110 سوال اور جواب

110 سوال اور جواب0%

110 سوال اور جواب مؤلف:
زمرہ جات: مناظرے

110 سوال اور جواب

مؤلف: آیت اللہ ناصر مکارم شیرازی
زمرہ جات:

مشاہدے: 131056
ڈاؤنلوڈ: 4451

تبصرے:

110 سوال اور جواب
کتاب کے اندر تلاش کریں
  • ابتداء
  • پچھلا
  • 126 /
  • اگلا
  • آخر
  •  
  • ڈاؤنلوڈ HTML
  • ڈاؤنلوڈ Word
  • ڈاؤنلوڈ PDF
  • مشاہدے: 131056 / ڈاؤنلوڈ: 4451
سائز سائز سائز
110 سوال اور جواب

110 سوال اور جواب

مؤلف:
اردو

۷۲ ۔ فلسفہ نماز کیا ہے؟

سورہ عنکبوت میں نماز کا سب سے اہم فلسفہ بیان کیا گیا ہے، ارشاد ہوتا ہے کہ نماز انسان کو برائیوں اور منکرات سے روکتی ہے:( إِنَّ الصَّلَاةَ تَنْهَی عَنِ الْفَحْشَاءِ وَالْمُنْکَر ) (۱)

” (اور نماز قائم کروکہ) یقینا نماز ہر برائی اور بدکاری سے روکنے والی ہے“

حقیقت نماز چونکہ انسان کو قدرتمند روکنے والے عامل یعنی خدا اور قیامت کے اعتقاد کی یاد دلاتی ہے، لہٰذا انسان کو فحشاو منکرات سے روکتی ہے۔

جب انسان نماز کے لئے کھڑا ہوتا ہے تو پہلے تکبیر کہتا ہے، خدا کو تمام چیزوں سے بلند و بالا مانتا ہے، پھر اس کی نعمتوں کو یاد کرتا ہے، اس کی حمد و ثنا کرتا ہے، اس کو رحمن اور رحیم کے نام سے پکارتا ہے، اور پھر قیامت کو یاد کرتا ہے ، خدا کی بندگی کا اعتراف کرتا ہے، اور اسی سے مدد چاہتا ہے، صراط مستقیم پر چلنے کی درخواست کرتا ہے اور غضب خدا نازل ہونے والے اور گمراہوں کے راستہ سے خدا کی پناہ مانگتا ہے۔ (مضمون سورہ حمد )

بے شک ایسے انسان کے دل و جان میں خدا ،پاکیزگی اور تقوی کی طرف رغبت ہوتی ہے۔

خدا کے لئے رکوع کرتا ہے، اس کے سامنے سجدہ ریز ہوجاتا ہے اس کی عظمت میں غرق ہوجاتا ہے، اور خود غرضی اور تکبر کو بھول جاتا ہے۔

خدا کی وحدانیت اور پیغمبر اکرم (ص) کی رسالت کی گواہی دیتا ہے۔

اپنے نبی پر درود و سلام بھیجتا ہے، اور خدا کی بارگاہ میں دست بدعا ہوتا ہے کہ پالنے والے! مجھے اپنے نیک اور صالح بندوں میں قرار دے۔ (تشہد و سلام کا مضمون)

چنانچہ یہ تمام چیزیں انسان کے وجود میں معنویت کی لہر پیدا کردیتی ہیں، ایک ایسی لہر جو گناہوں کا سدّ باب کرتی ہے۔

اس عمل کو انسان رات دن میں کئی مرتبہ انجام دیتا ہے جب صبح اٹھتا ہے تو خدا کی یاد میں غرق ہوجاتا ہے، دوپہر کے وقت جب انسان مادی زندگی میں غرق رہتا ہے اور اچانک موذن کی آواز سنتا ہے تو اپنے کاموں کو چھوڑ دیتا ہے اور خدا کی بارگاہ کا رخ کرتا ہے، یہاں تک دن کے اختتام اور رات کی شروع میں بستر استراحت پر جانے سے پہلے خدا سے راز و نیاز کرتا ہے، اور اپنے دل کو اس کے نور کا مرکز قرار دیتا ہے۔

اس کے علاوہ جب نماز کے مقدمات فراہم کرتا ہے تو اپنے اعضا بدن کو دھوتا ہے ان کو پاک کرتا ہے، حرام چیزیں اور غصبی چیزوں سے دوری کرتا ہے اور اپنے محبوب کی بارگاہ میں حاضر ہوجاتا ہے، یہ تمام چیزیں اس کو برائی سے روکنے کے لئے واقعاً موثر واقع ہوتی ہیں۔

لیکن نماز میں جس قدر شرائطِ کمال اور روحِ عبادت پائی جائے گی اسی مقدار میں برائیوں سے روکے گی، کبھی مکمل طور پر برائیوں سے روکتی ہے اور کبھی جزئی طور پر،(یعنی نماز کی کیفیت کے لحاظ سے انسان برائیوں سے پرہیز کرتا ہے)

یہ ممکن ہی نہیں ہے کہ کوئی شخص نماز پڑھے اور اس پر کوئی اثر نہ ہو، اگرچہ اس کی نماز صرف ظاہری لحاظ سے ہو یا نمازی گنہگار بھی ہو، البتہ اس طرح کی نماز کا اثر کم ہوتا ہے، کیونکہ اگر اس طرح کے لوگ اس طرح نماز نہ پڑھتے تو اس سے کہیںزیادہ گناہوں میں غرق ہوجاتے۔

واضح الفاظ میں یوں کہیں کہ فحشا و منکر سے نہی کے مختلف درجے ہوتے ہیں، نماز میں جتنی شرائط کی رعایت کی جائے گی اسی لحاظ سے وہ درجات حاصل ہوں گے۔

