110 سوال اور جواب

110 سوال اور جواب0%

110 سوال اور جواب مؤلف:
زمرہ جات: مناظرے

110 سوال اور جواب

مؤلف: آیت اللہ ناصر مکارم شیرازی
زمرہ جات:

مشاہدے: 131069
ڈاؤنلوڈ: 4454

تبصرے:

110 سوال اور جواب
کتاب کے اندر تلاش کریں
  • ابتداء
  • پچھلا
  • 126 /
  • اگلا
  • آخر
  •  
  • ڈاؤنلوڈ HTML
  • ڈاؤنلوڈ Word
  • ڈاؤنلوڈ PDF
  • مشاہدے: 131069 / ڈاؤنلوڈ: 4454
سائز سائز سائز
110 سوال اور جواب

110 سوال اور جواب

مؤلف:
اردو

۶۲۔ اجل مسمیٰ (حتمی) اور اجل معلق (غیر حتمی) سے مراد کیا ہے؟

اس میں شک نہیں ہے کہ انسان کے لئے دوطرح کی موت ہوتی ہے:

ایک حتمی اور یقینی موت ہے کہ جب انسان کا جسم باقی رہنے کی صلاحیت کھو بیٹھتا ہے یا یقینی موت کے وقت آنے پر تمام چیزیں حکم الٰہی سے انتہا کو پہنچ جاتی ہیں۔

اجل معلق یا غیر حتمی موت حالات کی تبدیلی سے بدل جاتی ہے، مثال کے طور پر انسان خود کشی کرلیتا ہے ، کہ اگر یہ گناہ کبیرہ نہ کرتا تو برسوں زندہ رہ سکتا تھا، یا انسان شراب اور دیگر منشیات کے استعمال یا بے حساب و کتاب شہوت رانی کے ذریعہ کچھ ہی دنوں میں اپنی جسمانی طاقت کھو بیٹھتا ہے، جبکہ اگر انسان ایسا نہ کرے تو بہت دنوں تک زندہ رہ سکتا ہے۔

چنانچہ یہ چیزیں ایسی ہیں جن کو سبھی دیکھتے رہتے ہیں اور کوئی شخص بھی اس کا انکار نہیں کرسکتا۔

اتفاقی حوادث بھی اسی اجل معلق سے مربو ط ہیں اس کا بھی انکار نہیں کیا جاسکتا۔

اسی بنا پر احادیث میں بیان ہوا ہے کہ راہ خدا میں صدقہ دینے، انفاق کرنے اور صلہ رحم کرنے سے عمر طولانی اور بلائیں دور ہوتی ہیں، در اصل یہ چیزیں انھیں اسباب کی طرف اشارہ ہیں۔

اور اگر ہم ان دوطرح کی موت کو ایک دوسرے سے الگ نہیں کریں گے تو پھر ”قضا و قدر“ اور ”انسانوں کی زندگی میں سعی و کوشش کے اثرات“ وغیرہ جیسے مسائل کو سمجھنا بہت مشکل ہے۔

اس بحث کو ایک آسان مثال کے ذریعہ واضح کیا جاسکتاہے مثلاً کوئی شخص ایک نئی گاڑی خریدے، جس کا انجن اور باڈی میں لگایا گیا مختلف سامان بیس سال تک کام کرتا ہو، لیکن شرط یہ ہے کہ اس کی صحیح طریقہ سے دیکھ بھال کی جائے، تو اس صورت میں اس گاڑی کی عمر وہی بیس سال ہوگی۔

لیکن اگر صحیح طور پر اس کی دیکھ بھال نہ کی جائے یا اس کو نااہل لوگوں کے حوالہ کر دیا جائے ،یا اس کی طاقت کے لحاظ سے زیادہ کام لیا جائے یا ہر روز نامناسب راستہ پر چلایا جائے ، تو اس کی عمر آدھی یا اس سے بھی کم ہوسکتی ہے، یہ وہی ”اجل معلق“ ہے۔

ہمیں تعجب اس بات پر ہوتا ہے کہ بعض مفسرین نے اس قدر واضح اور روشن مسئلہ پرتوجہ نہیں کی ہے۔(۱)

وضاحت:

بہت سی ایسی موجودات ہیں جو فطری طور پر ایک طولانی مدت تک باقی رہنے کی صلاحیت رکھتی ہیں ، لیکن اس مدت میں موانع پیش آسکتے ہیں جن سے وہ اپنی آخری عمر تک نہیں پہنچ سکتیں، مثال کے طور پر ایک چراغ (تیل کی مقدار بھر) مثلاً ۱۰/ گھنٹے روشنی دے سکتا ہے، لیکن اگر آندھی یا بارش آجائے تو وہ ۱۰/ گھنٹے نہیں جل سکتا۔

یہاں پر اگر چراغ جلنے میں کوئی مانع پیش نہ آئے توتیل کے آخری قطرے تک جلتا رہے گا اور تیل ختم ہونے پر ہی بجھے گا، تو گویا یہ اپنی ”حتمی اجل “ تک پہنچ گیا ہے، او راگر اس سے پہلے کوئی مانع پیش آجائے اور چراغ خاموش ہوجائے تو اس کی عمر کو ” غیر حتمی ا جل ‘ ‘کہا جا ئے گا۔

انسان کے سلسلے میں بھی ایسا ہی ہے، اگر اس کی بقا کے لئے تمام شرائط جمع ہوجائیں اور موانع پیش نہ آئیں تو اس کی استعداد اور صلاحیت اس بات کا تقاضا کرتی ہے کہ وہ طولانی عمر پائے (اگرچہ اس کی بھی ایک حد اور انتہا ہے) لیکن ممکن ہے کہ یہی انسان نامناسب غذاؤں، یا منشیات کے استعمال یا خود کُشی کے ذریعہ اس سے پہلے ہی مرجائے ، تو اس پہلی صورت میں اس کی موت کو ”اجل حتمی“ اور دوسری صورت میں ” غیر حتمی اجل“ کہا جاتا ہے۔

