوار نہیں ہیں؟!

بالفاظ دیگر: جو لوگ ان برائیوں کے مرتکب ہوتے ہیں کیا ان کے دلوں پر ظلمت و تاریکی اثرنہیں کرتی؟!

صاف و شفاف الفاظ میں یوں کہیں کہ اس طرح کے اعمال اور صفات کچھ خاص اثررکھتے ہیں جو آخرکار انسان میں موثر ہوتے ہیں،اور اس کی عقل، آنکھ اور کان پر پردہ ڈال دیتے ہیں، اس کو ضلالت و گمراہی کی طرف کھینچتے ہیں، اور چونکہ تمام چیزوں کی خاصیت اور تمام اسباب کے اثرات خدا کے حکم سے ہیں لہٰذا ضلالت و گمراہی کو ان تمام موارد میں خدا کی طرف نسبت دی جاسکتی ہے، لیکن یہ نسبت خود انسان کے ارادہ و اختیار کی وجہ سے ہے۔

یہ سب کچھ ضلالت و گمراہی کے سلسلہ میں تھا، اُدھر ”ہدایت“ کے سلسلہ میں بھی قرآن کریم نے کچھ شرائط اور اوصاف بیان کئے ہیں جن سے پتہ چلتا ہے کہ یہ بھی بغیر کسی علت اور حکمت الٰہی کے خلاف نہیں ہے۔

بعض وہ صفات جن کی وجہ سے انسان ہدایت اور لطف الٰہی کا مستحق ہوتا ہے ؛ درج ذیل آیات میں بیان ہوئی ہیں:

( یَهْدِي بِهِ اللهُ مَنْ اتَّبَعَ رِضْوَانَهُ سُبُلَ السَّلاَمِ وَیُخْرِجُهُمْ مِنْ الظُّلُمَاتِ إِلَی النُّورِ بِإِذْنِهِ وَیَهْدِیهِمْ إِلَی صِرَاطٍ مُسْتَقِیمٍ ) (۹)

”جس کے ذریعہ خدا اپنی خوشنودی کا ابتاع کرنے والوں کو سلامتی کے راستوں کی ہدایت کرتا ہے اور انھیں تاریکیوں سے نکال کر اپنے حکم سے نور کی طرف لے آتا ہے اور انھیں صراط مستقیم کی ہدایت کرتا ہے “۔

آیہ مبارکہ سے یہ نتیجہ نکلتا ہے کہ حکم خدا کی پیروی اور اس کی رضا حاصل کرنے سے ہدایت کا راستہ ہموار ہو جاتا ہے ۔

دوسری جگہ ارشاد ہوتا ہے:

( إِنَّ اللهَ یُضِلُّ مَنْ یَشَاءُ وَیَهْدِی إِلَیْهِ مَنْ اٴَنَابَ ) (۱۰)

”بیشک اللہ جس کو چاہتا ہے گمراہی میں چھوڑ دیتا ہے اور جو اس کی طرف متوجہ ہوجاتے ہیں انھیں ہدایت دیتا ہے “۔

یہاں ”توبہ اور استغفار کرنے والے “ کو ہدایت کامستحق قراردیا گیا ہے۔

ایک دوسری آیت میں ارشاد ہوتا ہے:

( وَالَّذِینَ جَاهَدُوا فِینَا لَنَهْدِیَنَّهُمْ سُبُلَنَا ) (۱۱)

”اور جن لوگوں نے ہمارے حق میں جہاد کیا ہے ہم انھیں اپنے راستوں کی ہدایت کریں گے “۔

اس آیت میں ”راہ خدا میں مخلصانہ جہاد“ کو ہدایت کے لئے اصلی شرط کے عنوان سے ذکر کیا ہے۔

نیز ایک دوسری آیت میں ارشاد ہے:

( وَالَّذِینَ اهْتَدَوْا زَادَهُمْ هُدًی ) (۱۲)

”اور جن لوگوں نے ہدایت حاصل کر لی خدا نے ان کی ہدایت میں اضافہ کردیا اور ان کو مزید تقوی عنایت فرمایا “۔

اس آیت میں اس بات کی طرف اشارہ ہے کہ اگر انسان راہ ہدایت کی طر ف قدم بڑھائے تو خدا وندعالم اس کو مزید راستہ طے کرنے کی طاقت عطا فرمادیتا ہے۔