پیغمبر اکرم (ص) سے منقول حدیث میں وارد ہوا ہے کہ قبیلہ انصار کا ایک جوان آنحضرت (ص) کے ساتھ نماز ادا کررہا تھا لیکن وہ گناہوں سے آلودہ تھا، اصحاب نے پیغمبر اکرم کی خدمت میں اس کے حالات بیان کئے تو آنحضرت (ص) نے فرمایا: ”إنَّ صَلاتَهُ تَنهَاهُ یَوماً “ (آخر کار ایک روز اس کی یہی نماز اس کو ان برے کاموں سے پاک کردے گی)(۲) نماز کا یہ اثر اس قدر اہمیت کا حامل ہے کہ بعض احادیث میں نماز کے قبول ہونے یا قبول نہ ہونے کا معیار قرار دیا گیا ہے، جیسا کہ حضرت امام صادق علیہ السلام کا ارشاد ہے: ”مَنْ اٴحَبَّ اٴنْ یَّعلَم اٴقْبَلَت صَلٰوتُه اٴمْ لَم تَقْبَل؟ فَلیَنْظُر: هَلْ مَنَعْتَ صَلٰوتَهُ عَنِ الفَحْشَاءِ وَالمُنْکِر؟ فبقدر ما منعه قبلت منه !“(۳) (اگر کوئی یہ جاننا چا ہے کہ اس کی نماز بارگاہ الٰہی میں قبول ہوئی ، یا نہیں؟ تو اس کو دیکھنا چاہئے کہ نماز اس کو برائیوں سے روکتی ہے یا نہیں؟ جس مقدار میں برائیوں سے روکا ہے اسی مقدار میں نماز قبول ہوئی ہے)۔

اور اس کے بعد مزید ارشاد فرمایا کہ”ذکر خدا اس سے بھی بلند و بالاتر ہے“: ”وَلَذِکْرُ اللهِ اٴکبَرْ“

مذکورہ جملہ کا ظاہر اس بات پر دلالت کرتا ہے کہ نماز کے لئے یہ اہم ترین فلسفہ ہے، یہاں تک فحشا و منکر کی نہی سے بھی زیادہ اہم ہے اور وہ اہم فلسفہ یہ ہے کہ انسان کو خدا کی یاد دلائے کہ جو تمام خیر و سعادت کا سر چشمہ ہے، بلکہ برائیوں سے روکنے کی اصلی وجہ یہی ”ذکر اللہ“ ہے ، در اصل اس

اثر کی برتری اور عظمت اسی وجہ سے ہے کیونکہ یہ اُس کی علت شمار ہوتا ہے۔

اصولی طور پر خدا کی یادانسان کے لئے باعثِ حیات ہے اور اس سلسلہ میں کوئی بھی چیز اس کا مقابلہ نہیں کرسکتی،( اٴَلٰا بِذِکْرِ اللهِ تَطْمَئِنُّ الْقُلُوب ) ”آگاہ ہوجاؤ کہ یادِ خدا دل کو اطمینان و سکون عطا کرتی ہے“۔

حقیقت تو یہ ہے کہ تمام عبادتوں (چاہے نماز ہو یا اس کے علاوہ) کی روح یہی ذکر خدا ہے، اقوال نماز، افعال نماز، مقدمات نماز اور تعقیبات نماز سب کے سب در اصل انسان کے دل میں یادِ خدا زندہ کرتے ہیں۔

قابل توجہ بات یہ ہے کہ سورہ طٰہ ، آیت نمبر ۱۴/ میں نماز کے اس بنیادی فلسفہ کی طرف اشارہ ہوا ہے، جناب موسیٰ علیہ السلام سے خطاب ہوتا ہے:( اَقِمِ الصَّلاَة لِذِکْرِي ) ، (میری یاد کے لئےنماز قائم کرو )

معاذ بن جبل سے منقول ایک حدیث میں وارد ہوا ہے کہ ”عذاب الٰہی سے بچانے والے اعمال میں ”ذکر اللہ“ سے بڑھ کر کوئی عمل نہیں ہے، سوال کیا گیا : راہ خدا میں جہاد بھی نہیں؟ جواب دیا: ہاں، کیونکہ خداوندعالم ارشاد فرماتا ہے: (وَلذکْرِ اللهِ اٴکْبَرْ )

انسان اور معاشرہ کی تربیت میں نماز کا کرداراگرچہ نماز کوئی ایسی چیز نہیں ہے جس کا فلسفہ کسی پر پوشیدہ ہو لیکن قرآنی آیات اور احادیث ِمعصومین علیہم السلام میں مزید غور و فکر کرنے سے بہت ہی اہم چیزوں کی طرف رہنمائی ہوتی ہے:

۱ ۔ روح نماز اور نماز کا فلسفہ ذکر خدا ہی ہے ،وہی ”ذکر اللہ“ جو مذکورہ آیت میں بلندترین نتیجہ کے عنوان سے بیان ہوا ہے۔

البتہ ایسا ذکر جو غور و فکر کا مقدمہ، اور ایسی فکر جو عمل کا سبب بنے، جیسا کہ حضرت امام صادق علیہ السلام سے منقول ہے کہ آپ نے( وَلذکْرِ اللهِ اٴکْبَر ) کی تفسیر میں فرمایا: ”ذکر الله عند مااحل و حرم(۴) ”حلال و حرام کے وقت یاد خدا کرنا“ (یعنی یاد خدا کریں اور حلال کام انجام دیں اور حرام کاموں سے پرہیز کریں)

۲ ۔ نماز، گناہوں سے دوری اور خدا کی طرف سے رحمت و مغفرت حاصل ہونے کا سبب ہے، کیونکہ نماز انسان کو توبہ اور اصلاح نفس کی دعوت دیتی ہے، اسی وجہ سے ایک حدیث میں بیان ہوا ہے کہ پیغمبر اکرم (ص) نے اپنے ایک صحابی سے سوال کیا: ”اگر تمہارے مکان کے پاس پاک و صاف پانی کی نہر جاری ہو اور تم روزانہ پانچ مرتبہ اس میں غوطہ لگاؤ تو کیا تمہارے بدن میں گندگی اور کثافت باقی رہے گی؟

