110 سوال اور جواب

110 سوال اور جواب0%

110 سوال اور جواب مؤلف:
زمرہ جات: مناظرے

110 سوال اور جواب

مؤلف: آیت اللہ ناصر مکارم شیرازی
زمرہ جات:

مشاہدے: 135727
ڈاؤنلوڈ: 5291

تبصرے:

110 سوال اور جواب
کتاب کے اندر تلاش کریں
  • ابتداء
  • پچھلا
  • 126 /
  • اگلا
  • آخر
  •  
  • ڈاؤنلوڈ HTML
  • ڈاؤنلوڈ Word
  • ڈاؤنلوڈ PDF
  • مشاہدے: 135727 / ڈاؤنلوڈ: 5291
سائز سائز سائز
110 سوال اور جواب

110 سوال اور جواب

مؤلف:
اردو

۶۶ ۔ نامہ اعمال کیا ہے اور اس کا فلسفہ کیا ہے؟

جیسا کہ قرآن مجید میں ارشاد ہوتا ہے:

( وَکُلَّ إِنسَانٍ اٴَلْزَمْنَاهُ طَائِرَهُ فِی عُنُقِهِ وَنُخْرِجُ لَهُ یَوْمَ الْقِیَامَةِ کِتَابًا یَلْقَاهُ مَنشُورًا ) (۱)

” اور ہم نے ہر انسان کے نامہ اعمال کو اس کی گردن میں آویزاں کردیا ہے اور روز قیامت اسے ایک کھلی ہوئی کتاب کی طرح پیش کردیں گے“۔ (یہ وہی نامہ اعمال ہے اور ہم اس سے کہیں گے: اپنی کتاب پڑھو)

یہاں یہ سوال پیدا ہوتا ہے کہ یہ نامہ اعمال کیا ہے اور اس کا مقصد کیا ہے؟

اس سلسلہ میں بیان شدہ آیات و روایات کے پیش نظر نتیجہ یہ نکلتا ہے کہ انسان کے تمام چھوٹے بڑے اعمال اس کی کتاب میں لکھے جاتے ہیں اور اگر انسان نیک ہے تو روز قیامت اس کا نامہ اعمال داہنے ہاتھ میں دیا جائے گا، اور اگر برے لوگوں میں سے ہے تو اس کا نامہ اعمال بائیں ہاتھ میں دیا جائے گا۔

بے شک یہ کتاب اور نامہ اعمال ہمارے گھر میں موجود کتاب اور کاپی کی طرح بالکل نہیں

ہے، اسی وجہ سے بعض مفسرین نے کہا ہے کہ یہ نامہ اعمال ”انسانی روح“ کے علاوہ کچھ نہیں ہے، کیونکہ اسی روح میں انسان کے تمام اعمال ثبت ہوجاتے ہیں،(۲) کیونکہ ہم جو عمل بھی انجام دیتے ہیں اس کا اثر ضرور ہماری روح و جان پر ہوتا ہے۔

یا یہ کہ یہ نامہ اعمال ہمارے اعضا و جوارح ہمارے ہاتھ پیر، آنکھ کان وغیرہ اور اس سے بالاتر وہ ہوا او رفضا ہے جس میں ہم نے وہ عمل انجام دیا ہے، کیونکہ ہمارے اعمال ہمارے جسم اور تمام اعضا پر اثر کرنے کے علاوہ ہوا اور زمین میں منعکس ہوجاتے ہیں۔

اگرچہ ہم اس دنیا میں ان آثار کو محسوس نہیں کرسکتے، لیکن بے شک وہ موجود ہیں، اور جس دن ہماری آنکھوں میں نئی روشنی پیدا ہو جائے گی ان سب کو دیکھیں گے اور ان کو پڑھیں گے۔

مذکورہ آیت میں( إقْرَاٴ کِتَابکَ ) ( اپنی کتاب پڑھو)کا جملہ بیان ہوا ہے۔

لیکن یہ جملہ، مذکورہ تفسیر سے کہیں دور نہ کردے، کیونکہ پڑھنے کے وسیع معنی ہوتے ہیں جس میں ہر طرح کا مشاہدہ آتا ہے، مثال کے طو رپر ہم اپنی روز مرّہ کی گفتگو میں کہتے ہیں کہ میں نے فلاں کی آنکھوں کو پڑھا کہ اس کا کیا ارادہ ہے، یا فلاں کام کرنے والے کے قیافہ و چہرہ کو پڑھ لیا ہے، اسی طرح بیماروں کے ایکسرے کو آج کل پڑھنا ہی کہتے ہیں۔