دوسرے الفاظ میں یوں کہیں کہ ”حتمی اجل “ اس صورت میں ہے کہ ہم تمام ”علل تامہ“ کا لحاظ کریں، اور ”غیر حتمی اجل “ اس صورت میں ہے کہ ہم صرف ”مقتضیات“ کو مد نظر رکھیں۔

ان دو طرح کی موت کے پیش نظر بہت سی چیزیں روشن ہوجاتی ہیں، مثال کے طور پر جیسا کہ ہم روایات میں پڑھتے ہیں کہ صلہ رحم سے عمر میں اضافہ ہوتا ہے یا قطع رحم سے عمر کم ہو جاتی ہے، (اس طرح کے موارد میں ” غیر حتمی اجل“ مراد ہوتی ہے)

یا جیسا کہ قرآن مجید میں ارشاد ہوتا ہے:( فَإِذَا جَاءَ اٴَجَلُهُمْ لاَیَسْتَاٴْخِرُونَ سَاعَةً وَلاَیَسْتَقْدِمُونَ ) (۲) ” ہر قوم کے لئے ایک وقت مقرر ہے جب وہ وقت آجائے گا تو ایک گھڑی کے لئے نہ پیچھے ٹل سکتا ہے اور نہ آگے بڑھ سکتا ہے“۔

اس آیت میں ”حتمی اجل “ مراد ہے۔

مذ کورہ آیت صرف یہ بیا ن کر رہی ہے کہ انسان اپنی آخری عمر کو پہنچ جائے ، لیکناس میں جلد آنے والی موت بالکل شامل نہیں ہے۔

بہر حال توجہ رکھنا چاہئے کہ موت کی دونوں قسمیں خداوندعالم کی طرف سے معین ہوتی ہیں، ایک مطلق طور پر اور دوسری مشروط یا معلق طور پر، بالکل اس طرح جیسے یہ چراغ بغیر کسی قید و شرط کے ۱۰ گھنٹے بعد خاموش ہوجائے گا، بالکل اسی طرح انسان اور قوم و ملت بھی ہے ، مثلاً خداوندعالم نے ارادہ فرمایا ہے کہ فلاں شخص یا فلاں قوم اتنی عمر کے بعد یقینی طور پر ختم ہوجائے گی، او راگر ظلم و ستم، نفاق اورسستی سے کام لیں گے تو ایک تہائی مدت میں ختم ہوجائے گی، دونوں موتیں خداوندعالم کی طرف سے ہیں ایک مطلق اور دوسری مشروط۔ مذکورہ آیت کے ذیل میں حضرت امام صادق علیہ السلام سے نقل ہوا ہے کہ ”هُما اٴجلان اٴجَلٌ محتُومٌ وَاٴجلٌ مُوقُوفٌ(۳) اس میں ”حتمی اجل “ اور ” مشروط اجل “ کی طرف اشارہ ہے، اور اس سلسلہ میں ایک دوسری حدیث میں بیان ہوا ہے کہ ” غیر حتمی“ (مشروط) کو مقدم یا موخر کیا جاسکتا ہے، لیکن ”حتمی اجل“ کو مقدم یا موخر نہیں کیا جاسکتا۔ (نور الثقلین ، جلد اول صفحہ ۵۰۴)

____________________

(۱) تفسیر نمونہ ، جلد ۱۸ صفحہ ۲۰۹ (۲) سورہ اعراف ، آیت ۳۴

(۳) تفسیر نمونہ ، جلد۵، صفحہ ۱۴۹

۶۳ ۔ کیا سائنس تجسم اعمال کی تائید کرتا ہے

قرآن مجید کی آیات سے واقف افراداس بات کو بھی اچھی طرح جانتے ہیں کہ قرآن مجید کی متعدد آیات میں روز قیامت ”تجسم اعمال“ کے بارے میں خبر دی گئی ہے، یعنی روز قیامت ہر شخص کے اعمال چاہے اچھے ہوں یا بُرے اس کے سامنے حاضر ہوجائیں گے، اور انسان کے لئے خوشی و مسرت کا سامان بن جائیں گے یا عذاب اور شکنجہ کا باعث ہوں گے، یا اس کے لئے باعثِ افتخار ہوں گے یا ذلت و رسوائی کا سبب ہوں گے۔

کیا انسان کے اعمال کا باقی رہنا ممکن ہے جبکہ انسان کے اعمال صرف کچھ حرکات و سکنات ہوتے ہیں اور انجام پانے کے بعد ختم ہوجاتے ہیں؟ اس کے علاوہ انسان کے اعمال جو انسانی وجود کے عوارض ہیں کیا یہ مادہ اور جسم میں تبدیل ہوسکتے ہیں اور مستقل شکل و صورت میں ظاہر ہوسکتے ہیں؟

چونکہ بہت سے مفسرین کے پاس ان دونوں سوالوں کا جواب نہیں تھا لہٰذا وہ لوگ مجبوراً قرآنی آیات میں ”حذف اور تقدیر“ کے قائل ہوگئے اور کہتے ہیں کہ ”اعمال کے حاضر ہونے“ یا ”اعمال کے مشاہدہ“ سے اعمال کی جزا یا سزا مراد ہے۔

لیکن آج ہم دیکھتے ہیں کہ مذکورہ دونوں سوال کا جواب موجود ہے، لہٰذا قرآن مجید کی جن آیات میں ”تجسم اعمال“ کا بیان موجود ہے اس کا انکار کرنے کے لئے ہمارے پاس کوئی دلیل نہیں ہے۔

اس سلسلہ میں متعددروایات موجود ہیں انھیں میں سے حدیث معراج بھی ہے جس میں بیان ہوا ہے کہ جب پیغمبر اکرم (ص) نے جنت اور دوزخ کو دیکھا تو بدکاروں کو اپنے اعمال کی بنا پر عذاب جہنم میں مبتلا دیکھا، اور نیک لوگوں کو دیکھا کہ اپنے اعمال کی بنا پر جنت میں بہترین نعمتوں سے مالا مال ہیں۔