اس نے جواب دیا: نہیں (یا رسول اللہ!)، آپ نے فرمایا: نماز بالکل اسی جاری پانی کی طرح ہے کہ جب انسان نماز پڑھتا ہے تو گنا ہوں کی گند گی دور ہو جا تی ہے اور دو نمازوں کے درمیان انجام دئے گئے گناہ پا ک ہو جا تے ہیں۔(۵) گویا نمازانسان کے بدن میں گناہوں کے ذریعہ وارد ہونے والے زخموں کے لئے مرہم کا کام کرتی ہے اور انسان کے دل پر لگے ہوئے زنگ کو چھڑا دیتی ہے۔

۳ ۔ نماز ،آئندہ گناہوں کے لئے سدّ باب بن جا تی ہے، کیونکہ نماز انسان میں ایمان کی روح کو مضبوط کرتی ہے اور تقویٰ کے پودے کی پرورش کرتی ہے، اور جیسا کہ ہم جانتے ہیں کہ ”ایمان“ اور ”تقویٰ“ گناہوں کے بالمقابل دو مضبوط دیواریں ہیں، اور یہ وہی چیز ہے جس کو مذکورہ آیت میں ”نہی از فحشاء و منکر“ کے نام سے بیان کیا گیا ہے، اور یہ وہی چیز ہے جس کو متعدد حدیثوںمیں پڑھتے ہیں کہ جب گنہگار لوگوں کے حالات ائمہ علیہم السلام کے سامنے بیان کئے گئے تو فرمایا: غم نہ کرو نماز ان کی اصلاح کردے گی، اور کردی۔

۴ ۔ نماز؛انسان کو خواب غفلت سے بیدار کردیتی ہے، راہ حق پر چلنے والوں کی سب سے بڑی مصیبت یہ ہے کہ وہ اپنی غرض خلقت کو بھول جاتے ہیں اور مادی دنیا اور زودگزر لذتوں میں غرق ہوجاتے ہیں ، لیکن نماز چونکہ تھوڑے تھوڑے فاصلہ پر اور شب و روز میں پانچ بار پڑھی جاتی ہے ، مسلسل انسان کو متو جہ اور متنبہ کرتی رہتی ہے اور اس کو غرض خلقت یاد دلاتی رہتی ہے، اور اس دنیا میں اسے اس کی حیثیت سے آگاہ کرتی رہتی ہے، یہ انسان کے پاس ایک عظیم نعمت الٰہی ہے کہ شب و روز پانچ مرتبہ اس کو بھر پور طریقہ پر ہوشیار کرتی ہے۔

۵ ۔ نماز ؛خود پسندی اور تکبر کو ختم کرتی رہتی ہے کیونکہ انسان ۲۴ گھنٹوں میں ۱۷/ رکعت نماز پڑھتا ہے اور ہر رکعت میں دو بار اپنی پیشانی کو خدا کی بارگاہ میں رکھتا ہے، اور خدا کی عظمت کے مقابل اپنے کو ایک ذرہ شمار کرتا ہے بلکہ خدا کی عظمت کے مقابل اپنے کو صفر شمار کرتا ہے۔ نماز غرور و خود خواہی کے پردوں کو چاک کردیتی ہے ، تکبر اور برتری کو ختم کردیتی ہے۔

اسی وجہ سے حضرت علی علیہ السلام نے اپنی اس مشہور و معروف حدیث میں بیان فرمایا ہے کہ جس میں عبادت کے فلسفہ کو بیان کیا ہے اور ایمان کے بعد سب سے پہلی عبادت کو ”نماز“ قرار دیتے ہوئے اس مطلب کو واضح فرمایا ہے:”فَرضَ الله الإیمَان تَطهِیْراً مِنَ الشِّرکِ وَالصَّلٰوة تَنْزِیْهاً عَنِ الکِبْرِ(۶) خداوندعالم نے انسان کے لئے ایمان کو شرک سے پاک کرنے کے لئے واجب قرار دیا ہے اور نماز کو غرورو تکبر سے پاک کرنے کے لئے (واجب قرار دیا ہے)“

۶ ۔ نماز ؛انسان کے لئے معنوی تکامل اور فضائل اخلاقی کی پرورش کا ذریعہ ہے، کیونکہ یہی نماز انسان کو مادہ کی محدودیت اور عالم طبیعت کی چہار دیواری سے باہر نکال کر عالم ملکوت کی طرف دعوت دیتی ہے، جس سے انسان فرشتوں کا ہم صدا اور ہمراز ہوجاتا ہے، اور انسان اپنے کو بغیر کسی واسطہ کے خدا کے حضور میں پاتا ہے اور اس سے گفتگو کرتا ہوا نظر آتا ہے۔

ہر روز اس عمل کی تکرار خداوندعالم کے صفات جیسے رحمانیت اور رحیمیت اور اس کی عظمت کے پیش نظرخصوصاً سورہ حمد کے بعد دوسرے سوروں سے مدد لیتے ہوئے جو نیکیوں اور خوبیوں کی طرف دعوت دیتے ہیں، یہ سب چیزیں انسان میں اخلاقی فضائل کی پرورش کے لئے بہترین اور موثرہیں۔

لہٰذا حضرت امیر المومنین علی علیہ السلام سے منقول ہے کہ آپ نے نماز کے فلسفہ کو اس طرح بیان کیا:”الصَّلاٰةُ قُربَانُ کُلَّ تَقِي “، (نماز ہر پرہیزگار کے لئے خدا سے تقرب کا وسیلہ ہے)(۷)

