110 سوال اور جواب

110 سوال اور جواب5%

110 سوال اور جواب مؤلف:
زمرہ جات: مناظرے

۱۱۰ سوال اور جواب
  • ابتداء
  • پچھلا
  • 126 /
  • اگلا
  • آخر
  •  
  • ڈاؤنلوڈ HTML
  • ڈاؤنلوڈ Word
  • ڈاؤنلوڈ PDF
  • مشاہدے: 140519 / ڈاؤنلوڈ: 6369
سائز سائز سائز
110 سوال اور جواب

۱۱۰ سوال اور جواب

مؤلف:
اردو

1

2

3

۵۹ ۔ معاد؛ جسمانی ہے یا روحانی؟

معادِ جسمانی سے مراد یہ نہیں ہے کہ روز قیامت صرف جسم دوبارہ لوٹایا جائے گا، بلکہ مراد یہ ہے کہ روح اور جسم دونوں حاضر کئے جائیں گے، یا دوسرے الفاظ میں یہ کہا جائے کہ روح کا پلٹنا تو مسلم ہے صرف جسم کے بارے میں اختلاف اور بحث ہے۔

بعض گزشتہ فلاسفہ ”معاد روحانی“ پر عقیدہ رکھتے تھے ، اور جسم کو ایسی سواری مانتے تھے جو صرف اس دنیا میں انسان کے ساتھ ہے، اور انسان مرنے کے بعد اس جسم سے بے نیاز ہوجاتا ہے، جسم کو ترک کردیتا ہے اور ”عالم ارواح“ کی طرف کوچ کرجاتا ہے۔

لیکن عظیم علمائے اسلام کا عقیدہ یہ ہے کہ معاد؛ روحانی اور جسمانی دونوں پہلووں کے ساتھ ہوگی، اگر چہ بعض حضرات اس دنیوی جسم کے قائل نہیں ہیں بلکہ کہتے ہیں کہ خداوندعالم ہماری روح کو ایک جسم عطا کرے گا، کیونکہ انسان کی حقیقت اس کی روح ہوتی ہے اور یہ عطا کردہ جسم اس کا جسم شمار کیا جائے گا!

جبکہ صاحبان تحقیق کا عقیدہ یہ ہے کہ یہی جسم جو خاک میں مل کر ذرہ ذرہ ہوگیا، حکم خدا سے اس جسم کے تمام ذرات جمع ہوجائیں گے اور اس کو ایک نئی زندگی کا لباس پہنایا جائے گا، اور یہی وہ عقیدہ ہے جو قرآن مجید کی آیات سے حاصل کیا گیا ہے۔

معاد جسمانی پر قرآن مجید میں اس قدر شواہد موجود ہیں کہ یقینی طور پر کہا جاسکتا ہے: جو افراد صرف ”معاد روحانی“ کے قائل ہوئے ہیں انھوں نے قرآن مجید کی اکثر آیات میں ذرا بھی غور و فکر نہیں کیا ہے ورنہ معاد جسمانی کے سلسلہ میں قرآن مجید میں اتنی زیادہ آیات موجود ہیں کہ شک و شبہ کی ذرا بھی گنجائش نہیں رہتی۔

سورہ یٰس کی آخری آیات اس حقیقت کو مکمل طور پر واضح کردیتی ہیں کیونکہ اس اعرابی شخص کو تعجب اسی بات پر تھا کہ میرے ہاتھ میں موجود اس گلی ہوئی ہڈی کو کون دوبارہ زندہ کرسکتا ہے؟

قرآن مجید نے اس کے جواب میں واضح طور یہ اعلان کیا:( قُلْ یُحْیِیهَا الَّذِی اٴَنشَاٴَهَا اٴَوَّلَ مَرَّةٍ ) (۱)

آپ کہہ دیجئے کہ جس نے پہلی مرتبہ پیدا کیا ہے وہی زندہ بھی کرے گا“۔

معاد کے سلسلہ میں تمام مشرکین کو اس بات پر تعجب تھا کہ جب ہم خاک ہوجائیں گے اور ہمارے ذرات بھی ادھر اُدھرخاک میں پھیل جائیں گے تو پھر ہمیں کس طرح دوبارہ زندہ کیا جاسکتا ہے؟!! جیسا کہ انھیں کی زبانی قرآن مجید نے نقل کیا ہے:( وَقَالُوا ءِ ا ذَا ضَلَلْنَا فِی الْاٴَرْضِ ءَ اِنَّا لَفِی خَلْقٍ جَدِیدٍ ) (۲)

اور یہ کہتے ہیں کہ اگر ہم زمین میں گم ہوگئے تو کیا نئی خلقت میں پھر ظاہر کئے جائیں گے!!“۔

یہ لوگ کہتے تھے:( اٴَیَعِدُکُمْ اٴَنَّکُمْ إِذَا مِتُّمْ وَکُنتُمْ تُرَابًا وَعِظَامًا اٴَنَّکُمْ مُخْرَجُونَ ) (۳)

” کیا یہ تم سے اس بات کا وعدہ کرتا ہے کہ جب تم مرجاؤ گے اور خاک اور ہڈی ہوجاؤگے تو پھر دوبارہ نکالے جاؤگے“۔

کفار و مشرکین روز قیامت کے سلسلہ میں اس قدر تعجب کرتے تھے کہ اس مسئلہ کے قائل (پیغمبر اکرم (ص)) کو مجنون یا خدا پر بہتان باند ھنے والا سمجھتے تھے، جیسا کہ قرآن میں انھیں لوگوں کی زبانی نقل ہواہے:( وَقَالَ الَّذِینَ کَفَرُوا هَلْ نَدُلُّکُمْ عَلَی رَجُلٍ یُنَبِّئُکُمْ إِذَا مُزِّقْتُمْ کُلَّ مُمَزَّقٍ إِنَّکُمْ لَفِی خَلْقٍ جَدِیدٍ ) (۴)

ور جن لوگوں نے کفر اختیار کیا ان کا کہنا ہے کہ ہم تمہیں ایسے آدمی کا پتہ بتائیں جو یہ خبر دیتا ہے کہ جب تم مرنے کے بعد ٹکڑے ٹکڑے ہوجاؤ گے تو تمہیں نئے بھیس میں لایا جائے گا“، اسی دلیل کی وجہ سے ”معاد کے سلسلہ میں قرآنی دلائل“ اسی ”معاد جسمانی“ پرزور دیتے ہیں، اس کے علاوہ قرآن مجید نے بارہا اس بات کی یاد دہانی کرائی ہے کہ تم لوگ روز قیامت اپنی قبروں سے نکلو گے، (سورہ یٰس، آیت نمبر ۵ ، سورہ قمر ، آیت نمبر ۷)” قبریں “ اسی معاد جسمانی سے تعلق رکھتی ہیں۔

قرآن مجید میں جنت کے بہت سے معنوی اور مادی صفات بیان کئے گئے ہیں، جو سب اس بات کی طرف اشارہ کرتے ہیں کہ قیامت کے دن جسم کو بھی حاضر کیا جائے اور روح کو بھی، ورنہ نعمتوں کے ساتھ ساتھ حور و غلمان ، قصر و محل، بہشتی غذائیں اور مادی لذتیں کیا معنی رکھتی ہیں؟!

بہر حال یہ بات ممکن ہی نہیں ہے کہ کوئی قرآن مجید کی منطق اور ثقافت سے تھوڑی بہت آشنائی رکھتا ہو اور معادِ جسمانی کا انکار کرے، یا دوسرے الفاظ میں یوں کہیں کہ قرآنی نظریہ کے لحاظ سے معادِ جسمانی کا انکار خود اصل معاد کے انکار کے برابر ہے! اس سلسلہ میں قرآن و حدیث میں بیان شدہ دلائل کے علاوہ خود عقلی دلائل بھی موجود ہیں کہ اگر ان کو بیان کرنا چاہیں تو بحث طولانی ہوجائے گی، البتہ ہم یہاں پرمعاد جسمانی کے سلسلہ میں ہونے والے سوالات اور اعتراضات کو بیان کرتے ہیں جیسے ”شبہ آکل و ماکول “وغیرہ جن کو اسلامی محققین نے بیان کیا ہے۔(۵)

____________________

(۱) سورہ یٰس ، آیت ۷۹

(۲)سورہ الم سجدہ ، آیت ۱۰

(۳)سورہ مومنون ، آیت ۳۵

(۴) سورہ سباء ، آیت ۷ (۵) تفسیر نمونہ ، جلد ۱۸، صفحہ ۴۸۷

۶۰ ۔ شبہ آکل و ماکول کیا ہے؟

ہت سے مفسرین اور مورخین نے درج ذیل آیت کے ذیل میں حضرت ابراہیم علیہ السلام کا یہ واقعہ لکھا ہے:

( وَإِذْ قَالَ إِبْرَاهِیمُ رَبِّ اٴَرِنِی کَیْفَ تُحْیِ الْمَوْتَی ) (۱)

” اور اس موقع کو یاد کرو جب ابراہیم نے التجا کی کہ پروردگار! مجھے یہ دکھادے کہ تو مردوں کو کس طرح زندہ کرتا ہے“۔

ایک دن حضرت ابراہیم دریا کے کنارے سے گزر رہے تھے،آپ نے دریا کے کنارے ایک مردار دیکھا، جس کا کچھ حصہ دریا کے اندر اور کچھ باہر تھا، دریا اور خشکی کے جانور دونوں طرف سے کھارہے تھے، بلکہ کھاتے کھاتے ایک دوسرے سے لڑ رہے تھے، اس منظر نے حضرت ابراہیم کو ایک ایسے مسئلہ کی فکر میں ڈال دیا جس کی کیفیت کو سب ہی تفصیل سے جاننا چاہتے ہیں اور وہ ہے موت کے بعد مردوں کا زندہ ہونے کی کیفیت، جناب ابراہیم سوچنے لگے کہ اگر ایسا ہی انسانی جسم کے ساتھ ہو اور انسان کا بدن جانوروں کے بدن کا جز بن جائے تو اس کو قیامت میں کیسے اٹھایا جائے گا، جبکہ وہاں انسان کو اسی بدن کے ساتھ اٹھنا ہے!