غیبت کے سلسلہ میں بیان ہونے والی آیت میں غیبت کرنے والے کو اپنے مردہ بھائی کا گوشت کھانے والا قرار دیا ہے، یہ بھی ہمارے مدعا پر ایک دوسری دلیل ہے۔

لہٰذا گزشتہ آیات و روایات سے یہ بات اچھی طرح واضح ہوجاتی ہے کہ عالم برزخ اور قیامت میں انسان کے اعمال مناسب شکل میں مجسم ہوں گے، جیسا کہ قرآن مجید میں ارشاد ہوتا ہے:( إِنَّ الَّذِینَ یَاٴْکُلُونَ اٴَمْوَالَ الْیَتَامَی ظُلْمًا إِنَّمَا یَاٴْکُلُونَ فِی بُطُونِهِمْ نَارًا ) (۱) ” جو لوگ ظالمانہ انداز سے یتیموں کا مال کھا جاتے ہیں وہ در حقیقت اپنے پیٹ میں آگ بھر رہے ہیں“۔

یہ آیہ شریفہ بیان کرتی ہے کہ انسان کا عمل دنیا ہی میں ایک طرح سے جسم رکھتا ہے، اس طرح کہ یتیم کا مال کھانا ایک جلادینے والی آگ کی طرح ہے، اگرچہ حقیقت کو نہ دیکھنے والی آنکھیں اس کو نہیں دیکھ سکتیں۔

ان آیات و روایات کو مجازی اور کنائی معنی پر حمل کرنے کے لئے کوئی دلیل نہیں ہے لہٰذا ان کی تاویل و توجیہ کریں، جبکہ ان کے ظاہر پر عمل کرنے میں کوئی مانع نہیں ہے، اور کوئی مشکل پیش نہیں آتی، اس کی مزید تفصیل آئندہ بیان کی جائے گی۔

منطق عقل میں تجسم اعمال:

تجسم اعمال کے سلسلہ میںیہ اہم اشکال طبرسی علیہ الرحمہ نے اپنی تفسیر مجمع البیان میں بیان کیاہے کہ عمل ایک”عرض“ ہے، اور”جوہر“نہیں ہے (یعنی نہ مادہ کی خاصیت رکھتا ہے اور نہ خود مادہ ہے) اور دوسرے یہ کہ عمل انجام پانے کے بعد محو اور نابود ہوجاتا ہے، لہٰذا ہماری گفتگو اور ہمارے گزشتہ اعمال کے آثار دکھائی نہیں دیتے، وہ اعمال جو بعض چیزوں میں تبدیلی پیدا کرتے ہیں مثال کے طور پر اینٹ اور سیمنٹ کے ذریعہ مکان بناتے ہیں، یہ تو تجسم اعمال نہیں ہے، بلکہ عمل کے ذریعہ ایک تبدیلی انجام پائی ہے۔ (غور کیجئے )

لیکن دو نکتوں کے پیش نظر ان دو اعتراضات کا جواب، اور تجسم اعمال کی کیفیت بھی روشن ہوجاتی ہے۔

سب سے پہلے یہ عرض کیا جائے کہ آج کل یہ بات ثابت ہے کہ دنیا میں کوئی چیز بھی ختم نہیں ہوتی، ہمارے اعمال مختلف طاقت کی شکل میں موجود رہتے ہیں، اگر ہم بولتے ہیں تو ہماری آوازیں فضا میں مختلف امواج کی شکل میں پھیل جاتی ہیں، اور ذروں کی لہروں میں تبد یل ہو جا تی ہیں اور ممکن ہے کہ یہ طاقت بھی کئی مرتبہ تبدیل ہوجائے، لیکن کسی بھی صورت میں بالکل ختم نہیں ہوتیں، ہمارے ہاتھوں اور پیروں کی حرکات بھی ایک طرح کی طاقت ہے، اور یہ ”مکینک طاقت“ ہر گز ختم نہیں ہوتی، ممکن ہے کہ ایک حرارتی طاقت میں تبدیل ہوجائے ، خلاصہ یہ کہ صرف اس دنیا کے مواد جن کی طاقت ثابت و پا ئیدار ہے اگر چہ شکل بد لتی رہتی ہے ۔ اس کے علاوہ یہ بات بھی دانشوروں اور آزمائشوں کے ذریعہ قطعی طور پر ثابت ہوچکی ہے کہ ”مادہ“ اور ”طاقت“ کے درمیان ایک قریبی تعلق ہے، یعنی مادہ اور طاقت ایک ہی حقیقت کے دو مظہر ہیں،”مادہ“ طاقت کا خلاصہ ہے اور ”طاقت“ مادہ کی تفصیل ہے، اور دونوں معین شرائط و حالات کے تحت ایک دوسرے میں تبدیل ہو جاتے ہیں۔

ایٹمی طاقت ، مادہ کا طاقت میں تبدیل ہونے کا نام ہے، یا دوسرے الفاظ میں ایٹمی ذرہ کا پھٹنا اور اس کی طاقت کا آزاد ہونا ہے۔

آج سائنس نے یہ بات ثابت کی ہے کہ سورج کی حرارتی طاقت ایک ایٹمی طاقت ہے جو سورج کے ایٹم پھٹنے پر نکلتی ہے، اسی وجہ سے ہر روز سورج کا وزن کم سے کم تر ہوتا جارہا ہے، اگرچہ یہ وزن سورج کے وزن کے مقابلہ میں بہت ہی ناچیز ہے۔

اس بات میں بھی کوئی شک نہیں ہے کہ جس طرح مادہ طاقت میں تبدیل ہوسکتا ہے اسی طرح طاقت بھی مادہ میں تبدیل ہوسکتی ہے، یعنی اگر پھیلی ہوئی طاقت دوبارہ جمع ہوجائے اور جسم و جرم کی حالت پیدا کرلے تو پھر ایک جسم کی شکل میں ظاہر ہوسکتی ہے۔

اس بنا پر کوئی مانع نہیں ہے کہ ہمارے اعمال اور گفتگو جو مختلف طاقت کی شکل میں موجود رہتے ہیں اور نابود نہیں ہوتے، وہ حکم خدا سے دوبارہ جمع ہوجائیں اور ایک جسم کی شکل اختیار کرلیں، اور یہ بات بھی مسلم ہے کہ ہر عمل اپنے لحاظ سے جسم حاصل کرے گا ، جو طاقت اصلاح نفس، خدمت دین، تقوی اور پرہیزگاری میں خرچ کی گئی ہے وہ ایک خوبصورت جسم میں ظاہر ہوگی، اور جو طاقت ظلم و ستم، فساد اور برائیوں میں خرچ کی گئی ہے وہ بد شکل اور متنفر صورت میں ظاہر ہوگی!