۷ ۔ نماز انسان کے دوسرے اعمال کو (بھی) روح اور اہمیت عطا کرتی ہے اس لئے کہ نماز سے اخلاص پیدا ہوتا ہے، کیونکہ نماز خلوص نیت، نیک گفتار اور مخلصانہ اعمال کا مجموعہ ہے، ہر روز یہ عمل انسان کے اندر دوسرے اعمال کا بیج ڈالتا ہے اور روح اخلاص کو مضبوط کرتا ہے۔

لہٰذا ایک مشہور و معروف حدیث میں بیان ہوا ہے کہ حضرت امیر ا لمومنین علی علیہ السلام نے اس وقت اپنی وصیت میں فرمایا جب آپ ابن ملجم کی تلوار سے زخمی ہوچکے تھے اور آپ کا آخری وقت تھا، فرماتے ہیں:

الله الله فِي الصَّلٰوةِ فَإنَّهَا عَمُودُ دِینِکُمْ(۸)

”خدا را ! خدارا! میں تم کو نماز کی سفارش کرتا ہوں کیونکہ یہی تمہارے دین کا ستون ہے“۔

ہم لوگ اس بات کو اچھی طرح جانتے ہیں کہ جب کسی خیمہ کا ستون ٹوٹ جائے یا گرجائے تو اطراف کی رسّیوں اور کیلوں کا کوئی فائدہ نہیں ہوتا ہے خواہ کتنی ہی مضبوط کیوں نہ ہوں، اسی طرح جب نماز کے ذریعہ خدا سے بندوں کا رابطہ ختم ہوجائے تو دوسرے اعمال کا اثر بھی ختم ہوجاتا ہے۔

حضرت امام صادق علیہ السلام سے منقول ایک حدیث میں بیان ہوا ہے: ”اٴوَّلُ مَا یُحاسِبُ بِهِ العَبْدَ الصَّلٰوة فَإنْ قُبِلَتْ قَبلَ سَائرُ عَمَلِهِ ، وَاِنْ رُدَّت رُدَّ عَلَیْهِ سَائرُ عَمَلِهُ “ (روز قیامت بندوں میں جس چیز کا سب سے پہلے حساب ہوگا وہ نماز ہے، اگر نماز قبول ہوگئی تو دوسرے اعمال بھی قبول ہوجائیں گے اور اگر نماز ردّ ہوگئی تو دوسرے اعمال بھی ردّ ہوجائیں گے!)

شاید اس کی دلیل یہ ہو کہ نماز خالق و مخلوق کے درمیان ایک راز ہے اگر صحیح طور پر بجا لائی جائے تو انسان کے اندر نیت ،اخلاص اور قرب الٰہیپیدا ہوتا ہے جو دوسرے اعمال قبول ہونے کا ذریعہ ہے، ورنہ دوسرے اعمال کی کوئی اہمیت نہیں ہے اور وہ اپنا اعتبار کھو دیتے ہیں۔

۸ ۔نماز میں پائے جانے والے مطالب اور مضمون سے قطع نظراگر اس کے شرائط پر توجہ کریں تو وہ بھی اصلاح اور پاکیزگی کی دعوت دیتے ہیں کیونکہ ہم جانتے ہیں کہ نمازی کی جگہ، نماز ی کے کپڑے، جس فرش پر نماز پڑھتا ہے، جس پانی سے وضو یا غسل کیا ہے، جس جگہ وضو یا غسل کیا ہے ، یہ تمام چیزیں غصبی نہیں ہونی چاہئے اور ان کے حوالے سے کسی دوسرے پر ظلم اور تجاوز نہ کیا گیا ہو، جو شخص ظلم و ستم، سود خوری، غصب، ناپ تول میں کمی ، رشوت خوری اور حرام روزی وغیرہ جیسی چیزوں سے آلودہ ہو تو ایسا شخص نماز کے مقدمات کس طرح فراہم کرسکتا ہے؟ لہٰذا ہر روز پانچ مرتبہ اس نماز کی تکرار دوسروں کے حقوق کی رعایت کی دعوت دیتی ہے۔

۹ ۔ نماز صحیح ہونے کے شرائط کے علاوہ، شرائطِ قبول یا بالفاظ دیگر شرائطِ کمال بھی پائے جاتے ہیں جن کی رعایت خود بہت سے گناہوں کو ترک کرنے کا سبب بنتی ہے۔

فقہ اور حدیث کی کتابوں میں بہت سی چیزوں کو ”موانع نماز“ کے عنوان سے ذکر کیا گیا ہے جن میں سے ایک مسئلہ شراب پینا ہے، روایات میں بیان ہوا ہے کہ ”لَا تُقبّل صلوٰة شَاربُ الخَمْر اٴرْبعِینَ یَوماً إلاَّ اٴنْ یَتُوبَ(۹) ”شراب پینے والے کی نماز، چالیس دن تک قبول نہیں ہوتی، مگر یہ کہ توبہ کرلے“۔

متعدد روایات میں بیان ہوا ہے کہ جن لوگوں کی نماز قبول نہیں ہوتی ان میں سے ایک ظالم افراد کا رہبر ہے“۔(۱۰)

بعض دوسری روایات میں تصریح کی گئی ہے کہ جو شخص زکوٰة ادا نہیں کرتا اس کی نماز قبول نہیں ہے، اسی طرح دوسری روایات میں بیان ہوا ہے کہ حرام لقمہ کھانے والے یا خود پسندی کرنے والے کی نماز قبول نہیں ہوتی۔ لہٰذا ان تمام احادیث کے پیش نظر یہ بات معلوم ہوجاتی ہے کہ ان تمام شرائط کا فراہم کرنا انسان کی اصلاح کے لئے بہت مفید ہے۔