نتیجہ یہ ہوا کہ جب تک بندوں کی طرف سے توبہ و استغفار نہ ہو اور خدا کے حکم کی پیروی نہ ہو، نیز جب تک خدا کی راہ میں جہاد اور کوشش نہ ہو ، اور جب تک خدا کی راہ میں قدم نہ بڑھائے جائیں تو لطف الٰہی ان کے شامل حال نہیں ہوگا، اور ان کی مدد نہیں ہوگی، نیز وہ منزل مقصود تک نہیں پہنچ سکتے۔

جن لوگوں میں یہ صفات موجود ہوں کیا ان کے لئے ہدایت یافتہ ہونا بے حساب و کتاب ہے ؟! اور کیا انھیں ہدایت کے لئے مجبور کیا گیا ہے ؟!

(قارئین کرام!) آپ حضرات ملاحظہ فرمارہے ہیں کہ اس سلسلہ میں قرآن مجید کی آیات بہت واضح ہیں،لیکن جن لوگوں نے ہدایت و گمراہی کے سلسلہ میں بیان ہونے والی آیات کو صحیح طریقہ سے نہیں سمجھا ، یا سمجھنے کی کوشش نہیں کی تو ایسے ہی لوگ اس خطرناک غلطی کا شکار ہوئے ہیں اور بقول شاعر :”چون ندیدند حقیقت، رہ افسانہ زدند“ (اور جب انھوں نے حقیقت کو نہ پایا تو افسانہ گڑھ لیا) ان کے لئے یہی کہا جا ئے کہ ان لوگوں نے ”ضلالت و گمراہی“ کا راستہ خود ہی ہموار کیا ہے!

بہر حال ہدایت و ضلالت کامسئلہ حکمت ومشیت سے خالی نہیں ہے، بلکہ ہر موقع پر خاص شرائط ہوتے ہیں جو خدا کے حکیم ہونے پر دلالت کرتے ہیں۔(۱۳)

____________________

(۱) مفردات راغب ،مادہ ”ھدی“

(۲) یہاں پر تکوینی ہدایت وسیع معنی میں استعمال ہوئی ہے، جس میں بیان قوانین اور ارایہ طریق کے علاوہ ہر طرح کی ہدایت شامل ہے

اس کے مقابلہ میں ”ضلالت اور گمراہی“ ہے۔

(۳) نمونہ کے طور پر:سورہ فاطر ، آیت ۸ سورہ زمر، آیت ۲۳ سورہ مدثر ، آیت ۳۱ سورہ بقرہ، آیت ۲۷۲ سورہ انعام ، آیت ۸۸ سورہ یونس ، آیت ۲۵ سورہ رعد ، آیت ۲۷ سورہ ابراہیم ، آیت ۴

(۴)سورہ بقرہ ، آیت ۲۶

(۵) سورہ بقرہ ، آیت ۲۵۸

(۶) سورہ بقرہ ، آیت ۲۶۴

(۷) سورہ زمر ، آیت ۳

(۸) سورہ غافر ، آیت ۲۸.

(۹)سورہ مائدہ ، آیت ۱۶

(۱۰)سورہ رعد ، آیت ۲۷ (۱۱)سورہ عنکبوت ، آیت ۶۹

(۱۲) سورہ محمد ، آیت ۱۷.

(۱۳) تفسیر نمونہ ، جلد ۱۹، صفحہ ۴۶۱

۱۴ ۔کس طرح کائنات کی ہر شئی خداکی تسبیح کرتی ہے؟

قرآن مجید کی مختلف آیات میں بیان ہوا ہے کہ اس کائنات کی تمام موجودات خدا کی تسبیح کرتی ہیں ، ان میں سب سے زیادہ واضح آیت سورہ اسراء (بنی اسرائیل) آیت نمبر ۴۴ ہے کہ جہاں ارشاد ہوتا ہے:

( وَإِنْ مِنْ شَیْءٍ إِلاَّ یُسَبِّحُ بِحَمْدِهِ وَلَکِنْ لَاتَفْقَهُونَ تَسْبِیحَهُمْ )

”اور کوئی شئی ایسی نہیں ہے جو اس کی تسبیح نہ کرتی ہویہ اور بات ہے کہ تم ان کی تسبیح کو نہیں سمجھتے “۔