اس بنا پر ”تجسم اعمال“ کو قرآن مجید کے علمی معجزات میں شمار کیا جاسکتا ہے، کیونکہ اس زمانہ میں طاقت کی بقا، یا مادہ کا طاقت میں تبدیل ہونا یا اس کے برعکس طاقت کا مادہ میں تبدیل ہونا،دانشوروں اور صا حبان علم کے ذہنوں تک میں نہ تھا، لیکن قرآن مجید اور روایات میں وضاحت کے ساتھ بیان ہوا ہے۔

لہٰذا نہ تو ”عرض“ ہونے کے لحاظ سے کوئی مشکل ہے اور نہ اعمال کے نابود ہونے کے لحاظ سے، کیونکہ اعمال نابود نہیں ہوتے، اور عرض و جوہر ایک ہی حقیقت کے دو جلوے ہیں، یہ بات جوہری حرکت کے پیش نظر واضح تر ہوجاتی ہے! کیونکہ ”جوہری حرکت“ کے قائل اس بات کا عقیدہ رکھتے ہیں کہ عرض و جوہر ایک دوسرے سے جدا نہیںہیں، جس کی بنا پر وہ عرض میں جوہر ی حرکت کے ذریعہ حرکت جوہری سے استدلال کرتے ہیں(غور کیجئے )

اپنی بات کو مکمل کرنے کے لئے اس نکتہ کی طرف اشارہ مناسب ہے:

مشہور و معروف فرانسوی دانشور ”لاوازی“ نے قانون ”بقا ئے مادہ“ کو بہت سعی و کوشش کے بعد کشف کیا اور یہ ثابت کیا ہے کہ اس دنیا کے تمام مادے نابود نہیں ہوتے بلکہ ہمیشہ بدلتے رہتے ہیں۔اس کے کچھ مدت بعد ”پیر کوری اور اس کی زوجہ“ نے پہلی بار ”یڈیو اکٹیو“ (جن جسموں میں ناپائیدار ایٹم پائے جاتے ہیں اور وہ آہستہ آہستہ طاقت میں تبدیل ہوجاتے ہیں) پر مادہ اور طاقت کے تعلق سے ایک ریسرچ کرنے کے بعد کشف کیا اور” قانون بقائے مادہ “کو ”قانون بقائے مادہ اور طاقت“ میں تبدیل کردیا، اور اس لحاظ سے قانون” بقائے مادہ “متزلزل ہوگیا اور قانون ”بقائے مادہ اور طاقت“نے اس کی جگہ لے لی، اور ایٹم کو توڑنے سے مادہ، طاقت میں تبدیل ہونے کو مختلف دانشوروں نے قبول کرلیا، معلوم ہوا کہ یہ دونوں (مادہ اور طاقت) آپس میں ایک دوسرے سے گہرا تعلق رکھتے ہیں، اور ایک دوسرے کی جگہ لے لیتے ہیں، یا دوسرے الفاظ میں یہ دونوں ایک ہی حقیقت کے دو پہلو ہیں۔

سائنس میں اس چیز کے کشف ہونے کی وجہ سے دانشوروں کی ریسرچ میں ایک عظیم انقلاب برپاہو گیا ہے اور عالم ہستی کی وحدت کو پہلے سے زیادہ ثابت کردیا۔

اس قانون نے قیامت اور انسان کے تجسم اعمال کے سلسلہ میں گزشتہ لوگوں کے بہت سے اعتراضات کا حل پیش کردیا جس سے تجسم اعمال کے سلسلہ میں لاحق موانع برطرف ہوگئے۔(۲)

____________________

(۱) سورہ نساء ، آیت ۱۰

(۲) تفسیر پیام قرآن ، جلد ۶، صفحہ ۱۱۵ اور ۱۳۷

۶۴ ۔ عالمِ برزخ کیا ہے اور وہاں کی زندگی کیسی ہے؟

عالم برزخ کونسا عالم ہے ؟ اور کہاں ہے؟ اور دنیا و آخرت کے درمیان قرار پانے والے اس عالم کو ثابت کرنے کی کیا دلیل ہے؟

کیا برزخ سب کے لئے ہے یا خاص گروہ کے لئے ہے؟

اس سلسلہ میں یہ تمام سوالات موجود ہیں، قرآن مجید اور احادیث میں ان کی طرف اشارہ ہوا ہے ، اس کتاب کے لحاظ سے ہم ان کے جوابات پیش کرتے ہیں:

لفظ ”برزخ“ لغوی لحاظ سے دو چیزوں کے درمیان حائل چیز کو کہاجا تا ہے اس کے بعد ہر دو چیز کے درمیان حائل ہونے والی چیز کو برزخ کہا جانے لگا، اسی وجہ سے دنیا و آخرت کے درمیان قرار پانے والے عالم کو ”برزخ“ کہا جاتا ہے۔

اس عالم کو کبھی ”عالمِ قبر“ یا ”عالمِ ارواح“ بھی کہا جاتا ہے ، اس پر قرآن کریم کی بہت سی آیات دلالت کرتی ہیں جن میں سے بعض اس معنی میں ظاہر ہیں اور بعض واضح طور پر دلالت کرتی ہیں۔