۱۰ ۔ نماز کے ذریعہ انسان میں نظم و نسق کی روح طاقتور ہوتی ہے کیونکہ نماز معین وقت پر پڑھی جاتی ہے ، یعنی اگر انسان نماز کو وقت سے پہلے یا وقت کے بعد پڑھے تو اس کی نماز باطل ہوجاتی ہے، اسی طرح نماز کے دیگر آداب و احکام جیسے نیت، قیام، قعود ، رکوع اور سجود وغیرہ کی رعایت سے انسان کے لئے دوسرے کاموں میں بھی نظم کا لحاظ کرنا آسان ہوجاتا ہے۔

نماز کے یہ تمام فائدے اس وقت ہیں جب نماز جماعت سے نہ پڑھی جائے اور اگر نماز کے ساتھ جماعت کی فضیلت کا اضافہ بھی کردیا جائے (کیونکہ نماز کی روح، جماعت ہے) تو پھر

بے شمار برکتیں نازل ہوتی ہیں، جس کی تفصیل یہاں بیان نہیں کی جاسکتی، کم و بیش اکثر مومنین نماز جماعت کی فضیلت سے آگاہ ہیں۔

ہم فلسفہ نماز اور اسرارِ نماز کے سلسلہ میں اپنی گفتگو کو حضرت امام علی بن موسی الرضا علیہ السلام کی ایک بہترین حدیث پر ختم کرتے ہیں:

امام علیہ السلام نے اس خط کے جواب میں اس طرح فرمایا جس میں فلسفہ نماز کے بارے میں سوال کیا گیا تھا:

نماز کو اس لئے واجب قرار دیا گیا ہے کہ اس میںخداوندعالم کی ربوبیت کا اقرار پایا جاتا ہے، اس میں شرک و بت پرستی کا مقابلہ ہوتا ہے ، خدا کی بارگاہ میں مکمل خضوع و خشوع پایا جاتا ہے، انسان اپنے گناہوں کا اقرار کرتا ہے اورخداوندعالم سے اپنے گناہوں کی بخشش طلب کرتا ہے، انسان ہر روز عظمت ِپروردگار کے سامنے اپنی پیشانی کو خم کرتا ہے۔

اور نماز کا مقصدیہ ہے کہ انسان ہمیشہ ہوشیار اور متوجہ رہے انسان کے دل پر، بھول چوک کی گرد و غبار نہ بیٹھے، مست اور مغرور نہ ہو، خاشع اور خاضع رہے، انسان دین و دنیا کی نعمتوں کو حاصل کرنے کے لئے کوشش کرے۔

جب انسان ہر روز نماز کے ذریعہ ذکر خدا کرتا ہے تویہ سبب بنتا ہے کہ وہ اپنے مولا و آقا، مدبر اور خالق کو نہ بھولے اور اس پر سرکشی اور غلبہ کرنے کا تصور تک نہ کرے۔

خداوندعالم پر توجہ رکھنا اور خود کو اس کے سامنے حاضر سمجھنا؛انسان کو گناہوں سے دور رکھتا ہے اور مختلف برائیوں سے روکتا ہے۔(۱۱)(۱۲)

____________________

(۱)سورہ عنکبوت ، آیت ۴۵

(۳،۲) مجمع البیان، سورہ عنکبوت ، آیت نمبر ۴۵ کے ذیل میں

(۴) بحا الانوار ، جلد ۸۲، صفحہ ۲۰۰

(۵) وسائل الشیعہ ، جلد ۳، صفحہ ۷ (باب ۲ / از ابواب اعداد الفرائض حدیث۳)

(۶) نہج البلاغہ ، کلمات قصار، نمبر ۲۵۲

(۷) نہج البلاغہ ،کلمات قصار ، نمبر ۱۳۶

(۸) نہج البلاغہ ،خطوط (مکتبوب)(وصیت )۴۷

(۹) بحار الانوار ، جلد۸۴، صفحہ ۳۱۷ و۳۲۰

(۱۰) بحار الانوار، جلد۸۴، صفحہ ۳۱۸

(۱۱) وسائل الشیعہ ، جلد ۳، صفحہ ۴

(۱۲) تفسیر نمونہ ، جلد۱۶، صفحہ ۲۸۴

۷۳ ۔ روزہ کا فلسفہ کیا ہے؟

روزہ کے مختلف پہلو ہیں اور انسان کے اندر مادی و معنوی لحاظ سے بہت زیادہ تاثیر رکھتا ہے، جن میں سے سب سے اہم ”اخلاقی پہلو“ اور ”تربیتی فلسفہ“ ہے۔

روزہ کاسب سے اہم فائدہ یہ ہے کہ روزہ کے ذریعہ انسان کی روح ”لطیف“،اور اس کی ”قوّت ارادی“ مضبوط ہوتی ہے اور خواہشات میں ”اعتدال“ پیدا ہوتا ہے۔

روزہ دار کو چاہئے کہ روزہ کے عالم میں بھوک اور پیاس کو برداشت کرتے ہوئے جنسی لذت سے بھی چشم پوشی کرے، اور عملی طور پر یہ ثابت کر دکھائے کہ وہ جانوروں کی طرح کسی چراگاہ اور گھاس پھوس کا اسیر نہیںہے، سرکش نفس کی لگام اس کے ہاتھ میں ہے اور ہوا وہوس اور شہوت و خواہشات اس کے کنٹرول میں ہے۔

در اصل روزہ کا سب سے بڑا فلسفہ یہی روحانی اور معنوی اثر ہے، جس انسان کے پاس کھانے پینے کی مختلف چیزیں موجود ہو ں جب اوراس کو بھوک یا پیاس لگتی ہے تو وہ فوراً کھاپی لےتا ہے، بالکل ان درختوں کے مانند جو کسی نہر کے قریب ہوتے ہیں اور ہر وقت پانی سے سیراب ہوتے رہتے ہیں وہ نازپرور ہوتے ہیں یہ حوادث کا مقابلہ بہت کم کرتے ہیں ان میں باقی رہنے کی صلاحیت کم ہوتی ہے اگر انھیں چند دن تک پانی نہ ملے تو پژمردہ ہوکر خشک ہوجاتے ہیں۔

لیکن جنگل،بیابان اورپہاڑوں میں اگنے والے درخت ہمیشہ سخت طوفان، تمازت آفتاب اور کڑاکے کی سردیوں کا مقابلہ کرنے کے عادی ہوتے ہیں اور طرح طرح کی محرومیوں سے دست و گریباں رہتے ہیں، لہٰذا ایسے درخت بادوام اور مستحکم ہوتے ہیں!!