اس آیت کی بناپر کائنات کی تمام موجوات بغیر کسی استثنا کے خداوندعالم کی اس عام تسبیح میں شامل ہیں۔

اس حمد و تسبیح کی حقیقت کی تفسیر کے بارے میں علماو فلاسفہ کے درمیان بہت زیادہ بحث و گفتگو ہے۔

بعض افراد نے اس حمد و تسبیح کو ”حالی“ (یعنی زبان حال) مانا ہے، جبکہ بعض دوسرے افراد نے اس سے ”قولی“ تسبیح مراد لی ہے، ہم یہاں پر ان تمام نظریات کا خلاصہ اور اپنا نظریہ بیان کرتے ہیں:

۱ ۔بعض گروہ کا کہنا یہ ہے کہ اس کائنات کے تمام ذرات چاہے وہ جاندار اور عاقل ہوں یا بے جان اور غیر عاقل؛ سب کی سب ایک طرح کا شعور اور ادراک رکھتی ہیں، اور یہ سب چیزیں خداوندعالم کی حمد و تسبیح کرتی ہیں، اگرچہ ہم ان کی حمد و تسبیح کو سمجھ نہیں پاتے، اور نہ ہی سن پاتے ہیں۔

قرآن مجید کی بہت سی آیات اس عقیدہ پر شاہد اور گواہ ہیں، نمونہ کے طور پر:

( وَإِنَّ مِنْهَا لَمَا یَهْبِطُ مِنْ خَشْیَةِ اللهِ ) (۱)

”اور بعض خوف خدا سے گر پڑتے ہیں“۔

( فَقَالَ لَهَا وَلِلْاٴَرْضِ اِئْتِیَا طَوْعًا اٴَوْ کَرْهًا قَالَتَا اٴَتَیْنَا طَائِعِینَ ) (۲)

”اور اسے اور زمین کو حکم دیا کہ بخوشی یا بکراہت ہماری طرف آؤ تو دونوں نے عرض کی کہ ہم اطاعت گزار بن کر حاضر ہیں“۔

۲ ۔ بہت سے افراد کا عقیدہ ہے کہ یہ حمد و تسبیح وہی ہے جس کو ہم ”زبان حال“ کہتے ہیں، اور یہ حمد و تسبیح حقیقی طور پر ہے، مجازی طور پر نہیں، لیکن زبان حال سے ہے نہ کہ زبان قال سے۔ (غور کیجئے )

وضاحت: بعض اوقات ایسا ہوتا ہے کہ انسان کے چہرے پر پریشانی اور ناراحتی یا درد و غم کے آثار پائے جاتے ہیں یا اس کی آنکھوں سے بیداری کے آثار واضح طور پر دکھائی دیتے ہیں،چنانچہ ایسے موقع پر کہاجاتا ہے: اگرچہ تم اپنی زبان سے پریشانی اور مشکل نہیں بتارہے ہو، لیکن تمہارے چہرے سے پریشانی کے آثار دکھائی دے رہے ہیں، یا کہتے ہیں کہ تمہیں رات میں نیند نہیں آئی ہے!!

کبھی کبھی یہ ”زبان حال“ اس قدر واضح اورروشن ہوتی ہے کہ ”زبان قال“ کو موثر بنا دےتی ہے، اور زبان قال کو جھٹلادیتی ہے، جیسا کہ ایک شاعر نے کیا خوب کہا ہے:

گفتم کہ با مکر و فسون پنہان کنم راز درون!

پنہان نمی گردد کہ خون از دیدگانم می رود!

”میں نے کہا کہ مکر و فریب سے اپنے اندرونی راز کو چھپالوں لیکن خون کبھی چھپائے سے نہیں چھپتا ، اور میری آنکھوں سے خون برستا دکھائی دیتا ہے“۔

اسی چیز کی طرف حضرت امیر المومنین علی علیہ السلام نے اپنے مشہور و معروف قول میں اشارہ فرمایا ہے:

مَا ضمَر اٴحد شیئًا اِلاَّ ظهر فی فلتاتِ لسانِه وَصفحاتِ وَجههِ(۳)

”کوئی بھی راز دل میں چھپائے سے چھپ نہیں سکتا، اور ایک نہ ایک دن اس کی زبان یا چہرے پر ظاہر ہوہی جاتا ہے“۔