حضرت ابراہیم نے کہا: پروردگارا! مجھے دکھا کہ تو مردوں کوکیسے زندہ کرے گا؟ خداوندعالم نے فرمایا: کیا تم اس بات پر ایمان نہیں رکھتے، انھوں نے کہا: ایمان تو رکھتا ہوں لیکن چاہتا ہوں کہ دل کو تسلی ہوجائے۔

خداوندعالم نے حکم دیا کہ چار پرندے لے لو اور ان کو ذبح کرکے ان کا گوشت ایک دوسرے سے ملادو پھر اس سارے گوشت کے کئی حصہ کردو ہر حصہ ایک پہاڑ پر رکھ دو،اس کے بعد ان پرندوں کو پکارو تاکہ میدان حشر کا منظر دیکھ سکو، انھوں نے ایسا ہی کیا تو انتہائی حیرت کے ساتھ دیکھا کہ پرندوں کے اجزا مختلف مقامات سے جمع ہوکر ان کے پاس آگئے اور ان کی ایک نئی زندگی کا آغاز ہوگیا۔

شبہ آکل و ماکول

مردوں کے زندہ ہونے کے منظر کا مشاہدہ کرنے کا تقاضا حضرت ابراہیم نے جس وجہ سے کیا تھا اس کی تفصیل بیان ہوچکی ہے ، جس سے معلوم ہوتا ہے کہ حضرت ابراہیم علیہ السلام کا تقاضا زیادہ تر اس وجہ سے تھا کہ ایک جانور کا بدن دوسرے جانوروں کے بدن کا جز بننے کے بعد وہ اپنی اصلی صورت میں کیسے پلٹ سکتا ہے، علم عقائد میں اسی بحث کو ”شبہ آکل و ماکول “ کہا جاتا ہے۔

اس کی وضاحت یہ ہے کہ قیامت میں خدا انسان کو اسی مادی جسم کے ساتھ پلٹائے گا اصطلاحی الفاظ میں کہا جاسکتا ہے کہ جسم اور روح دونوں پلٹ آئیں گے۔

اس صورت میں یہ اشکال پیش آتا ہے کہ اگر ایک انسان کا بدن خاک ہوجائے اور درختوں کی جڑوں کے ذریعہ کسی سبزی یا پھل کا جز بن جائے تو پھر کوئی دوسرا انسان اسے کھالے اور اب یہ اس کے بدن کا جز بن جائے ،یا مثال کے طور پر قحط سالی میں ایک دوسرے انسان کا گوشت کھالے تو میدان حشر میں کھائے ہوئے اجزا ان دونوں میں سے کس بدن کے جز بنیں گے، اگر پہلے بدن کا جزبنیں تو دوسرا بدن ناقص اور دوسرے کا بنیں تو پہلا ناقص رہ جائے گا۔

(جواب)

فلاسفہ اور علم عقائد کے علمانے اس قدیم اعتراض کے مختلف جوابات دئے ہیں یہاں پر سب کے بارے میں گفتگو کرنا ضروری نہیں ہے، بعض علماایسے بھی ہیں جو قابل اطمینان جواب نہیں دے سکے اس لئے انھیں معادِ جسمانی سے متعلق آیات کی توجیہ و تاویل کرنا پڑی اور انھوں نے انسان کی شخصیت کو روح اور روحانی صفات میں منحصر کردیا، حالانکہ انسانی شخصیت صرف روح پر منحصر نہیں ہے اور نہ ہی معاد جسمانی سے متعلق آیات ایسی ہیں کہ ان کی تاویل کی جاسکے، بلکہ جیسا کہ ہم پہلے بیان کرچکے ہیں کہ وہ کاملاً صریح آیات ہیں۔

بعض لوگ ایک ایسی معاد کے بھی قائل ہیں جو ظاہراً جسمانی ہے لیکن معاد روحانی سے اس کا کوئی خاص فرق بھی نہیں ہے۔

ہم یہاں قرآن کی آیات کے ذریعہ ایک ایسا واضح راستہ اختیار کریں گے جو دورِ حاضر کے علوم کی نظر میں بھی صحیح ہے البتہ اس کی وضاحت کے لئے چند پہلووں پر غور و فکر کرنے کی ضرورت ہے۔

۱ ۔ ہم جانتے ہیں کہ انسانی بدن کے اجزا بچپن سے لے کر موت تک بارہا بدلتے رہتے ہیں یہاں تک کہ دماغ کے خلیے اگرچہ تعداد کے لحاظ سے کم یا زیادہ نہیں ہوتے پھر بھی اجزا کے لحاظ سے بدلتے رہتے ہیں کیونکہ ایک طرف سے وہ غذا حاصل کرتے ہیں اور دوسری طرف ان کی تحلیل ہوتی رہتی ہے اور وقت کے ساتھ ایک مکمل تبدیلی واقع ہوجاتی ہے۔

خلاصہ یہ کہ دس سال سے کم عرصے میں انسانی بدن کے گزشتہ ذرات میں سے کچھ باقی نہیں رہ جاتا، لیکن توجہ رہے کہ پہلے ذرات جب موت کی وادی کی طرف روانہ ہوتے ہیں تو اپنے تمام خواص اور آثار نئے اور تازہ خلیوں کے سپرد کرجاتے ہیں، یہی وجہ ہے کہ انسانی جسم کے تمام خصوصیات رنگ، شکل اور قیافہ سے لے کر دیگر جسمانی کیفیات تک زمانہ گزرنے کے باوجود اپنی جگہ قائم رہتی ہیں اور اس کی وجہ یہی ہے کہ پرانے صفات نئے خلیوں میں منتقل ہوجاتے ہیں(غور کیجئے)

اس بنا پر ہر انسان کے بدن کے آخری اجزا جو موت کے بعد خاک میں تبدیل ہوجاتے ہیں وہ سب ان صفات کے حامل ہوتے ہیں جو اس نے پوری عمر میں کسب کئے ہیں اور یہ صفات انسانی جسم کی تمام عمر کی سرگزشت کی بولتی ہوئی تاریخ ہوتی ہیں۔

۲ ۔یہ صحیح ہے کہ انسانی شخصیت کی بنیاد روح سے ہوتی ہے لیکن توجہ رہنا چاہئے کہ روح کی پرورش جسم کے ساتھ ہوتی ہے اور جسم کے ساتھ ہی روح تکامل و ارتقا کی منزل طے کرتی ہے اور دونوں ایک دوسرے پر اثر انداز ہوتے ہیں، اسی لئے ایک جیسے دو جسم تمام جہات سے ایک دوسرے سے شباہت نہیں رکھتے، دو روحیں بھی تمام پہلووں سے ایک دوسرے سے مشابہ نہیں ہوتی ہیں۔

اسی بنا پر کوئی روح اس جسم کی مکمل اور وسیع مفاہمت اور کارکردگی کے بغیر باقی نہیں رہ سکتی جس کے ساتھ اس نے پرورش پائی ہو اور تکامل و ارتقاء حاصل کیا ہو لہٰذا ضروری ہے کہ قیامت میں وہی سابق جسم لوٹ آئے، تاکہ اس سے وابستہ ہوکر روح عالی ترین مرحلے میں نئے سرے سے اپنی فعالیت کا آغاز کرے اور اپنے انجام دئے ہوئے اعمال کے نتائج سے فیضیاب ہو۔

۳ ۔ انسانی بدن کا ہر روز اس کے تمام جسمانی مشخصات کا حامل ہوتا ہے یعنی اگر واقعاً ہم بدن کے ہر خلیے کی پرورش کرکے اُسے ایک مکمل انسان بنالیں تو وہ انسان اس شخص کے تمام صفات کا حامل ہوگا جس کا جز لیا گیا تھا ۔ (یہ امر بھی قابل غور رہے)