روزہ بھی انسان کی روح و جان کے ساتھ یہی سلوک کرتا ہے، یہ وقتی پابندیوں کے ذریعہ انسان میں قوت ِدفاع اور قوت ارادی پیدا کرتا ہے اور اسے سخت حوادث کے مقابلہ میں طاقت عطا کرتا ہے، چونکہ روزہ سرکش خواہشات اور انسانی جذبات پر کنٹرول کرتا ہے لہٰذا اس کے ذریعہ انسان کے دل پر نور و ضیا کی بارش ہوتی ہے، خلاصہ یہ کہ روزہ انسان کو عالم حیوانیت سے بلند کرکے فرشتوں کی صف میں لے جاکر کھڑا کردیتا ہے،( لَعَلَّکُمْ تَتَّقُونَ ) (۱) ، (شاید تم پرہیزگار بن جاؤ) اس آیہ شر یفہ میںروزہ کے واجب ہونے کا فلسفہ بیان ہوا ہے۔

اس مشہور و معروف حدیث میں بھی اسی طرف اشارہ کیا گیا ہے، ارشاد ہوتا ہے: ”الصُّومُ جُنَّةٌ مِنَ النَّارِ(۲) (روزہ جہنم کی آگ سے بچانے کے لئے ایک ڈھال ہے)۔

ایک اور حدیث حضرت علی علیہ السلام سے منقول ہے کہ پیغمبر اکرم (ص) سے سوال کیا گیا کہ ہم کون سا کام کریں جس کی وجہ سے شیطان ہم سے دور رہے؟ تو آنحضرت (ص) نے فرمایا:روزہ؛ شیطان کا منہ کالا کردیتا ہے، راہ خدا میں خرچ کرنے سے اس کی کمر ٹوٹ جاتی ہے خدا کے لئے محبت و دوستی نیز عملِ صالح کی پابندی سے اس کی دم کٹ جاتی ہے اور توبہ و استغفار سے اس کے دل کی بھی رگ کٹ جاتی ہے۔(۳)

نہج البلاغہ میں عبادت کا فلسفہ بیان کرتے ہوئے حضرت امیر المومنین علیہ السلام روزہ کے بارے میں فرماتے ہیں: ”وَالصِّیَامُ إبْتَلاَءُ لإخْلاَصِ الْخَلْقِ(۴) ”خداوندعالم نے روزہ کو شریعت میں اس لئے شامل کیا تاکہ لوگوں میں اخلاقی روح کی پرورش ہوسکے“۔

پیغمبر اکرم (ص) سے ایک اور حدیث میں منقول ہے کہ آپ نے فرمایا: ”ان لِلْجَنّة بَاباً یُدعی الرَّیَّان لَا یَدخُلُ فِیھَا إلاَّالصَّائِمُونَ“ (بہشت کے ایک دروازے کا نام ”ریان“ (یعنی سیراب کرنے والا) ہے جس سے صرف روزہ دار ہی داخل جنت ہوں گے۔)

شیخ صدوق علیہ الرحمہ نے معانی الاخبار میں اس حدیث کی تشریح کرتے ہوئے تحریر فرمایا کہ بہشت میں داخل ہونے کے لئے اس دروازہ کا انتخاب اس بنا پر ہے کہ روزہ دار کو چونکہ زیادہ تکلیف پیاس کی وجہ سے ہوتی ہے لہٰذا جب روزہ دار اس دروازے سے داخل ہوگا تو وہ ایسا سیراب ہوگا کہ اسے پھر کبھی تشنگی کا احساس نہ ہوگا۔(۵)

روزہ کے معاشرتی اثرات

روزہ کا اجتماعی اور معاشرتی اثر کسی پر پوشیدہ نہیں ہے، روزہ انسانی معاشرہ کے لئے ایک درس مساوات ہے کیونکہ اس مذہبی فریضہ کی انجام دہی سے صاحب ثروت لوگ بھوکوں اور معاشرہ کے محروم افراد کی کیفیت کا احساس کرسکیں گے اور دوسری طرف شب و روز کی غذا میں کمی کرکے ان کی مدد کے لئے جلدی کریں گے۔

البتہ ممکن ہے کہ بھوکے اور محروم لوگوں کی توصیف کرکے خداوندعالم صاحبِ قدرت لوگوں کو ان کی طرف متوجہ کرنا چاہتا ہواور اگر یہ معاملہ حسّی اور عینی پہلو اختیار کرلے تو اس کاایک دوسرا اثر

ہوتا ہے ،روزہ اس اہم اجتماعی موضوع کو حسی رنگ دیتا ہے، اس مشہور حدیث میں حضرت امام صادق علیہ السلام سے منقول ہے کہ ہشام بن حکم نے روزہ کی علت اور سبب کے بارے میں سوال کیا تو آپ نے فرمایا:

”روزہ اس لئے واجب ہوا ہے کہ فقیر اور غنی کے درمیان مساوات قائم ہوجائے اور یہ اس وجہ سے کہ غنی بھی بھوک کا مزہ چکھ لے اور فقیر کا حق ادا کردے، کیونکہ مالدار عموماً جو کچھ چاہتے ہیں ان کے لئے فراہم ہوجاتا ہے خدا چاہتا ہے کہ اس کے بندوں کے درمیان مساوات قائم ہو اور مالداروں کو بھی بھوک اور درد و غم کااحساس ہو جائے تاکہ وہ کمزور اور بھوکے افراد پر رحم کریں۔(۶)

روزہ کے طبی اثرات

طب کی جدید اور قدیم تحقیقات کی روشنی میں امساک (کھانے پینے سے پرہیز) بہت سی بیماریوں کے علاج کے لئے معجزانہ اثر رکھتا ہے جو قابل انکار نہیں ہے، شاید ہی کوئی حکیم ہو جس نے اپنی مبسوط تالیفات اور تصنیفات میں اس حقیقت کی طرف اشارہ نہ کیا ہو کیونکہ ہم جانتے ہیں کہ بہت سی بیماریاں زیادہ کھانے سے پیدا ہوتی ہیں، اور چونکہ اضافی مواد بدن میں جذب نہیں ہوتا جس سے خطرناک اور اضافی چربی پیدا ہوتی ہے یا یہ چربی اور خون میں اضافی شوگرکا باعث بنتی ہے، عضلات کا یہ اضافی مواد در حقیقت بدن میں ایک متعفن (بدبودار) بیماری کے جراثیم کی پرورش کے لئے گندگی کا ڈھیر بن جاتا ہے، ایسے میں ان بیماریوں کا مقابلہ کرنے کے لئے بہترین راہ حل یہ ہے کہ گندگی کے ان ڈھیروں کو امساک اور روزہ کے ذریعہ ختم کیا جائے، روزہ ان اضافی غلاظتوں اور بدن میں جذب نہ ہونے والے مواد کو جلادیتا ہے، در اصل روزہ بدن کو صاف و شفاف مکان بنادیتا ہے۔

ان کے علاوہ روزہ سے معدہ کو اچھا خاصا آرام ملتا ہے جس سے ہاضمہ کا نظام صحیح ہوجاتا ہے، چونکہ یہ بدن انسان کی نازک ترین مشینری ہے جو سال بھر کام کرتی رہتی ہے لہٰذا اس کے لئے اتنا آرام نہایت ضروری ہے۔

یہ بات واضح ہے کہ اسلامی حکم کی رو سے روزہ دار کو اجازت نہیں ہے وہ سحری اور افطاری کی غذا میں افراط اور زیادتی سے کام لے، یہ اس لئے ہے تاکہ اس سے حفظان صحت اور علاج سے مکمل نتیجہ حاصل کیا جاسکے ورنہ ممکن ہے کہ مطلوبہ نتیجہ نہ حاصل ہوسکے۔

چنانچہ ”الکسی سوفرین“ ایک روسی دانشور لکھتا ہے:

روزہ ان بیماریوں کے علاج کے لئے خاص طور پر مفید ہے: خون کی کمی، انتڑیوں کی کمزوری، التہاب زائدہ ( Appendicitis ) اندرونی اور بیرونی قدیم پھوڑے، تپ دق ( T.B ) اسکلیروز، نقرس، استسقاء،(جلندر کی بیماری جس میں بہت زیادہ پیاس لگتی ہے اور پیٹ دن بدن بڑھتا جاتا ہے) جوڑوں کا درد، نور استنی، عرق النساء (چڈوں سے ٹخنوں تک پہنچنے والا درد)، خزاز (جلد کا گرنا) امراض چشم، شوگر، امراض جلد، امراض جگر اور دیگر بیماریاں ۔ امساک اور روز ہ کے ذریعہ علاج صرف مندرجہ بالا بیماریوں سے مخصوص نہیں ہے بلکہ وہ بیماریاں جو جسمِ انسان کے اصول سے متعلق ہیں اور جسم کے خلیوں سے چمٹی ہوئی ہیں مثلاً سرطان، سفلیس، سل اور طاعون کے لئے بھی شفا بخش ہے(۷)

ایک مشہور و معروف حدیث میں پیغمبر اکرم (ص)سے منقول ہے کہ آپ نے فرمایا: ”صُومُوا تَصَحُّوا “،(۸) (روزہ رکھو تاکہ صحت مند رہو)۔

پیغمبر اکرم (ص) سے ایک اور حدیث میں منقول ہے جس میں آپ نے فرمایا: ”المِعْدَةُ بَیْتُ کُلِّ دَاءٍ وَالحَمیةُ رَاسُ کُلِّ دَوَاءٍ(۹) معدہ ہر بیماری کا گھر ہے اور امساک ( روزہ) ہر مرض کی دوا ہے۔(۱۰)

____________________

(۱)سورہ بقرہ ، آیت ۱۸۳ (۲) بحار الانوار ،جلد ۹۶، صفحہ ۲۵۶

(۳) بحا رالانوار، جلد ۹۶، صفحہ ۲۵۵

(۴)نہج البلاغہ ،کلمات قصار، کلمہ نمبر ۲۵۲

(۵) بحار الانوار ، جلد ۹۶، صفحہ ۲۵۲

(۶) وسائل الشیعہ ، جلد ۷، باب اول ،کتاب صوم ، صفحہ ۳

(۷) روزہ روش نوین برای درمان بیماریہا، صفحہ ۶۵،طبع اول

(۸) بحا رالانوار ، جلد۹۶، صفحہ ۲۵۵

(۹) بحار الانوار ، جلد ۱۴ ، طبع قدیم

(۱۰) تفسیر نمونہ ، جلد ۱، صفحہ ۶۲۸

۷۴ ۔ خمس کا نصف حصہ سادات سے مخصوص ہونا؛ کیا طبقاتی نظام نہیں ہے؟

بعض لوگوں کے ذہن میں یہ تصور آتا ہے کہ یہ اسلامی ٹیکس جو بہت سے مال کا پانچواں حصہ ہے جس کاآدھا حصہ سادات اور اولاد پیغمبر اکرم (ص) سے مخصوص ہے، کیا یہ ایک طرح سے نسل پرستی نہیں ہے؟ جس میں اقربا پروری دکھائی دیتی ہے، یہ موضوع اسلامی اجتماعی عدالت اور اسلام کے عالمی ہونے سے ہم آہنگ نہیں ہے۔