آیہ شریفہ:( وَمِن وَرَائِهِم بَرْزَخٌ إلیٰ یومَ یَبْعَثُون ) اس عالم کے بارے میں ظاہرہے، اگرچہ بعض مفسرین نے اس آیت کے معنی یوں کئے ہیں کہ عالم آخرت سے دنیا میں نہیں پلٹا جاسکتا، کیونکہ آیت کا مفہوم یہ ہے کہ انسان کے پیچھے ایک ایسا مانع ہے جو انسان کو دنیا میں لوٹنے سے روک دے گا، لیکن یہ معانی بہت ہی بعید نظر آتے ہیں کیونکہ ”إلیٰ یوم یبعثون“(روز قیامت تک) کا جملہ اس بات کی دلیل ہے کہ یہ برزخ دنیا اور آخرت کے درمیان موجود ہے نہ کہ انسان اور دنیا کے درمیان۔

جن آیات سے واضح طور پر عالم برزخ کا اثبات ہے وہ شہداء کی حیات کے بارے میں ہیں جیسا کہ ارشاد ہے:( وَلاَتَحْسَبَنَّ الَّذِینَ قُتِلُوا فِی سَبِیلِ اللهِ اٴَمْوَاتًا بَلْ اٴَحْیَاءٌ عِنْدَ رَبِّهِمْ یُرْزَقُونَ ) (۱) ”اور خبر دار ! راہ خدا میں قتل ہونے والوں کو مردہ خیال نہ کرنا وہ زندہ ہیں اور اپنے پروردگار کے یہاں رزق پارہے ہیں“۔

یہاں پیغمبر اکرم (ص) سے خطاب ہوا ہے لیکن سورہ بقرہ آیت نمبر ۱۵۴/ میں تمام مومنین سے خطاب ہوا ہے:( وَلاَتَقُولُوا لِمَنْ یُقْتَلُ فِی سَبِیلِ اللهِ اٴَمْوَاتٌ بَلْ اٴَحْیَاءٌ وَلَکِنْ لاَتَشْعُرُونَ ) ” اور جو لوگ راہ خدا میں قتل ہوجاتے ہیں انھیں مردہ نہ کہو بلکہ وہ زندہ ہیں لیکن تمہیں ان کی زندگی کا شعور نہیں ہے “

نہ صرف یہ کہ بلند مرتبہ مومنین مثل شہداء ِراہ خدا کے لئے برزخ موجود ہے بلکہ فرعون اور اس کے ساتھی جیسے سرکش کفار کے لئے بھی برزخ موجود ہے، جیسا کہ سورہ مومن میں ارشاد ہوتا ہے:( النَّارُ یُعْرَضُونَ عَلَیْهَا غُدُوًّا وَعَشِیًّا وَیَوْمَ تَقُومُ السَّاعَةُ اٴَدْخِلُوا آلَ فِرْعَوْنَ اٴَشَدَّ الْعَذَابِ ) (۲) ”وہ جہنم جس کے سامنے ہر صبح و شام پیش کئے جاتے ہیں اور جب قیامت برپا ہوگی تو فرشتوں کو حکم ہوگا کہ فرعون والوں کو بدترین عذاب کی منزل میں داخل کردو“۔(۲۵)

اس بنا پر عالم برزخ کے موجود ہونے پر تو کوئی بحث نہیں ہے، لیکن اہم بات یہ ہے کہ وہاں کی زندگی کیسی ہے ، اگرچہ اس سلسلہ میں مختلف صورتیں بیان ہوئی ہیں لیکن سب سے واضح اور روشن یہ ہے کہ انسان کی روح اس دنیاوی زندگی کے خاتمہ کے بعد لطیف جسم میں قرار پاتی ہے اوراس مادہ کے بہت سے عوارض سے آزاد ہوجاتی ہے، اور چونکہ ہمارے اس جسم کے مشابہ ہے تو اس کو ”قالب مثالی“ یا ”بدن مثالی“ کہا جاتا ہے، جو نہ بالکل مجرد ہے اور نہ صرف مادی، بلکہ ایک طرح سے ”تجرد برزخی“ ہے۔

بعض محققین نے روح کی اس حالت کو خواب سے تشبیہ دی ہے ، مثلاً اگر انسان خواب میں بہترین نعمتیں دیکھے تو واقعاً محظوظ ہوتا ہے اور ان سے لذت حاصل کرتا ہے، یا ہولناک مناظر کو دیکھ کر غمگین اور غم زدہ ہوتا ہے، اور کبھی کبھی اس کے بدن پر بھی اس کا اثرظاہر ہوتا ہے اور خطرناک خواب دیکھ کر چیختا او رچلاتا ہے، کروٹیں بدلتا ہے اور اس کا بدن پسینہ میں شرابور ہوجاتا ہے۔

یہاں تک کہ بعض لوگوں کا عقیدہ ہے کہ عالم خواب میں انسان کی روح بدن مثالی کے ساتھ فعالیت کرتی ہے بلکہ اس کے علاوہ بھی معتقد ہیں کہ طاقتور ارواح بیداری کی حالت میں یہی تجردِ برزخی حاصل کرلیتی ہیں یعنی جسم سے جدا ہوکر بدنِ مثالی میں اپنی مرضی کے مطابق یا مقناطیسی خواب کے ذریعہ دنیا کی سیر کرلیتی ہیں اور دنیا کے مختلف مسائل سے باخبر ہوجاتی ہیں۔(۱)

بلکہ بعض حضرات اس بات کی وضاحت کرتے ہیں کہ ہر انسان کے بدن میں ایک مثالی بدن ہوتا ہے، لیکن موت کے وقت اور برزخی زندگی کے آغازمیں الگ ہوجاتا ہے اور کبھی اسی مادی