پہلے دن انسان ایک خلیے سے زیادہ نہ تھا پہلے نطفہ ،خلیہ تھا، اسی میں انسان کی تمام صفات موجود تھیں، تدریجاً وہ تقسیم ہوا اور دو خلیے بن گئے پھر دو سے چار ہوئے اور رفتہ رفتہ انسانی بدن کے تمام خلیے وجود میں آگئے اسی بنا پر انسانی جسم کے تمام خلیے پہلے خلیے کی طرح ہیں اگر ان کی بھی پہلے خلیے کی طرح پرورش ہو تو ہر ایک ہر لحاظ سے ایک پورا انسان ہوگا جو بعینہ پہلے خلیے سے وجود میں آنے والے انسان کی سی صفات کا حامل ہوگا۔

ان مذکو رہ تین مقدمات کو سامنے رکھتے ہوئے اب ہم اصل اعتراض کا جواب پیش کرتے ہیں:

قرآنی آیات صا ف طور پرکہتی ہیں کہ آخری ذرات جو موت کے وقت انسانی بدن میں ہوتے ہیں قیامت کے دن انسان انہی کے ساتھ اٹھایا جائے گا۔(۱)

اس بنا پر اگر کسی دوسرے انسان نے کسی کا گوشت کھایا ہو تووہ اجزا اس کے بدن سے خارج ہوکر اصلی شخص کے بدن میں پلٹ آئیں گے، اب یہاں پر یہ سوال رہ جاتا ہے کہ پھر دوسرے کا بدن تو ضرور ناقص رہ جائے گا لیکن حقیقت یہ ہے کہ وہ ناقص نہیں ہوگا، بلکہ چھوٹا ہوجائے گا کیونکہ اس کے اجزا بدن سارے جسم میں پھیلے ہوئے ہیں اب جب وہ اس سے لے لئے جائیں گے تو اس کی نسبت دوسرا بدن مجموعی طور پر لاغر اور چھوٹا ہوجائے گا، مثال کے طور پرایک انسان کا وزن ساٹھ کلو ہے اس میں سے چالیس کلو دوسرے کے بدن کا حصہ لے لیا گیا تو باقی بیس کلو کا چھوٹا سا بدن رہ جائے گا۔

لیکن سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ اس طرح کوئی مشکل تو پیدا نہیں ہوگی؟ جواب : یقینا کوئی مشکل پیش نہیں آئے گی کیونکہ یہ چھوٹا سا بدن بلا کمی و زیادتی دوسرے شخص کی تمام صفات کا حامل ہے، روز قیامت ایک چھوٹے بچے کی طرح اس کی پرورش ہوگی اور وہ بڑا ہوکر مکمل انسان کی شکل میں محشور ہوگا، حشر و نشر کے موقع پر ایسی پرورش و تکامل اور ارتقاء میں عقلی اور نقلی طور پر کوئی اعتراض نہیں ہے۔

یہ پرورش محشور ہوتے وقت فوری ہوگی یا تدریجی؟ یہ ہمارے لئے واضح نہیں ہے لیکن ہم اتنا جانتے ہیں کہ جو بھی صورت ہو اس سے کوئی اعتراض پیدا نہیں ہوسکتا، اور دونوں صورتوں میں مسئلہ حل ہے۔

۱ ان آیات کا مطالعہ کیجئے کہ جن میں فرمایا گیا ہے کہ لوگ اپنی قبروں سے زندہ اٹھیں گے

اب یہاں پر ایک یہ سوال باقی رہ جاتا ہے کہ اگر کسی شخص کا سارا جسم دوسرے شخص کے اجزا سے تشکیل پایا ہو تو اس صورت میں کیا ہوگا؟

اس سوال کا جواب بھی واضح ہے کہ اصولی طور پر ایسا ہونا محال ہے کیونکہ مسئلہ آکل و ماکول کی بنیاد یہ ہے کہ ایک بدن پہلے موجود ہو اور وہ دوسرے بدن سے کھائے اور یوں پرورش پائے، لہٰذا یہ ممکن ہی نہیں ہے کہ کسی بدن کے تمام اجزا دوسرے بدن سے تشکیل پائیں ، پہلے ایک بدن فرض کرنا ہوگا جو دوسرے بدن کو کھائے، اس طرح دوسرے بدن کا جز بنے گا نہ کل۔ (غور کیجئے )

ہمارے بیان سے واضح ہوجاتا ہے کہ ایسے بدن سے معادِ جسمانی کے مسئلہ پر کوئی اعتراض پیدا نہیں ہوتا اور جن آیات میں اس مفہوم کی صراحت کی گئی ہے ان کی کوئی توجیہ کرنے کی ضرورت نہیں ہے۔(۲)

____________________

(۱)سورہ بقرہ ، آیت ۲۶۰(۲) تفسیر نمونہ ، جلد ۲، صفحہ ۲۲۳

۱۶ ۔ بدا ء کیا ہے؟

جیسا کہ ہم قرآن کریم میں پڑھتے ہیں:( یَمْحُوا اللهُ مَا یَشَاءُ وَیُثْبِتُ وَعِنْدَهُ اٴُمُّ الْکِتَابِ ) (۱)

”اللہ جس چیز کو چاہتا ہے مٹا دیتا ہے یا برقرار رکھتا ہے کہ اصل کتاب اسی کے پاس ہے“۔

مذکورہ بالا آیت کے ذیل میں یہ سوال پیدا ہوتا ہے کہ خداوندعالم کے سلسلہ میں ”بداء“ سے کیا مراد ہے؟

”بداء“ کا مسئلہ شیعہ و سنی علماکے درمیان ہونے والی معرکة الآراء بحثوں میں ایک اہم بحث ہے، چنانچہ علامہ فخر الدین رازی اپنی تفسیر میں محل بحث آیت کے ذیل میں کہتے ہیں: ”شیعہ ؛خداوندعالم کے لئے ”بداء“ کو جائز مانتے ہیں، اور ان کے نزدیک بداء کی حقیقت یہ ہے کہ جیسے کوئی شخص کسی چیز کا معتقد ہوجائے لیکن اس کے بعد معلوم ہو کہ وہ چیزاس کے عقیدہ کے برخلاف ہے اور پھر اس سے پھر جائے، اور شیعہ لوگ اپنے اس عقیدہ کو ثابت کرنے کے لئے آیہ مبارکہ( یَمْحُوا اللهُ مَا یَشَاءُ وَیُثْبِتُ وَعِنْدَهُ اٴُمُّ الْکِتَابِ ) سے استدلال کرتے ہیں، اس کے بعد فخر رازی مزید کہتے ہیں کہ یہ عقیدہ باطل اور بے بنیاد ہے، کیونکہ خداوندعالم کا علم ذاتی ہے جس میں تغیر و تبدیلی محال ہے“۔

افسوس کی بات ہے کہ ”بداء“ کے سلسلہ میں شیعوں کے عقیدہ سے مطلع نہ ہونا اس بات کا سبب بنا کہ بہت سے برادران اہل سنت، شیعہ حضرات پر اس طرح کی ناروا تہمتیں لگائیں!

وضاحت: لغت میں ”بداء“ کے معنی واضح یا آشکار ہونے کے ہیں، البتہ پشیمان ہونے کے معنی میں بھی آیا ہے، کیونکہ جو شخص پشیمان ہوتا ہے اس کے لئے کوئی نئی بات سامنے آتی ہے (تب ہی وہ گزشتہ بات پر پشیمان ہوتا ہے)

اس میں کوئی شک نہیں ہے کہ ان معنی میں ”بداء“ خداوندعالم کے بارے میں صحیح نہیں ہے، اور کوئی بھی عاقل انسان خدا کے بارے میں یہ احتمال نہیں دے سکتا کہ اس سے کوئی چیز مخفی اور پوشیدہ ہو، اور ایک مدت گزرنے کے بعد خدا کے لئے وہ چیز واضح ہوجائے، اصولاً یہ چیز کھلا ہوا کفر اور خدا کے بارے میں بہت بُری بات ہے، کیونکہ اس سے خداوندعالم کی ذات پاک کی طرف جہل و نادانی کی نسبت دینا اور اس کی ذات اقدس کو محل تغیر و حوادث ماننا لازم آتاہے، لہٰذا ہر گزایسا نہیں ہے کہ شیعہ اثنا عشری خداوندعالم کی ذات مقدس کے بارے میں اس طرح کا عقیدہ رکھتے ہوں۔

”بداء“ کے سلسلہ میں شیعوں کا جو عقیدہ ہے اور جس بات پر وہ زور دیتے ہیں وہ یہ ہے جیسا کہ اہل بیت علیہم السلام کی احادیث میں بیان ہوا ہے :”مَاعَرفَ اللهُ حَقّ معرفتِہ مَنْ لَمْ یعرفہُ بِالبداءِ“ (جو شخص خدا کو ”بداء“ کے ذریعہ سے نہ پہچانے اس نے خدا کو صحیح طریقہ سے نہیں پہچانا) چنانچہ ”بداء“ کے سلسلہ میں اس حدیث کے مطابق شیعوں کا یہی عقیدہ ہے:

اکثر اوقات ایسا ہوتا ہے کہ ظاہری اسباب و علل کے پیش نظر ہم کو یہ احساس ہوتا ہے کہ کوئی واقعہ پیش آنے والا ہے، یا خداوندعالم نے کسی واقعہ کے بارے میں اپنے نبی یا رسول کے ذریعہ آگاہ فرمایا دیا تھا لیکن بعد میں وہ واقعہ پیش نہیں آیاتو، ایسے موقع پر ہم کہتے ہیں کہ ”بداء“ حاصل ہوا، یعنی جیسا کہ ظاہری اسباب و علل کے لحاظ سے کسی واقعہ کے بارے میں احساس کررہے تھے اور اس واقعہ کے وقوع کو لازمی اور ضروری سمجھ رہے تھے ایسا نہ ہو بلکہ اس کے خلاف ظاہر ہو۔

اس کی اصلی علت یہ ہے کہ کبھی کبھی ہمیں صرف علت ناقصہ کا علم ہوتا ہے، اور ہم اس کے شرائط و موانع کو نہیں دیکھ پاتے، اسی لحاظ سے فیصلہ کربیٹھتے ہیں، بعد میں اس کی شرط حاصل نہ ہو یا کوئی مانع اور رکاوٹ پیش آجائے اور ہمارے فیصلہ کے برخلاف مسئلہ پیش آئے تو اس طرح کے مسائل کی طرف متوجہ ہوتے ہیں۔

اسی طرح بعض اوقات پیغمبر یا امام ”لوح محو و اثبات“ سے مطلع ہوتے ہیں جوطبیعی طور پر قابل تغیر و تبدل ہے ، اور کبھی بعض موانع کی بناپریا شرط کے نہ ہونے سے وہ واقعہ پیش نہیں آتا۔

اس حقیقت کو واضح کرنے کے لئے ہم ”نسخ“ اور ”بداء“ کے درمیان ایک موازنہ کرتے ہیں: ہم اس بات کو جانتے ہیں کہ ”نسخِ احکام “ تمام مسلمانوں کی نظر میں جائز ہے، یعنی یہ بات ممکن ہے کہ کوئی حکم گزشتہ شریعت میں نازل ہوا ہو اور لوگوں کو بھی اس بات کا یقین ہو کہ یہ حکم ہمیشہ باقی رہے گا لیکن ایک مدت کے بعد پیغمبر اکرم (ص)کے ذریعہ وہ حکم منسوخ ہوجائے ، اور اس کی جگہ کوئی دوسرا حکم آجائے، (جیسا کہ تفسیر، فقہ اور تاریخی کتابوں میں ”تحویل وتبدیل قبلہ“ کا واقعہ موجود ہے)۔

در اصل یہ (نسخ) بھی ایک قسم کا ”بداء“ ہے، لیکن تشریعی امورمیں، قوانین اورا حکام میں ”نسخ“ کہا جاتا ہے، جبکہ تکوینی امورمیں اسی کو ”بداء“ کہا جاتا ہے۔

اسی وجہ سے بعض اوقات کہا جاتا ہے: ”احکام میں نسخ ایک قسم کا ”بداء“ ہے، اور تکوینی امورمیں”بداء“ ایک قسم کا نسخ ہے“۔

کیا کوئی اس منطقی بات کا انکار کرسکتا ہے؟ صرف وہی اس بات کا انکار کرسکتا ہے جو علت تامہ اور علت ناقصہ کو صحیح طور پر سمجھ نہ سکے، یا شیعہ مخالف گروپ کے غلط پروپیگنڈے سے متاثر ہو ، اور اس کا تعصب اس حد تک بڑھ چکا ہو کہ شیعہ عقائد کے سلسلہ میں شیعہ کتابوں کا مطالعہ نہ کرسکے، تعجب کی بات یہ ہے کہ فخر رازی نے( یَمْحُوا اللهُ مَا یَشَاءُ وَیُثْبِتُ وَعِنْدَهُ اٴُمُّ الْکِتَابِ ) کے ذیل میں بداء کے مسئلہ کو بیان کیا ہے لیکن اس بات پر ذرا بھی توجہ نہیں وی کہ بداء ”محو و اثبات“ کے علاوہ کوئی دوسری چیز نہیں ہے، اپنے مخصوص تعصب کی بنا پر شیعوں کونشانہ بنایا ہے کہ شیعہ کیوں ”بداء“ کے قائل ہیں؟

(قارئین کرام!) آپ حضرات کی اجازت سے ہم چند ایسے نمونہ بیان کرتے ہیں جن کوسبھی نے قبول کیا ہے۔

۱ ۔ ہم جناب یونس علیہ السلام کے واقعہ میں پڑھتے ہیں کہ آپ کی قوم کی نافرمانی کی وجہ سے عذاب الٰہی طے ہوگیا، اور جناب یونس علیہ السلام جو اپنی قوم کو قابل ہدایت نہیں جانتے تھے اور ان کو مستحق عذاب جانتے تھے لہٰذا وہ بھی ان کو چھوڑ کر چلے گئے، لیکن اچانک (بداء واقع ہوا) اس قوم کی ایک بزرگ شخصیت نے عذاب الٰہی کے آثار دیکھے تو اپنی قوم کو جمع کیا اور ان کو توبہ کی دعوت دی، سب لوگوں نے توبہ کرلی، ادھر عذاب الٰہی کے جو آثار ظاہر ہوچکے تھے ختم ہوگئے جیسا کہ قرآن مجید میں ارشاد ہے:

( فَلَوْلاَکَانَتْ قَرْیَةٌ آمَنَتْ فَنَفَعَهَا إِیمَانُهَا إِلاَّ قَوْمَ یُونُسَ لَمَّا آمَنُوا کَشَفْنَا عَنْهُمْ عَذَابَ الْخِزْیِ فِی الْحَیَاةِ الدُّنْیَا وَمَتَّعْنَاهُمْ إِلَی حِینٍ ) (۲)

”پس کوئی بستی ایسی کیوں نہیںہے جو ایمان لے آئے اور اس کا ایمان اسے فائدہ پہنچائے ،علاوہ قوم یونس کے کہ جب وہ ایمان لے آئی تو ہم نے ان سے زندگانی دنیا میں رسوائی کا عذاب دفع کردیا اور انھیں ایک مدت تک سکون سے رہنے دیا“۔

۲ ۔ اسلامی تواریخ میں بیان ہوا ہے کہ حضرت عیسیٰ علیہ السلام نے ایک دلہن کے بارے میں خبر دی تھی کہ وہ شبِ وصال ہی مرجائے گی لیکن حضرت عیسیٰ علیہ السلام کی پیشین گوئی کے برخلاف وہ دلہن زندہ رہی! جس وقت اس سے تفصیل معلوم کی اور سوال کیا: کیا تو نے راہ خدا میں صدقہ دیا ہے؟ تو اس نے کہا: ہاں، میں نے صدقہ دیا تھا، تو حضرت عیسیٰ علیہ السلام نے فرمایا: صدقہ، یقینی بلاؤں کو بھی دور کردیتا ہے!(۳)

در اصل حضرت عیسیٰ علیہ السلام لوح محفوظ سے باخبر تھے جس کی بنا پر انھوں نے اس واقعہ کی خبر دی تھی، جبکہ یہ واقعہ اس شرط پر موقوف تھا (کہ اس راہ میں کوئی مانع پیش نہ آئے مثال کے طور پر”صدقہ“) لیکن جیسے ہی اس راہ میں مانع پیش آگیا تو فوراً نتیجہ بھی بدل گیا۔

۳ ۔ہم حضرت ابراہیم علیہ السلام بت شکن بہادر کے واقعہ کو قرآن میں پڑھتے ہیں کہ انھیں اسماعیل کو ذبح کرنے کا حکم دیا گیا، لہٰذا وہ اس حکم کی تعمیل کے لئے اپنے فرزند ارجمند کو قربانگاہ میں لے گئے، لیکن جب حضرت ابراہیم علیہ السلام کی مکمل تیاری واضح ہوگئی تو ”بداء“ ہوگیا، اور یہ بات واضح ہوگئی کہ یہ ایک امتحانی حکم تھا، تاکہ جناب ابراہیم علیہ السلام اور ان کے فزرند ارجمند کی اطاعت و تسلیم کی حد کو آزمایا جاسکے۔

۴ ۔ حضرت موسیٰ علیہ السلام کے واقعہ میں بھی بیان ہوا ہے کہ پہلے انھیں حکم دیا گیا کہ تیس دن تک کے لئے اپنی قوم کوچھوڑ دیں اور احکام توریت حاصل کرنے کے لئے الٰہی وعدہ گاہ پر جائیں، لیکن بعد میں اس مدت میں دس دن کا اور اضافہ کیا (تاکہ بنی اسرائیل کی آزمائش ہوسکے)