اسی وجہ سے ہم قرآنی آیات، میں پڑھتے ہیں کہ اس نامہ اعمال کی سطروں کا کسی بھی صورت میں انکار نہیں کیا جاسکتا، کیونکہ یہ خود عمل کے واقعی اور تکوینی آثار ہیں اور بالکل انسان کی ریکارڈ کی ہوئی آواز یا فوٹو یا انگوٹھے کے نشان کی طرح ہیں۔(۳)

نامہ اعمال کا فلسفہ

قرآنی آیات اور روایات میں نامہ اعمال کی تفصیل بیان ہونا خصوصاً جبکہ اعمال ، گفتگو اور نیت کی تمام جزئیات اس میں لکھی جاتی ہیں تو سب سے پہلے اس پر تربیتی آثار مرتب ہوتے ہیں ، جیسا کہ ہم نے بارہا اس بات کو عرض کیا ہے کہ قرآن کریم کی تمام تعلیمات انسان کے لئے تہذیب نفس ،روح کی پاکیزگی ،کمالات روحانی اور اخلاق و پرہیزگاری اصول کو مضبوط بنانے کے لئے ہے، اور یہ تمام انسانوں کے لئے ایک چیلنج ہے تاکہ اپنی رفتار و گفتار پر نظر رکھیں کیونکہ تمام چیزیں لکھی جارہی ہیں، اور روز قیامت ہو بہو دکھادی جائیں گی۔

یہ صحیح ہے کہ خداوندعالم کا علم تمام چیزوں پر احاطہ کئے ہوئے ہے اور جو شخص خداوندعالم کے علمی احاطہ پر ایمان رکھتا ہو کہ خداوندعالم ہر جگہ موجود ہے اور سب چیزوں کو دیکھ رہا ہے تو ایسے شخص کے لئے نامہ اعمال کی کوئی ضرورت نہیں ہے لیکن اس حقیقت پر توجہ کرنے سے اکثر لوگوں میں بہت مفید آثار مرتب ہوتے ہیں۔

اگر کوئی یہ جانتا ہو کہ اس کے ساتھ ایک ایسا کیمرہ موجود ہے جو اس کی آواز بھی ریکارڈ کررہا ہے اور اس کی فلم بھی بنارہا ہے، چاہے وہ گھر کے اندر ہو یا گھر سے باہر، گویا اپنے اعضا و جوارح کے ذریعہ جو کچھ بھی انجام دے رہا ہے وہ سب ریکارڈ ہورہا ہے ، اور ایک روز ایسا آئے گا جب خداوندعالم کی عدالت میں یہ سب فلم اور کیسٹ زندہ گواہ کی شکل میں اس کے سامنے پیش کی جائیں گی،تو یقینا ایسا انسان اپنی رفتار و گفتار پر مکمل توجہ دےتا ہے، اور پھر اس کے ظاہر و باطن پرتقویٰ اور پرہیزگاری کی ہی حکومت ہوگی۔

نامہ اعمال پر ایمان رکھنا کہ اس میں ہر چھوٹا بڑا اعمال لکھا جارہا ہے اور دو فرشتہ انسان کے اعمال لکھنے کے لئے ہر وقت اس کے ساتھ ہیں، اور یہ عقیدہ رکھنا کہ اس کا نامہ اعمال سب کے سامنے روز قیامت پیش کیا جائے گا اور تمام چھپے ہوئے گناہ اس میں ظاہر ہوجائیں گے جس سے دوست و دشمن سبھی کے سامنے ندامت اور رسوائی ہوگی، لہٰذا یہ ایمان انسان کو گناہوں سے روکنے کے لئے بہترین سبب ہے۔

نیک افراد کا نامہ اعمال ان کے لئے باعث افتخار اور عزت کا سبب ہوگا، ان کے اعمال بہتر اور موثر تر دکھائی دیں گے، اور یہ چیز نیک اعمال انجام دینے کے لئے بہترین علت ہے،لیکن بعض لوگوں کا ایمان ضعیف ہوتا ہے اور کبھی کبھی غفلت کا پردہ ان کو ان اہم حقائق سے دور کردیتا ہے، ورنہ قرآن کی یہ اصل ہر انسان کی تربیت کے لئے کافی ہے۔(۴)

____________________

(۱)سورہ اسراء ، آیت ۱۳

(۲) تفسیر صافی

(۳)تفسیر نمو نہ ، جلد ۱۲ ،صفحہ ۵۵

(۴) تفسیر پیام قرآن ، جلد ۶، صفحہ ۱۰۷

۶۷ ۔ روز قیامت اعمال کو کس قسم کی ترازومیں تولے جائیں گے؟

جن لوگوں نے روز قیامت کی میزان کو دنیا کی ترازو کی طرح قرار دیا ہے وہ اس بات پر مجبور ہیں کہ انسان کے اعمال کے لئے ایک قسم کا وزن قرار دیں تاکہ اس کو ترازو میں تولا جاسکے۔