(۳) علامہ مجلسی علیہ الرحمہ نے بحار الانوار میں اس مطلب کو بیان کرتے ہوئے وضاحت کی ہے کہ متعدد روایات میںحالت برزخ کو عالم خواب سے مشابہ قراردیا گیا ہے،یہاں تک کہ بعض طاقتور نفوس ( ارواح) متعدد مثالی بدن رکھتے ہیں، اسی بنا پر جن روایات میں بیان ہوا ہے کہ ائمہ معصوم ہر شخص کی موت کے وقت حاضر ہوتے ہیں، ان کی توجیہ اور تفسیر کی ضرورت نہیں ہے، (بحار الانوار ، جلد ۶ ، صفحہ ۲۷۱)

دنیا میں بھی جدا ہونے کا امکان ہوتا ہے ، (جیسا کہ ہم پہلے بھی عرض کرچکے ہیں)

اب اگر ہم مثالی بدن کی ان تمام خصوصیات کو قبول (بھی) نہ کریں تو اصل مطلب سے انکار نہیں کیا جاسکتا، کیونکہ بہت سی روایات میں اس کی طرف اشارہ کیا گیا ہے، اور عقلی لحاظ سے بھی کوئی مانع نہیں ہے۔ضمناً ہماری گزشتہ گفتگو سے اس اعتراض کا جواب بھی واضح ہوجاتا ہے ، جیسا کہ بعض لوگ کہتے ہیں: بدن مثالی کا قائل ہونا گویا تناسخ کا قائل ہونا، کیونکہ تناسخ بھی اس کے علاوہ کوئی چیز نہیں ہے کہ ایک روح مختلف بدن میں منتقل ہوتی رہے۔

اس اعتراض کاجواب شیخ بہائی علیہ الرحمہ نے واضح طور پر پیش کیا ہے، چنانچہ موصوف فرماتے ہیں: جس تناسخ کے باطل ہونے پر تمام مسلمانوں کا اتفاق ہے اس سے مراد یہ ہے کہ انسان کی روح جسم سے نکلنے کے بعد اسی دنیا میں کسی دوسرے بدن میں منتقل ہوجائے، لیکن قیامت تک کے لئے عالم برزخ میں روح کا مثالی بدن میں بدل جانا جو پھر خدا کے حکم سے اسی پہلے بدن میں منتقل ہونا، اس کاتناسخ سے کوئی تعلق نہیںہے ،اور اگر ہم شدت کے ساتھ تناسخ کا انکار کرتے ہیں اور تناسخ کے قائل افراد کو کافر جانتے ہیں تو اس کی وجہ یہی ہے کہ یہ لوگ ارواح کو ازلی مانتے ہیں اور قائل ہیں کہ یہی روح ایک بدن سے دوسرے بدن میں منتقل ہوتی رہتی ہے ، جس کی بنا پر روز قیامت معادِ جسمانی کا انکار کرتے ہیں۔(۴) جس طرح سے بعض لوگ کہتے ہیں کہ بدن مثالی اسی مادی بدن کے اندر ہوتا ہے تو پھر تناسخ کا جواب روشن تر ہوجاتا ہے، کیونکہ روح اپنے بدن سے دوسرے بدن میں منتقل نہیں ہوئی ہے بلکہ بدن کے ایک حصہ سے جدا ہوکر دوسرے حصہ کے ساتھ عالم برزخ میں زندگی بسرکرتی ہے۔(۵)

____________________

۱)سورہ آل عمران ، آیت ۱۶۹ (۲) سورہ مومن( غافر) ، آیت ۴۶

(۳) تفسیر نمونہ ، جلد ۱۴، صفحہ ۳۱۴

(۴) بحار الانوار ، جلد ۶، صفحہ ۲۷۷ (۵) تفسیر نمونہ ، جلد ۱۴، صفحہ ۳۲۲

۶۵ ۔ کیا دنیا اور آخرت میں تضاد پایا جاتا ہے ؟

قرآن مجید کی متعدد آیات میں دنیا کی اپنے مادی امکانات کے ساتھ تعریف و تمجید کی گئی ہے: بعض آیات میں مال کو ”خیر“ کے عنوان سے یاد کیا گیا ہے:( کُتِبَ عَلَیْکُمْ إِذَا حَضَرَ اٴَحَدَکُمْ الْمَوْتُ إِنْ تَرَکَ خَیْرًا الْوَصِیَّةُ لِلْوَالِدَیْنِ وَالْاٴَقْرَبِینَ بِالْمَعْرُوفِ حَقًّا عَلَی الْمُتَّقِینَ ) (۱)

مہارے اوپر بھی لکھ دیا ہے کہ جب تم میں سے کسی کی موت سامنے آجائے تو اگر کوئی (خیر) مال چھوڑا ہے تو اپنے ماں باپ اور قرابتداروں کے لئے وصیت کردے یہ صاحبان تقویٰ پر ایک طرح کا حق ہے“۔

بہت سی آیات میں مادی نعمتوں کو فضل خدا کا عنوان دیا گیا ہے،( وَابْتَغُوا مِن فَضْلِ اللهِ ) (۲)

”اور فضل خدا کو تلاش کرو۔“۔

ایک دوسری جگہ ارشاد ہوتا ہے : ”روئے زمین کی تمام نعمتیں تمہارے لئے پیدا کی گئی ہیں،( خَلَقَ لَکُمْ مَا فِی الْاٴَرْضِ جَمِیعًا ) (سورہ بقرہ ، آیت ۲۹)

بہت سی آیات میں ان تمام چیزوں کے لئے کہا گیا ہے:( سَخَّرَ لَکُم ) (یہ سب تمہارے لئے مسخر کردی گئی ہیں) ، اور اگر تمام ان آیات کو ایک جگہ جمع کیا جائے کہ جن میں مادی امکانات کو محترم شمار کیا گیا ہے توان کی کثیر تعداد ہو جائے گی۔

لیکن مادی نعمتوں کی اس قدر اہمیت ہونے کے بعد بھی قرآن مجید میں ایسے الفاظ ملتے ہیں جن میں ان مادی چیزوں کو تحقیر اور ذلت کی نگاہ سے دیکھا گیا ہے۔

ایک جگہ متاع فانی اور عرض شمار کیا گیا ہے:( تَبْتَغُونَ عَرَضَ الْحَیَاةِ الدُّنْیَا ) (سورہ نساء ، آیت ۹۴)