(قارئین کرام!) یہاں پر یہ سوال سامنے آتا ہے کہ ”بداء“ کا فائدہ کیا ہے؟

اس سوال کا جواب گزشتہ مطالب کے پیش نظر کوئی مشکل کام نہیں ہے، کیونکہ کبھی کبھی اہم مسائل جیسے کسی شخص یا قوم و ملت کا امتحان، یا توبہ و استغفار کی تاثیر(جیسا کہ حضرت یونس علیہ السلام کے واقعہ میں بیان ہوا ہے) یا صدقہ ، غریبوں کی مدد کرنا یا نیک کام انجام دینا یہ سب خطرناک واقعات کو برطرف کرنے میں موثر ہوتے ہیں ، یہ امور باعث بنتے ہیں کہ آئندہ کے وہ حادثات جو

پہلے دوسرے طریقہ سے طے ہوتے ہیں لیکن بعد میں خاص شرائط کے تحت ان کو بدل دیا جاتا ہے تاکہ عام لوگوں کو یہ معلوم ہوجائے کہ ان کی زندگی کے حالات ان کے ہاتھوں میں ہے، اور اپنے چال چلن اور راہ و روش کو تبدیل کرکے اپنی زندگی کے حالات بدل سکتے ہیں، اور یہی ”بداء“ کا سب سے بڑا فائدہ ہے (غور کیجئے )

جیسا کہ ہم نے گزشتہ حدیث میں پڑھا ہے کہ ”جو شخص خدا کو ”بداء“ کے ذریعہ سے نہ پہچانے اس نے خدا کو صحیح طریقہ سے نہیں پہچانا“ اس حدیث میں انھیں حقائق کی طرف اشارہ ہے۔

لہٰذا حضرت امام صادق علیہ السلام کی ایک حدیث میں وارد ہوا ہے کہ آپ نے فرمایا:

مَا بَعَثَ اللهعزَّ وَجَلَّ نَبِیًّا حَتّٰی یاٴخذ ُعلَیهِ ثلاثُ خِصَالٍ، الإقرار بالعبودیة، وَخلع الاٴنداد ،وإنَّ الله یقدِّم مَا یَشاءُ وَیوخِّرُ مَا یشاءُ(۴)

”خداوندعالم نے کسی نبی یا پیغمبر کو نہیں بھیجا مگر یہ کہ ان سے تین چیزوں کے بارے میں عہد و پیمان لیا: خداوندعالم کی بندگی کا اقرار، ہر طرح کے شرک کی نفی، اور یہ کہ خداوندعالم جس چیز کو چاہے مقدم و موخر کرے“۔

در اصل سب سے پہلا عہد و پیمان خداوندعالم کی اطاعت اور اس کے سامنے تسلیم رہنے سے متعلق ہے، اور دوسرا عہد و پیمان شرک سے مقابلہ ہے اور تیسرا عہد و پیمان ”بداء“ سے متعلق ہے، جس کا نتیجہ یہ ہے کہ انسان کی سرگزشت خود اپنے ہاتھوں میں ہوتی ہے یعنی اگرانسان اپنی زندگی کے حالات اور شرائط کو بدل دے تو اس پر یا رحمت خدا نازل ہوتی ہے یا وہ عذاب الٰہی سے دوچار ہوتا ہے۔

(قارئین کرام!) آخر کلام میں عرض کیا جائے، گزشتہ وجوہات کی بنا پر علمائے شیعہ کہتے ہیں کہ جس ”بداء“کی نسبت خداوندعالم کی طرف دی جاتی ہے تو اس کے معنی ”ابداء“ کے ہیں یعنی کسی

چیز کو واضح اور ظاہر کرنا جو کہ پہلے ظاہر نہیں تھی اور اس کے بارے میں پیشین گوئی نہیں کی گئی تھی۔

لیکن شیعوں کی طرف یہ نسبت دینا کہ ان لوگوں کا عقیدہ ہے کہ خدا کبھی کبھی اپنے کاموں پر پشیمان اور شرمندہ ہوجاتا ہے یا بعد میں ایسی چیز سے باخبر ہوتا ہے جو پہلے معلوم نہ ہو، تو یہ سب سے بڑا ظلم و خیانت ہے اور ایک ایسی تہمت ہے جس کو کبھی معاف نہیں کیا جاسکتا۔

اسی وجہ سے ائمہ معصومین علیہم السلام سے نقل ہوا ہے:

مَنْ زَعَمَ اٴَنَّ اللهَ عزَّ وَجَلَّ یبدو لَهُ فِی شَیءٍ لَمْ یعلمُهُ اٴمس فابرؤا منه(۵)(۶)

”جو شخص گمان کرے کہ خداوندعالم کے لئے آج وہ چیز واضح و آشکار ہوگئی ہے جو کل واضح نہیں تھی تو ایسے شخص سے نفرت اور بیزاری اختیار کرو“۔

____________________

(۱) سورہ رعد ، آیت ۳۹

(۲) سورہ یونس ، آیت ۹۸.

(۳) بحار الانوار ،، جلد ۲ ، صفحہ ۱۳۱، ۔چاپ قدیم ،از امالی شیخ صدوق.

(۴) اصول کافی ، جلد اول، صفحہ ۱۱۴، سفینة البحار ، جلد اول، صفحہ ۶۱.

(۵) سفینة البحار ، جلداول، صفحہ ۶۱.

(۶) تفسیر نمونہ ، جلد۱۰، صفحہ ۲۴۵.

۱۷ ۔ کیا اولیاء اللہ کو وسیلہ قراردینا توحید خداکے مخالف ہے؟

(قارئین کرام!) پہلے ہی یہ نکتہ عرض کردینا ضروری ہے کہ توسل سے مراد یہ نہیں ہے کہ انسان پیامبر اکرم (ص) یا ائمہ علیہم السلام سے مستقل طور پر کوئی چیز طلب کرے بلکہ توسل سے مراد یہ ہے کہ اعمال صالحہ یا پیغمبر اور امام کی اطاعت و پیروی کے ذریعہ یا ان حضرات کی شفاعت یا خداوندعالم کو ان حضرات کے عظیم مرتبہ کی قسم دے کر( جو خود ایک طرح سے ان کی عظمت اور بلندی کا احترام کرنا ہے اور ایک طرح سے خداکی عبادت ہے) خداوندعالم سے کوئی چیز مانگی جائے تو اس میں نہ کسی طرح کا کوئی شرک ہے اور نہ ہی یہ قرآنی آیات کے مخالف ہے۔

اس کے علاوہ قرآنی آیات سے واضح طور پر معلوم ہوتا ہے کہ خداوندعالم کو کسی صالح اور نیک انسان کی عظمت کا واسطہ دے کر اس سے کوئی چیز طلب کرنے میں کوئی قباحت نہیں اور توحید خدا سے بھی منافی نہیں ہے، جیسا کہ سورہ نساء میں ارشاد ہوتا ہے:( وَلَوْ اٴَنَّهُمْ إِذْ ظَلَمُوا اٴَنفُسَهُمْ جَاوکَ فَاسْتَغْفَرُوا اللهَ وَاسْتَغْفَرَ لَهُمْ الرَّسُولُ لَوَجَدُوا اللهَ تَوَّابًا رَحِیمًا ) (۱)

”اور کا ش جب ان لوگوں نے اپنے نفس پر ظلم کیا تھا تو آپ کے پاس آتے اور خود بھی اپنے گناہوں کے لئے استغفار کرتے اور رسول بھی ان کے حق میں استغفار کرتا تو یہ خدا کو بڑا ہی توبہ قبول کرنے والا اور مہربان پاتے“۔

توسل اور اسلامی روایات

توسل کے سلسلہ میں اہل سنت اور شیعہ کتابوں میں بہت سی روایات بیان ہوئی ہیں جن سے مکمل طور پر یہ بات واضح ہوجاتی ہے کہ توسل اور وسیلہ قرار دینے میں کوئی اشکال نہیں پایا جاتا، بلکہ ایک نیک کام ہے، اس سلسلہ میں بہت زیادہ روایات ہیں اور بہت سی کتابوں میں نقل بھی ہوئی ہیں، ہم نمونہ کے طور پراہل سنت کی مشہور و معروف کتابوں سے چند روایات کو نقل کرتے ہیں:

۱ ۔ مشہور ومعروف سنی عالم دین ”سمہودی“ اپنی کتاب ”وفاء الوفاء“ میں رقمطراز ہیں: پیغمبر اکرم (ص) یا آپ کی عظمت و بزرگی کے واسطہ سے خدا کی بارگاہ میں مدد طلب کرنا، شفاعت چاہنا ، آنحضرت کی خلقت سے پہلے بھی جائز تھا ،آپکی پیدائش کے بعد اور آپکی وفات کے بعد ، عالم برزخ اور روز قیامت میں بھی جائز ہے، اس کے بعد حضرت عمر بن خطاب سے روایت نقل کرتے ہیں کہ حضرت آدم علیہ السلام نے پیغمبر اکرم (ص) سے توسل کیا: جناب آدم علیہ السلام پیغمبر اکرم کی خلقت کے بارے میں علم حاصل کرنے کے بعد خداوندعالم کی بارگاہ میں اس طرح عرض کرتے ہیں:

یَا ربِّ اٴسئلُکَ بِحَقِّ مُحَمَّدٍ لِمَا غَفرتَ لِی(۲)

”پالنے والے! تجھے محمد( (ص) )کا واسطہ، تجھ سے سوال کرتا ہوں کہ مجھے معاف کردے“۔

اس کے بعد اہل سنت کے مشہور و معروف دانشوروں جیسے ”نسائی“ اور ”ترمذی“ سے ایک حدیث نقل کرتے ہیں او ر اس کو توسل کے جواز پر شاہد کے عنوان سے نقل کرتے ہیں، جس حدیث کا خلاصہ یہ ہے:ایک نابینا شخص نے پیغمبر اکرم (ص) سے اپنی بیماری کی شفاء کے لئے درخواست کی تو پیغمبر اکرم (ص) نے حکم دیا کہ اس طرح دعا کرو:

اَللَّهُمَّ إنِّی اٴسئلُکَ وَاٴتَوجَّهُ إلَیْکَ بِنَیِّکَ مُحَمَّد نَبِیِّ الرَّحمةِ یَا مُحمَّد إنِّی تَوجهتُ بِکَ إلیٰ ربّي فِی حَاجَتِی لِتقضی لِي اٴللَّهُمَّ شَفِّعْهُ فِيّ(۱)

”پالنے والے! تیرے پیغمبر رحمت کے واسطہ سے تجھ سے درخواست کرتا ہوں اور اے محمد! آپ کی طرف متوجہ ہوتا ہوں اور آپ ہی کے واسطہ سے اپنی حاجت روائی کے لئے خدا کی بارگاہ میں متوجہ ہوتا ہوں، پالنے والے! آنحضرت ( (ص)) کو میرا شفیع قرار دے“۔

اس کے بعد پیغمبراکرم (ص) کی وفات کے بعد توسل کے جواز کو ثابت کرنے کے لئے یوں بیان کرتے ہیں: حضرت عثمان کے زمانہ میں ایک حاجت مند پیغمبر اکرم (ص) کی قبر کے نزدیک آیا اور اس نے نماز پڑھی اور اس طرح دعا کرنے لگا:

اَللَّهُمَّ إنِّی اٴسئلُکَ وَاٴتَوجَّهُ إلَیْکَبِنَبِیِّنَا مُحَمَّد نَبِیِّ الرَّحمةِ یَا مُحمَّد إنِّی اٴتوجه إلیٰ رَبکَ اَنْ تَقْضي حَاجَتِي(۳)

”پالنے والے! تیری بارگاہ میں پیغمبر اکرم( (ص) )، پیغمبر رحمت کے وسیلہ سے درخواست کرتا ہوں اور تیری طرف متوجہ ہوتا ہوں، اے محمد! آپ کے وسیلہ سے خدا کی بارگاہ میں متوجہ ہوتا ہوں تاکہ میری مشکل آسان ہوجائے“۔

کچھ ہی دیر گزری تھی کہ اس کی مشکل آسان ہوگئی۔(۴)

۲ ۔ ”التوصل الی حقیقة التوسل“ کے مولف مختلف منابع و مآخذ سے ۲۶/ احادیث نقل کرتے ہیں جن سے توسل کا جائز ہونا سمجھ میں آتا ہے، اگرچہ موصوف نے ان احادیث کی سند میں اشکال کرنا چاہا ہے، لیکن یہ بات واضح ہے کہ جب روایات زیادہ ہوجاتی ہیں اور تواتر(۵) کی حد تک پہنچ جاتی ہیں تو پھر سند میں اشکال و اعتراض کی گنجائش نہیں رہتی، اور مخفی نہ رہے کہ توسل کے سلسلہ میں احادیث تواتر کی حد سے بھی زیادہ ہیں، ان کی نقل کی ہوئی روایات میں سے ایک یہ ہے:

”ابن حجر مکی“ اپنی کتاب ”الصواعق المحرقہ“ میں اہل سنت کے مشہور و معروف”امام شافعی“ سے نقل کرتے ہیں کہ انھوں نے اہل بیت پیغمبر سے توسل کیا اور اس طرح کہا:

آل النَبِيّ ذَریعَتِي وَهُمْ إلَیه وَسیلتي

اٴرْجُوْبِهمْ اٴعطي غَداً ِبیَدِ الیَمِینِ صَحِیفَتِي(۶)

”آل پیغمبر میرا وسیلہ ہیں ، اور وہی خدا کی بارگاہ میں میرے لئے باعث تقرب ہیں “

” میں امیدوار ہوں کہ ان کے وسیلہ سے میرا نامہ اعمال میرے داہنے ہاتھ میں دیا جائے“

اسی طرح ”بیہقی“ بھی نقل کرتے ہیں کہ ایک مرتبہ خلیفہ دوم کی خلافت کے زمانہ میں قحط پڑا، جناب بلال چند اصحاب کے ساتھ پیغمبر اکرم (ص) کی قبر مبارک پر آئے اور اس طرح عرض کی:

”یَا رَسُولَ الله استسق لاٴمّتک فَإنَّهُم قَد هَلَکُوا “ (۷)

”یا رسول اللہ! اپنی امت کے لئے باران رحمت طلب فرمائیے کیونکہ آپ کی امت ہلاک ہوا چاہتی ہے“۔

یہاں تک کہ ابن حجر اپنی کتاب ”الخیرات الحسان“ میں نقل کرتے ہیں کہ ”امام شافعی“ بغداد میں قیام کے دوران ”ابو حنیفہ“کی زیارت کے لئے جاتے تھے، اور اپنی حاجتوں میں ان کو وسیلہ بناتے تھے اور ان سے متوسل ہوتے تھے۔(۸)

نیز ”صحیح دارمی“ میں ”ابی الجوزاء“ سے نقل ہوا ہے کہ ایک سال مدینہ میں بہت سخت قحط پڑگیا، بعض افراد جناب عائشہ کی خدمت میں جاکر شکایت کرنے لگے، اور ان سے درخواست کی کہ قبر پیغمبر کی چھت میں سوراخ کردیا جائے تاکہ قبر پیغمبر کی برکت سے خداوندعالم باران رحمت نازل فرمادے، چنانچہ ایسا ہی کیا گیا اور اس وقت بہت زیادہ بارش ہوئی!

تفسیر ”آلوسی“ میں اس سلسلہ میں بہت سی احادیث نقل ہوئی ہیں اور پھر ان احادیث کا مفصل طریقہ سے تجزیہ و تحلیل کرنے کے بعد اور مذکورہ احادیث میں بہت سخت رویہ اختیار کرنے کے بعد ان کا اعتراف کرتے ہوئے اس طرح کہتے ہیں:

”اس گفتگو کے تمام ہونے کے بعد میرے نزدیک کوئی مانع نہیں ہے کہ خداوندعالم کی بارگاہ میں پیغمبر اکرم (ص) کو وسیلہ قرار دیا جائے، چاہے پیغمبر اکرم کی زندگی میں ہو یا آنحضرت کے انتقال کے بعد “ موصوف اس سلسلہ میں کافی بحث کرنے کے بعد مزید فرماتے ہیں: ”خداوندعالم کی بارگاہ میں پیغمبر کے علاوہ کسی دوسرے سے توسل کرنے میں بھی کوئی ممانعت نہیں ہے، لیکن اس شرط کے ساتھ کہ پیغمبر کے علاوہ جس کو خدا کی بارگاہ میں وسیلہ بنایا جائے اس کا مرتبہ خدا کی نظر میں بلند و بالا ہو۔(۹)

لیکن شیعہ منابع و مآخذ میں وسیلہ اور توسل کا موضوع اس قدر واضح ہے کہ اس کو بیان کرنے کی (بھی) ضرورت نہیں ہے۔

چند ضروری نکات:

(قارئین کرام!) یہاں پر چند نکات کی طرف توجہ کرنا ضروری ہے:

۱ ۔ توسل اور وسیلہ سے یہ مراد نہیں ہے کہ پیغمبر اکرم (ص) یا ائمہ معصومین علیہم السلام سے کوئی شخص اپنی حاجات طلب کرے ، بلکہ مراد یہ ہے کہ خدا کی بارگاہ میں پیغمبر اکرم (ص) اور ائمہ معصومین علیہم السلام کی عظمت اور بلندی کے ذریعہ متوسل ہو، اور یہ کام درحقیقت خداو ندعالم کی طرف توجہ کرنا ہے، کیونکہ پیغمبر اکرم (ص) کا احترام بھی خداکی وجہ سے ہے کہ آپ خدا کے رسول ہیں، اس کی راہ پر چلے، ان باتوں کے باوجود ان لوگوں پر تعجب ہوتا ہے جو اس طرح کے توسل کو شرک کی ایک قسم کہہ دیتے ہیں جبکہ شرک یہ ہے کہ خدا کی صفات اور اس کے اعمال میں کسی کو شریک مانیں ، جبکہ اس طرح کا توسل شرک سے کوئی شباہت نہیں رکھتا۔