لیکن بہت سے قرائن و شواہد اس بات کی عکاسی کرتے ہیں کہ ”میزان“ سے مراد عام ناپ تول کے معنی میں ہے، کیونکہ ہم یہ بات اچھی طرح جانتے ہیں کہ ہر چیز کی ناپ تول کے لئے ایک الگ آلہ ہوتا ہے، درجہ حرارت کو معین کرنے کے لئے ”تھرما میٹر“ ہوتا ہے، یا ہوا کا اندازہ لگانے کے لئے ”ایر میٹر “ ہوتا ہے۔ لہٰذا میزانِ اعمال سے مراد وہ افراد ہیں جن کے اعمال کے ذریعہ نیک اور بُرے لوگوں کے اعمال کا موازنہ کیا جائے، جیسا کہ علامہ مجلسی علیہ الرحمہ شیخ مفید سے نقل کرتے ہیں: ”ان امیر المومنین والائمة من ذریته (ع)هم الموازین(۱) (امیر المومنین اور ائمہ (علیہم السلام)قیامت میں عدل الٰہی کی میزان ہیں)”اصول کافی“ اور ”معانی الاخبار“ میں بھی حضرت امام صادق علیہ السلام سے منقول ہے کہ ایک شخص نے آیہ شریفہ :( وَنَضعُ المَوازِینَ القِسط لِیَومِ القَیامةِ ) (ہم روز قیامت

عدل و انصاف کی ترازو قرار دیں گے) کے بارے میں سوال کیا تو امام علیہ السلام نے فرمایا: ”هم الانبیاء والاوصیاء(۲) (میزان اعمال سے مراد انبیاء ا ور ان کے جانشین ہیں) حضرت امیر المومنین علیہ السلام کی زیاراتِ مطلقہ میں سے ہم ایک زیارت میں پڑھتے ہیں: ”السَّلام علیٰ مِیزَانُ الاٴعمَال “ (سلام ہو تم پر اے میزان اعمال!)(۳) در اصل یہ عظیم الشان شخصیات اعمال کے لئے نمونہ اور معیار ہیں، اور ہر شخص کے اعمال اگر ان حضرات کے اعمال سے شباہت رکھتے ہیں تو ان کا وزن ہے اور اگر ان کے اعمال سے شباہت نہیں رکھتے تو ان کا کوئی وزن نہیں ہے، یہاں تک کہ اس دنیا میں بھی اولیاء اللہ، اعمال کے لئے معیار ہیں ، لیکن روز قیامت یہ مسئلہ بالکل واضح ہوجائے گا۔(۴)

____________________

(۱) بحار الانوار ، جلد ۷، صفحہ ۲۵۲

(۲) تفسیر برہان ، جلد ۳، صفحہ ۶۱، اصول کافی ، جلد اول، صفحہ ۴۱۹ اس حدیث کا تذکرہ دو سری تفسیروں میں بھی آیا ہے

(۳) محدث قمی علیہ الرحمہ نے مفاتیح الجنان میں زیارات مطلقہ میں پہلی زیارت قرار دی ہے

(۴) تفسیر پیام قرآن ، جلد ۶،صفحہ ۱۵۹

۶۸۔ پُل صراط کی حقیقت کیا ہے؟

اگرچہ عالمِ بعد از مرگ اور حقائق ِقیامت کے سلسلہ میں تفصیلی معلومات اس دنیا والوں کے لئے نا ممکن ہے، لیکن ایسا بھی نہیں ہے کہ ہمیں اجمالی اور مختصر معلومات کا علم بھی نہ ہوسکے۔

آیات و روایات کے پیش نظر یہ معلوم ہوتا ہے کہ ”پل صراط“ جنت کے راستہ میں جہنم کے اوپر ایک پُل ہے جس سے سب نیک اور بُرے لوگ گزریں گے، نیک افراد بہت تیزی سے گزر جائیں گے اور خدا کی بے انتہا نعمتوں تک پہنچ جائیں گے، لیکن بُرے لوگ اس پُل سے جہنم میں گرجائیں گے! یہاں تک کہ بعض روایات سے یہ معلوم ہوتا ہے کہ ”پل صراط“ سے گزرنے کی رفتار نیک لوگوں کے ایمان و اخلاص اور اعمال صالحہ کے لحاظ سے ہوگی۔