دوسری طرف کیا یہ ممکن ہے کہ ایک بہترین مصور کی بنائی ہوئی تصویر اس کی مہارت اور ذوق کی گواہی نہ دے اور اس کی مدح و ثنا نہ کرے؟

کیا اس بات سے انکار کیا جاسکتا ہے کہ ایک مشہور و معروف شاعر کا کلام اس کے بہترین ذوق کی عکاسی نہ کرے اور ہمیشہ اس کی مدح و ثنا نہ کرے؟

کیا اس بات کا منکر ہوا جاسکتا ہے کہ ایک عظیم الشان عمارت اوربڑے بڑے کارخا نے وغیرہ اپنی بے زبانی سے اپنے بنانے والے کے خلاق ذہن اور ایجادات کرنے والے ذہن کی تعریف نہ کریں اور ان کی ذہنیت کی قصیدہ خوانی نہ کریں؟

لہٰذا ہم کو یہ بات مان لینا چاہئے کہ کائنات کایہ عجیب و غریب نظام اور چکاچوند کردینے والی چیزیں خداوندعالم کی ”حمد و تسبیح“ کرتی ہیں۔

کیا ”تسبیح“ پاک و پاکیزہ ماننے کے علاوہ کسی اور چیز کا نام ہے، اس کائنات کا نظام اپنے پورے وجود کے ساتھ یہ اعلان کررہا ہے کہ اس کا خالق ہر طرح کے نقص و عیب سے پاک و پاکیزہ ہے۔

کیا ”حمد“ صفاتِ کمال بیان کرنے کے علاوہ کسی اور چیز کو کہتے ہیں؟ یہ کائنات کا نظام خدا وندعالم کی صفات کمال( بے کراں علم و قدرت ،اور مکمل حکمت )کی گفتگو نہیں کررہا ہے۔

(قارئین کرام!) ”حمد و تسبیح “ کے یہ معنی تمام موجوات کے لئے قابل فہم ہیں اور اس بات کی بھی کوئی ضرورت نہیں ہے کہ ہم تمام مخلوقات کے ذروں کو صاحب عقل و شعور فرض کریں، کیونکہ کوئی قطعی دلیل ان کے بارے میں موجود نہیں ہے، اور مذکورہ آیات بھی قوی احتمال کی بنا پر ”زبان حال“ کو بیان کرتی ہیں۔

لیکن یہاں پر ایک سوال باقی رہ جاتا ہے اور وہ یہ کہ اگر خداوندعالم کی ”حمد و تسبیح“ سے مراد نظام کائنات کا خدا کی عظمت اور اس کی پاکیزگی و عظمت کی حکایت کرنا ہے اور ”صفات سلبیہ“ و ”صفات ثبوتیہ“ اس کی وضاحت کرتی ہیں، تو پھر قرآن مجید میں کیوں ارشاد ہوا ہے کہ تم ان کی حمد و تسبیح کو نہیں سمجھتے؟

اگر بعض عوام الناس نہیں سمجھ سکتے تو کم سے کم دانشوروں کو تو سمجھنا چاہئے؟

اس سوال کے دو جواب دئے جاسکتے ہیں:

پہلا جواب: یہ ہے کہ قرآن مجید میں خطاب اکثر جاہلوں خصوصاً مشرکین سے ہے اور مومن دانشوروں کی اقلیت اس عموم سے مستثنیٰ ہے کیونکہ ہر عام کے لئے ایک استثنا ہوتا ہے۔

دوسرا جواب: یہ ہے کہ اس کائنات کے جن اسرار کو ہم جانتے ہیں وہ نامعلوم اسرارکے مقابل سمندر کے مقابل ایک قطرہ یا پہاڑ کے مقابلہ میں ایک ذرّہ کی حیثیت رکھتے ہیں کہ اگر صحیح غور و فکر کریں تو اس کو کسی علم و دانش کا نام تک نہیں دیا جاسکتا ۔