۲ ۔ بعض لوگوں نے اس بات کی بہت کوشش کی ہے کہ پیغمبر اکرم (ص) اور ائمہ علیہم السلام کی حیات اور وفات میں فرق قراردیں ، حالانکہ مذکورہ روایات جن میں بہت سی روایات وفات کے بارے میں ہیں؛ لہٰذا ان کے پیش نظر مسلمانوں کا عقیدہ یہ ہے کہ انبیاء اور صالحین وفات کے بعد ”برزخی حیات “ رکھتے ہیں جو کہ دنیاوی زندگی سے وسیع تر ہے جیسا کہ شہداء کے بارے میں وضاحت کے ساتھ بیان ہوا ہے کہ ان کو مردہ تصور نہ کرو وہ زندہ ہیں اور خدا کی طرف سے رزق پاتے ہیں۔(۱۰)

۳ ۔ بعض لوگ اس بات پر اصرار کرتے ہیں کہ پیغمبر اکرم (ص) سے دعا کی درخواست اور خدا کی بارگا ہ میں ان کی عظمت کی قسم دینے میں فرق ہے، لہٰذا دعا کی درخواست کو جائز اور خدا کی بارگاہ میں ان کی عظمت کی قسم دینے کو حرام جانتے ہیں، حالانکہ ان دونوں کے درمیان کسی بھی طرح کا کوئی منطقی فرق دکھائی نہیں دیتا۔

۴ ۔ بعض علمائے اہل سنت خصوصاً ”وہابی علماء“ اپنی خاص ہٹ دھرمی کی بنا پر کوشش کرتے ہیں کہ وسیلہ اور توسل کے بارے میں بیان ہونے والی تمام احادیث کو ضعیف اور کمزور ثابت کرڈالیں، اس سلسلہ میں بے بنیاد اعتراضات کرتے ہیں جو درحقیقت بہت پرانے ہوچکے ہیں، جن کو مدّ نظر رکھتے ہوئے ایک انصاف پسند انسان یہ محسوس کرتا ہے کہ ان لوگوں نے پہلے اپنا عقیدہ معین کرلیا ہے اور پھر اپنے عقیدہ کو اسلامی روایات پر ”تھوپنا“ چاہتے ہیں، اور ایسا ہی کرتے ہیں اور جو کچھ ان کے عقیدہ کے خلاف ہوتا ہے اس کو چھوڑدیتے ہیں، جبکہ ایک تحقیق کرنے والا محقق انسان اس طرح کی غیر منطقی اور تعصب آمیز بحث کو قبول نہیں کرسکتا۔

۵ ۔ ہم بیان کرچکے ہیں کہ توسل کے سلسلہ میں بیان شدہ روایات حدّ تواتر تک پہنچی ہوئی ہیں، یعنی اس قدر ہیں کہ ان کی سند میں بحث کی کوئی ضرورت نہیں رہتی، اس کے علاوہ ان کے درمیان بہت زیادہ صحیح روایات بھی ہیں، لہٰذا ان کی اسناد میں اعتراض و اشکال کی گنجائش ہی نہیں رہتی۔

۶ ۔ ہم نے جو کچھ بیان کیا ہے اس سے واضح ہوجاتا ہے کہ آیہ شریفہ کے ذیل میں بیان ہونے والی روایات کا مفہوم یہ ہے کہ پیغمبر اکرم نے اصحاب سے فرمایا: ”خداوندعالم سے میرے لئے ”وسیلہ“ طلب کرو“ یا جیسا کہ اصول کافی میں حضرت علی علیہ السلام سے منقول ہے کہ بہشت میں وسیلہ سب سے بلند و بالا مقام ہے، اور جیسا کہ ہم نے آیت کی تفسیر میں بیان کیا ہے؛ ان کے درمیان کسی طرح کا کوئی فرق نہیں ہے کیونکہ ہم نے بارہا عرض کیا ہے کہ ہر طرح کے تقربِ خدا پر ”وسیلہ“ صادق آتا ہے اور پیغمبر اکرم (ص)کے ذریعے تقرب خداحاصل کرنے کانام وسیلہ ہے جو کہ جنت میں سب سے بلند و بالا مقام ہے ۔(۱۱) .

____________________

(۱)سورہ نساء ، آیت ۶۴.

(۲) وفاء الوفاء ، جلد ۳، صفحہ ۱۳۷۱۔ کتاب (التوصل الی حقیقة التوسل میں ، صفحہ ۲۱۵، مذکورہ حدیث کو -” دلائل النبوة“ میں بیہقی نے بھی نقل کیا ہے.

(۳) وفاء الوفاء ،صفحہ۱۳۷۲.

(۴) وفاء الوفاء ، صفحہ ۱۳۷۳.

(۵) علم حدیث میں ”حدیث تواتر“ اس حدیث کو کہا جاتا ہے جس کے راویوں کی تعداد اس حد تک ہو کہ ان کی ایک ساتھ جمع ہوکر سازش کا قابل اعتماد احتمال نہ ہو (مترجم).

(۶) التوصل الی حقیقة التوسل، صفحہ ۳۲۹.

(۷) التوصل الی حقیقة التوسل، صفحہ ۳۵۳.

(۸) التوصل الی حقیقة التوسل، صفحہ ۳۳۱

(۹) روح المعانی ، جلد ۴۔۶، صفحہ ۱۱۴۔ ۱۱۵

(۱۰) سورہ آل عمران ، آیت۱۶۹.

(۱۱) تفسیر نمونہ ، جلد ۴، صفحہ ۳۶۶.

۱۸ ۔ دعا کرتے وقت آسمان کی طرف ہاتھ کیوں بلند کرتے ہیں؟

اکثر اوقات عوام الناس کے ذہن میں یہ سوال پیدا ہوتا ہے کہ جب خداوندعالم کے لئے کوئی (خاص) محل و مکان نہیں ہے تو پھر دعا کرتے وقت آسمان کی طرف ہاتھ کیوں اٹھاتے ہیں؟ کیوں آسمان کی طرف آنکھیں متوجہ کی جاتی ہیں؟ نعوذ بالله کیا خداوندعالم آسمان میں ہے؟

(قارئین کرام!) یہ سوال حضرات ائمہ معصومین علیہم السلام کے زمانہ میں بھی ہوتا تھا، جیسا کہ ہمیں تاریخ میں ملتا ہے کہ ”ہشام بن حکم“ کہتے ہیں: ایک زندیق حضرت امام صادق علیہ السلام کی خدمت میں آیا اور اس نے درج ذیل آیت کے بارے میں سوال کیا:

( اَلرَّحْمٰنُ عَلَی الْعَرْشِ اسْتَویٰ )

”وہ رحمن عرش پر اختیار اور اقتدار رکھنے والا ہے“۔

امام علیہ السلام نے وضاحت کرتے ہوئے فرمایا: خداوندعالم کو کسی جگہ اور کسی مخلوق کی کوئی ضرورت نہیں ہے، بلکہ تمام مخلوقات اس کی محتاج ہے۔

سوال کرنے والے نے عرض کی: تو پھر کوئی فرق نہیں ہے کہ (دعا کے وقت) چاہے ہاتھ آسمان کی طرف بلند ہوں یا زمین کی طرف؟!

اس وقت امام علیہ السلام نے فرمایا: یہ موضوع خداوندعالم کے علم و احاطہ میں برابر ہے (اور کوئی فرق نہیں ہے) لیکن خداوندعالم نے اپنے انبیاء اور صالح بندوں کو خود حکم دیا کہ اپنے ہاتھوں کو آسمان اور عرش کی طرف اٹھائیں، کیونکہ معدنِ رزق وہیں ہے، جو کچھ قرآن کریم اور احادیث سے ثابت ہے ہم اس کو ثابت مانتے ہیں جیسا کہ ارشاد ہوتا ہے: اپنے ہاتھوں کو خداوندعالم کی بارگاہ میں بلند کرو، اس بات پر تمام امت کا اتفاق اور اجماع ہے۔

اسی طرح کتاب خصال (شیخ صدوق علیہ الرحمہ) میں حضرت امیر المومنین علی علیہ السلام سے منقول ہے: ”إذَا فَرغَ اٴحدکُم مِنَ الصَّلوٰةِ فَلیرفعُ یدیهِ إلیٰ السَّمَاءِ، ولینصَّب فِي الدعاءِ “ ”جب تم نماز سے فارغ ہوجاو تو اپنے ہاتھوں کو آسمان کی طرف بلند کرو اور دعا میں مشغول ہوجاؤ“۔

اس وقت ایک شخص نے عرض کیا: یا امیر المومنین! کیا خداوندعالم سب جگہ موجود نہیں ہے؟

امام علیہ السلام نے فرمایا: جی ہاں! سب جگہ موجود ہے۔

اس شخص نے عرض کیا: تو پھر بندے آسمان کی طرف اپنے ہاتھوں کوکیوں اٹھائیں؟

اس موقع پر امام علیہ السلام نے درج ذیل آیہ شریفہ کی تلاوت فرمائی:

( وَفِی السَّمَاءِ رِزْقُکُمْ وَمَا تُوْعَدُوْنَ )

” اور آسمان میں تمہارا رزق ہے اور جن باتوں کا تم سے وعدہ کیا گیا ہے (سبب کچھ موجودہے)“۔

ان روایات کے مطابق چونکہ انسان کا اکثر رزق آسمان سے ہے، ( بارش؛ جس سے بنجر زمین زراعت کے لائق ہوجاتی ہے، آسمان سے نازل ہوتی ہے، سورج کی روشنی جو کہ زندگی اور حیات کا مرکز ہے، آسمان سے آتی ہے ، ہوا بھی آسمان میں ہے جو کہ زندگی کے لئے تیسرا اہم سبب ہے) اور آسمان رزق اور برکات الٰہی کا معدن و مرکز ہے، لہٰذا دعا کے وقت آسمان کی طرف توجہ کی جاتی ہے اور رزق و روزی کے مالک و خالق سے اپنی مشکلات کے حل کی دعا کی جاتی ہے۔

بعض روایات میں اس کام کے لئے ایک دوسرا فلسفہ بھی بیان کیا گیا ہے، اور وہ ہے خداوندعالم کی بارگاہ میں خضوع و تذلل کرنا، کیونکہ ہم کسی شخص یا کسی شئے کے سامنے تواضع کے اظہار کے وقت اور تسلیم ہوتے وقت اپنے ہاتھوں کو بلند کرتے ہیں۔

۱۹ ۔ کیا انسانوں میں پیدائشی فرق ؛ خدا وندعالم کی عدالت سے ہم آہنگ ہے؟

جیسا کہ ہم قرآن کریم میں پڑھتے ہیں :( وَلٰا تَتَمَنَّوْا مَا فَضَّلَ اللهُ بِهِ بَعْضَکُمْ عَلَی بَعْضٍ ) (۱)

”اور خبر دار جو خدا نے بعض افراد کو بعض سے کچھ زیادہ دیا ہے اس کی تمنا اور آرزو نہ کرنا“۔

اس آیہ --شریفہ کے پیش نظر بہت سے لوگوں کے ذہن میں یہ سوال پیدا ہوتا ہے کہ بعض لوگوں کی استعداد اور قابلیت زیادہ اور بعض لوگوں کی استعداد کم کیوں ہے؟ اسی طرح بعض لوگ دوسروں سے زیادہ خوبصورت اور بعض کم خوبصورت ہیں، نیز بعض لوگ بہت زیادہ طاقتور اور بعض معمولی طاقت رکھتے ہیں، کیا یہ فرق خداوندعالم کی عدالت کے منافی نہیںہے؟

اس سوال کے ذیل میں ہم چند نکات کی طرف اشارہ کرتے ہیں:

۱ ۔ بعض لوگوں میں جسمانی یا روحانی فرق کا ایک حصہ طبقاتی نظام، اجتماعی ظلم و ستم یا ذاتی سستی اور کاہلی کا نتیجہ ہوتا ہے جس کا نظام خلقت سے کوئی سروکار نہیں، مثال کے طور پر بہت سے

مالدار لوگوں کی اولاد غریب لوگوں کی اولاد کی نسبت جسمی لحاظ سے طاقتور، خوبصورتی کے لحاظ سے بہتر اور استعداد و قابلیت کے لحاظ سے بہت آگے ہوتی ہے، کیونکہ ان کے یہاں غذائی اشیاء کافی مقدار میں ہوتی ہیں اور صفائی کا بھی خیال رکھا جاتا ہے، جبکہ غریب لوگوں کے یہاں یہ چیزیں نہیں ہوتیں، یا بہت سے لوگ سستی اور کاہلی سے کام لیتے ہیں اور اپنی جسمانی طاقت کھوبیٹھتے ہیں، لہٰذا اس طرح کے فرق کو ”جعلی اور بے دلیل“ کہا جائے گا جو طبقاتی نظام کے خاتمہ اور معاشرہ میں عدل و انصاف کا ماحول پیدا ہونے سے خود بخود ختم ہوجائے گا ، قرآن کریم نے اس طرح کے فرق کو کبھی بھی صحیح نہیں مانا ہے۔

۲ ۔ اس فرق کا ایک حصہ انسانی خلقت کا لازمہ اور ایک طبیعی چیز ہے یعنی اگر کسی معاشرہ میں مکمل طور پر عدل و انصاف پایا جاتا ہو تو بھی تمام لوگ ایک کارخانہ کی مصنوعات کی طرح ایک جیسے نہیں ہوسکتے، طبیعی طور پر ایک دوسرے میں فرق ہونا چاہئے ، لیکن یہ بات معلوم ہونا چاہئے کہ معمولاً خداداد صلاحتیں اور روحی و جسمی استعداد اس طرح تقسیم ہوئی ہیں کہ ہر انسان میں استعدادکا ایک حصہ پایا جاتا ہے یعنی بہت ہی کم لوگ ایسے ملیں گے کہ یہ تمام چیزیں ان میں جمع ہوں، ایک انسان، جسمانی طاقت سے سرفرازہے تو دوسرا علم حساب میں بہترین استعداد کا مالک ہے، کسی انسان میں شعرکہنے کی صلاحیت ہوتی ہے تو دوسرے میں تجارت کا سلیقہ پایاجاتا ہے، بعض میں زراعتی امور انجام دینے کی طاقت پائی جاتی ہے، اور بعض دوسرے لوگوں میں دوسری مخصوص صلاحتیں ہوتی ہیں، اہم بات یہ ہے کہ معاشرہ یا انسان اپنی صلاحیت کوبروئے کار لائے اور صحیح ماحول میں اس کی پرورش کرے تاکہ ہر انسان اپنی صلاحیت کو ظاہر کرسکے اور اس سے حتی الامکان سرفرازہوسکے۔

۳ ۔ اس نکتہ پر بھی توجہ کرنی چاہئے کہ ایک معاشرہ کے لئے انسانی بدن کی طرح مختلف چیزوں کی ضرورت ہوتی ہے یعنی اگر ایک بدن کے تمام اعضا اور خلیے ( Cells )ظریف اور لطیف ہوں گے جیسے آنکھ، کان اور مغز وغیرہ کے خلیے تو انسان میں دوام پیدا نہیں ہوسکے گا، یا اگر انسانی جسم کے تمام اعضا نرم نہ ہوں بلکہ ہڈیوں کے خلیوں کی طرح سخت ہوں تو وہ مختلف کاموں کے لئے بے کار ہیں(اور اس صورت میں انسان زیادہ دن زندہ نہیں رہ سکتا) بلکہ انسان کے جسم کے لئے مختلف خُلیوں کی ضرورت ہوتی ہے، ایک عضو میں سننے کی صلاحیت ہوتی ہے تو دوسرے میں دیکھنے کی صلاحیت ہوتی ہے زبان سے گفتگو کی جاتی ہے، پیروں سے ادھر ادھر جانا ہوتا ہے، لہٰذا جس طرح انسان کے لئے مختلف اعضا و جوارح کی ضرورت ہوتی ہے اسی طرح ایک ”عمدہ معاشرہ“ کے لئے مختلف صلاحیتوں اور استعداد کی ضرورت ہوتی ہے جن میں سے بعض لوگ بدنی طور پر کام کریں اوربعض لوگ علمی اور غور و فکر کا کام انجام دیں، لیکن یہ نہیں کہ معاشرہ میں کچھ لوگ غربت اور پریشانی کی زندگی بسر کریں، یا ان کی خدمات کو اہمیت نہ دی جائے یا ان کو ذلت کی نگاہ سے دیکھا جائے ، جس طرح سے انسانی اعضا و جوارح اپنے تمام تر فرق کے باوجود ہر قسم کی غذا اور دوسری ضرروتوں سے فیضیاب ہوتے ہیں۔

دوسرے الفاظ میں یوں کہا جائے کہ انسان میں روحی اور جسمی طبیعی اختلاف خداوندعالم کی حکمت کے عین مطابق ہے اور خداوندعالم کی عدالت، حکمت سے کبھی جدا نہیں ہوتی ، مثال کے طور پر اگر انسان کے تمام اعضا ایک ہی طرح کے خلق کئے جاتے تو اس کی حکمت کے منافی تھااور یہ عدالت نہ ہوتی، جبکہ عدالت کے معنی ہر چیز کو اس کی جگہ پر قرار دینے کے ہیں، اسی طرح اگر معاشرہ کے تمام لوگ ایک روز ایک ہی بات سوچیں اور ایک دوسرے کی استعداد برابر ہوجائے تو اسی ایک دن میں معاشرہ کی حالت درہم و برہم ہوجائے گی!(۲)

____________________

(۱) سورہ نساء ، آیت نمبر ۳۲

(۲) تفسیر نمونہ ، جلد ۳، صفحہ ۵ ۳۶


6

7

8

9

10

11

12

13

14

15

16

17

18

19

20

21

22

23

24

25

26

27

28

29

30

31

32

33

34

35

36