حضرت امام صادق علیہ السلام سے منقول ایک روایت میں پڑھتے ہیں:

”فَمِنْهُم مَن یمرّ مثل البُراق، وَمِنْهُم مَن یَمرّ مثل عدوالفرس ،وَمِنْهُم مَن یمرحبواً،وَمِنْهُم مَن یَمرّمشیاً،وَمِنْهُم مَن یمرّمتعلقاً،قد تاٴخذ النَّار منه شیئاً وتترک شیئاً “۔(۱)

”پل صراط“ سے کچھ لوگ بجلی کی طرح گزر جائیں گے، او رکچھ لوگ تیز رفتار گھوڑے کی طرح ،کچھ لو گ پیدل،کچھ لوگ رینگتے ہوئے اور کچھ لوگ آہستہ گزریں گے،اور کچھ لوگ ہوں گے جو صراط کو پکڑے ہوئے چلیں گے جب کہ ان کے پیر ادھر ادھر ڈگمگاتے ہوں گے، جہنم کی آگ ان میں سے کچھ کو اپنے اندر کھینچ لے گی اور کچھ کو چھوڑ دے گی“۔

لیکن یہاں یہ سوال اٹھتا ہے کہ جنت میں جانے کے لئے دوزخ کے اوپر سے کیوں گزرنا پڑے گا ؟اس کے جواب میں ہم اہم نکات بیان کرتے ہیں:

اس سے ایک طرف تو اہل بہشت دوزخ کو دیکھ کہ عافیت اور بہشت کی قدر کو بہتر سمجھ لیں گے، دوسری طرف ”پل صراط“ ہمارے لئے ایک نمونہ ہے تاکہ ہم دنیا میں شہوت کے بھڑکتے ہوئے جہنم سے گزر کر بہشت تقویٰ تک پہنچ سکیں، اور تیسری طرف سے مجرم اور گناہگاروں کے لئے ایک چیلنج ہے کہ آخر کار ایک باریک اور خطرناک راستہ سے ان کا گزر ہوگا۔

اسی وجہ سے ”مفضل بن عمر“ سے منقول ایک حدیث میں بیان ہوا ہے،کہ جب میں نے امام علیہ السلام سے ”صراط“ کے بارے میں سوال کیا تو حضرت نے فرمایا: صراط معرفت خدا کا راستہ ہے۔

اس کے بعد امام علیہ السلام نے مزید فرمایا: صراط دو ہیں ایک صراط دنیا میں اور ایک صراط آخرت میں، اور صراط دنیا سے مراد ”واجب الاطاعت امام“ ہے، جو شخص اپنے امام کو پہچان لے ،اس کی اقتدا کرے اوراس کے نقش قدم پر چلے تو جہنم پر بنے ہوئے پل صراط سے گزر جائے گا، لیکن جو شخص دنیا میں اپنے امام کو نہ پہچانے تو آخرت میں پُل صراط پر ڈگمگاتے ہوئے جہنم میں گرجائے گا۔(۲)

تفسیر امام حسن عسکری علیہ السلام میں ان دوصراط (صراط دنیا اور صراط آخرت) سے مراد :

”صراط مستقیم“ (یعنی ”غلو“ اور ”تقصیر“ کے درمیان معتدل راستہ) اور ”صراط آخرت“ ہے۔(۳)

یہ نکتہ بھی قابل توجہ ہے کہ اسلامی روایات میں پُل صراط سے گزرنے کو بہت مشکل مرحلہ قرار دیا گیا ہے، پیغمبر اکرم (ص) (اور حضرت امام صادق علیہ السلام) سے منقول حدیث میں بیان ہواہے: ”إنَّ عَلیٰ جھنّم جَسْراً ادقّ مِنَ الشَّعْر واحدّ مِنَ السَّیْفِ“(۴) (جہنم کے اوپر ایک پُل ہے جو بال سے زیادہ باریک اور تلوار کی دھار سے زیادہ تیز ہے۔)

اس دنیا میں صراط ”مستقیم“ اور حقیقت ”ولایت “ اور” عدالت“ بھی اسی طرح ہے، بال سے زیادہ باریک اور تلوار کی دھار سے زیادہ تیز ہے کیونکہ سیدھی لکیر باریک ہی ہوتی ہے اور اس کے علاوہ دائیں بائیں انحرافی لکیریں ہوتی ہیں۔

ظاہر سی بات ہے کہ صراط آخرت بھی اسی طرح ہے۔

لیکن ،جیسا کہ پہلے بھی اشارہ ہوچکا ہے بعض لوگ اپنے ایمان اور عمل صالح کی بدولت اس خطرناک راستہ سے بہت تیز گزر جائیں گے۔