تا بدانجا رسید دانش من کہ بدانستمی کہ نادانم

”میری عقل آخر میں اس بات کو سمجھ پائی ہے کہ میں نادان اور جاہل ہوں“

لہٰذا حقیقت تو یہ ہے کہ اگرچہ ہم کتنے ہی بڑے عالم کیوں نہ ہوں اس کائنات کے ذروں کو نہیں سمجھ سکتے، کیونکہ جو کچھ ہم سنتے ہیں وہ کسی بڑی کتاب کا ایک لفظ ہے، اس بنا پر تمام عوام الناس کے لئے یہ اعلان عام کیا جاسکتا ہے کہ تم اس کائنات کی موجودات کی حمد و تسبیح کو نہیں سمجھ سکتے کیونکہ وہ زبان حال سے خداوندعالم کی حمد و تسبیح کرتے ہیں اور جو چیزیں ہم سمجھتے ہیں وہ اس قدر کم اور ناچیز ہیں کہ ان کا کوئی شمار ہی نہیں ہے۔

۳ ۔بعض مفسرین نے یہ بھی احتمال دیا ہے کہ اس کائنات کی موجودات کی حمد و تسبیح زبان ”حال“ اور زبان ”قال“ دونوں سے مرکب ہے یا دوسرے الفاظ میں ”تکوینی اور تشریعی تسبیح“ ہے، کیونکہ بہت سے انسان اور تمام ملائکہ اپنی عقل و شعور کے لحاظ سے خداوندعالم کی حمد و تسبیح کرتے ہیں لیکن اس کائنات کے تمام ذرے اپنی زبان بے زبانی سے خداوندعالم کی عظمت و کبریائی کی گواہی دے رہے ہیں۔

اگرچہ” حمد و تسبیح“کے دونوں معنی آپس میں مختلف ہیں لیکن ”ایک مشترک پہلو بھی رکھتے ہیں“ یعنی حمد و تسبیح کے عام اور وسیع معنی (یعنی اعلان پاکیزگی اور مدح و ثنا) میں مشترک ہیں۔

لیکن جیسا کہ ظاہر ہے کہ مذکورہ دوسری تفسیر سب سے بہتر ہے۔(۴) .

____________________

(۱)سورہ بقرہ ، آیت ۷۴

(۲) سورہ فصلت ، آیت ۱۱

(۳) نہج البلاغہ کلمات قصار نمبر ۲۶.

(۴) تفسیر نمونہ ، جلد ۱۲، صفحہ ۱۳۴

۱۵ ۔ کیا خداوندعالم کسی چیز میں حلول کرسکتا ہے؟

بعض عیسائیوں کا یہ عقیدہ ہے کہ خداوندعالم ”عیسیٰ مسیح“ میں حلول کئے ہوئے ہے، اور بعض صوفی لوگ بھی اپنے پیرو مرشد کے بارے میں یہی نظریہ رکھتے ہیں اور کہتے ہیں کہ خداوندعالم ان میں حلول کئے ہوئے ہے۔

کتاب ”کشف المراد“ میں علامہ حلّی علیہ الرحمہ کے قول کے مطابق اس عقیدہ کے باطل و بے بنیاد ہونے میں ذرہ برابر بھی شک و شبہ نہیں ہے، کیونکہ حلول سے جو چیز تصور کی جاتی ہے وہ یہ ہے کہ ایک موجود دوسرے موجود کے ذریعہ قائم ہو، (مثال کے طور پر کہاجا ئے کہ گلاب کے پھول میں خوشبو حلول کئے ہوئے ہے) ، مسلم طور پر خداوندعالم کے سلسلہ میں یہ معنی قابل تصور نہیںہیں، کیونکہ اس کا لازمہ مکان، نیاز اور ضرورت ہے جو ”واجب الوجود“کے لئے ”غیر ممکن“ ہے، اور جو لوگ خداوندعالم کے حلول کے معتقد ہیں آخر کار وہ شرک میں گرفتار ہوکر دائرہ اسلام سے خارج ہوجاتے ہیں۔