جواب میں ہم عرض کرتے ہیں جو لو گ اس طرح کا خیال رکھتے ہیں انھوں نے اس اسلامی حکم کی مکمل طور پر تحقیق نہیں کی ہے، کیونکہ اس اعتراض کا جواب خمس کے شرائط میں موجود ہے۔

وضاحت:

اولاً: خمس کا نصفحصہ جو سادات اور بنی ہاشم کو دیا جاتا ہے لیکن صرف غریب اور نیاز مند افراد کو دیا جاتا ہے اور وہ بھی سال بھر کا خرچ، اس سے زیادہ نہیں دیا جاسکتا، لہٰذا خمس کا یہ نصف حصہ صرف انھیں لو گوں کو دیا جاسکتا ہے جو غریب، بیمار ، یتیم بچے ہوں، یا کسی بھی باعث اپنی زندگی کے خرچ سے لاچار ہوں۔

لہٰذا جو لوگ کام کرنے کی قدرت رکھتے ہوں (اس وقت یا آئندہ) اور اپنے خرچ بھر در آمد رکھتے ہوں ان کو خمس نہیں دیا جاسکتا۔

ثانیاً: محتاج اور غریب سادات کو زکوٰة لینے کا حق نہیں ہے، وہ زکوٰة کے بدلے صرف نصفخمس میں سے لے سکتے ہیں(۱)

ثالثاً: اگر سہم سادات جو خمس کا نصفحصہ ہے اگر سادات کی ضرورت سے زیادہ ہوجائے تو اس کو بیت المال میں جمع کیا جائے گا اور دوسرے موارد میں خرچ کیا جائے گا، اور اگر سہم سادات ؛ سادات کے لئے کافی نہ ہو تو انھیں بیت المال یا زکوٰة سے دیا جائے گا۔

مذکورہ تین نکات پر توجہ کرنے سے یہ بات واضح ہوجاتی ہے کہ مادی لحاظ سے سادات اور غیر سادات میں کوئی فرق نہیں رکھا گیا ہے۔

غیر سادات کے غریب افراد اپنے خرچ کے لئے زکوٰة لے سکتے ہیں لیکن خمس سے محروم ہیں، اسی طرح غریب سادات صرف خمس لے سکتے ہیں لیکن وہ زکوٰة سے محروم ہیں۔

در اصل یہاں پر دو صندوق ہیں ”خمس کا صندوق“، ”زکوٰة کا صندوق“، سادات یا غیر سادات ان دونوں میں سے صرف ایک سے لے سکتے ہیں اور وہ بھی برابر برابر یعنی اپنے سال بھر کا خرچ ۔ (غور کیجئے )

جن لوگوں نے ان شرائط پر غور نہیں کیا وہ اس طرح کا تصور کرتے ہیں کہ سادات کے لئے بیت المال سے زیادہ حصہ قرار دیا گیا ہے یا ان کے لئے خمس ایک اعزاز قرار دیاگیا ہے۔

صرف یہاں پر ایک سوال یہ پیش آتا ہے کہ اگر ان دونوں میں نتیجہ کے لحاظ سے کوئی فر ق نہیں ہے تو پھر اس فرق کا فائدہ کیا ہے؟

(۱) سادات کو زکوٰة نہیں دی جاسکتی ، یہ ایک مسلّم مسئلہ ہے اور اس سلسلہ میں حدیث و فقہ کی کتابوں میں تفصیل سے بیان ہوا ہے کیا اس بات پر یقین کیا جاسکتا ہے کہ اسلام نے غیر سادات کے غریبوں کا خیال رکھا ہو لیکن غریب سادات کا خیال نہیں کیا ہے؟!

اس سوال کا جواب بھی اس بات پر غور و فکر کرنے سے واضح ہوجاتا ہے کہ خمس اور زکوٰة میں ایک اہم فرق پایا جاتا ہے اور وہ یہ کہ زکوٰة ایک ایسا ٹیکس ہے جو در اصل اسلامی معاشرہ کے عام اموال سے متعلق ہے لہٰذا اس کو معمولاً اسی سلسلہ میں خرچ بھی کیا جاتا ہے، لیکن خمس ایک ایسا ٹیکس ہے جو اسلامی حکومت سے متعلق ہے یعنی اسلامی حکومت کے عہدہ داروں اور حکومتی ملازمین اس سے فیضیاب ہوتے ہیں۔

اس بنا پر سادات کا عام اموال (زکوٰة) سے محروم ہونا؛ در حقیقت پیغمبر اکرم (ص) کے رشتہ داروں کو اس حصہ (مال) سے دور رکھنا ہے تاکہ مخالفوں کو بہانہ نہ مل جائے کہ پیغمبر نے اپنے رشتہ داروں کو عام اموال پر قابض بنا دیا ۔

دوسری طرف غریب سادات کی ضرورت بھی کہیں سے پوری ہونی چاہئے تھی، تو اسلامی قوانین نے اس سلسلہ میں یہ پیش کش کی کہ سادات؛ اسلامی حکومت کے بجٹ سے استفادہ کریں نہ عام بجٹ سے، در اصل خمس نہ صرف سادات کے لئے ایک امتیاز ہے بلکہ مصلحت کے تحت بد گمانی سے بچانے کے لئے قرار دیا گیا ہے(۱)

____________________

(۱) تفسیر نمونہ ، جلد ۷، صفحہ۱ ۱۸