اس بات میں کوئی شک نہیں ہے کہ پیغمبر اکرم (ص) اور آپ کی عترتِ طاہرہ سے محبت اس خطرناک راستہ کو آسان بناسکتی ہے، جیسا کہ پیغمبر اکرم (ص) سے منقول ایک روایت میں پڑھتے ہیں: ”إذَا کَانَ یَومَ القیامَةِ وَنُصِبَ الصّراط عَلیٰ جَهنّم لَم یجزْ عَلَیه إلا مَن کَانَ مَعَهُ جَوازُ فِیهِ وِلایةُ عَلِيّ ابن اٴبي طالب(۵) روز قیامت جس وقت جہنم کے اوپر پُل قرار دیا جائے گا اس سے صرف وہی شخص گزرسکے گا جس کے پاس اجازت نامہ ہوگا ، اور وہ اجازت نامہ ” علی بن ابی طالب علیہ السلام کی ولایت“ ہوگی، اسی طرح کے الفاظ جناب فاطمہ زہرا سلام اللہ علیہا کے سلسلہ میں بھی بیان ہوئے ہیں۔ یہ بات واضح ہے حضرت علی علیہ السلام اور جناب فاطمہ سلام اللہ علیہا کی ولایت، پیغمبر اکرم کی ولایت اور قرآن و اسلام اور دیگر ائمہ معصومین سے الگ نہیں ہے، در اصل جب تک ایمان، اخلاق اور نیک عمل کے ذریعہ معصومین علیہم السلام سے رابطہ مضبوط نہ ہوجائے، اس وقت تک پُل صراط سے گزرنا ممکن نہیں ہے، اس سلسلہ میں متعدد روایات بیان ہوئی ہیں، (محترم قارئین ! اس سلسلہ میں مزید آگاہی کے لئے بحار الانوار ، جلد ۸ فصل صراط کا مطالعہ فرمائیں، خصوصاً حدیث نمبر ۱۲ ، ۱۳ ، ۱۴ ، ۱۵ ، ۱۶،۱۷ ۔)

اس پل صراط کے عقیدہ پر ایمان کا ایک تربیتی پہلو یہ ہے کہ یہ خطرناک، ہولناک اور بال سے زیادہ باریک اور تلوار کی دھار سے تیزایک ایسا راستہ ہے جس میں متعدد مقامات پر روکا جائے گا اور ہر مقام پر کچھ سوالات کئے جائیں گے، ایک مقام پر نماز کے بارے میں سوال ہوگا، دوسری جگہ امانت اور صلہ رحم کے بارے میں سوال ہوگا، اور آگے بڑھیں گے تو عدالت وغیرہ کے بارے میں سوال ہوگا، اور یہ ایک ایسا راستہ ہے جس سے گزر ناپیغمبر اکرم (ص) اور حضرت امیر المومنین علی علیہ السلام کی ولایت اور ان حضرات کے اخلاق کو اپنائے بغیر ممکن نہیں ہے، اور آخر کار ایک ایسا راستہ ہے کہ ہر شخص اپنے ایمان اور اعمال صالح کے نورکے ذریعہ تیزی سے گزرسکتا ہے، اور اگر کوئی شخص پل صراط سے صحیح و سالم نہیں گزر پائے گا تو دوزخ میں گرجائے گا، اور کسی بھی صورت میں معنوی و مادی نعمتوں سے مستفید نہیں ہوپائے گا یعنی جنت میں نہیں پہنچ پائے گا۔

لہٰذا اس معنی پرتوجہ اور اس پر ایمان رکھنے سے بے شک تربیتی لحاظ سے انسان کے اعمال پر بہت زیادہ اثر ہوتا ہے، اور انسان کو راستہ کے انتخاب اور حق و باطل میں جدائی کرنے نیز اولیاء اللہ کے کردار کو اپنانے میں مدد کرتا ہے۔(۶)

____________________

(۱) امالی صدوق ،مجلس ۳۳

(۲) معانی الاخبار صفحہ ۳۲، پہلی حدیث

(۳) بحار الانوار ، جلد ۸، صفحہ ۶۹، حدیث ۱۸

(۴) میزان الحکمہ، جلد ۵، صفحہ ۳۴۸، امام جعفر صادق علیہ السلام کی حدیث میں ’ ’إنَّ عَلیٰ جهنّم جِسراً “کی جگہ لفظ ”الصراط “ آیا ہے ، (بحار الانوار ، جلد ۸، صفحہ ۶۴ حدیث۱)