ایک دوسری جگہ اس کو غرور اور غفلت کا سبب شمار کیا گیاہے:( وَمَا الْحَیَاةُ الدُّنْیَا إِلاَّ مَتَاعُ الْغُرُور ) (سورہ حدید ، آیت ۲۰)

ایک دوسرے مقام پر دنیا کو لہو و لعب اور کھیل کود سے تعبیر کیا گیا ہے:( وَمَا هَذِهِ الْحَیَاةُ الدُّنْیَا إِلاَّ لَهْوٌ وَلَعِبٌ ) (سورہ عنکبوت ، آیت ۶۴)

ایک دوسری جگہ یاد خدا سے غفلت کا سبب قرار دیا گیا ہے:( رِجَالٌ لاَتُلْهِیهِمْ تِجَارَةٌ وَلاَبَیْعٌ عَنْ ذِکْرِ الله ) (سورہ نور ، آیت ۳۷)

اسی طرح یہ مختلف نظریہ روایات میں بھی بیان ہوا ہے:

ایک طرف تو دنیا کو آخرت کی کھیتی، نیک اور صالح افراد کے لئے تجارت گاہ ،دوستان حق کے لئے مسجد، وحی الٰہی کے نزول کی جگہ، اور وعظ و نصیحت کا مقام شمار کیا گیا ہے، جیسا کہ حدیث میں وارد ہوا ہے: ”مَسجدُ احباء الله و مُصَلّٰی ملائکة الله و مھّبط وحيّ الله و متّجر اولیاء الله“(۳)

دوسری طرف اسی دنیاکی مذمت کی گئی ہے اور اس کو غفلت و بے خبری اور یاد خدا سے غافل ہونے کا سبب قرار دیا گیا ہے۔

کیا اس طرح کی تمام آیات و روایات میں تضاد ہے ؟

اس سوال کا جواب بھی خود قرآن مجید سے حاصل کیا جاسکتا ہے۔

دنیا اور اس کی نعمتوں کی مذمت اس جگہ کی گئی ہے جہاں ان لوگوں کو مخاطب قرار دیا گیا ہے کہ جن کا ہدف اور مقصد صرف یہی دنیاوی زندگی ہے، جیسا کہ سورہ نجم میں ارشاد ہوتا ہے:( وَلَمْ یَرِدْ إلاَّ الحیٰوة الدُّنْیَا ) (سورہ نجم ، آیت ۲۹) ” اور زندگی دنیا کے علاوہ کچھ نہ چاہے“۔

دوسرے الفاظ میں یوں کہا جائے کہ یہ گفتگو ان لوگوں کے بارے میں ہے جو آخرت کو دنیا کے بدلے بیچ ڈالتے ہیں اور دنیاوی مادیات تک پہنچنے کے لئے کسی بھی ظلم و ستم اور خلاف ورزی کی پرواہ نہیں کرتے۔

سورہ توبہ میں ارشاد ہوتا ہے:( اٴ رَضِیتُمْ بِالحَیٰوةِ الدُّنْیَا مِنَ الاٴَخِرَةِ ) (سورہ توبہ ، آیت ۳۸) کیا تم آخرت کے بدلے زندگانی دنیا سے راضی ہوگئے ہو؟“۔

محل بحث آیات خود اس بات پر شاہد ہیں جیسا کہ ارشاد ہے:( من کان یرید العاجلة ) (یعنی صرف ان کا ہدف اور مقصد یہی جلد ہی ختم ہوجانے والی مادی زندگیہے۔)

اصولاً ”کھیتی“ یا ”تجارت گاہ“ وغیرہ جیسے الفاظ اس سلسلہ میں زندہ گواہ ہیں۔

مختصر یہ کہ مادی نعمتیں سب خداوندعالم کی طرف سے ہیں اور نظام خلقت میں ان کا موجود ہونا ضروری تھا اور اگر انسان ان کے ذریعہ معنوی کمال اور سعادت تک پہنچنے میں مدد حاصل کرے تو ہر لحاظ سے قابل تحسین ہیں۔

لیکن اگر صرف دنیا ہی کو مقصد بنا لیا جائے اور اس کو آخرت کا وسیلہ نہ قرار دیا جائے تو اس صورت میں یہی مادی نعمتیں ، غفلت و غرو ر، طغیان و سرکشی اور ظلم و ستم کا عنوان حاصل کرلیں گی، جس کی ہر لحاظ سے مذمت کی جائے گی۔

واقعاً حضرت علی علیہ السلام نے اپنے مختصر اور پُر معنی کلام میں کیا بہترین ارشادفرمایا”مَنْ ابصَرَ بھَا بصّرتہ وَمَنْ ابصَرَ إلَیھَا اعمتہ“(۴) (جس نے اس دنیا کو چشم بصیرت کے ساتھ دیکھا (اور اس کو بینائی کا وسیلہ قرار دیا) تو دنیا اس کو بصیرت اور آگاہی عطا کرتی ہے، اور اگر کسی نے خود دنیا کو دیکھا تودنیا اس کو نابینا کردیتی ہے۔)

در اصل مذموم اور ممدوح دنیامیں یہیفرق ہے کہ اگر اس کو ہدف قرار دیا جائے تو مذموم ہے اور اگر اس کو ذریعہ اور وسیلہ قرار دیا جائے تو ممدوح ہے۔(۵)

حضرت امام محمد باقر علیہ السلام سے ایک حدیث میں بیان ہوا ہے: ”نِعمَ العَون الدُّنْیَا عَلَی طَلَبِ الآخرة“(۶) ( آخرت تک پہنچنے کے لئے دنیا بہترین مددگار ہے۔)