تصوّف اور اتحاد و حلول کا مسئلہ

مرحوم علامہ حلّی علیہ الرحمہ اپنی کتاب ”نہج الحق“ میں فرماتے ہیں کہ کسی دوسری چیز میں خداوندعالم کااس طرح سے حلو ل کرنا کہ دونوں شئی ایک چیز بن جائیں، یہ عقیدہ باطل ہے،اور اس کا باطل و بے بنیاد ہونا بالکل واضح ہے، اس کے بعد فرماتے ہیں: ”اہل سنت کے صوفیہ فرقہ نے اس سلسلہ میں قرآن و حدیث کی مخالفت کی ہے، اور کہتے ہیں کہ خداوندعالم، عرفاء کے بدن میں حلول کرجاتا ہے!! یہاں تک کہ ان میں سے بعض لوگ کہتے ہیں: خداوندعالم عین موجودات ہے، اور ہر موجود خدا ہے، (وحدت مصداقی وجود کے مسئلہ کی طرف اشارہ ہے) ، اس کے بعد علامہ موصوف فرماتے ہیں: یہ عقیدہ عین کفر و دہریت ہے، خدا کا شکر ہے کہ اس نے ہمیں اہل بیت علیہم السلام کی برکت سے اس باطل عقیدہ سے دور رکھا ہے“۔

علامہ موصوف ”حلول“ کی بحث میں فرماتے ہیں:”یہ ایک مسلّم مسئلہ ہے کہ اگر کوئی چیز کسی چیز میں حلول کرنا چاہے تو اس کو ”محل“ کی ضرورت ہوتی ہے اور چونکہ خداوندعالم واجب الوجود ہے اور اسے کسی چیز کی ضرورت نہیں ہے، لہٰذا اس کا کسی چیز میں حلول کرنا غیر ممکن ہے“ اس کے بعد فرماتے ہیں: ”اہل سنت کے صوفیہ فرقہ نے اس سلسلہ میں مخالفت کی ہے، اور خداوندعالم کے حلول کو، عرفاء کے بدن میں ممکن شمار کرتے ہیں“ اس کے بعد علامہ موصوف ان لوگوں کی بہت زیادہ مذمت کرتے ہوئے فرماتے ہیں: ہم نے خود صوفیہ کے ایگ گروہ کو حضرت امام حسین علیہ السلام کے روضہ مبارک میں دیکھا ہے کہ ایک شخص کے علاوہ سب نے نماز مغرب پڑھی، اس کے بعدسبھی نے نماز عشاء پڑھی سوائے اسی ایک شخص کے، چنانچہ وہ یونہی بیٹھا رہا!!

ہم نے سوال کیا کہ اس نے نمازکیوں نہیں پڑھی؟ تو جواب دیا کہ اس کو نماز کی کیا ضرورت ہے؟ وہ تو خدا سے پیوستہ ہے! کیا یہ بات جائز ہے کہ خدا اور اس کے درمیان کوئی چیز پردہ بن جائے، نماز ان کے اور خدا کے درمیان ایک پردہ ہے!(۱)

یہی معنی ”مثنوی “کی پانچویں جلد میں ایک دوسری طرح پیش کئے گئے ہیں: جب تم منزل مقصود پر پہنچ جاؤ تو وہی حقیقت ہے، اور اس کی وجہ یہ بتائی ہے:

”لَو ظَهرتْ الحقائقُ بَطَلَتِ الشّرائعُ“

”جب حقائق ظاہر ہوجاتے ہیں تو شریعتیں باطل ہوجاتی ہیں“۔

اس کے بعد شریعت کو علم کیمیا سے مشابہ قرار دیا ہے ( جس علم کے ذریعہ تانباکو سونے میں تبدیل کیا جاتا ہے) اور کہا ہے: جو چیز اصل میں ہی سونا ہے ، یا سونا بن چکا ہے تو اسے علم کیمیا کی کیا ضرورت ہے؟! جیسا کہ کہتے ہیں:”طَلبُ الدَلیلِ بعدَ الوُصُولِ إلیٰ المدلولِ قبیحٌ!“ (۲)

”منزل مقصود تک پہنچنے کے بعد دلیل طلب کرنا قبیح اور برا ہے“۔

کتاب ”دلائل الصدق“ شرح ”نہج الحق“ میں بھی ”صاحب مواقف“ سے نقل کیا گیا ہے کہ نفی ”حلول“ اور ”اتحاد“ کے سلسلہ میں مخالفوں کے تین گروپ ہیں، اس کے بعد دوسرے گروہ کے بعض صوفیوں کا نام لیتے ہوئے کہتے ہیں کہ ان کی باتیں حلول و اتحاد کے بارے میں مردد ہیں، ( حلول سے مراد خداوندعالم کا کسی چیز میں نفوذ کرنا ہے، اور اتحاد و وحدت سے مراد خدا اور دوسری چیزوں کا ایک ہوجانا ہے)