(۵) بحار الانوار، جلد ۸، صفحہ ۶۸،حدیث۱۱

(۶) تفسیر پیام قرآن ، جلد ۶، صفحہ ۱۹۱

۶۹ ۔ فلسفہ شفاعت کیا ہے؟ اور کیا شفاعت کی امید ،گناہ کی ترغیب نہیں دلاتی؟

شفاعت ، نہ تو گناہ کی ترغیب ہے ،نہ گنہگار کے لئے گرین لائٹ، نہ عقب ماندگی کا سبب اور نہ ہی آج کل کی دنیا میں رائج پارٹی بازی، بلکہ تربیت کا اہم مسئلہ ہے جو مختلف لحاظ سے مثبت اور مفید آثار لئے ہوئے ہے، منجملہ:

الف۔ امید کی کرن اور مایوسی سے مقابلہ: بعض اوقات انسان پر ہوائے نفس کا غلبہ ہوجاتا ہے اور بہت سے اہم گناہوں کا مرتکب ہوجاتا ہے جس سے گنہگار انسان مایوسی اور ناامیدی کا شکار ہوجاتا ہے، جس سے گنہگار کو مزید گناہ انجام دینے میں مدد ملتی ہے کیونکہ ایسے موقع پر یہ سوچنے پر مجبور ہوجاتا ہے کہ اب تو پانی سر سے گزر گیا ہے چاہے ایک بالشت ہو یا سو بالشت؟!

لیکن شفاعت ِاولیاء اللہ ان کو بشارت دیتی ہے کہ بس یہیں رک جاؤ اور اپنی اصلاح کی کوشش کرو، ممکن ہے ان کے گزشتہ گناہ شافعین کی شفاعت پر بخش دئے جائیں، لہٰذا شفاعت کی امید انسان کو مزید گناہ سے روکتی ہے اور تقویٰ واصلاح نفس میں مددگار ثابت ہوتی ہے۔

ب۔ اولیاء اللہ سے معنوی تعلق پیدا ہونا: شفاعت کے معنی کے پیش نظر یہ نتیجہ حاصل کرنا آسان ہے کہ شفاعت اسی وقت ممکن ہے جب ”شفیع“ اور ”شفاعت ہونے والے شخص“ کے درمیان ایک قسم کا رابطہ ہو، لہٰذا شفا عت کے لئے ایمان اور عمل صالح کے ذریعہ معنوی رابطہ ہونا ضروری ہے۔

اگر کوئی شخص کسی کی شفاعت کی امید رکھتا ہو تواس کی کوشش یہ ہونی چاہئے کہ شفاعت کرنے والے سے بہترین تعلقات قائم رکھے ، اور ایسے اعمال انجام دے جن سے وہ خوش رہے، بُرے کاموں سے اجتناب کرے، اس کی محبت و دوستی کو بالکل ختم نہ کرڈالے۔

یہ تمام چیزیں انسانی تربیت کے لئے بہترین اسباب ہیں، جن کے ذریعہ انسان آہستہ آہستہ گناہوں کی گندگی سے باہر نکل آتا ہے، یا کم از کم بعض برائیوں کے ساتھ ساتھ نیک کام بھی انجام دیتا ہے، اور شیطان کے جال میں مزید پھنسنے سے بچ جاتا ہے۔

ج۔ شفاعت کے شرائط حاصل کرنا: قرآن مجید کی متعدد آیات میں شفاعت کے لئے بہت سے شرائط ذکر ہوئے ہیں ان میں سب سے اہم خداوندعالم کی طرف سے اذن و اجازت ہے، اور یہ بات مسلم ہے کہ جو شخص شفاعت کا امیدوار ہے تو اسے خدا وندعالم کی رضایت حاصل کرنی ہوگی، یعنی اسے ایسے اعمال انجام دینے ہوں گے جن سے خداوندعالم راضی و خوشنود ہوجائے۔

بعض آیات میں بیان ہوا ہے کہ روز قیامت صرف ان ہی لوگوں کے بارے میں شفاعت قبول کی جائے گی جن کے بارے میں خدا نے اجازت دی ہو، اور اس کی باتوں سے راضی ہوگیا ہے۔ (سورہ طٰہٰ، آیت ۱۰۹)