سورہ قصص کی آیات میں مالدار اور مغرور ”قارون“ کی بہت زیادہ مذمت کی گئی ہے، جو اس موضوع کے لئے بہترین شاہد ہے ، لیکن اسلام اس مال و دولت کو پسند کرتا ہے جو ”آخرت کے لئے کام آئے“، جس کے ذریعہ آخرت حاصل کی جائے، جیسا کہ بنی اسرائیل کے علماقارون سے کہتے تھے: ”وَابْتَغِ فِیمَا آتَاکَ الله الدَّار الآخرة“ ( خدا کی عطا کردہ نعمتوں کے ذریعہ آخرت حاصل کرنے کی فکر کر)۔

اسلام اس مال کو پسند کرتا ہے جس کے ذریعہ سب کے ساتھ نیکی کی جائے: ”احْسَنَ کَمَا احسنَ الله إلیک“

اسلام اس مال و دولت کی مدح و ثنا کرتا ہے جس میں انسان دنیا سے صرف اپنے حق کو نہ بھولے: ”لَاتَنْسِ نَصِیبکَ مِنَ الدُّنْیَا“

خلاصہ اسلام ایسے مال و دلت کو پسند کرتا ہے جس کے ذریعہ ظلم و فساد برپا نہ کیا جائے، انسانی اقدار کی پائمالی نہ ہو، اور مال زیادہ کرنے کے جنون میں مبتلا نہ ہو، نیز مال ”خود پسندی“ اور دوسرے کو ذلیل سمجھنے کا باعث نہ ہو یہاں تک کہ انسان مال و دولت کے نشہ میں خدا و رسول کے مقابلہ میں نہ آجائے۔

اس مال کے ذریعہ سب کی مشکلات دور کرناچاہئے، یہ مال اگر غریبوں کے زخم کا مرہم بن جائے، محتاج لوگوں کے درد کی دوا بن جائے تو واقعاً اسلام اس مال کوپسند کرتا ہے۔

ان مقاصد کے تحت مال و دولت حاصل کرنا دنیا کی محبت نہیں ہے، بلکہ یہ آخرت کی لگن ہے، جیسا کہ حدیث میں وارد ہوا ہے: حضرت امام صادق علیہ السلام کے دوستوں میں سے ایک شخص آپ کی خدمت میں آیا اور اس نے شکایت کی کہ ہم دنیا سے محبت کرتے ہیں اور اس کی آرزو کرتے ہیں (لیکن میں ڈرتا ہوں کہ کہیں دنیا پرست نہ ہوجاؤں!!)

امام علیہ السلام (اس شخص کے تقویٰ اور پاکیزگی سے باخبر تھے، آپ)نے فرمایا: تم مال و دولت سے کیا کیا کام انجام دیتے ہو؟ اس نے عرض کی: اپنے او ر اپنے اہل و عیال کا خرچ پورا کرتا ہوں، اپنے رشتہ داروں کی مدد کرتا ہوں، راہ خدا میں خرچ کرتا ہوں اور حج و عمرہ بجالاتا ہوں، اس وقت امام علیہ السلام نے فرمایا: ”لَیسَ ھَذا طَلَبُ الدُّنیَا ھَذَا طَلَبُ الآخِرةِ“(۷) (یہ دنیا طلبی اور دنیا پرستی نہیں ہے ، بلکہ یہ آخرت کا سوداہے)اور یہیں سے ان دو گروہوں کے نظریہ کاباطل ہونا بھی واضح ہوجاتا ہے : پہلا گروہ ایسے مسلمانوں کا ہے جن کو تعلیمات اسلامی کی کوئی خبر نہیں ہے اور اسلام کو مستکبرین کا حامی قرار دیتے ہیں، اور دوسرا گروہ ان دشمنوں کا ہے جو اسلام کی صورت بگاڑ کر پیش کرتے ہیں، اور اسلام کو مال و

دولت کا مخالف اور فقر و غربت کا طرفدار قرار دیتے ہیں۔

اصولی طور پر کوئی غریب قوم آزادی اور سربلند ی کی زندگی نہیں گزار سکتی۔

فقر و غربت وابستگی کا وسیلہ ہے۔

فقر و غربت دنیا و آخرت کی ذلت کا نام ہے۔

فقر و غربت انسان کو گناہ اور آلودگی کی دعوت دیتے ہیں۔

جیسا کہ حضرت امام صادق علیہ السلام سے منقول حدیث میں وارد ہوا ہے”غَنیٌّ یحجزُکَ عَن الظُّلْمِ خَیرٌ مِن فَقْرٍ یَحمَلُکَ عَلَی الا ثمِ“(۸) ( ایسی بے نیازی جو دوسروں پر ظلم کرنے سے روک لے، اس فقر و غربت سے بہتر ہے جو تجھے گناہوں کی دعوت دے)۔

تمام ملت اسلام کو اس بات کی کوشش کرنی چاہئے کہ غنی بنیں اور دوسروں سے بے نیاز ہو جائیں، خود کفائی کی منزل تک پہنچیں اور اپنے پیروں پر کھڑے ہوں، اور اپنی عزت و شرافت اور استقلال کو فقر و غربت اور دوسرے سے وابستگی پر قربان نہ کریں، یہی اسلام کا اصلی راستہ ہے۔(۹)

____________________

(۱) سورہ بقرہ ، آیت نمبر ۱۸۰

(۲) سورہ جمعہ ، آیت ۱۰

(۳) نہج البلاغہ ،کلمات قصار ،جملہ ۱۳۱

(۴) نہج البلاغہ ،خطبہ نمبر ۸۲ (۵) تفسیر نمونہ ، جلد ۱۲، صفحہ ۶۷

(۶) ”وسائل الشیعہ “، جلد ۱۲، صفحہ ۱۷، (حدیث ۵ ،باب ۱۶،ابواب مقدمات تجارت)

(۷) وسائل الشیعہ، جلد ۱۲، صفحہ ۱۹، (حدیث ۳، باب ۷،ابواب مقدمات التجارة)

(۸) وسائل الشیعہ، جلد ۱۲، صفحہ ۱۷ (حدیث ۷باب ۶، ابواب مقدمات التجارة)

(۹) تفسیر نمونہ ، جلد ۱۶، صفحہ ۱۷۴