اس کے بعد موصوف مزید فرماتے ہیں: ہم نے بعض ”صوفیہ وجودیہ“ کو دیکھا ہے جو حلول و اتحاد کا انکار کرتے ہیں، اور کہتے ہیں کہ یہ دونوں الفاظ خدا اور مخلوق میں مغایرت (جدائی) کی طرف اشارہ کرتے ہیں اور ہم اس چیز کے قائل نہیں ہیں! بلکہ ہماراکہنا یہ ہے :

لَیسَ فِی دارِالوجودِ غیرهُ دیّار “، (وجود کی وادی میں اس کے علاوہ کوئی چیز موجود ہی نہیں ہے“!)

اس موقع پر صاحب مواقف کہتے ہیں کہ یہ عذر،گناہ سے بھی بدتر ہے۔(۳)

البتہ اس سلسلہ میں صوفیوں کی بہت سی بے تُکی باتیں ہیں جو نہ اصول و منطق سے ہم آہنگ ہیں اور نہ ہی شریعت کے موافق۔

بہر حال دو چیزوں کے درمیان حقیقی ”اتحاد “ محال اور ناممکن ہے جیساکہ ”علامہ مرحوم“ نے بیان فرمایا ہے چونکہ یہ بات بالکل تضاد اورٹکراؤ پر مشتمل ہے، یہ کیسے ممکن ہے کہ دو چیزیں ایک ہوجائیں، اس کے علاوہ اگر کوئی خدا کا دوسری مخلوق بالخصوص عارفوں سے اتحاد کے عقیدہ کا قائل ہو، تو اس کا لازمہ یہ ہے کہ خداوندعالم میں ممکنات کے صفات پائے جائیں جیسے زمان و مکان اور تغیر وغیرہ۔

اور اسی طرح خداوندعالم کا دوسری چیزوں میں ”حلول“ کا لازمہ بھی زمان و مکان ہے جبکہ یہ چیزیں خداوندعالم کے واجب الوجود ہونے سے ہم آہنگ نہیں ہیں۔(۴)

اصولی طور پر خود صوفی بھی اس بات کے قائل ہیں کہ اس طرح کی باتوں کو عقلی دلائل کے ذریعہ ثابت نہیں کیا جاسکتا، اور غالباً اپنے راستہ کو عقلی راستہ سے الگ کرلیتے ہیں، اور اس سلسلہ میں اپنی مرضی جس کو ”راہ دل“ کہتے ہیں اس کے ذریعہ اپنے عقائد کو ثابت کرنے کی ناکام کوشش کرتے ہیں، اور مسلّم طور پر اگر کوئی عقلی منطق کو نہ مانے تو اس سے اس طرح کی ضد و نقیض باتوں کے علاوہ اور کوئی امید بھی نہیں کی جاسکتی۔

یہی وجہ ہے کہ ہمیشہ تاریخ میں بڑے بڑے علمائے کرام نے ان لوگوں سے دوری اختیار کی ہے، اور ان کو اپنے سے دور رکھا ہے۔

قرآن کریم نے بہت سی آیات میں عقل و برہان اور غور وخوض کے بارے میں توجہ دلائی ہے اور اسی کو ”معرفة اللہ“ کا راستہ بتایا ہے۔(۵)

____________________

(۱) نہج الحق ، ص۵۸ و۵۹.

(۲) دفترپنجم مثنوی ص۸۱۸،طبع سپہر ، تہران.

(۳) دلائل الصدق ، جلد اول، صفحہ ۱۳۷.

(۴) قابل توجہ بات یہ ہے کہ حلول واتحاد کے باطل ہونے کے سلسلہ میں علامہ حلی علیہ الرحمہ نے شرح تجرید الاعتقاد میں مفصل استدلال کے ساتھ بیان کیا ہے، (کشف المراد، صفحہ۲۲۷،باب انہ تعالیٰ لیس بحال فی غیرہ ونفی الاتحاد عنہ).

(۵) تفسیر پیام قرآن ، جلد ۴، صفحہ ۲۶۷ ، ۲۸۱


5

6

7

8

9

10

11

12

13

14

15

16

17

18

19

20

21

22

23

24

25

26

27

28

29

30

31

32

33

34

35

36