سورہ انبیاء ، آیت نمبر ۲۸ میں بیان ہوا ہے کہ شفاعت کے ذریعہ صرف انھیں لوگوں کی بخشش ہوگی جو”مقام ارتضاء“ (یعنی خوشنودی خدا) تک پہنچ چکے ہوں گے، اور سورہ مریم ، آیت ۷ ۸ کے مطابق جن لوگوں نے خدا سے عہد کرلیا ہو، اور جیسا کہ ہم نے عرض کیا کہ یہ تمام مقامات اس وقت حاصل ہوتے ہیں جب انسان خداوندعالم اور اس کی عدالت پر ایمان رکھتا ہو ، نیکیوں اور برائیوں میں حکم خداکو قبول کرتا ہو، اور خدا کی طرف سے نازل شدہ تمام قوانین کے صحیح ہونے پر گواہی دے۔

اس کے علاوہ بعض آیات میں بیان ہوا ہے کہ ظالمین کو شفاعت نصیب نہ ہوگی، لہٰذا شفاعت کی امید رکھنے والے کے لئے ظالمین کی صف سے باہر نکل آنا ضروری ہے،(چاہے وہ کسی بھی طرح کا ظلم ہو، دوسروں پر ظلم ہو یا اپنے نفس پر ظلم ہو)۔

(قارئین کرام!) یہ تمام چیزیں با عث بنتی ہیں کہ شفاعت کی امید رکھنے والا شخص اپنے گزشتہ اعمال پر تجدید نظر کرے اور آئندہ کے لئے بہتر طور پر منصوبہ بندی کرے، یہ خود انسان کی تربیت کے لئے بہترین اور مثبت پہلو ہے۔

د۔ شافعین پر توجہ: قرآن کریم میں شافعین کے سلسلہ میں بیان شدہ مطالب پر توجہ، اسی طرح احادیث معصومین علیہم السلام میں بیان شدہ وضاحت پر توجہ کرنا مسئلہ شفاعت کاایک دوسرا تربیتی پہلو ہے۔

پیغمبر اکرم (ص) نے ایک حدیث میں فرمایا:

”الشّفاءُ خَمْسَةٌ: القُرآن، وَالرّحم، والاٴمَانة، وَنبیکُم، وَاٴهلَ بَیتَ نبیکم،“ (۱)

”روز قیامت شفاعت کرنے والے پانچ ہیں: قرآن، صلہ رحم، امانت، تمہارے پیغمبر اور ا ہل بیت پیغمبر (علیہم السلام)“۔

ایک دوسری حدیث جو مسند احمد میں نقل ہوئی ہے، پیغمبر اکرم (ص) نے فرمایا: ”تَعَلّمُوا القرآنَ فَاٴنَّهُ شَافِعٌ یَومَ القیامَة(۲) ”قرآن کی تعلیم حاصل کرو کیونکہ وہ روز قیامت تمہاری شفاعت کرنے والا ہے“۔

یہی معنی نہج البلاغہ میں امام المتقین حضرت امیر المومنین علی علیہ السلام سے بیان ہوئے ہیں: ”فَإنَّهُ شَافِعٌ مُشَفِّعٌ(۳) ”قرآن کریم ایسا شفاعت کرنے والا ہے جس کی شفاعت بارگاہ الٰہی میںقبول ہے“۔

متعدد روایات سے یہ نتیجہ نکلتا ہے کہ شفاعت کرنے والوں میں سب سے بہترین شفاعت کرنے والا”توبہ“ ہے: ”لَاشَفِیْعَ اٴنجَح مِنَ التَّوبَة ِ“(۴) ”توبہ سے زیادہ کا میاب کوئی شفیع نہیں ہے“۔

بعض احادیث میں انبیاء، اوصیاء، مومنین اور ملائکہ کی شفاعت کی تصریح کی گئی ، جیسا کہ پیغمبر اکرم (ص) کی حدیث ہے:

”الشَّفَاعةُ للِاٴنبیَاءِ وَالاٴوْصِیاءِ وَالمَومِنِینَ وَالمَلائِکَةِ ،وَفِي المَومنِینَ مَنْ یَشفَعُ مِثْلَ رَبیعةَ و مضر ! واٴقلَّ المَومِنِیْنَ شَفَاعة مَنْ یَشْفَعُ ثَلاثِینَ إنسَاناً !“(۵)

انبیاء، اوصیاء ،مومنین اور فرشتے شفاعت کرنے والے ہیں، اور مومنین کے درمیان شفاعت کرنے والے ایسے بھی ہوں گے جو قبیلہ ”ربیعہ“ اور ”مُضر“ کے برابر شفاعت کریں گے، اور سب سے کم شفاعت کرنے والے مومنین (بھی) تیس افراد کی شفاعت کریں گے“۔

حضرت امام صادق علیہ السلام سے ایک دوسری حدیث میں بیان ہوا ہے کہ خداوندعالم روز قیامت ”عابد“ اور ”عالم“ کو مبعوث کرے گا، اور جس وقت یہ دونوں عدل الٰہی کے مقابل کھڑے ہوں : ”قِیلَ لِلْعَابِدِ اِنطَلِقْ إلیَ الجَنَّة، وَقِیْلَ لِلْعَالِمِ قِفْ، تَشفَع لِلنَّاسِ بِحُسْنِ تَادِیبِکَ لَهُم(۶) (عابد سے کہا جائے گا کہ تم جنت میں چلے جاؤ، اور عالم کو روک لیا جائے گا، اور اس سے کہا جائے گاکہ تم ان لوگوں کی شفاعت کرو جن کی تم نے نیک تربیت کی ہے“۔

محترم قارئین ! گزشتہ روایات خصوصاً آخری روایات میں ایسے الفاظ بیان ہوئے ہیں جن سے صاف صاف یہ معلوم ہوتا ہے کہ شفاعت کی امید رکھنے والے کے لئے نیک افراد ،مومنین اور علماسے ایک معنوی رابطہ ہونا ضروری ہے۔

شہداء ِراہ خدا کے بارے میں بھی پیغمبر اکرم (ص) سے منقول ہے کہ آپ نے فرمایا: ”وَیَشْفَعُ الرَّجُلُ مِنهُم مِن سَبْعِینَ اٴلفَا مِن اٴهلِ بَیتِهِ وَجِیرَانِه(۷) (شہداء میں سے ہر شہید اپنے خاندان اور پڑوسیوں میں سے ۷۰/ ہزار افراد کی شفاعت کرے گا“۔

یہاں تک بعض روایتوں سے معلوم ہوتا ہے کہ ”شفیع انسان، خداوندعالم کی اطاعت اور عمل حق ہے“: ”شَافِعُ الخَلْقِ :العَمَلُ بِالحَقِّ وَلزومِ الصِّدْقِ(۸)

خلاصہ گفتگو یہ ہے کہ اسلامی معتبر کتابوں میں بیان شدہ ان تمام روایات کے پیش نظر صاف طور پر یہ نتیجہ نکلتا ہے کہ شفاعت اسلام کے اہم ترین تربیتی مسائل میں ہے، جس کی شفاعت کرنے والوں کی قسموں کے اعتبار سے بہت زیادہ اہمیت ہے، اور تمام مسلمانوں کو شفاعت کی اس عظیم منزلت کی طرف اور شفاعت کرنے والوں سے معنوی رابطہ قائم کرنے کی دعوت دی گئی ہے، اور مسئلہ شفاعت کے غلط اور تحریف شدہ شفاعت کے معنی کو الگ کردیتی ہے۔(۱۰)

____________________

(۱) میزان الحکمہ، جلد ۵، صفحہ ۱۲۲

(۲) مسند احمد ، جلد ۵، صفحہ ۲۵۱، (طبع بیروت دار صادر)

(۳) نہج البلاغہ خطبہ ۱۷۶ (۴)نہج البلاغہ ،کلمات قصار ،کلمہ ۳۷۱

(۵) بحار الانوار ، جلد ۸، صفحہ ۵۸،حدیث ۷۵ (۶) بحار الانوار ، جلد ۸، ۵۶،حدیث۶۶

(۷) مجمع البیان ، جلد ۲، صفحہ ۵۳۸، (سورہ آل عمران آیت ۱۷۱ کے ذیل میں) (۸) غررا لحکم

(۹) تفسیر پیام قرآن ، جلد ۶، صفحہ ۵۲۳ (۱۰) تفسیر المیزان میں علامہ طبا طبا ئی علیہ الرحمہ شفاعت کے معنی ”مسببات میں اسباب کی تاثیر“ کرتے ہو ئے شافعین کی دو قسم بیان کرتے ہیں(”عالم تکوین“ اور ”عالم تشریع“) اور تشریعی شافعین میں توبہ، ایمان، عمل صالح، قرآن، انبیاء ، ملائکہ اور مومنین کا شمار کرتے ہیں، پھراس سلسلہ میں دلالت کرنے والی ان آیات کو بیان کر تے ہیں جو گناہوں کی بخشش میں مذکورہ چیزوں یا ان حضرات کی تاثیر کو بیان کرتی ہیں، (اگرچہ ان آیات میں شفاعت کا لفظ نہیں ہے) جیسے سورہ زمر ، آیت ۵۴، سورہ حدید ، آیت ۲۸، سورہ مائدہ ، آیت ۹، اور ، آیت ۱۶، سورہ نساء ، آیت ۶۴، سورہ مومن (غافر) ، آیت ۷/ اور سورہ بقرہ ، آیت ۲۸۶